معاشره میں رهبر اور ولی الفقیه کی کیا ضرورت؟

متفرق مقالات
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

  معاشره  میں رهبر اور ولی الفقیه کی ضرورت انسان کی ذاتی کمزوریوں میں مضمر نہیں ہے بلکہ انسانی اجتماع کے نقائص اور کمزوریوں میں مضمر ہے

 -   معاشره  میں رهبر اور ولی الفقیه کی ضرورت انسان کی ذاتی کمزوریوں میں مضمر نہیں ہے بلکہ انسانی اجتماع کے نقائص اور کمزوریوں میں مضمر ہے چنانچہ اگر ایک معاشرہ نیک انسانوں سے تشکیل پایا ہو اور اس کے سارے افراد نیک و صالح، شائستہ اور قابل انسان ہوں پھر بھی اس کے لئے سیاسی ولایت یا حکومت کی ضرورت ہے، کیونکہ ایسے بہت سے امور و معاملات ہیں جو فردی نہيں ہیں بلکہ ان کا تعلق معاشرے اور اجتماع سے ہے اور ان کے لئے اجتماعی فیصلہ سازی کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کو معاشرتی سطح پر نافذ کیا جاتا ہے اور وه جب ایک شخص هوگا تب معاشره متحد اور منسجم هوگا اور  حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کے امور و معاملات کو شریعت کی تعلیمات پر منطبق کرلے اور عوام کی زندگی کو شریعت کے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھائے۔
یعنی یہ کہ دینی حکومت کی ذمہ داری ہر قیمت پر امن و امان برقرار کرنا اور لوگوں کو خوشحال زندگی فراہم کرنا ہی نہيں ہے بلکہ اس کو معاشرے کے تمام معاملات اور تمام روابط کو دین کے احکام، اصولوں اور اقدار کے مطابق کرنا چاہئے اور اس مہم کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی معاشرے کے مدیر و منتظم کو اگر ایک طرف سے زبردست انتظامی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہونا چاہئے تو دوسری طرف سے اس کو ان امور و معاملات میں اللہ کے احکام سے سب سے زیادہ آگہی حاصل ہونی چاہئے اور سماجی و سیاسی معاملات میں فقاہت لازمہ کا مالک و حامل ہونا چاہئے۔
امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا: "أيها الناس ان احق الناس بهذا الامر أقواهم عليه و أعلمهم بأمر الله فيه"۔
ترجمہ: اے لوگو! امامت و خلافت کا سب سے زیادہ اہل اور حقدار وہ شخص ہے جو اس کا انتظام چلانے کی سب سے زيادہ قوت رکھتا ہو اور حکومت کے معاملے میں اللہ کے فرامین کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ 173)
چنانچہ اسلامی معاشرے کے لئے سیاسی ولایت و زعامت کی ضرورت ہے جیسا کہ غیراسلامی معاشروں کو بھی بعض نقائص برطرف کرنے اور معاشرتی مسائل حل کرنے اور امن اور نظم و ضبط کے قیام کے لئے حکومت کی ضرورت ہے۔
اسلامی معاشرے میں امام معصوم علیہ السلام کی غیبت کے دور میں یہ سیاسی ولایت و زعامت ایسے جامع الشرائط فقیہ کو دی گئی ہے جو علمی، اخلاقی اور انتظامی حوالے سے سب سے زیادہ قابلیت اور اہلیت کا مالک ہو اور مرتبے کے لحاظ سے امام معصوم علیہ السلام سے سب سے زیادہ قریب ہو کیونکہ اسلامی معاشرے کے انتظام و انصرام کے لئے انتظامی اہلیت سے بھی زیادہ اسلامی شناسی اور فقہ شناسی کی ضرورت ہے۔
2-مرجع اور ولی فقیہ کے درمیان  کیا فرق ہے؟
الف -شرائط میں فرق   یعنی مرجع اصطلاحی طور پر جامع الشرائط مجتہد ہے جو اسلامی منابع (سورسز) سے شرعی احکام کا استنباط کرتا ہے اور اسی بنیاد پر فتوی دیتا ہے اور لوگوں پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں لیکن ولی فقیہ کو الہی قوانین پر عالم و فقیہ ہونے اور عدالت کے وصف اور دوسری صفات سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی قیادت کے لئے دینی سیاست اور شجاعت نیز تمام تر انتظامی صلاحیتوں کا مالک ہونا چاہئے اور ساتھ ساتھ حالات حاضرہ اور سیاسی و معاشرتی مسائل سے بھی آگاہ ہونا چاہئے۔
ب-تعدد میں فرق   یعنی فتوی کی مرجعیت ایک ہی وقت میں متعدد ہوسکتی ہے یا یوں کہئے کہ ایک ہی وقت میں کئی مراجع تقلید ہوسکتے ہيں اور ہر شخص جس مجتہد کو دوسروں سے زيادہ متقی، عادل اور عالم پائے اسی کی تقلید کرسکتا ہے جبکہ ولی فقیہ متعدد نہیں ہوسکتا کیونکہ ولایت فقیہ کا عہدہ یا منصب سیاسی، ثقافتی و تعلیمی، معاشی اور دفاعی پہلؤوں کے پیش نظر ایک ہی فرد میں مرتکز ہونا چاہئے۔
