مؤلف: محمد باقرمقدسی
نظرثانی: سیدضیغم عباس نقوی (ہند)
کمپوزنگ وترتیب: محمد حسن جوہری
اپنے شفیق والدین کے نام
عالم امکان کی سعادتمندی، آبادی، اور ترقی و تکامل کی خاطر اللہ نے کائنات کو تمام وسائل اور لوازمات سے مالا مال فرمایا وہ ذات یکتا ایسی ذات ہے کہ جس نے اپنی ذات کی تعریف اسطرح کی ہے والله هو الغنی الحمید جبکہ عالم امکان کی تعریف میں فرمایا'' و انتم الفقرائ'' ایسی ذات کے بارے میں تمام اسلامی مکاتب فکر او رفلاسفر کا بالاتفاق یہ نظریہ ہے کہ وہ ذات تمام کمالات کا مجموعہ ہے جس میں کمی اور نقص کا تصور ناممکن ہے لہذا تمام کائناتی کمالات کا مجموعہ اورسرچشمہ ذات باری تعالی نظر آتا ہے، اس ذات سے ہٹ کر تصور کیا جائے تو یقینا احتیاج اور نیاز مندی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تب بھی تو اللہ نے قرآن مجید میں گذشتہ امتوں کے عبرت ناک حالات کو صاف لفظوں میں بیان کیا تاکہ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ ہم جو کچھ کرنا چاہیںتو کرسکتے ہیں،اگر کوئی شخص اس خیال کی بنیاد پر قوم لوط ا ور قوم ثمود یا دیگر اقوام کی سیرت کو مشعل راہ قرار دے تو یقینا اللہ اس کو اسطرح کیفر کردار تک پہنچائے گا کہ جس طرح لوط اور ثمود وغیرہ کی قوم کو پہونچایا تھا، نیز اللہ نے فرعون اور قارون کے قصے کو واضح الفاظ میں بیان فرمایا تاکہ بشر جس طرح فرعون نے قدرت کو قارون علم کو اپنی ذاتی کمال سمجھتے تھے۔ اسطرح دیگر انسان بھی کمالات کو اپنا ذاتی کمال نہ سمجھیں لہذا اگر کوئی عاقل اس طرح کا تصور کرے کہ تمام کمالات چاہے مادی ہوں یا معنوی ہماری زحمت اور ذاتی تربیت کا نتیجہ ہے اور اللہ تبارک وتعالی سے کوئی ربط نہیں ہے، تو اسکا حشر بھی وہی ہوگا جو فرعون اور قارون کوہواتھا۔
نیزاللہ نے شیطان کی ہر حرکات و سکنات کو مفصل طور پرکلام مجید میں ذکر فرمایا، تاکہ لوگ تکبر و غرور کی بیماری کا شکار نہ ہوں، اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہوا تو اسکا علاج بھی وہی ہوگا جو شیطان کا علاج تھا۔
لہذا اللہ نے اس باطل نظریے (یعنی کمالات اپنی زحمات کا نتیجہ ہیں اور اللہ سے کوئی ربط نہیں ہے )کو رد کرتے ہوئے بشر کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنے کی خاطر گذشتہ امتوں اورفرعون و قارون اور شیطان کے قصے کو واضح الفاظ میں بیان کیا تا کہ بشر تمام کمالات کا سرچشمہ ذات باری تعالی سمجھے ، اسی حقیقت کو درک کرنے کی خاطر اللہ نے قیامت تک کے انسانوں کی طبیعت اور فطرت کے ہماہنگ گفتگو کی ہے یعنی کچھ لوگوں کی طبیعت ،عشق و محبت سے متاثر اور منفعل ہو جاتی تھی جس کو اپنی طرف مبذول کر نے کے لئے یوسف اور ذلیخا کی کہانی کو صاف الفاظ میں بیان کیا، جبکہ کچھ لوگوں کی طبیعت عبادات اور زہد و تقوی اور دعاؤں سے متاثر ہو جاتی تھی جسکی آبیاری کیلئے انبیاؑ اور اوصیاء ؑکی نمایاں سیرت کو زہد و تقوی راز و نیاز کامجموعہ ہونے کی خبر دی ہے اور کچھ لوگوں کی طبیعت جنگجو اور شجاعانہ طبیعت تھی جن کی پیاس کو بجھانے کی خاطر اللہ نے گذشتہ انبیاء اور ہمارے آخری نبی ؐکی سیاسی پالیسیوں کو جنگ احزاب، جنگ بدر، جنگ احد، جنگ تبوک او ردیگر جنگوں کے نام سے یاد کیا ہے تاکہ کوئی مسلمان جنگجو کفار و مشرکین بالاخص یہودیوں کی غلط پالیسیوں کو میدان جنگ میںاپنا اصول و ضوابط قرار نہ دے ،حالانکہ خوبصورتی اور لذت روحی سے ،طبیعت متاثر ہونے والے افراد کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنےکی خاطر حور العین کی تمام خصوصیات کو ''لم یطمثهن انس قبلهم ولا جان کانهن الیاقوت والمرجان ''یا کواکب اترابا وجعلناهن ابکارا''کے الفاظ میں روشن فرمایا۔نیز کچھ انسانوں کی طبیعت ہنر اور فنون کی طبیعت ہوتی تھی جن کی خواہش کو پورا کرنے کی خاطر طرح طرح کے فنون و ہنروں کا تذکرہ کیا۔اورہنروںاورفنون کوعلم کادرجہ دیا ۔
اس طرح کچھ انسانوں کی طبیعت اس طرح کی ہے جو اخلاق حسنہ کو پسند کرتی ہے جنکی چاہت او رخواہشات کو پورا کرنے کی خاطر اخلاق کے تمام اصول و ضوابط منفی و مثبت نکات اور مطالب کو واضح الفاظ میں بیان کیا اورنمونہ کے طور پر حضرت ابراہیم کی سیرت کو ''لقد کان فی رسول الله اسوة حسنه '' یا ہمارے آخری نبی کی نمایاںسیرت کو'' لقد کان لکم فی رسول الله اسوة حسنه ''کے عنوان کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ اخلاق حسنہ سے طبیعت بیدار ہونے والے افراد اخلاق حسنہ کے اصول و ضوابط انہی ہستیوں کو نمونہ عمل قرار دے دیے ، نیز اللہ نے کبھی جنت کے اوصاف اور خصوصیات کو ''خالدین فیها تجری من تحت الانهار ،لا تسمع فیها لاغیة'' وغیرہ واضح الفاظ میں بیان کیا ہے تاکہ جنت کی لذت اور آرامش کی لالچ میں طبیعت اور ضمیر اللہ کی طرف مبذول ہو۔
اور اللہ نے کبھی تاریخ اور ضرب المثل کو بیان کرکے شعر و شاعری کی طبیعت والے افراد کی طبیعت کو اپنی طرف مرکوز کیا جبکہ قرآن کے تمام الفاظ کو فصاحت اور بلاغت سے اسطرح مالا مال کیا حتی نزول قرآن کے وقت جتنے فصحا اور بلغا تھے بالاتفاق کہنے لگے قرآن کسی بشر کا کلام نہیں ہے بلکہ محمد بن عبداللہ سحر اور جادو کر رہا ہے لہذا فصاحت و بلاغت سے طبیعت اور ضمیر بیدار ہونے والے افراد کے لئے ایسی فصاحت و بلاغت کے نکات کو بیان کیا تا کہ قیامت تک اس کلام سے فصیح تر کلام نہ ہوسکے۔
لہذا قرآن کے آغاز سے خاتمہ تک کی آیات پر غور کریں تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ اللہ نے ہر انسان کو چاہے موجود بالفعل ہو یا با القوۃ اس کی طبیعت اور زمان و مکان کے مطابق دستور دیاہے تاکہ انسان ضروریہ خیال کرے کہ تمام کمالات کا سر چشمہ ذات باری تعالی ہے ، ایسا گمان اور خیال غلط ہے کہ ہماری کوششوں او رزحمات کا نتیجہ قدرت اور علم اور کمالات ہے بیشک زحمات اور کوشش کا لازمہ قدرت اور علم او رکمالات ہے لیکن کوشش اور زحمات کے باوجود تمام کمالات کی بازگشت اور سرچشمہ ذات باری تعالی ہی نظر آتا ہے۔
نیز قرآن تمام علوم کا ایسا بحر بیکراں اور اقیانوس ہے جس سے ہر غواص فیضیاب اور سیراب ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے ، اگر چہ اس دور میں ٹیکنالوجی ،سائنس ،فیالوجی ، فیزیک ،کیماوی، ریاضی یا دیگر علوم عروج پر فائز ہیں تو یہ خیال نہ کیجیے کہ قرآن میں ایسے علوم اور مضامین کا تذکرہ نہیں ہوا ہے، کیونکہ قرآن تمام کتب آسمانی کے ترجمان کی حیثیت سے ''من البدوی الی الختم ''کے ان تمام علوم کامجموعہ ہے جن کو بشر کے لئے قیامت تک کیلئے ضروری ہے مگر ہم نے قرآن کو صحیح معنی میں درک نہیں کئے ہیں ورنہ خود قرآن نے صاف لفظوں میں بیان کیا ہے '' لا رطب و لا یابس الا فی کتاب مبین'' بیشک قرآن میں جس طرح ریاضی کی کتاب میں تمام فارمولوں کا ذکر ہے اسطرح تمام علوم کا مفصل اور ہر فارمولے کو ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن جس علوم کا انسان محتاج ہے جو اس کی زند گی کی سعادتمندی کا باعث ہے اس کا یقینا قرآن میں اجمالی طور پر تذکرہ ہو چکا ہے اور ان تمام علوم کو قرآن کی آیات سے حاصل کرنے کیلئے تفکر اور تدبر کے علاوہ برسوں سال تعلیمات اسلامی کے گہوارے میں تربیت اور تلمذ کر نے کی ضرورت ہے ہاں آپ یقینا کہہ سکتے ہیںکہ برسوںسال تعلیمات اسلامی کے گہوارے میں تربیت یافتہ علماء اورمحققین میں سے کتنوں نے کہکشانوں اور ٹکنالوجیوں اور ایجادات و انکشافات کے فارمولے پیش کئے ہیں ؟
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ جب بشر پر مادہ پرستی اور مادیات کی حکومت حاکم ہو جاتی ہے تو ہر چیز کومادہ او رمادیات ہی سے مقایسہ کرتے ہیں کیا ایسے فارمولے کو پیش کرنا مشکل ہے یا طے الارض کرنا؟ کیا ایٹم بم بنانا مشکل ہے یا ایک ہی نظر سے سوپر طاقتوں کو خاک میں ملانا مشکل ہے ؟
علم رمل ، علم جفر، فیازلوجی سائنس کے تمام فارمولے اورریاضی کے تمام مسائل اور تمام قضایا عقلیہ سے اسلامی تعلیمات حاصل کرنے واے علماء اورمجتہدین اس دور کے ماہرپروفیسر اورڈاکٹر سے کئی گنا زیادہ آگاہ ہیں لیکن اسلام انسانوں کو مارنے کیلئے یا ان پر ظلم و ستم کرنے کیلئے ملحدین کی طرح ان چیزوںکی بنانے کی اجازت نہیں دیتا ، لہذا آ ج ملحدین یا ضعیف الایمان افراد ایک مضمون یاکسی ایک فیلڈ میں چند ایک فرمولوں کی روشنی میں کوئی چیز پیش کریںتو اس کو کوئی بڑی چیز نہ سمجھیں اگر یہ لوگ کسی علم کے چند ایک اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں تو ہمارے مجتہدین اس جیسے ہزاروں علوم کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں لیکن نظام اسلامی ان کی طرح بنانے کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ ملحدین اور ضعیف الایمان کسی عہد اور پیمان کے پابند نہیں رہتے بلکہ ان کا مقصد اور ہدف فقط یاد کردہ فارمولوں کی رو سے کوئی چیز انکشاف کرنا اور ایجاد کرنا ہے ، جبکہ علماء اسلامی کا ہدف اور مقصد یہ ہے کہ ان اصول و ضوابط کی رو سے انسان کی سعادتمندی مادی اور معنوی زندگی کے مرا حل کو بیان کریں،تاکہ حضرت حق کی شناخت کرسکیں۔
لہذا علم طب ،فیازلوجی ،فلاسفہ ،فزیک وغیرہ کے کتنے محققین آئے ہیںاور گذرے ہیں لیکن مثبت نتائج کے ساتھ منفی نتائج سے خالی نہیںرہے ہیں جبکہ قرآن واحدکتاب ہے جو انسان کے مادی اور معنوی تمام اصول و ضوابط پر مشتمل ہے. باقی تمام علوم کا سرچشمہ قرآن مجید ہے اور اللہ کی شان یہ نہیں ہے کہ تمام مسائل کو عام عادی انسان کی طرح تفصیلی بیان کرے، بلکہ اشارے اور اجمالی تذکرہ کرکے عقل وتفکر و تدبر کو بروی کار لانا اس کا مقصدتھا۔
لہذا پیغمبر اکرم (ص) اور اہلبیت(ع) نے قرآن کے حقیقی مفسر کی حیثیت سے تمام کنایات اور انکشافات و اختراعات کی تشریح کی ہے . اور مکتب اہل بیت (ع) کے پیروکار حضرات بھی تمام علوم کا سرچشمہ قرآن اور اہل بیت (ع) کوقرار دیتے رہے ہیں،لیکن مسلمان حضرات کا قرآن کے معتقد ہونے کے باوجود قرآن کے فیوضات سے محروم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان اورہمارا معاشرہ اسلامی ہونے کے باوجود ہمارے مراکز وتربیت گاہوں میںقرآنی تعلیم اوردرس قرآن سے ہمیں محروم رکھاگیا ہے اسی لیے آج قرآن کے کرامات اور فیوضات سے محروم ہیں جبکہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ تمام کمالات کاسرچشمہ ذات باری تعالی ہے قرآن اس کا کلام ہے جو ہرنقص اورعیب سے پاک ہونے کے علاوہ صرف ہماری سعادت اورکامیابی ہی کے لئے بھیجاگیا ہے جسمیںقیامت تک کے لئے بشر کے تمام مسائل اورقضایااورتمام علوم کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو ثابت کر نے کے لئے اہل بیت (ع) کی سیرت نمایاں دلیل ہے یعنی اہل بیت (ع)واحد ہستیاںہیںکہ جنہوںنے قرآن کوصحیح معنوںمیںسمجھا اورتعلیم قرآن کے ذریعے پوری دنیاکے مفکرین اورمحققین کے نظریات اورتحقیقات پرفوقیت حاصل کی ،لہذاان کے جانی دشمن اوراس زمانے کے متعصب ترین محققین بھی اہل بیت (ع) کے کمالات اورعلمی نظریات کا اعتراف کرچکے ہیں، جبکہ اسو قت نہ کوئی پیشرفتہ تربیت گاہ تھا اورنہ ہی کوئی ماہر استاد ،اگرچہ شیعہ امامیہ کاعقیدہ علم امام کے بارئے میںبہت ہی مفصل اورعمیق ہے جسکا خاکہ ذہن میںڈالنے کے لئے مستقل ایک تحقیقی کتاب کی ضرورت ہے لیکن اس دور میںعلم کے دعویدار ہونے والے حضرات کی توجہ کو سیرت اہل بیت (ع) اورتعلیم قرآن کی طرف مبذول کرنا چاہتاہوں
تاکہ ریاضی اورفزیک یاکسی دیگر مضامین کے چند ایک فرمولے یاد کر کے خود کو یاد خدا اورتعلیم قرآن سے بالاتر نہ سمجھیںبلکہ تمام تعلیمات سے بالاتر تعلیم قرآن، تمام موجودات سے بالاتر اللہ تبارک وتعالی اوربہترین مشعل راہ اہل بیت (ع) کی سیرت سمجھیں، آپ بغیر کسی تردید کے فہم قرآن اورتعلیم قرآن سے بہرہ مند حضرات کی تعلیمی طاقت واستعداد کواس دور کے چند ایک فرمولے یاد کرنے والے پڑھے لکھے افراد کی طاقت سے مقائسہ کر کے اندازہ کرسکتے ہیںکہ ہرعاقل جانتا ہے کہ سب سے بڑی طاقت علم ہے ۔
لہذاامام سجاد(ع)اور اس دور کے پڑھے لکھے افراد یا امام جعفرصادق (ع) اوراس دور کے پڑھے لکھے افراد یاپیامبر گرامی (ص)اور اس دورکے پڑھے لکھے افراد ی حضرت علی (ع) اور دیگر افراد کی علمی طاقت کو موازنہ کرسکتے ہیںاور مسلمان حضرات اس دور میںفقط قرآن کو سمجھیںتو پوری دنیا کی طاقت اورسوپر طاقت کے دعویداروںکو باآسانی جواب دے سکتے ہیں۔
لیکن ہم نے قرآن مجید سے نہ فقط استفادہ نہیں کیا بلکہ اس کو مہجور ومہموز قرار دیا ورنہ ہماری سیرت یہ نہ ہوتی کہ ہم مسلمان کہ شیعہ امامیہ ہونے کے باوجود مسائل سیاسی ،ثقافتی ،اقتصادی،اخلاقی ،فکری ،علمی ،اور ان جیسے تمام میدانوں میں قرآ ن سے مدد لینے کے بجائے عصر حاضر کے ملحدین کی تقلید کرتے ہوئے قرآن کو مسائل فقہی،اور اموات کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی ،یا زیادہ سے زیادہ سر سری تلاوت تک محدود رکھا ہوا ہے فاتحہ خوانی ،تلاوت کلام پاک ،جیسے امور میں ثواب حاصل ہونے پرکسی کو انکار نہیںلیکن قرآن مجید کاہدف اصلی ، بشرکو دنیاوآخرت میںسعادت وخوشبختی سے ہمکنار کرنا ہے اور یہ سعادت وخوشبختی فھم اوردرک معانی قرآن اور اس پر عمل پیرا ہونے میںمضمر ہے ۔
والسلام
المذنب محمد باقرمقدسی
ایران قم
قرآن پاک کے اسامی اور ناموں کے بارے میں کتاب اور سنت کے پیروکاروں اور بہت سارے محققین نے مفصل کتاب ، تحقیقی مقالات او رجریدے نشر و اشاعت کئے ہیں، لہذا شاید قارئین محترم یہ تصور کریں کہ اس موضوع پر اتنی ساری کتابیں اور مقالات ہونے کے باوجود مزید اس موضوع پر قلم اٹھانا چندیں افادیت کا حامل نہ ہو ، لیکن مرحوم علامہ طباطبائی عارف زمان علم و عمل ، زہد و تقوی کے بینظیر ہستی کا فرمان ہے کہ فہم قرآن کی خاطر ہر سال جدید تفسیر اور تحریر کی ضرورت ہے لہذا جتنے مقالات اور کتابیں اس موضوع پر لکھی گئی ہیں پھر بھی ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس جدید دور کے تقاضے کے مطابق علوم قرآن کے موضوع پر جو فہم قرآن کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے مقالات ، جریدے اور کتابوں کی شکل میں تحریر کریں تاکہ ہر ایک طالبعلم اپنی شرعی ذمہ داری سمجھے لہذا دانشمند حضرات میں سے نامور علوم قرآن کے ماہر مرحوم علی بن احمد جوحرّالی کے لقب اور ابوالحسن کی کنیت سے معروف ہیں۔
اسامی قرآن کے عنوان پر مستقل ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے فرمایاہے کہ اللہ نے کلام پاک میں قرآن کو90 ناموںاور عناوین سے یاد کیا ہے۔ جسکی حقیقت درک کرنے کی خاطر ماہرین علماء اور مفسرین کی ضرورت ہے۔(1)
..................................
(1)البرھان
شافعی مذہب کے معروف فقیہ جو ابولمعالی کی کنیت سے معروف ہیں ، انکی معروف کتاب کا نام البرہان فی مشکلات القرآن ہے جس میں انہوں نے فرمایا :کلام پاک میں قرآن مجید کو 55 عناوین اورناموں سے یاد فرمایا ہے۔(1)
جناب حسین بن علی رازی امامیہ کے برجستہ اور نامور و مشہور علماء میں سے ایک ہیں جن کی کنیت ابو الفتوح تھی ، آپ مرحوم طبرسی صاحب مجمع البیان اور آقای زمخشری کے ہم عصر تھے آپ نے فرمایا کہ قرآن مجید کو قرآن مجید میں 43 ناموں اور عناوین سے یاد کیاہے۔
مرحوم طبرسی جو ابو علی کی کنیت امین الدین یا امین الاسلام کے لقب سے معروف اور مشہور ہیں فرمایا قرآن کریم کے چارنام ہیں:1۔ قرآن 2۔ کتاب 3۔ فرقان 4۔ذکر(2)
اور بہت سارے مفسرین او رعلوم قرآن کے محققین نے انہیں چار عناوین اور ناموں کی تفسیر اور وضاحت فرمائی ہے لہذا ہمارے دور کے بہت سارے محققین نے اسامی قرآن کو فقط پانچ عناوین قرار دیے ہیں.1۔ قرآن 2۔کتاب 3۔ذکر 4۔تنزیل،5۔فرقان، دیگر تمام عناوین کو قرآن مجید کے اوصاف قرار دیے ہیں، لیکن دقت کے دامن میں تمام محققین کے
............................
(1)البرہان فی مشکلات القرآن،ج3،ص401)
(2)مجمع البیان، ج1،ص14۔
کلام او رتحقیقات کو بیان کرکے نقد و بررسی کرنے کی گنجایش نہیں ہے، فقط بیشتر مفسرین او رعلوم قرآن کے ماہرین کے نظریہ کو اجمالی طور پر نقل کرنے پر اکتفا کرو نگا جس پر ہمارے استاد محترم حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین الحاج رجبی نے بھی اپنے لکچر میں اشارہ کیا تھا آپ اس دور میں حوزہ علمیہ قم میں علوم قرآن کے ماہر ترین استاد ، موسسہ امام خمینیؓ کے شعبہ علوم قرآن کے ڈائریکٹر ہیں ، آپ نے فرمایا قرآں مجید کے اسامی معروف مفسرین او رعلوم قرآن کے محققین کی نظر میں درج ذیل ہیں:
1۔ قرآن 2۔کتاب 3۔فرقان 4۔ذکر 5۔تنزیل 6۔مبین 7۔کریم 8۔نور 9۔ہدی 10۔ موعظہ 11۔شفاء 12۔مبارک 13۔علیّ 14۔حکمۃ 15۔حکیم 16۔مصدّق 17۔مہیمن18۔حبل 19۔صراط المستقیم 20۔قیّم 21۔قول فصل 22۔ نباء العظیم 23۔احسن الحدیث 24۔متشابہ 25۔مثانی 26۔روح 27۔وحی 28۔عربیّ 29۔بصائر 30۔بیان 31۔علم 32۔حق 33۔ہادی 34۔عجب 35۔تذکرہ 36۔العروۃ الوثقی 37۔عدل 38۔صدق 39 امر 40۔منادی 41۔بشری 42۔مجید 43۔زبور 44۔بشیر 45۔نذیر 46۔عزیز 47۔بلاغ 48۔قصص 49۔صحف 50۔مکرّمہ 51۔مرفوعہ 52۔مطہرۃ 53۔کلام اللہ 54۔رزق الرّب 55۔تبیان 56۔نجوم 57۔سراج المنیر 58۔نعمۃ 59۔مصحف ۔
اگرچہ دیگر کچھ محققین نے اس سے زیادہ ذکر کئے ہیں، لیکن اکثر علوم قرآن کے ماہرین نے انہیں مذکورہ عناوین پر اکتفا کئے ہیں، لہذا یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کے متعدد نام او راسامی ہیں جس پر سارے مسلمانوں کااتفاق ہے ، لیکن ان کی کمیت او رتفسیر کے بارے میںمسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے۔
مگر اختصار اور فرصت کی قلت کو مدنظر رکھتے ہوئے قارئین محترم کو اس موضوع کے متعلق دیگر مفصل کتابوں کی طرف محوّل کرتا ہوں رجوع کیجئے۔
الف: معنی آیہ. آیات کے دو معانی ہیں. 1۔لغوی 2۔اصطلاحی
1۔ لغت میں آیہ چار معانی میں استعمال ہوا ہے :
1۔معجزہ ،چنانچہ اللہ نے فرمایا: سَلْ بَنِی اِسْرَائِیلَ کَمْ آتَیْنَاهُمْ مِنْ آیَةٍ بَیِّنَةٍ (1)(اے رسول) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے ان کو کتنے روشن معجزہ پیش کئے۔
یہاں بہت سارے مفسرین اور محققین نے آیۃ بینۃ کا معنی معجزہ واضحہ کیاہے، اس بات کی بنیاد پر آیہ معجزہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، لیکن اس آیہ میں بہت سارے مترجمین نے کلمہ آیت کا ترجمہ نشانی اور علامت کیا ہے، جسکی بناء پر کلمہ آیہ کا معنی معجزہ نہیں ہے، بلکہ
............................
(1)البقرہ/211
علامت اور نشانی ہے جو آنے والے معانی میں سے ایک ہے۔
2۔ علامت: چنانچہ اللہ نے فرمایا:ان آیہ ملکہ ان یاتیکم التابوت(1)
اس کے بادشاہ ہونے کی علامت اور پہچان یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صدوق آجائے .اس آیت کر یمہ میں لفظ آیت علامت اور نشانی کے معنی میں استعمال ہوا ہے.
3۔عبرت: چنانچہ اللہ نے فرمایا: انّ فی ذالک لایة. اس میں یقینا (تمہارے لئے) عبرت ہے.
4۔ عجیب و غریب: چنانچہ اللہ نے حضرت عیسی او رحضرت مریم کے بارے مےں فرمایا: و جعلنا ابن مریم و امّہ آیۃ'' اور ہم نے حضرت عیسی اور انکی والدہ گرامی عجیب و غریب قرار دی''۔ (2)
5۔جماعت: چنانچہ لغت عرب میں کہا جاتا ہے ''خرج القوم بآیتهم''
''قوم اپنی وفد اور گروپ کے ساتھ نکلی''
6۔ برہان اور دلیل: چنانچہ اللہ نے فرمایا :'' و من آیاتہ خلق السموات و الارض اور اس کی قدرت پر قائم کردہ برھانوں میںسے آسمانوںو زمین کی تخلیق ہے۔(3)
.................................
(1)بقرہ/248،
(2). مومنون/50)
(3)روم/22)
بہت سارے محققین نے اس طرح آیات مذکورہ کو کلمہ آیہ کے لغوی معنی متعدد ہونے پر دلیل قرار دیاہے، حالانکہ اگر ہم غور کریں تو ان معانی میں سے صرف دو معنی صحیح ہیں:1۔علامت 2۔جماعت ، لہذا مذکورہ آیات میں سے اکثر وہی علامت اور نشانی کے معانی میں استعمال ہوا ہے۔
کلام الہی کے و ہ حصّے جس کے آغاز اور انجام معین ہونے کے علاوہ ہر آیت اپنی مخصوص جگہ میںگامزن ہے، اس کو اصطلاح میں آیت کہا جاتا ہے، اور آیۃ اور جملے کے مابین عام و خاص من وجہ کا فرق قابل تصور ہے یعنی کبھی جملہ ہے آیت نہیں ہے کبھی آیت ہے جملہ نہیں ہے ، کبھی جملہ او رآیت دونوں ہیں یعنی قرآن کریم میں مفردات، جملات او رکلمات ہوا کرتے ہیں جس کے ایک خاص مجموعہ کو آیت کہا جاتا ہے جو ہر حوالے سے فصاحت و بلاغت کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ ہونے کے علاوہ مکمل ایک معقول مطلب کو اداکریں نیزتمام آیات کی حد بندی ،جگہ کا تعین بھی پیغمبر اکرم (ص) نے ہی کیا ہے، لہذا آیات او رسورے کی حد بندی، جگہ کا تعین توقیفی ہے، جسمیں عقل اور اجتہاد و قیاس وغیرہ کرنے کی گنجایش نہیں ہے یعنی جس جملہ اور ترکیب کو آیت کہا گیاہے یا جس سورہ کی جگہ معین ہے ، اس میں اجتہاد اورنظر دینے اور قیاس کرنے کا حق نہیں ہے ، جس پر تمام مسلمین کا اتفاق ہے۔
لہذا علوم قرآن کے ماہرین نے المص کو ایک آیت قرار دیاہے،جبکہ المرا کو ایک آیت شمار نہیں کیا ہے، یا سین کو ایک آیت قرار دیتے ہیں جبکہ اس کے ہموزن طس کو ایک آیت نہیں کہا گیا ، اسطرح حمعس کو دو آیات قرار دیتے ہیں،لیکن کہٰیعٰس کو حروف کے حوالے سے زیادہ ہونے کے باوجود ایک آیت قرار دیتے ہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ آیات قرآنی کی حد بندی ،جگہ کا تعین امر توقیفی ہے جس میں اجتہاد اور قیاس یا دیگر راہوںکو بروی کار لانے کی گنجایش نہیں ہے اگرچہ علوم قرآن اور تفاسیر کی کچھ کتابوں میں بیان کیا گیا ہے کہ کبھی کبھار کلمہ آیہ ایک حصہ اور بعض آیۃ پراستعمال کیاگیا ہے چنانچہ ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ کلمہ ارجی ایک آیت یا سورہ زلزال کے آخری دو جملوں کو ابن مسعود سے نقل کیا گیا ہے کہ یہ دو آیات ہیں، لیکن ایسے موارد میں کلمہ آیت کا استعمال کرنا بظاہر مجازی ہے، کیونکہ اس کے معنی اصطلاحی اور لغوی کے موضوع لہ سے ایسے موارد یقینا خارج ہیں۔
نیز قرآن کی آیات کی تعداد اور گنتی میں بھی تھوڑا بہت علوم قرآن کے ماہرین کے درمیان اختلاف ہے،لیکن ایسا اختلاف آیات قرآنی کی حد بندی، اور جگہ کا تعیّن توقیفی ہونے کے ساتھ کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں ہے،کیونکہ ایسے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) اصحاب او رکاتبین کی خدمت میں نازل شدہ آیات کی تلاوت کرتے تھے تو جس سے اصحاب خیال کرتے تھے کہ جہان پیغمبر اکرم (ص) وقف اوررک جا تے تھے وہاں تک ایک آیت ہے لیکن کچھ دوسرے اصحاب اور کاتبین ان کے خلاف خیال کرتے تھے، کہ مزید وضاحت کیلئے علوم قرآن کی مفصل کتابوں کی طرف رجوع کی ضرورت ہے لہذا آیات کی تعداد کے بارے میں مختلف نظریے موجود ہیں ۔
1۔ بصریین کے عقیدے کی بنا پر کلام پاک کی آیات کی تعداد 6204 یا بعض بصریین کے نزدیک 6205 یا دیگر کچھ بصریین کی نظر میں 6219 ہے۔
2۔ مدنیین کے عقیدے کی بنا پر آیات کی تعداد 6214 یا دیگر کچھ مدنیین کی نظر میں 6217 ہے۔
3۔ مکیوّن کی نظر میں کلام مجید میں 6220 ہے ۔
4۔ شامیوں کے نزدیک قرآن مجید میں 6226آیات ہیں۔
5۔ کوفیوں کی نظر میں ایات قرآنی کی تعداد 6236 ہے۔(1)
6۔ لیکن جب ہم اپنے شفیق استاد محترم رجبی صاحب کے لیکچر سن رہے تھے اور ان کے اسی موضوع پر دیے ہوئے لیکچر کو کتابچہ کی شکل میں طلاب کو عطا بھی کئے تھے اس میں آیات کی تعداد کو 6666 بتائی ہے اور ہم نے علوم قرآن کے اصول و ضوابط کے مطابق کئی دفعہ قرآن کے آغاز سے آخر تک آیات کو گنا تھا لیکن 6666 آیات کی تعداد بہت بعید نظر آتی ہے ۔
.............................
