علوم ومعارف قرآن

علوم قرآن
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب آیة اللّٰہ العظمی الخوئی جب فضیلتِ قرآن کی بات آئے تو بہتر ہے کہ انسان توقف اختیار کرے، اپنے آپ کو قرآن کے مقابلے میں حقیر تصور کرے اور اپنی عاجز ی اورناتوانی کا اعتراف کرے، اس لیے کہ بعض اوقات کسی کی مدح میں کچھ کہنے یا لکھنے کی بجائے اپنی عاجزی اور ناتوانی کا اعتراف کر لینا بہتر ہوتا ہے جو انسان عظمت قرآن کے بارے میں لب کشائی کرنا چاہے بھلا وہ کیا کہہ سکتا ہے ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان (جو ایک ممکن اور محدود چیز ہے) لامتناہی ذات کے کلام کی حقیقت کا ادراک کر سکے اور اپنے مختصر اورمحدود ذہن میں اسے جگہ دے سکے۔
انسان میں وہ کون سی طاقت ہے جس کی بدولت وہ اپنے محدود اور ناقص ذہن میں قرآن کی حقیقی قدروقیمت، منزلت اور حیثیت بٹھا سکے اور پھر بیان کر پائے۔ ایک اہل قلم چاہے کتنا ہی مضبوط ہو فضیلت قرآن کے سلسلہ میں لکھ ہی کیا سکتا ہے اور ایک خطیب چاہے وہ کتنا ہی شعلہ بیاں ہو، زبان سے کیا ادا کر سکتا ہے۔ ایک محدود انسان محدود چیز کے علاوہ کسی لامحدود ہستی کی توصیف کیونکرکر سکتا ہے؟
قرآن کی عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خالق متعال کا کلام ہے۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِيْلِِِِِِِِلَّتِی ھِيَاَقْوَمُ۔ (سورہ بنی اسرائیل : ۹)
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔
الٓرٰ کِتَابٌ اَنزَلنٰاہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُُمَاتِ اِلیَ النُّورِ بِاِذْنِِِِِِِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیْدِo (سورہ ابراہیم:۱)
(اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اسکی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وارِ حمد ہے۔"
ھَذٰا بَیانٌ لّلِنَّاسِ وَھُدیً وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِینَ۔ (سورہ آلعمران:۱۳۸)
یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان(واقعہ ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے۔
اس سلسلے میں رسول اکرم سے بھی روایت منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:
کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر ہے۔ (۱)
یہاں پر اس حقیقت کا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے جس کاہم نے آغاز کلام میں ہی اعتراف کر لیا تھا، یعنی مناسب یہی ہے کہ انسان قرآن کی عظمت اور اس کی فضیلت میں لب کشائی کی جسارت نہ کرے اور اسے ان ہستیوں کے سپرد کر دے جو قرآن کے ہم پلہ اور علوم قرآن میں راسخ اور ماہر ہیں۔ کیونکہ یہ حضرات سب سے زیادہ قرآن کی عظمت اور اس کی حقیقت سے آشنا اور آگاہ ہیں۔ یہی ہستیاں ہیں جو قرآن کی ارزش (قدرومنزلت) اور صحیح حقیقت کی طرف لوگوں کی راہنمائی فرماتی ہیں۔ یہی ہستیاں فضیلت میں قرآن کی ہمدوش اور ہم پلہ ہیں اور ہدایت و راہبری میں قرآن کی شریک اور معاون و مددگار ہیں۔ ان حضرات کے جدا مجد وہی رسول اکرم ہیں۔ جنہوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی وہی رسول اکرم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں، آپ قرآن سے ان حضرات کا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں:
اِنِّیِ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کَتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِي أَھْلَ بَیتِي وَاَنّھُما لَن تَضِلُّویَفتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الحَوْض(۲)
میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اوریہ ایک دوسرے سے ہر گز جدا نہ ہونگے حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔
پس اہل بیت اور عترف پیغمبر ہی ہیں جو قرآن کے راہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں۔ اس لیے ضرور ی ہے کہ ہم انہی کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہی کے ارشادات سے مستفیض ہوں۔ قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہار(ع) سے منقول ہیں، جنہیں مجلسی مرحوم نے کتاب بحار الانوار کی ج۱۶ میں یکجا فرمایا ہے۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔
حارث ہمدانی فرماتے ہیں:
میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کردیا آپ نے فرمایا: واقعاً ایسا ہی ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں یا مولا۔ آپ نے فرمایا: اے حارث! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا! ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: راہِ نجات کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گزشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے بٓاسانی تمیز دے سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو اگر جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیرِقرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے، خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ یہ (قرآن ) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیزذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں التباس اور غلطیوں سے محفوظ رہی ہیں۔ علماء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ پرانی اور فرسودہ نہیں ہوتی اور نہ اس کے عجائبات ختم ہونے میں آتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے، صادق ہی ہوگا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا، یقینا عادل ہو گا۔ جو قرآن پر عمل کرے، وہ ماجور ہو گا، جو قرآن (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے اس کے بعد امیر المومنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔ (۳)
اس حدیث شریف میں چند غیر معمولی نکتے ہیں جن میں سے اہم نکتوں کی ہم وضاحت کرتے ہیں۔ رسول اکرم فرماتے ہیں:
فیہ نباء من کان قبلکم و خبر معادکم
قرآن میں گزشتہ اور آئندہ کی خبریں موجود ہیں۔
اس جملے کے بارے میں چند احتمال دےئے جا سکتے ہیں۔
۱ اس کا اشارہ عالمِ برزخ اور روزِ محشر کی خبروں کی طرف ہو، جس میں نیک اور برُے اعمال کا محاسبہ ہو گا، شائد یہ احتمال باقی احتمالات سے زیادہ قوی ہو۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید امیر المومنین کے اس خطبے سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں۔
اس قرآن میں گزشتگان کی خبریں، تمہارے باہمی اختلافات کے فیصلے اور قیامت کی خبریں موجود ہیں۔ (۴)
۲ ان غیبی خبروں کی طرف اشارہ ہو جن کی قرآن نے خبر دی ہے اور آئندہ نسلوں میں بھی رونما ہوں گے۔
۳ ان سے مراد گزشتہ امتوں میں رونما ہونے والے واقعات ہوں جوبعینہ اس امت میں بھی رونما ہوں گے۔
گویایہ حدیث اس آئیہ شریفہ کے ہم معنی ہے۔
لَتَرکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبقٍo (سورہ انشقاق :۱۹)
تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔
یا اس حدیث کی ہم معنی ہے جو آنحضرت سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:
”لَتَرْکَبَنَّ سُنَنٌ مِنْ قَبْلِکُمْ۔
تم بھی گزشتہ لوگوں کی غلط اورگمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا:
مَنْ تَرَکَہُ مِنْ جَبّٰارٍ قَصَمَةُ اللّٰہُ
جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اور اسے پسِ پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا۔
شاید اس جملے میں رسول اکرم اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اور اس پر عمل ترک ہو جائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن ہمیشہ تحریف سے محفوظ رہے گا۔
حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے لاتزیغ بہ الاھواء۔ ” خواہشات اسے کج، زنگ آلودہ نہیں کر سکتیں" یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی ہے کہ قرآن کے، خود ساختہ اور اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائیگا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پائیں گے۔
ہاں! اگر مسلمانوں میں احکام اور حدودِ قرآن کا نفاذ ہوتا اور اسکے اشارات اور ارشادات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت ِ پیغمبر کی معرفت بھی حاصل ہو جاتی جنہیں رسول اکرم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔ (۵) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپکا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ ہوتے، ان پر ذلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھا جاتیں۔ احکام خدا میں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ ہوتا، نہ کوئی شخص راہِ راست سے بھٹکتانہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوں نے قرآن کو پسِ پشت ڈال دیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات ِ نفساتی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافرگرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خدا وندی کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ قرآن کے متروک ہونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے۔ امیر المومنین قرآن کی تعریف میں یوں فرماتے ہیں:
پھر آپ پر ایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ ہے جس میں راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں ) ایسا امتیاز کرنے والی ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، وہ سراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے، روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں وہ سرتا سر عزت و غلبہ ہے۔ جس کے یارو مددگار شکست نہیں کھاتے،وہ سراپا حق ہے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے اس سے علم کے چشمے پھوٹنے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے حق کی وادی اور اس کاہموار میدان ہے ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس میں اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکیوں کی راہ گز رکے لیے شاہراہ قرار دیا ہے۔ (۶) یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے، جو اس سے وابستہ رہے اس کے لیے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کے لیے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کیلئے حجت ہے جو اس کی رو سے بات کرے اس کے لیے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کیلئے گواہ ہے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لیے فتح و کامرانی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لیے مرکب(تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے، (ضلالت سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح ہو اس کے لیے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باند ھ لے اس کے لیے علم ودانش ہے، بیان کرنے والے کے لیے بہترین کلام اور فیصلہ کرنے والے کے لیے قطعی حکم ہے۔
یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے ان سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی ہے۔
امیر المومنین کے ارشاد لایخبوتوقدہ ”قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی“ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی لامتناہی اور ابدی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام شخص یا قوم کے بارے میں نازل ہوئی مگر وہ آیہ اس مقام شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق ہوتی ہے۔ عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر سے آیہ ”وَلِکُلِّ قومٍ ھادٍ" (۱۳ :۷) ” ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہوا کرتا ہے“ کی تفسیر کے بارے میں روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا:
عَلِیٌ :الھادي، ومنا الہادی فقلت فانت جعلت فِدٰاک اَلْھٰادِي؟ قَالَ صَدَّقْتَ اَنَّ الْقُرآن حَيٌ لاٰیَمُوتُ وَالاَیةُ حَیَّةً لاٰتَمُوتُ، فَلَوْ کاٰنَتْ الآِیةُ اِذٰا نَزَلَتْ فِیْ اِلاَقْوٰامِ وَمٰاتُوا اِمَاتَتْ الاَیةُ لَمٰاتَ الْقُرآن وَلٰکِنَّ ھِیَ جاٰرِیَةٌ ِ فِيْ الْبٰاقینَ کَمٰا جَرَتْ في المٰاضینَ۔
اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب ہیں اور ہادی ہم ہی میں سے ہوا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: میں آ پ پر نثار ہوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں میں بھی اس کا مصداق ہوں۔ قرآن ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ وَلکلً قَومٍ ھادٍ بھی زندہ ہے اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مرجائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہوسکتا بلکہ قرآن جس طرح گزشتہ اقوام پرمنطبق ہوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق ہو گا۔
امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
اِنَّ الْقُرآن حيٌلَمْ یُمُتْ، وَاِنَّہُ یَجْْري کَمٰا یَجْري اللَّیْلُ وَالنَّھٰارُ، وَکَمٰاتَجْري الشَّمْسُ، وَیَجْري عَلَیٌ آخِرِنٰا کَمٰا یَجْري عَلَیٰ اَوَّلِنٰا۔
قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اورسورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔"
اصول کافی میں ہے جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق سے آیت کریمہ:وَ الذیِنَ یَصِلونَ مَا امَرَ اللّٰہ ُ بِہ اَن یُّوْصَلَ (سورہ۱۳:آیت ۲۱) کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:
ھٰذِہ نَزَلَتْ فیْ رَحِمِ آلِ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلہِ وَقَدْ تَکُوْنُ فی قَرٰابَتِکَ، فَلٰاَ تَکُوَنَنَّ مِمَّنْ یَقُوْلُ لِلشَّیٍ اِنَّہُ فی شَيْءٍ وٰاحِد۔
یہ آیت کریمہ ہم آل محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن یہی آیہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہو سکتی ہے، تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو ایک خاص مقام اور چیز پر نازل شدہ آیت کو اس مقام اور چیز سے مختص کر دیتے ہیں۔
تفسیر فرات میں ہے:
و لوان الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات اولئک ماتت الآیة لمابقي من القرآن شيء ولکن القرآن یجري اولہ علی آخرہ مادامت السماوات والارض ولکل قومٍ آیة یتلوھاہم منہا من خیراواشر۔
اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھرو ہ قوم مر جائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مر جائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گزشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا برُی سر نوشت وتقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔
اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں۔ ( ۷) یہاں پر ہم امیرالمومنین کے کلام کے عربی متن کے بعض جملوں کی مختصر وضاحت کریں گے۔
ومنھا جا لایضل نجہ
قرآن وہ سیدھا راستہ ہے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے۔ قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا ہے جو اس کی پیروی کرے۔
وتبیاناً لا تھدم ارکانہ۔ اس جملے میں دو احتمال ہیں:
ا۔ پہلا احتمال یہ ہے کہ علوم و معارف اور دیگر قرآنی حقائق جن ستونوں پر استوار ہیں وہ مضبوط اور مستحکم ہیں ان میں انہدام اور تزلزل کا سوال تک پیدا نہیں ہوتا۔
ب۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں ہو سکتا ہے۔ اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے۔
وریاض العدل وغدرانہ
اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں۔
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت چاہے عقیدہ کے اعتبار سے ہو یا عمل کے اعتبار سے یا اخلاق کے اعتبار اس کے تمام پہلو قرآن میں موجود ہیں۔ پس قرآن عدالت کا محور اور اس کی مختلف جہات کا سنگم ہے۔
وَاَثَّافی اْلاِسْلاٰمِ۔ (۸)
اسلام کا سنگ بنیاد اور اساس ہے
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو استحکام اور ثبات حاصل ہوا ہے وہ قرآن ہی کی بدولت ہے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جو اس کے نیچے رکھے ہوتے ہیں۔
واودیة الحق و غیطانہ۔
حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے
اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حق کا سرچشمہ ہے اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پُرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی ہے جواس سرزمین پر اگی ہوں کیونکہ قرآن کے علاوہ کہیں اورسے حق نہیں مل سکتا۔
وبحر لاینزفہ المنتزفون
وہ ایسا دریاہے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے
اس جملے اور اس کے بعد والے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جو معانی قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع ہوہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں ہوتا۔
وآکامٌّ لاٰیَحوز عنھا القاصدون۔
وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کوسمجھنا چاہتے ہیں و ہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل ہے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں ہو سکتی۔
اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اس لیے کہ انہیں مکمل طور پر اپنی مراد مل جاتی ہے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب: قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموس الہیٰ ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے۔
قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام اور ان کے جدا مجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من قٰرأ عَشَرَ آیاتٍ فی لَیْلَةٍ لَمْ یَکْتُب مِنَ الْغٰافلین وَمَنْ قَرأَ خَمْسْینَ آیَةً کُتِبَ مِنَ الذّٰکِرینَ وَمَنْ قَرأَمِاَئةَ آیةًکُتِبَ مِنَ القٰانِتینَ وَمَنْ قَرءَ مَائَتَیْ آیةً کُتِبَ مِنَ الخٰاشِعین ومن قرأ ثَلٰثَمِائَةَ آیةً کُتِبَ من الفٰائِزینَ وَمَنْ قَرأَ خَمْسَمِائَةُ آیةً کُتِبَ مِنَ المُجْتَھدِینَ وَمَنْ قَرأَ اَلَفَ آیةً کُتِبَ لَہُ قِنْطٰارٌ مِنْ تَبَرٍ۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گااور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں۔ حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دو سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا اور جوشخص تین سو آتیوں کی تلاوت کرے اس کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائیگا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہِ خدا میں دے دیا ہو
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
اَلْقُرٰانُ عَھْدُ اللّٰہ اِلٰی خَلْقِہ، فَقَدْ یَنْبغَيلْلِمَرءِ المُسْلِمِ اَنْ یَنْظُرَ فی عَھْدِہِ، وَاَنْ یَقْرأمِنْہُ فی کُلِّ یَوْمٍ خَمْسینَ آیةً۔
قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہدو میثا ق ہے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے
آپ نے مزید فرمایا:
مٰایَمْنَع التّٰاجِر مِنْکُمْ الَمَشْغُولُ فی سُوْقِہِ اِذٰا رَجَعَ اِلیٰ مَنْزِلِہِ اَنْ لاٰ یَنٰامُ حَتّٰی یَقْرَأَ سورةً مِنَ الْقُرآنِ فَیُکْتَبُ لَہُ مکانَ کُلِّ آیةٍ یَقْرَأھٰا عشر حسنات ویمحی عنہ عَشَرَ سَےِّئٰات؟
جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھرواپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورة کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِتِلٰاِوَةِ القُرْآن، فَاِنَّ دَرَجٰاتُ الجَنَّةِ عَلٰی عَدَدِ آیاتِ القُرْآن، فَاِذٰاکٰانَ یَوْمَ القِیٰامَةِ یُقٰالُ لِقٰارِی الْقُرآنَ اِقْرَأْوَاِرْقِ، فَکُلَّمٰا قَرَأَ آیَةً رَقَیٰ دَرَجَةً۔
قرآن کی تلاوت ضرورکیاکرو (اس لیے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہو گا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ۔ پھر وہ جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا، اس کے درجات بلند ہوتے چلیں جائیں گے۔
حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایا ت کو یکجا کر دیا ہے شائقین ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں اور بحار الانور کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں ان میں بعض روایات کے مطابق قرآن دیکھ کر تلاوت کرنا زبانی اور ازبرتلاوت کرنے سے بہتر ہے۔
ان میں سے ایک حدیث یہ ہے:
اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی:
جُعْلتُ فِدٰاکَ اِنّي اَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَھْرِ قَلْبي فَاْقرأُہُ عَنْ ظَھْرَ قَلْبِي اَفْضَلُ اَوْ اُنْظُرُ فی الْمُصْحَفِ قٰاَل: فَقٰالَ لِي لَاٰ بَلْ اقرأَہُ وَانْظُر فی الْمُصْحَفِ فَھُوَ افْضَلُ اَمٰا عَلِمْتَ اِنَ النَّظُرَ فی الْمُصْحَفِ عِبٰادَةٌ۔ مِنْ قراالقُرْآنَ فی المُصْحَفِ مَتَّعَ بِبَصَرِہِ وَخَفَّفَ عَنْ وٰالِدَیْہِ وَاِنَ کٰانا کافِرین۔ (۹)
میری جان آپ پر نثار ہو میں نے قرآن حفظ کر لیا ہے۔ اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کے تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔
۱۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے۔ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی ہے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کیا جائے گا تو قرآن کے نسخے متروک ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب ہو جائیں گے بلکہ بعید نہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں۔
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے مثلاً معصوم نے فرمایا : ”مَتَّعَ بِبَصَرِہِ" یعنی۔ ۔ ۔ یہ بڑا جامع کلمہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رہے یا یہ مراد ہو سکتی ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند ہو تو اس کانفس خوشحال ہو جاتا ہے اوروہ اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی ہے اور وہ اسکے علوم و معانی میں فکرکرتا ہے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا ہے اور اس کی روح ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔
۳۔ بعض روایات میں گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوتِ قرآن کا چرچا ہے کیونکہ جب انسان اپنے گھر کے اندر قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام ہو جاتا ہے لیکن اگرقرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کر سکتا اور یہ تبلیغ اسلام کا بہت بڑا سبب ہے۔
شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس سے شعائر ِ الہیٰ قائم ہو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند ہو گی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری ہو جائے گا۔

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں: اِنَّ الْبَیْتَ الَّذي یُقْرَأ فِیہ الْقُرْآنُ وَیُذْکَرُ اللّٰہُ تَعٰالی فیْہ تَکْثُرُ بَرَکَتُہُ وَتَحْضُرُہُ الْمَلاٰئِکَةِ، وَتَھْجُرُہْ الشِّیاطینَ وَیُضِيٴُ لِاَھْلِ السَّمٰاءِ کَمٰا یُضِيٴُ الْکَوْکَبُ الدُّري لِاَھْلِ الْاَرْضِ وَانَّ الْبَیْتَ الَّذي لٰاَ یَقُرأُ فِیہِ الْقُرْآنُ وَلٰایُذْکِرُ اللّٰہُ تَعٰالٰی فِیہِ تَقِلُّ بَرَکَتہُ وَتَھْجُرُہُ اْلمَلاٰئِکَةِ وَتَحْضُرو الشَیٰاطین۔
وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی اور ذکرِ خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے شیاطین اس گھر کو ترک کر دیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے فرشتے اسے ترک کر دیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔"
قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند قاری قرآن کو نوازتا ہے روایات میں اتنی ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں رسول اکرم نے فرمایا:
مَنْ قَرَء َحَرْفاً مِنْ کِتٰابِ اللّٰہِ تَعٰالیٰ فَلَہُ حَسَنَةً وَالْحَسَنَةُ بِعَشَرِ اَمُثٰالِھٰا لا اَقُولُ ”الم“ حَرَفٌ وَلٰکِنْ اَلِفْ حَرْفٌ وَلاٰمُ حَرْفٌ وَمیمُ حَرْفٌ۔
”جو شخص کتاب الہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ الم یہ ایک حرف ہے بلکہ ’الف‘ ایک حرف ہے ’ل‘ دوسرا حرف ہے اور ’م‘ تیسرا حرف ہے۔
اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا ہے۔ چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر۱ میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے، کلینی رحمة اللہ علیہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی ہے۔ اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑ لیں جن کی نہ تو وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر ہے۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصتمہ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمد بن عبداللہ جویباری شامل ہیں۔ ابو عصتمہ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تونے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں تو اس (ابو عصتمہ) نے جواب دیا۔
اِنِیّٰ رَاَیْتُ النّٰاسَ قَدْاِعْرَضُوا عَنِ الْقُرْآنَ وَاشْتَغَلُوا بِفِقْہِ اِبی حَنِیْفَةِ وَمَغٰازي مُحَمَّد ِبنْ اِسْحٰقَ فَوَضَعْتُ ہٰذَا الْحدیثُ حسبةً۔
جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف ہو گئے ہیں اور ابو حنیفہ اور مغازی محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں نے قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربة الی اللہ گھڑ لیں۔
ابو عمرعثمان بن صلاح، اس حدیث کے بارے میں جواُبی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم سے منقول ہے لکھتا ہے:
قَدْ بَحَثَ بٰاحِثٌ عَنْ مَخْرَجِہِ حَتّٰی اِنْتَھٰی اِلٰی مَنْ اِعْتَرَفَ بِاَنَّہُ وَجَمٰاعَةٌ وَضَعُوْہُ۔ وَقَدْ اَخْطَا الوٰاحِدي وَجَمٰاعَةٌ مِنْ الْمُفَسَّرِینَ حَیْثُ اَوْدَعُوْہُ فی تَفٰاسِیْرِھِمْ۔ (۱۱)
اس حدیث کے بارے میں جوقرآن کے ہر سورہ کے فضائل میں نقل کی گئی ہے جوتحقیق کی گئی وہ اس نیتجہ پر پہنچی ہے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی ہونے کا اعتراف کر لیا ہے(میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے مل کر اسے گھڑا ہے)۔
واحدی اور دیگر مفسرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کر کے غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔
دیکھئے! ان لوگوں نے کتنی بڑی جرات کی ہے کہ رسولِ خدا کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی ہے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب ِ الہیٰ کا سبب قرار دیتے ہیں۔
کَذَلِکَ زَیَنَّ لِلْمُسّرِفِیْنَ مَاکَانَُوْا یَعْمَلُوْنَ۔ (۱۰:۱۲)
جو لوگ زیادتی کرتے ہیں انکی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کر دکھائی گئی ہیں۔

قرآن میں غور و فکر اور اسکی تفسیر: قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانی ٴقرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں فکر کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا (۴۷:۲۴)
تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔
اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عباس نے رسول اکرم سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:
اِعْرَبُوا الْقُرْآن اِلْتَمِسُوا غَراٰئِبَہ
قرآن کو بلند آواز سے پڑھا کرو اور اس کے عجائبات اور باریکیوں میں غور و خوض کیا کرو۔
ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:
حَدَّثَنٰا مَنْ کٰانَ یَقْرَئُنٰامِنَ الصَّحٰابَةِ اِنَّھُمْ کٰانُواَ یاْخُذُوْنَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ عَشَرَآیٰاتٍ فَلاٰ یَأْخُذُونَ فی الْعَشَرِ اْلاُخْریٰ یَعْلَمُوْا مٰافي ھٰذِہِ مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلْ۔
صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کر لیتے۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں۔ ۱
عثمان ابن مسعود اور اُبیّ کہتے ہیں:
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ کٰانَ یَقْرَئُھُمُ العَشَرَ فَلاٰ یُجٰاوِزُوَنْھٰا اِلٰی عَشَرٍ اُخْریٰ حَتّٰی یَتَعَّلَمُوْا مٰا ِفیھٰا مِنَ الْعَمَلِ فَیَعُلَمَھُمُ القُرْآنْ وَالْعَمَلُ جمیعاً۔ (۱۲)
رسول خدا قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے ہیں۔
ایک دن امیرالمومنین نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبداللہ انصاری کی تعریف کی توکسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم ہونے کے باوجود ) جابر کی تعریف کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ:اِنََّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدَّکَ اِلٰی مَعَادٍ (۲۸:۸۰)کی تفسیر سمجھتے تھے۔ (۱۳)
قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ چنانچہ بحا ر الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ لیکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لیے اخبارو روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہ حیات بناکر بھیجا ہے۔ جس سے آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر اور فکر نہ کیا جائے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی ہے۔
زہری نے امام زین العابدین سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:
آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیھٰا۔ (۱۳)
قرآن کی آیات خزانے ہیں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)

حواشی (۱) بحارالانوار ج۱۹، ص۔ صحیح ترمذی ابن عربی ج۱۱۔ ص۴۷۔ ابواب فضائل۔
(۲) ترمذی ۱۳ /۲۰۰۔ ۲۰۱ مناقب اہل بیت۔
(۳) سنن وارمی۔ ج۲۔ ص۴۳۵، کتاب فضائل القرآن میں بھی اس طرح موجود ہے۔ صحیح ترمذی، ج ۱۱، ۳۰، باب فضائل قرآن میں بھی معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ موجود ہے۔ بحار۔ ج ۹، ص۷ میں تفسیر عیاشی سے منقول ہے۔
(۴) بحار الانوار، ج ۱۹، ص۶۔
(۵) حدیث ثقلین کا حوالہ میں ۱۸ میں ذکر کیا گیا۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا ہے: قرآن اور عترت، رسول کے دو جانشین ہیں۔
(۶) نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶۔
(۷) مراة الانور، ص ۳۔ ۴۔
(۸) ریاض روضہ کی جمع ہے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ ہو۔ غدران جمع ہے غدیر کی، اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی ہے۔
(۹) ثانی جو امانی کے وزن پر ہے، اثفیہ کی جمع ہے۔ اثفیہ اس پتھر کو کہا جاتا ہے جس پر دیگچی رکھی جاتی ہے۔
(۱۰ اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبة عین الدولہ۔ ج۱، ص۳۷۰۔
(۱۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن۔
(۱۲) تفسیر قرطبی، ج، ص۷، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔
(۱۳) تفسیر قرطبی، ج،۱،ص۷۸۔ ۷۹، وفی الکافی کتاب فضل القرآن۔
(۱۴)تفسیر القرطبی ج۱ ص۲۶۔
(۱۵)اصول الکافی، کتاب فضل القرآن۔

۱
قرآن مجید کے ناموں کی معنویت علوم ومعارف قرآن قرآن مجید کے ناموں کی معنویت ڈاکٹر محمود احمد غازی دنیا میں ہر کتاب کا کوئی نام ہوتا ہے جس سے وہ جانی پہچانی جاتی ہے۔ قرآن پاک کا بھی ایک معروف نام ”القران“ ہے جس کے حوالے سے یہ کتاب دنیا بھر میں جانی جاتی ہے لیکن خود قرآن پاک میں اس کتاب کے کئی اور نام بھی دئیے گئے ہیں۔ ان میں سے چار نام ایسے نمایا ں ہیں جن کا ذکر مختلف سورتوں اور مختلف آیات میں ملتا ہے۔ قرآن پاک کے بہت سے ناموں میں خاص طور پر یہ چار نمایاں نام اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتے ہیں۔ یہ معنویت اتنی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کہ خود اس سے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کے شواہد اور مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔
یوں تو دنیا کا ہر مصنف اپنی کتاب کا کوئی نہ کوئی نام رکھ ہی دیتا ہے، لیکن دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے کہ جس کا نام اس کتاب پر اتنا مکمل طور پر صادق آتا ہو کہ یہ کہا جا سکے کہ اس کتاب کے نام سے زیادہ کوئی نام اس کتاب پر صادق نہیں آسکتا۔ یہ بات قرآن مجید کے علاوہ کسی کتاب کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ مثال کے طورپر مشہور کتاب ” داس کپیٹال“ کارل مارکس کی لکھی ہوئی ایک معروف اور اہم کتاب ہے جس کا موضوع سرمایہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ کے موضوع پر دنیا میں ہزاروں کتابیں موجود ہوں گی۔ ممکن ہے ان میں سے بعض کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی ہوں، اور فرض کریں اگر یہ سب کتابیں کارل مارکس کی کتاب سے اچھی نہ بھی ہوں بلکہ فرض کر لیں کہ ساری کتابیں اس سے کم درجہ ہی کی ہوں تب بھی ان میں سے ہر کتا ب کو سرمایہ کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ جو کتاب بھی سرمائے کے موضوع پر ہے تو آپ اسے داس کپیٹال کہہ سکتے ہیں اور کوئی شخص اس نام پر نہ اعتراض کر سکتا ہے نہ اس نام کو غلط قرار دے سکتا ہے۔ اس لیے اس نام میں کوئی ایسی خصوصی معنویت نہیں ہے جو کارل مارکس کی داس کپیٹال کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہ پائی جاتی ہو اور اس کی وجہ سے یہ نام اس موضوع کی کسی اور کتاب کے لئے آپ استعمال نہ کر سکیں۔
” دیوان غالب“ کو لیجئے جو اردو ادب تو کیا عالمی ادب کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ لیکن لفظ ” دیوان غالب“ میں کیا معنویت ہے، کچھ نہیں۔ ہر وہ شاعر جس کا تخلص غالب ہو اپنے مجموعہ کلام کو دیوان غالب کے نام سے موسوم کر سکتا ہے۔ اس لیے کہ ہرصاحب دیوان شاعر کا دیوان ہوتا ہے جو اس کے نام سے معروف ہوجاتا ہے۔ اس میں نہ کوئی خاص بات ہے اور نہ کوئی منفرد انداز کی معنویت۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں شاعر ہوئے۔ ہر شاعر کے مجموعہ کلام کو آپ اس کا دیوان کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح سے آپ دیکھتے جائیں تو دنیا میں جتنی کتابیں ہیں ان کے نام کے بارے میں آپ یقین سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نام اس کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا۔ کسی کتاب کے بارے میں ایسا دعویٰ کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ صرف ”قرآن“ ایسا نام ہے جو صرف ایک ہی کتاب پر صادق آتا ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی کتاب پر اس مفہوم میں اس منفرد نام کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔
القرآن کے لغوی معنی ہیں وہ تحریر جسے باربار پڑھا جائے۔ لہذا باربار پڑھی جانے والی کتاب کو عربی زبان میں قرآن کہا جائے گا۔ پھر جب اس میں حرف تخصیص یعنی الف لام لگتا ہے تو اس میں مزید تخصیص پیدا ہوجاتی ہے، یعنی القرآن۔ اس اضافہ سے اس میں یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ وہ واحد چیز جو باربار کثرت اور تسلسل کے ساتھ پڑھی جارہی ہے اور اس کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اتنے تواتر اور تسلسل سے پڑھی جارہی ہو۔ القرآن کا یہ لفظی مفہوم ذہن میں رکھیں۔
اس مفہوم کے بعد میں آپ کے سامنے ایک دعویٰ پیش کرتا ہوں اور اس دعویٰ کی ایک دلیل بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ دعویٰ یہ ہے کہ قرآن پاک دنیا کی تاریخ میں واحد کتاب ہے جو گذشتہ چودہ سو سال سے روئے زمین پر اتنے تسلسل سے پڑھی جارہی ہے اور ہر وقت، ایک ایک وقت میں، بلکہ ایک ایک لمحہ میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں آدمی اس کو مسلسل اور تواتر سے اس طرح پڑھ رہے ہیں کہ اس تلاوت میں ایک سیکنڈ کے ایک ہزارویں حصہ کا بھی وقفہ نہیں آتا۔ روئے زمین کا اگر نقشہ ہمارے سامنے ہو اوراس کو سامنے رکھ کر اس دعویٰ پر غور کیا جائے کہ چودہ سو برس سے لے کر اس لمحہ تک اور آئندہ جب تک یہ دنیا موجود ہے ایک سیکنڈ کا وقفہ اس روئے زمین پر ایسا نہیں آیا کہ اس وقفہ میں لاکھوں آدمی کہیں نہ کہیں قرآن پاک کی تلاوت نہ کر رہے ہوں تو ذرا سا غور کرنے سے یہ حقیقت واضح اور مبرہن ہو جاتی ہے، اور یہ صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ دنیا میں ایک لمحہ کے لئے بھی کہیں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ محض دعویٰ نہیں ہے، بلکہ اس کی دلیل خود آپ کے سامنے موجود ہے۔ روئے زمین پر ایک ارب بیس کروڑ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔ دنیا کے نقشے پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ روئے زمین کے جنوب مشرقی کونے میں فجی اورآاسٹریلیا کے علاقے شامل ہیں۔ فجی میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان رہتے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا میں چار لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں، جو اکثر وبیشترآسٹریلیا کے بالکل جنوب مشرق کے علاقہ نیو ساؤتھ ویلز میں رہتے ہیں۔ جب فجی اورآسٹریلیا میں صبح کی نماز کا وقت ہوتا ہے اور یہ یاد رہے کہ دنیا میں صبح سب سے پہلے فجی اورآسٹریلیا ہی میں ہوتی ہے تو وہاں کے مسلمان کیا کرتے ہوں گے؟ آپ مان لیجئے کہ نماز پڑھنے والوں کا اوسط مسلمانوں میں بہت کم رہ گیا ہے۔ فرض کر لیں کہ مسلمان قوم میں بہت سے لوگ لا مذہب اور بے دین ہو گئے ہیں اور ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا ہے۔ کوئی مخالف زیادہ سے زیادہ یہی فرض کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات سے کوئی بڑے سے بڑا مخالف اسلام بھی اختلاف نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد میں سے ایک چوتھائی یعنی پچیس فی صد لوگ ضرور نماز پڑھتے ہوں گے۔ اگر پچیس فیصد لوگ نماز پڑھتے ہوں تو گویا کم از کم ایک لاکھ مسلمان اس علاقے میں ایسے ضرور ہیں جو روزانہ علی الصباح فجر کی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اور کھڑے ہو کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں ہمیشہ سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد بقدر توفیق قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں۔ مان لیجئے کہ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے ان دس فیصد میں بھی دس فیصد ہیں تو پھر بھی کئی ہزار مسلمان وہ ہیں جو قرآن پاک کھول کر تلاوت کر رہے ہوں گے، اور جو باقاعدہ تلاوت نہیں کرتے وہ بھی کم از کم نماز میں سورةفاتحہ اور سورة اخلاص وغیرہ کی تلاوت ضرور کرتے ہیں۔ اول تو یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ لیکن بڑے سے بڑا مخالف بھی چند ہزار کا اعتراف ضرور کرے گا اور نہیں کرتا تو آپ اسے فجی اور آسٹریلیا لے جا کر دکھا دیجئے۔
اس کے بعد جب آسٹریلیا میں فجر کی نماز کا وقت ختم ہونے لگتا ہے تو انڈونیشیا میں فجر کی نماز کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں بیس کروڑسے زائد مسلمان بستے ہیں۔ پورے ملک میں ساڑھے پانچ ہزار جزائر ہیں جو تین ہزار میل کے رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ مشرق سے لے کر مغرب تک جزائر کا ایک لمبا سلسلہ آپ نقشہ پر دیکھ لیجئے۔ ان بیس کروڑ کی آباد ی میں اگر دس فیصد بھی نماز پڑھتے ہوں تو پہلے مشرقی علاقہ میں فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے پہلے مشرقی جزائر میں فجر کی نمازوں سے سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے، پھر وسطی جزائر میں پھر آخر میں مغربی جزائر میں۔ یاد رہے کہ انڈونیشیا کے مغربی جزائر ملائیشیا کے ساتھ ایک ہی عرض بلد پر واقع ہیں۔ یوں فجر کا وقت ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بیک وقت شروع ہو جاتا ہے، اور جونہی وہاں یہ سلسلہ ختم ہوتا ہے تو بنگلہ دیش میں شروع ہو جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ختم ہوتے ہی بھارت میں شروع ہو جاتا ہے جہاں بیس کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں۔
ابھی بھارت کے مسلمان نماز پڑھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ فجی میں ظہر کا وقت داخل ہو جاتا ہے وہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ اب گویا دو سلسلے ہوگئے۔ اس روئے زمین پر تلاوت قرآن پاک کی دو لہریں چل رہی ہیں، یہ دو لہریں یا سلسلے یا دو (Waves) جو مشرق سے شروع ہو کر مغرب کو جار ہی ہیں۔ ہندوستان میں ابھی یہ لہر ختم نہیں ہوتی کہ پاکستان میں شروع ہوجاتی ہے اور پاکستان کے بعد پورا سنٹرل ایشیا، پورا افغانستان، پورا چین جہاں کروڑوں مسلمان آباد ہیں اس لہر میں شامل ہو جاتے ہیں،اور یوں اس وسیع وعریض خطہ میں تلاوت قرآن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے پاکستان کے چودہ کروڑ میں سے اگر بیس مسلمان بھی قرآن پڑھتے ہوں تو کم وبیش ستر اسی لاکھ مسلمان پاکستان بھر میں فجر کے وقت تلاوت اور نماز میں مشغول ہوتے ہیں اگرچہ یہاں تلاوت قرآن کرنے والوں کی اصل تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ جب نماز فجر کا یہ سلسلہ مصر تک پہنچتا ہے تو فجی میں عصر کا وقت داخل ہو چکا ہوتا ہے۔ اس طرح بیک وقت تین سلسلے شروع ہو جاتے ہیں، اور جب یہ سلسلہ آگے پہنچتا ہے اور مراکش میں داخل ہوتا ہے تو پیچھے فجی میں مغرب کا وقت داخل ہو جاتا ہے۔ اب چار سلسلے ہو گئے اور جب امریکہ میں جہاں نوے لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں فجرکا وقت داخل ہو چکا ہوتا ہے اور وہ فجر کی نماز پڑھنا شروع کرتے ہیں تو فجی میں عشاء کا وقت شر وع ہوجاتا ہے، یوں روئے زمین پر نمازوتلاوت کے پانچ سلسلے ایسے چلتے رہتے ہیں کہ جن میں چاروں طرف سے تسلسل قائم رہتا ہے۔ اس میں کبھی وقفہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو شک ہوں تو وہ ٹیلیفون کرکے معلوم کر سکتا ہے کہ دنیا میں کہاں کہاں اس وقت کون کونسی نمازیں ادا کی جارہی ہیں اور کہاں کہاں تلاوتیں ہو رہی ہیں۔ یوں بھی دنیا کا نقشہ سامنے ہو، نمازوں کے اوقات اور دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا علم ہو اور سورج کی حرکت کا اندازہ ہو تو ٹیلی فون کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ نقشہ سے ہی پتہ چل جائے گا کہ چوبیس گھنٹے میں نمازو تلاوت کی ہر وقت یہ پانچ روئیں مسلسل اور متواتر چلتی رہتی ہیں، اور روئے زمین پر کہیں نہ کہیں ہزاروں، لاکھوں مسلمان قرآن پاک کی تلاوت یا قرآن پاک کے کسی ایک حصہ کی تلاوت یا سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔
اس اعتبار سے اگر ہم یہ کہتے ہیں تو درست کہتے ہیں کہ القرآن وہ واحد کتاب ہے جس پر یہ لفظ اس کمال اور بھر پور طریقہ سے صادق آتا ہے کہ کسی اور کتاب پر صادق نہیں آتا اور دنیا میں کوئی بھی کتاب ایسی نہیں ہے جو اتنے تسلسل کے ساتھ اور اتنی کثرت کے ساتھ پڑھی جار ہی ہو کہ اس میں چودہ سو سال سے کوئی وقفہ ہی نہ آیا ہو۔ وقفہ آہی کیسے سکتا ہے، اس تسلسل میں ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا وقفہ بھی اس لیے نہیں آ سکتا کہ پانچ روئیں متواتر چل رہی ہیں۔ لہذا القرآن ایسا نام ہے کہ یہ کسی اور کتاب پر پورا اتر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب کے لئے نام بھی ایسا رکھا ہے کہ اس ایک کتاب کے علاوہ کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جو القرآن تو کیا قرآن بھی کہلا سکے۔ یہ نام ٢٦مرتبہ قرآن پاک میں استعمال ہوا ہے۔
دوسرا نام اس کتاب کا ”الکتاب“ ہے۔ وہ بھی بڑی اہمیت اور معنویت رکھتا ہے اللہ رب العزت کی جو مجموعی اسکیم ہے انبیاء کی اور نبوت کے سلسلہ کی کتابیں بھیجے جانے اور شریعتیں اتارے جانے کی، اس ساری اسکیم سے اس نام کا بڑا گہرا تعلق ہے۔
قرآن مجید کو باربا ر الکتاب کہا گیا ہے۔ آغاز میں ہی ارشاد باری ہے :
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ۔
یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتَابُ۔
سب تعریفیں اس اللہ کی جس نے اپنے بند ہ پر الکتاب اتاری۔
الکتاب کے معنی ہیں (The Book)دی بک۔ جب انگریزی میں دی(The) اور عربی میں ال، تخصیص کے حرف کے طور پر لگایا جاتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں صرف وہ متعین چیز جس کا تذکرہ ہے۔ یعنی وہ متعین کتاب جس کا اس سیاق وسباق میں تذکرہ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کہ قرآن پاک نے باربار خود کو الکتاب کہا ہے اس کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے پچھلی کتابوں کا تذکرہ بھی ہے، تورات کا بھی ذکر ہے اور انجیل اور زبور کا بھی ذکر ہے۔ ان تین کتابوں کے نام تو لئے گئے ہیں۔ بقیہ کتابوں کے نام نہیں لئے گئے۔ بقیہ کتابوں کا ذکر عمومی انداز میں ہے۔ مثال کے طورپر سورة اعلیٰ میں صحف ابراہیم وموسیٰ کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے:
اِنَّ ہٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبَرَاہیْمَ وَمُوْسٰی۔
یعنی یہی پیغام پرانے صحیفو ں میں بھی ہے۔ ابراہیم کے صحیفوں میں بھی اور موسیٰ کے صحیفوں میں بھی۔
اب جہاں تک حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا تعلق ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سے خامس خمس یعنی عہد نامہ قدیم کی پہلی پانچ کتابیں مراد ہیں جن کو تورات کہا جاتا ہے۔ اگرچہ تورات کو کہیں بھی قرآن میں صحیفے نہیں کہا گیا۔ اس لیے قطعی طورپر ہم نہیں کہہ سکتے کہ صحیفے جو یہاں کہاگیا ہے ان سے مراد تورات ہی ہے یا کوئی اور صحیفے مراد ہیں۔ غالب خیال البتہ یہی ہے کہ اس سے تورات مراد ہو۔ لیکن حضرت ابراہیم کے صحیفے، جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم پر بھی صحیفے یا کتابچے الگ الگ اجزاء، سورتوں یا پمفلٹوں کی شکل میں اتارے گئے تھے۔ جن کا قرآن پاک کی ان آیات میں ذکر ہے۔ یقیناً یہ صحیفے ان تین مشہور کتابوں کے علاوہ ہیں۔
قرآن مجید میں ایک جگہ پرانی کتابوں کا عمومی انداز سے ذکر کیاگیا ہے:
وَاِنَّہ‘ لَفِی زُبُرِالْاَوَّلِیْن۔
اور یہی پیغام پہلے لوگوں کی (پرانی) کتابوں میں بھی بیان کیا گیا تھا۔ گویا کچھ اور قدیم اور پرانی کتابیں بھی ایسی تھیں جو اللہ نے پہلے اتاری تھیں جن کے ناموں اور مندرجات کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے۔ اس اجمال کی مزید وضاحت ایک روایت سے ہوتی ہے جو مسند امام احمد بن حنبل میں بیان ہوئی ہے۔ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے اور ان میں سے ٣١٥صاحب کتاب تھے۔ اس طرح گویا کتابوں کی تعداد ٣١٥کے لگ بھگ تھی۔ لگ بھگ اس لیے کہا گیا کہ بعض کتابیں ایسی بھی ہیں کہ وہ ایک سے زائد پیغمبروں کو دی گئیں۔ اس اعتبار سے کتابوں کی تعداد بہرحال سینکڑوں میں ضرور ہو گی۔ کتنی ہو گی یہ ہم قطعیت سے نہیں کہہ سکتے۔ قرآن پاک میں کئی جگہ ان کتابوں کا اجمالی ذکر آیا ہے، اور ایک صاحب ایمان کے لئے ا ن سب کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایمان رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں اتاری ہیں چاہے ان کے نام ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں، چاہے ان کی تفصیلات ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں ہم ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں۔ یہ بات اسلامی عقیدہ کا جزو ہے جس کو ماننا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے۔
ان کتابوں کے لئے قرآن پاک میں دو الفاظ استعمال ہوئے اور ان دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ قرآن پاک کے اس نام ” الکتاب“ سے اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ ان سب کتابوں کے لئے جن کی تعداد تین سو پندرہ کے لگ بھگ ہے قرآن میں کئی جگہ کتب (کتابیں) کا لفظ بصیغہ جمع استعمال کیا گیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آخری آیات میں ارشاد ہوا ہے :
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلَأئِکَتِہ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ۔
یعنی رسول اللہ اور سب اہل ایمان اللہ، اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں اور اس کے رسالوں پر ایمان لائے ہیں۔
یہاں کتب (کتابوں، بصیغہ جمع) سے مراد وہ ساری کتابیں ہیں جو اللہ نے اتاریں، بشمول قرآن مجید۔ یہاں اللہ رب العزت نے کتب کا لفظ استعال کیا ہے جو جمع کے لئے ہے یعنی بہت ساری کتابیں، لیکن ایک دوسری جگہ پہلی تمام کتابوں کے لئے ” الکتاب“ کا لفظ (بصیغہ واحد) استعمال کیا گیا ہے۔ سورة مائدہ کی آیت ٤٨میں جہاں قرآن مجید کا تعارف کرایا گیا ہے وہاں فرمایا :
مُصَدِّقًالِّمٰا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ۔
کہ قرآن اپنے سے پہلے آنے والی ” الکتاب“ کی تصدیق کرتا ہے اور اس کا محافظ اور اس پر حاوی ہے۔
یہاں بھی دونوں صیغے مفرد کے ہیں۔ اگرچہ کتابیں جن کی طرف اشارہ مقصود ہے بہت سی ہیں، لیکن الکتاب کا لفظ اور علیہ کی ضمیر دونوں صیغہ واحد میں استعمال ہوئے ہیں۔ حالانکہ خود قرآن نے بہت سی کتابوں کا ذکر کیا ہے جن کی تعداد جیسا کہ ہم نے دیکھا سینکٹروں میں ہے۔ پھر الکتاب اور علیہ دونوں کے لئے صیغہ مفرد کیوں استعمال کیا گیا۔ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔ یہ ایک سوال ہے کہ قرآن کو بھی الکتاب کہا گیا اور پچھلی ساری کتابوں کو بھی مجموعی طور پر الکتاب کہا گیا؟آخر کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ صیغہ جمع میں الکتب کا لفظ ہو یا صیغہ واحد میں الکتاب کا لفظ ہو درست ہیں۔
ان میں نہ کوئی تعارض ہے نہ کوئی تضاد، بلکہ اس اسلوب بیان سے ایک چیز کے دو پہلوؤں کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ اللہ رب العزت جو خالق کائنات ہے اس کا ارشاد ہے کہ مَایُبَدِّلَالْقَوْلَ لُدَی (میرے ہاں بات بدلتی نہیں ہے)جو بات اس نے پہلے دن کہہ دی تھی وہی بات اس نے بعد میں بھی کہی۔ جو تعلیم اس نے حضرت موسیٰ کو دی تھی وہی تعلیم حضرت عیسیٰ کو بھی دی، اور جو تعلیم حضرت عیسٰی کو دی وہی ہمارے نبی کو بھی دی۔ لہذااللہ کی تعلیم میں کبھی کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ اس نے پہلے دن بھی توحید کی تعلیم دی تھی، رسالت پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا تھااور آخرت پر ایمان کا سبق دیا تھا،مکارم اخلاق کی اور برے کردار سے بچنے کی تعلیم پہلے بھی دی تھی اور انہی چیزوں کی تعلیم آج بھی دی۔ تفصیلات میں جو فرق نظر آتا ہے وہ لوگوں کے اپنے حالات بدلنے کی وجہ سے ہے۔ جو ں جوں انسانی تمدن نے ترقی کی اسی لحاظ سے تعلیم کی تفصیلات میں اضافہ ہوتا رہا۔ لیکن دین کی جو بنیادی تعلیم روز اول تھی وہ ہر زمانے میں ایک ہی رہی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ نے جتنی کتابیں اتاریں ان سب کو آپ ایک کتاب کہہ سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے کہ ان کا مصنف ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، کہ لوگ اچھے انسان بن جائیں، آخرت میں ان کو فلاح حاصل ہو اور وہ جہنم سے نجات پاکر جنت میں داخل ہو جائیں۔ یہی مقصد وحید تھا ان سب کتابوں کے اتارے جانے کا۔ ان میں سے ہر کتاب کا سبق یہ تھا کہ انسان اللہ سے اپنا تعلق جوڑے، ایمان اختیار کرے، تقویٰ کا رویہ اپنائے، اور اعمال صالحہ پر کاربند ہو۔ اس اعتبار سے ان سب کتابوں کو ” ایک کتاب“ کہا جا سکتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھئے کہ مثلاً ایک مصنف آج اردو میں ایک کتاب لکھتا ہے جس میں وہ یہ بتاتا ہے کہ پاکستان کے باشندے اچھے انسان کس طرح بنیں، اچھا اخلاق ان میں کیسے آجائے، کردار کی تعمیر کیسے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب میں دلائل دیئے جاتے ہیں، مثالیں دی جاتی ہیں اور تعمیر کردار کا پیغام دیا جاتا ہے۔ فرض کیجئے وہ کتاب بہت مقبول ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بیرون ملک مثلاً بنگلہ دیش کے مسلمان مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کے لئے بھی تیار کر دیا جائے۔ اب یہ مصنف جو اتفاق سے بنگالی زبان بھی جانتا ہے اس کتاب کے مضامین کو بنگالی زبان میں بھی شائع کراتا ہے۔ لیکن بنگالی ایڈیشن میں وہ مصنف ان مقامی حوالوں اور مثالوں کو بدل دیتا ہے جن کا تعلق صرف پاکستانی معاشرہ سے تھا، اور پاکستانی لوگ ہی ان مثالوں کو سمجھ سکتے ہیں مثلاً پاکستانی ایڈیشن میں کسی سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کا ذکر ہو سکتا ہے، لیکن بنگالی ایڈیشن میں اس سیاق وسباق میں تربیلہ ڈیم کے بجائے فرخاڈیم کا حوالہ لکھا جاتا ہے، جس سے وہ لوگ نسبتاً زیادہ مانوس ہیں۔ یہاں بلوچستان کے حوالے سے اگر اونٹوں کا ذکر ہے تو بنگالی ایڈیشن میں کشتیوں کی مثال دی جائے گی۔ اسی طرح یہاں کی مشہور شخصیتوں کے حوالوں کی جگہ بنگلہ دیش کی شخصیتوں کا حوالہ دیا جائے گا جسے وہ لوگ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں۔
اسی طرح اب یہ کتاب ترکی کے لوگوں کے علم میں آئی اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس کا ایک ایڈیشن ان کیلئے بھی شائع کر دیا جائے، اب اس مصنف نے ترکی کے حوالے، شخصیتیں اور مقامات کا ذکر کرکے وہ کتاب ترکی کے لئے تیار کر دی۔ اب دیکھاجائے تو کتاب کا بنیادی پیغام کہ انسانوں کو کس طرح بہتر انسان بنایا جائے وہ تو ایک ہی ہے، خواہ وہ پاکستانی ہوں، بنگالی ہوں، یا ترکی ہوں۔ بنیادی اخلاقی تعلیمات سب کے لئے ایک ہی ہیں۔ صرف مثالیں، حوالے وغیرہ مختلف ہیں۔ اب چونکہ مصنف بھی ایک ہی ہے، کتاب بھی ایک ہی ہے، پیغام بھی ایک ہے، اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس مصنف نے ایک کتاب لکھی۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے تین کتابیں لکھی ہیں اس لئے کہ وہ تین مختلف علاقوں اور تین مختلف زبانوں میں لکھی گئیں۔
قریب قریب یہی معاملہ بلا تشبیہ کتب سماویہ کا بھی سمجھنا چاہیے۔ اس اعتبار سے قرآن مجید نے ان ساری کتابوں کو کتابیں بھی قرار دیا، اور ایک الکتاب بھی قرار دیا ہے۔ الکتاب وہ سب اس اعتبار سے ہیں کہ ان کا بھیجنے والا ایک، ان کا پہنچانے والا ایک، ان کا بنیادی پیغام ایک، ان کا مقصد ایک، اور ان سے بالآخر جو نتیجہ نکلنے والا ہے وہ ایک، اسی طرح ان کو الگ الگ کتابیں بھی قرار دیا گیا، اس اعتبار سے کہ وہ مختلف انبیاء پر اتاری گئیں، مختلف زبانوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف علاقوں میں ان کو اتارا گیا، مختلف اوقات میں ان کو اتارا گیا، ان اسباب کی بنیاد پر ان کو جداگانہ کتابیں بھی کہا جا سکتا ہے۔
اب آپ دیکھئے کہ قران مجید یہاں جب اپنے آپ کو الکتاب کہتا ہے تو وہ گویا دو باتیں کہتا ہے۔ ایک تو وہ اپنی ایک بنیادی صفت کا تذکرہ کرتا ہے کہ اس وقت یہ اسی طرح کی الکتاب (دی بک) ہے جس طرح ایک زمانہ میں تورات الکتاب تھی یا انجیل الکتاب تھی۔ یعنی اللہ کی مرضی کی واحد ترجمان اور اس کے قانون اور نظام کا واحد اور قطعی ماخذ۔ دوسری بات جو اس پہلی بات سے آپ نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اب رہتی دنیا تک کے لئے یہی الکتاب ہے۔ اس لیے کہ اس کو لانے والا خاتم الانبیاء ہے اور جس امت پر یہ اتاری گئی و ہ خاتم الامم ہے،لہذا لا محالہ اس کو بھی خاتم الکتب ہونا چاہیے۔
دوسری جگہ جہاں الکتب (کتابوں) کا ذکرکرتا ہے وہاں ایک تو اشارہ پچھلی کتابوں کی طرف ہے، قرآن ان سب کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کا سارا پیغام درست تھا۔ اس لیے کہ ہم ہی نے ان کو بھی اتار ا تھا، ہم اس پہلی بات کی آج تصدیق کرتے ہیں اور کنفرم کرتے ہیں کہ وہ صحیح بات تھی اورآج بھی وہی بات کہتے ہیں جو پہلے کہی تھی۔ گویا مصنف خود یہ کہہ رہا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں اگلی صفت یہ بتائی کہ قرآن ان کتابوں کی تصدیق کے ساتھ ساتھ مہیمنا علیہ بھی ہے، یعنی یہ اس سابقہ کتاب(یا کتابوں) پر اس طرح حاوی ہے کہ اس کے جو بنیادی عناصر ہیں یہ ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور گویا اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔
عربی زبان میں بڑے جامع قسم کے الفاظ پائے جاتے ہیں جو مفہوم کو اس طرح اداکرتے ہیں کہ اور کسی زبان میں وہ مفہوم اس جامعیت کے ساتھاادا نہیں ہوتا۔ ”مہیمن“ کہتے ہیں اس طرح حاوی ہو جانے کو جس طرح وہ مرغی کہ جب کوئی چیل یا کوا اس کے بچوں پر جھپٹنے لگے تو وہ پر پھیلا کر اپنے سارے بچوں کو اپنے پروں کے نیچے سمیٹ کر ایسے بیٹھ جاتی ہے کہ کوئی بچہ اس کا باہر نہیں رہتا، اور یوں وہ اپنے سب چوزوں کو اپنی حفاظت میں لے لیتی ہے۔ اس کیفیت کو ”مہیمن“ کے لفظ سے ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی قرآن میں ”مہیمن“ آتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو اس طرح اپنے قبضہ اور حفاظت میں لیے ہوئے ہے کہ کوئی قوت ایسی نہیں ہے کہ اس کی کائنات میں دخل اندازی کر سکے یا خالق کائنات کے کام میں مداخلت کر سکے۔ قرآن پاک کیلئے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے، جس کا صاف مفہوم یہ ہے کہ قرآن پاک پچھلی آسمانی کتابوں میں دی گئی تعلیمات کا اس طرح محافظ ہے اور ان کے عطر اور جوہر کو اس نے اس طرح اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے کہ کوئی اس میں دخل اندازی کرکے اس کو مٹا نہیں سکتا۔
لوگوں نے تورات کو مٹا دیا، انجیل کو مٹا دیا، دیگر کتابوں میں ملاوٹیں کر دیں۔ لیکن تورات میں کیا تھا آج ہمیں معلوم ہے، اس لیے کہ حضرت موسیٰ نے جو کچھ کہا وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے۔ زبور میں جو پیغام دیا گیا تھا وہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ حضرت داؤد کی تعلیم کیا تھی اور چونکہ قرآن مجید محفوظ ہے لہذا ساری کتابوں کی بنیادی تعلیم بھی محفوظ ہے اور یوں ہر نبی نے جو تعلیم دی وہ قرآن میں محفوظ کر دی گئی ہے۔
قرآن میں یہ جو باربار کہا گیا کہ فلاں نبی کا ذکر کرو، فلاں نبی کا ذکر کرو، یہ اس لیے نہیں ہے کہ بلاوجہ قصے سنانے مقصود ہیں۔ بلکہ یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ہر علاقہ میں، ہر زمانہ میں، ہر نبی نے یہی بنیادی تعلیم دی ہے کہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی طرح آخرت، رسالت اور مکارم اخلاق کے متعلق ایک جیسی تعلیم دی گئی۔ اس لیے الکتاب کا لفظ قرآن پاک کے لئے بھی استعمال ہوا اور پہلی تمام آسمانی کتابوں کے لئے بھی استعمال ہوا ہے۔ جس میں یہ بتا یا گیا ہے کہ یہ کتاب وہ واحد کتا ب ہے جو پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے خلاصہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ان پرانی کتابوں کی ہمیں کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ جو کچھ ہے وہ اب اس کتاب میں موجود ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اب یہی واحد کتاب ہے جو ان ساری کتابوں کی قائم مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب ان کتابوں کے صرف نام اور حقیقت پر ہم ایمان رکھتے ہیں کہ جب وہ اتاری گئی تھیں،تو وہ صحیح تھیں، اور جس زمانے کے لئے وہ اتاری تھیں اس وقت تک کے لئے صحیح تھیں۔ ان سب کی تعلیم اور خلاصہ کے طور پر اب اس کتاب یعنی قرآن مجید میں موجود ہے۔ یہ ہے مفہوم الکتاب کا جو قرآن پاک کے نام کے طورپر کئی مقام پر آیا ہے۔
اس کتاب کا تیسرا اہم اور معنی خیز نام الفرقان ہے۔ سورة فرقان کا آغاز ہی اس اعلان سے ہوتا ہے کہ وہ ذات انتہائی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل فرمائی۔ عربی زبان میں فرقان مصدر کا وزن ہے اور عربیت کے قاعدہ سے اگر مصدر کے وزن کو کسی صفت کے مفہوم میں استعمال کیا جائے تو اس میں دوام اور تسلسل کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے فارق اور فاروق سے مراد وہ چیز یا وہ فرد ہے جو کوئی سی دو چیزوں کے درمیان فرق کرتا ہو۔ فاروق میں مبالغہ کا مفہوم بھی موجود ہے اور اصطلاحاً فاروق سے مراد وہ ہستی یا شخصیت ہے جو حق وباطل کے درمیان فرق کردے۔ جو جھوٹے اور سچے کو الگ الگ کر دے، جو کھرے اور کھوٹے کو جداجدا کر دے۔ فرقا ن کا بھی یہی مفہوم ہے۔ لیکن اس میں مبالغہ کے ساتھ ساتھ دوام اور تسلسل کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ لہذا فرقان کے معنی ہیں وہ چیز جو حق وباطل میں دائمی طورپر تمیز کر سکے اور کھرے کھوٹے کو الگ الگ کرکے یہ بتا سکے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ گویا فرقان سے مراد وہ دائمی کسوٹی ہے جو پرکھ کر یہ بتا سکے کہ سونا کھرا ہے کہ کھوٹا۔
قرآن مجید نہ صرف فرقان ہے بلکہ ”الفرقان“ ہے، یعنی وہ واحد اور مخصوص کسوٹی جو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ الفرقان کے آجانے کے بعد اب کسی فارق یا کسی اور فرقان کی ضرورت نہیں رہی۔ اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حق وباطل کی واحد کسوٹی یہی الفرقان ہے۔ اب یہی الفرقان وہ ”المیزان“ ہے جس پر تول کر دیکھا جائے گا کہ کون اس پر پورا اترتا ہے اور کون ہلکا ثابت ہوتا ہے۔ اب جو کچھ اس دائمی کسوٹی کی پرکھ پر پورا اترتا ہے وہ صحیح اور قابل قبول ہے، اور جو پورا نہیں اترتا وہ غلط اور ناقابل قبول ہے۔ یہ ایک فولادی چوکھٹا ہے جس سے کسی بھی چیز کا صحیح اور مکمل ہونا جانچا جائے گا، جو جتنا پورا ہے اتنا مکمل ہے، اور جو جتنا جھوٹا ہے اتنا کھوٹا ہے۔ یہ سارے مفاہیم الفرقان کے لفظ میں شامل ہیں۔
اس کتاب کا چوتھا نام” الذکر“ ہے۔ ذکرکے معنی یاددہانی کے ہیں۔ قرآن پاک میں کئی آیات میں قرآن مجید کو” الذکر“کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے۔ سورة حجر کی آیت ٩میں جہاں قرآن پاک کی حفاظت کا ذکر ہے وہاں الذکر ہی کا نام استعمال فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِناّٰ لَہ‘ لَحَافِظُونَ۔
کہ ہم نے ہی اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
یاد دہانی کالفظ اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے۔ اگر آپ پہلی مرتبہ کسی کو کوئی خط لکھیں یا پہلی مرتبہ کسی سے کوئی سوال، مطالبہ یا درخواست کریں تو آپ اس کو یاددہانی کے لفظ سے تعبیر نہیں کرتے۔ یاددہانی اس صورت میں ہوتی ہے جب آپ وہ بات پہلے کہہ چکے ہوں۔ کوئی بات، تحریر یا خط اگر ایک بار بھیجا جا چکا ہو اور اس پر عمل نہ ہوا ہو، یا اس کو غلط سمجھا گیا ہو یا اس میں کسی نے ردوبدل کر دی ہو یا وہ سابقہ تحریر سرے سے گم ہو گئی ہو تو پھر یاد دہانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
قرآن مجیداس اعتبار سے ایک یا ددہانی کی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ پچھلی تمام کتابوں کی آخری، حتمی، قطعی اور مکمل یاد دہانی ہے۔ قرآن مجید چونکہ دوسری تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور قرآنی وحی کو سابقہ کتابوں کی وحی کا ہی
تسلسل قرار دیتا ہے اس لیے اس کی نوعیت دین کی بنیادی تعلیمات کے لئے ایک یاددہانی ہی کی ہونی چاہیے۔
پہلے کہا جا چکا ہے کہ قرآن مجید پچھلی تمام آسمانی کتابوں کے بنیادی اور اساسی پیغام پر حاوی ہے۔ قرآن کا یہ حاوی ہونا خود ایک مسلسل یاد دہانی کی حیثیت رکھتا ہے۔
ذکر کے معنی یاد دہانی کے علاوہ کسی چیز کو زبانی یاد کرنے کے بھی آتے ہیں۔ قرآن مجید اس اعتبار سے بھی ”الذکر“ ہے کہ دیگر آسمانی کتابوں کے برعکس یہ واحد کتاب ہے جس کو حفاظت کی خاطر کروڑوں انسانوں نے کاغذی سفینوں کے ساتھ ساتھ سینوں میں بھی محفوظ رکھا۔ قرآن مجید کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور ایسی کتاب نہیں ہے جس کو اس محبت، عقیدت، احترام، اہتمام اور انتظام سے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں نے اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہو۔ اس مفہوم کے اعتبار سے بھی اگر کسی کتاب پر” الذکر“ کالقب صادق آسکتا ہے تو وہ یہی کتاب حکیم ہے۔
یہ چار تو وہ نام ہیں جو قرآن میں جا بجا آئے ہیں اور اس کتاب کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے صفاتی نام بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً قرآن پاک میں استعمال ہوئے ہیں اور اس کتاب کی مختلف حیثیتوں کو اور مختلف صفتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ جن کا اندازہ سینکٹروں میں ہے۔ یہ ساری قرآن کی صفتیں ہیں یعنی یہ وہ کتاب ہے جو سراپا حکمت ودانائی ہے، جو عظیم الشان ہے، جو بزرگی اور برتری والی ہے۔ اس طرح دیگر صفات قرآن مجید کی مختلف حیثیتوں اور اوصاف کو بیان کرتی ہیں۔

