مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب [چوتھی قسط]

متفرق مقالات
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

عابد رضا نوشاد

گذشتہ  قسطوں میں میں بیان ہوا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کے اسباب کو دو اہم حصوں میں تقسیم  کیا جا سکتا ہے: ۱۔ سیاسی مشکلات  ۲۔ اخلاقی و ثقافتی مشکلات۔ سیاسی مشکلات کے ذیل میں اب تک ان عناوین پر روشنی ڈالی گئی: الف) آراء و اقوال میں علماء کا اختلاف؛     (ب)وہی رہبر وہی رہزن ۔ (ج) تفرقہ ؛ (د) اسلام دشمن عناصر سے دوستانہ تعلقات اب آگے کی گفتگو ملاحظہ کیجئے۔

*(ہ) سیاست اور دین میں جدائی*

سیاست اور دین میں جدائی کا قائل ہونا بھی مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک اہم سبب ہے ۔سیاست اور دین میں جدائی کا نعرہ استعمارو استکبار کی اسلام مخالف سازشوں میں برسر فہرست ہے جسے اسلامی ممالک کے ''روشن خیال '' کہے جا نے والے دانشور طبقے نے کافی تقویت دی ہے ،مجھے نہیں معلوم کہ ایسے طبقے کو ''روشن خیال'' کہا جا ئے یا ''تاریک خیال'' جس نے ایک'' روشن'' و واضح شے کا انکار کر دیا اس لئے کہ دین کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں فرد و اجتماع کی رہنمائی کرے جس میں سیاست کا پہلو کا فی اہمیت کا حامل ہے اور پھر دین اسلام کی تعلیمات کو پیش نظر رکھتے ہو ئے یہ بات بھی مسلم الثبوت ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے تو پھر سیاست کو دین سے کیسے جدا کیا جا سکتا ہے جب کہ سیاست حیات کے اہم ترین پہلو کا نام ہے ۔

اس سلسلہ میں سید حسن مدرس  کا یہ جملہ زبانزد خاص و عام ہے کہ '' ہماری دیانت عین سیاست اور ہماری سیاست عین دیانت ہے '' ۔امام خمینی سے پہلے سید جمال الدین اسد آبادی کی تحریک بھی دین و سیاست کے اتحاد پر استوار تھی۔ شہید مطہری فرما تے ہیں :'' شاید اس سلسلہ مںی گام اول سید جمال الدین اسد آبادی نے اٹھا یا ہے ،سید جمال وہ پہلے شخص تھے جن کو یہ احساس ہوا کہ اگر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگا کر ان میں ولولہ پیدا کرنا ہے تو انہیں یہ باورکرانا ہو گا کہ سیاست دین سے جدا نہیں ہے ، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس مسئلہ کو مسلمانوں کے درمیان رائج کیا جس کی بنیاد پر استعمار ی طاقتوں نے کافی سعی و کو شش کی تا کہ اسلامی ممالک میں دین اور سیاست کے رابطہ کو منقطع کردیا جائے۔ [پیرامون انقلاب اسلامی ،ص٥٢ انتشارات صدرا تہران]

سیاست اور دین کی جدا ئی کے شعار کی بنیاد پر ہی بعض بظاہر دیندار حضرات بھی استعماری قوتوں کا فریب کھا کر اس بات کے قا ئل ہو گئے کہ دینی حکومت کی تشکیل کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ غیر دینی حکو مت میں ہی خاموشی کے ساتھ زندگی گذارنا بہتر ہے لیکن اس کے لئے ضروری یہ ہے کہ دینی حمیّت کا لبادہ اپنے تن سے اتار پھینکا جائے ۔

