مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب [دوسری قسط]

متفرق مقالات
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

عابد رضا نوشاد

وہ بنیادی مشکلیں جو مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب بنی ہیں انہیں دو اہم حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

١۔ سیاسی مشکلات

٢۔اخلاقی و ثقافتی مشکلات

*١۔ سیاسی مشکلات*

مسلمانان عالم مختلف اندرونی اور بیرونی سیاسی مشکلات سے ہمیشہ دو چار رہے ہیں اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم الثبوت ہے کہ جس فرد یا معا شرہ میں سیاسی تدبر کا فقدان ہو یا مختلف اسباب کی بنا پر اس کے سیاسی تدبر پر پردہ پڑ گیا ہو وہ فرد یا معاشرہ کسی صورت  سرفراز نہیں ہو سکتا بلکہ ہمیشہ اسے ذلت و رسوائی اور پسماندگی کی تاریکی میں رہناہو گا ۔

مجموعی طور پر سیاسی مشکلات کبھی ملتوں سے مربوط ہو تی ہیں تو کبھی حکومتوں سے اور دونوں ہی سطحوں پر سیاسی مشکلات کا وجود نہایت ہی مہلک اور خطرناک ہے ۔ مجموعی طور پرمسلمانوں کی چند اہم اندرونی و بیرونی سیاسی مشکلات مندرجہ ذیل ہیں :

*الف) آراء و اقوال میں علماء کا اختلاف*

علماء و دانشوران قوم کے اختلافات، اس پسماندگی کا اہم ترین سبب ہیں۔ علماء کا احکام و عبادات میں اختلاف اتنا مشکل آفریں نہیں ہے جتنا اجتماعی و سیاسی میدان میں ہے ۔ اس میدان میں علماء کا اختلاف معاشرے کی شدید پستی و تنزلی کا سبب بنتا ہے ۔ خالق نہج البلاغہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام اس مشکل کو اہم جا نتے ہو ئے فر ماتے ہیں :''ترد علی احد ھم القضیة فی حکم من الاحکام فیحکم فیھا برأیہ ثم ترد تلک القضیة بعینھا علی غیرہ فیحکم فیھا بخلاف قولہ ثم یجمع القضاة بذلک عند الامام  الذی استقضاھم فیصوب آرائھم جمیعا و الٰھھم واحد و نبیھم واحد و کتا بھم واحد افامر ھم اللہ سبحانہ بالاختلاف فاطاعوہ ام نہاھم عنہ فعصوہ ؟..'' [نہج البلاغہ ،خ ١٨]

'' ان لوگوں کا عالم یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس کسی مسئلہ کا فیصلہ آتا ہے تو وہ اپنی رائے سے فیصلہ کر دیتاہے اور پھر یہی قضیہ بعینہ کسی دوسرے کے پاس جا تا ہے تو اس کے خلاف فیصلہ کر دیتا ہے اس کے بعد تمام قضات  (اگر چہ حضرت امیر  نے اس خطبہ میں قضات کی لفظ استعمال کی ہے لیکن یہ مسئلہ دیگر علماء اور دانشوروں کے بھی دامنگیر ہے  )اس حاکم کے پاس جمع ہو تے ہیں جس نے انہیں قاضی بنایا ہے تو وہ سب کی را ئے کی تائید کر دیتا ہے جب کہ سب کا خدا ایک ہے ، نبی ایک اور کتاب ایک ہے ،  تو کیا خدا نے انہیں اختلاف کا حکم دیا ہے اور یہ اس کی اطاعت کررہے ہیں یا خدا نے انہیں اختلاف سے منع کیا ہے مگر پھر بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں ؟.. ''

علامہ محمد تقی اس جملہ کی شرح میں فرما تے ہیں : واقعات کا ادراک اور ان کی حیا ت انسانی پر تطبیق ، دو طرح کے اختلافات کی حامل ہو سکتی ہے۔تعمیری اختلاف اور تخریبی اختلاف ۔ ہر وہ اختلاف جس کا تعلق مواقع کے تنوع ، انسانی زندگی کے قوانین کے نفاذ  اورفہم و قضا وت کے تفاوت سے ہو اوراس کے علاوہ اس میں خود پسندی و خود غرضی کی بو تک نہ آئے ، تعمیری اختلاف ہے اور اس خطبہ میں امام کی مراد اس طرح کا اختلاف نہیں ہے بلکہ وہ تخریبی اختلاف ہے جس کا منشا لا علمی ، بے بنیاد زعم و گمان ، اظہار نظر میں عدم لیاقت اور خود خوا ہی وغر ہ ہے ...[شر ح نہج البلاغہ ، ج٤،ص٢٥٢]