.(1)مناہل العرفان،ج1،ص337
آیات کی موجودہ ترتیب اور نظم و ضبط تمام امت مسلمہ کے نزدیگ اجماعی اور اتفاقی ہے . یعنی جسمیں کوئی تبدیلی اور جابجائی یا قیاس و اجتہاد کرنے اور نظر دینے کی گنجایش نہیں ہے کیونکہ جب حضرت جبرئیل آیات لیکر حضرت پیغمبر (ص) کی خدمت میں تشریف لائے تھے تو جبرئیل ان
آیات کی جگہ او رترتیب بھی معین کرتے تھے اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہو بہو اسی ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ اصحاب اور کاتبین وحی کی خدمت میں پیش کرتے تھے. اور ہر ایک آیت کی جگہ بھی معین کرتے تھے، اور عین اسی ترتیب اورنظم و ضبط کے ساتھ نماز اور خطبوں اور موعظوں کے اوقات تلاوت فرماتے تھے ، حتی علو م قرآن کے ماہرین اور محققین اپنی گرانبہا کتابوں میں تحریر کر چکے ہیںکہ حضرت جبرئیل ہرسال ایک دفعہ پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میںتشریف لاتے تھے او رعین اسی نظم و ضبط کے ساتھ آیات کو تکرار کرتے تھے او رپیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے سال میں جبرئیل دو دفعہ ائے اور پوری آیات کو اسی ترتیب اور نظم و ضبط کے ساتھ تکرار کیا تھا جسکو علوم قرآن کی اصطلاح میں عرضہ اخیر کہا جاتا ہے، اور اصحاب و کاتبین وحی اور حافظین قرآن بھی اسی ترتیب اور نظم و ضبط کی ہمیشہ رعایت کرتے تھے،لہذا کہا جا سکتاہے کہ آیات کی ترتیب اور نظم نسق اور آیات کی جگہ جس طرح موجود ہیں اسی طرح پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے رکھی گئی ہے،
جس میں کسی قسم کی تبدیلی لانے کی گنجایش نہیں ہے ، جس کی تائید احادیث بھی کرتی ہیں، چنانچہ ابی العاص نے کہا کہ میں پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا اتنے میں آنحضرت(ص) نے آسمان اور زمین کی طرف نظر کی اور فرمایا ابھی جبرئیل امین نازل ہوئے تھے اور مجھ سے کہا اس آیت کو اپنے سورہ کے مخصوص معین جگہ رکھیے۔''ان الله یامر بالعدل والاحسان و ایتاء ذی القربی ''(1)
نیز بخاری نے زبیر سے روایت کی ہے کہ زبیر نے کہا کہ میں نے عثمان سے پوچھا اللہ کا یہ قول کہ والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجا(2)
نسخ شدہ آیہ تھی. کیوں لکھی گئی ہے؟ تو عثمان نے کہا میرے بھائی میں کسی آیہ کو اس کی معین جگہ سے تبدیل یا اس کو حذف نہیں کر سکتا(3)
ان روایتوں سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ نسخ شدہ آیہ کی جگہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا، اس بات کی دلیل یہ ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے جس میں کسی قسم کی تبدیل اور جابجائی کی گنجایش نہیں ہے۔
نیز جناب سیوطی نے اپنی گرانبہا کتاب میں فرمایا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کئی سورتوں کو نماز جمعہ کے خطبے اور اصحاب کے حضور میں آیات کی موجودہ ترتیب او رنظم و نسق کے ساتھ تلاوت فرماتے تھے یہ چیزیں آیات قرآن کی ترتیب اورنظم وضبط توقیفی ہونے کی
.........................
(1)النحل/(اتقان ج1ص104
(2)بقرہ/24)
(3)صحیح بخاری۔
بہترین دلیل ہیں او راصحاب بھی اسی ترتیب کے پایبندرہتے تھے کبھی کسی کو اس ترتیب کے خلاف تلاوت کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی ،یہ بات تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے۔(1)
اسی طرح جناب زرکشی نے کتاب برہان میں جعفر بن زبیر اور دیگر کچھ محققین آیات قرآن کی ترتیب جو اس وقت بین الدفتین موجود ہے توقیفی ہونے پر اجماع کے دعویدار ہوئے ہیں۔
آیات قرآنی کی حد بندی ،جگہ کے تقرر معلوم ہونے کا کیا فائدہ اورنتیجہ ہے؟
اس بحث اور گفتگو کا نتیجہ اور افادیت وہاں ظاہر ہو جاتی ہے جہاں کسی نے نماز میں یا عام عادی حالت میں کچھ آیات کی تلاوت کرنے کی نذر کی ہے وہاں آیت کی حد بندی کا اثر ظاہر ہو جاتا ہے،لہذا اس بحث کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ بھی ہوسکتاہے کہ جس طرح دیگر مباحث میں علمی نتائج کے علاوہ عملی نتائج او رافادیت سے مالا مال ہے، اس طرح یہ بحث بھی افادیت اور نتائج سے خالی نہیں ہے۔
...................................
(1)اتقان ج 1ص105
جس طرح کلمہ آیہ کا دو معنی قابل تصور ہے اس طرح کلمہ سورہ کے بھی دو معنی ہیں:
1۔ لغوی 2۔اصطلاحی
کلمہ ''سورۃ ''لغت عرب میں کئی معانی میں استعمال ہوا ہے ۔
1۔جناب صاحب قاموس نے فرمایا کہ کلمہ سورہ منزلت کے معنی مےں آیا ہے۔
جیسے : الم تران الله اعطاک سوره تری کل ملک حوله یتذبذب
کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے تجھے کیا مقام و منزلت عطا کیا ہے کہ جس کے سبب ہر بادشاہ کی رفت و آمد کا مرکز بنا۔
2۔ علامت اور نشانی کے معنی میں آیا ہے۔
3۔ دیوار بلند یعنی شہر کی دیوار کو بھی سورہ کہا جاتا ہے۔
4۔ نیز سورہ قوت اور طاقت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔
اس کے علاوہ اور بھی معانی میں استعمال ہواہے جس کی تفصیل اس مختصر کتیبہ میںنقل کرنے کی گنجایش نہیں۔لہذا لسان العرب و مجمع البحرین ،تاج العروس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔
2۔ اصطلاح علوم قرآن میں سورہ متعدد ایسی آیات کے مجموعہ کا نام ہے ، جس کی طبیعت ،لحن اور نظم وضبط او ر سیاق و سبق یقینا دوسرے سورہ کی سیاق و سبق سے فصاحت و بلاغت کے حوالے سے متفاوت ہے،
اگر چہ کبھی کبھار ایک ہی سورہ کی آیات کے مابین قبل و بعد کے حوالے سے یا سبق و سیاق کے لحاظ سے مختلف نظر آتا ہے، جیسے آیہ تطہیر قبل و بعد کے حوالہ سے دیکھا جائے تو آیت قبلی اور بعدی زوجات سے مربوط ہیں، لیکن درمیان میں آیہ تطہیر جو اہلبیتؑ کا تذکرہ کر رہی ہے بظاہر متفاوت نظر آتی ہے، ایسی کیفیت پر ہونے والی آیہ کو ادبی اصطلاح میں جملہ معترضہ کہا جاتا ہے لیکن اگر ہم سورہ احزاب کے آغاز اور انجام تک کی آیات کے سبق و سیاق کو غور کریں تو آیہ تطہیر اور دیگر آیات کا سیق و سبق ملتا جلتا ہے۔
لہذا اگر مختصر الفاظ میں سورہ کی تعریف کرنا چاہیں تو یہ ہے: ایسی آیات کے مجموعے کا نام سورہ ہے، جو سبق و سیاق اور نظم و نسق فصاحت وبلاغت کے حوالے سے ایک ہی طبیعت کے ہو دوسرے مجموعہ آیات کی طبیعت سے مختلف ہو نیز تمام امت مسلمہ کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن مجید میں ایک سو چودہ سورتیں ہیں کہ جن کی نام گذاری بھی ایک نظریہ کی بنا پر جس طرح قرآن مجید میں اسوقت موجود ہے اس طرح خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان مبارک سے ہوئی ہے، تبھی تو سورتوں کی نامگذاری بھی آیات کی ترتیب اور نظم و نسق کی مانند توقیفی ہے، جسمیں نظر اور اجتہاد یا قیاس کے ذریعہ تبدیلی کی گنجایش نہیں ہے جس پر کئی صحیح السند احادیث عامہ اور خاصہ کی کتابوں میں مختلف مضامین کے ساتھ موجود ہے جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تمام سورتوں کا نام معین کیا ہے۔(1)
.........................
(1)شناخت قرآن ص103 علی کمالی)
اور سورتوںکی موجودہ ترتیب بھی خود پیغمبر اکرم (ص) کے حکم سے ہوئی ہے یعنی جس طرح آیات کی ترتیب توقیفی ہے اسی طرح سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب بھی توقیفی ہے جس میں اعمال نظر کی گنجایش نہیں ہے ،لیکن اس مشہور و معروف نظریے کے مقابل میں کچھ دوسرے محققین کا عقیدہ ہے کہ سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب خود پیغمبر اکرم (ص) کی زبان سے نہیں ہوئی ہے کیونکہ اگر نفس رسول خدا ؐ کی طرف سے سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب ہوتی تو اصحاب کے مصاحف میں سورتوں کی ترتیب اور نام گذاری کے حوالے سے مختلف نہیں ہونا چاہیے، جبکہ اصحاب کے مصاحف میں بہت بڑا اختلاف موجودہے، لہذا سورتوں کی نام گذاری اورترتیب توقیفی نہیں ہے،البتہ اس نظریہ کو رد کرتے ہوئے بعض محققین نے اس نظریہ کے قائلین کو دو جواب دیئے ہیں ۔
الف :اصحاب کے مصاحف میں اختلاف کا پائے جانے کی بات، دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہوئی ہے ۔
ب: بالفرض ثابت بھی ہوا ہو تو ہم احتمال دے سکتے ہیں کہ اصحاب کے مصاحف پیغمبر اکرم (ص)
کی زبان سورتوں کی نام گذاری اور ترتیب دینے سے پہلے ہے۔(1)
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ کچھ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے جبکہ دیگر کچھ سورتوں کی
....................................
(1)شناخت قرآن ص105 علی کمالی )
ترتیب توقیفی نہیں ہے۔ اس عقیدے پر کئی برہان بیان کئے گئے ہیں لیکن کتاب اوروقت کے دامن میں گنجایش نہ ہونے کے حوالے سے اقوال کے تذکرہ پر اکتفاء کروںگا۔
قرآن کریم کے سورتوں کے احکام میں سے ایک یہ ہے کہ ہر سورہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ سورہ کا جز اور مستقل ایک آیہ ہے یا اس کا جزء اور مستقل ایک آیہ نہیں ہے؟
چنانچہ ہر مکتب فکر اس مسئلہ سے با خبر ہے کہ بسم اللہ کے بارے میں امامیہ اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلاف ہے امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر بسم الله الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ ہے ، لہذا نماز میں سورہ حمد کے آغاز میں یا دیگر سورتوں جو حمد کے بعد پڑھا جاتا ہے ، بسم الله الرحمن الرحیم کی قرائت اور تلاوت کرنا ضروری ہے ورنہ نماز باطل ہے، جبکہ اس مسئلہ کے باے میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ قرآنی نہیں ہے ،لہذا نمازوں میں سورہ حمد یا دیگر سورتوں کی تلاوت کے وقت بسم الله الرحمن الرحیم نہ پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوتی مرحوم شیخ طوسی نے تفسیر التبیان میں اس مسئلہ کے بارے میں ایک دلچسپ گفتگو کی ہے رجوع کریں۔ (1)
لیکن اگر مکا تب فکر سیاسی اور مذہبی لگاو اور افادیت سے ہٹ کر علم کے اصول و ضوابط کی رو سے اس سلسلہ کے متعلق غور و خوض کریں ، تو یہ بات معقول نہیں ہے کہ بسم الله
.....................................
(1)تفسیر التبیان ج1ص24)
الرحمن الرحیم ہر مصحف میں موجود ہو، اور ہر وقت ہر سورہ کے آغاز میں جس طرح دیگر آیات کی تلاوت کرتے تھے، اس طرح پیغمبر اکرم (ص) اور اصحاب و تابعین اور قراٰء تلاوت کریں ، اور دوسری طرف سے قرآن پاک میں تحریف یعنی کمی و بیشی نہ ہونے کے قائل بھی ہوں تو ہم بسم اللہ کو ہر سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ نہ ماننا نا انصافی کے علاوہ متضاد رویہ ہے۔
لہذا امامیہ اور شافعی مذہب کا عقیدہ ہے کہ ہر بسم اللہ اسی سورہ کا جزء اور مستقل ایک آیہ ہے جس پر کئی احادیث واضح الفاظ میں دلالت کرتی ہیں: جیسے من ترکها فقد ترک مائة و اربع عشرة آیة من کتاب الله تعالی(1)
ابن عباس نے کہا اگر کوئی بسم اللہ کو ترک کرے تو اس نے اللہ کی کتاب سے ایک سو چودہ آیات چھوڑئی ہے ۔
سورتوں کا مکی اور مدنی ہونے کی وضاحت :
علوم قرآن کے ماہرین اور مفکرین نے ایک سو چودہ قرآنی سورتوں کو دو قسموں میں تقسیم کی ہے، مکی اور مدنی اور قرآن کے تمام سورہ کے آغاز میں ہذہ السورۃ مدنیہ یامکیہ کی تعبیر موجود ہے ،اور علوم القرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں سورے مکی اور مدنی ہونے کے ملاک اور اصول و ضوابط بھی بیان کئے ہیں ، اورمکی ومدنی ہونے کے
....................................
(1)کشاف ،ج1،ص1،در منثور ،ج1، دیگر تفاسیر
اصول وظوابط کا خلاصہ در ج ذیل ہے :
1۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ جوآیات اور سورہ ہجرت سے پہلے نازل ہوا ہے وہ مکی ہے جو ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے و ہ مدنی ہے۔
2۔ جو مکہ میں نازل ہوا ہے وہ مکی ہے جو مدینہ میںنازل ہوا ہے وہ مدنی ہے، اور جو مکہ ومدینہ کے گرد ونواح میں نازل ہوا ہے وہ بھی مدنی ہے۔
3۔جن آیات کا مخاطب اہل مکہ ہیںوہ مکی ہے جن آیات کا مخاطب اہل مدینہ ہیں و ہ مدنی ہے۔
4۔ ہر وہ سورتیں جن میں سجدہ اور لفظ کلا ہے وہ مکی ہے، لیکن جن سورتوں میں سجدہ اور کلمہ کلا نہیں ہے وہ مدنی ہے۔
5۔ جہاں یا ایہاالناس کا خطاب ہے و ہ مکی ہے باقی مدنی ہے مگر سورہ حج اس ملاک اورمعیار سے خارج ہے کیونکہ اس کے آخری آیہ'' یاایهاالذین آمنوا ارکعوا والسجدو ا'' ایا ہے اس کے باوجود اکثر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ مکی ہے نہ مدنی۔
6۔ ہر وہ سورتیں کہ جن میں انبیاء سلف کے قصے اور امم سابقہ کی کہانی اور عبرتوں پر مشتمل ہے وہ مکی ہے باقی مدنی اس ملاک اور قانون سے سورہ بقرہ کو خارج کیا گیا ہے۔
7۔ہر وہ سورتیں جن میں حضرت آدم ؑ اور ابلیس کا قصہ بیان کیا گیا ہے وہ مکی ہے باقی سورتیں مدنی ہیں۔
8۔ ہر وہ سورتیں جن کاآغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے وہ مکی ہے، اور وہ سورتیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے نہیں ہوا ہے وہ مدنی ہے،(1)لیکن اگر دانشمند حضرات اور مکاتب فکر سورتوںکے مکی اور مدنی ہونے کے مسئلہ کو کڑی نظر سے غور کریں تو علمی نتائج اورمعلومات کے علاوہ عملی نتائج بھی ہیں جن پرغور کیجئے تاکہ علمی نتائج اور معلومات کے علاوہ نذر اور ناسخ و منسوخ کی تشخیص اورتعیین کے موارد میںکام آئے، لہذا اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے سورتوں کے دیگر مباحث جیسی آیات کی تعداد اور فصاحت و بلاغت کے حوالے سے کونسا سورۃ دیگر سورتوں پر بیش قدم ہے، وغیرہ کے بارے میں علوم قرآن کے موضوعات پر لکھی ہوئی مفصل کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔(2)
قرآن کی جمع آوری کے متعلق کئی اقوال اورنظریے موجود ہیں، اور قرآن کی تدوین اور جمع آوری کا مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے ،علوم قرآن کے مباحث میں اس بحث کو مرکزیت حاصل ہونے کے باوجود بہت سارے محققین نے اعتراف کیاہے کہ یہ مسئلہ علوم قرآن کے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے جس کے متعلق امت مسلمہ کو کڑی نظر سے غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام اور مسلمین تحریف اور کورکورانہ عقیدہ اور اندھی تقلید سے نجات حاصل کر سکے، کیونکہ ایک طرف سے تمام مسلمین کا اجماع ہے کہ قرآن اللہ کی
..............................
1.(شناخت قرآن.(
2)شناخت قرآن ص296 علی کمالی)
آخری کتاب ہے، جو بشر کے لئے تا قیام قیامت ضابطہ حیات ہے ،خود اللہ نے فرمایا :''انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون'' '' ہم نے ہی قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں''یا دوسری آیت میں فرمایا: ''ان علینا جمعه و قرآنه ''''بیشک اسکا جمع کرنا اور قرائت کرنا ہم پر فرض ہے''(1)
نیز فریقین کے علوم قرآن کے ماہرین نے کاتبین وحی کے اسامی اپنے مقالات اور کتابوں میں مفصل بیان کئے ہیں،حتی لکھا گیا ہے کہ اصحاب میں سے ایک وفد کاتبین وحی کے لقب سے معروف اور مشہور تھا۔
اور بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا: عبداللہ قرآن کو ایک مہینے میں مکمل کرو اسوقت مےں نے کہا اس سے زیادہ قدرت ہو تو آنحضرت ؐنے فرمایا ہر دس دن کے بعد مکمل کرو، میں نے کہا اس سے زیادہ قدرت رکھتا ہو تو آنحضرت(ص) نے فرمایا ہر ہفتہ میں مکمل کرو اس سے زیادہ نہ کرو،(2)
جس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کی تدوین اور جمع آوری حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات طبیہ میں ہوئی تھی ، نیز عین اسی کہانی کو ابو عبیدہ نے قیس بن ابی صعصعہ کے بارے میں نقل کیاہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قیس بن ابی صعصعہ سے پوچھاتم
.................................
(1) قیامت/17
(2)نقل شناخت قرآن ص107)
قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کرتے ہو؟ اس نے کہا چالیس دنوں میں ختم کرتاہوں(1)
اور اسی روایت کی بنا پر امام احمد بن حنبل نے کہاہے کہ چالیس دن سے زیادہ ختم قرآن میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔
اس روایت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کی پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی میں جمع آوری اور تدوین ہوئی تھی ،بخاری اور ابو داود اورنسائی نے روایت کی ہے۔
ابو سعید العلاء نے کہا: میں مسجد میں نماز پڑھا رہاتھا اتنے میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے مجھے بلایا لیکن میں نے جواب نہ دیا (نماز سے) فارغ ہونے کے بعد آپ کی خدمت میں گیا اور کہا یا رسول اللہؐ میں نماز پڑھا رہا تھا، اس وقت آپ نے فرمایا مگر اللہ نے نہیں فرمایا :'' یا ایهاالذین آمنوا استجیبوا لله و للرسول اذا دعاکم'''' یعنی اے ایمان والو جب تمہیں خدا اور اس کا رسولؐ نے بلائے تو جواب دو '' اس وقت آنحضرت(ص) نے فرمایا کیا میں تجھے ایسا کوئی سورۃ نہ بتا دوںجو قرآن کا سب سے بڑا سورہ ہے،(2)اس روایت سے بظاہر معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن کی تدوین و جمع آوری پیامبر اکرم (ص) کی حیات میں ہو چکی تھی۔
.................................
(1)شناخت قرآن،ص108)
(2)بخاری،نسائی
ابن عباس سے روایت ہے، حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گیا کونسا عمل اللہ کی نظر میں زیادہ محبوب ہے ؟ آنحضرت ؐنے فرمایا کہ قرآن کے آغاز سے آخر تک تلاوت کرنا اللہ کی نظر میںزیادہ محبوب ہے۔(1)
ان کے علاوہ بہت سی روایات بخاری اور دیگر محققین نے نقل کی ہیں کہ جن میں لفظ قرآن کی تلاوت یا قرآن جمع کرنے والے افراد کا نام مذکور ہے ایسے الفاظ سے بخوبی روشن ہو جاتا ہے کہ قرآن کی تدوین پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہی ہوئی تھی ، اگرچہ اس زمانے کی جمع آوری کی کیفیت اور اس دور کی کیفیت میں یقینا فرق ہے۔
نیز اصحاب کے دور اور پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی تدوین کی کیفیت میں یقینا بڑا فرق ہے. لہذا قرآن و سنت اور عقل کی رو سے واضح ہوا کہ قرآن کی تدوین اور جمع آوری حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہوئی ہے لیکن اگر ہم قرآن کی تدوین اور جمع آوری کو حیات پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہونے پرروایت اور بعض آیات اور عقل کی رو سے تائید ہونے کے باوجود قبول نہ کریںتو اس کا لازمی نتیجہ تحریف ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد کچھ اصحاب جو پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ اکثرو بیشتر رفت و آمد رکھتے تھے ، امامت اور خلافت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے جو آج تاریخ اسلام کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں
................................
(1)ترمذی ج3ص9
بخوبی روشن ہے، اگر پیغمبر اکرم (ص) کے دستور کے مطابق قرآن کریم بین الدفتین کتاب کی شکل میں تدوین نہ ہوتی تو آج مسلمانوں کے ہاتھوں موجود ہ قرآن کے نسخون میں طرح طرح کے اختلافات نظرآنا چاہیے حالانکہ تمام قرآن کی کیفیت اور نسخے کتابت اور چاپی ڈیزائن اور جلد سازی کے علاوہ باقی تمام جہات یعنی سورتوں اور آیات کی ترتیب اورنظم و ضبط میں اختلاف نظر نہیں آتا ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی امت سے یہ کہیں کہ میں آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا یہ آخری کتاب ہے جس کے بعد کوئی کتاب نازل نہیں ہوگی تمہارامرجع قرآن وعترت ہے لیکن اس کی تدوین اور جمع آوری کے بغیر پیغمبر اکرم (ص) چلے جائیں کیا اسکی حفاظت کرنا ہر حوالے سے پیغمبر اکرم (ص) پر لازم نہ تھا؟ کیا پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی ذمہ داری کوا داء کرنے میں کوتاہی کی ہے؟
کیا پیغمبر اکرم (ص) امت کے سلوک و رفتار سے واقف نہ تھے کیاپیغمبر اکرم (ص)اپنی امت کے قرآن اور امامت کے ساتھ کرنے والے سلوک اور رفتار سے آگاہ نہ تھے کیا امت محمدی مثل پیغمبراکرمؐ معصوم تھی؟ اگرچہ بہت سارے مسلمان نبی (ص)اور جانشین نبیؐ کا معصوم ہونا ضروری نہیں سمجھتے ،لیکن قرآن کی حفاظت کرنالاز م سمجھتے ہیں۔
دوسرا نظریہ: حضرت علی (ع) کے ہاتھوں قرآن کی تدوین:
گذشتہ نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے ثابت کیاگیاہے کہ قرآن کی تدوین حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں ہوئی تھی لیکن حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے فورا بعد حضرت علی (ع) نے اصحاب کی بے وفائی اور منفعت پرستی کا عالم دیکھا تو اپنی دولت سرا میں گوشہ نشینی اختیار کی جس کا مقصد قرآن کی حفاظت کرناتھاتاکہ قرآن کو تحریف اور کمی بیشی سے بچاسکیں، چنانچہ اس مطلب کو جناب سلیم بن قیس نے اپنی کتاب میںسلمان فارسی سے یوں نقل کیا ہے، جب حضرت علی (ع) نے اصحاب کی بے وفائی اور غداری کی حالت دیکھی تو آپ نے اپنے قیامگاہ میں گوشہ نشینی کرکے قرآن کی جمع آوری اور تدوین شروع کی جبکہ اس سے پہلے قرآن متعدد صحف اور کھالوں پر لکھا گیا تھا، اورآپ ہی نے قرآن کی اس طرح تدوین کی تھی کہ جس طرح آیات ناسخہ، اور منسوخہ، تنزیل، و تاویل، عام وخاص، نازل ہوا تھاجبکہ اس وقت آپ سے بیعت لینے کیلئے خلیفہ وقت کی طرف سے پیغام بھی بھیجا تھا۔(1)
نیزخصال میںمرحوم شیخ صدوق نے مسلم بن قیس سے روایت کی ہے کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئی ہو مگر پیغمبر اکرم (ص) نے مجھ سے نہ فرمایا ہو اور میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کو نہ لکھا ہو، اور اس کی تفسیر او رتاویل مجھے یاد نہ دی ہو اس کا ناسخ و منسوخ مجھے نہ فرمایا ہو، محکم و متشابہ، عام و خاص نہ بتایا ہو، اور پیغمبر اکرم (ص)
ہمیشہ دعا کرتے تھے کہ خدای حضرت علی (ع)کو اس کی حفاظت اور فہم و درک کی توفیق دے ،
.........................................
(1)کتاب سلیم بن قیس ص81، چاپ دار الکتب
لہذا جب سے پیغمبر اکرم (ص) نے میرے لئے دعا شروع کی تب سے کوئی آیت اور حکم کومیں نے کبھی فراموش نہیں کیا ہے ۔ (1)
نیز حضرت امام باقر (ع)سے روایت ہے آپ نے فرمایا : اس امت سے کوئی، قرآن کی جمع آوری اورتدوین نہیں کرسکتا مگر آنحضرت(ص) کاجانشین اوروصی۔(2)
اس طرح حضرت امام جعفر صادق ؑنے فرمایا:تحقیق حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: یا علی (ع) قرآن میرے فراش کے پیچھے پڑا ہوا ہے، اس کو مصحف اور کاغذ اور حریر میںجمع ہے اس کو لوحوںاور مصحف کی شکل میں جمع کرو تاکہ جس طرح یہودیوں نے تورات کو ضائع کیا اس طرح قرآن ضائع نہ ہو جائے .. حضرت علی (ع) چلے گئے اور قران کو کسی کپڑے میں لپیٹ کردولت سرا کے اندر داخل ہوئے اور فرمایا جب تک قرآن کی جمع آوری کا کام مکمل نہیں ہوگا تب تک میں عبا نہیں پہنوں گا، لہذا بسا اوقات دولت سرا کے دروازے پرعبا کے بغیر نظر آتے تھے۔(3)
......................................
