داعش کی تاریخ؛ بوکا جیل اور ابوبکر البغدادی

مختلف مقالات تاریخ
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

شمس الدین النقار تیونسی مصنف و روزنامہ نگار

ترجمہ: سید اعجاز حسین موسوی

 


ابوبکر بغدادی بوکا جیل میں
جس وقت امریکی حکام سن  ۲۰۰۳ عیسوی میں عراق پر قبضہ اور صدام حسین، عراق کے سابق صدر کی حکومت کامجموعی  قتل وغارت کے اسلحے بنانے کے بہانے سے تختہ پلٹنے کے لئے خود کو تیار کر رہے تھے، ہرگز ان کے ذہنوں میں یہ بات نہیں رہی ہوگی کہ ان کا یہ کام، ان ممالک اور گروہوں کے لئے ایک عظیم خدمت ثابت ہوگا جو امریکی افواج کے مشرق وسطی میں وارد ہونے کے منتظر تھے۔
جمرات کے روز مارچ ۲۰۰۳ میں صبح کے وقت، امریکی جنگی جہازوں نے عراق کے آسمان، خاص طور پر اس ملک کے دار الحکومت بغداد پر ظاہر ہوئے اور اپنے انواع  و اقسام کے مہمات، جو در حقیقت ویران کرنے اور انفجار کرنے والے مواد، قابل ہدایت میزائلوں اور خوشہ دار بموں پر مشتمل تھے،  آپس میں رقابت کرنے لگے۔
امریکی فوجوں کے بغداد پر قبضے کے بعد صدام، عراق کے اس وقت کے صدر، کے مجسمے سرنگون کئے گئے۔ عراق کے لوگوں کا اس وقت یہ ماننا تھا کہ عراق سے ہمیشہ کے لئے ڈکٹیڑر شب والی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ہے اور وہ لوگ خود کو ایک جمہوری، چند جانبی، آزادی اور دوسرے نعروں والی حکومت بننے اور اس کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہو رہے تھے، جس کا امریکیوں نے عراق پر قبضہ سے پہلے وہاں کی عوام سے وعدہ کیا تھا۔
امریکی فوج نے امنیتی کمپنی بلیک واٹر کے سپاہیوں کو کرایہ پر لیکر ان کی مدد سے اپنے نعروں اور وعدوں کو عملی کرنا شروع کر دیا، جس کے نتیجہ میں، عراقی عوام کے کچھ افراد قتل کئے گئے اور بعض دوسرے جیلوں میں بھر دیئے گئے، ان جیلوں کو بنانے کا مقصد حقوق بشر کی پامالی اور ہر اس چیز کی پامالی تھی، جو انسانی کرامت اور شرافت سے تعلق رکھتے ہیں۔
سن ۲۰۰۴ عیسوی میں کچھ فوٹو شائع کئے گئے جن میں ابو غریب نامی جیل میں قیدیوں پر تشدد کو دکھایا گیا تھا، جس نے پوری دنیا کو ایک طرح سے ہلا کر رکھ  دیا۔ امریکی افواج کے کمانڈر نے اس شرمناک رسوائی، جس میں امریکی حکومت کی کرکری ہوئی، یہ فیصلہ کیا کہ وہاں کے قیدیوں کو کسی بہتر سہولت والی جیل (بوکا چھاونی) میں منتقل کر دیا جائے۔  رونالڈ بوکا جو امریکہ کی فوجی پولس کے  ۸۰۰ ویں لشکر کا ایک سپاہی تھا اور گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ کے حادثہ میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، اس جیل کا نام اس کے اعزاز میں اس کے نام پر رکھا گیا تھا۔

بوکا جیل، قیدخانہ نہیں ایک یونیورسٹی؛