مقام افسوس ہے کہ بہت سے مقامات پر ہمارے علماء اور دانشوروں کا اختلاف تخریبی ہو تا ہے خواہ وہ اس بات کی طرف   متوجہ ہوں یا نہ ہوں ۔ تخریبی اختلافات کے مظاہر کو بر صغیرکے حلقہ علم و دا نش میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جو برسوں سے ایک سماجی سرطان کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے ۔ ایسی صورتحال کے پیش نظر ہر صاحب فکر و نظریہ پیشنگو ئکرت سکتا ہے کہ اگر یہ بحران یونہی بر قرار رہا تو وہ دن دور نہیں جب بالخصوص سر زمین ہند پر تا ریخ اند لس دہرا ئی جا ئے گی اور مسلمان اپنی تبا ہی کا تما شہ آپ دیکھیں گے اور فی الوقت تو اس  تماشہ کا زور دار آغاز ہو بھی چکا ہے۔

(ب)وہی رہبر وہی رہزن

مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک اہم وجہ دور گذشتہ اور عصر حاضر میں موجود وہ  بعض نام نہاد رہبران قوم ہیں جو اسلامی مملکتوں کے ٹھیکیدار بنے  بیٹھے ہیں جن کی رہبری در حقیقت رہزنی اور ہدایت گمرہی ہے ۔
چونکہ ہر کمزور کسی صاحب تمکنت کا تابع ہو تا ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر رہبر اپنی قوم کو اپنی سیاست کے اعتبار سے یا تو فلاح و بہبودی کی شاہ راہ پر گامزن کر سکتا ہے یا پھر پسماندگی کی خطرناک کھا ئی میں ڈھکیل سکتا ہے ۔اس بات پر مختلف اقوام و ملل کی تارییں  بھی گواہ ہیں لیکن کتنا بد قسمت ہے یہ مسلمان جسے اکثر و بیشتر دوسری قسم کی قیادت میں ہی زندگی گذارنا میسر آ پا ئی ہے مگر اسلامی نقطۂ نظر سے ایسے رہبروں کے زیر سا یہ رہنا مذموم ہے۔  یہی وجہ ہے کہ روا یات میں وارد ہوا ہے کہ امام زمانہ   عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیر موجود گی میں اسلامی معاشرے کو ایسے عالی مقام فقہا ء کا اتباع کر نا چا ہیئے جن میں تمام جہتوں سے علمی و اخلاقی شائستگی پا ئی جا تی ہو اور تمام لوگوں کی بنسبت اسلامی قوانین سے زیادہ آشنا ہو ۔ [وسائل الشیعہ ،ج ١٨ ،ص٩٩ ،الاحتجاج ،ج٢،ص٢٦٣  میں اس مضمون کی روایات پا ئی جا تی ہیں]۔

  اس کے علاوہ یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ در پیش حوادث میں بھی ان کی طرف رجوع کیا جا ئے '' و اما الحوادث الواقعة فارجعوا فیھا الی رواة حدیثنا…''[وسائل الشیعہ ،ج ١٨ ،ص ١٠١]

ہمارے الہی رہبروں نے ایک طرف تو فقہا اور علماء کی حکومت کا اعلان کیا اور دوسری طرف اپنی سیرت کے ذریعہ یہ بھی بتادیا کہ ایسے نام نہاد رہنماؤں کو بر سر اقتدار نہیں رہنے دینا چا ہیئے جو در حقیقت رہزن ہیں ۔چنا نچہ امام حسین علیہ السلام یزید ملعون جیسے فا سد خلیفۂ و رہبر کی خلافت و قیادت پر خط بطلان کھینچتے ہو ئے فرما تے ہیں '' انا للہ و انا الیہ راجعون و علی الاسلام السلام  اذقدبلیت الامة براعِِ مثل یزید ''  اگر امت یزید جیسے کی قیادت میں رہے تو پھر اسلام کو خیرباد کہہ دینا ہوگا ۔[لہوف ،ص١١]  امام عالی مقام  ایسے حاکم وجا ئر کی کجروی کے مقا بلے میں سکوت اختیار کرنے کو عظیم گنا ہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔[ تاریخ طبری ،ج ٧،ص ٣٠٠ ]

فوق الذکر با توں کے پیش نظر ملت اسلامیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی قیادت اپنا منبر و محراب اور اپنی سیاسی زمام ایسے نا م نہاد حاکموں اور رہبروں کے حوالے نہ کریں جن پر رہنما سے زیادہ رہزن کا لقب صادق آئے ۔  ایسے ہی پیشواؤ ں کے سلسلے میں علامہ اقبال فرما تے ہیں :

  امید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے یہ خاک باز ہیں رکھتے ہیں خاک سے پیوند
ہمیشہ  مور  و  مگس پر نگاہ ہے ان کی           جہاں میں ہے  صفت عنکبوت ان کی کمند

پھر اس قوم کے نصیب کو داد دیتے ہیں جس کا رہبر لیاقت و شا ئستگی کا حامل ہو:

  خوشا وہ قافلہ جس کے امیر کی ہے متاع
  تخیل     ملکوتی    و     جذبہ  ہا ئے      بلند         [کلیات اقبال ،ص١٥٧]



سلسلہ جاری ہے …

Comments powered by CComment