حضرت عباس کا عِلم
الٰہی علماء اور وادی ٔ اسرارورموز کے دانشمند کا نظریہ اور عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عباس اہل عِلم وفضل وبصیرت کے بزرگوں میں سے اور خاندان عصمت وطہارت کے اسرار سے باخبر تھے ۔
جناب عباس ایسے دانشمند تھے کہ جنوں نے کسی دنیاوی استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیاتھا کیوں کہ آپ نے فیض الٰہی کے سرچشمہ سے علم حاصل کیا تھا۔ آپ نے اپنے پدر بزرگوارحضرت امیر المومنین ـ اور اپنے بھائیوں سے اسرار الٰہی حاصل کئے تھے اور ان بزرگواروں کے پر فیض دامن سے استفادہ کیا تھا ۔
آیت اللہ بیر جندی لکھتے ہیں:حضرت ابو الفضل العباس اہل بیت علیہم السلام کے اکابر ،افاضل ،فقہاء اور علماء میں سے تھے ،بلکہ ایسے عالم تھے کہ جنوں نے کسی سے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا تھا ١ ۔
مرحوم مقرم لکھتے ہیں :جہاں امیر المومنین ـ اپنے بعد اصحاب کو اس طرح تعلیم وتربیت دیتے تھے کہ عالم وجود کے اسرار ورموز منجملہ علم منایا وبلایا (یعنی گزشتہ کے حالات اور موت کا علم) رکھتے تھے(جیسے حبیب بن مظاہر،میثم تماراور رُشَید حجری وغیرہ)کیا یہ بات معقول ہے کہ امیر المومنین ـ اپنے اصحاب کو اس طرح کے علم سے سرفراز فرمائیں اور اپنے نور چشم اور پارۂ جگر کو اپنے علوم سے محروم رکھیں ؟جبکہ آپ کی صلاحیت واستعداد ان افراد سے کہیں زیادہ تھی !کیاہمارے مولا وآقا حضرت ابوالفضل العباس کے پاس ان علوم کے حاصل کرنے کی صلاحیت واستعداد نہیں تھی؟
خدا کی قسم نہیں ،ایسا نہیں ہے !حضرت امیر المومنین ـ نے اپنے ان تمام شیعوں کو جو علوم ومعارف حاصل کرنے کی صلاحیت واستعداد رکھتے تھے اپنے علوم سے سرفراز کرتے تھے چہ جائیکہ آپ کے نور چشم وپارۂ جگر، نہ یہ کہ دوسرے افراد جو آپ سے کسب علوم کرتے تھے ان کی صلاحیت واستعداد آپ کے فرزندوں سے زیادہ تھی ۔
مختصر یہ کہ حضرت عباس اپنی بہن زینب کبریٰ علیہا السلام کی طرح ہیں کہ حضرت امام سجاد ـ کے بیان کے مطابق کہ آپ نے فرمایا:ہماری پھوپھی زینب عالمہ غیر متعلمہ ہیں (یعنی کسی سامنے زانوئے ادب تہہ نہیں کیا)اسی طرح جناب عباس کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ عالم غیر متعلم ہیں ۔
اس کے علاوہ سردار کربلا ،قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس طیب وطاہر نفس اور پاک وپاکیزہ طینت اور اس عظیم اخلاص کی بنیاد پر کہ آپ جس کے حامل تھے اس حدیث شریف کے مکمل مصداق ہیں کہ :
''مٰا اَخلَصَ عَبد لِلّٰه عَزَّوَجَلَّ اَربَعِينَ صَباحاً اِلاّٰ جَرَت ينابيعُ الحِکمَةِ مِن قَلبِه عَلیٰ لِسٰانِه ٢ ؛جو شخص اپنے اعمال کو خدا کے لئے چالیس دن انجام دے اس کے قلب سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری ہوں گے ۔' '