۲
زبان قرآن کی شناخت (قسط نمبر۳) علوم ومعارف قرآن زبان قرآن کی شناخت (قسط نمبر۳) آیة اللہ محمد ہادی معرفت
قرآن میں قول لغت میں ”قول“ وہ بات اور گفتار ہے جو ظاھراً تلفظ ہو یعنی زبان پر جاری ہونے والے کچھ الفاظ جیسے قَالَ، تکلّم، نَطَقَ۔ ”لسان العرب“ میں ہے :
القول:الکلام علیٰ الترتیب، وھوعند المحققین کلُّ لفظٍ قال بہ اللسان تاما کان او ناقصا
قول ترتیب (تالیف)شدہ کلام ہے اور محققین کے نزدیک زبان سے جاری ہونے والا ہر وہ لفظ ہے جو چاہے مکمل(مفید)ہو یا نامکمل (غیر مفید)سیبویہ کہتا ہے :
بسا اوقات اعتقاد اور رائے کو ”قول“کہاجاتا ہے جب کہ وہ مجازی مفہوم ہے اس لیے کہ عقائد اور رائے میں مخفی امر یا قول کی جگہ لینے والی چیز کو قول و لفظ کے ذریعے سے ہی معلوم کیا جاتا ہے، گویا وہ مخفی رائے اور عقیدہ قول کا سبب ہے اور قول اس کی دلیل چنانچہ یہی تعلق (سبب ہونا اور مدلول پر دلالت کا سبب بننا)ہی عقیدے اور رائے پر قول کے اطلاق کا موجب بنتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ جس طرح قول کو عقیدہ سے” کنایة“اخذ کیا گیا ہے اسی طرح کلام کو بھی عقیدے کی علامت قرار دیا جاتا مگر کبھی بھی کلام کو قول کی جگہ عقیدے اور رائے کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا گیا آخر کیوں؟
توجواباًکہاجائے گاکہ اس بنا پرہے کہ قول کلام کی نسبت عقیدے سے زیادہ نزدیک ہے اس لیے کہ اس ناقص اورغیرمستقل کلام پربھی ”قول“کااطلاق ہوتاہے جومفید(کلام)ہونے کیلئے اپنے تکملہ کا محتاج ہوتا ہے جیسے وہ جملے ہیں جو اپنے بقیہ(جملوں)کے محتاج ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر قول کا اطلاق درست ہے جبکہ ان پر کلام کا اطلاق صحیح نہیں اسی طرح عقیدہ وہ ہے جو کہ اپنی افادیت ظاہر کرنے کے لیے اس عبارت اور الفاظ کا محتاج ہوتا ہے جو اسے نمایاں کر سکیں۔
مختصر یہ کہ قول میں اظہار عقیدہ کا پہلو ہوتا ہے جو کہ عقیدے اور رائے کی جگہ بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور محض تلفظ،نطق اور سخن کا مفہوم نہیں لیکن کلام صرف اور صرف سخن (گفتگو)ہے یہی وجہ ہے کہ”قول“غیر انسان کے لیے بھی استعمال ہو سکتاہے جیساکہ شاعر نے کہا ہے۔
قالت لہ الطیّرتقدم راشداً
انَّک لا ترجع الّٰا حامداً

ایک اور شاعر نے کہا:
قالت لہ العینان سمعاً وطاعة
وحدرتا کالدر لما یثقب

ایک اورقول ہے:
اِمْتَلَاَءَ الحَوْضَ وقال قَطْنی
مذکورہ بالا ان تمام مثالوں میں زبان حال مراد لی گئی ہے نہ کہ زبان مقال۔
راغب اصفہانی کہتا ہے اگرچہ”قول“ کو کئی طرح سے بروئے کار لایاجاتا ہے تاہم ان میں سے نمایاں ترین قول وہ لفظ ہے جو حروف کا مرکب ہو اور نطق کے ذریعے انجام پائے چاہے وہ مفرد ہو یاجملے کی صورت میں ہو(دیگر مواقع جہاں قول کو بروئے کار لایا جاتا ہے درج ذیل ہیں)

۲ لفظوں میں اظہار سے قبل ذہن میں متصور (قول)جیسا کہ اس آیت میں ہے کہ
وَیَقُوْلُوْنَ فِیْ اَنْفُسِھِمْ لَوْلَا یُعَذِّ بُنَا اللّٰہُ۔ (سورہ مجادلہآیت۸)
”اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اگر وہ واقعی رسول ہے تو پھر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا“
یہاں لوگوں نے اپنے دلوں میں جو گمان رکھا اس کے تصور کو قول کا نام دیا گیا ہے
۳ صرَفِ اعتقاد: چنانچہ کہا جاتا ہے کہ فلان شخص نے حضرت ابو حنیفہ کے قول کو اپنا یا یعنی ان کی رائے کو پسند کر کے ان کا ہم عقیدہ بن گیا ہے
۴ مطلق دلالت: مطلق دلالت کو بھی قول کہتے ہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ:
امتلاء الحوض وقال قطنی
یعنی حوض بھرا ہے جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ میرے لیے کافی ہے
۵ کسی ایسی چیز سے لگاو جو راسخ عقیدے تک پہنچا دےجیسے یہ کہا جائے کہ فلان شخص اس طرح کے قول کا حامل ہے یا جیسے” فلان یقول کذا“ یعنی فلان شخص یوں کہتا ہے اس لیے کہ یہ انقصاص ہی اسے اس قول تک پہنچاتا ہے۔
۶ اہل میزان علمائے منطق کی اصطلاح بھی قول کہلاتی ہے جیسے قول جوھر،قول عرض ہے جنہیں مقولات یعنی موضوعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
۷ قول الہام کے معنوں میں بھی آیا ہے جیسے اس آیت میں آیا ہے کہ:
قُلْنَا یٰذَا الْقَرْنَیْنِ اِمَّا اَنْ تُعَذِّبَ وَاِمَّا اَنْ تَتَّخِذَ فِیْھِمْ حُسْنًا۔
(سورہ کہف :آیت۸۶)
ہم نے کہا اے ذوالقرنین تمہیں اختیار ہے چاہے انہیں سزا دو اور چاہے ان سے حسن سلوک اختیار کرو۔
اس لیے کہ یہ گفتگو خطاب کی صورت میں نہیں بلکہ الہام اور القائے باطنی تھااسی طرح یہ آیت ہے کہ
ذٰلِکَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ یَمْتَرُوْنَ۔ (سورہ مریم:آیت۳۴)
یہ ہے مریم کے بیٹے عیسٰی کا سچا قصہ جس میں یہ لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔
اس آیت میں عیسیٰ(۴)کو قول حق کا نام دیا گیا ہے اسی طرح ایک اور آیت میں انہیں کلمہ سے تعبیر کیا گیا
کَلِمَتُہ اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ۔ (سورہ نساء:آیت۱۷۱)
یہ اشارہ ہے اس آیت کی طرف کہ
اِنَ مَثَلَ عِیْسَی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنَ۔ (سورہ آل عمران :آیت۵۹)
قرآن میں بھی ”قول“ کی اصطلاح کا غیر انسانوں کے لیے استعمال ہوا ہے قطع نظر اس امر کے کہ انہیں مخاطب قرار دیا گیا ہے یا ان سے قول کو نقل کیا گیا ہے۔
ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ وَھِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَاطَوْعًا اَوْکَرْھًا قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ۔ (سورہ فصّلت:آیت ۱۱)
پھر اس نے آسمان کی طرف قصد کیا درآنحا لیکہ وہ دھواں تھا پس اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ تم دونوں معرض وجود میں آؤ خوشی یا کراہت سے۔ دونوں نے کہا ہم اپنی خوشی سے بات ماننے والے ہو کر آئے ہیں۔
یہاں زمین و آسمان سے کہنے اور زمین و آسمان کے کہنے سے کیا مراد ہے ؟
علامہ طباطبائی قدس سرّہ نے لکھا ہے کہ یہاں وہی مقصود ہے جو سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۷ میں بیان ہوا کہ
” بَدِیْعُ السَّمٰوٰاتِ وَالْاِرْضِ وِاِذَا قَضٰی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔"
وہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا طے کر لیتا ہے تو وہ صرف کن(ہوجا)فرماد یتا ہے اور وہ(کام)ہو جاتا ہے۔
اسی طرح سورہ یٰسیں کی آیت ۸۲ میں ارشاد ہوا ہے کہ:
”اِنَّمَا اَمْرُہ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ۔
بتحقیق اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے کہ اس کے لیے کن ہو جا فرما دیتا ہے اور وہ کام ہوجاتا ہے۔
ان دونوں آیات کریمہ میں باطنی ارادے اور خواہش کے اظہار کو بطور کنایہ قول سے تعبیر کیا گیا ہے چاہے وہ جس طرح سے بھی ہو لہذا قول(کہنا)لفظ سے نہیںیہاں کسی قسم کی گفتگو (طرفین میں)نہیں تھی سوائے اس کے کہ یہ گفتگو باطنی ارادہ و خواہش کے اظہار اور بیان کرنے والی ہے اس لیے ہر وہ گفتگو جو ارادے اور خواہش کے اظہار کا باعث بنے اسے قول کہا جاتا ہے اس کا لازمہ وہ مقصود ہوتا ہے جس سے اظہار مراد ہو۔
”یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ۔ (سورہ ق:آیت۳۰)
اس دن جب ہم دوزخ سے کہیں گے کیا تو بھر چکی ہے اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے ؟
یہاں بھی سخن وگفتار کا کوئی وجود نہیں بلکہ جو کہا گیا وہ زبان حال ہے دوزخ میں موجود گنجائش کے اندازہ کی طرف اشارہ ہے۔ جس قدر بھی اس میں ڈالا جائے گا اس میں اضافہ نہیں ہو گا اور یہ قول ان لوگوں کے رد میں ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کیا جہنم میں اتنی گنجائش ہے کہ یہ سارے کفار اس میں ڈالے جا سکیں
” وَقِیْلَ یٰاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآءَ کِ وَیٰسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُوْدِیِّ وَقِیْلَ بُعْدًا لِّلْقُوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔
(سورہ ھود:آیت۴۴)
”اور کہا گیا اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان تو تھم جا اور پانی زمین میں جذب ہو گیا اور معاملے کا فیصلہ کردیا گیا اور کشتی کوہ جودی پر ٹھہر گئی اور کہہ دیا گیا کہ ظالموں کی قوم کے لیے ہلاکت ہو۔"
اس قول میں خدا کے ارادے اور خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اسی طرح یہ آیت ہے کہ:
”قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلیٰ اِبْرٰہِیْمَ۔ (سورہ الانبیاء:آیت۶۹)
یہاں بھی صرف اور صرف ارادہ پروردگار کا اظہار ہے چنانچہ اس آیت کا مفہوم اس طرح ہے کہ ہم نے چاہا کہ آگ ٹھنڈی رہے اور سلامتی کا باعث رہے چنانچہ ایساہی ہوا یہاں لفظ ”کونی“(ہو کر رہے) کو بروئے کا رنہیں لایا گیا
اسی طرح
” اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَالْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ۔ (سورہ بقرہ :آیت۲۴۳)
”کیا تم نے ان کو نہیں دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلتے تھے اور وہ کئی ہزار تھے بس اللہ تعالیٰ نے ان کو فرمایا کہ مر جاو پھر انہیں زندہ کیا گیا۔"
اس آیت میں بھی قول صرف ان کی موت سے متعلق ارادہ پروردگار سے عبارت ہے اور
”قال لھم موتوا“
ان سے کہا مر جاو۔
اور ”واحیاھم“(اور انہیں دوبارہ زند ہ کیا )کے درمیان کو ئی فرق نہیں یعنی ایسانہیں کہ
” اما تھم ثم احیاھم“
یعنی پہلے انہیں موت دی پھر زندہ کیا۔
یا پھر یہ کہ
”قال لھم موتوا ثم قال لھم احیوا
یعنی پہلے انہیں کہا مر جاو پھر کہا کہ زندہ ہو جاو۔
بلکہ ارادہ پروردگار ان کے مرنے کے بعد انہیں زندہ کرنے سے بھی متعلق تھا اور اسی کا اظہار کیا گیا ہے۔
قرآن میں حیوانات کی طرف قول کی نسبت بھی اسی بنیاد پر ہے یعنی باطنی خواہش کا اظہار چاہے وہ کسی بھی ذریعے سے ہواگرچہ کوئی ایسی دلیل موجود نہیں کہ وہ اظہار کسی لفظ یا صدا یعنی موت سے انجام پذیر ہوا ہو
چیونٹی کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ :
”قَالَتْ نَمْلَةٌ یٰاَیُّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لاَ یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہ وَھُمْ لاَ یَشْعُرُوْنَ۔ (سورہ نمل:آیت۱۸)
”ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیواپنے اپنے بلوں میں گھس جاو ایسانہ ہو کہ سلیمان اور ان کا لشکر تمہیں روند ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔"
ظاہر ہے کہ اس طرح کی گفتگو انسانوں میں ہوتی ہے حیوانات میں بنیادی طور پر ایسی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے پیغامات ہوا کی لہروں سے لیتے اور دیتے ہیں اور ان(حیوانات) سے الفاظ یا آواز وغیرہ ظاہر نہیں ہوتی
یہی صورت حال حضرت سلیمان کے لیے پیغام لانے والے ”ھد ھد“ کے بارے میں ہے چنانچہ یہ ارشاد ہوا کہ:
” فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَاٍ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍo اِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً تَمْلِکُھُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیِءٍ وَّلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ o وَجَدْ تُّھَا وَقَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ۔
(سورہ نمل :آیت۲۲تا ۲۴)
”پھر زیادہ دیر نہ ہوئی کہ وہ آگیا پھر کہنے لگا میں نے ایسی بات معلوم کی جو تمہیں معلوم نہیں اور میں (ملک) سبا سے تمہارے پاس ایک یقینی خبر لایا ہوں میں نے ایک عورت کو پایا جو ان پر حکومت کرتی ہے اور اسے ہر چیز سے حصہ دیا گیا ہے اور اس کے لیے بڑا شاہی تخت ہے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کی پرستش کرتے پایا۔"
کیا یہ کلام بالمشافہ، لفظی یا تکلم کے ذریعے تھا۔ ہرگز ایسا نہیں اس لیے کہ حضرت سلیمان نے خود فرمایا کہ:
” وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاودَ وَقَالَ یٰاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ وَاُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ۔ (سورہ نمل:آیت۱۶)
”اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اس نے کہا:اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا اور یقینا یہ کھلم کھلا فضیلت ہے۔"
یہ حضرت سلیمان پر اللہ تعالیٰ کی عنایت تھی کہ وہ حضرت داؤد کے وارث قرار پائے اور انہیں پرندوں کی بولی سکھلائی گئی یعنی انہیں اس بات پر قدرت عنایت ہوئی کہ وہ پرندوں کے پیغامات کو جان سکیںایساہر گز نہیں کہ پرندے انسانوں کی طرح باتیں کرتے ہوں۔ لہذا وہ چیز جو کسی کا پیغام یاکسی کی خواہش دوسرے تک پہنچانے کا ذریعہ بنے اسے قول کہا جاتا ہے اور پیغام کا وصول کرنا ویسے ہی ہے جیسے کسی کی گفتگو سننا۔
ملائکہ اور شیاطین سے منسوب قول بھی اسی نوعیت کا ہے جیسے کوئی پیغام بھیجنا یا موصول کرنا ہے اور اس ضمن میں ہر گز یہ خیال نہیں کرنا چا ہیے کہ وہ (قول)انسانوں کے قول کی مانند ہو گا اس لیے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے اور یہ امرلازمی ہے کہ مجردات کا مادیات پر قیاس نہ کیا جائے اور حیوانات کے بولنے کو انسانوں کی گفتگو جیسانہ سمجھا جائے۔
انسان کے پاس اپنے باطنی پیغام کو بھیجنے اور وصول کرنے کے مخصوص وسائل ہیں جبکہ دیگر مخلوقات کے پاس بھی اپنے مخصوص وسائل ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مخلوقات و موجودات کی مختلف انواع کو جو ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں یکساں خیال نہ کیا جائے یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ انسان ہر چیز کا اپنی ذات پر ہی قیاس کرے اور سب کو اپنے جیساسمجھے شاید اس طرح کی سوچ کا سرچشمہ خود پسندی اور خود خواہی ہوتی ہے اور آدمی تمام اشیاء کو پرکھنے کا معیار اپنی ذات کو قرار دینے لگتا ہے۔
مثلاً خداوند عالم نے ملائکہ سے جو گفتگو فرمائی ہے اور انہیں پیغام دیا ہے یا ملائکہ نے اللہ کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اسے انسان کے کلام سے نہیں سمجھنا چاہیے اور یہی صورتحال ابلیس کے متعلق بھی ہے۔ آپ قرآن کریم کی سورت بقرہ کی آیات ۳۰ تا ۳۴ کا مطالعہ فرمائیے، سورة اعراف کی آیت ۱۱ تا ۱۸ کو دیکھئے نیز سورہ ص آیت ۷۱ تا ۸۴ کو پڑھئے جہاں فرشتوں اور خالق کائنات کے مابین طویل مکالمہ نظر آتا ہے۔
اس طرح کے طولانی گفت وشنید کو اگر ہم زبان حال نہ کہیں تب بھی ہمیں یہی کہنا پڑے گا کہ انسانوں جیسی ”زبان مقال“ نہیں ہے اس لیے کہ یہ ایک فاقدالوجہ قیاس ہے(ایک ایسا قیاس جس کا کوئی سبب اور موجب ہی نہ ہو)
خاص طور پر اس جگہ جہاں شیطان نے انسانوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے ان سے جو باتیں کی ہیں وہ انسانی ذہن میں فطوراور وسوسے پیدا کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں
”کَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْ ءٌ مِّنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (سورہ حشر:آیت۱۶)
کبھی بھی ابلیس اور انسان کی بالمشافہ بات چیت نہیں ہوئی کہ وہ اسے حکم دے کہ وہ کا فر ہو جائے بلکہ یہ صرف وسوسہ اور باطنی تحریک ہے جو کہ ابلیس کے ذریعے انجام پذیر ہوتی ہے اور جو اس کی زبان حال ہے پھر جب وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے کہ کس طرح دھوکا کھا کر انہوں نے اس کے بے وقعت وسوسوں کو قبول کر لیا اور اپنی عقل و فطرت کے پیغام توحید کو ذرّہ بھر اہمیت نہ دی۔
قرآن کریم میں قیامت کے دن کے حوالے سے ابلیس کی جو گفتگو نقل ہوئی ہے وہ بھی اسی نوعیت کی ہے۔
”وَقَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّکُمْ فَاَخْلَفْتُکُمْ وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلآَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَکُمْ مَا اَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَآاَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّ اِنِّیْ کَفَرْتُ بِمَآ اَشْرَکْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُ۔
(سورہ ابراہیم:آیت۲۲)
”اور جب سب امور کا فیصلہ ہو جائے گا تو شیطان کہے گا یقینا اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کہا تھا اور میں نے بھی تم سے وعدہ کیا تھا پھر میں نے تم سے وعدہ خلافی کی اور میرا تم پر کوئی زور نہ تھا سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا اور تم نے میرا کہنا مان لیا پس تم مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس ہوں اور نہ تم میرے فریاد رس ہوجس کا تم نے مجھے شریک بنایا تھا میں تو اس کا پہلے ہی سے منکر تھا۔"
یہ گفتگو اپنے استدلال کے ساتھ مکمل طور پر واقعات کے واضح ہونے کی حکایت کرتی ہے اس دن سب پر حقیقت واضح اور آشکار ہو جائے گی کہ انسانوں کے مقابلے میں ابلیس کی حالت اور کیفیت یہ ہو گی کہ وہ انسانوں پر حیرت کا اظہار کرے گا کہ انہوں نے اس کی بے وقعت باتوں کو کس طرح قبول کرلیا جبکہ انسان شیطان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہوں گےدر حقیقت انہیں یقین نہیں تھا مگر پھر بھی ان لوگوں نے بے حقیقت وعدوں پر اعتبار کر کے اپنے دلوں کو خو ش رکھا
” بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہ بَصِیْرَةٌo وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہ۔
(سورہ قیامت:آیات۱۳تا۱۴)
بلکہ انسان اپنے نفس کا برا دیکھنے والا ہے اگرچہ وہ اپنے عذر پیش کیا کرے۔
اور اسی طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین سے یہ گفتگو بھی قرآن کریم میں منقول ہے کہ :
”وَاِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَ تِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَقَالَ اِنِّیْ بَرِیءٌْ مِّنْکُمْ اِنِیْ اَرٰی مَالَا تَرَوْنَ اِنِّیْ اَخَافُ اللّٰہَ۔"(سورہ انفال:آیت۴۸)
”اور جب شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے آراستہ کر دیا اور اس نے کہا کہ آج کے دن تمہارے آدمیوں پر کوئی بھی غالب نہیں آئے گا اور میں یقینا تمہارا مددگار ہوں پھر جب دونوں لشکروں نے ایک دوسرے کو دیکھایعنی ایک دوسرے سے لڑنا شروع کیا تو شیطان اپنی ایڑیوں پر پلٹ گیا اور کہنے لگا یقینا میں تم سے بری ہوں اور بے شک میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو یقینا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں۔"
یہاں یہ جملہ کہ :وقال:لاٰ غالب لکم درحقیقت ان (مشرکین)کے اس کردار کو سراہنا ہے کہ مشرکین اپنے دم،خم اور اسلحے کی بناء پر یہ خیال کر رہے تھے کہ کوئی بھی ان کے سامنے مقاومت کرنے کی جرات نہیں کر سکتا اور ان کی طاقت کے سامنے کوئی بھی نہیں ٹھہر پائے گا۔
لہذا یہ گفتگو سوائے اس بے وقعت گھمنڈ کی تحریک اور القا کے کچھ بھی نہیں جس کا منبع و سرچشمہ خود ان مشرکین کاغیر دانشمندانہ کردار اور طرز عمل تھا۔
مختصر یہ کہ ان مذکورہ تمام آیات میں سوائے اس کے کچھ بھی نہیں کہ باطنی خواہش کے اظہار کو قول سے تعبیر کیا گیا ہے مگر اس طرح سے نہیں جیسے انسان ظاہر کرتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس طرح کا قیاس نہ کیا جائےاس لیے کہ ہر موجود اپنے باطن کے اظہار کے لیے مخصوص وسائل رکھتی ہے جو کہ اس کی حیثیت اور کیفیت کے متناسب ہوتے ہیں۔

۳
تدبر القرآن علوم ومعارف قرآن مصنف: مولانا حمید الدین فراہی مبادی تدبر قرآن!ایک مطالعہ ابوسفیان اصلاحی شعبہ عربی،مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
ترجما ن القرآن مولانا حمید الدین فراہی کے شاگرد مولانا امین احسن اصلاحی کی شخصیت علمی دنیا اور اسلامی حلقوں میں تعارف کی محتاج نہیں، ان کی صلاحیت و لیاقت کے آثار مختلف میدانوں مثلاًخطابت،صحافت،فقہ،حدیث اور تفسیر میں نمایاں ہیںلیکن بعد میں اپنی تمام تر توجہ کا مرکز و محورانہوں نے قرآن کریم کو قرار دیاایک طرف انہوں نے اپنی تصانیف میں قرانیات کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیااور دوسری طرف اپنے استاد گرامی کے بتائے ہوئے تفسیری اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ”تدبر قرآن“کے نام سے ایک تفسیر لکھی یہ تفسیر اپنے نظریہ نظم قرآن کی رو سے دنیا کی تمام تفاسیر میں ممتاز و منفرد مقام کی حامل ہے یہ تفسیر کن اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے اور اس کے پیچھے کون سے جذبات و ارادے کارفرما ہیں ان کو جاننے کے لیے مولانا کی کتاب مُبادیٴ تدبر قرآن ۱ کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے یہ کتاب ایک طرح سے دیکھا جائے تو تفسیر تدبر قرآن کا مقدمہ ہے ۔
یہ کتاب اصلاًمولانا کے مختلف قرآنی مقالات کا مجموعہ ہے ،لیکن یہ مقالات اس انداز سے ترتیب دیئے گئے ہیں کہ یہ کتاب کی شکل اختیار کر گئے ہیںاس کے باوجود بھی کچھ مقالات میں تکرار کا توارد موجود ہے اس کتاب سے یہ بات وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں جنہیں مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا محمد امین احسن اصلاحی فہم القرآن اور اس کے تفکر و تدبر کے لیے ضروری تصور کرتے تھےاور حدیث کے باب میں فقراہی اسکول کا کیا نقطہ نظرہے اس پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ (۲)
یہ کتاب چار مقالات پر مشتمل ہے فہم قرآن کے لئے بعض ابتدائی شرطیں، تدبر قرآن،تیسیر قرآن ارو تفسیر کے اصول ان میں مقالہ تیسیرقرآن بڑی اہمیت کا حامل ہے اس مضمون سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مولانا کی قرآن کریم پر گہری نظرتھی،اس میں تیسیر قرآن کے متعدد پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور قرآن کریم کے بارے میں جو ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے معنی و مفہوم اور زبان و بیان کے لحاظ سے آسان ہے اس کی حکمتوں اورشیوں تک رسائی بہت معمولی چیز ہے مولانا نے دلائل کی روشنی میں اس کی تردید کی ہے اور تیسیر قران کا صحیح مفہوم پیش کیا ہے
”فہم قرآن“ کے تحت مولانا نے چند شرائط کا ذکر کیا ہے اور یہ شرائط فہم قرآن کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز کے لئے وضو اور طہارت،فہم قرآن کی اولین شرط نیت کی پاکیزگی ہے یعنی وہ قرآن کریم کا مطالعہ اس نیت سے کرے کہ وہ اس کے ذریعہ ہدایت اور فلاح کے راستوں کوپالے گا لیکن ایسے بہت سے حضرات جو اپنی ذاتی اغراض کے تحت قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی اغراض میں کامیابی حاصل کرلیں لیکن ہدایت قرآن سے محروم رہیں گے مولانا فرماتے ہیں قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا صحیفہ بنا کر اتارا ہے اورہر آدمی کے اندر طلب ہدایت کا داعیہ و دیعت کردیا ہے اگر اس داعیہ کے تحت آدمی قرآن مجید کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ قرآن مجیدسے بقدر کو شش اور بقدر توفیق الہی فیض پاتا ہے اور اگر اس داعیہ کے علاوہ کسی اور داعیہ کے تحت وہ قرآن کو استعمال کرنا چاہتا ہے تو ”لکل امرمانوی“کے اصول کے مطابق وہ وہی چیزپاتا ہے (۳) قرآن کریم میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے
اولئک الذین اشترو الضلالةبالھدی فماٰربحت تجارتھم وما کانوامھتدین(سورہ بقرہ:۱۶)
یہی لوگ ہیں جنہوں نے اختیار کیا گمراہی کو ہدایت کے بدلے تو ان کی یہ تجارت ان کے لئے نفع بخش نہ ہوئی اور وہ ہدایت پانے والے نہ ہوئے۔
نیت کی پاکیزگی کے بعد دوسری شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کوایک برتر کلام اور دنیا کی عظیم کتاب مانا جائے کیونکہ بغیر اس کے اس کی حکمتوں او رخزینوں سے استفادہ ممکن نہیںقرآن کے طالب علم کے ذہن میں یہ چیز ارادے اوروثوق کے ساتھ موجود ہو کہ یہ کتاب ایک عظیم الشان تاریخ کی حامل ہے ایک معجز کلام ہے ایک آسمانی کتاب اور لوح محفوظ سے اترا ہوا کلام ہے یہ سب چیزیں اس لئے ضروری ہیں کہ منکرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب عرب کے بدوؤں کے لئے اتاری گئی تھی اور موجودہ حالات میں یہ کتاب اپنا کوئی مفہوم نہیں رکھتی اور اس کتاب کے ماننے والوں کا یہ خیال ہے کہ یہ کتاب حرام و حلال کے احکامات پر مبنی ہے اور جب سے فقہ کی تدوین ہو گئی ہے اس کی اہمیت میں اور کمی آگئی ہے اسے صرف متبرک کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں بہت سے لوگ اسے اچھی نصیحتوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں بہت سے لوگ اس کو نزع کی سختیوں کو دور کرنے اور ایصال ثواب کی کتاب سمجھتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کودفع بلیات اورآفات کا تعویذ سمجھتے ہیں۔(۴)
فہم قرآن کی چوتھی شرط یہ ہے کہ قرآن کریم کے تقاضوں کو پورا کیا جائے اور اسی کے مطابق اپنے ظاہر و باطن کوتبدیل کیا جائے،اس نقطہ نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے گا تو جگہ جگہ انسانی خواہشات قرآنی تقاضوں سے متصادم ہوتے ہوئے نظر آئیں گی اور انسان کو اپنے مطالبات سے باز آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گالیکن جس کے اندر استقلال اور پختہ ارادہ ہو گاوہ ضرور اپنے اندر قرآنی تقاضوں کے مطابق تبدیلی لائے گالیکن جوپرعزم نہیں ہے اس کے متعلق مولانا لکھتے ہیں وہ اس خلیج کو پاٹنے کی ہمت نہیں کرسکتا جو اپنے اور قرآن کے درمیان حائل پاتا ہے وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر میں اپنے عقائد و تصورات کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کروں تو مجھے ذہنی اور فکری حیثیت سے نیا جنم لینا پڑے گا۔(۵)
لیکن جو لوگ مختلف آزمائشوں سے گزر کر بھی قرآنی تقاضوں اور قرآنی راستوں کو نہیں چھوڑتے ہیں اللہ ان کے لئے راہیں ہموار کر دیتا ہے اگر ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو دوسرا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے اگر ایک زمین اس کے لئے تنگ ہو جاتی ہے تو دوسری سرزمین اس کے لئے آغوش بن جاتی ہے قرآن کریم میں اسی چیز کی طرف یوں اشارہ کیا گیا
”والذین جاھدوافینا لنھدینھم سُبْلنا وان اللہ لمع المحسنین“ (سورہ عنکبوت۶۹)
اور جو ہماری راہ میں جدوجہد کریں گے ہم ضروران پر اپنی راہیں کھولیں گے اور اللہ خوبیوں کے طالبوں کے ساتھ ہے
قرآن کریم سے استفادہ کی چوتھی شرط تدبر ہے قرآن کریم نے تدبر نہ کرنے والوں کو ان لفظوں میں یاد کیا ہے
”افلا یتد برون القرآن ام علی قلوب اقفا لھا“
کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے چڑھے ہو ئے ہیں۔
صحابہ کرام مستقل قرآن کریم پر غور کرتے اور اجتماعی طور پر قرآن کا مطالعہ کرتے خلفاء راشدین اور بالخصوص حضرت عمراس قسم کے حلقوں اور قرآن کریم کے ماہرین سے برابر دلچسپی لیتے صحابہ کرام صرف تبرک کے نقطہ نظر سے تلاوت نہ کرتے نہ ہی اسے جانکنی کی سختیوں کو آسان کرنے کے لئے پڑھتے اور نہ ہی اسے تعویذ کے طور پر استعمال کرتے۔(۶)
فہم قرآن کی پانچویں شرط یہ ہے کہ تدبر وتفکر کے وقت بہت سی ایسی مشکلات پیش آئیں گی کہ اسے بد دلی اور قنوطیت کی طرف لے جائیں گیلیکن ان حالات میں اسے دامن صبر کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیےمولانا فرماتے ہیں کہ اس طرح کی عملی و فکری مشکلوں اور الجھنوں سے نکلنے کا صحیح اور آزمودہ راستہ صرف یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور قرآن مجید پر جما رہے اگر قرآن مجید یاد ہو تو شب کی نمازوں میں قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھے انشاء اللہ اس کی ساری الجھنیں دور ہو جائیں گی اور حکمت قرآن کے ایسے دروازے اس پر کھل جائیں گے کہ پھر اس کو قرآن حکیم کی ہر مشکل آسان معلوم ہونے لگے گی۔(۷)
فہم قرآن کی شرائط کے بعد اس کتاب کا دوسرا باب”تدبر قرآن“ہے تدبر قرآن کے لئے کن کن امور کی ضرورت ہوتی ہے وہی چیزیں اس باب میں زیر بحث ہیں قرآن کریم نے جگہ جگہ تفکر و تدبر کی بات کہی ہے بغیر اس کے قرآنی اسرار وحکم کے دروازے کھل نہیں سکتے اور اس تفکر و تدبر کے کچھ ضابطے اور قواعد ہیںاگر انہیں نہ برتا گیا تو راہ ہدایت کا حصول ممکن نہیں ہو گایہی وجہ ہے کہ ماضی میں بے شمارفتنے پیدا ہوئے اور سبھوں نے قرآن کریم ہی سے دلائل پیش کئےمولانا فرماتے ہیں کہ خوارج اپنے گمان کے مطابق قرآن مجید ہی کے سہار ے ابھرے۔ باطینوں کے تمام استدلات کی بنیاد ان کے خیال میں قرآن مجید ہی پر ہےبابیوں اور سبائیوں نے جو کچھ کہا اپنے زعم کے مطابق قرآن مجید ہی سے کہاقادینوں کی نبوت کی اساس ان کے دعوے کے مطابق قرآن مجید ہی پر ہے اور چکڑالوی تو قرآن کے سوا کچھ بولتے ہی نہیں۔(۸)
آخر ایسا کیوں ہے؟جبکہ قرآن کریم ہدایت اور وضاحت کے لئے آیا تھااختلافات کو ختم کرنے کے لئے نازل کیا گیا تھااپنی تعلیمات میں غیر مشتبہ اور غیرمبھم ہے اور ہر اعتبار سے اس کے اندر ایک نظم، توافق اور کامل وحدت ہے۔ اگر ایسا ہے تو مناسب تو یہ تھا کہ تمام فرقوں کو ایک سطح پرلاکھڑا کر دیتا اور ان کے تمام اختلافات اور انتشارات کو مٹا دیتامولانا نے اس کا جواب ان لفظوں میں دیا ہے ”قرآن مجید کے مطالعہ کے کچھ خاص آداب و قواعد ہیں جن کا لحاظ اور اہتمام ضروری ہے ان کے بغیر قرآن کی راہ نہیں کھل سکتی ان میں سب سے مقدم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ارادہ اور نیت کی درستی ہے یہ اللہ کی کتاب ہے اور خلق کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہے اس لئے سب سے مقدم یہ ہے کہ انسان بالکل خالی الذہن ہو کر اس کو صرف طلب ہدایت کے لئے پڑھے اور اپنے قلب و دماغ کو پورے طور پر اس کے حوالے کر دے اپنے د ل کی باگ اس کے ہاتھ میں دے دے۔(۹)
۴
تدبر القرآن علوم ومعارف قرآن قرآن کریم نے اپنی خصوصیت کی طرف خود اشارہ کیا ہے: ”ھوالذی انزل الیک الکتاب منہ آیات محکمات ہن ام الکتاب واخر متشابھات فاماالذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتٰغاء الفنة وابتغاء تاویلہ ومایعلم تاویلہ الااللہ والراسخونفی العلم یقولون آمنابہ کل من عندربناومایذکرالا آولو الالباب“(آل عمران)
وہی ہے جس نے اُتاری تم پر کتاب جس میں سے کچھ آیات محکمات ہیں اور وہی اصل کتاب ہیں اور دوسری متشابہات ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کی متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں فتنہ پیدا کرنے کے لئے اور اس کی اصل ماہیت دریافت کرنے کے لئے حالانکہ اس کی ماہیت نہیں معلوم ہے مگر اللہ کو اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم ان پر ایمان لائے سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نہیں سمجھتے ہیں مگر وہ جو عقل والے ہیں۔
اس کے بعد مولانانے بتایا کہ قرآن کریم میں دو طرح کی آیات ہیں محکم اور متشابہہ اور اس کے بعد اس پر اظہار خیال کیا ہے کہ قرآن پڑھنے والوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو وہ حضرات جو صرف طلب رشد وہدایت کے لئے پڑھتے ہیںچنانچہ آیات محکمات ان کے لئے طمانیت اور ذہنی آسودگی کا سبب بن جاتی ہیںاورجب کبھی وہ ذہنی وساوس اور خلجان میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی زبان پر یہ دعا جاری ہوجاتی ہے۔(۱۰)
”ربنا لاتزع قلوبنا بعدازھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمةانک انت الوھاب“ (سورہ آل عمران:۸)
اے ہمارے رب ہم کوہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوں کوڈانوا ڈول نہ کر، اپنے پاس سے ہم کو رحمت بخش تو بڑا بخشنے والاہے۔
دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جو اپنے اغراض و خواہشات کی تکمیل کے لئے قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیںمولانا فرماتے ہیں کہ ان کا مقصود و طلب رشدوہدایت سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے کسی قرار داد، مسلک کی تائید کے لئے اس میں دلیلیں تلاش کریںیا جن سے ان کو اختلاف ہے ان کو چپ کرانے کے لئے اس میں سے اعتراضات کج بحثیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔(۱۱)
جبکہ قرآن کریم تطہیر قلب اور روح کے تزکیہ کے لئے نازل کیا گیا ہےیہ دماغی عیاشیوں اور کج بخثی؟ کے لئے نہیں نازل کیا گیاہےقرآن کریم میں ارشاد ہے۔
”ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب آوالقی السمع وھو شہید“ (سورہ ق:۳۷)
اس کے اندر اس شخص کے لئے یاددہانی ہے جس کے پاس بیدار دل ہو یا وہ کان لگائے متوجہ ہوکر۔
یعنی قرآن کریم ان لوگوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے جو
”الامن الی اللہ بقلب سلیم“
مگر جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے۔
اور اسی طرح سورہ ق میں آیا ہے کہ”وجاء بقلب منیب“(جو متوجہ ہونے والا دل لے کر آئے)جو لوگ قلب سلیم اور قلب منیب کے بغیر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں ان کے لئے یہ کتاب کتاب ہدایت ثابت نہیں ہو سکتی۔(۱۲)
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”الذین یجادلون فی آیات اللہ بغیر سلطان اتاھم کبر مقتا عندالّذین آمنواکذالک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبّار“ (سورہ غافر:۳۵)
قرآن کریم کانزول اس لیے ہو ا ہے کہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر اجالوں کی طرف لے آئے لیکن یہ ہدایت اور ضلالت قرآن کریم کے قانون اور ضابطے کے مطابق ہوتی ہے اللہ قانون حکمت کے مطابق جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ضلالت دیتا ہے وہ اہل ایمان کو ہدایت دیتا ہے او اہل کفر جن کے اولیاء طاغوت ہیں انہیں ضلالت سے ہم کنار کرتا ہے مولانا نے سورہ بقرہ کی آیات ۲۵۸سے۲۶۰ تک نقل کی ہیں جن سے تین ایسے لوگوں کی مثالیں پیش کی ہیںجنہیں تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے یا ان کو تاریکی میں چھوڑدیتا ہے ایک تو وہ ہے جو اپنی دولت و حکومت اور سلطنت و عظمت کے نشہ میں مخبوط ہے وہ حضرت ابراہیم کی پیش کردہ روشنی سے اعراض کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جو یقین و بصیرت کا طلبگار ہے طلب ہدایت اور حصول رشد کے لئے مضطرب ہے مولانا ایسے حیرت زدہ شخص کے لئے لکھتے ہیں” وہ بستیوں کے ہجوم سے بھاگتا اور شہروں کے اژدھام سے گھبراتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی مقام عبرت و موعظت کا کوئی خلوت کدہ میسر آجائے تو اپنے سوالوں کو لے کر بیٹھ جائے جن کے جواب کے لئے وہ ہمہ وقت تشنہ و بیقرار ہے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی تمام الجھنوں کو دورکر دیتا ہے اور وہ یقین کامل کی روشنی سے معمور ہو کر پکار اٹھتا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے:
”فلما تبین لہ قال اعلم ان اللہ علیٰ کل شیئی قدیر“(سورہ البقرة:۲۵۹)
اس کے بعد تیسرے شخص حضرت ابراہیم کی مثال ہے جو اللہ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ مجھے مردوں کو زندہ کرتے ہوئے دکھا دے ،مجھے پورا یقین ہے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے لیکن یہ مطالبہ صرف شرح صدر کے لئے ہے یعنی یہ تیسرا شخص نہ تو پہلے کی طرح متکبر ہے اور نہ ہی دوسرے کی طرح متشکک۔ اسی طرح کی ایک مثال سورہ مجادلہ میں ذکر ہے ایک عورت ہے جو دینی معاملات میں اللہ سے مجادلہ اور رسول سے شکوہ کرتی ہے یہ مجادلہ اور شکوہ اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شکوک اور اضطرابات کو دور کرے اور اس کے بعدایک منافق کی مثال دی گئی ہے جو اس گھات میں رہتا ہے کہ دین اسلام میں کوئی ایسی اعتراض اور نکتہ چینی کی بات پائیں اور اس کو لے اڑیں۔(۱۳) ان کے متعلق قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :
”ان الذین یجادون اللہ ورسولہ کبتو اکماکبت الذین من قبلھم وقد انزلنا آیات بینات وللکافرین عذاب مھین“ (سورہ المجادلة :۵)
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جھگڑا کرتے ہیں وہ لوگ ذلیل کردیئے گئے ہیں جس طرح وہ لوگ ذلیل کر دئیے گئے جو ان سے پہلے تھے اور ہم نے کھلی کھلی آیتیں اتار دی ہیں اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔
اوپر جو ایک عورت اور ایک منافق کا ذکر آیا ہے اصلاًیہ دو جماعتوں کا ذکر ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ خدا اور رسول کے ساتھ معاملہ کرنے کا طریقہ عرض ومعروض اور شکوہ و التجا ہے نہ کہ محارّہ اور مشاقہ۔ پش خدا کے دین یا اس کی کتاب میں اگر کوئی مشکل پیش آجائے تو اس کی راہ صرف یہی ہے کہ اس کو خدا ہی کے سامنے پیش کرے اور اسی سے تسلی و تشفی اور فتح باب کا متمنی ہو یہ نہ کرے کہ جھٹ اس کو ذریعہ اعتراض و نکتہ چینی بنا کر ایک نیا دین کھڑا کر دے۔(۱۴)