اے کاش یہ جیل اب تک بند نہ ہوئی ہوتی ۔۔۔ یہ جیل ایک اسکول بلکہ ایک یونیورسٹی تھی کہ جو تمہیں ایک آشکار حقیقت تک پہچا سکتی تھی  اور مغربی دنیا کے منافق چہرے پر سے پردہ اٹھا سکتی تھی ۔۔۔ میں نے اس جیل میں اپنی زندگی کے بہترین ایام، تمام تر سختیوں کے باوجود گزارے ہیں۔۔۔ ان دو سالوں میں، میں خود کو پہچان سکا۔ جس وقت میں آزاد ہوا، میں نے ایک سوم قرآن کریم اور دسیوں احادیث اور مسائل شرعی، جہادی بزرگ شیخ کی نگرانی میں جو جیل میں تھے، ازبر کر لئے تھے؛ ان چیزوں کے علاوہ مجھے جیل میں بدنی شکنجوں کی عادت بھی ہو گئی تھی اور میں ایک ایسے انسان میں تبدیل ہو گیا تھا جس کی آنکھوں سے اشک جاری نہیں ہوتے تھے۔
یاسر عبد اللہ عرفیت ابی عمرۃ قیدی نمبر (۱۱۵۰۹) بوکا جیل، ہر گفتگو میںان جملوں کی تکرار کے بعد ایک طرح کی لذت کا احساس کرتا ہے اور دنیا کے سب سے خطرناک اور سب سے بڑے جہادی مرکز کے احوال و حالات کا نقشہ کھینچتا ہے۔
بوکا جیل، جو دنیا بھر میں امریکہ کی تین سب سے بدنام اور خوفناک جیلوں میں شمار ہوتی ہے، کوئی معمولی جیل نہیں تھی؛ بلکہ ایک ایسے اسکول کی طرح تھی کہ جس میں ایک عراقی ٹیم شامل تھی، جن میں مخلتف فکر و قابل افراد موجود تھے۔  اس جیل میں موجود قیدیوں میں عراقی فوج کے سابق افسر، امنیتی و اطلاعاتی اداروں کے افسر، فوجی سامان و آلات بنانے والے سپاہی اور کاریگر، تموز نامی ایٹمی ادارہ کے افراد، علمائ دینی، برجستہ عراقی ماہرین فن، عراق کی بعث پارٹی کے اعضا، عراق مقاومت ملی تنظیم کے عناصر، جو عراق پر قبضہ کے مخالف تھے، ( پر امن یا مسلح طریقہ سے) شامل تھے۔  اور اس قلیل عرصہ میں اس میںدسیوں جہادی قیدیوں، جن کا تعلق دھشت گرد تنظیم القاعدۃ اور دوسری جہادی تنظیموں سے تھا جو اس زمانہ میں عراق میں موجود تھیں، اضافہ ہو چکا تھا۔
امریکی افواج کے سربراہ نے ابو غریب جیل کے قیدیوں سے خالی ہونے کے بعد، عراق میں اپنی پہلی جہادی یونیورسٹی تاسیس کی کہ جس کے اساتذہ امریکہ کی ھاورڈ یونیورسٹی کے اساتذہ سے بعض لحاظ سے بڑھ کر تھے، متحدہ ریاست امریکہ کو اطلاع نہیں تھی کہ ایک دن اس یونیورسٹی سے دنیا کا سب سے خطرناک انسان، ابو بکر البغدادی فارغ التحصیل ہو کر باہر نکلے گا۔
ابو غریب جیل میں تشدد پر مبنی تصاویر کے شائع ہونے کے بعد ہونے والی رسوائی، جس میں امریکی فوج کے سپاہی ملوث تھے۔ امریکی افواج کے سربراہ کے پاس اس وقت دو ہی راستے تھے جو دونوں ہی تلخ تھے۔
پہلا راستہ: موجودہ صورت حال کی حفاظت، جدید قیدیوں کی بھرتی اور وحشیانہ و بے رحمانہ تشدد کی شائع ہونے والی تصاویر سے ہونے والی بدنامی کو خاطر میں نہ لانا۔
دوسرا راستہ: بین الاقوامی نظارت میں نئے قیدخانہ کا افتتاح، جس میں حقوق بشر کی رعایت کی جاتی اور قیدیوں کو زیادہ آزادی  میسر ہوتی۔ امریکی فوج کے سربراہوں نے دوسرے راستے کو ترجیح دی۔
قیدیوں سے سلوک اور ان کے ساتھ ہونے والے رویے پر بین الاقوامی نظارت سبب بنی کہ جہادی عناصر بوکا کی جیل میں سرکشی کریں اور اپنے افکار کی قیدیوں کے درمیان تبلیغ کریں اور ان میں سے اپنے لشکر کی خدمت کے لئے افراد و جنگجو حاصل کریں۔ تا کہ یہ لوگ آزادی کے وقت فوجی جہادی اکیڈمی بوکا سے انفجار کے لئے تیار بموں کی شکل میں تبدیل ہو جائیں۔ ایسی اکیڈمی جس میں شرعی تعلیمات،  قیدخانہ کی فضا اور بعث پارٹی اور سلفی عناصر کے تجربات کے ساتھ  خلط ملط ہو چکی تھیں۔

