مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب [تیسری قسط]

متفرق مقالات
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

عابد رضا نوشاد


گذشتہ [دوسری]قسط میں بیان ہوا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کو دو اہم حصوں میں تقسیم  کیا جا سکتا ہے: ۱۔ سیاسی مشکلات  ۲۔ اخلاقی و ثقافتی مشکلات۔ سیاسی مشکلات کے ذیل میں دو  عناوین پر روشنی ڈالی گئی: الف) آراء و اقوال میں علماء کا اختلاف؛         (ب)وہی رہبر وہی رہزن ۔
اب آگے کی گفتگو ملاحظہ کیجئے۔

*(ج) تفرقہ*

جتنا نقصان ملت اسلامیہ کو فرقہ واریت کے ذریعہ پہو نچا ہے اتنا شایدکسی سبب نہ پہنچا ہو۔ تاریخ اسلام میں ایسے بے شمار حادثات ثبت و ضبط ہیں جو فرقہ واریت اور تفرقہ اندازی کا سبب بنے اور کتنے ہی نا حق خون بہا ئے گئے ، کو کھیں سونی کی گئیں، سہاگ اجاڑے گئے ، خاندان کے خاندان تاراج ہو ئے، مسلمان سیاسی ، فکری اور عقیدتی اختلافات کی بنیاد پر مختلف فرقوں میں تقسیم ہو تے گئے جس کی پیشنگو ئی خود رسول مقبولۖ فرما گئے تھے کہ میری امت میرے بعد ٧٣فرقوں میں تقسیم ہو جا ئے گی جن میں سے صرف ایک فرقہ نجات پا نے وا لا ہو گا ۔[ بغدادی، الفَرق بین الفِرَق ،ص٥]

مذکورہ حدیث کے آخری جملہ کی بنیاد پر جتنے بھی فرقہ وجود میں آئے ہیں یا آرہے ہیں سبھی خود کو فرقہ نا جیہ جا نتے ہیں اور ان میں سے بعض فرقے بالخصوص تکفیری سلفی  تو اپنے علاوہ دوسرے کو مسلمان تک ماننے کو تیار نہیں ہے ۔ ایسے ہی خرافاتی عقا ئد کا حامل ہو نے کی وجہ سے اسلام کو جتنا نقصان تاکیلےوہابیت نے پہنچایا ہے اتنا تمام فرقوں نے مل کر نہیں پہنچایا اور آج تک یہ فرقہ عالمی استکبار اور سامراجیت کا ہتھکنڈہ بنا ہو ا ہے ، اسرائیل امریکہ اور برطانیہ جیسی سامراجی طاقتوں اور سلفی افکار کو فروغ دینے والے عناصر اور حکومتوں کی ملی بھگت سے ہی عالم اسلام میں پہلے طالبان پھر القاعدہ اور اب داعش ، جبہۃ النصرہ  ، بوکو حرام اور نہ جانیں کون کون سے حرام الدہر  دہشتگرد گروہ وجود میں لائے گئے جو ہمیشہ پرچم اسلام کو اٹھائے ہوئے نعرۀ تکبیر کے ساتھ صرف مظلوم ب و ے گناہ  مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیلا کرتے ہیں۔صرف خود کو مسلمان کہنے والے یہ خونخوار بھیڑئے  دشمنان اسلام کے گھر کی ایک مکھی بھی نہیں مارتے۔ انہیں سارے دشمنان دین صرف مسجدوں، عبادتگاہوں اور امام بارگاہوں  میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دہشتگرد ٹولے اپنے انہی اعمال و کردار سے واضح کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں نہ دردِ دین ہے نہ فکرِ اسلام بلکہ ہم تو صرف  استعماری طاقتوں کے ہتھکنڈے ہیں،  ہمیں اسلحہ اور فکر امریکہ و اسرائیل فراہم کرتے ہیں اور ریال ، درہم، دینار اور لیر بعض اسلامی و عربی حکومتوں سے ملا کرتے ہیں۔

یہی فرقہ واریت ، اختلافات اور آپسی دشمنیاں اس بات کا سب سے بڑا سبب بنی ہیں کہ اسلامی مملکتیں چند حصوں میں تقسیم ہو جائیں۔ استکبار ی طاقتیں، ان ممالک کو ہمیشہ اپنا غلام بنا ئے رکھیں اور ان عظیم المنفعت ممالک سے خاطر خواہ فا ئدہ اٹھا سکیں۔ امت واحدہ نے خود کو خدا کے بجا ئے مختلف فریبی پناہ گاہوں کے حوا لے کر دیا ہے ،ہر طرف سے نا ہم آہنگ صدا ئیں بلند ہیں اور طبل افتراق کے شورو غل سے امت کے کان بہرے اور دل مردہ ہو گئے ہیں ۔
مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور جدا ئی کا بیج بو کر دنیا ئے اسلام کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا رہا ہےاور یہ مسئلہ ایک صعب العلاج مشکل کی شکل اختیار کر چکاہے اور پورا عالم اسلام اس آتش فتنہ میں سلگ رہا ہے ۔یمن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ، شامات میں چند حکومتیں قائم ہو گئیں ، افریقہ کے اسلامی ممالک آپسی جنگ میں گرفتار ہیں ،ترک نشین عالم اسلام بھی کافر طاقتوں کے چنگل میں ہے ،مشرقی وسطیٰ امریکی اور اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنی ہوئی ہے اور ان تمام مشکلوں کے علاوہ سب سے بڑی مصیبت یہ کہ وہا بیت ، بہائیت ، قادیانیت ،وغیرہ جیسے ادیان ِخلق الساعة اور مذاہبِ استعمار اس سلگتی آگ میں تیل کا کام کر رہے ہیں۔ [رسالہ حوزہ شمارہ ٢٦،ص٩]

