اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام

امام حسین علیہ السلام
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

مؤلف:    اقبال حیدر حیدری

اگر ھم عزاداری کرتے ھیں تو اس کا کوئی ھدف اور مقصد هونا چاہئے، کیونکہ ھر عمل کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور هوتا ھے، لہٰذا اگر ھم مجالس برپا کرتے ھیں ، آنسو بھاتے ھیں ، سینہ زنی کرتے ھیں، وقت صرف کرتے ھیں اور پیسہ خرچ کرتے ھیں تو اس کا مقصد کیا ھے؟ ھمیں اس بات پر توجہ دینا چاہئے کہ اگر یہ سب کچھ انجام دیتے ھیں تو کس مقصد کے تحت؟
چنانچہ اگر ھم عزادری کا مقصد سمجھنے چاھیں تو سب سے پھلے ھمیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کا مقصد سمجھنا هوگا، کیونکہ جس مقصد کے تحت ھمارے مولا و آقا حضرت امام حسین علیہ السلام نے اتنی بڑی قربانی پیش کی کہ جس کی تاریخ میں مثال نھیں ملتی، اپنی اور اپنے عزیز و اقارب کے قربانی پیش کی، تو ضرور کوئی مقصد رھا هوگا، آپ نے مدینہ سے روانگی کے وقت وہ مقصد لوگوں کے سامنے واضح کردیا تھا، چنانچہ امام حسین علیہ السلام کا فرمان ھے:
”۔۔۔ و انما خرجت اطلب الصلاح فی امة جدی محمد (ص) اٴرید آمر بالمعروف وانھیٰ عن المنکر، اٴسیر سیرة جدی، و سیرة ابی علی بن ابی طالب“۔[1]
”میں اپنے جد رسول اللہ کی امت کی اصلاح کے لئے نکل رھا هوں، میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کرنا چاھتا هوں،اور میں اپنے نانا اور اپنے والد گرامی علی بن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت پر عمل کروں گا“۔
پس معلوم یہ هوا ھے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام امت اسلام کی اصلاح، امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی علیہ السلام کی سیرت بتانے کے لئے مدینہ سے روانہ هوئے ، لہٰذا ھمیں بھی امت اسلامیہ کی اصلاح کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، معاشرہ میں پھیلی هوئی برائیوں کو ختم کرنا چاہئے، اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر جیسے اھم فریضہ پر عمل کرنا چاہئے، نیز سیرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور سیرت علی علیہ السلام پر عمل کرتے هوئے اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہئے، اور جب ھماری مجالسوں میں ان باتوں پر توجہ دی جائے گی تو یقینا عزاداری کے مقاصد پورے هوتے جائیں گے ھمارا معاشرہ نمونہ عمل قرار پائے گا، اور معنوی ثواب سے بھرہ مند هوگا، لیکن اگر ھم نے معاشرہ میں پھیلتی هوئی برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کی، اور لوگوں کو نیکیوں کا حکم نہ دیا تو مقصد حسینی پورا نہ هوگا، ھم برائیوں میں مبتلا رھیں اور خود کو امام حسین علیہ السلام کا ماننے والا قرار دیں، ھمارے معاشرے میں برائیاں بڑھتی جارھی هوں اور ھم خود کو امام صادق علیہ السلام کے مذھب کا پیرو کار قرادیں، واقعاً ھمیں شرم آنا چاہئے، چنانچہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”کونوا لنا زیناً و تکونوا علینا شیناً“[2] (اے ھمارے شیعوں ھمارے لئے زینت کا باعث بنو، ھماری بدنامی کا باعث نہ بنو) واقعاً یہ غور و فکر کا مقام ھے!!
کتنے افسوس کا مقام ھے کہ قوم میں بعض نئی نئی چیزیں پیدا هو رھی ھیں اور ھم خاموش بیٹھے ھیں ، اگر ھم نے ابھی سے ان پر توجہ نہ کی تو وہ نئی چیزیں ، نئی چیزیں نھیں رہ جائیں گی بلکہ وہ دین کا جزبن جائیں گی، اور اس وقت ان کا ختم کرنا مشکل هوگا، لیکن جو لوگ بدعت ایجاد کرتے ھیں کیا وھی عند اللہ و رسول(ص)جواب دہ هوں گے، علماء اور ذاکرین کی کوئی ذمہ داری نھیں ھے، ھرگز ایسا نھیں ھے، بلکہ ھم سب ذمہ دارھیں۔
چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدعت کے سلسلہ میں علماء کو ذمہ داری کا احساس دلاتے هوئے فرماتے ھیں:
”جب میری امت میں بدعتیں ظاھر هونے لگیں تو علماء کی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنے علم و دانش کے ذریعہ میدان میں آئیں (اور ان بدعتوں کا مقابلہ کریں) اور اگر کوئی ایسا نھیں کرتا تو اس پر خدا کی لعنت اور نفرین هو!“[3]

