گذشتہ قسطوں میں بیان ہوا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کو دو اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ۱۔ سیاسی مشکلات ۲۔ اخلاقی و ثقافتی مشکلات۔ سیاسی مشکلات کے ذیل میں اب تک ان عناوین پر روشنی ڈالی گئی: الف) آراء و اقوال میں علماء کا اختلاف؛ (ب)وہی رہبر وہی رہزن ؛ (ج) تفرقہ ؛ (د) اسلام دشمن عناصر سے دوستانہ تعلقات؛ (ہ)سیاست اور دین میں جدائی؛ (و) مغربی تمدن سے احساس شکست ۔ اب آگے کی گفتگو ملاحظہ کیجئے۔
(ز) استعمار
کسی قوم کے امورمیں دوسری بڑی طاقتوں کی دخالت ، ان کے ذریعہ اس کے قومی و مذہبی سرمایوں کی تباہی اور اس قوم کے افراد کو غلام بنا نے کو ''استعمار'' کہتے ہیں۔
اسلامی ممالک کی ترقی میں ایک خطرناک ما نع استعمار ہے جس سے یہ مملکتیں برسوں سے روبرو ہیں، استعماری عناصر ہمیشہ ا س سلسلہ میں کوشاں رہے ہیں کہ مسلمانوں سے عزت و اقتدارکو سلب کر لیا جا ئے، اور انہیں اپنا غلام بنا کر اسلام کو غلاموں کے دین کی شکل دے دی جائے۔اس ہدف مقصد کے حصول کی خاطر استعماری طاقتوں نے اسلام و مسلمین کے خلاف مختلف جال بچھائے اور بے چارہ مسلمان بھی دام صیاد میں گرفتار ہو تا چلا گیا ۔
اس سلسلہ میں جمال الدین اسد آبادی لکھتے ہیں : آج مسلمان ممالک فریادی ہیں ، ان کے اموال غصب کرلئے گئے ہیں ، ان کی مملکتوں پر اجنبی طاقتوں کا غلبہ اور ان کی ثروت پر بیگانوں کا تصرف ہے ، کو ئی ایسا دن نہیں جس میں اجنبی لوگ اس کی سر زمین کا کو ئی نہ کو ئی حصہ غصب نہ کرتے ہوں اور کو ئی ایسی رات نہیں جس میں مسلمانوں کے کسی ایک فرقہ و گروہ کو اپنی حکومت و اطاعت کے ما تحت نہ لیتے ہوں اور ان کی عزت کی ہتاکی اور ان کے شرف کی پامالی نہ کرتے ہوں ... یہ لوگ کبھی مسلمانوں کو وحشی کا لقب دیتے ہیں تو کبھی قسی القلب اور بے رحم (دہشتگرد) کے نام سے پکار تے ہیں ، انہیں دیوانہ و جا ہل جا نتے ہو ئے سلسلۂ بنی آدم سے خارج کر دیتے ہیں اور ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بد تر سلوک کرتے ہیں۔[ علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٩٣،بحواالۂ مقالات جمالیہ ]
یوں تو مجموعی طور پر مسلمانوں کی پسماندگی کے تمام گفتہ و نا گفتہ اسباب میں استعماری سازشوں کا نما یاں کردار ملتا ہے، لیکن اپنے مقصد کی کامیابی کے لئے ان باطل عناصر نے مسلمانوں کو قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات سے دور رکھنے پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اس لئے کہ وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ جب تک اسلامی معاشرے میں اسلامی تعلیمات و قوانین مقدس شمار کئے جائیں گے اس وقت تک ہمارے اغراض و مقاصد عملی جامہ نہیں پہن پائیں گے ۔ جیسا کہ بر طانیہ کے سابق وزیر اعظم ''گلیڈسٹن'' نے قرآن مجید کو توہین آمیز انداز میں میز پر مارتے ہو ئے کہا : '' جب تک یہ کتاب مسلمانوں کے درمیان موجود ہے اس وقت تک اسلامی سر زمینوں کا برطانوی استعمار کے سا منے سر تسلیم خم کر نا محال ہے''۔ [ علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمین ، ص٤٣٣]
