تفسیر سورہ نوح

تفسیر
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

آیت اللہ مکارم شیرازی

(تفسیر نمونہ)


یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی
اس کی ٢٨ آیات ہیں

سورہ نوح کے مطالب ومضامین

یہ سورہ جیساکہ اس کے نام سے واضح ہے،نوح پیغمبرکی سر گزشت بیان کرتی ہے،قرآن مجید کی کئی سورتوں میںاس عظیم پیغمبرکی سرگزشت کی طرف اشارہ ہواہے ،ان میں سے سورہ شعراء ،مومنون، اعراف،اورابنیاء ہیں، اور سب سے زیادہ تفصیل سورہ ہود میںآئی ہے،جس میں تقریباً ٢٥ آیات میں اس '' الوالعزم'' پیغمبرکے بارے میں ہیں(آیہ ٢٥ تا٤٩)۔
لیکن سورہ نوح میں جوکچھ آ یاہے ،وہ ان کی زندگی کاایک خاص حصّہ ہے ،جو دوسری جگہ پراس طرح سے نہیں آ یا، اوریہ حصّہ ان کی توحیدکی طرف دعوت دینے ، اس کی کیفیت،اس دعوت کے عناصر ،اوران جز ئیات کے بارے میں جواس اہم مسئلہ میں بروئے کار آئے ہیں۔
اوروہ بھی اس ہٹ دھرم ،خود غرض اور متکبرقوم کے مقابلہ میںجوحق کے سامنے سرجھکانے کے لیے بالکل تیار نہ تھی... پے درپے اور مسلسل دعوتِ حق دینے کے ساتھ مربوط ہے ۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوراس زمانہ کے تھوڑے سے مسلمان ،نوح اوران کے اصحاب کے زمانہ کے حالات سے مشابہ حالات رکھتے تھے ، انہیں بہت سے مسائل کی تعلیم دیتاہے،اوراس واقعہ کے بیان کرنے کے اہداف و مقاصد میں سے ایک یہی ہے ،منجملہ ان کے :
١۔ انہیں یہ بتانا ہے کہ منطقی استدلال کے طریق سے ، جودشمنوں کے ساتھ محبت اورمکمل دلسوزی سے تواُم ہو ، کس طرح تبلیغ کریں اور اس راہ میں ہرمفید اورموثر ذریعہ سے کیسے فائدہ اٹھائیں۔
٢۔ انہیں یہ سکھاتاہے خدا کی طرف دعوت دینے کی راہ میں ہرگز نہ تھکیں ،چاہے سالہا سال گزرجائیںاور دشمن کتنا بھی مزاحم کیوں نہ ہو۔
٣۔ انہیں یہ سبق دیتاہے کہ ایک طرف توشوق دلانے کے وسائل ہوں او ردوسری طرف ڈ رانے کے عوامل ، اور دعوت کرنے کے لیے دونوں طریقوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔
٤۔ اس سورہ کی آخری آ یات ،ہٹ دھرم مشرکین کے لیے ایک تنبیہ ہے کہ اگر وہ حق کے سامنے نہ جھکے اورخدا کے حکم کے سامنے انہوں نے گردن خم نہ کی ، توان کاانجام بہت درد ناک ہوگا۔
٥۔ ان سب باتوں کے علاوہ یہ سورہ پیغمبراورپہلے مومنین اوران سے مشابہ افراد کی لے دل کی تسلّی کاسبب ہے کہ وہ خدا کے لطف و کرم سے اپنے پروگراموں میں سرگرم اور مشکلات اور سختیوں میں صابر وشکیبار ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ سورہ ،حق و باطل کے طرف داروں میں دائمی مبارزہ کے بیان اوران پر و گراموں کی ، جن پرحق کے طرف داروں کو اپنی راہ میں کار بند ہوناچاہیے،تصویر کشی کرتاہے۔

اس سورہ کی تلاوت کی فضیلت

ایک حدیث میں پیغمبرگرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیاہے :
'' من قرأ سورہ نوح کان من المؤ منین الذین تدرکھم دعوة نوح''۔
'' جوشخص سورہ'' نوح '' کوپڑھے گا، وہ ان مو منین میں سے ہوجائے گا،جنہیں نوح کی دعوت کی شعاع ڈھانپ لیتی ہے'' (١)۔
ایک اورحدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آ یاہے:
'' من کان یؤ من باللہ والیوم الا خر ویقر أ کتابہ فلایدع ان یقرأ سورة '' انّا ارسلنا نوحاً '' فای عبد قرأ ھامحتسبا صابراً فی فریضة اورنا فلة اسکنہ اللہ مساکن الابرارواعطاہ ثلاث جنان مع جنتہ کرامة من اللہ ''۔
جوشخص خدا اورقیامت کے دن پر ایمان رکھتاہے،اوراس کی کتاب کوپڑھتاہے،وہ سورہ نوح کی تلاوت کو ترک نہ کرے، جوشخص اس سورہ کو ،صبرواستقامت کے ساتھ ، خداکے لیے ،واجب یامستحب نمازمیں پڑھے گا توخدا اسے نیک افراد کی منازل میں جگہ دے گا اورجنت کے باغوں میں سے تین باغ ، اس کے اپنے باغ کے علاوہ ، اس کے احترام میں اسے مرحمت فرمائے گا(٢)۔
یہ بات کہے بغیر واضح ہے کہ اس کی تلاوت کاہدف اورمقصد یہ ہے کہ اس عظیم پیغمبرکے طورطریقوں ، اورحق کی طرف دعوت کی راہ میں ، ان کے یار و انصار کے صبرو استقامت سے ہدایت حاصل کرے اوراس کی دعوت کی شعاع سے روشنی حاصل کرے، نہ کہ ایسا پڑھنا کہ جس میں غوروفکر نہ ہو، اور نہ ہی ایساغور وفکر کہ جس میں عمل نہ ہو۔

١۔ مجمع البیان ،جلد ١٠ ،صفحہ ٣٥٩۔
٢۔ ایضاً ۔

سورةُ نُوح

بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ
١۔ِنَّا أَرْسَلْنا نُوحاً ِلی قَوْمِہِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَأْتِیَہُمْ عَذاب أَلیم۔
٢۔قالَ یا قَوْمِ ِنِّی لَکُمْ نَذیر مُبین۔
٣۔أَنِ اعْبُدُوا اللَّہَ وَ اتَّقُوہُ وَ أَطیعُونِ۔
٤۔ یَغْفِرْ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ وَ یُؤَخِّرْکُمْ ِلی أَجَلٍ مُسَمًّی ِنَّ أَجَلَ اللَّہِ ِذا جاء َ لا یُؤَخَّرُ لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔

ترجمہ

شروع کرتاہوں رحمن ورحیم کے نام سے
١۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، اورہم نے ان سے کہا: اس سے پہلے کہ درد ناک عذاب ان کی طرف آئے ، اپنی قوم کو ڈراؤ۔
٢۔ انہوں نے کہا: اے قوم ! میں تمہارے لیے ایک واضح ڈرانے والاہوں ۔
٣۔ کہ تم خداکی عبادت کرو اوراس کی مخالفت سے پرہیزکرو، اور میری اطاعت کرو۔
٤۔ اگرتم ایساکرو گے توخدا تمہارے گناہوں کوبخش دے گا اورایک معیّن وقت تک کیلیے تمہیں زندہ رکھے گا، لیکن جب خدائی اجل آگئی توپھر تاخیر نہیں ہوگی ،اگرتم سمجھو!

تفسیر

نوح کاپہلا پیغام

ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ سورہ نوح کے حالات کے اس اس حصّہ کوبیان کرتاہے، جوان کی دعوت سے مربوط ہے ، اور وہ راہِ حق کے تمام راہ روؤں کو،خصوصاً ہٹ دھرم قوموں کے مقابلہ میں ،حق کی طرف دعوت کے سلسلہ میں ، بہت سے عمدہ نکات سکھاتی ہے۔
سب سے پہلے ان کی بعثت کے مسئلہ کوشروع کرتے ہوئے فرماتاہے:'' ہم نے نوح کواس کی قوم کی طرف بھیجا، اورہم نے اس سے کہا:اس سے پہلے کہ دردناک عذاب ان کی طرف آئے تم اپنی قوم کو ڈراؤ ''ِنَّا أَرْسَلْنا نُوحاً ِلی قَوْمِہِ أَنْ أَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَأْتِیَہُمْ عَذاب أَلیم)۔
یہ درد ناک عذاب ،ممکن ہے دنیا کاعذاب ہو، یاآخرت کاعذاب ہو ،اور زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہ دونوں مراد ہوں ، اگر چہ اس سورہ کی آخری آ یات کے قرینہ سے زیادہ ترمراد دنیاکاعذاب ہے ۔
'' انذار'' ( اورڈرانے ) پرتکیہ ، باوجود یکہ انبیاء ڈرانے والے بھی ، اوربشارت دینے والے بھی ، اس بناء پر ہے کہ انذار اور ڈرانا،غالباً زیادہ قوی تاثیر رکھتاہے، جیساکہ تمام دنیامیں قوانین کے اجراء کی ضمانت کے لیے انذار اور سزاپر تکیہ ہوتاہے۔
نوح ایک '' اولوالعزم'' پیغمبر،جوپہلی شریعت اور دین ِ الہٰی کے حامل تھے ، عالمی دعوت رکھتے تھے،یہ فرمان حاصل کرنے کے بعد اپنی قوم کی طر ف آ ئے اوران سے کہا: '' اے میری قوم! میں تمہارے لیے ایک واضح ڈ رانے والاہوں'' (قالَ یا قَوْمِ ِنِّی لَکُمْ نَذیر مُبین)۔
ہدف ومقصد یہ ہے کہ تم خدائے یکتا ویگانہ کی پرستش کرواورجوکچھ اس کے علاوہ ہے اسے دور پھینک دو، تقویٰ اختیار کرو اورمیرے احکام کی جوخدا کے احکام ہیں اطاعت کرو(أَنِ اعْبُدُوا اللَّہَ وَ اتَّقُوہُ وَ أَطیعُون)۔
حقیقت میں نوح نے اپنی دعوت کے مضمون کاتین جملوں میں خلاصہ بیان کیا: خدا نے یکتا کی پرستش ، تقویٰ کی رعایت اوران قوانین و احکام کی، جووہ خدا کی طرف سے لائے تھے اور جوعقائد واخلاق واحکام کامجموعہ تھے ،اطاعت ۔
اس کے بعد انہیں شوق دلاتے ہوئے ، اوراس دعوت کوقبول کرنے کے اہم نتائج کودومختصر سے جملوں میں بیان کرتے ہوئے ارشادہوتاہے:'' اگرتم میری دعوت قبول کرلو تو خدا تمہارے گناہوں کوبخش دے گا''(یَغْفِرْ لَکُمْ مِنْ ذُنُوبِکُمْ )(١)۔
حقیقت میں مشہور قاعدہ کلیہ '' الاسلامہ یجب ماقبلہ '' (اسلام اپنے سے پہلے کی چیزوں پرپردہ ڈال دیتاہے،اور انہیں ختم کردیتاہے)ایک ایساقونون ہے جو تمام توحید ی الہٰی دینوں میں ہے اوراسلام پرہی منحصر نہیں ہے۔
اس کے بعد مزید کہتاہے:اورتمہیں ایک معین زمانہ تک تاخیر میں ڈالتاہے اور تمہاری عمرکوطولانی کرکے تم سے عذاب کودور رکھتاہے(وَ یُؤَخِّرْکُمْ ِلی أَجَلٍ مُسَمًّی)۔
'' کیونکہ جب خدا کی طرف سے اصلی اورآخری اجل آجاتی ہے، تواس میں تاخیر نہیںہو تی ، اگرتم جانتے ہو'' ِنَّ أَجَلَ اللَّہِ ِذا جاء َ لا یُؤَخَّرُ لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُون)۔
اس آ یت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے کہ '' اجل'' اورانسانی عمر کی مدّت دوقسم کی ہے،'' اجل مسمّی'' اور'' اجل نہائی یااخری '' یادوسری لفظوں میں '' اجل ادنیٰ'' (نزدیک کی مدّت والی ) اور'' اجل اقصی'' (دُور کی مدّت والی ) یا'' اجل معلق'' (مشروط) '' اجل حتمی '' ( مطلق)۔
پہلی قسم کی عمر کی مدّت میں وہ جو قابل تغیر ہے اوروہ انسان کے غلط اعمال کے نتیجے میں ممکن ہے، کہ بہت جلدی آ جائے جن میں سے ایک خدائی عذاب بھی ہے اوراس کے برعکس تقویٰ نیکو کاری اور تدبیر کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ بہت پیچھے اورتاخیر میں پڑ جائے۔
لیکن عمر کی اصلی اورآخری مدّت کسی طرح بھی قابل ِ تغیرنہیں ہے،اس موضوع کوایک مثال کے ذریعے مشخص کیاجاسکتاہے،اور وہ یہ ہے کہ کہ انسان عمر جاودانی اورہمیشہ کی زندگی کی استعداد نہیں رکھتا، اگرانسانی بدن کے تمام کل پُر زے اورمشینری اچھی طرح سے کام کرتے ہیں توآخرکار ایک ایسا وقت آ جائے گا،جب کہ فرسودہ اور کہنہ ہونے کی وجہ سے اس کادل خودبخود کام کرنے سے رُک جائے گا،لیکن حفظانِ صحت کے اصولوں کی رعایت ، اوربیماریوں کووقت پرروکنے سے انسان کی عمر کوطولانی کرسکتے ہیں،جبکہ ان امور کی رعایت نہ کرنے سے ممکن ہے کہ اس کی عمر بہت کم ہوجائے،اوربہت جلدی اس کوختم کردے( ٢)۔

