مصنف کا نام : مرتضی مطہری
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ
سُوْرة اَنْزَلْنَا هَا وَفَرَضْنَا هَا وَاَنْزَلْنَا فِیْهَآ اٰیَاتٍمبِیّنَاتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَاَلزَّانِیَة فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائیة جَلْدَة وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهِمَا رَأفَة فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ کُنتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْهَدْ عَذَابَهُ مَا طَآئِفَة مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ اَلزَّانِیْ لاَیَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَة اَوْمُشْرِکَة وَّالزَّانِییة لاَ یَنْکِحُهَآ اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکُ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ (سُورة نُور، آیت ۱ تا ۳)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے اور تم بیدار و آگاہ ہو جاؤ۔ اس سورت کے آغاز میں یہ جو فرمایا جا رہا ہے: ’’یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے‘‘ تو قرآن مجید میں فقط یہی ایک سورت ہے جس کا آغاز اس آیت سے ہوا ہے جبکہ دوسری بہت سی سورتوں کا آغاز اس آیت ’’ہم نے کتاب نازل کی‘‘ سے ہوا ہے۔ یعنی ان آیات میں تمام قرآن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت میں بیان کردہ مفاہیم و مطالب کی جانب خدا کی خصوصی توجہ ہے۔ آپ سورت کے معنی کو جانتے ہیں۔ قرآنی آیات کا وہ مجموعہ جو ایک ’’بسم اللہ‘‘ سے شروع ہو کر دوسری ’’بسم اللہ‘‘ سے پہلے ختم ہو جاتا ہے، اسے سورت کہتے ہیں۔ قرآن کا شمار ان کتابوں میں ہوتا ہے جن میں فصل، باب اور حصے نہیں ہوتے۔ قرآن کو مختلف سورتوں کے اعتبار سے ہی تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر سورت کا آغاز ایک ’’بسم اللہ‘‘ سے ہوتا ہے اور بعد والے مجموعہ کے آغاز میں جو بسم اللہ ہے وہ اس بات کی علامت ہے کہ پہلی صورت ختم ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ لفظ ’’سورۃ‘‘ اس لفظ سے مشتق ہوا ہے جس سے لفظ ’’سور‘‘ مشتق ہوا ہے۔ شہروں کے گرد بنائی جانے والی فصیل جو شہروں کو گھیرے رہتی، وہ ایک دیوار کی صورت میں ہوتی اور پورے شہر یا قصبہ یا دیہات پر احاطہ کئے ہوئے ہوتی تھی۔ اسے عربی زبان میں ’’سور‘‘ کہا جاتا تھا۔ ’’سورہ البلد‘‘ ایک بلند دیوار ہوتی جسے کسی شہر کے گرد بناتے تھے۔ گویا ہر سورت ایک حصار کے اندر واقع ہے۔ اسی لئے اسے سورہ کہا جاتا ہے۔ پیغمبرِ اکرم نے بنفس نفیس قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ آپ کے بعد دوسرے مسلمانوں نے قرآن کو سورتوں میں تقسیم کیا ہو، بلکہ شروع سے ہی قرآن سورتوں کی صورت میں نازل ہوا۔
اس سورت کی پہلی آیت خصوصاً سورۃ انزلنا ھا‘‘ اور ا س کے بعد کے الفاظ ’’فرضناھا‘‘ اس مطلب کو ادا کر رہے ہیں کہ عفت و پاکدامنی سے متعلق مسائل بہت اہمیت کے حامل ہیں، یعنی دورِ حاضر کے انسان کی سوچ کے بالکل برعکس جو جنسی تعلقات کو سہل و آسان بنانے اور انہیں کم اہمیت شمار کرنے کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اس نے غلط طور پر اس کا نام آزادی رکھا ہوا ہے اور وہ اپنی اصطلاح میں ’’جنسی آزادی‘‘ کی جانب گامزن ہے۔ قرآن پاکدامنی کے حریموں، بے عفتی کی سزاؤں کے عنوان سے جو مسائل بیان کرتا ہے اور جو کچھ وہ ایسی پاکدامن عورتوں کے دامن کو داغدار کرنے کی سزاؤں کے عنوان سے بیان کرتا ہے جن پر ناروا تہمتیں لگائی گئی ہوں اور جو احکام وہ شادی کرنے کی ترغیب دینے کے باب میں بیان کرتا ہے، الغرض پاکدامنی سے مربوط مسائل کے بارے میں اسلام جو کچھ بیان کرتا ہے تو وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ مسائل بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مسائل بہت ضروری ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھنا چاہئے جبکہ عصرِ حاضر کی آفتوں میں سے ایک آفت یہی ہے کہ پاکدامنی کے اصول اور جنسی امور میں تقویٰ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جسے ہم بعد میں بیان کریں گے۔
’’سُوْرَة اَنْزَلْنَا هَا‘‘ یہ ایک سورت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے اور اس میں بیان شدہ احکام کی مراعات کو واجب قرار دیا ہے، یعنی ہم ان کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ انہیں کم اہم نہیں سمجھتے۔ ’’وَاَنْزَلْنَا فِیهَآ اٰیَاتٍ مبیِّنَاتٍ‘‘ اور ہم نے اس سورت میں واضح آیات نازل کی ہیں۔ اس آیت میں جو لفظ ’’آیات‘‘ آیا ہے تو ممکن ہے اس سے سورہ نور کی تمام آیات مراد ہوں، یا جیسا کہ علامہ طباطبائی نے تفسیرالمیزان میں تحریر کیا ہے، ان سے مراد وہ آیات ہیں جو اس سورت کے وسط میں واقع ہیں اور حقیقت میں یہ آیات اس سورہ کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس سورت کی دوسری آیات جنسی آداب و اخلاق کے متعلق ہیں جبکہ وہ آیات اصولِ عقائد کے متعلق ہیں۔ ہم ان کے درمیان پائی جانے والی مناسبت کو بعد میں بیان کریں گے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے کہ ہم نے اس سورت کو نازل کیا ہے اور اس میں بیان کردہ احکام جو کہ جنسی اخلاق و آداب کے متعلق ہیں، لازم قرار دیئے ہیں۔
انسان کی آگاہی و بیداری کی خاطر ہم نے اس میں واضح آیات نازل کی ہیں، ’’لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ‘‘ تاکہ تمہاری یاددہانی ہو جائے۔ تم آگاہی حاصل کرو اور غفلت سے نکل جاؤ۔
شاید آپ جانتے ہوں کہ تفکر اور تذکر کے مابین فرق ہے۔ تفکر اس جگہ ہوتا ہے جہاں انسان کسی مسئلے کو بالکل ہی نہ جانتا ہو، اسے سرے سے ہی نہ جانتا ہو اور وہ مسئلہ اسے سمجھا دیا جائے۔ قرآن نے متعدد مقامات پر تفکر کی بات کی ہے۔ تذکر ان مسائل میں ہے جن مسائل کے صحیح ہونے کو انسان کی فطرت جانتی ہو لیکن اسے یاد اور توجہ دلانے کی ضرورت ہو۔ قرآن کو خصوصاً ’’تذکر‘‘ کے عنوان سے بیان کرتا ہے۔ شاید اس سے انسان کا احترام مقصود ہے۔ ہم تمہیں ان مسائل کی جانب متوجہ کرتے ہیں، یعنی یہ ایسے مسائل ہیں کہ اگر آپ خود بھی غور کریں تو انہیں سمجھ لیں گے۔ لیکن ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں اور ان کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
بعد والی آیت فحشاء یعنی زنا کی سزا سے متعلق ہے۔ خدا کا فرمان ہے۔
اَلزَّانِیَة وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَة جَلْدَة وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهِمَارَاْفَة فِیْ دِیْنِ اللّهَِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفة مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ‘‘ (سُورہ نُور، آیت ۲)
ان آیات میں تین مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ اول یہ کہ جو بھی زنا کرے، خواہ مرد ہو خواہ عورت، اسے سزا ملے گی اور اس کی سزا قرآن نے ’’ایک سو کوڑے‘‘ معین کر دی ہے۔ سو کوڑے زانی مرد اور سو کوڑے زنا کرنے والی عورت کو مارے جانے چاہئیں۔
دوم یہ کہ مومنین کو آگاہ کر رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سزا کے وقت تم پر احساسات غالب آ جایں۔ مباوا تمہیں ان پر رحم آئے اور تم کہو کہ سو کوڑے لگنے سے انہیں تکلیف پہنچے گی، لہٰذا انہیں پوری سزا نہ دی جائے۔ کیونکہ یہ ترس کھانے کا مقام نہیں ہے قرآن کہتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر جذبات غالب آ جائیں اور تم اللہ کی اس حد کو جاری کرنے میں سستی سے کام لینے لگو۔ عصرِ حاضر کی اصطلاح کے مطابق تم یہ نہ سمجھو کہ یہ ایک ’’غیرانسانی‘‘ کام ہے۔ نہیں، بلکہ یہ ایک ’’انسانی‘‘ عمل ہے۔
سوم یہ کہ سزا مخفیانہ طور پر نہ دی جائے کیونکہ اس سزا کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں۔ مومنین کا ایک گروہ سزا کے وقت لازمی طور پر حاضر و ناظر ہونا چاہئے جو اسے دیکھے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ جب اس حکم کو نافذ کیا جائے تو اسے اس طور پر نافذ کرنا چاہئے کہ تمام لوگوں کو پتہ چل جائے کہ فلاں عورت یا فلاں مرد پر زنا کی حد جاری ہوئی ہے۔ اس حکم کو مخفی طور پر نہیں بلکہ اعلانیہ طور پر نافذ کرنا چاہئے۔
اب ہم پہلے مطلب کے متعلق چند باتیں بیان کرتے ہیں جو زنا کی سزا کے حکم کے بارے میں ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ کیا ہے؟ اگر آپ ان کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں اس موضوع کے متعلق بحث کی گئی ہے تو آپ دیکھیں گے گے کہ وہ لوگ یوں اظہار خیال کرتے ہیں کہ زنا کی سزا دینے کی وجہ ان کی اصطلاح میں’’مرد کی حکمرانی‘‘ ہے۔
جن زمانوں میں مرد کو خاندان کا حاکم سمجھا جاتا رہا، یعنی مرد گھر کا مالک ہوتا جبکہ عورت کو کوئی حق حاصل نہ ہوتا۔ وہ مرد کے پاس بہرہ برداری کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی۔ مرد اپنے آپ کو بیوی کا مالک جانتا تھا۔ جب کوئی عورت زنا کرتی تو اس کا شوہر یہ سمجھتا کہ اس نے ایک ایسی چیز دوسرے مرد کی تحویل میں دی ہے جو اس کا حق تھا۔ پس اس بناء پر زنا کی سزا برقرار ہوئی۔ واضح سی بات ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے یہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت بات ہے۔ اسلام میں زنا کی سزا عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے، مرد کو بھی اپنے کئے کی سزا ملنی چاہئے اور عورت کو بھی۔ ’’اَلزَّانِیةَ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَة جَلْدَة‘‘ صراحت کے ساتھ یہ آیت بیان کر رہی ہے کہ زناکار مرد اور زناکار عورت دونوں کو سزا ملنی چاہئے۔ اگر مرد کو زنا سے نہ روکا گیا ہوتا اور فقط عورت کو روکا گیا ہوتا۔ شاید دنیا کے بعض علاقوں میں ایسے قوانین موجود تھے جن کی رو سے فقط عورت کو زنا کرنے کا حق حاصل نہیں تھاتو اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ زنا کی سزا کی وجہ ’’مرد کی حکمرانی‘‘ ہے۔ لیکن اسلام نے مرد اور عورت دونوں کو زنا سے منع کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنی نفسانی خواہشات کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتا ہے۔ شادی نام ہے بعض فرائض کے ادائیگی کے پابند ہونے اور ذمہ داریوں کو سنبھالنے ک ۔ عورت بھی اپنی جنسی خواہش کو فقط شادی کے ذریعے ہی پورا کر سکتی ہے، البتہ بعض فرائض کی ادائیگی کی پابندی اور بعض ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ۔ پس مرد کو شادی کے بغیر اپنی جنسی جبلت کو پورا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، اور عورت کو بھی ایسا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ بنا بریں زنا کے حرام ہونے کا مسئلہ عورت کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ عورت اور مرد دونوں پر یکساں طور پر حرام ہے۔
اب یہاں ایک اور مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ کہ آج کے یورپی معاشرے میں عورت اور مرد کو فقط اس وقت زنا سے منع کیا گیا ہے جب وہ قرآنی اصطلاح کے مطابق ’’محصن‘‘ یا محصنہ‘‘ ہوں۔ یعنی شوہر والی عورت اور شادی شدہ مرد کو زنا کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن جس مرد کی بیوی نہ ہو یا جس عورت کا شوہر نہ ہو ان کے لئے زنا کرنے پر پابندی نہیں ہے۔
جس مرد کی بیوی نہ ہو فطرتاً اسے شوہر والی عورت کے ساتھ زنا کرنے کا حق نہیں پہنچتا اور جس عورت کا شوہر نہ ہو اسے شادی شدہ مرد سے زنا کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن جس عورت کا شوہر نہ ہو اور جس مرد کی بیوی نہ ہو ان کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس کے کیوں قائل ہیں؟ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شادی شدہ مرد کے لئے زنا حرام ہونے کا فلسفہ یہ ہے کہ اس نے اس فعل کے ذریعہ اپنی بیوی سے خیانت کی ہے اور اس کی حق تلفی کی ہے۔
اس لئے جس مرد کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی اس پر کسی عورت کا حق نہیں۔ اسی طرح جس عورت کا شوہر نہ ہو اس پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ اس لئے ان کے لئے زنا کرنا جائز ہے۔
لیکن اسلام نے اس حوالے سے دو باتیں کی ہیں۔ پہلی یہ کہ کسی عورت اور کسی مرد کو نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کا حق حاصل نہیں ہے، چاہے مرد بیوی والا ہو یا نہ ہو، چاہے عورت شوہر والی ہو یا نہ ہو۔ اسلام خاندان کی اہمیت کا اس حد تک قائل ہے کہ وہ نکاح کے بغیر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ فقط گھریلو زندگی کی صورت میں ہی جنسی خواہش کی تسکین کی اجازت دیتا ہے اور گھریلو زندگی تشکیل دیئے بغیر کسی صورت میں بھی عورت و مرد کو ایک دوسرے سے لذت اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا۔
دوسری بات شادی شدہ عورت اور شادی شدہ مرد کی سزا سے متعلق ہے۔ اسلام اس مقام پر دو سزاؤں کا قائل ہے۔ اس کی سزا زیادہ شدید ہے۔ ایک کلی سزا یعنی سو کوڑے اور دوسری رجم یعنی سنگساری ہے۔
خاندان کی اساس اور خاندانی ماحول کو مستحکم کرنے والے عوامل میں سے ایک یہی مسئلہ ہے اور موجودہ یورپی دنیا میں گھریلو زندگی کی اساس متزلزل و کمزور ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ دورِ حاضر میں ہم اپنے معاشرے میں یورپین باشندوں کی جتنی زیادہ پیروی کریں گے اسی قدر ہماری گھریلو زندگی متزلزل ہو گی۔ ہمارا معاشرہ جب تک صحیح معنوں میں اسلام پر عمل کرتا رہا یعنی شادی سے قبل واقعتاً لڑکوں کے لڑکی یا عورت کے ساتھ تعلقات نہیں ہوا کرتے تھے۔ عصر حاضر کے یورپین لوگوں کی اصطلاح میں جب تک لڑکوں کی کوئی گرل فرینڈ نہیں ہوا کرتی تھی اور لڑکیوں کے بوائے فرینڈز نہیں ہوا کرتے تھے، اس وقت شادی لڑکیوں اور لڑکوں کی ایک آرزو شمار ہوتی تھی۔ لڑکا جب پندرہ سال کا ہو جاتا ہے تو اسے شادی کرنے کا فطری احساس ہوتا اور لڑکی کے دل میں بھی شادی کی آرزو جنم لیتی۔
لڑکے کا شادی کی آرزو کرنا ایک فطری بات تھی کیونکہ وہ عورت سے لذت حاصل کرنے کی پابندی سے شادی کے ذریعہ ہی نجات حاصل کر کے عورت سے لذت حاصل کرنے کی آزادی پاتا تھا۔ اس وقت ’’شبِ زفاف کم از صبح پادشاہی نبود‘‘ یعنی سہاگ رات پادشاہت کی صبح سے کمتر نہیں تھی کیونکہ نفسیاتی طور پر لڑکے کو اس لذت سے ہمکنار کرنے والی سب سے پہلی عورت اس کی بیوی ہوتی تھی اور لڑکی کو بھی اس کا شوہر ہی پابندی سے نکال کر آزادی سے ہمکنار کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لڑکی اور لڑکا جنہوں نے شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ ہوتا اور دیکھنے کے بغیر آپس میں شادی کر لیتے وہ آپس میں بہت زیادہ محبت کرنے لگتے۔
(میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ شادی سے قبل ایک دوسرے کو نہ دیکھنا کوئی درست بات ہے۔ نہیں۔ اسلام نے دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن اگر انہوں نے نہ بھی دیکھا ہوتا اور ان کو ایک دوسرے کا وصال نصیب ہوا تب بھی وہ مرتے دم تک آپس میں محبت کرتے تھے) ۔
لیکن یورپین تہذیب لڑکے کو اجازت دیتی ہے کہ جب تک کنوارا ہے تب تک وہ جنسی تعلقات قائم کر سکتا ہے اور لڑکی بھی جب تک کنواری ہے تب تک اسے جنسی تعلقات قائم کرنے کی آزادی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکا شادی کے بعد اپنے آپ کو پابند محسوس کرتا ہے اور لڑکی بھی محسوس کرتی ہے کہ وہ شادی کے بعد آزادی سے محروم ہو چکی ہے۔ شادی سے قبل اسے آزادی تھی۔ وہ جس سے چاہتی تعلقات قائم کر سکتی تھی۔ اب شادی کے بعد وہ فقط ایک مرد تک محدود ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لڑکا شادی کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے: ’’میں نے آج سے اپنا ایک نگہبان مقرر کر لیا ہے‘‘۔ لڑکی کا شوہر اس کا چوکیدار بن جاتا ہے یعنی وہ آزادی سے پابندی کی جانب آتے ہیں۔
مغربی تہذیب میں آزاد کو پابند بنانے کا نام شادی ہے۔ شادی نام ہے آزادی سے پابندی کی جانب آنے کا۔ جبکہ اسلامی تہذیب میں شادی نام ہے پابندی سے آزادی کی جانب آنے کا۔ جس شادی کی بنیاد نفسیاتی طور پر پابندی سے نجات پا کر آزادی سے ہمکنار ہونے پر ہو وہ اپنے دامن میں استحکام لئے ہوتی ہے اور جس کی اساس آزادی سے پابندی کی جانب آنے پر استوار ہو اس میں استحکام نہیں ہوتا۔ یعنی جلدی ہی اس شادی کی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ اور دوسرے یہ کہ جس لڑکے نے بیسیوں بلکہ سینکڑوں لڑکیوں کا تجربہ کیا ہو اور جس لڑکیوں نے بیسیوں اور سینکڑوں لڑکوں کا تجربہ کیا ہو تو کیا وہ لڑکی یا لڑکا کسی ایک کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے؟ کیا انہیں پابند کیا جا سکتا ہے؟
اس لئے اسلام میں زنا حرام ہونے کی وجہ فقط یہی نہیں کہ ہے کہ یہ صرف مرد کا حق ہے اور وہ فقط عورت کا حق ہے کہ آپ کہیں کہ غیر شادی شدہ مرد پر ابھی تک کسی عورت کا حق نہیں ہے اور کنواری لڑکی پر بھی کسی مرد کا حق نہیں ہے۔ لہٰذا جو آدمی مرتے دم تک شادی نہیں کرنا چاہتا وہ مطلق العنان ہو اور جو عورت عمر بھر شادی نہیں کرنا چاہتی وہ بھی مطلق العنان ہو۔ اسلام ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ یا تو سرے سے ہی لذت حاصل کرنے کا خیال دل سے نکال دو یا شادی کی ذمہ داریاں قبول کرو۔ اس لئے اسلام زنا کی سزا پر بہت زور دیتا ہے۔ اور جس زنا میں فقط زنا کا پہلو ہو اور اس کے علاوہ اس میں بیوی یا شوہر کے حقوق پائمال نہ ہوتے ہوں تو ایسا زنا کرنے پر بھی کوڑوں کی سزا دیتا ہے۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت جو طبعاً جنسی خواہش کے دباؤ کا شکار بھی نہیں ہوتے اور فقط ہوس بازی کی خاطر زنا کا ارتکاب کرتے ہیں، اسلام ان کو بھی سنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلام کس حد تک ان مسائل کو اہمیت دیتا ہے۔ یورپین لوگ پہلے تو یہ کہتے تھے کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کے علاوہ دوسروں کے لئے زنا پر پابندی نہیں ہے۔ مگر ’’رسل‘‘ کا کہنا ہے کہ اگر زنا زخم کا موجب ہو تو اس صورت میں اسے جرم شمار کیا جائے گا۔ اگر زخم کا باعث نہ ہو تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یعنی تدریجاً یہ لوگ اس مقام تک پہنچ گئے کہ ’’رسل‘‘ نے صراحت کے ساتھ کہہ دیا کہ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت کے لئے بھی زنا کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے کہ شادی شدہ عورت کا ایک دوست بھی ہو جس سے وہ محبت کرتی ہو، یعنی ایک مرد اس کا شوہر ہو اور دوسرا اس کا محبوب؟ محبت اس کے ساتھ کرے اور بچے شوہر کے گھر میں جنم دے۔ لیکن اس بات کا عہد کرے کہ اپنے محبوب کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے وقت مانع حمل دوائیاں استعمال کرے گی۔
