عابد رضا نوشاد
مسلمانوں کا تابناک ماضی
اسلام مصطفوی کی درخشاں تاریخ ہر صاحب فکر و نظر پر آشکار ہے ۔صدر اسلام میں حضرت ختمی مرتبت ﷺ کی بے پناہ زحمتوں ، حضرت امیر المومنین علی مرتضیٰ علیہ السلام کی بے نظیر جانفشا نیو ں اور سچےمسلمانوں کی گراں قیمت قربانیوں کے بموجب دین مبین محمدی نے حیرت انگیز ترقیاتی مراحل طے کئے اور اہل امّت میں بھی ایک عظیم فکری ،سیاسی، دینی ،علمی ،اجتماعی ، اقتصادی اور ثقافتی بیداری پیدا ہو ئی۔
اسلام ومسلمین کا یہ پر شکوہ قافلہ اپنی تمام تر اندرونی و بیرونی مشکلات کے با وجود صحرائے صعو بت سے نکل کر سعادت و سرفرازی کی شا ہراہ پر گامزن ہو گیا ، مختلف میا دین میں قلۂ عظمت تک رسا ئی حا صل کی ، کا میا بیاں قدم چو منے لگیں، رفعتیں سلام کر نے لگیں... یہاں تک کہ اسلامی ثقافت کائنات بود و باش پر محیط ہو گئی اور پھر اسلامی تمدن کے طلا ئی عصر کا آغاز ہو گیا ۔
فرانسوی دانشور گوسٹاولبن لکھتے ہیں : '' پانچ سو سال کے عرصۀ دراز تک یوروپ کے اسکول مسلمان مصنفین کی کتا بوں کی بنیاد پر قا ئم ودائم رہے اور وہی لوگ تھے جنہوں نے یوروپ کو علم اور اخلاق کے لحاظ سے پروان چڑھا یا اور راہ تمدن پر گامزن کیا ،ہم جب مسلمانوں کی علمی کا وشوں اور گراں بہا اکتشافات پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ کسی بھی ملت نے ان کی طرح اتنی قلیل مدت میں ترقیاتی منازل کو طے نہیں کیا ہے... بعض لوگ اس اقرار کو اپنے لئے باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں کہ ایک کافر و ملحد قوم (مسلمان ) اس بات کا سبب بنی ہے کہ نصرانی یوروپ وحشی گری ،اور جہالت کی دنیا سے خارج ہو ، لہٰذا اس حقیقت سے چشم پو شی کرتے ہیں لیکن ان کا یہ نظر یہ اس قدر بے بنیاد ہے کہ اس کی بآسانی تردید کی جا سکتی ہے .. . انہی فرزندان اسلام نے یوروپ کی ان وحشی قوموں کو آدمیت کی راہ پر گامزن کیا نیز ان کے فکری نفوذ نے ان کے اوپر علوم و فنون اور فلسفہ کے دروازوں کو کھولا جن سے وہ بالکل بے خبر تھے وہ لوگ ٦٠٠سال تک ہم یوروپ والوں کے استاد رہے ۔ [تاریخ تمدن ولڈورنٹ ،ج١١،ص٣٠٧۔ ٢٢٠]
عظیم مغربی دانشور ول ڈورینٹ لکھتے ہیں ''... دنیا ئے اسلام ، مختلف جہتوں سے دنیا ئے مسیحیت میں نفوذرکھتی تھی ، یوروپ نے دیاراسلام سے ہی آب و غذا ، دواء و درماں ، اسلحہ، خاندانی نشانیاں،ہنری سلیقہ و ذوق ، تجارتی و صنعتی وسائل و رسومات اور دریانوردی کے قوانین و طرق کو اخذ کیا ہے اور ان مدمانوں میں استعمال ہو نے والی بیشترلغات کو بھی مسلمانوں سے ہی اقتباس کیا ہے ... علمائے عرب (اسلام)نے ریاضیات ، طبیعیات ،علم کیمیا ، ہندسہ اور یونا نی طب کو محفوظ رکھا اور انہیں کمال تک پہنچایا اور پھر یوروپ کی طرف منتقل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عربی اصطلاحات یوروپ کی زبانوں میں قابل توجہ مقدار میں پا ئی جا تی ہیں ۔ اطبائے عرب (اسلام) پورے ٥٠٠سال تک دنیا میں علم طب کے علمبردار رہے ۔ فیلسوفان عرب (اسلام ) نے ارسطو کی تا لیفات کو محفوظ رکھا جو یوروپ تک منتقل ہو ئیں ، مشرق کی ابن رشد اور ابن سینا جیسی شخصیتوں نے یوروپ کے فلسفیوں کو تحت الشعاع قرار دیا ... [تاریخ تمدن، ول ڈورینٹ ،ج١١،ص٣٠٧۔ ٢٢٠]
