جو شخص امام حسین علیہ السلام کی خوشنودی خدا کے لئے اور فی سبیل الله زیارت کرے تو خداوندعالم اس کو آتش جھنم سے نجات عطا کرے گا
جو شخص امام حسین علیہ السلام کی خوشنودی خدا کے لئے اور فی سبیل الله زیارت کرے تو خداوندعالم اس کو آتش جھنم سے نجات عطا کرے گا اور قیامت کے دن اس کو امان دے گا، اور خداوندعالم سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب نہیں کرے گا مگر یہ کہ خداوندعالم اس کی حاجت پوری کردے گا۔
روایت اول :
محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے:
"مُرُوا شِیعَتَنَا بِزیَارَةِ قَبْر الْحُسَیْنِ بْنِ عَلیٍّ علیہ السلام، فَاِنَّ اِتیَانَہُ مُفْتَرَضٌ عَلَی کُلِّ مُوٴْمِنٍ یُقِرُّ لِلحُسَیْنِ بِالاِمَامَةِ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔[1]
"ہمارے شیعوں کو زیارت قبر حسین علیہ السلام کی طرف حکم دو کیونکہ آپ کی زیارت ہر اس مومن پر لازم ہے جو خدا کی طرف سے آپ کی امامت کا اقرار کرتا ہے"۔
روایت دوم:
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"مَنْ زَارَ قَبْرَ الْحُسَیْنِ لِلّٰہِ وَفی اللّٰہِ، اٴعْتَقَہْ اللّٰہ مِنَ النّٰارِ، وَآمَنَہُ یَوْمَ الْفَزَعِ الاٴکبَرِ، وَلَمْ یَسئَلِ اللّٰہَ حَاجَةً مِن حَوَائِجِ الدُّنیاَ وَالآخِرَةِ اِلاّ اٴعطاَہُ"۔[2]
"جو شخص امام حسین علیہ السلام کی خوشنودی خدا کے لئے اور فی سبیل الله زیارت کرے تو خداوندعالم اس کو آتش جھنم سے نجات عطا کرے گا اور قیامت کے دن اس کو امان دے گا، اور خداوندعالم سے دنیا و آخرت کی کوئی حاجت طلب نہیں کرے گا مگر یہ کہ خداوندعالم اس کی حاجت پوری کردے گا"۔
روایت سوم:
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"مَنْ لَمْ یَاٴْت قَبْرَ الْحُسَیْنِ حَتّٰی یَمُوتَ، کاَنَ مُنْتَقَصَ الدِّیْنِ، مُنْتَقَصَ الْاٴِیْمٰانِ، وَاِنْ اٴُدْخِلَ الْجَنَّةَ کاَنَ دُوْنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ فی الْجَنَّةِ"۔[3]
"جو شخص امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے نہ جائے یھاں تک کہ مرجائے تو ایسا شخص دین و ایمان کے لحاظ سے ناقص ہے، اور اگر جنت میں داخل هوجائے تو اس کا درجہ تمام اھل ایمان سے کم ہے"۔
روایت چہارم:
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:
"مَنْ زَارَ قَبْرَالحُسَیْنِ بِشَطِّ الفُرَاتِ،کاَنَ کَمَنْ زَارَ اللّٰہَ فَوْقَ عَرْشِہِ"۔[4]
"جو شخص کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے اس شخص کے مانند ہے کہ جس نے فراز عرش پر خدا کی زیارت کی هو"!
امام حسین علیه السلام کے زائروں کی عظمت
ابو الحسن جمال الدین علی بن عبد العزیز موصولی حلّی بزرگ ادیب، اھل بیت علیہم السلام کے مداح، ممتاز شاعر اور ایک فاضل انسان تہے کہ جو شہر حلہ میں زندگی بسر کیا کرتے تہے، ان کا انتقال ۷۵۰ ھ میں شہر حلہ میں هوا اور آپ کا مزار شہر حلہ کی مشهور و معروف زیارتگاہ ہے۔
موصوف (جیسا کہ قاضی نور الله شوشتری نے کتاب "المجالس" میں اور زنوزی نے کتاب "ریاض الجنة" میں بیان کیا ہے) ناصبی ماں باپ سے پیدا هوئے، ان کی والدہ نے نذر کی تھی کہ اگر ان کے یھاں لڑکا پیدا هوا تو اس کو (حضرت امام) حسین (علیہ السلام) کے زائروں کی ڈاکا زنی اور غارت گری کے لئے تربیت کروں گی، تاکہ زائروں کو غارت کرے اور ان کو قتل کردے!