۵
تدبر القرآن علوم ومعارف قرآن تدبر قرآن کی ایک بنیادی شرط تقویٰ اور عمل ہے سورہ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں مذکورہے:
”ذلک الکتاب لاریب فیہ مھدی للمتقین“
اور سورہ لقمان میں ہے :
”تلک آیات الکتاب الحکیم ھدی و رحمة للمحسنین“
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ کیوں صرف متقین اور محسنین ہی کے لیے صحیفہ ہدایت ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی درجہ بدرجہ ہدایت دی ہے ہدایت کا پہلا زینہ ہدایت جبلت ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہوا ہے:
”الذی قَدرّ فھَدیٰ امر فالھمھا فجورھاوتقواھا“
یہ دراصل ادراک وتعقل اور ذوق وجدان کی ہدایت ہے جس میں تمام نبی نوع انسان یکساں طور پر شامل ہیںاور اس کی مدد سے وہ اپنے کاموں میں نظم و ترتیب پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی ذاتی قوت فیصلہ سے شر کو چھوڑ کر خیر کو اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہدایت کا دوسرا درجہ انبیاء ورسل کی بعثت سے ظہور میں آیاچنانچہ انبیاء ورسل کی کدوکاوش سے شریعت کا وجود ہوا اور اس شریعت کی تکمیل بھی بتدریج ہوئی آخر میں آنحضور نے اس شریعت کی تکمیل فرمائی جسے دین اسلام کے نام سے دنیا جانتی ہے ۔
قرآن کریم نے براہ راست تین جماعتوں کو مخاطب کیا ہے عرب ،یہود اور نصاری،عربوں میں کچھ ایسے تھے جو دین ابراہیمی کی سادگی پر قائم تھےاسی طرح یہود کی ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھیاور نصاری میں سے کچھ لوگ بھی صحیح دین مسیح پر باقی تھےقرآن نے سب سے پہلے عربوں کو مخاطب کیا چنانچہ ان میں جو دین ابراہیمی کی فطری سادگی پر قائم تھے انہوں نے جب قرآن کی آواز سنی تو ان کو محسوس ہوا کہ گویا اپنے ہی دل کی آواز سن رہے ہیںانہوں نے دعوت قرآن کو بغیر معجزہ کے مطالبہ کے قبول کر لیاسورہ نور میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیاکہ
”یکادزیتھا یضیی ولوھم تمسہ نارنورعلی نوریھدی اللہ لنورہ من یشاء“
اس آیت میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان سے محسنین اور متقین مراد ہیںاحادیث میں بھی احسان کا یہی مفہوم بیان کیا گیاہےمولانا کا بھی یہی خیال ہے کہ قرآن مجیدنے اسی مفہوم کے اعتبار سے اہل مکہ یا اہل کتاب کی ان جماعتوں کے لئے اس کو استعمال کیا ہے جنہوں نے فطرت اور وحی کی روشنی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ،قرآن میں جگہ جگہ وارد ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر رکھتا ہےان کے عمل کو ضائع نہیں کرتا،ایسے ہی لوگوں کے لئے یہ کتاب الہی ہدایت و رحمت ہے۔(۱۵)
ان کے علاوہ جو دوسرے حضرات ہیں انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں کو برباد کرڈالا تھااوروہ غیر فطری معتقدات و اوہام کے شکار ہوگئے تھےمولانا نے ان لوگوں پر اس طرح روشنی ڈالی ہے ”چنانچہ جب آنحضرت نے ان کے سامنے قرآن مجید پیش کیا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیںاس کے سننے اور سمجھنے سے انکار کردیااور ان کا یہ انکار درحقیقت ان کے بہت سے سابق انکاروں کا لازمی نتیجہ تھا۔ انہوں نے ہدایت کے ابتدائی مراحل میں اس کو قبول کرنے سے اعراض کیا اس لئے بعد کے مرحلوں میں بھی اس کا ساتھ نہ دے سکے اور ایسا ہونا قدرتی تھا۔(۱۶)
اس کے بعد مولانا نے اس پہلو کو لیاہے کہ شریعت الہی عمل کے لئے نازل ہوئی ہے اسی لئے یہاں علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی ضروری ہے اگر علم بغیر عمل کے ہے تو یہ علم ناقابل اعتبار ہے اور اس علم سے مزید علم و عمل کے دروازے نہیں کھلا کرتےایسے علم کو علم نہیں بلکہ جہل کہیں گےیہود کی اکثریت کا معاملہ بھی ایسا ہی تھاانہوں نے اپنے تمام انبیاء کی تعلیمات کو جھٹلا دیااور قرآن مجید کا بھی انکار کردیا
مولانا آگے لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم سے ابتداء ہی میں یہ اصولی بات ذکر کردی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سے امتحانوں سے گزرنے کے بعد کہا کہ”انی جاعل لٰلناس اماما“اسی طرح حضرت موسی نے جب اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لئے دعا کی ۔(۱۷)
تو اللہ نے فرمایا:
”عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیئی فاً کتبھا للذین یتقون(سورہ الاعراف:۱۵۶)
میرا عذاب تو میں جس پر چاہتا ہوں (یعنی جو اس کا مستحق ہوتا ہے) اس پر نازل کرتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے پس میں اس کو لکھ رکھوں گاان لوگوں کے لیے جوتقوی پر قائم رہیں گےیعنی جو اللہ کے عہد پر قائم رہیں گے اور اس کے حدود کا پاس و لحاظ رکھیں گے۔
انہیں کے لیے یہ کتاب باعث ہدایت ثابت ہو گیمولانا فرماتے ہیں،اس کو وہی لوگ قبول کریں گے جو متقی ہیں جنہوں نے اپنے عہدو پیمان کو قائم رکھا ہے جنہوں نے خدا کی نعمت کی قدر کی ہے۔جنہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیمات کو یاد رکھا ہے اور جن لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا ہے اس کے رشتوں پرمقراض چلا چکے ہیںوہ ہرگز قرآن کریم کو بطور صحیفہ ہدایت کے قبول نہیں کریں گےقرآن کریم میں ارشاد ہے ۔
”یُضل بہ کٰتیرا ویھدی بہ کثیراومایضل بہ الاالفاسقین الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ماامراللہ بہ ان یوصل و یفسدون فی الارضاولئک ھم الخاسرُن(سورہ البقرہ:۲۶۲۷)
اللہ تعالیٰ اس حقیر مثال سے گمراہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس مثال کی وجہ سے بہتوں کو اور ہدایت کرتے ہیں اس کی وجہ سے بہتوں کو الگ نہیں کرتے اللہ تعالیٰ اس مثال سے کسی کو مگر صرف بے حکمی کرنے والوں کو جو کہ توڑتے رہتے ہیں اس معاہدے کو جو اللہ تعالیٰ سے کرچکے تھے اس کے استحکام کے بعد اور قطع کرتے رہتے ہیں ان تعلقات کوکہ حکم دیا ہے اللہ نے ان کو وابستہ رکھنے کا اور فساد کرتے رہتے ہیںزمین میں پس یہ لوگ پورے خسارے میں پڑنے والے ہیں۔
آگے مولانا فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے چونکہ اللہ کے وعدوں اور اس کی نعمتوں کی قدر نہیں کی اسی لئے وہ قرآن عظیم جیسی نعمت اور رحمت سے محروم ہے۔ ٹھیک یہی حال نصاری کے ایک بڑے حصے کا بھی تھاجو تعلیمات قرآن کو اپنے افکار وخیالات کے برعکس تصور کرتا تھاچنانچہ یہ حضرات قرآن کریم کی ہدایت سے محروم رہے لیکن ان میں سے ایک ایسا صالح العقیدہ طبقہ تھا جس نے قرآن کریم کی آواز پر بڑھ کر لبیک کہاقرآن کریم نے انہیں محسنین کے لقب سے یاد کیا قرآن کریم میں ارشاد ہے
”فاثا بھم اللہ بماقالوا جنّات تجری من تحتھا الانھارالانھارخالدین فیھا و ذلک جزاء المحسنین“ (سورہ المائدہ :۸۵)
پس ان کے اس قول کے صلہ میں اللہ نے ان کو ایسے باغ دیئے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے اوریہ بدلہ محسنین کا۔
مولانا فرماتے ہیں کہ اس تفصیل کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن مجید کے متعلق جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ہدایت ہے متقین کے لئے ،یہ ہدایت ہے محسنین کے لئے تو اس کا مفہوم اس سے کس قدر وسیع ہے جو ہم عام طور پرسمجھتے ہیںاس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس وجہ سے اس کا فہم و تدبر صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتا ہےجو اس نعمت پر اللہ کے شکر گزار ہوں اور اس کی شکر گزاری یہ ہے کہ یہ جس مقصد کے لئے ان کو دی گئی ہے اس مقصد کو پورا کریںاس کو دینے کا مقصد یہ ہے کہ اپنی عملی و اعتقادی زندگی پر اس کو پوری طرح طاری کریںجوں جوں وہ اس نعمت کے قدر و احترام میں بڑھتے جائیں گے اس قدر اس کی برکتیں ان کے لئے بڑھتی جائیں گی۔(۱۹)
اس کے بعد مولانا نے تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل سے بحث کی ہے لیکن مولانا نے خود بتایا کہ یہاں پہلے سوال کے ایک حصہ اور دوسرے سوال کے بعض ضروری پہلوؤں کی طرف بالاجمال اشارہ کیا گیا ہے ۔
پہلے سوال کے ایک حصہ کا ذکر کرتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ قرآن مجید کے فہم و تدبر کے لئے سب سے پہلی چیز خود قرآن کریم ہےسلف کا یہ مذہب رہا ہے کہ وہ تمام مشکلات میں پہلے قرآن کریم ہی کی طرف رجوع کرتے کیونکہ القرآن یفسربعضہ بعضا“اور قرآن نے خود اپنی صفت بتا ئی ہے مفرد الفاظ کے علاوہ اسالیب کلام و نحوی تالیف وغیرہ کے باب میں بھی قرآن مجید کا یہی حال ہےمولانا کہتے ہیں کہ ارباب نحو قرآن مجید کی جن ترکیبوں میں نہایت الجھے ہیں اور کسی طرح اس کو نہیں سلجھا سکے ہیں خود قرآن مجید میں ان کی مثالیں ڈھونڈ لیں تو ایک سے زیادہ مل جائیں گی اور پیش و عقب کے ایسے دلائل و قرائن کے ساتھ مل جائیں گی کہ ان کے بارے میں ہمارے اطمینان کو کوئی چیز مجروح نہیں کر سکتی اس کے علاوہ قرآن مجید کی تعلیمات ،اس کے تاریخی اشہارات اور اس کی مخفی تعلیمات کے سلسلے میں تمام مفسرین نے اعتراف کیا ہے کہ قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر اس تفسیر اور تصریح بیان کی ہے ۔
قرآن کریم کی تفسیر کے سلسلے میں مولانا کا خیال ہے ہے تفاسیر کو ہرگز مقدم نہ رکھا جائےتفاسیر دو طرح کی ملتی ہیںایک تو کسی مکتب فکر کی نمائندگی کرتی ہیں یاتو روایات اور اقوال سلف کے تمام رطب ویابس کا مجموعہ ہیںمولانا کا خیال ہے کہ قرآن کریم کا طالب علم ہرگز ان تمام تفاسیر کے چکر میں نہ پڑیںورنہ اس کی تحقیق اور جستجو کا سلسلہ منقطع ہو جائے گاپہلے کسی نتیجہ تک پہنچنے کے بعد ان تفاسیر کا رخ کرے،انشاء اللہ روایات سے ضرور اس کی تائید ہو گیاگر روایات سے تائید نہ ہو رہی ہو تو دوبارہ اپنے خیال اور روایات کو سامنے رکھ کر غور کرے،انشاء اللہ یاتوآپ کی رائے کی کمزوری کا پہلو واضح ہو جائے گایا حدیث کا صنعف منظر عام پر آجائے گالیکن ان مقامات پر عجلت کی نہیں بلکہ توقف کی ضرورت ہے اس طرح دھیرے دھیرے ضرور وہ حکمتوں اور معارف کے خزینوں کو پالے گا۔
مولانا نے فہم قرآن کے متعلق یہ بھی بتایا کہ طالب قرآن کے لئے ضروری ہے کو وہ عید نزول قرآن،قدیم عرب اور ان سے متعلقہ اقوام کی تاریخ سے واقف ہو کیونکہ قرآن کریم بے شمارآیات انہی موضوعات سے متعلق ہیںکیونکہ ان کے بغیر قرآن کریم کی تاثیر پورے طور سے منظر عام پر نہیں آسکتی(۲۰)مولانا فرماتے ہیں اس عہد کی تمدنی حالت ،اس عہد کے سیاسی رجحانات،اس زمانے کے مذہبی عقائد و تصورات اور اخلاقی معیارات وغیرہ،نیز زمانہ نزول میں مختلف قوموں کے تعلقات کی رعیت،ان کے دستورومراسم کی کیفیات،ان کے اصنام کی خصوصیات اور تمدن وسیاست پر ان کے اثرات وغیرہ(۲۱)پر قرآن کریم پر غور کرنے والی کی نظر ہونا بہت ضروری ہےایسی کوئی تفسیر ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کر سکے؟اس کے علاوہ عرب کی جو تاریخ موجود ہیںوہ ناقابل اعتبار ہیں اس لئے اس باب میں جو کچھ قرآن میں موجود ہے اسی پر اعتماد کیا جائے اس سلسلے میں مولانا نے اپنے استاذگرامی کا حوالہ دیا ہے کہ اس باب میں ان کی تفسیر سورہ فیل!(۲۲)ایک اعلیٰ نمود کا درجہ رکھتی ہے مولانا لکھتے ہیں ”اس معاملہ میں استاذ امام مولانا حمید الدین صاحب قراہی کے طریق فکر ونظر کا اندازہ کرنے کے لئے سورہ فیل کی تفسیر پڑھنی چاہیے اس سے معلوم ہو گا کہ ان کا اصلی اعتماد ،قرآن مجید کے اشارات اور کلام عرب پر ہوتا ہے،اور تاریخ کی روایات کو وہ ہمیشہ انہی دونوں کسوٹیوں پر پرکھ کر قبول کرتے ہیں اور حق یہ ہے کہ اس باب میں ان دوچیزوں کے سوا کسی تیسری چیز سے مشکل ہی سے مدد ملتی ہے۔(۲۳)
آگے مولانافرماتے ہیں قرآن مجید کی زبان اور اس کے اسالیب کی مشکلات حل کرنے میں تین چیزیں کتاب لغت اور کلام عرب،کتب نحو اور کتب بلاغت معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
کتب لغت میں سب سے زیادہ اہم مولانا نے ”لسان العرب“ کو قرار دیا ہے یہ لغت قرآن مجید کے سلسلے میں ارباب تاویل کے اقوال نقل کردیتا ہے ،اس سے بچنے کی ضرورت ہے،کیونکہ اس سے لغت کا مفہوم فوت جاتا ہےاس کے بعد مولانا نے امام راغب کی مفردات القرآن کا ذکر کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ لغت بھی قرآن کے سلسلے میں زیادہ حقیر نہیں ہے بلکہ یہ صرف مبتدیوں کے لئے ہے کیونکہ اس میں نہ تو سارے الفاظ ملتے ہیں اور نہ ہی کلام عرب سے استشہاد پیش کیا گیا ہےمولانا کہتے ہیں کہ ایسا کوئی لغت نہیں ہے جس میں بہ صراحت ہو کہ بہ لفظ خالص عربی ہے ،یامولداس کے معنی کیا ہیں اور اس کے معانی میں سے کس پر اس کا اطلاق حقیقتہً ہے اور کن پر اطلاق مجاز(۲۴) صرف ” صحاح جویری“(۲۵) میں کہیں کہیں یہ چیز ملتی ہے مگر بہت کم لفظوں کے حقائق کااندازہ صرف کلام عرب اور اسالیب کلام سے لگایا جاسکتا ہے اور انہی دونوں چیزوں کے ذریعہ الفاظ کے معروف اور شاذ معانی کا پتہ لگایا جاسکتا ہے اور نہ وہی ہوگاکہ”تمنی“ کے معنی تلاوت کرنے کے اور”نحر“ کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے لئے جائیں گےمولانا قراہی کا انس سلسلے میں تمام تر انحصار کلام عرب تھاوہ اگر کسی لفظ کے باب میں متردد ہوتے تو کلام عرب اور قرآن مجید میں اس کا حل تلاش کرتے۔(۲۶) اس سلسلے میں مولانا کی دو کتابیں ” اسالیب القرآن“ (۲۷) اور ”مفردات القرآن“ (۲۸) بڑی عظمت کی حامل ہیں۔
قرآن کریم کی نحوی مشکلات کے سلسلے میں مولانا نے بتایا کو اس سلسلے میں کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس کی طرف اشارہ کیا جاسکےارباب تفسیر میں تنہاز مُحشری ہیں جنہوں نے اپنی تفسیرمیں نحوی مسائل سے بحث کی ہے مولانا نے اس باب میں ایک گرانقدر بات یہ کہی ہے کہ قرآن کریم کے طلبہ کو چاہیے کہ وہ کلام عرب پر اعتماد کریں اسی طرح مولانا نے یہ بھی بتایا کہ میری نظر میں ایسی کوئی کتاب نہیں جس میں قرآنی بلاغت سے بحث کی گئی ہو(۲۹) البتہ اس موضوع پر امام باقلانی (۳۰) کی خدمات قابل قدر ہیں اسی طرح ابن تیمہ امداد بن قیم کی تصانیف میں بھی کچھ ہوجواہر ریزے مل جاتے ہیں اور مولانا کی کتاب پر ”جمیرةالبلاغہ“(۳۱) اس سلسلہ کی آخری اور سب سے زیادہ اہم چیز ہے (۳۲) یہ کتاب قرآنی بلاغت کو سمجھنے میں حد درجہ معاون ہے۔
اس مقالہ کے آخر میں مولانا نے بتایا کہ قرآن کریم کے طالب علم کو دیگر آسمانی کتب کا مطالعہ بھی ضرور ی ہے تاکہ قرآن کریم کی ایک آخری آسمانی کتاب کی حیثیت سے عظمت منظر عام پر اس کے نیز اہل کتاب کے اعتراضات کا علمی اور مُسکت جواب اسی وقت ممکن ہے جب کسی کو توریت اور انجیل پرگہری نظر ہوان کتابوں کے مطالعہ سے ایک دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اہل کتاب کے باب میں جو اشارات اور تلمیحات ہیں انہیں بخوبی سمجھنے میں آسانی ہو گیخود قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ان آسمانی صحیفوں کا مطالعہ کیا جائے مثلاً ارشاد باقی ہے:
”وھذا کتبنا فی الزبورمِنْ بعدَالذکر انّ الارض یرثھاعبادی الصالحون“ (سورہ الانبیاء:۲۵)
ہم نے زبور کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث صالح بندے ہوں گے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :
”ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم و موسی“ (سورہ الاعلیٰ:۱۸)
بیشک یہ بات پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے ابراہیم اور موسی کی کتابوں میں۔
کتب سابقہ سے ایک قرآن کا طالب علم متعدد فوائد حاصل کر سکتا ہے لیکن ان کتابوں کے باب میں اصل معیار اور کوئی قرآن کریم ہی کو بتایا جائے گامولانا حمید الدین قراہی نے ایک طرف جہاں ان کتابوں سے فائدہ اٹھایا وہیں قرآن کی روشنی میں ان کی تحریف کی طرف اشارہ کرتے ہیں(۳۳) اس سلسلے میں مولانا کی کتاب ”الذبیح“(۳۴) بطور مثال ملاحظہ کی جاسکتی ہے اسی طرح علامہ ابن تیمہ کے یہاں بھی ان کتابوں کا ذکر ملتا ہے۔
اس کتاب کا تیسراباب تیسیرالقرآن ہے ،آغاز بحث میں مولانا نے فرمایا کہ قرآن نے خود مختلف جگہوں پر اپنی تعریف بیان کر دی ہے کہ وہ لوگوں کے لئے ہدایت ہے اللہ نے اسے آسان بنایا ہےوہ پیچیدگیوں سے پاک ہےاور ہر چیزکو وضاحت سے بیان کرتی ہے قرآن کی اس تعریف کی روشنی میں یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن میں کوئی چیز گنجلگ نہیں ہے تمام لوگوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اسی لئے محتاج تفسیر تاویل نہیں اس کا انداز اتنا شگفتہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی چیز کا محتاج نہیںقرآن دانی کے لیے عربی زبان دانی کافی ہے اور وہ تفسیر آیات میں احادیث،شان نزول اور لغت عرب کا محتاج نہیں ہےیعنی وہ بالکل واضح ہے تفسیر آیات کے لئے صرف عربی زبان کا جاننا کافی ہے مذکورہ خیال کی روشنی میں تین چیزیں سامنے آتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ چونکہ تمام طبقوں کے لئے صحیفہ ہدایت ہے اس لئے قرآنی تعلیم دعوت کا معیار عام عقل انسانی کے معیار کے مطابق ہے اس کے اسرار و رموز کی وضاحت کے لئے خواص کی ضرورت نہیںدوسرے یہ کہ قرآن کریم کی ہر بات چونکہ قطعیت کا درجہ رکھتی ہے اس لئے اس کی وضاحت کے لئے تفسیر و تاویل کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا انحصارظنیات یعنی روایات و احادیث پر ہوتا ہے اور تیسرے یہ چیز سامنے آتی ہے کہ قرآن کریم اپنے زبان وبیان کے لحاظ سے اس قدر شگفتہ ہے کہ ایک عجمی کے لئے صرف عربی زبان کے علم کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیںمولانا کا خیال ہے کہ ان آراء کے پیچھے بہت سی غلطیاں پوشیدہ ہیں جن کو آگے چل کر واضح کریں گے۔
اس سلسلے میں مولانا سب سے پہلے تفسیر کے مختلف ادوار کی طرف اشارہ کیااور بتایا کہ قرآن کریم کا سب سے مبارک دور دوراول تھالیکن بعد میں جب دائرہ اسلام کشادہ ہوا اور مختلف بدعات وخطرات سے قرآنی تعلیم دوچار ہوئی تو اہل سنت اور اہل حق نے یہ طے کیا کہ تفسیر قرآن کے باب میں یہ تمام قیل وقال سے قطع نظرصرف احادیث رسول اور افوال و آثار صحابہ پر اعتماد کیا جائے گااس اصول کے پیش نظر سب سے پہلے جو تفسیر منظر عام پر آئی وہ علامہ ابن جریر کی تفسیر ہے ایک آیت کی تفسیر کے لیے تمام روایات نقل کر دی گئی ہیںلیکن روایات کے سلسلے میں کوئی تنقید نہیں ہے جس کی وجہ سے ان میں جو جواہر ریزے ہیں وہ منکر اور ضعیف روایات کے انبار میں گم ہیںلیکن پھر بھی مولف کی یہ بہت بڑی خدمت ہے ۔
اس کے بعد سب سے زیادہ مقبول اور مشہور تفسیر ابن کثیر کی ہے جو تفسیر ابن جریر کا خلاصہ ہے اس میں ایک اضافہ ہے کہ محدثانہ طریق پر اس میں روایات کی تنقید کی گئی ہے اس کے بعد تفسیر کی بنیادی کتاب امام رازی کی ہے جوحکیمانہ طرز پر لکھی گئی ہے اصلاًیہ تفسیراشعریت کی تائید و توثیق کے لئے لکھی گئی ہے جس کی وجہ سے مفید کی بجائے مضر ثابت ہوئی اس کے بعد تفسیر کی چوتھی اہم کتاب علامہ زمحشری کی تفسیر کشاف ہے یہ تمام مذکورہ تفاسیر سے جداگانہ ہے یہ اپنا محور عبارت قرآن کو بتاتے ہیں یہ پہلے لغت اعراب اور ربط کلام سے بحث کرتے ہیں اور نہایت احتیاط کے ساتھ روایات بھی لاتے ہیںیہ تفسیر قرآن کریم کے طلبہ کے لئے مفید ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ جس طرح امام رازی اشعریت کے ممدو معاون ہیں اسی طرح علامہ زمحشری مذہب اعتدال کے وکیل ہیںقرآن کریم کے ساتھ یہ حددرجہ نا انصافی ہے کہ اس کے پیچھے چلنے کے بجائے آدمی اس بات کی کوشش کرے کہ اس کو خود اپنے کسی فکر وخیال کے پیچھے چلائے۔
تفسیر کی یہی بنیادی کتابیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ دور اول کے بعد تفسیر قرآن کی راہ میں جوہ پہلا قدم اٹھایاگیا وہی غلط تھااس کے سدباب کے لئے روایات و آثار کاسہارا لیاگیالیکن اس درجہ انہماک ہو ا کہ صحیح اور ضعیف کا امتیاز مٹ گیااور روایات کے ساتھ ساتھ قصوں اور اسرائیلیات کا ایک بڑا حصہ تفاسیر میں داخل کر دیا گیا۔(۳۵) اس کے متعلق مولانا کا خیال ہے ظاہر ہے کہ تفسیر میں صرف روایات ہی پر پورا پورا اعتماد کر لینا قرآن مجید کی قطعیت کو نقصان پہنچانا ہے اس صورت میں خود قرآن مجید کے الفاظ کا فیصلہ باطل ہو جاتا ہے(۳۶)مذکورہ گفتگو سے دو چیزیں منظر عام پر آتی ہیں ایک تو یہ کہ تفاسیر کا تمام تر انحصار صدر اول کے بعد روایت و آثار پر ہو گیا اور دوسرے یہ کہ علم کلام کے علو م نے قرآن مجید کی قطعیت کو حد درجہ متاثر کیا یعنی قرآن کریم کے الفاظ پر اعتماد کرنے کے بجائے متکلمین کی برہانیات پر اعتماد شروع ہو گیا۔(۳۷)
اس کے بعد مولانا نے کلام کے مشکل اور آسان ہونے کے تین پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے اس پہلو سے بحث کی ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا مقصد کیا ہے چونکہ روز اول ہی سے بنی نوع انسان کو شیطان کے مکرو فریب کا سامنا کرنا پڑا اس لئے شیطان کی جعل سازیوں سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مستقل اپنے انبیاء ورسل کے ذریعہ ہدایات بھیجنے کا انتظام کیا اور خاتم الرسول حضرت محمد مصطفی کو آخری صحیفہ ہدایت قرآن کریم عطا کیا گیا قرآن کریم کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان ہدایت کے راستوں پر گامزن ہوجائےاللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو شیطان کی چالوں سے بچنے کے لئے اس طرح تسلی دی۔
”فامایا تینکم منی ھدی فمن تیع ھدای فلاخوف علیھم و لاھم یخرنون“ (سورہ بقرہ:۳۸)
اگر میری جانب سے کوئی ہدایت آئے تو تم اس کی پیروی کرنا جس نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کے لئے نہ خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں۔
اس کے بعد مولانا نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ جن و بشر میں سے جو بھی ہدایتکے راستہ سے لوگوں کو دور کرے وہ شیطان ہے یعنی یہ شیاطین انسانوں میں بھی پائے جاتے ہیںقرآن کریم کی اصطلاح میں شیطان کا مفہوم بہت وسیع ہے انسانی شیاطین کی طرف قرآن کریم نے خود اشارہ کیا ہے
”الذی یوسوس فی صدورالناس من الجنة والناس“ (سورہ الناس:۵،۶)
جو لوگوں میں وسوسہ ڈالتا ہے جنوں میں سے اور انسانوں میں سے ۔
سورہ بقرہ میں ارشاد ہے:
”واذالقوالذین امنوا قالوااٰمنا واذاخلواالیٰ شیاطینھم قالواانامعکم“ (سورہ البقرة:۱۴)
جب وہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں(سرداروں)کے پاس ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
مولانا لکھتے ہیں کہ ایک ضمنی بحث تھی اصلاً بتانا یہ ہے کہ قرآن کا نزول کن مقاصد کے پیش نظر ہوا ہے قرآن کریم میں یہ چیز صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ نبی کو اس دنیا میں تین چیزوں کے لئے مبعوث کیا گیا۔
۱ تلاوت آیات ۲ تزکیہ ۳ تعلیم کتاب
تلاوت آیات: آیت کے مختلف مفاہم قرآن کریم میں موجود ہیں جس کا ایک مفہوم دلیل او حجت بھی ہے یہاں پر آیات سے مراد قرآن مجید کا وہ حصہ ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات کے دلائل و براہین پر مشتمل ہے قرآن کی جو آیات ابتداء میں نازل ہوئیںفقہی احکامات سے بالکل خالی ہیں اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے تھاابتداء میں صرف دین اسلام کے اساسی مسائل سے بحث ہےجس سے اسلام کا پورا نظام سامنے آجاتا ہے بعد میں دین اسلام کی تمام جزئیات مدلل طریقہ سے بیان کی گئی ہیں۔
تلاوت آیات کے بعد جب انسانی قلوب سے بدعات و خرافات اور باطل خیالات خارج ہو جاتے ہیں تو تزکیہ کی نوبت آتی ہے یعنی انسان کے دل میں صحیح خیالات و عقائد اپنی جگہ بتانا شروع کر دیتے ہیں تلاوت آیات کے بعد ہی انسان کے اندر جو فطری روشنی موجود ہے اس کے ذریعہ وہ سیاہ و سفید میں تمیز کرنے لگتا ہے اس روشنی کا ذکر قرآن میں اس طرح ہوا ہے ۔
”یل الانسان علی تفسہ بصیرة“ (سورہ القیامة :۱۴)
بلکہ انسان اپنے نفس پر خود بصیرت رکھتا ہے ۔
یہی چیز دوسرے مقام پر اس طرح مذکور ہے:
”فالھمھا فجورھا وتقواھا“ (سورہ الشمس:۸)
پس اُس کوالہام کی گئیں اس کی بدیاں اور اس کی نیکیاں۔
آگے مولانا فرماتے ہیں کہ جو لوگ دنیاوی لذت اور شہوات میں منھمک ہو کر اپنی اس فطری قوت اور فطری روشنی کو کھو دیتے ہیں تو قرآنی آیات اور پیغمبرانہ ارشادات اس کے لئے لاحاصل ہوتے ہیں کیونکہ وہ روحانی اعتبار سے مردہ ہو چکا ہوتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”انک لاتسمع الموتی ولاتسمع الصم الدعاء الاولواتدبِرین “ (سورہ نمل:۸)
آپ مردوں کو نہیں ستا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں
جن کے دلوں میں یہ روشنی ہوتی ہے خواہ وہ کتنی ہی دھندلی ہو پیغمبر تلاوت آیات سے اسے روشن تر کردیتا ہےیعنی پیغمبر تزکیہ فطرت کے مطابق کرتا ہے مولانا کا خیال ہے کہ تزکیہ صرف مفرد اور سادہ عمل کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کئی اجزاء کا مرکب ہے اس کا موضوع نفس انسانی ہے جو دوچیزوں یعنی علم اور عمل کا مجموعہ ہے اس لئے تزکیہ کے بھی دو پہلوہیں تزکیہ علم اور تزکیہ عملتزکیہ علم کامطلب یہ ہے کہ وہ تمام کثافتوں اور آلودگیوں سے اتنا دور ہو کہ شیاطین کی فتنہ انگیزیاں اس پر اپنا اثر نہ رکھاسکیں اور کبھی وہ خواہشات نفس کا شکارہو جائے تو تنبیہ ہوتے ہی اس سے باز آجائے اور تو یہ دانابت سے اس کی تلافی کرے ایسے لوگوں کے قرآن کریم میں آیا ہے
”ان الذین ین القوا ادامسھم طائف من الشیطن تذکرّوا فاذاھم مبصرون“ (سورہ اعراف:۲۰۱)
جو ڈر رکھتے ہیں اگر ان کو بھی شیطان کی چھوٹ لگ جاتی ہے تو وہ فوراً متنبہ ہوتے ہیں اور پھر دفعتہً ان کو نظر آنے لگتی ہے ۔
آگے مولانا یہ فرماتے ہیں کہ ایک صالح علم کے لئے مستقل اللہ سے دعا مانگنی چاہیے خود پیغمبر جس کی فطرت علم وعمل کی مافوق العادت قوتوں اور قابلیتوں کا خزانہ ہوتی ہے وہ بھی ان آیات کا تزکیہ کے لئے محتاج ہوتا ہے یہ آیات اس کے دلوں کو کھول دیتی ہیںاور وہ عشق آیات میں بیتاب ہو کر ”رب زدنی علما“ کا ورد کرنے لگتا ہے اس کی بے خودی اور عجلت کا یہ حال ہوتا ہے کہ معلم غیب کی زبان سے اس کو ”لاتعجل بالقرآن“ کا محبت امیز عتاب سننا پڑتا ہے ۔
جس قرآن عظیم کا یہ رتبہ ہو اس کے متعلق یہ بد گمانی مناسب نہیں کہ وہ صرف چند قوانین ،وعظوں اور قصوں کا ایک منتشر مجموعہ ہے اور جس کو سمجھنے کے لئے تفکر وتدبر کی ضرورت نہیں ہے مولانا تعلیم آیات کے سلسلے میں نتیجہ یہ پیش کرتے ہیں”اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ پیغمبر پہلے تلاوت آیات کے ذریعے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے۔ فطرت کے مدفون خزانوں کو ابھارتا ہے الٹے ہوئے چشموں کو جاری کرتاہےدبی ہوئی صلاحیتوں کو نمایاں کرتا ہے چونکہ فساو علم کی جڑ شرک اور فساو علم کی جڑ انکار حصار ہے اس لئے سب سے پہلے توحید وحصار کی تعلیم کو دلوں میں راسخ کرتا ہے اور جب ان سے فارغ ہو چکتا ہے تو تعلیم کتاب کا باب شروع کردیتا ہے (۳۹)
اس کے بعد مولانا نے تعلیم کتاب پر روشنی ڈالی ہے اور یہ بتایا ہے کہ تعلیم کتاب سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اس سے پورا قرآن مقصود نہیں ہے کیونکہ آگے حکمت کی بحث آرہی ہے تعلیم کتاب سے وہ حصہ مراد ہے جو احکام و قوانین سے متعلق ہے۔ کتاب کا متعدد مفہوم قرآن کریم میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً آسمانی کتاب،اللہ کا قرار دادہ فیصلہ،شرائع وقوانین ،اللہ کے قرار دادہ فیصلوں کا دفتر اور اعمال نامے وغیرہلیکن یہاں تعلیم کتاب سے مراد قرآنی احکام و قوانین ہیں۔ اس مفہوم میں قرآن کریم کی متعدد آیات موجود ہیں مثلاً
”کتب علیکم القصَاصولاتعزلواعقَدةالنکاح حتی یبلغ الکتاب اجلہواولواالاحام بعضھم اولیٰ بعض فی کتاب اللہ“
اس کے بعد مولانا نے فرمایا کہ تعلیم الہیٰ حکمتوں پر مبنی ہوتی ہے پہلے اس نے فطرت کے تقاضوں کے مطابق دلائل کے ذریعہ سے ہم کو غیر فطری آلودگیوں سے پاک نہ کرلیا اس وقت تک قوانین کی اطاعت کی ذمہ داری ہم پر نہیں ڈالی۔(۴۰)
تعلیم کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا نے بتایا کہ ”تمام شریعت کا سرچشمہ فطرت کے چند بنیادی حقائق ہیںجس طرح ایک سے سو اور ہزار وجود میں آتے ہیںاسی طرح چند بنیادی حقائق کے لوازم و نتائج کے طور پر دین کا سارا عملی واعتقادی نظام وجود میں آتا ہے اسی وجہ سے دین اسلام کو دین فطرت کہا گیا ہے۔(۴۱)اور آگے ایک دوسری چیز یہ بتائی کہ ”دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ شرائع و احکام حقیقت میں تزکیہ کے جزئیات ہیں یہ تزکیہ کو کامل اور روشن کرتے ہیںاللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت سے ایمان پیدا ہوتا ہے اور عمل کے ذریعہ سے بندہ اس ایمان کو بڑھاتا ہے۔(۴۲)
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”ان الصلوةتنھی اعن الفحشاء والمنکر“
نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔
قربانی کی بابت قرآن کریم میں ارشاد ہے :
”لن ینال اللہ لحمومھاولاودماء ھاولکن ینالہ التقوی منکم“(سورہ الحج:۳۷)
خدا کو قربانی گوشت اور خون نہیں پہنچے گابلکہ تمہار تقوی ٰپہنچے گا۔
اس کے بعد مولانا نے ”حکمت“ سے بحث کی ہے کہ آیت میں حکمت سے مراد حکمت قرآن ہے یاحدیثمولانا نے دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہاس سے مراد حدیث نہیں بلکہ حکمت قرآن مراد ہے کیونکہ متعدد آیات میں حکمت کے لئے یُتْلیٰاُنْزِل اور اٰوحیِ کے الفاظ آئے ہیں جس کا استعمال حدیث کے لئے قرآن میں کہیں نہیں ہوا ہے مثلاً
”انزل اللہ علیک الکتاب والحکمة وعلمک مالم تکن تعلم“ (سورہ النساء:۱۱۳)
اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری اور وہ باتیں سکھائیں جو تم نہیں جانتے تھے۔
دوسری جگہ ہے :
”وذاکرن مایتلی فی بیوتکن من آیات اللہ والحکمة“ (سورہ الاحزاب:۳۴)
تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو۔
ایک تیسری جگہ ارشاد ہے:
”ذلک ممااوحی الیک ربک من الحکمة“ (سورہ الاسراء:۳۹)
تمہارے رب نے تمہارے پاس جو حکمت وحی کی ہے یہ اس میں سے ہے۔
اس کے علاوہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اس کے دلائل و براہین کو حکمت بالغہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور خود قرآن حکیم اور کتاب حکیم وغیرہ کہا گیا ہے مثلاً
”حکمة بالغة فماتغن النذرویٰسیں والقرآن الحکیم“
حضرت عیسی کی متعلق فرمایا گیا:
”واذعلمتک الکتاب والحکمة والتورة والانجیل“ (سورہ المائدہ:۱۱۰)
یاد کرو جب ہم نے تم کو کتاب حکمت تورات اور انجیل کی تعلیم دی۔
یہاں پر ہر کتاب اور حکمت کے بعد تورات اور انجیل بطور تشریح کے آئے ہیں کتاب کا لفظ تورات کے لئے اس لئے آیا ہے کہ یہ احکام و قوانین پر مشتمل ہے اور حکمت کا لفظ انجیل کے لئے اس لئے آیا ہے کہ یہ دلائل ونصائح پر چلتی ہے ۔(۴۳)
مذکورہ وجود کی بنا پر حکمت سے حدیث مراد لینا مناسب نہیں ہے آگے مولانا نے مولانا قراہی کتاب ”حکمت قرآن“ سے ایک طویل اقتباس کے ذریعہ لفظ حکمت کی لغوی تحقیق پیش کی ہے ۔(۴۵)
مذکورہ بالا بحث کے بعد مولانا اس پہلو پر آتے ہیں کہ وہ احکام و قوانین کا مجموعہ ہی نہیںاس کے متعلق یہ خیال درست نہیں کہ بغیر تفکر وتدبر کے اس کی حکمتوں تک پہنچا جاسکتا ہے اور اسے سمجھنے کے لئے صرف زبان عربی کا جاننا ہی کا فی ہے یہ بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ احکام وقوانین کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اندر ایک عمبق فلسفہ اور گہری حکمت بھی رکھتاہے جس تک رسائی کے لئے صرف تیرنا ہی کافی نہیں بلکہ ڈوبنے کی بھی شدید ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام ایک ایک سورہ اور ایک ایک آیت پر سالوں سال اور گھنٹے صرف کرتےاورقرآن پر غوروخوض کے لئے وہ مجلسیں قائم کرتےخود سرورکائنات اس طرح کی مجلسوں کے قیام کے لئے صحابہ کرام کو شوق دلاتے(۴۵)ابو داود میں ذکر ہے ۔
”مااجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ یتلون کتاب اللہ ویتارسونہ بینھم الانزلت علیھم السکینة وغشیتھم الرحمة وحقتھم الملائکة وذکرھم اللہ فیمن عندہ“ (۴۶)
جو لوگ کسی جگہ متہد ہو کر اللہ کی کتاب پڑھنے اور باہم درس و مذاکرہ قرآن کی مجلسیں قائم کرتے ہیںان پر اللہ کی طرف سے تسکین اور رحمت کی بارش ہوتی ہے اور ملائکہ ان کو ہر طرف سے گھیرے کھڑے رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کے حلقہ میں ان کا ذکر فرماتا ہے ۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں آتا ہے :
”عبداللہ بن عمر مکث علی سورة البقرة ثمانی سنین یتعلمھا“ (۴۷)
حضرت عبداللہ بن عمر مسلسل آٹھ برس تک سورہ بقرہ پر تدبر فرماتے رہے۔
اس کے علاوہ خود قرآن کی بیشتر سورتوں میں مختلف انداز سے تفکر تدبر کی دعوت دی گئی ہےکہیں
لعلکم تعقلون،کہیں لعلکم تفکرون
اور کہیں لعلکم تذکرون آیا ہے فہم قرآن مجید کے لئے ایک ضروری شرط کی طرف یوں اشارہ کیاگیاہے ۔
”ان فی ذالک لذکری لمن کان لہ قلب آوالقی السمع وھوشہید“ (ق:۳۷)
بیشک اس میں یاددہانی ہے اس شخص کے لئے جس کے پاس دل ہو بامتوجہ ہو کر بات پر کان دھر لے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ فہم قرآن کے لئے اولین شرط یہ ہے کہ انسان کے پا س بیدار دل ہو اور سننے والا کان ہو بغیر اس کے قرآنی حکمتوں سے فیضیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔(۴۸) مولانا فرماتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کا ہونا لازمی ہے یاتو آدمی کے سینہ کے دروازے کھلے ہوئے ہوں اور فہم وادراک کی روشنی اس کے اندر زندہ ہو یایہ کہ اپنے کانوں کو وہ اس کے لئے کھول دے اورطبیعت کی آمادگی کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرےجو حضرات دونوں باتوں سے محروم ہیں وہ قرآن مجید کے فیض سے محروم ہیںان لوگوں کی تصویر سورہ محمد میں ان الفاظ میں کھینچی گئی ہے۔(۴۹)
”اٰفلا یتد برون القرآن ام علی قلوب اقفالھا“
کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں ۔
اسی بحث کو مولانا نے آگے بڑھاتے ہوئے ”ولقدیسّرنا القرآن کی صحیح تاویل“ پیش کی ہے کہ قرآن کریم ایک سیدھی سادی کتاب ہے یہ احکام و قوانین اورپندو موعظت پر مشتمل ہے اس کی ایک ایک سورہ پر آٹھ آٹھ برس سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے ؟اس کے لئے روایات ،تفاسیر اور شان نزول کی کوئی حاجت نہیںمولانا فرماتے ہیں کہ اگر اس آیت پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا تو ہرگز ایسا نہ کہا جاتا بالعموم اس آیت کا مفہوم یہ بتایاجاتا ہے کہ حصول نصیحت کی غرض سے یہ کتاب آسان ہے جو ایک مناسب خیال ہے لیکن یہ بات ہرگز درست نہیں کہ حفظ کے نقطہ نظر سے آسان ہے۔(۵۰)
مولانا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے”یسرنا“ اور ”للذکر“پر لغوی بحث کی ہے مجاہد نے ”یسرنا“ کا معلوم ”ھوناہ“ بتایا ہے اور ابن زید نے اس کا مفہوم ”بیناہ “قرار دیا ہے اس سے ایک حد تک مفہوم تو ادا ہو گیا لیکن اس کی جامعیت کا حق نہ اداہو سکا”یسر“کے معنی لغت میں نرمی اور فرمانبرداری کے ہیںاسی سے تیسیر ہے جس کے معنی ہیں کسی شی کو کسی مقصد کے لئے موزوں،صالح ،موافق اور سازگار بنا لینامثلاً کہیں گے۔”یسرالفرس“ یعنی اس نے گھوڑے کو زین،رکاب اور لگام سے آراستہ کر کے سواری کے لئے بالکل تیار کر لیا۔
”یَسًرنا قتہ للسفراذارحلھاویسرالفرس للسفراذااسرجہ والجمہ“(۵۳)
اعرج معنی کا شعر ہے ۔
”قمت الیہ باللجام یسرًامضالک یحبترینی الذی کنت اضع“ (۵۴)
میں اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا تو حال یہ تھا کہ وہ لگام کے ساتھ بالکل تیار کھڑا تھا ایسے ہی وقتوں میں وہ میرے احسانا ت کا حق اداکرتا ہے یہیں سے اس میں اہل اور لائق بتانے کا مفہوم بھی پیدا ہو گیامضرس بن ربعی کا شعر ہے ۔
”نعین فاعلنا علی ماتابہحتی نیسرہ لفعل السید“ (۵۵)
ہمارے سردار کو جو مشکلیں پیش آتی ہیں ہم اس میں اس کی مدد کرتے ہیںیہاں تک کہ اس کو سرداری کے کام کا اہل بنا دیتے ہیں”للذکر“ کا ترجمہ بعض مفسرین نے نصیحت کرنے کے لئے کیاہے اور بعض نے سمجھنے کے لئے کیا ہے مولانا کے نزدیک یہی درست ہے اگرچہ پھر بھی پوری حقیقت منظر عام پر نہیں آرہی ہے ذکر کے اصل معنی یاد کرنے اور بیان کرنے کے ہیںذکر آسمانی کتابوں کے لئے بھی آتا ہے مثلاً”فاسئلوا اہل الذکر“اسی طرح قرآن مجید میں بھی آیا ہے ۔
”وھذاذکرمبارک انزلناہ“
اور یہ لفظ قرآن کریم میں اس کی صفت کے طور پر بھی آیا ہے مثلاً”والقرآن ذی الذکر“اسی طرح انبیائے کرام کو”مذکر“ اور ان کی تعلیمات کو تزکیہ اور ذکری کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے
”فذکران نفعت الذکریٰ“
اس طرح قرآن کو ”تذکرہ“ اور ”نور “کہاگیا ہے ان دونوں لفظوں سے اس کی پوری حقیقت منظر عام پر آجاتی ہے اور یہ چیز نہایت صراحت کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ قرآنی تعلیمات فطرت انسانی کے مطابق ہیںایک مذکر صرف اس لئے آتا ہے کہ انسان کو اس کا بھولا بسرا ہوا سبق یاد دلا سکے(۵۶)مولانا فرماتے ہیں کہ ”پس قرآن مجید کے سہل ہونے کے معنی صرف یہ ہیں کہااگر کوئی طالب علم اس کی رہنمائی میں حقیقت تک پہنچنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد ہو گی کیونکہ اس نے وہ راہ اختیار کر لی ہے جواللہ کی کھولی ہو ئی راہ ہے اورجس سے سیدھی اور کھولی ہوئی کوئی دوسری راہ نہیں(۵۷)حضرت فتادہ نے”ھل من مدکر“کی تاویل فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل الفاظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ” ھل من طالب علم فیعان علیہ“ہے کوئی طالب علم جس کی مدد کی جائے۔
اسی حقیقت کی طرف صاحب کشاف نے بھی اشارہ کیا ہے:
”یجوز ان یکون المعنی و لقد ھیاناہ للذکرمن یسر ناقتہ للسفراذارحلھا ویسرفرسہ للسفراذا اسرجہ والجمعة“ (۵۹)
یعنی اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے ذکر یعنی حصول علم کے لئے قرآن مجید کو تیار کیا ہے جیسا کہ محاورہ ہے کہ اس نے اونٹنی کو سفر کے لیے اور گھوڑے کو میدان جنگ کے لئے تیار کیا ہےاس بحث کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ تفسیر کا جو مفہوم بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ایک عام فہم کتاب ہے اس کے لئے تفکر و تدبر کی ضرورت نہیں اور اس کو جاننے کے لیے صرف عربی جاننا ہی کافی ہے مناسب نہیں ہے مولانا فرماتے ہیں”اگر وہ ایمان لانا چاہتے ہیں اور یہ وعدہ محض مذاق و شرارت نہیں ہے بلکہ سچائی کے ساتھ ان کے دل کا اقرار ہے تو پھر علم کی راہ اختیار کریں،علم کے حصول کے لئے ہم نے قرآن مجید کو نہایت مکمل اور موزوں بتا دیا ہے اس میں ہر سوال کا جواب ہے ہر شبہہ کا ازالہ ہے ہر خلش کے لے تشقی ہےبس اس کو اختیار کرلیں وہ ہر منزل میں رہنمائی کر ے گا اور ہر عقدہ کو حل کریگا۔(۶۰)
اس کے بعد مولانا نے تفسیر کے مختلف پہلوؤں سے بحث کی ہے تفسیر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن کا نزول عربی مبین میں ہواقرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اس خصوصیت کا ذکر ہے (۶۱)مثلاًانا انزلناہ قرآنا عربیآ(سورہ یوسف:۲) دوسری جگہ ارشاد ہے ”کتابُ فصلت آیاتہ قرآنا عریبا(سورہ قصلت:۳)اور تیسری جگہ ارشاد ہے وھذ السان عربی مبین“(سورہ نحل:۱۰۳)مولانا فرماتے ہیںاس لئے قرآن مجید عربی میں نازل ہواپھر عربی بھی وہ عربی جو عربی مبین ہے بالکل واضح اور صاف ،مغلق اور پیچیدہ نہیں جس کو ہر طبقہ بآسانی نہ سمجھ سکے،محدود اور تنگ نہیںجس کے اسالیب و قواعد اور الفاظ و محاورات قبیلوں اور جماعتوں کے ساتھ مخصوص ہوںبلکہ وہ عربی جو مصمائے عرب کی بولی تھیجس کو سب سمجھتے تھے اور جس کی وضاحت پر سب کا اتفاق و اجماع تھاپس عربی زبان میں قرآن مجید کا اترنا عربوں کے لحاظ سے نہایت کھلی ہوئی تیسیر تھی چنانچہ بعض آیات میں اس کی تصریح بھی ہے(۶۲)
”قانْما یسرناہ بلسا نک لتبشربہ المتقین وتذربہ قوماً لدا“ (سورہ مریم :۹۷)
ہم نے اس کو موزوں بتایا تھاتمہاری زبان میں تاکہ تم اس کے ذریعہ سے خدا ترسوں کو خوشخبری اور ہٹ دھرموں کو آگآہ کرو
اور دوسری جگہ ارشاد ہے :
”قاعایسَّرناہ بلسانک لعلھم یتذکروں“ (سورہ ھاثیہ:۵۸)
اور علم نے اسکو استوار کیا تمہاری زبان میں تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔
قرآن کی تیسیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ تھوڑا نازل ہوا ہےتاکہ قرآن کی تعلیمات دلوں میں واضح ہو جائیںوہ آہستہ آہستہ حالات کے تقاضے اور ضروریات کے مطابق نازل ہوتا رہا،جب کفارنے یہ اعتراض کیا کہ یہ کیوں نہیں تورات کی طرح ایک ساتھ نازل ہو جاتا جستہ جستہ کیوں اترتا ہے تو ان کے جواب میں اللہ فرماتا ہے :
”کذالک لنثبت بہ فوادک ورتلناہ ترتیلا“(سو رہ الفرقان:۳۲)
ایسا اس لئے ہے کہ اس طرح ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اتارا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
”لتقراہ علی الناس علیٰ مکث“
بنی اسرائیل:۱۰۶)تاکہ تو اس کو لوگوں کو وقفہ وقفہ کے ساتھ سنائے۔
تیسیر کا تیسرا پہلو سورہ ہود کے آغاز میں مذکور ہے :
”کتاب احکمت اٰیاتہ تم فصلت من لدن حکیم خیر“
سورہ یہود! ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر ایک حِکم کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مکی سورتوں میں دین کی تمام اصولی تعلیمات توحید،رسالت اور معاد وغیرہ نہایت مختصر اور جامع لفظوں میں بیان ہوئی ہیںاور بعد میں ان کی تفصیلات اور جزئیات مدنی سورتوں میں بیان کی گئیںقرآن کریم کے اجمال و تفصیل کا یہ طریقہ فطرت انسانی کے نقطہ نظر سے نہایت مناسب ہے
تیسیرکا چوتھا پہلو تعریف آیات ہے یعنی قرآن کریم مخاطب کے ذہن میں اچھی طرح بات کو ذہن نشین کرانے کے لئے ایک ہی بات کو مختلف انداز سے پیش کرتا ہے(۶۳)قرآن کریم میں ارشاد ہے:
”انظر کیف نصرف الآیات تم ھم یصدفون“(سورہ انعام:۶۴)
دیکھو‘کیسے ہم پھیر پھیر کر اپنے دلائل بیان کرتے ہیںپھر بھی وہ منہ موڑتے ہیں۔
”انظر کیف نصرف الآیات لعلھم یفقھون“(سورہ انعام:۶۵)
دیکھو‘کیسے ہم اپنی دلیلیں پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔
مولانا فرماتے کہ تصریف آیات کا لفظ تصریف ریاح سے لیاگیاہےیعنی ہوا ایک ہی ہے لیکن اس کے تصرفات میں تنوع او ر گونا گونی ہے یعنی وہ رحمت بھی اور نعمت بھیمولانا کا خیال ہے کہ اس کا بہر بھیس اس کا ئنات کی زندگی اور نشوونما کے لئے ضروری ہوتا ہے وہ کبھی گرم ہوتی ہے کبھی سرد کبھی خشک ہوتی ہے کبھی تر کبھی آندھی کی ہولناکی بن کر نمودار ہوتی ہے کبھی نسیم صبح کی جان توازی اور عطربہتری بن کر اللہ تعالیٰ نے اس تصریف ریاح کا مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے سورہ ذاریات اور مرسلات میں اسکے عجائب تصرفات کی قسم بھی کھائی گئی ہے۔(۶۴)
بارش کی ایک مثال سے اللہ تعالیٰ نے تین حقائق کو پیش کیا ہے ایک تو یہ کبھی مدتوں بارش نہیں ہوتی ہے ایسے میں بندہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے لگتا ہے لیکن اچانک کو ئی ابر کا ٹکڑا اٹھتا ہے اور دلوری سرزمین کو جل تھل کر دیتا ہے چنانچہ بندے کی مایوسیاں امیدمیں بدل جاتی ہیں اسی لئے مناسب یہ ہے کہ خوف اورطمع ہر حال میں اللہ ہی کو پکارا جائے۔
”وادعوہ خوفاً وطمعًا ان رحمةاللہ قریب من المحسنین“(سورہ الاعراف:۵۶)
پس امید ہو یا بہم ہر حال میں اسی کو پکارو اللہ کی رحمت سے اس اچھے بندوں سے قریب ہے ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ منکرین کو اس پر حیرت ہے کہ ہم گل سڑ جانے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہو جائیں گے؟اللہ کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی استعجاب نہیں کیونکہ زمین جل جاتی ہے اور سطح زمین پر گھاس کا ایک تنکا بھی نظر نہیں آتالیکن بارش ہوتے ہی چند دنوں کے بعد سطح زمین پر سبزہ کی بارات بچھ جاتی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے
”سقناہ لبلدٍ میت فائزلنا بہ الماء فاخر جنابہ من کل الثمرات کذالک مخرج الموتی“(سورہ الاعراف:۵۷)
ہم نے ان بادلوں کو کسی سو کبھی زمین کی طرف پانک کر لے جاتے ہیںاور وہاں پانی برسا دیتے ہیںپھر اس سے پیدا کر دیتے ہیں ہرقسم کے پھل اسی طرح مُردوں کو بھی اٹھا کر کھڑے کریں گے۔
ایک تیسری حقیقت یوں ہے کہ بارش زمین کے ہر حصہ پر ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات و نتائج مختلف حصوں میں مختلف ہوتے ہیں زرخیز زمین لہلہا اٹھتی ہیں اور لوگوں کے لئے سبب رزق بن جاتی ہیں لیکن تھور زمینیں ویسی کی ویسی ہی پڑی رہتی ہیںاگر اس میں کچھ اُگا بھی تو وہ انسانوں کے لئے راس نہیںیہی حال آسمان کی روحانی بارش کا ہے جو تمام لوگوں کے لئے عام ہوتی ہے لیکن ہر انسان بقدر استعداد اس سے فیضیاب ہوتا ہے فطرت صالحہ اس سے خیروبرکت حاصل کرتی ہے اور فطرت فاسدہ اس سے اضطراب کا شکار ہو جاتی ہے قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
”والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لایخرح الانکداً“ (سورہ الاعراف:۵۷)
جو زمین زرخیر ہوتی ہے اس کی نباتات خدا کے حکم سے خوب اُگتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے وہ بہت کم اُگاتی ہے۔
تصریف آیات کا مقصد یہ ہے کہ ”کذالک تصرف الآیات لقوم یشکرون“مولانا کہتے ہیں کہ تصریف آیات کا تعلیم اور تیسیر میں اس قدر دخل واضح کہ اس پر کسی بحث کی ضرورت نہیں اس تصریف کا مقصد خود قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق یہ ہے کہ لوگ یاد دہانی حاصل کریں اور سمجھیں
”ولقدصرفنافی ھذاالقرآن لیذکروا ومایز ید ھم الاکفورا“
اور ہم نے اس قرآن میں اپنے دلائل پھیر پھیر کر بیان کئے کہ لوگ یاددہانی حاصل کریںلیکن یہ چیز ان کی نفرت ہی بڑھاتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات پوری طرح سامنے آگئی کہ تیسیر کا وہ مفہوم درست نہیں ہے جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے اس کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ یہ حصول علم اور یاددہانی کے نہایت آسان ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ علم دین فکرو تدبر کی تمام کا وشوں سے مستعنی ہو گیا ہے۔(۶۵)
اس کے بعد قرآن مجید کی مشکلات بااعتبار مخاطب پر روشنی ڈالی گئی ہےاور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ دور اول میں صحابہ کرام قرآن کی امتثال ،اسالیب،اصطلاحات،تلمیحات،احوال عرب اور اپنی قوم کے عقائد ورسومات سے پوری طرح واقف تھےجہاں قرآن کریم نے ا شارہ کیا سمجھ گئے جہاں لسان غیب سے کوئی نقطہ تراوش ہوا وہ بے تکلف اس کا مطلب سمجھ گئےاس کی مثا ل یہ ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ابولہب کی نسبت نہایت لطیف تصریحات ہیں جن کی تہہ تک پہنچنا صحابہ کرام کے لئے دشورا گزار نہ تھالیکن آج کے عہد میں ان تصریحات کا سمجھنا اور قرآنی اسالیب کا بآسانی پکڑنا مشکل ہے ،بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں ہلکے سے اشارات ہیں ان کا سمجھنا ہم لوگوں کے لئے ایک مسئلہ ہے لیکن صحابہ کرام اشارہ پاتے ہی پوری داستان کو سمجھ جاتے تھےاس سلسلے کی دو مثالیں یہاں پیش کی جارہی ہیںایک میں اہل مکہ کی نماز کا ذکر ہے۔
”وماکان صلوتھم عندالبیت الامکاءً ولتصدیةً“
نہیں تھی ان کی نماز خانہ کعبہ کے پاس مگر تالی بجانا اور صحیح بجانا
آج اہل مکہ کی اس عبادت کا پورا تصور منظر عام پر لانا ہمارے لیے کس قدر مشکل ہے لیکن عہد نزول قرآن کے لوگوں کے سامنے اس کی پوری تصویر موجود تھیکیونکہ ظہور اسلام سے قبل خود اسی طرز پر اپنی نمازیں اداکرتے تھے۔(۶۶)
اسی طرح سورہ اعراف میں ذکر ہے:
”واذا فعلوافاحشة قالواوجدناعلیھا آباء ناواللہّٰ امرنا بھاء قل ان اللہ لایامربالفحشاء اتقولوٴن علی اللہ مالاتعلمون“(سورہ اعراف:۲۸)
اور جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں توکہتے یں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو یہ کام کرتے ہوئے پایا ہے اور اللہ نے ہم کو اس کا حکم دیا ہے کہدو اللہ بے حیائی کا حکم نہیں دیتاکیا تم اللہ پر ایسی بات کا الزام دھرتے ہوجس کا تمہیں علم نہیں۔
اس آیت میں اہل مکہ کے ننگے طواف کرنے کا ذکر ہوا ہے جبکہ بالفاظ اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایک لطیف سا اشارہ ہےکیونکہ اہل مکہ اس کے سیاق وسباق سے پوری طرح واقف تھےلیکن آج ہمارے لئے اس آیت کے پس منظر پوری طرح گرفت میں لے لینا آسان نہیں ہے اسی ننگے پنے کی صورت طواف کرنے کا ذکر دوسری جگہ اس طرح ہے ۔
”یٰبنی آدم خذوذینتکم عند کل مسجدوکلواواشربواولاتسرفواانہ لایحب المسرفین قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبات من الرزق“ (سورہ اعراف:۳۱، ۳۲)
ہر مسجد کے پاس لباس وغیرہ سے اپنے تئیس آراستہ کر لیا کرو اور کھاؤپیو اور فضول خرچیاں نہ کروکیونکہ خدا فضول خرچیاں کرنے والوں کو پسندنہیں کرتاان لوگوں سے کہ کس نے حرام کی اللہ تعالیٰ کی زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی اور پاک روزیاں(جو اس نے اپنے بندوں کو بخشیں۔
اسی طرح کی بہت سے واقعات اور اہل مکہ کے عقائد و رسومات متعدد آیات میں ذکر کئے گئے ہیں جن سے صحابہ کرام پوری طرح باخبر تھےلیکن موجودہ عہد میں ان تمام چیزوں سے آگاہ ہونے کے لئے بہت چیزوں کا سہارا لینا پڑے گا۔
جن کی طرف مولانا فراہی نے ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے ”ہم کو لازم ہے کہ زمانہ نزول کی پوری حالت تمدن سے ہم واقف ہوں“
۱۔ہم کو اس وقت کے یہود ونصاری ،مشرکین،صابیئین وغیرہ کے مذہب و معتقدات سے واقف ہونا چاہیے
۲۔ہم کو عرب کے عام توہمات کو دریافت کرنا چاہیے۔
۳۔ہم کو جاننا چاہیے کہ نزول قرآن کی مدت میں کیا کیا واقعات نئے پیدا ہوئے اور ان سے عرب کی مختلف جماعتوں میں کیا کیا مختلف باتیں زیر بحث آگئیںکیا کیا ملکی و تمدنی جھگڑے چھڑ گئے اور تمام عرب میں کیا شورش پیدا ہو گئی۔
۴۔ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کا مذاق سخن کیاتھا کس قسم کے کلام سننے اور بولنے کے وہ عادی تھے بزم میں ان کا خطیب کس روش پر چلتا تھاایجاز اور اطناب ،ترصیع وترکیب،دیگر اسالیب خطابت کو وہ کیونکر استعمال کرتے تھے۔
۶۔اور بالآخر ہم کو یہ بھی جاننا چاہیے کہ عرب کے ذہن میں اخلاق کے مدارج نیک وبد کیاتھے۔(۶۷)
اس کے بعد مولانا نے سلف کے طریقہ تفسیر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ پہلے وہ آیات کی تفسیر کے لئے دوسری آیات سے مددلیتے تھےاس کے بعد احادیث رسول کے ذریعہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے اور تیسرے مرحلہ میں صحابہ کرام کے آثار و اقوال سے مدد لیتے تھے۔(۶۸)جس کی طرف علامہ سیوطی نے خود اپنی کتاب میں اشارہ کیا ہے (۶۹)اور وہیں پر علامہ سیوطی نے یہ بات بھی بڑے شدومد کے ساتھ کہی ہے کہ تفسیر
کے وقت اس کا ضرور خیال رہے کہ موضوع اور ضعیف احادیث سے احتراز کیاجائے۔(۷۰)
شان نزول کے سلسلے میں مولانا فرماتے ہیں کہ تفاسیر کو دیکھا جائے تو تقریباًہر آیت سے متعلق کوئی نہ کوئی واقعہ موجود ہے اور کبھی کبھی ایک ہی آیت کی شان نزول میں اتنے واقعات درج ہیں کہ ان میں تضاد پایاجاتا ہے اس سلسلے میں مولاناکاخیال ہے کہ ان میں سے اکثر واقعات کا آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ہر آیت سے متعلق کوئی واقعہ یا چند واقعات تسلیم کر لیے جائیں توقرآن میں نظم و تسلسل کی تلاش بے معنی ہو کر رہ جائے گی ہر آیت کو کسی واقعہ سے جوڑنا تسلسل کے منافی ہے۔(۷۱)جیساکہ امام رازی نے
”واذا جاء ک الذین یومنون باٰیٰتینا “
کی تفسیر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ میرے سامنے یہاں ایک سخت اشکال ہے وہ یہ کہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ پوری سورہ بیک دفعہ نازل ہوئی جب معاملہ یوں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سورہ کی ہر آیت کی نسبت یہ کہا جائے کہ اس کے نزل کا سبب فلاں واقعہ ہے ۔(۷۲)
اسی کی مزید وضاحت علامہ سیوطی نے ان لفظوں میں کی ہے کہ زرکشی نے برہان میں لکھا ہے کہ صحابہ کرام وتابعین عظام کا یہ طریقہ عام ہے کہ ان میں سے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ یہ بات اور پتہ اس کے نزول کا سبب ہے گویا یہ بس آیت سے اس معاملہ پر ایک استدلال ہوتا ہے کہ نقل واقعہ(۷۳)ٹھیک یہی تحقیق شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی ”الفوزالکبیر میں پیش کی ہے (۷۴)اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مولانا کا خیال ہے کہ صرف ان قصص و واقعات کو جاننا ضروری ہے جن کی طرف آیات ضروراشارہ کررہی ہوں کیونکہ بغیر اس کے پوری طرح سے آیات کی تفسیر ممکن نہیں ہے (۷۵)اس پہلو کی طرف خود شاہ صاحب نے بھی اشارہ کیاہے۔(۷۶)
آخر میں مولانا نے خلاصہ بحث پیش کرتے ہوئے بتایا کہ
۱۔قرآن مجید بعض پہلوؤں سے آسان ہے اور بعض پہلوؤں دقیق اور مشکلاس لئے یہ کہنا کہ وہ ایک سپاٹ کتاب ہے مناسب نہیں ہے ۔
۲۔اس کے متعلق یہ نظریہ بھی درست نہیں کہ وہ محض احکام و قوانین کا مجموعہ اور حرام وحلال کے معلوم کرنے کا ایک خشک اور سیدھا سادہ ضابطہ ہے بلکہ یہ کتاب الہی تین اجزاء پر مشتمل ہے ۔
۱ آیات اللہ یعنی دلائل وبراہین
۲ کتاب یعنی قوانین و احکام
۳ اور حکمت یعنی روح شریعت اور جوہر دین پہلا حصہ دین کی منطق،دوسرا حصہ دین کا نظام اور تیسرا حصہ دین کا فلسفہ ہے
۴ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس سے یہ تقاضا ہو کہ وہ ایک سپاٹ کتاب ہے کیونکہ اس میں بیشمار ایسی آیات ہیں جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اس پر تفکر و تدبر کرنا چاہیے۔
۵ جو لوگ قرآن مجید کی تفسیر کے باب میں صرف روایات ہی پر اعتماد کرتے ہیں یقینا وہ غلو کرتے ہیں،کیونکہ یہ بات محققین کے مذہب کے برعکس ہے۔
۶ شان نزول سے بھی قرآن مجید کی وضعیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے محققین کے نزدیک یہ استنباط کی ایک قسم ہے یعنی صحابہ کرام جو یہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت فلاں و اقعہ پر اتری یا فلاں بارے میں نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس آیت کے نزول کے سبب بعینہ وہی واقعہ ہے بلکہ اس کا مطلب بالعموم یہ ہوتا ہے کہ وہ آیت فلاں حکم پر مشتمل ہے۔(۷۷)
اس کتاب کا آخری باب ”تفسیر کا اصول “ ہے اس کے آغاز میں مولانا نے مفسرین کے چار مکاتب کا ذکر کیا ہے جن میں سے تین مکاتب محدثین اور اہل روایت کا طریقہ (اس طرز پر تفسیر ابن جرید اور تفسیر ابن کثیر لکھی گئی )متکلمین کا طریقہ(اس طرز پر زمخشری ی تفسیر کشاف اور رازی کی تفسیر کبیر منظر عام پر آئی)اور مقلدین کا طریقہ(یعنی مذکورہ تفاسیر کے بعد بقیہ تمام تفاسیر گزشتہ تفاسیر کے خطوط پر تصنیف کی گئیں)کا ذکر باب ”تیسیر قرآن“میں آچکا ہے (۷۸) اور چوتھا مکتب فکرو متجددین کا طریقہ یہ ہے یہ وہ حضرات ہیں جو مغربی افکار و نظریات سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ اس کی تائیدقرآنی آیات سے کرنا شروع کر دیااس طریقہ تفسیر کی طرح سر سید مرحوم نے ڈالی اور پھر یہ فتنہ بڑھتا ہی گیامولانا نے ان چاروں مکاتب پر تنقید کی ہے ان میں سے تین مکاتب پر باب ”تیسیر قرآن“ میں تنقید آچکی ہے چوتھے مکتب فکر متجد دین کے باب میں مولانا کا خیال ہے کہ جس طرح متکلمین نے اپنے نظریات کی تائید کے لئے قرآن کو توڑ مروڑ کر پیش کیااسی طرح انہوں نے بھی اپنے خیالات کو امت مسلمہ کے مابین مقبول بنانے کے لیے قرآن مجید پر ہاتھ صاف کیا اس سلسلے میں مصر کے علامہ طنطاوی اور ہندوستان کے سرسید کی تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ انہوں نے دین کی تمام حدیں مسمار کر دی ہیںاس طرح کی تفاسیر کو تفسیر قرآن کی بجائے تحریف قرآن کہنا زیادہ صحیح ہو گا۔
مولانا نے تفسیر کے صحیح اصول کے متعلق بتایا کہ وہ دو۲ہیں ایک قطع اور دوسرے ظنی،قطع اصول چارہیںایک تو عربی زبان،دوسرا قرآن مجید کے الفاظ واسالیب،تیسرا قرآن مجید کی نحو اور چوتھا قرآن مجید کی بلاغت و صحافت ان تمام چیزوں پر مولانا نے اسی کتاب میں تدبر قرآن کے داخلی اور خارجی وسائل کے تحت روشنی ڈالی ہے ۔(۷۹) اس باب کے آخر میں مولانا نے نظم قرآن سے بحث کی ہے جس پر ان کا ایک مقالہ بھی ہے ۔(۸۰)آپ کے استاذ گرامی مولانا قراہی کی اس موضوع پر ایک مستقل کتاب بھی ہے ۔(۸۱)اور استاذ گرامی دونوں حضرات نے نظریہ نظم قرآن کو اپنی اپنی (۸۲)(۸۳)تفاسیر میں عملی جامہ پہنایا ہے نظم قرآن کے متعلق مولانا کا خیال ہے کہ یہ صحیح تاویل کے تعین میں ایک فیصلہ کن عامل ہے نظم کا مطلب یہ ہے کہ ہر سورہ کا ایک عمود یا موضوع ہوتا ہے اور سورہ کی تمام آیات نہایت ترتیب اور مناسبت کے ساتھ اپنے موضوع سے جڑی ہوئی ہوتی ہیںیعنی بہ متفرق آیات ایک حسین وحدت کی صورت اختیار کر جاتی ہیںاس کے بغیر سورہ کی اصل حیثیت اور آیات کی صحیح تاویلات منظر عام پر نہیں آ سکتیںلیکن چونکہ نظم قرآن ایک مشکل عمل ہے اس لئے مفسرین نے اس کی طرف توجہ کم دی ہےاگر کسی نے دی بھی ہے تو بڑے سر سری انداز میں اور کچھ لوگوں نے نظم قرآن کو کا ر غبت قرار دیا ہے ۔(۸۴)
اس کے بعد مولانا نے یہ واضح کیا کہ نظم قرآن آج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ (۸۵)بلکہ پہلے کے لوگوں نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے علامہ ابو جعفر بن زبیر شیخ ابوحیان کے استاذ نے اس موضوع پر ”البرہان فی مناسبة ترتیب سورا القرآن“کے عنوان سے ایک کتاب ترتیب دی ۔(۸۶) اور شیخ برہان الدین بقاعی (المتوفی:۱۴۸۰ء) کی تفسیر نظم ”الدروفی تناسب الای السور“(۸۷) بھی اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی علامہ سیوطی نے بھی نظم قرآن پر اپنی تصنیف کا ذکر کیا۔(۸۸) اما م رازی نے بھی اپنی تفسیر میں نظم قرآن پر خصوصی توجہ دی ہے ۔(۸۹)لیکن مولانا نے ان کی اس خدمت کو زیادہ مفید نہیں بتایا ہے اسی سلسلہ کی ایک کوشش علامہ مخدوم مہایمی کی تفسیر”تبصیر الرحمان وتیسیر المنان“ ہے۔(۹۰) جس میں انہوں نے اپنی کوشش کو حد تک آیات قرآن کا نظم بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس مسلک کے ایک اور بزرگ علامہ ولی الدین علوی ہیں جن کا نظم قرآن کے متعلق ارشاد ہے ”جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ قرآن مجید کا نزول چونکہ حالات کے تقاضے کے مطابق تھوڑا تھوڑا کر کے ہوا ہے اس وجہ سے اس میں نظم نہیں تلاش کرنا چاہیےان کو سخت دھوکا ہوا ہے قرآن مجید کا نزول بلا شبہ حسب حالات جستہ جستہ ہوا ہے لیکن جس طرح اس کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں نہایت گہری حکمت ملحوظ ہے۔(۹۱)
اس باب کے آخر میں مولانا فرماتے ہیں کہ مذکورہ گفتگو کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ مولانا قراہی اور ان کے اساتذہ سے قبل بھی نہ صرف یہ کہ اس نظریہ کے قائلین رہے ہیں بلکہ اس پر تصانیف منظر عام پر آئیں اور اسی کی روشنی میں تفاسیر بھی ترتیب دی گئیں(۹۲)

