تقریر: آیت اللّٰہ العظمیٰ وحید خراسانی دامت برکاتہ
ترجمه و تلخیص: سید محمد کمیل شہیدی
آیت اللّٰہ العظمیٰ وحید خراسانی دامت برکاتہ کا نوجوانوں سے خطاب :
آج کی تقریر میں جیسا کہ مجھ سے درخواست ہوئی ہے امام زمانہ سے رابطہ کی کیفیت کو بیان کرنا ہے۔ قرآن کریم میں سورۂ حمد کے بعد شروع ہونے والے سورہ کی ابتدائی آیات ''ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ، الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ''سے اس کیفیت کو سمجھا جا سکتا ہے ۔
ان آیات میں دنیا اورآخرت کی نیک بختی پوشیدہ ہے۔ ان کی شرح کے لئے مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔
عظمت قرآن کو ''ذٰلِکَ الْکِتَابُ''یعنی اسم اشارۂ بعید''ذٰلِکَ '' کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے اور ہدایت قرآنی کو فقط ایک طبقہ ''اَلْمُتَّقِينَ'' سے مخصوص کیا گیا ہے ۔
یہ سورج پوری دنیا کو روشن کرتا ہے لیکن اگر آنکھ نہ ہو تو نور آفتاب بے سود ہے یا اگر آنکھوں پر پردے پڑے ہوںگے تو بھی سورج کی روشنی بے فائدہ ہے۔ پس جو بھی سورج کو دیکھنا چاہتا ہے اس کے پاس صحیح و سالم آنکھیں ہونی چاہئیں اور ان آنکھوں پر پردے بھی نہ پڑے ہوں۔
قرآن مجید بھی سورج کی طرح ہے یعنی ہدایت قرآن اس صورت میں حاصل ہوگی جب چشمِ بینا ہو اور اس پر پردے حائل نہ ہوں۔ خدا وند عالم نے دو کتابیں ںنازل فرمائی ہیں۔
ایک تدوینی کتاب یعنی قرآن مجید اور دوسری تکوینی کتاب یعنی ایک ایسی کتاب جو کسی شخص کے اندر سمائی ہوئی ہو یعنی تمام قرآنی حقائق اور ظاہر و باطن قرآن اس کے علم میں ہوں۔ تمام قرآنی معارف اس کی عقل میں رواں دواں ہو، قرآنی اخلاق اس کی صفات میں مجسم ہو، سب کے سب قرآنی احکام اس کے اعمال میں جھلکتے ہوں اور ایسی شخصیت کتابِ ناطق "صاحب الزمان و العصر" عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ذات اقدس ہیں۔
ان دو سورج (قرآن و اہل بیت ع)سے رابطہ کے لئے انسان سب سے پہلے بصیرت پیدا کرے پھر عقل کی آنکھوں سے بُرائی کے پردوں کو ہٹائے اور اس کے بعد حقائق قرآن سمجھنے کی لیاقت پیدا کرے اور اسی کے ساتھ امام زمانہ عجل کی طرف سے ہونے والے خاص لطف و کرم سے بہرہ مند ہو۔ (تب جاکر انسان قرآن و اہلبیت علیہم السلام سے رابطہ پیدا کرسکتا ہے۔)
آپ نوجوان جو یہاں موجود ہیں اپنی زندگی کی ایک ایسی منزل میں ہیں کہ آپ اس نعمت کی قدر نہیں جانتے۔ یہ جوانی انسان کی بہار کا زمانہ ہے بالکل اس دنیا کے موسمِ بہار کی طرح کہ جس میں اگر دانہ زمین پر ڈالا جائے تو وہ بہت تیزی سے نشو ونما پاتا ہے لیکن گرمی کے موسم میں ایسا نہیں ہوتا۔ آپ اس وقت زندگی کے اس موسم میں ہیں کہ اگر اس میں علم و عمل کے بیج بوئے جائیں تو آپ کے نفوس سر سبز و شاداب ہو جائیں گے ، اس نعمت کی قدر کیجئے۔ اگر آپ اس پروگرام کے مطابق آگے بڑھے تو دنیوی اور اُخروی دونوں سعادتیں محفوظ ہو جائیں گی۔
