حریم قرآن کا دفاع

علوم قرآن
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

    بسم الله الرحمن الرحیم

کتاب کی شناخت

نام کتاب .......................حریم قرآن کا دفاع

مؤلف .......................جواد فاضل لنکرانی

مترجم ..........................محمد باقر مقدسی

زیر نظر............................. علی ایمانی

کمپوزنگ ..........................محمد یونس حیدری

طبع ..................................... اول


 

 

بسم الله الرحمن الرحیم

انا نحن نذلنا الذکر و انا له لحافظون

ترجمہ

ہم نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے حفاظت کرنے والے ہیں  ۔


 

 

 

حرف آغاز

 

عظیم پروردگار کا شکر گزار ہوں اور وہی حمد و ثنا کا مستحق ہے جس نے ہم پر احسان کیا اور ایک عظیم امانت کو اٹھانے کے لائق سمجھا ،وہی امانت جو اللہ کی طرف سے آخری اور ابدی معجزہ ہے ،وہ معجزہ جو ایک وسیع دسترخوان کی مانند پورے عالم کے حقائق سے بھرا ہوا ہے اور ہمیشہ کے لئے بھیجا گیا ،یعنی قرآن کریم کی شکل میں  کریم مطلق ،کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تا کہ انسانوں  کی سعادت کا ذریعہ بنے ،ایک ایسا بیکران سمندر ہے جس کی چھوٹی بڑی تمام امواج بہت ہی عمیق اور عظیم اسرار پر مشتمل ہیں   ،وہی بہترین ہدایت اور سعادت کا راستہ ہے ،کتاب جو ہمیشہ پوری بشریت اور ہر معاشرے کے لئے زمان و مکان میں چراغ ہدایت ہے ،اور قیامت تک گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں  میں  مبتلا ء افراد کی رہنمائی کرتی رہے گی ،یہ کتاب ہر زمانے میں  نور اور ہر مرحلہ میں  بہترین رہنما اور ہر خشک و تر کا ذکر اس میں  موجود ہے ،انسانی زندگی کے تمام پہلؤں  اور کائنات کی ہر شیء کا اس میں کھلا بیان ہے ۔یہ وہ کتاب ہے جس کی ہر وقت اور ہمیشہ کسی بھی قسم کی تبدیلی سے حفاظت کرنے کا خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے،اور ایسا وعدہ کہ جس سے تخلف کرنا محال ہے ،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :''انّ وعد الله حق'' اس مختصر کتابچہ میں  جو مطالب بیان کئے گئے ہیں   وہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے سے مربوط ہیں  جسے علوم قرآن کے مباحث میں  سے بنیادی اور اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے ۔اور یہ مسئلہ تمام محققین،مفسرین او ر اس کتاب کے بارے میں  غور و خوض کرنے والوں  کی نظر میں  بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس لئے اس کے تمام پہلوؤں  پر گفتگو اور وضاحت ضروری ہے ۔


 

 

اس مسئلہ کے بارے میں باریکی کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحریف قرآن کا مسئلہ اسلامی فرقوں میں سے کسی کی طرف نسبت دینا بجائے خود ایک نمایاں تحریف ہے ،خصوصاً کسی ایسے مذہب کی طرف جس کے اعتقادات کی بنیاد عدم تحریف پر ہو تحریف کی تہمت دینا سراسر جھوٹ اور بہتان ہے ۔عنقریب ان اہم مطالب کی توضیح اور تشریح کے دوران اس مسئلے پر مختلف پہلوؤں  سے تحقےق کرکے ےہ ثابت کریں  گے کہ شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیں   ہیں   بلکہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر وہ تحریف کے قائل ہو ہی نہیں   سکتے ۔کیونکہ اگر وہ تحریف کے قائل ہو جائیں  تو ان کے اعتقادات کی بنیاد ڈھ جائے گی ۔

آئیے اس عظیم اجتماع(1) میں  جہاں  بڑے بڑے دانشور ،علماء اور مذہبی

......................................

1۔اس تحریر کو سب سے پہلے ایک علمی کانفرس میں  پیش کیا گیا تھا (اس عظیم اجتماع) سے مراد یہی کانفرنس ہے ۔


 

 

شخصیات موجود ہیں  ہم ایک'' عالمی اعلان ''شایع کریں ۔تمام مذاہب ،طبقات ،ملل،اقوام ،اور ادیان کو یہ بتائیں  کہ قرآن کریم حضور اکرمؐ پر نزول کے زمانے سے لے کر آج تک کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رہا اور قیامت تک کوئی بھی اس میں تحریف نہیں  کرسکتا۔ایسا نہیں   ہے کہ ہم اس مسئلہ کو ایک قضیہ خارجیہ کے طور پر پیش کر کے کہیں   کہ اب تک قرآن کی تحریف نہیں   ہوئی ہے بلکہ ہم اس مسئلہ کو ایک ''قضیہ حقیقیہ ''کے طور پر بیان کریں یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ کی قطعی سنت قرآن کے بارے میں  یہ ہے کہ اس میں تحریف ہونا محال ہے کوئی شخص یا گروہ آیات الٰہی میں سے کسی ایک آیت میں  بھی تحریف کرنے پر قادر نہیں   ہے یہ ایک ایسی مقدس کتاب اور ابدی معجزہ ہے جو خود ہر زمان و مکان میں تحریف سے محفوظ ہونے کی مدّعی ہے اور اس کی مانند لانے کو چیلنج کیا ہے ۔ اس مختصر کتابچہ میں  مسئلہ تحریف کے تمام پہلوؤں  پر تفصیلی بحث کرنے کی گنجائش نہیں   ہے کیونکہ اگر کوئی اس مسئلہ کے بارے میں  تفصیلی بحث کرنا چاہے تو کئی جلدوں  پر مشتمل ایک کتاب بن جائے گی ہم اس کے اہم نکات میں سے چند ایک کا جائزہ لینا چاہتے ہیں  جو مختصراً بیان ہوئے ہیں  تا کہ اس بحث کے چند نمایاں  پہلوؤں کو واضح کیا جاسکے۔


 

 

پہلا مطلب

لفظ تحریف کی تحقیق

تحریف باب '' تفعیل'' کا مصدر ہے جو لفظ ''حرف'' سے مشتق ہے جس کے لغوی معنیٰ کسی چیز کے کنارہ اور طرف کے ہیں  ۔یا کسی چیز کے کنارے اور طرف سے کچھ حصہ کے ضائع کرنے یا ہونے کو کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا تحریف کے معنیٰ کسی چیز میں  تبدیلی لانے اور اس کے اطراف اور گوشہ سے کچھ کم یا ضائع کرنے کو

کہتے ہیں   ۔خداوند عالم قرآن مجید میں  فرماتا ہے:

''و من النّاس من یعبد الله علیٰ حرفٍ''۔(1)

یعنی لوگوں  میں سے بعض ایسے بھی ہیں   جو کنارے ہو کر خدا کی عبادت کرتے ہیں   ۔یہ وہ لوگ ہیں   جن کو اپنے دین پر یقین نہیں   ،ایسے لوگ ان افراد کی مانند ہیں   جو جنگ کے دوران کسی کنارے میں  کھڑے ہو کر لشکروں  کے ما بین ہونے والی جنگ کو دیکھ رہے ہوں  ،اگر اپنی اطراف کامیابی نظر آئے تو مال غنیمت کی خاطر جا کر شامل ہوتے ہیں  ورنہ راہ فرار اختیار کرتے ہیں   ۔(2)

................................

1۔حج/22،11

2۔کشاف ج2ص126


 

 

پس تحریف لغت کے اعتبار سے ہر چیز کی تبدیلی اور جا بجا ہونے کو کہاجاتا ہے ۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہی کہ تحریف سے ہمیشہ تحریف لفظی سمجھ میں  آتا ہے لیکن قرآن کریم میں  ایک قرینہ کے موجود ہونے کی بنا پر تحریف کا ایک ثانوی ظہور یعنی تحریف معنوی کا مفہوم بھی نظر آتا ہے ۔جیسا کہ یہودی علماء کی مذمت میں  ارشادہوا:

''ویحرفون الکلم عن مواضعه''(1)

یعنی تورات میں  کلام حق کو اس کے محل و معانی اور مقاصد الٰہی سے تبدیل کرتے ہیں   اور کلام حق کو اس کے ظاہری معنوں  پر محمول نہیں   کرتے ۔

اس آیت کریمہ میں  لفظ ''عن مواضعہ ''تحریف معنوی ہونے پر واضح قرینہ اور دلیل ہے لہٰذا راغب اصفہانی نے صرف تحریف نہیں   بلکہ تحریف الکلام کے بارے میں یوں  لکھا ہے ۔

تحریف الکلام ،ان تجعله علیٰ حرفٍ من الاحتمال یمکن حمله علیٰ الوجهین(2) یعنی کلام میں اس طرح تبدیلی لانا کہ جس سے اس کلام میں  دو احتمال ہو سکتے ہوں  ۔یہاں  واضح ہے کہ راغب کا مقصد تحریف سے اس کے لغوی معنیٰ کی وضاحت کرنا نہیں   ہے بلکہ اس کا مقصد تحریف معنوی کو سمجھانا ہے جس کا ذکرآیت شریفہ میں  ہوا ہے۔

 

............................

1۔نسائ/4،46

2۔مفردات ص 112


 

 

فخر رازی نے اس آیت کریمہ کی تفسیر اور وضاحت میں  کئی احتمالات پیش کئے ہیں   ان میں سے بعض تحریف لفظی کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں  ۔لیکن آخر کسی

آیت کی تفسیر میں  تحریف معنوی کو صحیح قوک قرار دیا ہے اور یوں  کہتا ہے :

''ان المراد بالتحریف القاء الشبه الباطلة والتأویلات الفاسدة و صرف اللفظ عن معناه الحق الیٰ معنی باطلٍ بوجوه الحیل اللفظیة کما یفعله اهل البدعة''(1)بے شک تحریف سے مراد باطل شبہات اور فاسد تاویلات کے ذریعے لفظ کو ان کے حقیقی معنوں  سے بدل کر مختلف لفظی حیلوں کے ذریعے باطل معنی کی طر ف لے جانا ہے جیسا کہ اہل بدعت کرتے رہتے ہیں ۔

.............................

1۔تفسیر کبیر ج10 ص117 طبع قدیم


 

 

دوسرا مطلب

تحریف کی قسمیں  اور ان کے استعمال کے موارد

ہمارے بزرگ علمائے کرام کی عبارات میں جیسے محقق خوئی نے دعوا کیا ہے کہ لفظ تحریف چھ معانی میں بطور ''مشترک لفظی '' استعمال ہوا ہے ۔جن میں  سے بعض معانی قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں  جن پر سارے مسلمانوں  کا اجماع اور اتفاق ہے جبکہ بعض موجود تو ہیں  مگر ان کے بارے میں  اجماع واقع نہیں   ہوا کہ اور بعض کے بارے میں اختلاف ہے۔ہم یہاں  مرحوم خوئی نے تحریف کے اصطلاحی معانی کے بارے میں جو مطالب بیان کئے ہیں  اس کا ذکر کر کے تبصرہ کرتے ہوئے اپنا نظریہ بھی بیان کریں گے انہوں نے فرمایا:

تحریف کا لفظ کئی معانی میں استعمال ہوا ہے ان میں سے پہلے معنی کسی چیز کواس کے معانی اور محل سے منتقل کر کے تبدیل کرناہے ۔اس آیہ شریفہ میں  اسی کی طرفاشارہ ہے ۔

''ومن الذین هادوا یحرفون الکلم عن مواضعه''(1)

یہودیوں  میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں  جو کلام کو اس کے محل سے بدل ڈالتے ہیں   اس قسم کی تحریف کو تفسیر بالرائے یا تحریف معنوی کہا جاتا ہے اس قسم کی تحریف قرآن

............................

1۔البیان ص215


 

 

مجید میں واقع ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کیونکہ کچھ مفسرین قرآن نے

آیات کی اس طرح کی تفسیر کی ہیں   کہ جو قرآن کے الفاظ کے حقیقی اور واقعی معنیٰ نہیں   ہیں  بلکہ اپنی خواہشات اور آراء کے مطابق انہوں  نے آیات کی تحریف کی ہے اور اہل بیت علیہم السلام سے منقول روایات میں  اس کی مذمت ہوئی ہے چناچہ امام محمدباقر علیہ السلام نے ایک خط میں  سعد الخیر سے فرمایا:

''و کان من نبذهم الکتاب ان اقاموا حروفه و حرفوا حدوده فهم یرونه ولا یرعونه''(1)۔اور ان میں سے بعض کتاب (قرآن) کی عبارات اور حروف کے پابند ہیں   جبکہ اس کے حدود میں تحریف کرتے ہیں   ،ایسے لوگ اس

کتاب کے راوی ہیں  لیکن محافظ نہیں  ۔

 

تحریف کے دوسراے معنیٰ

تحریف کے دوسرے معنیٰ یہ ہیں   کہ کوئی حرف یا حرکت اجمالی طور پر کم زیادہ ہوئی ہو لیکن خود قرآن محفوظ ہو ۔اس طرح کی تحریف بھی قرآن کریم میں  ثابت ہے جسے ہم اس کی اپنی جگہ ثابت کر چکے ہیں  کہ قرآن کریم کی موجودہ قرائتوں  میں سے کوئی بھی متواتر نہیں  (2)لہٰذا ان تمام میں  سے صرف ایک قرآن واقعی کے مطابق ہے اور دوسری قرآنوں میں سے بعض میں اضافہ یا بعض میں کمی ہے ۔

............................