(1)بحار الانوار ج4
(2)بحارلانوار ج92،ص48۔
(3)بحارالانوار ،ج92،ص48
مذکورہ آیات اور احادیث سے دو مطلب واضح ہوجاتے ہیں:
الف: قرآن کی جمع آوری حضرت علی (ع) نے کی ہے چاہے پیغمبر اکرم (ص) کی حیات میں کی ہویا پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد۔
ب: ان روایات اور مذکورہ نظریہ کے مابین کوئی تضاد اورتنافی بھی نہیں ہے کیونکہ حضرت علی (ع) نے پیغمبراکرم (ص) کی وفات کے بعد جس کیفیت پر قرآن کی جمع آوری کی ہے وہ ایک خاص کیفیت کاحامل تھا جبکہ حیات حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی جمع آوری کی کیفیت میں تنزیل و تاویل، ناسخ و منسوخ ،نزول کی تاریخ معین نہ تھی، لہذ حضرت علی (ع) نے وفات پیغمبرؐکے بعد تدوین قرآن کی اور حیات پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں جو جمع آوری ہوئی تھی وہ بھی حضرت کے ہاتھوں،ا ن کے درمیان کوئی تضاد نہیںہے کیونکہ دونوںزمانوںمیںجمع آوری علی (ع)نے ہی کی ہے ۔
مرحوم سیوطی نے ابن الفرس سے انہوںنے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے: جب ابو بکر کی خلافت کا آغاز ہوا تو حضرت علی (ع) نے اپنی دولت سرا میں گوشہ نشینی اختیار کی ،لوگوں نے ابو بکر سے کہا کہ حضرت علی (ع) تیری اطاعت اور بیعت کرنے سے انکار کرتے ہیں ،اتنے میںابوبکر نے کسی کو بھیجا اورحضرت علی (ع) سے پوچھا آپ ابو بکر کی بیعت سے انکار کرتے ہیں؟
آپ نے فرمایا :میں اس وقت قرآن میں تحریف ،کمی اور بیشی ہونے سے بچانا اپنا فریضہ سمجھتا ہوں حتی نماز کے لئے عبا پہننے کی فرصت بھی نہیں بلکہ قرآن کی جمع آوری کے کاموں میںمصروف ہوں ،اتنے میںابو بکر نے کہا آپ کتنے اچھے کام میںمصروف ہیں (1)
حضرت علی (ع) کی سیرت یہ تھی کہ آپ ہر وقت حضرت پیامبر اکرم (ص) کے حضور میں رہتے تھے ،مہبط وحی میںآپ کی تربیت پائی تھی آپ تمام اسرار با الخصوص وحی کے کاتب تھے لہذ حضرت علی (ع) کے سوا کسی اور شخص سے خدا کے حکم اورفرمان رسول (ص) کے مطابق آیات کی ترتیب اوران کے مخصوص نظم ونسق ،سیاق وسبق ،فصاحت وبلاغت کے اصول وضوابط کے ساتھ قرآن کی جمع آوری اور تدوین قرآن ناممکن تھا ، اگر چہ مورخین نے دیگرکچھ افراد کا نام جمع آوری قرآ ن کی فہرست میںعلی (ع) کے نام کے ساتھ لکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ تدوین قرآن کی لسٹ میں حضرت ابوبکر اورحضرت عثمان کا نام بھی آئے لیکن تعصب مذہبی سے ہٹ کر علم اور ایمان کی روسے نگاہ کریں تو تدوین قرآن کے مسئلہ کو غیر معصوم افراد کی طرف نسبت دینا ناانصافی اورمسلمانوں کے عقیدہ کمزور ہونے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔کیونکہ ایسے افراد کے ہاتھوں قرآ ن جمع آوری ہونے کادعواکرنا جو نہ ہمیشہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں رہتے تھے نہ وہ لوگ حقائق اوراسرار سے باخبر تھے ایسے افراد کے ہاتھوں جمع آوری قرآ ن کے قائل ہونے کا لازمی نتیجہ تحریف قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
....................................
(1)شناخت قرآن ص111
جبکہ تمام مسلمانوں کاعقیدہ یہ ہے کہ قرآن تحریف سے پاک ہے چونکہ قرآن امت محمدی ؐکے لئے ضابطہ حیات ہونے کے حوالے سے قرآن کو ایسی حالت میںچھوڑ کر دار بقاکی طرف کوچ کرنا ناممکن نظر آتا ہے اورقرآن جو تمام کتب آسمانی کا نچوڑ اورخلاصہ ہونے کی حیثیت سے اس کی جمع آوری کوحضرت ابوبکر جیسے عمر رسیدہ صحابی کے ذمہ ڈالیں یاحضرت عثمان کے دور حکومت کوقرآن کی جمع آوری کا زمان قرار دینا الہی عقائد اوراصول وضوابط کمزور قراردینے کے علاوہ کچھ نہیںہے ایسی باتیںدرحقیقت پیکراسلام پر ضربت اورمسلمانوںکے ساتھ خیانت کے مترادف ہے ہاں یہ ہوسکتاہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کے دور حکومت میں تدوین شدہ قرآن کی تجدید ہوئی ہو ،ایسی باتیں فضول ہیں ورنہ کفار مکہ ومدینہ کی سیرت سے عالم اسلام بخوبی آگاہ ہے کہ حضرت پیامبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد حضرت عثمان کے دور حکومت تک کے زمان میں کیا انہوں نے اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی جانی دشمنی سے ہاتھ اٹھایا ،کیا ان کے ہاتھوں سے پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں تدوین نہ شدہ قرآن کی حفاظت کا تصور ممکن ہے ؟ایک سطر ایک ٹکڑا کا غذ یاکپڑاکہ جن میںقرآن مستور تھا یا مکتوب تھا،ایسااحتمال ہی، تحریف قرآن ثابت کر نے کے لئے کافی ہے ،جبکہ پورئے عالم اسلام کاعقیدہ یہ ہے کہ قرآن میںتحریف واقع نہیںہوئی ہے بلکہ ہمارئے عقیدہ کی بنیاد پر ہرگز تحریف کے قائل نہیں ہوسکتے اورجو قرآن اس وقت مسلمانوںکے ہاتھوں میںموجود ہے اس میںکسی قسم کااختلاف نظم وضبط اورترتیب وتدوین کے حوالے سے نظر نہیںآتا ، یہ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے یعنی قرآن کی تدوین خود پیغمبراکرم (ص) نے اپنے دورمیںاپنے خاص الخاص صحابے کے ہاتھوںکی تھی ،اگرچہ پیغمبر اکرم (ص) کے بعد دیگر اصحاب کے ہاتھوںقرآن کی تدوین اورجمع آوری کی بات مذاہب اورمکاتب کے درمیان مشہور ہے ،لیکن صاحبان ذوق وشعورہستی کواس مسئلہ کے بارئے میں غور وخوص کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف سے ان کا عقیدہ یہ ہو کہ قرآن کی تدوین اورجمع آوری حضرت ابوبکر یاحضرت عثمان نے کی ہے دوسری طرف سے اس میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں ،لہذا زمان ومکان اورحالات کی تبدیلیوں کے پیش نظر اوراصحاب کے عملی اقدام اورمنفی پالیسیوںکو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے
کہ قرآن کی تدوین اورجمع آوری کے اہم ترین مسئلہ کوحضرت ابو بکر اورحضرت عثمان سے منسوب کرنا اشتباہ ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیںہے صرف چند ایک ضعیف السند روایت کے ذریعے مسئلہ اعتقادی کو ثابت کرنا نا انصافی ہے لہذا اگر تاریخ میںیا کسی ضعیف السند روایت میںتدوین قرآن کی نسبت حضرت ابو بکر یا حضرت عثمان کی طرف دی گئی ہے تو اس کو تجدید تدوین یا مرمت پر محمول کیا جانا چاہیے کیونکہ مسلمانوںکاعقیدہ یہ ہے کہ اعتقادی مسائل کو خبر تواتر اوربر ہان یقینی کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے ان کو خبر واحد یا ظنی الدلالۃ سے ثابت نہیںکیا جاسکتا ،لہذا اگر قرآن کی تدوین اورجمع آوری کے مسئلہ کوحضرت ابوبکر اورحضرت عثمان کے ہاتھوںہونے کو خبر تواتر اوربرہان قطعی الدلالۃ کے ذریعے ثابت کر سکیں تو سب سے پہلے ہم ہی قبول کریں گے کیونکہ ہم ہر وقت ہرمسئلے میںدلیل کے تابع ہیں ۔مرحوم سیوطی نے اپنی گرانبہا کتاب الاتقان میں قرآن کی تدوین حضرت ابوبکر کے ہاتھوں ہونے کے متعلق دلچسپ باتیں بیان کی ہیں اسکا اگر کڑی نظر سے غور کیا جائے تو بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے ہاتھوں اور دور خلافت میں قرآن کی تدوین ہونے پر دلالت کرنے والی روایت خبر واحد ہے جوبرہان ظنی ہے نہ تواتر اور برہان یقینی حال اینکہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسائل اعتقادی برہان یقینی اور تواتر کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتے۔
جناب ابن سعد کی روایت ہے حضرت علی (ع) نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے بعد قسم کھائی کہ جب تک میں قرآن کو بین الدفتین جمع نہ کرلوں تب تک عبازیب تن نہیں کروں گا اور آپ نے یقینا اپنے عہد کو پورا کیا۔ (1)
لہذا یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ حضرت ابو بکر اورعثمان کے دور خلافت میں قرآن کی تدوین بیان کرنے والی روایات ان دستہ روایات کے ساتھ ٹکراو نہیں رکھتیں جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی حیات اور حضرت علی (ع) کے ہاتھوں قرآن کی جمع آوری اور تدوین ہونے پر دلالت کرتی ہیں کیونکہ حضرت ابوبکر اورعثمان کے دورحکومت میں ان کے ہاتھوں قرآن کی
........................................
(1)صیفات ج3ص137
جمع آوری پر دلالت کرنے والی تمام روایات خبر واحد اور ظنی ہیں جبکہ حضرت پیامبر اکرم کی حیات میں اورحضرت علی (ع) کے ہاتھوںقرآ ن کی تدوین ہونے پر دلالت کرنے والی روایات متواترہ اور برہان یقینی ہیں۔
مرحوم علامہ نے کتاب تذکرہ میں فرمایاہے جو قرآن دور حاضر میں بین الدفتین میں مسلمانوں کے ہاتھوں موجود ہے یہ عین وہی قرآن ہے جو حضرت علیؑ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جمع کیاتھا دیگر تمام مصاحف کو حضرت عثمان نے ختم اورنابود کردیاتھا۔
لہذا حقایق اور واقعیات پر پردہ ڈالنے کی خاطر شیعہ امامیہ کے عقائد پر حملہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے میں منبر رسول (ص) سے اس طرح خطاب کرنا کہ شیعہ امامیہ کے قرآن اور ہمارے قرآن میں فرق ہے، وہ موجودہ قرآن کے قائل نہیں ہیںان کا قرآن حضرت علی (ع) کے ہاتھوں جمع اور تدوین ہوئی ہے، وہ ہمارے قرآن سے الگ اورمختلف ہے لہذا وہ کافر ہے، کیونکہ جو قرآن ہمارے پاس موجودہے اس کے وہ مخالف ہے !ایسی بات درحقیقت شیعہ امامیہ سے منسوب کرنا نا انصافی ہے ، اگر حقیقت اور کتاب و سنت کے بالا دستی اورمسلمانوں کے مابین یکجہتی کے خواہاں ہیں تو ضرور شیعہ امامیہ کے عقائد اور علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کیجئے۔
جب قرآن کے نزول کا آغاز ہوا توپیغمبر اکرم (ص) نے سب سے پہلے اس کی حفاظت کی خاطر اپنے دور کے کاتبین کو جمع کیا اور آیات قرآنی کو لکھنے اور ضبط کرنے کا حکم دیا، لہذا نزول وحی کے وقت بیشتر کاتبین حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے حضور میں ہوتے تھے اگرچہ پورے کاتبین کا ہونا لازمی نہ تھا بلکہ بسا اوقات فقط ایک نفر یا دو نفر ہوتا تھا جو پیغمبر اکرم (ص) کے دستور کے مطابق آیت کی تلاوت اور ضبط کرتے تھے. اورعلوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں معروف اور مشہور کاتبین وحی افراد ذیل قرار دیئے ہیں:
حضرت علی علیہ السلام، عثمان بن عفان، ابان بن سعید، خالد بن سعید، ابی بن کعب، زید بن ثابت ، ثابت بن قیس، ارقم بن ابیّ،حنظلہ بن ربیع،عبداللہ بن ابی سرح، زبیر بن عوام، عبداللہ بن رواحہ، محمد بن مسلمۃ،عبد اللہ بن عبد اللہ ،عبداللہ بن ارقم،حنظلۃالاسدی، علاء الحضرمی، جہم بن صلت، معیقیب بن ابی فاطمہ، شرجیل بن حنسہ ان کے علاوہ اور بھی افراد کا نام مفصل کتابوں میں موجود ہے، لکن انہیں افراد میں حضرت علی - کا تب وحی کے علاوہ عہد ناموں اور رسالہ کے کاتب بھی تھے۔ (1)
ایسی روایات اور احادیث سے بخوبی واضح ہو جاتاہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے
.........................
(1)شناخت قرآن،ص95
قرآن کی حفاظت کیلئے پوری کوشش کی ہے،لہذا معقول نہیں ہے کہ ایسا شخص، قرآن کی تدوین اور جمع آوری کو امت مسلمہ کے ذمہ چھوڑ کر چلا جائے،حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی کتابوں میں کاتبین وحی نے قرآن کو بحکم پیامبر اکرم (ص) کس چیز پرتحریر کی ان کا نام بھی بخوبی واضح کیا گیا ہے۔(1)لہذا قرآن کی تدوین اور جمع آوری کے مسئلہ کے بارئے میں درج ذیل نظریے موجود ہیں:
الف: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں جمع آوری ہوئی ہے۔
ب: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد حضرت علی (ع) کے ہاتھوں ایک خاص کیفیت کے ساتھ قرآن کی تدوین ہوئی ہے۔
ج: حضرت ابوبکر کے دور حکومت میں قرآن کی تدوین اور جمع آوری ہوئی ہے۔
د: حضرت عثمان کے دور حکومت میں قرآن کی تدوین ہوئی ہے۔
ھ: جناب سالم یا ابی حذیفہ وغیرہ نے قرآن کی جمع آوری کی ہے۔
لیکن محققین اور پڑھے لکھے حضرات کی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کی تدوین او رجمع آوری کب اور کس نے کی؟ اس میں غوروخوص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی معاشرئے میںحقیقت کی عکاسی ہو ۔
.............................
1۔شناخت قرآن، ص96)
نزول قرآن کے متعلق کئی آیات موجود ہیں،کبھی نزول کے متعلق انزلناہ، یا نزلناہ ،یا تنزیل، یا انزل، کے علاوہ بہت سارے الفاظ جو نزل سے مشتق ہوئے ہیں موجود ہیں ان الفاظ کی بازگشت اورمرجع دو مطلب بتایا جاتا ہے۔
1۔ قرآن مجید کو اللہ نے ایک ہی دفعہ میں نازل کیا ۔
2۔ اللہ نے قرآن کو آہستہ آہستہ 23 سال کے عرصے میں نازل کیا۔
اورکچھ آیات سے نزول قرآن دفعی ہونے کا پتہ چلتا ہے جبکہ دوسرا دستہ آیات سے تدریجی ہونے کا پتہ چلتاہے ان دودستہ آیات کے درمیان بظاہر تعارض اور ٹکراو نظرآتاہے اسی لئے علوم قرآن کے ماہرین نے اس تعارض اورٹکڑاؤ کوبرطرف کرنے کی خاطر نزول قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:
الف: دفعی
ب:تدریجی
یعنی ماہ رمضان المبارک میں قرآن، قلب حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر اتر آیا پھر 23 سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ ایک ایک آیت یاسورۃ کی شکل میںحضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا ،لہذاقارئین محترم سے نزول قرآن کے متعلق مفصل کتابیں جومختلف زبانوںمیںلکھاجاچکاہے ان کی طرف رجوع فرمائیں۔
قرآن کی ترویج اور تبلیغ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے یعنی ہمیںچایئے کہ ہم قرآن کے قیمتی اور نورانی فرامین کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔تاکہ قرآن اورپرچم اسلام کی سربلندی کفرونفاق کی نابودی ہرقسم کے انحرافات اورغلط تہذیب وتمدن سے معاشرتی زندگی کو نجات دے سکیں ، اگر ہم اپنی ذمہ داری پر عمل کریں اورقرآن کو اللہ نے جس مقصد اورہدف کے لئے نازل کیا ہے اس کو سمجھیں تو یقینا ہم اس دور کے جابروں کے ناپاک سازشوں اورپالیسیوں سے نجات پاسکتے ہیں قرآن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی قائم کرنے کے لئے نازل ہوا ہے قرآن کی حکمت تمام مراحل زندگی میںضروری ہے چنانچہ خود اللہ نے فرمایا : واعتصموبحبل اللہ جمیعا ولاتفرقو ''اور سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے آپس میںجدائی نہ ڈالیں(1)
یادوسری آیہ میں فرمایا : ولاتنازعو فتفشلوا وتذهبوا''آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تمہاری قدرت اوراقدار نابود ہوجاؤگی ،(2)
اگر مسلمان حضرات ایسی آیات کو اپنا سرنامہ عمل قرار دے تو یقینا اللہ کے ایسی فرامین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان حضرات اتحاد اور یکجہتی کو توڑ نے اور نقصان پہنچانے والی حرکات اوررفتار سے پرہیز کرینگے لہذا نزول قرآن کے اہداف کو فہر ست وار بیان کر کے اس موضوع سے اجازت چاہیں گے ۔
1۔ قرآن دیگر کتابوں کی مانند ایک کتاب معمولی نہیں ہے کہ من گھڑت داستانوں او ر کہانیوں پر مشتمل ہو بلکہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جسمیں انسان کو تکامل وترقی علم ومعرفت نیک اورعاقلانہ اورحکمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کی گئی ہے لہذا نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک ہدایت بشر ہے جسکی طرف
...........................
1۔عمران ۔103(2)انفال 47۔
اللہ نے اشارہ کر تے ہوئے فرمایا ہدہ للناس یا دیگر آیات میں ''هدی للمتقین'' یا ''اناهدینا ه السبیل ''کی نص موجود ہے۔ان آیات میں لفظ ہدایت کو کسی قید وشرط کے بغیر بیان کر کے یہ بتانا چاہتے ہیںکہ قرآن ہدایت تکوینی اورہدایت تشریعی کے لئے نازل کیا ہے جسمیںشک وتردید کی کوئی گنجائش نہیں ہے اورہدایت اس وقت قابل تصور ہے اگر ہم قرآن فہمی کی کلاسوں میںشرکت کر کے قرآن کو سمجھے ورنہ قرآن دیگر موجودات کی مانند ہے جو ہماری فلاح وبہبود ہی کے لئے خلق ہوئے ہیں لیکن ہماری نافہمی اورجہالت کی وجہ سے ان سے مستفیض ہونے سے محروم ہیں ۔
2۔ نیز قرآن کے نزول کے اہداف میںسے دوسرا ہدف بشرکی تربیت ہے چاہے اجتماعی تربیت ہو یا انفرادی تربیت جس کی طرف ''ویتلو علیہم آیتنا ویزکیہم ''کے ذیرعے اشارہ فرمایا ہے تربیت کو معاشرتی اورانفرادی زندگی میں مرکزیت حاصل ہے جس کے حصول کی خاطر طرح طرح کی زحمتیں اورمشقتیں اٹھانا پڑتا ہے قرآن واحد سرنامہ عمل ہے جومشیت ،تربیت کے اصول وضوابط کے بیان کرنے کے ساتھ اس کے نتائج اورعاقبت سے بھی بخوبی آگاہ کیا جارہا ہے ۔
3۔ نزول قرآن کے اہداف میںسے تیسرا ہدف تدبر اور تفکر ہے یعنی فلاسفر اورقضایا عقل سے بحث کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ فکر اورتدبر سے انسان دیگر حیوانات سے جدا ہوسکتا ہے ۔جسکی طر ف قرآن میںشدت سے تاکید کی ہے چنانچہ فرمایا ''لعلکم تتفکرون ''یا تم لوگ کیوں قرآن کے بارئے میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں ایسی آیات تفکر وتدبر کی اہمیت کو بیان کرنے کے ساتھ تدبر وتفکر کے آثار سے بھی آگاہ کیا ہے ۔
4۔نزول قرآن کے اہداف میںسے چوتھا ہدف عبرت بتائی جاتی ہے چنانچہ قرآن میں آدم سے لیکر خاتم تک کے امتوں کی عبرت ناک منفی اورمثبت حالات کو بیان کرکے ہمیں ان سے عبرت لینے کا درس دیتا ہے کبھی قوم لوط کا تذکرہ ،کبھی قوم ہود کاتذکرہ کبھی آدم کے فرزندان کی حالات کبھی حضرت خاتم کی امت کا تذکرہ کر کے ہمیں عبرت لینے کا حکم دیا ہے ۔
5۔نزول قرآن کے اہداف میںسے پانچواں ہدف اخلاق حسنہ سے بشر کو مزین اور رزیلہ واخلاق سیئہ سے نجات دینا ہے چنانچہ امام خمینی ؓکا فرمان ہے کہ قرآن کی تمام آیات سے چاہے اقتصادی مسائل سے مربوط ہو یا فقہی ہر ایک سے اخلاقی کوئی نہ کوئی نکتہ سمجھ میں آتا ہے ۔
6۔نزول قرآن کے اہداف میںسے ایک لوگوں کو بصیرت اور حکیمانہ وعالمانہ زندگی گذار نے کی تاکید کرتا ہے تاکہ معاشرے میں وہ حرکتیں انجام نہ دے ،جو منفی اور لو گوں کو منفی اور تنزل کی طرف لے جاتا ہے ۔
7۔ نزول قرآن کے اہداف میں سے ایک معاشرے میںعدالت اورانصاف کو رواج دینا ہے ،اور ظلم وبر بریت کو نابود کرنا ہے ، چنانچہ کئی آیات میں نظام اسلام کے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : یقوم الناس با القسط ''
8۔ قرآن کے آنے کے اہداف میں سے ایک اس دور کے ناپاک سیاسی اور منفی پالیسیوں کے خلاف مسلمانوں کو متحد ہونے کی دعوت ہے تاکہ فرق مسلمین ''انما اللمؤمنون اخوۃ'' کے ساتھ زندگی گذار سکیں۔
9۔ قرآن جامع ترین کتب آسمانی کی حیثیت سے دعوت دیتا ہے کہ ہر انسان کے مقررہ حقوق کی رعایت کریں حتی حیوانات اور درخت وشجر کے مقرر ہ حقوق کی رعایت کرنے کی شدت سے تاکید کرتا ہے چنانچہ کئی آیات میںصاف الفاظ میں بیان کیا ہے۔
10۔ قرآن نازل ہونے کے اہداف میں سے ایک مادی اورمثالی اورابدی زندگی کو سعادت اورآباد کرنے کی گذارش کرتا ہے ، ان کے علاوہ اور بھی اہداف واضح الفاظ میںبیان کیا ہے ،ان کے پیش نظر قرآن کو فقط اموات کے ایصال ثواب کے فاتحہ خوانی یا شادی کے وقت ختم قرآن کے لئے یا دیگر معمول امور میںمنحصر کرنا ہماری جہالت کے علاوہ کچھ نہیں رب العزت سے اس ناچیز کاوش پر امام زمانہ (ع) کی تائید کے خواہاں ہوں۔
علوم قرآن کے مہمترین اور پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک قرائت قرآن سمجھا جاتا ہے، جس کے متعلق بہت سارے محققین نے مقالے کتابیں لکھی ہیں،لہذا شاید اس کے بارے میں مزید قلم اٹھانا تحصیل حاصل کے مترادف ہو لیکن ہماری اس ناچیز زحمت کے ہدف کے حصول کی خاطر قرائت قرآن کی طرف بھی اشارہ کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہو ں کیونکہ ہمارے استاد محترم علوم قرآن کے ماہر آقای رجبی جو عرصہ دراز سے موسسہ امام خمینی کے علوم قرآن کے مدیر ہونے کے علاوہ حوزہ علمیہ قم میں علوم قرآن کا سپیشلسٹ سمجھا جاتا ہے، انہوں نے مؤسسۃ امام خمینی میںدیئے ہوئے اپنے لکچرز میں کئی مرتبہ فرمایا جب تک علوم قرآن کے تمام مسائل سے اجمالی بحث نہ کریں تب تک علوم قرآن کی ضرورت کا احساس نہ ہونے کے باوجود اس کی افادیت سے فیضیاب نہیں ہو سکتے ، لہذا قرائت قرآن کا مختصر خاکہ قارئین کے گوشزد کرنے میں آسانی ہونے کے علاوہ قرآن کے افہام و تفہیم کے مرحلہ میں مشکل پیش نہیں آتی۔
حقیقت قرائت قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے بہت سے علماء نے فرمایا قرائت یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو اس طرح پڑھنا جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے تلاوت کی ہے۔
یا دوسرے الفاظ میں قرائت قرآن یعنی قرآن کے کلمات اور الفاظ کو ان کے مخارج اور لہجے کے ساتھ پڑھنا ۔
لیکن ہمارا مقصد قرائت قرآن کی طرف اجمالی اشارہ کرنا ہے لہذا قرائت کے معنی لغوی اور اصطلاحی سے ہٹ کر دیگر کچھ ایسے مطالب کی طرف اشارہ کردوں جو قرائت قرآن سے وابستہ ہیں کیونکہ تمام مسلمانوں کے درمیان اجماع ہے کہ قرآن کریم کے کلمات اور الفاظ میں سے بعض کی قرائت یقینا مختلف ہے اور مخارج کے ساتھ کتابوں میںنقل کیا گیا ہے، حتی علوم قرآن کے موضوع پر لکھی ہوئی بہت سے کتابوں میں قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ کے عنوان سے ان کے اسامی گرامی بھی نقل کیئے گئے ہیں، چنانچہ قراء سبعہ کانام صاحب حدایق نے اس طرح بیان کیا ہے:
(1)عبداللہ بن عامر (2) عبداللہ بن کثیر (3) عاصم (4) ابو عمرو بن العلاء (5) حمزہ بن زیات (6) نافع (7) الکسائی۔
البتہ علم قرائت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد اصحاب کے دور میں افراد ذیل کی قرائت معروف اور مشہور تھی۔(1) حضرت علیؑ (2) عثمان (3) ابن کعب (4) زید بن ثابت (5) عبداللہ بن مسعود (6) ابو الدرداء (7) ابو موسی ۔
اور اصحاب کا دور ختم ہونے کے بعد لفظ قراء ، قراء سبعہ یا قراء عشرہ یا قراء اربعہ عشرہ انہی افراد کے لئے لقب کے طور پر استعمال ہونے لگا یعنی کلمہ قراء سے ہمیشہ انہیں افراد کی طرف تبادر ہوتا تھا، لہذا مسلمانوں کے مابین اختلاف ہے کہ ان قرائت میں سے کونسی قرائت صحیح ہے ، کونسی غلط ،کیا ان تمام قرات کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح ہے یا نہ۔
اس مسئلہ کے بارے میں اہل سنت کے محققین میں سے ایک جماعت کا کہنا ہے کہ قرائت سبعہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے حتیٰ جناب سبکی نے مناہل العرفان میں فرمایا ہے قرائت عشرہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے۔ (1)
جناب مفتی البلاد الندلیسہ ابو سعید فرج ابن لب کا کہنا ہے کہ جو قرائت قراء سبعہ کو تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچے سے انکار کرے تو وہ کافر ہے، (2)
نیز ہمارے مذہب کے علماء میں سے کچھ مجتہدین کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے جیسے شہید اول نے کتاب ذکری میں جناب محقق شیخ علی، مرحوم جندی وغیرہ نے فرمایا قرائت سبعہ ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچی ہے۔(3)لیکن مذہب تشیع کی نظر میں معروف اور مشہور نظریہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک نہیں پہونچی ہے بلکہ انہیں قرات میں سے بعض قرائت قاری کا خود ساختہ ہے بعض ان کا اجتہاد ہے بعض قرائت اگرچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے منقول ہے
............................