امام زمانہ سے رابطہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں، مثال کے طور پر یہ پتھر کی دیواریں جو آپ دیکھ رہے ہیں طلوع آفتاب سے لے کر غروب تک اس کے سامنے ہیں لیکن کیا انہوں نے سورج سے استفادہ کیا؟ ہر گز نہیں، اسی کے برعکس جو دانہ پہاڑ کے دل میں پوشیدہ ہے یہاں تک کہ سورج کے سامنے بھی نہیں ہے مگر سورج سے توانائی حاصل کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر آپ امام زمانہ عجل کے الطاف خاص سے بہرہ مند ہونا چاہتے ہیں تو آپ ان کی معرفت حاصل کریں، ان کے بارے میں جستجو کریں، امام زمانہ عجل دیکھتے ہیں ، سنتے ہیں مگر ان کے وجود سے کسب فیض تمام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس حدیث کو شیعہ و سنی دونوں نے نقل کیا ہے۔ اس حدیث پر عقل حیران ہوتی ہے ۔پیغمبر اسلامۖ نے فرمایا ''اَلْمَھْدِیُّ طَاْوُوْسُ اَھْلِ الْجَنَّةِ''در اصل پیغمبر اسلامۖ کا فرمانا آسان ہے لیکن ہمارے لئے سمجھنے میں بہت سے اشکالات پیدا ہوتے ہیں۔ جنت جمال کا خزانہ ہے ۔ وہ جنت کہ جس میں صورت یوسف صدیق چودہویں کے چاند کی طرح روشن ہے، طلعت موسی ابن عمران ہے، جمال عیسیٰ ابن مریم ہے، ابراہیم خلیل الرحمن علیہم السلام کی صورت ہے ، ان حضرات کے ہوتے ہوئے بھی "طاؤوس اہل جنت امامِ زمانہ ہیں" یہ کیسا باطن ہے کہ جس کا ظاہرایسا ہے!!! ہم نے امام زمانہ کے حضور میں ایک عمر گذاری ہے لیکن ہم ان کو کہاں پہچان پائے؟
افسوس کہ ہماری عمر گذر گئی اورہم اس نعمت کی قدر نہ کر سکے۔ تم میں جو شخص بھی نماز اوّل وقت پڑھے گا، گناہوں سے پرہیز اور واجبات کو بجا لائے گا اس کا مقام حجت خدا امام سید الساجدین کی حدیث کے مطابق یہ ہو گا۔جسے شیخ صدوق نے نقل کیا ہے کہ ''جو شخص زمانۂ غیبت میں اس مذہب پر باقی رہے اور اس عقیدے سے نہ پھرے تو اس شخص کا ثواب جنگ بدر و اُحد میں شہید ہونے والے ہزار شہیدوں کے برابر ہوگا''۔آپ لوگوں کا مقام کتنا عظیم ہے، اس مقام کو حاصل کرنے کا طریقہ درجہ ذیل ہے ۔
معرفت امام کے لئے چند چیزیں ضروری ہیں:
_ آج ہی سے نماز کو ہر کام سے پہلے انجام دیں۔
_ خدا سے اپنے رابطہ کو مضبوط بنائیں۔
_ مفاتیح الجنان سے دعائے عہد پڑھیں۔
_ اپنی آنکھوں کو نامحرم سے محفوظ رکھیں۔
_ شکم کو حرام غذا سے بچائیں۔
_ واجبات کو ان کے وقت میں انجام دیں۔
_ روزانہ قرآن کی کم از کم پچاس آیتوں کی تلاوت کریں۔
_ ہر روز سورہ یٰسین کی تلاوت کریں۔اس سے دنیا و آخرت میں سعادت نصیب ہوگی۔راہ سعادت یہی ہے جسے خود امام سجاد علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے ۔"يؤمنون بالغيب" میں غیب سے مراد حجة ابن الحسن عجل الله تعالى فرجه الشريف ہیں۔
یہ نشست امام زمانہ عجل کے نام مبارک سے شروع ہوئی تھی اور اب آپ ہی کے نام نامی پر ختم ہوتی ہے ۔ اَلَّلھُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ ابْنِ الْحَسَنِ...'
Comments powered by CComment