پس اس صورت میں اس شخص کے متعلق کہ جس نے اپنی عمر کے تمام اعمال ومراحل کو خداوند عالم کی مرضی وخوشی میں گزار دیئے ہوں اور تمام اخلاقی رذائل سے منزہ ومبرہ اور تمام فضائل سے آراستہ ہو ،کیااس کے سوا تصور کیا جاسکتا ہے کہ اس کی ذات اقدس الٰہی علوم ومعارف کے انوار سے متجلی ہو اور اس کا علم ،علم لدنی ہو ؟
دوسری دلیل اس بات پر کہ قمر بنی ہاش کا علم وجدانی ہے ،اگر چہ برہانی علوم ومعارف میں بھی ماہر تھے ،معصو م ـ کا کلام ہے کہ فرماتے ہیں :''اِنَّ العَبّاسَ بنَ علیٍّ زُقَّ العِلمَ زُقّاً ؛٣ بے شک عباس بن علی کو بچپن ہی میں اس طرح علم سے سیر وسیراب کیا گیا کہ جیسے پرندہ اپنے بچے کو دانہ بھراتا ہے۔ ' '
مرحوم مقرم اس کے بعد لکھتے ہیں:امام کی تشبیہ نہایت بدیع استعارہ ہے اس لئے کہ ''زق''پرندے کا اپنے بچے کو دانہ بھرانے کے معانی میں ہے کہ جس وقت وہ خود تنہا دانہ کھانے پر قادر نہیں ہے ۔حضرت امام علی ـ کے کلام میں اس استعارہ کے استعمال سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سقائے سکینہ بچپن ہی سے حتی آغوش مادر سے علوم ومعارف کے حاصل کرنے کی صلاحیت واستعداد کے حامل تھے ٤ ۔
حضرت ابو الفضل العباس بھی اس طیب وطاہر خاندان سے دور نہیں سمجھے جاتے تھے کہ جن کے افراد بچپن میں دریائے علم تھے،یہ وہ مطلب ہے کہ جس کی گواہی ان کے دشمنوں نے دی ہے۔جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق ـسے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
''عثمان مسجد کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک مرد آیا اور ان سے پیسے کی درخواست کی عثمان نے حکم دیا کہ اسے پانچ درہم دے دیئے جائیں مرد نے کہا کہ مجھے دوسرے شخص کی رہنمائی کرو ،عثمان نے کہا ان جوانوں کی طرف رجوع کرو (ہاتھ سے اس مسجد کی طرف اشارہ کیا کہ جہاں امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اور عبد اللہ بن جعفر بیٹھے ہوئے تھے )مرد ان حضرات کے پاس گیا اور ان سے مدد کرنے کی درخواست کی حضرت امام حسن ـ نے فرمایا:
اے مرد تین موارد کے علاوہ کسی سے پیسے کی درخواست کرنا جائز نہیں ہے :دیۂ قتل یا کمر شکن قرض یا بے حد تنگدستی ہو؛پس ان موارد میں سے کون سا مورد تم سے متعلق ہے؟اس نے کہا :ان میں سے ایک مورد ہے ،حضرت امام حسن ـ نے پچاس دینار ،حضرت امام حسین ـ نے انچاس دینار اور عبد اللہ بن جعفر نے اڑتالیس دینار عطا کئے ۔اس مرد نے مسجد کے دروازے کے بغل میں عثمان کو دیکھا اور اس واقعہ کو بیا ن کیا ۔
عثمان نے کہا:ان جوانوں کے مانند جوان کہاں پائے جاتے ہیں ؟یہ وہ جوان ہیں کہ جنھوں نے اپنے کو علم سے مخصوص اور خیر وحکمت حاصل کی کیا ہے ٥۔ ''
تاریخ میں آیا ہے کہ حضرت امام سجاد ـ کے بارے میں یزید بن معاویہ نے کہا :آپ ایسے خاندان سے ہیں کہ جن کو علم پلایا گیا ہے ٦۔