دس مہینے جس نے دنیا کے سب سے خطرناک دھشت گرد کی تربیت کی
دنیا کا سب سے خطرناک قیدی، یعنی ابو بکر البغدادی دولت اسلامی تنظیم (داعش) کا رہبر، جو دس ماہ بوکا کی جیل میں قیدی تھا۔
اس نے بوکا کی جیل میں کھانا کھایا اور اس کا پانی پیا۔ اس جیل کی عمارت میں جس کی چھت لکڑی کی تھی، اس میں اپنے قیدی دوستوں کے ساتھ  بہت سی راتیں گزاریں۔ اس کے صحن میں عراقی فوج کے برجستہ سابق افسروں، انقلابیوں اور عراقی مسلح مقاومت کے رہبروں اور القاعدۃ کی شاخ بلاد الرافدین (عراق) کے ساتھ  آشنائی پیدا کی۔

ابو بکر البغدادی، دنیا کا سب سے خطرناک انسان کون ہے؟
اس کا پورا نام ابراہیم بن عواد بن ابراہیم بن علی بن محمد البدری اور لقب ابو بکر البغدادی ہے۔ وہ سن ۱۹۷۱ عیسوی میں سامرا شہر میں پیدا ہوا، جو عراق کے قدیمی شہروں میں سے ایک ہے اور جو (سنی مثلث) کے مشرقی سمت میں بغداد کے شمال میں واقع ہے۔ اس کے بچپن اور جوانی کے حالات کے بارے میں اطلاعات موجود نہیں ہیں اور جو کچھ اس سلسلے میں لکھا گیا ہے وہ نا قابل یقین ہے اور نا قابل تکذیب؛ کیونکہ اس میں بہت زیادہ تعارض اور اختلاف پایا جاتا ہے اور بعض مصنفین و محققین کی طرف سے اس کی شخصیت کی پہچان کے سلسلے میں اٹھایا جانے والا محتاطانہ قدم ہے۔
البغدادی سن ۱۹۹۶ عیسوی میں بغداد یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوا۔ اس کے بعد اس نے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے صدام یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور معارف اسلامی کورس میں تجوید و قرائت قرآن کریم (اس کا پسندیدہ مضمون) کے مضامین کے ساتھ تحصیل میں مشغول ہو گیا۔ اس کے ماسٹرز کی تحقیق (تھیسیز) کا عنوان تجوید و قرائت کے سلسلے میں خطی کتاب کی تحقیق و تشریح تھا کہ جس میں چند خطی نسخوں کے درمیان موازنہ و مقایسہ کرنا شامل تھا۔ اس نے کامیابی کے ساتھ اس مھم کو سر کیا اور سن ۱۹۹۹ عیسوی میں فارغ التحصیل ہوا۔ اس کے بعد البغدادی نے پی ایچ، ڈی کے لئے اسی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور تحصیل میں مشغول ہو گیا، جس میں اس کا مضمون قرآنی تحقیقات تھا۔
البغدادی کے ایم اے سے فارغ التحصیل ہونے کے چار سال کے بعد اور سن ۲۰۰۳ میں کچھ مدت گزرنے کے بعد جب امریکیوں نے صدام کی فوج کو شکست دی اور اس کے بعد اسے منحل کرنے کا اعلان کر دیا۔ وہ اہل سنت و جماعت نامی فوج کی تاسیس میں شامل ہو گیا۔ جو امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کے ساتھ شمالی و مرکزی عراق میں جنگ کر رہے تھے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اور دقیق طور پر فروری ۲۰۰۴ میں البغدادی گرفتار کیا  گیا اور اسے بوکا فوجی چھاونی کی جیل میں ڈال دیا گیا۔ (جو جنوب عراق میں ایک بہت بڑی عمارت میں واقع ہے) اور قیدیوں کی تقسیم بندی میں اسے غیر مسلح و غیر فوجی قیدی میں شمار کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن لوگوں نے اسے گرفتار کیا تھا انہیں اس کی جہادی ماہیت کے بارے میں اطلاع نہیں تھی۔