ایک نکتہ

عمر کی زیادتی اورکمی کے معنوی اسباب

ایک دوسرانکتہ جواس آ یت سے بخوبی معلوم ہوتاہے ،وہ عمر کے کم ہونے میں گناہوں کی تاثیر ہے، کیونکہ ارشاد ہوتاہے: اگرتم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو، توخدا تمہاری عمر کوطولانی کردے گااورتمہاری موت کوتاخیر میں ڈال دے گا۔اس بات کی طرف توجّہ کرتے ہوئے کہ گناہ ہمیشہ انسان کے جسم اور روح پرہولناک ضربیں وارد کرتے ہیں، اس مطلب کوسمجھنا آسان ہوجاتاہے۔
روایات اسلامی میں بھی اس معنی پربہت زیادہ تاکید ہوئی ہے ،ان میں سے ایک پرمعنی حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے آ یاہے :
'' من یموت بالذ نوب اکثر ممن یموت بالاجال،ومن یعیش بالا حسان اکثر ممن یعیش بالا عمار''۔
'' وہ لوگ جوگناہ کے اثر سے مرتے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں ، جوخدائی موت سے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں،اور وہ لوگ جونیکوں کی بناء پر طولانی عمر پاتے ہیں، ان سے بہت زیادہ ہیں، جن کی عمر طبیعی عوامل کی بناء پر زیادہ ہوتی ہے۔

١۔ '' من'' اس جملہ میں زائدہ اور تاکید کے لیے ہے ، کیونکہ خداپرایمان تمام گزشتہ اگنا ہوں کے بخشے جانے کاباعث ہے ، مگر وہ جوحق الناس سے مربوط ہے ،لیکن گناہ کے لحاظ سے اورحرمت کے حکم کی وجہ سے بخشا جانا اس کو بھی شامل ہے اور یہ جوبعض مفسرین نے (مثلاًفخررازی نے تفسیر کبیر میں اورعلامہ طباطبائی نے المیزان میں ) احتمال دیاہے کہ من تبعیضیہ ہے۔ یہ گزشتہ گناہوں کے بارے میں ، نہ کہ آئندہ والے گناہوں کے بارے میں ،یہ بعید نظر آ تاہے،کیونکہ آ یت میں آیندہ کے گنا ہوں کے بارے میں تو بات ہی نہیں ہورہی ۔
٢۔'' اجل نہائی'' اور'' اجل معلق'' کے بارے میں ہم نے سورہ انعام کی آ یہ ٢ (جلد ٥،صفحہ ١٤٨ ) کے ذیل میں ایک اوربحث کی ہے ۔

٥۔قالَ رَبِّ ِنِّی دَعَوْتُ قَوْمی لَیْلاً وَ نَہارا۔
٦۔فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعائی ِلاَّ فِراراً۔
٧۔ وَ ِنِّی کُلَّما دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوا أَصابِعَہُمْ فی آذانِہِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِیابَہُمْ وَ أَصَرُّوا وَ اسْتَکْبَرُوا اسْتِکْباراً ۔
٨۔ثُمَّ ِنِّی دَعَوْتُہُمْ جِہاراً۔
٩۔ ثُمَّ ِنِّی أَعْلَنْتُ لَہُمْ وَ أَسْرَرْتُ لَہُمْ ِسْرارا۔

ترجمہ

٥۔''نوح'' نے کہا،پروردگارا! میں نے اپنی قوم کورات دن ( تیری طرف) دعوت دی۔
٦۔ لیکن میری دعوت نے حق سے فرار کے علاوہ ان میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا۔
٧۔ اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی کہ وہ ایمان لے آئیں تاکہ توانہیں بخش دے ، توانہو ں نے اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں، اوراپنے لباس سے چہروں کوڈھانپ لیا، اورمخالفت پراصرار کیا، اور شدّت کے ساتھ استکبار کیا۔
٨۔ اس کے بعد میں نے انہیں ظا ہر بظاہر (توحید اورتیری بندگی کی طرف ) دعوت دی۔
٩۔ پھر میں نے علی الا علان بھ اور پوشیدہ طورپر بھی انہیں تیری طرف بلایا۔

تفسیر

ان کی ہدایت کیلئے ہرطرح سے کوشش کی ،مگر...

ان آ یات میں، اپنی قوم کودعوت دینے کے لیے ،نوح کی رسالت اور ماموریّت کے بیان کوجاری رکھتے ہوئے، خودانہیں کی زبان سے کچھ باتیں نقل ہوئی ہیں، جوانہوں نے خداکی بارگاہ میں شکایت کے طوپر کی تھیں، ،جوبہت ہی سبق آموز ہیں۔
نوح علیہ السلام کی باتیں ایسی باتوں کے سلسلہ میں ہیں، جوتمام دینی مبلغین کے لیے رہنمابن سکتی ہیں، ارشاد ہوتاہے:'' نوح علیہ السلام نے کہا: پروردگار ا! نے اپنی قوم کو رات دن میں تیری طرف دعوت دی ہے'' (قالَ رَبِّ ِنِّی دَعَوْتُ قَوْمی لَیْلاً وَ نَہاراً)۔
اورا ن کی ہدایت وتبلیغ میں ایک لمحہ کے لیے بھی کوتاہی نہیں کی ۔
''لیکن میری اس دعوت وارشاد نے ، حق سے فرار کرنے کے سوا، ان میں کسی چیز کااضافہ نہیں کیا'' (فَلَمْ یَزِدْہُمْ دُعائی ِلاَّ فِراراً )۔
اور یہ عجیب بات ہے کہ کسی چیز کی دعوت ، اسی سے بھاگنے کاسبب بن جائے ، لیکن اس بات کی طرف توجہ کرنے سے ایک فرد کے فرمانے کی تاثیر ، ایک قسم کی آمادگی اور کشش متقابل کی محتاج ہے ،تعجب کی کوئی بات باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ غیر آمادہ دلوں میں معکوس اور منفی اثردوسرے لفظوں میں ہٹ دھرم اورحق کے دشمن افراد، جب مرد ان حق کی دعوت کوسنتے ہیں تووہ اس کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں ،اوران کایہی مقابلہ کے لیے کھڑے ہوجانا ، انہیں راہ ِ حق سے زیادہ دور کردیتاہے، اوران کے کفرو نفاق کو اور بھی زیادہ راسخ بنادیتاہے۔
یہ بات ٹھیک اسی چیز کے مانند ہے جوسورہ اسراء کی آ یہ ٨٢ میں آ ئی ہے:(وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما ہُوَ شِفاء وَ رَحْمَة لِلْمُؤْمِنینَ وَ لا یَزیدُ الظَّالِمینَ ِلاَّ خَساراً )'' ہم نے قرآن میں ایسی آ یات نازل کی ہیں جو منین کیلئے شفاء اور رحمت کاسبب ہیں ، لیکن ظالموں میں سوائے خسارے اورنقصان کے کسی چیز کا اضافہ نہیں کرتیں''۔
اورقرآنی آ یات جو یہ آ یا ہے کہ یہ آسمانی کتاب پرہیزگاروں کے لیے باعث ہدایت'' ھدی للمتقین '' (بقرہ ۔ ٢) اسی وجہ سے ہے کہ انسان میں کچھ نہ کچھ تقویٰ کاوجود ہونا چاہیے تاکہ وہ حق کوقبول کرنے کے لیے آ مادہ ہو، یہ مرحلہ وہی '' حقیقت جوئی کی روح'' اورحق کی گفتگو کو قبول کرنے کی آمادگی ہے۔
اس کے بعد نوح علیہ السلام اس گفتگو کوجاری رکھتے ہوئے مزید کہتے ہیں ''خداوندا'' میں نے بھی انہیں دعوت دی کہ وہ ایمان لے آ ئیں اورتو انہیں بخش دے، توانہوںنے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں ، اپنے لباسوں کواپنے اوپرپسٹ لیا اورمخالفت کرنے اورایمان نہ لانے پراصرار کیا اور شدت کے ساتھ ا ستکبار کیا''(وَ ِنِّی کُلَّما دَعَوْتُہُمْ لِتَغْفِرَ لَہُمْ جَعَلُوا أَصابِعَہُمْ فی آذانِہِمْ وَ اسْتَغْشَوْا ثِیابَہُمْ وَ أَصَرُّوا وَ اسْتَکْبَرُوا اسْتِکْباراً )۔
کا نوں میں انگلیاں ڈالنا اس لیے تھا کہ حق کی آواز کو نہ بنیں ،اوران کااپنے اوپر لباس لپیٹ ، تا تواس معنی میں تھا کہ وہ لباس کو سرپر ڈال لیتے تھے تاکہ وہ کانوں میں ڈالی ہوئی انگلیوں کوڈھانپ لیں اور آواز کی معمولی سے معمولی لہر بھی کانوں کے پردے سے نہ ٹکرائے،اور وہاں سے کوئی پیغام دماغ کی طرف منتقل نہ ہو، یاوہ یہ چاہتے تھے کہ اپنے چہر ے کو ڈھانپ لیں، تاکہ کہیں ایسانہ ہو کہ ان کی نگاہیں اس بزرگ پیغمبرنوح علیہ السلام کے ملکو تی چہرے پرجاپڑیں، حقیقت میں انہیں یہ اصرار تھا ، کہ نہ تووہ اپنے کانوں سے ان کی کوئی بات سنیں، اور نہ ہی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھیں۔
واقعاً یہ ایک حیرت انگیز چیز ہے کہ انسان حق کی عداوت اوردشمنی میں اس حد تک پہنچ جائے کہ خود کودیکھنے ، سننے اورسوچنے تک کی بھی اجازت نہ دے۔
بعض اسلامی تفاسیر میں آ یا ہے کہ اس منحرف قو م میں سے بعض لوگ اپنے بیٹوں کے ہاتھ پکڑ کرنوح علیہ السلام کے پاس لے جایاکرتے تھے اوران سے یہ کہتے تھے: اس شخص سے ڈرتے رہنا کہیں یہ تمہیں گمراہ کردے ، یہ وہ وصیّت ہے جو میرے باپ نے مجھے کی تھی اور میں اب وہی وصیّت تمہیں کررہاہوں( تاکہ میں وصیّت اورخیرخواہی کاحق ادا کردو ں) (١)۔
یہ آ یت اس با ت کی نشاندہی کرتی ہے کہ نوح اپنی طولانی عمرمیں ، کئی نسلوں کے درمیان اسی طرح دعوتِ الہٰی کوتبلیغ کرتے رہے تھے اور بالکل نہیں تھکے تھے۔
اورضمنی طورپر اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ ان کی بدبختی کاایک اہم عامل استکبار اور غرور تھا ، کیونکہ وہ اپنے آپ کواس سے بالاتر سمجھتے تھے کہ اپنے جیسے انسان کے سامنے سرتسلیم خم کریں، چاہے وہ خدا کانما ئندہ ہو اوراس کادل علم ودانش اور تقویٰ وپرہیزگاری کا مرکز ہو، یہ کبروغرور ہمیشہ ہی حق کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ رہاہے،اورہم نے بشر کی تمام تاریخ میں اس کا شوم ومنحوس نتیجہ ،بے ایمان افراد کی زندگی میں مشاہدہ کیاہے ۔
نوح علیہ السلام اپنی باتوں کو پروردگار کی بارگاہ میں جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
'' خداوند ا! میں نے انہیں آشکاراور ظاہری طورپر تیری توحید اورعبادت کی طرف دعوت دی (ثُمَّ ِنِّی دَعَوْتُہُمْ جِہارا)۔
میں نے انہیں عمومی جلسوں میں اور بلند آ واز کے ساتھ ایمان کی طرف بلایا۔
اس پرہی قناعت نہیں کی ۔''آشکار او پنہاں ،توحید وایمان کی حقیقت ان سے بیان کی ہے'' (ثُمَّ ِنِّی أَعْلَنْتُ لَہُمْ وَ أَسْرَرْتُ لَہُمْ ِسْراراً )۔
بعض مفسرین کے قول کے مطابق، نوح علیہ السلام نے اس ہٹ دھرم اور خود غرض جمعیت میں اپنی دعوت کے نفوذ کے لیے تین مختلف طریقے اختیار کیے ،کبھی تو صرف مخفی طورپر دعوت کرتے تھے، توچار قسم کے ردّ عمل کاسا مناکرنا پڑتاتھا۔(کانوں میں انگلیاں ڈال لیں ، اپنے اوپرکپڑے لپیٹ لیے، کفر پر اصرر کیااور استکبار اورغرورسے کام لیا) کبھی علی الاعلان اور آشکار دعوت دیتے اور کبھی آشکار اور پنہاں دونوں طریقوں کی دعوت سے فائدہ اٹھاتے ، لیکن ان میں سے کوئی بھی مؤثر ثابت نہیں ہوئی (٢)۔
اصولی طورپر انسان کی ساخت اور بناوٹ کچھ اس قسم کی ہے کہ اگر وہ باطل کی راہ میں اس قدر آگے بڑھ جائے ، کہ فساد کی جڑ کے وجودمیں مستحکم ہوجائیں، اوراس کے وجود کی گہرائیوں میں نفوذ کرتے ہوئے ، طبیعت ثانوی کی شکل اختیار کرلیں، توپھر نہ تو مردانِ حق کی دعوت پراثر کرتی ہے، اور نہ ہی خدا کے پیغام ہائے رساان کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔

١۔ مجمع البیان جلد١٠،صفحہ٣٦١۔
٢۔تفسیر '' فخر رازی '' جلد ٢٠ ،صفحہ ١٣٦۔

چند نکات

١۔ تبلیغ کے طریقے :

اوپر وا لی آ یت میں ، نوح کی دعوت کے سلسلہ میں جوکچھ بیان ہوا ہے ،وہ پیغمبر اور مکہ میں رہنے والے ان تھوڑے سے مومنین کے لیے ، جو آپ کے ساتھ مل گئے تھے ،دلی تسلی کاذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ راہِ خدا کے تمام مبلغین کے لیے ایک عمومی پروگرام پیش کیاگیاہے۔
نوح علیہ السلام کوہرگز اس با ت کی توقع نہ تھی کہ لوگ آپ کی دعوت کوقبول کرتے ہوئے شہرکے ایک عمومی مرکز میں جمع ہوجائیں گے ، پھر اس نے اس اطمینان ِ قلب کے ساتھ ، اس حالت میں کہ وہ سب کے سب آپ کے چہرے پرنظرویں جمائے ہوئے اور کان آ پ کی باتوں پرلگائے ہوں گے، اورپھر وہ خدا کاپیغام انہیں پہنچائیں گے ،بلکہ آیات کے لب و لہجہ سے معلوم ہوتاہے۔(اوربعض روایات میں آ یا بھی ہے ) کہ آپ بعض اوقات لوگوں کے گھروں میں ان کے پاس جاتے ،یاکوچہ وبازار میں خصوصی طورپر انہیں آواز دیتے اورحوصلہ کے ساتھ اورمحبت آمیز لب ولہجہ میں انہیں تبلیغ کرتے اور کبھی آپ ان عمومی مجالس میں ، جودوسرے مقاصد مثلاً جشن یاتعزیت کے لیے قائم ہوئی تھیں،چلے جاتے اوربلند آواز میں آشکارا خدا کافرمان ان کے سامنے پڑھتے ،لیکن ہمیشہ نامطلوب رد ّعمل ،توہین واستہزاء اور بعض اوقات مارنے اورزخمی کرنے کا سامنا ہوتا، لیکن اس کے باوجود وہ ہرگز اپنے کام سے دستبردار نہیں ہوئے۔
یہ عجیب وغریب حو صلہ اوراتنی عجیب دلسوزی اور بے نظیر استقامت اور کام کی لگن ، دین ِ حق کی رہ میں دعوت کے لیے ان کا سرمایہ تھی۔
اورسب سے بڑھ کرتعجب انگیز بات یہ ہے کہ آپ کی دعوت وتبلیغ سے نوسوسال کی طویل مدّت میں ،تقریباً (٨٠) اسّی افراد آپ پر ایمان لائے ، اگر ہم ان دونوں اعداد کوایک دوسرے پرقسم کریں توواضح ہوجاتاہے، کہ ایک شخص کی ہدایت کے لیے اوسطاً تقریباً ١٢ سال تبلیغ کی۔
اگرمبلغین اسلام اس قسم کی استقامت اورکام کی لگن رکھتے ہوں ،تو کیااسلام ایسے مالا مال اورعمدہ مطالب ومضامین کے ہوتے ہوئے، عالمگیر نہیں ہو جائے گا؟

٢۔ حقیقت سے فرار کیوں؟

بعض اوقات انسان اس بات پرتعجب کرتاہے کہ کیایہ ممکن ہے کہ اس آ سمان کے نیچے ایسے لوگ بھی پیدا ہوجائیں ،جوحق کی بات کوسننے کے لیے تیار نہ ہوں، اوراس سے دور بھاگیں؟ بات قبول کرنے کی نہیں ہے ، بات صرف سننے کی ہے۔
لیکن تاریخ بتلاتی ہے،کہ اس قسم کے افراد بہت زیادہ تھے۔
صرف قومِ نوح ہی ایسی نہیں تھی کہ جب آپ انہیں توحید کی کی دعوت دیتے تھے، تووہ کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے تھے،اور سر اور چہرے پرکپڑے سے ڈھناپ لیتے تھے،تاکہ نہ توحق کی بات کوسنیں اور نہ ہی آپ کودیکھیں ،بلکہ قرآن کی صراحت کے مطابق، پیغمبراسلام کے زمانہ میں بھی ایسا گروہ موجود تھا،جب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل انگیز بلندآ واز کے ساتھ آ یات ِ قرآنی کی تلاوت کرتے، تووہ شوروغوغا کرکے اور سیٹیاں بجا کر اس اکم کام میں ہنگامہ کھڑاکردیتے تھے،کہ کوئی شخص آپ کی آواز کونہ سُن پائے( وقال الذین کفر والا تسمعوا لھٰذا القراٰن و الغوافیہ لعلکم تغلبون) (حم الجسدة ۔٢٦)۔
کربلا کی خو نی تاریخ میں بھی یہ آ یاہے کہ جب امام حسین علیہ السلام سالار شہیدان نے منحرف اورکج فہم دشمنوں کو، ہدایت وارشاد ، اوربیدار کرناچاہا، تو انہوں نے اس طرح شوروغوغا کیا، کہ امام کی آواز میں گم ہوکررہ گئی (١)۔
آج بھی یہ پروگرام اسی طرح جاری وساری ہے ،البتہ دوسری شکلوں اورصورتوں میں،باطل کے طرفداروں نے، قسم قسم کی غلط سرگرمیوں ،فاسد اورخراب کرنے والی موسیقیوں ،خراب مواد اور منشیات کے ذریعہ،اس قسم کی فضا فراہم کررکھی ہے،کہ لوگ خصوصاً نوجوان ، مردانِ حق کی دلنواز آواز سُن ہی نہ سکیں۔

١۔''بحارالانوار ،جلد٤٥ ،صفحہ ٨۔

١٠۔فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ِنَّہُ کانَ غَفَّاراً۔
١١۔یُرْسِلِ السَّماء َ عَلَیْکُمْ مِدْراراً۔
١٢۔وَ یُمْدِدْکُمْ بِأَمْوالٍ وَ بَنینَ وَ یَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَ یَجْعَلْ لَکُمْ أَنْہاراً۔
١٣۔ ما لَکُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّہِ وَقاراً۔
١٤۔وَ قَدْ خَلَقَکُمْ أَطْواراً۔

ترجمہ

١٠۔میں نے ان سے کہا: اپنے پروردگار سے ، بخشش طلب کرو،وہ بہت بخشنے والا ہے۔
١١۔تاکہ وہ آ سمان کی پُر برکت بارشیں پے درپے تم پر بھیجے۔
١٢۔ اورتمہاری فراواںمال ودولت سے مدد کرے، اور تمہارے لیے سرسبز باغات اور نہریں جاری کرے۔
١٣۔ تم خدا کی عظمت کے قائل کیوں نہیں ہوتے ؟
١٤۔ حالانکہ اس نے تمہیں مختلف مرحلوں میں پیدا کیاہے۔

تفسیر

ایمان کی دنیا وی جزا

نوح علیہ السلام اس ہٹ دھرم اورسرکش قوم کوہدایت کے لیے، اپنے مؤ ثر بیانات کوجاری رکھتے ہوئے ،اس مرتبہ بشارت وتشویق پرتکیہ کرتے ہیں اورانہیں تاکید کے ساتھ یہ وعید دیتے ہیں کہ اگروہ شرک وگناہ سے توبہ کرلیں ، تو خداان پراپنی رحمت کے در وازے ہرطرف سے کھول دے گا ارشاد ہوتاہے:'' خدا وندا! میں نے ان سے کہاہے کہ تم اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو وہ بہت ہی بخشنے والاہے(فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ ِنَّہُ کانَ غَفَّاراً)۔
نہ صرف یہ کہ وہ تمہیں گناہوں سے پاک کردے گا، بلکہ '' اگرتم ایسا کروتووہ تم پر آسمان سے برکت والی بارشیں پے درپے نازل کرے گا''(یُرْسِلِ السَّماء َ عَلَیْکُمْ مِدْراراً )(١)۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس کی معنوی رحمت کی بارش بھی ، اور مادی برکت پربرکت بارش بھی تن پر ناز ل ہوگی ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ کہتاہے:'' آسمان کوتم پربھیجے گا'' یعنی اس قدربارش ہوگی کہ گویاآسمان برس رہاہے! لیکن چونکہ وہ رحمت کی بار ش ہوگی ، لہٰذا نہ تواس سے کوئی ویرانی اور تباہی ہوگی ، اور نہ ہی تکلیف پہنچے گی ،بلکہ وہ ہرجگہ خوشی وخرمی اور سرسبزی وشادابی کا باعث ہوگی ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے:'' اورتمہارے مال واولاد میں زیادتی کریگا'' (وَ یُمْدِدْکُمْ بِأَمْوالٍ وَ بَنینَ )۔
'' اورتمہارے لیے سر سبز وشاداب باغ ، اور رواں پانی کی نہریں قرار دے گا''(وَ یَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَ یَجْعَلْ لَکُمْ أَنْہاراً )۔
اس طرح سے انہیں ایک عظیم معنوی نعمت، اورپانچ عظیم مادی نعمتوں کی وعیددی ہے،معنوی عظیم نعمت توگناہوں کی بخشش اورکفرو عصیان کی آلودگی سے پاک ہوناہے، باقی رہی مادی نعمتیں تووہ مفید ، برموقع اور پُر برکت بارشوں کانازل ہونا، مال کی زیادتی ،اولاد ،کی فر اوانی ، (انسانی سرمایہ ) پربرکت باغات اورجاری پانی کی نہریں۔
ہاں قرآن مجید کی گواہی کے مطابق ،ایمان وتقویٰ ،دنیا کی آبادی کاسبب بھی ہے ،اورآخرت کی آبادی کاموجب بھی ۔
بعض روایات میں آیاہے کہ جب اس ہٹ دھرم قوم نے نوح کی دعوت کو قبول کرنے سے منہ پھیر لیا،توخشک سالی اورقحط سالی نے انہیں گھیر لیا، اور ان کے بہت سے اموال واولاد تباہ ہلاک ہوگئے ،عورتیں بانجھ ہوگئیں اوران کے کوئی بچّہ پیدا نہ ہواتونوح علیہ السلام نے ان سے کہا: اگرتم ایمان لے آؤ تو یہ تمام مصیبتیں اوربلا ئیں تم سے دور ہوجائیں گی، لیکن انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اسی طرح سے سختی پرقائم رہے، یہاں تک کہ آخری عذاب آپہنچا،جس نے سب کاخاتمہ کردیا۔
اس کے بعد پھردوبارہ ڈرانے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اورکہتے ہیں:'' تم خدا سے ڈرتے کیوں نہیں اور خدا کی عظمت کے قائل کیوں نہیں ہوتے''؟!(ما لَکُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّہِ وَقاراً)(٢)۔
'' حالانکہ خدانے تمہیں گوناگوں طریقے کی خلقتیں دی ہیں'' (وَ قَدْ خَلَقَکُمْ أَطْوارا)۔
پہلے قسم ایک بے قدروقیمت '' نطفہ'' تھے ،زیادہ وقت نہ گزراتھاکہ تمہیں '' علقہ'' بنادیا اوراس کے بعد'' مضغہ'' کی رحمت میں لے آیا، اس کے بعداس نے تمہیں انسانی شکل وصورت اورجسم عطاکیا ،پھرتمہارے جسم کو لباس حیات پہنا یااورتمہیں روح اورحس وحرکت سے اسی طرح سے تم نے یکے بعد دیگرسے مختلف جنینی مراحل طے کیے ،یہاں تک کہ تم ایک مکمل انسان کی شکل وصورت میں ،ماں سے پیدا ہونے کے بعد زندگی کے مختلف اطوار اور زندگی کی مختلف شکلیں شروع ہوگئیں ،تم ہمیشہ اس کی ربوبیّت کے ماتحت رہے ہواورہمیشہ نئی حالت اختیار کرتے ہواور ایک جدید خلت حاصل کرتے ہو، توپھر تم اپنے خالق کے باعظمت آستانے پرسرتعظیم کیوں نہیں جھکاتے ۔
نہ صرف جسمانی لحظ سے تم مختلف شکلیں بدلتے ہوبلکہ تمہاری روح اورجان بھی ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ،تم میں سے ہرایک ، ایک نئی صورت رکھتاہے،اورہر سرمیں ایک نیاذوق اور ہردل میں ایک نیاشوق ہے اورتم سب کے سب ہمیشہ بدلتے رہتے ہو، بچپنے کے احساسات جوانی کودے دیتے ہیں اور جوانی اپنے احساسات ادھیڑ عمراوربڑھاپے کے احساسات کے حوالے کردیتی ہے۔
اس طرح وہ ہرجگہ تمہارے ساتھ ہے اور ہرقدم پرتمہاری رہبری اورہدایت کرتاہے اور اس کے اس سارے لطف وعنایت کے یہ کفران اور بے حرمتی کس بناء پر ہے؟