ایک تعجب خیز واقعہ کہ جس کو تمام موثقین نے نقل کیا ہے وہ یہ ہے کہ کربلا کے ایک عالم کو اپنے علم پر غرور اور تکبر پیدا ہوا یہاں تک کہ ایک وقت اپنے دوستوں کے درمیان تھے ،حضرت ابو الفضل العباس اور ان کے الٰہی علوم ومعارف کے بارے میں کہ جن کی وجہ سے آپ کو تمام شہداء پر امتیاز حاصل تھا بحث وگفتگو ہوئی ،اس وقت اس مغرور عالم نے اپنی گرانقدر خصوصیات منجملہ علوم ،نماز شب ،مستحبی اعمال اور زہد وتقویٰ کی بناء پر اظہار کیا کہ جناب عباس کے برتر ہے!اور کہا کہ اگر جناب عباس کو اس طرح کے فضائل کی وجہ سے برتری حاصل ہے تو میں بھی ان فضائل کا حامل ہوں اور روز عاشورہ کی شہادت کی برابری علم وفقہ(کہ جن کے متعلق وہ مدعی تھا وہ ان کا حامل ہے اور حضرت ابو الفضل العباس ان کے حامل نہیں ہیں)کے ساتھ نہیں کی جاسکتی ہے ۔
اس بزم میں موجودہ افراد کو اس کی جسارت سے بڑا تعجب اور حیرت ہوئی اور وہ مرد اپنے اس تکبر وغرور پر نہ ہی شرمندہ تھا اور نہ ہی اسے کوئی خوف لاحق تھا ۔
دوسرے دین مجمع میں موجودہ افراد اس مرد کے متعلق باخبر ہونا چاہتے تھے کیا وہ اپنی گمراہی پر باقی ہے یا خدا کی ہدایت اس کے شامل حال ہوگئی ہے ۔ پس اس کے گھر کی طرف روانہ ہوئے ، وہاں پہنچ کر دق الباب کیا ،ان لوگوں سے کہا گیا کہ وہ جناب عباس کے حرم مطہر میں گئے ہوئے ہیں ، لوگ حرم مطہر کی جانب چلے وہاں پہنچ کر مشاہدہ کیا کہ اس مرد نے اپنی گردن میں رسّی باندھی ہے اور رسّی کا دوسرا سرا ضریح مطہر سے متصل کئے ہوئے ہے اور گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے عمل پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کررہاہے ۔
جب لوگوں نے اس موضوع سے متعلق اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ جب میں کل کی شب سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں علماء کے مجمع میں بیٹھاہوا ہوں ، اچانک ایک مرد داخل ہوا اور آواز دی کہ حضرت ابوالفضل العباس تشریف لارہے ہیں آپ کا نام سنتے ہی لوگوں کے قلوب آپ کی طرف متوجہ ہوگئے یہاں تک کہ جناب عباس نور کے ہالوں میں جو آپ کے چہرۂ مبارک سے ساطع ہورہاتھا بزم میں داخل ہوئے اس حال میں کہ تمام لوگ آپ کی عظمت اور شان و شوکت کے مقابلہ میں خاضع و خاشع تھے ، جناب عباس آکر صدر مجلس میں بیٹھے اور میں اس وقت اپنی گزشتہ جسارت کی وجہ سے بڑی شدت کی ساتھ خوف و اضطراب میں مبتلا تھا ۔
جناب عباس نے اہل بزم کے ایک ایک فرد سے گفتگو کرنا شروع کردی یہاں تک کہ میری باری آئی ، فرمایا تم کیا کہہ رہے ہو ؟ اس حال میں کہ میرے ہوش و حواس اڑے ہوئے تھے میں چاہتاتھا کہ اپنے کو اس ہلاکت سے نجات دوں اور اپنے گمان کے مطابق حق کو ثابت کروں ، جو دلیلیں اور باتیں تم لوگوں سے کہی تھیں حضرت کے سامنے پیش کیا ۔
جناب عباس نے فرمایا : میںنے اپنے پدر بزرگوار حضرت امیرالمومنین ـ اور میرے دونوں بھائی امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے پاس علم حاصل کیاہے ،ان جلیل القدراور الہی اساتیدسے علم حاصل کرکے اپنے دین میں یقین کی منزل تک پہونچاہوں جب کی تم اپنی دین میں اور اپنے امام کی نسبت شک کرتے ہو ، کیا ایسا نہیں ہے ؟ میں ان کے کلام سے انکار نہیں کرسکتاتھا ۔