امر بالمعروف و نھی عن المنکر ھم یھاں پر امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی اھمیت کے سلسلہ میں معصومین علیھم السلام سے منقول چند احادیث کو بیان کرتے ھیں، تاکہ اس کی اھمیت کا اندازہ لگایا جاسکے، کیونکہ ھمارے معاشرہ کے بعض ذمہ دار حضرات بھی اس فریضہ الٰھی کی نسبت کم توجہ دیتے ھیں، جبکہ ھمارے یھاں جس طرح فروع دین میں نماز واجب ھے، اسی طرح امر بالمعروف و نھی عن المنکر بھی واجب ھے، ھم خود تو نیکیاں انجام دیتے رھیں اور جنت میں جانے کی کوشش کرتے رھیں لیکن اپنے بھائی بہنوں کے سلسلہ لاپرواھی کریں، ھم خود تو برائیوں سے دور رھتے هوں اور خود جہنم کی جلتی هوئی آگ سے ڈرتے هوئے برائیوں سے دور رھیں لیکن اپنے رشتہ داروں اور اپنی قوم والوں کے بارے میں توجہ نہ کریں!!
ھمیں معصومین کے کلام پر توجہ کرنا هوگی، تاکہ ھمیں معلوم هوجائے کہ امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی کتنی زیادہ اھمیت ھے، چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام نے اس سلسلہ میں فرمایا:
”ان الامر بالمعروف والنھی عن المنکر سبیل الانبیاء، ومنھاج الصالحین، فریضة عظیمة بھا تقام الفرائض، و تاٴمن المذاھب، وحل المکاسب، وترد المظالم وتعمر الارض، وینتصف من الاعداء ویستقیم الامر، فانکروا بقلوبکم، والفظوا بالسنتکم، وصکّوا بھا جباھھم، ولا تخافوا فی الله لومة لائم۔۔۔“[4]
” امر بالمعروف اور نھی عن المنکر انبیاء (علیھم السلام) کا راستہ اور صالحین کا طریقہ کار ھے، یہ ایسا عظیم فریضہ ھے جس کے ذریعہ دوسرے تمام واجبات برپا هوتے ھیں، ان دو واجبوں کے ذریعہ راستہ پُر امن، درآمد حلال اور ظلم و ستم دور هوتا ھے، ان کے ذریعہ زمین آباد هوتی ھے اور دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ھے اور صحیح امور انجام پاتے ھیں، لہٰذا اگر تم کسی برائی کو دیکھو تو (پھلے) اس کا دل سے انکار کرو اور پھر اس انکار کو اپنی زبان پر لاؤ ، اور پھر اپنے ھاتھوں سے (برائیوں سے باز نہ آنے والے کے) منھ پر طمانچہ ماردو، اور راہ خدا میں کسی طرح کی سرزنش اور ملامت سے نہ گھبراؤ“[5]
اسی طرح امام باقر علیہ السلام معاشرہ میں پھیلتی هوئی برائیوں کے سامنے خاموش رہنے والے افراد کو متنبہ کرتے هوئے فرماتے ھیں:
”اوحی الله تعالیٰ الی شعیب النبی(ع) إنی لمعذب من قومک مائة اٴلف: اربعین اٴلفا من شرارھم، وستین الفاً من خیارھم، فقال یارب ھوٴلاء الاشرار، فما بال الا خیار؟
فاوحی الله عزّ وجلّ الیہ: اٴنھم داھنوا اھل المعاصی، ولم یغضبو الغضبی“۔[6]
”خداوندعالم نے جناب شعیب نبی علیہ السلام پر وحی نازل کی کہ میں تمھاری قوم کے ایک لاکھ آدمیوں پر عذاب نازل کروں گا، جس میں چالیس ہزار بُرے لوگ هوں گے، اور ساٹھ ہزار اچھے لوگ، یہ سن کر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے خداوندعالم کی بارگاہ میں عرض کی: بُرے لوگوں کا حال تو معلوم ھیں لیکن اچھے لوگوں کو کس لئے عذاب فرمائے گا؟
خداوندعالم نے دوبارہ وحی نازل فرمائی کہ چونکہ وہ لوگ اھل معصیت اور گناھگاروں کے ساتھ سازش میں شریک رھے، اور میرے غضب سے غضبناک نھیں هوئے“۔
یعنی برے لوگوں کو برائی کرتے دیکھتے رھے اور ان خدا کے قھر و غضب سے نہ ڈرایا۔