١۔'' مدراراً'''' در'' (بروزن جر) مادہ سے اصل میں پستان مادر سے '' دودھ '' کے گرنے کے معنی میں ہے اورپھر بارش برسنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔'' مدرار'' مبالغہ کاصیفہ ہے۔
٢۔'' وقار'' وزن اورعظمت کے معنی میں ہے اور'' رجائ'' کے مادہ سے ،امید کے معنی میں ہے، جوبعض اوقات خوف سے تو أم ہوتاہے،اور سارے جملہ کا معنی یہ ہے کہ تم عظمت ِ خدا کے مقابلہ میں خضوع کیوں نہیں کرتے۔

ایک نکتہ

'' تقویٰ'' اور '' عمران وآبادی'' میں ربط:

قرآن کی مختلف آ یا ت سے ، منجملہ ان کے اوپر والی آ یات سے یہ نکتہ اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے،کہ ایمان وعدالت ،معاشروں کی زندگی کا باعث ہیں اور کفر، ظلم اور گناہ ویرانی وتباہی کاسبب ہیں۔
سورہ اعراف کی آیہ ٩٦میں آ یاہے :''وَ لَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُری آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَیْہِمْ بَرَکاتٍ مِنَ السَّماء ِ وَ الْأَرْضِ '''' اگرشہروں اوربستیوں میں رہنے والے ایمان لے آتے اورتقویٰ اختیار کرتے توہم آسمان و زمین کی برکتوں کے دروزے ان پرکھول دیتے ''۔
اورسورہ روم کی آ یت ٤١ میں آ یاہے:'' ظَہَرَ الْفَسادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِما کَسَبَتْ أَیْدِی النَّاس'' '' خشکی اورسمندر میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہوگیاہے۔
اورسورہ شوریٰ کی آ یت ٣٠ میں آ یا ہے:'' وَ ما أَصابَکُمْ مِنْ مُصیبَةٍ فَبِما کَسَبَتْ أَیْدیکُم'''' جومصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے، وہ تمہارے اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے'' ۔
اورسورہ مائدہ کی آ یہ ٦٦ میں آیاہے:''وَ لَوْ أَنَّہُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَ الِْنْجیلَ وَ ما أُنْزِلَ ِلَیْہِمْ مِنْ رَبِّہِمْ لَأَکَلُوا مِنْ فَوْقِہِمْ وَ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِہِمْ '' '' اگر وہ تورات اورانجیل کواورجوکچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہواہے اسے قائم رکھتے،تووہ آسمان وزمین سے روزی کھاتے'' ( اورآسمان اور زمین کی برکتیں انہیں گھیرلیتیں ) اور اسی قسم کی دوسری یہ '' رابط'' صرف ایک باطنی ومعنوی رابط ہی نہیں ہے، بلکہ معنوی رابط کے علاوہ ، جس کے آثار ہمیں اچھی طرح دکھائی دیتے ہیں،ایک واضح مادی رابط بھی ہے۔
کفر وبے ایمانی ،مسئو لیت کے عدم احساس ، قانون شکنی اوراخلاقی اقدار کوفراموش کرنے کاسرچشمہ بھی ہے اور یہ امور معاشروں کی وحدت کے ختم ہونے، اعتماد واطمینان کے پایوں کے متزلزل ہونے ، اقتصادو انسانی قوتوں کے ضائع ہونے، اوراجتماعی اعتدال کے درہم برہم ہونے کاسبب بھی ہیں۔
واضح رہے کہ وہ معاشرہ جس پران امو رکی حکمرانی ہووہ بہت جلدپیچھے چلاجاتاہے،اورسقوط ونابودی کی راہ پرچل پڑتاہے۔
اور اگرہم کچھ معاشروں کودیکھتے ہیں، کہ وہ ایمان وتقویٰ کے نہ ہونے کے باوجود، مادی حالت کے سلسلہ میں ،پیش رفت کررہے ہیں تواسے بھی بعض اخلاقی اصولوں کی رعایت کامرہونِ منت سمجھنا چاہیے، جوگزشتہ آ ابنیاء کی میراث اورخدائی رہبروں،علماء اور دانش مندوں کی صدیوں کی طویل زحمتوں کانتیجہ ہے۔
اوپروالی آ یات کے علاوہ اسلامی روایات میں بھی اس معنی پر بہت زیادہ تکیہ ہواہے کہ استغفار اورترکِ گناہ ، روزی کی کثرت اور زندگی کی بہبودی کاسبب ہیں، منجملہ ان کے :
ایک حدیث میں علی علیہ السلام سے آ یاہے، کہ آپ نے فر مایا:
اکثر الا ستغفار تجلب الرزق
زیادہ استغفار کر، تاکہ تو روزی کوجلب کرے( 1)۔
ایک اورحدیث میں پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح نقل ہواہے کہ آپ نے فرمایا:
من انعم اللہ علیہ نعمة فلیحمد اللہ تعالیٰ، ومن استبطأ الرزق فلیسغفراللہ ،و من حزنہ امر فلیقل ، لاحول ولا قوة الّا باللہ
'' جسے خدا نے کوئی نعمت بخشی ہے،وہ خدا کاشکر بجالائے ،اور جس کی روزی میں کچھ تاخیر ہوتو وہ استغفار اورطلب ِ بخشش کرے، اور جوکسی حادثہ کی وجہ سے غمگین ہوتووہ '' لا حولا ولاقوة اِلا باللہ'' کہے(2)۔
نہج البلاغہ میں بھی یہ آ یاہے کہ :
''وقد جعل اللہ سبحانہ الا ستغفارسبباً لد رورالرزق ورحمة الخلق ،فقال سبحانہ استغفر واربکم انہ کان غفاراً یرسل السماء علیکم مدراراً...''
'' خدا وندسبحان نے استغفار کوروزی کی زیادتی ، اورمخلوق کے لیے رحمت قرار دیاہے،اورفر مایاہے کہ اپنے پر وردگار سے بخشش طلب کرو، کہ وہ بہت بخشنے والاہے،اور وہ آسمانوں کی برکتوں والی بارش تم پر بر ساتاہے'' ( 3)۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سے گناہوں کی سزا ،اسی جہان کی محرو میاں ہیں ،اورجب انسان اس سے توبہ کرکے پاکیز گی اور تقوی اختیار کرلیتاہے توخدا اس عذاب اورسزا کو اس سے برطرف کردیتاہے(٦)۔

1۔ تفسیر نورالثقلین جلد ٥،صفحہ ٤٢٤۔
2۔ ایضاً ۔
3۔ '' نہج الباغہ '' خطبہ ١٤٢۔
4۔ ہم نے اس سلسلہ میں'' گناہ اورمعاشروں کی تباہی'' کے عنوان سے تحت سورہ ہود کی آ یہ ٥٢ کے ذیل میں ،ایک دوسری تشریح بھی کی ہے، تفسیر نمونہ جلد ٩ صفحہ ١٢١۔

١٥۔أَ لَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللَّہُ سَبْعَ سَماواتٍ طِباقاً۔
١٦۔ وَ جَعَلَ الْقَمَرَ فیہِنَّ نُوراً وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِراجاً۔
١٧۔وَ اللَّہُ أَنْبَتَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَباتاً۔
١٨۔ ثُمَّ یُعیدُکُمْ فیہا وَ یُخْرِجُکُمْ ِخْراجاً۔
١٩۔وَ اللَّہُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِساطاً۔
٢٠۔ لِتَسْلُکُوا مِنْہا سُبُلاً فِجاجاً۔
ترجمہ

١٥۔ کیاتم دیکھتے ہیں ،کہ خدانے سات آسمانوں کو، ایک دوسرے کے اوپر کس طرح سے خلق کیاہے؟
١٦۔اورچاند کو آسمانوں کے درمیان روشنی کاباعث اورسورج کوچراغ فروزاں قرار دیا۔
١٧۔اورخدا نے تمہیں نباتات کی طرح سے زمین سے اگایاہے۔
١٨۔ پھر تمہیں اسی زمین کی طرف لوٹائے گا اور پھر تمہیں دوبارہ نکال کھڑا کرے گا۔
١٩۔ اورخدانے زمین کو تمہارے لیے بچھا ہوافرش قرار دیاہے۔
٢٠۔ تاکہ تم اس کے وسیع راستوں اوردرّوں سے گزرو( اورجہاں جانا چاہو... چلے جاؤ)۔