اس کے بعد فرمایا : لیکن وہ استاد کہ جس کے پاس تم نے تعلیم حاصل کی ہے وہ تم سے زیادہ بدبخت ہے ! تمہارے پاس ایسے اصول وقواعد ہیں جو احکام کی نسبت جاہل افراد کے لئے قرار دئیے گئے ہیں تا کہ حقائق تک پہنچنے کے لئے انھیں استعمال کیا جائے ، جب کہ میںان اصول و قواعد کا محتاج نہیں ہوں اس لئے کہ میں نے دین کے واقعی و حقیقی احکام کو وحی ٔ الہی کے سرچشمہ سے حاصل کیاہے ۔
اس کے بعد حضرت فرماتے ہیں : مجھ میں گرانقدر صفات پائے جاتے ہیں ، انھیں بیان کرنا شروع کیا : کرم ، صبر ، ایثار اور جہاد و غیرہ کہ اگر تم سب کے درمیان ان میں سے کچھ صفات تقسیم کی جائیں تو تمہارے پاس انھیں قبول کرنے کی قدرت و توانائی نہیں ہوگی جب کہ تم میں حسد ، خود پسندی اور ریا و غیرہ جیسی رذیلہ صفات پائی جاتی ہیں اس کے بعد اپنے دست مبارک سے میرے منھ پر مارا اور میں اپنی گزشتہ خطاؤں کی وجہ سے خوف و ندامت کی حالت میں اٹھا اور حضرت سے توسل اورتوبہ کرکے آپ کی باتوں کو قبول اور آپ کے سامنے سر تسلیم خم کیا۔
حوالہ جات :
١۔کبریت احمر ٤٠٦۔
٢۔عیون الاخبار ، ٦٨٢ب ٣١، ح ٣٢١۔
٣۔اسرار الشہادة ، ص ٣٢٤۔
٤۔العباس ،مرحوم مقرم ١٦٩، خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔
٦ ٥۔خصال صدوق ، ج١ ، ص٦٧ ، باب '' درخواست جز در سہ مورد روا نیست ''۔
حضرت عباسؑ کا شھادت نامہ
عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن ۲۶ ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ۶۱ ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال تھی۔چودہ سال اپنے بدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام کے زیر تربیت گزارے۔
آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں جن کی کنیت ام البنین ہے۔
جن کے ساتھ امیر المومنین[ع] نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے بعد جناب عقیل کی پیشنہاد سے شادی کی تھی جب امیر المومنین نے جناب عقیل سے کہا تھا کہ میں چاہتا ہوں ایک ایسے خاندان کی خاتون سے شادی کروں جس سے ایک دلیر اور شجاع فرزند پیدا ہو جناب عقیل نے ام البنین کی پیشنہاد دی۔ اس شادی کا ثمرہ چار بیٹے جناب عباس، عبد اللہ، جعفر اور عثمان ہوئے۔
امام سجاد علیہ السلام اپنے چچا عباس[ع] کو اس طرح توصیف کرتے ہیں:
«رَحِمَ اللَّهُ عَمِىَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلى وفَدى أَخاهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى قُطِعَتْ يَداهُ فَأَبْدَلَهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْهُما جِناحَيْن يَطيرُ بِهِما مَعَ الْمَلائِكَةِ فى الْجَنَّةِ كَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبى طالِبْ عليه السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعالى مَنْزِلَةٌ يَغبِطَهُ بِها جَميعَ الشُّهدَاءِ يَوْمَ القِيامَةِ»