جب موصوف کی پیدائش ہوئی اور عنفوان شباب میں قدم رکھا تو اپنے نذر پوری کرنے کے لئے زائروں کے راستہ پر بھیجا اور وہ جب کربلا کے نزدیک مسیب کے علاقے میں پھنچے ایک جگہ ان کو نیند آگئی اور خواب میں دیکھا کہ زائروں کا ایک قافلہ راستہ سے گزر رھا ہے اور زائروں کے قافلے کی گرد و غبار اس کے چہرے پر آرھی ہے، اسی موقع پر انھوں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہوگئی ہے، حکم ہوا کہ اس کو دوزخ میں ڈال دو، لیکن اس پاک گرد و غبار کی وجہ سے آگ اس کے چہرے تک نہیں پھنچ رھی ہے، اسی موقع پر ان کی آنکھ کُھل گئی درحالیکہ اپنے بُری نیت سے گھبرائے ہوئے تہے۔
اس کے بعد سے موصوف اھل بیت علیہم السلام کی ولایت کے شیدائی بن گئے اور ایک طولانی مدت تک کربلا میں مقیم اور حائر حضرت امام حسین علیہ السلام میں مقیم رہے اور اس وقت سے اھل بیت علیہم السلام کی مدح سرائی میں مشغول رہے، اور ایک نورانی رباعی کے ذریعہ اپنی مدح سرائی کا آغاز کیا:
اِٴذَا شِئْتَ النَّجٰاةَ فَزُرْ حُسَیناً
لِکَیْ تَلْقٰیٰ اِلا لہ قَرِیْرَ عَیْنِ
فاِنَّ النارَ لَیْسَ تَمَسُّ جِسْمَاً عَلیہِ غُبارُ زوَّارِ الحسینِ.[5]
سلیمان اعمش کا عجیب واقعہ
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ امام حسین علیه السلام کی کرامت و مہربانی کا ایک عجیب واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں نے شیعہ علماء کی تالیفات میں دیکھا کہ سلیمان اعمش کہتے ہیں کہ: میں کوفہ میں رہتا تھا میرا ایک پڑوسی تھا اور میں اس کے پاس آمد و رفت اور نشست و برخاست کیا کرتا تھا، ایک شب جمعہ اس کے پاس گیا اور اس سے کہا: امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے سلسلے میں تمھارا کیا نظریہ ہے؟ اس نے کہا: بدعت اور شرعی قوانین کے خلاف ہے اور بدعت گمراھی ہے اور جو شخص بھی گمراھی اور ضلالت میں مبتلا ہو وہ دوزخی ہے!!
سلیمان نے کہا: حالانکہ میرا پورا وجود غصے سے بھر چکا تھا اس کے پاس سے اٹھا اور اپنے دل میں کہاکہ: سحر کے وقت اس کے پاس جاؤں گا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان کروں گا، اگر اپنی دشمنی اور جاھلانہ تعصب پر اصرار اور ہٹ دھرمی کی تو اس کو قتل کردوں گا۔
چنانچہ جب سحر کا وقت ہوا تو میں اس کے پاس جانے کے لئے روانہ ہوا، اور اس کے گھر پر دق الباب کیا اور اس کا نام لے کر آواز دی، اچانک اس کی بیوی نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ رات کے پھلے حصہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا گیا ہے، چنانچہ میں بھی اس کے پیچہے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے روانہ ہوگیا۔
جب میں روضہ مقدس میں وارد ہوا تو میں نے اپنے اس پڑوسی کو دیکھا جو سجدہ کے عالم میں خدا سے رو روکر مناجات اور توبہ کی درخواست کر رھا ہے۔
ایک طولانی مدت کے بعد اس نے سجدہ سے سر اٹھایا اور اس نے مجہے اپنے پاس کھڑا ہوا دیکھا، میں نے اس سے کہا: تم کل رات یہ کہہ رہے تہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت بدعت ہے اور بدعت گمراھی ہے اور ہر گمراہ آتش جھنم میں ہے، لیکن آج تم کیسے حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہ پر آگئے ہو اور زیارت کر رہے ہو؟
اس نے کہا: اے سلیمان! مجہے ملامت نہ کرو! میں پھلے اھل بیت علیہم السلام کی ولایت و امامت کا قائل نہیں تھا یھاں تک کہ کل رات تک میں نے ایک خواب دیکھا جس کی وجہ سے میں حیرت و تعجب میں پڑ گیا اور خوف و وحشت میں مبتلا ہوگیا۔