تفسیر

باغبانِ ہستی نے تمہیں ایک پھول کی طرح پالاہے

حضرت '' نوح'' علیہ السلام ہٹ دھرم مشرکین کے مقابلہ میں اپنے گہرے اوراستد لالی بیانات کے ذریعہ ، پہلے توان کا ہاتھ پکڑ کران کے وجود کی گہرائیوں میں لے گئے ، تاکہ وہ آ یات انفسی کامشاہدہ کریں(جیساکہ گزشتہ آ یات میں گزرچکاہے ۔اس کے بعد ، جیساکہ زیربحث آیات میں بیان ہواہے، انہیں خلقت وآفر ینش کے عالمِ بزرگ میںخدا کی نشانیوں کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں، اورانہیں آفاق کی سیر کی طرف لے جاتے ہیں(١)۔
پہلے آسمان سے شروع کرتے ہوئے کہتاہے:'' کیاتم دیکھتے نہیں کہ خدانے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر کس طرح پیدا کیاہے'' (أَ لَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللَّہُ سَبْعَ سَماواتٍ طِباقاً )(٢)۔
'' طباق '' باب '' مفاعلہ'' کامصدر ہے،جو'' مطابقہ '' کے معنی میں ہے جوبعض اوقات ایک چیز کے دوسری چیزپر قرار پانے کے معنی میں آ تاہے، اور کبھی دوچیزوں کی ایک دوسرے سے ہم آہنگ اورمطابقت کے معنی میں ہوتاہے،اور یہاں دونوں معنی صادق آتے ہیں۔
پہلے معنی کے مطابق ساتوں آسمان ایک دوسرے کے اوپر قرار پائے ہیں، اور ساتوں آسمانوں کی تفسیر میں جس طورپر ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، ایک قابلِ توجہ تفسیر یہ ہے کہ وہ تمام ثوابت وسیّار ستارے، جنہیں ہم خود رو بینوں کے ذ ریعے یابغیر خودرو بینوں کے آنکھ سے دیکھتے ہیں، وہ سب کے سب پہلے آسمان کاحصہ ہیں اور دوسرے چھ عالم اس کے بعدایک دوسرے کے اوپر قرار پاتے ہیں، جوموجودہ زمانہ کے انسان کی پہنچ سے باہر ہیں اور ممکن ہے کہ آئندہ کسی زمانہ میں انسان یہ لیاقت واستعداد پیدا کرے کہ وہ ان عجیب اوروسیع عوالم کو بھی ایک دوسرے کے بعد معلوم کرے( ٣)۔
اور دوسرے احتمال کی بناء پر ،قرآن سات آسمانوں کی، نظم و ضبط اورعظمت وزیبائی ،ایک دوسرے سے ہم آہنگی اور مطابقت کی طرف اشارہ کرتاہے۔
اس کے بعد مزید کہتاہے:خدانے چاند کو سات آسمانوں کے درمیان ، تمہارے لیے نوراور روشنی کاسبب اورسورج کوچراغ فروزاں قرار دیاہے'' (وَ جَعَلَ الْقَمَرَ فیہِنَّ نُوراً وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِراجا)۔
یہ ٹھیک ہے کہ سات آسمانوں میں لاکھوں اور اربوں چمکنے والے ستارے ہیں، جوہمارے سورج اور چاند سے بھی زیادہ روشن ہیں، لیکن جو ہمارے لیے اہم ہے اور ہماری زندگی میںاثر انداز ہیں وہ نظامِ شمسی کا یہی سورج اور چاند ہے،جن پر سے ایک توہماری فضا ئے زندگی کودنوں میں اور دوسراراتوں میں روشن کرتاہے( ٤)۔
''سراج'' (چراغ) کی سورج کے لیے تعبیر اور '' نور'' کی '' چاند '' کے لیے تعبیراس بناء پر ہے کہ '' سورج '' کی روشنی توخود چراغ کی طرح اسی کے اندر سے پھوٹتی ہے ،لیکن چاند کانورخود اسی میں سے نہیں ہے ، بلکہ وہ اس عکس کے مشابہ ہے جوآئینہ سے منعکس ہوتاہے ،اسی لیے لفظ ''نور'' جوایک عام مفہوم رکھتاہے اس کے بارے میں استعمال ہواہے ۔
تعبیر کا یہ فرق قرآن کی دوسری آ یات میں بھی نظر آتاہے۔
ہم اس سلسلے میں سورہ یونس کی آ یہ ٥ کے ذیل میں (جلد ٨،صفحہ ٣٠٦) بہت زیادہ تفصیل سے بیان کرچکے ہیں۔
اس کے بعد دوبارہ انسان کی طرف لوٹتاہے، اورمزید کہتاہے : '' خدانے تمہیں نباتات کی طرف زمین سے اگا یاہے'' (وَ اللَّہُ أَنْبَتَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَباتا)(٥)۔
انسان کے بارے میں '' انبات '' کی تعبیراس بناء پر ہے کہ اوّلاً انسان کی پہلی خلقت مٹی سے ہے اور ثانیاً وہ تمام غذائیں جو انسان کھاتاہے،اورجن کی وجہ سے نشو ونماپاتاہے، وہ سب زمین سے ہیں ، یاتووہ براہ راست زمین سے ہوتی ہیںجیسے سبزیاں ،غلے اور پھل یاغیر مستقیم طورپر مثلاً جانوروں کے گوشت اور ثالثاً انسان اور نباتات کے درمیان زیادہ مشابہت ہے اور بہت سے ایسے قوانین جو نباتات کی غذا، تولید مثل اورنشو ونمامیں کار فر ماہیں وہ انسان پر بھی لاگوہیں۔
یہ تعبیرانسان کے بارے میں بہت پر معنی ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے،کہ مسئلہ ہدایت میں خدا کاکام صرف ایک معلّم واستاد کا کام ہی نہیں ہے، بلکہ اس کاکام ایک باغبان کی طرح ہے،جو نباتات کے بیج مساعد ماحول میں قرار دیتاہے تاکہ ان میں چھپی ہوئی استعداد ظہور میں آ ئے۔
سورہ آل ِ عمران کی آ یہ ٣٧ میںحضرت مریم کے بارے میں بھی یہ آ یاہے : وانبتھا نباتاً حسناً :'' خدانے بہت ہی اچھے طریقے سے مریم کے وجود کوپیدا کیا اوراس کی پرورش کی '' یہ سب اسی لطیف نکتہ کی طرف اشارہ ہے ۔
اس کے بعدمسئلہ معاد کی طرف،جومشرکین کے لیے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے ، متوجہ ہوتاہے اورفرماتاہے:'' اس کے بعد وہ تمہیں اسی زمین کی طرف ، جس سے اس نے تمہیں اگایا تھا، دوبارہ پلٹا دے گا اورپھر دوبارہ تمہیں اس سے نکال کھڑا کرے گا(ثُمَّ یُعیدُکُمْ فیہا وَ یُخْرِجُکُمْ ِخْراجاً)۔
ابتداء میں بھی تم مٹی ہی تھے ، پھرددبارہ مٹی کی طرف جاؤ گے اوروہی ذات جس میں یہ قدرت تھی کہ تمہیں ابتداء میں مٹی سے پیدا کرے ، یہ قدرت رکھتی ہے کہ دوبارہ مٹی ہو جانے کے بعد، تمہارے جسم پر دوبارہ لباسِ حیات پہنادے۔
مسئلہ '' توحید '' سے '' معاد'' کی طرف یہ انتقال ،جواوپر والی آ یات میں بہت ہی عمدہ طریقہ پرمنعکس ہواہے،ان دونوں مسئلوں کے نزدیکی ربط کوبیان کرتاہے اوراس طرح نوح علیہ السلام ،مخالفین کے مقابلہ میں ،نظامِ آفرینش کے طریق سے ،توحید پر بھی استدلال کرتے ہیں، اوراسی طریقہ سے معاد پر بھی استد لال کرتے ہیں۔
اس کے بعد پھر نئے سرسے آ یاتِ آفاتی اورعالمِ کبیر میں توحید کی نشانیوں کی طرف لوٹتا ہے اور زمین کے وجود کی نعمت سے متعلق گفتگو کرتاہے ،فر ماتاہے: '' خدانے زمین کوتمہارے لیے بچھاہوافر ش قرار دیا(وَ اللَّہُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِساطا)(٦)۔
یہ نہ تو ایسی سخت ہے کہ اس پر آرام اور آمد ورفت ہی نہ کرسکو اور نہ ایسی نرم کہ تم اس میں دھنس جاؤ اوراس پرچل پھر ہی نہ سکو۔
اور نہ یہ ایسی گرم اورجلانے والی ہے کہ اس پر گرمی کی وجہ سے تکلیف اٹھاؤ اور نہ ایسی سرد اور بے حرار ت ہے کہ اس پر زندگی بسرکرنا تمہارے لیے مشکل ہوجائے، اس کے علاوہ وہ ایک ایسا وسیع آمادہ تیارفرش ہے ،جس میں تمہاری زندگی کی تمام ضروریات موجودہیں۔
نہ صرف ہموار زمینیں ہی فرش کی طرح بچھی ہوئی ہیںبلکہ پہاڑ بھی، ان درّوں اورشگا فون کی وجہ سے ،جوان کے درمیان موجودہیں اورعبور کرنے کے قابل ہیں، بچھے ہوئے فرش ہی ہیں'' ہدف ومقصد یہ ہے کہ تم ان وسیع راستوں اور درّوں سے ، جواس زمین میں موجود ہیں ،گزر سکواورجس علاقہ میں جاناچاہو جاسکو''(لِتَسْلُکُوا مِنْہا سُبُلاً فِجاجا)۔
'' فجاج'' '' بروزن مزاج '' جمع ہے ''فج'' (بروزن حج) کی ، اس درّہ کے معنی میں ہے جو پہاڑ وں کے درمیان ہوتاہے۔اوروسیع و کشادہ راستہ کو بھی کہاجاتاہے( ٧)۔
اس طرح '' نوح'' اپنی گفتگو کے اس حصّہ میں ،کبھی توآسمانوں اورسمان کے ستاروں میں خدا کی نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور کبھی کُرّہ زمین میں اس کی گونا گوں نعمتوں کی طرف، اور کبھی انسان کی ساخت اوراس کی حیات کے مسئلہ کی طرف جوخدا کی شناخت کی بھی ایک دلیل ہے اور مسئلہ معاد کی اثبات کے لیے بھی ۔
لیکن نہ تو پہلے اندازوں ، بشارتوں اور تشویقوں نے اس ہٹ دھرم قوم کے سیاہ دل میں کوئی اثر کیااورنہ ہی کسی منطقی استدلال نے ، وہ اسی طرح سے مخالفت اورکفرپر تلے رہے اورحق کوقبول کرنے سے پہلے تہی کرتے رہے،جیساکہ بعد والی آ یات میں ان کی خیرہ سری انجام بیان ہواہے۔

١۔اس بارے میں کہ یہ باتیں نوح کے کلام کاتتمہ اورآخری حِصّہ ہے یاایسے مستقل جملے ہیں جو خداکی طرف سے مسلمانوں کے خطاب کے لیے بطور جملہ معترضہ کے صادر ہوتے ہیں،مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ،لیکن ان میں سے بعض سوں نے اس بات کوترجیح دی ہے کہ یہ نوح کے کلام کاتتمہ ہے اور آ یات کاظاہر بھی اسی بات کاتقاضا کرتاہے، اوراگر ان آیات کے بعد '' و قال نوح'' کاجملہ آ یاہے تواس کی وجہ یہ ہے کہ نوح لوگوں سے اپنی بات ختم کرنے کے بعد بارگاہِ خداکی طرف رخ کرکے ان کی شکایت کرتے ہیں ۔
٢۔'' طباقاً '' ممکن ہے کہ مفعول مطلق ہو،یاحال ہو۔
٣۔ سات آسمانوں کی گونا گوں تفاسیر کے بارے میں ہم سورہ بقرہ کی آ یہ ٢٩ کے ذیل میں (جلد اول تفسیر نمونہ میں ) تفصیلی بحث کرچکے ہیں۔
٤۔ یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ '' فیھن'' کی ضمیر جوظاہراً '' سبع سماوات'' کی طرف لوٹتی ہے کوئی مشکل پیدانہیں کرتی ، کیونکہ گفتگو ہمارے لیے نو ر اور روشنی کی ہے، اس لیے ہمارے لیے لازم نہیں ہے کہ ہم '' فی '' کو'' مع'' کے معنی میں یا'' ھن '' کی ضمیر کو'' نچلے آسمان '' کے معنی میں لیں۔
٥۔ اس آ یت میں ایک قاعدے کے لحاظ سے تو '' انباتا'' کہا جاناچاہیے تھا،لیکن آ یت میں کچھ مقدّر ہے اوروہ اس طرح ہے '' انبتکم من الارض فنبتم نباتا'' (تفسیر فخر رازی وابوالفتوح رازی )۔
٦۔'' بساط'' '' بسط'' کے مادہ سے کسی چیزکو پھیلانے کے معنی میں ہے،اس لیے لفظ '' بساط'' '' ہر پھیلی ہوئی وسیع چیزکو کہا جاتاہے جس کاایک مصداق فرش ہے ۔
٧۔مفرادت '' راغب'' مادہ ''فج''۔

