اسلامی انقلاب رونما هونے کے بعد "اسلام کا سیاسی تفکر" ملکی اور غیر ملکی دانشوروں کی توجه کا مرکز بنا- ایک اهم فقهی اصطلاح جو اسلامی فکرو اندیشه کا موضوع بنی وه "ولایت فقیه" هے
اسلامی انقلاب رونما هونے کے بعد "اسلام کا سیاسی تفکر" ملکی اور غیر ملکی دانشوروں کی توجه کا مرکز بنا- ایک اهم فقهی اصطلاح جو اسلامی فکرو اندیشه کا موضوع بنی وه "ولایت فقیه" هے- اس اصطلاح کے معنی،دلائل اور اختیارات کی وسعت وغیره کے بارے میں بهت سی بحثیں کی گئی هیں- ولایت فقیه اور ولایت مطلقه فقیه کے درمیان فرق کو سمجھنے کے لئے مندرجه ذیل چند امور کو بیان کرنا ضروری هے-
الف - ولایت کے معنی : عربی زبان میں ولایت ماده "ولی" سے هے اور اس کے معنی نزدیکی اور قرب هے[1]- ولایت کے لئے اس معنی کے علاوه مزید دو معانی بھی بیان هوئے هیں، یعنی ۱- سلطنت، زور اور غلبه ۲- رهبری اور قیادت[2]-
ب- ولایت فقیه کے معنی:
جیسا که بیان کیا گیا، والی،مدیر اور نافز کرنے والے کے معنی میں هے، اور اگر یه کها جائے که "فقیه ولایت رکھتا هے" تو اس کے معنی یه هیں که "عصر غیبت میں شارع مقدس کی طرف سے قوانین الهی بیان کرنے،احکام دین کو نافز کرنے اور اسلامی معاشره کا نظم و انتظام چلانے کا کام فقیه جامع الشرائیط کے ذمه هے[3]-"
البته بعض لوگوں نے اس معنی میں "ریاست" و "سلطنت" کا مفهوم لیا هے که جو "ولی" کی ولایت رکھنے والوں پر غلبه اور بالادستی کے معنی میں هے- جبکه اس کا مراد ولی کی ولایت رکھنے والوں کی سرپرستی اور ان کے امور کا نظم و انتظام چلانا هے اور یه ولایت کے دائرے میں آنے والوں کی ایک قسم کی خدمت هے[4]-
ج- ولایت مطلقه فقیه کے معنی:
فقه میں، ولایت بعض لوگوں پر ثابت هے، جیسے چھوٹے نا بالغ بچے یا دیوانه یا کم عقل پر[5] باپ یا دادا کی ولایت- ایسے مواقع پر فرزند لڑکے یا لڑکی کے امور ان کے باپ اور دادا کے ذمه هوتے هیں که باپ یا دادا فرزند کی مصلحتوں کے پیش نظر اسکے امور کو چلاتا هے-
اس طرح وکیل کی موکل پر ولایت، جب تک موکل زنده هے-
ولایت کے بارے میں دوسرے مواقع بھی هیں جن کی تفصیل فقهی کتابوں میں بیان کی گئی هے- لهٰذا دوسروں پر ولایت کا اصول اسلامی فقه کی ضروریات میں سے هے اور انهی ولایتوں میں سے ایک، ولایت فقیه هے-
لیکن قابل بحث مسئله یه هے که ولایت فقیه، باپ اور دادا کی ولایت کی قسم سے مربوط هے یا سرپرستی اور معاشره کو چلانے کی ولایت کی قسم هے؟
جو بات مسلم هے وه یه هے که ولایت فقیه کے ثبوت کے بنیادی اصول کے سلسله میں تمام فقها کا اتفاق نظر هے اور وه صرف ولی فقیه کی ولایت کے دائره کار اور اختیارات میں اختلاف نظر رکھتے هیں- اگر هم ولی فقیه کے اختیارات کو معاشره کے نظم و نسق چلانے کے معنی میں لے لیں تو هم اسی ولایت مطلقه کے نتیجه پر پهنچتے هیں-