(1)مناہل العرفان ص433)
(2)مناہل العرفان ص428)
(3)حدایق ج8ص95)
لیکن نہ تواتر کے ساتھ، بلکہ باالاحاد منقول ہے ، اور اسی نظریہ کو اہل سنت کے محققین میں سے ایک گروہ نے بھی اختیار کیاہے۔
چنانچہ مرحوم فخررازی نے نظریہ اول کو اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کرنے کے بعد فرمایا: اتفق الاکثرون علی ان القرات المشہورۃ منقولۃ بالتواتر وفیہ اشکال لانّ..... یعنی اکثر علماء کا اجماع ہے کہ مشہور قرائت تواتر کے ساتھ نقل کی گئی ہے اس میں اشکال ہے کیونکہ اس نظریہ کے قائل ہونے کی صورت میں ترجیح بلا مرجح لازم آتا ہے، جو عقلا ممکن نہیں ہے۔(1)اگرچہ ہمارے علما میں سے جیسے شہید ثانی وغیرہ قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کے طرفدار ہیں جناب فخر رازی کے اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : لیس المراد بتواترها ان کل ما ورد متواتر بل المراد الخصار المتواتر الان فی ما نقل۔(2)
قرائت سبعہ تواتر سے منقول ہونے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان قرائت میں سے ہر ایک تواتر سے ہم تک پہونچی ہو بلکہ اس کا مقصد ہے کہ اب تک جو قرائت نقل کی گئی ہے انہیں میں تواتر، منحصر ہے لیکن حقیقت میں اس طرح توجیہ کرکے جواب دینا ظہور کلام کے مخالف ہے ۔
............................
(1)حدایق ج8 ص97) (2)حدایق ج8ص97
لہذا پہلا نظریہ اگرچہ اکثر اہل تسنن اور اہل تشیع کے برجستہ علماء میں سے ایک جماعت کا نظریہ ہے . لیکن اسی کی حجیت پرکوئی ٹھوس دلیل نظر نہیں آتی ہے،کیونکہ تواتر کے دعویدار سنّی ہیں، جس پر ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے ان کی بات قبول نہیں کرسکتے ۔
ثانیاً:خود اہل سنت کی پوری ایک جماعت نے اس نظریہ کو رد کیا ہے ۔
ثالثا: پہلے نظریہ کے طرفدار اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : ''ان القرآن قد نزل علی سبعه احرف کلها شاف واف''۔(1)قرآن سات حروف پر نازل ہواہے جو تمام صحیح ہے اور کافی ہے۔اور اس طرح کی ایک اور روایت جناب صدوق نے نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:ان الله یامرک ان تقراء القرآن علی حرف واحد فقلت یا ربّ وسع علی امتی فقل ان الله یأمرک ان تقراء القرآن علی سبعه احرف(2)
''بتحقیق اللہ نے تجھے قرآن کو ایک حرف پر پڑھنے کا حکم دیاہے. اس وقت میں نے اللہ سے درخواست کی پالنے والے میری امت پر( رحم فرمایا) انکو تلاوت قرآن پر توسعہ فرما، اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا: آپ قرآن کوسات حرف پر تلاوت کرسکتے ہیں۔
..................................
(1) تفسیر طبری، ج1، ص9) (2)خصال ج2،ص11)
ان روایات اور ان کی مانند دیگر تمام روایات کا جواب یہ ہے کہ یہ سند کے حوالے سے ضعیف ہونے کے علاوہ مجمل ہے ، ان تقراء القرآن علی سبعۃ احرف کا مختلف قرائت کے ساتھ پڑھنا مقصود ہے، یا کیا ہے واضح نہیں ہے۔
اس کے علاوہ مرحوم ثقۃالاسلام کلینی نے روایت کی ہے حضرت امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: ان القرآن واحد منزل من عند الواحد و لکن الاختلاف من قبل الرواة.(1)قرآن ایک ہے جو ایک ہی کی طرف سے نازل ہواہے لہذا اگر اختلاف اور متعدد نظر آئے تو یہ راویوں کی طرف سے ہے۔روایت مطلق ہے جسمیں ہر اختلاف اور تعدد شامل ہے ، حتی قرائت کا اختلاف اور تعدد بھی۔
نیز سند صحیح کے ساتھ کلینی نے روایت کی ہے فضیل بن یسار نے کہا : میں نے حضرت امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا:ان الناس یقولون نزل القرآن علی سبعة احرف فقال کذبوا اعداء الله و لکنه نزل علی حرف واحد من عند واحد.(2)تحقیق لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے (کیا یہ صحیح ہے) آپ نے فرمایا: اللہ سے بغض رکھنے والے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ قرآن ایک ہی
ہستی کی طرف سے ایک ہی حرف پر نازل ہوا ہے۔ان دو، روایتوں کو
.............................
1)الوافی، ج5،باب اختلاف القراء ات)(2)الوافی، ج5)
نقل کرنے کے بعد مرحوم محدث کاشانی نے فرمایا:نزل علی حرف کامعنی یہ ہے کہ قرات میں سے فقط ایک صحیح ہے ۔
صاحب وافی نے مذکورہ دوحدیثوں کو نقل کرنے کے بعد فرمایا :ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرائت فقط ایک صحیح ہے، جو بھی قرائت ہے وہ اہل بیت ؑ کی قرائت کے مطابق ہے، لیکن اس کی قرائت ہمارے دور میں مشخص نہیں ہے۔
لہذا ان مطالب کے پیش نظر حضرت آیۃ اللہ العظمی خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا قرائت قرآن تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے اورمرحوم سیوطی اور قاضی کے نظریہ کو واضح الفساد قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرا سبعۃ تواتر کے ساتھ نقل ہونے کا نظریہ صحیح نہ ہونے پر دلیل قطعی ہے۔(1)
ان نکات کی بناء پر قرائت سبعہ با تواتر ہم تک پہونچنے کی بات قبول نہیں کر سکتے ہیں، لہذا ہم اپنی بات کی مزید استحکام کی خاطر اختلاف قرائت کے عوامل و اسباب کی طرف اشارہ کرینگے۔
1۔ کچھ اسباب و عوامل کو غیر اختیاری اور قہری سمجھا جاتا ہے جس کی بازگشت حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے دور کی طرف ہوتی ہے لہذا کہا جا سکتا ہے جو قرائت پیغمبر اکرم (ص) کے دور میں
...............................
(1)البیان، ج1 ص 124 بیروت
معمول تھی، اس دور میں قبیلے مختلف ہونے کی وجہ سے ہر ایک کا مخصوص لہجہ اور لحن ہوا کرتا تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے بارہا فرمایا تم قرآن کو فصیح ترین لحن اور لہجے میں تلاوت کرو۔
اور فارابی کا کہنا ہے: کانت قریش اجود العرب اتقا لا فصیح من الالفاظ و اسهلها علی اللسان عند المنطق و احسنها مسموعا و (1) قریش ،عرب قوموں میں سے رفتار میں نیکو ترین بولنے میں فصیح ترین الفاظ کی ادائیگی میں آسان ترین سنے میںبہترین سیرت کے عادی تھے۔
اور عرب اقوام میں قریش فصاحت کے حوالے سے بنی سعد زبان کی سلامتی کے اعتبار سے معروف اور مشہور تھا،لہذا شاید اسی وجہ سے حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا: ''انا افصح العرب بید انی من قریش و انی نشأت فی بنی سعد بن بکر ''(2)
''میں عرب میں فصیح ترین ہستی ہوں کیونکہ میرا تعلق قریش سے ہے اور میرا نشو و نما بنی سعد بن بکر کے قبیلے میں ہوا ہے''
اور قرآن کی آیات اور الفاظ فصیح ترین اور بلیغ ترین ترکیبات کے ساتھ نازل ہوئی ہیں جبکہ اقوام عرب ،مختلف لحن ولہجے کے مالک تھے جسکو ادبی کتابوں میں مختلف قبیلوں
...........................
(1)کتاب الالفاظ والحروف)
(2)بحار الانوار، ج17،ص158
کا لحن یا لہجہ دلیل اور برہان کے طور پرنقل بھی کیا گیا ہے۔
لہذا فصیح ترین کلام کو جب حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اقوام عرب میں سے کم از کم مکہ و مدینہ کے عرب زبان والوں کی خدمت میں تلاوت کی اور یاد کرنے کی سفارش کے ساتھ ہمیشہ تلاوت کرنے کی تاکید کی اس اختلاف لحن اور لہجے کی بنا پر قرآن کی قرائت میں بھی اختلاف لحن اور لہجہ عام ہو گیاہے۔
2۔ اختلاف کی دوسری وجہ حفاّظ قرآن یا محافظین قرآن کی حفاظت اور ثبت و ضبط کی نارسائی بتایا جاتا ہے۔
یعنی بسا اوقات کوئی مسلمان مدینہ میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے کوئی آیہ سنتے تھے اسو قت معمول یہ تھا کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنی ہوئی آیت کو دوسرے مسلمانوں کی خدمت میں پیش کریں، اس وقت مسلمان عین وہ الفاظ جو مخصوص ہیات اور شکل و صورت میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے سنا تھا وہ فراموش کرتے تھے اس کی مانند اور شبیہ دوسری ہیئت اور لحن پر پیش کرتے تھے. اور حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے ایک روایت بھی منقول ہے جو اسی مطلب کی عکاسی کرتی ہے:''و کلها شاف کاف مالم یختم آیة عذاب برحمة و آیة رحمة بعذاب کقولک هلمّ و تعالی''(1)
...........................
(1)شناخت قرآن ص134
وہ تمام قرااات صحیح اور کافی ہیں جب تک آیت رحمت آیت عذاب میں اور آیت عذاب آیت رحمت میں مختلف قرائت کی وجہ سے نہ بدل جائے،نیز رسم الخط اور علامت و اعراب گذاری کی وجہ سے بھی اختلاف واقع ہوا ہے جسکی مثالیں علوم قرآن کی کتابوں میں وافر مقدار میں موجود ہیںرجوع کیجیے۔
3۔ اختلاف کی تیسری وجہ کاتبین اورنساّخ کافراموش اور سہو بتایا جاتا ہے۔
چنانچہ زبیر نے ابان بن عثمان سے پوچھا المتقین کے نون پر فتحہ کیوں آیا ہے؟ ابان نے جواب میں کہا یہ کاتبین کی فراموشی اور خطاء کا نتیجہ ہے، نیز عین اسی مطلب کو عروۃ بن زبیر نے عایشہ سے نقل کیاہے، ایسے اسباب اور عوامل کو غیر اختیاری اور قہری بتایا جاتا ہے جن کے نتیجے میں قرائت قرآن متعدد اور مختلف ہو چکی ہے۔
قرائت قرآن کے مختلف ہونے کے اسباب میں سے ایک عمدی اور اختیاری بتایا جاتا ہے جس کے بارے میں علوم قرآن کے محققین نے تفصیلی گفتگو کی ہے پھر بھی کچھ اشارہ کرنا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں تاکہ قارئین محترم کی تشنگی کو بجھا سکیں، عمدی اور اختیاری اسباب سے مراد لیا جاتا ہے کہ قرآن کے واضح اورروشن دستور کو اپنے مفادات اور اغراض کی خاطر تلاوت قرآن اور قرائت قرآن میں تبدیلی لائی جاتی ہے تاکہ فاعل کو مفعول یا مفعول کو فاعل یا دیگر وجوہ کی شکل میں پیش کرسکیں۔
اسی وجہ سے ہر علم میں مختلف مذاہب اور مکاتب فکر وجود میں آئے ہیں جیسے ابوعبید نے کتاب فضائل میں ابن جریر نے تفسیر میں، ابو شیخ محمد بن کعب قرظی اور حاکم مستدرک نے اسامہ سے انہوںنے محمد بن ابراہیم التمیمی سے نقل کیا ہے کہ جناب عمر نے آیت ذیل کی قرائت اس طرح کی:
''السابقون الاولون من المهاجرین والانصار'' یعنی کلمۃ انصار کو مرفوع پڑھا تاکہ سابقون پر عطف کرسکیں نہ مہاجرین پر، اور والذین میں واو عاطفہ کو حذف کرکے والذین کو انصار اور مہاجرین پر عطف کرنے کی بجائے الذین پڑھکر انصار کیلئے صفت قرار دی ہے۔
جبکہ باقی قراء نے'' والانصار والذین التّبعوا'' کی شکل میں قرائت کی ہے یعنی الانصار کو مکسور الذین کے اوپر واو عاطفہ کے ساتھ قرات کی ہے ،ایسی قرائت کا سبب عمدی اور اختیاری تھا چونکہ ذاتی مفادات کو فروغ دینے کی خاطر اس طرح تلاوت کی ہے تاکہ سابقون انصار پر عظمت حاصل نہ کرسکیں اور تابعین کے نام سے ایک گروہ کو انصار کی عظمت اور فضیلت میں شریک قرارنہ دے سکیں، اس داستان اور کہانی کے پس منظر کو جناب بلاغی نے مقدمہ تفسیر الاء الرحمن میں یوں نقل کیاہے۔
جب زید بن ثابت نے عمر کی خدمت میں عرض کیا الانصار اور والذین دونوں المہاجرین پر عطف ہیں تو جناب عمر تعجب کے ساتھ زید بن ثابت سے کہنے لگے میں نے گمان کیا تھا کہ سابقیت مہاجرین کا مخصوص کوئی منصب ہے،زید بن ثابت نے کہا والذین واو عاطفہ کے ساتھ پڑھنا صحیح ہے. جناب عمر نے اس کی بات نہیں مانی بارہا بغیر واو عاطفہ قرائت کرتا رہا، اس وقت زید بن ثابت نے کہا جناب خلیفہ دانا تر ہیں، جناب عمر نے ابی بن کعب کو بلا بھیجا اس سے بغیر واو قرات کی تصدیق کروانا چاہیے مگر ابی نے بھی والذین واو عاطفہ کے ساتھ قرائت کی پھر بھی جناب عمر نے نہیں مانا اور جناب عمر نے قرائت کے وقت جناب ابی بن کعب سے اشارہ بھی کیا اور کہا میری قرائت کی تصدیق کرو اس وقت ابی نے کہا خدا کی قسم اللہ کے رسولؐ نے ہمیں والذین کی شکل میں تلاوت کرکے بتایا ہے لیکن آپ بہت بڑے اشتباہ کے شکار ہے اس وقت عمر نے کہا فنعم اذن۔ (1)
لہذا کہا جا سکتا ہے کہ قرائت قرآن کی صورتحال مختلف ہونے کے اسباب عمدی میں سے قوی ترین اسباب سیاسی، کلامی اور حزبی اور عملی انگیزہ بتایا جاتا ہے،لہذا مصاحف عثمانی کو نقطہ اور اعراب کے بغیر لکھا گیا تھا تاکہ مختلف قراء ات کو جائز التلاوت قرار دے سکیں(2)
حتی اہل سنت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مصاحف عثمانی کو عبدالملک بن مروان کے دور حکو مت تک بغیر نقطہ و اعراب کے رکھا گیا اس کے دور میں حجاج بن یوسف کو جو عراق
..................................
(1)شناخت قرآن، ص139) (2)تاریخ عرب قبل الاسلام ج 8 ص 186)
کا حکمران تھا مصاحف عثمانی کو نقطہ گذاری کرنے کا حکم ہوا اس نے دو ہستیوں کو بنام نصر بن عاصم اور یحیی بن یعمر کے ذمہ پر ڈالا یہ دونوں ابوالاسود ویلی کے شاگر دتھے۔
نیز لکھا گیا ہے کہ جس مصحف میں تحریف ہونے کا خوف پیدا ہوا تو عبدالملک کے دور میں ابوالاسود ویلی کے بعد خلیل بن احمد نے نقطہ گذاری ، علائم ہمزہ تشدید (اشمام) دیگر حرکات کے کاموں کو مکمل کیا۔(1)
لہذا قرااات مختلف ہونے کے وجوہات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین محترم مفصل کتابوں کی طرف رجوع کریں تاکہ حقیقت کی عکاسی ہو اور نماز جیسی عبادات میں ہر قرائت کو عملی جامہ پہنانے کی صورت میں نماز اور عبادات کی صحت یا عدم صحت کو بیان کرسکیں۔
سیوطی مرحوم نے ابن الجزری سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ قرائت قرآن کے کئی اقسام ہیں، جیسے: متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع ،و مدرج(2)
لیکن قرااات قرآن کواس طرح تقسیم کرنا تقسیمات منطقی کے اصول و ضوابط سے دور نظر آتا ہے کیونکہ علوم قرآن کے مباحث میں قرائت سبعہ یا قرائت عشرہ یا قرائت
.............................
(1)وفیات الاعیان) (2)اتقان
اربعہ عشرہ متواترہ ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف ہے بعض محققین کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ متواتر ہے بعض کاعقیدہ یہ ہے قرات مشہورہ ہے متواترہ نہیں ہے لہذا دیگر اقسام کی طرف تقسیم کرکے ہر قرائت کواس مباحث میں شامل کرنا صحیح نہیں ہے یعنی قرائت سبعہ تواتر کے ساتھ ہم تک پہونچی ہے یا قرائت سبعہ فقط مشہور ہے، تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہے۔
اس مسئلہ کے بارے میں چنانچہ پہلے بھی اشارہ کیاگیا کہ مرحوم آیۃاللہ خوئی کہ جس کے بارئے میں ہمارئے استاد محترم حضرت ایت اللہ العظمی وحید حفظہ اللہ کی تعبیر یہ ہے کہ ایت اللہ الخوی فحل الفوحل عصرہے، اور دیگر اکثر علماء تشیع اور بعض علماء اہل تسنن کا عقیدہ یہ ہے کہ قرائت سبعہ ہم تک با تواتر نہیں پہونچی ہے بلکہ فقط مشہور ہے جس کی دلیل کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے، لیکن اس نظریہ کے مقابل میں اہل تسنن کے اکثر علماء تواتر کے قائل ہیںجبکہ ہمارے مذہب کے برجستہ علماء میں سے مرحوم سید محمد طباطبائی صاحب مفاتیح الاصول نے اپنی کتاب میں فرمایا قرائت سبعہ کے بارے میں تین نظریے ہیں:
الف:قرائت سبعہ عین وہی قرائت ہے جو حضرت جبرئیل نے حضرت پیغمبر اکرؐم کو پیش کیا تھا یہ قرائت ہم تک با تواتر پہونچی ہے،جس کے قائلین افراد ذیل ہیں:
ابن مطہر، ابن فہد محقق ثانی، شہید ثانی، حر عاملی، نیز فخر رازی نے بھی کہا ہے کہ اکثر علماء و مجتہدین اسی نظریہ کے قائل ہیں،جس کو ہم نے پہلے مفصل طور پر بیان کئے ہیں۔
ب: بعض محققین نے تفصیل دی ہے قرائت سبعہ میں سے کچھ متواترہ ہے جیسے ملک و مالک ، جبکہ مد اور تخفیف امالہ اور ہاات لفظ متواترہ نہیں ہے، اس نظریہ کو شیخ بہائی ، عضدی اور ابن حاجب وغیرہ نے بھی پسند کیا ہے۔
ج: قرائت سبعہ چاہے ہیات لفظ سے مربوط ہو یا جوہر لفظ، کوئی بھی قرائت متواترہ نہیں ہے. جس کے قائلین افراد ذیل ہیں:
شیخ طوسی، نجم الائمہ، جمال الدین خوانساری، سید نعمت اللہ جزائری، شیخ یوسف بحرانی، سید صدر الدین، ابن طاووس، حرفوشی، زمخشری، رازی، آیت اللہ خوئی، کے علاوہ بہت سارے دیگر علماء بھی اسی نظریہ کو پسند کئے ہیں۔(1)
لیکن چنانچہ ہم نے پہلے بھی مفصل بحث کر چکے ہیں کہ پہلے نظریے اور دوسرے نظریے کی صحت پر کوئی ٹھوس دلیل عقلی اور نقلی نہ ہونے کی وجہ سے تیسرے نظریے کو قبول کرنے پر مجبور ہیں جسکی صحت پر پہلے کئی روایات نبویؐ اور معصومین ؑکی طرف اشارہ کرنے کے باوجود حضرت آیت اللہ العظمی خوئی و فخر رازی وغیرہ نے دلیل عقلی بھی قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
البتہ قرائت سبعہ متواترہ نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز میں قرائت سبعہ کی
................................
(1)تبیان ج1، سعد السعود ص181، شناخت قرآن ص 174)
تلاوت جائز نہیں ہے کیونکہ طرفین کے علماء اورمجتہدین نے فتوے دیے ہیں کہ قرائت سبعہ میں سے کوئی بھی ہو نماز میں مجزی اور جائز ہے،جس کی ٹھوس دلیل آئمہ اطہار کی تائید بتایا جاتا ہے یعنی معصومین کے زمان میں قرائت سبعہ میں سے ہر ایک قرائت کے ساتھ اصحاب پیغمبر اکرم (ص) اور تابعین نماز پڑھتے تھے، معصومین بھی بخوبی اس سلسلہ سے اگاہ تھے، لیکن منع نہیں کیا، لہذا ہمارے زمانے میں قرائت سبعہ میں سے جس کی قرائت نماز میں انجام دے تو نماز صحیح ہے اور جائزہے۔
قرآن کی آیات کو سبب نزول کے حوالے سے تین قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
الف: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کے بغیر اللہ ہی نے مصالح و مفاسد کی بنا پر نازل کیا ہے جیسے سورہ اقراء کہ سب سے پہلے نازل شدہ سورہ اور آیت بتایا جاتا ہے جس کے نزول کےلئے سوی مصالح اور مفاسد باطنی کوئی سبب خارجی نظر نہیں آتا ۔
ب: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کی وجہ سے نازل کی گئی ہےں جیسے سورہ براۃ سورہ منافقون اور وہ آیات جو اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔
ج: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی سوال و جواب کی وجہ سے نازل ہوئی ہیں۔
اسباب نزول کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا علوم قرآن کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن کے مہم مسائل میں سے ایک شان نزول کی معرفت بتائی جاتی ہے ، لہذا بہت سے محققین نے اسباب نزول کی معرفت کی اہمیت کے بارے میں تاکید کی ہے جیسے:واحدی نے کہا آیت کی تفسیر، شان نزول کی معرفت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔
جناب ابن دقیق العبد نے کہا، شان نزول کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا فہم قرآن اور افہام و تفہیم قرآن کیلئے بہت ضروری ہے۔
ابن تیمیہ نے کہا: شان نزول کی معرفت اور شناخت فہم معانی قرآن کےلئے سبب ہے اس کے بغیر فہم معانی قرآن ناممکن ہے ،کیونکہ سبب کے بغیر مسبب کا حاصل ہونا محال ہے۔
لہذا شان نزول کی شناخت حاصل کرنے میں در جہ ذیل افادیت پوشیدہ ہے :
الف: فہم معانی قرآن کا سبب بنتا ہے۔
ب: جن افراد کی شان میں آیات نازل ہوئی ہیں چاہے ان کی مذمت اور عقاب کے بارے میں ہو ںیا مدح و ثناء کے بارے میں ان کی شناخت اور معرفت حاصل ہوتی ہے، جو نئی نسلوں کےلئے بہترین عبرت ہے۔
ج: نیز آیات اور سورے جن افراد اور اسباب کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں وہ انہیں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ جن افراد میں وہ مزیت اور اسباب موجو ہیںچاہے زمان حال میں ہو یا زمان آیندہ یا گذشتہ ہر ایک ان آیات کا مصداق بن سکتا ہے،یعنی علم اصول میںمکمل ایک بحث ہے ،کیا سبب نزول آیت اورحکم کی تخصیص کا سبب بن سکتا ہے یا نہ ،جس میںاکثر علماء اصولین کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ تخصیصی حکم او رآیت کا سبب نہیں بن سکتا ۔
چنانچہ شیخ طوسی نے سورہ آل عمران، آیت نمبر 199 کی شان نزول کو نجاشی ذکر کرنے کے بعد فرمایا: اگرچہ اس آیت کا سبب نزول نجاشی ہی ہے لیکن آیت اس کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل کتاب میں سے جو بھی ایمان لایا وہ آیت کا مصداق ہے، کیونکہ شان نزول مخصوص ایک فرد یاایک طبقہ ہونے سے ،آیت کو اس کے ساتھ مخصوص کرنا لازم نہیں ہوسکتا ۔(1)نیز ابو القاسم ، ابو مسلم اور قاضی نے کہا آیت کا کسی خاص سبب کی وجہ نازل ہونا اس کے ساتھ مخصوص ہونے کا سبب نہیں بن سکتا بلکہ آیت کو عام پر حمل کرکے ہر وہ افراد مراد لے سکتے ہیں کہ جن میں اس کی خاصیت پائی جاتی ہے۔(2)
حضرت آیت اللہ بجنوردی نے قاعدہ احسان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: جب جنگ تبوک میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے مقرن کے تین فرزندوں نے جوتے مانگے توآنحضرتؐ کے پاس جوتے نہیں تھے اس وقت یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی:'' قل لااجدما احملکم علیه''آیت انہیں تین بندوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ہر ایک
...............................
(1)تبیان ج2)
(2)شناخت قرآن ص190
کے لئے ہر زمانے میں عبرت ہے، کیونکہ بہت ساری آیات کسی خاص مورد، اور فرد میں نازل ہوئی ہیں ، لیکن ہمارے مجتہدین اور فقہانے اس سے عموم اور شمول پر استدلال کئے ہیں۔(1)
سیوطی نے کتاب اتقان میں ابن تیمیہ کی بات کو نقل کرتے ہوئے فرمایا کہ ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو بھی آیات کسی خاص دور اور شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہیںوہ انہیں کے ساتھ مخصوص نہیں کرسکتے ہیں(2)
ابن تیمیہ اور اس جیسے دیگر افراد کا نام لینے کا مقصدیہ نہیں ہے کہ ان کا عقیدہ مذہب حقہ کے نزدیک بھی صحیح ہے بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ علوم قرآن کے مسائل میں سے بعض ،کسی خاص مذہب کے عقید ہ، اور اصول و ضوابط میں سے امامیہ، یا اہل حدیث ہونے کی حیثیت سے کوئی دخالت نہیں ہے بلکہ بحیثیت مسلمان ان سے بحث کی ہے۔
لہذا آیت کی شان نزول، طرفین کی نظر میں آیت کی تخصیص اور حکم کو اسی مورد کے ساتھ مخصوص کرنے کے لئے سبب نہیں بن سکتا ۔
.............................