۶
تدبر القرآن علوم ومعارف قرآن حواشی ۱۔”مبادی تدبر قرآن“ کی پہلی اشاعت اپریل ۱۹۵۱ءء میں تدبر قرآن کے عنوان سے ہوئی تھیجس میں صرف دو باب”تدبر قرآن ”اور ”تیسیر قرآن“ شامل تھے”تدبر قرآن“ ہی کے عنوان سے مئی ۱۹۵۲ءء میں جب اس کی دوسری اشاعت زیر عمل آئی تو اس میں دواورباب کے اضافے کئے گئے جن کے عناوین ”فہم قرآن کے لئے چند ابتدائی شرطیں“ اور ”تفسیر کے اصول“ تھےاس کا عنوان ”مبادی تدبر قرآن“ کر دیا گیا۔
۲۔اس سلسلے میں دیکھیے؛مولانا حمید الدین قراہی اور علم حدیثمولانا امین احسن اصلاحی مرحوممجلہ الفرقان لکھنو جلد ۶۶،شمارہ ۰۹،دفتر ماہنامہ الفرقان۳۱/۱۴ اظہر آباد،لکھنو ستمبر ۱۹۹۸ء ،ص۱۴۱۸۔
۳۔تدبر قرآن امین احسن اصلاحیمکتبہ چراغ راہلوٹیا بلڈنگ آرام باغ روڈ کراچی باردوم مئی ۱۹۵۶ء ص۲۴۲۵
۴۔ایضاًص۲۷۲۸
۵ ۔ایضاًص ۲۹ نمبر
۶ ۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھئے۳۲۳۴
۷۔ایضاً ص۳۴۳۵
۸۔ایضاً ص۴۱۴۲
۹۔ایضاً ص۴۲۴۳
۱۰۔وضاحت کے لئے دیکھیےص۴۴۴۶
۱۱۔ایضاً ص۴۷
۱۲۔ایضاً ص۱۲
۱۳۔ایضاً وضاحت کے لئے دیکھیے ص۵۳۶۴
۱۴۔ایضاًص۶۴
۱۵۔وضاحت کے لئے ص۶۵۷۱
۱۶۔ایضاً ص۷۱
۱۷۔ایضاً۷۳۷۴
۱۸۔ایضاً ص۷۵
۱۹۔ایضاً ص۷۹۸۰
۲۰۔وضاحت کے لیے دیکھیےص۸۴۹۰
۲۱۔ایضاً ص۹۰
۲۲۔مولانا کی یہ تفسیر جزوی طور پر اور دیگر تفسیری اجزاء کے ساتھ شائع ہو چکی ہے دیکھیے تفسیر نظام القرآن حمید الدین قراہی (ترجمہ از امین احسن اصلاحی) دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم ۱۹۹۰ء ء ص۳۶۳۴۱۰
مولانا کی یہ تفسیر اہل علم کے نزدیک ہمیشہ معرض بحث بنی رہی اس سلسلے میں دیکھیے مولانا فراہی فیل پر اعتراضات کا جائزہمولانا نسیم ظہیر اصلاحی مجلہ تحقیقات اسلامی علی گڑھ۶ /۲، اپریل جون ۱۹۷۸ء ص ۲۸۱۹۶
۲۳۔تدبر قرآن ص۹۱
۲۴ایضاً ص۹۱۹۲
۲۵صحاج جوہری بحوالہ تدبر قرآن ص۹۱۹۲
۲۶مبادی تدبر قرآنمولانا امین احسن اصلاحی مرکزی انجمن خدام القرآنلاہورباب چہارم ۱۹۸۰ء ص۶۰
۲۷ ” اسالیب القرآن“پر دیکھیے قرآن مجید کے بعض اسالیب سے متعلق مولانا فراہی کی توصیحاتایک مطالعہ مولانا تعلیم الدین اصلاحی (علامہ حمید الدین فراہی ،حیات و افکار، ۱۹۹۲ء انجمن طلبہ قدیم مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھیوپی انڈیاص۳۸۷۴۰۱
۲۸مفردات پر خاکسار کامضمون دیکھیے
۲۹۔تدبر قرآن ص۹۵۹۶
۳۰۔وضاحت کے لیے دیکھیے ”اعجاز القرآن الباقلانی ابوبکر محمد بن الطیب(تحقیق،السید احمد صفر) دارالمعارف مصر(بدون تاریخ) ص۷۲
۳۱وضاحت کے لیے دیکھیےجمرة البلاغہالمعلم عبدالحمید القراہیالدائرة الحمدیہ،اعظم گڑھ،الہند ۱۳۶۰ئھ ص۱۸۸
۳۲۔”جمرة البلاغہ“ پر دیکھیے؛ مولانا فراہی کے تنقیدی نظریاتجمرة البلاغہ کی روشنی میں پروفیسر محمد راشد ندویص۵۳۳۵۷۶(علامہ حمید الدین فراہی ؛حیات افکار) نیز دیکھیےمولانا فراہی اور شعریات مشرق،ڈاکٹر عبدالباریص۵۴۷۵۶۱(علامہ حمید الدین فراہی حیات وافکار)
۳۳۔وضاحت کے لیے دیکھیےتدبر قرآنص۹۶۱۰۰
۳۴۔ذبیح کون ہے حمید الدین فراہی(ترجمہ امین احسن اصلاحی) طبع اول دائرہ حمیدیہ مدرسةالاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(بدول تاریخ)ص۱۱۸۵
۳۵۔وضاحت کے لیے دیکھیےتدبر قرآنص۱۰۳۱۱۲
۳۶۔ایضاً ص۱۱۲
۳۷۔ایضاً ص۱۱۹
۳۸۔وضاحت کے لیے دیکھیےایضاًص۱۲۶۱۴۲
۳۹۔ایضاً ص۱۴۳
۴۰۔ایضاً ص۱۴۳۱۴۶
۴۱ایضاً ص۱۴۶
۴۲۔ایضاًص۱۴۷
۴۳۔ایضاًوضاحت کے لیے دیکھیےص۱۴۹۱۵۶”حکمت قرآن“ کا اردو ترجمہ شائع ہو چکا ہے (ترجمہ از خالد مسعود)طبع اول قاران فاونڈیشنلاہور ۱۹۹۵ء
۴۴۔ص۱۱۴۱
۴۵۔حکمت قرآن امام حمید الدین فراہی(اردو ترجمہ) ص۱۴
۴۶۔بنابر قولص۱۶۰۱۶۱
۴۷۔ابو داؤد بخاری اور مسلم دونوں میں یہ روایت موجود ہے
۴۸۔تدبر قرآنص۱۶۴۱۶۵
۴۹۔ایضاًص۱۶۵
۵۰۔ایضاًص۱۷۱۱۷۲
۵۱۔اس کے لیے لسان العرب دیکھیے
۵۲۔یہ مفہوم لسان العرب اور متجد دونوں میں موجود ہے
۵۳۔یہ مفہوم میں متجد میں موجود ہے
۵۴۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۶۸
۵۵۔دیوان الحماسة (بحواشی محمد اعزاز علی ) المکتبہ الرحیمیہدیو بند یوپی ہند(بدون تاریخ)ص۳۰۷
۵۶۔تدبر قرآن وضاحت کے لیےص۱۷۴۱۷۸
۵۷۔ایضاً ص۱۷۹
۵۸۔بحوالہ مبادی تدبر القرآنص۱۲۲
۵۹۔تفسیر الکشاف بحوالہ مبادی تدبر القرآن ص۱۲۲۱۲۳
۶۰۔تدبر قرآن ص۱۸۱
۶۱۔ایضاً ص۱۸۱
۶۲۔ایضاً ص۱۸۲
۶۳۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۸۲۱۸۶
۶۴۔ایضاً ص۱۸۷
۶۵۔ایضاً ص۱۸۷۱۹۱
۶۶۔ایضاً وضاحت کے لیے دیکھیےص۱۹۶۲۱۰
۶۷۔قرآنی مقالات(ترتیب و پیشکش ادارہ علوم القرآن علی گڑھ) طبع اول ناشر ادارہ علوم القرآن علی گڑھ ۱۹۹۱ء ص۱۴
۶۸۔تدبر قرآنص۲۱۱
۶۹۔ الاتقان فی علوم القرآنسیوطی(ترجمہ از مولانا محمد حلیم انصاری) نور محمد اصح المطابع کا رخانہ تجارت کتب،آرام باغ
۷۰۔الاتقان فی علوم القرآن (اردو ترجمہ) ۲/۵۶۵ کراچی (بدول تاریخ) ۲/۵۵۶۵۶۰
۷۱۔تدبر قرآنص۲۱۸
۷۲۔تفسیر رازیبحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۵۱
۷۳۔الاتقان(اردو ترجمہ) ۱/۷۶
۷۴۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)شاہ ولی اللہ(مترجم:مولوی رشید احمد صاحب انصاری مرحوم) فاروق پریس دہلی(بدول تاریخ)ص۵
۷۵۔تدبر قرآنص۲۲۵
۷۶۔الفوز الکبیر فی اصول التفسیر(اردو)ص۵
۷۷۔تدبر قرآن،وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۳۲۲۳۳
۷۸۔ایضاً ص۱۰۶۱۱۹
۷۹ایضاً ص۸۶۹۶
۸۰۔قرآنی مقالات(نظم قرآن مولانا امین احسن اصلاحی)طبع اول ۱۹۹۱ء ص۱۶۲۲
۸۱۔رسائل الامام الفراہی فی علوم القرآنالامام عبدالحمید فراہی الطبقہ الثانیہالدائرہ الحمیدیہ مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ(الہند) ۱۹۹۱ء ص۷۱۳۹
۸۲۔مولانا اصلاحی کی تفسیر تدبر قرآن کے عنوان سے آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے یہ پاکستان میں انجمن خدام القرآن لاہور سے اور ہندوستان میں سے شائع ہوتی ہے
۸۳۔تفسیر نظام القرآنحمید الدین فراہی (ترجمہ ازامین احسن اصلاحی )دائرہ حمیدیہ مدرسة الاصلاحی سرائے میر اعظم گڑھ( ۱۹۹۰ء ص۱)
۸۴۔تدبر قرآن وضاحت کے لیے دیکھیےص۲۵۲۲۵۴
۸۵۔نظم قرآن ہی کے موضوع پر دیکھیےالبریان فی نظام القرآنمحمد عنایت اللہ اسد سبحانی الطبقہ الاولیٰ دارالکتب پشاور پاکستان ۱۹۹۴ء ص۱۶۲۸
۸۶۔الاتقان(اردو) ص۳۲۵
۸۷۔ ”نظم الدررفی تناسب الایات والسور“بائیس جلدوں پر مشتمل ہے جو حیدر آباد دکن ہند کے مطبع ”مجلس دائرة المعارف العثمانیہ“ سے شائع ہوئی ہے صاحب تفسیر امام بقاعی نے نظم قرآن کے متعلق مقدمہ میں فرمایا ہے ”الحمد للہ الذی انزل الکتاب متنا سباسورہ وآیانہ ومتنسابھا فواصلہ وغایاتہ“
۸۸۔علامہ سیوطی نے نظم قرآن پر جو کتاب تالیف کی ہے اس کا عنوان ”اسرارالتفسرین“ ہے جس کے متعلق ان کا خیال ہے کہ وہ بھی سورتوں اور آیتوں کی باہمی مناسبتوں کی جامع ہے الاتقان(اردو) ص۳۲۵
۸۹۔اس کے لیے دیکھیے تصنیف،نظم قرآن،جو دائرةالحمیدیہ،مدرسة الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ سے ۱۹۹۲ ء میں شائع ہوتی ہے اس میں نظم قرآن کے متعدد قائلین کا ذکر ہے
۹۰۔نظم قرآن کے موضوع پر ڈاکٹر عبید اللہ فہد فلاحی کی کتاب ۱۹۹۸ء میں شعبہ اسلامیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ انڈیا سے شائع ہوئی ہےجس میں مہائمی کی نظریہ نظم قرآن سے بحث کی گئی ہے
۹۱۔بحوالہ مبادی تدبر قرآنص۱۷۶
۹۲۔تدبر قرآن ص۲۵۶

۷
فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ علوم ومعارف قرآن فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ مقالہ نگار:ڈاکٹر محمدعبداللہ قرآن حکیم کے اسلوب کاہرپہلو ایک معجزہ ہے جملوں کی برجستگی، ترکیب کی چستی،عالمانہ انداز بیان،کوثر و تسنیم میں ملے ہوئے جملے،موقع و محل کے مطابق زور بیان،سیاق وسباق کے مناسب صفات الہیہ ان میں سے ہر ایک ایسی چیز تھی جس نے اہل زبان عربوں کو مبھوت وششدر کر دیایہاں تک کہ اہل عرب جنہیں اپنی زبان دانی پر ناز تھاقرآن حکیم کے اعجاز و اسلوب کے مقابلے میں اپنے آپ کو عاجز وبے بس خیال کرنے لگے۔ بلغاء وفصحاء کو اعتراف کرنا پڑا کہ اسلوب قرآنی زبان وبیان کی وہ جنس گراں ہے جس تک ان کی پرواز نہیں اور نہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے محسوس کیاکہ نظم و اسلوب خود اس کی فطرت لسانی کی روح اور جان ہے اورکسی عرب کے دل و دماغ کو اس بیان سے متاثر ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کتاب عظیم، اس اعجاز کی طرف اشارہ ہے جو قیامت تک کے تمام انسانوں کو شامل ہے۔
”وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمّٰانَزَّلْنٰا عَلٰی عَبْدِنٰا فَأتُو بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِہِ وَادْعُوا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَالَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ“
(سورہ بنی اسرائیل:۲۴،۲۳)
اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آو اور اللہ کے سوا اپنے سب حمایتیوں کو بلا لو اگر تم سچے ہو پھر اگر نہ لا سکو تم ہرگز نہ لا سکو گے تو ڈر و اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جوتیار کر رکھی گئی ہے۔ کافروں کے لیے۔
قرآن حکیم کا نظم ربط بھی اس کے وجوہ اعجاز میں ایک ہے عربوں کے جملہ اصناف کلام میں سے کسی میں بھی یہ نظم وترتیب موجود نہیں۔ قرآن کریم کے زور بیان اور ندرت کا راز اسی میں مضمر ہے، اس نظم وربط کاایک نمایاں پہلو اس کی سورتوں فواتح وخواتم ہیںجن کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ بجائے خود ایک دلچسپی کا موضوع ہے اور اس سے قرآن حکیم کے اعجاز کے بعض پہلووں کا انکشاف بھی ہوتا ہے۔

فواتح السور القرآن کا مفہوم: فواتح فاتحہ کی جمع ہے اس کا سہ حرفی مادہ ف،ت،ح،ہے جس کے لفظی معنی کھولنے اور کسی بھی چیز کی ابتداء کے ہیںابن منظور لکھتے ہیں۔
”فتح الاغلاق الفتح نقیض الاغلاق وفاتحة الشئی، اولہ فواتح القرآن اوائل السورہ(۲)
یہ لفظ قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر لغوی طور پر انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
جن فواتح کو زیر نظر مقالہ میں بطور اصطلاح استعمال کیاجائے گا اس سے مراد فواتح السور القرآن ہے جس کا مطلب قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز یاابتدائی حصہ ہے۔
علمائے مفسرین نے اس اصطلاح کو افتتاح السّور سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (۳)

فواتح السور قرآن کی اہمیت: ہمارا روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ جس چیز پر پہلی نظر پڑتی ہے وہ اس چیز کا ظاہری یاابتدائی حصہ ہوتا ہے اور اسی سے انسان اس کے اچھے یا برے ہونے کا تاثر لیتاہےچنانچہ قرآن حکیم کی سورتوں پر پہلی نظرپڑتے ہی انسان اس کی فصاحت، بلاغت اور ربط و نظم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتااس وجہ سے علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا۔
اہل بیان کا قول ہے حسن الابتداء بلاغت کی جان ہے اور یہ اس چیز کا نام ہے کہ کلام کے آغاز میں خوبی عبارت اور پاکیزگی لفظ کا بہت بڑا خیال رکھا جائے کیونکہ جس وقت کوئی کلام کانوں میں پڑنا شروع ہوگا۔ اگر اس وقت عبارت کا چہرہ درست ہوا تو سننے والا بڑی توجہ سے وہ کلام سنے گا اور اسے اپنے ذہن میں محفوظ کرنے کی کوشش کرے گا ورنہ عبارت کا چہرہ خراب ہونے کی صورت میں باقی کلام خواہ کتنا ہی پاکیزہ ہو سامع کو ابتداء کے بھونڈے الفاظ سن کر کچھ ایسی نفرت ہو گی کہ وہ کبھی اس کو سننا گوارا نہ کرے گااسی وجہ سے یہ ضروری بات ہے کہ آغاز کلام میں بہتر سے بہتر،شیریں سلیس،خوش نما اور معنی کے اعتبار سے صحیح تر اور واضح، تقدیم و تاخیر اور تعقید سے خالی التباس اور عدم مناسبت سے بری لفظ لایا جائے اور کلام مجید کی سورتوں کے فواتح بہترین وجوہ، نہایت بلیغ اور کامل ہو کر آتے ہیں مثلاً تحمیدات، حروف تہجی اورنداء وغیرہ

فواتح السورالقرآن کی اقسام: قرآن حکیم کی سورتوں کا آغاز کسی ایک طرزیا نوعیت سے نہیں ہوتا بلکہ مختلف انداز واقسام سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ابتداء میں ایسے الفاظ اور موضوع کو لایا جاتاہے جو سورہ میں زیادہ تر مقصود بیان اور ملحوظ ہوچنانچہ علمائے مفسرین نے فواتح السور القرآن پر سیر حاصل بحث کی ہے جس کے نتیجے میں ان کی تحقیق و تالیف قابل ذکر ہیں علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
”ابن ابی الاصبع نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کی ہے اور اس کانام الخواطر السوانح فی اسرار الفواتح رکھا ہے اور میں اس نوع (فواتح السور القرآن) میں اس کتاب کا ملخص کچھ زائد باتوں کے ساتھ جو مختلف کتابوں سے لی گئی ہیںدرج کرتا ہوں۔ (۵)
تلاش وتحقیق سے مجموعی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی سورتوں کا افتتاح دس انواع کے ساتھ فرمایاہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
۱ قرآن حکیم کی کئی سورتوں کاآغاز اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء سے ہوا ہے اور حمد و ثناء کی دو اقسام ہیں۔

اولاً اللہ تعالیٰ کے لیے صفات مدح کا اثبات ثانیا صفات نقص کی ذات باری تعالی سے نفی اور ایسی صفتوں سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ چنانچہ پہلی قبیل میں پانچ سورتوں کاآغاز تحمید سے کیاگیاہے۔ وہ یہ ہیں:
سورةالفاتحہ: الحمد للہ رب العٰلمین۔ (۶)
سورةالانعام: الحمدللہ الذی خلق السموات والارض۔ (۷)
سورةالکہف : الحمد للہ الذی انزل علی عبدہ الْکِتٰبُ۔ (۸)
سورةسبا: الحمدللہ الذی لہ مافی السموات وما فی الارض۔ (۹)
سورةفاطر: الحمد للہ فاطر السموات والارض۔ (۱۰)
جبکہ دوسورتوں میں تبارک کے عنوان سے جس میں ذات باری تعالیٰ کے لئے اثبات حمدی ہے ابتداء فرمایا:
سورةالفرقان: تَبٰرَکَ الذی نَزَّلَ الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیراً۔ (۱۱)
سورةالملک: تَبَرَکَ الذی بیدہ الملک وھو علی کل شیٴٍ قدیر۔ (۱۲)
۲ قرآن کریم کی سات سورتوں کی ابتداء تسبیح کے صیغے کے ساتھ ہوئی ہے۔ الکرمانی ”متشابہ القرآن“ کے بیان میں لکھتے ہیں کہ تسبیح ایک ایسا کلمہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے استعمال فرمایا ہے چنانچہ ان سورتوں کا آغاز اس کلمہ کے ساتھ ہوا ہے۔
سورةبنی اسرائیل: سبحان الذی اسری بعیدہ۔ (۱۳)
سورةالحدید: سَبَّح لِلّٰہِ مافی السموات والَارْض۔ (۱۴)
سورةالحشر: سَبَّح لِلّٰہِ مافی السَّموات والَارْض۔ (۱۵)
سورةاَلصَّفْ: سَبَّح لِلّٰہِ مٰافی السَّمٰواتِ وَمٰا فِی الْاَرْضِ۔
سورةالجمعة: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مافی السموات والَارْض۔ (۱۶)
سورةالتغابن: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مافی السَّموات ومافی الاَرْض۔ (۱۷)
سورةالاعلیٰ: سَبِّح اِسْمِ بک الاَعْلیٰ۔ (۱۸)
مذکورہ بالا سورتوں میں سے پہلی میں مصد ر دوسری اور تیسری میں ماضی،چوتھی، پانچویں سورت مضارع اور چھٹی سورة میں امر کا صیغہ استعمال کر کے اس کلمہ کا اس کی ہر جہت سے استعیاب کر لیا گیاہے۔ (۱۹)
۸
فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ علوم ومعارف قرآن ۲۔ حروف تہجی یا حروف مقطعات: حروف تہجی سے قرآن حکیم کی انتیس(۲۹)سورتوں کا آغاز فرمایا ہے جنہیں حروف مقطعات بھی کہتے ہیں ان کو سورتوں کا نقطہ آغاز یافو اتح السوُّر کہا جاتا ہے سورتوں کے یہ فواتح پانچ اقسام پر آتے ہیںجو درج ذیل ہیں۔

۱۔ بسیط مقطعات: یہ حروف کی وہ قسم ہے جو صر ف ایک حرف پر مشتمل ہے اور یہ تین سورتیں ہیں۔
سورةص: ص والقرآن ذی الذکر۔ (۲۰)
سورةق: ق والقرآن المجید۔ (۲۱)
سورةالقلم: ن والقلم ومایسطرون۔ (۲۱)

۲ دو حروف سے مرکب مقطعات: ایسے مقطعات قرآن حکیم کی دس سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں جو یہ ہیں۔
سورةطٰہٰ: طہ o مانزلنا علیک القرآن لتشقی(۲۲)
سورةالنمل: طسo تلک آیت القرآن وکتاب مبین(۲۳)
سورہ یس: یس o والقرآن الحکیم(۲۴)
سورةمومن: حم o تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم(۲۵)
سورةحم السجدة: حم o تنزیل من الرحمن الرحیم(۲۶)
سورةالزخرف: حم o والکتب المبین(۲۸)
سورةالدخان: حم o والکتب المبین(۲۹)
سورةالجاثیہ: حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۳۰)
سورةالاحقاف: حم o تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۳۱)

۳ تین حروف سے مرکب مقطعات: اس نوع میں قرآن حکیم کی تیرہ سورتیں آتی ہیں۔
سورةالبقرة: الم o ذالک الکتاب لاریب فیہ(۳۲)
سورةال عمران: الم o اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم(۳۴)
سوریونس: الرا oتلک آیٰت الکتب الحکیم(۳۴)
سورہھود: الر oکتٰبٌ اُحْکمت اٰیٰتةُ (۳۵)
سورةیوسف: الر oتلک ایت الکتب المبین(۳۶)
سورةابراہیم: الرoکتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ(۳۷)
سورةالشعراء: طسم o ہ تلک ایت الکتب المبین(۳۸)
سورةالقصص: طسمo تلک ایت الکتب المبین(۳۹)
سورةالحجر: الرo تلک ایت الکتب و قرآن مبین(۳۷ا)
سورةالعنکبوت: المo احسب الناس ان یترکوا(۴۰)
سورةالروم: الم o غلبت الروم(۴۱)
سورةلقمن: الم o تلک ایت الکتب الحکیم(۴۲)
سورةالسجدة : الم oتنزیل الکتب لا ریب فیہ من رب العلمین (۴۳)

۴ چار حروف سے مرکب مقطعات: قرآن کریم کی دو سورتیں چار حروف سے مرکب مقطعات سے شروع ہوئی ہیں۔
سورةالاعراف: المص o کتٰب انزل الیک(۴۴)
سورةالرعد: المرo تلک ایت الکتب(۴۵)

۵ پانچ حروف سے مرکب مقطعات: صرف دو سورت کا آغاز پانچ حروف پر مشتمل مقطعات سے ہوتا ہے۔
سورةمریم: کھیعص ہ ذکر رحمت ربک عبدہ ذکریا(۴۶)
سورةالشوری: حم o عسق کذالک یو حی الیک (۲۷)

حروف مقطعات کی حکمت: مفسرین حروف مقطعات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذکر سے یہ فائدہ مقصود ہے کہ یہ قرآن، حروف تہجی یعنی ا،ب،ج، د ہی سے مرکب اور مرتب ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید کاکچھ حصہ مقطع (جدا جدا)حروف میں آیا ہے اور باقی تمام مرکب الفاظ ہیں غرض یہ تھی کہ جن لوگوں کی زبان میں قرآن حکیم کانزول ہوا ہے وہ معلوم کرلیں کہ قرآن انہی کی زبان میں ہے اور انہی حروف میں نازل ہوا ہے جن کو وہ جانتے اور اپنے کلام میں برتتے ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے قائل کرنے اور ان کے قرآن حکیم کے مثل لانے سے عاجز ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ایک زبردست دلیل ہے کیونکہ اہل عرب باوجود یہ معلوم کرلینے کے کہ قرآن حکیم انہی کی زبان میں اترا اور انہی حروف تہجی کے ساتھ نازل ہوا جس سے وہ اپنے کلام کو بناتے ہیںپھر بھی قرآن کی اس تحدی (چیلنج) کو قبول کرنے سے عاجز رہے کہ اس کے مثل کوئی سورہ یا کم از کم ایک آیت ہی پیش کر سکیں۔ (۴۷)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی مقطعات کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں” حروف مقطعات کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی حیثیت ان سورتوں کے نام یاعنوان کی سی ہے جس سورة سے اس کا تعلق ہوتا ہے چنانچہ جو باتیں سورة میں تفصیلی طور پرموجودہوتی ہیں وہ اجمالی طور پر حروف مقطعات میں بھی مضمر ہوتی ہیںمثلاً جب کوئی کتاب لکھی جاتی ہے تو اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے لیکن نام رکھنے میں ہمیشہ کتاب کے مضمون کی مناسبت کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایک ایسانام تجویز کیاجاتا ہے جس کے سنتے ہی کتاب کی حقیقت اور اس کا مفہوم سننے والے کے ذہن میں آ جائے مثلاً امام بخارینے اپنی حدیث کا نام”الجامع الصحیح المسند فی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا ہے اس نام کے سنتے ہی یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں آنحضرت کی احادیث صحیحہ کو جمع کیاگیاہے۔ (۴۸)
حضرت شاہ ولی اللہ کی بحث سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ سورتوں کے آغاز میں آنے والے حروف تہجی دراصل اس سورة میں مذکورہ مضامین کی مناسبت سے آتے ہیں۔

۳ نداء: قرآن حکیم کی دس سورتوں کاافتتاح حروف نداء سے کیا گیا ہے جن میں پانچ حضور کوندأ سے شروع کیا گیاہے وہ یہ ہیں۔
سورةالاحزاب: یاایھا النبی اتق اللہ(۴۹)
سورة۔ الطلاق: یاایھا النبی اذطلقتم النساء(۵۰)
سورةالتحریم: یاایھا النبی لما تحرم(۵۱)
سورةالمزمل: یاایھا المزمل(۵۲)
سورةالمدثر: یاایھا المدثر(۵۳)
پانچ سورتوں میں امت کو بذریعہ نداء مخاطب کیاگیاہے۔
سورةالنساء: یاایھا الناس اتقوا ربکم(۵۴)
سورةالمائدة: یاایھا الناس امنوا اوفوا بالعقود(۵۵)
سورةالحج: یاایھا الناس اتقوا ربکم(۵۶)
سورةالحجرات: یاایھا الذین امنوا لاتقدموا(۵۷)
سورةالممتحنہ: یاایھا الذین آمنوا لاتتخدوا(۵۸)

۴۔ جملہ خبریہ: قرآن حکیم کی تیس سورتوں کوجملہ خبر یہ سے شروع کیا گیا ہے۔
سورةالانفال: یسئلونک عن الانفال(۵۹)
سورةالتوبة: برآة من اللہ ورسولہ(۶۰)
سورةالنحل: اتی امر اللہ فلا تستعجلوہ(۶۱)
سورةالانبیاء: اقترب للناس حسابھم(۶۲)
سورةالمومنون: قدافلح المومنون(۶۳)
سورةالنور: سورة انزلنھا وفرضناھا(۶۴)
سورةالزمر: تنزیل الکتب من اللہ العزیز الحکیم(۶۵)
سورةمحمد: الذین کفروا وصدوا(۶۶)
سورةالفتح: انا فتحنا لک فتحاً مبینا (۶۷)
سورةالقمر: اقتربتِ الساعة وانشق القمر(۶۸)
سورةالرحمن: الرحمن o علّم القرآن(۶۹)
سورةالمجادلة: قدسمع اللہ قول التی(۷۰)
سورةالحاقة: الحاقة o ماالحاقة(۷۱)
سورةالمعارج: سال سائل بعذاب واقع(۷۲)
سورةنوح: انا ارسلنا نوحاً الی قومہ(۷۳)
سورةالقیامة: لااقسم بیوم القیامة(۷۴)
سورةعبس: عبس و تولی(۷۵)
سورةالبلد: لااقسم بھذالبلد(۷۶)
سورةالقدر: انا انزلناہُ فی لیلةالقدر(۷۷)
سورةالبینة: لم یکن الذین کفروا(۷۸)
سورةالقارعة: القارعة مالقارعة(۷۹)
سورةالتکاثر: الھکم التکاثر(۸۰)
سورةالکوثر: انا اعطینک الکوثر(۸۱)


۹
فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ علوم ومعارف قرآن قسم: قرآن حکیم کی پندرہ سورتوں کا آغاز قسم سے کیا گیا ہے ہر ایک کی تفصیل یہ ہے۔
سورةالصفٰت: والصفٰت صفاً(۸۲)اس میں ملائکہ کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالبروج: والسَّماء ذات البروج(۸۳)اس میں آسمانوں کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالطارق: والسَّماء والطارق(۸۴) اس میں بھی آسمانوں کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالنجم: والنَّجم اذاھَویٰ(۸۵)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالفجر: والفَجْر ولََیال عشر(۸۶)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالشمس: والشِّمْسِ وَالضُّحٰھا(۸۷)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالیل: والَّیل اِذٰا یَغْشی(۸۸)اس میں لواز م افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالضحی : والضحی وَالَّیل اذا سجی(۸۹)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالعصر : والعصران الانسان لفی خسر (۹۰)اس میں لوازم افلاک کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالذاریات: والذرایات ذرواً(۹۱)اس میں ہوا کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالمرسلات: والمرسلات عرفاً(۹۲)اس میں ہوا کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالطور: والطور وکتب مسطور(۹۳)اس میں پہاڑ اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالتین: والتین والزیتون(۹۴)اس میں نبات کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالنازعات: والنازعات غرفاً(۹۵)اس میں حیوان ناطق کی قسم کھائی گئی ہے۔
سورةالعادیات: والعادیات ضبحاً(۹۶)اس میں حیوان ناطق کی قسم کھائی گئی ہے۔
قران حکیم کے طرز خطاب میں ایک خصوصی اور نمایاں طرز یہ بھی ہے کہ اکثر مطالب و مضامین کو قسم کے عنوان سے بیان کیاجاتا ہے جو ان مضامین کی صداقت و حقانیت کی گویا دلیل و برہان ہوتی ہے اہل عرب کا یہ خصوصی ذوق تھا کہ جب کسی امر پر ان کو اصرار ہوتا اور اس کی حقانیت و صداقت کو مخاطب پر واضح کرنا چاہتے تو اس مقام پر قسم کا عنوان اختیار کرتے اور قرآن کریم چونکہ لغت عرب پر نازل ہوا اس لیے ان کے اس خصوصی ذوق کی رعایت بھی ایسے معجزانہ انداز کے ساتھ کلام اللہ میں رکھی گئی ہے کہ وہ اقسام قرآن کے لطائف پر حیرت زدہ ہوتے اور بجزاس اعتراف کے کو ئی چارہ کار نہ ہوتا کہ خدا کی قسم یہ کلام بشر نہیں ہے۔
حافظ ابن القیم اپنی کتاب ”البیان فی اقسام القرآن“ میں فرماتے ہیں تمام مضامین میں اس امر کی توضیح فرمائی کہ جہاں جس چیز کی قسم کھائی اس چیز کو وہاں بیان کردہ مضمون سے پوری مناسبت ہوتی ہے۔ (۹۷)

۶۔ شرط کلام: سورتوں کی چھٹی نوع کلام شرط ہے اس سے سات سورتیں شروع ہوتی ہیں۔
سورةالواقعة: اذا وقعت الواقعة(۹۸)
سورةالمنافقون: اذاٰ جاءَ َک المنا فقون(۹۹)
سورةالتکویر: اذا الشَّمْس کُوِّرَتْ(۱۰۰)

۱۰۔ تعلیل کلام : قرآن حکیم کی صرف ایک سورہ تعلیل کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔
سورةقریش: لِایلٰفِ قُرَیْشٍ(۱۱۶)
ابوشامہ نے ان دس انواع کو دو اشعار میں یوں بیان کر دیا ہے۔
اثنی علی نفسہ سبحانہ بثبو ت الحمد والسلب لما استفتح السورا
والا مروالشرط والتعلیل والقسم الد عاحروف التھجی استفھم الخیرا

فواتح السور القرآن کے بارے میں شاہ ولی اللہ کانقطہ نظر: برصغیرمیں فہم قرآنی کے عظیم عالم شاہ ولی اللہ نے فواتح سور القرآن کے ضمن میں بڑی دلچسپ بحث کی ہے وہ لکھتے ہیں۔
” چونکہ قرآن مجید کی سورتوں کا اسلوب بالکل بادشاہوں کے فرمان جیسا تھا اس وجہ سے ان سورتوں کی ابتداء اور انتہاء میں بھی مکاتیب کا ہی انداز اختیار کیاگیاچنانچہ جس طرح بعض مکاتیب کی ابتداء غرض تحریر کی وضاحت سے کی جاتی ہے بعض مکاتیب ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا کوئی عنوان نہیں ہوتا بعض مکاتیب طویل ہوتے ہیں اور بعض مختصر، بالکل اس انداز سے اللہ تعالیٰ نے بھی بعض سورتوں کو حمدو ثناء سے شروع کیااور بعض کو غرض تحریر کی وضاحت سے مثلاًذٰلِکَ الْکِتَابُ لَارَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ۔ (۱۱۸) سورہ انزلنھا و فرضنا ھا“(۱۱۹)یہ اندازبالکل وہی ہے جیسا کہ عام تحریروں میں اختیار کیاجاتاہے مثلاًھذا ماصالح علیہ فلان و فلان، ھذا ما اوصی بہ فلان“یعنی وہ تحریر ہے جس پر فلاں فلاں نے اتفاق کیا ہے یہ وہ تحریر ہے جس کی فلاں آدمی نے وصیت کی ہے۔
آنحضرت نے صلح حدیبیہ پر جوعہد نامہ تحریر فرمایا تھااس کی ابتداء بھی اس طرح ہوئی تھیہذا ماقاضیٰ علیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم(یہ وہ عہد نامہ ہے جسے آنحضرت نے منظور فرمایاہے )
بعض آیات کی ابتداء اس انداز سے ہوتی ہے جس انداز کے وہ نامے ہوتے ہیں جن کی ابتداء کاتب اور مکتوب کے نام سے کی جاتی ہے مثلاً
تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحکیم(۱۲۰)
کتٰبٌ اْحْکِمَتْ آیٰاتْہ ثُمَّ فُصِّلتْ مِنْ لَدُنْ حکیمٍ خبیرٍ(۱۲۱)
ان آیات کے آغاز کاانداز ان تحریروں سے مشابہت رکھتا ہے جو اس انداز سے شروع کی جاتی ہیں جسیے حضرت خلافت کا حکم صادر ہوا۔ جب آنحضرت نے ہر قل شاہ روم کے پاس نامہ بھیجا تھا اس کی ابتداء یوں ہوئی تھی۔

من محمد رسول اللہ ھر قل عظیم الروم
اللہ کے رسول محمدکی طرف سے شاہ روم ہر قل کے نام
بعض سورتیں مختصر واقعات اور تحریروں کے اندازپربغیر کسی عنوان کے بھی نازل ہوئی ہیں۔
اذا جاء ک الفافقون(۱۲۲)
قدسمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا(۱۲۲)
یایھا البنی لم تحرم(۱۲۴)
اسی طرح اہل عرب کا فصیح ترین کلام قصائد کی شکل میں ہے قصائد میں اصل مقصد سے پہلے تمہید کے طور پر تشبیب لکھی جاتی ہے اور تشبیب میں عجیب و غریب مقامات اورحیرت انگیز اور ہولناک واقعات کاذکر کرنا ان کی بہت پرانی روایت ہے قرآن مجید کی بعض سورتوں میں یہ اسلوب بھی اختیار کیاگیاہے مثلاً
والصفٰت صفاً فالزاجرات زجرًا(۱۲۵)
والذاریت زروًافا لحاملات وقراً(۱۲۶)
اذالشمس کورت واذا النُّجُوم انکَدَرَتْ(۱۲۷)
شاہ ولی اللہ کی مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سورتوں کاآغاز فرمان کی مناسبت سے ہے اور یہ عرب کے اس اسلوب کے عین مطابق ہے جسے وہ اپنی تحریر میں استعمال کرتے تھے۔ (۱۲۷)
کسی چیز کا ظاہری حسن ہی اس کی عمدہ خوبی کا پتہ دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم کے فواتح بھی اپنی خوبی اور حسن میں بے مثال ہیں اور یہی اس کے اعجاز کی ایک لطیف سی دلیل ہے جب ہم قرآن حکیم کی سورتوں کے فواتح کا جائزہ لیتے ہیں تو عمدہ کلام کی تمام خوبیاں اس میں موجود پاتے ہیںچنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی فواتح السور کے عمدہ اور جامع ہونے پر یوں بحث کرتے ہیں۔
” کلام کے عمدہ ابتداء کی ایک خاص ترین نوع، نوعة الاستہلال نامی بھی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آغاز کلام اس چیز پر شامل ہو جو کہ متکلم فیہ کے مناسب حال ہے اور اس میں باعث سیاق کلام کا اشارہ موجود ہو۔"(۱۲۸)
چنانچہ اس بارے میں سب سے اعلیٰ اور احسن نمونہ سورة الفاتحہ ہے جو کہ قرآن کریم کا مطلع اور اس کے تمام مقاصد پر مشتمل ہے اس کی تفصیل یوں ہے ” خداوند کریم نے ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں اور ان سب کے علوم چار کتابوں توریت، زبور،انجیل اور قرآن میں ودیعت رکھ دئیےپھر توریت، زبور،اور انجیل کے علوم قرآن میں ودیعت رکھے اور علوم القرآن کو اس حصہ میں مفصل رکھا اور مفصل کے جملہ علوم صرف سورہ فاتحہ میں ودیعت فرما دئیے لہذا جو شخص سورہ فاتحہ کی تفسیر معلوم کرے گا وہ گویاتمام کتب منزلہ کی تفسیر سے واقف ہو جائے گا۔ (۱۲۹)


۱۰
فواتح و خواتم سورالقرآن ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ علوم ومعارف قرآن خواتم سور القرآن: خواتم کاسہ حرفی مادہ خ،ت،م ہے یہ ثلاثی مجرد سے باب ”ضَرَبَ“ آتا ہے ختم ختماً وختاماً الخاتمبمعنی ہر چیز کا اختتام، خواتم وجمع ہے(۱۳۰) جبکہ ابن منظورلکھتے ہیں۔
خَتَمَ یَخْتَمُ ختماًو ختاماًالاخیر عن الحیاتی والجمع خواتم وخواتیم ویقال ختم فلان القرآن اذا قرء ہ الی اخرہ و خاتم کلی شئیوخاتمہ، عاقبة،واخرہ(۱۳۱)
مذکورہ بحث میں خواتم السور سے مراد سورتوں کا آخری حصہ یااختتام ہے بعض مفسرین اس اصطلاح کو مقاطع السوریامنتہائے سور کے نام سے بھی تعبیر کرتے ہیں اس مفہوم کی تائید مندرجہ ذیل احادیث سے بھی ہوتی ہے
من حفظ من خواتیم سورة الکھف(۱۳۲)
اعطی خواتیم سورةالبقرة(۱۳۳)
قال خاتمة سورة البقرة فانھا(۱۳۴)
کسی کلام کاآخری حصہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے کسی طرح سے بھی پہلے حصے سے کم نہیں ہوتا دراصل یہ وہ آخری کلمات ہوتے ہیں جو انسانی ذہن پر گہرا اثر ڈالتے ہیں قرآن حکیم کی سورتوں کا خاتمہ بھی اپنے حسن اورفصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کسی اعجاز سے کم نہیںاگر بنظر غائر خواتم السور کا مطالعہ کیا جائے تو سابقہ مضمون کا خلاصہ جامع انداز سے سامنے آتا ہے یہی وجہ ہے علماء مفسرین نے خواتم السور القرآن کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے جلال الدین سیوطی رقم طراز ہیں۔
”یہ بھی فواتح ہی کی طرح حسن وخوبی میں طاق ہیں اس لیے کہ یہ کلام کے وہ مقامات ہیں جو آخر میں گوش زد ہوا کرتے ہیں اور اسی باعث سے یہ سامع کو انتہائے کلام کا علم حاصل کرانے کے ساتھ معانی بدیعہ کے بھی متضمن ہو کر آتے ہیں یہاں تک کہ ان کے سننے سے پھر سے نفس کے بعد میں ذکر کی جانے والی بات کا کوئی شوق باقی نہیں رہتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سورتوں کادعاوں، نصیحتوں،فرائض،تمہید،تہلیل،مواعظ،وعد،وعید اور جامع صفات الہیہ پر ہوا ہے۔ (۱۳۵)
مقصود اس اقتباس سے یہ ہے کہ قرآن حکیم کی سورتوں کاخاتمہ اتنے عمدہ کلام پر ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر عمدگی اور حسن کاتصور نہیں کیاجاسکتااس کی حکمت یہ ہے کہ یہ ماسبق کلام کا خلاصہ ہوتے ہیں اور پورے موضوع کو سمیٹ رہے ہوتے ہیں تاکہ انسان تشنگی محسوس نہ کرے اور نہ ہی سوچ سکے کہ اس سے بہتر خاتمہ لایاجاسکتا تھا۔