'' ولیم گیفرڈ'' کہتا ہے : جب قرآن اور مکہ ، عر بی اور اسلامی ممالک سے جدا ہو ں گے تبھی ہم یہ دیکھ پائیں گے کہ مسلمان آہستہ آہستہ ہماری تہذیب میں ڈھل رہے ہیں اور ہمارے مطیع و فر مانبردار بنتے جا رہے ہیں ۔ [ علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمین ، ص٤٣٣ بحوالۂ نقشہ ھا ئی استعمار در راہ مبارزہ با اسلام ،ص٢٢١]
اس با ت میں کو ئی شک نہیں کہ استعماری سازش اسلامی مملکتوں میں کا فی حد تک مو ثر ثا بت ہو چکی ہے اور موجودہ اسلامی معا شرے کے مناظر و مظاہر اور اس کی دینی تعلیمات اور قرآنی نظام حیات سے اجنبیت اس بات پر واضح دلیل ہے ۔
٢۔ اخلاقی و ثقافتی مشکلات
ثقافت و تہذیب اور اخلاقی اقدار ہر قوم کی بیداری کا معیار ہو تے ہیں ۔ جب تک اس کے طور طریقے ، رسم ورواج اوراقوال و افعال،اس کی دیرینہ تہذیب پر مبتنی ہوں گے ،اسے کسی طرح کے گزند و نقصان سے رو برو نہیں ہو نا پڑے گا اوریہ مستحسن قدامت پسندی اس کی حیات و بقا ء کی ضامن ہوگی لیکن اس کے بر عکس اگر کسی قوم نے اپنے اخلاقی اقدار اور ثقافتی اصول سے رو گردانی کرتے ہو ئے غیروں کا طرز اپنایا تو یقینا گذشت ایام کے سا تھ سا تھ اس کا نام تاریخ کے چند اوراق کی زینت اور اس کے آثار عجا ئب گھروں کی رونق ہو کر رہ جا ئیں گے ۔
اسی طرح کی ڈھیروں مشکلیں آج کے مسلم معاشرے میں شدت کے ساتھ پا ئی جا تی ہیں ۔ بعنوان مثال ان میں سے چند ذیل الذکر ہیں:
(الف ) جہالت
مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک بنیادی سبب جہل اور نادانی ہے ۔ قوموں کے زوال میں جہالت کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ۔ حضرت امیر المومنین فرماتے ہیں :
'' اذاارذل اللہ عبداً حظر علیہ العلم '' [نہج البلاغہ، حکمت ٢٨٨]
جب پروردگار عالم کسی کو ذلیل کر نا چا ہتا ہے تو اسے علم سے محروم کر دیتا ہے ۔
بالیقین مسلمانان عالم میں خداوند کریم کے احکام سے روگردانی اس قدر اوج پر ہے کہ خدا وند عالم نے علم کو چھین کر انہیں ذلت کی خوفناک وادی میں چھوڑدیا ہے ۔ جس دین میں '' اطلبوا العلم و لو بالصین'' اور'' طلب العلم فریضة علی کل مسلم و مسلمة '' جیسی تعالیم موجود ہوں آج اسی کے پیروکار عدم علم کی بنیاد پر خود کو غیر اسلامی دنیا کے سامنے حیرو جا ننے پر مجبور ہیں ۔
''بر صغیر میں تو اس ارشاد کی نا فرمانی ایک المناک حد تک پہنچ گئی ہے ۔ دوسرے اسلامی ممالک مثلاً مصر اور مملکت ترکیہ میں موجودہ دور تعلیم کے آغاز سے بیشتربھی عالم گیر تعلیم کاایک نظام موجود تھا یہ نظام ایک زمانہ میں تو ضرور راہنما حیثیت رکھتا تھا لیکن امتداد زمانہ کے ساتھ اس نظام پر غفلت،جمود، اور غنودگی طاری ہو چکی تھی ۔ تا ہم اس کی بدولت اتنا تو ضرور تھا کہ ہر مسلمان تعلیم اسلامی اور فرائض مذہبی سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور حاصل کر لیتا تھا، بر صغیر تو آج ایسے نظام سے بھی محروم ہے ۔ہندوستان میں کتنے ہی ایسے مسلمان موجود ہیں جو مذہب سے قطعاًناواقف ہیں اور ممکن ہے کلمہ شریفہ بھی نہ جا نتے ہوں"۔ [اسلامی کلچر ،ص ٦٣ محمد مارماڈیوک پکھتال]