(1)قواعد الفقہیہ ،ج4،،ص70)
(2)اتقان،ج1،ص11
شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہو سکتے :
تحریف قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے علماء اور محققین اور مکاتب فکر حضرات نے کہاہے کہ تحریف قرآن کے مسئلہ کو علوم قرآن کے مسائل میں مرکزیت حاصل ہے، لہذا تحریف قرآن کے موضوع پر ہی مکمل کتابیں تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ،لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریف قرآن کے اقسام اور اس کے بارے میں مکاتب فکر کے نظریات کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاء کروں گا۔
تحریف قرآن کو علماء اورمکاتب فکر نے تین قسمون میں تقسیم کیاہے :
1۔ تحریف زیادی۔
2۔ تحریف کمی۔
3۔ تحریف تبدیلی۔
الف: تحریف اضافی و زیادی: یعنی جو قرآن آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں موجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کریم میں سے نہیں ہیں بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیاہے، ایسی تحریف کے مسلمانوں میں سے فقط دو گروہ قائل ہوئے ہیں۔
1۔عجاردہ: یعنی وہ لوگ جو عبدالکریم عجرد کی پیروکار ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن کا جزء نہ تھا بلکہ بعد میں اضافہ کیا گیا ہے۔
2۔ابن مسعود کی طرف بھی اس تحریف کی نسبت دی گئی ہے کہ وہ معتقد ہے کہ سورہ معوذتین کو قرآن کا جزء نہیں سمجھتے ہیں۔
ایسے نظریے کو تمام مسلمان باالاتفاق باطل سمجھتے ہیں اور صحیح نہ ہونے کو ضروریات دین اسلام میں سے قرار دیتے ہیں۔
ب: تحریف کمی: یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں کچھ آیات یا کچھ الفاظ اس قرآن سے حذف اورکم کئے گئے ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کی گئی تھی۔
ایسی تحریف کے اہل تسنن کے کچھ علما ء قائل ہوئے ہیں جبکہ ہمارئے علماء کاموقف من البدوی الی الان یہ رہا ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں واقع نہیں ہوئی ہے۔
چنانچہ فضل بن شاذان کو امامیہ کے قرن سوم کے مصنفین اور علماء میں سے شمار کیا جاتاہے فرمایا قرآن کی کسی ایات اور الفاظ مین کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے بلکہ موجودہ قرآن عین وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا گیا ہے۔
استاد محترم الحاج دکتر محمدی کی دو جلد کتابیں تحریف قرآن کے بارے میں اور الحاج حضرت آیت اللہ جواد فاضل لنکرانی کا ایک تحقیقی مقالہ جس کا ترجمہ راقم الحروف کے ہاتھوں اردو میں ہو چکا ہے اور شناخت قرآن ص 77 جیسی گرانبہا کتابیں مزید معلوما ت کیلئے بہت زیادہ مناسب ہیں رجوع کیجیے۔
ج: تحریف جابجائی:یعنی کسی کلمہ اور لفظ میں یا ترکیبات اور اعراب میں تبدیل کا لانا ،ایسی تبدیلی واقع ہونے کے قائلین بہت ہیں، اور جن روایات سے بظاہر ایسی تحریف واقع ہونا سمجھ میں آتا ہے ان کو امامیہ کے مخالف دیگر فرق مسلمین سے منسوب کئے ہےں۔
3۔محمد بن علی بن بابویہ قمی جو شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیں اور جہان تشیع میں چوتھی صدی کے عظیم اورنامور عالم سمجھے جاتے ہیں، اپنی رسالہ الاعتقادات میں فرمایاہے۔
قرآن کے بارے میں شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ جو قر آن آج ہمارے پاس موجود ہے ، یہ ہو بہو وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) پرنازل کیا گیا تھا ، جس میں کوئی کمی اور اضافہ نہیں ہوا ہے،لہذاجو لوگ قرآن میں کمی اور پیشی واقع ہونے کا نظریہ ،امامیہ مذہب سے منسوب کرتے ہیں وہ جھوٹ ہے ۔
4۔ مرحوم علی بن الحسین موسوی جو سید مرتضی علم الہدی کے لقب سے معروف ہیں ،شیعہ امامیہ کے عظیم علماء و مجتہدین میں ایک ہیں ،انہوں نے فرمایا: جس طرح کائنات میں موجودات اورواقعات و حوادث کا رونما ہونا یقینی ہے اسی طرح قرآن مجید بھی ہم تک کسی قسم کی کمی اور بیشی کے بغیر پہونچنے پر یقینی ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کی حفاظت کے لئے مسلمانوں اور اصحاب کیلئے شدت کے ساتھ تاکید کے علاوہ بہت بڑا اہتمام بھی کیا تھا
اور سید مرتضی نے اپنی گفتگو کے آخر میں فرمایا ہے کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں اور جولوگ مذہب اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں ان میںسے فقط حشویہ ایسی تحریف کے قائل ہوئے ہیں جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے کیونکہ جتنی روایات سے ایسی تحریف کے ہونے پر استدلال کیا گیا ہے وہ تمام ضعیف السند ہیں۔ (1)
5۔ مرحوم شیخ الطائفہ نے فرمایا: قرآن میں ایسی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، اور جتنی روایات ایسی تحریف واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے و ہ تمام ضعیف السند ہے جس سے تحریف قرآن کو ثابت کرنا لا علمی کا نتیجہ ہے لہذا ہل تشیع کی نظر میں صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی کمی اور پیشی واقع نہیں ہے۔ (2)
6۔ مرحوم الحاج طبرسی عظیم مفسر قرآن نے فرمایا: قرآ ن میں اضافہ نہ ہونے پر امامیہ کا اجماع ہے لیکن کمی واقع ہونے پر اجماع تو نہیں ہے مگر صحیح نظریہ یہ ہے کہ جس طرح قرآ ن میں اضافہ نہیں ہوا ہے اسی طرح کمی بھی نہیں ہوئی ہے۔(3)
7۔ ابن طاووس نے کہا : شیعہ امامیہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں لہذا ان لوگوں پر تعجب ہے کہ جن کا عقیدہ یہ ہو کہ موجودہ قرآن وہی قرآن ہے جو حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ہی جمع آوری کا حکم دیا ہے اس کے باوجود آیات کی بارے میں اہل مکہ و بصرہ و کوفہ و مدینہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کریں اورکہتے ہیںکہ کچھ کی نظر میں بسم اللہ آیات میں سے ایک آیت نہیں ہے کسی کی نظر میں آیات میں سے ایک ہے جبکہ دوسری
.......................................
(1)مجمع لبیان ج1 ص15
(2)مقدمہ تفسیر تبیان
(3)مجمع البیان ج1 ص15
طرف سے تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں، یہ دو باتیں تضاد ہیں قابل جمع نہیں ہیں! (1)
8۔ مرحوم ملا محسن فیض کاشانی نے کہا جو روایات اور احادیث تحریف پر دلالت کرتی ہیں وہ در حقیقت کتاب الہی کے مخالف ہے ۔(2)
9۔ مرحوم شیخ بہائی نے کہا کہ ہمارے نزدیک صحیح نظریہ یہ ہے کہ قرآن میں کسی قسم کی تحریف واقع نہیں ہوئی ہے، لہذا جو لوگ آیت مبلّغ وغیرہ میں کچھ کلمات حذف ہونے کے قائل ہے و ہ نظریہ ہمارئے نزدیک صحیح نہیں ہے۔(3)
10۔ مرحوم شیخ محمد بن حسن صاحب و سایل الشیعہ نے کہا جو لوگ آئمہ معصومین (ع) سے منقول روایات اور احادیث کی تحقیق کرینگے تو اس کو علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن ہم تک تواتر کے ساتھ پہونچا ہے جس میں کسی قسم کی تحریف کا احتمال دینا غلط ہے۔( 4)
11۔ کاشف الغطاء کتاب اصل الشیعہ میں فرمایا قرآن میں کسی قسم کی تحریف اور کمی و بیشی واقع نہیں ہوئی ہے لہذا ایسا نظریہ جو تحریف واقع ہونے پر مشتمل ہے، اہل تشیع سے نسبت دینا بہتان اور جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔(5)
....................................
(1)سعد السعود ص 144
(2)تفسیر صافی،ج1 ص51
(3)الاء الرحمن ص26
(4)اظہار الحق،ج2،ص129(5)کشف الغطائ،ص299
مرحوم علامہ طباطبائی نے سورہ حجر کے آیہ 9 کی تفسیر میں فرمایا:(قرآن زندہ و حیات جاویدانی کا حامل ہے اس میں موت او ر فراموشی اضافہ اور کمی یا کسی قسم کی تبدیلی کی راہ ہی نہیں ہے)
ان کے علاوہ شیخ مفید کوجو قرن سوم ہجری کے علماء میں سے شمار کئے جاتے ہیں قاضی نوراللہ شوشتری، شہشہانی بلاغی ، شیخ انصاری دیگر اکثر علماء امامیہ ایسی تحریف نہ ہونے کے قائل ہو ئے ہیں کیونکہ شیعہ امامیہ کے عقیدے کی بنا پر ہرگز ایسی تحریف کے قائل نہیں ہو سکتے ، کیونکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن اور عترت اہلبیت دو ایسے مرجع اور ماوی ہیں جو اللہ کی طرف سے بشر کی نجات کا ذریعہ ہیں اگر قرآن جیسے مرجع و ماوی میں کمی اور اضافے ہونے کے قائل ہو جائیں تو'' انی تارک فی الثقلین کتاب الله و عتری ''کا عقیدہ غلط ہو جاتا ہے،و ہ قرآن انسان کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے؟ جس میں کمی اور اضافے کا احتمال دیا جاسکتاہے۔
لہذا سورہ حجر آیت 9 سورہ فصلت آیہ 41،12 سورہ بقرہ آیت 2 ،سورہ سجدہ ایت 32 ، حدیث ثقلین اور دیگر روایات متواترہ کے علاوہ عقل کی رو سے تحریف کمی و زیادی کے قائل نہیں ہو سکتے رجوع کیجئے۔(1)
.......................................
(1)شناخت قرآن ص78، حریم قرآن کا دفاع ص19، سعد السعود ص193، سلامت القرآن من التحریف،ج1 ص28، الذخیرہ فی علم الکتاب ص361)
البتہ ہم نے گذشتہ مباحث میں علماء اور محققین کے کلام کو نقل کرتے ہوئے تحریف کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:
1۔ تحریف کمی
2۔ تحریف زیادی
3۔ تحریف تبدیلی
جبکہ یہ تینوں قسمیں تحریف لفظی کے اقسام ہیں لہذا تحریف کو ابتدائی مرحلہ میں اس طرح تقسیم کرنا چاہیے کہ ایک تحریف معنوی دوسری تحریف لفظی اس کے اقسام کمی ،زیادتی ،تبدیلی ہیں۔
تحریف لفظی میں سے تحریف کمی و زیادی کے بارئے میں دلیل عقلی اور نقلی کی روشنی میں واضح ہواکہ اس کے قائل نہیں ہو سکتے ، لیکن تحریف تبدیلی یعنی آیات کے الفاظ اورسورے جابجا قرار دینا یا مختلف اعراب سے اس کی قرائت کرنا یہ یقینا واقع ہو ئی ہے ،لیکن یہ حقیقت میں تحریف نہیں ہے کیونکہ آئمہ معصومین نے ایسی قرائت کی تائید کی ہے اور ایسی تبدیلی میں فلسفہ نزول قرآن کے ساتھ کوئی ٹکراو بھی نہیں ہے۔
لہذا تحریف قرآن سے فقط تحریف کمی اور زیادی سمجھ میں آتی ہے کچھ علماء اور محققین نے تحقیق کے بغیر ایسی تحریف کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنا سوای بہتان اور جھوٹ کے کچھ نہیں ہے،کیونکہ ہمارے تمام علماء کا( چاہے متقدمین میں سے ہوں، یا متاخرین میں سے) عقیدہ یہ ہے کہ ایسی تحریف کے ہرگز قائل نہیں ہو سکتے ۔
چنانچہ بہت سے علماء کانام پہلے ذکر کیاگیا ان کے علاوہ افراد ذیل نے صاف لفظوں میں تحریف کے نظریہ کو باطل قرار دیاہے ، ابن ادریس ،کما ل الدین ،الکاشفی ،شیخ ابو الفیض، شیخ الاسلام ،محمد بن الحسین ، صدر الدین ، محمد بن ابراہیم الشیرازی، علامہ ، نورالدین محمد بن مرتضی ، محمد بن محمد رضا مشہدی، شیخ عبداللہ شبر، سیدحسین الکوہ کمری، محقق تبریزی، سید محمد مہدی میر محمدی، شیخ حسن زین الدین، حضرت امام خمینی رحمۃاللہ کے علاوہ اس دور کے علوم قرآن کے تمام محققین قرآن میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں رجوع کیجئے۔(1)
لیکن جو لوگ قرآ ن میں کمی واقع ہونے کے قائل ہیں ان کے کچھ استدلال ہیں جس کا خاکہ درجہ ذیل ہے:
1۔ اگر قرآن میں تحریف نہ ہوتی تو ابن مسعود اور ابی بن کعب کے مصحف میں اختلاف نہیں ہوناچاہیے تھا جبکہ ان کے مصاحف کے ساٹھ موارد میں اختلاف ہے۔
2۔ اگر کسی چیز کے اجزاء متفرق اورمختلف ہوں اور اس کی جمع آوری ابو بکر کے زمان میں وقع ہوئی تو اسکا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی جزء اور حصے میں کمی اور تبدیلی آچکی ہوگی۔
3۔ حضرت علی (ع) کا قوم سے بایکاٹ کرکے قرآن کی جمع آوری کیلئے سینہ بہ تن ہونا اس بات
..........................................
(1) سلامت القران من التحریف ج1 ص30، تہذیب الاصول ج2 ص1562، معالم الاصول ص 147، الفصول المہمہ ، ص166)
کی دلیل ہے کہ قرآ ن میں تحریف ہوئی ہے۔
4۔ بہت ساری روایات کامضمون ایسا ہے کہ گذشتہ امتوں کے ہو بہو وقائع اور حوادث اس امت میں بھی رونماہوگئے ، یہ تحریف واقع ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
5۔ احادیث اور روایات اہل سنت او رشیعہ امامیہ کے اسناد سے کثیر تعداد میں نقل کیا گیا ہے،جن سے تحریف قرآن سمجھ میںآتا ہے ۔
حتی بعض محدثین نے ایک ہزار ایک سو بائیس احادیث بتائی ہیں، جس کا مضمون قرآن میں کمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے اسی لئے بعض علماء ،تحریف پر دلالت کرنے والی احادیث میں تواتر اجمالی کے قائل ہوئے ہیں۔
لیکن تواتر اجمالی کا دعوی ایسا دعوی ہے جس پر کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے شاید تواتر اجمالی کا دعوی احادیث کی تعداد زیادہ نظر آنے کی وجہ سے کی ہو جبکہ ان روایات کے سند سے چشم پوشی کرکے مضمون کو کڑی نظر سے غور کریں تو ان کا مضمون مطالب ذیل پر مشتمل ہوتے ہوئے نظر آتا ہے۔
الف: کچھ روایات قرآن میں لحن اور دیگر لہجے کے حوالے سے مختلف اور متعدد ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
ب: کچھ دستہ روایات قرآن میں کوئی کلمہ اضافہ یا حذف یاتبدیل ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
ج: بعضی روایات موجودہ قرآن میں کچھ سورتیں اور آیات اضافہ ہونے کی خبر دیتی ہیں۔
د: کچھ روایات قرآن کی بعض آیات شیطان(نعوذ باللہ) کے القااات میں ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
ر: کچھ روایات قرآن میں تحریف اورکمی واقع ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
ھ: کچھ روایات بعض کلمات اور الفاظ قرآن میں، زمانے کے حکمرانوں نے تبدیل لانے کی خبر دیتی ہے ۔
جبکہ محققین نے تواتر کو فقط دو قسموں میں تقسیم کیا ہے:
1۔ لفظی۔
2۔معنوی۔
صرف مرحوم آخوند خراسانی اور ان کے بعد والے محققین نے تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:(1) تواتر لفظی
(2) تواتر معنوی
(3) تواتر اجمالی
اور مرحوم آقای نائینی نے مرحوم آخوند خراسانی کو جواب دیتے ہوئے فرمایا:
....................................
(1)فضائل قرآن،ص161، تذکرہ الحفاظ ص417
تواتر کو تین قسموں میں تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ تواتر اجمالی وہی تواتر معنوی ہے اس کے مقابل کوئی تیسری قسم نہیں ہے، لہذا پہلا جواب یہ ہے کہ تواتر اجمالی کا نظریہ علماء متاخرین کے ایک گروہ کا نظریہ ہے ۔
ثانیا: اگر تواتر اجمالی کا نظریہ قبول بھی کریںتو روایات کے مضامین ایک مطلب کی طرف اشارہ نہیں کرتی ہیں بلکہ روایات کچھ مختلف ومتباین مطالب کی طرف اشارہ کرتی ہیں جبکہ تواتر اجمالی اس کو کہا جاتاہے جو بہت ساری رویات الفاظ اور تعابیر کے حوالے سے مختلف ہوں، لیکن تمام کے تمام ایک ہی مطلب کی طرف اشارہ کریں۔
لہذا ایسی روایات میں تواتر کا دعوی کرنا نا انصافی کے سوا کچھ نہیں ہے، جب ہم نے تواتر کے دعوے کو باطل قرار دیا تو ایسی روایات خبر احاد بن جاتی ہیں جس کو کسی مسئلہ پر دلیل قرار دینے میں شرایط ذیل لازم ہیں:
1 ۔ سند کے حوالے سے تمام روات موثق ہوں۔
2۔ صدور کے حوالے سے تقیہ وغیرہ کا احتمال نہ ہو۔
3۔ مضمون کے حوالے سے کوئی اشکال اورخلاف عقل وقرآن نہ ہو۔
جبکہ مذکورہ روایات میں سے کسی ایک کی سند علم رجال کے اصول و ضوابط کے مطابق معتبر نہ ہونے کے باوجود مضمون کے حوالے سے روایات صحیح السند اور نص قرآن کریم اور عقل کے مخالف ہے۔
لہذا ایسی روایات کو معصومین کے دستور کے مطابق دور پھینکنا چاہیے اور ایسی روایات کی بنا پر تحریف قرآن کے قائلین کو چاہیے علم اصول علم الرجال ،فقہ الحدیث، فقہ اللغۃ، اور دیگر بنیادی تعلیمات اسلامی کو بخوبی یاد کریں، فقط ایک دو اصطلاح یاد کرکے پورے مسلمانوں کے ضمیر کو مجروح کرنا دور حاضر کی تحقیقات کے منافی ہونے کے علاوہ بہت ہی نا انصافی ہے،اور انکے باقی ادلے قابل جواب نہیں ہے لہذا ہزاروں شیعہ امامیہ اور اہل سنت کے محققین عربی ، فارسی ، انگلش، اردو ،اور دیگر زبانوں پر قرآن میں تحریف نہ ہونے کے موضوع پر تحقیقی مقالات اور کتابیں لکھی ہیںرجوع کریں۔ (1)
چنانچہ ذکر کیاگیا کہ تحریف کو محققین نے دو قسموں میں تقسیم کیاہے:
الف۔ تحریف لفظی :کہ اس کی وضاحت سے ہم فارغ ہوگئے۔
ب۔ تحریف معنوی:
یعنی کسی لفظ اور آیت سے ایسا معنی ارادہ کرنا جو اہل زبان اور عربی دان کی نظر میں معمول اور رائج نہیں ہے،چاہے اس کا سبب کمی ہو، یا اضافی ، یا مخصوص جگے کا
تبادلہ اور دیگر عوامل اور اسباب ہوں۔
.........................................
(1)فضائل القرآن ص161، سلامت القرآن من التحریف،ج1ص103، تذکرۃ الحفاظ،ص417، محاضرات الادباء ،ج2،ص435، البیان فی تفسیر القرآن،ج1،ص211)
تحریف معنوی کی ایسی تعریف میں ہر وہ تفاسیر بھی شامل ہیں جو بظاہر کلام کے ظہور سے ہماہنگ نہیں ہے۔
لہذا علوم قرآن کے ماہرین نے تفاسیر قرآن کو دو قسموں میں تقسیم کیاہے:
الف: تفسیر بالرّای ب: تفسیر غیر بالراّی
یعنی آیات کو مفسر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق تفسیر کرنا چاہے تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط کے ہماہنگ اور موافق ہو یا مخالف جیسے اس دور میں بہت سے لوگ کسی اصول و ضوابط کے بغیر سامعین کو قائل کرنے کی خاطریا مقالہ نویسی مقالے کی تزین کے واسطے آیات کا ایک ٹکڑا یاایک جملہ جو آیت کے ابتدا اور انتہا سے ہٹ کر فقط ایسے جملے کو بیان کرتا ہے جوبظاہر خطیب اور مقالہ نویس کے اہداف کے مطابق نظر آتا ہے ،جبکہ اس جملے کے آغاز اورانتہاء کو لایاجائے توآیت کا معنی اور مفہوم کچھ اورنظر آتاہے لہذا آیات قرآنی کو تفسیر کرنے کیلئے پوری آیات پر احاطہ علمی ہونے کے علاوہ شان نزول اور اس کی تفسیر کے بارے میں آئمہ سے منقول روایات اور صاحب نظر حضرات کی تفسیر کامطالعہ کرنے کے بعد تفسیرکرنا چاہیے۔
تفسیر بالرای کو حکم شرعی کی رو سے دو قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
(1)تفسیر بالراّی جایز
(2) تفسیر بالراّی غیر جائز
اگر کوئی شخص برسوں سال آیات عظام کے سامنے زانو ے ادب تہہ کرتے ہوئے حوزہ میں تعلیمات اسلامی کے حصول کیلئے پوری ایک عمر تلمذ کرتے ہوئے تفسیر کے ماہرین سے تفسیر کے اصول و ضوابط لے چکے ہو ںتو اس کی روشنی میں آیات کی تفسیر اپنے آرای حدسیہ کے مطابق بیان کریں، تو ایسی تفسیر بلا اشکال جائز ہے،جیسے علامہ طباطبائی، طبرسی، آیت اللہ خوئی، صدر المتالہین، حضرت استاد محترم عارف زمان زہد و تقوی کا مجسم مفسر قرآن آیۃاللہ جوادی آملی ،فیض کاشانی،عبد اللہ شبر،حضرت استاد آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ، حضرت حجۃالاسلام قرائتی صاحب تفسیر الفرقان کہ انہیں حضرات نے سالوں سال حضرات آیات عظام کی شاگردی اور تلمذ کرنے کے بعد اپنے آرای حدسیہ اور اجتہاد کے مطابق تفسیر کرنے کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے، لیکن ایسی تفسیر ان روایات اور احادیث کے دائرہ سے خارج ہے جو تفسیر بالرای کی حرمت اور مذمت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ یہ لوگ صاحب نظر ہیں تمام تعلیمات اسلامی کے اصول و ضوابط سے آگاہ ہیں، فقہ اللغہ، فقہ الحدیث ، فلسفہ اور منطق علم اصول اور فقہ کے قواعد و ضوابط روایات اور آیات کی روشنی میں اپنا نظریہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسے مفسرین کی نہ فقط مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی اخلاقی اور دینی فرائض میں سے اہم ترین فریضہ ہے کہ قرآن کریم جو اللہ کی طرف سے بشر کی ہدایت کے لئے آیا ہے، اس کی اس طرح تفسیر کریں تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور ہدایت پائیں، کیونکہ قرآن ہدایت کی خاطر آیا ہے، اس کا افہام اور تفہیم کرنا ہر دور میں فرض ہے،جو تفسیر کے بغیر ناممکن ہے ۔
تفسیر بالرّای غیر مجاز: یعنی قرآن کے الفاظ اور آیات کی اس طرح تفسیر کرنا جو اپنے خیالات اور گما ن کے مطابق ہے، جس پر کوئی دلیل عقلی اور نقلی موجود نہیں ہے خود اسلامی تعلیمات کے حوالہ سے صاحب نظر بھی نہیں ہے، ایسی تفسیر کے جواز اور حرمت کے بارے میں دو نظریے ہیں۔
1۔ ایسی تفسیر حرام ہے کیونکہ سورہ اعراف آیت 23 اور سورہ بقرہ آیت 169 اور سورہ اسراء آیت 36 کی روشنی میں کسی بات اور نظریہ کو علم و یقین اور دلیل کے بغیر فقط خیالات اور گمانوں کی بناء پر پیش کرناحرام ہے کہ جس کی مذمت اور حرمت آیات قرآنی کے علاوہ روایات صحیح السند اور معتبرہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے . رجوع کیجئے۔(1)''لہذا من فسر القرآن برایہ فلیتبواء مقعدہ فی النار'' سے مراد ایسی تفسیر ہے۔
اور ہمارے دور میں بغیر پڑھے اور دینی مراکز میں تربیت علمی اور اخلاقی پائے بغیر فقط اسکولز اور کالج یا یونیورسٹی یا بغیر پڑھے لکھے مقررین کی کیسٹوں سے یاد کرکے تفسیر کرنے والے مقررین اور مقالہ نویس حضرات کی تفسیر جو معمولا بغیر اصول وضوابط کی تفسیرہوتی ہے، اس تفسیر کے زمرے میں داخل ہے ایسی تفسیرنہ فقط مذہب تشیع کی توہین کا
.......................................
(1)اصول کافی ،باب الاالرّی والمقاییس ، اصول کی مفصل کتابیں جیسے رسائل شیخ بحث ظواہر وغیرہ۔
باعث اور شریعت میں حرام ہے بلکہ سیدھا سادہ ایمان رکھنے والے مسلمانوں کو لوٹنے کا ذریعہ بھی ہے، تاریخ اسلام میں ایسے مفسرین کا نام بھرا ہوا ہے۔
چنانچہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے ایسے مفسرین کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
''من فسّر القرآن برایه ان اصاب لم یؤجر و ان اخطاء فلیتبوا مقعده من النار ''
''اگر کوئی شخص اپنے خیال کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے اگرچہ واقع کے مطابق بھی ہو پھر بھی کوئی ثواب نہیں دیا جاتا ہے لیکن اگر واقع کے خلاف آئے تو اس کو جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔(1)
کیونکہ شیعہ امامیہ کے مفسرین نے ہر دور میں تفسیر قرآن کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور حضرت امام صادق کے علاوہ دیگر آئمہ کے کلام کی رو سے کیاہے ،نہ اپنا خیال اور گمان چونکہ آئمہ نے بارہا فرمایا:'' نحن مفسروا القرآن'''' ہم سے ہی قرآن کے بارے میں سوال کرو،ہم ہی قرآن کے مفسر ہیں،نیز دور حاضر میں کچھ لوگ خطیب زمان مثالی مقرر کی حیثیت سے یاپروفیسرز یا ڈاکٹر ز یا ماسٹرز اور ٹیچرز کی سند لیکر دینی مراکز اور حوزہ علمیہ میں تربیت پائے بغیر اور تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط یاد کئے بغیر قرآن کی تفسیر میں سرگرم
...........................................
(1)بحار الانوار،ج92،ص11)
ہیں ایسے لوگوں کی دو قسمیں ہیں:
1۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طرح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریے کو نقل کرتے ہیں نہ اپنا خیال اور گمان ، اس میں نہ کوئی مذمت ہے اور نہ حرام ، کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ تربیت یافتہ مفسرین اور مجتہدین کے نظریہ کو نقل کرنا تفسیر بالرّای نہیں ہے۔
2۔ ایسے لوگوں میں کچھ اس طر ح کے ہیں کہ وہ دوسرے مفسرین کے نظریہ سے ہٹ کر اپنے خیال کے مطابق آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایسے لوگ نہ فقط مفسر نہیں ہیں بلکہ مذہب اورکتاب و سنت کی توہین کے مترادف ہے، بیشک وہ پڑھے لکھے ہونے کی حیثیت سے قابل احترام ہیں،لیکن تفسیر قرآن کرنا ان کا کام نہیں ہے ، لہذا جو لوگ تعلیمات اسلامی کے بنیادی اصول و ضوابط کو سکھائے بغیرفقط پڑھے اور لکھے ہونے کی حیثیت سے قرآن کی تفسیر کریں تو کتاب و سنت کی توہین کا باعث ہے ، جسکی سزا ہماری فقہی کتابوں میں بحث حدود و التعزیرات میں مجتہدین نے مفصل بیان کی ہے، رجوع کیجئے۔(1)
نیز ایسی تفسیر کی مذمت اور حرمت پر اہل السنت کے محدثین اور محققین نے اپنی کتابوں میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)سے متعدد روایات کو نقل کی ہے، رجوع کیجئے.(2)
..........................................
(1)شرایع الاسلام ج2کتاب حدود و التعزیرات، مسالک ج7 کتاب حدود و التعزیرات، وسائل الشیعہ ج18، مراجع وقت کے رسالہ عملیہ وغیرہ )
(2)سنن ترمذی، سنن بیہقی، صحیح بخاری، صحیح مسلم)
2۔ تفسیر بالراّی کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر تفسیر جایز ہے چاہے تفسیر کے بنیادی اصول و ضوابط اور شرایط کے مطابق ہویا نہ ہو بلکہ اپنے خیالات اور رای حدسیہ و اجتہاد کے مطابق ہو،پھر بھی جائز ہے ، کیونکہ اللہ نے سورہ محمد آیت 24 میں سورہ ص آیت 29 میں قرآن کے بارے میں تدبیر و تفکر کرنے کا حکم دیا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اپنے اجتہاد اور خیالات کے مطابق بھی قرآن کی تفسیر کرنا چاہئے۔
لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اللہ نے قرآن کو انسان کی ہدایت اور نجات کےلئے نازل کیا۔ جو سیکھنے کی صورت میں ہر انسان چاہے ذہن کے حوالہ سے ذہین ہو یا نہ ہو سمجھ سکتے ہیں،نیز ہر اہل زبان آیات محکم کو بخوبی سمجھ سکتا ہے جس کو سمجھنے کے لئے اجتہاد اور اخبار حدسیہ خیالات پردازی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ پورے قرآن میں تین مطلب کی اشارہ کیا گیا ہے:
(الف)اخلاقیات (ب)اعتقادات (ج) احکامات۔
انہی میں سے فقط ان آیات میں اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے جو احکام شریعہ کو بیان کرتی ہیں، وہ بھی قرآن میں بہت محدود ہیں کہ جن پر مجتہدین نے آیات الاحکام کے نام پر کتابیں لکھی ہیں جس میں فقط پانچ سو آیات بیا ن ہوئی ہیں ان میں بیشک اجتہاد کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا اجتہاد ساٹھ سال اسلامی تعلیمات حاصل کرنے، سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کے بعد دلیل شرعی اور عقلی کی روشنی میں ہوتاہے نہ گمان اور خیالات اور استحسان و قیاس کی رو سے ایسا اجتہاد نہ فقط جائز ہے ،بلکہ بہت سے مجتہدین کی نظر میں ایسا اجتہاد واجب کفائی ہے، کچھ دیگر مجتہدین کی نظر میں واجب عینی ہے،چنانچہ حضرت آیت اللہ مرحوم نائینی کی نظر میں احکامات میں قدرت اور استطاعت کی صورت میں اجتہاد کرنا واجب عینی ہے، نیز جن آیات میں قرآن کے متعلق تدبر اور تفکر کرنے کا حکم دیا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کریں . اور جو بھی اچھا سمجھیں اللہ سے منسوب کریں بلکہ آیات قرآنی میں تدبر اور تفکر کا مقصد یہ ہے کہ قرآن دیگر کتب کی مانند نہیں ہے، جو ظاہری عبارات اور الفاظ کو پڑھیں اور فورا حکم کریں ، لہذا حقیقت میں کڑی نظر سے غور کریں تو آیات تدبر و تفکر سے تفسیر بالرّای کا جائز نہ ہونا سمجھا جاتا ہے نہ جائزہونا۔
(2)ان کی دوسری دلیل :یہ ہے کہ اگر تفسیر بالرّای جائز نہ ہوتو احکام کو تعطیل کرنا لازم آتا ہے کیونکہ آیات کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں احکام مجہول رہ جاتے ہیں جس سے انسان احکام الہی کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اس دلیل کا جواب علوم قرآن کے ماہرین نے اس طرح دیا ہے کہ تمام علما اور بہت سے مجتہدین کا عقیدہ یہ ہے کہ باب اجتہاد زمان غیبت میں مفتوح ہے مجتہدین کا نظریہ زمان غیبت میں مقلدین پر حجت اور واجب العمل ہے،
چاہے ان کا نظریہ واقع کے مطابق آئے یا نہ آئے واقع کے مطابق آنے کی صورت میں دو ثواب دیا جاتا ہے جبکہ خطا اور اشتباہ کی صورت میں اس پر عقاب نہیں کیا جاتا ہے لہذا احکام پر عمل کرنے کیلئے تفسیر بالرای کرنے کی ضرورت غلط ہے کیونکہ احکام کو انجام دینے میں مجتہدین کے فتوی کی ضرورت ہے نہ اینکہ خیالات اور گمان کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی ضرورت (1)
ایسی تفسیر کے قائلین نے بہت سی احادیث اور روایات کو نقل کیاہے جوآیات کی تفسیر میں اصحاب کے درمیان اختلاف ہونے کو بیان کرتی ہے ، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اصحاب قرآن کی تفسیر اپنے اجتہاد اور آراء حدسیہ کے مطابق کرتے تھے ورنہ اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا ، لہذا اصحاب میں سے کوئی ناروا تفسیر کرتا تو دوسرے اصحاب اس کو شدت سے منع کرتے تھے، نیز ہم جانتے ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی(2)
لیکن اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ ایسی دلیل دو مطلب پر مشتمل ہے :
1) اصحاب تفسیر کرتے تھے اور اس میں اختلاف بھی ہو چکا تھا۔
2) حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے پورے قرآن کی تفسیر نہیں کی تھی۔
اصحاب کا تفسیر کرنا اور اس میں اختلاف ہونے کا لازمہ تفسیر بارای کا جواز نہیں ہے ،کیونکہ
.............................................
