”
نبوت“ کا هونا ضروری ھے اور اللہ پر ایمان رکھنے والے شخص کی عقل بھی اس بات کا تقاضا کرتی ھے، نیز نوع بشریت بھی اس چیز کی ضرورت کا احساس کرتی ھے اور (خدا کے لطف وکرم اور رحمت کا تقاضا بھی یھی ھے کہ خدا کی طرف سے ھر زمانہ کے لئے نبی، رسول ،شریعت اور کتاب کا هونا ضروری ھے، یھاں تک کہ یہ سلسلہ ھمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتک پهونچا، آپ کی ذات گرامی سید المرسلین وخاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمھے اور آپ کی شریعت دوسری شریعتوں کی خاتم ھے اور تاقیام قیامت باقی رہنے والی ھے۔ اور شاید یھی ھمارے نبی خاتم کا یہ پھلا امتیاز هو کہ خداوندعالم نے ھمارے نبی کو دوسرے تمام انبیاء (ع) پر فضیلت دی ”رسول اللہ وخاتم النبیین“ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور آنحضرت کی رسالت کبریٰ، زمان ومکان کے لحاظ سے عالمی ھے اور کسی قوم سے مخصوص نھیں اور ایسا نھیں ھے کہ زمین کے کسی ایک حصہ میں مخصوص هو اور کوئی دوسرا حصہ اس میں شامل نہ هو اور نہ ھی کسی خاص امت سے مخصوص ھے، نیز کسی خاص زمانہ سے بھی مخصوص نھیں ھے، چنانچہ اس سلسلہ میں خداوندعالم کا ارشاد ھے: ”اے رسول ھم نے تم کوتمام لوگوں کا رسول بناکر بھیجا“ ”(اے رسول) ھم نے تم کو سارے جھاں کے لوگوں کے لئے از سر تا پا رحمت بنا کر بھیجا“ ”(اے رسول ) ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے لوگو! میں تم سب کے پاس خداکا بھیجا هوا (پیغمبر)هوں“ ”تاکہ میں تمھیں اور جس کے پاس اس کی خبر پهونچے، ڈراوٴں“ ”(اے رسول) کہہ دو کہ لوگو! میں تو صرف تم کو کھلم کھلا (عذاب سے) ڈرانے والا هوں“ قارئین کرام ! یہ تمام آیات متفقہ طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ھیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمتمام لوگوں کے نبی ھیں، چاھے وہ آپ کی بعثت کے وقت موجود هوں یا آپ کے بعد پیدا هوںگے، چاھے وہ جزیرة العرب میں هوں یا دوسرے ممالک میں۔ اور یہ ایک ایسا امتیاز ھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمسے پھلے کسی نبی یا رسول کو نھیں دیا گیا کیونکہ آپ سے پھلے انبیاء (ع) کسی خاص گروہ یا خاص طائفہ کے نبی هوتے تھے وہ بھی خاص زمانہ میں جیسا کہ قرآن مجید نے واضح طور پر اشارہ کیا ھے: ”ھم نے جناب نوح کو ان کی قوم کے پاس (رسول ) بناکر بھیجا“ ”اور ھم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (رسول بنا کر بھیجا“ ”اور ھم ھی نے یقیناً موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس (پیغمبر بناکر ) بھیجا“ ” اور (یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسی نے کھا اے بنی اسرائیل میں تمھارے پاس خدا کا بھیجا هوا (آیا) هوں“ چنانچہ ان آیات سے یہ بھی واضح هوجاتا ھے کہ جناب نوح علیہ السلام کو اپنی قوم کا اور جناب صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کا، جناب موسی علیہ السلام کو فرعون اور اس کے ساتھیوں کا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کا نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی ذات گرامی وہ واحد ذات ھے جن کو تمام لوگوں کا نبی بنا کر بھیجا گیا۔ اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ گذشتہ انبیاء (ع) کی رسالت وقتی اور خاص زمانہ کے لئے محدود هونے کی کیا دلیل ھے؟ تو اس سلسلہ میں بھی عرض ھے کہ یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ پھلی والی شریعت بعد والی شریعت کے ذریعہ منسوخ هوجاتی ھے، پھلے والے احکام ختم هوجاتے ھیں اور ان کی جگہ جدید احکام نافذ کئے جاتے ھیں کیونکہ انسان دونوں شریعتوں کے احکام پر عمل نھیں کرسکتا جو اکثر احکام میں مختلف اور مخالف هوتی ھیں۔ نیز کسی ایک چیز پر دونوں شریعتیں الگ الگ حکم کرتی ھیں اور اس بات پر عقلی دلیل اور فطرت انسان دلالت کرتی ھے اور اس کا حکم واضح ھے۔ لیکن اس سلسلہ میں یهودی کہتے ھیں کہ ھماری شریعت اور ھمارے نبی کی نبوت باقی ھے کیونکہ یہ لوگ ”نسخ“ کے نظریہ اور نسخ واقع هونے کی نفی کرتے ھیں ان کا گمان یہ ھے کہ اگر نسخ شریعت کو مان بھی لیا جائے تو خداوندعالم کا جاھل اور غیر حکیم هونا لازم آتا ھے !۔ ان کے اعتراض کی دلیل یہ ھے کہ خداوندعالم کے احکام اس زمانے کی مصلحتوں کے لحاظ سے هوتے ھیں کیونکہ بغیر مصلحت کے احکام عبث وبے هودہ هوتے ھیں او راس حکیم مطلق کی حکمت کے منافی ھیں۔ لہٰذا مصلحت کے مطابق احکام کو ختم کرنا حکمتِ خداوندی کے خلاف ھے کیونکہ اس حکم کے ختم کرنے سے بندوں کی مصلحت کا نابود هونا لازم آتا ھے مگر یہ کہ تشریع کنندہ ( خدا ورسول )کے لئے تشریع کے بعد واضح هوجائے کہ اس حکم میں مصلحت نہ تھی، تو اس کو ختم کردیتا ھے اور اگر ھم اس معنی میں نسخ کو مانیں تو اس کے معنی یہ ھیں کہ خدا جاھل ھے، لہٰذا جب نظریہ نسخ کا نتیجہ نسخ کرنے والے کا جھل اور غیر حکیم هونالازم آتا ھے، تو پھر خدا وندعالم کے بارے میں ان دونوں چیزوں (جھل اور غیرحکیم هونا)کا هونا جائز نھیں ھے تو پھر نسخ کے بارے میں نظریہ رکھنا بھی محال ھے۔! قارئین کرام ! اس اعتراض کا مختصر جواب یہ ھے کہ شریعت کے احکام ومسائل مصلحتوں کے تحت هوتے ھیں اور یہ بھی طے ھے کہ زمانہ کے بدلنے سے مصلحتیں بھی بدلتی رہتی ھیں کیونکہ کبھی کبھی کوئی خاص کام کسی قوم اور کسی زمانہ کے لئے صاحب مصلحت هوتا ھے تو اس کام کے لئے حکم کیا جاتا ھے لیکن وھی کام دوسری قوم یا دوسرے زمانہ کے لئے صاحب مصلحت نھیں هوتا تو اس کام سے روک دیا جاتا ھے۔ دوسرے یہ کہ عقلِ بشری کے ساتھ ساتھ آسمانی ادیان نے بھی رشد وترقی کی ھے، (جیسا کہ ھم جانتے ھیں) جس طرح ایک بچے کی معلومات میں اضافہ هوتا ھے اور اس کی عمر میں اضافہ هوتا ھے روز بروز اس کے علم وعقل اور قابلیت میں اضافہ هوتا رہتا ھے یھاں تک کہ وہ اپنے نظریات اور افکار پراعتقاد کرلیتا ھے، (مثلاً پھلے بچہ ایک کھیل کو اپنے لئے صحیح اور ضروری سمجھتا ھے لیکن جب وہ باشعور هوجاتا ھے تو اس کھیل کو عبث اور بے هودہ سمجھتاھے۔) بالکل یھی حال آسمانی ادیان کا بھی ھے جو ھر زمانہ اور ھر قوم کے لئے نازل هوئے ھیں اور ھر قوم کی مصلحتوں کے لحاظ سے احکام جاری کرتا ھے اور اس زمانہ کے فکری او رپختہ نظریات کے ساتھ ساتھ چلتا ھے، یھاں تک کہ شریعت اسلام میں اس بلندی پر پهونچا جس کو خداوندعالم نے اختیار اور پسند کرلیا، اور زمانہ اور عقلی رشد کی بلندی پر پہنچے هوئے تمام انسانوں کے لئے یہ شریعت مشعل راہ بن گئی۔ اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ خداوندعالم مصلحتوں سے جاھل تھا یا اس کے لئے کوئی ایسی چیز کشف هوئی ھے جو پھلے کبھی معلوم نہ تھی۔ ان باتوں کے علاوہ خود توریت میں ایسی بہت سی چیزیں موجود ھیں جو وقوع نسخ پر دلالت کرتی ھیں مثلاً حضرت آدم کی شریعت میں ایک شخص کا دو بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کرنا جائز تھا لیکن یھی کام شریعت جناب موسیٰ علیہ السلام میں حرام قرار دیدیا گیا، جس طرح جناب نوح (ع) کی شریعت میں ختنہ کرنے میں بڑے هونے تک تاخیر کرنا جائز تھا لیکن حضرت موسی (ع)کی شریعت میںاس تاخیر کو حرام کردیا گیا، اسی طرح دوسرے واقعات بھی موجود ھیں۔ ان تمام باتو ںکے پیش نظر نسخ کو محال قراردینا صحیح نھیں ھے اور نہ ھی ان کے پاس کوئی مستحکم دلیل ھے جس پر اعتماد کیا جاسکے، لہٰذا یهودیوں کا یہ گمان خود ان کی کتاب توریت اور حکم عقل کے ذریعہ باطل ومردود ھے: ”اور (اے رسول) نہ تو یهودی کبھی تم سے رضامند هونگے نہ نصاریٰ یھاں تک کہ تم ان کے مذھب کی پیروی کرو، (اے رسول) ان سے کہہ دو کہ بس خدا ھی کی ہدایت تو ہدایت ھے“ ”اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی پیروی کرے تو اس کا وہ دین ھرگز قبول ھی نہ کیا جائے گا“ با تشکر از سایت صادقین قارئین کرام ! جیسا کہ ھم نے پھلے بھی عرض کیا کہ کسی بھی نبی کا دعویٰ نبوت اس وقت صادق هوسکتا ھے جب وہ کوئی معجزہ پیش کرے ایسا معجزہ جس کی مثال پیش کرنے سے بشر قاصر هو۔
Comments powered by CComment