خدا میرے چچا عباس کو رحمت کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کی اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا اور اپنے بھائی پر فدا ہوگئے۔ یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہو گئے پس خدا نے انہیں دو پر دئے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے۔
امام صادق علیہ السلام جناب عباس کی توصیف میں فرماتے ہیں۔
«كانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصيرَةِ، صَلْبَ الْأيمانِ، جاهَدَ مَعَ أَبى عَبْدِاللَّهِ عليه السلام وَأَبْلى بَلاءً حَسَناً وَمَضى شَهيدا»
ہمارے چچا عباس علیہ السلام اہل بصیرت تھے مستحکم ایمان کے مالک تھے ابا عبد اللہ علیہ السلام کے رکاب میں جہاد کیا اور اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور آخر کار مقام شہادت پر فائز ہوئے۔
جناب عباس کے بچپنے کے بارے میں تاریخ کے اندر زیادہ معلومات نظر نہیں آتی۔صرف اتنا نقل ہوا ہے کہ ایک دن اپنے بابا امیر المومنین کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹا کہو ایک۔ حضرت عباس نے کہا ایک۔ پھر آنحضرت نے کہا: کہو دو۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا اس سے دو کہتے ہوئے شرم آتی ہیں۔
آپ کی دوران جوانی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ جنگ صفین میں موجود تھے لیکن امیر المومنین نے جنگ کی اجازت نہیں دی۔ لیکن بعض نے ابوالشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔ خوارزمی نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب نامی ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آیا تو آپ نے جناب عباس کا جنگی لباس پہنا اور اس کے ساتھ جنگ کی۔
جناب عباس کے دو بیٹے تھے فضل اور عبید اللہ جن کی ماں کا نام لبابہ بنت عبید اللہ بن عبد المطلب تھا اور آپ کی نسل عبید اللہ سے آگے بڑھی۔
نو محرم الحرام
کربلا میں جب دشمنوں نے جنگ کی تیاریاں شروع ہو کیں تو امام حسین علیہ السلام کے حکم سے ایک رات کی مہلت مانگنے دشمنوں کے پاس گئے تاکہ اللہ سے راز و نیاز کر سکیں۔ اسی ہنگام کزمان، عبد اللہ بن ابی محل کا غلام اس امان نامہ کو جو شمر اور عبد اللہ بن ابی المحل نے ابن زیاد سے لیا تھا آپ اور آپ کے بھائیوں کے لیے لایا۔ جب ام البنین کے بیٹوں کی نگاہ امان نامہ پر پڑی کہا: ہمارا سلام شمر کو پہنچا دینا اور کہنا ہمیں تمہارے امان نامہ کی ضرورت نہیں ہے اللہ کی امان ہمارے لیے کافی ہے۔
ایک روایت کے مطابق شمر جو خود قبیلہ بنی کلاب میں سے تھا خیموں کے پیچھے آیا اور آواز دی کہاں ہیں میرے بھانجے؟ امیر المومنین [ع] کے بیٹوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ امام نے فرمایا: اس کا جواب دیں اگر چہ فاسق ہے۔ جناب عباس، جعفر اور عثمان باہر آئے اور پوچھا کیا بات ہے؟ اور کیا چاہتے ہو؟ کہا: اے میرے بھانجو میری طرف آ جاو میں نے تمہیں امان دی ہے۔ اپنے آپ کو حسین کے ساتھ ہلاکت میں نہ ڈالو۔