فقط خود ’’رسل‘‘ کو ہی اس بات پر یقین آتا ہو گا! وگرنہ ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو عورت کسی دوسرے مرد سے محبت کرتی ہو وہ اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے فقط اپنے شوہر سے حاملہ ہو گی اور صرف اپنے شوہر ہی کے بچے کو جنم دے گی، کیونکہ ہر عورت کا دل چاہتا ہے کہ وہ ایسا بچہ پیدا کرے اور اس کی آنکھوں کے سامنے رہنے والا بچہ جو ہو وہ اس مرد کی نشانی ہو جس سے وہ محبت کرتی ہے، اس مرد کی نشانی نہ ہو جس سے اسے نفرت ہے۔
تو ایسی صورتِ حال میں اس بات کی کیا ضمانت ہو سکتی ہے کہ جس مرد سے اسے محبت ہے اس سے حاملہ نہیں ہو گی اور اس کے نطفہ سے پیدا ہونے والے بچے کو شوہر کا بچہ نہیں کہے گی۔
گویا قرآن نے اس جانب خصوصی توجہ فرمائی ہے۔ وہ کہتا ہے ۔ ’’اَنْزَلْنَا هَا وَفَرَضْنَا هَا‘‘ ، ہم نے ان کو لازم قرار دیا ہے۔ یہ اٹل قوانین ہیں۔ زمانہ کے تقاضے ان کو بدل نہیں سکتے۔ یہ انسانی زندگی کے تغیر نا پذیر اصول ہیں اور انسانی زندگی کے اصولوں کا ایک حصہ ہیں۔ اس کے بعد قرآن کہتا ہے’’ وَلاَ تَاْخُذْکُمْ بِهِمَا رَاْفَة فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ‘‘ دوبارہ یہاں قرآن زور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ نرمی و درگزر کرنے کا مقام نہیں ہے۔ جب زنا ثابت ہو جائے تو پھر تمہیں درگزر کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ بعد والے جملہ میں خصوصی طور پر فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ زناکار مرد اور عورت پر حد جاری کرنے کے حکم کو بند کوٹھڑیوں میں اور مخفی طور پر انجام دو۔ ضروری ہے کہ لوگوں کی موجودگی میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے اس حکم کو نافذ کیا جائے، اور اس کی خبر ہر طرف پھیل جائے تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اسلام پاکدامنی کے مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ تعزیرات کا نفاذ معاشرے کی تربیت اور اسے ادب سکھانے کے لئے ہوتا ہے۔
اگر کوئی عورت زنا کرے اور اسے مخفی طور پر چاہے تختہ دار پر ہی کیوں نہ چڑھا دیا جائے، تب بھی معاشرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اگرچہ صدر اسلام میں ایسے واقعات بہت کم پیش آئے۔ چونکہ ان قوانین کو عملی جامہ پہنایا جاتا تھا اس لئے زنا بہت کم ہوتا تھاتاہم اگر کبھی ایسا ہوتا تو اعلانِ عام کیا جاتا۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ یہ کہا جائے کہ ’’اَلْجَاهِلُ اِمَّا مُفْرِط اَوْ مُفَرِّط‘‘ کے مطابق مغربی دنیا میں ان آخری دو تین صدیوں سے قبل کہ جب اس میں کلیسا کا قانون حکم فرما تھا تو جنسی تعلقات کو کم کرنے میں افراط سے کام لینے کی کوشش کی گئی۔ مغربی دنیا بعض مسائل میں اسلام پر اعتراضات کرتی تھی۔ کلیسیا کے قانون کے مطابق جنسی تعلقات چاہے اپنی بیوی سے ہی کیوں نہ برقرار کئے جائیں ان کو ایک پلید کام سمجھا جاتا تھا۔ ان کی نظر میں عورت ذاتاً ہی ایک پلید چیز تھی اور اپنی بیوی سے ہمبستری کرنے کو بھی ایک کثیف عمل گردانا جاتا تھا۔ اس لئے پارسا، پاک و منزہ افراد اور وہ افراد جو بلند روحانی مقامات تک پہنچنے کی لیاقت و صلاحیت رکھتے تھے ایسے افراد ہوتے تھے جنہوں نے عمر بھر کسی عورت کا لمس نہ کیا ہوتا اور کسی عورت سے ہمبستری نہ کی ہوتی۔
پوپ کا انتخاب ایسے افراد میں سے ہوتا (اور اب بھی اسی طرح کیا جاتا ہے) جو شادی کے بغیر عمر بسر کرتے وہ لوگ درحقیقت تجرد کو مقدس خیال کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدس منصب کی اہلیت فقط ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جنہوں نے عمر بھر کسی عورت سے تعلقات قائم نہ کئے ہوں۔ البتہ ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
یہی افراد بعد میں کشیش وکارڈینل کا رتبہ پاتے ہیں اور بعض پوپ کے منصب تک پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ تو شادی کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اگر ہم اکثریت سے کہیں کہ تجرد کی زندگی بسر کریں تو وہ زنا جو کہ زیادہ پلید ہے، کے مرتکب ہوں گے اور جنسی عمل کا زیادہ ارتکاب کریں گے۔ اس لئے وہ ’’دفع افسد بہ فاسد‘‘ یعنی زیادہ پلید سے بچنے کے لئے کم پلید کے ارتکاب کے عنوان سے شادی کی اجازت دیتے تھے۔
اس کے برعکس اسلام تجرد کو برا سمجھتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’جب غیر شادی شدہ پیشاب کرتا ہے تو زمین اس پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘ اسلام شادی کو مقدس قرار دیتا ہے۔
قرآن میں لفظ ’’محصِن‘‘ اور ’’محصَن‘‘ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ بعض مقامات پر شادی شدہ عورت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ عورت جو حصار کے اندر واقع ہو اور بعض مقامات پر اس لفظ کو پاکدامن عورت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے چاہے وہ عورت کنواری ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہاں اسے دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔
جو لوگ رمی یعنی تیر اندازی کرتے ہیں، پاکدامن عورتوں کو تہمت کے تیر کا نشانہ بناتے ہیں، بے عفتی کی باتیں ان سے منسوب کرتے ہیں اور چار گواہ بھی پیش نہیں کرتے، ان پر حد جاری کی جانی چاہئے۔
اسلام کسی بھی دعوے کو بدونِ دلیل قبول نہیں کرتا۔ لیکن بعض دعوے ایسے ہوتے ہیں جن کو فقط ایک شخص کے کہنے سے ہی قبول کر لیتا ہے چاہے وہ ایک فرد عورت ہی کیوں نہ ہو، مثلاً کسی عورت کے اپنے بارے میں بیان کردہ زنانہ مسائل۔ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو چونکہ ایامِ حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے اس لئے عورت سے پوچھا جاتا ہے کہ تم حیض کی حالت میں ہو یا حیض سے پاک ہو؟ اگر کہے کہ حیض سے پاک ہوں تو اس کی بات قبول کی جاتی ہے اور اگر کہے کہ یہ اس کے حیض کے ایام ہیں تب بھی اس کی بات تسلیم کی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ اسے گواہ پیش کرنے کو نہیں کہا جاتا بلکہ اس کی اپنی بات ہی قبول کی جاتی ہے۔ بعض مقامات پر مثلاً مال کے متعلق لڑائی جھگڑوں میں ضروری ہے کہ دو مردوں کو گواہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ لیکن جہاں ناموس کے احترام کا مسئلہ ہو، جہاں عزت و ناموس کے داغدار ہونے کی بات ہو، وہاں اسلام کہتا ہے کہ دو عادل گواہ بھی کافی نہیں ہیں۔ اگر دو ایسے عادل گواہ جن کے پیچھے لوگ نماز پڑھتے ہیں، حتیٰ کہ اگر ایسے دو گواہ جن کی لوگ تقلید کرتے ہیں، وہ بھی گواہی دیں کہ ہم نے فلاں عورت کو اپنی آنکھوں سے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اسلام کہتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ تم دو فرد ہو۔ اگر تین افراد بھی اس بات کی گواہی دیں تب بھی اسلام اس گواہی کو کافی نہیں سمجھتا۔ اگر چار گواہ حاضر ہو کر گواہی دیں تو اس وقت اسلام عورت کو مجرم قرار دیتا ہے اور اس گواہی کو کافی جانتا ہے۔
ممکن ہے آ پ کہیں کہ اگر امرِ واقعہ یہی ہو تو پھر زنا ثابت ہی نہیں ہو گا۔ چار عادل گواہ کہاں سے آئیں جو گواہی دیں کہ فلاں عورت نے زنا کیا ہے؟ کیا زنا کے مسئلہ میں اسلام کی بنیاد تجسس و تحقیق اور تفتیش پر استوار ہے؟ جب اسلام کہتا ہے چار شاہد، تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ تجسس و تحقیق کی جائے تاکہ آپ کہیں کہ ان دشوار شرائط کی وجہ سے تو ایک لاکھ واقعات میں سے ایک مرتبہ بھی اس طرح نہیں ہو گا کہ چار عادل گواہی دیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ زنا بہت کم ثابت ہو، اگر گواہ نہیں آتا تو نہ آئے۔ اگر ہزار زنا کئے جائیں اور وہ مخفی رہیں تو اسلام ان کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن اگر کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی جائے تو اسلام ہرگز اسے برداشت نہیں کرتا اور اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ زنا واقع ہو اور اس مقصد کو وہ گواہی اور سزا کے ذریعے حاصل نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس نے اس مقصد کے حصول کے لئے دوسرے ذرائع استعمال کئے ہیں۔ اگر اسلام کی فردی تربیت اور معاشرتی قوانین پر عمل کیا جائے تو زنا کبھی بھی رونما نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ جب زنا واقع ہو جائے تو اس کی سزا دی جائے اور سزا کے ذریعے اسے روکا جائے۔
ہاں اسلام بھی سزا کا قائل ہے جن لوگوں پر تربیت کا اثر نہیں ہوتا انہیں جان لینا چاہئے کہ ان کے لئے کوڑے کھانے، بعض صورتوں میں قتل ہونے اور بعض صورتوں میں سنگساری کے ذریعے قتل ہونے کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔
الغرض ہم نے کہا ہے کہ چار گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور گواہ کے لئے گواہی دینا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی عورت کو زنا کرتے ہوئے دیکھے لیکن باقی تین آدمی موجود نہ ہوں جو اس کے ساتھ گواہی دیں تو اسے خاموش ہی رہنا چاہئے اور اگر دو آدمی بھی دیکھیں تو انہیں بھی کسی کے سامنے اس واقعہ کا ذکر نہیں کرنا چاہئے۔ اگر تین آدمی بھی دیکھیں تو ان کو بھی اپنا منہ بند کر کے رکھنا چاہئے۔ اور یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ ’’وہ اپنا منہ بند کر کے رکھیں‘‘ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر وہ گواہی دیں تو ان سے فقط یہ کہا جائے گا کہ تمہاری گواہی کافی نہیں، اور چونکہ تم نے گواہی دی ہے لیکن اسے تم ثابت نہیں کر سکے، اس لئے تم قاذف (تہمت لگانے والے ہو) ، تم میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ اسی کوڑے کھائے۔ اسی لئے قرآن کہتا ہے کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور چار گواہ پیش نہ کریں تو وہ اگرچہ سچے ہی کیوں نہ ہوں ان کو اسی کوڑے مارے جائیں کیونکہ یہ کہہ کر انہوں نے ایک عورت پر تہمت لگائی ہے۔ کیا یہ ایک جسمانی سزا ہے؟ نہیں! یہ ایک معاشرتی سزا بھی ہے۔ ’’وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَة اَبَدًا‘‘ اور پھر ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کرو۔ پھر ان کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے، ان کو معاشرتی سزا بھی ملنی چاہئے یعنی اس دن سے ہی معاشرے میں ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے ایک پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت لگائی ہے، جسے وہ ثابت نہیں کر سکے۔
تیسری سزا ’’اُولٰئِکَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ‘‘ یہ فاسق ہیں۔ اس مقام پر مفسرین کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ’’اُولٰئِکَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ‘‘ وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَة اَبَدًا‘‘ سے الگ کوئی سزا ہے یا وہی ہے، یعنی یہ دونوں ایک ہی سزا ہیں؟ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ دونوں مجموعاً ایک ہی سزا ہے۔ یعنی ’’اُولٰئِکَ هُمُ الْفَاسِقُوْنَ‘‘ علت ہے ’’وَلاَ تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَة اَبَدًا‘‘ کی۔ یعنی یہ اس تہمت کی وجہ سے فاسق ہو گئے ہیں۔ اور چونکہ فاسق ہو گئے ہیں اس لئے ان کی شہادت قابل قبول نہیں ہے، اور اس کے علاوہ بھی جس چیز میں عدالت شرط ہے وہ ان سے قابلِ قبول نہیں ہے، اور اس کے علاوہ بھی جس چیز میں عدالت شرط ہے وہ ان سے قابلِ قبول نہیں ہے۔ مثلاً اب طلاق کا صیغہ ان کے پاس نہیں پڑھا جا سکتا۔ ان کی اقتداء میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اگر وہ مجتہد ہوں تو ان کی تقلید جائز نہیں کیونکہ ان سب کاموں میں عدالت شرط ہے۔ اس بناء پر ان دونوں کا مجموعہ ایک ہی سزا ہے۔
لیکن بعض مفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہ دو سزائیں ہیں، ایک سزا تو یہ ہے کہ ان کی گواہی قبول نہیں اور دوسری سزا یہ ہے کہ یہ لوگ فاسق ہو گئے ہیں۔ اور چونکہ فاسق ہیں اس لئے فسق کے تمام آثار ان پر مترتب ہوں گے اور یہ قابل تفکیک ہیں۔
جو گواہ اپنے دعوے کو ثابت نہیں کر سکا اگر وہ توبہ کر لے تو اس کا فسق ختم ہو جاتا ہے۔ یعنی پھر ہم اس کو عادل قرار دیں گے، اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے، اگر وہ مجتہد ہو اور علمی اعتبار سے اس کی تقلید جائز ہو تو اس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ اگر وہ مجتہد ہو تو قاضی بن سکتا ہے (کیونکہ قاضی بھی عادل ہونا چاہئے) لیکن اس کی شہادت قبول نہیں ہو گی کیونکہ وہ ایک الگ سزا ہے اسی لئے بعض مفسرین کی رائے میں ایسے شخص کی گواہی قبول نہ ہونے کی وجہ اس کا فسق نہیں ہے۔ یہ ایک جداگانہ سزا ہے۔ اس کا فاسق قرار دیا جانا اسلام کی نظر میں ایک سزا ہے اور اس کی گواہی کا قبول نہ کیا جانا دوسری سزا ہے۔
بعد والی آیت کا معنی بھی اسی سے واضح ہو جاتا ہے۔ جس میں اللہ کا فرمان ہے کہ ’’اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْمبَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں پس اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ ’’اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا‘‘ کے استثناء کے متعلق پہلی نظر میں تین احتمالات دکھائی دیتے ہیں۔
ایک یہ کہ اگر کوئی گواہ کسی عورت پر تہمت لگانے کے بعد اس کو ثابت نہ کر سکے اور توبہ کرے تو ہم کہیں کہ چونکہ اس نے توبہ کر لی ہے اس لئے اسے کوڑے نہ لگائے جائیں، اس کی گواہی بھی قبول کی جائے اور وہ فاسق بھی نہیں ہے لیکن کسی نے بھی اس احتمال کو ذکر نہیں کیا۔ بلکہ اگر کسی شخص نے کسی عورت پر فقط تہمت لگائی ہو اور پھر اسے ثابت نہ کر سکا ہو تو یہی بات اسے کوڑے لگائے جانے کے لئے کافی ہے۔
دوسرا احتمال یہ ہے کہ اگر کوئی توبہ کرے تو اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی اور اسے فاسق بھی شمار نہیں کیا جائے گا، یعنی تمام معاشرتی پابندیاں اس پر سے اٹھا لی جائیں گی اور اس کی سابقہ حیثیت برقرار رہے گی۔
تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس کی دوسری سزا ہمیشہ کے لئے ہے، یعنی اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہ کی جائے اور ’’اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا‘‘ دوسری عبارت سے استثناء ہے۔ یعنی اسے دوبارہ یہ حیثیت مل جاتی ہے کہ اس کی اقتداء میں نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ قاضی بھی بن سکتا ہے لیکن اس کی گواہی کبھی بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ اور بعید نہیں کہ یہ تیسرا احتمال ہی درست ہو یعنی ’’اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدَ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْا‘‘ استثناء ہے ’’ اُولٰئِکَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ ‘‘ کا۔ اس کے بعد آیت ہے۔
وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلاَّ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَة اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهَادَاتٍمبِاللّٰهِ اِنَّه لَمِنَ الصَّادِقِیْنَ وَالْخَامِسَة اَنَّ لَعْنَتَ اللِّهِ عَلَیهِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ (سُورہ نُور، آیت ۶، )
یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت پر زنا کی تہمت لگائے تو اس پر لازم ہے کہ چار گواہ پیش کرے۔ لیکن اگر وہ چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اس صورت میں اسے کیا کرنا چاہئے؟ اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چونکہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ خود گواہی دے گا تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ چونکہ وہ گواہ پیش نہیں کر سکتا اس لئے اگر وہ خود گواہی دے گا تو اسے کوڑے لگائے جائیں گے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ چپ رہے۔ اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو زنا کرتے ہوئے دیکھ لے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا اگر چار گواہ موجود ہوں تو پھر وہ عدالت میں آ کر گواہی دے کہ میری بیوی نے زنا کیا ہے؟ جب تک وہ چار گواہ تلاش کرے گا تب تک وہ اپنے کام سے فارغ ہو چکے ہوں گے۔ اگر شوہر کے علاوہ کوئی اور گواہ ہوتا تو اس سے کہا جاتا کہ چونکہ اس واقعہ کے چار گواہ نہیں ہیں اس لئے خاموشی اختیار کرو، کوئی بات نہ کرو، تمہارا اس سے کیا واسطہ ہے؟ اگر کہو گے تو خود کوڑے کھاؤ گے۔
اگر شوہر جج کے پاس جا کر گواہی دے کہ اس کی بیوی نے زنا کیا ہے تو شوہر پر لازم ہے کہ چار مرتبہ خدا کی قسم کھائے اور خدا کو اس بات پر گواہ بنائے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے سچ ہے، جھوٹ نہیں ہے۔ یعنی فقط ایک مرتبہ گواہی دینا کافی نہیں ہے بلکہ چار مرتبہ گواہی دے گا اور ہر مرتبہ اللہ کی قسم بھی کھائے گا، کیا یہ کافی ہے؟ نہیں یہ بھی کافی نہیں ہے۔ بلکہ پانچویں مرتبہ اسے چاہئے کہ اپنے اوپر لعنت بھیجے اور کہے ’’اگر میں جھوٹ بولوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔‘‘ کیا بات اسی پر ختم ہو جاتی ہے اور عورت سے کہا جاتا ہے کہ تمہارا زنا ثابت ہو گیا ہے؟ نہیں، عورت کے ذمہ بھی ایک کام لگایا جاتا ہے۔
اس سے کہا جاتا ہے کہ تیرے شوہر نے ’’لعان‘‘ کیا ہے۔ یعنی اس نے چار مرتبہ قسم کھائی ہے اور ایک مرتبہ کہا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو۔ اب تم کیا کہتی ہو؟ اگر عورت اعتراف کرے تو اسے سزا ملے گی اور اگر خاموشی اختیار کرے اور اپنا دفاع نہ کرے تو یہ بھی اعتراف کی طرح ہی ہے۔ لیکن عورت کے سامنے ایک اور راستہ بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس سے کہتے ہیں کہ تم بھی اس کی طرح قسم کھاؤ کہ تمہارا شوہر جھوٹ بولا رہا ہے اور پانچویں مرتبہ کہو: اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو۔‘‘ اگر وہ ایسا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو اس سے کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم نے زنا کیا ہے اور پھر اسے سزا دی جائے گی۔ لیکن اگر وہ بھی اپنا دفاع کرنے پر آمادہ ہو جائے تو پھر اسلام اس کے بارے میں کیا حکم جاری کرتا ہے؟ مرد نے چار مرتبہ گواہی دی ہے اور کہا ہے کہ اگر اس نے جھوٹ بولا ہو تو اس پر خدا کی لعنت ہو اور عورت نے بھی چار مرتبہ قسم کھا کر کہا ہے کہ اس کا شوہر جھوٹ بول رہا ہے اور پانچویں مرتبہ اس نے کہا ہے کہ ’’اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو‘‘ تو اس صورت میں اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ کیا وہ مرد کو قاذف (تہمت لگانے والا) قرار دیتا ہے اور اسے کوڑے لگاتا ہے؟ کیا اسلام عورت کو گناہ گار قرار دے کر اسے کوڑے مارتا ہے؟ کیا اس جگہ اس کی سزا رجم و سنگساری ہے؟ نہیں، پھر وہ کیا حکم دیتا ہے؟ اسلام کہتا ہے کہ اب جب کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے تو اب تمہارے درمیان مکمل طور پر جدائی ہونی چاہئے اور طلاق کی بھی حاجت نہیں۔ آپ لوگوں کا یہی عمل طلاق کے مترادف ہے۔ اب تم ایک دوسرے سے جدا ہو۔ اس کا اپنا راستہ، اس کا اپنا راستہ۔ اب سے تمہارے درمیاں میاں بیوی کا رشتہ ختم۔ اس فعل کو اسلامی فقہ میں ’’لعان‘‘ اور ’’ملاعنہ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ایک مرتبہ نبی اکرم کے زمانہ میں اور آپ کی موجودگی میں یہ عمل انجام دیا گیا اور مفسرین کے بقول یہی اس آیت کی شانِ نزول ہے۔