مصائب میں ضعیف روایات سے اجتناب امام حسین علیہ السلام اور خاندان عصمت و طھارت کے مصائب پر گریہ کرنا اور آنسوں بھانا بھت عظیم ثواب رکھتا ھے، جیسا کہ متعدد احادیث میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ هوا ، لہٰذا ھمیں چاہئے کہ امام حسین اور اھل بیت علیھم السلام کے مصائب پر روئیں اور آنسوں بھائیں، ھمارے ذاکرین کو اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ رونے اور رلانے کے سلسلہ میں معتبر مقاتل سے روایات بیان کریں، اور ضعیف روایتوں کے بیان سے اجتناب کریں، کیونکہ یہ بات مسلم ھے کہ ھماری احادیث کے درمیان بعض جعلی روایات بھی شامل کردی گئی ھے، یہ ھماری مجبوری ھے، لیکن خداوندعالم نے ھمیں عقل جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا ھے، لہٰذا ھمیں اپنی عقل سے کام لینا چاہئے، مثال کے طور پر جب ھم نے ائمہ معصومین علیھم السلام کو مستحکم دلائل کے ذریعہ معصوم مان لیا اور یہ قاعدہ ثابت کردیا کہ معصوم سے کوئی غلطی اور خطا سرزد نھیں هوسکتی، چاھے وہ نبی هو یا امام، تو پھر اسی کسوٹی پر ھمیں روایات کو دیکھنا هوگا، اگر کسی روایت میں کسی معصوم کی طرف خطا یا غلطی کی نسبت دی گئی ھے تو وہ روایت صحیح نھیں هوسکتی، لہٰذا درایت کو روایت پر قربان نھیں کیا جاسکتا۔
جیسا کہ بعض ذاکرین بیان کرتے ھیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی آخری عمر میں لوگوں کو جمع کرکے کھا کہ جس کسی کا مجھ پر کوئی حق هو وہ آئے اور اپنا حق لے لے، چنانچہ مجمع سے ایک شخص نے کھا: یا رسول اللہ! ایک مرتبہ جنگ میں آپ نے کوڑا هوا میں لھرایا لیکن وہ مجھے لگ گیا، میں اس کا بدلہ لینا چاھتا هوں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کھا: آؤ اور مجھ سے بدلہ لے لو، وہ شخص اٹھا اور آپ کے پاس آیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی پیٹھ حاضر کردی، اس نے کھا: یا رسول اللہ! جس وقت میری پیٹھ پر کوڑا لگا تھا تو اس وقت میری پیٹھ برہنہ تھی، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی قمیص نکال دی، لیکن وہ شخص کوڑا مارنے کے بجائے آپ کی پیٹھ کا بوسہ لینے لگا۔۔۔۔۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس حدیث میں رسول اسلام کو لوگوں کے حقوق پر توجہ رکھنے والا قرار دیا ھے لیکن اس روایت میں بڑے سلیقہ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف خطا اور غلطی کی نسبت دی گئی ھے کہ راستہ میں غلطی سے کوڑا لگ گیا، تو اگر ھم معصومین علیھم السلام کو معصوم مانتے ھیں تو اس قاعدہ کے تحت اس روایت کو صحیح نھیں مان سکتے کیونکہ اس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف غلطی کی نسبت دی گئی ھے، لہٰذا ھمیں روایات نقل کرنے سے پھلے مسلم اصول اور قواعد کے تحت تجزیہ و تحلیل کرنا چاہئے تاکہ عوام الناس سے ایسی ضعیف روایتیں نہ پہنچیں، اور ان کے عقائد میں تزلزل پیدانہ هو۔

