بیس صفر کو امام حسین کی زیارت کے دو طریقے ہیں
پہلا طریقہ وہ ہے جسے شیخ نے تہذیب اور مصباح میں صفوان جمال ﴿ساربان﴾ سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا مجھ کو میرے آقا امام جعفر صادق - نے زیارت اربعین کے بارے میں ہدایت فرمائی کہ جب سورج بلند ہو جائے تو حضرت کی زیارت کرو اور کہو:
اَلسَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ اﷲِ وَحَبِیبِه اَلسَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ اﷲِ وَنَجِیبِه اَلسَّلَامُ عَلَی
سلام ہو خدا کے ولی اور اس کے پیارے پر سلام ہو خدا کے سچے دوست اور چنے ہوئے پر سلام ہو خدا کے
صَفِیِّ اﷲِ وَابْنِ صَفِیِّه، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی
پسندیدہ اور اس کے پسندیدہ کے فرزند پر سلام ہو حسین(ع) پر جو ستم دیدہ شہید ہیں سلام ہو حسین(ع) پر
ٲَسِیرِ الْکُرُباتِ وَقَتِیلِ الْعَبَرَاتِ۔ اَللّٰهمَّ إنِّی ٲَشْهدُ ٲَنَّه وَلِیُّکَ وَابْنُ وَلِیِّکَ، وَصَفِیُّکَ
جو مشکلوں میں پڑے اور انکی شہادت پر آنسو بہے اے معبود میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ
وَابْنُ صَفِیِّکَ، الْفَائِزُ بِکَرَامَتِکَ، ٲَکْرَمْتَه بِالشَّهادَة، وَحَبَوْتَه بِالسَّعَادَة، وَاجْتَبَیْتَه
اور تیرے پسندیدہ کے فرزند ہیں جنہوں نے تجھ سے عزت پائی تونے انہیں شہادت کی عزت دی انکو خوش بختی نصیب کی اور انہیں
بِطِیبِ الْوِلادَة، وَجَعَلْتَه سَیِّداً مِنَ السَّادَة، وَقَائِداً مِنَ الْقَادَة، وَذَائِداً مِنَ الذَّادَة،
پاک گھرانے میں پیدا کیا تو نے قرار دیاانہیں سرداروںمیں سردار پیشوائوں میں پیشوا مجاہدوں میں مجاہداور انہیں
وَٲَعْطَیْتَه مَوَارِیثَ الْاََنْبِیَائِ، وَجَعَلْتَه حُجَّة عَلَی خَلْقِکَ مِنَ الْاََوْصِیَائِ، فَٲَعْذَرَ فِی
نبیوں کے ورثے عنایت کیے تو نے قرار دیاان کو اوصیائ میں سے اپنی مخلوقات پر حجت پس انہوں نے تبلیغ کا
الدُّعَائِ، وَمَنَحَ النُّصْحَ، وَبَذَلَ مُهجَتَه فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَهالَة، وَحَیْرَة
حق ادا کیابہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کی تاکہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی وگمرا ہی کی پریشانیوں سے
الضَّلالَة، وَقَدْ تَوَازَرَ عَلَیْه مَنْ غَرَّتْه الدُّنْیا، وَبَاعَ حَظَّه بِالْاََرْذَلِ الْاََدْنیٰ، وَشَرَیٰ
جب کہ ان پر ان لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی
آخِرَتَه بِالثَّمَنِ الْاََوْکَسِ، وَتَغَطْرَسَ وَتَرَدَّیٰ فِی هوَاه وَٲَسْخَطَکَ وَٲَسْخَطَ نَبِیَّکَ
آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سرکشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی(ص) کو
وَٲَطَاعَ مِنْ عِبادِکَ ٲَهلَ الشِّقاقِ وَالنِّفاقِ، وَحَمَلَه الْاََوْزارِ، الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ،
ناراض کیا انہوںنے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کرجہنم کیطرف چلے گئے
فَجاهدَهمْ فِیکَ صابِراً مُحْتَسِباً حَتَّی سُفِکَ فِی طَاعَتِکَ دَمُه وَاسْتُبِیحَ حَرِیمُه۔
پس حسین(ع) ان سے تیرے لیے لڑے جم کرہوشمندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور انکے اہل حرم کو لوٹا گیا
اَللّٰهمَّ فَالْعَنْهمْ لَعْناً وَبِیلاً، وَعَذِّبْهمْ عَذاباً ٲَلِیماً۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ،
اے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اور عذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسول(ص) کے فرزند
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ سَیِّدِ الْاَوْصِیائِ ٲَشْهدُ ٲَنَّکَ ٲَمِینُ اﷲِ وَابْنُ ٲَمِینِه عِشْتَ سَعِیداً
آپ پر سلام ہو اے سردار اوصیائ کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اور اسکے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے
وَمَضَیْتَ حَمِیداً، وَمُتَّ فَقِیداً، مَظْلُوماً شَهیداً، وَٲَشْهدُ ٲَنَّ اﷲَ مُنْجِزٌ
قابل تعریف حال میںگزرے اور وفات پائی وطن سے دور کہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا
مَا وَعَدَکَ، وَمُهلِکٌ مَنْ خَذَلَکَ، وَمُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَکَ، وَٲَشْهدُ ٲَنَّکَ
جسکا اس نے وعدہ کیا اور اسکو تباہ کریگا وہ جس نے آپکا ساتھ چھوڑا اور اسکو عذاب دیگا جس نے آپکو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ
وَفَیْتَ بِعَهدِ اﷲِ، وَجاهدْتَ فِی سَبِیلِه حَتّی ٲَتَاکَ الْیَقِینُ، فَلَعَنَ اﷲُ مَنْ قَتَلَکَ،
آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی آپ نے اسکی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہیدہو گئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپکو قتل کیا
وَلَعَنَ اﷲُ مَنْ ظَلَمَکَ، وَلَعَنَ اﷲُ ٲُمَّة سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِه۔ اَللّٰهمَّ إنِّی
خدا لعنت کرے جس نے آپ پر ظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پرجس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی ظاہر کی اے معبود میں
ٲُشْهدُکَ ٲَنِّی وَلِیٌّ لِمَنْ والاه وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداه بِٲَبِی ٲَنْتَ وَٲُمِّی یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ
تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں میرے ماں باپ قربان آپ پراے فرزند رسول خدا
ٲَشْهدُ ٲَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاََصْلابِ الشَّامِخَة، وَالْاََرْحامِ الْمُطَهرَة، لَمْ تُنَجِّسْکَ
(ص)میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میںرہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست
الْجاهلِیَّةبِٲَنْجاسِها وَلَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَهمَّاتُ مِنْ ثِیابِها وَٲَشْهدُ ٲَنَّکَ مِنْ دَعائِمِ الدِّینِ
سے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی اس نے اپنے بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں
وَٲَرْکانِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ، وَٲَشْهدُ ٲَنَّکَ الْاِمامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ
مسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام (ع)ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ
الزَّکِیُّ الْهادِی الْمَهدِیُّ وَٲَشْهدُ ٲَنَّ الْاََئِمَّة مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَة التَّقْوی وَٲَعْلامُ الْهدیٰ
پاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیز گاری کے ترجمان ہدایت کے
وَالْعُرْوَة الْوُثْقی وَالْحُجَّة عَلَی ٲَهلِ الدُّنْیا وَٲَشْهدُ ٲَنِّی بِکُمْ مُؤْمِنٌ وَبِ إیابِکُمْ مُوقِنٌ
نشان محکم تر سلسلہ اور دنیا والوںپر خدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا
بِشَرائِعِ دِینِی وَخَواتِیمِ عَمَلِی وَقَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ وَ ٲَمْرِی لاََِمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ
اپنے دینی احکام اور عمل کی جزا پر یقین رکھنے والا ہوں میرا دل آپکے دل کیساتھ پیوستہ میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع اور میری
وَنُصْرَتِی لَکُمْ مُعَدَّة حَتَّی یَٲْذَنَ اﷲُ لَکُمْ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لاَ مَعَ عَدُّوِکُمْ صَلَواتُ
مدد آپ کیلئے حاضر ہے حتی کہ خدا آپکو اذن قیام دے پس آپکے ساتھ ہوں آپکے ساتھ نہ کہ آپکے دشمن کیساتھ خدا کی رحمتیں ہوں
اﷲِعَلَیْکُمْ وَعَلَی ٲَرْواحِکُمْ وَ ٲَجْسادِکُمْ وَشاهدِکُمْ وَغَائِبِکُمْ وَظَاهرِکُمْ وَبَاطِنِکُمْ
آپ پر آپ کی پاک روحوں پر آپ کے جسموں پر آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر
آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ۔
ایسا ہی ہو جہانوں کے پروردگار۔
اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اپنی حاجات طلب کرے اور پھر وہاں سے واپس چلا آئے
دوسری زیارت اربعین یہ زیارت جابربن عبدا للہ انصاری سے منقول ہے اور اس کی کیفیت و طریقے کے بارے میں عطا سے روایت ہے کہ اس نے کہا میں جابر کے ساتھ تھا ہم بیس صفر کو غاضریہ پہنچے جابر نے دریائے فرات میں غسل کیا اور پاکیزہ لباس پہنا جو ان کے پاس تھا پھر مجھ سے کہا اے عطا تمہارے پاس کوئی خوشبو ہے؟ میںنے کہا کہ ہاں میرے پا س ُسعد ہے پس انہوں نے وہ تھوڑی سی لے لی اور اپنے سر اور بدن پر چھڑک دی پھر ننگے پائوں چل پڑے یہاں تک کہ امام حسین- کے سرہانے جا ٹھہرے تب انہوں نے تین بار اَﷲُ اَکْبَرُ کہا اور بے ہوش ہر کر گر پڑے جب ہوش آیا تو میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَا آلَ اﷲِ..الخ جو بعینہ وہی پندرہ رجب والی زیارت ہے کہ جسے ہم نے اعمال رجب میں نقل کر چکے ہیں اور سوائے چند ایک کلمات کے اس میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ بھی جیسا کہ شیخ مرحوم نے احتمال دیا ہے کہ نقل در نقل ﴿اختلاف نسخ ﴾ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے پس اگر کوئی شخص روز اربعین یہ زیارت بھی پڑھنا چاہے تو وہ پندرہ رجب کی زیارت کے صفحات میں سے پڑھ لے
Comments powered by CComment