خواتم السورپر شاہ ولی اللہ کی بحث: شاہ ولی اللہ کے نزدیک قرآن حکیم کی سورتوں کی مثال شاہی فرمان کی طرح ہے یہی وجہ ہے سورتوں کی ابتداء و انتہاء میں مکاتب کے طریقہ کی رعایت رکھی گئی ہے چنانچہ رقم طرازہیں۔
”جس طرح مکتوبات کو کلمات جامع، وصایائے نادرہ اور احکامات سابقہ کے لیے تائیدات اور اس کی مخالفت کرنے والے کے لئے تہد یدات پر تمام کرتے ہیں ایسے ہی خداوند تعالیٰ نے سورتوں کے آخری حصہ کوکلمات جامع اور حکمت کے سرچشموں سے تائیدات بلیغہ اور تہدیدات عظیمہ پر ختم فرمایا نیز جس طرح بعض مکاتیب کا اختتام کبھی جامع کلمات پر کیا جاتا ہے اور کبھی اچھی اچھی وصیتوں اور نصیحتوں پر، اسی انداز پر کلام مجید میں بھی مختلف سورتوں کو کبھی جوامع کلم اور کبھی احکام کے لواحق پر اور کبھی انتہائی سخت قسم کی تاکید پر تمام کی جاتی ہے۔"(۱۳۶)
شاہ ولی اللہ کے اسی نقطہ نظر کے پیش نظر سورة البقرة کا خاتمہ نہایت عمدہ دعاوں اور جامع کلمات پر ہوا ہے جو حسن خاتمہ کی ایک دلیل ہے اسی طرح وصایا( لضائح اور ہدایات) کی عمدہ نظیر سورة آل عمران ہے۔
یاایھا الذین امنو اصبروا وصابرواوارابطوا واتقواللہ لعلکم تفلحون(۱۳۷)
سورة النساء کا خاتمہ فواتح کی طرح احکام کی تاکید اور صفات الہیہ پر ہوا ہے اسی طرح سورة یوسف کے خاتمے میں قرآن حکیم کی جامع صفات اور اس میں مذکور واقعہ کی حکمت و موعظمت بیان ہوئی ہیںفواتح وخواتم میں ربط کی چند مثالیں:
اگر سورة الانعام کے فاتحہ و خاتمہ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس میں صفات الہیہ کا اتباع کیاگیا ہے۔ آغاز اس آیت سے ہوتا ہے :
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّورَ ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرِبِِّھْم یَعْدِلُوْنَ“(۱۳۸)
سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور اندھیرا اوراجالا بنایا پھربھی یہ کافر اوروں کو اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔
سورة الانعام کی مذکورہ ابتدائی آیت میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء تخلیق ارض و سماء اور نور ظلمات کا ذکرہے ساتھ ہی شرک کا ردبھی کر دیاگیاہے۔ جبکہ خاتمہ ان جملوں پر کیا گیا ہے۔
وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مآ اٰتٰکُمْ اَنَّ رَبَّکَ سَرِ یْعُ الْعِقٰابِ وَاِنَّہ لَغَفُورٌ رَّحِیْمٌ(۱۳۹)
اور وہ ہی ہے جس نے تمہیں زمین پر اپنا نائب بنایا اور تم میں سے بعض کے بعض پر درجے بلند کردیئے تاکہ تمہیں اپنے دیئے ہوئے حکموں میں آزما لے بے شک تیرا رب جلدی عذاب دینے والا ہے اور بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت میں انسان کی زمین پر حیثیت، آزمائش،سرعت عذاب اور اسکی رحمت و مغفرت کا ذکر ہے۔ اگر مذکورہ سورة کے فاتح وخاتم پر غور کریں تو اس میں ایک خاص معنوی ربط نظر آئے گا مثلاً سورة کا آغاز تحمید سے کیاگیا اور خاتمہ مغفرت ورحمت پر ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے تو وہی مغفرت و رحمت کا سزاوار بھی ہوتا ہے اسی وجہ سے تحمید کو مقدم کیاگیا۔ پھر تخلیق ارض وسماء کا ذکر کرنے کے بعد ضرورت تھی کہ اس کارخانہ عالم کوکوئی چلائےتو اللہ تعالیٰ نے انسان ہی کو زمین میں اپنا نائب بنایاپھر جب نیابت سے نوازا تو اللہ تعالیٰ کی آزمائش کی اس گھڑی میں کافر لوگ ناکام ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے مطیع کامیاب جو لوگ اس کے بعد بھی خدا کو ماننے اور جاننے میں ہٹ دھرمی سے کام لے رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے سریع الحساب ہے اور جو صحیح حق خلافت کو اداکر رہے ہیں تو ان کے لیے غفور رحیم ہے۔
اثبات آخرت یا تذکر بما بعد الموت کی حامل سورة الواقعہ پر غور کریں اس میں بھی ایک ربط نظر آتا ہے جس کا آغاز یوں ہوتاہے۔
اذا وقعت الواقعة o لیس لوقعتھا کاذبہ(۱۴۰)
جب ہوجائے گی ہونے والی اس وقت اس کے ہونے میں کسی کو انکار کی گنجائش نہ ہوگی۔
سورة کی ابتداء میں جس واقعہ کا ذکر ہے اس سے مراد قیامت ہےفرمایا کہ یہ امرشدنی ہے یہ آکر رہے گی اور تم کسی طرح بھی اس سے بھاگ نہ سکو گے نیز اگر تم اس وہم میں مبتلا ہو کہ تم کو جھوٹ موٹ ایک ہونے سے ڈرایا جارہا ہے تو اس میں جھوٹ کا ادنیٰ شائبہ بھی نہیں۔
سورة کی آخری آیت ہے:
”ان ھذا لھم الحق المبین o فسبح باسم ربک العظیم(۱۴۱)
بے شک یہ تحقیقی یقینی بات ہے پس اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو بڑاعظمت والا ہے۔
اس آیت میں بالواسطہ طور پر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے اور تلقین اور استقامت ہے کہ جوباتیں اوپر بیان ہوئی ہیں سب یقینی حقائق ہیں ان میں کسی شبہ گنجائش نہیں ہے البتہ تمہاری قوم کے لوگ نہیں مان رہے تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور اپنے رب عظیم کی تسبیح بیان کرومذکورہ سورة کے فاتحہ وخاتمہ سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں میں ربط موجود ہے شروع میں فرمایا کہ یہ ایک حقیقت ہے اور واقع ہونے والی ہے اس کے آنے میں تحلفہ نہیں ہو گاجبکہ آخرمیں فرمایا کہ یہ حق الیقین ہے اس میں بھی کسی شائبہ کی گنجائش نہیں دونوں میں اس واقعہ کے لازمی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ جب قیامت امرشدنی ہے تو اپنے رب عظیم کی تسبیح پڑھو کہ وہ ظلم سے پاک ہے اس دن ہر شخض کو اس کے اعمال کے مطابق سزا دیتا ہے۔ (۱۴۳)
احکام کے سلسلے میں سورة العنکبوت ہے جس کے آغاز میں جہادکا حکم ہے :
الٓمٓo اَحَسِبَ النّٰاسُ اَنْ یُتْرَکُوا اَنْ یَّقُولُوْا اٰمَنَّا وَھُمْ لاّٰ یُفْتَنُون۔
المoکیالوگ خیال کرتے ہیں یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لائے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔
اس آیت میں واضح طور پر اس امر کی طر ف اشارہ ہے امت محمدیہ کی آزمائش جہاد سے ہو گی۔ آخری آیت میں ہے۔
والذین جاھدو افینا لنھد ینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین (۱۴۴)
اور جنہوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے اور بے شک اللہ نیک کاروں کے ساتھ ہے۔
اس آیت میں واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے کے لئے اجر کا اعلان ہے اورساتھ ہی یہ بشارت بھی کہ مجاہدین کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہو گیمذکورہ سورة میں جس مضمون سے سورة کا آغاز کیاتھا اس پر خاتمہ فرمایا شروع میں یہ واضح کیا گیا تھاکہ اہل ایمان کی آزمائش لازمی ہے اور ایماندار اس امتحان میں سرخرو ہوں گے تو ان کے دو اجر ہیں اول ان کے لیے دنیامیں راستے آسان ہو ں گے دوسرے آخرت میں معیت الہی نصیب ہو گی۔

فواتح و خواتم السور پر قلم اٹھانے والے علماء و مفسرین: جن علماء ومفسرین نے فواتح و خواتم سورة القرآن کے ربط پر بطور خاص قلم اٹھایا ہے ان میں سر فہرست علامہ جلال الدین سیوطی ہیںجن کی اس موضوع پر تصنیف”مراصد المطالع فی تناسب المقاطع والمطالع“ کے نام سے ہےاسی طرح علامہ کرمانی کی کتاب العجائب بھی اس موضوع پر بہترین ہے برصغیر پاک وہند کے علماء میں شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب ”الفوز الکبیر“ میں ضمناً اس موضوع کا تذکرہ کیاہے البتہ مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب عربی زبان میں” سبق الغایات فی نسق الایات" اس موضوع پر عمد ہ ہے دیگر مفسرین میں جنہوں نے اپنی تفاسیر میں اس امر کا خاص اہتمام کیاہے۔ فخر الدین رازی،احمد مصطفی المرانی،عبدالحق حقانی صاحب ”فتح المنان“ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ”بیان القرآن“ شامل ہیں۔

حوالہ جات ۱۔ البقرة۲:۲۳۲۴
۲۔ ابن منظور، لسان العرب،دار صادر،بیروت ج۲،ص۵۲۷
۳۔ السیوطی جلال الدین، الاتقان فی علوم القرآن،مکتبہ المعارف الریاض،۱۹۹۶،ج۲،ص۳۹۳
۴۔ نفس مصدر
۵۔ نفس مصدر
۶۔ الفاتحة،۱،۱
۷۔ الانعام،۶،۱
۸۔ الکھف،۱۸،۱
۹۔ سبا،۳۴،۱
۱۰۔ فاطر،۳۵:۱
۱۱۔ الفرقان،۲۵،۱
۱۲۔ الملک،۷۷،۱
۱۳۔ بنی اسرائیل،۱۷،۱
۱۴۔ الحدید،۵۷،۱
۱۵۔ الحشر،۰۹،۱
۱۶۔ الجمعة،۶۲،۱
۱۷۔ التغابن،۶۴،۱
۱۸۔ الاعلیٰ،۸۷،۱
۱۹۔ الاتقان،حوالہ مذکور،ج۲،ص۲۹۲
۲۰۔ ص،۳۸:۱
۲۱۔ ق،۵:۱
۲۲۔ (ا)القلم
۲۳۔ طٰہٰ،۲۰،۱
۲۴۔ النمل،۲۷،۱
۲۵۔ یٰس،۳۶:۱
۲۶۔ مومن،۴۰:۱
۲۷۔ حٰم السجدة،۴۱،۱
۲۸۔ ۴۲،۱
۲۹۔ الزخرف،۴۳،۱
۳۰۔ الدخان،۴۴،۱
۳۱۔ الجاثیہ،۴۵:۱
۳۲۔ الاحقاف،۴۲:۱
۳۳۔ البقرة:۲،۱
۳۴۔ آلِ عمران:۳،۱
۳۵۔ یونس:۱۰،۱
۳۶۔ ھود،۱۱:۱
۳۷۔ یوسف،۱۲،۱
۳۸۔ ابراہیم،۱۴،۱
۳۹۔ الحجر،۱۵،۱
۴۰۔ الشعراء:۲۶،۱
۴۱۔ القصص:۲۸،۱
۴۲۔ العنکبوت:۲۹،۱
۴۳۔ الروم:۳۰،۱
۴۴۔ لقمٰن:۳۱،۱
۴۵۔ السجدة:۳۲،۱
۴۶۔ الاعراف،۷،۱
۴۷۔ الرعد،۱۳،۱
۴۸۔ مریم،۱۹،۱
۴۹۔ الاتقان، حوالہ مذکور،ح۲،ص۲۹
۵۰۔ شاہولی اللہ،الفوزالکبیرفی اصول التفسیر(مترجم)قرآن
۵۱۔ الاحزاب:۳۳،۱
محل، تاجران کتب،کراچی،۱۳۸۳ہ ص۱۶۶،۱۶۷
۵۲۔ الطلاق،۶۵،۱
۵۳۔ التحریم،۷۶:۱
۵۴۔ المزمل:۷۳،۱
۵۵۔ المدثر:۷۴،۱
۵۶۔ المائدة:۵،۱
۵۷۔ الحج:۲۲،۱
۵۸۔ الحجرات:۴۹،۱
۵۹۔ الانفال:۸،۱
۶۰۔ التوبہ:۹،۱
۶۱۔ الخل،۱۶،۱
۶۲۔ الابنیاء،۲۱،۱
۶۳۔ المومنون:۲۳،۱
۶۴۔ النور:۶۴،۱
۶۵۔ الزمر:۳۹،۱
۶۶۔ محمد:۴۷،۱
۶۷۔ الفتح:۴۸،۱
۶۸۔ القمر:۵۴،۱
۶۹۔ الرحمن:۵۵،۱
۷۰۔ المجادلہ:۶۹،۱
۷۱۔ الحاقہ:۶۹،۱
۷۲۔ المعارج:۷۰،۱
۷۳۔ نوح:۷۱،۱
۷۴۔ القیمٰة:۷۵،۱
۷۵۔ عبس:۸۰
۷۶۔ البلد:۹۰،۱
۷۷۔ القدر:۹۷،۱
۷۸۔ البینہ:۹۸،۱
۷۹۔ القارعة:۱۰۱،۱
۸۰۔ التّکاثر:۱۰۲،۱
۸۱۔ الکوثر:۱۰۸،۱
۸۲۔ صافات:۳۷،۱
۸۳۔ البروج:۸۵،۱
۸۴۔ الطارق:۲،۸۶،۱
۸۵۔ النجم،۵۳،۱
۸۶۔ الفجر،۸۹،۱
۸۷۔ الشمس:۹۱،۱
۸۸۔ اللیل:۹۶،۱
۸۹۔ الضحیٰ:۹۳،۱
۹۰۔ العصر۔ ۱۰۳،۱
۹۱۔ الذاریات:۵۱،۱
۹۲۔ المرسلات:۷۷،۱
۹۳۔ الطور:۵۲،۱
۹۴۔ التین:۹۵،۱
۹۵۔ النازعات:۷۹،۱
۹۶۔ العادیات:۱۰۱،۱
۹۷۔ الاتقان:حوالہ مذکورہ،ج۲،ص۳۷۳ ۹۸۔ الواقعہ،۵۶،۱
۹۹۔ المنافقون:۶۳،۱
۱۰۰۔ التکویر،۱۸۱،۱
۱۰۱۔ الانفطار:۸۶،۱
۱۰۲۔ الزلزال:۹۹،۱
۱۰۳۔ الانشقاق:۸۴،۱
۱۰۴۔ النصر:۱۱۰،۱
۱۰۵۔ الجن:۷۳:۱
۱۰۶۔ العلق:۹۶،۱
۱۰۷۔ الکفرون:۱۰۹،۱
۱۰۸۔ الفلق:۱۱۳،۱
۱۰۹۔ الناس:۱۱۷،۱
۱۱۰۔ الدھر:۷۶،۱
۱۱۱۔ النباء:۷۸،۱
۱۱۲۔ الغاشیة:۸۸،۱
۱۱۳۔ انشراح:۹۴،۱
۱۱۴۔ الفیل:۱۰۵،۱
۱۱۵۔ الماعون:۱۰۷،۱
۱۱۶۔ قریش:۱۰۶،۱
۱۱۷۔ الاتقان،حوالہ
۱۱۸۔ البقرة:۲،۱
۱۱۹۔ النور:۲۴،۱
مذکور،ج۲،ص۹۴
۱۲۰۔ مومن:۴۰،۱
۱۲۱۔ ھود:۱۱،۱
۱۲۲۔ المنافقون،۶۳
۱۲۳۔ المجادلہ:۵۸،۱
۱۲۴۔ الطلاق:۶۵،۱
۱۲۵۔ الصٰفّٰت:۲۷،۱،۲
۱۲۶۔ الذاریات:۱۵،۱،۲
۱۲۷۔ دیکھیےالنور الکبیر،حوالہ مذکور ص۱۱۵،۱۱۶
۱۲۸۔ الاتقان:حوالہ مذکور،ج۲،ص۲۹۴
۱۲۹۔ نفس مصدر
۱۳۰۔ المنجد،ص۶۵۸
۱۳۱۔ ابن منظور،لسان العرب،حوالہ مذکور،ج۱۲ص۶۴
۱۳۲۔ ابو داود
۱۳۳۔ نسائی باب الصلوة،۲۵
۱۳۴۔ دارمی،فضائل القرآن،ص،۱۴
۱۳۵۔ الاتقان فی علوم القرآن، حوالہ مذکورص
۱۳۶۔ الفوز الکبیر فی اصول
۱۳۷۔ آلِ عمران:۳،۲۰۰
۱۳۸۔ الانعام:۶،۱
التفسیر،حوالہ مذکور،ص۱۱۴،۱۱۶
۱۳۹۔ الانعام۶،۲۶۵
۱۴۰۔ الواقعہ:۵۶،۱،۲
۱۴۱۔ الواقعہ:۵۶،۹۵،۵۶
۱۴۲۔ اصلاحی،امین احسن،تدبر قرآن،مرکز انجمن خدام القرآن لاہور،۱۹۷۳،ج۷،ص۱۸۸
۱۴۳۔ العنکبوت:۲۹،۱،۲
۱۴۴۔ العنکبوت:۲۹،۹۶

۱۱
وحی کی حقیقت اور اہمیت علوم ومعارف قرآن وحی کی حقیقت اور اہمیت
اسلامی اور استشراقی افکار کا تحقیقی مطالعہ
”سید حسنین عباس گردیزی“

وحی کا اصطلاحی مفہوم: لغت میں لفظ ” وحی“ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان معانی کے درمیان قدر جامع اور قدر مشترک ” مخفی تفہیم اور القاء“ ہے۔
۱ دور جاہلیت کے شعراء اس لفظ کو کتابت ‘ اشارے اور مکتوب کے معانی میں بروئے کار لائے ہیں۔
۲ دین اسلام میں یہ لفظ ایک خاص معنی میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا کہ منقول شرعی بن گیا اور شرعی نوعیت اختیار کر گیااس کے بعد جب بھی یہ لفظ کسی نبی یا پیغمبر کے حوالے سے ذکر ہوا تو اس سے یہی خاص معنی مراد لیا گیا جسے وحی کا اصطلاحی معنی کہا جاتا ہے۔
لہذا اسلامی متون میں جب یہ لفظ بطور مطلق اور بغیر قرینے کے استعمال ہوتا ہے تو اس سے یہی اصطلاحی خاص معنی خاص مراد ہیں البتہ قرینے کی موجودگی میں دیگر معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔
چوتھی صدی ہجری کے اسلامی متکلم شیخ مفید نے بیان کیا ہے:
”واذا اُضیفَ (الوحی) الی اللہ تعالیٰ کان فیما یخص بہ الرسل خاصةً دون من سواہم علی عُرْفِ الاِسْلٰام و شریعة البنی“(۳)
جب وحی کا لفظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آئے تو اس سے مراد شریعت نبی اور اسلام کے عرف میں انبیاء کے ساتھ مخصوص وحی ہے دیگر معانی ہرگز مراد نہیں ہیں۔
تفسیر المنار کے موٴلف نے مذکورہ مطلب کو یوں بیان کیا:
للوحی معنی عام یطلق علی عدة صور من الاعلام الخفی الخاص الموافق لوضع اللغة ولہ معنی خاص ہو احد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالہی وغیرھذہ الثلاثة من الوحی العام لایعدمن کلام اللہ تعالیٰ التشریعی(۴)
وحی کا عام معنی کا اطلاق مخفی طور پر آگاہ کرنے کی مختلف صورتوں پر ہوتا ہے اوراس کا ایک خاص معنی ہے جس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے تشریعی کلام کے سوا کسی اور معنی پر نہیں ہوتا۔
عصر حاضر کے مفسر علامہ طباطبائی لکھتے ہیں:
وقد قرر الادب الدینی فی الاسلام ان لایطلق الوحی غیر ماعند الانبیاء والرسل من التکلیم الالہی(۵)
اسلام میں ادب دینی کا تقاضاہے کہ خدا اور انبیاء کے درمیان گفتگو کے علاوہ کسی اور چیز پر وحی کا اطلاق نہ کیا جائے۔
ڈاکٹر حسن ضیاء الدین عتر، وحی کے اصطلاحی معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:
”اقول ومن ھنا نلحظ ان معنی الوحی فی الشرع اخص منہ فی اللغة من جھة مصدرہ وھو اللہ تعالیٰ و من جھة الموحی الیہ و ھم الرسل“(۶)
ہم کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے ہم ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ وحی کا شرعی معنی اپنے مصدر یعنی اللہ تعالیٰ اور جن کی طرف یہ وحی کی جاتی ہے یعنی رسولوں کے لحاظ سے اپنے لغوی معنی سے اخص ہے۔
مولانا تقی عثمانی کہتے ہیں:
لفظ’ ’وحی“ اپنے اصطلاحی معنی میں اتنا مشہور ہو چکا ہے کہ اب اس کا استعمال پیغمبر کے سوا کسی اور کے لیے درست نہیں ہے۔ (۷)
رائج لطفی نے بیان کیاہے:
کذلک یذکر اللغویون لکلمة الوحی معانی کثیرة ثم غلب استعمال الوحی علی مایلقی الی الانبیاء من عنداللہ(۸)
اس طرح اہل لغت نے لفظ وحی کے بہت سے معنی ذکر کیے ہیں پھراس کااستعمال ”اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیاء پر القاء کیے جانے والے کلام کے لیے غالب ہو گیا۔
معاصر محقق محمد باقر سعید ی وحی کے خاص معنی کے بارے میں لکھتے ہیں:
درنتیجہ واژہ وحی درحوزہ اصطلاح علم کلام و بلکہ فلسفہ دین در قلمر و ادیان توحیدی‘اخص از مفہوم لغوی آن است(۹)
نتیجے کے طور پر علم کلام بلکہ ادیان توحیدی کے افق پر فلسفہ دین میں وحی کا مفہوم اس کے لغوی معنی سے اخص ہے۔ اسی مطلب کو اردو دائرة المعارف اور سعید اکبر آبادی نے ذکرکیا ہے :
وحی کا استعمال اس معنی خاص میں اس کثرت سے ہوا ہے کہ منقول شرعی بن گیا ہے۔ (۱۰)
یہ لفظ اس معنی خاص میں اس درجہ کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ یہ ایک شرعی نوعیت اختیار کر گیاہے۔ (۱۱)
اسلامی مفکرین کے علاوہ مستشرقین نے بھی وحی کے خصوصی معنی کو بیان کیا ہے:
رچرڈبل مقدمہ قرآن میں لکھتے ہیں:
The verb "awha"and the noun "wahy" have become the technical terms in moslem theology-(١٢)
یعنی فعل ” اوحی“ اور مصدر ”وحی" اسلام کے اندر اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے-
منٹگمری واٹ کہتے ہیں:
The verb here translated "reveal"is"awha"which in much of the Quran is a technical expression for this experience of Mohammad-(٣١)
اس کے مطابق فعل ” اوحی" اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوا ہے بالخصوص قرآن میں یہ لفظ ”وحی محمدی"کے لیے زیادہ آیا ہے وحی کا یہ خاص او ر اصطلاحی مفہوم کیا ہے؟ اس بارے میں علوم اسلامی کے ماہرین نے جو تعاریف کی ہیں ان کی رو سے وحی کے مفہوم کے لیے تین تعبیریں بیان کی گئی ہیں۔

۱ کلام الہی: صحیح بخاری کے شارحین بدر الدین عینی اور کرمانی نے بیان کیا ہے:
واما بحسب اصلطاح المتشرعة: فھو کلام اللہ المنزل علی نبی من انبیائہ(۱۴)
شریعت کی اصطلاح میں وحی اللہ کا وہی کلام ہے جو اس کے انبیاء میں سے کسی پر نازل ہوا ہو۔
راغب اصفہانی کا قول ہے:
ویقال للکلمة الالھیة التی تلقی الی انبیائہ (۱۵)
وحی کے معنوں میں سے ایک وہ کلام الہی ہے جو اس کے انبیاء کی طرف القاء کیا گیا ہے۔
تفسیر المنار کے موٴلف نے وحی کے خاص معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے:
ولہ (الوحی) معنی خاص ھواحد الاقسام الثلاثة للتکلیم الالہی وغیر ھذہ الثلاثة من الوحی العام لایعد من کلام اللہ تعالیٰ التشریحی(۱۶)
اس میں انہوں نے وحی کا خاص معنی کلام الہی بیان کیا ہے البتہ تشریعی ہونے کی قید لگائی ہے۔
ڈاکٹر حسن ضیاء نے بھی اصطلاحی مفہوم کی اسی تعبیر کاذکر کیا ہے:
وزبدة القول ان الوحی شرعاً القاء اللہ کلام اوالمعنی فی نفس الرسول بخفاء وسرعة (۱۷)
اس میں انہوں نے اصطلاحی معنی میں تھوڑی سی وسعت پیدا کرتے ہوئے کلام الہی کے علاوہ القاء مفہوم اور معنی کو بھی وحی کا شرعی معنی بتایا ہے:
عصر حاضر کے علماء میں تقی عثمانی اور ذوقی نے اصطلاحی مفہوم کو بالترتیب یوں بیان کیا ہے:
”کلام اللہ المنزل علی نبی من انبیائہ"
”اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو اس کے کسی نبی پر نازل ہو“(۱۸)
” وحی کلام الہی ہے جو عالم غیب سے عالم شہادت کی جانب بذریعہ ایک مقرب فرشتہ کے جنہیں جبرئیل کہتے ہیں رسولوں کے پاس پہنچایا جاتا ہے۔"(۱۹)

۲ علم و آگاہی اور اس کی تعلیم: مصر کے معروف مفکر محمد عبدہ وحی کے اصطلاحی مفہوم کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”وقدعرَ فوہ شرعاَ‘ انہ اعلام اللہ تعالیٰ لنبی من انبیائہ بحکم شرعی و نحوہ(۲۰)
شرعی لحاظ سے وحی کی تعریف یوں کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء میں سے کسی کو حکم شرعی اور اس طرح کے دیگر احکام سے آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے۔
علوم قرآن کے ماہر محمد عظیم زرقانی نے وحی کی نہایت جامع تعریف کی ہے۔
علم و ہدایت بلکہ ہر قسم کی آگاہی جو اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو دینا چاہے شریعت میں اسے وحی کہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ خارق العادت اور مخفی ذریعے سے ہوتا ہے۔ (۲۱)
المنار کے موئف بھی وحی کو ” انبیاء سے مخصوص علم“ سے تعبیر کرتے ہیں وہ کہتے ہیں۔
انبیاء کی جانب وحی الہی انبیاء سے مخصوص علم ہے جو تلاش و کو شش اور کسی غیر کی تعلیم کے بغیر انبیاء کو حاصل ہوتا ہے بلکہ اس علم میں انبیاء کے تفکر اور سوچ و بچار کا بھی کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ (۲۲)
ایک اور مصری دانشور رائج لطفی اپنے رائے بیان کرتے ہیں:
علی الاصطلاح الشرعی اعلام اللہ تعالیٰ انبیائہ اما بکتاب اوبر سالةِ ملکٍ فی منام او الہام“(۲۳)
” اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کو آگاہ کرنا وحی کہلاتا ہے اس کے مختلف ذرائع ہیں مکتوب شکل میں‘فرشتے کے ذریعے خواب میں یا دل میں بات ڈالنے سے“
برصغیر کے عالم اسلم جیراجپوری بھی وحی کو علوم الہیہ کا نام دیتے ہیں:
اصطلاح شرع میں وحی ان علوم الہیہ کا نام ہے جو ملاء اعلیٰ سے نبی کے دل پر القاء کیے جاتے ہیں۔ (۲۴)
غلام احمد پرویز کے بقول وحی کااصطلاحی مفہوم علم الہی ہے:وہ لکھتے ہیں:
” وحی کے اصطلاحی معنی ہیں وہ علم جسے خدا ایک برگزیدہ فرد کو براہ راست اپنی طرف سے دیتا ہے قرآنی اصطلاح کی رو سے وحی کے معنی ہیں” خداکی طرف سے براہ راست ملنے والا علم“(۲۵)
انہوں نے اصطلاحی معنی کو بہت ہی محدود کر دیاہے ان کی نظر میں فقط وہی علم وحی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست دیا جائے اس سے فرشتے کے ذریعے سے ملنے والی آگاہی وحی کے زمرے سے خارج ہو جاتی ہے کہ باقی آراء کے خلاف بات ہےکیونکہ اکثر محققین نے وحی کے تینوں ذرائع جو سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱ میں بیان ہوئے ہیں‘ کو اصطلاحی معنی میں وحی کا نام دیاہے۔
برصغیر کے ایک اور دانشور نے وحی کو علم الہی کا نام دیا ہے وہ کہتے ہیں:
” شریعت اسلام کی اصطلاح میں وحی خاص اس ذریعہ غیبی کا نام ہے جس کے ذریعہ غوروفکر کسب و نظر اور تجربہ و استدلال کے بغیر خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فضل و لطف خاص سے کسی نبی کو کوئی علم حاصل ہوتا ہے۔"(۲۶)
ایران کے معاصر محقق ڈاکٹر صالحی کرمانی لکھتے ہیں:
تعلیمی کہ خدا ونداز راھہای کہ بربشر پنہاں است و بطور سریع یعنی برکنار از مقدمات و روش آگاہی ھای بشری بہ پیا مبرمی دھد“ (۲۷)
ان کے بقول وحی وہ تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ مخفی ذریعے سے تیزی کے ساتھ اپنے پیغمبر کو دیتا ہے یہ تعلیم دیگر انسانی ذرائع تعلیم سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔
ایران کے ایک اور محقق سعیدی روشن بیان کرتے ہیں:
”بنا بر این معنای اصطلاحی وحی در علم کلام عبارت است:
از تفہیم یک سلسلہ حقائق و معارف از طرف خدا وندبہ انسا نہای بر گذیدہ پیا مبران برای ہدایت مردم‘ از راہ ھای دیگری غیراز راھہای عمومی و شناخة شدہ معرفت ہمچون حس و تجربہ وعقل و حدس و شہود عرفانی ‘ تااینکہ آنہاپس از دریافت ‘آن معارف ربہ مردم ابلاغ کنند“(۲۸)
ان کی تحقیق کے مطابق اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے انبیاء کو لوگوں کی ہدایت کے لیے حقائق اور علوم کی تفہیم کا نام ہے یہ تفہیم اور تعلیم جانے پہچانے انسانی ذرائع علم (جیسے حواس خمسہ، تجربہ، عقل، گمان، عرفانی مشاہدات،) سے ماوراء ذریعے سے ہوتی ہے اور ان حقائق اور معارف کو لوگوں تک پہنچانا مقصود ہے۔
پاکستان کے محقق شمس الحق افغانی وحی کا اصطلاحی مفہوم یہ ذکر کرتے ہیں:
” وحی کا شرعی معنی الاعلام بالشرع ‘یعنی صرف شرعی احکام بتلانے کا نام وحی ہے“(۲۹)یہ وحی انبیاء علیہم الاسلام سے مختص ہے۔"(۳۰)
برطانوی مستشرق منٹگمری واٹ لکھتے ہیں:
Most commentators and translators treat most of instances of the words in the Quran as technical(٣١. ہت سے مفسرین اور مترجمین نے قرآن میں اس لفظ کے استعمالات سے اصطلاحی مفہوم مراد لیاہے۔
اصلاحی مفہوم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
The verb here translated "reveal" is "awha" which in mhich of the Quran in a technical expressin for this experience of Muhammad(٣٢)
یعنی وحی کا لفظ اصطلاحی معنوں میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تجربے (نبوت)کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وحی کے لیے فقط نہیں آیا بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی وحی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ (۳۳)

۳ پیغام الہی: ڈاکٹر حمید اللہ نے اصطلاح میں وحی کا مفہو م یوں ذکر کیا ہے:
” اللہ اپنے کسی برگذیدہ بندے کے پاس اپناپیغام بھیجتا ہے یہ پیغام اس تک مختلف طریقوں سے پہنچایا جاتا ہے کبھی تو اللہ کی آواز براہ راست اس نبی کے کان تک پہنچتی ہے ‘کبھی یہ ہوتا ہے کہ وہ پیغام ایک فرشتہ لاتا ہے اور انسان تک پہنچاتا ہے فرشتے خدا کا جو پیغام لاتے ہیں اس کو ہم اصطلاحاً ” وحی“ کہتے ہیں“(۳۴)
انہوں نے وحی کے خاص مفہو م کو اور بھی محدود کر دیا ہے اور صرف فرشتوں کے ذریعے پہنچائے جانے والے پیغام کو وحی کہا ہے حالانکہ نبی کو براہ راست القاء بھی وحی بمعنی خاص ہے۔
اسلامی علوم کے ماہرین نے وحی کے اصطلاحی مفہوم کو مختلف الفاظ اور تعبیروں سے واضح کی ہے ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے کلام کو وحی کا اصطلاحی مفہوم قرار دیاہے۔ (۳۵)یہ وحی کا اسمی معنی ہے۔
بعض مفکرین نے اللہ تعالیٰ کے اپنے انبیاء سے گفتگو کرنے کو اصطلاح میں وحی کہا ہے(۳۶)
یہ وحی کے مصدری معنی کے لحاظ سے ہے۔
انہی میں سے بعض نے علم اور معارف کو وحی کا نام دیا ہے۔ (۳۷)
جبکہ بعض نے خود علم کی تعلیم دینے اور معارف کو سکھانے کے عمل کو وحی کا جامہ پہنایا ہے۔ (۳۸)
اور یہ تفاوت بھی وحی کے اسمی اور مصدری معنی کی وجہ سے ہے اور چونکہ اہل لغت نے وحی کے دونوں معنی بیان کیے ہیں۔ (۳۹)
اس لیے جن علماء کے پیش نظر وحی کا اسمی معنی تھا انہوں نے اس کا اصطلاحی مفہوم ”کلام الہی“ اور”علم و معارف“ بیان کیا اور جن کے سامنے اس کا مصدری معنی تھا انہوں نے اس کا مفہوم ”کلام کرنا“اور ”تعلیم دینا“بتایا ہے پس اصطلاحی مفہوم میں دونوں جہتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
تعبیروں کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ جنہوں نے کلام یاکلام کرنے کی تعبیر استعمال کی ہے انہوں نے خود قرآن کے الفاظ کو استعمال کیا ہے جو وحی کے لیے سورہ شوریٰ کی آیت ۵۱میں استعمال ہوئے ہیں۔ (۴۰)جبکہ دوسروں نے واقعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے علم،حقائق اور تعلیم کے الفاظ استعمال کیے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اپنے برگذیدہ بندوں سے کلام کرنا انہیں تعلیم دینا ہی ہے انہیں کائنات کی حقیقتوں سے آگاہ کرنا ہے انہیں آداب زندگی سکھانا ہی ہے اس لیے میری رائے میں تعابیر کا اختلاف مفہوم میں کسی جوہری اور اصلی اختلاف کا باعث نہیں بنتا دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتاہےالبتہ علم اور تعلیم دینے کی تعبیر زیادہ موزوں ہے۔
اس تمام بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اصطلاح میں:
”وحی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان وہ مخصوص، غیر معمولی اور مافوق العادت رابطہ ہے جو بشر کے لیے تمام ذرائع علم(تجربہ،حواس،عقل) سے ماوراء ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو انسانوں کی ہدایت اور ارتقاء کے علوم و معارف اور احکام و قوانین کی تعلیم دینا ہے۔"
اس مقالے میں وحی کا یہی اصطلاحی مفہوم اور وحی کا مصدری معنی ہی موضوع تحقیق ہے۔

حوالہ جات: ۱ اس تحریر کی گذشتہ قسط کی بحث کا یہی نتیجہ نکلا تھا۔
۲ العجاج نے اوحی” کو اشارے کے معنی میں استعمال کیا ہے:
” فاوحت الینا و الانا مل رسلھار و شدھا بالراسیات الثبت
العجاج نے اسی لفظ کو کتابت کے معنی میں اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے:

حتی نحاھم جدنا و الناحی
لقدر کان وحاہ الواحی

(دیوان عجاج،ص۴۳۹)
لبید نے مکتوب کے معنی میں بیان کیا ہے:

وفمدا فع الریان عری رسمھا
خلقا کما ضمن الوحی سلا مھا

۳ مفیدمحمد بن نعمان الشیخ المفید(۵)تصحیح الاعتقاد،المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید،۱۴۱۳ھص۱۲۰
۴ رشید رضا:تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹
۵ طباطبائی محمد حسین:المیزان فی تفسیر القرآن:ج۱۲ص۳۱۲
۶ ضیاالدین عترحسن ڈاکٹر:وحی اللہ،دعوة الحق مکہ مکرمہ رجب۱۴۰۴ہجریص۵۲
۷ عثمانی محمدتقی:علوم القرآن،مکتبہ دارالعلوم کراچی۱۴۰۸ھ،ص۲۹
۸ جمعہ رائج لطفی:القرآن والمستشرقون،قاہرہ۱۳۹۳ھ
۹ سعیدی روشن محمدباقر:تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت“،موٴسسہ فرہنگی اندیشہ ۱۳۷۵ھ شص۱۷
۱۰ اکبر آبادی سعید احمد:وحی الہی،مکتبہ عالیہ لاہورص۲۵
۱۱ اردو دائرةالمعارف الاسلامیہ:دانشگاہ پنجابلاہورج۱۶ص۳۲۱
۱۲Bell,Richard: Introduction to the Quran;p-٣٢Edinburg ١٩٥٣-
۱۳Watt,W.Montgomery: Islamic Revelation in the Modern World; p-١٣ Edinburg ١٩٦٩-
۱۴ عینی بدرالدین ابی محمد محمود بن احمد(م۸۵۵) عمدةالقاری لشرح صحیح البخاری،ج۱ص۱۸کرمانی صحیح البخاری بشرح الکرمانی، موسسہ المطبوعات الاسلامیہ قاہرہ،الجزالاول :ص۱۴
۱۵ راغب اصفہانی:” معجم المفردات الفاظ القرآن“ص۵۱۵
۱۶ تفسیر المنارج،ج۱۱،۱۷۹ ۱۷ وحی اللہ،ص۵۲
۱۸ علوم القرآن،ص۲۹
۱۹ شاہ ذوقی مولانا:القاء الہام اور وحی،اقبال اکیڈیمیلاہورص۱۳
۲۰ عبدہ محمد: رسالة التوحید،مصر۱۳۸۵،ص۱۱۱
۲۱ زرقانی محمد عظیم:مناھل العرفان فی العلوم القرآن،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ص۵۶
۲۲ تفسیر المنار، ج۱ص۲۳۰ ۲۳ القرآن والمستشر قون، ص قاہرہ۱۳۹۳ھ
۲۴ جیرا جپوری اسلم:تاریخ القرآن، آواز اشاعت گھر،لاہور ص۱۲
۲۵ پرویز غلام احمد:ختم نبوت اور تحریک احمدیت طلوع اسلام ٹرسٹلاہور۱۹۹۶ءص۲۴
۲۶ وحی الہی، ص۲۵ ۲۷ صالحی کرمانی،محمد رضا ڈاکٹر:درآمدی برعلوم قرآنی،انتشارات جہاد دانشگاہی دانشگاہ تہران،۱۳۶۹ھ،شص۲۵۲
۲۸ تحلیل وحی ازدیدگاہ اسلام و مسیحیت،ص۱۷۱۸
۲۹۳۰ افغانی شمس الحق، علوم القرآن مکتبہ الحسن لاہور،ص۹۶،ص۹۸
۳۱۳۲ Watt,W.Montgomery: Islamic Revelation in the Modern World-p١٣&١٤-Edinburg١٩٦٩
۳۳ مندرجہ ذیل آیات میں یہ لفظ دیگر انبیاء کی وحی کے لیے آیاہے نساء۱۶۳:اعراف۱۱۷،۱۶۰یونس۲،۸۷:طہٰ۷۷،مومنون۲۷:شعراء۵۲،۶۳:یوسف۱۰۹:نحل۴۳انبیاء۷،۲۵ شوریٰ۳،۵۱:ھود۳۷،۳۶زمر۶۵
۳۴ ۔ حمید اللہ محمد ڈاکٹر:خطبات بہاولپور،ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد ۱۹۸۸ء،ص۱۹۱
۳۵ عینی بدر الدین ابی محمد محمود بن احمد:عمدة القاری شرح صحیح البخاری، ج۱،ص۱۸راغب اصفہانی معجم المفردات لالفاظ القرآن،دارالفکر بیروتص۵۱۵وحی اللہ ص۵۲علوم القرآن ص۲۹القاء الہام اور وحی ص۱۳
۳۶ تفسیر المنار:ج۱۱ص۱۷۹
۳۷ تفسیر المنار،ج۱ص۱۲تاریخ القرآن،ص۱۲ ختم نبوت اور تحریک احمدیت،ص۲۴ وحی الہی ص۲۵
۳۸ رسالة التوحید،ص۱۱۱، مناھل العرفان فی العلوم القرآن،ص۵۶، القرآن والمستشرقون، درآمدی برعلوم قرآنی،ص۲۵۲، تحلیل وحی ازدید گاہ اسلام و مسیحیت ص۱۷،۱۸۔
۳۹ الصحاح تاج اللغة و صحاح العربیة،تحقیق احمد عبدالغفور عطارج۶،ص۲۵۱۹،داراعلم للملابین،بیروت معجم مقائیس اللغة ج۶۹۳لسان العرب ج۱۵،ص۳۷۹
۴۰ وَمٰا کٰانَ لِبَشَرٍ ان یُکَلَّمَہُ اللّٰہ اِلّٰا وَحْیاً اَوَمِنْ وَرٰاء حِجٰابٍ اَوْیُرْسِلْ رَسُولًا فَیُوحی بِاِذْنِہِ مٰایَشاٰءُ اَنَّہ عَلیٰ حَکِیمٍ

۱۲
مفہوم ولایت مختلف تراجم وتفاسیر کی روشنی میں تحقیقی جائزہ علوم ومعارف قرآن مفہوم ولایت مختلف تراجم وتفاسیر کی روشنی میں تحقیقی جائزہ ڈاکٹر محمد شکیل اوج
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ علوم اسلامی،جامعہ کراچی
قرآن مجید کی ایک آیت کے حوالہ سے مختلف تراجم و تفاسیر کی روشنی میں ایک تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے۔ اور وہ سورہ انفال کی آیت نمبر۷۲ ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے:
”اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَھٰاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَنَصَرُوْا اُولٰئِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَالَکُمْ مِّنْ وِلاَیَتِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلاّٰ عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰہُ بِمَاتَعْلَمُوْنَ بَصِیْرٌ"
ترجمہ: بے شک جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال ونفوس کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کیااور وہ لوگ کہ جنہوں نے انہیں ٹھکانہ دیااور امداد دی یہی لوگ ایک دوسرے کے اولیاء(سچے رفقاء اور ورثاء) ہیں اسی طرح وہ لوگ جو ایمان لائے مگر ہجرت(واجب ہونے کے باوجود)نہ کی (یعنی بلاعذر مخالفین کے ساتھ رہنا گوارا کر لیا)تو تمہارے لیے ان کی ولایت (وراثت) میں سے کچھ نہیں جب تک وہ ہجرت نہ کریں البتہ اگر وہ دین کے لیے تم سے کوئی مدد چاہیںتو تم پران کی مدد لازم ہے بشرطیکہ وہ اس قوم کے مقابلہ میں نہ ہوں جن سے تمہارا کوئی معاہدہ (امن دوستی )ہے اور اللہ ہر اس عمل کادیکھنے والا ہے جو تم کرتے ہو۔
اس آیت سے درج ذیل فوائد سامنے آتے ہیں۔

۱۔ مومن مہاجرین و انصار ایک دوسرے کے اولیاء ہیں۔ ۲۔ مومن مہاجرین، غیر مہاجرین کی وراثت سے (دارالکفر میں رہنے کی وجہ سے )محروم ہیں اسی طرح اس کے برعکس بھی ہو گا۔
۳۔ مومن غیر مہاجرین کے دارالکفر میں ہونے کے باوجود ملت اسلامیہ کے مرکز کی ذمہ داری ہے کہ دینی معاملات میں ان کی مدد کرے بشرطیکہ وہ اس امداد کے طالب ہوں (ظاہر ہے کہ ان کی یہ مدد جہاد کی صورت میں ہو گی)
۴۔ اگر کافر قوم(ملک)سے مسلمانوں کے مرکز کا کوئی معاہدہ صلح و امن موجود ہے تو اس صورت میں بقائے عہد تک یہ امداد نہیں دی جاسکتیالبتہ عہد کو ختم کر کے مدد کرناجائز ہو گا جیسا کہ عبدالماجد دریا بادی نے اپنی تفسیر میں اسی آیت کے تحت لکھا ہے۔
فائدہ نمبر ۳کے مفہوم کی مزید تاکید کے لیے آیت مابعد(آیت نمبر۷۳)ملاحظہ ہو۔
”وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ اِلَّا تَفْعَلُُْوہُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَاٰدٌکَبِیْرٌ“
ترجمہ: اور جو کفر کرتے ہیںوہ ایک دوسرے کے اولیاء ہیں(اے مسلمانو)اگر تم ایسا نہ کرو گے (یعنی دین میں مدد کے طالبوں کی نصرت واعانت اور حفاظت و مدافعت، سرپرستی و پشتیبانی، بصورت جہاد)تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔
اس آیت میں اکثر وبیشتر علماء کے نزدیک ”اَلاّٰتَفْعَلُوہ“ میں ضمیر مفعول کا مرجع وہی نصرت ہے جس کا ذکر ”فعلیکم النصر“میں آیا ہے۔
تفسیر جلالین میں” الاتفعلوہ“کا مفہوم” تولی المومنین وقطع الکفار“سے اور ”تکن فی الارض وفساد کبیر“ کامعنی ”بقوة الکفروضعف الاسلام“ سے کیاگیاہے۔
تاہم پیش نظرآیت میں لفظ”اولیاء“ اور ”ولایت“ قابل توجہ ہیں۔
در اصل آیت میں مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کااولیاء قرار دے کر غیر مہاجرین کو اس ”ولایت“ سے خارج کر دیا گیاہے چنانچہ اس مقام پر ان ہر دو لفظوں کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے یہ دونوں لفظ اپنے معنی و مفہوم کے اعتبا ر سے ایک دوسرے سے پیوست نظر آتے ہیں چونکہ یہاں” مالکم من ولایتھم من شیءِ“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس لیے اگر اس فقرہ میں لفظ ولایت کو سمجھ لیا جائے تو اولیاء کا مفہوم آپ سے آپ پر واضح ہو جائے گا۔
اردو زبان کے بعض مترجمین نے اس فقرہ میں استعمال ہونے والے لفظ ولایت کو ولایت ہی رہنے دیاہے اس کاکوئی مفہوم اپنے ترجمہ میں بیان نہیں کیامثال کے طور پر سید ابو الاعلی مودودی،امین احسن اصلاحی،اور مسعود احمد(امیر جماعت المسلمین) کے تراجم دیکھے جاسکتے ہیں اور اب نمونہ کے طور پر ایک ترجمہ بھی دیکھ لیجیے۔
تو ان سے تمہاراولایت کاکوئی تعلق نہیں ہے(سید مودودی)
سید مودودی نے لفظ ولایت کو اپنی تفسیر میں بایں الفاظ بیان کیا ہے
”ولایت کا لفظ عربی زبان میں حمایت،نصرت،مددگاری،پشتیبانی،دوستی،قرابت،سرپرستی،اور اس سے ملتے جلتے مفہومات کے لیے بولا جاتا ہےاور اس آیت کے سیاق وسباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے“(۱)
اس مقام پر مودودی صاحب کا مفہوم ولایت جن جن لفظوں میں بیان ہوا ہےان پر ایک نظر پھر ڈال لیجیےحمایتنصرتمددگاریپشتیبانیدوستی قرابتاور سرپرستی وغیرہ ظاہر ہے۔ کہ ان مفہومات میں سے کوئی بھی مفہوم یہاں نہیں لیا جا سکتا اس لئے کہ اس فقرہ کے بعد کا جو فقرہ ہے۔
”وان استنصرو کم فی الدین فعلیکم النصر“الخ
وہ ان مفہومات سے ابا کرتا ہےمطلب یہ کہ اگر وہ تم سے نصر طلب کریں تو تم پر ان کی نصرت فرض ہےلہذا ولایت کا یہاں کوئی ایسا مفہوم نہیں لیاجا سکتاجو ان کی نصرت کے خلاف جاتا ہواسی لیے خود سید مودودی نے بھی یہاں ولایت کا ان مفہومات میں سے کوئی مفہوم مراد نہیں لیابلکہ ان کے نزدیک یہاں ولایت سے مراد”وہ رشتہ ہے،جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے اور شہریوں کا اپنی ریاست سے اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے“ظاہر ہے کہ اس مفہوم کی رو سے لفظ ولایت ملکی قومیت/وطنیت کے سیاسی تصور کو پیش کر رہا ہے اور یوں بحیثیت مجموعی ایک امت کے تصور کی نفی ہو رہی ہے علامہ اقبال وطنیت کے اس سیا سی تصور کے سخت مخالف تھےانہوں نے اپنی ایک نظم میں اسے خلاف اسلام قرار دیا ہے فرماتے ہیں۔

گفتار رسیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

وہ اس تصور کو شرک سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اور مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:

بازو تراتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

نظارہ دیرنہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے(۲)