ہلال بن امیہ نامی ایک صحابی نے نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ: ’’یا رسول اللہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو فلاں مرد کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ آپ نے یہ سن کر اپنا رخِ مبارک دوسری جانب پھیر لیا۔ اس نے دوسری مرتبہ اور پھر تیسری مرتبہ اپنی بات کو دہرایا اور کہا: یا رسول اللہ خدا جانتا ہے کہ میں سچ بول رہا ہوں، جھوٹ نہیں بول رہا۔‘‘ اس وقت یہی آیات نازل ہوئیں اور نزولِ آیات کے بعد نبی اکرم نے ہلال بن امیہ اور اس کی بیوی کو بلا بھیجا۔ اس کی بیوی مدینہ کے امراء میں سے تھی۔
ہلال بھی اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ آیا۔ پیغمبر اکرم نے اس موقع پر پہلی دفعہ ’’لعان‘‘ کی رسوم کو جاری کیا۔ اس مرد سے کہا کہ چار مرتبہ قسم کھاؤ اور خدا کو اس بات پر گواہ بناؤ کہ تم سچ بول رہے ہوں اور پانچویں مرتبہ کہو کہ اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو۔ اس نے بڑی جرت کے ساتھ کہہ دیا۔ پھر عورت سے کہا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہو کہ تمہارا شوہر جھوٹ بول رہا ہے۔ پہلے تو عورت نے خاموشی اختیار کی اور اس کی زبان تقریباً گنگ ہو گئی۔ وہ اعتراف کرنے کو ہی تھی کہ اس کی نگاہ اس کے رشتہ داروں کے چہروں پر پڑی اور (اس نے اپنے جی میں) کہا نہیں۔ میں ان کو ہرگز رسوا نہیں ہونے دوں گی اور ان کی شرمندگی کا موجب نہیں بنوں گی۔ پھر اس نے کہا کہ میں یہ کام کرتی ہوں (یعنی چار مرتبہ قسم کھاؤں گی اور کہوں گی کہ اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو) ہلال بن امیہ نے چار مرتبہ قسم کھائی اور پانچویں مرتبہ جب وہ اپنے اوپر لعنت کرنے لگا تو پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ یہ جان لو کہ آخرت کا عذاب دنیا کے عذاب سے بہت زیادہ دردناک ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاؤ؟ خدا کا خوف کھاؤ! اس نے کہا: ’’نہیں یا رسول اللہ خدا جانتا ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔‘‘ عورت نے بھی جب چار مرتبہ قسم کھانے کے بعد کہنا چاہا ’’اگر میرا شوہر سچا ہو تو مجھ پر خدا کا غضب نازل ہو‘‘ تو اس سے بھی نبی اکرم نے فرمایا کہ خدا کے غضب سے ڈرو جو کچھ آخرت میں ہے وہ اس سے بہت زیادہ سخت ہے جو دنیا میں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے شوہر کی بات درست ہو اور تم اس جھٹلا دو! یہ سنتے ہی عورت کی زبان رکنے لگی اس نے کچھ دیر تک خاموشی اختیار کی وہ اعتراف کیا چاہتی تھی لیکن آخری لمحہ میں اس نے مذکورہ جملہ کہہ دیا۔ پھر نبی اکرم نے فرمایا کہ اب سے تم آپس میں میاں بیوی نہیں ہو۔
اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ ’’وَلوْ لاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیکُمْ وَرَحْمَتُه وَ اَنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ حَکیْمٌ ‘‘ اگر تم پر خدا کا فضل اور اس رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ بے شک خدا توبہ قبول کرنے والا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ تم پر سخت احکام نازل فرماتا۔ ممکن ہے تم خیال کرو کہ اس سلسلے میں جو احکام ہم نے نازل کئے ہیں وہ سخت ہیں۔ لیکن جان لو کہ یہ تو اللہ کا فضل، اس کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کے توبہ قبول کرنے کا مظہر ہے۔ تمہاری مصلحت اسی کا تقاضا کرتی ہے۔
اس کے بعد جو آیات ہیں انہیں آیاتِ ’’افک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ افک یعنی تہمت جس کا تعلق ایک تاریخی واقعے کے ساتھ ہے۔ منافقین نے ایک واقعہ کے دوران نبی اکرم کی ایک زوجہ پر تہمت لگائی۔ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق وہ عورت حضرت عائشہؓ تھیں۔ بعض اہلِ تشیع کہتے ہیں کہ وہ ماریہؓ قبطیہ تھیں لیکن بعض اہلِ تشیع قائل ہیں کہ وہ عائشہؓ تھیں۔ شاید آپ خیال کریں کہ معاملہ تو اس کے برعکس ہونا چاہئے تھا۔ اہلِ تشیع کو کہنا چاہئے تھا کہ جس عورت پر تہمت لگی تھی وہ عائشہؓ تھیں اور اہلِ تسنن کہتے کہ وہ ماریہ قبطیہؓ تھیں۔ اہلِ تسنن اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ وہ عائشہؓ تھیں اور متعصب شیعہ کیوں اصرار کرتے ہیں کہ وہ ماریہؓ قبطیہ تھیں: اس اصرار کی وجہ یہ ہے کہ اس تہمت نے بعد میں ایسی صورتِ حال اختیار کر لی کہ معاشرتی لحاظ سے بھی اور اس عورت کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات کے لحاظ سے بھی، جو اس مہتم عورت کے لئے وجہ افتخار بن گئی، یعنی پھر اس تہمت کے دروغ ہونے میں ذرہ برابر شک باقی نہ رہا، اس عورت کی پاکدامنی ثابت ہو گئی اور سب کو معلوم ہو گیا کہ یہ سراسر ایک جھوٹا قصہ تھا۔
اسی لئے اہلِ سنت مصر ہیں کہ وہ مہتم عورت جس کی پاکدامنی کی تصدیق کامل طور پر ہوئی ہے عائشہؓ تھیں اور بعض شیعہ حضرات یہ افتخار ماریہؓ قبطیہ کے نام ثبت کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امر واقعہ کیا تھا، آیاتِ افک کو اس کی داستان جو کہ تفصیلی بھی ہے، کے ساتھ بعد والی تقریر میں انشاء اللہ عرض کروں گا۔
وَصَلَّی اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِهِ وَّاٰلِهِ الطَّاهِرِینَ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ
اِنَّ الَّذِیْنَ جَآ ءُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیً مِّنْهُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابٌ عَظِیْمٌ o لَوْ لَآ اِذْسَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْراً وَّقَالُوْآ اِهٰذا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ (سُور نُور، آیت ۱۱، ۱۲) ان آیات کو اصطلاحاً ’’آیاتِ افک‘‘ کہا جاتا ہے ’’افک‘‘ سے مراد وہ بڑا جھوٹ (تہمت) ہے جو بعض منافقین نے۔ العیاذباللہ۔ نبی اکرم کو رسوا کرنے کی خاطر آپ کی زوجہ کے متعلق گھڑا تھا۔ اس کی داستان ہم اس سے قبل تفصیل سے نقل کر چکے ہیں۔
اب ہم یہ آیات پڑھیں گے اور ان سے جن نکات (یہ نکات تربیت اور معاشرتی حوالے سے بہت اہم ہیں یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں بھی ہم ان سے دوچار ہیں) کا استفادہ ہوتا ہے ان کو بیان کریں گے۔
آیت کہتی ہے ’’اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ ‘‘ آگاہ رہو کہ جن افراد نے تہمت گھڑی وہ تم میں سے ہی ہیں جن کا ایک منظم گروہ ہے۔ قرآن اس ذریعہ سے مسلمانوں کو بیدار کر رہا ہے کہ اس نکتہ کی جانب متوجہ رہو کہ تمہارے درمیان ایسے اشخاص اور گروہ موجود ہیں جو بظاہر مسلمان ہیں لیکن ان کے مقاصد بہت خطرناک ہیں۔ یعنی قرآن یہ بات سمجھانا چاہتا ہے کہ جن اشخاص نے یہ تہمت گھڑی ہے انہوں نے غفلت، بے توجہی یا سہل انگاری کی بنا پر نہیں گھڑی بلکہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے تہمت لگائی ہے۔ ان کا مقصد۔ نعوذ باللہ۔ نبی اکرم کو رسوا کرنا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ آپ کا اعتبار جاتا رہے۔ البتہ وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ منظم گروہ تم میں سے ہی تھا۔ اس کے بعد قرآن فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا ’’شر‘‘ تھا جس کا نتیجہ ’’خیر‘‘ تھا۔ بلکہ درحقیقت یہ شر تھا ہی نہیں۔ لاَ تَحْسَبُوْهُ شَرًّالَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ‘‘ آپ خیال بھی نہ کریں کہ یہ برا واقعہ تھا۔
مسلمانوں کی شکست تھی، نہیں: بلکہ یہ واقعہ اپنی تمام تر تلخی کے باوجود ملتِ اسلامیہ کے فائدے میں تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن نے اس واقعہ کو ’’خیر‘‘ کیوں قرار دیا ہے، اسے ’’شر‘‘ کیوں نہیں قرار دیا، حالانکہ یہ داستان بہت ہی تلخ تھی؟ نبی اکرم کو العیاذ باللہ رسوا کرنے کے لئے ایک قصہ گھڑا گیا اور کئی دن (تقریباً چالیس دن) گزرنے کے بعد وحی نازل ہوئی اور تدریجاً حقائق سامنے آئے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ اس عرصہ میں پیغمبر اکرم اور آپ کے قرابت داروں پر کیا گزری! قرآن کریم دو وجوہات کی بناء پر اس واقعے کو خیر قرار دے رہا ہے۔
اول:۔ منافقین کا گروہ پہچانا گیا۔ ہر معاشرے کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہی ہوتا ہے کہ صفیں مشخص نہ ہوں، مومن اور منافق سب ایک ہی صف میں ہوں۔ جب تک حالات سازگار ہوں تب تک تو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن جونہی معاشرے پر برا وقت آ پڑے تو پھر منافقین کی جانب سے اسے بہت سے نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔ جب معاشرے کو دھچکا لگتا ہے تو پھر اسرار ہویدا ہوتے ہیں اور امتحان کی گھڑی آتی ہے۔ مومنین ایمان والوں کی صف میں چلے جاتے ہیں اور منافقین کی منافقت کا نقاب الٹ جاتا ہے اور جس صف کے سزاوار ہوتے ہیں اس میں چلے جاتے ہیں۔ معاشرے کے حق میں یہ ایک بہت بڑی خیر (بھلائی) ہے۔
جن منافقین نے یہ داستان گھڑی تھی ان کے لئے قرآن کے الفاظ میں فقط ’’اثم‘‘ باقی رہ گیا ہے، ’’اثم‘‘ یعنی گناہ کا دھبہ۔ اس کے بعد زندگی بھر کے لئے ان کی ساکھ ختم ہو گئی۔
دوم یہ کہ قصہ گھڑنے والوں نے شعوری طور پر اس کو گھڑا تھا۔ لیکن عام مسلمان غیر شعوری طور پر ان کے آلہ کار بن گئے تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت مومن ہی تھی۔ وہ مخلص اور ایماندار تھے۔ ان کی نیت بری نہیں تھی۔ وہ فقط نادانی اور بے توجہی کی بنا پر اس منظم گروہ کے نمائندے بن بیٹھے تھے۔ قرآن نے اس بات کی وضاحت بہت بہترین انداز میں کی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے اشخاص کا نادان ہونا اس معاشرے کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے۔ اگر دشمن عیار ہو تو وہ ان اشخاص کو ان کے اپنے ہی خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ وہ ایک داستان اپنے پاس سے بنا لیتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اسے ایک شوشے کے طور پر ان کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے تاکہ وہ اشخاص ان کی گھڑی ہوئی بات کا ہر جگہ تذکرہ کریں۔ اس کا سبب نادانی ہے۔ معاشرے کے افراد کو اس حد تک نادان اور احمق نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دشمن کی گھڑی ہوئی باتوں کا تذکرہ ہر جگہ کرتے پھریں۔
اگر دشمن کوئی افواہ اڑاتا ہے تو اس وقت تمہارا فرض یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے شخص سے اس کا ذکر نہ کرو اور بات کو اسی جگہ دفن کر دو۔ دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ اس کی افواہ کو ہوا ملے، وہ مشہور ہو جائے۔ لیکن تمہیں چاہئے کہ اس قلع قمع کر دو۔ کسی ایک آدمی سے بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ تمہاری اس خاموشی سے دشمن کی آرزو پر پانی پھر جائے گا۔
اس داستان کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اپنی غلطی کا پتہ چل گیا۔ یعنی جو بات ایک منظم گروہ نے گھڑی تھی اسے انہوں نے سادہ لوحی سے سن لیا اور اس کے بعد جب آپس میں ملتے تو ایک شخص دوسرے سے کہتا کہ میں نے ایسی بات سنی ہے۔ دوسرا کہتا میں نے بھی سنی ہے۔ کوئی کہتا کہ مجھے حقیقت کا تو علم نہیں ہے، حقیقت کا علم تو خدا کے پاس ہی ہے۔ البتہ یہ بات سنی تو میں نے بھی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم معاشرہ اپنی سادہ لوحی اور نادانی کے باعث چند آدمیوں پر مشتمل ایک گروہ کا آلہ کار بن کر رہ گیا۔
داستانِ افک مسلمانوں کی بیداری کا موجب بنی۔ سب مسلمان خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے۔ ایک جانب تو انہوں نے اس گروہ کو پہچان لیا اور دوسری طرف ان کو اپنے بارے میں آگاہی ہوئی (پھر ان کو افسوس ہوا اور دل ہی دل میں کہنے لگے) کہ ہم نے اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب کیوں کیا، ہم ان کے آلہ کار کیوں بن گئے؟
میرا ایک بہت پرانا دوست ہے۔ اس کا گھر یہاں سے بہت دور ہے۔ میں یہاں اس کے محلے کا نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ اتنی دور سے یہاں آیا۔ جب تفسیر کا درس ختم ہوا اور میں اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا تو اس نے مجھے اپنی کار پر سوار ہونے کے لئے کہا۔ راستے میں اس نے کہا: ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ میں یہاں کیوں آیا تھا؟ میں نے سنا تھا کہ الجواد مسجد میں اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ نہیں کہتے۔ تو میں نے سوچا کہ آج جا کر دیکھ آؤں کہ کیا واقعی نہیں کہتے۔‘‘ میں نے جواب دیا کہ خدا تمہارا بھلا کرے تم نے کم از کم اتنا تو کیا کہ دیکھنے کو آ گئے۔
اب مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ الجواد مسجد میں ’’اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ‘‘ نہیں کہا جاتا، دوسرا شخص بھی کہے گا کہ میں نے بھی سنا ہے کہ الجواد مسجد میں ’’اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ‘‘ نہیں کہا جاتا تو ایک دن ایسا آئے گا کہ سب لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ ہم نے سنا ہے کہ الجواد مسجد میں ’’اَشْهَدُ اَنَّ عَلِیًّا وَّلِیُّ اللّٰهِ‘‘ نہیں کہا جاتا! اسلام کیا حکم دیتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ جب بھی تم ایسی بات سنو تو اسے اپنی زبان پر نہ لاؤ۔ اگر تمہیں فکر ہے تو خود تحقیق کرو۔ جب تم میں تحقیق کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے تو پھر اس بات کا ہر جگہ تذکرہ کیوں کرتے ہو؟ تم کو اس کا تذکرہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اس دیہات کے آدھے لوگ یہودی تھے اور آدھے مسلمان۔ اس گاؤں سے چتل تک دو فرسخ کا فاصلہ تھا۔ یہودیوں کا کہنا تھا کہ چتل ہمارا ہے۔ اسے ہم نے بنایا ہے۔ یہ ہمارا مزار ہے۔ جبکہ مسلمان کہتے تھے کہ یہ ہمارا ہے کیونکہ اس کا مینار ہے۔ اس بات پر ان کے درمیان کئی لڑائیاں بھی ہوئیں جن میں بعض افراد زخمی ہوئے اور بعض مارے گئے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اس کا مینار ہے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ اس کا مینار نہیں ہے اور ان میں اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ دو فرسخ چل کر دیکھ آئیں کہ اس کا مینار ہے یا نہیں۔
) داستان افک کا) دوسرا فائدہ یہی تھا کہ اس نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا اور قرآن میں اس کو بیان کیا تاکہ ابد تک باقی رہے، لوگ اس کا مطالعہ کریں اور اسے ہمیشہ یاد رکھیں کہ اے مسلمانو! تم نادانی کی بناء پر دشمن کا آلہ کار نہ بنا کرو۔ دشمنوں کی گھڑی ہوئی باتوں کا چرچا اپنی جہالت کی وجہ سے نہ کیا کرو۔ خدا جانتا ہے کہ یہودیوں اور ان کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے بہائیوں نے ایسی کتنی ہی داستانیں گھڑی ہیں۔ یوں بھی ہوا ہے کہ یہودیوں یا عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں پر لگائی جانے والی تہمت نے اس قدر شہرت پکڑی کہ بتدریج اس کا تذکرہ کتابوں میں ہونے لگا اور بعد کو اس تہمت کو اس قدر مسلم فرض کیا گیا کہ مسلمان بھی اس پر یقین کرنے لگے۔ مثلاً اسکندریہ کی کتاب سوزی کی داستان۔ سکندر نے مشرق میں آنے اور مصر، ایران اور ہندوستان فتح کرنے کے بعد اس جگہ ایک شہر بنایا جس کا نام ’’اسکندریہ‘‘ رکھا گیا۔ بعض علماء وہاں گئے۔ انہوں نے وہاں ایک لائبریری بنائی۔ وہ لائبریری درحقیقت ایک مدرسہ کی حیثیت رکھتی تھی جس میں بہت زیادہ کتابیں جمع ہو گئی تھیں۔ اب مسلمانوں کی تاریخ بلکہ عیسائیت کی تاریخ نے بھی اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح اسکندریہ سے قبل اس لائبریری کو دو تین مرتبہ لوٹا اور نذر آتش کیا گیا۔
جب مشرقی روم کا بادشاہ عیسائیت کی جانب مائل ہوا تو چونکہ وہ فلسفہ کو عیسائیت کے خلاف سمجھتا تھا اس لئے اس نے اسکندریہ کے مرکز کو تباہ کر دیا۔ آپ حضرات نے سنا ہو گا کہ سات ہزار فلاسفہ نے ایران (انوشیروان کے دربار) میں آ کر پناہ لی۔ لائبریری نہ بچ سکی۔ دورِ حاضر میں ویل ڈیورنٹ جیسے مؤرخین نے ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی فتح اسکندریہ سے قبل اس لائبریری کو چند مرتبہ نقصان پہنچا۔ جب مسلمان اسکندریہ میں داخل ہوئے اس وقت اس لائبریری کا وجود ہی نہیں تھا۔
دوسری جانب مسلم اور عیسائی مورخین نے مسلمانوں کی ایران، مصر اور دوسرے مقامات کی فتوحات کے واقعات کی جزئیات کو تحریر کیا ہے۔ خصوصاً فتح اسکندریہ کے واقعات کی جزئیات کو عیسائی مورخین نے بھی تحریر کیا ہے۔ بعد کو جب دوسری اور تیسری صدی میں تاریخِ یعقوبی، تاریخِ طبری اور فتوح البلدان جیسی عظیم کتابیں (ان کتابوں کا تعلق اسلام کی ابتدائی صدیوں سے ہے اور ان کا سلسلہ اسناد بھی منظم و مرتب ہے) تحریر کی گئیں تو کسی ایک مورخ نے بھی تحریر نہیں کیا کہ اس وقت اسکندریہ میں کوئی لائبریری موجود تھی جسے مسلمانوں نے نذرِ آتش کر دیا ہو۔ ویل ڈیورنٹ رقمطراز ہے: ’’اس زمانے میں ایک پادری اسکندریہ میں سکونت پذیر تھا۔ اس نے فتحِ اسکندریہ کے واقعات کی تمام جزئیات تحریر کی ہیں۔ اس کی کتاب اب بھی ہماری دسترس میں ہے اس نے کسی کتاب سوزی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔‘‘
چھٹی صدی ہجری کے اواخر (یعنی چھ سو سال بعد) اور ساتویں صدی ہجری میں دو شخص، جو کہ مورخ بھی نہیں تھے، عیسائی تھی۔ انہوں نے عیسائیت کے دامن کو اس تہمت کے دھبہ سے پاک کرنے کے لئے کسی کتاب کا ریفرنس دیئے بغیر کہا: ’’عمرو بن عاص جب اسکندریہ میں داخل ہوا تو اس نے وہاں ایک بہت بڑی لائبریری دیکھی۔ اس نے خلیفہ کو خط لکھ بھیجا کہ ہم اس لائبریری کا کیا کریں؟
’’خلیفہ نے جواب دیا کہ ان کتابوں میں جو مطالب درج ہیں وہ یا تو قرآن کے مطابق ہیں، اس صورت میں ہمارے لئے قرآن کافی ہے، یا قرآن کے خلاف ہیں اور جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ اس لئے تمام کتابوں کو نذر آتش کر دو تو عمرو بن عاص نے تمام کتابوں کو جلا دیا۔ بعد کو آٹھوں و نویں صدی میں آہستہ آہستہ مسلمانوں نے خود بھی ان جعلی کتابوں سے اسی داستان کو نقل کیا۔ مسلمانوں نے اس بات کی طرف توجہ نہ دی کہ اگر یہ بات درست ہوتی تو ابتدائی صدیوں کے مورخین اس کو بیان کرتے ہیں۔‘‘