انہوں نے برا بھلا کہتے ہوئے کہا: خدا کی لعنت ہو تم پر اور تمہارے امان نامہ پر۔ کیا تم اپنے آپ کو ہمارا ماموں سمجھ کر ہمیں امان دے رہے ہو۔ لیکن فرزند رسول خدا [ص] کے لیے امان نہیں ہے۔ کیا تم ہم سے یہ چاہتے ہو کہ ہم ملعون اور ابن ملعون کی اطاعت کریں؟۔ شمر کو غصہ آیا اور وہاں سے چلا گیا۔
شب عاشور امام علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ایک خطبہ کے درمیان اپنے بیعت کو ان پر سے اٹھا کر فرمایا: آپ لوگ چلے جائیں ان کو صرف مجھ سے مطلب ہے۔ اس ہنگام سب سے پہلے جس نے اعلان وفاداری کیا حضرت عباس ہیں۔ انہوں نے عرض کیا: ہم ایسا کیونکر کریں۔ کیا اس لیے کہ آپ کے بعد زندہ رہیں؟ خدا کبھی ایسا دن نہ لائے۔
جب پیاس نے امام علیہ السلام اور ان کے اصحاب پر غلبہ ڈالا۔تو جناب عباس کو بلایا اور تیس سوار اور پا پیادہ افراد کے ہمراہ پانی کا انتظام کرنے بھیجا۔ وہ سب گئے مشکیں بھری لیکن واپسی پر عمرو بن حجاج زبیدی اور اس کے ساتھی جو فرات پر پیرا کھڑے تھے پانی لانے کی راہ میں مانع ہو گئے لیکن حضرت عباس علیہ السلام اور نافع بن ہلال کے حملہ سے تتر بتر ہوگئے اور اصحاب حسینی پانی کو خیموں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔
عاشور کے دن لشکر حسینی کو دوحصوں میمنہ اور میسرہ میں تقسیم کیا جناب عباس کو علمبردار لشکر بنایا۔ اصحاب نے یکے بعد دیگرے میدان میں جانا شروع کیا۔ اور جب کوئی دشمن کے محاصرے میں پھنستا تھا تو حضرت عباس اسے نجات دلاتے تھے،جیسے عمر بن خالد صیداوی، جابر بن حارث سلمانی، سعد مولی عمر بن خالد صیداوی کو دشمنوں نے اپنے محاصرے میں لے لیا تو حضرت عباس نے دشمنوں پر حملہ کر کے انہیں نجات دلائی۔
جب تمام اصحاب حسینی اور بنی ہاشم کے کچھ جوان جام شہادت نوش کر چکے، تو حضرت ابو الفضل [ع] نے اپنے بھائیوں عثمان، عبد اللہ اور جعفر سے کہا: میں قربان جاوں آپ کے، میدان کارزار میں جاو اور اپنے مولا کی حمایت کرو۔ یہاں تک کہ موت کی آغوش میں سو جاو۔ وہ سب میدان میں گئے اپنے اپنے جوہر شجاعت دکھلائے اور مقام شہادت پر فائز ہو گئے۔اس کے بعد حضرت عباس نے میدان میں جانے کا عزم و ارادہ کیا۔
مورخین نے جناب عباس کی شہادت کو مختلف انداز میں نقل کیا ہے۔
صاحب اخبار الطوال لکھتے ہیں: جناب عباس علیہ السلام امام عالی مقام کے ساتھ ساتھ تھے اور امام علیہ السلام کا دفاع کر رہے تھے جہاں جہاں امام جاتے تھے آپ ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔
خوارزمی اور ابن اعثم کوفی نے آپ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں یوں لکھا ہے: حضرت ابو الفضل علیہ السلام میدان جنگ میں گئے اور یہ رجز پڑھی:
وَبِالْحُجونِ صادِقاً وَزَمْزَمِ
وَبِالْحَطيمِ وَالْفَنَا الْمُحَرَّمِ
لِيَخْضِبَّنَ الْيَومِ جِسْمى بِدَمى
دُونَ الْحُسَينِ ذِى الفِخارِ الأَقْدَمِ
إِمامِ أَهْلِ الْفَضْلِ وَالتَكُّرمِ