شاعر اور ماتمی انجمنوں کی ذمہ داری شاعر اھل بیت(ع)، نوحہ خوان یا مرثیہ خوان اور ماتمی انجمن بھی ھماری مجالس میں اھم کردار ادا کرتے ھیں، اور ان سب کا عظیم ثواب روایات میں بیان هوا، معصومین علیھم السلام کی سیرت بھی یھی رھی ھے کہ اھل بیت علیھم السلام کی مدح خوانی کرنے والے شاعروںکو تحفہ اور انعامات سے نوازتے تھے، لہٰذا ھمارے شعراء کی بھی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنے اشعار کے لئے دینی اھم کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ انھیں سے حاصل شدہ مطالب کے تحت ان کے اشعار هوں، اور اس میں بھی صرف معتبر روایات کی بنا پر اشعار کھیں، اھل بیت علیھم السلام کی مدح میں غلو سے کام نہ لیں، کیونکہ خود معصومین علیھم السلام نے ھمیں غلو سے روکا ھے۔ چنانچہ حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام نے غلو کے بارے میں فرمایا:
”ان مخالفینا وضعوا اٴخباراً فی فضائلنا وجعلوھا علی ثلاثة اقسام: احدھا: الغلو، و ثانیھا: التقصیر فی امرنا، و ثالثھا: التصریح مثالب اعدائنا“۔[7]
”ھمارے مخالفوں نے ھمارے فضائل کے سلسلہ میں بھت سی رواتیں گڑھی ھیں، جن کو تین حصوںمیں تقسیم کیا ھے، ان روایات کا ایک دستہ غلوّ پر مشتمل ھے، اور دوسرے دستہ میں ایسے مطالب بیان هوئے ھیں جن ذریعہ ھماری قدر و منزلت کھٹائی جاتی ھے، اور تیسرا دستہ وہ روایت ھے جن میں ھمارے دشمنوں کو بُرا بھلا کھا گیا ھے اور ان کے عیوب کو آشکار اور برملا کیا گیا ھے“۔
لہٰذا ھمیں اھل بیت کے فضائل بیان کرنے میں غلو سے کام نھیں لینا چاہئے، نیز نہ ھی اھل بیت علیھم السلام کی مدح میں کمی کرنا چاہئے، جو حق ھے وھی بیان هونا چاہئے نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔ نیز ھماری ماتمی انجمنوں اور نوجوانوں کو بھی شھداء کربلا کے ماتم کے لئے آگے بڑھنا چاہئے اور غم حسین منانا چاہئے، کیونکہ غم حسین منانے کا بھت عظیم ثواب ھے، لیکن اگر ھمارا مقصد غم حسین منانا ھے تو پھر ھمیں دوسرے غلط کاموں سے دور رہنا چاہئے، اختلافات اور لڑائیاں ماتم حسین میں!! نھیں ھرگز نھیں!! در حقیقت ماتم کرتے وقت ھماری آنکھوں سے آنسو بہنا چاہئے لیکن بعض نوجوانوں کو ماتم میں ہنستے هوئے دیکھا جاتا ھے تو عجیب لگتا ھے کہ ایک طرف سے یا حسین کھا جارھا ھے اور سینہ پر ماتم هورھا ھے لیکن آنکھ میں آنسوں نھیں تو کوئی بات نھیں ، کم از کم ھماری صورت رونے والوں کی طرح تو هو، اور اگر کوئی ماتم کرتے هوئے مسکرائے تو کتنے افسوس کی بات ھے!!

