پروفیسر اختر الواسع
22 نومبر ، 2012
محرم کا مہینہ اسلامی مہینوں میں کئی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ تاریخ کے بہت سے اہم واقعات اس ماہ میں پیش آئے ۔ لیکن دو واقعات ایسے ہیں جو اس مہینے کے تصور سے بنیادی سطح پرجڑے ہوئے ہیں : لوگ رسول اللہ صلوسلم عل کی مدینہ ہجرت اور دوسرے نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا میں شہادت ، ۔ ہجرت کا واقعہ بھی دشمنوں سے اسلام کی حفاظت کے لیے پیش آیا اور کربلا کا واقعہ بھی اسلام اور اسلامی نظام کے خشک ہوتےہوئے شجر کی آبیاری کے لیے حق پرستوں کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کے نیتجے میں سامنے آیا، اس طرح ان دونوں واقعات میں بھی مناسبت پائی جاتی ہے ۔
کربلا کا واقعہ نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تقریباً چودہ سو سال گزرنے کے باوجود یہ واقعہ لوگوں کے ذہنوں میں اس طرح تازہ ہے جیسے یہ بس کل کی بات ہے ۔ انسانی تاریخ کے بہت سے ایسے واقعات ہیں جنہوں نے انسانی عقل و ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ جو اس کےحافظے کا انمول اور انمٹ نقش بن کر رہ گئے ۔ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا یہ واقعہ ایسا ہی ہے ۔ ایسے واقعات خواہ کتنے ہی درد ناک اور دل دوز کیوں نہ ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کائنات میں خدا کی جاری سنت اور فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ اللہ کا بنایا ہوا فطری نظام یہ ہے کہ جب بھی اس کے دین کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے ، اللہ کسی عظیم و پاک باز بندے کو دین کے مضبوط قلعے کی حفاظت و صیانت کے لیے بھیج دیتا ہے اور اس کے ذریعہ اس کی حفاظت کا کام انجام دیتا ہے ۔
ایک حدیث میں جو سنن ابوداؤد میں شامل ہے ، بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سرے پر دین کی تجدید و حفاظت کے لیے کسی بطل جلیل اور رجل عظیم کو مبعوث فرماتا ہے ۔ یہ سلسلہ قیامت تک باقی رہے گا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا شمار دین اسلام کی ان چند عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے خون سے اسلام کے شجر طوبیٰ کی آبیاری اور اس کی حفاظت و تجد ید کو اپنا اولین فریضہ تصور کیا اور حقیقت یہ ہے کہ قیامت تک کے لئے قلعۂ اسلام کی حفاظت کے لیے اپنی جان کو نچھاوڑ کر ڈالنے کی ایک بے نظیر روایت قائم کردی ۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے اس واقعے سے حوصلہ اور روحانی سبق حاصل نہ کیا ہو اور اس کے افکار و نظریات پر اس کا کوئی اثر مرتب نہ ہوا ہو۔ مہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ : ‘‘ میں نے اسلام کے شہید اعظم امام حسین کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور کربلا کے واقعات پر میں نے غور و خوض کیا ہے۔ ان واقعات کو پڑھ کر مجھ پر واضح ہوا کہ اگر ہندوستان آزادی چاہتا ہے تو اسے حضرت حسین کی سیرت و کردار کی پیروی کرنی پڑے گی ’’۔
اسلامی تاریخ میں اس بات پراہل علم و عقل کا اتفاق رہا ہے کہ نواسہ رسول صلوسلم عل کی اس شہادت نےاسلام کی رگوں میں خون تازہ کو دوڑانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ خلفائے راشدین کے عہدے کے بعد اسلامی نظام سیاست جس فساد و بگاڑ کا شکار ہوا۔ اسلام کی اجتماعی و سیاسی روح اس فساد سے ہمیشہ ابا کرتی رہی ہے۔ لیکن تاریخ کی شہادت ہے کہ اقتدار پسندی کا مزاج کسی بھی اصول و نظریے کا پابند نہیں ہوتا ۔ اس اقتدار اور جاہ طلبی نے جب اس بات کی کوشش کی کہ اسلامی اصولوں کی اپنی من مانی تفسیر کرے ، اسلامی نظام کو اس کے اصل رخ سے موڑ دے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے امت کی طرف سے فرض کفایہ کےطور پر اس نظام کی حفاظت میں اپنی قیمتی جان قربان کردی ۔ اس طرح شہادت حسین رضی اللہ عنہ حق کے لیے آخری حد تک خو د کو لٹا دینے او رنچھاور کردینے کا تاریخی استعارہ اور روشن علامت بن گئی ۔ امت کا سوادا عظم اس بات میں یقین رکھتا ہے کہ حسین کا قتل اصل میں یزید کی ہی موت ہے اور یہ کہ اسلام کی زندگی کربلا جیسے واقعات میں ہی پوشیدہ ہے:
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