ولایت مطلقه فقیه ایک فقهی اصطلاح هے اور اس کا دائره کار ولایت رکھنے والے حدود اور امور پر مشتمل هے اور اس میں کسی قسم کی محدودیت نهیں هے- دوسرے الفاظ میں یه اصطلاح بیان کرتی هے که ولایت فقیه کا دائره چند خاص افراد، جیسے دیوانوں اور کم عقلوں وغیره تک محدود نهیں هے بلکه معاشره کے تمام افراد اور احکام کے بارے میں مطلق هے- اس سلسله میں امام خمینی رحمته الله علیه فرماتے هیں: " ولایت و رهبری کے لحاظ سے جو کچھه پیغمبر(ص) اور ائمه اطهار علیهم السلام کے لئے ثابت هے، بالکل وهی امور فقیه کے لئے بھی ثابت هیں لیکن ان کے دوسرے اختیارات جو اس لحاظ سے نهیں هیں، فقیه کے لئے ثابت نهیں هیں[6]-"
مرحوم شیخ انصاری، فقیه جامع الشرائط کے اختیارات کے بارے میں فرماتے هیں:
"فقیه جامع الشرائط کے اختیارات یه هیں: ۱- تقویٰ ۲- حکومت (فیصلے) ۳۳- اموال اور افراد پر تصرف کی ولایت[7]" مزید فرماتے هیں : " هر وه امر جس کے بارے میں لوگ اپنے رئیس کی طرف رجوع کرتے هیں، بعید نهیں هے که هم ان امور میں بھی فقیه کی طرف رجوع کرنے کے قائل هو جائیں، کیونکه فقها اولوالامر هیں[8]"
البته بعض فقها فقیه کے لئے اس قدر وسیع اختیارات کے قائل نهیں هیں بلکه فقیه کے اختیارات کو صرف فتویٰ اور قضاوت (فیصله)تک محدود جانتے هیں[9]-
مذکوره بیان سے واضح هو گیا که فقیه کی ولایت کا مطلقه هونا ایک فقهی اصطلاح هے جو ولی فقیه کی فعالیت اور فرائض کی وسعت کو بیان کرتی هے اور ولایت فقیه صرف دیوانوں،یتیموں اور لاوارثوں کی سرپرستی تک هی محدود نهیں هے-
نوٹ:
افسوس هے که بعض لوگوں نے ولایت مطلقه فقیه کا غلط معنی لیا هے اور اسے "مطلق العنان" حکومت[10] یا " فقیه کی مطلق آزادی[11]" کے مساوی جانا هے- لیکن مذکوره بیان سے واضح هوا که اولاً: ولایت مطلقه کا مراد اور ولایت کے مطلق هونے کا مطلب یه هے که فقیه کو تمام اسلامی احکام کو بیان کرنا چاهئے (نه صرف بعض احکام کو) ثانیاً: احکام کے درمیان ٹکراو کی صورت میں فقیه جامع الشرائط کو اهم حکم کو نافذ کرنا چاهئے[12]-" اس کا هرگز یه معنی نهیں هے که ولی فقیه اسلامی احکام کی مصلحتوں کو مدنظر رکھے بغیر کسی حکم کو جاری کر سکتا هے جو مصلحتوں کے خلاف هو[13]-
[1] رازی،عبدالقادر،مختارالصحاح،( صحاح جوهری)،ماده ولی، ص ۶۳۱، انتشارات الرسالۃ-
[2] ایضاً؛ معجم الوسیط، ص ۱۰۵۸، انتشارات دار الدعوۃ
[3] جوادی آملی،عبدالله،ولایت فقیه،ص ۶۳۴ ، انتشارات اسراء-
[4] هادوی تهرانی،مهدی،ولایت و دیانت، ص ۶۵، ناشر خانه خرد
[5] نجفی،محمد حسن،جواهرالکلام،ج ۲۲،ص۳۲۲، سی-ڈی جامع فقه اھل بیت (ع)-
[6] امام الخمینی، کتاب البیع،ج ۲ ص ۶۶۴۔
[7] نفس المصدر، ص ۶۵۴۔
[8] انصاری،شیخ مرتضیٰ،المکاسب المحرمھ،ج ۳، ص ۵۴۵۵۔
[9] ایضا
[10] ملاخطه هو خوئی،سید ابوالقاسم، تنقیح فی شرح العروۃ الوثقی،ج ۱،ص ۴۱۸۸، سی-ڈی جامع فقه اھل بیت(ع)۔
[11] ولایت و دیانت، ص ۱۲۵۔
[12] ولایت فقیه، ص ۴۶۳، نشر اسراء
[13] مزید معلومات کے لئے ملاخطه هو
Comments powered by CComment