مسلمانوں کا جہل صرف اسلامی علوم تک محدود نہیں بلکہ مقام افسوس یہ ہے کہ اس سے بڑھکر امت مسلمہ تاریخ اسلام، سیاست و صنعت ، اسلام دشمن عناصر کی سیاسی و ثقافتی سا زشوں بلکہ ان تمام چیزوں سے بے خبر ہے جو مسلمانوں کے عروج و زوال میں موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔
درد آشنائے اسلام سید جمال الدین اسد آبادی اس خطر ناک مسئلہ سے بھی مسلمانوں کو آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :'' کیا ہر حکیم بلکہ ہر عاقل پر یہ لازم نہیں کہ وہ جہل پر را ضی نہ ہو ؟ کیا انسان کے لئے یہ نقص نہیں کہ وہ اسباب کی فراہمی کے لئے کو شاں نہ ہو ؟ کیا کسی عالم و حکیم و دانا کے لئے یہ عیب شما ر نہیں کیا جا ئے گا کہ جدید فنون و اختراعات سا رے عالم پر محیط ہو چکے ہوں اور اس کے با وجود اسے انکے علل و اسباب کی کو ئی خبر تک نہ ہو اور دنیا ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہو جا ئے اور وہ خواب غفلت سے بیدار نہ ہو ؟ کیا کسی محقق کے لئے یہ روا ہے کہ اس کی گفتگو مجہولات مطلق کی بنیاد پر ہو اور معلومات مطلق سے بے خبر رہے یا ماہیات موہومہ کی تو موشگافیاں کرے لیکن امور ظاہرہ کی معرفت حا صل نہ کرے ؟ ! [علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص٦٤و٦٥ ]
ایک مقام پر انہوں نے مسلمانوں کے جہل کے سبب کو یوں بیان کیا ہے :'' ان بادشاہوں نے اپنی ملت کے افکار کو دوسری ملت اسلامیہ کے خلاف خصومت ودشمنی میں مشغول کر دیا اور تمام لوگوں کو ان پر غلبہ پا نے میں سر گرم کردیا۔ مسلمانوں کے درمیان یہ خانہ جنگی اور دشمنی ہی تنہا وہ سبب ہے جس کی بنیاد پر مسلمان جدیدعصر کے علوم و فنون میں پیچھے رہ گئے یہاں تک کہ اب وہ ان چیزوں کے حصول کی فکر میں بھی نہیں رہتے۔'' [علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٦٦، بحوالۂ العروةالوثقیٰ ،ص ١٨١]
ظاہر ہے کہ جب تک مسلمان اپنے ان عیوب کی اصلاح اور مختلف جہتوں سے جہل کو دور نہیں کر لیتا اس وقت تک پسماندگی کی ذلت میں مبتلا رہے گا اور جب تک اس سلسلہ میں سعی و کو شش نہیں کرے گا اس وقت تک جہا لت کی تاریک وادی میں ہی باقی رہے گا ۔ اس لئے کہ:
(... لیس للانسان الا ما سعیٰ)۔ سورۂ النجم ٣٩
'' انسان کے لئے اتنا ہی ہے جتنا اس نے کو شش کی ہے۔ ''
(انّ اللہ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیروا ما بانفسہم )۔ سورۂ رعد ١١
'' خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود کو تبدیل نہ کر لے۔ ''
لہٰذا ضروری ہے کہ ملت اسلامیہ کی ایک ایک فرد کمر ہمت باندھے اور تعلامتت اسلامی کے سا تھ سا تھ جدید علوم و فنون ا و رعصرحاضر کی سیاسی و ثقافتی نشیب و فراز اور باریک بینیوں سے بخو بی آشنا ئی حاصل کرے اس لئے کہ:
'' العالم بزمانہ لا تہجم علیہ اللوابس'' [تحف العقول ، ص٢٦١]
''جو اپنے زمانے سے آگاہ ہو تا ہے اس پر غلطیوں کا ہجوم نہیں ہو تا ہے۔ ''
جب ایسامطلوب معاشر ہ رونما ہو گا تو امداد الہی بھی شا مل حال ہو گی اور ملت اسلامیہ استعمار و استکبار کے ہر گزند و نقصان سے نہ صرف یہ کہ محفوظ رہے گی بلکہ یہ سامراجی طاقتیں اور اسلام دشمن عناصر خود بخود نابود ہو جا ئیں گے اور پھر ہما رے لبوں پر یہ مصرعہ ہوگا:
'' دام میں اپنے گرفتار ہو ا خود صیّاد ''
سلسلہ جاری ہے …
Comments powered by CComment