خدائے عظیم و برتر کی قسم اور حجون، زمزم و۔۔۔ کی قسم میں اپنے بدن کو خون میں رنگین کر دوں گا حسین علیہ السلام کے دفاع میں کہ جو ہمیشہ صاحب فخر و فضل و کرم رہے ہیں۔
آپ نے بہت سارے دشمنوں کو تہ تیغ کرنے کے بعد جام شہادت نوش کر لیا۔
امام علیہ السلام آپ کے سرہانے پہنچے اور یوں فریاد بلند کی: «الآنَ انْكَسَرَ ظَهْرى وَقَلَّتْ حيلَتى» اب میری کمر ٹوٹ گئی اور کوئی چارہ کار باقی نہ رہا۔
صاحب لہوف اور مثیر الاحزان نے جناب عباس کی شہادت کو دوسرے انداز سے بیان کیا ہے:
جب امام عالی مقام پر پیاس کا غلبہ ہوا اپنے بھائی کے ہمراہ فرات کی طرف روانہ ہوئے دشمنوں نے حملہ کر کے دونوں کو الگ الگ کر دیا اور جناب عباس شہید ہو گئے۔
ابن شہر آشوب آپ کی شہادت کے بارے میں رقمطراز ہیں: جناب عباس، حرم حسینی کے سقا، قمر بنی ہاشم اور لشکر حسینی کے علمبردار اپنے دوسرے بھائیوں سے بڑے تھے پانی کے لیے فرات کی طرف روانہ ہوئے ۔دشمن نے آپ پر حملہ کیا اور آپ نے بھی ان کا جواب دیا اور یوں رجز پڑھی:
حَتَّى اوارى فى الْمَصالِيتِ لِقا
نَفْسى لِنَفْسِ الْمُصْطَفى الْطُّهر وَقا
إنّى أَنَا الْعَبَّاسُ أَعْدُو بِالسَّقا
وَلا أَخافُ الشَّرَّ يَوْمَ الْمُلْتَقى
میں موت سے نہیں ڈرتا اس لیے کہ موت ذریعہ کمال ہے۔ یہاں تک کہ میرا بدن دلیر مردوں کی طرح خاک و خوں میں غلطاں ہو جائے۔
میری جان فدا ہو نفس مصطفیٰ پر جو پاک و مطہر ہے۔ میں عباس ہوں سقا میرا لقب ہے۔ اور ہر گز دشمن کے ساتھ ملاقات کے وقت سے خوف و ہراس نہیں رکھتا۔
اس کے بعد آپ نے حملہ کیا اور دشمن کو تہس نہس کر دیا زید بن ورقا جہنی درخت کے پیچھے آپ کی تاک میں بیٹھا ہوا تھا اور حکیم بن طفیل سنبسی کی مدد سے ایک ضربت ماری اور آپ کا دائیاں بازوں قلم کر دیا۔
جناب عباس نے تلوار کو دوسرے ہاتھ میں لیا اور یوں رجز پڑھی:
إنّى أُحامِى أبَداً عَنْ دينى
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقينِ
نَجْلِ النَّبىِّ الْطَّاهِرِ الأَمينِ
خدا کی قسم اگر میرا دائیں ہاتھ قلم کیا [ تو کوئی بات نہیں] میں ابھی بھی اپنے دین کا دفاع کروں گا اور اپنے سچے امام کی حمایت کروں گا جو پاک اور امین نبی کا فرزند ہے۔
مسلسل جنگ میں مصروف رہے یہاں تک کہ ضعف بدن پر طاری ہو گیا اسی ہنگام حکیم بن طفیل طائی کہ جو درخت کی کمین میں تھا نے دوسرا وار کیا تو بائیاں بازوں بھی قلم ہو گیا۔ آپ نے پھر رجز پڑھی:
وَأَبْشِرى بِرَحْمَةِ الْجَبَّارِ
مَعَ الْنَّبى السَّيِّد الْمُختارِ
قَدْ قَطَعُوا بِبَغْيِهِم يِسارى
فَأصْلِهِمْ يا ربِّ حَرِّ النَّارِ
اے نفس کافروں سے مت ڈر اور خدائے جبار کی رحمت اور پیغمبر اکرم [ص] کی ہمنشینی کی بشارت ہو۔ انہوں نے ظلم و ستم سے میرا بائیاں ہاتھ کاٹا پروردگارا انہیں دوزخ کی آگ میں جلا کر راکھ بنا دے۔
اس کے بعد اس ملعون نے ایک لوحے کے اسلحہ سے سر پر ضربت ماری اور آپ شہید ہو گئے۔