1۔نسآء 4/46

2۔ کافی ج 8 ص53 و الوافی فی آخر الصلوٰۃ


 

 

 

تحریف کے تیسرے معنی

قرآن کریم میں  ایک لفظ یا اس سے زیادہ کو کم یا زیادہ کرنا،حالانکہ خود قرآن کریم محفوظ ہے ۔ان معنوں  میں تحریف صدر اسلام اور اصحاب کرام کے زمانے میں یقینا واقع ہوئی ہے لیکن اس کی شدت سے مخالفت ہوئی ہے اس کی دلیل اجماع مسلمین ہے ۔یعنی جناب عثمان کے دور میں مصاحف میں سے کچھ صحیفوں  کو جمع کر کے آگ لگا دی گئی اور اپنے حکمرانوں  کو دستور دیا کہ میرے قرآن کے علاوہ دوسروں  کو جلا دو ،اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عثمان کا قرآن دوسرے قرآنوں  سے الگ تھا اور محققین و علماء کی ایک جماعت جس میں سے ایک ابی داؤد سجستانی ہے انہوں  نے اس وقت کے نسخوں  کے جن موارد میں  اختلاف تھا ان کو جمع کیا ہے یعنی عثمان نے جن نسخوں  کوآگ لگانے کا حکم دیا تھا ان میں  اجمالی طور پر تحریف ہوئی تھی لیکن عثمان نے جس قرآن کو جمع کر کے رائج کیا وہ یہی قرآن کریم ہے جو آج تک کسی تحریف کے بغیر ہم تک پہنچا ہے ۔لہٰذا عثمان کے دور حکومت سے پہلے جو نسخے معاشرے میں رائج تھے ان میں  سے ایسی تحریف واقع ہونے کو قبول کرنا چاہیے لیکن جو قرآن دور حاضر میں ہمارے پاس موجود ہے وہ عثمانی نسخہ کے مطابق ہے جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں   ہے ۔


 

 

چوتھے معنی

تحریف کا چوتھا معنیٰ یہ ہے کہ قرآن میں ایک آیت کا اضافہ یا ان میں سے ایک آیت کم ہو جائے ،اگرچہ نازل شدہ قرآن کریم محفوظ اور مصون ہے لیکن ایسی تحریف سوائے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے کسی دوسری آیت میں نہیں  ہوئی ہے۔یعنی مسلمانوں کا اجماع ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (سورہ توبہ کے علاوہ ) ہر سورہ کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت فرماتے تھے ۔لیکن اس بارے میں  اہل سنت کے نظریے میں  اختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن میں شامل ہے یا نہیں  بعض قائل ہیں   کہ شامل ہے بعض کہتے ہیں  کہ شامل نہیں   ہے۔لیکن شیعہ امامیہ کے تمام علماء قائل ہیں  کہ بسم اللہ آیات قرآنی میں  سے ایک آیت ہے اور ان کا اجماع ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورہ کا

جزہے ۔

 

پانچویں  معنی

جو قرآن کریم آج مسلمانوں  کے ہاتھوں  میں موجود ہے اس کی کچھ آیات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کریم میں نہیں  تھیں  آج اضافی ہیں   ۔ایسی تحریف کے مسلمانوں  میں سے صرف دو گروہ قائل ہوئے ہیں 

الف:عجاردہ ،وہ لوگ جو عبدالکریم عجر د(جو خوارج کے بزرگوں میں سے ایک ہے) کی پیروی کرنے والے ہیں   ،جن کا عقیدہ یہ ہے کہ سورہ مبارکہ یوسف قرآن کریم کا جزء نہیں   ہے۔


 

 

ب:ابن مسعود کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ وہ سورہ مبارکہ ''قل اعوذ برب النّاس '' اور ''قل اعوذ برب الفلق'' (معوذتین) کو قرآن کا جزء نہیں  سمجھتے ہیں   ۔اور ان دو گروہ کے علاوہ دوسرے تمام مسلمانوں  کا اجماع اور اتفاق ہے کہ ایسی تحریف قرآن میں  نہیں   ہوئی ہے اور ایسی تحریف کا نظریہ رکھنے والوں  کا عقیدہ غلط اور باطل ہونا بھی ایک امر لازمی ہے ۔

 

چھٹے معنی

یعنی جو قرآن ہمارے درمیان موجود ہے اس میں  پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ قرآن کی چند آیات آج کے قرآن میں موجود نہیں   ہیں   ۔قرآن میں  ایسی تحریف کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں  اختلاف ہے ۔

 

نتیجہ

نتیجہ یہ نکلا کہ ان چھ معنوں میں سے پہلے چار معنوں  میں قطعی طور پر تحریف واقع ہوئی ہے پانچویں معنے میں اجماع واقع نہیں  ہوا ہے اور چھٹے معنے پر علماء کو اختلاف ہے۔

اس عظیم محقق (جناب مرحوم خوئی )کے بیان پر دو اعتراض ہو سکتے ہیں   ۔


 

 

پہلا اعتراض

ہماری تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام معانی اس عنوان میں نہیں  ہیں  کہ لفظ تحریف اس میں استعمال ہو جس کی وجہ سے مشترک لفظی کہلائے بلکہ تحریف کے صرف ایک معنی ہیں  جو معانی مذکورہ میں سے پہلے معنی ہےں  ۔تحریف یعنی ''نقل الشیء عن مواضعہ'' کسی چیز کو اس کے محل سے ہٹا دینا ،لیکن دوسرے سارے معانی اس کے مصادیق ہیں   یا دوسرے لفظوں  میں یوں  کہا جائے کہ مذکورہ تمام معانی میں نقل الشیء عن موضعہ کے معنی پائے جاتے ہیں  ۔لیکن کبھی نقل معنیٰ میں  جس کو تحریف معنوی کہتے ہیں   اور کبھی نقل ،لفظ میں  جس کو تحریف لفظی کہتے ہیں   اور خود اس کی دو قسمیں  ہیں   1۔یا تو نقل لفظ تفصیلی ہے 2۔یا اجمالی۔یا دوسرے لفظوں  میں یوں کہا جائے کہ کمی و بیشی معین طور پر ہوتی ہے یا بطور اجمال واقع ہوتی ہے ۔لہٰذا اس مختصر تحقیق کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیں  کہ اس عظیم محقق کے کلام میں جو معانی تحریف کے لئے ذکر ہوئے ہیں  وہ اس کے مصادیق ہیں  ،یعنی لفظ تحریف مشترک معنوی ہے ایسا نہیں  ہے کہ تحریف معانی کے لئے مختلف موضوع لہ

ہوں  اور تحریف''مشترک لفظی'' کے طور پر ان میں استعمال ہو۔

 

دوسرا عتراض

اس تقسیم کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تحریف کے تمام اقسام میں باطل کا عنوان موجود نہ ہو اگران اقسام میں سے کوئی اس عنوان میں  داخل ہو جائے تو اس آیہ شریفہ ''ولا یأتیه الباطل من بین یدیه '' کے خلاف ہے کیونکہ اس آیہ شریفہ کی ظاہری دلالت یہ ہے کہ قرآن شریف میں کسی قسم کے باطل کے آنے کی کوئی گنجائش نہیں   ۔


 

 

 لہٰذا جن موارد میں  فرمایا ہے کہ بنا پر اجماع مسلمین تحریف واقع ہوئی ہے ان موارد میں تحریف کا عنوان صدق روک دیتا ہے اگرچہ یہ مطلب تحریف

معنوی میں  مشکل نظر آتا ہے ۔

لفظ تحریف کے معانی کی وضاحت اور تحقیق کے بعد ہم اس کی اقسام بیان کریں  گے جیسا کہ اہل فن اور علماء کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریف کی

چھ قسمیں  ہیں   :

1۔تحریف لفظی ،یعنی الفاظ اور جملوں میں کمی اور زیادتی یا تبدیلی کرنا ۔

2۔تحریف معنوی ،کسی کلام یا جملے کی اس طرح تفسیر کرنا کہ وہ اس پر دلالت نہ کرے اس کو تحریف معنوی یا تفسیر بالرائے کہتے ہیں   ، روایات میں  شدت کے ساتھ اس کی مذمت کی گئی ہے ۔چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :من فسر القرآن برأیه فلیتبوء مقعده من النّار'' (1)جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے کی بنا پر کرے تو اس نے اپناٹھکانہ جہنم میں بنایا۔

3۔تحریف موضعی ،یعنی کسی ایک آیت یا سورہ کو نزول کی ترتیب کے خلاف مرتب کرنے کو تحریف موضعی کہتے ہیں   ۔ایسی تحریف آیات میں بہت نادر ہے کیونکہ تمام آیات کو نزول کی ترتیب سے مرتب اور جمع کیا گیا ہے ،لیکن سورتوں  کی نسبت یہ کہہ

.................................

1۔1عوالی اللاالی ج4 ص 104


 

 

سکتے ہیں   کہ ساری سورتیں  نزول کی ترتیب کے خلاف پیغمبر اکرم (ص) کے حکم کے مطابق ترتیب دی گئی ہیں  ۔

4۔قرات میں  تحریف ،کسی لفظ کو جمہور مسلمین کے یہاں  جس قرائت کے ساتھ رائج ہے اس کے خلاف پڑھنے کو قرات کی تحریف کہا جاتا ہے ۔جیسے اکثر قرّاء اپنے اجتہاد اور نظریہ کی بنا پر قرائت کرتے ہیں   جو جمہور مسلمین کی قرائت کے خلاف ہے ۔

5۔لہجے کی تحریف، اقوام و قبائل کے درمیان لہجے کا اختلاف بھی سبب بنتا ہے کہ تلاوت ہر قبیلہ کے یہاں  مخصوص لہجے کے ساتھ ہوتی ہے اس کو لہجے کی تحریف کہتے ہیں   ۔

6۔تحریف تبدیلی ،کسی ایک لفظ کو دوسرے لفظ میں تبدیل کرنا ،چاہے دونوں  ہم معنی ٰ ہوں یا نہ ہوں  ،ابن مسعود نے ایسی تحریف کو ہم معنیٰ (مترادف) الفاظ میں جائز سمجھا ہے ۔چنانچہ فرمایاہے :''لفظ ''علیم'' کی جگہ ''حکیم '' رکھا جا سکتا ہے ''۔

 

تیسرا مطلب

اجمالی اور تفصیلی تحریف

ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ تحریف کی دو قسمیں  ہیں   ۔تحریف یا تفصیلی ہے یا اجمالی ،ان دو قسموں میں  سے جو مورد بحث ہے وہ تحریف تفصیلی ہے ،یعنی کمی و بیشی جو معین طور پر واقع ہو جائے یہی مورد بحث اور محل اختلاف ہے ۔لیکن تحریف اجمالی یعنی اجمالی طور پر کوئی چیز کم یا زیادہ ہو وہ ہماری بحث سے خارج ہے ۔مثال کے طور پر قرائت کے بارے میں  یا بسم اللہ کے بارے میں  اختلاف ہے ،


 

کیا بسم الله الرحمن الرحیم قرآن کی آیات میں سے ایک آیت ہے یا نہیں  ؟جس کو ہم پہلے بھی تحریف اجمالی کے نام سے یاد کیا ہے ہماری بحث سے خارج ہے ،کیونکہ وہ تحریف کہ جس میں  جھگڑہ ہے چاہے کمی کی صورت میں ہو یا اضافہ کی،دونوں  صورتوں  میں  معیار اور ملاک یہ ہے کہ کلام الٰہی کی حقیقت بدلنے کا سبب نہیں  بنے جیسے قرائت کا اختلاف کہ جس میں  شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں   ہے کہ ان قرآئتوں میں سے کوئی ایک قرائت یقینا قرآن حقیقی کی قرائت ہے یا بسم الله الرحمن الرحیم کے بارے میں  کوئی شک و شبہہ نہیں  ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) ہر سورہ کے آغاز میں  تلاوت فرماتے تھے ،لیکن مسلمانوں  کا آپس میں اختلاف ہے کہ بسم اللہ قرآن اور سورہ کاجزء ہے یا نہیں  ۔ بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ بسم اللہ اسی سورہ کا جزء اور حقیقی قرآن ہے جس سورے کے آغاز میں  بسم اللہ ہو۔لیکن دوسرے بعض مسلمانوں  کانظریہ ہے کہ بسم اللہ اس کا جزء نہیں  ہے اس لئے کہ حقیقی قرآن نہیں   ہے یہ دونوں  گروہ میں  سے ہر ایک اپنے نظریے کو واقع کے مطابق سمجھتا ہے اور اپنی بات کو حقیقت اور واقع کے خلاف ہونے کا احتمال تک نہیں   دیتا ۔اور دونوں  کا اجماع ہے کہ بسم اللہ کلام الٰہی میں  یقینا تھا اور کلام بشر اس میں داخل نہیں   ہوا ہے اور اختلاف قرّاء کے مسئلہ میں بھی یہی ہے۔

لہٰذا اسی بنا پر جن موارد میں  تحریف اجمالی ہوئی ہے اگرچہ حقیقی کلام اور حقیقی قرائت کی تشخیص ایک مشکل امر ہے لیکن ہماری بحث سے خارج ہے ۔کیونکہ ہماری بحث ایسی تحریف کے بارے میں  ہے کہ قرآن سے کسی چیز کو حذف کیا گیا ہے یا قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیاگیا ہے ۔


 

 

چوتھا مطلب

تحریف کے قائل ہونے کے لئے خبر واحد کافی نہیں   ہے

یعنی جس طرح قرآنی آیات کے اثبات کے لئے قطعی اور علمی دلیل کی ضرورت ہے اور صرف خبر واحد کے ذریعہ کسی آیت قرآنی کو ثابت نہیں  کر سکتے اسی طرح جو لوگ تحریف کے قائل ہیں   انہیں  چاہیے کہ تحریف کے اثبات پر بھی قطعی دلیل اور علمی برہان پیش کریں  یا دوسرے لفظوں  میں  یوں  کہا جائے کہ جب ہم خبر واحد اوراس جیسی دوسری ادلّہ ظنّیہ (یعنی وہ دلائل جو یقینی اور قطعی نہیں   ہیں   ) کو اعتقادی مسائل ثابت کرنے میں کافی نہیں   سمجھتے ہیں   تو قرآن سے متعلق مسائل کو بھی خبر واحد سے ثابت نہیں  کر سکتے ۔کیونکہ قرآن ہمارے مدارک میں سے اہم ترین مدرک ہے ،اس کے کسی مسئلہ کی نفی یا اثبات کو خبر واحد کے ذریعہ ثابت کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔

لہٰذا مرحوم شیخ طوسی نے اپنی گرانبہا تفسیر ''تبیان '' کے مقدمہ اور تمہید میں فرمایا ہے کہ جتنی روایتیں  تحریف پر دلالت کرتی ہیں   وہ سب خبر واحد ہیں   اور کیونکہ خبر واحد سے یقین اور علم حاصل نہیں   ہوتا لہٰذا مسئلہ تحریف میں بھی ایسی روایتیں  کفایت نہیں  کرتی ہیں  ۔ مرحوم شیخ طوسی کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ تحریف ان مسائل میں  سے ہے کہ جس کے اثبات اور نفی کے لئے یقین اور علم ضروری ہے صرف کسی حدیث یا روایت کا پایا جانا کافی نہیں   ہے ۔


 

 

پانچواں مطلب

قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر علماء شیعہ کا نظریہ

امامیہ مذہب کے عظیم علماء اور محققین اس بات کے معتقد ہیں  کہ قرآن مجید میں  کوئی تحریف نہیں  ہوئی ہے ۔یعنی اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں   کہ جو قرآن کریم آج ہمارے پاس موجود ہے یہ وہی قرآن ہے جسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قلب مطہر پر اتارا گیا تھا جس میں کسی قسم کی کمی بیشی واقع نہیں   ہوئی ہے ۔یہاں ہم علمائے امامیہ میں سے ان حضرات کے نظریے جو مذہب تشیع کے ستون سمجھے جاتے ہیں  اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں  کیونکہ انہیں   حضرات کی کتابوں کو مذہب تشیع کے اعتقادی اور علمی مسائل کا مدار شمار کیا جاتا ہے لیکن ان حضرات کے نظریے کو ذکر کرنے سے پہلے دو مطالب کی طرف قارئین کی توجہ کو مبذول کرنا ضروری سمجھتا ہوں  ۔