(1)شناخت قرآن،ص206
(2)شناخت قرآن، ص207
ان کا اختلاف دو قسم کا ہے:
الف: اختلاف عملی ۔
ب: اختلاف استعماری۔
بسا اوقات علماء کے درمیان اختلاف ہونے کا سبب زمانے کے ظالم حکمرانی کی پالیسی ہے جس کی بنا اگر کوئی تفسیر کرے یا کوئی بات اسلام سے منسوب کرے تو وہ یقینا قابل مذمت اور ممنوع ہے۔
لیکن بسا اوقات اختلاف کا سبب محققین اور مفسرین کا فہم و درک ہے اس کے بارئے میں چنانچہ پہلے بھی بیان کیا گیا اگر کوئی شخص اپنے اجتہاد کے مطابق علمی اصول و ضوابط کی روشنی میں برسوں سال مجتہدین کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد تفسیر کرے تو اس کے جواز میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کیونکہ یہ تفسیر بالرای جائز ہے، ایسی تفسیر تفسیربالرای غیر مجاز میں شامل نہیں ہے، لیکن اگر کسی نے تفسیر اپنے بالرای اور اجتہاد کی روشنی میں بغیر کسی اصول و ضوابط اور حوزہ علمیہ میں سالوں سال تلمذ کئے بغیر حزبی اور سیاسی اورمادی اہداف کے حصول کی خاطر خیالات اور گمان کی بنا پر تفسیر کی توایسی تفسیر غیر مجاز ہے، اور تفسیر بالرای حرام ہے لہذا شاید اصحاب کی تفسیر میں اختلاف ہونے کا سبب علمی اصول و ضوابط ہو نہ خیالات اور سست!۔
اور ان کے دوسرے مطلب کا جواب یہ ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے ٹھیک ہے تمام قرآن کی تفسیر نہیںکی ، لیکن تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط کو یقینا بیان کیاہے، اور جو لوگ مکتب جعفری سے منسلک ہیں ان کی نظر میں حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر اور امام جعفر صادق کی تفسیر میں ان کے عقیدہ کی بنا پر کوئی فرق نہیں ہے، لہذا جو اہل بیت کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا جانشین نہیں مانتے ان کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی تفسیر نہ کرنے کی صورت میں اصحاب کی تفسیر اور نظریہ کی توجیہ اور توضیح کرنی پڑتی ہے۔
حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے کچھ اصحاب کے حق میں دعا کی ہے:'' اللهم فقّه فی الدین و علمه التاویل'' (1)
''پالنے والے ابن عباس کو دین میں سمجھ دار بنائے اور تاویل کو سمجھائے''
حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے اس جملہ دعائیہ میں تاویل سے مراد اپنے نظریہ کے مطابق تفسیر کرنااور توضیح دیناہے لہذا تفسیر بالرای جائز ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس جملے کوکسی ایسے اصحاب کی شان اور حق میں فرماتے جو تفسیر کے اصول و ضوابط سے واقف نہ تھے یا حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں زانوے تلمذ نہ کرنے والے اصحاب ہوتے تو ایسا احتمال دیا جاسکتا تھا۔
...........................................................................................
(1)شناخت قرآن ص207
جبکہ ابن عباس تاریخ اسلام میں مفسر اور قاری قرآن کے لقب سے معروف ہیں، ثانیا جملہ دعائیہ سے اس مطلب کو ثابت کرنا نا انصافی کے علاوہ کچھ نہیں ہے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے اللہ سے دعا کی پالنے والے ان کو تاویل قرآن سے نوازے، تاویل قرآن اور تفسیر قرآن میں زمین و آسمان کا فرق ہے انشاء اللہ بعد میں ان کا فرق بھی بیان کرینگے، لغۃ اور اصطلاح کے حوالے سے دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ، ان کے درمیان عام و خاص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے لہذا اسے تفسیر بالرای کا جواز ثابت کرنا اسلامی تعلیمات کے اصول و ضوابط سے آگاہ نہ ہونے کا مترادف ہے۔
ابی جحیفہ سے بخاری نے صحیح بخاری باب جہل میں روایت کی ہے کہ ابی جحیفہ نے کہا میں نے حضرت علی (ع) سے پوچھا کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی ہے ؟ اما م علی (ع) نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شکافت کیا اور نطفہ سے انسان بنایا، ہم سوی قرآن جو اللہ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) پر نازل کیا نہیں جانتے ، اس روایت کا جواب یہ ہے کہ تفسیر بالرای کے قائلین نے اس روایت کے کس جملے سے استدلال کیاہے، معلوم نہیں ہے کیا قرآن کے علاوہ کوئی وحی نہ ہونے کا لازمہ قرآن میںتفسیر بالرّای کا جواز ہے؟ کیا امام علی جیسے اصحاب کے فہم و درک کو تفسیر بالراّی کہا جاتا ہے؟
اگر اس کو تفسیر بالرای کہا جائے تو اول و دوم کے فہم و دردک کو کیا کہناچاہیے؟ جو قیاس اور استحسان کو رواج دینے میں پیشا پیش تھے، انہیں لوگوں نے اپنی بات کی تائید کے لئے غزالی کی بات کو نقل کیاہے، غزالی نے کہا، تاویل قرآن میں سماع کی شرط قرار دینا غلط ہے بلکہ ہر ایک کو اپنے فہم و درک کے اعتبار سے قرآن سے استنباط کرنا چاہیے. (1)
لیکن اس تائید کا جواب یہ ہے کہ غزالی کی کیا حیثیت ہے کہ اس کی بات کو تفسیر بالرای کے جواز کو ثابت کرنے کے لئے تائید قرار دیں کیا وہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے جانشین ہیں کیا وہ صحابی رسول (ص)خدا ہیں ،کیا وہ تابعین میں سے ہیں، ایسے افراد تاریخ میں بہت ہیں جو اجتہاد درمقابل نص کے شکار ہوئے ہیںکہ جس کو تمام مسلمانوں کے عقیدہ کی بنا پر حرام سمجھا جاتا ہے رجوع کیجئے۔(2)
لہذا کوئی ٹھوس دلیل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ تفسیر بالرای جو کسی اصول وضوابط کے بغیر خطیب یا مفکر کی حیثیت سے بغیر کسی تحقیق اور تحصیل علوم دینی کے فقط مادی اہداف اوراغراض ومقاصد کی بنا پر کرنا حرام ہے جس کو شریعت اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے''من فسّر القرآن برایہ فیتبوا مقعدہ فی النار''(3)
''اگر کوئی بغیر کسی اصول و ضوابط کے اپنے خیالات کے مطابق قرآن کی تفسیر کرے تو اس کی جایگاہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے''
......................................
(1)احیاء العلوم،ص181)
(2)مقدمہ مراۃ العقول ج1 علامہ عسکری)
(3)شناخت قرآن ص209ا
تفسیر قرآن کرنے کے لئے برسوں سال تعلیمات اسلامی کی تحصیل کرنے کی ضرورت ہے ، آئمہ معصومین (ع) نے آیات کی کیسی تفسیر کی ہے اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
علامہ طباطبائی، صدر المتالہین، مرحوم حضرت ایت اللہ خوئی، فیض کاشانی، وغیرہ جیسے افراد کی نظر کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، یعنی تفسیر قرآن کرنے کے لئے ،سولہ موضوعات پر صاحب نظر ہونے کی ضرورت ہے ایک دو کیسٹوں یا روزناموں کا مطالعہ کرنے سے مفسر قرآن نہیں بن سکتا ہے ، ایسی تفسیر سننا اور کرنا دونوں حرام ہے۔
اگرچہ حکم واقعی اور مقصود الہی کے مطابق بھی آئے کیونکہ ایسی تفسیر خیالات اور قیاس و گمان اور استحسان کی روشنی میں کی گئی ہے کہ جس کو شریعت میں منع کیا گیا ہے، چاہے ڈاکٹر اور پروفیسر ہوں یا نہ، چنانچہ ہمارے دور میں اسلام اور کتاب و سنت کی نابودی کے لئے ایسے مفسرین کو استعمار کی مدد اور تعاون سے ذرائع ابلاغ اور جریدوں میں مشہور کیا جارہا ہے تاکہ اپنے اہداف کے حصول کے وقت کام آئے۔
زمانے کی تیز رفتاری اور حالات کی تبدیلی کے پیش نظر ضروری ہے کہ قرآن کریم کو ہر زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کے مطابق تفسیر کریں، تاکہ قرآن کے فیوضات اور کلام الہی سے ہر ایک بہرہ مند ہو سکے لیکن تفسیر قرآن کے لئے چنانچہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے مکمل ایک اصول و ضوابط کا ہونا ضروری ہے ،جس کے بغیر کی ہوئی تفسیر کو تفسیر بالرای کہا جاتا ہے،جس کو شریعت اسلام میں ممنوع قرار دیا ہے، لہذا تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط میں سے اہم ترین اصول و ضوابط تفسیر کا ماخذ اور مصادر کہا جاتا ہے جن سے آگاہ ہونا لازم اور ضروری ہے اس کا خلاصہ درجہ ذیل ہے۔
1) قرآن کی تفسیر قرآن کی رو سے۔
2)قرآن کی تفسیر سنت کی رو سے۔
3) قرآن کی تفسیر عقل کی رو سے۔
اگر کوئی عالم با عمل قرآن کی تفسیر کرنا چاہے تو اسے چاہیے آیات کی تفسیر کا سرچشمہ قرآن اور عقل و سنت قرار دے اور ان تینوں کی روشنی میں تفسیر کرنا بھی فلسفہ، منطق اور ادبیات کے علاوہ دیگر مقدماتی علوم کوصحیح طریقے سے سیکھنے اوریاد کرنے پر متوقف ہے یعنی قرآن کی تفسیر کے لئے ان علوم کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو ایک مجتہد کے لئے سیکھنا لازم ہے، اور انشاء اللہ بعد میں ان علوم کا نام بھی ذکر کرینگے۔
لہذا دور حاضر میں حوزہ علمیہ کے حالات اور دینی مدارس اور طالب علموں کے حالات کے پیش نظر مفسر قرآن اور مجتہد اعلم کا پیدا کرنا بہت مشکل ہے جب کہ ہر دور میں علماء اورمحققین نے زمانے کے تمام خرافات اور اعتراضات سے اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے آئے ہیں،شاید اس کی وجہ ہماری کوتاہی اور سستی کے علاوہ کچھ نہ ہو لہذا قارئین محترم سے بیداری غفلت اور کو تاہی سے دوری کی درخواست کرتا ہے، تاکہ مذہب اور اسلام پر آنے والے بے بنیاد اعتراضات اور خرافات سے مذہب اور اسلام کو بچا سکے، چنانچہ مرحوم علامہ طباطبائی جیسے علماء بھی تاریخ تشیع میں ناشناختہ گذرے ہیں کہ برسوں سال فکر اور زحمت اٹھانے کے بعد تفسیر قرآن لکھنا سب سے زیادہ اہم قرار دیا،اور فرمایا ہر سال قرآن کی جدید سے جدید تفسیر کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ لوگ قرآن کو سمجھیں اور خرافات و توہمات سے عقائداسلام اورمذہب کی حفاظت کر سکیں۔
قرآن واحد کتاب ہے جو اہل زبان بھی عام و عادی کلام کی طرح سنتے ہیں لیکن نہیں سمجھ سکتے ہیں اسی سے تفسیر قرآن کی اہمیت کا اندازہ بخوبی کرسکتے ہیں تفسیر قرآن کرنے کے لئے اس کو سمجھنے کی خاطرکئی علوم پر مہارت حاصل کرنے کے علاوہ تفسیر کرنے کی مخصوص نہج اور روش سے بھی بخوبی اگاہ ہونے کی ضرورت ہے لہذا وہ علوم جو مفسر قرآن کے لئے سیکھنااوریاد کرنالازم ہے وہ درجہ ذیل ہیں:
1)علم لغت
2)علم صرف
3)علم اشتقاق
4)علم نحو و اعراب
5)علم معانی بیان
6) علم قرائت
7) علم کلام و اصول عقائد
8) علم اصول الفقہ
9)علم اسباب نزول
10) علم روایات
11) علم تاریخ
12) فقہی مسائل کہ جن کاتذکرہ قرآن میں ہوا ہے اس پر بھی علم ہونا چاہے ، ان تما م علوم کو سیکھنے کے بعد تفسیر قرآن کے لئے اہم ترین شرط خلوص نیت ہے ، خلوص نیت کے بغیر تفسیرقرآن ناقص رہے گی، کیونکہ ہر وہ کام جو خلوص نیت سے انجام پاتا ہے وہ یقینا اللہ تبارک و تعالی کی نظر میں قابل قبول ہے۔
ہم تفسیر قران کے حوالے سے زمانے کو تین قسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
1)زمان معصومین ۔
2) زمان اصحاب۔
3) زمان تابعین و ما بعد الی زماننا ہذا۔
معصومین کے دور میں قرآن کے متعلق دو بنیادی کا م انجام پائے تھے:
الف) قرآن کریم کو جس طرح اللہ کی طرف سے نازل ہوا تھا اسی طرح عین وہی الفاظ اور کلمات کسی قسم کی کمی کے بغیر لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا۔
ب) اس زمانے کے لوگوں کے فہم و درک کی حیثیت سے لوگوں کو حقائق قرآ ن سے با خبر کرنا
لہذا خود قرآن کریم صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے . کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) قرآن کریم کے سب سے پہلے مفسر ہیں''سورہ نحل آیت 44 میں اس طرح کی تفسیر موجود ہے ''و النزلنا الیک الذکر لتبین للناس''اس مطلب کو ثابت کرنے کی خاطر قرآن کریم کے ماہرین اور محققین نے اپنی گرانبہا کتابوں میں بہت ساری احادیث اور آیات کی طرف اشارہ فرمایا ہے رجوع کرسکتے ہیں۔(1)
ابن خلدون کا کہنا ہے کہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس کی فصاحت و بلاغت اور مفردات کے معانی لغوی سے ہر اہل زبان با خبر تھے لیکن جملے اور حقایق قرآن اور ناسخ و منسوخ اوردیگر مسائل کے حوالے سے قرآن ہر کس و ناکس کے فہم و درک سے بالاتر تھا لہذا حضرت پیغمبر اکرم (ص) لوگوں کو ایسے مطالب اور آیت کی حقیقت کی تفسیر کرتے تھے۔
عین اسی طرح کی باتیںا بو الفتوح رازی سیوطی وغیرہ نے بھی کی ہیں،رجوع کریں۔
......................................
(1)روض الجنان،ج1،ابو الفتوح رازی، الاتقان ج2، جلال الدین سیوطی، ابن خلدون مقدمہ، طبرسی مجمع البیان،ج1۔
حتی بعضی احادیث میں اس طرح کے الفاظ موجود ہیں کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے نہ فقط لوگوں کو قرآن کی تفسیر سے آگاہ فرمایا بلکہ ہر آیت کی تفسیر کرنے کے ساتھ ساتھ تفسیر قرآن کے اصول و ضوابط اور نہج و روش کی طرف بھی لوگوں کے ذہنوں کومبذول فرمایا تاکہ لوگوں کو تفسیر بالرای سے بچا سکیں،رجوع کریں۔(1)نیز از نظر عقل بھی پہلا مفسر حضرت پیغمبر اکرم (ص) ہی کوہونا چاہیے کیونکہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی ذمہ داری ہی یہی تھی کہ لوگوں کو معارف اسلامی اوراحکام الہی سے باخبر کریں اس کا لازمی نتیجہ قرآن کی تفسیر اور توضیح ہے کیونکہ ہر انسان کی ذہانت اورفہم و درک یکسان نہ ہونے کے باوجود ہر کلیات اور جزئیات، کنایات اور اشارات کو بغیر کسی تفسیر کے درک نہیں کرسکتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام ہیں، جو ہر وقت معارف اسلامی اور دستور الہی کے محافظ کی حیثیت سے آغاز وحی سے اختتام وحی تک حضرت پیغمبر اکرم کے شانہ بہ شانہ قرآن کی تفسیر اور حفاظت کرتے رہے ہیں اہل سنت بھی آپ کو مفسر قرآن اور برجستہ اصحاب رسول میں سے شمار کرتے ہیں۔عطا بن ابی ریاح نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا''أکان فی اصحاب محمد (ص)العلم من علی قال لا والله لا اعلمه.''
.....................................
(1)الاتقان ج2 ص296و روض الجنان ج1ص53
کیا حضرت رسولؐ کے اصحاب میں حضرت علی (ع) سے عالم تر کوئی ہے آپ نے فرمایا خدا کی قسم اس سے عالم تر کوئی نہیں ہے۔(1)
یا دوسری حدیث میں آنحضرت نے فرمایا:'' علی مع القرآن و القرآن مع علی''(2)
'' علی (ع)قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی (ع) کے ساتھ ہے''
نیز ابن مسعود سے روایت کی گئی ہے:
ان القرآن أنزل علی سبعة احرف ما منها حرف الا و له ظهر و بطن وا ن علی بن ابی طالب عنده منه الظاهر والباطن.(3)
تحقیق قرآن کو سات حروف پر نازل کیا گیا ہے انہیں حروف میں سے ہر ایک کا ظاہر و باطن بھی ہوا کرتا ہے اور حضرت علی (ع) ہی اس کے باطن اور ظاہر سے آگاہ ہیں۔
جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا التفسیر میں فرمایا: کان علی رضی الله عنه بحری فی العلم..''حضرت علی (ع)علم کے در یاتھے'' (4)
.........................................
(1)ذہبی التفسیر ج1 ص79
(2)کنز العمال ج2ص 201
(3)الاتقان ج2 ص187
(4)التفسیر التفسیر ج1ص89
نیز ابن عباس نے کہا'' ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب''(1)'جو کچھ میں نے قرآن کی تفسیر کی ہے وہ حضرت علی (ع) سے دریافت کی ہے'' لہذا تفسیر قرآن ،تاویل قرآن، ناسخ و منسوخ ،عام و خاص ، مطلق و مقید ، محکمات و متشابہات اور حروف مقطعات یعنی حقائق قرآن من البدوی الی ختم حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) ہی جانتے تھے انہیں سے ہی تفسیر کے اصول و ضوابط کو لینا چاہیے ان کے اصول و ضوابط سے ہٹ کر،کی ہوئی تفسیر جتنے اچھے الفاظ اور حسن سلوک پر مشتمل ہو تفسیربالرای کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
ان کے بعد مرحلہ سوم میں مفسرین قرآن آئمہ معصومین علیہم السلام شمار کئے جاتے ہیں، اگر چہ نزول قرآن کے وقت یا حیات طیبہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) کو درک نہ بھی کیا ہو، کیونکہ یہ حضرات جس طرح حضرت پیغمبر اکرم (ص)حجت خدا اور اللہ کی طرف سے رسول اور نبی تھے، اس طرح وہ ان کے جانشین اور وصی ہیں، وصی عین موصی کی ذمہ داری اور تکالیف کو انجام دینے کے لئے ہی منصوب کئے گئے ہیں چنانچہ حضرت امام محمد باقر یا امام جعفر صادق سے منقول احادیث اور روایات سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ آئمہ معصومین (ع) ہر دور میں زمانے کے ظالم حکمرانوں سے سینہ بہ تن ہو کر قرآن کی تفسیر اور وضاحت کرتے رہے لہذا آج جب
..........................................
(1)التفسیر التفسیر ج1ص89)
علماء اور محققین در منثور یا المنار جیسی تفاسیر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آئمہ معصومین نے قرآن کی تفسیر کرنے میں کتنی سنگین اور مشکل دشواریوں سے مقابلہ کیا ہے ،رجوع کیجئے۔(1)
اصحاب میں سے جو مفسر قرآن تھے:
اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہے ان کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
الف) اصحاب رسول میں سے مفسر قرآن۔
ب) دیگر آئمہ معصومین (ع) کے اصحاب میں سے جو مفسر قرآن ہیں۔
1) عبداللہ ابن عباس: حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے چچا ذاد بھائی تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی وفات کے وقت ان کی عمر 13 سال بتا ئی جاتی ہے آپ بچپنے سے ہی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ ہوتے تھے لہذا اصحاب رسول (ص) میں سے شمار کیا جاتا ہے ، حضرت پیغمبر اکرم (ص) نے آپ کے بارے میں فرمایا:''اللهم علّمه الحکمة''(2)''پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا ئے اور اس کو تاویل یعنی تفسیر قرآن سے نوازے''حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے آپ کو اپنی آغوش میں لیاتھا اور فرمایا کرتے تھے : ''اللهم فقهه فی الدین و انتشر منه'' (3)''پروردگارا اس کو دین میں فقیہ بنا اور دین کی نشر و اشاعت کرنے کی توفیق عطا فرما''
.......................................
(1)در منثور، المنار، صافی
(2)التفسیر التفسیر ج1 ص68
(3)سفینۃ البحار ج2 ص 154
لہذا علوم قرآن میں آپ کی شخصیت اور مقام و منزلت کا اندازہ ایسے القاب سے بخوبی ہوسکتاہے کہ ابن عباس کو ترجمان القرآن ،فارس القرآ ن ، احبر الامۃ، بحر الامۃ، رئیس المفسرین ، شیخ المفسرین سے یاد کیاجاتاہے۔(1)
اگر چہ بہت سارے محققین اور مفکرین نے آپ کو حضرت امام علی (ع) کے شاگردوں اور اصحاب میں سے شمار کیاہے۔
لہذا جناب ذہبی نے اپنی گرانبہا کتاب میں نقل کیا ہے:ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی ابن ابی طالب''(2)
''جو کچھ میں نے تفسیر قران کی ہے وہ حضرت علی ابن ابی طالب سے دریافت کی ہے، اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی (ع) نے ہی ان کو تفسیر کے اصول و ضوابط سے آگاہ کرایا تھا۔
لیکن ابن عباس کا اصحاب رسولؐ میں سے ہو جانا اور حضرت علی (ع) کے شاگردوں میں سے شمار کئے جانے میں کوئی تضاد اور ٹکراو نہیں پایا جاتا ہے ،ہم اس کو اصحاب رسول (ص) کے مفسر ین میںسے شمار کرسکتے ہیں۔
2۔ عبدا للہ ابن مسعود :آپ سے تفسیر قرآن کے بارئے میں بہت زیادہ احادیث منقول
.......................................
(1)مقدمہ تفسیر مال مراغی)
(2)التفسیر التفسیر ج1 ص89
ہیں آپ حافظ قرآن تھے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے خاص الخاص اصحاب میںسے شمار کیا جاتا ہے حتی بعض محققین نے اپنی کتابوںمیںلکھا ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم (ص) عبد اللہ ابن مسعود کی زبان سے قرآن کی تلاوت کی سماعت کو پسند کرتے تھے ۔(1)1
مفکرین اورمحققین ان کو ان گیارہ افراد میں سے قرار دیتے ہیں جو خاندان اہل بیت سے دوستی اور محبت کر نے میں معروف اور مشہور تھے ،آپ تفسیر قرآن اور علم قرائت میںبہت زیادہ معلومات کے حامل تھے ،حتی کچھ محققین آپ کو اسلامی مفسرین میں سے اہم مفسر سمجھتے ہیں،اور تابعین کے زمانے میں کوفہ کے مفسرین کے اصول وضوابط اور پایہ گذاری ،تفسیر ابن مسعود بتا یا گیا ہے ۔
3۔ ابی ابن کعب: آپ احباریہود میںسے تھے جب آپ مسلمان ہوئے تو کاتبین وحی قرار پایا ، آپ اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسر قرآن سے یاد کرتے تھے آپ قدیم یہودی کتابوںسے آگاہ تھے ،لہذا آپکی عظمت اوراہمیت دوسرئے مفسرین کی بہ نسبت زیادہ ہے ،جناب طبرسی علیہ الرحمۃ جیسے مفسر قرآن نے اپنی تفسیر میںہر مطلب پر ابی ابن کعب کے نظریے اوراحادیث سے استدلال کیا ہے۔
.......................................
(1)سفینۃ البحار ج 2 ،ص 37
4۔ جابر بن عبد اللہ انصاری : اصحاب کے دور میں مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک جابربن عبد ا للہ انصاری ہیں ،جناب ابی الخیر نے اپنی کتاب طبقات المفسرین میں اس کو مفسرین کے پہلے طبقہ میںشمار کیا ہے ،آپ نے حضرت پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ 18 جنگوں میں شرکت کی اور جنگ صفین میں آپ نے اصحاب علی (ع) کی حیثیت سے بڑھ چڑھ کے حصہ لیا آپ پیغمبر اکرم (ص) کے طویل العمر اصحاب میںسے تھے امام محمد باقر کو حضرت پیغمبر اکرم (ص) کا سلام عرض کیا ، جناب عطیہ تابعین کے مفسرین میں سے تھے ،روایت کی ہے جب امام حسین کی شہادت کے بعد جابر نے حضرت کی زیارت کوآنا چاہا تو عطیہ بھی آپکے ہمراہ تھے آپکی شخصیت رجال اوردرایہ جیسے موضوعات پر لکھی ہوئی کتابوں میںواضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے آپ 94سال کی عمر میں دنیا سے رخصت کر گئے ۔(1)
5۔زیدبن ثابت :اصحاب کے دور میںمشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے آپ پیغمبر ؐ کے دور میں کاتبین وحی میں سے ایک تھے ، آپ مدینہ منورہ میں قضاوت اور فتوی وعلم قرائت سے لوگوں کو سیراب کرتے رہے جب ابو بکر کا دور شروع ہوا تو زیدبن ثابت کوقرآن کی جمع آوری کا حکم دیا ،نیز دور عثمانی میں عثمان بھی قرآن کو زیدبن ثابت کی قرآت کے مطابق قرات کرنے کی تائید کی ۔
.......................................