مرحوم علامہ مجلسی صاحب مناقب کے کلام کو نقل کرنے کے بعد بعض مرسل منابع سے حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں: جب جناب عباس نے اپنے بھائی کو تنھا محسوس کیا تو ان کے پاس گئے اور میدان میں جانے کی اجازت طلب کی۔ امام عالی مقام نے فرمایا: تم میرے علمبردار ہو میرے لشکر کے سردارہو ۔ عرض کیا: میرا دل تنگ ہو گیا ہے میں زندگی سے سیر ہو گیا ہوں میں ان منافقوں سے بدلنا لینا چاہتا ہوں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ان بچوں کے لیے تھوڑا سا پانی مہیا کر کے جاو۔ جناب عباس دشمنوں کی طرف آئے اور ان کو جتنا وعظ و نصیحت کیا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ امام کے پاس واپس گئے اور قضیہ کی اطلاع دی۔
اتنے میں بچوں کی العطش کی صدائیں سنائی دیں۔ مشک کو اٹھایا۔ اور گھوڑے پر سوار ہوئے تاکہ فرات کی طرف جائیں۔ چار ہزار سپاہیوں نے جو فرات پر پیرا دے رہے تھے آپ کو محاصرہ میں لے لیا اور تیروں کی بارش شروع کر دی۔
انہیں دور بھگایا اور ایک روایت کے مطابق ان میں سے اسّی سپاہیوں کو فی نار جہنم کیا۔ فرات میں داخل ہوئے چلّو میں پانی لیا تاکہ اسے پئیں۔ مگر امام حسین علیہ السلام اور ان کے بچوں کی پیاس یاد آ گئی۔ پانی کو پھینک دیا اور مشک کو پانی سے بھرا۔ اور اسے دائیں بازوں پر لگا کر خیموں کا رخ کیا۔ دشمنوں نے راستہ روک لیا۔اور ہر طرف سے آپ کو محاصرہ میں لے لیا۔ جناب عباس نے ان کے ساتھ جنگ شروع کر دی یہاں تک کہ نوفل ازرقی نے آپ کا دائیاں بازوں قلم کر دیا۔ مشک کو بائیں شانہ پر لٹکایا۔ نوفل نے دوسری ضربت سے بائیاں بازوں بھی قلم کر دیا۔ جناب عباس سے مشک کو دانتوں میں لیا اور گھوڑے کو دوڑایا۔ اتنے میں ایک تیر مشک پر پیوست ہوا اور سارا پانی بہ گیا۔ دوسرا تیر آپ کے سینے پر لگا اور آپ زین سے زمین پر گرے۔ اور امام حسین علیہ السلام کو آواز دی۔ مولا ادرکنی۔
جب امام علیہ السلام آپ کے قریب پہنچے تو آپ خون میں لت پت ہو چکے تھے امام علیہ السلام نے حسرت سے فرمایا: الان انکسر ظھری و قلت حیلتی"۔ اب میری کمر ٹوٹ گئی اور میں بے چارہ ہو گیا۔
زیارت ناحیہ میں آپ پر یوں سلام کیا گیا ہے:
السَّلامُ عَلى أبى الْفَضْلِ العَبَّاسِ بْنِ أَميرِالْمُؤمنينَ المُواسي أَخاهُ بِنَفْسِهِ، أَلآخِذُ لِغَدِهِ مِنْ أَمْسِهِ، الْفادى لَهُ الواقى السَّاعى إِلَيْهِ بِمائِه، الْمَقطُوعَةِ يَداه- لَعَنَ اللَّهِ قاتِلَيهُ يَزيدَ بْنَ الرُّقادِ الجُهَنىّ، وَحَكيمِ بْنِ الطُّفَيلِ الطَّائى.
سلام ہو ابو الفضل العباس ابن امیر المومنین پر جنہوں نے اپنے بھائی کی خاطر اپنی جان نثار کر دی۔ جنہوں نے گزشتہ کل سے آئندہ کے لیے ذخیرہ کر لیا۔ جنہوں نے اپنے آپ کو ڈھال قرار دیا اور فدا کر دیا۔ اور پانی پہنچانے کی سعی ناتمام کی یہاں تک کہ دونوں ہاتھ قلم ہو گئے۔ خدا کی لعنت ہو ان کے قاتل یزید بن رقاد جہنی اور حکیم بن طفیل طائی پر ۔
جناب عباس کا روضہ نہر علقمہ کے پاس دوسرے شہدا سے الگ ہے اور آپ کا نورانی حرم تمام عاشقان کے لیے آماجگاہ ہے۔