سید جمال الدین ایسے افراد کی مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : مجھے تعجب ہے ان لوگوں پر جو  دین محمدی پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے عقائد پر استوار ہیں لیکن ''دینی غیرت و  حمیّت'' کی مذمت کرتے ہیں اور ان کا پورا اصرار یہ ہے کہ غیور مسلمانوں کوشدت پسند اور جدیدتمدن سے نا بلد ٹھہرائیں لیکن ایسے مسلمان اس بات سے غافل ہیں کہ وہ اس کام کے ذریعہ اپنے عصائے دست کو توڑ رہے ہیں اور اپنے مقام و مرتبہ میں تنزلی کا باعث بن رہے ہیں ۔اپنے گھروں کو بےدینوں کی مدد سے اپنے ہا تھوں ہی ویران کررہے ہیں ۔ یہ لوگ غفلت اور بے توجہی کی بنیاد پر مسلمانوں کے معتدل دینی غیرت و حمیّت کی نابودی کے خواہاں ہیں جس کے نتیجہ میں مسلمان اپنی قومیت سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے ، اپنی قومیت کو غیروں کے سپرد کرتا جارہا ہے اور یوں اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے دوسروں کا غلام بنا رہا ہے ۔ [علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٧٣ بحوالۂ عروة الوثقیٰ اسد آبادی ،ص١٤٠]

سیاست اور دین کی جدا ئی کے نعرے کی بنیاد پر ہی یہ مسئلہ بھی دنیائے سیاست میں اکثر و بیشتر موضوع بحث رہا کرتا ہے کہ دنیوی سیاست میں دینی رہبروں کا کیا دخل ہے ؟ اس مسئلہ میں اسوقت  مزید شدّت آئی جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا ، اسلامی حکومت تشکیل پائی اور پارلیمان دینی و مذہبی افراد کے اختیار میں آگیا ۔

سید جمال الدین اسد آبادی نے اس با طل اور حماقت بھرے نظریہ پر خط بطلان کھینچ ڈالا اور سیا ست سے مذہبی رہنماؤں اور دیندار سیاستدانوں کی جدائی کو ہی مسلمانوں کے زوال کا با عث جانا  ۔ آپ فرما تے ہیں: جو لوگ اخلاقی طور پر مسلمان تھے ، اسلامی امور کی زعامت کی صلاحیت رکھتے تھے اور حکومتی مناصب و مراتب کو لیاقت و شائستگی کے سا تھ سنبھال سکتے تھے،  وہ امور میں دخالت سے ممنوع قرار دے دئے گئے یہاں تک کہ اسلامی حکومتوں کو دشمنوں کے ہاتھوں شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ تاریخ کے صفحات پر افشین و دیالمہ وغیرہ جیسی داستانیں ثبت و ضبط ہیں ۔ [ سید جمال الدین و اندیشہ ہائے او ،ص٤١٠ بحوالۂ علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٧٦]

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدا ئی   ہوس کی امیری ہوس کی وزیری       ( علامہ اقبال )

*(و) مغربی تمدن سے احساس شکست*

اپنے اصل تہذیب و  تمدن کو مغربی تمدن کے سامنے حقیر جاننا اور احساس شکست کرنا بھی مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک بڑا سبب ہے ۔
تقریباًتین یا چار صدی پہلے جب اسلامی ممالک خواب غفلت میں محو تھے اور ان کے بو الہوس حکمراں بندہ عیش و نوش بن چکے تھے ،مغربی دنیا بڑی تیز رفتاری کے سا تھ اپنی وحشی گری کے زمانے کو طے کرتی ہو ئی ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور ثقافتی ، علمی، اجتماعی ،سیاسی اور ٹکنالوجی کے مدنان میں ایک نئی تا ریخ رقم کر نے میں مصروف تھی ۔ مغربی ہا تھوں کے اکتشافات و ایجادات کی خبریں روز بروز مشرقی سماعتوں سے ٹکراتی تھیں ، کبھی ریڈیو کے اکتشاف کی خبر گم گشتہ مسلمانوں کو حاصل ہو ئی تو کبھی ٹیلی ویژن، گاڑی ، ٹیلی فون، ریل گا ڑی ، بجلی اور ہو ائی جہاز جیسی متحیر العقول ایجادات کی خبر اس کے تعجب کا باعث بنیں۔

ان جدید ٹکنالوجیز اور حیرت انگیز اشیاء نے مسلمانوں کو اس طرح اپنی طرف مجذوب کر لیا کہ مغربی تمدن کے مقا بل حقارت و پستی کا احساس کر نے لگے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ دنیا میں جینے کی بس ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ بلا چون و چرا ایسے '' عظیم صنعتی تمدن '' کی مطلق پیروی کی جا ئے اور وہاں کے مغز ہا ئے متفکر کو اپنے اوپر مسلط ہو نے کی کھلی چھوٹ دے دی جا ئے،  چاہے اس کے لئے ہمیں اپنے دین اور اسلام کے قوانین سے دستبردار ہی کیو ں نہ ہو نا پڑے ۔ انہی کی طرح کھا نا کھا نا چا ہیئے، انہی جیسا لباس زیب تن کر نا چا ہیئے ، چلنے پھر نے کا انداز ، طرز گفتگو ، سلیقۂ زندگی ، شیوہ معاشرت اور  حیات کے ہر مر حلہ میں ان ہی کا اتباع کر نا چا ہیئے ۔