الف:علوم قرآن سے متعلق لکھی گئی کچھ کتابوں  میں قرآن میں تحریف ہونے والے نظریہ کو شیعہ امامیہ کے علماء میں سے جو اخباری ہیں   ،اور اہل سنت میں سے جو حشویہ ہیں   ،ان کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔غور طلب بات یہ ہے کہ اخباری علماء کے بعض بزرگوں  نے جیسے جناب حر عاملیؒ صاحب وسائل الشیعہ ،قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں   ،اور اسی موضوع پر مستقل ایک کتابچہ تحریر فرمایا ہے ۔لہٰذا کسی کا اخباری ہونے سے یہ لازم نہیں   آتا کہ وہ تحریف کا قائل ہے


 

 

ب:اس میں  شک نہیں   کہ شیعہ امامیہ کے علماء قرآن میں تحریف یعنی کسی شی کا اضافہ نہ ہونے پر اجماع رکھتے ہیں   ،لیکن تحریف یعنی قرآن میں کمی واقع ہونے کا مسئلہ اختلافی ہے ،اگرچہ اس میں بھی بعض علماء جیسے مرحوم مقدس بغدادی اپنی کتاب ''شرح وافیہ'' (1)میں مرحوم شیخ کاشف الغطاء اپنی گرانبہا کتاب کشف الغطاء میں

قرآن کریم میں کمی واقع نہ ہونے پر بھی تمام علماء امامیہ کا اتفاق و اجماع ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں  ۔

علمائے امامیہ کے عظیم علماء کے نظریات اس بارے میں یوں  ہیں  ۔

1۔فضل ابن شاذان جو شیعہ امامیہ قرن سوم ہجری کے مصنفین میں سے ایک ہیں   ، انہوں  نے قرآن میں تحریف یعنی کمی واقع ہونے سے انکار اور اس نظریہ کے قائلین کو رد کرنے کے بعد ''کتاب ایضاح ''میں ان روایات کو جو تحریف پر دلالت کرتی ہیں  دوسرے مذاہب کی طرف نسبت دی ہے۔

2۔جناب شیخ جعفر کے فرزند محمد بن علی ابن بابویہ قمی شیخ صدوق کے لقب سے معروف و مشہور ہیں  اور جہاں تشیع میں چوتھی صدی کے عظیم اور نامور عالم ہیں  ،

انہوں  نے اپنے ''رسالہ اعتقادات ''میں یوں  تحریر فرمایا ہے:

''قرآن کے بارے میں ہمارا (شیعہ امامیہ عقیدہ یہ ہے کہ جو قرآن آج ہمارے

................................

1۔آلاء الرحمن بلاغی ص 26


 

 

پاس موجود ہے ،ہو بہو وہی قرآن ہے جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوا تھا ،جس میں  کوئی اضافہ یاکمی نہیں   ہوئی ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن میں  کمی واقع ہونے والے نظرئےے کو ہم سے منسوب کرتے ہیں   جھوٹے ہیں   ۔

جناب مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمہ جو علم حدیث اور علم تاریخ اوردیگر متعدد علوم میں  ماہر اور عظیم علمائے امامیہ میں  سے ایک ہیں   ۔ وہ تحریف کے نظرئےے کو امامیہ مذہب سے منسوب کرنے کو جھوٹ اور بہتان سے تعبیر کرتے ہیں   ۔

3۔ جناب مرحوم علی ابن حسین موسوی نے جو سید مرتضی علم الہدیٰ کے لقب سے معروف ومشہور ہیں   ، اورشیعہ امامیہ کے عظیم مجتہدین اور اصولی علماء میں  سے ایک ہیں   طرابلسیات کے سوالات کے جواب میں  فرماتے ہیں  :

'' جس طرح دنیا میں  شہروں  کے وجود اورعظیم واقعات وحادثات کے رونما ہونے پر یقین وعلم حاصل ہے اسی طرح قرآن کے ہم تک بغیر کسی کمی یابیشی کے پہنچنے پر بھی یقین وعلم حاصل ہے ۔ کیونکہ مسلمانوں  نے مختلف عوامل اورانگیزوں  کے ساتھ قرآن کریم کی حفاظت کی تھی یعنی قرآن کریم میں  کسی قسم کی کمی یابیشی واقع ہونے نہ دینے کے لئے بڑا اہتمام کیاتھا اوران کی کوشش یہی رہی ہے کہ جو قرآن پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں  مخصوص نظم وضبط کے ساتھ ایک کتاب کی شکل میں  جمع کیا گیا تھا وہی ہم تک پہنچا ہے جس پر واضح دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ؐ نے ایک جماعت کو قرآن کی حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا ، اورایک جماعت جیسے عبداللہ ابن مسعود اور ابیّ ابن کعب وغیرہ نے کئی دفعہ خود پیغمبر اسلام ؐ کے حضور میں  پورے قرآن کریم کی تلاوت کی تھی ، جو حقیقت میں  قرآن کی صحیح حفاظت ہونے یانہ ہونے کی تصدیق کروانا چاہتے تھے۔


 

 

 لہذا مرحوم سید مرتضٰی نے اپنی گفتگو اوربحث کے آخر میں  فرمایا کہ جو لوگ امامیہ مذہب سے منسلک ہیں   ان میں  سے چند نفر اور مذہب اہل سنت میں  سے حشویہ اس نظریہ کے مخالف ہیں   ۔ لیکن ان کے نظرئےے کاکوئی اعتبار نہیں   کیونکہ انہوں  نے اپنے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کچھ ضعیف روایات بیان کی ہیں   اور انہوں  نے گمان کیا ہے کہ یہ روایات صحیح ہیں   ۔(1)

4۔ مرحوم شیخ طوسی جو شیخ الطائفہ کے لقب سے مشہور ہیں   اورابو جعفر محمدبن حسن کے نام سے موسوم ہیں   اس بارے میں  فرماتے ہیں   :

'' قرآن کریم میں  کمی وبیشی واقع ہونے کا تصور کرنا مناسب نہیں   ہے کیونکہ قرآن کریم میں  کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر اجماع ہے جبکہ قرآن سے کسی چیز کے حذف یاکم ہونے کو سارے مسلمان غلط اورباطل سمجھتے ہیں   اور امامیہ مذہب سے منسلک علماء کاصحیح نظریہ بھی یہی ہے ۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پربہت ساری صحیح السند روایات کی دلالت موجود ہے ، لہذا جو روایات اہل تشیع اوراہل سنت کے طریق سے نقل کی گئی ہوں  ، اور وہ آیات میں سے بعض کے حذف یاکم ہونے پر

.................................

1۔مجمع البیان ،ج1،ص15


 

 

دلالت کرتی ہوں  وہ خبرواحد ہیں   جن سے علم ویقین حاصل نہیں   ہوتاہے لہذا ان کو نظر انداز کرنا چاہئےے ۔( 1 )

5۔فضل ابن حسن طبرسی جن کی کنیت ابوعلی ہے اورعظیم مفسر قرآن ، صاحب مجمع البیان ہیں   ، انہوں  نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں  یوں  لکھا ہے :

'' قرآن میں  کسی آیت کے اضافہ ہونے کا عقیدہ رکھنا غلط اورباطل ہونے پر امامیہ مذہب کا اجماع ہے اگرچہ کم اورحذف ہونے کے قائل علمائے امامیہ میں  سے بعض اخباری علماء اورسنی مذہب میں  حشویہ کی طرف نسبت دی گئی ہے لیکن اکثر علمائے امامیہ کے نزدیک یہ نظریہ صحیح نہیں   ہے ۔''(2)

6۔ مرحوم سید ابن طاؤوس نے فرمایاہے :

'' مذہب امامیہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں  ۔ ( 3)ایک اور جگہ فرمایاکہ مجھے ان لوگوں  پر تعجب ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ جو قرآن آج ہمارے پاس موجود ہے وہی قرآن ہے جو پیغمبراکرم (ص) پرنازل ہواہے اور پیغمبر اکرم (ص) نے ہی اس کو جمع کرنے کا حکم دیا ، اس کے باوجود آیات میں  اہل مدینہ اور مکہ

.............................

1۔مقدمہ تفسیر تبیان

2۔ مجمع البیان 1/15۔

3۔سعد السعود ،ص144


 

 

یااہل کوفہ وبصرہ کے مابین اختلاف ہونے کو نقل کرکے آخر میں  یہ عقیدہ رکھتے ہیں   کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم قرآن اور سورہ کاجزء نہیں   ہے ۔ یہ بہت ہی تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف سے قرآن میں  کسی قسم کی کمی وبیشی نہ ہونے کے قائل ہیں   کہ جس کی تائید دلیل عقلی اورنقلی بھی کرتی ہیں   اس کے باوجود بسم اللہ کو قرآن کی آیات میں  سے ایک آیت اور سورہ کاجز نہ ہونے کو کیسے قبول کرسکتے ہیں   ؟ (1)

7۔ جناب ملامحسن جو فیض کاشانی کے لقب سے مشہور ہیں   فرماتے ہیں   :

'' جوروایات قرآن میں  تحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں   وہ کتاب الہٰی کے مخالف ہیں   لہذا ان کو ردکرنا چاہئےے یااس کی توجیہ اور تفسیر اس طرح کریں  کتاب الہٰی کے مخالف نہ ہو۔(2 )

8۔ جناب مرحوم محمد بہاء الدین عاملی جو شیخ بہائی کے لقب سے معروف ہیں   یوں  فرماتے ہیں   :

'' صحیح اور درست نظریہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کی کمی اوربیشی سے محفوظ ہے یعنی قرآن میں  کسی قسم کی تحریف نہیں   ہوئی ہے اورجو چیز لوگوں  کے مابین مشہورہے وہ علمائے امامیہ کی نظر میں  صحیح نہیں   ہے یعنی لوگوں  کے درمیان

...............................

1۔ سعدا لسعود ص 193

2۔تفسیر صافی ، ج1ص51


 

 

مشہور ہے کہ کچھ آیات میں  حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کانام آیا تھا اس کو حذف کردیا گیا ہے ، مثال کے طور پر آیت '' یاایها الرسول بلغ...'' کے بارے میں  کہا گیا ہے کہ آیت یوں  تھی '' یاایها الرسول بلغ ماانزل الیک فی علی ... میں  سے حضرت علی علیہ السلام کانام تھا اسے حذف کیا گیا ہے ۔ ایسا عقیدہ علمائے امامیہ کے نزدیک غلط ہے کیونکہ قرآن تحریف سے محفوظ ہے ۔''(1)

9۔ شیخ محمد ابن حسن حرعاملی جو ہماری کتب احادیث میں  سے اہم کتاب وسائل الشیعہ کے مصنف ہیں   ایک کتابچہ میں  قرآن کریم میں  تحریف نہ ہونے کو ثابت کرتے ہوئے فرماتے ہیں   :

'' جو لوگ تاریخ اورائمہ معصومین علیہم السلام سے منقول روایات کی تحقیق کریں  توانہیں   یقین اور علم حاصل ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم ہم تک انتہائی تواتر کے ساتھ اور ہزاروں  اصحاب سے نقل ہوتے ہوئے پہنچا ہے ۔ اوراسی سے معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم کی پیغمبرؐ کے دور میں  ہی ایک کتاب کی شکل میں  تدوین کی گئی تھی ۔'' (2)

...........................

1۔الاء الرحمن ، ص26

2۔اظہار الحق ،ج2ص129


 

 

10۔جناب شیخ جعفر کاشف الغطا جو امامیہ مذہب کے ایسے مجتہدین میں  سے جن کی مثال بہت کم ملتی ہے ، اپنی گرانبہا کتاب '' کشف الغطاء '' میں  فرماتے ہیں   :

'' قرآن کریم میں  کسی چیز کے اضافہ نہ ہونے پر سارے مسلمانوں  کااجماع ہے اوریہ نظریہ ایسا ہے جو ہرمذہب اور دین کی ضرورت کاتقاضا ہونے کے ساتھ خود قرآن کی صراحت اور علماء کااجماع بھی ہے ۔ یعنی قرآن ہر زمانے میں  کمی وبیشی سے محفوظ اور مصون ہے لیکن ایک چھوٹے گروہ نے اس نظرئےے کے مخالف ہے جن کے قول کا کوئی اعتبار نہیں  ۔( 1)

ہم نے نمونہ کے طور پر جو کہ شیعہ علمائے کرام چاہے اصولی علماء ہوں  یااخباری کے نظریات ذکر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان تمام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن میں  تحریف ہونے کا نظریہ غلط اوربے بنیاد ہے جس کا باطل ہونا بھی واضح ہے ۔ اوربہت ہی کم تعداد پر مشتمل ایک گروہ نے کچھ روایات کو جوضعیف السند ہونے کے علاوہ خبر واحدبھی ہیں  کواپنی کتابوں  میں  ذکر کرکے تحریف قرآن کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اوریہ نظریہ علمائے امامیہ کی نظر میں  قابل اعتماد نہیں   ہے ، لہذا قرآن میں  تحریف کا نظریہ علمائے امامیہ کی طرف کیسے منسوب کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ایسی نسبت واضح بہتان اورجھوٹ نہیں   ہے ؟ کہ جس کی حرمت سارے

...............................

1۔کشف الغطاء ، ص299۔


 

مسلمانوں  کے یہاں  مسلم ہے ، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس فرقے کے تمام مسائل اعتقادی اور تمام افکار وتصورات کا سرچشمہ قرآن کریم ہو لوگ ان کو قرآن کریم میں  تحریف کے قائل قرار دیں  ؟

 

چھٹا مطلب

قرآن کریم اور دوسری آسمانی کتب میں  فرق

آج کل کے اہم ترین سوالات میں  سے یہ ہے کہ قرآن اوردیگر آسمانی کتابوں  میں  کیا فرق ہے ؟۔ کیونکہ شیعہ امامیہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے کے قائل ہیں   جبکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں  میں  تحریف ہونے پر اجماع ہے ۔ لہذا جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں   انہیں   میں  سے بعض نے تحریف پر اس طرح استدلال کیا ہے کہ گذشتہ ساری کتب آسمانی میں  تحریف ہوئی ہے ، قرآن بھی آسمانی کتابوں  میں  سے ایک ہے اس میں  بھی تحریف واقع ہوئی ہے کیونکہ بہت ساری روایات جو سنی اور شیعہ دونوں  کے یہاں  متواترہسمجھی جاتی ہیں   وارد ہوئی ہیں   جو حادثہ اور واقعہ سابقہ امتوں  میں  رونما ہواہے ایسا حادثہ اس امت میں  بھی رونما ہوگا، چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:

'' کل ماکان فی الامم السالفة فانّه یکون فی هذه الامة مثله حذوا النعل بالنعل والقَذّة بالقَذّة''. (1)، یعنی جوبھی حادثہ سابقہ امتوں  میں  رونما ہوا ہے ہوبہو اس امت میں  بھی رونما ہوگا۔اس روایت کی رو سے ضروری ہے کہ قرآن میں  بھی تحریف واقع ہوجائے ۔

............................