ان دس مہینوں میں جب البغدادی بوکا جیل میں بند تھا، ہزگز اس نے اپنے افراطی نظریات کو ظاہر نہیں کیا۔ اس بارے میں اخبار گارڈٰین نے ایک انٹرویو میں اور جیل میں اس کے ایک دوست کے نقل کے مطابق، جس نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ البغدادی ایک پر سکون اور کرشمہ والا انسان تھا اور آپ یہ احساس کر سکتے تھے کہ وہ ایک مھم انسان ہے، جیسے کہ وہ نماز جماعت کی امامت کرتا تھا اور قیدیوں کے لئے نماز جمعہ کا خطبہ پڑھتا تھا اور قیدیوں کو دینی درس دیا  کرتا تھا۔
اسی طرح سے ایک دوسرا قیدی جو ایک خبری سایٹ المانیٹر کا خبر نگار ہے، اس نے اس سے ایک انٹرویو لیا تھا وہ اس سلسلے میں کہتا ہے: جدید الورود افراد اس فوجی چہاونی کی جیل میں تربیت حاصل کر رہے تھے اور ان کے لئے یہی کافی تھا کہ وہ آزاد ہو جائیں تا کہ وہ دھماکہ کرنے والے بموں میں تبدیل ہو جائیں۔ جب بھی کوئی نیا قیدی جیل میں آتا تھا ۔ دوسرے قیدی اسے سکھاتے تھےاور اسے تلقین اور ہدایت کرتے تھے اور جس وقت وہ آزاد ہوتا تھا گویا کہ آگ بس بھڑکنے ہی والی ہے۔
ابو بکر البغدادی اس آگ کی سب سے خطرناک کڑی تھا، کیونکہ وہ ان تمام فتنوں کا ذمہ دار ہے جس نے اس خطے کو دس سال سے بھی کم عرصہ میں اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ وہ پہلا انسان ہے کہ جس نے خود کو خلیفہ مسلمین اعلان کیا ہے اور دھشت گرد تنظیم القاعدہ کی نا فرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور اس نے سعی کی کہ مشعل کو ان کے ہاتھوں سے خارج کر دے۔ جبکہ وہ جہادی گروہ کا پہلا ایسا رہبر ہے جس سے ساٹھ ملکوں سے زیادہ حکومتیں جنگ کر رہی ہیں ۔
کیا البغدادی اخوان المسلمین کی ایک فرد ہے؟
امریکی محقق اور مشرق وسطی کے امور کے ماہر ولیم میکنٹکس کی تحقیق کے مطابق، جو انہوں نے ابو بکر البغدادی کے سلسلے میں انجام دی ہے، وہ سلفی جہادی ہونے سے پہلے ایک اخوانی رہا ہے۔ میکنٹکس کی اس رای کے مطابق بغدادی سلفی عقائد کا معتقد ہونے کے علاوہ ابتدائ امر میں اخوان المسلمین تحریک کے تحت اثر رہ چکا ہے۔ یہ امر اس مطلب کے مطابق ہے جو فلسطینی روزنامہ نگار وائل عصام نے روز نامہ قدس العربی، اکٹوبر ۲۰۱۴ کے شمارہ میں الدولہ تنظیم  کے رہبر کے سلسلہ میں اپنی تحقیق میں اشارہ کیا ہے۔
اس فلسطینی اخبار نویس نے بعض عراقی حوالوں سے نقل کیا ہے کہ البغدادی کی سن ۲۰۰۰ عیسوی میں اہل سنت کے ایک برجستہ رہبر کے ساتھ میٹینگ تھی جس میں اس نے نہایت غصے میں اپنے اخوانی سربراہوں کی شکایت کی تھی اور عامیانہ لہجہ میں کہا تھا: یہ گروہ میرے ساتھ عنایت اور توجہ کے ساتھ  پیش نہیں آتا ہے۔ اس زمانہ میں البغدادی صدام یونیورسٹی میں اسلامی علوم میں پی ایچ، ڈٰی کا طالب علم اور ریسرچ اسکالر تھا۔