لہذا اس مقام پر ”ولایت“ کا یہ مفہوم بھی غیر قرآنی معلوم ہوتا ہےبصورت دیگر ملکی /وطنی نیشنلزم کا تصور قرآن سے ماننا پڑے گا جو ناممکن سی بات ہے۔
نیز اسی عدم ولایت کی بناء پر مودودی صاحب دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا وارث قرار نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے مابین شادی بیاہ کے قائل ہیںاور قابل ذکر بلکہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کو وہ ”اسلام کے دستوری و سیاسی ولایت“ کے تحت مستقل بنیادوں پر تسلیم کرتے ہیں۔ (۳)
گویا ان کے نزدیک تفریق ریاست کے سبب بشرطیکہ وہ دارلاسلام اور دارلکفر ہوں)آج بھی ہر دو ریاستوں کے مسلمان رشتہ ازدواج میں منتقل نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ ایک دوسرے کے وارث ہو سکتے ہیںہمارے خیال میں دونوں باتیں صحیح نہیں ہیں اور نہ ہی ان باتوں کی پشت پر کوئی نص قطعی موجود ہے۔
اب آپ اردو کے وہ مترجمین دیکھئے جنہوں نے اس مقام پر ”ولایت“ کا معنی رفاقت سے کیا ہے ان میں
۱ محمود حسن صاحب (اسیر مالٹا)
۲ ثناء اللہ امرتسری
۳ فتح محمد خان جالندھری
۴ وحید الدین خان
۵ غلام احمد پرویز
۶ صوفی عبدالحمید سواتی
۷ محمد جونا گڑھی شامل ہیں
نمونہ کے طور پر محمود صاحب کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔
”تم کو ان کی رفاقت سے کچھ کام نہیں“
یہ ترجمہ دیکھئے اور آیة گرامی کا فقر ہ مابعد دیکھئے۔
”وان استنصرواکم فی الذین فعلیکم النصر“
بھلا بتائیے کہ وہ لوگ کو جن کی رفاقت سے مسلمانوں کے کچھ کام نہ ہوں۔ پھر ان کی نصرت کا حکم بھی دیا جائے کیا یہ ممکن ہے؟
اسی طرح وہ مترجمین جنہوں نے ”ولایت“ کا معنی دوستی سے کیا ہےوہ یہ ہیں سرسید احمد خان، مرزا حیرت دہلوی،مرزا بشیر الدین محمود(قادیانی)اور محمد علی (لاہوری) نمونہ کے طور پر سرسید احمد خان کا ترجمہ دیکھئے
”تو تم کو نہیں ہے اس کی دوستی سے کچھ“جبکہ مرزا بشیر الدین کے ہاں دوستی کے ساتھ لفظ ”ولی“ کا اضافہ ملتا ہے
ظاہر ہے کہ رفاقت اور دوستی دونوں ہم معنی الفاظ ہیں اس اعتبار سے ہمارے نزدیک اس مفہوم کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر رفاقت کے تحت تبصرہ میں پیش کیاگیا ہے۔
اہل تشیع میں حافظ فرمان علی نے ولایت کا معنی سرپرستی سے کیا ہےملاحظہ ہو”تم لوگوں کو ان کی سرپرستی سے سروکار نہیں“
مگر تعجب ہے کہ مترجم موصوف نے اپنا حاشیہ وراثت کے مفہوم پر مشتمل لکھا ہے فرماتے ہیں۔ (۵) ”جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ آئے تو مہاجرین و انصار کو باہم ایک دوسرے کا بھائی قرار دیااور باہم ایک دوسرے کے وارث بھی ہوئے۔
جب آیہ اولوالارحام نازل ہوئی تو یہ وراثت موقوف ہوئی“
ترجمہ: میں سرپرستی اور حاشیہ میں وراثت اس واضح فرق پر کیا تبصرہ کی جائے۔
تفسیر مجمع البیان میں اس آیت کی تفسیر بایں الفاظ کی گئی ہے:
”قیل نزلت الایةفی المیراث وکانوایتو ارثون بالھجرة فجعل اللہ المیراث المھا جرین والانصار دون ذوی الارحام وکان الذی امن ولم یھاجرلم یرث من اجل انہ لم یھا جرولم ینصر وکانو ایعملون بذلک حتی انزل اللہ تعالیٰ واولو الارحام بعضھم اولی بعض فسخت ھذہ الایة وصارالمیراث لذوی الارحام المومنین ولایتوارث اہل ملتین عن ابن عباس والحسن وقتادہ ومجاہد والسدیی“ (۶)
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ ولایت کا معنی میراث ہےاور اکثرمترجمین ومفسرین نے اس کا معنی وراثت یا میراث سے ہی کیا ہےالبتہ ایک ترجمہ میں لفظ ترکہ بھی استعمال کیا گیاہے۔
واضح رہے کہ وراثت اور میراث ہم معنی الفاظ ہیں اور ترکہ میں البتہ قدرے وسعت پائی جاتی ہےیعنی میت جو کچھ چھوڑ جائے وہ ترکہ ہےاور ترکہ ان تمام مفاہیم پر بولا جاتا ہے۔
۱ میت اگر مقروض ہے تو ترکہ میں سے قرضہ ادا کیا جاتا ہے۔
۲ میت نے اگر کسی کے حق میں مشروع وصیت کر دی ہے تو وہ بھی ترکہ میں سے نکالی جاتی ہے
۳ میت نے اگر اپنی اہلیہ کو مہر نہیں دیا ہے تو وہ بھی ترکہ میں سے نکالا جاتا ہے۔
۴ خود میت کی تجہیز،تکفن اور تدفین بھی ترکہ میں سے کی جاتی ہے۔
پھر جو کچھ بچ گیا ہے اسے مال موروثہ،ورثہ،میراث یا وراثت کہا جاتا ہےاور اس باقی ماندہ مال پر احکام وراثت جاری کیے جاتے ہیںیوں میت کے چھوڑے ہوئے کل مال کو ترکہ کہا جاتا ہےمعلوم رہے کہ ہمارے محولہ تمام مترجمین ومفسرین میں احمد رضاخان صاحب بریلوی واحد متراجم ہیں کہ جو ولایت کا ترجمہ ترکہ سے کرتے ہیںملاحظہ ہو”تمہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتا“
اس ترجمہ کی رو سے فقط تعدیم میراث ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ تعدیم دین(قرض)تعدیم مہر اور تعدیم وصیت غرض سب ہی ثابت ہو جاتے ہیں یو ں یہ ترجمہ اپنی جامعیت اور معنویت میں سب سے بڑھا ہوا معلوم ہوتا ہےبلاشبہ یہ ترجمہ رضاصاحب کے تفردات میں داخل کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ
۱ ڈپٹی نذیر احمد صاحب
۲ اشرف علی تھانوی
۳ سید محمد محدث کچھوچھوی
۴ احمد سعید دہلوی
۵ مفتی احمد یا رخان نعیمی
۶ عبدالماجد دریابادی
۷ احمد سعید کاظمی
۸ پیر محمد کرم شاہ الازھری
کے ہاں ولایت کا ترجمہ وراثت یا میراث سے کیا گیا ہے۔
نمونہ کے طور پر ڈپٹی نذیر احمد کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔
”تو تم مسلمانوں کو ان کی وراثت سے کچھ تعلق نہیں“
وراثت کے لفظ سے مفہوم آیت یہ نکلتا ہے کہ دارالکفر میں رہنے والے مومنوں کے وراثت مہاجروں میں جاری نہیں ہو گی(اسی طرح اس کے برعکس ہو گا)خواہ وہ ایک دوسرے کے باپ،بھائی،کیوں نہ ہوںالبتہ احمد رضا خان صاحب کے ترجمہ کی رو سے اسی مفہوم پر اتنا اضافہ اور کرلیں کہ اگر کوئی کسی کا مقروض ہویا کسی کے حق میں وصیت ہو یا اہلیہ کا مہر ہو توبھی دارالکفر اور دارالاسلام کے مسلمانوں کے مابین یہ تینوں حقوق غیر موثر رہیں گےنیز ان پراحکام وراثت جاری نہیں ہوں گے(مگر اب یہ احکام منسوخ ہو چکے ہیں)البتہ تفسیر جلالین میں زیر بحث فقرہ قرآنی کامفہوم بایں الفاظ درج ہے۔
”فلاارث بینکم وبینھم ولانصیب لھم فی الغنیمہ“
(یعنی اے مہاجر مسلمانو) تمہارے اور غیر مہاجر مسلمانوں کے مابین کوئی میراث نہیں اور نہ ہی اس کے مال غنیمت میں سے کوئی حصہ ہےاور
”الاستا الدکتور وھبة الزحیلی بھی اپنی تفسیر“ التفسیر المنیر فی الشریعة والمنھج“
میں مذکورہ بالا الفاظ ایضاً لکھے ہیںگویا ان ہر دو حضرات کے نزدیک میراث کے ساتھ مال غنیمت بھی شامل ہے جس میں غیر مہاجرین کا کوئی حصہ نہیں۔
جبکہ مُلّا احمد جیون نے آیت مذکورہ کو جس عنواں کے تحت لکھا ہے وہ یہ ہے ” ہجرت کی بناء پر جو ورثاء، وراثت سے محروم ہوئے“ ۷ اس لئے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک اس آیت میں ولایت بمعنی وراثت ہی استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح اما م ابن جریر طبری نے بھی اپنی تفسیر میں،اور امام عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی القرشی البغدای (۰۵۹۷ھ) نے بھی اپنی تفسیر زاد لمسیر فی علم التّفسیر میں ولایت سے مراد میراث لیا ہے۔ فرماتے ہیں۔
” لیس بینکم وبینھم میراث“
ولایت کا معنی وراثت قرآنی لُغت سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں لفظ ” ولی" بمعنی وارث بھی استعمال ہوا ہے۔ سورہ الاسرا کی آیت نمبر ۳۳ میں ارشاد ہوا۔
”وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہ سُلْطٰنًا"
اور جو شخص ظلم سے قتل کیاجائے۔ ہم نے اُس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔
(فتح محمد جالندھری )
تفسیر جلالین میں بھی لَوَلّیہ کا معنی لوارثہ لکھا ہوا ہے۔ چنانچہ ولایت کا معنی وراثت سے کرنا از روئے لغت قرآن کریم بھی ثابت ہوا۔ اور یہ ہمارے موقف کے حق میں دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل تو خود نظم کلام سے مستنبط تھی جیسا کہ اوپر گذرا۔ اور اب ہم اپنے موقف کے حق میں تیسری دلیل آلایات تفسیر بعضھا بعض کے تحت سورہ النساء کی آیت نمبر ۷۵ سے پیش کرتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے۔
”وَمَالَکُمْ لَاتُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَان الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَةِ الْظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا وَاجْعَلْ لَّنَامِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا“
ترجمہ:۔ اور تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہ کرو یعنی کمزور مردوں اورعورتوں اور بچوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں اس بستی سے نکال کہ جن کے لوگ ظالم ہیں اور (اے اللہ!)ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے۔
اس آیت کو دیکھیے اور پھر سورئہ انفال کے آیت نمبر ۷۳ کو دیکھیے۔ اورخود فیصلہ کیجئیے کہ جب سورئہ النساء میں مکہ معظمہ کے بے بس، اور کمزور مسلمانوں کی مدد کے لیے مدینہ منورہ کے مسلمانوں کو اُبھارا جارہا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سورئہ انفال میں انہی مسلمانوں کے لیے یہ کہا جا رہا ہو کہ
تم کو انکی رفاقت سے کچھ کا م نہیں (محمود حسن)
تمہارے لیے انکی کچھ بھی رفاقت نہیں (محمد جونا گڑھی)
تمہاری ان سے ذرا رفاقت نہ ہونی چائیے (ثناء اللہ امرتسری)
توان سے تمہارا رفاقت کاکوئی تعلق نہیں (وحید الدین خان)
تم لوگوں کو انکی سرپرستی سے سروکار نہیں (حافظ فرمان علی )
تم پر انکی دوستی کا کوئی حق نہیں (محمد علی لاہوری)
ان سے دلی دوستی کرنا تمہارا کام نہیں (مرزا بشیر الدین محمود قادیانی)
تمکو ان کی رفاقت سے کچھ سروکار نہیں (فتح محمد خان جالندھری)
نہیں آپ لوگوں کا کچھ تعلّق ان کی رفاقت سے (صوفی عبدالحمید سواتی)
تو تم کو نہیں ہے ان کی دوستی سے کچھ (سرسّید احمد خان)
تو تمہیں انکی دوستی سے کچھ (کام )نہیں (مرزا حسرت دہلوی) وغیرہ وغیرہ۔
خلاصہ یہ کہ سورئہ انفال کی آیت نمبر(۷۲)میں جن مترجمین نے ولایت کا معنی وراثت،میراث،اور ترکہ سے نیز لفظ اولیاء کا معنی اسی مناسبت سے وارث ہونے سے کیا ہےوھی ہمارے نزدیک زیادہ صحیح اور نظم قرآن کے مناسب اور رُوحِ قُرآنی کے مطابق ہے۔ اس مقام پر اس مطلوب کے پانے کی سعادت جن اُردو مترجمین کے حصّے میں آئی ہے۔ ان کے اسمائے گرامی ایک بار پھر ملاحظہ ہوں۔
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی احمد رضا خان بریلوی اشرف علی تھانوی
سید محمدمحدث کچھوچھوی
احمد سعید دہلوی
مفتی احمد یار خان نعیمی عبدالماجد دریابادی
احمد سعید کاظمی اور پیر محمد کرم شاہ الازھری
اور انگریزی مترجمین قرآن میں پروفیسر شاہ فرید الحق اور عبدالماجد دریا بادی (۶)نے اسی مفہوم کو اپنے اپنے تراجم میں پیش نظر رکھا ہے۔ نمونہ کے طور شاہ فرید الحق کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

"You have no duty to their inharitence" (٩)
جبکہ محمد علی لاہوری،عبداللہ یوسف علی، مارما ڈیوک پکتھال،ڈاکٹر حنیف اختر فاطمی،ڈاکٹر محمد تقی الدین الہلالی، ڈاکٹر محمد محسن خان اور محمدمعظم علی کے ہاں ولایت کا مفہوم Protectionسے ادا کیا گیا ہے۔ البتہ ایم ایچ شاکر کے ہاں Guardianship اور آرتھر جے آربری کے ہاں Friendshipکے الفاظ لکھے گئے ہیں۔ اور لبنان سے شائع ہونے والے مُسلم اسکالرز کے ترجمے میں Responsibility کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا انگریزی تراجم میں ہمارا مختار اور مطلوب ترجمہ عبدالماجد دریا بادی اور پروفیسر شاہ فرید الحق کا ہے۔

حواشی و حوالاجات ۱۔ تفہیم القرآن،جلد دوئم حاشیہ نمبر۵۰ص۱۶۱ ادارہ ترجمان القرآن لاہور، ۱۹۷۵ء
۲۔ بانگ ِدرا، نظم زیر عنوان وطنّیت ص ۱۶۰۱۶۱ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز لاہور سنہ اشاعت ۱۹۷۶ء
۳۔ تفہیم القرآن،جلد دوئم،سورئہ انفال،حاشیہ نمبر۵۱،ص ۱۶۲ ادارہ ترجمان القران لاہور سنہ اشاعت۱۹۷۵ء
۴۔ غلام احمد پرویز نے اپنے مفہوم القرآن میں ولایت کو ”اعانت و رفاقت“ سے تعبیر کیا ہے
۵۔ اسی طرح تعجّب ہے کہ پیر محمد کرم شاہ الازھری،اپنے ترجمہ میں ولایت کا ترجمہ وراثت سے کرتے ہیں مگر اپنے حاشیہ میں،ترجمے سے ہٹ کر تفسیر کرتے ہیں دیکھئیے ضیاء القرآن،جلد دوئم،سورئہ انفال کا حاشیہ نمبر ۹۰
۶۔ الشیخ الطبرسی (متوفٰے ۵۴۸)، مجمع البیان فی تفسیر القرآن،جلد دوئم ص ۵۶۱،مکتبہ العلمیة الاسلامیہ،طھران،سنہ اشاعت ندارد،
۷۔ تفسیرات احمدیہ فی بیان آلایات الشرعیہ،(اُردوترجمہ) جلد اوّل،ص۵۲۳،قرآن کمپنی لمٹیڈ،اُردو بازار لاہور،سنہ اشاعت ندارد
۸۔ عبدالماجد دریابادی کا پہلا ترجمہ مع تفسیر کے انگریزی میں ہوا تھا
۹۔ محمد علی لاہوری نے بھی اُردو ترجمہ و تفسیر سے قبل انگریزی میں ترجمہ و تفسیر کا کام کر لیا تھا

۱۳
” بیان القرآن“ اور ”تفہیم القرآن“ کے اردو تراجم قرآن کا تقابلی جائزہ علوم ومعارف قرآن ” بیان القرآن“ اور ”تفہیم القرآن“ کے اردو تراجم قرآن کا تقابلی جائزہ
تحریر:ڈاکٹر غزل کا شمیری
قرآن پاک کے اکثر اردو تراجم میں معنوی یگانگت کا ہونا ایک فطری امر ہےلیکن اگر دو تراجم میں لفظی اتحاد ہواور وہ بھی ان گنت آیات کے تراجمتو یہ ایک عجیب مظہر ثابت ہو گایہ عجیب مظہر مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر”بیان القرآن“ اور مولانا ابوالاعلی مودودی کی تفسیر ”تفہیم القرآن“ کے اردو تراجم میں پایا جاتا ہے دونوں بزرگوں کے اردو تراجم، تفسیروں سے علیحدہ بھی طبع ہو چکے ہیں۔
اگرتراجم میں لفظی مماثلت دو چار مقامات تک محدود ہو تو ہم یہ عذر کر سکتے ہیں کہ یہ ایک علمی آمد اور آفاقی حقیقت ہے جودو جینئیس حضرات کے نظریہ اور کلام میں مُلھم ہو جاتی ہےلیکن اگر یہ یک رنگی لاتعداد مقامات پر ملے تو لازماً یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ متاخر جینئیس نے مقدم سے شعوری سے استفادہ کیا ہے یہ اور بات ہے کہ وہ مقدم کو اپنا ماخذ تسلیم نہ کرے۔
آئیے ان مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں جن کے مطابق بیان القرآن اور ”تفہیم القرآن“ میں قرآن پاک کی آیات کے اسماء و افعال کے تراجم میں لفظی مماثلت پائی جاتی ہےیہاں یہ حقیقت پھر مدنظر رہے کہ ہم نے وہی مثالیں پیش کی ہیں جن میں مشابہت لفظی ہے مثلاًدرج ذیل مثال سے ہم نے اعراض کیاہےسورة القصص کی آیت۵۹:
” وَمَاکَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثُ فیْ اُمِّھَا رَسُوْلاً“
مولانا تھانوی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں”اور آپ کا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک ان کے صدر مقام میں کسی پیغمبر کو نہ بھیج لے“ مولانا مودودی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیںاور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھاجب تک کہ اس کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتایہاں ام کے ترجمہ صدر مقام یا مرکز معنوی موافقت تو ہے لیکن لفظی لحاظ سے اختلاف و تفاوت ہے ہم نے ایسی مثالوں سے صرف نظر کیا ہے اب ہم ترتیب وار وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کے اسماء افعال میں دونوں بزرگوں کے تراجم میں مشابہت پائی جاتی ہے۔

سورةالبقرة
ترجمہ: مولانا اشرف علی تھانوی مولانا ابو الاعلی مودودی
آیت ۲۰: لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصٰارِہِمْ
ان کے گوش وچشم سلب کر لیتے ان کی سماعت اور بصارت بالکل ہی سلب کر لیتا
آیت ۲۲: فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنَدْادًا
اب تو مت ٹھہراو اللہ پاک کے مقابل تو دوسروں کو اللہ کے مدمقابل نہ ٹھہراو
آیت۳۵: وَکُلاَ مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا
پھر کھاؤ دونوں اس میں سے بافراغت جس جگہ سے چاہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاو
آیت۴۴: وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ
حالانکہ تم تلاوت کرتے رہتے ہو کتاب کی حالانکہ تم تلاوت کرتے ہو کتاب کی
آیت۶۰: وَ اِذْ اسْتَسسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہ
اور جب موسٰی نے پانی کی دعا مانگی اپنی قوم کے واسطے یاد کرو جب موسٰی نے اپنی قوم کے لئے پانی کی دعاکی
آیت۶۱: وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ
اور دائرہ سے نکل نکل جاتے کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے
آیت۶۴: لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخَاسِرِیْنَ
تو ضرور تباہ ہو جاتے ورنہ تم کب کے تباہ ہو چکے ہوتے
آیت۸۸: وَقَالُوْا قُلُوْبُنَاغُلْفٌ
اور کہتے ہیں ہمارے قلوب محفوظ ہیں وہ کہتے ہیں ہمارے دل محفوظ ہیں
آیت۹۷: قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبِْریْلَ
آپ یہ کہیے جو شخص جبریل سے عداوت رکھے ان سے کہوجو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہے
آیت۱۱۵: فَاَیْنَمَا تُوَلَّوْافَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ
تو تم لوگ جس طرف بھی منہ کرو ادھر اللہ تعالیٰ کا رخ ہے جس طرف بھی تم رخ کرو گے
اسی طرف اللہ کا رخ ہے
آیت۱۱۷: بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ
موجد ہیں آسمانوں اور زمین کے وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے
آیت۱۲۰: قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَالْھُدٰی
آپ کہہ دیجیے کہ حقیقت میں ہدایت کا وہی راستہ ہے صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ
جس کو خدا نے بنایا ہے نے بتایا ہے
آیت۱۲۷: وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاہمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ البَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ
اور جب اٹھارہے ہیں ابراہیم دیواریں اور اسمعیل بھی اور یاد کرو ابراہیم واسمعیل جب اس گھر کی
دیواریں اٹھارہے۔
آیت۱۴۵: اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِیْنَ
تو یقینا آپ ظالموں میں شمار ہونے لگیں تو یقینا تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا
آیت ۲۱۳: کَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً
سب آدمی ایک ہی طریق کے تھے ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے
آیت۲۴۹: فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ
سو جو شخص اس سے پانی پیئے گا وہ تو میرے ساتھیوں میں نہیں جو اس کا پانی پیئے گا وہ میرا ساتھی نہیں
آیت۲۵۵: اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ
زندہ ہے سنبھالنے والا ہے وہ زندہ جاوید ہستی جو کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے
آیت۲۶۱: وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآء
اور یہ افزونی خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے افزونی عطا فرماتا ہے

سورة آل عمران
آیت ۲۶: بِیَدِکَ الْخَیْرُ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدَیْرٌ
آپ ہی کے اختیار میں ہے سب بھلائی بلاشبہ آپ ہر چیز پر قادر ہیں بھلائی تیرے اختیار میں ہے بے
شک توہرچیز پر قادر ہے
آیت۱۵۶: یٰااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَتَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا
اے ایمان والوتم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا اے لوگوجو ایمان لائے ہو کافروں کی سی بات نہ کرو
(یعنی ان لوگوں کی سی بات مت کرنا)جو حقیقت میں کافر ہیں
نوٹ: مولانا اشرف علی تھانوی نے جو وضاحت بریکٹ کے اندر دی ہے مولانا مودودی اسی کو اصل ترجمہ میں لے آئے ہیں۔

سورةالنساء
آیت۵۶: وَیَقُوْلُوْنَ سَمِعْنٰا وَعَصَیْنٰا
اور یہ کلمات کہتے ہیں سمعنا وعصینا کہتے ہیں سمعنا وعصینا
آیت ۱۰۴ اِبْتِغَاءِ الْقَوْمِ
مخالف قوم کے تعاقب کرنے میں اس گروہ کے تعاقب میں

سورة الاعراف
آیت۹۲: کَاَنْ لَّمْ یَغْنُوْا فِیْھَا
حالت یہ ہوئی جیسے ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہ تھے گویا کبھی ان گھروں میں بسے ہی نہ تھے
آیت: ۱۲۶ رَبنَّا اَفْرِغْ عَلَیْنٰا صَبْراً
اے ہمارے رب ہمارے اوپر صبر کا فیضان کر اے رب ہم پر صبر کا فیضان کر
آیت :۱۵۷ وَعُزَّرُوْہُ
اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور اس کی حمایت کریں
آیت: ۱۹۰ فَلَمّٰا اَتٰھُمٰا صٰالِحاً
سو جب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو صحیح وسالم اولاد دیدی مگر جب انسان کو ایک صحیح و سالم بچہ دیدیا

سورة الانفال
آیت:۸ یَحِقُّ الْحَقَّ وَیُبْطِلُ الْبٰاطِلَ
تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کردے تاکہ حق حق ہو کررہے اور باطل باطل ہو کررہ
جائے
آیت:۳۰ وَاِذًیَمْکُرْ بِکَ الَّذینَ کِفَرُوا لِیُثْبِتوُکَ
جب کہ کافر لوگ آپ کی نسبت تدبیریں سوچ رہے وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے جب کہ منکرین حق
تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید
کریںتھے کہ تجھے قید کردیں

سورة التوبة
آیت:۱۱۸ وَعَلٰی الثَّلاٰثَةِ الَّذینَ خُلِّفُواٰ
اور ان تین اشخاص کے حال پر بھی جن کا فیصلہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا اور ان تینوں کو بھی اس نے
معاف کیا جن کے معاملہ کو ملتوی کر دیا گیا تھا

سورة یوسف
آیت:۸ا اِنَّ اَبٰانٰا لَفی ضَلاٰلٍ مُبینٍ
ہمار ے اباجان بالکل ہی بہک گئے ہیں سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں
آیت:۶۰ فَاِنْ لَمْ تَأتُونی بِہ فَلاٰ کَیْلَ عِنْدی وَلاٰ تَقْربُونَ
اور اگر اس کو تم میرے پاس نہ لائے تو نہ میری پاس اگر تم اسے نہ لاو گے تو میرے پاس تمہارے
تمہارے نام کا غلہ ہو گا اور نہ تم میرے پاس آنا لئے کوئی غلہ نہیں بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا

سورة الکھف
آیت:۱۴ قُلُناٰ اِذاً شَطَطًا
ہم نے یقیناً بڑی بے جابات کہی اگر ہم ایسا کریں بالکل بے جابات کریں گے

سورة الانبیاء
آیت: اِنّی کُنْتُ مِنَ الظّٰالِمِینَ
میں بے شک قصور واروں میں ہوں بیشک میں نے قصور کیا

سورة الفرقان
آیت:۶۱ اَلَذَّینَ لاٰیَرْ جُونٰا لکقاءَ نٰا
جو لوگ ہمارے سامنے پیش ہونے سے اندیشہ نہیں کرتے جو لوگ ہمارے حضور
پیش ہونے کا اندیشہ نہیں رکھتے

سورة الشعراء
آیت:۱۲۹۱۲۸، اَتَبْنُونَ بِکُلِّ ریعٍ آیةً تَعْبَثُونَ
کیاتم ہر اونچے مقام پر ایک یادگار بناتے ہو یہ تمہارا کیا حال ہے کہ ہر اونچے مقام پرلا حاصل ایک
جس کو محض فضول بناتے ہو یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو

سورة القصص
آیت۳: نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ
ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کا کچھ حصہ ٹھیک ٹھیک پڑھ کرسناتے ہیں ہم موسیٰ اور فرعون کا کچھ حال

ٹھیک ٹھیک تمہیں سناتے ہیں سورة عنکبوت
آیت۱۷: لاَّیَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا
تم کو کچھ بھی رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے

سورة الروم
آیت۴: لِلّٰہِ اْلاَمَرُ
اللہ ہی کا اختیار ہے اللہ ہی کا اختیار ہے

سورة لقمان
آیت۱۴: حَمَلَتْہُ اُمُّہ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ
اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا

سورة الاحزاب
آیت۱۰: وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ
کلیجے منہ کو آنے لگے تھے کلیجے منہ کو آگئے
آیت۳۲: الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہ مَرَضٌ
جس کے دل میں خرابی ہے دل کی خرابی کا مبتلا شخص
آیت ۴۲: وَسَبِّحُوْہُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلًا
اور صبح شام اس کی تسبیح کرتے رہو اور صبح وشام اس کی تسبیح کرتے رہو
آیت۵۱: ذٰلِکَ اَدْنٰی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُھُنَّ
اس میں زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اس طرح زیادہ توقع ہے کہ ان

کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔ سورة الفاطر
آیت۳۹: فَعَلَیْہِ کُفْرُہ
اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑ ے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے

سورة یاسین
آیت۴۱: وَاٰیَةٌ لَّھُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَھُمْ فِی الْفُلَکِ الْمَشْحُوْنِ۔
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ ہم نے ان کی ان کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل
اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کر دیا

سورة الصفت
آیت۱۵: وَقَالُوْا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ۔
اور کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے اور کہتے ہیں یہ تو صریح جادو ہے
آیت۶۱: لِمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰاِمُلْونَ۔
ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو
عمل کرنا چاہیے
آیت۸۳: وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہ لَاِبْرَاہِیْمَ۔
اور نوح کے طریقے والوں میں سے ابراہیم بھی تھے اور نوح ہی کے طریقے پر چلنے والا ابراہیم تھا
آیت۱۶۱،۱۶۲: فَاِنَّکُمْ وَمَاتَعْبُدُوْنَo مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفَاتِنِیْنَo
سوتم اور تمہارے سارے معبود خدا سے کسی کو نہیں پھیر سکتے پس تم اور تمہارے یہ معبود اللہ
سے کسی کو پھیر نہیں سکتے

سورةص
آیت۱: صٓ وَالْقُرْاٰنِ ذِی الذِّکْرِ۔
ص قسم ہے قرآن کی جو نصیحت سے پُر ہے ص قسم ہے نصیحت بھر ے قرآن کی
آیت۲۲: وَلَاتُشْطِطْ
اور بے انصافی نہ کیجیے بے انصافی نہ کیجیے
آیت۷۵: مَامَنَعَلَک اَنْ تَسْجُدَ
اس کو سجدہ کرنے سے تجھ کو کون چیز مانع ہوئی تجھے کیاچیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی

سورة الزمر
آیت ۳۶: فَمَالَہ مِنْ ھَادٍ
اس کا کوئی حادی نہیں اس کے لیے پھر کوئی حادی نہیں

سورة المومن
آیت۵: وَھَمَّتْ کُلُّ اُمَّةٍ بِرَسُوْلِھِمْ لِیَاْخُذُوْہُ
اور ہرامت نے اپنے پیغمبر کے گرفتار کرنے کا ارادہ کیا ہر قوم رسول پر جھپٹی تاکہ اسے گرفتار کرے
آیت۲۶: اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ
مجھ کو اندیشہ ہے کہ وہ تمہار دین بدل ڈالے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین بدل ڈالے گا
آیت۷۶: فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ۔
سومتکبرین کا وہ برا ٹھکانا ہے بہت ہی برا ٹھکانہ ہے متکبرین کا

سورةحم السجدة
آیت۳۵: وَمَایُلَقّٰھَآ
نصیب نہیں ہوتی ہے یہ صفت نصیب نہیں ہوتی
آیت۴۴: فِیْ اٰذَانِھِمْ وَقْرٌ
ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے ان کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ ہے۔
آیت۵۱: فَذُوْدُعَآءٍ عَرِیْضٍٍ
تو خوب لمبی چوڑی دعائیں کرتا ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے

سورة الشوریٰ
آیت۱۶: حُجَّتُھُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ
ان لوگوں کی حجت ان کے رب کے نزدیک باطل ہے ان کی حجت بازی ان کے رب کے نزدیک
باطل ہے۔
آیت۳۳: فَیَظْلَلْنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَھْرِہ
تووہ سمندری سطح پر کھڑے کھڑے رہ جائیں تویہ سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کے کھڑے رہ جائیں
آیت۴۵: خَاشِعِیْنَ مِنَ الذُّلِّ
مارے ذلت کے جھکے ہوئے ہوں گے تو ذلت کے مارے جھکے جارہے ہوں گے
آیت۴۵: الَّذِیْنَ خَسِرُوْا اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْہِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ
جو اپنی جانوں سے اور اپنے متعلقین سے قیامت کے جنہوں نے آج قیامت ے دن اپنے آپ
روز خسارے میں پڑے۔ کو اور اپنے متعلقین کو خسارے میں ڈال دیا۔

۱۴
علوم ومعارف قرآن علوم ومعارف قرآن سورةالزخرف
آیت۳: اِنَّاجَعَلْنَاہُ قُرْءٰ نًاعَرَیِبًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔
کہ ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تا کہ تم سمجھ لو کہ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا
تاکہ تم لوگ اسے سمجھو
آیت۱۰: لَّعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ۔
تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ سکو تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو
آیت۲۳: اِنَّاوَجَدْنَا اٰبَآءَ نَا عَلٰی اُمَّةٍ
ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایاہے
آیت۳۶: نُقَیِضْ لَہ شَطْاَنًا
ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے

سورة الجاثیہ
آیت۸: ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْھَا
پھر بھی وہ تکبر ہوتا ہے اس طرح اڑ رہتا ہے پھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اسی طرح اڑا
جیسے ان کو سنا ہی نہیں رہتا ہے گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں
آیت۱۱: ھٰذَا ھُدًی
یہ قرآن سرتاہدایت ہے یہ قرآن سر اسر ہدایت ہے

سورة الاحقاف
آیت۱۵: حَمَلَتْہُ اُمُّہ کُرْھًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْھًا
اس کی ماں نے اس کو بڑی مشقت کے ساتھ پیٹ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور
میں رکھا اور بڑی مشقت کے ساتھ اس کو جنا مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا

سورة الفتح
آیت۱: اِنَّا فَتَََحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا
بیشک ہم نے آپ کو کھلی فتح دی اے نبیہم نے تم کھلی فتح عطاکردی
آیت۶: الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوْءِوَسَآءَ تَ مَصِیْرًا۔
جو اللہ کے ساتھ بڑے گمان رکھتے ہیں اور وہ جو اللہ کے متعلق بڑے گمان رکھتے ہیںجو بہت
بہت ہی برا ٹھکانہ ہے برا ٹھکانہ ہے

سورةق
آیت۷: وَاَلْقَیْنَا فِیْھَا رَوَاسِیَ
اور اس میں پہاڑوں کو جما دیا اور ہم نے اس میں پہاڑ جمادیئے
آیت۳۶: فَنَقَّبُوْا فِی الْبِلَادِ
اور تمام شہروں کو چھانتے پھرتے تھے اور دنیا کے ملکوں کو انہوں نے چھان مارا

سورة الذاریات
آیت۳۱: فَمَا خَطْبُکُمْ اَیُّھَا الْمُرْسَلُوْنَ
ابراہیم کہنے لگےاچھا تو تم کو بڑی مہم کیا درپیش ہے ابراہیم نے کہااے فرستادگان الہی کیا مہم
آپ کو درپیش ہے

سورة الطور
آیت۳۳: اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَہ
ہاں کیا وہ یہ کہتے ہیں کہاانہوں نے اس خود گھڑ لیاہے کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخض نے یہ قرآن خود
گھڑ لیا ہے

سورة النجم
آیت۵۸: لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَاشِفَةٌ
کوئی غیر اللہ اس کا ہٹانے والا نہیں اس کے سوا کوئی اس کو ہٹانے والا نہیں

سورة القمر
آیت۶: یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْءٍ نُّکُرٍ۔
جس روز ایک بلانے والا فرشتہ ایک ناگوار چیزکی طرف بلا دے گا جس روز پکارنے والا ایک سخت ناگوار چیز کی
طرف پکارے گا۔

سورة الرحمن
آیت۳۳: لَاتَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ۔
بدون زور کے نہیں نکل سکتے نہیں بھاگ سکتے اس کے لیے بڑا زور چاہیے
آیت۷۰: فَیْھِنَّ خَیْرَاتٌ حِسَانٌ
ان میں خوب سیرت وخوبصورت عورتیں ہونگی ان نعمتوں کے درمیان خوب سیرت اور
خوبصورت بیویاں

سورة الواقعة
آیت۳۵: اِنَّا اَنْشَاْ نٰھُنَّ اِنْشَآءً۔
ہم نے ان عورتوں کو خاص طور پر بنایا ہے ان کی بیویاں کو ہم خاص طور پر نئے سرے سے پیدا
کریں گے۔

سورة الحدید
آیت۹: ھُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٓ اٰیَاتٍ بَیِّنِاتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ وَاِنَّ اللّٰہَ بِکُمْ لَرَئُوفٌ رَّحِیْمٌ۔
وہ ایسا ہے کہ اپنے بندہ پر صاف صاف بھیجتا ہے وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں
تاکہ تم کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لادے نازل کر رہا ہے تا کہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی
اور بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے حال پر بڑا شفیق ومہربان ہے میں لے آئے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر
نہایت شفیق اور مہربان ہے
آیت ۲۷: وَرَہْبَانِیَّةَ نِ ابْتَدَعُوْہَا
اور انہوں نے رہبانیت کو خود ایجاد کیا۔ اور رہبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی۔

سورة المجادلہ
آیت۱۹: اِسْتَحْوَذَ عَلَیْھِمُ الشَّیْطَانُ
ان پرشیطان نے پورا تسلط کر لیاہے شیطان ان پر مسلط ہو چکا ہے
آیت۲۲: اُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ الْاِیْمَانَ
ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیاہے یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے
ایمان ثبت کر دیا ہے۔

سورة الحشر
آیت۳: وَلَھُمْ فِیْ الْاٰخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ۔
اور ان کے لیے آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے اور آخرت میں ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے

سورة الممتحنہ
نوٹ:سورة الممتحنہ کی آیت:۶ میں دونوں جگہ اسوة حسنہ کا کلمہ آیاہے
آیت۴: قَدْکَانَتْ لَکُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْ اِبْرَاھِیْمَ
کاترجمہ تھانوی صاحب کرتے ہیں
”تمہارے لیےابراہیم میں ایک عمدہ نمونہ ہے“
مودودی صاحب فرماتے ہیں۔
”تم لوگوں کے لیے ابراہیم میںایک اچھا نمونہ ہے“
آیت۶: لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْھِمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
مولانا تھانوی اس کا ترجمہ کرتے ہیں۔
”بیشک ان لوگوں میں تمہارے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے عمدہ نمونہ ہےمولانا مودودی ترجمہ یہ کرتے ہیںانہی لوگوں کے طرز عمل میں تمہارے لیے اور ہر شخض کے لیے اچھا نمونہ ہےعمدہ نمونہ اور اچھا نمونہ دونوں ترجمے مولانا تھانوی نے کیے ہیںمولانا مودودی نے بھی یہی ترجمے اپنائے ہیں لیکن ان کوآگے پیچھے کر دیاہے
آیت۱۱: فَعَاقَبْتُمْ
پھر تمہاری توبت آوے اور پھر تمہارے توبت آئے

سورة الصف
آیت ۷: وَاللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ۔
اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا

سورة الجمعہ
آیت۸: ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ
پھر تم پوشیدہ اور ظاہر جاننے والے کے پاس لئے جاوگے پھر تم اس کے سامنے پیش کئے جاو گے جو
پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے

سورة المنافقون
آیت۷: حَتّٰی یَنْفَضُّوْا
یہاں تک کہ یہ آپ ہی منتشر ہو جاویں گے تاکہ یہ منتشر ہوجائیں

سورة الطلاق
آیت۸: وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَةٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّھَا وَرُسُلِہ
اور بہت سی بستیاں تھیں جنہوں نے اپنے رب کے کتنی ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس
حکم سے اور اس کے رسول سے سرتابی کی کے رسولوں کے حکم سے سرتاب کی

سورة التحریم
آیت۶: وَ یَفْعَلُوْنَ مَایُوٴْمَرُوْنَ۔
اور جوکچھ ان کو حکم دیاہے اس کو بجالاتے ہیں اور جو بھی حکم انہیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔

سورة الملک
آیت۳: فَارْجِعِ الْبَصَرَھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ۔
سوتو پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لے کہ تجھ کو کوئی خلل نظر آتا ہے پھر پلٹ کر دیکھو کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے
آیت۵: وَلَقَدْ زَیَّنَّاالسََّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَجَعَلْنٰھَا رُجُوْمًا لِّلْشَّیَاطِیْنِ
اور ہم نے قریب کے آسمانوں کو چراغوں سے آراستہ کر رکھا ہے ہم نے تمہارے قریب کے آسمان کو عظیم
اور ہم نے ان کو شیطانوں کے مارنے کاذریعہ بھی بنایاہے الشان چراغوں سے آراستہ کیاانہیں شیاطین کو
مار بھگانے کا ذریعہ بنایا۔
آیت۲۲: اَمَّنْ یَّمْشِیْ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔
یا وہ شخص جوسیدھا ایک ہموارسڑک پر جارہا ہو۔ یاوہ جوسراٹھائے سیدھا ایک ہموار سڑک پر چل رہاہو۔
مولانا مودودی کے ترجمہ میں”سر اٹھائے سیدھا“ کے الفاظ مناسب نہیں ہیں۔
آیت۳۰: فَمَنْ یَّاْ ِتْیُکْم بِمَآءٍ مَّعِیْنٍ۔
یاو ہ کون ہے جو تمہارے پاس سوت کا پانی لے آئے تو کون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں
تمہیں نکال کردلائے گا۔

سورة القلم
آیت ۳: وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ۔
اور بے شک آپ کے لیے ایسا اجر ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے اور یقینا تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا
سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں

آیت۱۰: وَلَاتُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّھِیْنٍ۔
آپ کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانیں جو بہت قسمیں کھانے ہر گز نہ دبو کسی ایسے شخض سے جو بہت قسمیں
والاہوبے وقعت ہو کھانے والا بے وقعت آدمی ہے
آیت۳۲: اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا رٰاغِبُوْنَ۔
ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں ہم اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہیں
آیت۴۳: تَرْھَقُھُمْ ذِلَّةٌ وَکقَدْا کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ وَھُمْ سَالِمُوْنَ۔
ان پر ذلت چھائی ہوگیاور یہ لوگ سجدہ کی طرف تھے ذلت ان پر چھارہی ہوگییہ جب صحیح و
اس وقت بلائے جایاکرتے تھے اور وہ صحیح سالم تھے سالم تھے انہیں سجدہ کی طرف بلایا جاتا
تھا(اور یہ انکار کرتے تھے)

سورة الحاقة
آیت۷: سَخَّرَھَا عَلَیْھِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمَانِیَةَ اَیَّامٍ
جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پرسات رات اور آٹھ دن متواتر مسلط کردیاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو مسلسل سات
رات اورآٹھ دن ان پر مسلط رکھا۔

سورةالمعارج
آیت۲: لِلْکَافِرِیْنَ لَیْسَ لَہ دَافِعٌ۔
جوکہ کافروں پر واقع ہونے والا ہے جس کاکوئی دفع کرنے والا نہیں۔ کافروں کے لیے ہے کوئی اسے
دفع کرنے والا نہیں۔

سورة نوح
آیت۴: اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ لَایُوٴَخَّرُ
اس کا مقرر کیا ہواوقت جب آجاوے گا تو ٹلے گا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت
جب آجاتا ہے تو پھر ٹالانہیں جاتا۔

سورة الجن
آیت۱۲: وَلَنْ نُّعْجِزَہ ھَرَبًا۔
اور نہ بھاگ کر اس کو ہراسکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں
آیت۲۱: قُلْ اِنِّی لَآ اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا۔
آپ کہ دیجئے کہ میں تمہارے نہ کسی ضررکا اختیار کہو میں تم لوگوں کے لیے نہ کسی نقصان کا اختیاررکھتا رکھتاہوں اور نہ کسی بھلائی کا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا۔
آیت۲۷: فَاِنَّہ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہ رَصَدًا۔
تو اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے محافظ فرشتے بھیج دیتا ہے تواس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے
آیت۲۸: وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْھِمْ
اوراللہ تعالیٰ کے تمام احوال کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور وہ ان کے پورے ماحول کا احاطہ کیے
ہوئے ہے۔

سورة المدثر
آیت۱۹: فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ۔
سو اس پر خدا کی مار کیسی بات تجویز کی ہاں خدا کی مار اس پر کیسی بات بنانے کی کوشش کی
آیت۱۹: وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ۔
ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔

سورة النباء
آیت۳۶: جَزَآءً مِنْ رَّبِّکَ عَطَآءً حِسَابًا۔
یہ بدلہ ملے گا جو کہ کافی انعام ہو گا آپ کے رب کی طرف سے۔ جزاء اور کافی انعام تمہارے رب
کی طرف سے۔
آیت۳۸: یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلَائِکَةُ صَفًّا لَّایَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّامَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ
جس دن تمام ذی ارواح اور فرشتے صف بستہ جس روز روح اور ملائکہ صف بستہ کھڑے
کھڑے ہوگے نہ بولے گا۔ ہوگے کوئی نہ بولے گا۔
کوئی بول نہ سکے گا بجز اس کے جس کو رحمان اجازت دیدے۔ سوائے اس کے جسے رحمان اجازت دے۔

سورة النازعات
آیت۳۹: فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَاْوٰی۔
سودوزخ اس کا ٹھکانا ہو گا۔ دوزخ ہی اس کا ٹھکانہ ہوگی۔

سورة العبس
آیت۱۲: فَمَنْ شَآءَ ذَکَرَہ
سو جس کا جی چاہے اسے قبول کرلے۔ جس کا جی چاہے اس قبول کرلے۔
آیت۱۳: فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَةٍ۔
وہ ایسے صحیفوں میں ہے جو مکرم ہیں۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں۔
آیت۲۶:ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۔
پھر عجیب طور پر زمین کو پھاڑا پھر زمین کو عجیب طرح پھاڑا
آیت۳۳: فَاِذَا جَآءَ تِ الصَّآخَّةُ۔
پھر جس وقت کانوں کا بہر کر دینے والا شور برپا ہوگا۔ آخر کا ر جب وہ کان بہرے کردینے والی

آواز بلند ہوگی۔

سورة الضحی
آیت۸: وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی۔
اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نادار پایا سو مال دار بنادیا۔ اور تمہیں نادار پایا اور پھر مال دار کردیا۔
آیت۹،۱۰: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَاتَقْھَرْo وَاَمَّا السَّائِلَ فَلَاتَنْھَرْ۔
تو آپ یتیم پر سختی نہ کیجیے اور سائل کو مت جھڑکئے۔ لہذا یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو نہ جھڑکو۔

سورة الم نشرح
آیت۳: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آواز بلند کیا۔ اور تمہاری خاطر تمہارے ذکر کا آواز بلند کردیا۔

سورة الزلزال
آیت۱: اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔
جب زمین اپنی سخت جنبش سے ہلادی جائے گی۔ جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلادی جائے گی۔

سورة الھمزة
آیت۷: الَّتِی تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَةِ۔
جو دلوں تک جاپہنچے گی۔ جو دلوں تک پہنچے گی۔

سورة الھب
آیت۳: سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ۔
عنقریب وہ ایک شعلہ زن آگ میں داخل ہوگا۔ ضروروہ شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا۔

۱۵
علوم ومعارف قرآن علوم ومعارف قرآن تعارف تفاسیر
البیان فی تفسیر القرآن ازشیخ الطائفہ ابی جعفر محمد بن الحسن طوسی
مترجم: حجة الاسلام والمسلمین محمد علی ایازی

شیخ الطائفہ مرحوم محمد بن حسن المعروف بہ شیخ طوسی کا تحقیقی کارنامہ بہت مفید و سود مند ہے محققین اوراہل دانش و بینش نے اس عظیم مفسرفقہیہ اور مفکر کی تالیفات کی جامعیت نوگرائی،دقت،فصاحت و بلاغت اور محکم بیان کی تعریف کی ہے۔
شیخ الطائفہ کی گرانقدر اور کم نظیر تالیفات میں سے ان کی تفسیر ”البیان فی تفسیر القرآن ہے۔ تاریخی اعتبار سے اسلامی فرھنگ و ثقافت کے میدان میں تفسیر نگاری کا سلسلہ ”البیان“ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی تنقید، تجزیہ اور تحقیق کے مرحلہ میں داخل ہو گیا۔
شیخ طوسی پہلے شخص ہیں جنہوں نے تفسیر قرآن کو نقل آیات اورسلف کے اقوال سے نکال کر تنقید، تجزیہ اور تحقیق کے میدان میں داخل کر دیا۔
”بیان“ سے پہلے کی تفسیری کتب میں زیادہ تر نقل روایات اور لغات کے معانی کی وضاحت پر اکتفا کیا جاتا تھا۔
محمد بن جریرطبری کی گرانقدر کتاب”جامع البیان“ اور معتزلیوں کی چند تفاسیر میں کہیں کہیں اجتہاد اوراستنباط اور تفسیر کاعقلی تجزیہ وتحلیل نظر آتا ہے (۲)شیخ نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں واضح طور پر عقلی دلائل کی پیروی کو مسلّم جانا ہے اور نقلی دلیل کے لیے تواتر او ر ” مجمع علیہ“ ہونے کو شرط قرار دیا ہے وہ تفسیر قرآن میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے اور متاخر مفسرین کے اقوال کو ناقابل پیروی خیال کرتے ہیںانہوں نے محکم اصول پر بھروسہ و اعتماد کرتے ہوئے بہت ساری روایات اور سابقہ مفسرین کے اقوال کو قبول نہیں کیا اور ان کے اشتباہات اور نقائص کوبیان کیا ہے۔
شیخ الطائفہ نے مکتب تشیع کے افکار و اصول پر اعتماد کرتے ہوئے ایک جامع اور مکمل تفسیر مرتب کی اور تفسیر لکھنے کے ھدف ومقصد کو آغاز کتاب میں یوں بیان فرمایا”جس چیز نے مجھے یہ تفسیر لکھنے پر مائل کیا وہ یہ تھی کہ کسی شیعہ عالم نے اب تک مکمل قرآن کی ایسی کوئی جامع اور کامل تفسیر نہ لکھی تھی جو مختلف فنون اور معانی پر مشتمل ہو ماضی میں چند علماء نے ہمت کر کے کچھ روایات جمع کیں البتہ اس میں پوری تحقیق نہ کی گئی اور جن آیات کی تشریح و وضاحت کی ضرورت تھی انکی تشریح و وضاحت نہ ہو سکی۔
بعض نے آیات کی تفسیر کی ہے مگر ان میں بھی چند ایک (طبری)نے الفاظ و لغات کے معانی بیان کرتے ہوئے طوالت سے کام لیا ہے اور فنون کے حوالے سے جو کچھ ہاتھ لگا نقل کرڈالا ہے بعض نے صرف مشکل الفاظ و لغات کے معانی بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے۔
اعتدال کی راہ پر چلنے والوں کو جتنی سمجھ آئی لکھ ڈالا جس کو سمجھ نہ آئی نہ لکھا نحویوں نے ساری توجہ قرآن کے ادبی پہلوؤں پرمرتکز کر دی۔ جب کہ متکلموں نے کلامی مباحث پر توجہ دی ہے چند ایک نے دوسرے فنون کا ذکر کیا ہے اوربعض نے تو تفسیر سے مناسبت نہ رکھنے والے مطالب کا بھی ذکر کر لیا ہے۔
میں نے سنا ہے کہ بعض علمائے شیعہ قدیم زمانے سے ان تفاسیر کی طرف مائل ہوتے تھے جو اعتدال کے ساتھ ساتھ تمام علوم و فنون پر مشتمل تھے میں خداوند تعالیٰ کی توفیق سے اسی قصدکے ساتھ آغاز کرتاہوں اور انتخاب و اختصار سے کام لوں گا۔ (۳)
مرحوم شیخ نے اپنی مفید و پر ثمر تفسیر میں آختر تک یہ وعدہ پورا کیا اور اختصار و انتخاب کے ساتھ ساتھ کلامی،ادبی،تاریخی، اور فقہی مباحث سے بھی اپنی تفسیر کو پر رونق بنایا ہے۔
”البیان“ کے مطالب کے وسعت اور گہرائی کا احاطہ ممکن نہیں ہے اس کے مباحث اورمطالب تجزیہ و تحلیل اور شناخت و معرفت، تفسیر نگاری کے دوران اس کے اثرات اور محققین و مفسرین نے اس سے جو استفادہ حاصل کیا ہے اُسے بیان کرنے کے لیے ایک جدا اور ضخیم کتاب کی ضرورت ہے۔ (۴)
بہت سارے علماء تفسیر نے تفسیر ”البیان“ پر اپنے اپنے اندازمیں تبصرہ کیا ہے ہم یہاں پر عظیم مفسر قرآن مرحوم امین الاسلام طبرسی کا بیان تحریر کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں!
”البیان" ایسی کتاب ہے جس میں نورحق چمکتا دکھائی دیتا ہے سچ کی خوشبو اس سے آتی ہےاسرار و معانی کا خزانہ ہے اور ادب سے پرُ ہے۔
موٴلف نے تمام مطالب و مباحث کو تحقیق و جستجو کے ساتھ آراستہ وپیراستہ کیا ہے”البیان“ ایک ایسا روشن چراغ ہے جس سے میں روشنائی حاصل کرتا ہوں اور اسی کے پر تو سے میں نے اپنی تفسیرکی کتاب مجمع البیان میں استفادہ کیا ہے۔ (۵)

البیان کی باقاعدہ اشاعت: تفسیر البیان کے نسخہ جات ۱۳۶۴ء ہجری قمری تک مختلف کتابخانوں میں بکھرے پڑئے تھےسال مذکورہ میں اس کے بکھرے ہوئے اجزاء آیت اللہ سید محمدحُجت کوہ کمری تبریزی کی کوششوں سے ایک جگہ جمع کئے گئےچند علماء نے اس کی تصحیح کی اور دو بڑی جلدوں میں(پہلی جلد ۸۷۹ اور دوسری جلد۸۰۰ صفحات پر مشتمل تھی)۱۳۶۵ہجری قمری میں شائع کی گئی اس طرح معارف تفسیر قرآن کے محققین کی آرزو بھرآئی۔
علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔
” آیت اللہ حجت نے اس کتاب کو شائع کروا کے امت اسلامی کی ایک بہت بڑی خدمت کی ہے چونکہ علماء ہمیشہ سے اس چیز کی آرزو کرتے چلے آرہے تھے کہ اس تفسیر کے بکھرے اجزاء کو جمع کر کے شائع کیا جائے یہ توفیق مرحوم حجت کے حصے میں آئی۔ (۶)

دس جلدوں میں اشاعت (قطع وزیری): یہ اشاعت جناب حبیب فقیر العاملی کی تحقیق اصلاح اور حاشیہ کے ساتھ منظر عام پر آئیاس اشاعت کی جلداول کے آغاز میں محترم آقا بزرگ تہرانی کے حالات بیان کئے گئے ہیں۔
کتاب کے محقق نے متن کی تصحیح اور تحقیق کے بعد حاشیے میں مفید چیزوں کا اضافہ کیا ہے مثلاً آیات کا حوالہ اشعار،نسخوں کا اختلاف بعض لغات کی تشریح۔
ہر جلد کے آخر میں فہرستوں کی فنی لسٹ موجود ہے مثلاً فہرست احادیث، متکلموں اور مفسروں کی طرف سے کئے گئے اعتراضات سے متعلق مرحوم شیخ کے جوابات، فہرست امثال، لغوی مباحث وغیرہ۔
جس اشاعت کا یہاں پر ذکر کیا گیا ہے وہ ایک بہتر اور مفید اشاعت ہے لیکن اس کے باوجود ”البیان" کی عظمت و شان اور تفاسیر میں اس کے ممتاز مقام اس کے اعلیٰ اور عظیم مطالب و مباحث کے پیش نظر اس میں مزید بنیادوں پرتحقیق وتصحیح کی بحمد اللہ ضرورت تھی۔
ادارہ اہل البیت الاحیاء التراث کے محققین نے اجتماعی کوششوں اور پوری دقت کے ساتھ اُسے نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔

تحقیق کا طریقہ کار: نسخوں کے درمیان مقائیسہ،تصحیح اور تحقیق کا کام مختلف کمیٹیوں میں تقسیم کر دیا گیاکتاب کے تحقیق کا کام درج ذیل مختلف اہل فن حضرات کی کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا۔

۱ نسخوں کے درمیان مقائیسہ و مقابلہ کی کمیٹی:
چند حضرات جو قدیم خطوط و الفاظ کو پڑھنے میں مہارت رکھتے تھے اور مناسب علمی قابلیت رکھتے تھے انہوں نے مطبوعہ نسخوں کا ان نسخوں کے ساتھ مقابلہ و مقائیسہ کیا کہ جن کا ذکر بعد میں کریں گے وہ اختلافی مواقع نوٹ کر لیتے تھے

۲ منقولات کو استخراج کرنے والی کمیٹی:
منقولات کے مصادر و منابع کے استخراج کا کا م اس کمیٹی کے ذمے تھامرحوم شیخ نے جو کچھ تفسیر میں ذکر کیا ہے کمیٹی کے اراکین نے انہیں استخراج کر کے ان کے مصادر اور منابع پر منطبق کیا جیسے احادیث،کتب،اقوال،نحویوں کی آراء،لغت دان حضرات،قرائتیں،اسباب نزول،اشعار امثال اور ہر وہ چیزجسے نکال کر منابع و مصادر پر منطبق کرنے کی ضرورت تھی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ محققین کی کوشش رہی تھی کہ مذکورہ مواقع پر شیخ الطائفہ سے قبل والے مأخذکا حوالہ دیا جائے اور منقولات کے اصلی اور پرانے مأخذ حاصل کیے جائیں۔

۳ مقابلہ اور تخریج کرنے والی کمیٹی:
یہ کمیٹی استخراج شدہ نصوص کو مأخذ کی طرف حوالہ دینے کے ساتھ مختلف نسخوں کا مقائیسہ کرتی۔ علاوہ ازیں مأخذکو وسعت دینے کی کوشش کرتی اس طرح اصلی مأخذ کے علاوہ دیگر مأخذ کا بھی حوالہ دیتی۔ تجدید نظر کے بعد مذکورہ تمام چیزوں کو نیچے حاشیے میں لکھ لیتی۔

۴ متن کی اصلاح کرنے والی کمیٹی:
اس کمیٹی کی ذمہ داری مصنف کے اصل متن کتاب کو اس طرح مرتب کرنا تھی کہ اس میں کسی قسم کی ملاوٹ ابہام یا اشتباہ باقی نہ رہے نیزاس میں کسی قسم کی کتابت کی یاادبی غلطی یا تحریف باقی نہ رہےیعنی متن کتاب مولف کی تحریر کے مطابق ہو۔

۵ آخری چیک اپ کرنے والی کمیٹی:
علماء و فضلاء پر مشتمل یہ کمیٹی آخری نظر اور چیک اپ کے لئے تمام مذکورہ مواد اور کمیٹیوں کے تحقیقی کام کا جائزہ لیتی تھیضرورت کے تحت ان میں کمی و بیشی اور اصلاح کرتی تھی۔

قابل اعتماد نسخہ جات ۱ آیت اللہ مرتضٰی نجفی کے کتابخانہ کا نسخہ:
یہ نفیس اور عمدہ نسخہ ۴۵۵ء میں تحریر کیا گیا۔ جوسورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۲۰ سے شروع ہوتا ہےاور سورہ مائدہ کی آیت نمبر ۱۵۰ کی تفسیر پر ختم ہوتا ہے۔

۲ مذکورہ کتابخانہ کا ایک اور نسخہ:
یہ نسخہ منظم ترتیب کا حامل نہیں ہے لیکن ایک قدیم نسخہ ہے یہ ۴۰۰ء میں تحریر کیا گیا۔

۳ تبریز شہر کا ایک نسخہ:
تہران یونیورسٹی میں اس کی ایک کاپی ۶۲۳۴ نمبر پر محفوظ ہے یہ نفیس نسخہ ۵۳۸ء میں تحریر کیا گیا سورہ انفال سے لیکر سورہ ھود کی آیت نمبر ۸۷ تک ہے

۴ کتابخانہ ملک کا نسخہ:
یہ ایک گرانقد رنسخہ ہے سورہ ھود کی آیت ۴۴ سے لیکر کہف کی آیت نمبر ۶۱ تک ہے

۵ پرسٹن یونیورسٹی امریکہ کا نسخہ:
یہ عمدہ نسخہ ۵۶۷ء میں لکھاگیا یہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۶ سے لیکر سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۲۰ تک ہے۔

۶ ترکی کا نسخہ:
یہ ۵۸۱ء میں تحریر کیا گیا یہ سورہ ذاریات کی آیت ۱۱ سے لے کر سورہ قمر کے آخر تک ہے۔

۷ کویت کا نسخہ:
سید حضرموت کے نسخہ کی کاپی ہے یہ عمدہ نسخہ ۵۹۵ء میں لکھاگیا سورہ صافات سے لیکر آخر قرآن تک ہے۔

۸ تہران یونیورسٹی کا نسخہ:
یہ نسخہ آٹھویں یا نوویں صدی میں لکھا گیاجوسورہ انبیاء کی آیت نمبر۹۲ سے شروع ہوتا ہے اور سورہ فاطر تک جاری رہتا ہے۔

حواشی ۱۔ تفسیر طبری سے آگاہی کے لیے ”مجلہ حوزہ“ شمارہ۲۴/۳۸ کی طرف رجو ع کریں
۲۔ معتزلیوں کی تفسیری کتاب سے آگاہی کے لئے ”مجلہ حوزہ“شمارہ ۲۶/۶۷ اور ۵۸ کی طرف رجو ع کریں”الکشاف" انکی مشہور تفسیرہے
۳۔ ”البیان“جلد ۱/ص۱
۴۔ البیان فی تفسیر القرآن سے آگاہی کے لئے ” مجلہ حوزہ“شمارہ ۱۹۰/۶۷ کا مطالعہ کریں
۵۔ ”مجمع البیان“ ج۱ص۱۰
۶۔ ”البیان“ ج۱ص۲۰

۱۶
تعارف تفسیر علوم ومعارف قرآن تعارف تفسیر

تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات ڈاکٹر محمد اکبر ملک،
لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور

عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری (۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔ (۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔ (۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔ (۴)
امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، موٴرخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔ ”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ ”البدایہ والنہایہ“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔

تعارف تفسیر: علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں موٴلف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔
محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔

مآخذ : علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم مآخذ کے نام یہ ہیں۔