1۔ بحار الانوار باب افتراق الامۃ بعد النبی (ص) ، ج8 ، ص 4۔


 

 

لیکن ہم اس قسم کی روایات اور جو لوگ تحریف قرآن کی اشتباہ میں  مبتلاء ہیں  کاجواب بعد میں  دینگے ( 1) مگرجو مطلب یہاں  پیش کرنا ضروری ہے اورجس کی تلاش میں  ہم ہیں   وہ قرآن اور دیگر کتب آسمانی کے مابین فرق کی وضاحت کرنا ہے اس کے بارے میں  بعض محققین نے یوں  کہاہے:

'' سابقہ آسمانی کتب میں  جوتحریف واقع ہوئی ہے اس سے مراد تحریف معنوی یاتفسیر بالرائے ہے کہ جس کے وقوع اورثبوت پر قرآن کریم صریحاً دلالت کرتا ہے ۔ لیکن وہ تحریف جس سے کمی بیشی مراد لی جاتی ہے اس کاکتب سابقہ میں  ہونے پر قرآن مجید میں  کوئی اشارہ نہیں   ملتا ، اورعلماء کی عبارات اور روایات میں  بھی کوئی قرینہ اور شاہد نہیں   پایا جاتا۔ ( 2)بلکہ ایسی تحریف سے تورات یاانجیل اور دیگر کتب آسمانی ان کے علماء کے یہاں  محفوظ ہونے کو قرآن صراحتاً بیان کرتا ہے ، چنانچہ ارشاد ہوتاہے :

'' ولو انّهم اقامو التورٰة والانجیل وماانزل الیهم من ربهم لاکلوا من فوقهم ومن تحت ارجلهم ...''

اوراگر وہ لوگ تورات اورانجیل اورجو صحیفے ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف

................................

1۔ البیان ، ص221۔

2۔صیانۃ القرآن علی التحریف ، ص94


 

 

سے نازل کئے گئے تھے ان کے احکام پر قائم رہتے تو ضروران کے پروردگار کی طرف سے ان پر اوپر سے رزق برس پڑتا اورپاؤں  کے نیچے سے بھی ابل آتا۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ بن کر آیا ہے اس لئے ضروری ہے ہرقسم کی تحریف اورکمی وبیشی اورتبدیلی وغیرہ سے محفوظ رہے ، جبکہ دوسری آسمانی کتب اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ کے طور پر نہیں   آئی ہےں ۔

 

ساتواں  مطلب

قرآن کے مراحل اور درجات

اہم نکات میں  سے ایک یہ ہے کہ کس قرآن یا دوسرے لفظوں میں موجودہ قرآن کے کس مرحلے نزاع و اختلاف ہے؟ جیسا کہ واضح ہے اور خود قرآن کریم سے بھی استفادہ ہوتا ہے کہ اس مقدس کتاب کے کئی ایک مراحل اور درجات ہیں  ۔

پہلا مرحلہ : لوح محفوظ ہے ، کہ اس مرحلہ میں  واضح اور روشن ہے کہ قرآن قابل تحریف نہیں   ہے اس مرحلہ میں  کسی بشر اورانسان کی رسائی ممکن نہیں  بلکہ قرآن کریم اللہ کے ہاں ہرقسم کی آفت اور آسیب سے محفوظ ہے ۔

دوسرا مرحلہ : جبرئیل کے ذریعہ پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہونا ، اس مرحلہ میں  بھی قرآن میں  تحریف کا تصور نہیں   کیا جاسکتا، کیونکہ جبرئیل اللہ کے فرشتوں  میں  سے ایک مقرب فرشتہ ہے جو عصمت کامالک ہے اورہر قسم کی خطااور اشتباہ وغیرہ سے پاک وپاکیزہ ہے ۔


 

 

تیسرا مرحلہ : قرآن کریم کاپیغمبر اکرم (ص) کے ذریعہ سے لوگوں  تک پہنچنا یعنی جس قرآن کریم کو جبرئیل نے قلب مطہر رسول اسلام (ص) پر نازل کیا تھا پیغمبر اسلام (ص) نے بغیر کسی کمی وبیشی کے لوگوں  تک پہنچایا۔ واضح ہے کہ اس مرحلہ میں بھی کوئی تحریف نہیں   ہوئی ہے کیونکہ قرآن خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں  ایک کتاب کی شکل میں  جمع کیا جا چکا تھا اوربہت سارے اصحاب کرام حافظ قرآن تھے اور انہوں نے ہی آنے والے لوگوں  کے لئے سینہ بہ سینہ اسی قرآن کوتواتر کی شکل میں  منتقل کیا ہے ۔

چوتھا مرحلہ : جس قرآن کا تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچنے کا دعوا کرتے ہیں   یادوسرے لفظوں  میں  جو قرآن آج ایک کتاب کی شکل میں  مخطوط یا مطبوعہ موجود ہے وہ قرآن کے نام سے اللہ کی طرف سے نازل شدہ ایک حقیقت ہے اوربدیہی ہے کہاس میں  تحریف یعنی قرات کی اختلاف وغیرہ کے بارے میں  اختلاف رائے ہے ، ایسی تحریف قرآن مجید کے مراحل میں  سے چوتھے مرحلہ میں  قابل تصور اورممکن ہے ، نیز تحریف یعنی کمی وبیشی کاامکان اور تصور بھی اس مرحلہ میں  ناممکن نہیں  ہے۔ اور جس قرآن کے تحریف ہونے یانہ ہونے کے بارے میں  اختلاف اور جھگڑا ہے وہ ایک حقیقت ہے جو وحی منزل اورکلام حق کی صورت میں  ہم تک تواتر کے ساتھ پہنچا ہے جس کی حفاظت کے بارے میں  خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے :

'' وانّا له لحافظون '' اورہم ہی اس کے محافظ ہیں  ۔ یہاں  کلمہ '' لہ'' کی ضمیر''نازل شدہ ''کی طرف لوٹتی ہے جوقرآن اور ایک حقیقت ہونے کوبیان کرتی ہے ۔ جبکہ قرآنوں  کا تصور تحریف کو بیان کرتا ہے اور اس میں شک نہیں  کہ متعدد ہونے کی صورت میں ان میں تحریف کا امکان ہے۔


 

 

 

اس بیان کی روشنی میں بعض محدثین ( 1)نے کہا ہے کہ قرآن کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اللہ اپنی کتاب کا محافظ ہے اس سے مراد نزول کا مرحلہ ہے جس طرح لوح محفوظ کے مرحلہ میں  قرآن ہر آفت اورآسیب وتحریف سے محفوظ ہے اسی طرح اس مرحلہ ( مرحلہ نزول) میں  بھی اللہ اس کامحافظ ہے ، نہ یہ کہ اللہ تدوین شدہ قرآن اور صحف کامحافظ ہے ۔

یہ ایک باطل توجیہ ہے کیونکہ اس توجیہ پر کوئی دلیل اور شاہد موجود نہیں   ہے بلکہ قرآن معجزہ ہونے کے حوالے سے اس کی نفی کرتا ہے ، چونکہ جس مرحلہ میں  تحریف اورکمی وبیشی عقل کی رو سے ممکن نہیں   ہے اس میں  اللہ کی طرف سے قرآن کی حفاظت کرنا اعجاز نہیں   کہلاتا ہے ۔

...........................

1۔فصل الخطاب ،ص360


 

 

آٹھواں  مطلب

عقل کی رو سے تحریف کا امکان اورعملی طور پر واقع نہ ہونا

آیہ شریفہ '' حفظ'' سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم میں  تحریف عقلی اعتبار سے محال نہیں   ہے لیکن اللہ نے ہی قرآن کو اس کے امکان اور تصور سے بچانے کا وعدہ فرمایا ہے کیونکہ اگر عقل کی روشنی میں  تحریف بالکل محال اور ناممکن ہوتی تو اللہ کے محافظ ہونے کا تصور ہی غلط ہوجاتا ۔ لہذا قرآن میں  تحریف کا ہونا عقلاً ممکن ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس امکان محض سے بچانے کا قطعی وعدہ کیا ہے اس لئے عملی طور پر قرآن کریم ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہے اور خداوند عالم نے قرآن میں تحریف کے وقوعی اور عملی امکان کو بھی رد کیا ہے۔

 

نواں  مطلب

کیا قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر قرآن سے دلیل لانے سے دور لازم آتا ہے ؟

بہت سارے بزرگ علماء نے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر آیات قرآن سے استدلال کیا ہے ؛ لیکن ہم یہاں  جس چیز پر تحقیق کریں  گے یہ ہے کہ کیا نظریہ تحریف کو غلط اورباطل قرار دینے کے لئے آیات قرآن سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں   آتا (جوعقلاًمحال ہے) بعض کا نظریہ ہے کہ تحریف کے نہ ہونے پر آیات سے استدلال کرنا'' دور '' ہے جس کے لئے انہوں  نے دو قسم کے استدلال بیان کیا ہے۔


 

 

1۔ پہلی دلیل: کتاب میں تحریف کا نہ ہونا ان آیات کے حجت ہونے پر موقوف ہے جبکہ ان آیات کی حجیت تحریف نہ ہونے پر موقوف اس بنا پر تحریف کا نہ ہونا خود تحریف نہ ہونے پر موقوف ہے جو دور ہے۔

2۔ دوسری دلیل: یہ ہے کہ نفی تحریف پرجن آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر مبنی اورموقوف ہے جب کہ دوسری طرف سے نفی تحریف خود ان آیات کی حجیت پر موقوف ہے نتیجتاً آیات کریمہ کی حجیت خود آیات کی حجیت پر موقوف ہے یہ ایسا ناممکن کام ہے کہ جس کو علیت میں  دور سے تعبیر کیا جاتا ہے جو محال ہے ۔اس شبہہ اور اعتراض کے کئی جوابات دئے گئے ہیں   ۔ہم ان کا جائزہ لیتے ہیں  ۔

 

پہلا جواب :

مرحوم محقق خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گرانبہا کتاب البیان میں  اس کا جواب یوں  دیا ہے :

''جولوگ ائمہ معصومین علیہم السلام کی خلافت اور ولایت کو قبول نہیں   کرتے وہ اس شبہہ اور اعتراض کاجواب دینے سے عاجز ہیں   لیکن جو لوگ ان بزرگواروں  کی خلافت اورولایت کے معتقدہیں   اوران حضرات کو قرآن کریم کے واقعی اور حقیقی مفسر اور قرآن کے قرین سمجھتے ہیں   وہ ایسے شبہہ کا جواب بہت ہی آسان طریقہ سے دے سکتے ہیں   ، کیونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام نے موجودہ قرآن کی آیات سے استدلال کیا ہے اور اصحاب کرام نے جن آیات سے استدلال کیا تھا ان کی تائید اور تصدیق فرمائی ہے ۔ پس اگرچہ قرآن کی تحریف ہوئی ہو پھر بھی اس کی حجیت باقی ہے کیونکہ جہاں  کہیں   ائمہ معصومین علیہم السلام نے آیات سے استدلال کیا ہے ان کی حجیت ثابت اور واجب العمل ہے ، اور ان سے ہم بھی تمسک کرسکتے ہیں   ۔


 

 

لیکن یہ جواب اشکال سے خالی نہیں   کیونکہ اول آپ کایہ جواب ان کے لئے ہے جو اہل بیت عصمت علیہم السلام کے معتقد اور شیعہ امامیہ ہوں  لیکن ایسے اعتراض کے لئے اس طرح کا جواب دینا صحیح نہیں   ہے بلکہ ایسا جواب در کار ہے جوسب کے لئے قابل قبول اور مفید ہو۔

دوسرایہ کہ: یہ جواب دینا در حقیقت شبہہ اور اشکال کو قبول کرنا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس بنا پر تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی آیات سے ہم عدم تحریف کو ثابت نہیں   کرسکتے بلکہ نفی تحریف پر ہم نے آیات قرآنی اور معصومین علیہم السلام کی تائیدکوایک دوسرے کے ساتھ ضمیمہ کرکے استدلال کیاہے اس طرح استدلال کرنا اور جواب دینا مدعاکے خلاف ہونے کے ساتھ حدیث ثقلین کے ظاہرکے بھی خلاف ہے جس سے بخوبی واضح ہوتاہے کہ قرآن کریم '' ثقل اکبر''کی حیثیت سے کسی چیز کے ضمیمہ کئے بغیر خود ایک مستقل دلیل اور حجت ہے ۔

 

دوسرا جواب

جولوگ قرآن میں  تحریف کے دعویدار ہیں   وہ تحریف کے دائرہ کو محدود سمجھتے ہیں   یعنی تحریف صرف ان آیات میں  واقع ہوئی ہے جن کی طرف کچھ روایات میں  اشارہ کیا گیا ہے لیکن جن آیات سے تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا جارہا ہے وہ ان تحریف شدہ آیات میں  سے نہیں   ہیں  دوسرے الفاظ میں تحریف کے دعویدار ان آیات میں  تحریف نہ ہونے پر اعتقاد رکھتے ہیں   ، لہذا ان سے استدلال کرنے سے دور لازم نہیں   آتا ۔


 

 

یہ جواب بھی اشکال اور اعتراض سے خالی نہیں   ہے کیونکہ تحریف کے بارے میں  دو نظرئےے پائے جاتے ہیں   :

پہلا نظریہ :یہ ہے کچھ لوگوں  کا عقیدہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق چند معین موارد میں  آیات کریمہ میں  تحریف واقع ہوئی ہے اس نظرئےے کے مطابق جواب درست ہے ۔

دوسرانظریہ : یہ ہے کہ کچھ لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں   قطع نظر اس کے کہ روایات کی روشنی میں  تحریف کے قائل ہون اور علم اجمالی جس کا دائرہ وسیع ہے جن آیات سے عدم تحریف پر استدلال کیا گیا ہے وہ بھی اس میں  شامل ہوسکتی ہیں   ، لہذا اس نظریہ کی بنا پر یہ دوسرا جواب صحیح نہیں   ہے۔

 

تیسرا جواب :

بعض محققین اس اعتراض کاجواب یوں  دیتے ہیں   :

'' جن آیات سے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر استدلال ہوا ہے ان میں  تحریف نہ ہونے پر اجماع قائم ہے ''۔(1)

مگریہ جواب بھی بحث طلب ہے کیونکہ جو لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں   اس میں  وہ آیات بھی شامل ہیں   کہ جن سے نفی تحریف اور عدم تحریف پر استدلال کرچکے ہیں   یادوسرے لفظوں  میں  یوں  کہا جائے کہ وہ آیات

اجماع کے اندر داخل نہیں   ہوسکتیں  ورنہ ان کے نظریے کی موجودگی میں  اس کالازمہ

...............................