یہی نظر یہ جب عام ہو ا تو اسلامی ممالک سے اسلامی تہذیب و تمدن رخصت ہو گیا اور مغربی ثقافت نمودار ہو گئی ۔ یہاں تک کہ ترکی جیسے مسلمان ملک میں عربی رسم الخط کے بجائے رومن رسم الخط کو رسمی حیثیت دی گئی جو آج تک باقی ہے۔یہ تلخ اور افسوسناک تبدیلی اتاترک کے زمانے میں پیش آئی ۔

سید جمال الدین اسد آبادی اسلامی معاشرے میں مغربی تمدن کی عکاسی اسطرح  کر تے ہیں : (مسلمان) اپنوں کے ہر اچھے کام کو بری نظر سے دیکھتے ہیں اور اپنے معاشرے کی کسی فرد کے ہر بڑے کام کو چھوٹا شمار کرتے ہیں لیکن جب کو ئی اجنبی بے بنیاد باتیں کرتا ہے تو اس کی با توں کو گراں بہا اور حکمت آمیز جا نتے ہیں ۔ اگر ان کے معاشرے کا کو ئی فرزند دریا ئے ہستی میں غوطہ زن ہو کر حقیقت کے درشاہوارکا استخراج  اور اسرار حیات کو ان کے لئے فاش کر تا ہے تو اس کا یہ کام ان کی نظروں میں حقیر اور بے قدر و قیمت ہو تا ہے ۔ اکثروبیشتر  افراد زبان حال کے ذریعہ اور کبھی کبھی صراحت کے سا تھ یہ کہتے ہو ئے نظر آتے ہیں کہ ہما ری قوم سے کو ئی دا نشور سا منے نہیں آئے گا ، محال ہے کہ ہما رے یہاں بصیر اور آگاہ افراد وجود میں آئیں۔  [علل و عوامل ضعف و انحطاط مسلمین ،ص ٨١، بحوالۂ نامہ ھا ئے سید جمال الدین ،ص١٦١]

مقام افسوس یہ ہے کہ مسلمان مغربی تمدن کی اس بے چون و چرا پیروی کے با وجود اپنے  خود ساختہ مقصد و مراد تک نہ پہنچ سکا بلکہ اسے '' نہ خدا ہی ملانہ وصال صنم'' اس کا حال زار اس کوّے کی مانند ہو گیا جس کے با رے میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ '' کوّا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا ''۔ مغربی تمدن کی تقلیدپر نازاں مسلمانوں کو جس قدر ذلت و حقارت کا سا منا کر نا پڑا ہے اگر اس کے بجا ئے اسلامی تعلیمات اور دینی حمیت کو سر مشق زندگی قراردیتے ہو ئے سعی و کو شش میں مصروف ہو جا تے  تو آج تہذیب مغرب ایک با ر پھر تہذیب اسلام کی محتا ج ہوتی۔

یقیناً جب تک ہم خود کو حقیر جا نتے ہو ئے مغربی تہذیب کا لو ہا مانتے رہیں گے، کبھی عزت و سر بلندی نصیب نہ ہو گی اور روز بروز دینی آثار اور اسلامی تمدن کو کھو تے چلے جا ئیں گے ۔[ علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمین ، ص٧٤٣ ]

مغرب زدہ مسلمانوں کی مذمت کر تے ہو ئے علامہ اقبال کہتے ہیں :

ترا   و جود   سراپا   تجلی  افرنگ 
کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر 
مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی
فقط  نیام ہے تو ،زر نگار  و بے شمشیر!     [کلیات اقبال ،ضرب کلیم ، ص٣٣]

*سلسلہ جاری ہے …

Comments powered by CComment

Grid List

Read more ...

Comments powered by CComment