واشنگٹن ارومنگ لکھتے ہیں: '' ہما رے کاخ تمدن کو علم و فن میں ما ہر مسلمانوں کے قدرت مند ہا تھوں نے تعمیر کیا ہے اور یوروپ اور عیسائی قومیں جہاں بھی ہوں مسلمانوں کی مرہون منت ہیں '' [جہان اسلام ،ص ٧٧]
ایک اور مغربی دا نشور ڈاکٹر میکس میر ہوف لکھتے ہیں: اسلامی حکومتوں کے علمی ذخائر اب آہستہ آہستہ ظا ہر ہو رہے ہیں ... البتہ ان آخری چند سالوں میں جو کچھ کشف ہوا ہے وہ دنیا ئے اسلام کی عیمہ تا ریخ پر ایک نئی روشنی ضرور ہے لیکن یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ دنیامستقبل میں اسلامی علوم کی اہمیت کی طرف بہتر طور پر متوجہ ہو گی۔[ میراث اسلام ،ص١٠١ و ١٣٢ ،بحوالہ علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمین]
یہ بعض مغربی دا نشوروں کے چند اعترافات ہیں جو مسلمانوں کے تا بناک و درخشان ماضی کے عکّاس ہیں ۔
مگر افسوس اس دور ستم پرور کے مسلم پر
کہاں ماضی کا وہ سنہری دور اور کہاں عصرحاضر کی پسماندگی ، کہاں تقدیر مسلماں کا وہ حیرت انگیز عروج اور کہاں یہ دردناک نزول ، کہاں وہ قلۂ کمال اور کہاں یہ پستی زوال ، کہاں وہ ہمہ گیر عزت و اقتدار اور کہاں یہ ننگ و عار ، کہاں وہ عظمت و سر بلندی اور کہاں یہ ذلت ورسوائی ... کیا دنیا ئے ہست و بود میں زمین و آسمان کے فرق کا اس سے زیادہ واضح نمونہ مل سکتا ہے جو مسلمانوں کے ما ضی و حال میں پایا جا رہا ہے ؟!کیایہ مقام افسوس نہیں ؟ کیا ملت اسلامیہ کے لئے یہ لمحۂ فکریہ نہیں ؟؟
عظیم مفکر اسلام اور درد آشنا ئے دین علامہ اقبال لاہو ری فارسی اشعار کے پیکر میں مسلمانان عالم اور بالخصوص اسلام و مسلمین کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو بیدار اور ان کی غیرت و حمیت کو زندہ کر نے کی غرض سے مسلمانوں کے ما ضیِ تا بناک اور حالِ دردناک کاموازنہ کر گئے۔
دیروز مسلم آیت اقبا ل مکرمت امروز گو چہ شد کہ چنین نامکرم ا ست ؟
دیروز مسلم از شرف علم سر بلند امروز پشت مسلم و اسلامیان خم است
دیروز محرم حرم غیر مسلمین امروز بین چہ در حرم خود نہ محرم است؟
آن اقتدار خود چہ شد و ین انکسارچیست؟ آنرا چگونہ مبدا و اینش چہ مختم است ؟
سوالات کی شکل میں علامہ اقبال کی یہ فکر ملت اسلامیہ کی ہر ذمہ دار اورفرض شناس فرد پر واجب قراردیتی ہے کہ وہ اس افسوس ناک زوال کے اسباب تلاش کرے اور اس سلسلہ میں چارہ اندیشی کرے ،اس لئے کہ اگر اس نے اس امر میں تساہلی و بے توجہی کا مظاہرہ کیا تو اسے اپنے اسلام کو مشکوک نگا ہوں سے دیکھنا ہو گا کیونکہ حضور اکرم ۖ کا یہ فرمان عام ہے کہ '' من اصبح و لم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم'' جو شخص اس طرح ایام گذارے کہ مسلمانوں کی مشکلات کے سلسلے میں چارہ اندیشی نہ کرے، وہ مسلمان ہی نہیں ہے ۔
سلسلہ جاری ہے...
Comments powered by CComment