قرآن مجید کے نزول کی کیفیت

علوم قرآن
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

قرآن مجید کے تمام آسمانی کتابوں پر من جملہ نمایاں امتیازات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ صرف ایک مرتبہ مجموعی طور پر منظم شک میں گزشتہ انبیاء پر نازل ہوتی تھیں اور عام لوگوں کے اختیار میں قرار پاتی تھیں۔ لیکن قرآن مجید ایک مرتبہ مجموعی، مرتب اور کامل طور پر بین الدفتین شب قدر میں لوح محفوظ سے بیت المعمور کی طرف جو چوتھے آسمان میں ہے یا بیت العزت جو دنیا کے آسمان میں ہے نازل ہوا ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے: (بے شک ہم نے اسے شب قدر میں نازل کیا ہے) ظاہرا ً بیت المعمور یا بیت العزت وغیرہ میں نازل ہوتا لیکن حقیقت میں رسول خدا (ص) کے ہر دل عزیز مبارک قلب پر نازل ہوا جیسا کہ سورئہ بقرہ سورئہ نمبر ۲ کی انیسویں آیت میں فرماتا ہے: (یقینا اسے اللہ کی اجازت سے آپ کے قلب پر نازل کیا) سورہ شعراء، سورہ نمبر ۲۶ کی ایک سو چورانویں آیت میں فرماتا ہے: (اسے جبرئیل امین آپ کے قلب پر لے کر نازل ہوئے)۔ لہٰذا حضرت رسول خدا (ص) چالیس سال کی مدت میں قرآن مجید کے دستورات پر عمل کرتے رہے لیکن اسے ابلاغ کرنے پر مامور نہیں ہوئے تھے مگر جب مبعوث بہ رسالت اور اسے ابلاغ پر مامور ہوئے تو تیئیس سال کی مدت میں پارہ پارہ اور آیت آیت کی شکل میں حالات کے تقاضے کے مطابق پیغمبر خاتم (ص) کے قلب پر نازل اور آنحضرت (ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوا۔ ۲۶۰۔ جیسا کہ کتاب کافی اور عظیم تفسیروں نے مفضل ابن عمر کی حدیث کو نقل کیا ہے کہ جب برحق امام ناطق، اسرار حقائق کو کشف کرنے والے حضرت جعفر ابن محمد الصادق - نے قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت فرمائی جیسے آیہٴ کریمہ (۱) (وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے) (۲) ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے۔ (۳) اور یہ کافر بھی کہتے ہیں کہ آخر ان پر یہ قرآن ایک دفعہ کامل کیوں نازل ہوگیا۔ ہم اسی طرح تدریجاً نازل کرتے ہیں تاکہ تمہارے دل کو مطمئن کرسکیں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر نازل کیا ہے۔ مفضل ابن عمر نے عرض کیا: یہ آیات تنزیل قرآن میں ہیں ”فکیف ظھر الوحی“ پس کیسے وحی بیس سال کی مدت میں ظاہر ہوئی؟ تو حضرت - نے فرمایا: ”یا مفضل اعطاہ اللّٰہ القرآن فی شھر رمضان وکان لا یبلغہ الا فی وقت استحقاق الخطاب ولا یوٴدّیہ الّا فی وقت امر ونھی فھبط جبرئیل بالوحی فتبلغ ما یوٴمر بہ قولہ تعالیٰ لا تحرّک بہ لسانک لتعجل بہ انتھی “ اے مفصل! اللہ تعالیٰ نے قرآن پیغمبر (ص) کو ماہ رمضان میں عطا فرمایا اور آنحضرت نے لوگوں کو وہ قرآن ابلاغ نہیں فرمایا مگر خطاب کے استحقاق کے موقع پر (یعنی جب مقتضی موجود تھا)اور اسے ادا نہیں کیا مگر اس وقت جب آنحضرت (ص) کو وحی ہوتی تھی تو اس وقت اس شے کو ابلاغ فرماتے تھے جس کے لیے انہیں مامور کیا گیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اس بات کی یہ آیہٴ کریمہ تائید کرتی ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : (۴) اور آپ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ سورئہ بقرہ، آیت ۱۸۵۔ (۲)۔ سورئہ دخان، آیت ۲۔ (۳)۔ سورئہ فرقان، آیت ۳۴۔ (۴)۔ سورئہ طہ ، آیت ۱۱۳۔ ۷۔ وسیع عبادت ۷۔ القرآن : النظر الیہ واستماعہ وکتابة وقرائة کلّھا مستحبّ وعبادة ․ قرآن مجید کی طرف نگاہ کرنا، سننا ، لکھنا اور اس کا پڑھنا مستحب اور عبادت ہے۔ اسی طرح معصوم کے چہرے پر نظر کرنا، انتظار ، ان کا ذکر کرنا ان کے فضائل مناقب کا لکھنا اور سننا بھی مستحب اور عبادت ہے۔ ”والحجّة - صلوات اللّٰہ علیہ - وعلیٰ آبائہ واجدادہ الطّیبین الطّاہرین - صلوات اللّٰہ علیہم اجمعین - النّظر والی وجوھھم وانتظار فرجھم وذکر منا قبھم وفضائلھم وکتابتھا واستماعھا کلّھا مستحب وعبادة “ حضرت حجّت - اور ان کے آباء واجداد طیبین و طاہرین علیہم الصلاة و السلام اجمعین کے چہرے پر نظر کرنا اور ان کے ظہور کا انتظار کرنا ان کے فضائل و مناقب کا ذکر کرنا اس کا لکھنا اور سننا سب کچھ مستحب اور عبادت ہے۔ ۲۶۱۔ ” وفی الکافی باسنادہ عن بشربن غالب الاٴسدی عن الحسین بن علیّ علیہ السلام قال: من قراٴ آیة من کتاب اللّٰہ عزّوجلّ فی صلاتہ قائماً یکتب لہ بکلّ حرف ماٴة حسنة فاذا قراٴھا فی غیر صلاة کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف عشر حسنات ، وان استمع القرآن کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف حسنة ، ان ختم القرآن لیلاً صلّت علیہ الملائکة حتیٰ یصبح ، وان ختمہ نھاراً صلّت علیہ الحفظة حتیٰ یمسی وکانت لہ دعوة مجابة وکان خیراً لہ مما بین السّمآء الی الاٴرض قلت: ھذا لمن قراٴ القرآن فمن لم یقراٴ ؟ قال: یا اخا بنی اسد انّ اللّٰہ جواد ماجد کریم اذا قراٴ ما معہ اعطاہ اللّٰہ ذٰلِک “ (۱) کتاب کافی میں کلینی ۺ نے بشیر ابن غالب اسدی سے انہوں نے سید الشہداء حسین ابن علی - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو شخص کتاب اللہ کی ایک آیت کھڑے ہوکر پڑھے اس کے لیے ہر حرف کے بدلے سو نیکیاں (اس کے نامہٴ اعمال میں) لکھی جائیں گی اور جب نماز کے علاوہ پڑھے تو اللہ اس کے لیے ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں تحریر کرے گا اور جو قرآن کو سنے تو اللہ تعالیٰ ہرحرف کے بدلے دس نیکیاں لکھے گا اگر رات کو ختم قرآن کرے گا تو ملائکہ اس پر صبح تک درود بھیجیں گے اور اگر دن میں ختم کرے گا تو شام تک فرشتے اس کی حفاظت کریں گے اور اس کی دعا قبول ہوگی (یہی قرائت قرآن یا دعا مقبول ہوگی) وہی اس کے لیے زمین سے آسمان تک جو کچھ ہے بہتر ہے، میں نے عرض کیا: قرآن پڑھنے والے کے لیے اتنا ثواب ہے اور نہ پڑھنے والے کے لیے کیا ہے؟ (یعنی جسے معلوم نہ ہو اور صرف مختصر قرآن حفظ ہو) فرمایا: اے بھائی بنی اسد! اللہ تعالیٰ صاحب جود و کرم ہے اگر کوئی اتنا پڑھے جتنا اس کو یاد ہے اللہ اس کو بھی اپنے کرم سے اتنا ہی ثواب عطا فرمائے گا۔ ۲۶۲۔ ” وفیہ بالاسناد عن محمّد بن بشیر عن علیّ بن الحسین علیہما السلام قال وقد روی ھذا الحدیث عن ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام قال : من استمع حرفاً من کتاب اللّٰہ عزّوجلّ من غیر قرائة کتب اللّٰہ لہ حسنة ومحی عنہ سیّئة ورفع لہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۶۱۱۔ بحار الانوار، ج۸۹، ص ۲۰۱۔ درجة من قراٴ نظراً من غیر صوت کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف حسنة ومحا عنہ عشر سیّئة ورفع لہ عشر درجة ومن تعلّم منہ حرفاً ظاہراً کتب اللّٰہ لہ عشر حسنات ومحی عنہ عشر سیئات ورفع لہ عشر درجات قال: لا اقول بکل آیة ولکن بکلّ حرف: باء او تاء او شبھھما قال: ومن قراٴ حرفاً ظاہراً وھو جالس فی صلاتہ کتب اللّٰہ لہ بہ خمسین حسنة ومحا عنہ خمسین سیئة ورفع لہ خمسین درجة ومن قراٴ حرفاً وھو قائم فی صلاتہ کتب اللّٰہ لہ بکلّ حرف ماٴة حسنة ومحی عنہ ماٴة سیئة و رفع لہ ماٴة درجة ومن ختمہ کانت لہ دعوة مستجابة موٴخّرة او معجّلة قال: قلت : جعلت فداک ختمہ کلہ ؟ قال ختمہ کلّہ “ (۱) نیز اس کتاب میں کلینیۺ نے محمد ابن بشیر سے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ حضرت امام سجاد - نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: جو کتاب کے ایک حرف کو بغیر قرائت کیے کان لگا کر سنے تو اللہ اس کے نام ایک نیکی تحریر کرتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے اور جو بغیر آواز سے پڑھے صرف (قرآن کے نقوش پر) نگاہ کرے تو اللہ ہر حرف کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک گناہ محو کرتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے جو شخص کسی کو قرآن کا ایک حرف پڑھائے تو اللہ اس کے نام پر دس نیکیاں تحریر کرتا ہے اور دس درجہ بلند کرتا ہے پھر فرمایا: تمہیں یہ نہیں کہتا کہ ہر آیت کے بدلے میں (اس فضیلت کو اسے عطا کرے گا) بلکہ ہر حرف ب یا ت کے بدلے میں اور یہ بھی فرمایا: جو شخص ایک حرف کو بیٹھ کر نماز میں پرھے تو اللہ اس کے لیے پچاس حسنہ لکھتا ہے ، پچاس گناہ محو کرتا ہے اور سو درجہ بلند کرتا ہے اور جو ایک حرف کھڑے ہو کر نماز میں پڑھے تو اللہ تعالیٰ ہر حرف کے بدلے سو حسنہ تحریر کرتا ہے ، سو گناہ مٹا دیتا ہے اور سو درجہ بلند کرتا ہے اور جو قرآن ختم کرے تو اس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۶۱۳۔ تفسیر صافی، ج۱، ص ۶۹۔ کے لیے جلد یا تاخیر سے اس کی دعائیں (مصلحت کے باعث) مقبول ہوتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے: میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوں مکمل قرآن ختم کرے؟ فرمایا: ہاں مکمل قرآن ختم کرے۔ ۲۶۳۔ ”وفیہ بالاٴسناد عن اسحاق بن عمّار عن ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام قال: قلت لہ : جعلت فداک انّی احفظ القرآن علی ظھر قلبی فاقراہ علیٰ ظھر قلبی افضل اوانظر فی المصحف ؟ قال فقال لی بل اقراٴہ وانظر فی المصحف فھو افضل ، اما علمت انّ النظر فی المصحف عبادة “ (۱) نیز اسی کتاب میں کلینی ۺ نے اپنی سند کے ساتھ اسحاق ابن عمار سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت - سے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں میں قرآن کا حافظ ہوں ( میں حفظ کے ساتھ قرآن پڑھ سکتا ہوں) کیا حفظ سے پڑھوں یہ بہتر ہے یا قرآن کو دیکھ کر؟ حضرت نے فرمایا: قرآن دیکھ کر پڑھنا افضل ہے کیا تمہیں نہیں معلوم کہ قرآن پر نظر کرنا عبادت ہے۔ ۲۶۴۔ ”وفیہ عن الحسن بن راشد عن جدّہ عن ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام قال قرائة القرآن فی المصحف تخفّف العذاب عن الوالدین ولو کانا کافرین “ (۲) اسی کتاب میں حسن ابن راشد سے منقول ہے کہ انہوں نے اپنے جد سے انہوں نے امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: قرآن کو دیکھ کر پڑھنا والدین کے عذاب میں تخفیف کا باعث ہے اگر وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ ۲۶۵۔ ”وفی روایة عن یعقوب بن یزید رفعہ الی ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام قال من قراٴ القرآن فی المصحف متّع ببصرہ وخفّف عن والدیہ وان کانا کافرین ․ وفی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۲۱۴۔ (۲)۔ اصول کافی، ج۲، ص ۶۱۳۔ روایة وان کانا مشرکین “ (۱) یعقوب ابن یزید نے مرفوعاً امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جو شخص قرآن کو دیکھ کر پڑھے اس کی آنکھوں کو فائدہ پہنچے گا اور اس کے والدین پر عذاب کی تخفیف ہوگی اگرچہ وہ کافر ہی ہوں۔ مولف کہتے ہیں: حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اور آپ کے آباء و اجداد طاہرین ائمہٴ اطہار کی طرف نگاہ کرنا ان کی قبروں کی زیارت کرنا ان کے فضائل و مناقب اور مصائب ذکر کرنا خواہ لکھنے سے یا سننے سے مربوط ہو نیز ان کے ظہور کا انتظار کرنا عبادت او مستحب ہے مزید ثواب اور حقائق وغیرہ کشف کرنے میں بہت سے آثار و برکات پائے جاتے ہیں۔ ۲۶۶۔ ”وفی فرحة الغری : فی حدیث عن النّبی (ص) انّہ قال لعلی علیہ السلام ومن زار قبورکم عدل ثواب ذلک سبعین حجّة بعد حجة الاسلام وخرج من ذنوبہ حتّیٰ یرجع من زیارتکم کیوم ولدة امّہ فابشروبشّر اولیائک ومحبیّک من النّعیم قرة العین بما لا عین راٴت ولا اذن سمعت ولا خطر علیٰ قلب بشر ولٰکن حثالة من النّاس یعیّرون زوّار قبورکم کما تعیّر الزّانیة بزنائھا اولئک شرار امّتی لا امالھم اللّٰہ شفاعتی ولا یردون حوضی “ (۲) کتاب فرحة الغری میں سید ابن طاؤوس رضوان اللہ علیہ نے پیغمبر اکرم (ص) کی ایک حدیث کے ضمن میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت (ص) نے حضرت علی - سے فرمایا: جو شخص آپ کی قبروں کی زیارت کرے تو اس کا ثواب حجة الاسلام کے بعد ستّر حج کے ثواب کے برابر ہے اور وہ اپنے گناہوں سے بری ہوجاتا ہے یہاں تک کہ آپ کی زیارت سے واپس ہوتا ہے تو اس دن کی طرح ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ گزشتہ حوالہ۔ (۲)۔ فرحة الغری، ص ۱۰۵۔ بحار الانوار، ج۹۷، ص ۱۲۱۔ کہ جس دن وہ شکم مادر سے پیدا ہوا ہو لہٰذا تمہیں بشارت ہو اور اپنے دوستوں اور چاہنے والوں کو نعمتوں (لامتناہی نعمتوں) کی بشارت دو اور ایسی آنکھوں کی روشنی کی کہ جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی کسی کان نے سنا ، نہ ہی کسی قلب بشر میں خطور کیا ہو۔ لیکن بہت سے پست نظر افراد آپ کی قبروں کے زائرین کو یوں طعنہ دیتے ہیں جیسے بدکار عورت کو اسے اس کی بدکاری کی بنا پر طعنہ دیا جاتا ہے، وہ لوگ میری امت کے شریر ترین لوگ ہیں نہ انہیں میری شفاعت نصیب ہوگی اور نہ ہی میرے حوض کوثر پر وارد ہوں گے (یعنی اللہ تعالیٰ انہیں میری شفاعت سے محروم رکھے گا) مولف کہتے ہیں: پیغمبر اکرم (ص) کی زیارت کے بارے میں ائمہٴ اطہار میں ہر ایک سے بہت فضیلت اور نامحدود ثواب معادن وحی و تنزیل سے نقل ہوا ہے کہ اختصار کے ساتھ ہم چند مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں قارئین کرام مفصل کتابوں جیسے بحار الانوار علامہ مجلسی ، کامل الزیارات علامہ ابن قولویہ اور وسائل الشیعہ شیخ حر عاملی کی طرف رجوع کریں۔ ۲۶۷۔ ”وفی علل الشرایع للصدوق ۺ عن الصادق علیہ السلام اذا حجّ احدکم فلیختم حجہ بزیارتنا فانّ ذلک من تمام الحجّ “ (۱) شیخ صدوق رحمة اللہ علیہ نے کتاب علل الشرائع میں امام جعفر صادق - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص حج پر جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے حج کو ہماری زیارت پر ختم کرے کیوں کہ ہماری زیارت کے لیے آنا ہی حج کو حد کمال تک پہنچاتا ہے۔ ۲۶۸۔ ”وفیہ عنہ علیہ السلام : قال قال الحسن بن علی علیہ السلام لرسول اللّٰہ یا ابتاہ ما جزآء من زارک فقال رسول اللّٰہ (ص) یا بنیّ من زارنی حیّاً اومیّتاً او زار اباک او اخاک او زارک کان حقّاً علیّ ان ازورہ یوم القیٰمة فاخلّصہ من ذنوبہ “ (۲) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ علل الشرایع، ج۲، ص ۴۵۹۔ عیون الاخبار الرضا - ، ج۱، ص ۲۹۳۔ (۲)۔ علل الشرایع، ج۲، ص ۴۶۰۔ کامل الزیارات، ص ۹۱۔ بحار الانوار، ج۹۶، ص ۳۷۳۔ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب علل الشرائع میں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت - نے فرمایا: امام حسن مجتبیٰ نے حضرت رسول خدا (ص) کی خدمت میں عرض کیا: اے میرے پدر گرامی! جو آپ کی زیارت کرے اس کا کیا اجر و ثواب ہے؟ فرمایا: اے بیٹے! جو میری زندگی میں یا مرنے کے بعد میری زیارت کرے یا تمہارے والد گرامی یا تمہارے عزیز بھائی یا خود تمہاری زیارت کرے تو یہ میرے لیے اس کے زائد حق میں واجب ہے کہ اس کی قیامت کے دن زیارت کروں اور اسے گناہوں کی قید سے نجات اور چھٹکارا دلاؤں۔ ۲۶۹۔ ”وفی کامل الزیارة لابن قولویہ قدس سرہ: قال رسول اللّٰہ (ص) من زار قبری بعد موتی کان کمن ھاجر الیّ فی حیٰوتی فان لم تستطیعوا فابعثوا الیّ بالسلام فانّہ یبلغنی “ (۱) کامل الزیارات میں ابن قولویہ رحمة اللہ علیہ نے رسول خدا (ص) سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: جو شخص میرے بعد میری قبر کی زیارت کرے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے تیری زندگی میں میری طرف ہجرت کی اگر تمہارے اس عمل کا امکان نہ پایا جاتا ہو تو جہاں کہیں رہو مجھے سلام بھیجو وہ مجھے پہنچ جائے گا۔ ۲۷۰۔ ” وفی فرحة الغری عن ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام قال من زار امیر الموٴمنین علیہ السلام ما شیاً کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حجة وعمرة فان رجع ماشیاً کتب اللّٰہ بکلّ خطوة حجة وعمرة فان رجع ماشیاً کتب اللّٰہ بکل خطوة حجتان وعمرتان“ (۲) فرحة الغری میں امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا: جو شخص حضرت امیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ کامل الزیارات، ص ۴۷۔ تہذیب الاحکام ، ج۶، ص ۳۔ وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص ۳۳۷۔ (۲)۔ فرحة الغری، ص ۱۰۳۔ مزار شیخ مفید، ص ۳۰۔ بحار الانوار، ج۹۷، ص ۲۶۰۔ المومنین علی - کی پا پیادہ زیارت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہٴ اعمال میں ہر قدم پر ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب لکھتا ہے اور اگر پا پیادہ واپس جائے تو ہر ایک قدم پر دو حج اور دو عمرہ کا ثواب تحریر کرتا ہے۔ ۲۷۱۔ ” وعنہ علیہ السلام وقد ذکر امیر الموٴمنین علیہ السلام فقال یابن مارد من زار جدّی عارفاً بحقہ کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حجة مقبولة وعمرة مبرورة یابن مارد واللہ ما یطعم النار قدماً تغبرت فی زیارة امیر الموٴمنین علیہ السلام ماشیاً کان او راکباً، یابن مارد اکتب ھذا الحدیث بماء الذّھب “ (۱) سید جلیل القدر جناب ابن طاووس رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب فرحة الغری میں امام جعفر صادق - سے روایت نقل کی ہے کہ گویا ان کے جدّ بزرگوار کے بارے میں گفتگو ہوئی (ابن مارد کے ذریعہ یا کسی دوسرے کے ذریعہ) تو حضرت نے ابن مارد کو خطاب کرکے فرمایا: اے فرزند مارد! جو شخص میرے جد بزرگوار کی حقیقی معرفت کے ساتھ زیارت کرے (ان کی ولایت و خلافت بلا فصل کا عقیدہ رکھتا ہو) تو خدائے عزوجل اس کے ہر ایک قدم پر قبول شدہ حج اور عمرہ اس کے نامہٴ اعمال میں تحریر کرتا ہے، اے فرزند مارد! خدا کی قسم ! آتش جہنم اس قدم کو اپنی غذا نہیں بناتی جو حضرت امیر المومنین - کی زیارت کی راہ میں اٹھایا جائے ، خواہ وہ پیادہ گیا ہو یا سواری کے ساتھ اے فرزند مارد! اس حدیث کو سونے کے پانی سے تحریر کرو۔ مولف کہتے ہیں: کتنی زیادہ روایات حضرت سید الشہداء حسین ابن علی علیہما السلام کی زیارت کی فضیلت اور ثواب کے بارے میں وارد ہوئی ہیں جو مستفیض بلکہ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ۲۷۲۔ ” فی الامالی باسنادہ عن محمّد بن مسلم عن ابی جعفر علیہ السلام قال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ فرحة الغریٰ، ص ۱۰۳۔ بحار الانوار، ج۲، ص ۱۴۷، ج۹۷، ص ۲۶۰۔ مروا شیعتنا بزیارة الحسین بن علی علیہما السلام فانّ زیارتہ تدفع الھدم و الغرق والحرق واکل السّبع وزیارتہ مفترضة علی من اقرّ للحسین علیہما السلام بالامامة من اللّٰہ عزّوجلّ “ (۱) امالی شیخ صدوق ۺ میں بطور مسند محمد ابن مسلم نے امام محمد باقر - سے روایت کی ہے کہ حضرت نے فرمایا: ہمارے شیعوں کو حسین ابن علی علیہما السلام کی زیارت کے لیے جانے کا حکم دو کیوں کہ ان کی زیارت (کی برکت) سے گھر ویران ہونے، غرق ہونے ، جلنے اور درندوں کے پھاڑ کھانے کے خطرات سے محفوظ رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر اس شخص پر حضرت - کی زیارت فرض ہے جو اِن کی امامت (و خلافت) کا اعتراف کرچکے ہیں۔ ۲۷۳۔ ”وقال الصادق علیہ السلام لاٴبان بن تغلب متیٰ عھدک بقبر الحسین علیہ السلام قال مالی بہ عھد منذ حین قال سبحان ربیّ العظیم وبحمدہ وانت من روٴسائی الشیعة تترک الحسین لا تزورہ من زار الحسین علیہ السلام کتب اللّٰہ لہ بکلّ خطوة حسنة ومحی عنہ بکلّ خطوة سیّئة وغفرہ ما تقدّم من ذنبہ وما تاٴخّر الخ “ (۲) حضرت امام صادق - آل محمد علیہم السلام نے ابان ابن تغلب سے فرمایا: تم کس وقت امام حسین - کی قبر کی زیارت کے لیے گئے تھے؟ عرض کیا: ایک مدت ہوگئی ہے کہ حضرت امام حسین - کی قبر کی زیارت کے لیے نہیں گیا ہوں (تو تعجب سے) فرمایا: ”سبحان ربی العظیم و بحمدہ“ پاک و پاکیزہ ہے میرا پروردگار اور اسی کی حمد وثناء ہے حالانکہ تم ہمارے شیعوں کے بزرگوں میں سے ہو اور امام حسین کی زیارت نہیں کرتے! (کیا تم نہیں جانتے یا اس بات سے غافل ہو کہ) جو شخص امام حسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ امالی صدوق، ص ۲۰۶۔ من لا یحضرہ الفقیہ، ج۲، ص ۵۸۳۔ (۲)۔ کامل الزیارات ص، ۳۳۱۔ بحار الانوار، ج۹۸، ص ۷۔ کی زیارت کرے تو خداوند متعال اس کے نامہٴ اعمال میں ہر قدم پر ایک نیکی تحریر کرے گا اور ہر قدم پر ایک گناہ مٹا دے گا نیز اس کے گزشتہ اور آئندہ کے گناہ کو بخش دے گا۔ حدیث کے آخر تک۔ ۲۷۴۔ ”وروی ابن قولویہ باسناد کثیرہ وغیرہ من المشایخ عن معاویة بن وھب قال دخلت علیٰ ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام وھو فی مصلاہ فجسلت وحتّیٰ قضیٰ صلاتہ فسمعتہ وھو یناجی ربّہ یقول یا من خصّنا بالکرامة ووعدنا الشّفاعة وحملنا الرّسالة وجعلنا ورثة الانبیآء وختم بنا الامم السّالفة وخصنا بالوصیّة واعطانا علم مامضی وعلم ما بقی وجعل افئدة من النّاس تھوی الینا اغفرلی ولاٴخوانی وزوّار قبر ابی الحسین بن علی علیہ السلام الذین انفقوا اموالھم واشخصوا ابدانھم رغبة فی برّنا ورجآء لما عندک فی صلتنا الیٰ ان قال علیہ السلام فارحم تلک الوجوہ التی غیرتھا الشمس وارحم تلک الخدود التی تقلبت علیٰ قبر ابی عبد اللہ علیہ السلام وارحم تلک الاعین التی جرت دموعھا رحمة لنا وارحم تلک القلوب التی جزعت واحترقت لنا وارحم تلک الصخة التی کانت لنا اللھم انّی استودعک تلک الاٴنفس وتلک الاٴبدان حتیٰ ترویھم من الحوض یوم العطش فما زال علیہ السلام یدعوا بھذا الدّعا وھو ساجد الخ“ (۱) ابن قولویہ نے ابن کثیر سے اپنے اسنا دکے ساتھ اور ان کے علاوہ مشائخ (روایات) نے معاویہ ابن وہب سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے: میں حضرت امام جعفر صادق - کی خدمت اقدس میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ اپنے مصلی پر بیٹھے ہوئے نماز میں مشغول تھے تو میں بیٹھا تاکہ حضرت اپنی نماز تمام کریں اور میں نے اسی حالت میں سنا کہ اپنے پروردگار سے دعاء و مناجات کر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ کامل الزیارات، ص ۲۲۹۔ کافی، ج۴، ص ۵۸۲۔ ثواب الاعمال، ص ۹۵۔ بحار الانوار، ج۹۸، ص ۸۔ اور فرماتے تھے: اے وہ (خدا) کہ جس نے ہم کو اپنی کرامت سے مخصوص کیا اور ہم سے شفاعت کا وعدہ کیا اور ہمیں رسالت انبیاء کا ورثہ دار قرار دیا اور گزشتہ امتوں کو ہمارے ذریعہ اختتام پذیر کیا اور وصایت (امامت و خلافت) کو ہم سے مخصوص کیا گزشتہ اور آئندہ کا ہمیں علم عطا فرمایا اور بعض لوگوں کے دلوں کو ہمارا عاشق و حامی قرا دیا اپنی بخشش و مغرفت کو میرے بھائیوں اور میرے جد بزرگوار حسین بن علی علیہما السلام کے زائرین کے شامل حال فرما۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے اموال کو خرچ کیا اپنی بدن کو غم و اندوہ اور خستگی میں ڈالا ہماری راہ میں جو تیرے پاس اجر و ثواب کی (ہم سے نزدیک ہونے کے لیے) امید پائی جاتی ہے نیکی انجام دی ۔ اے خدا! پنی رحمت ان چہروں پر نازل فرما جو تیری زیارت کے راستے میں آفتاب کی گرمی سے تبدیل ہوگئے اے خد! ان رخساروں پر اپنی رحمت نازل فرما جو حضرت ابا عبد اللہ الحسین - کی قبر پر رکھے گئے، اے خدا! ان آنکھوں پر اپنی رحمت نازل فرما کہ جن کے اشک ہماری عطوفت و محبت میں جاری ہوئے، اے خدا ! ان قلوب پر اپنی رحمت نازل فرما کہ جنہوں نے ہمارے مصائب کی وجہ سے (ہماری مظلومیت کی بنا پر نالہ و فریادیں بلند کیں۔ اے خدا! میں تیرے پاس ان نفوس او ر ابدان کو (کہ جنہوں نے ہماری زیارت کی بجا آوری کے لیے خود کو زحمت ومشقت میں ڈالا) بطورامانت چھوڑ رہا ہوں تاکہ تو پیاس کے دن (قیامت) انہیں حوض کوثر سے سیراب فرما۔ راوی کا بیان ہے: حضرت امام جعفر صادق - مسلسل حضرت سید الشہداء کے زائروں اور عاشقوں کے لیے سجدہ کی حالت میں اس دعا کی تکرار کر رہے تھے۔ ”النظر الی وجہ علی عبادة “ چہرہٴ علی پر نظر کرناعبادت ہے ۲۷۵۔ ” وفی مستدرک الصحیحین روی بسندہ عن ابی سعید الخدری عن عمران بن حصین قال: قال رسول اللّٰہ (ص) : النظر الیٰ علی عبادة “ (۱) ” قال الحاکم ھذا حدیث صحیح الاٴسناد ، ثم قال ؟ و شواھدہ عن عبد اللّٰہ بن مسعود صحیحة․“ حاکم نے مستدرک صحیحین میں اپنی سند کے ساتھ ابو سعید خدری سے انہوں نے عمران ابن حصین سے روایت کی ہے کہ حضرت رسول خدا (ص) نے فرمایا: حضرت علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ حاکم نے اس حدیث کے اسناد کے صحیح ہونے کی تائید کی ہے، پھر کہا: اس کے شواہد عبد اللہ ابن مسعود سے صحیح ہیں۔ مولف کہتے ہیں: اہل سنت کی معتبر کتابوں سے متعدد روایات میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے اب مولف اختصار کے ساتھ سند کو حذف کرکے کتاب فضائل الخمسہ (۲) وغیرہ سے تبرکاً کتاب کے اس مختصر حصہ کو زینت بخش قرار دیتے ہیں قارئین کرام تفصیل کے لیے گزشتہ حوالہ کی طرف رجوع کریں۔ ۲۷۶۔ ”وفی حلیة الاولیاء لابی نعیم : عن عایشہ قالت: قال رسول اللّٰہ (ص) النّظر الیٰ علی عبادة “ (۳) حافظ ابو نعیم نے حلیة الاولیاء میں عائشہ سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے کہ رسول خدا (ص) نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ مستدرک الصحیحین ، ج۳، ص ۱۴۱۔ (۲)۔ آیت اللہ الحاج سید مرتضیٰ حسین فیروز آبادی رحمة اللہ علیہ۔ (۳)۔ اس سلسلہ میں رجوع کریں: الغدیر، ج۴، ص ۲۸۔ فرمایا: حضرت علی - کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ ۲۷۷۔ ”تاریخ بغداد: عن ابی ہریرة قال: راٴیت معاذ بن جبل مدیم النّظر الیٰ علیّ بن ابی طالب علیہ السلام فقلت : مالک تدیم النّظر الیٰ علیٍّ کانک لم ترہ؟ فقال: سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول : النظر وجہ علی عبادة “ (۱) تاریخ بغداد میں ابو ہریرہ سے منقول ہے کہ ان کا بیان ہے: میں نے معاذ ابن جبل کو دیکھا کہ مسلسل حضرت علی ابن ابی طالب - کی طرف نگاہ کر رہے ہیں تو میں نے عرض کیا کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ مسلسل حضرت علی - کی طرف دیکھ رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نہ دیکھا ہو؟ کہا: میں نے رسول خدا (ص) کو یہ کہتے سنا ہے: علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ ۲۷۸۔ ”کنز العمال والمناوی فی فیض القدیر : قالا: النظر الیٰ وجہ علی عبادة قال المناوی فی الشّرح : قال الزّمخشری عن ابن الاعرابی اذا برز ( یعنی علیاً علیہ السلام ) قال النّاس: لا الہ الاّ اللّٰہ ما اشرق ھذا الفتی مااعلمہ ما اکرمہ ما احلمہ ما اشجعہ فکانت روٴیتہ تحمل علی النّطق بالعبادة فیالھا من سعادة “ (۲) صاحب کنز العمال نے اپنی کتاب میں اور مناوی نے فیض القدیر میں دونوں نے کہا ہے کہ: علی - کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ مناوی نے شرح میں نقل کیا ہے کہ:زمخشری نے ابن اعرابی سے کہا: جس وقت علی - (سماج میں ظاہر ہوں گے) تو لوگ تعجب سے کہیں گے لا الہ الا اللہ کیا نورانیت کے حامل ہیں اس جواں کا علم و کرامت اور شجاعت قابل توصیف نہیں لہٰذا ان کا دیدار لوگوں کو عبادت کے لیے برانگیختہ کرتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ علی - کے چہرہٴ مبارک پر نظر کرنا عبادت ہے ان کی کیا خوش نصیبی ہے۔ ۲۷۹۔ المحبّ الطبری فی الریاض النظرہ قال وعن معاذة الغفّاریّة قالت: کان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ تاریخ بغدادی، ج۲، ص ۴۹۔ (۲)۔ نہایہ ابن اثیر، ج۵، ص ۷۷۔اختیارلمعرفة الرجال، ج۲، ص ۶۱۲۔ لی اٴنس بالنبی (ص) اخرج معہ فی الاسفار ، واٴقوم علی المرضیٰ ومداوی لجرحیٰ ، فدخلت الیٰ رسول اللّٰہ (ص) فی بیت عایشة وعلی علیہ السلام خارج من عندہ فسمعتہ یقول : یا عایشة ان ھذا احب الرّجال الیّ واکرمھم علیّ فاعرفی لہ حقّہ ، واکرمی مثواہ، فلما ان جری بینھا وبین علی علیہ السلام بالبصرة ماجریٰ رجعت عایشة الیٰ المدینة فدخلت علیھا فقلت لھا: یا امّ الموٴمنین کیف قلبک الیوم بعد ما سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول لک فیہ ما قال؟ قالت : یا معاذة کیف یکون قلبی لرجل کان اذ دخل علیّ وابی عندنا لایملّ من النّظر الیہ ، فقلت لہ : یا ابة انّک لتدیمنّ النظر الیٰ علی ، فقال: یا بنیّة سمعت رسول اللّٰہ یقول : النظر الی وجہ علی عبادة۔ محب الدین طبری نے ریاض النضرہ میں نقل کیا ہے کہ معاذہٴ غفاریہ نے کہا: مجھے نبی اکرم (ص) سے انس و محبت تھی میں ان کے ہمراہ ان کے سفر میں جاتی تھی اور مریضوں اور مجروحین کا مداوا و علاج کرتی تھی (ایک دن) میں عائشہ کے گھر رسول خدا (ص) کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئی جب حضرت علی - رسول خدا (ص) کے پاس باہر آرہے تھے پھر میں نے سنا کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: اے عائشہ! یہ علی - میرے نزدیک مردوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور وہ میرے نزدیک زیادہ عزیز اور محترم ہیں لہٰذا ان کی معرفت حاصل کرو اور ان کے حق کو پہچانو اور ان کی موقعیت و منصب کا اکرام و احترام کرو، جب عائشہ اور حضرت علی - کے درمیان بصرہ کا واقعہ رونما ہوا (۱) اور عائشہ مدینہ واپس آئی تو میں اس کے پاس گئی اور اس سے کہا: اے امّ المومنین! آج آپ کے دل کی کیا کیفیت ہے جب کہ آپ کے لیے رسول خدا (ص) کو حضرت علی - کے حق میں جو کچھ کہنا تھا کہہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ جنگ جمل کی طرف اشارہ ہے جو حضرت عائشہ (ام المومنین) کے منصوبہ کے تحت عثمان کی خوں خواہی اور ان سے دفاع کے بارے میں رونما ہوئی اور جو کچھ کرنا تھا کیا۔ چکے؟ جواب دیا: اے معاذہ! میرے دل کی کیفیت اس شخص کے بارے میں کیسی ہوگی کہ جب وہ میرے اور میرے پدر گرامی کے پاس آتا تھا تو ہم اس کو دیکھنے سے ملول اور رنجیدہ خاطر نہیں ہوتے تھے، پھر میں نے اپنے والد گرامی سے عرض کیا: اے بابا! آپ حضرت علی - کی طرف مسلسل دقّت سے دیکھ رہے ہیں اور نگاہ کرنے سے احساس خستگی نہیں کرتے؟ کہا: اے بیٹی! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: علی کے (مبارک) چہرہ پر نگاہ کرنا عبادت ہے۔ ۲۸۰۔ ”الریاض النضرة : عن عایشة قالت: راٴیت ابابکر یکثر النّظر الیٰ وجہ علیٍّ ، فقلت : یا اٴبة راٴیتک تکثر النظر الیٰ وجہ علیٍّ ، فقال : یا بنیّة سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول النّظر الیٰ وجہ علی عبادة “ (۱) ریاض النضرة میں عائشہ سے منقول ہے کہ اس کا بیان ہے: میں نے ابوبکر کو حضرت علی - کے چہرہ پر کثرت سے نظر کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے عرض کیا: اے بابا جان! میں نے آپ کو علی کے چہرہ کی طرف بہت زیادہ نگاہ کرتا ہوا پایا؟ تو کہا: اے میری بیٹی! میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کے چہرہ پر نظر کرنا عبادت ہے۔ ۲۸۱۔ ” وفیہ ایضاً : عن جابر قال: قال رسول اللّٰہ (ص) لعلی علیہ السلام عد عمران بن الحصین فانّہ مریض ، فاتاہ وعندہ معاذ وابو ہریرة، فاقبل عمران یحدّ النظر الیٰ علیٍّ علیہ السلام ، فقال لہ معاذ : لم تحدّ النّظر الیہ ؟ فقال : سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول النظر الی علی عبادة ، قال معاذ : وانا سمعتہ من رسول اللّٰہ قال ابو ہریرة : اوانا سمعتہ من رسول اللّٰہ (ص) “ (۲) نیز ریاض النضرة میں جابر (انصاری) سے منقول ہے کہ ان کا بیان ہے: رسول خدا (ص) نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ مناقب ابن مغازلی، ص ۲۱۰۔ العمدہ، ص ۳۶۷۔ ذخائر العقبیٰ، ص ۹۵۔ بحار الانوار، ج۳۸، ص ۲۰۰۔ (۲)۔ ذخائر العقبیٰ، ص ۹۵۔ ینابیع المودة، ج۲، ص ۱۸۵۔ حضرت علی - سے فرمایا کہ: عمران ابن حصین مریض ہےں لہٰذا ان کی عیادت کرو تو حضرت علی - عیادت کے لیے اس وقت ان کے پاس گئے کہ جب معاذ اور ابوہریرہ بھی ان کے پاس موجود تھے عمران پوری دقّت کے ساتھ حضرت علی - کی طرف دیکھ رہے تھے تو معاذ بن عمران سے عرض کیا: کیوں علی - کی طرف اس شدّت و حدّت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں؟ تو جواب دیا: میں نے رسول خدا کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کی طرف دیکھنا عبادت ہے، معاذ نے کہا: میں نے رسول خدا (ص) سے یہ سنا ہے۔ اور ابو ہریرہ نے بھی کہا کہ: میں نے بھی رسول خدا (ص) سے یہی بات سنی ہے۔ ۲۸۲۔ بحار الانوار میں : عمار، معاذ اور عائشہ کی روایت میں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) سے منقول ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب - کی طرف نظر کرنا عبادت ہے ان کا نام اور فضائل ذکر کرنا بھی عبادت ہے اور کسی بندہ کا ایمان قابل قبول نہیں ہوتا مگر ان کی ولایت و محبت کی وجہ سے اور ان کے دشمنوں سے برائت و بیزاری اختیار کرنے سے۔ ۲۸۳۔ ”وفیہ نقلاً عن بشارة المصطفیٰ لشیعة المرتضیٰ باسنادہ عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ (ص) زیّنوا مجالسکم بذکر علیّ بن ابی طالب علیہ السلام “ (۱) علامہ مجلسی نے بحار میں بشارة المصطفیٰ سے اپنی سند کے ساتھ جابر ابن عبد اللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: اپنی مجلسوں کو علی ابن ابی طالب - کے ذکر سے زینت دو، یعنی حضرت علی - کے نام فضائل و مصائب اور ان کی مظلومیت کو ذکر کرنا ہر حالت میں مجالس کی زینت ہے۔ مولف کہتے ہیں: نہ صرف یہ کہ علی ابن ابی طالب - کا ذکر عبادت ہے بلکہ پیغمبر اکرم محمد و آل محمد بالخصوص حضرت بقیة اللہ الاعظم حضرت حجة ابن الحسن العسکری عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا ذکر جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ بحار الانوار، ج۳۸، ص ۷۸۔ اہل بیت عصمت و طہارت کے ہر دل عزیز پھول ہیں بالا ترین عبادت ہے۔ ۲۸۴۔ ”وفی البحا ر نقلًا عن روضة والفضایل بالاسناد یرفعہ عن ام الموٴمنین امّ سلمة رضی اللّٰہ عنھا انّھا قالت سمعت رسول اللّٰہ (ص) یقول : ما قوم اجتمعوا یذکرون فضل علی بن ابی طالب علیہ السلام الا ھبطت علیھم ملائکة السماء حتیٰ تحفّ بھم فاذا تفرّقوا عرجت الملائکة الیٰ السّماء فیقول لھم الملائکة انّا نشمّ من رایحتکم مالا نشمّة من الملائکة فلم نرا رائحة اطیبت منھا فیقولون کنّا عند قوم یذکرون محمّداً واھل بیتہ فعلق فینا من ریحھم فتعطّرنٰا فیقولن اھبطوا بنا الیھم فیقولون تفرقوا ومضی کل واحد منھم الی منزلة فیقولون اھبطوا بنا حتیٰ نتعطر بذٰلک المکان “ (۱) بحارمیں روضہ اور فضائل سے اپنے اسناد کے ساتھ مرفوعاً ام المومنین حضرت ام سلمہ سلام اللہ علیہا سے نقل کیا ہے کہ ان کا بیان ہے: میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: کوئی بھی قوم آپس میں جمع ہو اور حضرت علی ابن ابی طالب - کی فضیلت و منقبت کا ذکر کرے تو ان کے پاس آسمان کے فرشتے نازل ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کے اطراف کو اپنے احاطہ میں لے لیتے ہیں اور جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں تو فرشتے آسمان کی طرف جاتے ہیں اور وہاں کے موجودہ فرشتے ان سے عرض کرتے ہیں کہ :ہم آپ لوگوں سے ایسی خوشبو محسوس کر رہے ہیں جو دوسرے ملائکہ میں نہیں پائی جاتی اور ہم نے اتنی پاک و پاکیزہ خوشبو اب تک نہیں دیکھی تھی تو فرشتے جواب دیں گے: ہم ایک قوم کے پاس تھے جو محمد اور ان کے اہل بیت کے ذکر میں مشغول تھی ہم ان کی خوشبو اور عطر سے معطّر ہوئے ہیں تو وہ فرشتے کہیں گے: ہمارے ساتھ آؤ اور ان کے پاس چلیں ، تو وہ کہیں گے : ہر ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ بحار الانوار، ج۳۹، ص ۱۹۹۔ دوسرے سے جدا ہوجائے او ر ان میں سے ہر ایک جب اپنے گھر کی طرف واپس جائے گا تو اہل خانہ اس سے کہیں گے: میرے ساتھ چلو تاکہ ہم بھی اس جگہ کی خوشبو اور عطر سے معطّر ہوجائیں۔ ۲۸۵۔ موٴلف کہتے ہیں: ہم زیارت جامعہٴ کبیرہ میں بھی پڑھتے ہیں ” باٴبی انتم وامّی ونفسی واھلی ذکرکم فی الذّاکرین واسمآئکم فی الاسمآء واجسادکم فی الاٴجساد وارواحکم فی الاٴرواح وانفسکم فی النّفوس وآثارکم فی الآثار وقبورکم فی القبور فما احلی اسمآئکم واکرم انفسکم واعظم شاٴنکم الخ“ (۱) میرے ماں باپ ، میری جان و مال اور میرے اہل سب آپ پر قربان ۔ آپ کا ذکر ذاکرین میں ہے۔ آپ کا نام ناموس میں نمایاں ہے آپ کے اجساد، جسموں میں، آپ کی روحیں، ارواح میں، آپ کے نفس، نفوس میں۔ آپ کے آثار، آثار میں ۔ آپ کی قبریں، قبروں میں نمایاں ہیں کیا شیریں آپ کے نام ہیں کیا کریم آپ کا نفس ہے اور کیا عظیم آپ کی شان ہے۔ خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ حضرت ائمہٴ اطہار کا مقدس وجود صفاتِ جمیلہ اور انسانی کمالات عالیہ اور خداوند سبحان کے منتخب افراد کے اوصاف کا حامل ہے اور ان کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں کیوں کہ وہ عظیم ہستیاں خود جن کی تعبیر میں وہ کلمات الٰہی ہیں اور کلمات الٰہی بھی جیسا کہ ذکر ہوا کہ تمام دریا اور سمندر کے پانی روشنائی اور دنیا بھر کے درخت قلم بن جائیں اور تمام جس و انس لکھنے والے بن جائیں تو دریا اورسمندر خشک ہوجائیں گے لیکن ان کے فضائل و مناقب ختم نہیں ہوں گے۔ کتاب فضل ترا آب بحر کافی نیست کہ تر کنی سر انگشت و صفحہ بشماری آپ کے فضائل و مناقب کی کتاب لکھنے کے لیے سمندر کا پانی بھی ناکافی ہے ، تاکہ تم سرِ انگشت کو تر کرو اور صفحات کو شمار کرو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)۔ مزار ابن مشہدی، ص ۵۳۰۔

Comments powered by CComment