اس داستان کے غلط ہونے کی بہت سی ادلہ ہیں۔ اگر ان سب کو بیان کروں تو پھر ہم اصلی بحث سے دور ہو جائیں گے۔ میں نے ایک مرتبہ ’’کتاب سوزیِ اسکندریہ‘‘ کے موضوع پر تین تقریریں کر کے ثابت کیا تھا کہ یہ داستان سراسر جھوٹی ہے، شبلی نعمانی نے بھی اس موضوع پر ایک کتابچہ تحریر کیا ہے۔ محققین، علماء اور مورخین کو اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ یہ واقعہ سراسر جھوٹ ہے۔ لیکن اس کے باوجود دشمنوں اور ان کے گماشتوں نے جانتے ہوئے اور مسلمانوں نے نادانی کی بناء پر، اس واقعہ کو کتابوں میں نقل کیا ہے اور نوبت تو یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بی اے کی فلسفہ و منطق کی کتابوں میں جب قضیہ منفصلہ کی مثال بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ جیسا کہ مسلمانوں کے خلیفہ نے اسکندریہ لائبریری کے متعلق کہا تھا: ’’یہ کتابیں یا تو قرآن کے مطابق ہیں، اس صورت میں ہمارے لئے قرآن ہی کافی ہے۔ یا قرآن کے خلاف ہیں، تو جو چیز قرآن کے خلاف ہو وہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ پس ان کو جلا دو۔‘‘ کالجز کی کتابوں میں تحریر کیا جا چکا ہے کہ مسلمانوں کا کام کتابوں کو نذرِ آتش کرنا تھا۔
شبلی نعمانی کا کہنا ہے: ’’انگریزوں نے جب ہندوستان پر اپنا تسلط جما لیا تو انہوں نے وہاں ایسے مدارس قائم کئے جان کو وہ اپنے پروگرام کے مطابق چلاتے تھے۔ جب وہ منطق کی کتب میں قضیہ حقیقیہ منفصلہ کی مثال بیان کرنا چاہتے تو خاص طور پر اس بات کو مثال کے طور پر پیش کرتے تاکہ مسلمان اور ہندو بچوں کے اذہان میں یہ بات بٹھا سکیں کہ تم ایک ایسی قوم ہو جو قدیم زمانہ سے ہی کتابوں کو نذر آتش کرتی رہی ہے۔‘‘ (یہ بات شبلی نعمانی نے کی ہے۔ میں نے جب بعد کو اپنے کالجز کی کتابوں میں اسی بات کو بعینہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ کام انگریزوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا ہے) ۔ بعد کو میں نے دیکھا کہ ایران کے کالجز کی کتب میں بھی اسی بات کو بیان کیا گیا ہے اور ہم یہ دیکھے بغیر کہ اس کا کوئی مستند حوالہ بھی ہے یا نہیں، ہر جگہ اس کا چرچا کرتے رہتے ہیں۔ اور اب یہ بات اس حد تک مشہور ہو چکی ہے کہ اگر ہم کسی جگہ یہ کہیں کہ یہ واقعہ غلط ہے تو لوگوں کو تعجب ہوتا ہے۔ وہ تعجب آمیز لہجے میں کہتے ہیں: ’کیا کہا یہ واقعہ غلط ہے! ہمارے ذہن میں تو کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا تھا کہ یہ واقعہ جھوٹ ہو ا۔‘‘ قرآن یہ جو کہہ رہا ہے کہ ’’لاَ تَحْسُبوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرُ لَّکُمْ ‘‘ تو حقیقت میں قرآن کہنا چاہتا ہے: ’’ اے مسلمانو! تم کو اس واقع سے عبرت پکڑنی چاہئے۔ قرآن پڑھو۔ اس کی تفسیر کرو تاکہ اس سے نصیحت حاصل کرو اور دشمنوں کی اڑائی ہوئی افواہوں کی چرچا نہ کرتے پھرو۔‘‘
’’ اِنَّ الَّذِیْنَ جَآ ءُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَة مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْهُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ هُوَ خَیْرُ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیًٴ مِّنْهُمْ مَّااکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ‘‘ قرآن کہتا ہے کہ جن بدبختوں نے یہ داستان گھڑی تھی ان میں ہر ایک کے دامنِ کردار پر گناہ کا دھبہ لگ چکا ہے اور انہیں اس گناہ کے نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ گناہ کا سب سے زیادہ بوجھ ان میں سے ایک شخص کے کندھوں پر ہے۔ (یعنی عبداللہ ابن ابی، جسے عبداللہ ابی بن سلول بھی کہتے ہیں) ’’ وَالَّذِیْ تَوَلّیٰ کِبْرَه مِنْهُمْ لَه عَذَابُ عَظِیمُ ‘‘ ان اشخاص میں سے کسی جس نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے خدا نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ دنیاوی بدنامی یعنی جب تک اس دنیا میں زندہ رہے گا منافقین کے سرغنہ کے نام سے پہچانا جائے گا کے علاوہ آخرت میں خدا اس کو بڑے سخت عذاب سے دو چار کرے گا۔
لَوْلَآ اِذْسَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمُؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْراً ‘‘
اس بات کو قرآن ان الفاظ میں بھی ادا کر سکتا تھا کہ جب تم نے یہ داستان سنی تو اپنے بھائیوں کے متعلق برا گمان کیوں کیا؟ اگر قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا تو یہ ایک معمولی بات ہوتی۔ قرآن اسی بات کو دوسرے الفاظ میں بیان کر رہا ہے۔ وہ یہ نہیں کہتا: ’’تم نے اپنے مومن بہن بھائیوں کے متعلق برا گمان کیوں کیا؟‘‘ بلکہ وہ ارشاد فرما رہا ہے: ’’تم نے اپنے بارے میں برا گمان کیوں کیا؟‘‘ یعنی اس بات کی طرف متوجہ رہو کہ تم ایک ہی پیکر ہو، مولانا جلال الدین رومی کے بقول ’’نفسِ واحدہ‘‘ ہو۔ ’’مؤمنان ہستند نفسِ واحدہ‘‘۔ تمام مسلمانوں اور مؤمنین کو یہی سمجھنا چاہئے کہ وہ سب ایک ہی پیکر کے اعضاء ہیں۔ اگر کسی مؤمن پر تہمت لگائی جا رہی ہو تو دوسرے مسلمان سمجھیں کہ وہ تہمت ان کی ذات پر لگائی جا رہی ہے۔ پس ایک نکتہ اس مقام پر یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ قرآن یہ کہتا ہے کہ تم نے اپنے مؤمن بھائیوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا، یہ کہہ رہا ہے کہ تم نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا؟ یعنی مسلمانوں کے درمیان ’’میں‘‘ اور ’’وہ‘‘ کا فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہر مسلمان کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس کے کسی بھی دوسرے مسلمان بھائی کی عزت اس کی اپنی عزت ہے اور دوسرے مسلمان بھائی کی آبرو اس کی اپنی آبرو ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ ’’تم‘‘ نے کیوں اچھا گمان نہیں کیا؟ بلکہ کہہ رہا ہے کہ ’’مؤمنین و مؤمنات‘‘ نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا؟ بلکہ کہہ رہا ہے کہ ’’مؤمنین و مؤمنات‘‘ نے اپنے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا۔؟
اولاً۔ یہاں عورت و مرد دونوں کا ایک جگہ ذکر کر رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اعتبار سے عورت اور مرد برابر ہیں۔ ان میں فرق نہیں ہے۔
ثانیاً: ایمان کو خصوصی طور پر ذکر کر رہا ہے۔ یعنی قرآن بتانا چاہتا ہے کہ وحدت اور اتحاد کا معیار ایمان ہے۔ مؤمنین اس لئے نفسِ واحدہ ہیں کیونکہ وہ مؤمن ہیں۔ یعنی اس مقام پر قرآن اتحاد کے معیار کو بھی بیان کر رہا ہے۔ درحقیقت قرآن کہنا چاہتا ہے:
’’اے ایمان لانے والے مردو اور ایمان لانے والی عورت! اگر تم پر اس قسم کی تہمت لگائی جاتی تو کیا تم اس تہمت کا چرچا کرنے پر تیار ہوتے؟ جس محفل میں بیٹھتے کیا اس میں بیان کرتے کہ مجھ پر یہ تہمت لگائی گئی ہے؟ لوگ میرے متعلق ایسی باتیں کر رہے ہیں؟ کیا کبھی تم اپنے متعلق ایسی باتیں کرتے؟ اگر تمہارے اپنے متعلق اس قسم کی باتیں ہوں تو تم فوراً سمجھ جاتے ہو کہ تم کو خاموشی سے کام لینا چاہئے اور لوگوں نے جو جھوٹی تہمت تم پر لگائی ہو تم کو اس کا چرچا نہیں کرنا چاہئے۔ تو اب اپنے مؤمن بہن بھائیوں پر لائی جانے والی تہمت سن کر تم اسی طرح خاموشی کیوں نہیں اختیار کر لیتے جس طرح تم اپنے اوپر لگائی جانے والی تہمت سن کر اختیار کر لیتے ہو۔‘‘
لَوْ لَآ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤمِنُوْنَ وَالْمَؤمِنَاتُ بِاَنْفُسِهمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا هٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ‘‘
جب تم ایمان والوں نے سنا تو مومنین نے اپنے متعلق اچھا گمان کیوں نہ کیا؟ انہوں نے یہ داستان سنتے ہی کیوں نہ کہا کہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے؟ نبی اکرم نے ایک ماہ یا اس سے زیادہ مدت تک خاموشی اختیا ر کی۔
غافل مسلمان بجائے اس کے کہ پہلے دن ہی کہہ دیتے ’’هٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ‘‘ یہ واضح جھوٹ ہے، وہ مزے مزے لے لے کر اس داستان کو ایک دوسرے سے بیان کرتے۔ جس محفل میں بیٹھتے یہی کہتے: ’’ہم نے اس طرح سنا ہے‘‘۔ اور اپنی ہر محفل میں اس جعلی داستان ہی کو اپنی بحث و گفتگو کا موضوع قرار دیتے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمہیں پہلے دن ہی کہنا چاہئے تھا ’’هٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ اب اس کے بعد آگاہ رہو۔ ایسے جھوٹ جو تم میں سے بعض افراد گھڑ لیتے ہیں ان کو سنتے ہی کہو ’’هٰذَآ اِفْکُ مُّبِیْنُ ‘‘
لَوْلاَ جَآ ءُ وْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَة شُهَدَآءَ فَاِذْ لَمْ یاْ تُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰئِکَ عِنْدَاللّٰهِ هُمُ الْکَاذِبُوْنَ ۔ (سُورہ نُور، آیت ۱۳(
تمہارے کام اصول و قوانین کے تحت ہیں۔ اسلام نے تم پر فرض عائد کیا ہے۔ شرعاً تم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جب بھی کسی مسلمان پر لگائی جانے والی ایسی تہمت سنو جو شرعی طریقے سے ثابت نہ ہوئی ہو، تو فوراً کہو کہ یہ جھوٹ ہے۔ خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہے۔ اور اس جملہ (خدا کے نزدیک یہ جھوٹ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ الٰہی کے مطابق یہ جھوٹ ہے۔
ذمہ داری بہت واضح ہے۔ اب کے بعد ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ اگر کوئی شخص کسی شخص یا ادارے کے متعلق کوئی بات کرے تو ہم پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟ کیا ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم خاموش رہیں؟ کیا ہمارا فرض یہ ہے کہ یہ کہیں کہ ’’ہمیں حقیقت کا علم نہیں ہے۔ خدا ہی جانتا ہے‘‘؟ مجھے کیا خبر، ممکن ہے یہ بات درست ہو، ممکن ہے غلط ہو‘‘؟ کیا ہماری ڈیوٹی یہ ہے کہ ہم اپنی محافل میں ایسے واقعات کا تذکرہ کریں اور کہیں: ’’لوگ یوں کہتے ہیں۔‘‘ ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ جب تک شرعی طور پر ثابت نہ ہو جائے تب تک یہ کہیں کہ یہ واقعہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ جب شرعی طور پر ثابت ہو جائے اور ہمیں یقین ہو جائے، مثلاً چار عادل زنا کی گواہی دیں یا زنا کے علاوہ کسی دوسرے کام کی گواہی دو عادل دیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے یا کہیں کہ ہم نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ (یہ شرعی گواہی ہے) تو اس وقت ہماری ذمہ داری بدل جاتی ہے۔ جب تک شرعی ثبوت نہ ہو اس وقت تک ہمیں اس واقعہ کے تذکرہ کا حق نہیں پہنچتا او نہ ہی یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ ’’شاید یہ واقعہ صحیح ہو، شاید غلط ہو۔‘‘ بلکہ اس قسم کی داستان سن کر ہمیں خاموشی اختیار کرنے کا حق بھی حاصل نہیں۔ بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ کہیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ہاں جب شرعی ثبوت مل جائے تو اس وقت ہمارا فریضہ ہے کہ مقابلہ کریں۔ البتہ ہر موقع پر ہم پر کوئی فرض عائد ہوتا ہے۔
بعض برائیوں کا مقابلہ ہمیں کرنا چاہئے اور بعض مسائل مثلاً زنا کے بارے میں، حاکم ِ شرع کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اے ایمان والو تم اس داستان کا چرچا کرنے کی وجہ سے گناہگار ہو گئے ہو۔ لیکن خدا نے تمہارا یہ گناہ معاف کر دیا ہے۔ اب بیدار رہنا۔ آئندہ اس کا ارتکاب نہ کرنا۔ ’’وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة‘‘ اگر دنیا و آخرت میں تم پر خدا کا فضل نہ ہوتا ’’لَمَسَّکُمْ فِیْمَآ اَفَضْتُمْ فِیْهِ عَذَابُ عَظِیْمُ ‘‘ تو تمہاری ان بے سروپا باتوں کی وجہ سے خدا کی جانب سے دنیا و آخرت میں تم پر عذاب نازل ہوتا۔ یہ فقط خدا کا فضل ہی تھا جس نے تم کو اس عذاب سے بچا لیا۔ پس اب متوجہ رہو اور اب کے بعد ایسا کام نہ کرنا۔ کونسا گناہ اور افاضہ؟ ہم کس چیز میں غرق ہو چکے تھے اور کس چیز کے بارے میں بے ہودہ باتیں کرتے تھے؟ اِذُ تَلَقَّوْنَه بِاَلْسِنَتِکُمْ‘‘ جب تم اس کو ایک دوسرے کی زبان سے نقل کرتے تھے وَتَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِکُمْ مَّالَیْسَ لَکُمْ بِه عِلْمُ ‘‘ تم ایسی بات کرتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں تھا اور چونکہ تم اسے نہیں جانتے تھے وَتَحسَبُونَہ ھَیِّنًا اس لئے اسے معمولی بات خیال کرتے تھے ، وَهُوَ عِنْدَ اللّٰهِ عَظِیْمُ حالانکہ خدا کے نزدیک یہ بہت بڑی بات تھی۔ مسلمانوں کی آبرو کا مسئلہ ہے اور اس مقام پر خصوصاً پیغمبر کا مسئلہ ہے۔ وَلَوْ لَآ اِذْسَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّایَکُوْنُ الَنَآ اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِهٰذَا جب تم نے اس کو سنا تو کیوں نہ کہا کہ ہمیں کیا پڑی ہے کہ ہم اس کے بارے میں کلام کریں۔ ہمیں اس کے تذکرہ کا حق حاصل نہیں ہے۔ (بلکہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ہم کو منفی بات کرنی چاہئے۔ یعنی اگر کوئی شخص ایسی بات کرے تو ہمیں کہنا چاہئے کہ یہ جھوٹ ہے۔ نہ صرف یہ کہ مثبت بات نہ کریں اور اس کو مشہور نہ کریں بلکہ ہمیں چاہئے کہ منفی بات کریں۔ یعنی دوسروں کے جواب میں کہیں کہ یہ بات صحیح نہیں ہے، جھوٹ ہے۔ اس مطلب کو خدا دوسرے جملے میں بیان فرما رہا ہے) تمہیں کہنا چاہئے تھا ’’مَایَکُوْنَ لَنَا اَنْ نَّتَکَلَّمَ بِهٰذَآ۔ ہمیں اس کے متعلق گفتگو کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ بلکہ سُبْحَانَکَ هٰذَا بُهْتَانُ عَظِیْمُ ‘‘ ہمارا فریضہ ہے کہ کہیں کہ اللہ کی ذات پاک ہے۔ یہ ایک بہت بڑا جھوٹ باندھا اور تہمت لگائی گئی ہے۔ یَعِظُکُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٓ اَبَدًا‘‘ خدا مسلمانوں کو موعظہ فرما رہا ہے کہ خبردار دوبارہ کبھی بھی اس قسم کی کوئی غلطی نہ کرنا۔ اب قیامت تک متوجہ رہنا اور کبھی بھی کسی گروہ کا آلہ کار نہ بننا۔
دشمنوں نے تمہارے خلاف جو باتیں گھڑی ہیں ان کا چرچا نہ کرنا۔ وَیُبَیِّنُ اللّٰهُ لَکُمْ الْاٰیَاتِ وَاللّٰهُ عَلِیْمُ حَکیْمُ ‘‘ اللہ تم سے اپنے احکام کو کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا، حکمت والا ہے۔ اس نے حکمت کی اساس پر ہی یہ آیات تمہارے لئے نازل کی ہیں۔
کتبِ حدیث میں ایک حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی تم اہلِ بدعت کو دیکھو تو ان کا مقابلہ کرو۔ بدعت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دینِ خدا میں ایسی چیز شامل کر دے جو دین میں موجود نہ ہو، یعنی ایک من گھڑت بات کو دین سے منسوب کرنا۔ بدعت کی مخالفت کرنا سب مسلمانوں پر لازم ہے۔ مثلاً صلوات جس وقت بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ آپ جب بھی صلوات پڑھیں گے تو آپ کے اس عمل (صلوات) کو مستحب شمار کیا جائے گا۔ فرض کریں ایک خطیب تقریر کے دوران اپنی تھکن دور کرنے کے لئے سامعین سے صلوات پڑھنے کو کہتا ہے تو یہ ایک پسندیدہ اور اچھا کام ہے۔ لیکن اگر آپ خیال کریں کہ اسلام نے حکم دیا ہے کہ خطیب کی تقریر کے دوران صلوات پڑھا کریں اور آپ اسلام کا حکم بجا لانے کی نیت سے صلوات پڑھیں گے تو یہ بدعت ہو گی۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام نے خطیب کی تقریر کے دوران صلوات پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
ہم (ایرانیوں) میں ایک عادت پائی جاتی ہے جس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔ جب چراغ جلایا جاتا ہے تو صلوات پڑھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ صلوات جس وقت بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ میں بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ صلوات جب بھی پڑھی جائے اچھی ہے۔ لیکن ایران میں اس کا سابقہ ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ ایران میں چونکہ آتش کی پرستش کی جاتی رہی ہے، آگ کا احترام کرنے کا رواج رہا ہے، اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری اس صلوات میں آتش کی تعظیم و تکریم کے وہ جذبات بھی شامل ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ اسلام کہتا ہے کہ نماز کے ہنگام آپ کی توجہ خدا کی جانب ہونی چاہئے۔ اگر آپ کے روبرو کوئی شخص ہو تو آپ کی نماز مکروہ ہے کیونکہ اس سے آدم پرستی کی بو آتی ہے۔ تصویر کے بالمقابل نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے شکل پرستی کی بو آتی ہے۔ چراغ کے روبرو نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے کیونکہ اس سے آتش پرستی کی بو آتی ہے۔ اس لئے اب جب چراغ جلایا جائے تو صلوات نہ پڑھا کریں کیونکہ ا س سے آتش پرستی کی بو آتی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں کو ’’بدعت‘‘ کہا جاتا ہے۔
بہت سی چیزیں بدعت ہیں اور لوگوں، خصوصاً عورتوں کے مابین ان کا رواج ہے۔ مثلاً ابودرداء کی نیاز۔ منگل کے دن بی بی کی نیاز۔ حضرت عباس کا لنگر۔ اسلام میں ایسی چیزوں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اسلام میں حضرت عباس کے لنگر کے نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کوئی نیک کام کریں مثلاً فقراء کو کھانا کھلائیں اور اس کا ثواب نبی اکرم پر نثار کریں، امیرالمومنین پر نثار کریں، فاطمہ زہرا پر نثار کریں، امام حسن، امام حسین یا کسی بھی امام پر نثار کریں، یا حضرت عباس پر نثار کریں۔ اگر آپ اس ثواب کو اپنے رفتگان میں سے کسی پر نثار کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے گھر میں دسترخوان لگائیں بشرطیکہ زنانہ انداب و رسومات جو عورتوں نے خود سے گھڑ لئے ہیں (مجھے معلوم نہیں کہ وہ کون کونسے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کو اسلامی آداب سمجھ کر بجا لائے تو یہ بدعت بن جاتے ہیں) ترک کر دیں۔ اگر اس میں کسی مسلمان کو کھانا کھلائیں، خصوصاً مسلمان محتاجوں کو کھانا کھلائیں اور اس کا ثواب حضرت عباس کو ہدیہ کر دیں تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ان افعال کو آداب و رسومات کے ساتھ اس خیال سے انجام دیا جائے کہ یہ بھی اسلام کا حصہ ہیں تو یہ بدعت اور حرام ہوں گے۔ بعض افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدعت ایجاد کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میں علی ابن محمد بابویہ کی طرح امامِ زمانؓ کا خاص نائب ہوں تو اس کو ’’اہلِ بدعت‘‘ کہا جائے گا۔ حدیث میں ہے کہ ’اہلِ بدعت‘‘ کی مخالفت کرو۔ عالم پر لازم ہے کہ وہ اہلِ بدعت سے نبرد آزما ہو۔ اسے خاموش رہنے کا حق نہیں پہنچتا۔ دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں ’’وَباَهِتُوْ هُمْ‘‘ یعنی ان کو مبہوت کر دو، ان کو رسوا کرو۔ یعنی ان کے ساتھ مناظرہ کر کے ان کی دلیلوں کو باطل ثابت کرو۔ ’’فَبُهِتَ الَّذِیْ کَفَرَ‘‘ جس طرح ابراہیم نے اپنے زمانہ کے کافر (فرعون) کو مبہوت کیا تھا۔ اسی طرح تم بھی ان کو مبہوت کرو۔ کم عمل رکھنے والے بعض افراد نے ’’باهتوهم‘‘ کا معنی کیا ہے کہ ’’ان پر تہمت لگاؤ اور ان سے جھوٹی بات منسوب کرو۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ اہلِ بدعت خدا کے دشمن ہیں اس لئے ان پر تہمت لگانا جائز ہے۔