1۔اکذوبۃ تحریف القرآن ،ص4۔

اس کا عدم ہے جومحال ہے ۔


 

 

چوتھا جواب:

ہمارے والد گرامی محقق فقیہ معظم (آیۃ اللہ العظمی فاضل لنکرانی) نے اس مشکل کو یوں  حل فرمایاہے (1 )کہ جن آیات سے قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے ان کے بارے میں  یہ دیکھنا چاہئےے کہ ہم آیات سے کن کے مقابلے میں  استدلال کررہے ہیں   ، اگرہم آیات سے ان لوگوں  کے مقابل میں  استدلال کررہے ہیں   جو قرآن میں  تحریف کے قائل ہیں   جس پر روایات دلالت کرنے کے دعویدار ہیں   اس صورت میں  آیات سے عدم تحریف استدلال کرنے کا لازمہ دور نہیں   ہے کیونکہ ایسی آیات یقینا تحریف کے موضوع سے خارج ہیں   ۔

لیکن اگر ہم آیات سے ان لوگوں  کے مقابلے میں  استدلال کررہے ہیں   جو قرآن میں  تحریف کے قائل ہیں   اور اس کی دلیل علم اجمالی سمجھتے ہیں   تو اس کے دو مفروضے ہیں   :

پہلا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل ظواہر کتاب کوحجت مانتاہے چاہے تحریف شدہ ہو ایسی صورت میں  دو ر کا اشکال نہیں   ہوسکتا کیونکہ آیات اپنی ظاہری حجیت پر باقی ہیں   اور تحریف کی مذکورہ قسم ظاہری حجت کے لئے کوئی مانع نہیں   اس کانتیجہ یہ ہے

.............................

1۔مدخل التفسیر ، ص202


 

 

کہ آیات سے استدلال کرنے میں  کوئی اعتراض نہیں   ۔

دوسرا مفروضہ: یہ ہے کہ تحریف کا قائل تحریف کو کتاب کی ظاہر حجیت کے لئے مانع جانتا ہے اس صورت میں  یاعلم اجمالی کے ذریعے کتاب میں  تحریف کو واقع سمجھتا ہے یا اجمالی یقین کا مسئلہ نہ ہو بلکہ تحریف کا احتمال پیدا ہوجائے تو پہلی صورت میں آیات سے استدلال نہیں  کیا جاسکتا چاہے تحریف کے مفروضے میں  حجیت پر باقی کیوں  نہ ہو ۔ کیونکہ علم اصول میں  یہ ثابت ہے کہ ایسے ظواہر جو شرعی نشانیوں  کی وجہ سے ظنی ہیں   وہ اس صورت میں  معتبر ہیں   کہ اس کے خلاف یقین نہ ہو ۔ اس بنا پر ایسے مفروضے کی صورت میں  آیات شریفہ قابل استدلال نہیں   رہتی دوسری صورت یعنی یقین کے بغیر صرف احتمال تحریف آیات کی حجیت کے لئے مانع نہیں   ہوسکتی اور آیات کے ذریعے استدلال کرنا اشکال سے خالی ہے ۔

اس جواب میں  بھی تحریف کے علم اجمالی کی صورت میں  آیات سے استدلال کرنا کمزوری ہے۔

 

پانچواں  جواب

جو کچھ ہمیں  نظر آتا ہے یہ ہے کہ جس طرح دیگر حوادث کچھ علل واسباب کا نتیجہ ہوتے ہیں   اسی طرح تحریف بھی بغیر علت اور سبب کے نہیں   ہوسکتی ہے ۔ چونکہ تحریف قرآن کے اسباب وعوامل بہت زیادہ ہیں   لہذا اگران آیات میں  تحریف ہوتی کہ جن سے عدم تحریف پر استدلال کرتے ہیں   تو اس طرح تحریف واقع ہونی چاہئیے کہ ان میں  کمی اور نقص واقع ہوجائے کہ پھر ان سے عدم تحریف پر استدلال کرنا ساقط ہوجائے مثال کے طور پر آیت'' حفظ '' وانا لہ لحافظون '' کے جملے یاکم از کم کلمہ '' لہ'' جو کہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے پر واضح دلیل ہے ، کو حذف کردینا چاہئیے تھا


 

جبکہ ایسے جملے اور الفاظ آیات میں  موجود ہیں   جس سے ہمیں  قرآن میں  تحریف نہ ہونے کایقین یاکم از کم اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ایسے موارد میں  جہاں  قرآن کی کسی اور آیت یاجملہ میں  تحریف ہونے کا علم اجمالی ہو جیسے کہ ان آیات میں  ہم عمومی یقین اس کے برخلاف رکھتے ہیں   جس کے نتیجے میں  ایسے موارد علم اجمالی کے دائرے سے خارج ہوتے ہیں   ۔

 

          دسواں  مطلب

تحریف کے بارے میں  دو دعوے

گذشتہ مطالب سے بخوبی روشن ہوا کہ تحریف کے بارے میں  دو دعوے پائے جاتے ہیں   :

پہلا : کچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں   کہ تحریف کا دائرہ محدود ہے یعنی تحریف صرف ان آیات میں  ہوئی ہے کہ جن کے بارے میں  روایات وارد ہوئی ہیں   لہذا جن آیات کے بارے میں  روایات وارد نہیں   ہوئی ہیں   وہ ہر قسم کی تحریف ، تبدیلی اورکمی وبیشی سے محفوظ ہیں  ۔ جس کو ثابت کرنے کے لئے انہوں  نے ظواہر کتاب سے استدلال کیا ہے عام طور پر یہ دعویٰ وہ لوگ کرتے ہیں   جوتحریف قرآن میں ان روایات کو سند کے طور پر پیش کرتے ہیں  جو بعض حدیث کی کتب میں موجود ہیں  ۔

دوسرا : کچھ لوگ قرآن میں  اجمالی طور پر تحریف واقع ہونے کے معتقد ہیں   دوسرے الفاظ میں یہ لوگ قرآن میں  تحریف ہونے پر علم اجمالی کے دعویدار ہیں   ۔ جولوگ اس نظرئےے کے قائل ہیں   انہوں  نے تحریف کے سلسلے میں  دلیل اور سند کے طور پر دلیل اعتبار اور اس کی مثالیں پیش کی ہیں  ۔(1)

............................

1۔اس دلیل کی وضاحت کے لئے مراجعہ کریں  ، مدخل التفسیر ،ص292


 

 

گیارہواں  مطلب

تحریف نہ ہونے پر عقلی اور عقلائی دلیل کا تجزیہ

بعض صاحب نظر افراد کی عبارات سے استفادہ ہوتا ہے کہ تحریف کے بطلان پر انہوں  نے عقلی دلیل اور سیرت عقلاء سے تمسک کیا ہے ، مرحوم سیدابن طاؤوس نے کتاب سعد السعود میں  صراحت کی ہے کہ قرآن میں  تحریف نہ ہونے پردلیل عقلی ہے جبکہ دوسرے بعض محققین اس مسئلہ پر سیرت عقلاء (1)سے استدلال کرتے ہیں  ۔

 

دلیل عقلی کی وضاحت

عقلی دلیل کو بیان کرنے کے دوصورتیں ہیں   : پہلا بیان : جناب مرحوم خوئی (رح) (2) کی عبارات میں  عقلی دلیل کو ایک غیر مستقل دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ ہم یہاں  نقل کرتے ہیں   ۔ تحریف کا احتمال تین صورتوں  سے خالی نہیں   ، کسی پہلی صورت چوتھی صورت کا تصور عقل کی رو سے محال اور نا ممکن ہے قرآن کی تحریف عثمان کے دور خلافت سے پہلے جناب ابوبکر اورعمر کے دور میں  ان کے ہاتھوں  ہوئی ہو ، یہ صورت یقینا باطل ہے

..........................

1۔ گفتار آسان درنفی تحریف

2۔ البیان صفحہ 215


 

 

کیونکہ یہ صورت تین احتمالات میں  سے کسی ایک سے خالی نہیں   :

پہلا احتمال : تحریف جوہوئی ہے وہ لاشعوری تھی یعنی حضرت پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد جناب ابو بکر اورجناب عمر نے قرآن کی جمع آوری کاکام شروع کیا ، لیکن پورے قرآن پر احاطہ نہ ہونے کی وجہ سے یاپورے قرآن کریم کے دستیاب نہ ہونے کی بنا پر کچھ آیات یاجملے رہ گئے ہیں   جس کا نتیجہ تحریف قرآن کی صورت میں  نکلا۔

دوسرا احتمال : قرآن میں  تحریف اور تبدیلی ان کی طرف سے جان بوجھ کر واقع ہوئی ہے اوروہ بھی ایسی آیات میں  جوان کی حکومت اورخلافت کے لئے کوئی ٹکراؤ یاضرر پہنچانے کا باعث نہیں  تھیں ۔

تیسرا احتمال : تحریف عمداً اور جان بوجھ کرواقع کی گئی ہے اوروہ بھی ان آیات میں  جوان کی حکومت اورخلافت کے ساتھ ٹکراتی تھیں  ۔ چنانچہ تحریف کے قائلین میں  سے بعض اسی احتمال پر بھروسہ کرتے ہیں   ۔

لیکن یہ تینوں  احتمالات غلط اورباطل ہیں   کیونکہ ان تینوں میں  سے پہلا احتمال دو صورتوں  سے باطل ہے ۔

1۔ یہ بات مسلمانوں  کے یہاں  مسلم اوربدیہی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے رحلت سے پہلے قرآن کی حفاظت اس کی قرائت اور ترتیل قرآن کے ساتھ تلاوت کرنے کا مخصوص اہتمام فرمایاتھا اورصحابہ کرام نے بھی اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ انجام دیا لہذا یقینی ہے کہ قرآن کریم ان دونوں  کے دور میں  ہرقسم کے نقص اور زیادتی سے محفوظ تھا۔ اگرچہ قرآن کی جمع آوری دونوں  کے دور میں  ہوئی تھی یاجمع آوری کے بغیر متفرق شکل میں  مکمل طور پر موجود تھا یالوگوں  کے سینوں  یاکاغذوں  پر کسی قسم کی کمی وبیشی کے بغیر موجود تھا ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں  عرب جاہلیت کے اشعار کو یاد اورحفظ کرنے کو اتنی اہمیت دیں  لیکن پیغمبر اکرم (ص) اور قرآن کے معتقد ہونے کے باوجود اس کی حفاظت نہ کریں !۔


 

 

2۔ حدیث ثقلین سے بھی اس احتمال کاغلط اور باطل ہونا واضح ہے کیونکہ اس حدیث کامضمون یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں  کواپنے زمانے میں  ہی کتاب الہیٰ سے تمسک کرنے کا حکم دیا ہے اگر فرض کریں  کہ چند آیات ان سے ضائع ہوگئی ہوں  تو اس کتاب مدوّن اور آیات کے مجموعہ سے تمسک ممکن نہیں   رہتا۔

دوسرا احتمال بھی غلط اورباطل ہے کیونکہ جہاں  تحریف عمدی ہوتو وہ بغیر سبب اورانگیزہ کے نہیں   ہوسکتی ، اگرتحریف ان آیات میں  جان بوجھ کرکی گئی ہو جن سے جناب ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے لئے کوئی ضرر نہیں   پہنچتا تھا تو ایسی آیات میں  تحریف کرنے کا سبب کیاہے ؟ لہذا یہ احتمال بھی صحیح نہیں   ہے ۔ نیز تیسرا احتمال بھی صحیح نہیں   ہے کیونکہ اگر اس طرح تحریف ہوتی تو دوسرے لوگ جو ابوبکر اور عمر کی حکومت اور خلافت کے مخالف ہیں   جن میں  سرفہرست حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور حضرت صدیقہ ئ زہرا سلام اللہ علیہا اور دیگر بارہ افراد جو انصار ومہاجرین کے تھے اس مسئلہ کو ابوبکر اورعمر کی خامیوں  اوران پر ہونے والے اعتراضات میں  ذکر کرتے ، ان کے خلاف کے گئے احتجاجات میں  اس کاتذکرہ ہوتا جبکہ ان کے کلمات اور احتجاجات میں  ایسانظر نہیں   آتا، لہذا اس بحث کانتیجہ یہ ہے کہ ابوبکر اور عمر کے دور خلافت میں  تحریف ہونے کا قائل ہونا مردود اور باطل ہے ۔


 

 

دوسری صورت

عثمان کے دور خلافت میں  تحریف ہوئی ہے ، یہ نظریہ گذشتہ نظریے کی نسبت بہت زیادہ ضعیف اور کمزورہے کیونکہ :

1۔ عثمان کے دور میں  اسلام کی نشر واشاعت اس قدر ہوئی تھی کہ کسی کو قرآن کی کسی آیت کو مٹانا یاکسی آیت کااضافہ کرنا ممکن نہیں   تھا ۔

2۔ اگرعثمان کے دور میں  تحریف ان آیات میں  ہوئی ہو جو اہل بیت عصمت وطہارت علیہم السلام کی ولایت اور خلافت سے مربوط نہیں   ہیں   تو ان میں  تحریف کرنے کاسبب اورہدف قابل تصور نہیں   ہے ، نیز ولایت ائمہ علیہم السلام سے متعلق آیات میں بھی ان کے زمانے میں  تحریف نہ ہونے کایقین ہے ، کیونکہ اگر قرآن کی کوئی آیت صریحاً حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت اور ولایت ثابت کرنے کے لئے ہوتی تو وہ آیت لوگوں  میں  شائع ہوتی اور عثمان تک خلافت نہ پہنچتی ۔

3۔ اگر عثمان قرآن میں  تحریف کرتا تو عثمان کے مخالفین کے لئے یہ مسئلہ ان کے خلاف قیام کرنے کا بہترین بہانہ اور عذر تھا جبکہ ان کی طرف سے کوئی ایسی چیز احتجاج کی شکل میں  نظر نہیں   آتی ۔

4۔اگر تحریف عثمان کے دور خلافت اور عثمان کے ہاتھوں  ہوئی ہوتی تو حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام عثمان کے بعد مسلمانوں  کاخلیفہ اور حاکم ہونے کی حیثیت سے قرآن کو اسی طرح ترتیب دینا چاہئےے تھاجس طرح پیغمبر اکرم (ص)پرنازل ہوا تھا جبکہ ایسی کوئی بات تاریخ میں  نہیں   ملتی ، پس یہ صورت بھی باطل اور غلط ہے ۔


 

 