مقام تعجب تو یہ ہے کہ تمام فرقے خود کو پیرو قرآن جا نتے ہںم اور اس کے با وجود فرقہ واریت سے پرہیز نہیں کرتے جب کہ قرآن مجید کا صریح حکم ہے کہ (واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ...)[ سورۂ آل عمران  ١٠٣]  '' خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ کرو۔ ''

پوری امت مسلمہ اور بالخصوص علمائے اسلام کو علامہ اقبال کے اس پیغام پر غور کر نا چا ہیئے جسے وہ یوں بیان کر گئے ہیں :

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی با تیں ہیں؟

(د) اسلام دشمن عناصر سے دوستانہ تعلقات
اسلام دشمن عناصر سے دوستانہ تعلقات کو بھی مسلمانوں کی پسماندگی کے اہم ترین اسباب میں شمار کیا جا نا چا ہیئے۔ البتہ اس مشکل کا تعلق  ملت اسلامیہ سے زیادہ اسلامی ممالک کے حاکموں سے ہے اس لئے کہ دور حاضر میں اس بات کا بخو بی مشا ہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ملتیں تو اسلام ہی کی پناہ میں رہنا چا ہتی ہیں لیکن ان مسلمان ملکوں کے سیاسی سر براہ دشمنان دین کے اشاروں پر نا چ رہے ہیں۔  جبکہ قرآن مجید نے اعلان کر دیا ہے :

(لا یتخذالمومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شیئ) [سورۂ آل عمران ٢٨]
'' خبر دار!صاحبان ایمان مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور اپنا سر پرست نہ بنا ئیں کہ جو ایسا کرے گا اس کا خدا سے کو ئی تعلق نہ ہو گا '' ۔

اسلامی ملکوں کے سیاسی سر براہ ، فراعنہ ٔ عصر امریکہ و اسرائیل یعنی یہودیوں اور نصرانیوں کو اپنے اوپر مسلط کئے ہو ئے ہیں جبکہ خداوند عالم کا فرمان ہے:

(یا ایھا الذین آمنوا لا تتخذوا الیھودوالنصاریٰ اولیاء بعضھم اولیاء  بعض و من یتولھم منکم فانہ منھم انّ اللہ لا یہدی القوم الظالمین )[ سورۂ مائدہ/ ٥١]
'' ایمان والو! یہودیوں اورعیسائیوں کو اپنا دوست اور سر پرست نہ بنا ؤ کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کو ئی انہیں دوست بنا ئے گا تو انہی  میں شمار ہو جا ئے گا بے شک اللہ ظالم قوموں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔ ''

مذکورہ آیت میں خدا وند منان نے یہود و نصاری کو اپنے اوپر مسلط کر نے والوں کو یہود و نصاراہی کی فہرست میں قراردیا ہے ۔

بانی  انقلاب اسلامی آیة اللہ العظمیٰ امام خمینی رح  بھی اسلامی حکومتوں کو ہی اسلام کی بڑی مشکل شمار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: '' اسلام کی مشکلات کا سبب اسلامی حکومتیں ہیں نہ کہ ملت اسلامیہ اس لئے کہ ملت اسلامیہ اپنے آپ میں اچھی ملت ہے ۔ ''

تاریخ اسلام کا جا ئزہ لینے سے معلوم ہوتاہے کہ صدر اسلام کی خانہ جنگیوں سے لیکر امویوں ،عباسیوں، فاطمیوں اور عصر حاضر تک کی حکومتوں کا طرز حکومت ہی مسلمان امتوں کی پستی و پسماندگی کا سبب بنا ہے۔ مثال کے طور پر اندلس(spain ) میں واحد اسلامی حکومت کے خا تمہ کے بعد ملوک الطوائفی کا دور آگیا ۔ ہر قبیلہ نے اپنے استقلال کا دعویٰ کیا اور حکومت کی خاطر سب کے سب جنگ پر آما دہ ہو گئے ، ان میں جو بھی شکست پذیر ہوتا عیسا ئیوں سے مدد لیتا اور ہر مدد کے عوض اپنے ملک کا ایک حصہ ان کے حوالہ کر دیتا ۔ سیاسی حماقت کا یہ سلسلہ یو ں ہی جا ری رہا یہاں تک کہ اندلس سے اسلام کا خاتمہ ہو گیا اور مسلمان اس بہشت مفقود کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو ئے۔

شمالی افریقہ کی حکومتوں کو اندلس کی دلخراش تاریخ سے عبرت حاصل کرناچاہیئے تھا لیکن اس کے بر خلاف مراقش کے حاکم''مولی عبدالحفیظ '' نے اقتدار کی ہوس میں اپنے بھا ئی عبد العزیز سے جنگ کی ایک نے فرانس سے اور دوسرے نے اسپین سے مدد طلبی کی نتیجةً کئی سالوں تک اس خوبصورت اسلامی ملک کو فرانس کے ما تحت رہنا پڑا اور اس کا کچھ حصہ اسپین کے تحت تسلط آیا جن میں سے ''سبة'' اور '' بلیلہ'' نا می شہر آج بھی اسپین کے ما تحت ہیں ۔

مصر،سوڈان،شام، لبنان، عراق،ترکی، بر صغیر،افغانستان وغیرہ جیسے اسلامی ممالک کو بھی ایسی تلخ تاریخ سے گذرنا پڑا ہے بلکہ یہ تلخیاں ان ممالک میں آج بھی برقرار ہیں جو مغربی طا قتوں اور اسلام دشمن عناصر کی سازشوں کا شکار ہیں ۔

سلسلہ جاری ہے …

Comments powered by CComment

Grid List

Read more ...

Comments powered by CComment