جس کے ساتھ بھی ان افراد کی ذاتی دشمنی ہو اس کو ملعون و اہلِ بدعت قرار دے دیتے ہیں، صغریٰ و کبریٰ تشکیل دینے کے بعد غلط باتوں کو منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ حضرات توجہ کریں کہ جو معاشرہ اپنے ذاتی اور شخصی دشمنوں کو اہلِ بدعت قرار دینے جیسے مرض میں مبتلاء ہو گیا ہو اور ’’بَاهِتُوْهُمْ‘‘ کا ترجمہ ’’ان پر تہمت لگاؤ‘‘ کرتا ہو وہ اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتا ہو گا۔ اور اس وقت آپ دیکھیں گے کہ دھڑادھڑ جھوٹ گھڑے جا رہ یہیں۔ ایک مرتبہ ایک عالم (عالم سے بھی کبھی غلطی ہو جاتی ہے) میرے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے سنا ہے کہ فلاں شخص (وہ ایسا شخص تھا جو پورے طور پر اسلامی احکام پر عمل پیرا ہے) العیاذ باللّٰہ، اس بات کو بیان کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے، لیکن چونکہ موعظہ ہے اس لئے بیان کر رہا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ ہمارا معاشرہ شرمناک حد تک بگڑ چکا ہے۔ تو اس عالم نے کسی سے سنا تھا وہ عالم خود بہت نیک اور پارسا ہے۔ اس نے کہا کہ فلاں شخص نے کہا ہے کہ کتنا ہی اچھا ہوا۔ نعوذ باللہ۔ کہ حضرت فاطمہؓ کا بیٹا محسن سقط ہو گیا کیونکہ اگر وہ بھی زندہ رہتا تو اسلام کے لئے کئی مصیبتیں کھڑی کرتا! میں نے کہا آپ اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں؟ وہ مسلمان ہے میں اسے قریب سے جانتا ہوں۔ جب وہ اَئمہؓ کے مصائب سنتا ہے تو اس کے اشک جاری ہو جاتے ہیں۔
غور کیجئے کہ کس قدر ایک دوسرے پر تہمتیں لگائی جا رہی ہیں اور جس معاشرے کا کام ہی دروغ گوئی اور تہمت لگانا ہو خدا نے اس کو عذاب دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ بعد کی آیت یہ ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَن تَشِیْعَ الْفَاحِشَة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ (سُورہ نُور، آیت ۱۹)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَهُمْ عَذَابٌُ اَلِیْمٌْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تََعْلَمُوْنَ وَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهوَاَنَّ اللّٰهَ رَ ءُو فٌ رَّحِیْمٌ یٰاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَلَولاَ فَضلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه مَا زَکیٰ مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰهَ یُزَکِیْ مَنْ یَّشَآ ءُ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (سُور نُور، آیت ۱۹ تا ۲۱)
گزشتہ تقریر میں ہم نے کہا تھا کہ قرآنِ کریم نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ اسلامی معاشرے میں سرے سے ہی تہمت، بہتان، افتراء اور بد گوئی کا وجود تک نہیں ہونا چاہئے۔ مسلمان جب بھی اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے متعلق کوئی ناروا بات سنیں تو جب تک ان کو اس کا (گمان و ظن نہیں بلکہ) قطعی یقین نہ ہو جائے اور کوئی شک باقی نہ رہے، یا وہ بات شرعی طور پر ثابت نہ ہو جائے ان پر لازم ہے کہ اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں۔ بالفاظ دیگر اس پر مٹی ڈال دیں۔ یہاں تک کہ اس بات کا ذکر کسی دوسرے شخص سے یہ کہہ کر بھی نہ کریں (’’میں نے سنا ہے‘‘ کہ) نہ صرف یہ کہ اس غلط نسبت کو پورے وثوق کے ساتھ بیان نہ کریں بلکہ یہ بھی نہیں کہیں کہ ’’میں نے ایسی بات سنی ہے۔‘‘ کیونکہ ’’ میں نے سنا ہے‘‘ کہنے سے بھی اس بات کی تشہیر ہوتی ہے۔ اسلام ایسی بری، غلیظ اور ناپاک خبروں کی تشہیر کو ناپسند کرتا ہے۔ خصوصاً اس آیت کے ذیل میں ایک جملہ ہے جس میں خدا ارشاد فرماتا ہے۔ ’’وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ‘‘ وہ بتانا چاہتا ہے کہ تم نہیں جانتے کہ یہ کتنا بڑا ظلم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس ظلم کی سزا کتنی زیادہ ہے۔
اسلام چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنے اور ایک دوسرے کے متعلق اچھا گمان رکھنے کا ماحول قائم کرے، نہ یہ کہ اس میں بے اعتمادی، بدگمانی اور بد گوئی کا ماحول پایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے غیبت کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں: ’’وَلاَ یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّا کُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا‘‘ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی کی غیبت کرنے والا شخص درحقیقت اپنے اس مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔
اسی بناء پر قرآنِ کریم نے مختلف الفاظ کی صورت میں اس مطلب پر بہت زور دیا ہے۔ ایک آیت یہ ہے کہ:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (سُورہ نور، آیت ۱۹) اس آیت کا ترجمہ کرنے کے بعد بیان کروں گا کہ اس کی تفسیر دو طریقوں سے کی جا سکتی ہے اور مفسرین نے دونوں طرح سے اس کی تفسیر کی ہے۔ دونوں تفسیریں ایک دوسری کے بہت قریب ہیں۔ آیت کہتی ہے کہ بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مؤمنین کے درمیان فحشاء کا رواج ہو ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
یہ آیت ان آیات میں سے ہے جو اپنے دامن میں دو دو معانی سمیٹے ہوئے ہیں اور دونوں معانی درست ہیں۔
جن بڑے گناہوں کے ارتکاب پر خدا نے ’’عذابِ الیم‘‘ کی وعید کی ہے ان میں لوگوں کے درمیان فحشاء کو عام کرنے کا گناہ بھی ہے۔ بعض لوگ عملی طور پر فحشاء کی ترویج میں مصروف ہیں۔ وہ یا تو دولت کی خاطر یا دوسرے مقاصد کے حصول کے لئے اس کی ترویج کر رہے ہیں۔ البتہ دورِ حاضر میں یہ مقاصد عموماً سامراجی ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اشخاص فحشاء کو عام کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ لوگوں کی مردانگی کو فحشاء کا رواج جتنا زیادہ متزلزل کرتا ہے دوسری کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ اگر آپ کسی ملک کے نوجوانوں کی توجہ اہم مسائل (ایسے اہم مسائل جو سامراج کے مفاد کو خطرے میں ڈالتے ہیں) سے ہٹا کر انہیں عیش و نوش جیسے امور میں مشغول کرنا چاہیں تاکہ وہ کبھی بھی ان اہم مسائل کے متعلق غور و فکر نہ کریں اور نہ ہی ان کی جانب متوجہ ہوں، تو اس کا حربہ یہ ہے کہ جس حد تک ممکن ہو شراب فروشی میں اضافہ کیجئے، میخانوں کی تعداد بڑھائیے، بازاری عورتوں میں اضافہ کیجئے، لڑکے لڑکیوں کی ملاقاتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیجئے۔ جس قدر ہیروئن اور تریاک نوجوان طبقے کی جسمانی و روحانی قوت کو تباہ کرتے ہیں، لوگوں سے قوت ارادی چھین لیتے ہیں، ان کے ارادے کو متزلزل کر دیتے ہیں، عزتِ نفس اور شرافت کے احساس اور مردانگی کو تباہ کرتے ہیں، اسی قدر فحشاء کا کردار بھی ہے۔
امریکی حکمران جو پوری دنیا کو برائیوں میں مبتلا کرنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں، ان کا منصوبہ یہی ہے کہ فحشاء پھیلائیں تاکہ عوام کی جانب سے انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک رسالہ کے مدیر نے اس ہفتے کے شمارے میں کہا ہے کہ ’’میں ایسا حربہ اختیار کروں گا کہ تہران میں آئندہ دس سالوں تک دس سال اور اس سے زیادہ عمر کی لڑکی کی بکارت محفوظ نہیں رہے گی۔‘‘
اسلام پاکدامنی پر اتنا زیادہ زور کیوں دیتا ہے؟ ایک رات میں نے پاکدامنی کے فلسفہ پر تقریر کی تھی۔ پاکدامنی کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ انسانی قوتیں جسموں میں جمع ہوں۔ شاید آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسانی جسم کے ’’اوپری حصے کی نچلی جانب‘‘ سے انسان کی قوت ارادی بھی خارج ہوتی ہے۔
اسلام یہ نہیں کہتا کہ جنسی عمل بالکل انجام نہ دیا جائے۔ وہ بیوی کے ساتھ جنسی عمل انجام دینے کی اجازت دیتا ہے۔ وہ کلیسا اور کتھولک عیسائیوں کی رائے سے متفق نہیں ہے۔ البتہ دائرہ ازدواج سے باہر رہ کر جنسی عمل انجام دینے کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ اور یہ تدبیر اسلام نے زن و مرد کی شرافت، انسیت، مروت اور مردانگی کو محفوظ کرنے کے لئے اختیار کی ہے۔
پردہ کے متعلق بعد میں چند آیات آئیں گی۔ ان کے ضمن میں ہم اسی موضوع پر مزید گفتگو کریں گے۔
جو لوگ روح کو تباہ کرنے کے لئے فحشاء کی ترویج کرتے ہیں، قرآن ان کے متعلق فرماتا ہے ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَة فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ جو لوگ مؤمنین کے درمیان فحشاء کو زیادہ کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے خدا نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ یہاں یہ سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے اس (عذابِ الیم) کو قرآن کی آیت میں کیوں بیان کیا ہے؟ یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ مسئلہ اسلام کی نظر میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے!
پس اس آیت کی ایک تفسیر یہی ہے کہ قرآن مؤمنین کے درمیان فحشاء پھیلائے جانے کا سختی سے نوٹس لیتا ہے۔ آیت کے دوسرے معنی کی وضاحت کی خاطر میں اس جگہ لفظ ’’فی‘‘ کے متعلق ایک ادبی نکتہ ذکر کرنے پر مجبور ہوں۔ فارسی میں ’’فی‘‘ کی جگہ ’’در‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں ’’درخانہ‘‘ جس کو عرب ’’فی الدار‘‘ کہتے ہیں۔ بعض اوقات عربی زبان میں لفظ ’’فی‘‘ لفظ ’’در‘‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بعض اوقات لفظ ’’دربارہ‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس مقام پر اس آیت کی تفسیر اس طرح بھی کی جا سکتی ہے اور بعض مفسرین نے اسی طرح کی ہے۔
اور دونوں تفسیریں درست ہیں۔ یہ دونوں معانی آیاتِ اِفک سے مربوط ہیں۔ آیت کا دوسرا معنی یہ ہے۔ ’’وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مومنین کے بارے میں فحشاء عام ہو‘‘ یعنی اب اس کا ترجمہ یہ نہیں ہے کہ ’’مومنین کے درمیان فحشاء عام ہو‘‘ بلکہ اس صورت میں اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مؤمنین کے متعلق فحشاء عام ہو، یعنی جو لوگ ایمان والوں سے بری باتیں منسوب کرنا چاہتے ہیں۔ بعض لوگ حاسد ہوتے ہیں۔ جب یہ دیکھتے کہ کسی شخص کو معاشرے میں ایک اچھا مقام حاصل ہے تو چونکہ اس سے حسد کرتے ہیں اور دوسری جانب ان میں آگے بڑھنے اور اچھا مقام حاصل کرنے کی اہلیت و ہمت نہیں پائی جاتی، اس لئے فوراً اس پر کوئی تہمت لگانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے دل میں کہتے ہیں کہ ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ سکتے، لہٰذا اب اس کو لوگوں کی نظروں سے گرائیں گے۔ (وہ یہ کام کس طرح انجام دیتے ہیں؟) یہ کام بہت مشہور کر دیتے ہیں، اس پر کوئی تہمت لگا دیتے ہیں جبکہ خدا جانتا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ ایک مرتبہ نبی اکرم نے اپنے اصحاب سے فرمایا ’’ اَلَآ اُخْبِرُکُمْ بِشَرٍّ النَّاسِ‘‘ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے زیادہ برا کون ہے؟ اصحاب نے عرض کیا ’’بلیٰ یا رسول الله‘‘ جی ہاں یا رسول اللہ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ایسا شخص سب سے زیادہ برا ہے جس سے دوسروں کو بھلائی نہ پہنچے۔ اس کے پاس جو کچھ بھی ہو اسے فقط اپنی ذات تک محدود رکھے۔ جو اصحاب نبی اکرم کے ہمراہ تھے انہوں نے گمان کیا کہ ایسے شخص سے زیادہ برا اور کوئی نہیں ہو گا۔ مگر آپ نے فرمایا: ’’کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ اس شخص سے بھی زیادہ برا کون ہے؟‘‘ تب آپ نے دوسرے گروہ کا نام لیا۔ اصحاب نے کہا ہمارا خیال تھا کہ اس دوسرے گروہ سے زیادہ برا کوئی نہیں ہو گا۔ لیکن نبی اکرم نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ ان سے زیادہ برا کون ہے؟‘‘ اصحاب نے عرض کیا ’’کیا ان سے زیادہ برا بھی کوئی ہے؟‘‘ تو اس وقت آپ نے تیسرے گروہ کا نام لیا۔ اور وہ گالیاں بکنے، تہمت لگانے، دوسروں کو بے آبرو کرنے والے اور بدزبان لوگوں کا گروہ ہے۔ اس کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔ یعنی ان سے زیادہ برا اور کوئی نہیں۔
پس آیت کا دوسرا معنی یہ ہوا کہ ’’ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اہلِ ایمان سے ناروا باتیں منسوب ہوں اور ان کا چرچا ہو وہ جان لیں کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘
اس کے بعد خدا فرماتا ہے ’’فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة ’’دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں‘‘ ان پر دردناک عذاب نازل ہوگا۔ یعنی اللہ تعالیٰ فقط آخرت میں ہی عذاب نازل نہیں کرے گا بلکہ دنیا میں بھی ان کو عذاب سے دوچار کرے گا۔
مجازات کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ ہر گناہ کی سزا اسی دنیا میں ملے گی۔ بہت سے گناہوں کی سزا اس دنیا میں نہیں دی جاتی جبکہ آخرت میں ہر گناہ کی سزا دی جائے گی۔ البتہ بعض گناہ ایسے بھی ہیں جن کی سزا خدا اسی دنیا میں بھی دیتا ہے۔ ان گناہوں کا عکس العمل اسی دنیا میں ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ (آپ تجربہ کر کے بھی دیکھ سکتے ہیں) ۔ ان میں سے کسی پر تہمت لگانے اور بے آبرو کرنے کا ایک گناہ ہے۔ جو شخص کسی پر جھوٹی تہمت لگاتا ہے ایک نہ ایک دن وہ اپنے کئے کی سزا پا لیتا ہے۔ یا تو کوئی دوسرا شخص اس جیسی تہمت اس پر لگا دیتا ہے۔ یا پھر وہ کسی اور طرح سے ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے۔
وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔ قرآن بتانا چاہتا ہے کہ یہ بہت بڑی بات ہے۔ خدا جانتا ہے کہ یہ کتنا بڑا گناہ ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔
’’وَلَوْ لاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهٌ وَاَنَّ اللّٰهَ رَ ءُ وْ فٌُ رَّحِیْمٌ ‘‘
اور اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی، اگر خدا مہربان اور رؤف نہ ہوتا تو اس غفلت کے سبب تم پر بڑا عذاب نازل ہوتا۔ لیکن خدا کے فضل نے تمہیں بچا لیا۔ یعنی تم اپنی اس غفلت اور منافقین کی گھڑی ہوئی باتوں کا چرچا کرنے کی وجہ سے دنیا میں ہی اتنے بڑے عذاب کے مستحق ہو گئے تھے کہ تمہارے پورے معاشرے کو نیست و نابود ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر خدا کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہیں بچا لیا۔
اس کے بعد قرآن مزید تاکید کرتا ہے۔
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَنْ یَّتَّبِعَ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ‘‘
اے ایمان والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو۔ اور جو شخص شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ ضرور اس کو بے حیائی اور بدی کی باتوں کا حکم دے گا۔‘‘
اگر آپ کہیں کہ ہم تو شیطان کو نہیں پہچانتے، وہ ہمیں نظر نہیں آتا، لہٰذا ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ ہم اس کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ تو اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ شیطان کو اس کے وسوسوں سے پہچانو۔ جب آپ محسوس کریں کہ آپ کے دل میں ایک ایسے خیال نے جنم لیا ہے جو آپ کو برائی کی دعوت دے رہا ہے تو جان لو کہ اسی جگہ شیطان کا قدم ہے۔ شیطان آگے بڑھ کر آپ سے کہہ رہا ہے ’’آجاؤ۔‘‘ وہ خیال شیطان کا ’’آ جاؤ‘‘ ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ شیطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ بلکہ اسے اپنے دل سے دیکھئے وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ‘‘ شیطان کے نقش قدم پر چلنے والے کو جان لینا چاہئے کہ ’’فَاِنَّه یَاْمُرُ بِالْفَحْشآءِ والْمُنْکَرِ شیطان بے حیائی اور بدی کی باتوں کا حکم دیتا ہے۔‘‘
’’وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه‘‘ دوبارہ ارشاد ہوتا ہے: اے مسلمانو! تم نبی اکرم کے زمانے میں ہی تباہی کے کنارے پر جا کھڑے ہوئے تھے کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت (اور وہ بھی فقط پیغمبر کی وجہ سے) تمہیں اپنے دامن میں نہ لے لیتی تو تمہارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا اور تمہاری نجات کی کوئی صورت باقی نہ رہتی۔ اور جان لو کہ اگر آئندہ کسی زمانے میں ایسا واقعہ پیش آئے اور مسلمانوں کے خلاف کثرت سے افواہیں اڑائی جانے لگیں تو سمجھ لو کہ تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے جیسا کہ آج کل ہم تباہ ہو چکے ہیں۔ ’’ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُه مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا‘‘ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی کبھی پاک ہی نہ ہوتا۔ وَلٰکِنَّ اللّٰهَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآ ءُ وَاللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ لیکن اللہ جسے چاہتا ہے اور جس کو مستحق سمجھتا ہے گناہ سے پاک کر دیتا ہے۔ اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔ دوسری آیت بھی اسی واقعہ کے بارے میں ہے۔ البتہ اس واقعہ کے ذیل میں ایک اور مطلب پایا جاتا ہے۔
وَلاَ یَاتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَة اَنْ یُّؤتُوْٓا اُولِی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُهَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَلیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلاَتُحِ بُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰهُ لَکُمْ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ (سُورہ نُور، آیت ۲۲)
یہ ایک واقعہ کو بیان کر رہی ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ بعض مسلمان قرآن کے الفاظ میں ’’اُولُواالْفَضْلِ‘‘ تھے (جو انفاق نہیں کرتے تھے) اس فضل سے مراد مال و دولت ہے۔ یہ لوگ اہلِ فضل تھے یعنی مال دار تھے۔