تیسری صورت

قرآن میں  تحریف عثمان کے دور خلافت کے بعد نبی امیہ کے خلفاء یاان کے ایجنٹوں  کے ہاتھوں  ہوئی ہے ۔ یہ ایسی صورت ہے جس کاسابقہ صورتوں  کی طرح کسی محقق یامورخ نے دعویٰ نہیں   کیا ہے ۔ اور چوتھی صورت بھی عقلاً ممکن نہیں   ہے ۔ لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن میں  تحریف ہونے کانظریہ سرے سے ہی غلط اور باطل ہے ،چونکہ عقلی اعتبار سے کوئی چوتھی صورت موجود نہیں   لہذا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں   کہ عقلی اور تاریخی اعتبار سے تحریف قرآن کامسئلہ باطل اور مردود ہے ۔ یہاں  یہ بھی یادرہے کہ یہ دلیل صرف عقلی حکم سے ثابت نہیں   بلکہ تاریخی تجزیہ بھی ساتھ ہے

 

دلیل عقلی کا دوسرا بیان

اس بیان کی وضاحت کے لئے دو مقدموں  کی ضرورت ہے :

پہلامقدمہ : شریعت اسلام ادیان الہیٰ میں  سے کامل ترین دین ہے اور لوگوں  کے لئے قیامت تک رہنے والا آئین ہے ۔

دوسرا مقدمہ : ایسے دین اورآئین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی دائمی سند اور دستور العمل بھی اس کے ساتھ ہو ، تاکہ لوگ اس کے مطابق عمل کرسکیں ۔

جب ان دو مقدموں  کو ایک دوسرے سے ملائیں  تو نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع کو چاہئےے کہ اپنی کتاب کو ہر قسم کی تحریف اور کمی بیشی سے محفوظ رکھے ۔لہذا عقل کی رو سے شارع (اللہ ) پر لازم ہے کہ قرآن کو تحریف جیسی ظلمت سے محفوظ رکھے۔


 

 

یہ دلیل عقلی بھی شک سے خالی نہیں   ہے کیونکہ عقل قضیہ شرطیہ کے طور پر حکم دیتی ہے کہ قرآن تمام عالم انسانیت کے لئے قیامت تک ان کی زندگی کے تمام مراحل میں  رہنمائی اور ہدایت کے لئے ہے تو تحریف سے محفوظ ہونا چاہئےے لیکن یہ مقدار محل بحث کے لئے مفید نہیں  ہے کیونکہ ہمارا محل بحث تحریف کا واقع ہونایا نہ ہونا ہے اور عقل اس مسئلے میں مستقل طور پر دخالت نہیں  کرسکتی ۔

سیرت اوربناء عقلاء :

بعض علماء نے قرآن کریم میں  تحریف نہ ہونے پر بنا عقلاء اور ان کی سیر ت سے استدلال کیا ہے ا ور اس کی ضاحت یوں  کرتے ہیں   :

'' ہر کتاب میں  لکھی ہوئی بات اور کلام میں  تبدیلی اور تحریف عادت اور فطرت کے خلاف ہے ، پس ایسی تبدیلی اجباری اورغیر عادی ہے ۔ لہذا عقلاء کی سیر ت یہ ہے کہ ایسی تحریف اور تغییر کا اعتنا نہیں   کرتے ۔ اس نظرئےے کی بنا پر قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنا ایک امر طبیعی ہے جبکہ تحریف کا احتمال خلاف طبیعت ہے ۔ لہذا یہی اصل اور قانون اوّلیہ کاتقاضا ہے جو بدیہی ہے اورسب کے پاس مسلم ہے ۔(1)

لیکن یہ دلیل ان کتابوں  کے بارے میں  مفید ہے جن میں  تحریف ہونے کے مختلف انگیزے اور اغراض نہ پائے جاتے ہوں  لیکن قرآن جیسی کتاب میں  کفار او رملحدین کی طرف سے تحریف کے مختلف انگیزے پائے جاتے ہیں   اس میں  تحریف نہ ہونا اس دلیل میں شامل نہیں  ہیں   ۔

...........................

1۔ گفتار آسان در نفی تحریف قرآن ص12


 

 

بارہواں  مطلب

تحریف کے نہ ہونے پر واضح ترین آیت شریفہ

محققین کے ایک گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ قرآن میں تحریف نہ ہونے پر دلالت کرنے والی آیات میں  سے واضح ترین آیت یہ ہے :

''و انّه لکتاب عزیز لا یاتیه الباطل من بین یدیه و لا من خلفه تنزیل من حکیم حمید''(1)

''اور یہ قرآن تویقینی ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس میں سامنے یا پیچھے کسی بھی طرف سے باطل نہیں  آسکتا ہے کہ یہ خوبیوں والے حکیم کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے''۔

بعض مفسرین نے دعوا کیا ہے کہ اس آیت شریفہ کے عدم تحریف پر واضح ترین دلیل ہونے پر سارے مفسرین کا اجماع ہے۔(2)

لہٰذا اس آیت شریفہ سے نفی تحریف پر کئی طریقوں  سے استدلال کیا گیا ہے :

پہلا طریقہ:یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے اپنی کتاب کی صفت کو لفظ عزت سے متصف کیا ہے ۔ عزت کا تصور لغت کے حوالے سے وہاں صحیح ہے جہاں  ہر قسم

..........................

1۔فصلت /41،42

2۔صیانۃ القرآن عن التحریف ص33


 

 

کی تبدیلی اور کمی بیشی سے تحفظ حاصل ہو۔(1)

دوسرا طریقہ:اس آیت شریفہ میں ایک طرف سے طبیعت اور باطل کی نفی ہو رہی ہے اور قاعدے کے مطابق ایسے موارد میں  عموم کا فائدہ دیتی ہے دوسرے الفاظ میں یوں  کہا جاسکتا ہے کہ آیت شریفہ قرآن سے ہر قسم کے باطل کی نفی کرتی ہے اور ہر وہ چیز جو خراب یا فاسد ہو یا کچھ حصہ اس سے ضائع ہوا ہو اس کو عربی زبان میں  باطل کہا جاتاہے ۔پس مسلّم اور بدیہی ہے کہ کلمہئ تحریف ،باطل کے مصادیق میں سے واضح ترین مصداق ہے۔

تیسرا طریقہ:اس آیت میں  اللہ نے ''لایاتیہ الباطل ''یعنی ہر قسم کے باطل کی گنجائش قرآن میں نہیں  ہے ۔اس کی علت کو ا س طرح ذکر کیا ہے کہ کیونکہ یہ کتاب ایسی ہستی کی طرف سے نازل ہوئی ہے جو حکیم اور حمید ہے یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ ایسی کتاب جو کسی حکیم و حمید کی طرف سے آئی ہے اس میں  کسی قسم کی تحریف اور تبدیلی کا

آنا حکمت کی صفت کے ساتھ مناسب ہے ۔مرحوم حاجی نوری (2)نے فرمایا:

''اگرچہ قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی یا تغیر کا قائل ہونا باطل کے مصداق میں سے ایک مصداق ہے لیکن یہاں  آیت شریفہ میں  ہر باطل مراد نہیں  ہے بلکہ ایک خاص

..............................

1۔البیان ص211

2۔فصل الخطاب ص 361


 

 

باطل مراد ہے جو قرآن میں ظاہری طور پر کچھ احکام اور اخبار میں  تناقض کی وجہ سے حاصل ہوجائے اللہ اس کی نفی کرنا چاہتاہے''۔

بعض محققین نے جناب محدث نوری کو یوں جواب دیا ہے :

''آیت شریفہ میں صرف احکام اور اخبارمیں تناقض کی نفی مراد لینا لفظ عزت کے ساتھ مناسب نہیں   ہے۔ (1) دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اس صفت کے ذکر کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کتاب ہر قسم کے باطل سے دور اور محفوظ ہے۔

اس جواب کی وضاحت اور تکمےل کی ضرورت ہے ۔ وہ ےہ ہے کہ اس آیت شرےفہ کا ظاہری معنیٰ جو ہر خاص و عام کے ذہن میں  آجاتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے اس کتاب کو کسی قید اور محدودیت کے بغیر بطور مطلق ''کتاب عزیز'' فرمایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آیت شریفہ میں  کلمہ باطل سے صرف تناقض احکام اور اخبار کا ارادہ کرنا صحیح نہیں   ہے کیونکہ اگر کتاب الٰہی صرف تناقض احکام کے حوالہ سے عزیز اور باطل سے مصون ہو تولفظ''عزیز'' کو کسی محدودیت کے بغیر کتاب کی صفت قرار دینا خلاف ظاہر ہے ۔

......................

1۔ البیان ص211


 

 

اشکالات

لیکن آیت شریفہ پر کئے گئے اعتراضات میں سے اہم ترین اعتراض یہ ہے کہ آیت کے ذکر شدہ معنیٰ اس تفسیر کے مخالف ہیں   جو شیعہ اور سنی کے مفسرین میں سے عظیم ترین مفسرین نے کی ہیں  ۔یعنی اس آیت کی کسی بھی مفسر نے اس طرح تفسیر نہیں   کی ہے کہ جس سے نفی تحریف کا احتمال دیے سکیں  ۔مثال کے طور پر مرحوم شیخ طوسی(رح) نے تفسیر تبیان میں آیت شریفہ کی تفسیر میں پانچ احتمال دیے ہیں  :

الف:لایاتیہ الباطل سے مراد قرآن میں کسی قسم کے شبہہ اور تناقض کی گنجائش نہیں 

ہے بلکہ قرآن خالص حق ہے ۔

ب:قتادہ اور سدّی نے فرمایا ہے :اس آیت شریفہ میں  اللہ تبارک و تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ شیطان قرآن سے حق بات کو مٹانے اور کسی باطل کے اضافہ کرنے پر قادرنہیں   ہے ۔

ج:قرآن سے پہلے اور اس کے بعد اسے باطل کرنے والی کسی چیز کا نہ ہونا مراد ہے۔

د:حسن نے فرمایا :اس آیت سے قرآن کی ابتداء اور آخر میں کسی باطل کی گنجائش نہ ہونا مراد ہے ۔

ہ:قرآن نے گذشتہ اور آیندہ کے حوالے سے جو خبریں دی ہیں   اس میں باطل کی کوئی گنجائش نہیں  ہے ۔

جناب سید مرتضیٰ فرماتے ہیں   :اس آیت کے بارے میں بہترین تفسیر جو کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی کلام یا کوئی کتاب قرآن کی مانند اور مشابہ نہیں  ہو سکتی ہے ،قرآن وہ واحد کتاب ہے جو اپنے بعد کی کتب سے مشابہت نہیں  رکھتی اسی طرح اپنے سے پہلے والی کتب سے متصل بھی نہیں  یعنی قرآن کریم ہر حوالے سے بے مثال اور مستقل کلام ہے ،کسی بھی کلام کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بہتر اور برتر ہے ۔


 

 

اس شبہے کا جواب یوں  دیا جا سکتا ہے ۔

پہلا جواب:مذکورہ تفاسیر اور معانی میں سے کچھ جیسے جناب قتادہ اور سدّی سے نقل کیا گیا ہے ،آیت کے ذریعہ قرآن سے تحریف کی نفی کرنے میں مناسب ہے۔

دوسرا جواب:اگر کسی بھی مفسر نے آیت میں کوئی ایسے معنیٰ کی طرف اشارہ نہ بھی کیا ہو جو نفی تحریف کے اثبات کے لئے مناسب ہو ،پھر بھی آیت کے ذریعہ نفی تحریف پر استدلال کرنا صحیح ہے کیونکہ کسی آیت اور کلام کی تفسیر کرنے کے اصول و ضوابط میں  سے ایک یہ ہے کہ کلام اور آیت کے ظاہری معنیٰ کو مدنظر رکھیں اور آیت کا ظاہر ی معنیٰ کسی شک کے بغیر ہمارے مطلب پر دلالت کرتا ہے اگر ہم غور کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ مفسرین نے مذکورہ معانی پر کوئی معتبر دلیل ذکر نہیں  کی تھی لہٰذا ان کا ہر نظریہ اور تفسیر قابل قبول نہیں   ہے لیکن اس وقت جب ان کی تفسیر پر معصوم سے منقول کوئی روایت ہو ۔

تیسرا جواب:وہ روایات جو لفظ باطل کی وضاحت اور تفسیر میں  آئی ہیں   وہ آیت شریفہ کو اسی میں  منحصر کرنے کے درپے نہیں  بلکہ آیت کریمہ کے مصادیق کو بیان کرتی ہیں   ۔


 

تیرہواں مطلب

کیا تحریف کے قائل ہونے سے ظواہر کتاب کا حجیت سے ساقط ہونا لازم آتا ہے ؟

کیا تحریف کے قائل ہونے کے بعد ہم کتاب کے ظواہر سے استدلال نہیں  کر سکتے ہیں   ؟یہ سوال اس وقت صحیح ہے اگر تحریف کا دعویٰ کرنے والا علم اجمالی کی رو سے تحریف کا قائل ہو۔

بعضوں  نے کہا ہے کہ'' ایسے مفروضے کی صورت میں جس کسی آیت کی تحریف کا احتمال ہو اسے اہم عقلائی اصل سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے جو ''عدم قرینہ '' ہے اور ظاہراً آیت سے استدلال کیا جائے دوسرے الفاظ میں تحریف شدہ کتاب کی حجیت کے لئے ہمیں  معصومین علیہم السلام کی تایید کی ضرورت نہیں  بلکہ ہم  اس عقلائی اصل کی روشنی میں ان کے ظواہر سے استدلال کرسکتے ہیں  ''۔ یہ بیان اور جواب اس صورت میں  صحیح ہے اگر عقلاء کسی کلام میں  قرینہ متصلہ یعنی متکلم کے کلام کےساتھ کوئی قرینہ ہونے کا احتمال دیں  پھر اصل عدم قرینہ سے تمسک اور استدلال کرنے کو صحیح سمجھے جبکہ عقلائی تحقیق کے مطابق جہاں  کہیں  کسی کلام میں  مخاطب اور سامع کوئی قرینہ منفصلہ '' یعنی متکلم کے کلام سے الگ کوئی قرینہ '' ہونے کا احتمال دے وہاں  قرینہ کی نفی کے لئے عقلاء عدم قرینہ سے تمسک کرنا صحیح سمجھتے ہیں   لیکن اگر کسی کلا م میں  قرینہ متصلہ ہونے کا احتمال ہو وہاں  اصل عدم قرینہ سے استدلال کر کے اس احتمال کی نفی کرنا صحیح نہیں   ہے اور مسئلہ تحریف پر علم اجمالی کے بعد احتمال کیا ہے کہ شاید کوئی قرینہ ہے جو تحریف کے نتیجہ میں  حذف کیاگیا ہے


 

لہٰذا تحریف کے بارے میں  علم اجمالی کے مفروضے کی صورت میں  ظواہر کتاب سے تمسک کے لئے حضرات معصومین علیہم السلام کی تایید کے علاوہ اور کوئی چارہ نظر نہیں  آتا اور یہ مطلب حدیث ثقلین کے ظاہر کے خلاف ہے۔

 

چودہواں  مطلب

تحریف نہ ہونے پر حدیث ثقلین کی دلالت

تحریف کی نفی پر دلالت کرنے والی روایات میں سے اہم ترین روایت حدیث ثقلین ہے جو متواتر ہے ،یعنی اصحاب رسول ؐ میں سے 33 ہزار افراد نے جو عظیم شخصیت کے مالک تھے ،پیغمبر اسلام ؐ سے نقل کیا ہے ۔جیسے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ، ابوذر ، عبداللہ بن عباس ،جناب عبداللہ بن عمر ، جناب حذیفہ ،جناب ابو ایوب انصاری (1)اور اہل سنت کے علماء میں  سے دو سو عظیم علماء نے اپنی کتابوں  میں تحریر کیاہے ۔اس حدیث کا متن اس کی اسناد میں سے ایک متن کے مطابق یوں  ہے: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:''انّی تارک فیکم الثقلین کتاب الله و عترتی و فیه الهدی والنور فتمسکوا بکتاب الله و خذوا به و اهل بیتی ،اذکرکم الله فی اهل بیتی (ثلاث مرّات)''(٢)''تحقیق میں تمہارے درمیان دوگراں  بہا چیزیں  چھوڑے جا رہا ہوں  ،ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت (اہلبیت)ہے ،اسی میں  ہدایت اور نور ہے ۔پس تم اللہ کی کتاب اور میرے اہلبیت سے تمسک رکھو ،میرے اہلبیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں  ''۔(یہ جملہ تین دفعہ فرمایا) اس حدیث سے قرآن کریم میں تحریف نہ ہونے پر دو طریقوں  سے استدلال کیا جا سکتا ہے ۔

........................