چنانچہ حسینی روح اور جذبۂ ، امت میں ہمیشہ کار فرما رہا ۔ جب بھی اسلام کے کلمے کو سر بلند کرنے اور افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر (سب سے بڑا جہاد ظالم حکمراں کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے ) کے تحت وقت کی جابر طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہونے کی ضرورت پیش آئی ، حسینی جذبے سےسرشار سرمایۂ امت کی نگہبانی کرنے والوں نے کبھی اس سے دریغ نہیں کیا ۔ اسی جذبۂ شہادت و عزیمت کی میراث سنبھالے ہوئے فلسطین کےمظلومین و مستضعفین نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اپنے سینوں پر گولیاں کھارہے ہیں ۔ ظالم و سفاک صہیونی طاقتیں ان کے وجود کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لینے کے لیے آمادہ ہیں لیکن وہ اپنا سر خم کرنے اور میدان عزیمت سے پیچھے ہٹ جانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں عالم عرب میں جو عظیم انقلاب برپا ہوا اور جس نے آمرین کی حکومتوں کے تختے پلٹ دئے اور استحصال پسند جابروں اور استبداد پسندوں کی صفوں میں انتشار پیدا کر دیا، جس کی گونج اور دھمک مختلف ملکوں میں اب بھی سنائی دے رہی تھی ، بلاشبہ اس کے پس پست یہی جذبۂ حسینی کام کررہا ہے۔ اس وقت اس بات کی بھی کوشش ہورہی ہے کہ کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعے کی نئی تعبیر کی جائے اور اسے ایسے نئے معنی پہنائے جائیں جس سے اس عظیم واقعے کی اصل اہمیت و معنویت باقی نہ رہے ۔ یہ بات بلاشبہ اسلاف کرام کے نظر یہ و مسلک اور امت کے اجتماعی ضمیر سے متصادم ہے ۔ اسے کبھی بھی امت کا سواد اعظم قبول او ربرداشت نہیں کرسکتا ۔ شہادت امام حسین کے تعلق سے کسی بحث کی نئی بساط بچھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتا ۔ بلکہ راقم الحروف کی نظر میں یہ بالکل لغو ہے ۔ البتہ علامہ ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر جو کچھ لکھا ہے وہ یہاں پیش کر دینا مناسب ہوگا:
‘‘ جن لوگوں نے حضرت حسین کا قتل کیا یا اس پر اعانت کی یا اس سے راضی ہوا، اس پر اللہ کی ، ملائکہ کی اورتمام لوگوں کی لعنت ، اللہ تعالیٰ نے حضرت حسین کو اس دن (یوم عاشورہ) شہادت سے سرفراز کیا اور اس کے ذریعہ ان لوگوں کو جنہوں نے انہیں قتل کیا تھا یا ان کے قتل پر تعاون کیا تھا یا اس سے راضی ہوئے تھے انہیں اس کے ذریعے ذلیل کیا ۔ ان کی یہ شہادت اسلام کے سابق شہداء کی اتباع میں تھی ۔ وہ اور ان کے بھائی نوجوان اہل جنت کے سردار ہیں ۔ دراصل ہجرت ، جہاد اور صبر کا وہ حصہ ان کونہیں مل سکا تھا جو ان کے اہل بیت کو حاصل ہوا تھا ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت و کرامت کی تکمیل اور رفع درجات کے لیے انہیں شہادت سے سر فراز کیا ۔ ان کا قتل امت کے لیے ایک بہت بڑی مصیبت تھی اور اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہے کہ مصیبت کے وقت انالللہ و انا الیہ راجعون پڑھا جائے ۔ قرآن کہتا ہے : صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادو۔ جب ان کو کوئی مصیبت پیش آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہمیں اللہ کی طرف ہی لوٹنا ہے ۔ اللہ کی ان پر نواز شیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں’’ ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ جلد 4، ص ، 4835)
سلف صالحین کے اس سے ملتے جلتے بہت سے اقوال ہیں ۔ جن کا مطالعہ اس موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں کیا جاسکتا ہے ۔ یہ اقتباس اس لیے دیا گیا ہے کہ جو لوگ اس موقف سے ہٹ کر سوچتے ہیں انہیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ خاص طور پر علامہ ابن تیمیہ کا موقف ایسے لوگوں کی زبانوں کو بند کردینے کےلیے کافی ہے۔
بہر حال تاریخ میں شہادت و عزیمت کے واقعات ہمیشہ پیش آتےرہے ہیں اور پیش آتے رہیں گے ، لیکن حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ کئی پہلوؤں سے اپنے انداز کا منفرد واقعہ ہے ۔ رسول کانواسہ جسے رسول کی پیٹھ پر سواری کا شرف حاصل ہو ، جس کے ہونٹوں کو رسول نے چوما ہو جسے رسول نے جنت کے نوجوانوں کا سردار قرار دیا ہو، اسے احیائے اسلام کے جرم میں انتہائی بےدردی اور سفاکی سے قتل کردیا جائے ۔ اس ظلم و بربریت پر زمین و آسمان جتنا بھی ماتم کریں کم ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ ٔ شہادت کو امت کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔ وہ اس کے ذہن اور روح کا حصہ بن چکا ہے ۔ کربلا کا سانحہ اپنی تمام تر کر بنا کیوں کے ساتھ اسلام اور امت اسلام کی حفاظت کے لیے ایثار و قربانی کی تحریک دیتا رہے گا ۔
پروفیسر اختر الواسع، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سربراہ ہیں ۔
Comments powered by CComment