میں نے اس سے کہاکہ: تم نے کیا خواب دیکھا ہے؟ اس نے کہا: ایک بلند مرتبہ اور با عظمت انسان کو دیکھا کہ جس کا قد درمیانی تھا نہ زیادہ بلند تھا اور نہ پست قد، اس کے جمال و ھیبت اور ارزش و کمال کی توصیف بیان کرنے سے عاجز ہوں، ان کے اردگرد بہت سے لوگ تہے اور تیزی کے ساتھ روانہ تہے ان کے آگے آگے ایک سوار تھا کہ جن کے سر پر ایک تاج تھا اس تاج کے چار رکن تہے اور ہر رکن پر ایک گوہر لگا ہوا تھا جس کی تینوں سمت چمک رہیں تھی۔
میں نے ان بزرگوار کے خادموں میں سے دریافت کیا: یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ محمد مصطفی (ص) ہیں! میں نے سوال کیا: یہ دوسرے کون ہیں؟ انھوں نے کہا؟ یہ علی مرتضی جانشین رسول الله ہیں! اس کے بعد میں نے اس نورانی فضا پر نظر ڈالی کہ اچانک ایک نور کا ناقہ دیکھا کہ جس پر نور کا کجاوہ تھا اور اس میں دو خواتین بیٹھی ہوئی تھیں اور وہ ناقہ آسمان و زمین کے درمیان پرواز کر رھا تھا! میں نے کہا: یہ ناقہ کس کا ہے؟ انھوں نے کہا: یہ جناب خدیجہ کبریٰ اور فاطمہ زہرا علیہما السلام ہیں، میں نے کہا: یہ جوان کون ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ حسین بن علی (علیہ السلام) ہیں، میں نے کہا: یہ گروہ کہاں جا رھا ہے؟ ان سب نے کہا: یہ قافلہ مقتول جفا، شھید کربلا حسین بن علی مرتضیٰ کی زیارت کے لئے جا رھا ہے۔
چنانچہ میں اس ناقہ کی طرف گیا جس میں جناب فاطمہ زہرا تشریف رکھتی تھیں کہ اچانک میں نے ایک لکھا ہوا نامہ دیکھا کہ آسمان سے زمین کی طرف آرھا ہے! میں نے سوال کیا یہ نامہ کیسا ہے؟ انھوں نے کہا: یہ وہ نامہ ہے کہ شب جمعہ زیارت امام حسین علیہ السلام کرنے والوں کے لئے آتش جھنم سے امان لکھی ہوئی ہے۔
میں نے اس امان نامہ کی درخواست کی، مجھ سے کہا گیا: مگر تم یہ نہیں کہتے کہ زیارت حسین بدعت ہے؟! یہ امان نامہ تم کو نہیں مل سکتا، مگر یہ کہ امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کرو اور ان کے فضل و شرف پر عقیدہ رکھو!
خوف و وحشت کے عالم میں خواب سے چونکا، اور اسی وقت اپنے مولا و آقا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ارادہ کیا، اور اب خدا کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کر رھا ہوں اور خدا کی قسم اے سلیمان! ان کی قبر سے جد ا نہیں ہوں گا یھاں تک کہ میری روح میرے بدن سے پرواز کر جائے[6]!!
حاج علی بغدادی، مفاتیح الجنان[7]میں محدث قمی کی نقل کی بنا پر حضرت امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے وقت امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا اعمش کا واقعہ صحیح ہے؟ تو امام زمانہ (عج) نے فرمایا: جی ھاں، صحیح اور کامل ہے۔
---------------------------
[1] کامل الزیارات، ص۱۲۱؛ جامع الاخبار، ص۲۳، فصل نمبر ۱۱؛ بحار الانوار، ج۹۸، ص۳، باب۱، حدیث۸.
[2] کامل الزیارات، ص۱۴۵، باب۵۷، حدیث۷؛ بحار الانوار، ج۹۸، ص۲۰، باب۳، حدیث۹.
[3] کامل الزیارات، ص۱۹۳، باب۷۸، حدیث۲؛ کتاب المزار، ص۵۶، باب۲۶، حدیث۲؛ بحار الانوار، ج۹۸، ص۴، باب۱، حدیث۱۴.
[4] ثواب الاعمال وعقاب الاعمال، ص۸۵؛ مستدرک الوسائل، ج۱۹، ص۲۵۰، باب۲۶، حدیث۱۱۹۴۸.
[5] "اگر کوئی روز قیامت کی نجات چاہتا ہے تو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے، تاکہ خدا کی بارگاہ میں خوشنود حاضر ہو، بے شک جھنم کی آگ اس جسم تک نہیں پھنچ سکتی کہ جس پر زائرین حسین (علیہ السلام) کی گرد و غبار ہو"۔ الغدیر، ج۶، ص۱۲.
[6] بحار الانوار، ج۴۵، ص۴۰۱، باب۵۰، حدیث۱۲؛ مستدر ک الوسائل، ج۱۰، ص۲۹۵، باب۴۲، حدیث۱۲۰۴۶؛ منتخب طریحی، ص۱۹۵.
[7] مفاتیح الجنان، ص ۸۰۱.
http://shiastudies.net/
Comments powered by CComment