خواتین کی ذمہ داری ھماری مائیں اور بہنیں اس عزاداری میں برابر کی شریک ھیں ، مجالس میں عورتوں کی تعداد بھی کم نھیں هوتی اور ان کی اپنی مخصوص زنانہ مجالس بھی هوا کرتی ھیں بسا اوقات تو ایسا بھی هوتا ھے کھیں اگر مردانہ مجالس برپا نھیں هوتیں تو کم ازکم زنانہ مجالس تو هوتی ھی ھیں، اور مجالس میں جتنا ثواب مردوں کو ملتا ھے اتنا ھی ثواب عورتوں کو بھی ملتا ھے، کیونکہ ثواب میں مرد و عورت برابر ھیں، چنانچہ وہ بھی ذاکر سے دینی مسائل، اعتقادی دلائل اور فضائل و مصائب اھل بیت علیھم السلام سنتی ھیں، اور مجالس میں ان کے رونے کی آوازیں بلند هوتی ھیں ، لیکن ھماری بہنوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ مجالس میں جاتے وقت اھل عزاء جیسے لباس پہنیں، پردہ کا خیال رکھیں، کسی نامحرم مرد پر نگاہ نہ ڈالیں، تاکہ ثواب کی غرض سے مجالس میں جاتی ھیں تو ثواب ھی حاصل کریں ایسا نہ هو کہ ظاھری طور پر تو مجلس جانے کا ارادہ کیا ھے لیکن راستہ میں گناہوں کی مرتکب هوجائیں، لہٰذا پردہ کا پورا پورا خیال رکھیں، اور اپنے شوھر یا ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھر سے قدم نہ نکالیں، اور دیگر کاموں میں حضرت زھرا سلام اللہ علیھا کو نمونہ عمل قرار دیں، اور خود کو ان کی کنیز سمجھیں، تاکہ کل روز قیامت شہزادی کے سامنے سرخ رو رھیں ۔
آخر کلام میں ھم خداوندعالم کی بارگاہ میں دست دعا بلند کرتے ھیں کہ وہ ھمیں دیندار بننے کی توفیق عنایت کرے، اور ھر طرح کے گناہوں سے دور رہنے کی توفیق دے، نیز ھماری عزاداری ”مقصد حسینی“ کی تکمیل کا سبب قرار پائے۔(آمین یا رب العالمین)

والسلام علیکم و رحمة الله و برکاتہ
اقبال حیدر حیدری

حواجات:
[1] المناقب، ج۴، ص۸۹۔
[2] وسائل الشیعہ، ج ۱۲، ص ۸۔
[3] میزان الحکمة، ح ۱۶۴۹۔
[4] تھذیب الاحکام، ج۶، ص۱۸۰۔
[5] امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے مراتب اور درجات کے سلسلہ میں فقھی کتابوں (توضیح المسائل وغیرہ ) کی طرف رجوع فرمائیں۔
[6] تھذیب الاحکام، ج۶، ص۱۸۱۔
[7] عیون اخبار الرضا ، ج۱ ، ص ۳۰۴۔

Comments powered by CComment