٢١۔قالَ نُوح رَبِّ ِنَّہُمْ عَصَوْنی وَ اتَّبَعُوا مَنْ لَمْ یَزِدْہُ مالُہُ وَ وَلَدُہُ ِلاَّ خَساراً۔
٢٢۔وَ مَکَرُوا مَکْراً کُبَّاراً۔
٢٣۔وَ قالُوا لا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَ لا تَذَرُنَّ وَدًّا وَ لا سُواعاً وَ لا یَغُوثَ وَ یَعُوقَ وَ نَسْراً۔
٢٤۔ وَ قَدْ أَضَلُّوا کَثیراً وَ لا تَزِدِ الظَّالِمینَ ِلاَّ ضَلالاً۔
٢٥۔ مِمَّا خَطیئاتِہِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا ناراً فَلَمْ یَجِدُوا لَہُمْ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْصارا۔

ترجمہ

٢١۔نوح نے(ان کی ہدایت سے مایوس ہونے کے بعد) عرض کیا: پروردگار ا! انہوں نے میری نافرمانی کی اوران لوگوں کی پیروی کی ، جن کے مال اوراولاد نے خسارے کے سوا ان میں کسی چیزکا اضافہ نہیں کیا۔
٢٢۔اور(ان گمراہ راہبروں نے ) ایک عظیم مکرکیا۔
٢٣۔ اورانہوں نے کہاکہ :اپنے خداؤں اور بتوں سے دستبر دار نہ ہونا ،خصوصاً '' ود'' و'' سواع'' و'' یغوث'' و '' یعوق'' و'' نسر'' کونہ چھوڑنا۔
٢٤۔ اورانہوں نے بہت سے گرہوں کو گمراہ کردیا، خداوندا!ظالموں میں ضلالت اور گمراہی کے علاوہ کسی چیز کا اضافہ نہ کرنا۔
٢٥۔(ہاں!آخرکار) وہ سب کے سب اپنے گناہوں کی وجہ سے غرق ہوگئے اورجہنم کی آگ میں داخل ہوئے اورانہیں اپنے لیے خداکے سوااور کوئی یارو مددگار نہ ملا۔

تفسیر

خداکا لطف تجھ سے مدارات کرتاہے

جب نوح نے سینکڑوں سال تک اپنی پوری پوری کوشش کرکے دیکھ لی اوروہ قوم ایک چھوٹے سے گروہ کے سوا، اسی طرح بت پرستی ،گمراہی اورفساد پر ڈٹی رہی، تووہ ان کی ہدایت سے مایوس ہوگئے اور بارگاہ ِ خداکی طرف رخ کیا، اورایک استدلال مناجات کے ضمن میں خداسے ان کے لیے عذاب کاتقاضا کیا، جیساکہ زیربحث آ یت میں آ یا۔
نوح نے کہا: پر وردگارا!انہوں نے میری نافرمانی کی اورایسے شخص کی پیروی کی جس کے مال واولاد نے خسارے کے سوااس میں کسی چیزکا اضافہ نہیں کیا(قالَ نُوح رَبِّ ِنَّہُمْ عَصَوْنی وَ اتَّبَعُوا مَنْ لَمْ یَزِدْہُ مالُہُ وَ وَلَدُہُ ِلاَّ خَساراً)۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس قوم کے رہبرایسے لوگ ہیں، جن کاامتیاز مال واولاد کی زیادتی ہے،اوروہ مال واولاد بھی اسے جوفساد وخرابی کے سواکسی کام نہیں آتے ،نہ تووہ مخلوق ہی کی خدمت کرتے ہیں اور نہ ہی خالق کے سامنے خضوع وخشوع کرتے ہیں اور یہ تمام وسائل وامکانات ان کے غرور وطغیان اور سرکشی کاسبب بن گئے ہیں۔
اگرہم نوعِ بشر کی تاریخ کی طرف نگاہ کریں توہم دیکھیں گے کہ مختلف قوموں کے بہت سے رہبر اسی قماشی کے تھے،وہ ایسے لوگ تھے جن کا تنہا امتیاز ،مالِ حرام جمع کرنا اورغیرصالح اولاد کو وجودمیں لانااوراس کے بعد سرکشی اور طغیان اورآخر میں اپنے افکار ونظر یات ،مستضعف اورکمزور لوگوں پر لاد نا اورانہیں زنجیروں میں جکڑناتھا۔
اس کے بعد مزید کہتاہے:'' ان گمراہ رہبروں نے مکرِ عظیم کیا'' ( وَ مَکَرُوا مَکْراً کُبَّاراً)۔
'' کبار '' جو '' کبر'' سے مبالغہ کاصیغہ ہے اور یہاں نکرہ کی صورت میں ذکرہواہے.اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ انہوں نے لوگوں کوگمراہ کرنے اور نوح کی دعوت کوقبول کرنے سے روکنے کے لیے بہت عظیم اوروسیع شیطانی منصو بے بنا رکھے تھے،لیکن وہ منصوبے کیا تھے، ٹھیک طورپر مشخص نہیں ہیں۔
احتمال یہ ہے کہ وہی بت پرستی کامسئلہ ہوگا، کیونکہ بعض روایات کے مطابق ،بُت پرستی نوح سے پہلے موجود نہیں تھی، بلکہ نوح کی قوم نے ہی اسے ایجاد کیاتھا، اس مسئلہ کاسرچشمہ یہ تھاکہ آدم اورنوح کے درمیانی زمانہ میں کچھ ایسے نیک اورصالح افراد ہوگز رے تھے۔ جن سے لوگ اظہار محبت کیاکرتے تھے،شیطان (اور شیطان صفت انسانوں) نے لوگوں کے اس لگاؤ اور محبت سے سوئِ استفادہ کیااورانہیں ان بزرگوں کے مجسمے بنانے ، اوران مجسموں کی عزت واحترام کرنے کا شوق دلایا۔
لیکن کچھ زیادہ وقت نہ گزراتھا کہ بعد میں آ نے والی نسلیں اس موضوع کے رابط تاریخی کو بھول گئیں اورانہوں نے خیال کیا کہ یہ مجسمّے ایسے محترم مو جودات ہیں، جن کی پرستش اور عبادت کرناچاہیے اوراس طرح سے وہ بتوں پرستش میں سرگرم ہوگئے اورظالم مستکبرین نے انہیں غفلت میں رکھ کراس طریقے سے انہیں اپنی قیدو بند میں لے لیا اورایک عظیم مکرو فریب واقع ہوا۔
ہوسکتاہے کہ بعد والی آ یت اس مطلب کی گواہ ہو، کیونکہ اس عظیم مکرکی طرف ایک اجمالی اشارہ کرنے کے بعد مزید کہتاہے:'' ان کے عالم نے کہا،اپنے خدا ؤں اور بتوں سے دستبر دار نہ ہو'' (وَ قالُوا لا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ )۔
اورخدا ئے یگانہ کے بارے میں نوح کی دعوت ہرگز قبول نہ کرنا، وہ خدا جونہ تو دکھائی ہی دیتاہے اور نہ ہی ہاتھ کے ساتھ چھونے کے قابل ہے۔
انہوں نے خصوصیت کے ساتھ انہیں پانچ بتوں کے بارے میں تاکید کی اور کہا:'' ود'' '' سواع'' '' یغوث'' '' یعوق''اور'' نسر'' کو ہرگزنہ چھوڑنا اوران کے دامن کوچھوڑنا''(وَ لا تَذَرُنَّ وَدًّا وَ لا سُواعاً وَ لا یَغُوثَ وَ یَعُوقَ وَ نَسْرا)۔
قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ پانچوں بت کچھ خاص امتیازات رکھتے تھیاوروہ گمراہ قوم ان کی طرف خاص طورپر متوجہ تھی اور اسی بناء پر ان کے فرصت طلب رہبربھی ان کی عبادت پرتکیہ کرتے تھے ۔
یہ بات کہ یہ پانچ بت کہاں سے آئے؟اس سلسلہ میں گوناگوں روایات ہیں۔
١۔بعض نے تو یہ کہاہے کہ یہ پانچ نیک اورصالح افراد کے نام ہیں،جونوح سے پہلے دنیامیں ہوگزر ے ہیں،جب وہ دنیاسے چل بسے توابلیس کی تحریک پرلوگوں نے یادگار کے طورپر ان کے مجسمّے بنالیے اوران کااحترام وعزّت کرنے لگے اور آہستہ آہستہ بت پرستی کی صورت اختار کرلی۔
٢۔ بعض نے یہ کہاہے کہ یہ آدم کے پانچ بیٹوںکے نام ہیں ، ان میں سے جب بھی کوئی دنیا سے جاتا تواس کامجسمہ یادگار کے طورپر بنالیتے، لیکن کچھ عرصہ گزرجانے کے بعد یہ تعلقات فراموش ہوگئے اورنوح کے زمانہ میں ان کی پرستش کی لہر دوڑ گئی۔
٣۔بعض کاکہنا یہ ہے کہ یہ ان بتوں ہی کے نام ہیںجوخودنوح کے ہی زمانہ میں بنائے گئے تھے، اور یہ اس وجہ سے ہو ا کہ نوح لوگوں کوآدم کی قبر کے گرد طواف کرنے سے روکتے تھے،توایک گروہ نے ابلیس کی تحریک پراس کے کچھ مجسّمے بنالیے اور ان کی پرستش میں مشغول ہوگئے ( ١)۔
اتفاقاً ی پانچوں بت زمانہ جاہلیت کے عربوں کی طرف منتقل ہوگئے ،پھر ہر قبیلہ نے ان بتوں میں سے ایک کواپنے لیے انتخاب کرلیا، البتہ یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے کہ وہ خودوہ بت منتقل ہوئے ہوں بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ان کے نام منتقل ہوئے، اورانہوں نے ناموں کے بُت بنالیے،لیکن بعض مفسرین نے ابن عباس سے نقل کیاہے کہ یہ پانچوں بُت طوفانِ نوح میں دفن ہوگئے تھے اورعربوں کے زمانہ ٔ جاہلیت میں شیطان نے انہیں باہر نکالا اور لوگوں کو ان کی پرستش کی دعوت دی( ٢)۔
پھر اس بارے میں کہ زمانہ جاہلیت کے عرب قبائل میں یہ بت کس طرح تقسیم ہوئے، اختلاف ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ '' ود'' بت تو '' بنی کلب '' کے قبیلہ تھا جوسرزمین '' دومة الجندل '' میں رہتاتھا(وہ شہرجو تبوک کے نزدیک ہے اور جسے موجودہ زمانہ میں '' جوف'' کہتے ہیں) اور ''سواع'' قبیلہ '' ہذیل '' سے جوسرزمین '' رہاط'' میں تھا،متعلق تھا،اور'' یغوت'' بت'' بنی قطیف ''
کے قبیلہ سے یا '' بنی مذحج'' کے قبیلہ سے تعلق رکھتاتھااور'' یعوق'' قبیلہ ہمدان سے ،اور '' نسر'' '' ذی الکل '' قبیلہ سے جوحمیر کے قبائل میں سے تھا( ٣)۔
مجموعی طورپر ان پانچ بتوں میں سے تین بت (یغوث ، یعوق اورنسر) سرزمین ِ یمن میں تھے، جو '' ذو نواس'' کے یمن پرتسلّط سے ختم ہوگئے اوراس علاقہ کے لوگ دینِ یہود سے وابستہ ہوگئے(٤)۔
'' واقدی'' مشہور مؤ رخ کہتاہے کہ ' 'ود'' بت مردکی شکل میں تھا اور'' سواع' ' عورت کی شکل میں '' یغوث'' شیر کی صورت میں اور'' یعوق'' گھوڑے کی شکل میں اور'' نسر'' '' باز'' کی صورت میں (جوایک معروف پرندہ ہے( ٥)۔
البتہ زمانہ جاہلیّت کے عربوں ... خصوصاً اہل مکّہ ... کے پاس اور بت بھی تھے جن میں سے ایک بت '' حبل'' تھا ،جو ان کے بتوں میں سب سے بڑا تھا اوروہ خانہ کعبہ کے اندر رکھا ہواتھا، اس کاطول ١٨ ہاتھ تھا ۔بت ' 'اساف'' حجراسود کے مقابل تھا، اور بُت ،نائلہ'' (کانہ کعبہ کے جنوبی کو نہ میں ) رکن یمانی کے سامنے تھا اوراسی طرح '' لات '' و' عزی '' بُت تھے۔
اس کے بعد نوح مزید کہتے ہیں :'' خداوندا!ان گمراہ اورخود غرض رہبروں نے بہت سے لوگوں کوگمراہ کردیا'' (وَ قَدْ أَضَلُّوا کَثیراً)( ٦)۔
'' خداوندا!ظالموں میں ضلا لت وگمراہی ہے کے سواکسی اور چیز کااضافہ نہ کر'' (وَ لا تَزِدِ الظَّالِمینَ ِلاَّ ضَلالا)۔
ظالموں اورستم گروں میں ضلالت وگمراہی کوزیادہ کرنے سے مراد وہی ان سے توفیق الہٰی کاسلب ہوناہے ،جوان کی بدبختی کاسبب بن جاتاہے جسے وہ اپنے ظلم کی وجہ سے پاتے ہیں، کیونکہ خدانور ایمان کوان سے چھین لیتاہے،اور کفر کی تاریکی کواس کاجانشین بنادیاتاہے۔
یہ ان کے اعمال کی خاصیّت ہے ، جس کی خدا کی طرف نسبت دی گئی ہے ،کیونکہ ہرموجود جوتاثیر بھی رکھتاہے، وہ اسی کے حکم سے ہے (غور کیجیے(
جوکچھ بھی ہو ، کفروایمان اورہدایت وضلالت کے سلسلہ میں وہ خدا وند تعالیٰ کی حکمت کے ساتھ کسی قسم کی منافات نہیں رکھتا اوراختیار کے سلب ہونے کاسبب نہیں بنتا۔
آخر کار آخری زیربحث آ یت میں، اس سلسلہ میں آخری بات خدا یہ فر ماتاہے:'' وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے غرق ہوگئے اورانہیں آگ میںداخل کر دیاگیااورانہیں خداکے سوا اورکوئی یارو مددگار نہ ملا۔ جو اس کے خشم وغضب سے ان کادفاع کرے'' ( مِمَّا خَطیئاتِہِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا ناراً فَلَمْ یَجِدُوا لَہُمْ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْصارا)(٧)۔
آ یت کی تعبیر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے، کہ وہ غرق ہونے کے بعد بلافاصلہ آگ میں داخل کردیئے گئے اور یہ عجیب بات ہے کہ پانی میں سے فوراً آگ میں داخل ہو ، اور یہ آگ وہی برزخ والی آگ ہے ،چونکہ قرآن مجید کی آ یات کو گواہی کے مطابق ایک گروہ کوموت کے بعدعالمِ برزخ میں سزاملے گی اور بعض روایات کے مطابق '' قبر'' یاتوجنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ، یادوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھاہے۔
یہ احتمال بھی دیاگیاہے،کہ اس سے مراد قیامت کی آگ ہے ،لیکن چونکہ قیامت کاوقوع قطعی اوریقینی ہے اوراس میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے، لہٰذا فعل ماضی کی صورت میں ذکرہوا ہے( ٨)۔
بعض نے یہ احتمال بھی دیاہے کہ اس سے مراد دنیاکی آگ ہے ،کہتے ہیں کہ خداکے حکم سے ،طوفان کی انہیں موجوں کے درمیان ایک آگ ظاہر ہوئی اورانہیں نگل گئی( ٩)۔