1۔آلاء الرحمن ص44

2۔سنن دارمی ج2ص431


 

 

پہلا طریقہ

پہلا طریقہ چھ نکات پر مشتمل ہے :

الف:یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ ہم قیامت تک کتاب سے تمسک رکھ سکتے ہیں 

ب:اس کتاب میں  تحریف ہونے کا لازمہ یہ نہیں   ہے کہ ہم اس سے تمسک نہیں رکھ سکتے۔

ج:قرآن سے تمسک رکھنے کا مطلب اس کے تمام پہلوؤں  سے تمسک رکھنا ہے جن کا ذکر قرآن نے کیاہے اور تمسک کے خصوصی معنی جیسے کہ ''آیات احکام''نہیں   ہےں ۔دوسرے الفاظ میں قرآن صرف واجبات و محرمات بیان کرنے کے لئے نہیں   آیاہے بلکہ قرآن اس لئے آیا ہے کہ انسان کو ظلمت کی تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے ۔

د:تحریف کا مقصد یعنی حقائق کو چھپانا اور کتاب کے بعض انوار پر پردہ ڈالنا ہو تو ایسی تحریف پر مشتمل کتاب انسان کے تمام پہلوؤں سے نور اور ہادی نہیں  بن سکتی ۔جبکہ قرآن کریم کا ہدف یہ ہے کہ لوگوں  کو ہر ظلمت اور تاریکی سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جائے تا کہ انسان مادی و معنوی امور میں  انسان کامل کے مرحلہ پر فائز ہو جائے ۔یہ مقصد اور ہدف ایسی ہی کتاب کے ساتھ تمسک سے حاصل ہوتا ہے ۔

ہ:قرآن کریم سے استدلال اور تمسک رکھنا بر خلاف تمسک عترت اسی صورت میں  ممکن ہے کہ ہم قرآن تک پہنچیں  وہ بھی وہی قرآن جو لوگو ں کے پاس موجود ہے نہ وہ قرآن جو اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے پاس محفوظ ہے ،دوسرے

انسانوں کی رسائی سے دور ہے ۔


 

حدیث شریف سے استفادہ ہوتا ہے کہ کتاب سے تمسک رکھنا صرف یہ نہیں   کہ تمسک ممکن ہے بلکہ واجب ہے اور انشاء کے مقام پر جملہ خبریہ حکم تکلیفی کا حامل ہے علم اصول کے مباحث میں یہ واضح ہے کہ تکلیف شرعی میں  لازم ہے کہ مکلفین کی قدرت میں  ہو ۔اس لئے اگر قرآن تحریف کا شکار ہو چکا ہے تو اس سے تمسک نہیں   رکھ سکتے ۔

دوسرا طریقہ

اس حدیث سے استفادہ ہوتا ہے کہ ان دوگراں بہا چیزوں  میں سے ہر ایک دوسری دلیل کے ساتھ مستقل دلیل اور حجت ہے یعنی کتاب الٰہی عترت اور اہلبیت سے قطع نظر مستقل طور پر واجب العمل اور حجت ہے ،نیز عترت بھی کتاب سے قطع نظرمستقل دلیل اور حجت ہے ۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں   ہے کہ ہر ایک اکیلا مطلوب کے حصول اور گمراہی و ظلمت سے نجات پانے کے لئے کافی ہو ،یعنی قرآن اہلبیت کے بغیر یا اہل بیت قرآن کے بغیر ہماری نجات کا ذریعہ بنے، بلکہ گمراہی اور ظلمت سے نکال کر ہدایت اور نور کی طرف لے جانے میں دونوں  کی ضرورت ہے ۔لہٰذا گر قرآن کی تحریف ہوئی ہوتو اس کے ظواہر واجب العمل اور حجت ہونے سے ساقط ہو جاتے ،اور جو لوگ تحریف کے معتقد ہیں   ان کے لئے کتاب کی طرف رجوع کرنے میں تصدیق معصومین اور تائید کی ضرورت ہے ۔جو حدیـث ثقلین کے ظاہر ی معنیٰ کے مخالف ہے ۔کیونکہ حدیث ثقلین کے ظاہری معنیٰ یہ ہیں   کہ کتاب و عترت میں سے ہر ایک مستقل یعنی ایک دوسرے سے ضمیمہ کئے بغیر واجب العمل اور حجت ہیں  ۔لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو چیز ثقل اکبر ہو اس کی حجیت اس چیز پر موقوف ہو جو ثقل اصغر ہے ۔پس ان دو طریقوں  سے درج ذیل نتائج روشن ہو جاتے ہیں   :

1۔قرآن سے تمسک اور استدلال کرنا نہ صرف ممکن ہے بلکہ اس سے تمسک کرنا ضروری ہے ۔

2۔قرآن کو ایک مستقل دلیل اور حجت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لہٰذا بدیہی ہے اگر کوئی تحریف کا قائل ہو تو اس کا یہ نظریہ مذکورہ مطلب سے میل نہیں   کھاتا ۔


 

 

پندرہواں  مطلب

تلاوت کا مٹ جانا اور باطل قرار پانا

سنی علماء کی عبارات میں نسخ تلاوت او رانساء کی دو اصطلاحیں نظر آتی ہیں   اور جواز نسخ تلاوت کو بطور اجمال ذکر کر کے اس پر انہوں  (1)نے عقلی اور نقلی دلیل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔اس کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم غور کریں کہ کیا یہ دو اصطلاح اور لفظ تحریف دو الگ الگ چیزیں  ہیں  یا ان دو اصطلاحوں کے قائل ہونے کا لازمہ تحریف ہے ؟احادیث اور روایات کی کتابوں میں کچھ ایسی احادیث پائی جاتی ہیں  جس کی توجیہ کے نتیجہ میں اہل تسنن کے بزرگ علماء نے ان میں  نسخ تلاوت کو قرار دیا ہے ،انہیں   روایات میں سے ایک وہ ہے جو مسئلہ رجم سے مربوط ہے ۔چنانچہ ابن عباس نے عمر سے روایت کی ہے کہ عمر نے کہا :پیغمبر اکرم (ص) پر نازل شدہ آیات میں سے ایک آیت رجم ہے ،''الشیخ و الشیخۃ اذا زنیا فارجموھما...'' اگر کوئی عمر رسیدہ مرد اور عورت آپس میں زنا کریں تو ان کو سنگسار کریں اور پیغمبر اکرم (ص)نے اپنے دور میں  اس پر عمل کیا ہے،ان کے بعد ہم بھی

اس پر عمل کرتے رہیں   ہیں  ۔(2)

.........................

1۔الاحکام فی اصول الاحکام جزء سوم ص154

2۔مسند احمد ابن حنبل 1/47


 

 

زید بن ثابت فرماتے ہیں  :میں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سنا کہ ''اگر کوئی شادی شدہ مرد یا عورت زنا کرے تو ان کو سنگسار کرنا چاہیئے ۔اس بحث میں  غور کی بات یہ ہے کہ زید بن ثابت نے نہیں   کہا پیغمبر کا یہ کلام وحی اور آیات قرآنی میں  سے ایک ہے لیکن عمر نے خیال کیا کہ یہ وحی منزل اور آیات قرآنی میں سے ایک ہے جبکہ عمرنے پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھا کیا اس کو کتاب میں لکھوں ،تو پیغمبر اکرم (ص) نے کوئی جواب نہیں   دیا (1)

اہل تسنن بھی ان کی اتباع کرتے ہوئے خیال کرنے لگے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا یہ کلام اور حکم قرآن کی ایک آیت تھی لیکن اس کی تلاوت اور قرائت نسخ اور ختم ہو چکی ہے ،اگرچہ اس کا حکم اب بھی باقی ہے ۔

اس نظریے پر کئی اہم اعتراضات ہوئے ہیں  جو یوں  ہیں  :

1۔پہلا اعتراض یہ ہے کہ نسخ جس طرح کا ہو وہ ناسخ کے بغیر نہیں  ہو سکتا ،لیکن یہاں  کوئی ناسخ نظر نہیں  آتا ۔

2۔دوسرا اعتراض یہ ہے کہ بحث نسخ میں یہ ثابت ہے کہ نسخ صرف احکام شرعی کے حدود میں  واقع ہوا ہے لیکن تلاوت کا عنوان شرعی احکام سے مربوط نہیں   اگرچہ اس اعتراض کا جواب اہل سنت کے علماء میں سے بعض نے اس طرح دیا ہے (2)

...............................

1۔محلی ابن حزم ج1ص235

2۔الاحکام آمدی 3/155


 

 

کہ تلاوت قرآن سے اس کا وجود خارجی مراد نہیں   ہے بلکہ تلاوت قرآن کا جواز

مراد ہے جو احکام شرعیہ میں سے ایک ہے ۔

3۔تیسرا عتراض یہ ہے کہ اس جیسے نسخ کا کیا فائدہ ؟یعنی یوں کہا جائے کہ آیت کی تلاوت نسخ ہو چکی ہے لیکن اس کا اصل حکم باقی رہے جو اس آیت کا مدلول ہے باقی رہے ۔

4۔چوتھا اعتراض :اہم ترین اعتراض ہے جسے مرحوم محقق خوئی نے کہا ہے انہوں  نے فرمایا کہ اگر نسخ تلاوت کی یہ صورت حضور اکرم (ص) کے زمانے میں آپ کے حکم سے واقع ہوئی ہے چاہے اس کا لازمہ تحریف نہ بھی ہو ،لیکن ایسی روایتیں  جو مطلب پر دلالت کرتی ہیں  یا اس نظریے پر محمول ہو خبر واحد کی حیثیت سے ہیں  اس لئے اعتماد کے لئے کافی نہیں  اس پر اضافہ یہ کہنا کہ اس قسم کا نسخ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے کے بعد واقع ہواہے اور اگر اس قسم کا نسخ حضور اکرم (ص) کے زمانے کے بعد علماء اور حکمرانوں  کے ذریعے واقع ہوا ہے تو یہ قول عین تحریف کو قبول کرنا ہے ۔(1) لیکن جو کچھ مسئلہ رجم کے متعلق بیان ہوا ہے اس کا بطلان بہت واضح ہے کیونکہ پیغمبر اکرم (ص) نے قرآن کریم کے آیات کو تحریر کرنے میں بڑی باریکی کے ساتھ نگرانی فرمائی

ہے اور بڑے اہتمام کے ساتھ کاتبوں کو اس امر پر مامور فرمایا تھا اس صورت

.............................

1۔البیان ص 206


 

 

میں  کہ آیت رجم اگر آیات قرآن میں سے ہوئی تو آپ نے اسے قرآن میں لکھنے کا حکم کیوں نہیں  دیا اور عمر کے سوال کا جواب کیوں  نہیں   دیا ۔

لہٰذا نسخ تلاوت ایک ایسا مطلب ہے جس کا باطل ہونا بدیہی طور پر واضح ہے یہاں تک کہ بعض اہلسنت(1) کے معاصرین نے کہا ہے کہ عقلاً تو ایسا ہونا جائز ہے مگر اللہ کی کتاب میں ایسا کوئی نسخ واقع نہیں  ہوا ہے ۔ابن حزم اندلسی نے پہلے نسخ تلاوت کو قبول کرنے کے بعد اپنے کلام کے آخر میں ایسی توجیہ کی جیسے نسخ

تلاوت وحی الٰہی سے مربوط ہی نہیں  ہے۔

.........................

1۔فتح المنان فی نسخ القرآن ص224


 

 

سولہواں  مطلب

شیعہ امامیہ تحریف قرآن کے قائل نہیں  ہوسکتے

شیعہ امامیہ نہ صرف تحریف قرآن کے معتقد نہیں  ہیں  بلکہ اصولاً ایسے عقیدے اور نظریے کے قائل نہیں  ہو سکتے ۔کیونکہ شیعہ امامیہ کے اصول اور اعتقادی مسائل کو تشکیل دینے والی اہم ترین دلیلوں  میں سے ایک آیت تطہیر ہے:

''انما یرید الله لیذهب عنکم الرّجس اهل البیت و یطهّر کم تطهیراً'' (1)

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت ! کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے ،اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔

اعتقادی مسائل سے مربوط کتابوں میں ثابت کیا گیا ہے کہ یہ آیت شریفہ اہلبیت علیہم السلام کی عصمت پر واضح ترین دلیل ہے اور وہ بھی ایسی عصمت جو مسلمانوں کے پیشوا اور خلیفہ ئوقت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ضروری ہے ،یعنی اس عصمت کو بیان کرنے والی آیات میں سے واضح اور روشن

آیت ،آیت تطہیر ہے ۔لہٰذا جو لوگ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں  وہ اس آیت سے عصمت پر استدلال نہیں  کر سکتے ،یعنی جب ہم قرآن کو ایک منظم کتاب سمجھیں

...........................

1۔احزاب/33


 

 

کہ جس کا آغاز سورہ مبارکہ حمد اور اختتام سورہ والنّاس ہے ،جس کی تدوین اور جمع آوری خود پیغمبر اکرم (ص) کے زما نہ میں مکمل ہوئی تھی آنحضرت ؐ کے بعد کسی قسم کی کمی بیشی نہیں  ہوئی اور اس کی ہر آیت کو اپنی مخصوص مناسبت کے ساتھ اس طرح رکھا گیا ہے اگر کوئی ایک آیت کو اس کی مخصوص جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرے تو اس کا الٰہی مقصد حاصل نہیں  ہوتا ۔کیونکہ اس آیت کو اس مخصوص جگہ میں ترتیب دینے کا ہدف مقصد یہ ہے کہ اللہ پیغمبر اکرم (ص) کی ازواج کی ذمے داریوں  کو بیان کرتے وقت اہلِ بیت (ع) عصمت کی چند خاص ذمے داریوں کو بیان کرے اگر اس جیسی آیات میں

تحریف کا احتمال دیا جائے تو شیعہ امامیہ کے اعتقادات کے لئے کوئی پناہ باقی نہیں رہے گی ۔(1)

......................