دورِ حاضر میں لفظ ’’فضل‘‘ علمی فضلیت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب اگر ہم کہیں کہ فلاں شخص فاضل ہے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ عالم ہے، ’’وہ فضلاء میں سے ہے‘‘ ، یعنی علماء میں سے ہے۔ لیکن قرآن مجید میں لفظ ’’فضل‘‘ کا اطلاق اس مال و دولت پر بھی کیا گیا ہے جسے جائز ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہو۔ مثلاً سورہ جمعہ میں ارشاد ہے کہ جب تم نماز جمعہ سے فارغ ہو جاؤ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ ’’فضلِ الٰہی کی تلاش میں نکل پڑو‘‘ یعنی محنت مزدوری، کام اور تجارت کرو اور پیسہ کماؤ۔ قرآن فرماتا ہے کہ جو مسلمان جائز ذرائع سے مالدار بنے ہیں اور انفاق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ دوسروں کی مالی امداد روک لینے کی قسم نہ کھائیں۔ صاحبِ توفیق اور دولتمند مسلمان مہاجرین، مساکین اور اپنے قرابت داروں کی مالی امداد کیا کرتے تھے۔ لیکن پھر ایک واقعہ (بظاہر یہی افک والا واقعہ) پیش آیا جس کے باعث ان دولتمند مسلمانوں کو ان کی جانب سے دلی صدمہ پہنچا۔ وہ ان سے ناراض ہو گئے اور تعجب کے ساتھ کہنے لگے۔ ’’ہم تو خدا کی خوشنودی کی خاطر ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے جبکہ یہ لوگ اس سے سوء استفادہ کر کے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ہم ان کی امداد کرتے ہیں جبکہ یہ افواہیں اڑاتے ہیں، جھوٹی خبروں کی تشہیر کرتے ہیں۔ انہوں نے واقعہ افک میں حصہ لینے والے ان فقراء و مساکین کی مالی امداد روک لینے کا فیصلہ کر لیا اور ان کی امداد نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ قرآن اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اس کے باوجود کہ اس مقام پر افک و تہمت کا واقعہ پیش آیا تھا اور عام مسلمانوں سے غلطی سرزد ہوئی تھی مگر پھر قرآن یہاں مسلمانوں کی اس غلطی کی فقط اصلاح کرنا چاہتا ہے۔ وہ عامۃ المسلمین سے کہہ رہا ہے کہ تم نے ایک منظم گروہ کی افواہ کا چرچا کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ لیکن جب مالدار مسلمانوں نے ان کی مالی امداد روک لینے کا فیصلہ کیا، اور اگر وہ اپنے اس فیصلے کو عملی جامہ پہناتے تو جو لوگ جدا ہوئے تھے وہ ہمیشہ کے لئے ان سے جدا ہو جاتے۔ اس لئے قرآن نے فرمایا کہ تمہیں درگزر سے کام لینا چاہئے۔ اب ان کی غلطی سے چشم پوشی کرو اور انہیں معاف کر دو۔ وَلاَ یَاْ تَلِ اُولُو الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَة‘‘ اور تم میں سے مالدار اور صاحب مقدور لوگ یہ قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ رشتہ داروں، مساکین اور راہِ خدا میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہ دیں گے، بلکہ اب بھی ان کی امداد کریں۔ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاطاَلاَ تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰهُ لَکُمْ ’’ انہیں معاف کریں، درگزر سے کام لیں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے‘‘؟ یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مالی امداد بحال کر دی۔
اس جگہ ایک نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے۔ جو اشخاص اسلام کی منطق سے آگاہ نہیں اور پورے طور پر اس سے آشنا نہیں ہیں وہ اس بات سے غافل ہیں کہ اسلام نے محبت کو اس کا جائز مقام عطا کیا ہے۔ عیسائیوں نے مشہور کیا ہے اور اب بھی وہ یہی مشہور کر رہے ہیں کہ عیسائیت ’’محبت کا دین‘‘ ہے، بھلائی کرنے اور درگزر کرنے کا دین ہے۔ کیوں؟ ان کا کہنا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو اپنا دوسرا رخسار اس کے سامنے کر دو اور کہو کہ اب اس پر بھی مار جبکہ اسلام سخت گیری کا قائل ہے، اسلام تلوار کا دین ہے، اس میں درگزر کرنے کا ذکر تک نہیں، محبت کا نام و نشان تک نہیں عیسائیوں نے اس کا بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں، درحالانکہ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اسلام دینِ شمشیر بھی ہے اور دینِ محبت بھی۔ وہ سختی سے بھی کام لیتا ہے اور نرمی سے بھی جہاں سختی برتنے کا مقام ہو وہاں سختی برتنے کا حکم دیتا ہے اور نرمی برتنے کے مقام پر نرمی کو جائز قرار دیتا ہے۔ اسلام کی عظمت و اہمیت کا راز بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔ اگر اسلام ایسا نہ ہوتا یعنی اگر وہ نہ کہتا ’’طاقت کا جواب طاقت سے دو، منطق کا جواب منطق کے ذریعے دو، محبت کے مقام پر محبت کرو، حتیٰ کہ بعض ایسے مقامات پر کہ جہاں تمہارے حق میں بدی کی گئی ہو وہاں تم اس کا جواب نیکی کے ساتھ دو تو ہم اس دین کو تسلیم ہی نہ کرتے۔
اسلام ہرگز یہ نہیں کہتا کہ اگر کوئی ستمگر تمہارے ایک رخسار پر تھپڑ مارے تو دوسرا رخسار اس کے سامنے کر دو۔ وہ کہتا ہے فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتدٰی عَلَیْکُمْ‘‘ (بقرہ۔ ۱۹۴)
جو شخص تم پر زیادتی کرے تو ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو جیسی اس نے تم پر کی ہے۔ اگر اسلام نے اس طرح نہ کہا ہوتا تو یہ ایک ناقص دین ہوتا۔
عیسائیت کے غیر قابلِ عمل ہونے کی ایک دلیل یہی ہے کہ اس کے پیروکار پوری دنیا کے لوگوں سے زیادہ خونخوار ثابت ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جو کبھی اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کیا کرتے تھے اور انجیل ہاتھ میں لے کر کہا کرتے تھے کہ یہ ’’محبت کی کتاب‘‘ ہے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی لوگ بیسیوں ٹن ’’محبت‘‘ ویٹ نام پر برسا رہے ہیں۔ اسی محبت کا حکم ان کو انجیل نے دیا ہے؟ اس محبت نے بم حتیٰ کہ نیپام بم کی شکل اختیار کر لی ہے۔
جس کے زمین پر پڑتے ہی بچے، بوڑھے اور عورتیں جل کر راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ اسلام ابتداء میں محبت سے کام لیتا ہے۔ جہاں محبت کارگر نہ ہو وہاں خاموش نہیں رہتا۔ وہ کہتا ہے ’’چون پند دھند نشنوی بند نہند۔‘‘ علیؓ نے نبی اکرم کے متعلق فرمایا ’’طَبِیْبٌ دَوَّارٌ بِطِبِّه قَدْ اَحْکَمَ مَرَاهِمَه وَاَحْمٰی مَوَاسِمَه آپ چلتے پھرتے طبیب ہیں۔ آپ کے ایک ہاتھ میں مرہم ہے اور دوسرے میں آپریشن کے آلات۔ جہاں مرہم پٹی کے ساتھ معالجہ ہو سکتا ہو وہاں آپ مرہم پٹی کرتے ہیں اور جہاں مرہم کارگر ثابت نہ ہو وہاں آپ نشتر استعمال کرتے ہیں، وہاں داغنے کے آلات سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ دونوں سے استفادہ کرتے ہیں، سختی سے بھی اور نرمی سے بھی۔
سعدیؒ نے کیا خوب کہا ہے۔
درشتی و نرمی بہ ہم در بہ است
چور گزن کہ جراح و مرہم نہ است
اور یہ بالکل وہی بات ہے کہ جو امیر المؤمنینؓ نے بیان فرمائی ہے یہ اللہ کی طرف دعوت دینے کی بات ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَه عَدَوَة کَاَنَّه وَلِیّ حَمِیْمٌ ‘‘ اے پیغمبر (آپ کا فریضہ لوگوں کو خدا کی طرف بلانا ہے) جان لو کہ نیکی اور بدی ہم وزن نہیں ہیں، حتیٰ کہ برائیاں بھی ایک جیسی نہیں ہیں اور نہ ہی تمام نیکیاں ایک ہی درجے کی ہیں۔ تم برائیوں کو بہترین نیکیوں کے ذریعے دور کر دو۔ ’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ‘‘ دوسرے لوگ تمہارے حق میں بدی کرتے ہیں مگر تم نیکی سے پیش آؤ۔ اس کے بعد قرآن نفسیاتی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ اگر تمہارا دشمن تمہارے ساتھ برائی سے پیش آئے اور تم اس کا جواب بھلائی سے دو تو تم دیکھ لو گے کہ برائی کا جواب نیکی کے ساتھ دینے میں کیمیا کا اثر ہے، یعنی یہ نیکی ماہیت کو تبدیل کر دیتی ہے۔ ایک وقت ایسا آئے گا جب تم دیکھو گے کہ جو تمہارا جانی دشمن تھا اس کی ماہیت بدل چکی ہے اور وہ تمہارا مہربان دوست بن چکا ہے۔
کون کہتا ہے کہ اسلام محبت کرنے کا حکم نہیں دیتا؟ کون کہتا ہے کہ اسلام محبت کا دین نہیں ہے؟ اسلام محبت کا دین ہے۔ لیکن جہاں محبت موثر نہ ہو اس جگہ اسلام خاموشی نہیں سادھ لیتا بلکہ سخت گیری کرتا ہے، تلوار استعمال کرتا ہے۔ آپ ’’اِدْفَعْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ فَاِذَاالَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَه عَدَاوَة کَاَنَّه وَلِیّ حَمِیْمٌ ‘‘ کے حوالہ سے نبی اکرم، امیرالمومنینؓ اور دوسرے ائمّہ طاہرین کی سوانح حیات میں بہت سے واقعات پڑھتے ہیں۔ اگر آپ بدی کا جواب نیکی سے دیں گے تو اس کا اچھا نتیجہ بھی دیکھ لیں گے۔ اس عمل کا اثر یہ ہے کہ یہ دشمن کو دوست بنا دیتا ہے۔
دعائے ’’مکارمِ اخلاق‘‘ میں بہت عمدہ مضامین پائے جاتے ہیں۔ ’’ اے خدا مجھے اس بات کی توفیق عطا کر کہ جو شخص مجھے گالی بکے میں اس سے اچھی بات سے پیش آؤں۔ جو شخص مجھ سے اپنا رشتہ توڑ ڈالے میں اس کے ساتھ ناطہ جوڑ لوں۔ جو میری غیر موجودگی میں میری غیبت کرے میں اس کی عدم موجودگی میں اس کی خوبیاں بیان کرو۔‘‘ اس دعا میں اس قسم کے بہت زیادہ جملے پائے جاتے ہیں۔
خواجہ عبداللہ انصاری نے بھی اس مطلب کو بہت اچھے پیرائے میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بدی کا جواب بدی سے دینا کتوں کا شیوہ ہے۔ کتے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ جب ایک کتا دوسرے کتے کو کاٹتا ہے تو دوسرا کتا پہلے کتے کو کاٹ لیتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی سے برا سلوک کرے اور وہ بھی جواب میں برا سلوک کرے تو اس دوسرے شخص نے کتے کی مانند عمل انجام دیا ہے۔ اگر انسان کتے کو مارے تو وہ فوراً پلٹ کر اس کی ٹانگ پر کاٹ لیتا ہے۔ اور بھلائی کا جواب بھلائی سے دینا گدھوں کا شیوا ہے، یعنی اگر کوئی شخص کسی دوسرے سے اچھا سلوک کرے اور وہ بھی اس کا جواب نیکی سے دے تو اس نے کوئی قابل تحسین کام نہیں کیا۔ جب ایک گدھا دوسرے گدھے کے کندھے کو اپنے دانتوں سے کھجاتا ہے تو دوسرا گدھا بھی اس کے کندھے کو اپنے دانتوں سے کھجلاتا ہے۔ اتنی سی بات تو گدھا بھی جانتا ہے کہ نیکی کا جواب نیکی سے دینا چاہئے اور احسان کے بدلہ میں احسان کرنا چاہئے اور برائی کا جواب بھلائی سے دینا، برائی کے مقابلہ میں نیکی سے پیش آنا خواجہ عبداللہ انصاری کا کام ہے۔
قرآن فرماتا ہے۔ وَلاَ یَاْ تَلِ اُواالْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعة اَنْ یُّؤتُوْٓا اُولی الْقُرْبیٰ وَالْمَسَاکِیْنَ وَالْمُهَاجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ’’دولتمند مسلمان قسم نہ کھالیں۔‘‘ اس مقام پر ان کی دینی غیرت جوش میں نہ آئے۔ تہمت کا چرچا کرنے والوں نے گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے برا کام کیا ہے لیکن تم ان کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آؤ۔ تم قسم نہ کھاؤ کہ اپنے قرابت داروں، مساکین اور راہِ خدا کے مہاجرین کی مالی امداد اس وجہ سے روک لو کہ انہوں نے تہمت کا چرچا کرنے جیسے برے فعل کا ارتکاب کیا ہے وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا انہیں معاف کر دیجئے، درگزر سے کام لیجئے۔ اَلاَ تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰهُ لَکُمْ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تمہارے گناہ معاف کر دے؟ (کِس قدر عمدہ تعبیر ہے!) اے انسانو! تم ایک دوسرے کے گناہوں سے درگزر کیا کرو کیونکہ تم خود بھی گناہ گار ہو اور یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو نظرانداز کر دے گا تو جس سلوک کی امید تمہیں خدا سے ہے تم بھی ویسا ہی سلوک لوگوں سے روا رکھو۔ ان کے ساتھ سختی سے پیش نہ آؤ۔ جہاں تک بھی ممکن ہو بھلائی کے ذریعے گناہ گاروں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو، یعنی اگر بھلائی مؤثر نہ ہو تب سخت گیری سے کام لو۔
اَئمہ طاہرینؓ کے پسندیدہ خصائل میں ایک یہ ہے کہ وہ بہت سے غلام خرید کر ان کو کچھ عرصے تک اپنے گھروں میں رکھتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ چونکہ اسلام میں غلامی کا فلسفہ یہ ہے کہ غلاموں کے لئے ایک ایسا عرصہ (کفر کے زمانہ سے لے کر آزاد ہونے تک کا عرصہ) ہونا چاہئے جس میں وہ مسلمان افراد سے اسلامی تربیت حاصل کر سکیں۔ اور اسلام کے اس عمل کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ کام بھی اَئمہ طاہرینؓ کے مختصات میں سے ایک تھا، (چونکہ زکوٰۃ کا ایک مصرف یہ ہے کہ غلام خرید کر آزاد کئے جائیں لیکن جس غلام نے اسلامی تربیت حاصل نہ کی ہو اسے خریدتے ہی آزاد کر دینا درست نہیں ہے۔ اگر کوئی غلام ایسا ہو جس نے پہلے سے اسلامی تربیت حاصل کر لی ہو تو اس کو آزاد کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی غلام نے پہلے سے تربیت نہ پائی ہو تو ضروری ہے کہ اسے کچھ مدت تک حقیقی مسلمانوں میں سے کسی کے گھر میں رکھا جائے تاکہ وہ اسلامی آداب و رسوم سے آگاہ ہو جائے اور اس کے بعد اسے آزاد کیا جائے۔ ائمہ طاہرینؓ یہ کام بہت زیادہ انجام دیتے تھے۔ جو غلام کچھ مدت تک ان کے گھر میں رہتے وہ اسلام کی حقیقت و ماہیت سے آشنا ہو جاتے اور اسلام ان کی روح کی گہرائیوں میں اتر جاتا۔ امام زین العابدینؓ کے گھر میں بہت سے غلام تھے۔
سال کے دوران اگر کسی غلام سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی تو امام سجادؓ اسے ایک کاپی میں تحریر کر لیتے اور ماہِ رمضان کے آخری دن (یا آخری رات) میں تمام غلاموں کو جمع کر کے ان کے درمیان کھڑے ہو جاتے۔ کاپی منگواتے اور ان کو مخاطب کر کے فرماتے اے فلاں تم کو یاد ہے کہ فلاں وقت تم نے نافرمانی کی تھی؟ وہ جواب دیتا جی ہاں (آپؓ باری باری ہر ایک کو اس کی خطائیں یاد دلاتے اور) آپؓ فرماتے: ’’خدایا! یہ میرے ماتحت ہیں انہوں نے میرے حق میں بدی کی ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں۔ میں ان سب کو معاف کرتا ہوں۔ اے میرے مالک میں بڑا گناہگار ہوں۔ اے خدا اس گناہ گار بندے کو معاف کر دے۔‘‘ پھر آپ ان تمام غلاموں کو راہِ خدا میں آزاد کر دیتے۔
آپ نے توجہ فرمائی کہ اسلام میں ’’درگزر کرنے‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ البتہ اسلام اجتماعی مسائل میں درگزر سے کام لینے کو روا نہیں رکھتا کیونکہ اس درگزر کا تعلق کسی ایک شخص کی ذات سے نہیں، کسی ایک فرد سے نہیں، بلکہ معاشرے سے ہوتا ہے۔ مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ اب جس کا مال چوری ہوا ہو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کو معاف کرتا ہوں، لہٰذا معاشرہ بھی اسے معاف کر دے۔ معاشرہ اس کو معاف نہیں کرتا۔ یہ تیرا (یعنی جس کا مال چوری ہوا ہے اس کا) حق نہیں ہے بلکہ معاشرے کا حق ہے۔
روایت میں ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ اسلام (جیسا کہ آپؓ کا ظاہری خلافت کے زمانے میں معمول تھا کہ ہر جگہ اکیلے ہی جاتے تھے، حتیٰ کہ خلوت کی جگہوں پر بذاتِ خود جاتے اور حالات کا جائزہ لیتے) کوفہ کے ایک باغ میں سے گزر رہے تھے کہ آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ’’الغوث!‘‘ یعنی کوئی شخص مدد طلب کر رہا تھا۔ صرف ظاہر ہو رہا تھا کہ لڑائی ہو رہی ہے۔ آپ تیز تیز قد اٹھاتے ہوئے آواز کی طرف بڑھے۔ آپؓ نے دیکھا کہ دو آدمی ہاتھا پائی میں مصروف ہیں اور ایک شخص دوسرے کو پیٹ رہا ہے۔ آپؓ کے پہنچنے پر ان کا جھگڑا ختم ہو گیا۔ (شاید امامؓ نے ان میں صلح کرائی ہو) پتہ چلا کہ وہ دونوں آپس میں دوست ہیں۔ آپؓ جب مارنے والے کو سزا کی خاطر اپنے ساتھ لے کر جانے لگے تو پٹنے والے نے کہا میں اسے معاف کئے دیتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ تم نے اپنی جانب سے اسے معاف کر دیا تو یہ تمہارا حق تھا۔ لیکن ایک حق سلطان کا بھی ہے یعنی حکومت کا بھی ایک حق ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ اسے سزا دے اس حق کو تم معاف نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا تعلق تمہارے ساتھ نہیں ہے۔
میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس حق کا تعلق معاشرے کے ساتھ ہو اس کو معاف نہیں کیا جا سکتا، اسے اسلام معاف نہیں کرتا۔ کسی شخص کا ذاتی حق معاف کیا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ اگر کوئی شخص کسی مجرم و گناہ گار کی مالی امداد کیا کرتا تھا، اب اس کی امداد روکنا چاہے تو یہ ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اسے معاف کر دو۔ امداد بحال کر دو۔ یہی وجہ ہے قرآن بارِ دیگر عفو و چشم پوشی کا حکم دے رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو محبت اور بھلائی کے ذریعہ تدارک کرے۔
اب ہم اس سے اگلی آیت پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قرآن میں تہمت (خصوصاً عورتوں پر تہمت) لگانے کے موضوع پر جتنا زور دیا گیا ہے کسی اور موضوع پر نہیں دیا گیا ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلاَتِ الْمُؤمِنَاتِ لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَة وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ‘‘ جو لوگ پاکدامن غافل عورتوں (غافل عورت سے مراد وہ عورت ہے جو ہر بات سے بے خبر ہو کر اپنے گھر میں رہتی ہے) پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں لعنت ہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔ ’’یَومَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُم وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُون‘‘ جس دن ان کی زبانیں، ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے۔
یہ قرآن کی منطق ہے البتہ یہاں اس کے متعلق تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن بڑی صراحت کے ساتھ بتا رہا ہے کہ جہانِ آخرت زندہ ہے، اس جہان کی ہر چیز زندہ ہے اور اس جہان میں تمام اشیاء اور اعضاء ان اعمال کی گواہی دیں گے جن کا انہوں نے ارتکاب کیا ہو گا۔ ہاتھ گواہی دے گا کہ میں نے فلاں کام کیا تھا۔ اسی طرح پاؤں، آنکھ اور کان بھی اپنے اپنے افعال کی گواہی دیں گے۔ بدن کی جلد (حدیث میں آیا ہے کہ اس سے مراد شرمگاہ ہے) بھی اپنے فعل کی اطلاع دے گی۔ اس دن زبان پر مہر لگا دی جائے گی۔ (اس سے کہا جائے گا) اے زبان تو خاموش رہ، اعضاء و جوارح کو بولنے دے۔ زبان بولے گی تو فقط ان گناہوں کی گواہی دے گی جن کا اس نے ارتکاب کیا ہو گا۔ قرآن فرماتا ہے کہ جس دن اشخاص کی زبانیں، (چونکہ انہوں نے زبان سے گناہ کئے تھے) ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف ان اعمال کی گواہی دیں گے جن اعمال کو وہ انجام دے چکے ہوں گے۔ ’’یَوْمَئِذٍ یُّوَفِیْهِمُ اللّٰهُ دِیْنَهُمُ الْحَقَّ ‘‘ اس دن خداان کو پورا پورا بدلہ دے گا۔