١۔ مجمع البیان ،تفسیر علی بن ابراہیم ،تفسیرابوالفتوح رازی اور دوسری تفاسیر( زیربحث آ یات کے ذیل میں )۔
٢۔ تفسیر قرطبی ،جلد ١٠ ،صفحہ ٨٧ ٦٧۔
٣۔ مجمع البیان ،جلد ١٠ ،صفحہ ٣٦٤ واعلام القرآن ،صفحہ ٦٣١۔
٤۔ مجمع البیان ،جلد ١٠ ،صفحہ ٣٦٤ واعلام القرآن ،صفحہ ٦٣١۔
٥۔ مجمع البیان ،جلد ١٠ ،صفحہ ٣٦٤۔
٦۔ ''اضلوا'' کی جمیر اس گروہ کے دولت مندروسا اور رہبروں کی طرف لوٹتی ہے اور قرینہ اس کاگزشتہ آ یت ہے جو یہ کہتی ہے: ''وقالوا لا تذرن اٰلھتکم''''انہوں نے کہاکہ اپنے بتوں کونہ چھوڑو'' لیکن بعض مفسرین نے یہ احتمال دیاہے کہ یہ ضمیر بتوں کی طرف لوٹتی ہے کیونکہ وہی گمراہی کاسبب تھے، (اوراسی کے مشابہ سورہ ابراہیم کی آ یہ ٣٦ میں بھی آ یاہے، لیکن جمع مذکوکی صورت میں نہیں بلکہ جمع مونث کی ضمیر کی صورت میں )لیکن یہ احتمال زیربحث آ یت میں بہت بعید نظر آتاہے۔
٧۔'' خَطیئاتِہِم'' ''من '' یلومعیت یالام تعلیل کے معنی میں ہے اور '' ما'' یہاں زائدہ اورتاکید کے لیے ہے۔
٨۔'' فخر رازی '' نے اپنے تفسیر میں اسے ایک قول کے عنوان سے نقل کیا ہے جلد ٣٠ میں صفحہ ١٤٥۔
٩۔تفسیر '' ابوالفتوح رازی'' جلد ١١،صفحہ ٢٨٠۔

٢٦۔وَ قالَ نُوح رَبِّ لا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکافِرینَ دَیَّاراً۔
٢٧۔ِنَّکَ ِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوا عِبادَکَ وَ لا یَلِدُوا ِلاَّ فاجِراً کَفَّاراً۔
٢٨۔ رَبِّ اغْفِرْ لی وَ لِوالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِناً وَ لِلْمُؤْمِنینَ وَ الْمُؤْمِناتِ وَ لا تَزِدِ الظَّالِمینَ ِلاَّ تَباراً۔

ترجمہ

٢٦۔نوح نے کہا: پروردگار ا!روئے زمین پرکفّار میں سے کسی ایک کوبھی زندہ نہ رہنے دے ۔
٢٧۔ کیونکہ آگر توانہیں رہنے دے گا، تووہ تیر ے بندوں کو گمراہ کردیں گے اورایک فاجر وکافر نسل کے سواکچھ وجود میں نہیں لائیں گے ۔
٢٨۔ پروردگارا!مجھے بخش دے ، اوراسی طرح میر ے ماں باپ کو اوران تمام لوگوں کو، جومیر ے گھرمیں ایمان کے ساتھ وارد ہوئے ، اورتمام مومن مرد اورمومن عورتوں کوبخش دے ، اور ظالموں میں ہلاکت کے سواکسی چیز کااضافہ نہ فر ما۔

تفسیر

اس فاسد و مفسد قوم کو چلے جاناچاہیے!

یہ آ یات اسی طرح سے ، نوح کی گفتگو اورخدا کی بارگاہ میں قوم کی شکایت اوران کے بارے میں بدوعا اورنفرین کوجاری رکھے ہوئے ہیں، فرماتاہے: '' پروردگار ا!کفار میں سے کسی کو روئے زمین پرزندہ نہ رہنے دے'' (وَ قالَ نُوح رَبِّ لا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکافِرینَ دَیَّارا)۔
یہ بات انہوں نے اس وقت کہی جب وہ مکمل طورپر ان کی ہدایت سے مایوس ہوگئے تھے اوراپنی آخری کوشش ان کے ایمان لانے کے سلسلہ میں کرچکے تھے، لیکن ان کاکوئی نتیجہ نہ نکلا، اورصرف تھوڑے سے لوگ ان پرایمان لائے ۔
'' علی الارض'' ''صفحہ زمین پر) کی تعبیراس بات کی نشاندہی کرتی ہے،کہ نوح کی دعوت بھی عالمی اورجہانی تھی اور وہ طوفان اور عذاب بھی جوبعد میں آیاعالمی تھا۔
' 'دیار'' (بروزن'' سیّار'' ) '' دار'' کے مادہ سے ،اس شخص کے معنی میں ہے جوگھر میں رہائش رکھتاہو، یہ لفظ عام طورپر نفی عموم کے لیے استعمال ہوتاہے،مثلاً کہاجاتاہے ( ما فی الدار دیار)(گھر میں کوئی نہیں رتا) (١) ۔
اس کے بعد نوح علیہ السلام اپنی نفرین اور بدو عا کرنے کے بارے میں استدلال کر تے ہیں، اورمزید کہتے ہیں:'' کیونکہ اگر توانہیں چھوڑ دے گا تووہ تیرے بندوں کوگمراہ کردیں گیاورفاجروکافرنسل کے سوااورکچھ وجود میں نہیں لائیں گے (اِنَّکَ ِنْ تَذَرْہُمْ یُضِلُّوا عِبادَکَ وَ لا یَلِدُوا ِلاَّ فاجِراً کَفَّارا)۔
یہ گفتگو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انبیاء کی نفرین وبدوعا ، جن میں نوح بھی ہیں ،غیض وغضب ، انتقام جوئی اورکینہ پروری کی بناء پر نہیں ہوتی تھی، بلکہ وہ ایک منطقی حساب کی صورت میں ہوتی تھی اورنوح کم حوصلہ افراد کی طرح نہیں تھے کہ تھوڑی سی بات کے لیے آپے سے باہر ہوجائیں اورنفرین و بدوعا کرنے لگ جائیں، بلکہ آپ نے نوسوپچاس (٩٥٠ ) سال کی دعوت ،صبروشکیبائی اورخون دل پینے اور مکمل مایوسی کے بعد نفرین کے لیے زبان کھولی تھی۔
اس بارے میں کہ نوح علیہ السلام نے یہ کیسے سمجھ لیاکہ اب یہ ایمان نہیں لائیں گے اوراس کے ساتھ وہ ان بندگانِ خدا کوجواس ماحول میںرہتے تھے گمراہ کریں گے اوراس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کی آنے والی نسل بھی فاسد ومفسد ہوگی ۔
بعض نے کہاہے کہ یہ اس غیب پر اطلاع وآگاہی کی بناء پر تھاجودخدانے انہیں دیاتھا، یہ احتمال بھی دیاگیاہے کہ نوح علیہ السلام نے اس مطلب کاوحی الہٰی سے استفادہ کیاتھا، جہاں فرماتاہے: '' وَ أُوحِیَ ِلی نُوحٍ أَنَّہُ لَنْ یُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ ِلاَّ مَنْ قَدْ آمَن'''' نوح علیہ السلام کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے کوئی بھی شخص سوا ئے ان کے جوایمان لاچکے ہیں ،ایمان نہیں لائیں گے''سُورہ ہودآیہ ٣٦) (٢)۔
لیکن یہ احتمال بھی قابلِ قبول ہے کہ نوح علیہ السلام نے ،فطری عادت اورعمومی حساب سے اس حقیقت کومعلوم کرلیاتھا،کیونکہ وہ قوم جسے ساڑھے نوسوسال تک موثر ترین بیانات کے ساتھ تبلیغ کی گئی ہو، اوروہ پھر بھی ایمان نہ لائے ہوں ، اس کی ہدایت کی امید نہ تھی اورچونکہ یہ لافرگردہ معاشرے میں قطعی اکثر یت رکھتاتھا،اورتمام وسائل اور امکانات ان کے اختیار میں تھے، لہذا طبعاً وہ دوسروں کوگمراہ کرنے کی کوشش کرتے اوراس قسم کی قوم کی آئندہ نسل قطعی طورپر فاسد اورخراب ہوتی ، ان تینوں احتمالات کے درمیان جمع بھی ممکن ہے۔
'' فاجر'' اس شخص کے معنی میں ہے جوبُرے اورقبیح گناہ کامرتکب ہوتاہے، اور'' کفار'' '' کفر'' میں مبالغہ ہے اس بناء پر ان دوالفاظ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ان میں سے ایک عملی کاموں سے مربُوط ہے اور دوسرا اعتقادی پہلوؤں سے ۔
ان آ یات کے مجموعہ سے اچھی طرح معلوم ہوجاتاہے کہ خدا کے عذاب '' حکمت '' ک ینیاد پرہوتے ہیں، وہ جمعیت جو فاسد ومفسد ہو ان کی آیندہ آنے والی نسلیں بھی فساد وگمراہی کے خطر ے سے دوچار ہوں ،وہ خدا کی حکمت میں زندگی اورحیات کاحق نہیں رکھتیں،طوفان (بجلی)یازلزلہ یاکوئی اوردوسری بلانازل ہوگی اورانہیں صفحہ ہستی سے مٹادے گی ، جیساکہ طوفانِ نوح نے زمین کواس بری قوم کے وجود کی گناہ سے پاک کردیا۔
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ قانونِ الہٰی کسی خاص زمانہ اورمکان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے،ہمیں متوجّہ رہناچاہیے کہ اگر وقت بھی کوئی فاسدومفسد قوم اوراس کی اولاد،'' فاجر'' '' کفار'' ہوتوانہیں بھی عذابِ الہٰی کامنتظر رہناچاہیے، کیونکہ ان امور میں کوئی تبعیض ہے اور یہ ایک سنت الہٰی ہے۔
'' یضلوا عبادک'' (تیری بندوں کو گمراہ کریں گے) کی تعبیرممکن ہے اس چھوٹے سے مومنین کے گروہ کی طرف اشارہ ہو، جواس طویل مدّت میں نوح علیہ السلام پرایمان لایاتھا،اوریہ بھی ممکن ہے کہ عامة الناس میں سے مستضعف لوگوں کی طرف اشارہ ہو جوگمراہ رہبروں کے دباؤ اورفشارسے ان کے دین ومذہب کی پیروی کرتے ہیں۔
آخر میں نوح علیہ السلام ! اپنے لیے اوران لوگوں کے لیے جوان پر ایمان لائے تھے اس طرح دعاکرتے ہیں:پروردگارا!مجھے بخش دے اوراسی طرح میرے ماں باپ کو اوران تمام لوگوں کوجوایمان کے ساتھ میرے گھر میں داخل ہوئے تھے، اور تمام مؤ منین کوبھی بخش دے اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سواکسی اور چیز کااضافہ نہ کر'' (رَبِّ اغْفِرْ لی وَ لِوالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِناً وَ لِلْمُؤْمِنینَ وَ الْمُؤْمِناتِ وَ لا تَزِدِ الظَّالِمینَ ِلاَّ تَباراً)( ٣)۔
یہ طلب مغفرت اس لیے ہے کہ نوح علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ میں نے صد ہاسال مسلسل تبلیغ کی ہے،اوراس راہ میں ہرقسم کی تکلیف اور مصیبت جھیلی ہے ،لیکن چونکہ ممکن ہے کہ اس مدّت میں مجھ سے کوئی ترکِ اولیٰ سرزد ہوگیا ہو، تومیں اس کے بارے میں بھی عفو و بخشش کاتقاضا کرتاہوں، اورتیری بارگاہ مقدس میں ہرگز خود کوبری قرار نہیں دیتا۔
اور'' اولیاء اللہ '' کی حالت اسی طرح ہے کہ وہ راہِ خدا میں ہرقسم کی زحمت وتکلیف اورسعی وکوشش کے بعد بھی اپنے آپ کومقصر سمجھتے ہیں اورہرگز غرور وتکبّر اورخود کوبڑا سمجھنے میں گرفتار نہیں ہوتے ۔
نوح علیہ السلام حقیقت میں چند افراد کے لیے طلبِ مغفرت کرتے ہیں۔
اوّل : اپنے لیے ، کوکہیں ایسانہ ہو کہ کوئی قصور یاترکِ اولیٰ ان سے سرزد ہوگیاہو۔
دوم: اپنے ماں باپ کے لیے ، ان کی زحمتوں کی قدر دانی کے باعث اورحق شناسی کے پیش نظر۔
سوم : تمام ان لوگوں کے لیے جوان پرایمان لائے ، اگرچہ وہ بہت تھوڑے تھے اورپھر وہ آپ کے ساتھ کشتی پر سوار ہوئے کہ وہ کشتی بھی نوح کاگھرتھی۔
چہارم: تمام جہان اور طول تاریخ میں ایمان لانے والے مردوں اورعورتوں کے لیے ، اور یہاں سے اپنارابط سارے عالم کے مومنین سے بر قرار کررہے ہیں۔
لیکن آخر میں پھر ظالموں کی نابودی کی تاکید کرتے ہیں، جواس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے ظلم کی بناء پر اسی قسم کے عذاب کے مستحق ہیں۔
١۔بعض کا کہنا ہے کہ اصل میں ''دیوار'' (بروزن حیوان) تھا،اس کے بعد'' واؤ '' '' یاء '' میں بدگئی ،اوریاء کایاء '' میں ادغام ہوگیا'' رہینوفی غرائب القرآن''جلد ٦ ،صفحہ ٤٦٥ وتفسیر فخررازی ،زیربحث آ یات کے ذیل میں۔
٢۔ اس معنی کی طرف بہت سی روایات میں اشارہ ہواہے( نورالثقلین ، جلد ٥،صفحہ ٤٢٨)۔
٣۔'' تبار '' ہلاکت کے معنی میں ہے اور'' زبان اور خسارے '' کے معنی میں بھی اس کی تفسیر ہوئی ہے۔