ج- عمل کے میدان میں فرق  یعنی  مرجعیت کا کام فتوی اور شرعی احکام بیان کرنے سے عبارت ہے لیکن ولی فقیہ کا فریضہ فتوی اور شرعی احکام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کے نجات بخش احکام کا نفاذ بھی ہے۔ ولی فقیہ خاص مواقع پر حکومتی احکام جاری کرتا ہے جس کی متابعت سب پر لا زم ہے۔ اگر کوئی فرد لازمی شرائط اور صلاحیتوں کا حامل ہو تو مرجعیت اور ولایت فقیہ ایک ہی شخص میں جمع ہوسکتی ہیں جیسا کہ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) مرجع بھی تھے اور رہبر اور ولی ققیہ بھی تھے اور ان کے خَلَفِ صالح حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای بھی مرجعیت اور ولایت کے حامل ہیں۔
ولی فقیہ کون اور اس پر کیا دلیل موجود  ہے؟
ولی فقیہ وہ ہے جو حکم دیتا ہے اس پر عمل کرتا ہے اور اجتماعی و سیاسی احکام کو جاری اور نافذ کرنے کے اوزار (یعنی حکومت) سے بھی بہرہ مند ہے جبکہ عام فقہاء حکم جاری کرتے اور اس پر عمل کرتے ہيں اور مقلدین اپنی مرضی سے ان کے فتووں پر عمل کرتے ہیں۔
اس امر کی دلیلیں:
1۔ ولی فقیہ امام معصوم علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وارث اور جانشین ہے۔ جس طرح کہ کسی کے لئے بھی حکومت کے حوالے سے آنحضرت (ص) کی ولایت سے متعلق امور و معاملات میں مداخلت کرنا اور مسائل پیدا کرنا، جائز نہيں ہے، آپ (ص) کی وراثت کا تقاضا ہے کہ کوئی بھی فرد حکومت سے متعلقہ امور میں ولی فقیہ کا مزاحم نہ ہو اور مسائل پیدا نہ کرے؛ چنانچہ تمام ققہاء فقیہ حاکم کے امور میں مزاحمت اور مداخلت کو کلی طور پر حرام اور عدالت کے دائرے سے خروج کا سبب گردانتے ہیں پس اگر کوئی ایسا کرے تو وہ عادل نہيں ہے اور ولایت کا مالک بھی نہیں ہے کیونکہ ایسی صورت میں فقہاء کے درمیان تزاحم لازم آتا ہے۔(امام خميني رحمۃاللہ علیہ كتاب البيع، ج 2، ص 514-517)۔
آیت اللہ العظمی سید محمد کاظم یزدی اپنی عظیم کتاب "العروةالوثقی" میں تحریر فرماتے ہيں:"حكم الحاكم الجامع للشرايط لا يجوز نقضه و لو لمجتهد آخر..."۔
یعنی اگر کوئی جامع الشرائط (اور شرعی شرائط کے مطابق منصب ولایت پر فائز ہونے والا) حاکم کوئی حکم جاری کرے تو اس کو نقض کرنا اور اس کی مخالفت کرنا کسی کے لئے بھی جائز نہيں ہے خواہ حکم وصول کرنے والا خود مجتہد ہی کیوں نہ ہو۔(يزدي، آيت‏الله العظمی سيد محمد كاظم، العروه الوثقي، ج 1، مسأله 57، باب اجتهاد و تقليد)۔
یہی فتوی تمام دوسرے مجتہدین و مراجع تقلید کہ بھی ہے۔
2۔ عقلاء کی روش اور تمام حکومتوں کا طریقہ عمل یہ ہے کہ حکومتی امور اور معاشرے کے انتظام و انصرام میں دوسروں کی یکطرفہ اور حکام کی اجازت کے بغیر مستقل مداخلت کو صحیح نہیں سمجھا جاتا۔ یہ روش کم از کم صالح حکمران کی حکومت میں شارع مقدس کی طرف سے بھی تصدیق شدہ اور تائید شدہ ہے۔
3۔ نظام حکومت کا قیام اور اس کو بدانتظامی سے محفوظ رکھنا بنیادی واجبات میں سے ہے اور ایک ہی سرزمین میں متعدد مستقل حکمرانوں کی موجودگی یا حکومت کے معاملات میں حاکم کی اجازت کے بغیر متعدد افراد کی مستقل طور پر مداخلت حکومتی نظم و نسق کے درہم برہم ہونے اور انارکی و افراتفری کا سبب بنتی ہے جو مسلمانوں کے عمومی نقصان کا سبب ہے۔ نظام حکومت کے تحفظ اور حکومت کے انتظام نیز عام مسلمانوں کے مفادات و مصالح کی حفاظت کا تقاضا ہے کہ ولایت کا نفاذ ایک ہی ولی تک محدود ہو اور دوسرے اس کی اطاعت کریں۔
(زيادہ آگہی کے لئے: زین العابدین نجفی کی کتاب "امام خمینی (رح) و حکومت اسلامی۔ مجموعہ آثار جلد 5 صفحہ 515 سے رجوع کریں)۔
اسلامی حاکم، اللہ کے احکام کو نافذ کرتا ہے اور وہ خود بھی قانون الہی کا پابند اور اس کا تابع محض ہے اور دوسرے فقہاء بھی ایسے ہی ہیں اور ان سب پر واجب ہے کہ جو حکم ولی کی طرف سے جاری ہوا ہے اس کی تعمیل کریں۔

Comments powered by CComment