اگر کوئی عورت۔ ’’نَعُوْذُ بِاللّٰهِ‘‘ بری ہو جائے اور اپنے دامنِ عفت کو داغدار کر لے تو مرد کی شرافت بھی داغدار ہو جاتی ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی مرد بدفعلی سے آلودہ ہو تو اس کی بیوی کی شرافت پر زیادہ حرف نہیں آتا بلکہ اس کی شرافت پر تو بالکل ہی حرف نہیں آتا۔ اس میں ایک نفسیاتی راز ہے۔ میں نے چند سال قبل خواتین کے مجلے میں ’’عورت‘‘ کے متعلق مقالات تحریر کئے۔ (جو اس مجلے میں بیان شدہ مقالات کے خلاف تھے) ۔ ان مقالات میں میں نے اس راز کو بیان کیا تھا۔ اسلام کے بہت سے احکامات کی بنیاد بھی اسی مطلب پر استوار ہے۔ اگر کوئی عورت بدکار ہو تو اس کا شوہر اپنی شرافت کا دعویٰ نہیں کر سکتا جبکہ ایسی نیک خواتین بکثرت معاشرے میں پائی جاتی ہیں جن کے شوہر بدکار ہیں لیکن لوگ ان خواتین کو بدکار شمار نہیں کرتے۔ لوگ کہتے ہیں کہ شوہر بدکار ہے تو اس کا بیوی سے کیا تعلق۔ اگر شوہر کثیف ہے تو بیوی کا کیا قصور؟ یہ رہی ایک بات۔ دوسری بات یہ ہے کہ عورت پاکدامنی جیسے امور میں مرد کی ناموس ہے۔ اس کے ذاتی و شخصی امور کا تعلق اس کے شوہر سے نہیں ہوتا۔ یعنی اگر کوئی عورت (نعوذ باللہ) بدکار ہو جائے تو شوہر کی آبرو پر حرف آتا ہے۔ لیکن اگر عورت میں کوئی دوسرا عیب ہو تو یہ مرد کا عیب نہیں ہے۔ مثلاً اگر کوئی عورت مومنہ نہ ہو بلکہ حقیقت میں کافرہ یا منافقہ ہو، تو اس بات سے شوہر کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے ’’حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے۔ وہ دونوں پیغمبر تھے جبکہ ان کی بیویوں کے دل نورِ ایمان سے منور نہیں تھے۔ عقیدہ کے اعتبار سے وہ ان کے مخالفین کی صف میں تھیں۔ اس جگہ قرآن کریم فرماتا ہے: ’’خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں، ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں۔‘‘ اس ’’پاکیزگی‘‘ سے مراد ناموس کی پاکیزگی ہے۔
ناپاک مرد غیرت سے محروم ہو جاتا ہے۔ وہ ناپاک عورت کو قبول کرتا ہے اور یوں ایک طرح کا انتخاب جنم لیتا ہے۔ پاک اشخاص ان اشخاص کو ڈھونڈتے ہیں جو پاک ہوں اور ناپاک اشخاص اپنے جیسوں کو تلاش کرتے ہیں۔ اس جگہ خدا نے شرعی قانون بیان نہیں کیا ہے بلکہ قرآن ایک فطری قانون بیان کر رہا ہے۔ آپ ملاحظہ فرماتے ہیں کہ پاک نوجوان لڑکا شادی کے لئے ایسی لڑکی کو تلاش کرتا ہے جو پاکدامن ہو اور پاک لڑکی بھی پاک شوہر کو پسند کرتی ہے جبکہ آلودہ اور کثیف نوجوان اس لڑکی سے بھی شادی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا جو کئی لڑکوں سے ناجائز تعلقات قائم کر چکی ہو۔
کثیف مرد کی کثیف روح کثیف عورت کو پسند کرتی ہے اور کثیف عورت کی کثیف روح کثیف مرد کو پسند کرتی ہے جبکہ پاک مرد کی پاک روح پاک عورت کا انتخاب کرتی ہے اور پاک عورت کی پاک روح پاک مرد کا انتخاب کرتی ہے۔
آپ لوگ نبی اکرم اور ان کی ناموس کے متعلق کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ کسی بھی پیغمبر کے خاندان میں ایسی برائیوں کا پایا جانا محال ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی پیغمبر کے گھر والے کافر ہوں، کسی نبی کا بیٹا کافر ہو، لیکن نبی کے گھر والوں کا فاسق ہونا محال ہے۔
’’وَصَلَّی اللّٰهُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِهِ الطَّاهِرِیْنَ‘‘
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْ خُلُوْا بُیُوتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِمُوْا علیٰٓ اَهلِهَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْآ فِیْهَا اَحَداً فَلاَ تَدْخُلُوْهَا حَتّٰی یُؤذَنَ لَکُمْ وَ اِنْ قِیْلَ لَکُمْ ارْجِعُوْا فَارجِعُوْا هُوَ اَزْکیٰ لَکُمم وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْ خُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ مَسْکُوْنَهٍ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّکُمْ وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ ‘‘ (سُورہ نُور، آیت ۲۷ تا ۲۹)
میں نے اپنی گزشتہ ایک تقریر میں بیان کیا تھا کہ قرآنِ کریم عفت و پاکدامنی اور افراد کے جنسی تعلقات کی پاکیزگی پر بہت زور دیتا ہے۔ اس کی اساس ان مصلحتوں اور حکمتوں پر استوار ہے جن کی جانب میں اشارہ کر چکا ہوں۔
اسلام نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دو طریقے اختیار کئے ہیں۔ ایک جانب تو اس نے ایسی تدابیر اختیار کی ہیں جن کی مدد سے جنسی غریزے پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور دوسری جانب وہ بدکاری کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔
جن آیاتِ مبارکہ کی تفصیل ہم نے ابتدا میں بیان کی تھی ان میں بدکاری کی سزا کا ذکر تھا۔ ’’اَلزَّانِیَة وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَة جَلْدَة ‘‘ لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں گناہ کہ ختم کرنے کے محض سزا ہی کافی نہیں ہے۔ سخت ترین سزائیں بھی جرم اور گناہ کو ختم نہیں کر سکتیں۔ ظلم اور جرم چاہے بے عفتی ہو، چاہے چوری و قتل ہو، یا بے احتیاطی ہو، مثلاً بے احتیاطی سے گاڑی چلانا۔ یہ بات بالکل درست نہیں کہ ہم کسی جرم یا ظلم کے خاتمہ کے لئے فقط سزا پر زور دیں۔ بلکہ ہمیں وقوعِ جرم کے اسباب کو دیکھنا چاہئے! ان اسباب کا خاتمہ کرنا چاہئے اور پھر جرائم پیشہ عناصر کو سزا دی جانی چاہئے۔ (عام طور پر وقوعِ جرم کے اسباب نہیں پائے جاتے فقط سرکشی کی ایک خاص حالت میں جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے) اس کی وضاحت کی خاطر ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ تیز رفتاری اور اوور ٹیکنگ کا مسئلہ اہم ترین مسائل میں سے ہے۔
اس بات کی ہمیشہ تاکید کی جاتی ہے کہ ڈرائیور حضرات شہر کے اندر فلاں رفتار (مثلاً چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ) سے تیز گاڑی نہ چلائیں۔ اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا گیا تو اسے جرمانہ کیا جائے گا۔ جرمانہ جس قدر بھی زیادہ ہو اگر اس جرم کے وقوع کے اسباب کی چھان بین نہ کی جائے تو محض سزا کافی نہیں ہو گی۔ خصوصاً ڈرائیونگ میں تو سزا ویسے ہی موجود ہے یعنی ’’مجازا تُھا مَعَھا‘‘ ہے کیونکہ جو شخص گاڑی تیز رفتاری سے چلاتا ہو اور دیوانوں کے مانند اندرونِ شہر اور بیرونِ شہر گاڑی تیز رفتار سے دوڑاتا پھرتا ہو تو سب سے زیادہ خطرہ اسی کو لاحق ہوتا ہے۔ اس کی گاڑی بھی خطرے میں ہوتی ہے اور جان بھی۔ لیکن اس کے باوجود نہ تو جان اور مال کا خطرہ اسے تیز رفتاری سے باز رکھتا ہے اور نہ ہی سزا۔ کیوں؟ اس لئے کہ بعض عوامل اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مثلاً آپ کسی ٹیکسی ڈرائیور کو ٹیکسی احتیاط سے چلانے کی نصیحت کریں یا تیز رفتار سے گاڑی چلانے پر اس کے لئے جرمانہ تجویز کریں جبکہ وہ اس قسم کے حالات کا شکار ہو کہ وہ خود ٹیکسی کا مالک نہ ہو بلکہ اس کی حیثیت فقط ایک ڈرائیور کی ہو۔ صبح سے ہی ٹیکسی چلانا شروع کر دیتا ہو۔ اب اگر وہ دن بھر کی محنت و مشقت کے بعد ۱۲۰ تومان نہ کمائے تو وہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتا کیونکہ ان ۱۲۰ تومانوں میں سے ۶۰ تومان تو اسے مالک کو ادا کرنا ہیں۔ اگر وہ ۶۰ تومان مالک کو ادا نہیں کرے گا تو وہ دوسرے دن اس کی چھٹی کرا دے گا۔ پھر ۳۰ تومان ٹیکسی کے پٹرول وغیرہ کا خرچہ نکالے گا۔ یوں دن بھر کی مشقت کے بعد اس کے لئے فقط ۳۰ تومان باقی بچتے ہیں۔ ان حالات میں اگر اس کو ہزار نصیحت کریں اور کہیں کہ تیز رفتاری سے تمہاری جان خطرے میں پڑ سکتی ہے یا تمہیں اس قدر جرمانہ کیا جائے گا اور تمہیں جیل بھیج دیا جائے گا، جبکہ دوسری طرف ۳۰ تومان گھر لے کر جانا بھی اس کی مجبوری ہے کیونکہ اگر ۳۰ تومان بھی گھر لے کر نہ جائے تو اپنی بیوی بچوں کو کیا منہ دکھائے گا۔ ان حالات میں وہ کیا کرسکتا ہے؟ وہ ٹیکسی اسٹارٹ کرتا ہے اور پھر اسے تیز رفتاری سے چلاتا ہے۔ وہ بہرصورت ۱۲۰ تومان کمانے پر مجبور ہے۔ ایک مجبوری اس پر اپنا حکم چلاتی ہے، اس لئے نہ وہ سزا کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی کوئی نصیحت سودمند ثابت ہوتی ہے۔ پس اگر ہم اس کو تیز رفتاری سے باز رکھنا چاہیں تو سزا سخت کرنے سے ہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، بلکہ ہمیں تیز رفتاری کے اسباب کو مد نظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا اور اس کے اسباب کو پیش نظر رکھ کر ہی مشکل حل ہو گی۔ مثلاً اگر ہم اس کو ایسی سہولیات بہم پہنچا سکیں کہ وہ دن میں سات گھنٹے آرام سے ٹیکسی چلا کر بیوی بچوں کا پیٹ پال سکے تو اس کا دماغ خراب نہیں کہ اپنی جان اور ٹیکسی کو خطرے میں ڈالے یا اپنے آپ کو جیل کے حوالہ کرے۔
چوری، شراب خوری، زنا، قتل اور ان جیسے دوسرے جرائم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
پس ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جرائم کے اسباب کو ختم کرنے سے ہی جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم شراب نہ پینے کا موعظہ کریں اور اخبارات پر شراب نوشی کے خطرناک نتائج (اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچاس فیصد جرم، ظلم، قتل، بے عفتی، حادثات شراب کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں) تحریر کریں، درحالیکہ شراب خواری کی رغبت دلانے کے تمام عوامل موجود ہوں، تمام غزلوں، تحریروں اور شعروں میں مے خواری و شراب نوشی کی دعوت دی گئی ہو، ہر محفل میں اسے عیش کوشی کا حصہ قرار دیا جاتا ہو، اسے پینے کی رغبت دلائی جاتی ہو اور شراب کی دکانوں کی تعداد دوسری تمام دوکانوں سے زیادہ ہو۔ ہر قدم پر نوجوانوں کو دعوت دینے کے لئے ایک سائن بورڈ نصب ہو جس پر تحریر ہو کہ ’’وہ‘‘ اور ’’وغیرہ‘‘ ’’یہاں دستیاب ہے، تشریف لائیے‘‘ تو اس صورت حال میں جرائم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
زنا اور پاکدامنی کا مسئلہ بھی اسی قبیل سے ہے۔ اسلام نے زنا کرنے والوں کے لئے سخت سزا تجویز کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے خاتمہ کے لئے سزا کا سہارا نہیں لیا۔ اسی لئے اس نے زنا ثابت ہونے کا راستہ بہت دشوار بنا دیا ہے۔ اسلام ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ لوگ زنا کرنے اور نہ کرنے والوں کا سراغ لگائیں، بلکہ وہ تو اس کام کو بہت بری نظر سے دیکھتا ہے۔ البتہ اگر زنا پایہ ثبوت تک پہنچ جائے تو وہ سخت سزا دیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ سزا کے ذریعہ زنا کا خاتمہ کرنا نہیں چاہتا۔ وہ لوگوں کو سراغ لگانے کی رغبت نہیں دلاتا۔ بلکہ وہ تو سرے سے ہی گناہ کا سراغ لگانے کا مخالف ہے۔ وہ اس جاسوسی کا مخالف ہے جو لوگوں کے گناہوں سے پردہ اٹھانے کی خاطر کی جائے ’’وَلاَ تَجَسّسُوْا‘‘ (حجرات۔ ۱۲)
اب یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اسلام نے گناہ کا سد باب کرنے کے لئے کیا طریقہ اپنایا ہے؟ اسلام نے زنا و بدکاری کے سد باب کے لئے متعدد طریقے اپنائے ہیں جن میں وعظ و نصیحت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور تربیت شامل ہیں۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ لوگوں کی تربیت صحیح خطوط پر ہو۔ یہ تمام طریقے بہت ہی مناسب ہیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ اسلام زندگی کے اصولوں کو ایسی اساس پر استوارکرتا ہے جس کے باعث ایسے اسباب ہی جنم نہیں لیتے جو گمراہی اور گناہ کی جانب راغب کریں۔ پاکدامنی کا مسئلہ اسی قبیل سے ہے۔
گزشتہ تقریروں میں کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی ساری کوشش یہی ہے کہ انسان اپنی جنسی شہوت کا جواب جائز شادی سے دے۔ اسلام تجرد کے خلاف ہے، (ہم چند آیات کے بعد پڑھیں گے۔ وَاَنْکِحُواالْاَیَامیٰ مِنْکُمم وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآ ئِکُمْ) شادی کرنے کی رغبت دلا رہا ہے۔ لڑکی لڑکے کو لازماً شادی کرنا چاہئے۔ (اس ’’لازماً‘‘ پر فی الحال ہم بحث نہیں کریں گے۔ اسی آیت کے ضمن میں اس پر بحث کریں گے۔)
پس ایک جانب تو اسلام شادی کی شدید رغبت دلاتا ہے تاکہ بے عفتی کے اسباب ہی وجود میں نہ آئیں۔ اسی لئے وہ ہر قسم کے تجرد کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری جانب یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا محض شادی کے ذریعہ بدکاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ کیا گر کسی مرد کی اپنی بیوی ہو اور کسی عورت کا اپنا شوہر ہو تو یہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کی طرف راغب نہ ہوں اور شادی شدہ انسان بعض حیوانات (وہ حیوانات جو فقط اپنے ساتھی کی طرف مائل ہوتے ہیں) کے مانند ہو جاتا ہے؟
حیوانات غریزے کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ انہیں خودمختار پیدا نہیں کیا گیا۔ کبوتر اور بعض دوسرے حیوانات جفت ہیں، جبکہ گوسفند، اسپ اور آہو جیسے حیوانات میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی۔ ان میں جفتی کرنے والی کوئی بات نہیں ہوتی چاہے وہ مادہ ہوں چاہے نر۔ خاص جنگلی حیوانات میں بوجھ اٹھانے کے علاوہ کسی اور کام کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔ وہ نر کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ کبوتروں جیسے وہ حیوانات جو جوڑوں کی صورت میں زندگی بسر کرتے ہیں ان میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ فقط آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنسی عمل انجام دیتے ہیں۔ نہ تو نر کبوتر اس مادہ کبوتر کے علاوہ کسی دوسری کبوتری پر نظر رکھتا ہے اور نہ ہی یہ کبوتری اس کبوتر کے علاوہ کسی دوسرے کبوتر کی طرف توجہ کرتی ہے۔ لیکن چونکہ انسان کو خودمختار خلق کیا گیا ہے اس لئے اسے خود ہی تمام شہوات میں ہر شہوت میں اپنے افعال فرض کی ادائیگی کے طور پر دینا ہوتے ہیں، فطرت کے جبر کے تحت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شادی بدکاری کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے۔ لیکن اس کے سد باب کے لئے اکیلی شادی کافی نہیں ہے۔ یعنی اگر شادی شدہ مرد کی نظر کسی غیر عورت پر پڑے تو اس کی رغبت میں اضافہ ہوتا ہے، خاص کر جب عورت نے دوسروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے کے لئے بناؤ سنگار بھی کیا ہوا ہو۔ اور اگر کوئی شادی شدہ عورت کسی غیر مرد کو دیکھے تب بھی یہی صورتِ حال پیش آتی ہے۔
اسی لئے اسلام نے مرد و زن کے میل جول کے لئے چند شرائط کو لازمی قرار دیا ہے۔ ان شرائط کو فقط اس لئے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ کہ عورت و مرد کا میل جول شہوت انگیز نہ ہو۔
بعد والی آیات سے جن کو ہم پڑھیں گے، مطلب واضح ہو جاتا ہے۔ تقریر کے آغا زمیں تلاوت کی جانے والی آیات کا تعلق اذن سے ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اطلاع اور اجازت کے بغیر اسے گھر میں داخل ہونے کا حق نہیں پہنچتا۔ اگرچہ یہ تین آیات عورت سے مخصوص نہیں ہیں لیکن ان کا زیادہ تر تعلق عورت سے ہی ہے۔ آیت یہ ہے۔
یٰااَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِمُوْا عَلیٰٓ اَهلِهَا
’’اے اہلِ ایمان تم اپنے ذاتی گھر ( آپ کا اپنا گھر مستثنیٰ ہے) کے علاوہ دوسرے شخص حتی کہ اپنے والدین، بہنوں اور بطریقِ اولیٰ اپنے بھائیوں کے گھروں میں اچانک نہ آ دھمکو بلکہ پہلے اپنے استیناس کیا کرو اور اہلِ خانہ کو سلام کیا کرو۔‘‘ ’’استیناس کیا کرو‘‘ یعنی گھر والوں کی انس، الفت اور سکون کا سامان کیا کرو۔
واضح سی بات ہے کہ ہر کسی کی ذاتی اور گھریلو زندگی اس کی ذات سے مخصوص ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنی ذاتی زندگی میں کسی بھی دوسرے شخص کی بے جا مداخلت سے شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ اس لئے اگر اس کے گھر میں کوئی دوسرا شخص اچانک آ دھمکے تو وہ گھبراہٹ اور سراسیمگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے ایسا نہ کیا کرو۔ کسی کے گھر میں اچانک نہ داخل ہوا کرو، بلکہ پہلے استیناس کیا کرو۔ یعنی ایسا کام کیا کرو کہ ان کو گھبراہٹ و سراسیمگی لاحق نہ ہونے پائے، یعنی پہلے ان کو اطلاع دیا کرو۔
زمانہ قدیم میں گھروں کے دروازے بند کرنے کا معمول نہیں تھا۔ (جیسا کہ اب بھی بعض دیہاتوں میں اس معمول نہیں ہے) شہروں میں دروازوں کو اندر سے بند کر دینے کا معمول ہے۔ اگر کوئی شخص اطلاع کے بغیر داخل ہونا بھی چاہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ اب دروازوں کو اندر سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص گھر میں داخل ہونا چاہتا ہو تو اسے پہلی گھنٹی بجانی یا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت اہلِ خانہ کو اطلاع دینے اور ان سے اجازت طلب کرنے کی رسم نہیں تھی۔ وہ تو اجازت طلب کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اسلام اپنے ساتھ یہ حکم لایا کہ کسی کے گھر میں اچانک داخل ہونا حرام ہے۔
ہم جو کسی کے گھر میں اطلاع کے بغیر داخل نہیں ہوتے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ دروازہ بند ہوتا ہے۔ اگر دروازہ کھلا ہوا ہو تب بھی ہم کو اطلاع کے بغیر کسی کے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ وَتُسَلِمُوْا عَلیٰٓ اَهْلِهَا ’’سلام بھی کیا کرو۔‘‘ سلام کئے بغیر گھر میں داخل نہ ہوا کرو۔ جو شخص بھی کسی کے پاس جائے تو اسے چاہئے کہ پہلے اسے سلام کرے۔ جو شخص کسی کے گھر میں جائے تو اسے چاہئے کہ اہلِ خانہ کو سلام کرے۔ یہ رسم نبی اکرم نے ڈالی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب تم کسی کے گھر میں داخل ہوا کرو تو بہرصورت اہلِ خانہ کو اطلاع دیا کرو تاکہ وہ آمادہ ہو جایا کریں اور جب تک وہ اجازت نہ دے دیں، جب تک ’’تشریف لائیے‘‘ نہ کہیں، اس وقت تک گھر کے اندر قدم نہ رکھا کرو۔ البتہ آپ کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت کھانسنے کے ذریعے بھی گھر میں داخل ہونے کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ لیکن آخر آپ ایسا ہی کیوں کریں؟ اس سے بہتر یہ ہے کہ آپ ذکرِ خدا کریں۔ مثلاً ’’اللہ اکبر‘‘ یا ’’سبحان اللہ‘‘ کہیں۔ آجکل ہمارے مابین ’’یااللہ‘‘ کہنے کا معمول ہے اور یہ ایک بہت اچھی رسم ہے، اگرچہ رفتہ رفتہ فرنگی مآب لوگوں میں یہ رسم ختم ہو گئی ہے۔ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ایک اسلامی رسم ہے۔ ان کے درمیان تو سلام کرنے کا رواج بھی ختم ہو گیا ہے اور یا اللہ کہنے کا بھی، اور یہ تعجب کی بات ہے۔