(1)اسد الغابۃ ج 1 ص 258
حتی ابن عباس علوم قرآن اور مفسر قرآن کے ماہر ہونے کے باوجود زید بن ثابت کے دولت سرا جاتے تھے تاکہ مزید علم قرآن سے فیضیاب ہوسکیں۔
6۔میثم تمار :جبیر وغیرہ کو بھی اصحاب رسول (ص) کے مفسرین میں سے قرار دیا ہے لہذا اختصار کے پیش نظر انہی چند مفسرین کے نام لینے پر اکتفاء کروں گا ۔
تابعین کے دور میں معروف مفسرین :
1۔ سعید بن جبیر :تابعین کے مشہور ومعروف مفسرین میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی تفسیر کے اصول وضوابط کو جناب ابن عباس سے لیا تھا ،ابن خلکان نے اس کی تفسیر کے اصول وضوابط ابن عباس سے لینے کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا وہ تابعین کے دور میں بہت ہی معروف اوربر جستہ مفسرشمار ہوتے تھے ۔(1)
سبحان ثوری کے کہنے کے مطابق تفسیر قرآن کوچار ہستیوں سے لینا چاہیے ،سعید بن جبیر ، مجاہد ،مکرمہ ،ضحاک ۔(2)جناب سعید بن جبیر حجاج بن یوسف کی اذیت اورسختی میںشہادت پر فائز ہوئے ۔
2۔مجاہد بن جبر مکی : آپکی کنیت ابو الجاج تھی ابن عباس کے شاگردوں میںسے ممتاز شاگرد تھے اپنی تفسیر کے اصول وضوابط کو حضرت علی -اور ابن عباس سے لیتے تھے اہل سنت کے مفسرین بھی آپکی خاص اہمیت کے قائل ہیں ۔(3)
-------------------------
(1)وقیات الاعیان ج 1ص363 (2)الاتقان ج 2ص 323(3)ذھبی التفسیرالتفسیر ج 1 ص106
3۔عکرمہ:تابعین کے مشہور ومعروف مفسرین میںسے ایک عکرمہ کوبتایا جاتا ہے ،جنہوں نے اپنی تفسیر کے اصول اورنہج کو حضرت علی (ع) اورجناب ابن عباس سے لیا تھا مرحوم محدث قمی نے لکھا ہے کہ عکرمہ شیعہ امامیہ کے مفسرین میںسے نہیںہیں(1)
حتی بعض محققین کے نظریے کی بناء پر وہ خوارج میںسے تھے ،(2)
اس بات کی تائید کے طور پر امام محمدباقر سے یہ روایت ہے ،ایک دن آپکی خدمت میں عکرمہ کے احتضار اور موت کی حالت کاتذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا اس تک میری رسائی ہوتی تو میں اس کو جہنم کی آگ سے نجات دیتا ۔(3)
4۔عطا بن ابی ربح مکی :آپ مکہ کے نامور ومشہور مفسرین میں سے ایک تھے چنانچہ خود نے کہا ہے کہ میں نے اصحاب میں سے ستر نفر کو درک کیا ہے ، قنادہ نے کہا کہ عطاء بن ابی رباح اپنے دور میں معارف اسلامی اوردینی معلومات کے حوالے سے بے مثال تھے چنانچہ ذھبی نے لکھا ہے کہ جب لوگ دینی مسائل اورمعارف اسلامی کے متعلق رجوع کرتے تھے
..................................
(1)سفینۃ البحار ج2،ص 216)
(2)مذاہب التفسیر الاسلامی ص96)
(3)سفینۃ البحار ج 2 ص 216
تو ابن عباس نے کہا اہل مکہ عطاء بن رباح کے ہوتے ہوئے مجھ سے کیوںرجوع کرتے ہیں ؟(1)
آپ کو تفسیر کے موضوع پر قدیم ترین مصنفین میںسے شمار کیاجاتا ہے ، اورانہوں نے اپنے تفسیر کے اصول اور قواعد کو ابن عباس سے لیا تھے ۔
5۔ طاووس بن کیسان یمانی :شیخ طوسی اورصاحب روضات نے اس کو اصحاب امام سجاد میںسے قراردیاہے ،اوربعض محققین اس کوشیعہ امامیہ مانتے ہیں جبکہ دیگر مفکرین اورمحققین نے انہیں اہل سنت کے مفسرین میںسے قرار دیا ہے، اور آپ نے اصحاب رسول (ص) میںسے پچاس نفر کو درک کیا تھا ،آپ کی سب سے زیادہ ابن عباس سے آمد ورفت تھی ، لہذا انہوں نے تفسیر کے طرزاورقواعد کو ابن عباس سے لیا ہے۔
صفحات کے دامن میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ہر ایک دور کے مفسرین کی تفصیلی گفتگو سے پر ہیز کرتے ہوئے فقط فہرست وار خلاصہ کو بیان کریں گے تاکہ قارئین محترم کو آسانی ہو جائے۔
...................................
(1)ذھبی التفسیر التفسیر ج 1ص 113)
اصحاب کے دورمیں مشہور مفسرین :
عبدا للہ ابن عباس
عبدا اللہ ابن مسعود
ابی بن کعب
زید بن ثابت
جابر بن عبد اللہ انصاری
جن کے بارئے میں اجمالی گفتگو ہوچکی ہے مزید معلومات اورآگاہی کی خاطر کتب ذیل کی طرف رجوع کرسکتے ہیں (1)
تابعین کے دور میںمعروف مفسرین :
الف : مکہ کے مفسرین :
سعید بن جبیر
مجاہد
عکرمہ
عطا بن ابی رباح ،طاووس بن کیسان
.............................
.. (1)التفسیر التفسیر ج1ذہبی)مذاہب التفسیر الاسلامی ،الاتقان ج2 ،طبقات ابن سعد )
ابو العالیہ رفیع بن مہران ریاحی
زید بن اسلم
محمد بن کعب
ج۔عراقی مفسرین :
ابو سعید حسن بصری
قتادہ بن دعامہ سدوسی
ابو صالح باذان بصری
مرۃ ہمدانی کوفی
علقمہ بن قیس کوفی
مسروق بن اجدع کوفی
عامر شعبی کوفی
جابربن یزید جعفی
اسماعیل بن عبد الرحمن
متفرقہ مفسرین کے اسامی گرامی :
1۔ عطا بن ابی سلمہ خراسانی
2۔ محمد بن سائب کلبی
3۔ علی بن ابی طلحۃ
4۔ قیس بن مسلم
5۔ سلمان بن مہران
6۔مقاتل بن سلیمان اذدی خراسانی
7۔صحاک بن مزاحم ہلالی
8۔عطیہ بن سعید عوضی جدلی خراسانی
ان کے علاوہ دیگر مفسرین کا نام نہ لینے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ مفسرین قرآن نہیں تھے بلکہ اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے محققین سے درخواست ہے کہ بر جستہ محققین اور مؤلفین کے گرانبہا مفصل آثار کی طرف رجوع کیجیے ۔
لہذا ہم یہاںپر فقط چند تفاسیرکی معرفی کرینگے ۔
الف : اہل سنت کی مشہور ومعروف تفاسیر :
جامع القرآن فی تفسیر القرآن -- ابن جرید طبری
تفسیر بحر العلوم -- ابن لیث سمر قندی
الکشف والبیان عن تفسیر القرآن -- ابی اسحاق تعلیمی
معالم التنزیل -- ابی محمد حسین بغوی
المحر ر فی تفسیر الکتاب العزیز -- ابن عطیہ اندلسی
تفسیر القرآن العظیم -- ابی القداالحافظ ابن کثیر
الجواہر الحسان فی التفسیر القرآن -- عبد الرحمن الثعالبی
الدرالمنثور فی تفسیر الماثور -- جلال الدین سیوطی
ان تمام تفاسیر میںآیات کی توضیح اورتفسیر روایات اورسنت نبوی کی روشنی میں کی گئی ہے ۔
لہذا شیعہ امامیہ کی کچھ تفاسیر روائی کی طرف اشارہ کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں ۔
تفسیر قمی -- علی بن ابراہیم
تفسیر نور الثقلین -- عبد العلی حویزی
تفسیرالبرہان -- سید ہاشم بحرانی
تفسیر صافی -- ملا محسن فیض کاشانی
تفسیر الائمۃ لہدا یۃ الامۃ-- ،میرزا محمد رضا
تفسیر عیاشی -- محمد بن سعود
التفسیر با الماثور -- مولی علی اصغر قائنی
ان کے علاوہ دیگرتفاسیر قرآن ،قرآن کی روسے یا عقل اوردیگر ادبی روسے کی گئی ہیں ،فریقین کے محققین نے کافی زحمت کی ہے،جنکی تعداد بہت زیادہ ہے ۔
علوم قرآن کے مباحث میں سے کچھ بہت مشکل اورپیچیدہ ہیں جسکی بناء پر اسلامی مکاتب فکر اورمحققین نے ہزاروں زحمتیں اٹھا کر فہم قرآن کی خاطر شب وروز ان مسائل کی شرح اورتوضیح کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہی مسائل میںسے ایک اعجاز قرآن کا مسئلہ ہے جس کے بارئے میںعلماء اورعلوم قرآن کے ماہرین نے مفصل بہت بڑئے حجم کی کتابیں اور تحقیقی مقالات ہر دور میںپیش کئے ہیں تاکہ قرآن پر ہونے والے اشکالات اورشبہات کا ازالہ ہو سکے ۔
لہذا اعجاز قرآن پر جتنے بھی اشکالات وارد ہوئے ہیں سب کا جواب ہر دور میں بہت ہی مستدل اور اچھے طریقے پر دیاگیاہے ،رجوع کے لئے بہترین کتاب استاد محترم حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی اعلی اللہ مقامہ ،المد خل التفسیر،المیزان ج1۔البیان فی تفسیر القرآن کافی ہے۔
لیکن کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اتنے سارئے مقالات اورکتب کے باوجود اس موضوع پر قلم اٹھانا مفید نہیں ہے !کیونکہ ہمارا مقصد علوم قرآن کا اجمالی تعارف اردو زبان میں بیان کرنا ہے تاکہ اس وقت کے مفسرین جان لیں کہ تفسیر بالرای شریعت اسلام میںممنوع ہے اورتفسیر قرآن لکھنے کے لئے فقط پیسے اوراثر ورسوخ کا فی نہیں ہے بلکہ علوم قرآن کو سیکھنے کے بعد علوم قرآن کے نتائج کی حیثیت سے تفسیر قرآن پیش کریں لہذا اعجاز قرآن کا اجمالی تعارف کرانا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے جس کوذکر کررہے ہیں ۔
اعجاز قرآن کے بارے میں تین نظریے قابل تصور ہیں:
الف : قرآن معجزہ نہیں ہے یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانا ناممکن نہیں ہے !
اس نظریے کو برسوں سال پہلے خود قرآن کریم نے ہی بہت ہی زیبا اورادبی الفاظ میں جواب دیاہے جیساکہ : فاتو ابمثلہ ،''اور کبھی یوں ارشاد فرمایا ''اس کی مانند دس سورئے لاسکتے ہو تو لاؤ!اور کبھی فرمایا ''جن وانس مل کر اس قرآن کی مانند پر اتفاق کریں تو بھی نہیں لاسکیں گے ''ان جیسی اور بھی بہت سی آیات موجود ہیں ، جیسے سورہ انعام ،نحل،بقرہ ،بنی اسرائل ،کی بعض آیات تحدی کا ضرور مطالعہ کیجیے ،مرحوم علامہ طباطبائی المیزان ج 1 میںمعجزہ کی حقیقت اورکمیت و کیفیت کو بہت ہی اچھے انداز میںبیان فرمایا ہے اورتمام شبہات واعتراضات کا منہ توڑ جواب دیاہے ۔
ب: جو لوگ قرآن کو معجزہ یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانے کو ناممکن نہیں سمجھتے ہیں ان میں سے کچھ نظریہ صرف کے قائل ہیں یعنی قرآن کی مانند اورمثل لانا عقل کی روسے ناممکن نہیں ہے لیکن جب بھی انسان قرآن کی مانند لانا چاہتا ہے تو اللہ اس کی قدرت کو سلب کرتا ہے ،لہذا عقلا اس کی مانند لانا ممکن سمجھتے ہیںلیکن عملا نہیں لاسکتے چونکہ اللہ اس کی قدرت کو سلب کرتا ہے ۔!
اس نظریے کے قائلین بھی اسلامی مکاتب فکر میںکم نہیں ہیں ،جناب استاد محترم ڈاکٹر رجبی دام عزہ اپنے لیکچر میںسات نفر کا نام لیا تھاکہ یہ لوگ اعجاز قرآن کے بارئے میں صرف کے قائل ہیں۔
ذراسا توجہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ نظریہ آیات تحدی کے ظہور اوردلیل عقل کے ساتھ ساز گار نہیں ہے کیونکہ ایک طرف سے اس کی مانند لانے کوممکن سمجھنا تودوسری طرف سے عملا لاکر دکھانے میںقاصر کے قائل ہوجانا !یہ دو باتیں اعجاز قرآن کے بارئے میں آئی ہوئی ادلۃ کے ساتھ تضاد رکھتی ہیں ۔!
ج : قرآن معجزہ ہے ، جسکی حقیقت اورکمیت وکیفیت کو سمجھنے کے لئے رجوع کیجیے ۔(ا)
اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن معجزہ ہے تاقیامت کوئی قرآن کی مانند اورمثل نہ اب تک لاسکا ہے اورنہ ہی لاسکے گا ، لہذا نزول قرآن کے دور میں ہی تمام فصحاوبلغا جمع ہوگئے ۔سب نے اعتراف کیا کہ اس سے فصیح اور بلیغ کوئی کلام نہیں ہوسکتا
جب یہودیوں کا دور شروع ہوا تو سورہ کوثر ،سورہ حمد ، سورہ عادیات ، سورہ انشقاق
.............................
(1)1لمیزان ج1بحث اعجاز قرآن بہت ہی مفصل اورمفیدہے ، مدخل التفسیر ابحاث حول اعجاز القرآن ، حضرت استاد محترم فاضل لنکرانی اعلی اللہ مقامہ )
کی مانند سورتوں کو بنا کر قرآن میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ، خوش قسمتی سے نہ فقط خود ساختہ سورتوں کو قرآن میں شامل نہیں کیاجاسکا ،بلکہ اپنی نادانی اورجہالت کااعتراف بھی کرنا پڑا ،اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے جملات جو آج کاغذوں پر ثبت ہیں ان کی ملامت کرتے ہیں ۔
مرحوم علامہ طباطبائی نے المیزان جلد اول میں اعجاز قرآن کی بحث میںاعجاز قرآن کے مسئلہ کو بہت ہی مفصل اورعلمی،فلسفی اورعقلی اصول وقواعد کی روشنی میں بیان کیا ہے ۔
لہذا قارئین محترم کو حقیقت اعجاز پر کئے ہوئے علمی اورعقلی اشکالات کا بہت ہی اچھے طریقے سے جواب دیا گیاہے مزید اس موضوع کے بارئے میں قارئین سے وقت لینا مناسب نہیںسمجھتا لہذا اختصار کے طور پر علامہ مرحوم طباطبائی کے تحقیقاتی اور علمی مطالب میںسے کچھ ذکرکرنے پر اکتفا کرتے ہیں ۔
علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن من جمیع الجہات جو قابل تصور اورتعقل ہے معجزہ ہے ، یعنی یہ کہنا غلط ہے کہ قرآن فقط فصاحت وبلاغت کے حوالے سے معجزہ ہے ،یا نظم وضبط اورترکیب وتحلیل کے حوالے سے معجزہ ہے ،یا ادبی نکات اوراصول وضوابط کے حوالے سے معجزہ ہے ،بلکہ قرآن تمام جہات کے اعتبار سے معجزہ ہے ،علمی ،سیاسی ،ثقافتی ،اجتماعی ،انفرادی،اقتصادی ،تربیتی ،اخلاقی ،ادبی ،فقہی ،عقلی ،فصاحت وبلاغت ،نظم وضبط وغیرہ کے حوالے سے معجزہ ہے کوئی بھی مادی انسان مادی نظام کی روشنی میں اپنی گفتگو چاہے اقتصادی اورمعاشیات کے ماہر ہوں یا سیاسی اورعلمی ثقافتی اوراجتماعی اورادبی بلاغت وفصاحت نظم وضبط تحلیل وتفسیر کے جس مرحلے پر فائز ہوں قرآن کی مانند اورمثل نہیں لاسکتے
لہذاوہ آیات جس میں اللہ نے بشر کو چیلنج کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قرآن کی مانند اورمثل انسان اورجن باہم مل کر لانا چاہیں تو بھی نہیں لاسکیں گے ایسی آیات ہر جہات سے چیلنج کرتی ہیں ،کہ تاقیامت کوئی اس کی مانند ایک سورہ ،یا ایک آیت کی بات تو دور کی بات ہے ،ایک جملہ بھی نہیںلاسکتے اور یہی قیامت تک کے لئے سب سے بڑا معجزہ ہے (1)
جسکو ثابت کر نے کے لئے مرحوم طباطبائی نے آیات کے علاوہ علمی وعقلی برہانوں سے استدلال کیاہے ،یعنی قرآن کریم میںجو علمی اوراخلاقی اورتربیتی یا دیگر مسائل کو جس انداز میں اللہ نے بیان کیاہے اس انداز میںکوئی انسان پیش نہیں کرسکتا اوریہ قرآن کی عظمت اوراعجاز کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
تبھی تواسلام کے ساتھ صدر اسلام سے اب تک اتنی عداوت اوربغض کے باوجود کبھی بھی قرآن کو نہیں مٹا سکے ، یہ اللہ کی بڑی منت ہے کہ جس نے قرآن کو ایسے مطالب اورالفاظ پر ناز ل فرمایا کہ جس کی دنیاکی کوئی بھی طاقت مقابلہ نہیں کرسکتی۔
.............................
(1)المیزان ج1بحث قرآن ،طباطبائی )
لہذا شاید'' انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ''کا اشارہ ایسے مطالب کی طرف ہو تبھی تو سورہ کوثر کے مقابلہ میں'' انااعطینا ک الجواهر فصل لربک وجاهر ولا تعتمد قول ساحر!یا سورہ حمد کے مقابلے میں'' الحمد لرحمن رب الاکوان ملک الادیان لک العبادة وبک المستعان اهدنا صراط الایمان ''!!!
یا دیگر سورتوں کو بنانے والے کے جملات ہی ان کی ملامت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں انہیں جملات اورکلمات سے ہی ان کی علمی صلاحیت اورفہم ودرک اورقرآن کے ساتھ عداوت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں آپ غور کیجیے ایسے افراد کتنی جہالت اورتاریکی میں ڈوبے ہوئے ہیں کہ سورہ کوثر میں'' انا ''''اوراعطیناک ''کو عین قرآن کے الفاظ میں تکرار کیا ہے جبکہ اسکا دعوی ہے کہ ہم اس کا مثل لائینگے ،اسی طرح ''کوثر ''کی جگہ ''جواہر'' کاکلمۃلایا ہے ''جواہر'' اور''کوثر ''کے معنی میں زمین آسمان کا فرق ہے ،کلمہ'' اعطا ''کے متعلق ''جواہر'' کو قرار دینے اور''کو ثر'' کو قرار دینے میں ادبی اورفصاحت وبلاغت کے نقطہ نظر سے بہت بڑا فرق ہے ، پھر'' فصل لربک'' کی جگہ عین الفاظ قرآن کو تکرار کیا ہے جبکہ اس کی پوری کوشش اس کی مانند لانا ہی ہے ،''والنحر''کی جگہ ''جاہر'' ،''انا شانئک ہو الابتر'' کی جگہ ''ولاتعتمد قول ساحر ''لانے سے فقط اپنی ضمیر کی عکاسی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،کیونکہ ان دوجملوں کے الفاظ اورمعانی فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے اور ادبی حوالے سے ان دونوں کے درمیان مقائسہ کرنا ہی غلط ہے ۔!
نیز سورہ حمد کے مقابلے میں خود ساختہ سورہ کو سورہ حمد سے مقایسہ کیجیے کہ کلمہ'' الحمد'' عین وہی لفظ ہے جو قرآن میں آیاہے جبکہ اس کا ہدف اس کی مانند اور مثل لاکر اللہ کے عجز کوثابت کرنا ہے ،''للہ'' کی جگہ'' للرحمن'' لا یا جبکہ'' للرحمن'' اولا قرآن کے ہی الفاظ میں سے ایک ہے ،ثانیا اللہ کا لفظ علم ہے اور لفظ رحمن اس کی صفت ہے کلمہ الحمد کے ساتھ للرحمن لانے اورالحمد کے ساتھ للہ لانے میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اگرکسی کو معلوم نہ ہو تو اس صورت میں اس شخص کو عالم کہلانے کے بجائے اس کا علاج کروانا چاہیے۔
اسی طرح کلمہ'' رب ''کو عین قرآن ہی کا ایک لفظ ہے تکرار کیا ہے اوررب کے بعد عالمین کی جگہ'' اکوان'' کو لا یا ہے'' اکوان'' کلمۃ''کون ''کا جمع ہے ۔
جبکہ' ' عالمین ''کے بارئے میں اختلاف ہے ، یہ کسی مفرد کی جمع نہیں ہے کیونکہ عالم متعدد نہیں ہیں ،البتہ کچھ مفسرین نے فرمایا ہے کہ کلمہ ''عالمین'' ''عالم ''کی جمع ہے'' عالم'' اس کا مفرد ہے اس نظریے کی بناء پر بھی'' اکوان'' اور''عالمین ''کے معنی لغوی اوراصطلاحی میں فرق پایاجاتا ہے ''کون'' افعال عموم میں سے ایک ہے جبکہ ''عالم'' افعال مخصوص میں سے ان کے متعلقات اورقیودات کے اعتبار سے قابل جمع نہیں ہے کیونکہ یہ دو لفظ مترادف نہیںہیں۔
ثانیا'' اکوان'' جمع مکسر ہے جبکہ عالمین جمع سالم ہے ان کے معانی اور فصاحت اور بلاغت کے اعتبار سے بھی قابل جمع نہیں ہے ۔
قرآن کے مثل لانے کے دعویدار کو چاہیے کہ وہ وہی کمیت اور کیفیت کے ساتھ الفاظ کو لا ئیں جو سورۃ حمد میںموجود ہیں ،اگر کو ئی جمع سالم کی جگہ جمع مکسر کو استعمال کرے یا مفرد کے بدلے میں جمع استعمال کرے یا جمع کی جگہ تثنیہ کو استعمال کرے تو یہ اسکی جہالت کی علامت سمجھا جائےگا ۔
مالک یوم الدین کی جگہ ملک الادیان کو لا یا گیا ہے اگر ان دوجملوں کو باہم معنی اورنظم وضبط اورفصاحت وبلاغت کے حوالے سے مقائیسہ کریں تو بخوبی ایسے افراد کی جہالت اور کم علمی کے ساتھ بے انتھا ئی پستی کا بھی انداز ہ کیا جاسکتا ہے۔
مزید ہمیںان باتوںکی تحلیل وتفسیر کرتے ہوئے اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرناچاہیے ۔
تلاوت کلام پاک کا عنوان علوم قرآن کے مسائل میں نتیجہ اور ثمرہ کی حیثیت رکھتا ہے جب ہم علوم قرآن کے مسائل سے فارغ ہوئے تو ا ن کے نتائج کی طرف بھی اجمالی اشارہ کرتے ہیں تاکہ علوم قرآن کی اہمیت کا پتہ چلے ،اورقرآن کے متین مطالب کو صحیح معنوں میں درک کرنے میں دشواری نہ ہو اور معاشرے کو نورانیت قرآن کے ذریعے منور کرسکیں، لہذا خاتمہ کے طور پر علوم قرآن کے عناوین سے باخبر ہونے کے ساتھ کلام پاک کی تلاوت کرنے کی اہمیت سے بھی واقف ہوناضروری ہے کیونکہ ہر پڑھے لکھے مسلمان بہن بھائیوں کی سیرت اس طرح کی ہے کہ کم از کم 24گھنٹوں میں سے ایک وقت ضرور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور شریعت میں بھی کلام پاک کی تلاوت کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے ،لیکن اگر ہم تلاوت کے طور و طریقے اور اصول وضوابط سے کما حقہ آشنائی نہ رکھتے ہوں تو یقینا تلاوت کلام پاک کا جو خاص اثر ہے اس سے محروم رہ جاینگے ،لہذا بہتر ہے کہ درجہ ذیل عناوین کی روسے تلاوت کلام پاک کے قواعد اور اہمیت کو اپنے محترم قارئین کے لئے پیش کریں :
الف : تلاوت قرآن قرآن کی رو سے ۔
ب: سنت کی روسے ۔
ان عناوین کی وضاحت سے پہلے تلاوت کلام پاک کے فارمولوں کو بیا ن کروں تاکہ لوگ ثواب اور فوائد تلاوت کلام پاک سے زیادہ سے زیادہ بہرہ مند ہوسکیں ۔
1۔ تلاوت کلام پاک ہمیشہ باوضو کرنا چاہیے ۔
2۔ ہر نماز کے بعد تلاوت کرنا چاہیے ۔
3۔پاک وپاکیزہ جگہ جیسے مساجد اماکن متبرکہ جیسے روضات آئیمہ معصومین (ع) وغیرہ میں کرنا چاہیے۔
4۔قرآن کے حروف کو بغیر وضو کے چھونا حرام ہے ،لہذا باوضو قرآن کی تلاوت کرنا چاہیے
5۔تلاوت سے پہلے اور تلاوت کے بعد محمد وآل محمد (ص) پردرود بھیجنا چاہیے ۔
6۔تلاوت سے پہلے جو دعائیں آئمہ معصومین (ع) سے ہم تک پہنچی ہیں ان کی قرات کرنا چاہیے
7۔ تلاوت کے وقت روبہ قبلہ ہوناچاہیے ۔
8۔تلاوت کے دوران عام اور عادی حالت کی طرح گفتگو سے پر ہیز، دیگر کتب کی طرح ہاتھ میں قرآن رکھ کر مذاق یا کھیل وکود سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
9۔ قرآن کی تلاوت کے وقت تفکر اور تدبر کرنے کی سفارش کی گئی ہے لہذا اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
10۔ ترجمہ شدہ قرآن کی تلاوت کی صورت میں غور وخوص کے ساتھ ترجمہ کو درک کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔
11۔تلاوت کے وقت قصد قربت اور تلاوت کے بعد والدین اور دیگر مومنین کے حق میں دعا کرنا چاہیے ۔
13۔تلاوت کے دوران جن آیات میںعذاب کا ذکر ہو ا ہے اللہ سے نجات کی درخواست اور آیات رحمت کی تلاوت کے وقت اضافۃ رحمت کی دعا مانگنا چاہیے ۔
14۔الفاظ قرآنی جو مخصوص مخارج کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں لہذا حسین آواز کے ساتھ صحیح مخارج سے ادا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔
15۔ آیات کو ترتیل (ٹھہر ،ٹھہر )کے ساتھ پڑھنا چاہیے ۔
16۔تلاوت سے پہلے شیطان کے شر سے محفوظ رکھنے کی خدا وند عالم سے دعا کرنا چاہیے (اعوذ بالله من الشیطان الرجیم )
17۔ قرآن ایک باعظمت اور نہایت درجہ کی حامل کتاب ہے لہذا ان تمام مکانات میں جہاں اس کی بے احترامی ہوتی ہو وہاں اجتناب کرنا چاہیے ۔جیسے گلی کوچوں میں ۔
18۔غسل جنابت ،یاغسل حیض یا نفاس واستحاضہ کے ہوتے ہوئے تلاوت کرنا اگر چہ جائز ہے لیکن سات آیات سے زیادہ کی تلاوت کرنا مکروہ ہے واضح رہے کہ جن سورتوں میںواجب سجدے ہیں کہ جنہیں سورہ عزائم بھی کہا جاتا ہے مذکورہ غسلوں کے ساتھ ان کی تلاوت کرنا بھی جائز نہیں ہے ۔
19۔ قرآن کی تلاوت کے وقت وضو کے علاوہ بدن ولباس وغیرہ کا بھی پاک وپاکیزہ ہونا ،بہتر سمجھا جاتا ہے ۔
20۔ تلاوت کلام پاک کے وقت خشوع وخضوع کا ہونا زیادہ مناسب ہے ۔
21۔ ایسے حرکات اور سکنات کا انجام دینا جن سے قرآن کی بے حرمتی اور توہین کا باعث ہے ان سے پر ہیز کرنا چاہیے ۔
22۔ قاری قرآن جیسے انداز میںتلاوت کرنا ادا ب تلاوت سمجھا جاتا ہے ، اچھی آوازمیںاور اوقاف وصل کے جگھوںسمیت تجوید قرآن کے قوانین کی روشنی میں تلاوت کرنا بہترہے ۔
23۔ یوںتوتلاوت کلام پاک کے لئے کوئی مخصوص وقت نہیںہے اور کسی بھی وقت میںتلاوت مستحب اورایک نیک عمل ہے لیکن کچھ احادیث میں تاکید کے ساتھ نماز فجر کے بعد تلاوت کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔
24۔ اصحاب رسول (ص) کی سیرت یہ تھی کہ ہر ہفتے میں مکمل قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔اور مہینے میں کم از کم پانچ یا چار مرتبہ پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے اس بنا پر اگر ہم ہر ہفتے میںپورے قرآن کی ایک دفعہ تلاوت نہ کرسکیں تو ہر مہینے میں ایک دفعہ قرآن کی مکمل تلاوت کرنا چاہیے ۔
25۔ ماہ مبارک رمضان جس کو بہار قرآن سے تعبیر کیا ہے ،کم سے کم ہر روز ایک جز قرآن کی تلاوت کرنے کی تاکید کی گئی ہے اورماہ مبارک رمضان سب سے افضل اوربہتر عبادت اور قرآن کی تلاوت کا مہینا قرار دیاگیاہے ۔
26۔ تلاوت کے وقت قرآن کو ہر قسم کی گندہ گی اور بے احترامی سے محفوظ رکھنا چاہیے ۔
27۔قرآن کے کچھ سوروں کو اپنی ذاتی خصوصیات کی بناپر ان سورتوں کو کچھ خاص اوقات میں تلاوت کرنے کی سفارش کی گئی ہے جیسے کہ شب جمعہ کے لئے مخصوص کچھ سورتوں کی تلاوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،اسی طرح ہرروز سونے سے پہلے کچھ سورتوں کا نام لیاگیا ہے جن کی تلاوت کی تاکید کی گئی ہے، مفاتیح الجنان اورثواب الاعمال وعقابہا اورسنن ترمذی جیسی کتابوں کی طرف مراجعہ فرما سکتے ہیں ۔
28۔ اگر کوئی بچہ جو احترام قرآن سے نا آشنا ہو اور تلاوت قرآن کرنا چاہے تو اس کو پہلے سے ہی آداب اوراحترام قرآن سے آگاہ کرنا چاہیے۔
29۔ کچھ لوگ خیال کرتے ہیں کہ تلاوت قرآن فقط مردوں کے ساتھ مخصوص ہے جیساکہ کسی زمانے میںخواتین کا قرآن سیکھنا عیب سمجھا جاتا تھا لیکن اس دور میں انقلاب جمہوری اسلامی ایران کی بر کت سے ایسے اوہام اورخام خیالی کا خاتمہ ہو چکا ہے اورالحمد للہ خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ قرآن سے فیضیاب ہورہی ہیں لہذا خواتین کوبھی تلاوت کے وقت صفائی اوروضواورطہارت کاخاص خیال رکھنا چاہیے ۔
31۔ اہل بیت ؑ اطہار ،اصحاب وتابعین سمیت علماء ومجتہدین کی سیرت یہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی موقع ملا توقرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔یہ عمل قرآن کی تلاوت کی اہمیت اورعظمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
32۔ اگر کسی بے حرمتی کی جگہ قرآن یا قرآن کا کوئی حصہ یا کوئی جملہ پڑا ہواہو تو اس کو فورا کسی پاک اورپاکیزہ جگہ پر رکھنا چاہیے ۔
33۔ پورے عالم بشریت کاضابطہ حیات کا نام قرآن ہے لہذا زیادہ سے زیادہ اس کی تلاوت اور مفاہیم کو درک کرنے کی کوشش کرنا چاہیے تاکہ دنیا وآخرت کے حقائق سے قرآن کی روشنی میںآگاہی حاصل کرسکیں ،افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا ضابطہ حیات انسانی کو اس دور میںہم فقط اموات کی فاتحہ خوانی تک محدود رکھے ہوئے ہیں۔!