چند نکات

1۔ نوح علیہ السلام پہلے الوالعزم پیغمبر

قرآن ،مجید بہت سی آیات میں نوح کے بارے میں گفتگو کرتاہے، اور مجموعی طورپر قرآن کی انتیس سورتوں میں اس عظیم پیغمبر کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے،اوران کا نام ٤٣ مرتبہ قرآن میںآ یاہے ۔
قرآن مجید نے ان کی زندگی کے مختلف حصّوں کی باریک بینی کے ساتھ تفصیل بیان کی ہے ، ایسے حصّے جو زیادہ ترتعلیم و تربیّت اورپندونصیحت حاصل کرنے کے پہلو ؤں سے مربوط ہیں۔
مورخین ومفسرین نے لکھاہے کہ نوح کا نام'' عبدالغفار'' یا'' عبد الملک'' یا'' عبد الاعلیٰ '' تھا اور'' نوح '' کالقب انہیں ا س لیے دیاگیاہے ،کیونکہ وہ سالہاسال اپنے اوپر یااپنی قوم پرنوحہ گری کرتے رہے، آپ کے والد کانام '' لمک '' یا '' لامک'' تھا اورآپ کی عمر کی مدت میں اختلاف ہے ،بعض روایات میں ١٤٩٠اور بعض میں ٢٥٠٠ سال بیان کی گئی ہے،اوران کی قوم کے بارے میں بھی طولانی عمریں تقریباً ٣٠٠ سال تک لکھی ہیں، جوبات مسلّم ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے بہت طو لانی عمر پائی ہے ،اورقرآن کی صراحت کے مطابق آپ ٩٥٠ سال اپنی قوم کے درمیان رہے( اور تبلیغ میں مشغول رہے)۔
نوح کے تین بیٹے تھے '' حام '' '' سام'' '' یافث'' اور مؤرخین کانظر یہ یہ ہے کہ کہ کرّۂ زمین کی اس وقت کی تمام نسلِ انسانی کی بازگشت انہیں تینوں فرزندوںکی طرف ہے. ایک گروہ '' حامی '' '' نسل ہے '' جوافریقہ کے علاقہ میں رہتے ہیں ،دوسراگروہ '' سامی '' نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرقِ قریب کے علاقوں میں رہتے ہیںاور '' یافث'' کی نسل کوچین کے ساکنین سمجھتے ہیں۔
اس بارے میں بھی، کہ نوح علیہ السلام طوفان کے بعد کتنے سال زندہ رہے، اختلاف ہے، بعض نے ٥٠ سال لکھے ہیں اوربعض نے ٦٠ سال ۔
یہود کے منابع (موجود توارت میں بھی نوح کی زندگی کے بارے میں تفصیلی بحث آ ئی ہے ، جو کئی لحاظ سے قرآن سے مختلف ہے ،اورتورات کی تحریف کی نشانیوں میں سے ہے ۔
یہ مباحث تورات کے سفر'' تکوین '' میں فصل ٦، ٨٠٧،٩ اور ١٠ میں بیان ہوئے ہیں۔
نوح علیہ السلام کاایک اوربیٹا تھا، جس کانام '' کنعان'' تھا، جس نے باپ سے اختلاف کیا، یہاں تک کہ کشتی نجات میں ان کے بیٹھنے کے لیے بھی تیار نہ ہوا، اس نے بُرے لوگوں کے ساتھ صحبت رکھی اور خاندانِ نبوت کی قدروقیمت کوضائع کردیا اورقرآن کی صراحت کے مطابق آخر کار وہ بھی باقی کفار کے مانند طوفان میں غرق ہوگیا۔
اس بارے میں کہ اس طویل مُدّت میں کتنے افراد نوح علیہ السلام پرایمان لائے ،اوران کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے ،اس میں بھی اختلاف ہے بعض نے ٨٠ اور بعض نے ١٧ افر اد لکھے ہیں۔
نوح علیہ السلام کی داستان عربی اور فارسی ادبیات میں بہت زیادہ بیان ہوئی ہے، اور زیادہ ترطوفان اورآپ کی کشتی نجات پرہواہے ( 1)۔
نوح علیہ السلام صبروشکر اوراستقامت کی ایک داستان تھے، اور محققین کا کہنا ہے کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے انسانوں کی ہدایت کے لیے وہ منطق کے علاوہ عقل واستد لال کی منطق سے بھی مدد لی (جیساکہ اس سورہ کی آیات سے اچھی طرح ظاہر ہے) اوراسی بناء پر آپ اس جہان کے خداپر ستوں پرایک عظیم حق رکھتے تھے۔
ہم نوح علیہ السلام کے حالات کی تشریح کو امام باقرعلیہ السلام کی ایک حدیث پرختم کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: نوح غروبِ آفتاب اورصبح کے وقت دعا اورمناجات پڑھاکرتے تھے۔
امسیت اشھدانہ ما امسی بی من نعمة فی دین اودنیا فانھا من اللہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الحمد بھا علی والشکر کثیراًفانزل اللہ:'' انہ کان عبداً شکوراً '' فھذاکان شکرہ:
میں نے اس حالت میں شام کی ہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ دین و دنیا کی جونعمت میں رکھتاہوں ، وہ اس خدائے یگانہ کی طرف سے ہے، جس کاکوئی شریک نہیں ہے ، اور میں اس کی نعمتوں پراس کی حمدو ثنا کرتاہوںاور اس کابہت بہت شکر کرناہوں۔
اسی بناء پر خدا نے قرآن میں یہ نازل فر مایا ہے کہ وہ شگزار بندہ تھا اور نوح کاشکراسی طرح کاتھا( 2)۔
٢۔'' رَبِّ اغْفِرْ لی وَ لِوالِدَیَّ وَ لِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنا'' ''پروردگارا! مجھے میرے ماں باپ کواورجو شخص میر ے گھر میں مومن وارد ہو بخش دے '' کے جملے میں لفظ '' بہت ' 'کے معنی میں اختلاف ہے مجموعی طورپر اس کے چار معانی بیان کیے گئے ہیں۔
بعض نے اسے شخصی اورذاتی گھر کے معنی میں لیاہے۔
بعض مسجد کے معنی میں لیتے ہیں۔
بعض کشتی نوح کے معنی میں لیتے ہیں ۔
بعض ان کے دین وآامین وشریعت کے معنی میں جانتے ہیں۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:
یہاں بیت سے مراد ولایت ہے، جو شخص ولایت میں داخل ہواوہ انبیاء کے گھر میں داخل ہوا ہے'' ۔
'' من دخل فی الو لایة دخل فی بیت الانبیاء علیھم السلام''۔
خداوندا!ہمیں توفیق مرحمت فرماکہ ہم ولایت آئمہ اہل بیت کوقبول کرنے کے طریق سے بیت ِ ابنیاء میں داخل ہوں۔
پروردگارا!ہمیں ایسی استقامت عطافرما کہ ہم نوح علیہ السلام ایسے بزرگ انبیاء کی مانندتیر ے دین وآمین کی طرف دعوت کی راہ میں خستہ نہ ہوں، اور ہرگز ہار کرنہ بیٹھ جائیں۔
بارالہٰا ! جس وقت تیرے خشم وغضب کاطوفان آئے تو ہمیں اپنے لطف ورحمت کی نجات کی کشتی کے ذ ریعہ رہائی بخش دے۔

1۔'' اعلام القرآن'' '' فرینگ قصص قرآن''،'' دائرة المعارف دھخدا'' مادہ '' نوح'' و '' بحارالا نوار ،جلد ١١''۔
2۔'' بحارلا نوار ،جلد ١١ صفحہ ٢٩١ حدیث ٣۔

آمین یارب العالمین
اختتام سورہ نوح

Comments powered by CComment