اسی طرح سے القدس العربی کی ایک رپودٹ میں آیا ہے کہ البغدادی ہمیشہ اخوان المسلمین کے رہبروں کے ساتھ اپنے سلفی نظریات کی بنیاد پر اختلاف نظر رکھتا تھا۔ اور اہل سنت کے بعض بزرگ رہبران اور شخصیات کی رای کے مطابق، جو بغدادی کے ساتھ اس کی بغداد کے الطوبجی علاقہ میں رہائش اور ایم اے میں شریعت کے مضمون میں اس کی تحصیل کے زمانہ تک اس کے رابطے میں تھے، البغدادی اخوانیوں سے رابطہ کے بعد نہایت تیزی سے ان جدا ہوگیا اور القاعدہ سے ملحق ہو گیا۔
بعض منابع کا ماننا ہے کہ البغدادی اہل سنت و جماعت نامی فوج کی تاسیس و تشکیل میں شرکت کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ بعض دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ابتدائ میں سپاہ مجاہدین سے ملحق ہوا تھا، جس کا کمانڈر عراق میں اخوان المسلمین تنظیم کی شاخ کا معروف کمانڈر محمد حردان نامی شخص تھا۔ اس کے بعد وہ افغانستان گیا اور افغان جنگجووں کے ساتھ جنگ میں مشغول ہو گیا۔ اس وقت وہ نوے کی دہائی میں واضح سلفی عقائد کے ساتھ عراق واپس لوٹا اور اس میلان کی وجہ سے اخوان المسلمین تنظیم عراق سے جدا ہوگیا۔
اخوان المسلمین میں البغدادی کی رکنیت کی بعض لوگ تائید کرتے ہیں اور بعض اس کا انکار کرتے ہیں۔  جو کچھ  وائل عصام کی رپورٹ میں بیان ہوا ہے اس کے مطابق، فلوجہ شہر میں اخوان المسلمین کے ایک برجستہ رہبر نے البغدادی کے عراق کی شاخ میں اخوان المسلمین کے رکن ہونے سے انکار کیا ہے، کیونکہ وہ ایک افراطی سلفی تھا اور اس کے لئے کسی معتدل تنظیم کا حصہ ببنا ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح سے اخوان المسلمین سے اس کی قربت محمد حردان سے رابطے کی وجہ سے تھی جو بعد میں اسے افغانستان کی جنگ میں شرکت کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے ختم ہو گیا تھا۔
ابو بکر البغدادی سنی و سلفی اسلامی گروہوں کے درمیان ایک معروف شخصیت تھا اور کسی بھی حال میں جیسا کہ بعض لوگ اسے دکھانا چاہتے ہیں وہ ایک گمنام انسان نہیں تھا، جیسا کہ اس کا چچا اسماعیل البدری علمائ مسلمین عراق کمیٹی کا ایک عضو تھا اور اس کا باپ عواد البدری دینی و سماجی معاملات میں ایک فعال انسان تھا اور سامرا شہر کی ایک مسجد میں امامت جماعت کے فرائض انجام دیتا تھا اور وہیں تدریس بھی کرتا تھا۔
البغدادی نے بوکا کی جیل سے آزادی کے بعد اپنے افراطی میلان کا زیادہ اظہار کیا اور عراق میں القاعدہ کی شاخ جس کا رہبر اردنی کمانڈڑ ابو مصعب الزرقاوی تھا، سے ملحق ہو گیا۔ اس زمانہ میں وہ عراق میں القاعدہ سے وابسطہ بعض گروہوں کا سربراہ تھا ۔ اس کے بعد بہت کم عرصہ میں اس نے نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کی اور بہت اہم مناصب کو اس کے حوالے کیا گیا؛ مثال کے طور پر مندرجہ ذیل باتوں کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:
فلوجہ شہر کے الکرمہ علاقہ میں القاعدہ کی طرف سے مسئول  شرعی، صلاح الدین ضلع میں ناظر شرعی، عراق میں تمام تنظیموں کا مسئول شرعی، اس مرحلہ میں عراقی و امریکی اطلاعات و امنیتی اداروں کے ابو بکر البغدادی کو نہ پیچاننے کی وجہ سے وہ القاعدہ کے امیر سابق ابو عمر البغدادی اور اس کے جانشین ابو حمزہ مھاجر کا مورد اعتماد بن گیا اور اس کے کچھ  عرصہ کے بعد ان دونوں کے سن ۲۰۱۰ میں قتل کے بعد وہ القاعدہ کا رہبر بن گیا۔
اس شک و شبہ کے ماحول میں البغدادای کی شخصیت، اس کا پی ایج، ڈی سے فارغ التحصیل ہونے کی تاریخ سب اہھام کا شکار ہو  گئی ہے۔ روزنامہ زوید رویتشہ تسایتونج کی خصوصی رپورٹ اور جرمنی کے سرکاری ٹیلی ویژن کے چینل کے پروگرام مطابق، جو دنیا کے سب سے خطرناک انسان ابو بکر البغدادی کی سوایح حیات کے سلسلے میں خلافت کے نیزہ کی انی کے نام سےشائع ہوا تھا، اس میں بتایا گیا کہ اس نے اپنی پی ایچ، ڈٰی کو بہت اچھے نمبر کے ساتھ مارچ ۲۰۰۷ میں پاس کیا تھا۔ لیکن بغداد یونیورسٹی کی طرف سے جرمن صحافیوں کے سامنے یہ دعوی کیا گیا کہ ان کے پاس اس کی پی ایچ، ڈٰی کی تحقیق (تھیسیز) کا کوئی نسخہ موجود نہیں ہے۔ اسی طرح سے جرمن صحافیوں نے اپنی تحقیقات کے ضمن میں ۳۰ جون ۲۰۰۴ میں ایک خط حاصل کیا جس میں بغداد یونیورسٹی کی تدریسی کمیٹی کے رکن اور البغدادی کی پی ایچ، ڈی کی تحقیق کے استاد رہنما یا سوپر وائزر نے اس مضمون میں ایک جملہ تحریر کیا ہے: وہ میرے ساتھ رابطے میں نہیں ہے کیوکہ وہ جیل میں بند ہے۔ یہ ایسی صورت میں ہے جبکہ بعض منابع کا دعوی ہے کہ البغدادی ۲۰۰۷ سے پہلے پی ایج، ڈٰی کی سند حاصل کر چکا تھا۔ اور بعض دوسرے لوگ جن کا شمار اس کے مخالفین میں ہے، ان کے مطابق اس نے ہرگز پی ایچ، ڈٰی کی ڈگری حاصل نہیں کی ہے۔

شائع غلطی
بعض شہرت کے دیوانے اس فکر میں تھے کہ وہ البغدادی کی سوانح حیات میں شریک ہوں، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا روزنامہ ڈیلی بیسٹ دعوی کرتا ہے کہ ابو بکر البغدادی ایک طویل مدت تک عراق میں امریکہ کے ایک فوجی اڈے میں قید تھا اور وہاں سے سن ۲۰۰۹ عیسوی میں رہائی اور آزادی کے وقت اس نے وہاں کے جیلر سے کہا تھا کہ آپ سے نیویارک میں ملاقات ہوگی۔ اسی طرح سے یہ روزنامہ جنرل کینیث کینج سے کا قول نقل کرتا ہے کہ ابو بکر البغدادی نے قید سے رہائی کے وقت اس سے کہا تھا کہ تم لوگوں سے نیویارک میں ملاقات ہوگی۔ اس وقت جنرل کینج نے اس جملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، بعد میں اسے احساس ہوا کہ جو کچھ البغدادی نے اس سے کہا تھا وہ با مقصد تھا اور قید سے آزادی سے اس کا ہدف جنگ میں شرکت کرنا تھا۔
کینج اسی طرح سے کہتا ہے کہ اصلا میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ محض پانچ سال سے بھی کم عرصہ میں، میں یہ دیکھ رہا ہوں گا کہ البغدادی میڈیا کی خبروں کی سرخیوں میں ہوگا۔ مجھے اس بات پر تعجب نہیں ہوا کہ اس شخص نے بوکا کے قید خانہ میں کافی وقت گزارا ہے البتہ مجھے اس بات کی حیرت ضرور ہے کہ وہ وہی ہے جسے میں پہلے دیکھ چکا تھا۔ بد ترین سے بد ترین لوگ ایک قید خانہ میں قید تھے لیکن ابو بکر البغدادی کا شمار ان لوگوں میں نہیں تھا۔