تفاسیر قرآن : طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیہ، ابو مسلم الاصفہانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویہ وغیرہ۔

علوم قرآن : فضائل القرآن ابوعبیدہ القاسم، مقدمہ فی اصول تفسیر ابن تیمیہ وغیرہ۔

کتب حدیث: صحاح ستہ، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمہ، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔

کتب تراجم اور جرح و تعدیل: التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔

کتب سیرت و تاریخ: سیرت ابن اسحاق، سیرت ابن ہشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیہقی، الروض الانف سھیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیہ الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیرہ۔

فقہ و کلام: کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاہب الاشراف ابن ھبیر ہ وغیرہ۔

لغات: الصحاح ابونصر جوہری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیرہ۔
ان مصادر کے علاوہ فضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیہقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔
حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاً البدایہ والنھایہ کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفتہ النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطہیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفہ، جزء فی حدیث الصور وغیرہ۔ (۵)۔

منھج: تفسیرکے اصولوں کا التزام :
علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں: تفسیر القرآن بالقرآن۔ تفسیر القرآن بالسنتہ۔ تفسیر القرآن باقوال الصحابہ۔ تفسیر القرآن باقوال التابعین(۶)
یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :
”وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّہ اٰیٰةًً وَّاٰوَیْنٰھُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ“
کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔" (۷)

نقد و جرح: حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت ”یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ“ (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:
”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔" (۸)
علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:
”ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْھُدٰی"
کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے (۹) اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:
”وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ“
کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (۱۰)
سورة نساء کی آیت۴۳:
”یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا“
کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔ (۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:
”وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہ جَھَنَّمُ الخ
کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔ (۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:
”فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَہِیْدٍ الخ“
کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ " (۱۳)
جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً
”واذا تتلیٰ علیھم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل ھذا۔ ۔ ۔ الخ (الانفال: ۳۱)
کے تحت لکھتے ہیں:
”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی
(۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔" (۱۴)

شان نزول کا بیان: اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:
”ودکثیر من اہل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم۔ ۔ ۔ الخ“
کے تحت لکھتے ہیں:
”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔" (۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:
”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔ (۱۶)

فقہی احکام کا بیان : ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت
”قد نری تقلب وجھک فی السماء۔ ۔ الخ“
کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔
”فول و جھک شطر المسجد الحرام"
یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔ (۱۷)
”فمن شھد منکم الشھر“ (البقرة: ۱۸۵)
کی تفسیر میں موٴلف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔ (۱۸)
سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔ (۱۹)
”لایواخذکم اللّٰہ باللغوفی ایمانکم“الخ (سورة المائدہ:۸۹)
کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں (۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔

روایات و قول میں تطبیق: ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹
”ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاً ء عند ربھم یرزقون“
کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔ لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔ ” واللہ اعلم‘ ‘ (۲۱)
آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔ (۲۲)

قرآنی آیات کا ربط و تعلق: ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت
”انما الصدٰقٰت للفقر آ ء والمساکین۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ توبہ: ۶۰)
کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔
”سورة توبہ کی آیت ۵۸
”ومنھم من یلمزک فی الصدقت۔ ۔ ۔ الخ“
میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔" (۲۳)
”اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶)
کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔" (۲۴)
قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً
”وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ۔ ۔ ۔ الخ“ (سورةالبقرة :۲۵)
کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔
”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)

حروف مقطعات پر بحث: حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:
”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)
ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں (۲۷)

فضائل السورآیات:
”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف ”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی ”کتاب الخلافیات“سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت ”ولقد اتیناک سبعاً من المثانی“ (سورہ الحجر: ۸۷)
کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔ (۲۸)
امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:
”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ
اعوزباللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم
پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹)
امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔" (۳۰)

اشعار سے استشھاد: ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت ”قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ"۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔
ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن لہ
من اللّٰہ فی دارالمقام نصیب۔
فان تعجب الدنیا رجالا فانھا
متاع قلیل والزوال قریب (۳۱)
(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔
”وانی لاظنک یفرعون مثبوراً“ (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)
میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔
”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی
ومن مال میلہ مثبور۔" (۳۲)
جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے
اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

لغت عرب سے استدلال: ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً ”فقلیلا مایوٴمنون“ (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں :
”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔ ”فلما رأیت مثل ھذاقط“ مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔" (۳۳)
”ےئسلونک ماذا احل لھم قل احل لکم الطبیٰت وما علمتم من الجوارح مکلبین" (سورةالمائدة : ۴)
کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں ”فلان جرح اہلہ خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے ”فلاں لا جارح لہ" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)

جمہور مفسرین اور ابن کثیر: ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت
”ومن کان مریضا اوعلیٰ سفر فعدة من ایام اخر“ (سورةالبقرة ۱۸۵)
کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں (۳۵)
ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت
”فلما اتھما صالحا جعلالہ شر کآ ء َ فیما اتھما،۔ ۔ ۔ الخ“
(الاعراف : ۱۹۰)
کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:
”جعلالہ شر کآ ءَ فیما اتھما“
اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔
پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔" (۳۶)
سورة حج کی آیت ۵۲ :
”وما ٓ ارسلنا من قبلک من رسول ولانبی الااذاتمنی القی الشیطٰن فی امنیة“
کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:
”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔" (۳۷)

علم القراة اور لغوی تحقیق: ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرأت و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت
”ولقد مکنکم فی الارض وجعلنا لکم فیھا معایش“ (الاعراف: ۱۰)
میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔ (۳۸)
”واذتاذن ربک لیبعثن علیھم۔ ۔ ۔ الخ“ (سورہ الاعراف: ۱۶۷)
میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔" (۳۹)
لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔

لھا حارس یبرح الدحر بیتھا
وان ذا بحت صلی علیھا وزمزما
یہ شعر بھی اعشیٰ سے منقول ہے۔

واقابلھا الریح فی دنھا
وصلی علی دنھا وارتسم
ان اشعار میں (صلوٰة) کا لفظ دعا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ شریعت میں اس لفظ کا استعمال نماز پر ہے۔ یہ رکوع وسجود اور دوسرے خاص افعال کا نام ہے جو جملہ شرائط صفات اور اقسام کے ساتھ سرانجام دےئے جاتے ہیں۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ نماز کو صلوٰة اس لیے کہا جاتا ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے اپنے عمل کا ثواب طلب کرتا ہے اور اپنی حاجتیں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو دو رگیں پیٹھ سے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں طرف آتی ہیں، انہیں عربی میں ”صَلَوین“ کہتے ہیں۔ چونکہ نماز میں یہ ملتی ہیں۔ اس لیے نماز کو صلوٰة کہا گیا ہے، لیکن یہ قول ٹھیک نہیں۔ بعض نے یہ کہا ہے کہ یہ ماخوذ ہے ”صَلّٰی“ سے، جس کے معنی ہیں چپک جانا اور لازم ہو جانا، جیسا کہ قرآن میں ہے ” لایصلاھا“ یعنی جہنم میں ہمیشہ نہ رہے گا مگر بدبخت۔ بعض علماء کا قول ہے کہ جب لکڑی کو درست کرنے کیلئے اسے آگ پر رکھتے ہیں تو عرب تَصِلیَہ کہتے ہیں۔ چونکہ نمازی بھی اپنے نفس کی کجی اور ٹیڑھ پن کو نماز سے درست کرتا ہے، اس لیے اسے صلوٰة کہتے ہیں جیسے قرآن میں ہے :
ان الصلوة تنھی عن الفحشاء والمنکر ولذکر اللہ اکبر
نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر ہی بڑا ہے۔
لیکن اس کا دعا کے معنی میں ہونا ہی زیادہ صحیح ہے اور زیادہ مشہور ہے۔ ”واللہ اعلم“(۴۰)
ابن کثیر مترادفات پر بھی خوبصورت انداز میں بحث کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں قلیل اورتھوڑی مقدار کیلئے بطور تمیثل نقیر، فتیل اور قطمیر کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ موصوف سورة نساء کی آیت۱۲۴:
”ومن یعمل من الصلحٰت من ذکر اوانثیٰ وھو مومن فاوٴلیٴٰک یدخلون الجنة ولایظلمون نقیراً ہ“
کے تحت مذکورالفاظ کی تشریح کرتے ہیں: ”کھجور کی گٹھلی کی پشت پر جوذرا سی جھلی ہوتی ہے، اسے نقیر کہتے ہیں۔ گٹھلی کے درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے۔ اس کو فتیل کہتے ہیں۔ یہ دونوں کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور بیج کے اوپر کے لفافے کو قطمیر کہتے ہیں اور یہ تینوں لفظ اس موقع پر قرآن میں آئے ہیں۔" (۴۱)

ناسخ و منسوخ: ناسخ و منسوخ کی شناخت فن تفسیر میں نہایت اہم ہے۔ اس علم سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کون سی آیت محکم ہے اور کون سی متشابہ۔ مفسر قرآن کیلئے اس علم میں مہارت نہایت ضروری ہے تاکہ وہ صحیح معنوں میں احکامات و مسائل کی توضیح و تشریح کر سکے۔ ابن کثیر اس علم میں بھی دسترس رکھتے تھے۔ وہ ناسخ و منسوخ آیات کی وضاحت، ان کے بارے میں مفسرین اور فقہاء کی اختلافی آراء اور جمہور کی تائید میں اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً
”والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیة لازواجھم متاعا الی الحوال۔ الخ“ (سورةالبقرة: ۲۴۰)
کے متعلق اکثر صحابہ و تابعین سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت چار مہینے دس دن والی عدت کی آیت یعنی
”والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا یتربصن بانفسھن اربعة اشھر وعشراً (البقرة : ۲۳۴)
سے منسوخ ہو چکی ہے۔ (۴۲)
”انفرو خفافا و ثقالا وجاھدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ِ۔ ۔ ۔ الخ“ (التوبہ: ۴۱)
کے تحت لکھتے ہیں کہ اس آیت میں غزوہ تبوک کیلئے تمام مسلمانوں کو ہر حال میں نبی کے ہمراہ جانے کا حکم دیا گیا ہے، خواہ کوئی آسانی محسوس کرے یا تنگی، بڑھاپے کی حالت میں ہو یا بیماری کا عذر۔ لوگوں پر یہ حکم گراں گزرا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے آیت
”لیس علی الضعفآ ء ولاعلی المرضیٰ ولا علی الذین لایجدون ماینفقون حرج اذا نصحو اللہ ورسولہ" (التوبہ: ۹۱)
سے منسوخ کر دیا۔ یعنی ضعیفوں، بیماروں اور تنگ دست فقیروں پر جبکہ ان کے پاس خرچ تک نہ ہو، اگر وہ دین خدا اور شریعت مصطفی کے حامی، طرف دار اور خیر خواہ ہوں تو میدان جنگ میں نہ جانے پر کوئی حرج نہیں۔ (۴۳)

تلخیص کلام: ابن کثیر کے انداز تحریر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ و ہ کسی آیت کی تفسیر میں جامع بحث اور تبصرہ کے بعد اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہیں اور اخذ کردہ نتائج کو سامنے لاتے ہیں، مثلاً آیت
”فمن کان منکم مریضا اوعلیٰ سفر۔ ۔ ۔ ۔ الخ“ (سورةالبقرة: ۱۸۴)
کے متعلق احادیث و اقوال کی روشنی میں طویل گفتگو کے بعد اس کا لب لباب تحریر کیا ہے۔ (۴۴)
آیت ”قل انما حرم ربی الفواحش ماظھر منھا وما بطن والاثم والبغی بغیر الحق“ (سورةالاعراف: ۳۳)
کے تحت تشریح و توضیح کے بعد لکھتے ہیں :
”حاصل بحث تفسیر یہ ہے کہ ”اثم“ وہ خطایات ہیں جو فاعل کی اپنی ذات سے متعلق ہیں اور ”بغی“ وہ تعدی ہے جو لوگوں تک متجاوز ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونون چیزوں کو حرام فرمایا ہے۔" (۴۵)

خصوصیات: تفسیر ابن کثیر کی چند نمایاں خصوصیات جو دوسری تفاسیرسے اسے ممتاز کرتی ہیں۔

اسرائیلیات: منقولی تفاسیر کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ ان میں اسرائیلی خرافات کثرت سے نقل کی گئی ہیں۔ ایسی روایات کے بارے میں ابن کثیر اپنا نقطہ نظر ”تفسیر القرآن العظیم“ میں یوں بیان کرتے ہیں:
”ہمارا مسلک یہ ہے کہ اس تفسیر میں اسرائیلی روایات سے احتراز کیا جائے۔ ان میں پڑنا وقت کا ضیاع ہے۔ اس قسم کی اکثر روایتوں میں جھوٹ بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس امت کے ائمہ فن اور نقاد ان حدیث کی طرح اہل کتاب نے صحیح و سقیم میں تفریق نہیں کی۔" (۴۶)
اگرچہ تفسیر ابن کثیر بھی اسرائیلیات سے خالی نہیں ہے تاہم اس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موٴلف اسرائیلی واقعات محض استشھاد کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جن پر اجمالاً اور بعض اوقات تفصیلاً نقد و جرح کرتے ہیں، مثلاً سورة البقرة کی آیت ۶۷
”ان اللہ یا مرکم ان تذبحوا بقرة"
کی تفسیر کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی گائے کا طویل قصہ ذکر کیا ہے۔ پھر اس میں سلف سے منقول روایات تحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
”ابو عبیدہ، ابو العالیہ اور سدی سے جو روایات منقول ہیں،ان میں اختلاف ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ روایات بنی اسرائیل کی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ بلاشبہ ان کو نقل کرنا درست ہے مگر ان کی تصدیق و تکذیب نہیں کی جاسکتی، لہذا ان پر اعتماد کرنا درست نہیں ماسوا اس روایت کے جو اسلامی حقائق کے مطابق ہو“(۴۷)
اسی طرح سورة انبیاء کی آیت۵۱
”ولقد اٰتینآ ابراہیم رشدہ من قبل وانا بہ علمین“
کے تحت تحریر کرتے ہیں۔
”یہ جو قصے مشہور ہیں کہ حضرت ابراہیم کے دودھ پینے کے زمانے میں ہی ان کی والدہ نے انہیں ایک غار میں رکھا تھا جہاں سے وہ مدتوں بعد باہر نکلے اور مخلوقات خدا پر خصوصاً چاند تاروں پر نظر ڈال کرخدا کو پہچانا۔ یہ سب بنی اسرائیل کے افسانے ہیں۔ ان میں سے جو واقعہ کتاب و سنت کے مطابق ہو وہ سچا اور قابل قبول ہے اس لیے کہ وہ صحت کے مطابق ہے او رجو خلاف ہو وہ مردود اورنا قابل قبول ہے اور جسکی نسبت ہماری شریعت خاموش ہو، مخالفت و موافقت کچھ نہ ہو، گو اس کا روایت کرنا بقول اکثر مفسرین جائز ہے، لیکن نہ تو ہم اسے سچا کہہ سکتے ہیں نہ غلط۔ ان (اسرائیلیات) میں سے اکثر واقعات ایسے ہیں جو ہمارے لیے کچھ سند نہیں اور نہ ہی ان میں ہمارا کوئی دینی نفع ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری جامع، نافع، کامل و شامل شریعت اس کے بیان میں کو تاہی نہ کرتی۔" (۴۸)
زیر بحث تفسیر کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن کثیر اسرائیلیات کے بارے میں اپنے موٴقف اور نظریہ پر مکمل طور پر کاربند نہ رہ سکے اور تساہل و تسامح اختیار کرتے ہوئے بعض ایسی روایات بھی بیان کی ہیں جن کو فی الواقع خود ان کے اصول کے مطابق اس تفسیر میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا، مثلاً ”واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً“ (النساء : ۱۲۵) کے متعلق ابن جریر کے حوالے سے ایک اسرائیلی روایت ذکر کی ہے جس کی حقیقت داستان سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”بعض کہتے ہیں کہ ابراہیم کو خلیل اللہ کا لقب اس لیے ملاکہ ایک دفعہ قحط سالی کے موقع پر آپ اپنے دوست کے پاس مصر یا موصل گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج وغیرہ لے آئیں، لیکن یہاں کچھ نہ ملا اور خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ جب آپ واپس اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا کہ ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلوں تاکہ گھروالوں کو قدرے تسکین ہو جائے، چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور ریت سے بھری بوریاں جانوروں پر لاد کر لے چلے۔ قدرت خداوندی سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گیا۔ آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ گئے، تھکے ہارے تھے، آنکھ لگ گئی۔ گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھر ا ہوا پایا، آٹا گوندھا اور روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے آٹا کہاں سے آیا ہے جس سے روٹیاں پکائیں؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں۔ اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا، ہاں! یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور آپ کا نام خلیل اللہ رکھ دیا۔" (۴۹)

اسی طرح
”وایوب اذنادیٰ ربہ انی مسنی الضروانت ارحم الراحمین“ (سورةالانبیاء: ۸۳)
کے تحت بعض ایسی روایات نقل کی ہیں جن کا کوئی ثبوت نہیں۔ (۵۰)
”واتینا ہ أھلہ ومثلھم معھم رحمة" (سورةالانبیا: ۸۴)
کی تفسیر میں ایک روایت تحریر ہے کہ حضرت ایوب کی بیوی کا نام رحمت ہے۔ (۵۱)
ابن کثیر اس قسم کی روایات میں یہ انداز اختیار کرتے ہیں کہ ان کی تصدیق یا تکذیب کیے بغیر واللہ اعلم کہہ کر ان پر نقدو تبصرے سے گریز کرتے ہیں۔

غیر ضروری مسائل کی تحقیق و تجسّس سے احتراز: کتب تفسیر کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ ان میں غیر ضروری اور بے سود باتوں کی تحقیق بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے جو قرآن کے مقصد تذکیر و استدلال کے بالکل خلاف ہے۔ ابن کثیر نے ایسے مسائل کی تحقیق و جستجو کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اپنی تفسیر میں غیر ضروری اور غیر اہم مباحث سے حتیٰ الامکان پر ہیز کیا ہے، مثلاً ”فخذاربعة من الطیر“ (سورةالبقرة : ۲۶۰) کے متعلق لکھتے ہیں:
”ان چاروں پرندوں کی تعیین میں مفسرین کا اختلاف ہے، حالانکہ ان کی تعیین بے سود اور غیر ضروری ہے۔ اگر یہ کوئی اہم بات ہوتی تو قرآن ضرور اسکی تصریح کرتا۔" (۵۲)

وسیع معلومات: ابن کثیر نے تفسیر قرآن مرتب کرنے کیلئے ہر اس حدیث اور اثر کو اکٹھا کیاجو اس میدان میں ممکن تھی۔ قاری اس کتاب کے مطالعے سے نہ صرف احادیث و روایات کے وافر ذخیر ے سے مستفیض ہوتا ہے بلکہ اسے تفسیر، فقہ و کلام اور تاریخ و سیرت کی وسیع اور مستند معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں۔

عدم تکرار: ابن کثیر کی تفسیر میں تکرار نہیں پایا جاتا ماسوا ان بعض روایات کے جو انہوں نے مقدمہ کی بحث میں نقل کی ہیں۔ وہ کسی آیت کی تفسیر و تشریح کو دہرانے کی بجائے اس کا اجمالاً ذکر کرتے ہیں اور اس کی قبل ازیں تفسیر کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں، مثلاً موصوف حروف مقطعات پر شرح و بسط کے ساتھ سورة بقرہ کی تفسیر میں بحث کر چکے ہیں، اس لیے بعد میں جن سورتوں میں یہ حروف آئے ہیں، ان کو زیر وضاحت نہیں لاتے مثلاً ”مرج البحرین یلتقیٰن“ (سورةالرحمن: ۱۹) کے متعلق لکھتے ہیں:
”ہم اس کی پوری تشریح سورة فرقان کی آیت ”وھو الذی مرج البحرین۔ ۔ ۔ الخ“ کی تفسیر میں بیان کر چکے ہیں۔" (۵۳)

ماثوردعاؤں کا بیان: ”تفسیر ابن کثیر“ میں موقع و محل کے مطابق آنحضور اور صحابہ کرام کے معمول کی بعض دعاؤں کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً رسول کریم تہجد کے وقت جو دعائیں پڑھتے تھے، ان کو نقل کیا گیا ہے۔ (۵۴)۔
سنن ابن ماجہ کے حوالے سے روزہ افطار کے وقت صحابہ کرام کی یہ دعا ذکر کی گئی ہے:
”اللھم انی اسئالک برحمتک التی وسعت کل شئی ان تغفرلی“ (۵۵)
حضرت ابوبکر کے سوال پر نبی کریم نے شرک سے بچنے کی یہ دعا سکھائی
”اللھم انی اعوذبک انی اشرک بک وانا اعلم واستغفرک ممالا اعلم“ (۵۶)

قصص و احکام کے اسرار:ْ ”تفسیر ابن کثیر" کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں واقعات اور احکام کے اسرار و رموز بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسلوب مصنف نے امام فخر الدین رازی کی پیروی میں اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ابن کثیر نے مختلف واقعات اور قصص کو بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے اور حقائق تک پہنچنے کی سعی کی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کے احکام کو بھی انہوں نے دقت نظر سے لکھا ہے، مثلاً سورة فاتحہ کے تمام مطالب کی حکیمانہ تشریح کی ہے اور پھر لکھتے ہیں:
”یہ مبارک سورة نہایت کارآمد مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثناء و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں کا اور اس کی بلندو بالا صفتوں کا بیان ہے۔ اس سورة میں قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ وہ صرف اسی سے سوال کریں، اس کی طرف تضرع وزاری کریں، اپنی مسکینی و بے کسی کا اقرار کریں، اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اس کی توحید والوہیت کا اقرار کریں اور اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں، صراط مستقیم کی اور اس پر ثابت قدمی کی اس سے مدد طلب کریں۔ یہی ہدایت انہیں قیامت کے دن پل صراط سے بھی پار پہنچا دے گی اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے قرب میں جنت الفردوس میں جگہ دلوائے گی۔ یہ سورة نیک اعمال کی ترغیب پر بھی مشتمل ہے تاکہ قیامت کے دن نیک لوگوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے خوف دلایا گیا ہے تاکہ قیامت کے دن ان کی جماعتوں سے دوری ہو۔" (۵۷)
”ویقمیون الصلوٰة وممارز قنٰھم ینفقون" (سورةالبقرة: ۳)
کے تحت لکھتے ہیں ”قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلاملتا ہے، اس لیے نماز خدا کا حق ہے اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ پس تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰة اس میں شامل ہے۔"(۵۸)
سورة ھود کی آیت ۹۴
”واخذت الذین ظلموا اٰلصیحة“
کے سلسلے میں کہتے ہیں ” یہاں صیحہ اعراف میں رجفہ اور سورة شعراء میں ”عذاب یوم الظلة“ کا ذکر ہے، حالانکہ یہ ایک ہی قوم کے عذاب کا تذکرہ ہے، لیکن ہر مقام پر اس لفظ کو لایا گیا ہے جس کا موقع کلام متقاضی تھا۔ سورة اعراف میں حضرت شعیب کو قوم نے بستی سے نکالنے کی دھمکی دی تھی، اس لیے رجفہ کہنا مناسب تھا، یہاں چونکہ پیغمبر سے ان کی بدتمیزی اور گستاخی کا ذکر تھا، اس لیے صیحہ کا لفظ لا یا گیا ہے اور سورةالشعراء میں انہوں نے بادل کا ٹکڑا آسمان سے اتارنے کا مطالبہ کیا تھا، اس لیے وہاں
”فاخذھم عذاب یوم الظلة"
کہا گیا اور یہ سب اسراردقیقہ ہیں۔" (۵۹) حیرانگی کی بات ہے کہ یہی اسلوب بعد میں علامہ محمود آلوسی نے اپنایا ہے۔

مصادر مراجع کی نشاندہی: امام ابن کثیر آیات کی تفسیر کرتے ہوئے بوقت ضرورت اضافی معلومات اور اختلافی نکات کو نمایاں کرنے کیلئے اکثر موٴلفین کے نام اور بعض اوقات ان کی کتابوں کے حوالے دیتے جاتے ہیں، جن کو تصنیف ممدوح میں مرجع بنایا گیا ہے، اس طریقہ کار کے ضمنی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ محققین کیلئے ان مصادر سے براہ راست مستفیض ہونے کی سہولت ہو گئی، دوسرا یہ کہ سابقہ موٴلفین کی بیش قیمت آراء اور ان کی بہت سی ایسی کتابیں جواب نایاب ہیں، ان کے نام اور اقتباسات کے نمونے بھی محفوظ ہو گئے۔

تفسیر ابن کثیر کی قدرومنزلت: موٴرخین اور اصحابِ نظر اس تفسیر کی تعریف اور توصیف میں رطب اللسان ہیں۔
امام سیوطی کی رائے ہے کہ ”اس طرز پر اب تک اس سے اچھی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔" (۶۰)
صاحب ”البدرالطالع“ فرماتے ہیں:
”ابن کثیر نے اس میں بہت سا مواد جمع کر دیا ہے۔ انہوں نے مختلف مذاہب و مسالک کا نقطہ نظر اور اخبارو آثار کا ذخیرہ نقل کر کے ان پر عمدہ بحث کی ہے۔ یہ سب سے بہترین تفسیرنہ سہی لیکن عمدہ تفاسیر میں شمار ہوتی ہے۔" (۶۱)
ابوالمحاسن الحسینی کا بیان ہے:
”روایات کے نقطہ نظر سے یہ سب سے مفید کتاب ہے کیونکہ (ابن کثیر) اس میں اکثر روایات کی اسناد پر جرح و تعدیل سے کلام کرتے ہیں اور عام روایت نقل کرنے والے مفسرین کی طرح وہ مرسل روایتیں نہیں ذکر کرتے۔" (۶۲)
علامہ احمد محمد شاکر لکھتے ہیں:
”امام المفسیرین ابو جعفر الطبری کی تفسیر کے بعد ہم نے عمدگی اور گہرائی میں (تفسیر ابن کثیر کو) سب سے بہتر پایا ہے اور ہم نہ تو ان دونوں کے درمیان اور نہ ہی ان کے بعد کی کسی تفسیر سے موازنہ کر سکتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نے ان دونوں جیسی کوئی تفسیر نہیں دیکھی اور نہ کوئی تفسیر ان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ علماء کے نزدیک یہ تفسیر، حدیث کے طالب علموں کیلئے اسانید و متون کی معرفت اور نقد و جرح میں بہت معاون ہے۔ اس لحاظ سے ایک عظیم علمی کتاب ہے اور اس کے بہت فوائد ہیں۔ (۶۳)
انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کا ”تفسیر ابن کثیر“ کے بارے میں یہ بیان ہے:
”ابن کثیر کی تفسیر بنیادی لحاظ سے فقہ اللغتہ کی کتاب ہے اور یہ اپنے اسلوب کے لحاظ سے اولین کتب میں شمار ہوتی ہے۔ بعد میں سیوطی نے جو کام کیا، اس پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔" (۶۴)
خلاصہ کلام یہ کہ ابن کثیر ان تمام علوم وشرائط پر حاوی نظرآتے ہیں جن کا جاننا ایک مفسر کیلئے ضروری ہے۔ انہوں نے تحقیق اور دقت نظری سے ”تفسیر قرآن“ کو مرتب کیا ہے جو قیمتی معلومات کا گنجینہ اور نہایت گراں بہا تفسیری ورثہ ہے۔ اگرچہ ابن کثیر کے توسع کی بناء پر اس کتاب میں بعض مقامات پر اعلیٰ اور بلند محدثانہ معیار خاطر خواہ قائم نہیں رہ سکا ہے، تاہم اہل نظر کو اعتراف ہے کہ محدثانہ نقطہ نظر سے یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد تفسیر ہے۔ کتب تفسیر بالماثور میں اس کو امتیازی مقام حاصل ہے اور متاخرین نے ایک بنیادی مصدر کی حیثیت سے اس سے خوب استفادہ کیا ہے۔ جو شخص قرآن حکیم کے مطالب و معانی اور اسرار ورموز سے آگاہ ہونا چاہتا ہے وہ تفسیر ابن کثیر سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

مصادر و حواشی: ۱۔ الداؤی شمس الدین محمد بن علی، طبقات المفسرین/۱/۱۱۲، دارالکتب العلمیہ، بیروت۔ لبنان، الطبعة الاولیٰ، ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳ء۔ بعض موٴرخین نے ابن کثیر کا سن ولادت ۷۰۰ھ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو، شذرات الذہب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحہ ۳۶۱، مطبعة التوفیق بد مشق، ۱۳۴۷ھ، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمد محمد شاکر، ۱/۲۲، دارالمعارف القاہرة، ۱۳۷۶ھ /۱۹۵۶ء۔ اسماعیل پاشابغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔ ھدیة العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء۔ امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ھ میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو، البدایہ والنھایہ لابن کثیر، ۱۴/۳۲۔ خود امام ابن کثیر اپنی کتاب ”البدایہ والنھایہ“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں ”وفیھا ولد کا تبہ اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایہ والنھایہ، ۱۴/۲۱)
۲۔ احمد محمد شاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲، بعض مآخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی ”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیل تذکرہ الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحہ ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ھ) جبکہ مطبوعہ ”البدایہ والنھایہ“ میں ”مجیدل القریة“ منقول ہے (البدایہ والنھایہ ابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل" تحریر کیا ہے۔ (معجم المئولفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بد مشق، ۱۳۷۶ھ /۱۹۵۷ء)
۳۔ الذھبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیہ، حید ر آباد دکن الھند، ۱۳۷۷ھ ۱۹۵۸ء، ابن العماد، شذرات الذھب، ۶/۲۳۱، الشوکانی۔ محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرآن السابع، مطبعة السعادة القاہرة، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ھ۔
۴۔ النعیمی، عبدالقادر بن محمد، الدارس فی تاریخ المدارس، ۱/۳۷، مطعبة الترقی، دمشق، ۱۳۶۷ء۷۰ھ۔
۵۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، ملاحظہ کیجئے بالترتیب: ۱/۳۶۳،۳/۴۷۸، ۱/۷۹، ۳۲۷،۴۵۷،۴/۵۴۳،۱/۵۵۵،۳/۲۹۲،۱/۲۹۴،۱/۲۴۳،۲/۱۴۹، امجد اکیڈمی لاہور،الباکستان، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۲ء۔
۶۔ تفصیل کیلئے دیکھئیے، تفسیر ابن کثیر ۱/۳۔ ۶
۷۔ ایضاً۳/۲۴۶۔
۸۔ ایضاً۳/۲۰۰۔ خود ابن کثیر نے بھی حدیث سجل کے رد میں ایک جزء تحریر کیا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی تفسیر میں دیا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ مذکور۔
۹۔ ابن کثیر، تفسیر، ۱/۲۱۶۔
۱۰۔ ایضاً، ۱/۳۰۳۔
۱۱۔ ایضاً،۱/۵۰۱
۱۲۔ ایضاً ۱/۵۳۶۔
۱۳۔ ایضاً،۱/۴۹۹
۱۴۔ ایضاً۲/۳۰۴
۱۵۔ ایضاً۱/۱۵۳۔
۱۶۔ ایضاً،۵۶۵
۱۷۔ ایضاً،۱/۱۹۳
۸۱۔ ایضاً،۱/۲۱۶۔ ۲۱۷
۱۹۔ ایضاً، ۱/۵۰۵،۴،۵
۲۰۔ ایضاً،۲/۸۹۔ ۹۱
۲۱۔ ایضاً،۱/۴۲۶۔ ۴۲۷
۲۲۔ ایضاً،۳/۴۰۳
۲۳۔ ایضاً،۲/۳۶۴
۲۴۔ ۲/۳۶۴
۲۴۔ ایضاً، ۳/۳۳۰
۲۵۔ ایضاً، ۱/۶۲
۲۶۔ ایضاً، ۱/۳۷
۲۷۔ ایضاً، ۱/۳۵۔ ۳۸
۲۸۔ ایضاً، ۱/۳۲۔ ۳۵ نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۵۵۷
۲۹۔ ایضاً، ۴/۳۴۴
۳۰ ایضاً، ۱/۱۴۸
۳۱۔ ایضاً، ۱/۵۲۶
۳۲۔ ایضاً، ۳/۶۷
۳۳۔ ایضاً،۱/۱۲۴
۳۴۔ ایضاً، ۲/۱۶
۳۵۔ ایضاً، ۱/۲۱۷۔
۳۶۔ ایضاً، ۲/۲۷۵
۳۷۔ ایضاً، ۳/۳۲۹۔ ۳۳۰
۳۸۔ ایضاً، ۲/۲۰۲
۳۹۔ ایضاً، ۲/۲۵۹
۴۰۔ ایضاً،۱/۴۲۔ ۴۳
۴۱۔ ایضاً، ۱/۵۵۹
۴۲۔ ایضاً، ۱/۲۹۴
۴۳۔ ایضاً،۲/۳۵۹
۴۴۔ ایضاً۱/۲۱۵
۴۵۔ ایضاً،۲/۲۱۱
۴۶۔ ایضاً،۳/۱۸۱۔ ۱۸۲
۴۷۔ ایضاً، ۱/۱۱۰
۴۸۔ ایضاً، ۳/۱۸۱
۴۹۔ ایضاً،۱/۵۵۹۔ ۵۶۰
۵۰۔ ایضاً،۳/۱۸۸،۱۸۹۔
۵۱۔ ایضاً،۳/۱۹۰۔
۵۲۔ ایضاً،۱/۳۱۵۔
۵۳۔ ایضاً، ۴/۲۷۲۔
۵۴۔ ایضاً،۱/۲۵۰۔ ۲۵۱
۵۵۔ ایضاً،۱/۲۱۹۔
۵۶۔ ایضاً،۲/۴۹۵
۵۷۔ ایضاً،۱/۳۰
۵۸۔ ایضاً،۱/۴۲نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۲۸۶
۵۹۔ ایضاً، ۲/۴۵۸
۶۰۔ السیوطی، ذیل طبقات الحفاظ، صفحہ ۳۶۱۔
۶۱۔ الشوکانی، محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القران السابع، ۱/۱۵۳۔ مطبعة السعادة القاہرة الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ھ۔
۶۲۔ الحسینی، ذیل تذکرہّ الحفاظ، صفحہ ۵۸۔ ۵۹
۶۳۔ احمد محمد شاکر، عمدة التفسیر، ۱/۶
٦٤. H. Laoust Article: Ibn Kathir, the encyclopaedia of Islam,
Vol-١١١,
P.٨١٨. Leiden , E.J.Brill, ١٩٩٧.

۱۷
علوم ومعارف قرآن علوم ومعارف قرآن تعارف تفسیر
اصول تفسیر قسط ۲
آیت اللہ محمد فاضل لنکرانی
ظواہرقرآن کریم کے حجیت کے منکرین کے دلائل کا سلسلہ جاری ہے گذشتہ گفتگو میں دو دلیلین ذکر ہو چکی ہیں۔

دلیل سوئم :
قرآن کریم ایسے بلند ترین معانی، عمیق ترین مطالب، گوناگوں علوم اور بے پایاں اغراض پر مشتمل ہے کہ بشری ازھان ان تک، پہنچنے سے قاصر اور ان کے ادراک سے عاجز ہیں وہ کیوں نہ عاجز ہوں جبکہ بشری ازھان وافہام تو نہج البلاغہ کے تمام معانی و مطالب کے کما حقہ ادراک سے بھی قاصر ہیں کہ جو ایک کامل انسان اوربشرکا کلام ہے حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے علمائے متقدمین میں سے بعض کی ایسی کتابیں بھی موجود ہیں۔ جنہیں چند ایک ماہرین کے علاو ہ عام علماء بھی مکمل طور پر سمجھنے سے عاجز ہیں جب ایسا ہے تو وہ کتاب عظیم جسے جبرئیل روح الامین سید المرسلین کے پاس لایا جس میں اولین و آخرین کا علم ہے اور جو رب العالمین کے طرف سے نازل کردہ ہے عام انسان کیونکر اسے سمجھنے پر قادر ہو سکتاہے درود و سلام ہو ہمارے نبی اور آپ کی پاک آل پر جب تک زمانہ باقی اور زمین و آسمان قائم ہیں۔

جواب:
یہ یقیناایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قرآن مجید ایسے معانی و مطالب اور علوم و معارف پر مشتمل ہے کہ ان کی کمال معرفت فقط اوصیاء نبی اکرم ہی کا خاصہ ہے مگر یہ بات اس سے مانع نہیں کہ قرآن کے ظاہری معنی عام لوگوں کے لئے حجت ہوں اور وہ انہیں اپنی حد تک سمجھ سکتے ہوں جب کہ ہمارے ہاں محل بحث یہی نکتہ ہے لہذا آپ کی دلیل اپ کے دعویٰ کے مطابق نہیں۔
دلیل چہارم کے بعد خود دیکھ لیجئے کہ دلیل آپ کے دعویٰ کے مطابق نہیں ہے۔

دلیل چہارم:
ہمیں علم اجمالی حاصل ہے اس بات کا کہ قرآن مجید کے عمومات اور اطلاقات کیلئے کثیر تعداد میں مخصصات اور مقیدات احادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ اسی طرح ہم اس امر کا علم اجمالی بھی رکھتے ہیں کہ فصیح عربی زبان کا ایک ماہر شخص جو بظاہرآیات قرآن کے معانی سمجھتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ ان سے یہی معانی مراد ہیں۔ ۔ ۔ حقیقت میں قطعاً وہ مرادِ خدا نہیں ہیں جب اس علم اجمالی کو فرض کرنے کی صورت میں عمومات، اطلاقات اور معانی ظاہر یہ یقینی طور پر مراد نہ لیا جا سکے تو اس علم اجمالی کے تقاضے پر عمل کرتے ہوئے ہم پر لازم ہے کہ ان عمومات اطلاقات اور ظواہر میں سے کسی پر بھی عمل نہ کریں، تاکہ واقع کی مخالفت کا ارتکاب کرنے سے محفوظ رہ سکیں کیونکہ ایسے مقامات میں علم اجمالی کا ضابطہ اور تحقیق کے مطابق اس کا حکم یہی ہے کہ علم اجمالی شرعی تکلیف کا موجب ہوتا ہے اور اس کے ہوتے ہوئے ایسا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے جس سے واقع کی مخالفت لازم نہ آئے۔ ۔ ۔ یعنی احتیاط پر عمل کرنا پڑتا ہے۔

جواب:
۱۔ جواب نقضی یوں دیا جاسکتا ہے کہ جو بات آپ نے آیات کے حوالے سے کی۔ ۔ ۔ وہی بات روایات کے حوالے سے بھی کی جا سکتی ہے کیونکہ واضح ہے کہ روایات میں وارد شدہ عمومات و اطلاقات کے بارے میں ہمیں علم اجمالی خاص ہے کہ ان کے بھی کثیر تعداد میں مخصصات اور مقیدات دوسری روایات میں وارد ہوئے ہیں۔ لہذا اس علم اجمالی کے مقتضیٰ پر عمل کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ان روایات کے عمومات و اطلاقات کے ظواہر کو حجیت سے خارج کر لیا جائے اور کہا جائے کہ یہ عمومات اور اطلاقات حجت نہیں میں حالانکہ خود مدعی اس کا قائل نہیں اور وہ ان کو حجت مانے ہوئے ہے، اسی لئے تو ان کے ذریعہ آیات کے عمومات کی تخصیص اور اطلاقات کی تقیید کے علاوہ احتیاط پر عمل کر رہا ہے۔
۲۔ سابقہ جواب نقضی کے بعد جواب حلی یہ ہے کہ اس حقیقت سے بالکل انکار نہیں کیا جاسکتا اور بلاشک یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ ہمیں مخصصات اور مقیدات کے وجود کا علم اجمالی حاصل ہے۔ روایات میں بکثرت مخصص، مقید اور خلافِ ظاہر مراد ہونے کے قرائن موجود ہیں۔ اگر ہم انہیں تلاش کرنے کی کوشش کریں توحتماً انہیں پا لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ہم کسی ظاہری معنی کے خلاف قرینہ تلاش کریں اور بڑی جستجو کے بعد اور کامل تبتع کے باوجود بھی ہم کسی خلافِ ظاہر قرنیہ کو پا لینے میں کامیاب نہ ہو سکیں تو بھی ہم اس کلام کو اپنے ظاہر ی معنی پر حمل نہیں کر سکتے۔ ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ اب ہمیں حق حاصل ہو جاتا ہے کہ اس ظاہر معنی کو حجت قراردیں اور اس کے مطابق عمل کریں، کیونکہ اب علم اجمالی اس کلام کی حد تک ختم ہو چکا ہے اور اس کے تقاضے پر عمل کرنا ضروری نہیں رہا۔ یاد رہے کہ ہماری بحث بھی انہیں ظواہر کی حجیت کے بارے میں ہو رہی ہے جن کے خلاف کامل جستجو کے باوجود قرینہ میسر نہ آئے۔
اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارا علم اجمالی ان مخصصات و مقیدات کے مطلقاً وارد ہونے سے بایں معنی متعلق ہے کہ ہماری معلومات کا دائرہ روایات میں واقع ان امور سے بھی زیادہ وسیع ہے پھر تو ہم اس قسم کے علم اجمالی کے وجود سے انکاری ہیں، کیونکہ پہلی قسم کے علم اجمالی کا وجود تو تسلیم شدہ ہے اور وہ ظواہر کی حجیت کے منافی بھی نہیں، مگر اس دوسری قسم کے علم اجمالی کا وجود مسلّم نہیں ہے۔

دلیل پنجم:
قرآن مجید متشابہ بات پر عمل کرنے سے منع فرماتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔
”مِنہُ اٰیَاتُ مُّحکَمَاتُ ُھنَّ اُ مُّ الکَتاِبِ وَاُخَرُ مُتَشَابِھَاتُ فَاَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُو بِھم زَیغُ‘ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشاَبَہَ مِنہُ ا بتِغَآءَ الفِتَنةَِ وَابتِغَآ ءَ تاوِ یلِہ"۔ (سورہ آل عمران۔ آیت ۷)
(اس میں کچھ آیاتِ محکمات ہیں جو کتاب کی بنیاد ہیں اور کچھ دوسری متشابہات ہیں۔ پس وہ لوگ جن کے قلوب میں کجی ہے وہ اس میں سے متشابہ کی اتباع کرتے ہیں، فتنہ پروری اور اس کی تاویل چاہتے ہوئے)۔
لفظ کو اپنے ظاہر پر محمول کرنا بھی متشابہ کی اتباع ہے اور اگر ایسا نہیں تو کم از کم متشابہ کی اتباع میں اس ظاہری مراد کے شامل ہونے کا احتمال ضرور ہے، بہرحال ہر دو صورت میں ظاہر کو اختیار کرنا حجت نہیں بن سکتا۔ کیونکہ قرآن نے اس کی مذمت کی ہے۔

جواب:
آپ کے اس دعویٰ کے بارے میں چند احتمالات ہیں:
۱۔ اگر آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ لفظ ”المتشابہ“ اپنی صراحت کے ساتھ لفظ کے اس معنی ِ ظاہر ی پر حمل کرنے کو شامل ہوتا ہے یعنی یہ کہ ظواہر یقینا متشابہ کے مصادیق ہیں تو ہم کہیں گے کہ یہ دعویٰ واضح طور پر باطل ہے، کیونکہ اس سے یہ دعویٰ کرنا پڑے گا کہ عرفِ عام کے اکثر متداول استعمالات متشابہات ہیں کیونکہ اکثر لوگ اپنی اغراض کے افہام اور مقاصد کی ادائیگی کے لئے ظواہر کو مراد لینے کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور صراحتیں بہت کم کی جاتی ہیں۔
۲۔ اگر آپ کا دعویٰ یہ ہے کہ لفظ ”المتشابہ“ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ظواہر مراد لینے کو شامل ہے تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ یہ بات خلافِ واقع ہے کیونکہ عرف میں اور اہل لغت کے ہاں ظواہر کا مراد لینا متشابہ کی مصادیق میں سے نہیں ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ظواہر کی حجیت کا انکار کرنے کے لئے قرآن کے ظواہرہی کو دلیل بنانا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ اس سے تو ایک شے کے وجود سے اس کے عدم کو ثابت کرنا لازم آتا ہے اور یہ ظاہر کی حجیت کے ذریعے خود ظاہر کی حجیت کا انکار ہے۔
اسی طرح ظواہر کی حجیت کے قائلوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے حجیت کے دعویٰ سے دست بردار ہو جائیں کہ متشابہ کی اتباع سے منع کرنے والی آیت کا ظہور ظواہر کو بھی شامل ہے کیونکہ یہ امر معلوم ہے کہ متشابہ عرفاً لغتہً ظواہر کو شامل نہیں ہو سکتا اور ظواہر کسی طرح بھی متشابہات کی فہرست میں نہیں آتے۔
۳۔ اگر آپ کا دعویٰ ہے کہ ایک احتمال ہے کہ ”متشابہ“ ظواہر میں شامل ہے تو یہ احتمال ظواہر کی حجیت میں شک ڈالنے کا موجب بن گیا اور جہاں حجیت مشکوک ہو، وہاں عدم حجیت ثابت ہے، کیونکہ حجیت میں شک عدم حجیت کے برابر ہے، جیسا کہ علم اصولِ فقہ میں یہ ضابطہ ثابت ہے کہ ظن کی حجیت میں شک آنے سے اس کی عدم حجیت کا یقین حاصل ہو جانا لازم آتا ہے اور ایسے ظن پر حجیت کے آثار ہر گز مرتب نہیں ہو سکتے، اس کا جواب یہ ہے کہ اولاً تو ایسے احتمال کا تحقق تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی یہ احتمال ظواہر کو حجیت سے خارج نہیں کر سکتا کیونکہ بدیہی ہے کہ عقلاء کے ہاں یہ روش قطعاً جاری و ساری ہے کہ وہ ظواہر پر عمل کرتے اور ان سے تمسک کیا کرتے ہیں۔ عقلاء کی دنیا میں تمام لوگ اپنے ماتحتوں اور نوکروں پر اور اس طرح تمام نوکر اور ماتحت حضرات اپنے مالک اور افسروں پر انھی ظواہر کلام کے ساتھ اتمامِ حجت کرتے ہیں لہذا فرق اس احتمال کی بنیاد پر کہ لفظ ”المتشابہ“ ظواہر کو شامل ہے وہ عقلاء اپنی روش سے دست بردار ہونے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔
اگر شارع کے یہاں ظواہر، قرآن پر عمل کرنا ناجائز ہوتا اور قرآن میں مقاصد کے بیان میں عام عقلاء کے محاورات سے ہٹ کر کسی جداگانہ طریقے کو اختیار کیا گیا ہوتا تو شارع کا فریضہ تھا کہ وہ بڑی صراحت کے ساتھ اس بات سے منع کرتا کہ کتاب اللہ کے بارے میں عقلاء اپنی روش پر عمل کرنے سے باز رہیں یعنی اس ضمن میں ایک واضح ہدایت جاری ہوتی، جس سے کتاب خدا اور روایات کے فرق کو روشن کر دیا جاتا۔ چنانچہ یہ بتادیا جاتاکہ قرآن میں ظواہر پر بھروسہ کرنا جائز نہیں ہے جبکہ روایات میں جائز ہے فقط یہ بات کہ لفظ المتشابہ میں ظواہر کو اپنے اندر شامل کر لینے کا احتمال موجود ہے وہ اس مقصد کے لئے کافی نہیں ہے۔
بالفاظ دیگر اگر افہام و تفہیم اور اظہار مقاصد کے لئے قرآن مجید کی کوئی علیحدہ روش ہوتی اور شارع کے ہاں اس کاکوئی اوراسلوب ہوتا جو اس عقلائی روش کے خلاف ہوتا جس پر عقلاء اپنے محاورات میں عموماً عمل کر رہے ہیں،تو کیا اس بات کے بیان کے لئے فقط یہ کہنا کافی تھا کہ لفظ ”المتشابہ“ جس کی پیروی سے منع کیا گیا ہے اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ وہ ظاہر کو شامل ہو سکتا ہے۔

دلیل ششم:
قرآن مجید میں کمی کر کے اس میں تحریف کی گئی ہے جو ظواہر کی حجیت اور ان کی اتباع میں مانع ہے۔ لہذا اب یہ احتمال موجود ہے کہ شاید اس میں ایسے قرائن موجود تھے جو خلافِ ظاہر کے مراد ہونے پر دلالت کرتے تھے لیکن تحریف کی وجہ سے اب وہ ساقط ہو گئے ہیں۔ پس تحریف جو اس احتمال کے تحقق کا موجب ہے وہی اس امر سے مانع بھی ہے کہ قرآن مجید کے ظواہر کو حجت تسلیم کیا جائے۔

جواب:
اس قسم کی کوئی تحریف قرآن مجید میں نہیں ہوئی بلکہ قرآن میں کسی بھی اعتبار سے تحریف ثابت نہیں ہے۔

قولِ معصُوم:
معصوم خواہ نبی ہو یا امام ان کا قول بلا شبہ حجت ہوتا ہے۔ چنانچہ جب وہ کتاب خداوندی ”قرآن کریم"کے الفاظ اور آیات کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمائیں کہ اس لفظ سے یہ معنی مراد ہے تو ان کا ارشاد حجت ہے کیونکہ قولِ معصوم کی حجیت اپنے مقام میں ثابت ہو چکی ہے۔
بنابراین اگر کوئی قول نبی کا ہو تو واضح ہے کہ حجت ہے اور اگر امام کاارشاد ہو تو وہ ان ثقلین میں سے ایک ہے جن سے تمسک کرنے اور جن کے دامن کو تھام لینے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس لئے ان کی پیروی کرنا اور ان کے قول کو تسلیم کرنا ہمارا فریضہ ہے، تاکہ جہالت سے دوری اور گمراہی سے اجتناب حاصل ہو۔ پس جب ثابت ہو جائے کہ تفسیر قرآن میں یہ قول معصوم ہے تو خواہ وہ قرآن کے ظاہری معنی کے خلاف نظر آئے تب بھی اس کواخذ کرنا لازم ہے۔ کیونکہ ہر ایسا قول درحقیقت قرینہ صارفہ کی حیثیت رکھتا ہے، البتہ یہ امر ضروری ہے کہ اس کا قول معصوم ہونا تواتر سے یا ایسی خبر سے ثابت ہو جو اپنے ساتھ قطعی قرینہ رکھتی ہوہاں اس بارے میں اشکال اور اختلاف ہے کہ کیا قول معصوم جامع الشرائط خبر واحد کے ذریعے بھی ثابت ہو جاتا ہے ؟اسں طرح سے کہ اگر کوئی ایک عادل شخص اپنی خبر میں بتائے کہ معصوم علیہ السلام نے فلاں حکم شرعی اس طرح بتایا ہے تو چونکہ عادل شخص کی حجیت واعتبار پر دلیل قطعی قائم ہے اس لیے اس کی خبر سے قول معصوم ثابت ہو جائے گایا نہیں۔ ۔ ۔ ؟ اس سلسلے میں بعض علماء کا بیان ہے کہ تفسیر قرآن کے مقام پر منقول خبرِواحد کے ذریعے قول معصوم ہونا ثابت نہیں ہوتا،البتہ احکام اور فروع دین کے احکام شرعیہ میں ثابت ہو جاتا ہے،پس درحقیقت وہ علماء یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کسی آیت کے متعلق خبر واحد کے ذریعے قول معصوم نقل کیا جائے تو اگر آیت حکم شرعی کو بیان کررہی ہو تو اس میں خبر واحد کے ساتھ قول معصوم تسلیم کرلیا جائے گا اور وہ معتبر قرار پاجائے گالیکن اگر اس میں کسی ایسی آیت کی تفسیر بیان ہو جس کا تعلق احکام عملیہ کے ساتھ نہیں تو یہاں خبر واحد سے نقل کیا ہوا قول بالکل حجت نہیں ہوگاکیونکہ خبر واحد کی حجیت کا مفہوم یہی ہے بلکہ کسی بھی ظنی امارة کی حیثیت اس سے زائد نہیں ہے کہ وہ مقام عمل میں ترتیب و آثار کا موجب بنتی ہے۔ لہذا آیت حکم فرعی میں خبر واحد حجت ہو گی اور اس کے علاوہ دیگر آیات کی تفسیر میں حجیت نہ ہو گی۔
اس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ حجت کا معنی موافقت میں منجزیت یعنی مر نافذہ اور مخالفت کی صورت میں معذریت یعنی باعذر قرار دینے کا ذریعہ ہونا ہے(یعنی جب آپ اس حجت کے مطابق عمل کریں تو اگر اس کا بیان مطابق واقع نکلا تو وہ آپ کے لیے تکلیف کے ثبوت کا باعث بن گئی اور آپ نے صحیح پیروی کی ہے اور اگر اس کا بیان واقع کے خلاف تھا تو چونکہ آپ نے حجت کے تحت عمل کیا ہے اس لیے وہ حجت آپ کے لیے معذّر بن جائے گییعنی آپ اس مخالفت میں معذور قرار دیے جائیں گے اور مستوجب عتاب قرار نہ پاسکیں گے
منجزیت یعنی وجہ نفاذ حکم اور معذریت یعنی وجہ عذر فعل یہ دونوں فقط ان فرضوں میں ثابت ہو سکتی ہیں جن کا تعلق اعمال سے ہوتا ہے جنہیں بجا لانا یا ترک کرنالازم ہوتا ہے لہذا جب بھی خبر کا مفاد حکم شرعی کے موضوع کو بیان کرنا ہو تو وہ خبر حجت قرار پائے گی کیونکہ اس صورت میں وہ خبرمنجزیت یا معذریت کے وصف سے متصف ہو سکتی ہے اور جس خبر میں ایسی شے نہ ہو اس میں یہ وصف موجود نہ ہو گا اس لیے کہ یہ وصف باب الاحکام کے علاوہ اور کہیں بھی متصور نہیں ہو سکتا چنانچہ اب نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم کہیں کہ یہ خبرواحد اگر کسی ایسی آیت کی تفسیر بیان کرے جس کا تعلق حکم عملی کے ساتھ نہ ہو تو ایسی خبر واحد حجت نہیں ہوتی۔ یہ تھا علماء کی ایک جماعت کے نظریات کا بیان۔

تحقیق:
جہاں تک تحقیقی مسلک کا تعلق ہے اس کے مطابق خبر واحد کے حجیت واعتبار میں ان دونوں قسموں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہےآیت خواہ فروع دین سے متعلق ہو یا اصول دین سے، خبر واحد ہر دو کے لیے حجت ہے کیونکہ حجیت کا ملاک ومعیار دونوں صورتوں میں موجود ہے۔