نبی اکرم کسی کے گھر میں بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوا کرتے تھے۔ آپ استیناس کو زیادہ تر سلام کرنے کے ساتھ ہی انجام دیتے تھے، حتیٰ کہ آپ اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ عَلَیھَا کے گھر میں بھی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہوتے تھے ۔ بلکہ باہر دروازے پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں فرمایا کرتے ’’اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَآ اَهْلَ الْبَیْتِ‘‘ اگر اس کا جواب دیا جاتا اور کہا جاتا کہ ’’تشریف لائیں‘‘ تو آپ اندر داخل ہوتے۔ اگر جواب نہ ملتا تو اس خیال سے کہ شاید انہوں نے پہلی مرتبہ نہیں سنا ہو گا۔ دوبارہ فرماتے اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَآ اَهْلَ الْبَیْتِ‘‘ اگر پھر بھی جواب نہ ملتا تو احتیاطاً اس خیال سے کہ انہوں نے دوسری مرتبہ بھی نہیں سنا ہو گا، آپ تیسری مرتبہ بھی سلام کرتے۔ اگر تیسرے سلام کا بھی جواب نہ ملتا تو واپس پلٹ جاتے۔ آپ فرماتے یا تو وہ گھر میں موجود نہیں ہیں، یا ان کی حالت کسی دوسرے شخص کے داخل ہونے کی مقتضی نہیں ہے۔ اور آپ بالکل برا محسوس نہ فرماتے۔ ’’ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ‘‘ ’’یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارا فائدہ اسی میں ہے۔ شاید تمہیں اس کام کے فائدے کا پتہ بعد میں چلے۔ شاید تم بعد میں اس کے فائدے کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔‘‘
یعنی پہلے عمل کرو بعد میں تمہیں اس کے فائدہ کا علم ہو گا۔ اس سلسلے میں بہت سی داستانیں نقل ہوئی ہیں جو آپ کی سنی ہوئی ہیں۔ ’’سمرہ بن جندب‘‘ جو بہت ہی بد طنیت تھا، اس نے امیرالمومنین علیؓ اور معاویہ کے زمانے میں بہت بدطینتی کا مظاہرہ کیا، کی ایک داستان معروف ہے۔ نبی اکرم کے زمانے میں اس کا ایک درخت آپ کے ایک صحابی کے گھر میں تھا۔ اس درخت کی وجہ سے اسے اس گھر میں داخل ہونے اور درخت کی دیکھ بھال کرنے کا حق پہنچتا تھا۔ مگر چونکہ درخت دوسرے شخص کے گھر میں تھا۔ اس لئے اصولاً اسے اس گھر میں داخل ہونے سے پیشتر استیناس اور اجازت حاصل کرنا چاہئے تھی۔ اسے ’’یااللہ‘‘ کہنا چاہتے تھا۔ لیکن وہ بہت اکڑ باز اور ظالم تھا۔ ان باتوں کی پرواہ مطلق نہ کیا کرتا اور اچانک اس گھر میں داخل ہو جاتا تھا۔ (ہر شخص اپنے گھر میں کسی ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ دوسرے لوگ اسے اس حالت میں دیکھیں) اور اہلِ خانہ کی نا راحتی کا موجب بنا کرتا۔ مالکِ مکان نے چند مرتبہ اسے سمجھایا لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ یا رسول اللہ فلاں شخص کو آپ سمجھائیں، وہ میرے گھر میں اچانک آ دھمکتا ہے۔ آپ نے اسے بلوا کر سمجھایا لیکن وہ نہ مانا اور کہنے لگا کہ اس گھر میں میرا درخت ہے اس لئے مجھے وہاں جانے کا حق حاصل ہے۔ آپ متوجہ ہوئے کہ یہ شخص تو بد طینت ہے۔ آپ نے اس سے فرمایا آؤ ایک کام کرتے ہیں۔ تم یہ درخت میرے ہاتھوں فروخت کر دو۔ میں تمہیں اس سے بہتر درخت دوں گا جو ایک اور جگہ پر واقعہ ہے، مگر وہ نہ مانا۔ تین درخت، چار درخت، دس درختوں تک کی تجویز آپ نے اسے پیش کی جسے اس نے قبول نہ کیا۔ آپ نے فرمایا میں تجھے جنت میں کھجور کے ایک درخت کی ضمانت دیتا ہوں۔ اس نے جواب دیا مجھے جنت کا درخت نہیں یہی درخت چاہئے اور میں گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت بھی نہیں لیا کروں گا۔ اس نے (اپنے کردار سے) ثابت کر دیا کہ وہ ظالم اور ستمگر شخص ہے۔ (میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اسلام ابتداء میں نرمی سے کام لیتا ہے لیکن اگر وہ موثر نہ ہو تو پھر سختی کو کام میں لاتا ہے) آپ نے فوراً مالک مکان کو حکم دیا کہ گھر جا کر اس کا درخت جڑ سے اکھاڑ ڈالو اور اس کے آگے پھینک دو۔ ’’اِنَّه رَجُلٌ مُّضَارّ ’’ یہ ضرر رساں شخص ہے‘‘ لاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ عَلیٰ مُؤمِنٍ ’’دینِ اسلام میں ضرر اور ضرار کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘
بعد میں قرآن فرماتا ہے۔ ’’فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْ فِیْهَآ اَحَداً فَلاَ تَدْ خُلُوْهَا حَتّٰی یُؤذَنَ لَکُمْ‘‘ اگر آپ کسی کے گھر میں جائیں اور وہ گھر پر موجود نہ ہو تو اس صورت میں آپ کا کیا فرض ہے؟ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب تو گھر پر کوئی بھی نہیں جو ہمیں اجازت دے۔ کوئی عورت بھی اس گھر میں نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس گھر میں داخل ہوں گے تو ہمیں یہ نہیں کہا جائے گا کہ آپ اچانک کیوں آ دھمکے ہیں۔ چونکہ اس گھر میں کوئی نامحرم بھی نہیں ہے اس لئے ہم کو اس میں داخل ہونے کا حق پہنچاتا ہے؟ نہیں! یہ جو کسی گھر میں اس کی اجازت کے بغیر داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے محض نامحرم کی وجہ سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ لوگوں کے ذاتی معاملات میں بے جا مداخلت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کی زندگی میں ایسے امور کا پایا جانا ممکن ہے جن کو وہ دوسروں سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہو۔ خدا فرماتا ہے کہ اگر کوئی شخص بھی گھر پر نہ ہو تب بھی گھر میں داخل نہ ہوا کرو، مگر یہ کہ تمہیں پہلے سے اجازت دی گئی ہو یعنی اہلِ خانہ نے پہلے سے تمہیں اجازت دے رکھی ہو۔ مثلاً مالکِ مکان نے تمہیں گھر کی چابی دی ہو یا اس نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی ہو۔
اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ہم کسی کے پاس جائیں، وہ شخص گھر میں بھی موجود ہو اور ہم اس سے اجازت طلب کریں، لیکن وہ بجائے اس کے کہ ہم سے کہے ’’تشریف لائیے‘‘ کہے ’’ آپ واپس تشریف لے جائیں، فی الحال میں آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا‘‘ تو اس صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ قرآن صریحاً فرما رہا ہے کہ اگر گھر کا مالک کہے کہ میں فی الحال تمہاری پذیرائی کرنے سے قاصر ہوں تو تمہیں واپس پلٹ جانا چاہئے اور گھر کے مالک کی بات تمہارے دل پر گراں نہیں گزرنی چاہئے۔ اسلام کا یہ حکم ہم لوگوں کی موجودہ زندگی سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں۔
اس مقام پر قرآن ہم سے کہہ رہا ہے ’’نا حق تمہارے دل پر گراں نہ گزرے۔ اگر تم کسی کے گھر میں جانا چاہتے ہو تو اگر انہوں نے تمہیں بلایا ہو اور تم نے ان سے وقت لیا ہو، تو گھر میں داخل ہو جایا کرو۔ اور اگر پیشگی اطلاع کے بغیر کسی کا دروازہ کھٹکھٹاؤ جس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کے گھر میں داخل ہونا چاہتا ہوں تو اس صورت میں اگر اہلِ خانہ کسی مجبوری کی بناء پر آپ کو اندر نہ بلا سکتا ہو تو اسے بغیر کسی شرم و لحاظ کے کہہ دینا چاہئے کہ میں گھر پر ہوں (یہ نہیں کہنا چاہئے کہ گھر پر نہیں ہوں) لیکن فی الحال مصروف ہوں اس لئے معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کا میزبان بننے سے قاصر ہوں (اکثر اتفاق ہوتا ہے کہ اہلِ خانہ کو کوئی ضروری کام درپیش ہوتا ہے جبکہ آنے والا کسی ضروری کام سے نہیں آیا ہتا) آپ نے مجھ سے پیشگی وقت نہیں لیا تھا۔ اب آپ تشریف لے جائیے۔ پھر کسی وقت تشریف لائیے گا اور یہ بات واشگاف الفاظ میں کہی جانی چاہئے۔ اور اگر صاحبِ خانہ دو ٹوک الفاظ میں کہے تو آنے والے میں بھی اس قدر شہامت، شجاعت اور مردانگی ہونی چاہئے کہ یہ بات اس پر گراں نہ گزرے۔
لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ آجکل اس کے برعکس عمل ہو رہا ہے۔ نہ تو گھر والے میں اس قدر شہامت، صراحت، صداقت پائی جاتی ہے کہ کہے میں فی الحال آپ کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہوں اور نہ ہی آنے والے میں اسی قدر انسانیت پائی جاتی ہے کہ اگر وہ کہے کہ میں فی الحال آپ کو وقت نہیں دے سکتا، آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا تو اس کے دل پر گراں نہ گزرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں درج ذیل تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی ایک صورت پر عمل ہو رہا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے مالک مکان جھوٹ بولتا ہے۔ وہ بچوں سے کہتا ہے کہ (آنے والے سے) کہو ابو گھر پر نہیں ہیں۔ اس طرح وہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ ’’گھر پر نہیں ہے‘‘ جھوٹ ہے اور جھوٹ گناہ کبیرہ ہے۔ بعض لوگ اس مقام پر اپنے خیال کے مطابق ’’توریہ‘‘ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ توریہ اس جگہ ہوتا ہے جہاں جھوٹ نہ بولنے کی صورت میں مفسدہ وجود میں آتا ہو مثلاً خنجر بکف کوئی شخص آیا ہو، وہ کسی کونا حق قتل کرنا چاہتا ہو۔ وہ پوچھے کہ فلاں آدمی یہاں موجود ہے یا نہیں؟ تو جواب دینا چاہئے کہ یہاں نہیں ہے۔ اس مقام پر کہا جاتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو جھوٹ کی عادت پڑ جائے اس لئے اپنے دل میں اس کے علاوہ کسی دوسری بات کو گزاریں۔ کہیں ’’نہیں‘‘ اور دل میں گزاریں کہ ’’یہاں‘‘ نہیں ہے۔ اور یہ درست نہیں ہے کہ انسان اپنی مرضی کا ہر جھوٹ بول لے اور اسے توریہ قرار دیدے۔ تو مالک مکان بچوں سے کہتا ہے کہ آنے والے سے کہو ’’نہیں ہے۔‘‘ لیکن اے بچو! جب تم کہو کہ نہیں ہے تو تمہارا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ ہمارا والد کمرے کی چوکھٹ پر نہیں ہے۔ تو جناب اس مقام پر آپ سچ بول سکتے ہیں پھر توریہ کیوں کرتے ہیں؟ یہاں آپ کو کہنا چاہئے کہ میں گھر پر موجود ہوں لیکن فی الحال آپ کی میزبانی کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوں۔
ایک مرتبہ ملا نصیرالدین ایک مہمان کو اپنے ہمراہ گھر کے دروازے تک لایا۔ خود گھر میں داخل ہو گیا۔ اس کی بیوی (ان بہت سی عورتوں کی طرح جو ایسے امور میں ہٹ دھرمی کیا کرتی ہیں) اس سے جھگڑ پڑی کہ مہمان کو اپنے ہمراہ کیوں لائے ہو۔ ہمارے پاس اس کی پذیرائی کے لئے کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ لہٰذا تم نے اسے لا کر اچھا نہیں کیا۔ ملا نصیر الدین نے کہا ک ہاب میں کیا کروں؟ بیوی نے کہا میں اس کی بالکل مہمان نوازی نہیں کروں گی۔ ملا نصیرالدین کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ آخر اس نے اپنے بچوں کے ذریعے مہمان کو کہلوا بھیجا کہ ملا گھر پر نہیں ہے۔ مہمان نے کہا ابھی تو ہم مل کر آئے تھے۔ یہ سنتے ہی ملا نے بلند آواز سے جواب دیا شاید اس گھر کے دو دروازے ہوں اور وہ دوسرے دروازے سے باہر چلا گیا ہو۔
عموماً ایسے مواقع پر کئے جانے والے ہمارے کام ملا نصیرالدین کے کاموں جیسے ہوتے ہیں۔ یعنی جب دروازے پر آ کر کہا جاتا ہے کہ ’’صاحب گھر پر نہیں ہیں‘‘ تو مہمان سمجھ جاتا ہے کہ جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب کوئی دروازے پر آتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹھہرئے میں ابھی دیکھ کر آتا ہوں کہ صاحب گھر میں موجود ہیں یا نہیں تو صاف معلوم ہو رہا ہوتا ہے کہ جب تم گھر کے اندر سے آئے ہو تو تم کو پتہ ہے کہ صاحب گھر پر ہیں یا گھر پر نہیں ہیں۔ یہ کہنا کہ ’’میں دیکھ کر آتا ہوں کہ صاحب گھر پر ہیں یا نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں کہو سچ سچ بتاؤں یا جھوٹ سے کام لوں۔
یہ عین حقیقت ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ اس کے باوجود کہ سب جانتے ہیں، مہمان بھی جانتا ہوتا ہے اور میزبان بھی۔ لیکن اس کے باوجود مسلسل جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ پس ایک صورت یہی ہے کہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ صاحب خانہ آنے والے سے کہتا ہے ’’تشریف لائیے‘‘۔ بہت ظاہرداری سے کام لیتا ہے۔ اسے خوش آمدید، اَهْلاً وَّسَهْلاً وَّ مَرْحَباً جیسے الفاظ سے اس کا استقبال کرتا ہے۔ بڑے تپاک سے ملتا ہے جبکہ دل ہی دل میں اسے گالیاں دے رہا ہوتا ہے۔ اسے کوستا ہے کہ یہ بلائے ناگہانی اس وقت کہاں سے آ ٹپکی۔ ہمیں کئی ضروری کام تھے۔ لوگ کس قدر غیر مہذب ہیں۔ بے سوچے سمجھے دوسروں کے گھروں میں آ دھمکتے ہیں اور ان کے کاموں میں مخل ہوتے ہیں۔ جب مہمان چلا جاتا ہے تو پھر میزبان بیوی بچوں کے سامنے اسے ڈھیر ساری گالیاں بکتا ہے۔
ان حالات میں وہ بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا! وہ بچہ جو دیکھ رہا ہے کہ اس کے باپ میں اتنی شہامت بھی نہیں ہے کہ مہمان سے کہہ سکے کہ میں آپ کی پذیرائی نہیں کر سکتا۔ میرے پاس فی الحال وقت نہیں ہے بلکہ وہ سرو قد ہو کر مہمان کی تعظیم بجا لاتا ہے، اسے خوش آمدید کہتا ہے جبکہ اس کے جانے کے بعد اس پر صلواتیں بھیجتا ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ میزبان و صاحب خانہ معقول کام کرتا ہے۔ یعنی وہ خود دروازے پر آ کر آنے والے سے کہتا ہے ’’جناب مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو فی الحال وقت نہیں دے سکتا۔ مجھے ضروری کام ہے، میں مصروف ہوں۔‘‘ یا کسی دوسرے شخص کے ذریعہ آنے والے تک پیغام بھیجتا ہے کہ فی الحال میں مصروف ہوں جس کی وجہ سے میں آپ کی میزبانی کے فرائض انجام دینے سے قاصر ہوں۔ تو اس صورت میں صاحب خانہ نے ایک معقول طریقہ اختیار کیا ہے لیکن آنے والے شخص میں اخلاقی جراءت نہیں پائی جاتی (کیونکہ) اس کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ وہ اپنی ہر محفل میں اسی کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں فلاں شخص کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے ملاقات نہ کی۔ وہ یہ بات تو نہیں بتاتا کہ میں نے پیشگی اجازت نہیں لی تھی اور نہ ہی یہ سوچتا ہے کہ صاحب خانہ کسی مجبوری کی بناء پر مجھ سے ملاقات نہیں کر سکا۔
(جبکہ اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ) آپ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اسے کوئی مجبوری ہو گی اور تمہیں اس بات پر خوش ہونا چاہئے کہ تمہارا میزبان شجاع ہے۔ اس نے تم سے جھوٹ نہیں بولا بلکہ واضح الفاظ میں حقیقت بیان کر دی ہے۔ یہ تھی تیسری صورت۔ان دونوں یا تو پہلی دو صورتوں جو کہ میزبان کے بارے میں ہیں پر عمل کیا جا رہا ہے یا اس تیسری صورت پر جو کہ مہمان سے تعلق رکھتی ہے۔ جبکہ چوتھی صورت جسے اسلام پسند کرتا ہے ہمارے معاشرے میں بالکل ناپید ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ اگر صاحب خانہ کے پاس وقت نہ ہو، وہ آنے والے سے ملاقات نہ کر سکتا ہو تو صراحت کے ساتھ کہہ دینا چاہئے کہ ’’جناب میں معذرت چاہتا ہوں کہ فی الحال آپ کو وقت نہیں دے سکتا۔ آپ کی میزبانی کے فرائض کی انجام دہی سے قاصر ہوں‘‘ اور آنے والے کو بھی برا محسوس کئے بغیر واپس پلٹ جانا چاہئے۔ قرآن نے اس چوتھی صورت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے۔
وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا
’’اور جب تم سے کہا جائے کہ واپس لوٹ جاؤ تو پلٹ جایا کرو‘‘ ’’هُوَ اَزْلیٰ لَکُمْ یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔‘‘ یہ چوتھی صورت پہلی تینوں صورتوں سے بہتر ہے۔ ’’وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے جانتا ہے۔‘‘
قرآن نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے گھر کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے گھر میں داخل ہونا چاہو تو اجازت کے بغیر داخل نہ ہوا کرو۔ (گھر سے مراد وہ چار دیوار ہے جس میں کوئی زندگی بسر کر رہا ہو) ۔ اب یہاں یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا ہر وہ چار دیواری جس میں لوگ رہ رہے ہوں اس کے بارے میں بھی یہی حکم ہے؟ کیا کسی دکان میں داخل ہونے کے لئے بھی اجازت طلب کرنا ضروری ہے؟ اگر میں کسی شاپنگ سنٹر میں داخل ہونا چاہوں تو کیا پہلے اجازت طلب کرنی چاہئے؟ کیا کسی سرائے میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنا واجب ہے؟ یا یہ حکم فقط ان گھروں سے مخصوص جن میں کوئی زندگی بسر کر رہا ہو۔ یعنی کیا یہ حکم لوگوں کے ذاتی و شخصی مکانوں کے ساتھ مختص ہے؟
قرآن مجید فرماتا ہے کہ یہ حکم فقط خاص مکانوں سے مخصوص ہے چاہے وہ رہنے سہنے کا مکان ہو یا کام کرنے کا مکان۔ عمومی اماکن کے لئے یہ حکم نہیں ہے کیونکہ عمومی اماکن کا دروازہ تو سب کے لئے کھلا ہوا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ایک شخص بہت ہی سادہ لوح تھا اور ساتھ ساتھ پارسا بھی بہت تھا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل نہیں ہونا چاہئے۔ سنے میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ مشہد میں اپنے علاقے کے لوگوں سے ملاقات کرنے کے لئے ایک بہت بڑے کاروان سرا میں داخل ہونا چاہتا تھا۔
خود کاروان سرائے کے دروازے کے پاس باہر کھڑا ہو گیا اور دوسرے شخص کو یہ معلوم کرنے کو بھیجا کہ کیا مجھے اس کاروان سرائے میں داخل ہونے کی اجازت ہے یا نہیں! جبکہ کاروان سرائے کا دروازہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ کاریں اور گاڑیاں اکثر وہاں سے گزرتی رہتی ہیں۔ اس میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ عمومی اماکن میں سے ہے۔
اس لئے قرآن مجید فرماتا ہے۔ ’’لیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَدْ خُلُوْا بُیُوْتاً غَیْرَ مَسْکُوْنَة ’’ایسے مکانوں میں بغیر اجازت کے داخل ہونے میں کوئی حرج نہیں جن میں لوگ موجود ہوں اور وہاں لین دین کا کاروبار ہوتا ہو بشرطیکہ وہ ان کی سکونت کے مکان نہ ہوں۔ فِیْهَا مَتَاعٌ لَّکُمْ ’’ان مکانوں میں تمہارے لئے متاع ہے‘‘ یعنی تم ان مکانوں میں کام کی وجہ سے داخل ہونا چاہتے ہو۔ البتہ اگر ان مکانوں میں تمہیں کوئی کام نہ ہو تو بلا مقصد دوسروں کے کاموں میں مخل نہ ہوا کرو۔ اس کے بعد قرآن فرماتا ہے۔ ’’وَاللّٰهُ یَعْلَمُ مَاتُبْدُوْنَ وَمَاتَکْتُمُوْنَ‘‘ خدا ہر اس چیز کو جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور مخفی کرتے ہو۔‘‘
اب یہاں سے حجاب اور نگاہ کے متعلق آیات کا آغاز ہو رہا ہے۔
قُلْ لِلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِ هِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ‘‘ (سُورہ نُور، آیت ۳۰)
’’(اے رسول) مؤمنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لئے پاکیزہ تر ہے۔ (یعنی عفت کا حکم پاکیزگی کی خاطر دیا گیا ہے) اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے آگاہ ہے۔‘‘
اس آیت میں بہت سے مسائل ہیں جن پر بحث کرنا ضروری ہے۔ مفسرین نے ’’یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِ هِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ‘‘ پر بہت زیادہ بحث کی ہے۔ بعض مفسرین کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ دونوں فقرے شرمگاہ چھپانے کے بارے میں ہیں کیونکہ اسلام کے واجبات میں سے ایک یہی ہے کہ ہر عورت و مرد پر واجب ہے کہ وہ اپنی شرمگاہ کو اپنے شریکِ حیات کے سوا دوسروں کی نظروں سے مخفی رکھے۔ شرمگاہ کا چھپانا مرد پر بھی واجب ہے اور عورت پر بھی۔ خاوند بیوی تو شرمگاہ کی نسبت ایک دوسرے کے محرم ہیں۔ دوسروں سے اس کا چھپانا واجب ہے۔ میاں بیوی کے علاوہ کوئی شخص بھی دوسرے کی شرمگاہ کا محرم نہیں ہے۔ شرمگاہ کے مسئلے میں والدین اپنی اولاد کے، بھائی بھائی کا اور بہنیں بھی آپس میں ایک دوسری کی محرم نہیں ہیں۔ شرمگاہ کو چھپانا واجب ہے۔ اور غیر کی شرمگاہ کی طرف نگاہ کرنا حرام ہے۔ اس کا حرام ہونا دینِ اسلام کے مسلمات میں سے ہے۔
فہرست
Comments powered by CComment