1۔مزید توضیح کے لیے رجوع کریں کتاب'' اہل البیت یا چہرہ ہای درخشان''


 

 

سترہواں مطلب

تحریف کی روایات کا اجمالی جائزہ

تحریف کے قائلین کے پاس اہم ترین دلیل وہ روایات ہیں   جو سنی اور شیعہ کتابوں  میں  ذکر ہوئی ہیں  ،ان روایات کی تعداد بعض محققین نے ایک ہزار ایک سو بائیس (1122) بتائی ہے ،بعض بزرگ علماء نے ان روایات کے تواتر اجمالی کو قبول کر لیا ہے اگرچہ مذکورہ روایات میں سے اکثر کی سند ضعیف ہے لیکن اس کثرت سے وارد ہوئی ہیں   کہ جن میں سے بعض کا معصوم علیہ السلام سے صادر ہونے پر ہمیں  یقین حاصل ہو جاتا ہے ۔لہٰذا ان تمام کے جھوٹ ہونے کا احتمال نہیں  ہے اس لئے جو لو گ تحریف کے قائل ہیں  وہ ان روایات سے تحریف قرآن پر استدلال کرتے ہیں   ۔

لیکن ہمارے علماء میں  سے بعض نے ان روایات پر دو اعتراضات کر کے جواب دیا ہے ۔

 

پہلا طریقہ :جن کتابوں میں ان روایات کو جمع کیا ہے وہ معتبر نہیں  ہیں  ۔

دوسرا طریقہ :ان روایات کے مضمون قابل اعتراض ہیں  ان دونوں  جہتوں کی

وضاحت اور تفصیل کی ضرورت ہے ۔


 

 

پہلی جہت کی وضاحت

ان روایات میں  سے اکثر روایات کے سلسلہ سند میں ''احمد بن محمد سیاری'' ہے جن کے بارے میں علم رجال کے ماہرین کی تعبیر میں '' فاسد المذہب'' او''ر ضعیف الحدیث'' اور نجاشی (1)نے اس کو غالی ہونے سے متہم کیا ہے جبکہ ابن غضائری نے اس کوگمراہ اور ہلاک کرنے والا قرار دیا ہے (2)اس سلسلہ سند میں  جتنے افراد ہیں   ان میں  سے دوسرا شخص یونس بن ظبیان ہے ان کے بارے میں  کہا گیا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور ان کی کتابیں  غلطیوں  سے بھری ہوئی ہیں  اور ابن غضائری نے اس کو کذاب ،غالی اور جعلی حدیثیں  گھڑنے والا قرار دیا ہے ۔(3)اسی طرح سلسلہ سند میں تیسرا جو شخص '' علی ابن احمد کوفی ''ہے ،اس کو علم رجال کے محققین اور مؤلفین نے ضعیف اور فاسد الرّوایۃ یہاں  تک کہ غالی اور گمراہ سے تعبیر کیا ہے ۔(4)

لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر جو لوگ ان روایات کے قائل ہیں  وہ قابل اعتماد افراد نہیں 

...................................

1۔رجال نجاشی ص 58

2۔قاموس الرجال ج1 ص403

3۔خلاصۃ الرجال ص266

4۔دراسات فی الحدیث والمحدثین ص198


 

 

ہیں  ۔پس ان روایات پر اعتماد نہیں  کیا جاسکتا ہے ۔نیز جن کتابوں میں  ان روایات

کو جمع کیا گیا ہے وہ معتبر کتابیں نہیں  ہیں  ؛

الف:مثال کے طور پر بعض روایات سعد بن عبد اللہ اشعری سے منسوب کتاب سے لی گئی ہیں  ،اور اس کتاب کی جناب نعمانی اور سید مرتضیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے لہٰذا اس بنا پرکتاب کامؤلف و مصنف معلوم نہیں  ،نیزعلم رجال میں سے کسی نے اس کو معتبر شمار نہیں  کیا ہے۔

ب:اسی طرح بعض روایات کو سُلَیم بن قیس ہلالی کی کتاب سے نقل کیا گیا ہے جن کے بارے میں مرحوم شیخ مفید نے فرمایا:''ان کی کتاب میں سے کوئی بات نہیں  ہے کہ اسے موثق قرار دیا جائے اور اس پر عمل کرنا بہت سارے موارد میں جائز نہیں   ہے اور اس کتاب کے اندر غلطیوں  اورفریب کے مواد بھرے ہوئے ہیں   پس جو لوگ پرہیز گار و متدین ہیں   وہ اس پر عمل کرنے سے اجتناب کریں '' (1)

ج:تیسری کتاب ،کتاب التنزیل و التحریف یا کتاب قرائت ہے کہ جس کا مؤلف احمد بن محمد سیّاری ہے اور پہلے بیان ہوا کہ علم رجال کے ماہرین نے اس شخص کو ضعیف قرار دیا ہے ۔

د:ان روایات میں سے بعض کو تفسیر ابی الجارود سے نقل کیا گیا ہے اور یہ ایسا شخص ہے

................................

1۔تصحیح الاعتقاد ص72


 

 

جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے لعنت کا مستحق ہوا ہے ،اس کے علاوہ اس

تفسیر کے سلسلہ سند میں ''کثیر بن عیاش ''ہے جو خود ضعیف ہے ۔

ھ:ان کتابوں میں سے ایک علی ابن ابراہیم قمی کی تفسیر ہے ۔یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ جو ان کے شاگردابوالفضل العباس بن محمد علوی کو املاء لکھوایا تھا اور اسی طرح تفسیر ابی الجارود کے ساتھ مخلوظ ہے ۔

و:ان روایات کے مدارک میں سے ایک مدرک کتاب استغاثہ ہے جو'' علی ابن احمدالکوفی ''کی ہے ،ابن غضائری نے'' علی احمد الکوفی ''کو کذاب ،جھوٹا اور غالی ہونے سے متہم کیا ہے ۔

ز:ان روایات میں سے بعض کو'' احتجاج طبرسی ''سے نقل کیا گیا ہے اس کتاب میں موجوداکثرروایتیں  مرسلہ ہیں  اور ایک کتاب روائی کے عنوان سے اس سے

استدلال نہیں  کیا جا سکتا۔

ح:ان روایات میں سے اکثر کافی میں موجود ہیں  ،لیکن صرف کسی کتاب میں کسی روایت کے ہونے کا معنیٰ یہ نہیں  ہے کہ اس کی صحت اور جواز عمل ثابت ہوجائے لہٰذا بعض علماء نے فرمایا :16199 ،احادیث اصول کافی میں  موجود ہیں  لیکن ان میں  سے صرف 5172 احادیث صحیح السند ،144،احادیث کو حَسنہ ،2128 ،احادیث معتبر اور 302،احادیث کو قوی قرار دیا ہے جبکہ 7480،احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے


 

 

روایات کا صرف اصول کافی میں  ہونا دلیل نہیں  ہے کہ ان تمام پر عمل بھی جائز ہو۔(1)

 

دوسری جہت کی وضاحت

یہ روایات دلالت کے اعتبار سے ایک نہیں  ہے ،بلکہ کئی دستوں پر تقسیم

ہوتی ہیں  ۔

پہلا دستہ :بعض روایات ،تحریف معنوی سے مربوط ہیں  جو کہ محل نزاع سے خارج

ہیں   ۔

دوسرا دستہ:روایات اس طرح کی ہیں  کہ وہ قرآن کی قرائت مختلف ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ،جو ہماری بحث سے خارج ہےں ۔

تیسرا دستہ :کسی آیت کریمہ کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں  جس سے بعض محققین نے یہ خیال کیا ہے کہ روایت کا مضمون ہی قرآن کی آیت تھی ،جیسے وہ روایت جو مرحوم کلینی ؒنے اپنی سند کے ساتھ موسی بن جعفر علیہما السلام سے اس روایت کے بارے میں کہ:

................................

1۔دراسات الحدیث و المحدثین ص137


 

 

''أولٰئک الذین یعلم الله ما فی قلوبهم فاعرض عنهم وعظهم و مثل لهم فی انفسهم قولاً بلیغاً''انّه علیه السلام تلاهذه الایة الیٰ قوله :''فاعرض عنهم ''و أضاف:'' فقد سبقت علیهم کلمة الشفاء و سبق لهم العذاب '' و تلابقیة الایة ۔(1)یعنی امام علیہ السلام نے آیت ''فاعرض عنھم '' تک کی تلاوت فرمائی ،پھر آپ نے اضافہ کیا ،شقا اور عذاب کی بات ک وپہلے ذکر کیا گیا تھا ،پھر آیت کے دوسرے جملے کی تلاوت فرمائی ۔جس سے بعض محققین جیسے محدث نوری وغیرہ نے فرمایا کہ اس حدیث کی ظاہر ی ہم آہنگی اور سیاق یہ بتاتا ہے کہ یہ آیت کی تفسیر نہیں  ہے بلکہ موجودہ آیت پر ایک اضافہئ جملہ ہے جو آیت کا حصہ تھا۔(2)

لیکن مرحوم علامہ مجلسی اور دیگر مفسرین نے صاف صاف بتایا ہے کہ یہ آیت کی تفسیر ہے ۔

چوتھا دستہ:روایات اس طرح کی ہیں   کہ وہ دلالت کرتی ہیں  کہ کچھ آیات میں  حضرت علی علیہ السلام اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارک تھے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی روایات کی توضیح اور تاویل کرتی ہیں  نہ یہ کہ حضرت علی اور دیگر ائمہ (ع) کے اسماء مبارکہ آیت کا جزء اور حصہ ہونے پر دلالت کریں ۔

پانچواں دستہ :یہ وہ روایات ہیں  جو قرآن کریم میں قریش کے لوگوں میں سے چند

...............................

1۔روضہ کافی 8/184

2۔فصل الخطاب ص 275


 

 

کے نام موجود ہونے پر دلالت کرتی ہیں   ۔تحریف کرنے والوں نے اس کو ہٹایا اور صرف ابو لہب کا نام باقی رکھا ہے ۔

لیکن ان روایات پر دو اعتراض ہیں  ۔

پہلا اعتراض :یہ ہے کہ ایسا مطلب بیان کرنے والی روایات خود آپس میں تناقض اور تضاد رکھتی ہیں  کیونکہ چند روایات میں سات لوگوں  کے نام حذف ہونے کا ذکر ہے اور چند میں  ستر لوگوں کے نام مٹانے کا ذکر ہے۔

دوسرا اعتراض :یہ ہے کہ اگر غور سے دیکھیں  تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسی روایات کے مضامین ہی ان کے جھوٹ ہونے پر بہترین دلیل ہیں  ،کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ قریش کے دوسرے ناموں کو حذف کر کے صرف ابی لہب کے نام کو باقی رکھیں ؟

چھٹا دستہ :روایات اس طرح کی ہیں   کہ جو دلالت کرتی ہیں  کہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد الفاظ میں تبدیلی لائی گئی ہے یا کچھ الفاظ کو جا بجا کیا گیا ہے ،یعنی ایسی احادیث قرآن میں تحریف ہونے پر دلالت کرتی ہیں   ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی احادیث اجماع کے خلاف ہیں  کیونکہ سارے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ قرآن میں  ایک لفظ بھی زیادہ یا کم نہیں   ہوا ہے۔

ساتواں دستہ:احادیث حضرت حجت امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی شان میں  وارد ہوئی ہیں  وہ روایات حضرت حجت کے ظہور کے بعد وہ قرآن جو حضرت علی علیہ السلام سے منسوب ہے آپ کے پاس محفوظ ہے ،لوگوں کو اس پر عمل کرنے پر مجبور

کریں  گے پر دلالت کرتی ہیں  ۔


 

اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ ایسی روایات حضرت علی علیہ السلام کے مصحف اور موجودہ مصحف میں  فرق ہونے پر دلالت کرتی ہیں  لیکن حقیقت میں متن قرآن میں اختلاف ہونے کو بیان نہیں  کرتیں  بلکہ از نظر نظم و ضبط اور بعض آیات کی تفسیر و توضیح میں اختلاف ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ۔

آٹھواں دستہ :بعض احادیث قرآن میں  کمی ہونے پر دلالت کرتی ہیں  ،ایسی روایات اور احادیث کی خود تین قسمیں  ہیں  :

1۔بعض روایات اور احادیث دلالت کرتی ہیں  کہ قرآنی آیات کی تعداد موجودہ تعداد سے کئی گنازیادہ تھی ۔

2۔کچھ روایات بیان کرتی ہیں   کہ بعض سوروں کی آیات کی تعداد واقعی تعداد سے کم ہے ۔

3۔بعض احادیث بیان کرتی ہیں   کہ کوئی ایک لفظ کسی آیت سے یا کوئی ایک آیت قرآن سے کم ہوئی ہے ۔اس کے کئی جوابات ہیں   ـ:

پہلا جواب یہ ہے کہ ان احادیث میں سے کچھ احادیث ائمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء مبارکہ کے حذف اور مٹا دینے پر دلالت کرتی ہیں  اور چنانچہ پہلے بھی بیان ہوا وہ آیت کے جزء ہونے کو بیان نہیں  کرتی ہیں   انہیں  تاویل و تفسیر پر محمول کرنا چاہئیے یا مصداق آیہ پر محمول کیا جائے۔

 

والحمد لله رب العالمین


 

 

منابع کتاب

1۔القرآن الکریم

2۔کتاب کشّاف

3۔مفردات راغب

4۔تفسیر کبیر

5۔البیان

6۔اصول کافی

7۔عوالی اللاالی

8۔آلاء الرحمن بلاغی

9۔مجمع البیان

10۔تفسیر تبیان

11۔سعد السعود

12۔تفسیر صافی

13۔اظہار الحق

14۔کشف الغطائ

15۔بحار الانوار


 

16۔صیانۃ القرآن عن التحریف

17۔فصل الخطاب

18۔اکذوبۃ تحریف القرآن

19۔مدخل التفسیر

20۔گفتار آسان در نفی تحریف قرآن

21۔سنن دارمی

22۔الاحکام فی اصول الاحکام

23۔مسند احمد ابن حنبل

24۔محلی ابن حزم

25۔الاحکام آمدی

26۔فتح المنان

27۔ چہرہ ہای درخشان

28۔اہل بیت

29۔رجال نجاشی

30۔قاموس الرجال

31۔خلاصۃ الرجال

32۔دراسات فی الحدیث والمحدثین

33۔تصحیح الاعتقاد

34۔روضہ کافی

 

با تشکر از  سایت الحسنین

Comments powered by CComment