توضیح:
خبر واحد کی حجیت میں عقلاء اور علماء کی سیرت یعنی دیرینہ روش کو سندقرار دیا جاتا ہےوہ خبر واحد پر عمل کرتے ہیں۔ عقلاء کا عمل اور اس کی بنیاد خبر واحد حجیت کے ادلہ میں سے عمدہ ترین دلیل ہے،جیسا کہ اپنے مقام پر ثابت اور تحقیق شدہ ہے۔ خبر واحد کی حجیت کو کتاب، سنت اور اجماع جیسے ادلہ شرعیہ تعبدیہ کے ذریعہ ثابت کیا جاتا ہےبشرطیکہ یہ فرض کیا جائے کہ یہ ادلہّ تعبدی تاسیسی حکم کے بیان پر دلالت کر سکتے ہیں۔
۱۔ پس اگر خبر واحد کو بناء عقلاء کے ذریعہ ثابت کیا جائے تو وہاں یہ لحاظ رکھنا ضروری ہو گا کہ کیا عقلاء فقط ایسے امر میں خبر واحد پر عمل کرتے ہیں،جس کا تعلق فروع دین سے ہو اور اس پر عملی اثر مرتب ہوتا ہو،یاعقلاء خبر واحد کو قطع ویقین کی طرح ہر جگہ قابل اعتماد سمجھتے ہیں اور جو آثار قطع پر مرتب کرتے ہیں وہ خبر واحد پر بھی مرتب کرتے ہیں ظاہر یہ ہے کہ عقلاء دوسری بات پر ہیں یعنی خبر واحد کو تمام امور میں موٴثر اور ترتیب امرکا موجب قرار دیتے ہیں۔ مثلاًجب انہیں یقین ہو جائے کہ زید سفر سے واپس آگیا ہےتو وہ اس کی خبر دینا جائزقرار دیتے ہیں،اگرچہ یہ خبر کسی عملی اثر کا موضوع نہ بنتی ہو اور مقام عمل میں زید کی آمد پر عقلاء سے تعلق رکھنے والا کوئی اثر مرتب نہ ہوتا ہو۔ بایں معنی کہ اس پہلو کے اعتبار سے زید کا آنااور نہ آنا برابر ہو اور اس میں کوئی فرق نہ ہو، من وعن اسی طرح جب عقلاء کو زید کی آمد کی اطلاع کوئی ایک قابل وثوق فرد پہنچائے تو بھی اس کے ہاں موثق آدمی کے واسطے سے اس کی خبر دینا صحیح ہوتا ہے اور یہی معاملہ ان تمام امور میں ہے جن پر عقلاء کا چلن ہوتا ہے مثلاًقبضہ کی مثال لے لیں عقلاء کے ہاں یہ قابض کی ملکیت کی علامت ہوتا ہے تو اب جہاں قبضہ ہو وہ وہاں قابض کی ملکیت کا حکم لگاتے ہیں لہذا جہاں انہیں اس کا یقین ہو وہاں مقام عمل میں اس پر آثار مرتب کر دیتے ہیں اور اسے خرید کرنا جائز سمجھتے ہیں او ر کہتے ہیں کہ فلاں چیز فلاں کی ملکیت ہے
خلاصہ یہ کہ خبر واحد کی حجیت میں بناء عقلاء کو ایک سند کی حیثیت حاصل ہے اس کے ہوتے ہوئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک عادل یہ خبر دے کہ معصوم علیہ السلام نے فلاں آیت کی تفسیر ایسے مفہوم کے ساتھ کی ہے جو خلاف ظاہر ہے یا وہ خود ظواہر کتاب ہوں کہ جن کے معتبر ہونے پر سوائے اس کے اور کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ عقلاء ان کلمات کے ظواہر پر عمل کرتے اور الفاظ وعبارات سے مقصود معانی کی تشخیص کیا کرتے ہیںپس اب جس طرح بناء عقلاء کے باب میں تمام ظواہر مطلقاًحجت ہوتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ظواہر عملی احکام میں سے کسی پر مشتمل ہو یانہ ہو،اسی طرح تمام وہ روایات جو باب تفسیر قرآن میں قول معصوم علیہ السلام کو نقل کرتی ہوں،وہ سب بھی حجت ہوتی ہیں اور ان میں اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسی آیت کی تفسیر کو بیان کر رہی ہوں جو احکام عملیہ میں سے کسی پر مشتمل ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش ہو یا ایسی آیت کی تفسیر جس کا احکام کے ساتھ کوئی ربط ہی نہ ہولہذا اس دعویٰ کی کوئی گنجائش نہیں کہ روایات فقط اس صورت میں حجت ہوتی ہیں جب کسی ایسی آیت کی تفسیر میں ہوں جن میں احکام کا بیان ہو بلکہ معتبر روایت باب تفسیر میں مطلقاً حجت ہوتی ہیں اور یہ ایک روشن حقیقت ہے۔
۲۔ اگر خبر واحد کی حجیت کی استناد ادلہ شرعیہ تعبدیہ کی طرف ہو تو وہاں بھی بظاہر عدم اختصاص ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ ان ادلہ شرعیہ میں سے کسی میں بھی ”حجیة“ اور اس کے مشابہ عنوان دکھائی نہیں دیتا،تاکہ اس کی تفسیر میں اس منجزیت(وجہ نفاذ)اور معذریت(وجہ عذر) کا نام لیا جائے جو ان تکالیف کے باب میں ثابت ہوتی ہیں جن کا تعلق عمل کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اگر آیت نَبَاء ْ
”اِن جَآء َکمُ فَاسِقُ بِنَبَاٍ فَتَبَّینُوا“ (حجرات:۶)
جب تمہیں ایک فاسق کوئی خبر سنائے تو اس کی تحقیق کرو۔
کے مفہوم کے بارے میں تسلیم کر لیا جائے کہ اس سے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جاتی ہے، جبکہ خبر دینے والا ایک عادل شخص ہوتو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عادل کی خبر کی طرف استناد جائز ہوگا،اس کی تحقیق ضروری نہیں ہو گی او ر اس کی صداقت کی تفتیش لازم نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کی بات بغیر تفتیش مان لی جائے گی تو پھر اس کو باب اعمال سے تعلق رکھنے والی خبر کے ساتھ مختص کرنا درست نہ ہوگا،بلکہ عادل کی خبرچاہے اعمال سے متعلق ہو یا کسی اور شے سے ماننا ہو گی اور وہ حجت ہو گی۔
البتہ اس صورت میں اختصاص کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں جب خبر کاارتباط شارع کے ساتھ ہو اور اس کی شارع کی طرف نسبت بحیثیت اس کے شارع ہونے کے ہو،لیکن اس سے بھی یہ مقام بحث خارج نہیں ہوتا،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف استناد اور قرآن کریم سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو تشخیص دینا،اگرچہ کسی آیت کے حکم کے متعلق نہ بھی ہو،بلکہ مواعظ،نصائح،قصص حکایت یا ایسے امور کے متعلق ہو کہ جن پر کتاب خدا دلالت کرتی ہےیہ استناد بھی ایک ایسا امر ہے جو لامحالہ شارع سے متعلق ہوتا ہےلہذا اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت دیتے ہوئے یہ کہنا جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ حضرت عیسیٰ قتل نہیں ہوئے اور نہ ہی پھانسی دیے گئے ہیں اگرچہ اس خبر کا تعلق باب تکالیف کے ساتھ بالکل نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ باب تفسیر میں خبر واحد کے مطلقاً حجت ہونے میں کسی اشکال کی گنجائش نہیں ہے۔
ہاں جہاں تک کتاب الہی کے عمومات کو خبر واحد کے ذریعے تخصیص دینے کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف ہے اور کئی ایک اقوال موجود ہیں جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کی خبر واحد کے ذریعے تنسیخ کرنا کسی طرح جائز نہیں اور اس پر اہل اسلام کا اتفاق ہےالبتہ یہ مسئلہ علم اصول فقہ میں تفصیل سے زیر بحث آتا ہے اور وہاں مرقوم ہے لہذا ہمیں یہاں اس سے سے بحث کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہاں یہ یادر ہے کہ علمائے اہل سنت کا ایک گروہ خبر واحد سے قرآن کے عمومات کی تخصیص کے عدم جواز کا قائل ہے۔ اور خود اہل سنت میں بھی اس بارے میں اختلاف موجود ہے تاہم قائلین عدم جواز کے ادلہ کمزور اور واضح البطلا ن ہیں۔

حکمِ عقل:
اس بات میں کوئی اشکال نہیں کہ عقل کا حکم قطعی اور ادراک جزی اصول تفسیر میں شامل ہے اور تفسیر کے لیے ایک بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے لہذاجب بھی حکم عقل قطعی طور پر ظاہر کتاب کے خلاف فیصلہ دے رہا ہو تو وہاں اس کو تسلیم کرنا پڑے گااور ظاہر کتاب کو اخذ نہیں کیا جائے گا،کیونکہ عقل کا حکم ہی کتاب خدا کی حجیت اور اس کے لانے والے اصول کی صداقت کو ظاہر کرنے والے معجزہ کی اساس ہے اسی عقل نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ قرآن ایک معجزہ اور عادت بشری سے ماوریٰ ہے جس کی مثل نہ تو پیش کی جاسکی اور نہ پیش کی جاسکتی ہے،عقل ہی وہ رسول باطنی ہے جس کے حکم اور اس کی وحی کی مخالفت جائز نہیں ہے۔
درحقیقت جب ظواہر کے خلاف حکم عقل قائم ہو گا توپھر عقل کا ادراک بالجزم اس ظاہر کی مخالفت کررہا ہو گاوہاں یہ حکم عقل حقیقت میں اس قرینہ لفظیہ کی منزل پر ہوتا ہے اور حقیقی معنی کے مراد ہونے سے منصرف کرنے اور معنی مجازی میں ظہور کے منعقد ہونے کا موجب بنتا ہےظہور کی حجیت میں یہ ضروری نہیں کہ وہ معنی حقیقی سے متعلق ہی ہو بلکہ ظہور حجت ہے خواہ وہ معنی مجازی میں ہی کیوں نہ ہو کیونکہ واضح ہے کہ قانون أصالةُ الحقیقة جو ظہورکے انعقاد کے تمام مواقع پر جاری ہوتی ہے وہ اصالةالظہور کی ہی ایک خاص قسم ہے اور کوئی فرق نہیں کہ ظہور معنی حقیقی میں قائم ہو جیسے کہ لفظ میں خلاف کا کوئی قرینہ موجود ہی نہ ہو اور خواہ وہ ظہور معنی مجازی میں قائم ہو۔
مثلاًکلام میں معنی حقیقی کے خلاف کا قرینہ موجود ہو تو معنی مجازی ہی ظاہر قرار پاجاتاہے یعنی ”رَاَیْتْ اَسَداً“ کا ظہور معنی حقیقی میں قائم ہوتا ہے لیکن”رَایْتُ اَسَداً یَرْمِی“کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہےکیونکہ عرف میں سے اس سے مراد”رجل شجاع“یعنی بہادر آدمی ہوتا ہےبغیر اس فرق کے کہ ہم یہ مان لیں کہ اس جملے کا ایک ہی ظہور ہوتا ہے جو جملے کے تمام ہونے کے بعد قائم ہوتا ہے بایں نظر کہ لفظ”اسد“ کا اپنے معنی حقیقی میں ظہور پیدا کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ جملہ تمام ہو جائے اور خلاف حقیقت مراد ہونے پر کوئی قرینہ قائم نہ ہو۔
جب خلاف کا قرینہ موجود ہو تو وہاں اس کا ظہوربالکل ہوتا ہی نہیں بلکہ لفظ کا ظہور ابتداًء ہی معنی مجازی میں قائم ہو جاتا ہے یا ہم یہ تسلیم کریں کہ دو ظہور موجود ہوتے ہیں لفظ”الاسد“ کا ظہور اپنے معنی حقیقی میں اور لفظ”یرمی“ کا ظہورمعنی مجازی میں ہے لیکن چونکہ دوسرا ظہور زیادہ طاقتور ہوتا ہے،اس لیے وہ پہلے ظہور پر تقدم حاصل کرلیتا ہے اور در حقیقت دونوں لفظوں میں ہر لفظ اپنے اپنے حقیقی معنی میں ظاہر ہوتاہے لیکن ادھر قرینہ کا ظہور جو معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے وہ معنی اول کے ساتھ مل کر قوی اور کامل ہو جاتا ہےان دونوں قولوں کے مطابق جملے کا ظہور معنی مجازی میں قائم ہوتا ہے یعنی اس مقام پررجل شجاع ہی مراد ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ اصالةالظہور جو دراصل ارادہ جدیہ کا ارادہ استعمالیہ کے ساتھ تطابق اور کلام سے اس مفہوم کا مقصود واقعی ہونا ہے جس میں ظاہر لفظ دلالت کررہا ہویہ اصالةالظہور ہر دو صورتوں میں جاری ہوتی ہے اور دونوں میں کوئی بنیادی فرق برقرار نہیں ہوتااس قاعدے کے روشن ہونے کے بعد جب کبھی معلوم ہو کہ عقل کسی مقام پر کتاب خدا کے لفظوں کے ظاہری معنی کے خلاف حکم دے رہی ہے تو یہ حکم عقلی ایسے قرینہِٴ قطعیہٴِ متصلہ کا قائم مقام ہو گا جو اس بات کا موجب ہے کہ کلام کا ظہو ر فقط اسی مفہوم میں منعقد ہو جس کا حکم عقل دے رہی ہے اور اس کے خلاف نہ ہو۔
چنانچہ خداوند تعالیٰ کاارشاد:
”وَجَآءَ رَبُکَ وَالمَلَکُ صَفًا صَفًا“(سورة فجر:آیت۲۲)
(اور جب تیرا رب آیا اور فرشتے صف بستہ تھے)
اس کلا م کا ابتدائی ظہور تو یہ ہے کہ آنے والا بذات خود رب تعالیٰ ہےیہ مفہوم اللہ تعالیٰ کے مجسم ہونے کا مستلزم ہے،حالانکہ اس کا مجسم ہونا ممکن نہیں ہے کیونکہ عقل کا قطعی حکم ہے کہ جسمیت خداوند تعالیٰ کے لیے محال ہے کیونکہ تجسم کا لازمہ احتیاج ہے اور احتیاج واجب الوجودکی شان کے منافی ہے جب کہ واجب الوجود تو بالذات غنی ہوتا ہے اب یہ قطعی حکم عقلی اس امر کا موجب بنے گا کہ کلام کا ظہور اس معنی میں منعقد نہ ہو سکے کہ آنیوالا خود رب تعالیٰ ہے۔
اسی طرح یہ آیت ہے:
”اَلَّرحمنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی“(سورہ طٰہٰ:آیت۵)
اس میں بھی خداوند تعالیٰ کا عرش پر محدود ہونا لازم آئے گا اس لیے اس کا ظہور ”اللہ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھنے“میں منعقد نہ ہو گا کیونکہ عقل کے حکم کے خلاف ہے اور تما م ایسی آیات جن میں ابتدائی ظہور حکم عقل کے خلاف ہوتا ہے وہ اسی قبیل سے ہوں گی۔
ہماری اس بحث کے بعد یہ نکتہ روشن ہو گیا کہ جہاں حکم عقل اصول تفسیر میں سے ایک اصل ہے اور کتاب الہی کی آیات میں سے اللہ تعالیٰ کی مراد کو حاصل کرنے میں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی، وہاں حکم عقل سابقہ دو امور سے مقدم حیثیت رکھتا ہے،عقل کے حکم کے سامنے ”ظہور اور قول معصوم“ہر دو کا راج نہیں چلتایہ ظہور پر اس لیے مقدم ہے کہ اگر خلاف ظہور پر حکم عقل موجود ہو تو ظہور منعقد ہی نہیں ہو سکتاکیونکہ اس کو ایک قرینہ قطعیہ کا مقام حاصل ہے۔
پھر قول معصوم پر اس کے تقدم کی وجہ یہ ہے کہ خود قول معصوم کی حجیت بھی حکم عقل تک منتہی ہوتی ہے اور وہ عقل ہی کے سہارے پر حجت ہوتا ہے لہذا کوئی بھی حقیقی قول معصوم قول عقل کے مخالف ہو نہیں سکتا اور اگر بظاہر کہیں یہ مخالفت نظر آئے تو وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل یہ قول معصوم سے صادر ہی نہیں ہوایا معصوم کی مراد اس کے ظاہری معنی سے نہیں ہے پس جب حکم عقل کتابِ خدا کو اپنے ظاہری معنی سے روک لیتا اور خلاف ظاہر کی طرف موڑ دیتا ہے تو اس کا ایک روایت کو ظاہری معنی سے موڑ کر خلاف ظاہر کی طرف لے جانا بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔
ہماری ان معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ تفسیر کی بنیاد ان تین امور پر استوار ہو سکتی ہے
۱۔ ظاہر ۲۔ قول ۳۔ حکم عقل
باب تفسیر میں ان تین کے علاوہ کسی دیگر شے کی طرف استناد جائز نہیں ہےہاں باب الظواہر میں قضیہ کے صغریٰ کا اطمینان کر لینا ضروری ہے یعنی وہ ظہور کہ جس کا مرجع ارادہ استعمالیہ ہوتا ہے،کیونکہ واضح ہے کہ دونوں ارادوں کا تطابق ارادہ استعمالیہ کی تشخیص اور لفظ کے مدلول کے بارے میں تسلی کر لینے کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔
اب یہ طے کرنا پڑ ے گا کہ کسی شخص کے لیے ارادہ استعمالیہ کی تشخیص کا طریقہ یہ ہو گاعربی زبان سے مکمل طور پر آشنانہ ہو اور خود اہل زبان بھی نہ ہو جبکہ ادھر کسی مفسر یا کسی لغوی (زبان شناس) کے قول پر بھروسہ کرنا بھی جائز نہیں کیونکہ ان دونوں کا قول نہ مفید یقین ہوتا ہے اور نہ ہی مفید اطمینان مگر(عرفی طور پر یہی علم کہلاتا ہے)لیکن ان دونوں کے قول کے حجت ہونے پر کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں،پس نتیجہ یہی ہے کہ اس وقت تک کسی کی تفسیر کی طرف رجوع کرنے کا کوئی فائدہ مرتب نہ ہو سکے گا،جب تک اس سے یقین حاصل نہ ہو یا یقین کے قائم مقام کوئی صورت بن سکےبایں معنی کہ وہ کسی معنی میں لفظ کے ظہور کا موجب بن جائے یعنی معلوم ہو جائے کہ ارادہ استعمالیہ کے ساتھ یہی معنی متکلم کی مراد ہے۔

۱۸
علوم ومعارف قرآن علوم ومعارف قرآن علوم تفسیر

عُلومِ قرآن ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانی

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟ علوم قرآن کو دوحصّوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:
اولاً۔ وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہیں اور جنہیں آیاتِ قرآن میں تحقیق اور جستجوسے حاصل کیا جاتا ہے انہیں ”علوم فی القرآن" کہتے ہیں۔
ثانیاً۔ وہ علوم جنہیں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سیکھا جاتاہے انہیں علوم لِلْقُرآن کہتے ہیں۔

علوم فی القرآن :
قاضی ابو بکر بن عربی(۱)نے ”قانون التَاویل“ میں قرآن سے ماخوذ علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے
(۱) توحید
(۲) تذکیر
(۳) احکام
اس کتاب میں مخلوقات سے آگاہی۔ اسماء صفات اور خالق سے آشنائی کو علم توحید قرار دیا گیاہے۔ بہشت کا وعدہ اور دوزخ کی وعید کو علم تزکیراورتمام مباح امور، یعنی شرعی احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بیان کو علم احکام محسوب کیا گیا ہے۔ کتاب میں علم توحید کے لئے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا گیاہے ” وَاِلٰہُکم اِلٰہ وَّاحِد’‘" (۱)اس میں توحیدِذات افعال اور صفات پوشیدہ ہیںعلم تذکیر کے لئے ” وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکریٰ تنفع المومنین“ کی مثال دی گئی ہے اور تیسرے علم لئے ”وَاَنٍ اَحْکُمْ بینھم“کو شاہد کے طور پر لایا گیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ فاتحتہ الکتاب کو اسی لئے ”امّ الکتاب" کہا جاتاہے کہ اس میں تینوں اقسام توحید،تذکیر،اور احکام کا ذکر موجود ہے۔
مثلاًسورہ کی ابتدا سے لے کر یوم الّدین تک توحید ہے” اِیّاکَ نَعبدُ وَایاکَ نَسْتَعِین“ عبودیت اور احکام میں اطاعت سے متعلق ہے۔
” اِھدِناَالصِّراطَ المُستَقیِم"سے لیکر آخر تک میں تذکیر کا ذکر ہے۔
اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان (۲) ” ارشاد“ میں تحریر کرتے ہیںسارا قرآن تین علوم پر مشتمل ہے اسماء اللہ اور اسکی صفات کا علم،نبّوت اور اس کے استدلال و براھین کا علم، علم تکلیف (شرعی احکامات)
محمد بن جریر طبری کہتے ہیں:
قرآن تین علوم پر مشتمل ہے توحید،اخبار اور دیانات اسی لئے پیغمبر خدا نے فرمایا ہے ” قُل ھُواَاللہُ اَحَدْ" قرآن کے برابر ہے چونکہ یہ سورت سراسر توحید ہے۔

عُلوم الِقُرآن
کلی طور پر وہ علوم جو آیات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معانی کو سمجھنے کے لئے،قرآن سے پہلے مقدمةً سیکھے جاتے ہیں اُنہیں علوم قرآن کہتے ہیںاس تحریر میں ہمارا مقصود یہی علوم اور منابع ہیں کیونکہ قرآن پیغمبر اسلام کا ایک ابدی معجزہ ہے جو درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہےاخبار، قصص،حِکم، موعظہ،وعدہ،وعید،امر،نہی،تنذیر،تہذیب قلوب، تسکین نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسیع کائنات میں غوروفکر۔
قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیاگیا ہے
” وَانِّہٰ لَتنزیلُ رَبّ العالِمین نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمینً وعَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرینَ بلِسٰانٍ عَرَ بیٍ مُّبِین"
تحقیق یہ قرآن عالمین کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جبرئیل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کیا گیاتاکہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرو۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔
لیکن جیسا کہ عربی زبان کا طریقہ ہے قرآن بھی حقیقت و مجاز، تصریح اور کنایہ ایجازو تشبیہ و تمثیل اور امثال سے پُرہےمعارف قرآن کے طالب مجبور ہیں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھی طرح سیکھیں کیونکہ الہی کلام کے اعجاز سے آگاہی متعلقہ امور سے مکمل واقفیت کے بغیرہرگز ممکن نہیں ہے ؟ہرگز نہیںمعرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہی جس قدر زیادہ ہوگیکلام الہی کی روح اور گہرائی سے آگاہی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔
قرآن کریم میں آیات متشابہ موجود ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
” ھُوَالَّذی اَنزَلَ علیک اَلکِتَاب منہ آیَات’‘ محُّکَمٰاتٌ ھُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِہاٰت فَاَمّااَّلَذِین فِی قُلُوبِہم زیغُ فَیَتَّبعُونَ مَاتَشَابَہ منہُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِیلہ وَماَیعلم ُ تَاوِیلَہ اِلاَاللہ وَالَّراسَخونَ فیِ العلم یَقُولُون آمَنّابِہ کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَیَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب"
(وہی خدا ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی اس کتاب میں بعض آیات محکم ہیں جو کہ کتاب خداکی دیگر آیات کے لئے اصل اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہیںبعض متشابہ ہیں پس جن کے دل باطل کی طرف مائل ہیں وہ متشابہ کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ اس میں تاویل کر کے شُبہ اور فتنہ وفساد پیدا کریںحالانکہ انکی تاویل سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے ایمان لائے ہیں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جانتا۔
قرآنی معارف کے طالِب حضرات کو چاہیے کہ وہ مشکلات کے وقت پیغمبر خدا اور آلِ رسول کی طرف رجوع کریں قرآن کی لغات اور معانی سے متعلق اُن سے سوال کریں
حضرت عمرنے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آیت ” وَفاَ کِہَةً وَاَباًّ" کی تلاوت کی اور کہا فاکِہَة کو جانتا ہوں لیکن نہیں جانتا کہ اَبّاًَُّ سے کیا مراد ہے ؟۔
بزرگ صحابی اور حبرالامةابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطرالسموات کا مطلب نہیں جانتا تھا ایک دفعہ دو عرب جھگڑتے ہوئے میرے پاس آئےوہ ایک کنویں سے متعلق جھگڑ رہے تھے اُن میں سے ایک نے کہا”افطرتھا" یعنی ابتدیتھایعنی سب سے پہلے میں نے کنواں کھودا ہے اس وقت میں اس کے معانی سے آگاہ ہوا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غیر عرب لوگوں کو تفسیر کی اور معانی ومطالب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہےایسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروری ہیںجب مقدماتی علوم سے انسان اچھی طرح آگاہ اور باخبر ہو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشیدہ علوم کی بھی کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا ہے۔

علوم قرآن پرپہلی کتاب علوم قرآن پر صدر اسلام سے ہی مستقل طور پر کتابیں تدوین ہوئی ہیں فہرست نویس علماء انہیں ضبط تحریر میں لائے ہیںابن ندیم نے ” الفہرست“ میں تفصیل کے ساتھ مولفین کے اسماء کا ذکر کیا ہے۔
ہم یہاں پر ” الفہرست“ سے صرف عناوین کو نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
۱۔ تسمیة الکتب المصنفةفی تفسیر القرآن
۲۔ فی الغات القرآن
۳۔ الکتب المولّفہ فی معانی القرآن ومشکلہ و مجازہ
۴۔ فی القِرات
۵۔ الکتب الموٴلِّفَہ فی غریب القرآن
۶۔ فی لاٰماٰت القرآن
۷۔ فی النَقط و الشَکل للقرآن
۸۔ وقف التمام
۹۔ فی الوقف والابتداء ا فی القرآن
۱۰۔ فی مُتشابہ القرآن
۱۱۔ فی اختلاف المصاحف
۱۲۔ اجزاء القرآن
۱۳۔ فیما اتفقت الفاظِہِ و معانِیہِ فی القرآن
۱۴۔ من فضائل القرآن
۱۵۔ الکتب المولفة فی ھِجاء المصحف
۱۶۔ مقطوع القرآن و موصولہ
۱۷۔ الکتب الموٴلِّفة فی عَدَدِ آیِ القرآن
۱۸۔ ناسخ القرآن و منسوخہ
۱۹۔ الکتب المولفَةِ فی الْہٰاآتِ ورُجُوعِہٰا
۲۰۔ نزول القرآن
۲۱۔ احکام القرآن
۲۲۔ معانی شتّٰی من القرآن
لیکن ہمارے پیش نظر اس طرح کی کُتب نہیں ہیں بلکہ ہماری مراد وہ کتاب ہے جو ” الاتقان والبرھان“ کی طرح تمام علوم قرآن کو اپنے اندر لئے ہوئے ہوہم یہاں پر علوم قرآن سے متعلق سب سے پہلی جامع کتاب کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
حاجی خلیفہ(۳) نے ابوالقاسم محمد بن حبیب نشاپوری (متوفی ۲۴۵) کی کتاب ” التَّنبیہ عَلیَ فضلِ علوم القرآن“ کا ذکر کیاہے۔
چونکہ اس کا کوئی نسخہ ہماری دسترس میں نہیں ہے لہذا معلوم نہیں ہے کہ ان کی عبارت میں ” علوم القرآن“ سے مراد وہی ہے جو ہمارے مد نظر ہے یا کہ کوئی اور مسئلہ اُن کے پیش نظر تھا۔
مذکورہ بالا کتاب سے صرف نظر کرتے ہوئے اگر ہم عبدالعظیم زُرقانی کے قول کی طرف توجہ کریں تو یہ واقعاً قابل غور ہے وہ کہتے ہیں۔
” میں نے مصر کے دارالکتب میں ” البُرھان فی علوم القرآن“ کے نام سے ایک کتاب دیکھی اس کے مصنف علی بن ابراہیم بن سعید المشہور صوفی ( متوفی ۳۲۰) ہیں کتاب اصل میں تیس اجزاء پر مشتمل تھی لیکن وہاں پندرہ اجزاء سے زیادہ موجود نہ تھے وہ بھی غیر مرتب تھے۔ ایضاح المکنون(۴) میں ” الشامل فی علوم القرآن" نامی کتاب کا تذکرہ ملتا ہے جو ابوبکر محمد بن یحییٰ صولی (متوفی۳۳۰) نے لکھی ہے مذکورہ کتاب چونکہ دسترس میں نہیں ہے لہذا مطمن نہیں ہوا جا سکتاکہ علم القرآن سے مراد وہ مصطلح علم ہے جو کہ ہمارے پیش نظر ہے یانہیں۔
سیوطی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ” وَمن المصنّفاّت فی مثل ھذا النَمطَ“ کے ذیل میں چند کتب اور ان کے موٴلفین کے نام نقل کیے ہیں جن میں آخری کتاب ” البرھان فی مشکلات القرآن“ ہے جس کے مصنّف کا نام ابوالمعالٰی عزیزی بن عبدالملک المعروف شَیذَلہ (متوٴفی۴۹۴) ہے۔
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی (متوفی ۵۹۴) نے ایک کتاب ” فُنُونُ الافنانِ فیِ عُلُومِ القُرآن" اور ایک دوسری کتاب ” المُجتبیٰ فی علوم تتعلق باالقرآن" کے نام سے لکھی ہے۔
سیوطی اور حاجی خلیفہ نے صرف فنون الافنان کو ابن جوزی سے نقل کیا ہے لیکن زرقانی نے دونوں کتابوں کو دارالکتب مصریہ کے مخطوطات کا جُزٴ قرار دیا ہے اور انہیں ابن جوزی کی تالیفات قرار دیا ہے۔
ساتویں صدی میں علم الدین سخاوی (متوفی۶۴۱) نے ” جمال القُرّاء" تالیف کی ہے کتاب کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب علوم قرات سے متعلق تھی اور قراءِ قرآن کے لئے لکھی گئی تھی۔
سیوطی نے سخاوی تذکرہ کے بعد ایک کتاب بنام ” المُرشِدُ الوَجیز فیِ ماَیَتَعلّقُ بالقرآنِ العَزِیز“ کا ذکر کیا ہے جو ابو شامہ (متوفی ۶۶۵) کے تالیف شدہ ہے وہ کہتے ہیں جو کچھ علوم القرآن سے متعلق لکھا گیا ہے اس میں سے بہت کم حصہ کا یہاں تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان کی عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ علوم القران کے حوالے سے علم الدین سخاوی کی کتاب”جمال القّراء“ ان کے مآخذ اور مصادر میں شامل ہوتی ہے کی حیثیت رکھی تھی۔
آٹھویں صدی میں بدر الدّین زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے معروف کتاب ” البُرھان فی علوم القرآن" تالیف کی اسکی متعدد اشاعتیں موجود ہیں
یہ کتاب جلال الدین سیوطی کی الاتقان کے مصادر میں سے ہے۔ کیونکہ دونوں کتابوں البرھان، الاتقان مطالب اور متون کے تقابل اور جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیوطی نے زرکشی کا نام لئے بغیر بہت سارے مطالب کو اُس سے اقتباس کیا ہے وہ در حقیقت ذرکشی سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ نیز اسی صدی میں محمد بن سلیمان کا فیجی ( متوفی ۸۷۹) نے ایک کتاب علوم القرآن کے حوالے سے لکھی جو بقول سیوطی کے بے مثال کتاب تھی۔
نویں صدی میں، میں قاضی القضاة جلال الدین بُلقینی (متوفی ۸۲۴) نے ایک کتاب ” مواقع العلوم من مواقع النجوم" تحریر کی ہے جس کے بارے میں امام جلال الدین سیوطی کہتے ہیں:
”فرایتہ تالیِفاً لِطَیفاً ومجموعاً ظَریفاً ذَا تَر تیبٍ وَ تقرِیرٍ وتنوِیعٍ وَتحبیرٍ"
سیو طی نے محمد بن سلیمان کا فیجی کو جلال الدین بلقینی پر مقدم رکھا ہے اس کی وجہ شاید یہی ہو گی کہ وہ چودہ سال کا فیجی کی شاگردی میں ہے اور وہ اس طرح استاد کے احترام حق کا ادا کرنا چاہتے تھے۔
دسویں صدی میں یا نویں صدی کے آخر میں جلال الدین سیّوطی (متوفی ۹۱۱) نے ”الاتقان“ لکھی۔
اب ہم قارئین محترم کے سامنے علوم قرآن سے متعلق ان کتب کی فہرست رکھیں گے جو اب بھی معتبر کتب خانوں میں موجود ہیں:

۱۔ الاتقان فی علوم القرآن
جلال الدین سیوطی (۸۴۹۹۱۱)مطبع المشہد الحسینی ( ۱۳۸۷ء) ۴جلد قاھرہ

۲۔ الاحسان فی علوم القرآن
جمال الدین ابوعبداللہ محمدبن احمد بن سعید عقیلہ مکی حنفی (۹۳۰ھ) ایضاح المکنون، ج۳/ص۳۲

۳۔ البیان فی علوم القرآن
ابو عامر فضل بن اسماعیل جُرجانی (کشف الظنون ج ۱/ص۲۶۳)

۴۔ بدایع البرھان فی علوم القرآن
محمدآفندی ارنیری (۱۶۰ھ) ایضاح المکنون (ج۱/ص۱۷۰)

۵۔ البرھان فی علوم القرآن
محمد بن عبداللہ ابن بہادر زرکشی (۷۴۵۷۹۴)تحقیق محمدابوالفضل ابراہیم قاھرہ عیسٰی البابی الحلبی۴جلد ۱۹۵۷

۶۔ بحوث حول علوم القرآن
شیخ محمد جواد محتصر سعیدی نجفینجف مطبعة الآداب جلد ۳۴۷صفحات

۷۔ البیان فی تفسیر القرآن
آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی

۸۔ التاج المرصّع بجواھر القرآن والعلوم
طنطاوی جوھریقاھرہ المکتبہ التجاریہ (۱۹۳۳م)

۹۔ البیان فی علوم القرآن
محمد علی صابونی(پروفیسر شریعت کالج مکہ عصر حاضر کے علماء میں سے ہیں) بیروت دارالعلم ۱۳۹۰ھ (۲۰۲ص)

۱۰۔ التبیان لبعض المباحث المتعلقہ بالقرآن علی طریق الاتقان
شیخ محمد طاہر بن صالح بن احمد جزایری دمشقی، دمشق ۲۸۸ ص

۱۱۔ التمھید فی علوم القرآن
محمد ھادی معرفت محقق معاصر قم ۳جلد مہر پریس قم۱۳۹۶ ھ

۱۲۔ ا لتنبیہ علی فضل علو م القرآن
ابوالقاسم محمد بن حبیب نیشاپوری (۲۴۵)کشف الظنون، ج ۱/ص۴۸۹

۱۳۔ جلاء الاذھان فی علوم القرآن
معین الدین محمدالکہف، ۱۲۹۲ ہجری، ۱۵۰ ص

۱۴۔ الشامل فی علوم القرآن
ابوبکر محمدبن یحییٰ صولی وفات ۳۳۵ئھ، ایضاح المکنون، ج۲/ص۳۹

۱۵۔ علوم القرآن
محمد جواد جلال مطبوعہ بصرہ

۱۶۔ علوم القرآن
احمد عادل کمال تاریخ۱۹۵۱

۱۷۔ عنوان البیان فی علوم البیان
محمد حسنین مخلوق العدوی قاہرہ مطبعة المعاھد ۱۳۴۴

۱۸۔ الفرقدان النیران فی بعض ا لمباحث المتعلقة بالقرآن
محمد سعید بابی دمشقی دمشق۱۳۲۹

۱۹۔ فنون الافنان فی علوم القرآن
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن جوزی بغدادی وفات ۵۹۷ھ، کشف الظنون، ج۲ص۱۲۹۲

۲۰۔ قانون تفسیر
حاجی سیدعلی کمال دزفولی انتشارات کتب خانہ صدر ناصر خسرو۔ تہران ا جلد

۲۱۔ القرآن علومہ و تاریخہ
حاجی شیخ محمد رضاحکیمی حائری مطابع دارالقس

۲۲۔ القرآن علومہ فی مصر
۲۰۔ ۳۵۸، دکتر عبداللہ خورشیدی بری دارالمعارف مصر

۲۳۔ الآالی الحسان فی علوم القرآن
موسی شاہین قاہرہ مطبعة دارالتالیف ۱۹۶۸، میلادی، ۴۷۱ص

۲۴۔ لمحات فی علوم القرآن واتّجاھات التفسیر
محمد الصّباغ المکتب الاسلامی

۲۵۔ مباحث فی علوم القرآن
دکتر صبحی صالح علمائے معاصر استادبیروت یونیورسٹی (دمشق۱۹۵۸)

۲۶۔ المختار من کتاب الاتقان
جلال الدین عبدالرحمن بن ابو بکرقاہرہ دارالفکرالعربی ۱۹۶۰م

۲۷۔ المدھش فی علوم القرآن
ابوالفرج عبدالرحمن بن علی بن محمدابن علی جوزی بغدادی فقیہ حنبلی وفات۵۹۷ھ، بغدادمطبعة الآداب تصحیح محمد بن طاہر سماری (۱۳۴۸ھ)

۲۸۔ مذکرّہ علوم القرآن
احمد احمد علی مصر( ۱۳۷۰ھ)

۲۹۔ معارج العرفان فی علوم القرآن
سید احمد حسین امروھی وفات ۱۳۲۸ھ، مراد آباد ۱۹۱۸م

۳۰۔ المعجزةالکبریٰ القرآن
نزولہ، کتابتہ،جمعہ،اعجازہ،جدلہ،علومہ،تفسیرہ
محمد ابوزھرہ دارالفکر العربی

۳۱۔ مفتاح علوم القرآن
حاجی شیخ غلام رضا فقیہ خراسانی یذدی، یزد۱۳۶۵ھ

۳۲۔ مقدمتان فی علوم القرآن
یہ کتاب خود دو کتب پر مشتمل ہے کتاب المبانی کے مولف معلوم نہ ہو سکا اور دوسری کتاب کے مولف کا نام ابن عطیہ ہے اور اس کی تصحیح معروف مستشرق آرتھر جعفری نے کی ہے۔ قاہرہ مطبعةالسنہ المحمدیہ ۱۹۰۴ئم

۳۳۔ مناھل العرفان فی علوم القرآن
محمد عبدالعظیم زرقانی مصری، قاہرہ داراحیاء الکتب العربیہ۱۹۶۶م، ۲جلد

۳۴۔ منہج الفرقان فی علوم القرآن
شیخ محمد علی سلامہ بحوالہ مباحث فی علوم القرآن و مناھل العرفان

۳۵۔ الموسوی القرآنیہ
ابراہیم ابیاری و عبدا لصبور مزروق قاہرہموٰسسہ سجلّ العرب ۶جلد

۳۶۔ موجز علوم القرآن
دکتر داؤد عطّار موسسہ اعلمیبیروت

نوٹ:۱ متقّدمین کی چند کتب مثلاً قطب شیرازی کی کتب، زرکشی کی البرھان اور سیوطی کی الاتقان کا مختصراً ذکر آچکا ہے لہذا یہاں تکرار نہیں کیا گیا ہے
۲ بہت سی تفاسیریاتجوید کی کتب کے لئے علوم قرآن کی اصطلاح استعمال ہوتی ہےلیکن ہم نے اس فہرست میں ان کا نام شامل نہیں کیا گیا۔
مثال کے طور پر : الامام الحافظ ابوالقاسم محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغُرناطیکی کتاب التسہیل لعلوم التنزیل چار جلدوں میں تفسیر قرآن ہے چونکہ مصنّف نے مقدمہ میں علوم قرآن کے بعض مطالب بیان کئے ہیں لہذا اس کتاب کے لئے استعمال کیا ہے۔
اسی طرح مخزن الاسرار فی علوم القرآن بانوی ایرانی کی تالیف ہے یہ ۱۶ جلدوں میں تفسیر ہے۔ جس کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔
اسی طرح ستر البیان فی علم القرآن،حسن بیگلری کی تحریر کردہ کتاب ہے جو علم تجوید سے متعلق ہے اس کا تذکرہ کتب تجوید کی فہرست میں ہونا چاہیے۔

۱۹
علوم ومعارف قرآن علوم ومعارف قرآن علوم قرآن کی اصطلاح

علومِ قرآن کی اصطلاح اور اسکی تقسیم بندی صدر اسلام ہی سے اہل علم ودانش صحابہ تابعین اور تبع تابعین علوم قرآن میں سے کسی ایک یا چند علوم میں مہارت رکھتے تھے اورانہوں نے خاص موضوعات میں تحریریں اور کتب یادگار چھوڑی ہیںمثلاً ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی۲۲۴) نے بقول ابن ندیم کے درج ذیل کتب تحریر کی ہیںغریب القرآن، معانی القرآن،القرائات،کتاب عدد آی القران، کتاب ناسخ ومنسوخ اور فضائل القرآن یہ تمام موضوعات اصطلاحاً علوام القرآن کہلاتے ہیں۔
ابن ندیم نے ابن کامل کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے انہیں ” احمد المشہورین فی علوم القرآن“ قرار دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوتھی صدی اور ابن ندیم کے زمانہ سے ہی علوم قرآنی کی اصطلاح رائج رہی ہے البرھان فی علوم القرآن اور الاتقان میں بنیادی طور پر انہیں علوم پر بحث کی گئی ہے۔
متقدمین نے اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق علوم قرآن کی تقسیم بندی کی ہےمثلاً جلال الدین سیوطی نے نزول قرآن کو رات دن،سردی و گرمی،سفرحضروغیرہ میں تقسیم کر کے علوم قرآن کی ۸۰ اقسام بیان کی ہیں۔ نے علامہ قطب الدین شیرازی (متوفی۶۴۸) نے علوم قرآن کو بارہ موضوعات میں تقیسم کیا ہے متقدمین کے نظریات سے آگا ہی حاصل کرنے کے لئے ہم قطب الدین شیرازی کی آراء و نظریات کا یہاں پر تذکرہ کریں گے۔

علوم القرآن کی تقسیم قطب الدین شیرازی کہتے ہیں
علم فروع دو قسموں کا ہےایک مقصود اور دوسرا تبع مقصود، مقصود کے چار رکن ہیں پہلارکن علم کتاب ہے اور اسکی بارہ اقسام ہیں۔
۱۔ علم قرائت: اسکی دو اقسام ہیں ایک قرائات سبع، جو کہ نبی کریم سے تواتر سے مروی روایات سے اخذ ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے۔
اور دوسری شواذّ اوریہ آحاد کی روایات کی ساتھ مروی ہے اور اسکے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
۲۔ علم وقوف : یعنی آیات کہاں پر ختم ہوتی ہیں اور دوران آیت کہاں پر وقف کیا جاسکتا ہے اور یہ منقولی علم ہے
بعض اوقات کلمات قرآن قیاس کے حکم کی بنا پر ایک آیت شمار ہوتے ہیں لیکن بحکم روایت ایک سے زیادہ آیات ہوتی ہیں مثلاًالحَمدُلِلِہ رَبِّ العَالِمینَ اَلرَّحمنِ الَّرحیِم ماَلِک یوَمِ الدّین قیاس کے حساب سے ایک کلام ہے کیونکہ یہ سب صفات ایک ہی موصوف کی ہیں پس بنابراین قیاس اسے ایک آیت ہونا چاہیے لیکن بحکم روایت یہ تین آیات ہیں لیکن بعض مواقع پر اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہےجیسے سورہ بقرہ کی آخری آیت ہے قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ وقف کے سبب معانی بھی مختلف ہو جاتے ہیں جیسا کہ اس آیت میں ہے وَماٰیعلم تاَوِیلَہ اِلاَّاللہُ والراسخُونَ فیِ العلم اگر یہاں پر وقف کریں تو مراد یہ ہو گی کہ متشابہات کی تاویل خدا جانتا ہے اور وہ لوگ جو علم میں راسخ ہیں اور اگر اللہ پر وقف کریں تو معنی ہو گا کہ صرف خدا ہی تاویل متشابہات جانتا ہے۔
۳۔ علم لُغاتِ قرآن کا جاننا بھی ایک مفسر کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
۴۔ علم اعراب ہے اس علم کے جانے بغیرتفسیر قرآن کا شروع کرنا جائزنہیں ہے کیونکہ قرآن کے معافی لغت اور اعراب کی وساطت سے جانے جاتے ہیں
۵۔ علم اسباب نزول قرآن کو۲۳ سال کی مدت میں مختلف مناسبتوں سے اور مختلف مقامات پر نازل کیا گیا ہے جن کا علم رکھنا ضروری ہے۔
۶۔ علم ناسخ و منسوخ مکلف پر لازم ہے کہ وہ ناسخ پر عمل کرے نہ کہ منسوخ پر۔
۷۔ علم تاؤیل بعض مقامات پر لفظ ظاھراً نفی پر دلالت کرتا ہے مگر مراد اثبات ہوتی ہے جیسے
لااقسم بیوم القیٰمة
میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔
اور اسی طرح
وما منعک ان لاتسجد
آپ کو کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا۔
اور ایسی مثالیں بہت زیادہ ہیں۔
کبھی ایک لفظ” عَلَم“ ہوتا ہے اور مراد ایک شخض ”خاص“ ہوتا ہے
” قاَلَ لَہُم النّاَسُ انَّ الناَّسَ قَد جَمَعُو اَلکُم"
ناس اول سے مراد نعیم بن مسعود ہے اور کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے جیسے
فاعلم اَنَّہّ لاٰاِلٰہَ اِلاَّاللہ
یہاں پر مامور اگرچہ معین فردہے لیکن مراد جملہ مکلّفین ہیں

۸۔ علم قصص میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ اوّلاً علم قصص سے نیکوں اوربُروں کی عاقبت معلوم ہوتی ہے اوراس طرح لوگوں کواطاعت کی طرف رغبت اور گناہ سے اجتناب کی ترغیب ملتی ہے۔
ثانیاًچونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اُمّی تھے اور آپ نے کسی کی شاگردی اختیار نہ کی تھی لہذا آپ جب گذشتہ اقوام و افراد کے بارے میں حکایات اور قصص بیان فرماتے تھے اور اس میں کوئی غلط بات نہیں ہوتی تھی تو ثابت ہو جاتا تھا کہ وہ یہ حکایات وحی کے ذریعے بیان فرما رہے ہیں۔
ثالثاً قصص قرآنی کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ جس طرح دیگر انبیاء کرام کو مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسی طرح آپ کو بھی کرنا پڑے گا۔
۹۔ علم استنباط معافی قرآن جیسے علم اصول اور علم الفقہ کے قواعد اور مسائل کو اس علم کے ماہرین نے قرآن سے استنباط کیا ہے۔
۱۰۔ علم ارشاد نصیحت مواعظ اور امثال یہ علوم قرآن کے وہ ظواہر ہیں جن تک بشری عول کی رسائی ہے ورنہ علوم قرآن بحر بیکراں اور لامحدود ہیں۔
۱۱۔ علم معافی سے مراد تراکیب کلام کے خواص سے آگاہی ہے اس علم کے سبب سے کلام کی تطبیق کے مرحلے پر خطا سے محفوظ رہتا ہے۔
۱۲۔ علم بیان اس سے مراد وہ علم ہے جس میں متکلم ایک ہی مفہوم کو مختلف طریقوں سے آپنے سامع تک پہنچاتا ہے جس میں بعض مفاہیم بڑے واضح وروشن اور بعض پوشیدہ ہوتے ہیں۔

بدرا لدین زرکشی کی نظر میں علوم قرآن کی اقسام زرکشی کہتے ہیں کہ متقدمین نے علوم القرآن پرکوئی کتاب نہیں لکھی تھی لہذا میں نے خداوند تعالیٰ کی مدد اور استعانت سے ایک ایسی کتاب تحریر کی ہے جو تمام نکات اور فنونِ قرآن پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب دلوں کو خوشی دیتی ہے اور عقلوں کو حیرت زدہ کرتی ہے مفسروں کے تفسیری کا م میں مددگار ہے۔ اور انہیں کتاب آسمانی کے اسرارو حقائق سے آگاہ کرتی ہے۔

علوم قرآن کی اقسام کی فہرست درج ذیل ہے ۱۔ مناسبات بین آیاتمعرفت المناسبات بین الآیات
۲۔ معرفہ سبب النزول
۳۔ معرفة الفواصل
۴۔ معرفة الوجوہ والنظائر
۵۔ علم المتشابہ
۶۔ علم المبہمات
۷۔ فی اسرار الفواتح
۸۔ فی خواتم السور
۹۔ فی معرفت المکی والمدنی
۱۰۔ معرفة اول مانزل
۱۱۔ معرفة علی کم لغةٍ نَزَل
۱۲۔ فی کیفیت الانزال
۱۳۔ فی بیان جمعہ ومن حفظ من الصحابہ
۱۴۔ معرفة تقسیمہ
۱۵۔ معرفة ما وقع فیہ من غیر لغة الحجاز
۱۶۔ معرفة اسمائِہ
۱۷۔ معرفة ما فیہ من الغة العرب
۱۸۔ معرفة غریب القرآن
۱۹۔ معرفة اختلاف الالفاظ بزیادہ او نقص
۲۰۔ معرفة التعریف
۲۱۔ معرفةِ الاحکام
۲۲۔ معرفة توجیہ
۲۳۔ معرفة کون الّلفظ اوالترکیب احسن وافصح ۲۴۔ معرفہ الوقف و والابتداء ۲۵۔ علم مرسوط الخط
۲۶۔ معرفة فضائلہ
۲۷۔ معرفة خواصّہ
۲۸۔ فی آداب تلاوتہ
۲۹۔ ہل فی القرآن شی افضل من شیء
۳۰۔ معرفتِ احکام
۳۱۔ فی انہ ہل یجوز فی التصانیف والرسائل والخطب
۳۲۔ فی معرفة جدلہ
استعمال بعض آیات القرآن
۳۳۔ معرفة ناسخہ ومنسوخہ
۳۴۔ معرفة الامثال الکائنة فیہ
۳۵۔ معرفة توہمّ المختلف
۳۶۔ فی معرفة المحکم من المتشابہ
۳۷۔ فی حکم الآیات المتشابہات
الواردہ فی الصفات
۳۸۔ معرفة اِعجازہ
۳۹۔ معرفة الوجوب تواترہ
۴۰۔ فی بیان معاضدةِ السنّہ الکتاب
۴۱۔ معرفة تفسیرہ
۴۲۔ معرفة وجوب المخاطبات
۴۳۔ بیان حقیقة ومجازہ
۴۴۔ فی ذکر ما تیسر
۴۵۔ فی اقسام معنی الکلام
۴۶۔ اَسالیب القرآن
۴۷۔ فی معرفة الادوات
امام عبداللہ زرکشی (متوفی ۷۹۴) نے علوم قرآن سے مدون شدہ ان سینتالیس(٤٧) فصول کے آغاز میں یعنی ہر فصل سے پہلے اس علم کی وضاحت کی ہے اس علم میں لکھی جانے والی کُتب اور ان کے مصنفین کا بھی ذکر کیا ہے امام زرکشی نے علوم قرآن کو بہت عمدہ اور جامع انداز میں بیان کی ہے۔ جس سے قاری لذت محسوس کرتا ہے مصنف قاری کو ایسے مطالب سے آگاہ کرتا ہے جو کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں ہیں۔

جلال الدین سیوطی کی نظر میں علوم قرآن کی تقسیم جلال الدین سیوطی ”الاتقان“ کے مقدمہ میں ”البرہان“ میں امام زرکشی کی تقسیم بندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ”الاتقان“ میں ”البرہان“ کی نسبت علوم قرآن کو زیادہ بہتر صورت میں مرتب اور تقسیم کیا ہے۔ سیوطی اپنی تقسیم بندی میں ہر قسم کو ”نوع“ قرار دیتے ہوئے علوم قرآن کو یوں تقسیم کرتے ہیں۔

علوم قرآن کی اقسام کی فہرست ۱ معرفة المکّی والمدنی۔
۲ معرفة الحضری والسفری۔
۳ النہاری واللّیلی۔
۴ الصّیفی والشّتائی۔
۵ الفراشی والنّوس۔
۶ الارض والسّماوی۔
۷ مانزل علی لسان بعض الصّحابہ۔
۸ آخر مانزل
۹ اوّل مانزل۔
۱۰ ما تکّرر نزولہ
۱۱ ما انزل منہ علی بعض لانبیاء ومالم اوّل مانزل
۱۲ اسباب النَّزول۔
ینزل منہ علی احد قبل النبیّ۔
۱۳ فی الآحاد۔
۱۴ ماتأ خّرحکمہ عن نزولہ وماتأ خّرنزولہ عن حکمہ۔
۱۵ مانزل مشیّعا ومانزل مفردا۔
۱۶ معرفة مانزل مفرّقا وما نزل جمعا۔
۱۷ فی کیفیة انزالہ۔
۱۷ فی معرفة اسمائہ واسماء سورہ۔
۱۹ فی جمعہ وترتیبہ۔
۲۰ فی عدد سورہ وآیاتہ وکلماتہ وحروفہ۔
۲۱ فی حُفّاظِہ ورُواتِہ
۲۲ فی العالی والنّازل
۲۳ معرفہ التّواتر۔
۲۴ فی المشہور۔
۲۵ فی الشاذ۔
۲۶ فی بیان الموصول لفظا والموصول معنا۔
۲۷ المدّرج۔
۲۸ فی معرفة الوقف والابتداء۔
۲۹ الموضوع۔
۳۰ فی الامالہ والفتح وما بینہما۔
۳۱ فی المدّوالقصر۔
۳۲ فی الادغام والاظہاروالاخفاء والاقلاب۔
۳۳ فی تخفیف الہمزہ۔
۳۴ فی کیفیہ تحمّلہ۔
۳۵ فی آداب تلاوتہ۔
۳۶ فی معرفة غریبہ۔
۳۷ فیما وقع فیہ بغیرلغة الحجاز۔
۳۸ فیما وقع فیہ بغیر لغةالعرب۔
۳۹ فی معرفة الوجوہ والنّظائر۔
۴۰ فی معرفة معانی الادوات الّتی یحتاج الیہاالمفسّر۔
۴۱ فی معرفة اعرابہ۔
۴۲ فی قواعد مہمّة یحتاج المفسّرالی معرفتہا۔
۴۳ فی المحکم والمتشابہ۔
۴۴ فی مقدّمہ وموٴخّرہ۔
۴۵ فی خاصّہ وعامّہ۔
۴۶ فی مجملہ ومبینہ۔
۴۷ فی ناسخہ ومنسوخہ۔
۴۸ فی مشکلہ وموہم الاختلاف والتناقض۔
۴۹ فی مطلقہ ومقیّدہ۔
۵۰ فی منطوقہ ومفہومہ۔
۵۱ فی وجوہ مخاطباتہ۔
۵۲ فی حقیقہ ومجازہ۔
۵۳ فی تشبیہہ واستعاراتہ۔
۵۴ فی کنایاتہ وتعریضہ۔
۵۵ فی الحصر والاختصاص۔
۵۶ فی الایجاز والاِطناب۔
۵۷ فی الخبر والانشاء۔
۵۸ فی بدایع القرآن۔
۵۹ فی فواصل الآی۔
۶۰ فی فواتح السّور۔
۶۱ فی خواتم السّور۔
۶۲ فی مناسبة الآیات والسّور۔
۶۳ فی الآت القتشابہات۔
۶۴ فی العلوم المستنبطہ من القرآن۔
۶۵ فی اعجاز القرآن۔
۶۶ فی اسماء من نزل فیہم القرآن۔
۶۷ فی اَمثالہ۔
۶۸ فی الاَسماء والکُنٰی والاَلقاب۔
۶۹ فی اَقْسامہ۔
۷۰ فی افضل القرآن وفاظلہ۔
۷۱ فی بدلہ۔
۷۲ فی فضائل القرآن۔
۷۳ فی مبہماتہ۔
۷۴ فی مفردات القرآن۔
۷۵ فی خواصّہ۔
۸۶ فی رسم الخطّ وآداب کتابتہ۔
۷۷ فی شروط المفسر وآدابہ۔
۷۸ فی معرفہ تأویلہ وتفسیرہ وبیان الحاجة الیہ
۷۹ فی طبقات التفسیر۔
۸۰ فی غرائب التفسیر۔ (الاتقان ۱/۴ مصر مطبع سوم وفات ۹۱۱)
چونکہ متقدمین کی تقسیم میں مزید اصلاح اور اختصار سے کام لینے کی گنجائش تھی لہذا راقم نے اضافات کو حذف اور مشابہہ موضوعات کو مدغم کرنے کے بعد اہم موضوعات کا انتخاب کرکے ایک نئی فہرست تشکیل دی ہے جو نسبتاً جامع فہرست ہو گی۔

۱ تاریخ قرآن:
اس موضوع کے تحت درج ذیل ضمنی موضوعات آجاتے ہیں۔ کیفیت نزول، مکی اور مدنی آیات، جمع القرآن، کتابت القرآن، نقط واعراب وغیرہ۔
۲ قرأت ۳ تجوید
۴ غریب القرآن ۵ مجاز القرآن
۶ وجوہ القرآن ۷ اعراب القرآن
۸ ناسخ ومنسوخ ۹ محکم ومتشابہ
۱۰ اسباب النزول ۱۱ تفسیر القرآن
۱۲ تاویلِ القرآن
امید ہے یہ مختصر سی کوشش اہل تحقیق کے کسی کام آئے گی۔

با تشکر از سایت الحسنین

Comments powered by CComment