مذکورہ تمام نکات اورمطالب اصول کافی جیسی گرانبہا کتابوںمیںآئی ہوئی احادیث کا نچوڑ اورخلاصہ ہے ،مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں (1)
الف: تلاوت کلام پاک کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:
حضرت پیامبر گرامی کے مبعوث ہونے کا فلسفہ ہی قرآن کی تعبیر میں''یتلوعلیهم آیاتنا ویزکیھم ''ہے جس سے تلاوت کلام پاک کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔ (2)
نیز کچھ آیات کی تفسیر اس طرح کی ہے ''ان الذین یتلون کتاب الله ''
''یعنی جو لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں وہ اللہ کے فضل وکرم کے امید وار ہیں
''یا رسول من الله یتلو صحفا مطهرة ''خداکے رسول (ص) جو پاک اوراق پڑھتے ہیں '' (3)
قرآن کی تلاوت کے بارے میں قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں ان
.............................
(1)اصول کافی ج2 باب فضل القرآن ،بحارالانوار کتاب القرآن
(2)سورہ جمعہ (3)سورہ بینہ
سے نہ صرف اہمیت وعظمت واضح ہوجاتی ہے بلکہ قرآن کی تلاوت کے فوائد اورنتائج سے دنیا اورآخرت میں مستفیض ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے ۔
ب: تلاوت کلام پاک سنت کی روشنی میں :
ہماری گفتگو زیادہ تھکا دینے والی اور لمبی نہ ہو جائے اس لئے صرف چند ایک روایات اوراحادیث کی طرف فقط اشارہ کرنے پر اکتفاکروںگا اگر کوئی تفصیلی معلومات کے خواہاں کا تو کتب ذیل کی طرف رجوع کرسکتاہے۔( 1)
حضرت امام جعفر صادق -نے فرما یا :
''علیکم تلاوة القرآن فان درجات الجنة علی عدد آیات القرآن فاذاکان یوم القیامة یقال لقاری القرآن واقراء وارق فکما قراآیة رقی درجة ''''تم قرآن کی تلاوت کرو کیونکہ جنت کے درجات قرآنی آیات کی تعداد کے برابر ہیں جب قیامت بر پا ہوگی تو کلام پاک کی تلاوت کرنے والے سے کہا جائے گا پڑھو اوراپنے درجات میں اضافہ کرتے جاؤ لہذاجب وہ ایک آیت کی تلاوت کرتا ہے تو اسکا ایک درجہ بلند ہوتا ہے ۔!(2)
.............................
(1) بحارالانوار کتاب قرآن ،اوراصول کافی ج 2باب فضل القرآن
(2)البیان ص 34
نیز حضرت پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا :
''من قرا من کتاب الله تعالی فله حسنة والحسنة عشر امثالها لا اقول'' الم ''حرف ولیکن الف حرف لام حرف ومیم حرف ''''اگر کوئی کتاب اللہ کی ایک حرف کی تلاوت کرے تو اسے ایک نیکی کاثواب دیا جاتا ہے اورنیکی کا دس ثواب ہواکرتا ہے ،میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے ۔(1)۔
قلت وقت کی وجہ سے قارئین محترم کی توجہ کو تلاوت کی اہمیت پر دلالت کرنے والی آیات اوراحادیث کے بارئے میںمفصل کتابوں کی طرف مبذول کرتا ہوںرجوع کیجیے ،تاکہ تلاوت کلام پاک کی اہمیت اورعظمت سے آگاہ ہوسکیں ۔
مذید روایات کے متعلق تفسیر درمنثور،تفسیر قرطبی کی طرف رجوع کریں مذکورہ روایات کا مقصد قرآن کی تلاوت کی عظمت کو بیان کرنا ہے ،حتی بعض روایات میںصاف لفظوں میںبیان ہوا ہے کہ جب قاری قرآن کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو نکیر ومنکر جو اللہ کی طرف سے میت کو قبر میں رکھنے کے بعد سولات کے لئے مامور ہیںپوچھنے کے لئے آتے
.............................
(1) اصول کافی ج 2باب فضل القرآن
ہیں اورسولات کے وقت سختی سے پیش آئیںگے اس وقت یہی قرآن ہے جس کی اس نے تلاوت کی تھی نکیر ومنکر سے سفارش کرتا ہے اورکہتا ہے کہ تم اس پر سختی نہ کرو یہ وہی شخص ہے جس نے میری تلاوت کی ہے (1)
لہذاقرآن قبر میں ہمارئے شفیع قیامت کے ہولناک سختیوں کے وقت نور کی شکل میں ہماری سفارش کے لئے آنی والی واحد کتاب ہے جسکی ہر وقت تلاوت کرنا چاہیے تبھی تو احادیث معصومین میں اس شخص کی مذمت کی گئی ہے کہ جس کے گھر میںقرآن ہو لیکن اس کی تلاوت نہ ہوتی ہو ۔
قرآن فہمی کے لئے درج ذیل علوم کی ضرورت ہے:
الف : علم تجوید : علم تجوید وہ علم ہے جس میں ایسے قوانین اورقاعدہ کلیہ سے بحث کی گئی ہے کہ جس سے قرآن کے الفاظ کے صحیح تلفظ اورصحیح مخارج کی ادائی گی کی مدد ملتی ہے ،اس کے علاوہ آواز کی خوبصورتی کی مشق بھی کرائی جاتی ہے تاکہ قرآن کی تلاوت کو خوبصورت آواز میںتلاوت کرسکے ۔
ب: علم اللغۃ : جس میںقرآن کے ہر الفاظ کے لغوی اور اصطلاحی معانی سے اگاہ کیاجاتا ہے تاکہ ہم قرآن کو سمجھ سکیں ۔
.............................
(1)ثواب الاعمال وعقابہا
ج : علم الادب : جس میں نحو وصرف کے قوانین اورفارمولوں سے آگاہ کیاجاتاہے تاکہ قرآن جس پاک اوربلند اہداف اورمقاصدکے لئے نازل ہوا ہے وہ آسانی سے معاشرے میں پیش کرسکیں ۔
د: تفسیر : جس میں آیات اورروایات عقل اوردیگر علوم کے اصول وقوانین کے آیات کی شان نزول اور الفاظ کے ظاہری اورباطنی معانی کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ قرآن کے حقائق سے ہر ایک فیضیاب ہوسکے۔
اوراسی طرح ایسے علوم کو بھی فہم قرآن کے لئے سیکھنا چاہیے کہ جن کو علوم آلی یاخادم العلوم سے تعبیرکیا گیا ہے جیسے ، المنطق ،یاحکمت وغیرہ۔
یہ علوم قرآن فہمی کی راہ میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں ،لہذامدارس دینیہ اورحوزات میںجسطرح ایسے علوم کو بنیادی طورپریادکیا جاتا ہے اس طرح دیگرتمام اسلامی مراکز میں بھی ترویج کرناچاہیے تاکہ قرآن کے پیغام سے تمام مسلمان حضرات معاشرتی اور انفرادی زندگی میں فیضیاب ہوسکیں ۔
قرآن رب کی خاص عنایت کا نام ہے
قرآن نظم وضبط شریعت کا نام ہے
قرآن ایک زندہ حقیقت کا نام ہے
قرآن زندگی کی ضرورت کا نام ہے
قرآن اک کتاب الہی جہاں میں ہے
قرآن کے بغیر تباہی جہاں میںہے
قرآن کردگار کی رحمت کا نام ہے
قرآن ذوالجلال کی عظمت کا نام ہے
قرآن اہل بیت رسالت کا نام ہے
قرآن ہی تو مقصدبعثت کا نام ہے
نازل کیا ہے اس کو خدائے جلیل نے
پہنچایاہے رسول تلک جبرئیل نے
قرآن انبیاء کی کہانی کا نام ہے
قرآن لامکاںکی نشانی کانام ہے
قرآن دین حق کی روانی کانام ہے
قرآن مصطفی کی جوانی کا نام ہے
قرآن کے علم کی نہیںحد بے پناہ ہے
قرآن اک کتاب نہیںدرسگاہ ہے
قرآن ہے نبی کی نبوت کامعجزہ
قرآن ہے خدا کی صداقت کا معجزہ
قرآن ہے رموز کی کثرت کا معجزہ
قرآن آج بھی ہے بلاغت کا معجزہ
ایسی کوئی کتاب نہیںکائنات میں
قرآن کا جواب نہیںکائنات میں
تعظیم اس کتاب کی حق کے ولی نے کی
کعبے میںسب سے پہلے نبی کے وصی نے کی
قبل نزول اس کی تلاوت علی (ع)نے کی
تصدیق اس کلام کی میرے نبی نے کی
قرآن وا ہلبیت کا یہ اتصال ہے
قرآن ہو علی (ع)کے بنا یہ محال ہے
قرآن کو گروہ میں بٹ کر نہ دیکھئے
لفظ ومعانی اس کے الٹ کر نہ دیکھئے
اوراق اس کے صرف پلٹ کر نہ دیکھئے
قرآن کو اہلبیت سے ہٹ نہ دیکھئے
قرآن دن حق کی ضرورت کا نام ہے
قرآن اہلبیت کی سیرت کا نام ہے
ہے ذکر نوح کا کہیں آدم کا تذکرہ
عیسی کا ذکر ہے کہیں مریم کا تذکرہ
ہے جابجا رسول مکرم کا تذکرہ
اور ہے کہیں پہ خلقت عالم کا تذکرہ
ہجرت کا تذکرہ کہیں ذکر غدیر ہے
ہے ذکر فاطمہ کہیں ذکرامیر ہے
حالات کے لحاظ سے آتی ہیں آیتیں
گھرمیںکبھی جہاد میں اتری ہیں آیتیں
ان میں جو بیشتر ہیں وہ مکی ہیں آیتیں
مطلب کے اعتبار سے گہری ہیں آیتیں
چھوٹی بھی درمیانی کڑی بھی ہیں آیتیں
بعض ان میں نرم بعض کڑی بھی ہیں آیتیں
قرآن کیا ہے خالق اکبر سے پوچھئے
اس کی گرانی قلب پیمبر سے پوچھئے
یاپھر رسول (ص) ہی کے برادر سے پوچھئے
جس گھر کی بات ہے یہ اس گھر سے پوچھئے
قرآن اہلبیت نبی کے سوانہیں
قرآن اہلبیت سے ہرگز جدا نہیں
اس کے بغیر صاحب ایمان نہیں کوئی
اس کے بغیر اعلم دوراں نہیں کوئی
اس کے بغیر دین کا سلطان نہیںکوئی
حد ہے بغیر اس کے مسلمان نہیں کوئی
اس کے بغیر جہل ہے سب شش حیات میں
اس کے بغیر کچھ بھی نہیںکائنات میں
خالق کی لمحہ بھر ہی اطاعت رکی نہیں
خنجر تلے بھی رب کی عبادت رکی نہیں
تبلیغ دین حق کی اشاعت رکی نہیں
نیزے پہ سر تھا پھر بھی تلاوت رکی نہیں
قرآن اہلبیت سے کتنا قریب ہے
قرآن واہل بیت کا رشتہ عجیب ہے
قرآں اگر قمر ہے تنویر ہے رسول (ص)
قرآں اگر ہے لوح تو تحریر ہے رسول (ص)
قرآں اگر ہے لفظ تو تعبیر ہے رسول (ص)
قرآں اگر ہے قول تو تفسیر ہے رسول (ص)
قرآن معجزہ ہے تو معجزنما رسول (ص)
قرآن راہ روہے تو ہے راہنما رسول (ص)
قرآں اگر ہے علم تو پیکر رسول (ص)ہے
قرآں ہے گر سفینہ تو لنگر رسول (ص)ہے
قرآں ہے گر طریق تو رہبر رسول (ص) ہے
قرآن فیصلہ ہے تو داور رسول (ص) ہے
قرآں اگر ہے نور تو پرتورسول (ص)ہے
قرآںہے گر چراغ تو پھر لورسولؐہے
تحریر کیا ہواس کے فضائل کے باب میں
ہیںکتنے ترجمے یہ نہیںہے حساب میں
پھربھی چھپے ہیںمعانی حجاب میں
ضیغم یہی دعاہے خداکی جناب میں
جب تک کہ اس جہاںمیںمیری زندگی رہے
قرآن واہل بیت سے وابستگی رہے
خالق کا ہے کلام یہ مخلوق کا نہیں
پھر کیسے کوئی عیب ہوایسے کلام میں
ہر چیز کی بہار ہے موسم ہر اک کا ہے
قرآن کی بہار ہے ماہ صیام میں
(نتیجہ فکر سید ضیغم عباس نقوی ضیغم بارہ بنکوی)
اس عنوان کو مندرجہ ذیل عناوین میںتقسیم کرسکتے ہیں :
1۔ قرآن کی عظمت قرآن کی روشنی میں
2۔ قرآن کی عظمت سنت کی روشنی میں
3۔ قرآن کی عظمت عقل کی روشنی میں
4۔ قرآن کی عظمت اجنبی کی زبان سے
ان عناوین کی مفصل بحث کے لئے مکمل ایک جلد کتاب درکار ہے لہذاہماری اس مختصر گفتگو میں ان سے مفصل لب کشائی کی گنجائش نہیں ہے بلکہ فقط اشارہ کر کے اپنے اغراض کوخاتمہ کی طرف سمیٹ لوں گا ۔
الف : قرآن کی عظمت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ''ذالک الکتاب لاریب فیہ ''اس کتاب میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے ''یا فرما یا ہے کہ قرآن نور ہے قرآن ذکر ہے قرآن ہدایت کنندہ کتاب ہے قرآن حق ہے ،ان جیسے الفاظ سے قرآن کی فضیلت قرآ ن کی رو سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے ۔لیکن قرآن کی فضیلت کو قرآن کی روسے ثابت کرنا اشکال اوردورجیسے اعتراض سے دوچار ہے لہذا اس کی تفسیر اورتحلیل سے اجتناب کروں گا ۔
ب: فضیلت قرآن سنت کی روشنی میں ثابت کرنے کے لئے کتب ذیل کی طرف رجوع
کرسکتے ہیں (1)
حضرت پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا قرآن حبل المتین ہے یعنی مضبوط رسی ہے عروۃ الوثقی ہے یعنی مضبوط وسیلہ ہے ''ان هذاالقرآن هو النور المبین ''''یعنی بتحقیق یہ کتاب واضح روشنی ہے ''ومن اشتشفی به شفا ء الله ''''اگرکوئی شخص قرآن سے شفا مانگے تو خدا وند اسے شفا عطا فرماتا ہیں ''
مولی امیر المومنین کی زبان سے عظمت قرآن کو ثابت کر نا چاہیں تو نہج البلاغہ میں کئی خطبوں اورکچھ ناموںمیںاشارہ فرمایا ہے رجوع کیجیے۔ (2)
آپ نے فرمایا اللہ نے قرآن کو مجتہدین اورصاحب نظر علماء کے دلوں کے لئے بہار باطنی تشنگی کے لئے سیرابی قرار دیا ہے قرآن ایسا چراغ ہے کہ جس کی لوکبھی خاموش نہیںہوتی، قرآن ہر امراض کے لئے باعث شفا ہے ۔
نیز دیگر ائمہ معصومین کی زبان قرآن کی عظمت سے مطلع ہونے کے لئے اصول کافی جلد دوم کتاب فضل القرآن میںبیسوں صحیح السند احادیث موجود ہیں رجوع فرمائیں
.................................................
(1)بحار الانوار کتاب فضل القرآن ، اور اصول کافی 2فضل القرآن )
(2)نہج البلاغہ
نیز تفاسیر کی کتابوں میںقرآن کی فضیلت اورعظمت پر دلالت کرنے والی بہت سی احادیث اورروایات کو نقل کیاہے۔ (1)
ج: عقل کی روسے قرآن کی عظمت کو ثابت کرنے میں مندرجہ ذیل نکات کافی ہیں ،کہ عقل ہر چیز کی خوبی اوربدی اورکائنات کے حقائق کو درک کرنے کی صلاحیت اورطاقت کا نام ہے جس کی نظرمیںقرآن ایک ایسا بحر بیکراں ہے جس کی تہہ تک کوئی غواص نہیں پہنچ سکتا ہر غواص اس علم کے دریاسے کسب فیض حاصل کرسکتا ہے کیونکہ عقل کی نظر میں قرآن تمام کتب آسمانی کا نچوڑ اورخلاصہ ہونے کے علاوہ کائناتی تمام علوم کا مجموعہ بھی ہے لہذا ہر بشر قرآن سے مستفید ہوسکتا ہے مسلمان ہو یانہ ہو ماہر اخلاقیات ہویانہ ہو ،معاشیات کا ماہر ہویا نہ ہو عالم ہو یا جاہل ،فقیہ ہو یا نہ ہو سائسدان ہو یانہ ہو فزیک دان ہو یا نہ ہو ہرایک اپنی صلاحیت کی حیثیت سے قرآن سے استفادہ کرسکتا ہے کیونکہ اس کائنات کو خلق کرنے کے بعد اللہ نے ہی بشر کو علم سے فیضیاب کیا ہے ورنہ انسان ذاتی حوالے سے جاہل محض ہے اللہ نے ہی پیامبروں کے ذریعے علم وحلم اوردیگر فنوں اورہنروں سے مالامال فرمایا ہے لہذاآج اگر انسان کسی فیلڈمیںپڑھے لکھے یا ہنر مند سمجھا جاتا ہے تو یہ اللہ کی مرہون منت ہے کہ جس نے ہر دور میں بشر کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ہدایت یافتہ ،ہنر مند ہستیوں کو مبعوث فرمانے
..................................
(1)تفسیر بیضاوی ، تفسیردر منثور ،تفسیر صافی والمنار
کے ساتھ ایسا دستور العمل بھی بھیجاکہ جو اپنے دور کے تمام علوم کا مجموعۃتھا ، ان باتوں کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کائناتی تمام علوم کاسر چشمہ ذات باری تعالی ہے لیکن ہردور
کے ملحدین اورغاصبین اللہ کی بھیجی ہوئی کتابوں سے فنون اورہنروں کے اصول وضوابط کو ہڑب کرتے تھے اوراس کو اپنی ذاتی کوشش اورصلاحیت کا نتیجہ سمجھتے تھے اورکہا کرتے تھے کہ ہم نے علم فزیک سائنس اورٹیکنالوجی کے قوانین ریاضی کے فارمولوں کو ایجاد کیاہے،اور ہم نے ہی کہکشانوں کی خاصیت زمین وآسمان، سورج اورچاند اورستاروں کے چھوٹے وبڑئے تمام اسرار کو انکشاف کیاہے جو اس مادی زندگی کی فلاح وبہبود کے لئے بہت ہی ضروری ہے ۔
لہذا وہ لوگ ادیان الہی کو بدنام کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دین یعنی خشک تقدس اورترک دنیا وتقوی کا مجموعۃ ہے جس میں نہ کوئی فن اورہنر کے اصول وضوابط کا ذکرملتا ہے نہ کوئی لوازمات زندگی کے انکشافات کے فرمولے موجود ہیں نہ کوئی سائنسی تحقیقات اورایجادات کی تفسیراور وضاحت ہے لہذاان کی نظر میں دین اور مذہب تمام چیزوں سے محروم فقط کچھ رسومات کو انجام دینے کا نام ہے ،جبکہ آدم سے قائم تک کے ادیان الہی کابغور مطالعہ کریں تو بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ ہر دور میںنظام الہی ہی بشر کے تمام احتیاجات پر مشتمل اصول وضوابط کا مجموعہ رہا ہے لہذا ان سے ہمارا سوال یہ ہے کہ تم کوئی ایسا فرمولہ پیش کروجو کسی کتب آسمانی سے نہ لیاگیا ہو !فقط کتب آسمانی کے علوم کو ھڑب کر کے اپنے نام پر ثبت کر نے سے خالق اورایجاد کنندہ نہیں بن سکتے ۔ اور قرآن کریم تمام کتب آسمانی جو ایک سوچودہ کتابیں بتائی جاتی ہیں ان تمام علو م کا ایک سمندر ہے جس سے ہر بشر اپنی نیاز مندی اوراحتیاجات کو دور کرسکتاہے ،فلاسفر کے لئے فلسفی اورعقلی فارمولے،ماہرین اقتصاد ومعایشات کے لئے اقتصادی فارمولے ریاضی دان کے لئے ریاضی کے فارمولے فیزیک والوں کے لئے کیماوی اورفیزیک کے نکات سائنسدان کے لئے سائنسی ایجادات اورانکشافات کے قاعدہ وقوانین ،مفکرین کے لئے فکری اورتدبیری ،نکات فقیہ ومجتھدین کے لئے فقہی دستورات ،ادیبوںکے لئے ادبی نکات ،فصاحت وبلاغت والوں کے لئے اپنے رشتے کے حوالے سے جواہر ات سے بھری ہوئی کتاب کانام قرآن ہے
۔
البتہ قرآن میںہر ایک فارمولے اورنکات کا نام جو Aیا B کی شکل میںتمام جزیات کا بیان نہیں ہواہے لیکن جزیات کی تشریح اورتفسیر نہ کرنے کا مطلب ہر گزیہ نہیں ہے کہ اس کا قرآن میں سرے سے کوئی تذکرہ نہیںہے، بلکہ ہم خود علوم قرآن سے دورہیں !لہذا ہر دور میں باالخصوص اس دورکے جتنے انکشافات اورایجادات ہیں سب کاتذکرہ قرآن میںموجود ہے لیکن ہماری اپنی کوتاہی اورجہالت اورکم علمی کی وجہ سے ان نکات اورفارمولوںتک رسائی حاصل نہیں ہوپاتی ، کیونکہ ہم نے قرآن فہمی کی کلاسوں میں کبھی شرکت نہیں کی ۔
قرآن کے بارئے میںتدبر اور تفکر کاحکم ،کفار ومشرکین سے لڑنے کا حکم ،عمل صالح کی اتنی اہمیت اورتاکید گذشتہ اقوام اورامتوں کے حالات سے عبرت لینے کی سفارش، آبادی اور نابودی سعادتمندی اورشقاوتمندی کے اسباب وعلل وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی رحمت اورقدرت پوری کائنات پرحاکم ہے نیز اللہ نے بارہا صبر وتحمل سے زندگی گذار نے کی تلقین کی ا سے ذراساتوجہ اورگہری نظروں سے غور کریں تو معلوم ہوجا تاہے کہ قرآن ایک ایسا بحربیکراں ہے جس کی تہہ تک بشر کی رسائی نہیں ہو سکتی اس کا مقصد یہ نہیںہے کہ قرآن میںکائناتی علوم کی طرف اشارہ نہیںہوا ہے ، بلکہ ہم نے قرآن کے قیمتی مطالب اورنکات سے استفادہ کرنے کی بجائے اس دور کے ہر حوالے سے محدود افراد کے توہمات اورخرافات سے بھری ہوئی کتابوں سے استفادہ کرنا اپنا مقدر سمجھتے ہیں۔
والسلام
محمد باقر مقدسی ہلال آباد
20 صفرالمظفر 1428بوقت 11شب حوزہ علمیہ قم المقدس
جمہوری اسلامی ایران
1۔ قرآن کریم
2۔ البرہان --- علی احمد حرائی
3۔ البرہان فی مشکلات قرآن --- ابو المعالی
4۔ مجمع البیان ج1 --- شیخ طوسی
5۔ مناہل العرفان ج 1ص 337 --- سبکی
6۔ اتقان ج 1 ص 104،105 --- سیوطی
7۔صحیح بخاری --- امام بخاری
9۔ شناخت قرآن --- علی کمالی
10۔ تفسیر التبیان --- طوسی
11۔ کشاف ج1 --- ذمخشری
12۔ در منثور --- سیوطی
13۔ سنن نسائی --- نسائی
14۔ سنن ترمذی ج 3 ص9 --- ترمذی
15۔ کتاب قیس بن قیس ص 81 --- مسلم بن قیس
16۔ بحا ر الانوار ج 4 ج92 --- مجلسی دوم
17 ۔ طبقات ج 3 ص137 --- ابن سعد
18۔ التفسیر التفسیر ج1،ج2 --- ذہبی
19۔ المنارج2
20۔ سفینۃ البحار ج 2 ص 154
21۔ اسد الغا بۃ ج1 ص 258
22۔ مذاہب التفسیر الاسلامی
23۔ المیزان --- علامہ طباطبائی
24۔ مدخل التفسیر --- آیت اللہ فاضل لنکرانی رحمۃ اللہ علیہ
25۔ ثواب الاعمال وعقابھا --- صدوق
26۔ نہج البلاغۃ --- سید رضی
27۔ تفسیر بیضاوی --- بیضاوی
28۔ الاالرحمن --- بلاغی
29۔ حدائق ج8ص95 --- بحرانی
30۔ تفسیر طبری ج1 ص9 --- طبری
31۔ خصال ج 2 ص11 --- صدوق
32۔ الوافی ج 5باب اختلاف القرات
33۔ البیان ج 1 --- خوئی رحمۃ اللہ علیہ
34۔کتاب الفاظ والحروف --- فارابی
35۔ تاریخ عرب قبل الاسلام ج 8 ص186
36۔ وفیات الاعیان
37۔ سعد السعود ص181
38۔ قواعد الفقہ ج 4 ص70 --- بجنوردی
39۔ تفسیر صافی ج 1 ص51 --- فیض کاشانی
40۔ احقاق الحق ج 2 ص129
41۔ کشف الغطاء --- کاشف الغطائ
42۔ حریم قرآن کا دفاع --- جواد فاضل لنکرانی
43۔ سلامت القرآن من التحریف ج 1وج2 --- محمدی
44۔ الذخیرہ فی علم الکتاب ص361
45۔ تہذیب الاصول ج 2 --- تقریرات امام خمینی ؓ
46۔ معالم الاصول ص147 --- فرزند شہید ثانی
47۔ الفصول المہمہ --- ابن صباغ مالکی
48۔ فضائل قرآن
49۔ تذکرۃ الحفاظ
50۔ محاضرا ت الادباء
51۔ اصول کافی --- مرحوم کلینی
52۔ شرائع الاسلام ج 2 --- محقق
53۔ مسالک ج 7 --- شہید ثانی
54۔وسائل ج 18 --- حر آملی
55۔ سنن بہیقی --- بہیقی
56۔ صحیح مسلم --- امام مسلم
57۔ احیاء العلوم مقدمہ مراۃ العقول ج 1 --- علامہ عسکری ؓ
58۔ روض الجنان ج1 --- رازی
59۔ مقدمہ ابن خلدون --- ابن خلدون
60۔کنز العمال ج1 --- متقی ہندی
اینجانب جناب الحاج سید جعفر حسین رضوی دام عزہ کا سپاس گذار ہوں کہ جنہوں نے مندرجہ ذیل مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے کتاب ھذا کی طباعت پر بھر پور تعاون فرمایا
1۔مرحوم گوہر حسین
2۔ مرحومہ انور زمانی بیگم
3۔مرحوم رضاعلی خان
4۔مرحوم نقی علی خان
5۔مرحوم سید محمد جعفر
6۔مرحومہ حسینی بیگم
7۔ مرحوم احسن حسن