جس داستان کی طرف اشارہ کیا گیا اور بعض عربی و خارجی میڈٰیا نے جسے شائع کیا وہ صحیح نہیں ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور اس بارے میں کہ البغدادی فقط دس ماہ اس جیل میں تھا اور آزادی کے بعد نہایت تیزی سے وہ القاعدہ سے ملحق ہوگیا، اس پر سب متفق ہیں۔ جیسا کہ اس تنظیم کے وفاداروں کا کہنا ہے کہ وہ سن ۲۰۰۹ میں عراق و شام کی اسلامی حکومت (داعش) میں مجلس شوری کا عضو تھا اور اس تنظیم کا احتمالی خلیفہ ابو عمر البغدادی کو شمار کیا جاتا تھا۔
اس تنظیم کے رہبر یعنی ابو عمر البغدادی اور اس کے وزیر جنگ ابو حمزہ مھاجر کے امریکی و عراقی افواج کے  شہر تکریت پر مشترکہ حملے میں قتل کے بعد، سن ۲۰۱۰ میں ابو بکر البغدادی نے اپریل کے مہینے میں، دولت اسلامی عراق و شام  (داعش) کی رہبری حاصل کی۔  ان دونوں کے مرنے کے بعد،  جو بایڈن امریکی صدر جمہوریہ کے نائب نے اپنی ایک گفتگو میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے عراق میں القاعدہ کو بہت کاری ضرب لگائی ہے۔
آخر میں اس چیز کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس کے بارے میں ولیم میکینٹس نے اپنی تحقیق کے آخر میں البغدادی کی زندگی کے جزئیات کو بیان کیا ہے: البغدادی کے بارے میں تحقیق سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ وہ ایک غیر معمولی استعداد والا انسان تھا۔ البغدادی ایک مخالف گروہ کی تاسیس و تشکیل میں شریک و سہیم تھا۔ جس وقت دولت اسلامی (داعش) کے امور دینی کی ذمہ داری اس کے پاس تھی، اس نے پی ایج، ڈی کی سند حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی، اس تنظیم کی خونی سیاست پر ثابت قدم رہا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس نے اپنے دست راست جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا تھا، کی موت کے بعد داعش کی شام کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کرنے کی سیاست کو سرعت کے ساتھ عراق میں بھی جاری کیا۔ اس بات کے باوجود جس کی طرف اخیرا روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اشارہ کیا ہے: البغدادی اپنی متوقع موت کے بعد خلافت کو پیش آنے والے حالات کے سلسلے میں مقدمات و تمہیدات فراہم کرنے میں لگا ہوا ہے اور وہ اس وقت اپنی بہت سے جنگی ذمہ داریوں کو اپنی ما تحتوں کے حوالے کرنے میں لگا ہوا ہے۔ لیکن اس کی معرفت دینی اور مکر سیاسی کا آسانی سے متبادل ملنا مشکل ہے؛ کیونکہ البغدادای کے بعد خلیفہ بننے والے کسی فرد میں یہ چیزیں مشاہدہ میں نہیں آ رہیں ہیں جس میں اس کی طرح دینی بصیرت، قوی دوست کسب کرنے اور اپنے مخالفین کو کنٹرول کرنے کی مہارت جیسی خصوخصیات ایک ساتھ  جمع ہوں۔













Comments powered by CComment