تالیف: استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ
ترجمہ: سجاد حسین مہدوی
خدا کی معرفت اور اُس کی عبادت قربِ الٰہی حاصل کرنے کا ذریعہ ہےلیکن اکثر اوقات انسان کی بے توجہی اور غفلت اُسے اپنے اِس مقصد سے گمراہ کردیتی ہے اور وہ خدا کی بندگی کی راہ چھوڑ بیٹھتا ہے، گمراہ ہوجاتا ہے
انسان کو اس گمراہی سے راہِ راست پر لانے اور اس غفلت سے اسے ہوشیار کرنے کی غرض سے خداوند عالم نے انسان کے اندر اور اس کے باہر سے اہتمام کیا ہے
باہر سے انبیا اور اولیائے الٰہی انسان کی رہنمائی کرتے اور اسے متنبہ کرتے ہیں جبکہ اندرسے اُس کاضمیر اسے بیدار کرتا ہے، اس میں پچھتاواپیدا کرتا ہے اوریوں راہِ راست سے بھٹکا ہوا، خدا کی مخالف سمت چلتا ہوا یہ انسان اپنی سمت بدل کر راہِ راست، صراطِ مستقیم اور خدا کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے
دراصل یہی متنبہ ہونا، نادم ہونا، پشیمان ہوکرتبدیل ہونے پر تیار ہونااور اپنا رُخ بدل لینا توبہ ہے
زیر نظر تحریر ”توبہ“ کے موضوع پر استاد شہید مرتضیٰ مطہریؒ کی دو تقاریر کا مجموعہ ہے، جو انہوں نے ۲۵اور ۲۶رمضان ۱۳۹۰ھ کو حسینیہ ارشاد تہران، ایران میں کی تھیں آج قریب ۳۶، ۳۷ برس گزر جانے کے باوجود ان تقاریر کی تازگی اسی طرح محفوظ ہے، آج بھی استاد مطہریؒ کا ایک ایک لفظ دل کوچھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اُن کے لہجے کا اخلاص اُن کے بیان کردہ مفاہیم کو دل میں اتاردیتا ہے
ان تقاریر میں استاد مطہری ؒکی طرف سے توبہ کے مفہوم کی وضاحت اور اِن کے دل نشین ہونے کی صلاحیت ہی اس بات کا باعث بنی کہ دارالثقلین نے انہیں اردو زبان میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا
تقریر کو تحریر کی صورت میں لانا ایک دشوار کام ہے، بالخصوص دوسری زبان میں کی گئی تقریر کے ترجمے کو تحریری صورت دیناتواور دشوار ہوجاتا ہےبہر صورت بہتر سے بہتر ترجمے کے بعدبھی سرخیاں، بریکٹ، اور بعض الفاظ کے معنی حاشیے میں لکھ کرہم نے کوشش کی ہے کہ مقرر کی پوری پوری بات پڑھنے والوں تک پہنچ سکےاس سلسلے میں ہم کتنے کامیاب رہے ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں
قارئین کے مشوروں، تجاویز اور تنقیدکی صورت میں ہماری رہنمائی ہمیں اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے میں مدد دیتی ہےلہٰذا ہم ہمیشہ اس کے منتظر رہتے ہیں
والسلام
پہلا خطاب
بِسْم ِاللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
”اَلْحَمْدُ للّٰه رَبِّ الْعٰالَمِینَ بٰارِیءِ الْخَلٰاءِ قِ اَجْمَعینَ وَ الصَّلٰوةُ وَالسَّلاٰمُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَحَبیبِهِ وَصَفِیِّهِ، وَحَافِظِ سِرِّهِ وَ مُبَلِّغِ رِسَالاٰتِهِ سَیِّدِنٰا وَنَبِیِّنٰاوَمَوْلاٰنٰااَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّد وَ عَلٰی آلِهِ الطَّیِّبینَ الطَّاهِریِنَ الْمَعْصُومیِنَاَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجیمِ “
”وَذَاالنُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْهِ فَنَادآٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّاآا اِٰلهَ اِلَّاآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَاِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَه وَ نَجَّیْنهُاٰا مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نَُنْجِی الْمُؤْ مِنِیْنَ “
(سورہ انبیا ۲۱آیت۸۷۸۸)
ہم عبادت اور دعا کے بارے میں گفتگو کررہے تھے(1) گزشتہ دو راتوں میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اگرعبادت اور عبودیت صحیح شکل و صورت کے ساتھ انجام دی جائے، تولامحالہ اور لازماً انسان کے ذاتِ اقدسِ الٰہی سے حقیقی تقرب کاسبب ہوگیانسان عبودیت کے ذریعے خدا سے نزدیک ہوجاتا ہے اور اس (نزدیکی) میں مجاز کا شائبہ بھی نہیں ہےبالفا ظِ دیگر عبودیت ”سلوک“ ہے، حرکت ہے، پروردگار کی سمت گامزن ہونا ہے
--------------
1:- اس گفتگو کا اردو ترجمہ دارالثقلین ”عبادت اور نماز“کے نام سے شائع کر چکا ہے
آج کی رات ہم ”سلوک“ کے سب سے پہلے مرحلے کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں اگر انسان، اپنے پروردگار کی طرف سلوک (سفر) کرنا چاہتا ہے اور مقامِ قربِ خداوندی تک پہنچنے کا خواہشمند ہے، تو اسے اس منزل، اس مرحلے اور اس نقطے سے آغاز کرنا چاہئےاور جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے، وہ یہی ہےیعنی ہم لوگ، جنہوں نے اس طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھایا، ہمارے لئے سالکین کی اعلیٰ منازل کے بارے میں گفتگو بے سود ہےاگر ہم مردِ عمل بننا چاہتے ہیں ، تو ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قربِ الٰہی اور پروردگار کی جانب سلوک کی پہلی منزل کیا ہے؟ اس کا پہلا مرحلہ کیا ہے؟ اور ہم کہاں سے اپنی عبودیت اور عبادت کا آغاز کریں؟
خدا کی جانب سلوک کی سب سے پہلی منزل ”توبہ“ ہےآج کی رات ہم توبہ کے بارے میں گفتگو کا آغازکرنا چاہتے ہیں
توبہ کیا ہے؟
توبہ کے کیامعنی ہیں ؟ نفسیاتی اعتبار سے انسان کے لئے توبہ کی حقیقت کیا ہے اور معنوی لحاظ سے یہ انسان پر کیا اثرمرتب کرتی ہے؟ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے خیال میں توبہ ایک بہت ہی سادہ سی چیز ہےہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آؤ چلیں نفسیاتی لحاظ سے توبہ کاتجزیہ کریں
بنیادی طورپر توبہ حیوانات کے مقابل انسان کا ایک امتیاز ہےیعنی انسان میں متعدد اعلیٰ امتیازات، خصوصیات، کمالات اور صلاحیتیں ایسی پائی جاتی ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی حیوانات میں موجودنہیں انہی اعلیٰ صلاحیتوں میں سے ایک یہی ”توبہ“ ہے
توبہ کے وہ معنی و مفہوم جس کی انشااﷲ ہم آپ کے سامنے وضاحت کریں گے، اُس میں توبہ یہ نہیں ہے کہ ہم محض زبان سے اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بول دیںبات صرف زبان سے الفاظ کی ادائیگی کی نہیں ہےتوبہ ایک نفسیاتی اور روحانی حالت، بلکہ انسان کے اندر ایک روحانی انقلاب ہے، اور اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه اس حالت کا اظہار ہے، خود وہ حالت نہیں ہے، خود توبہ نہیں ہےاُن بہت سی چیزوں کی مانند جن میں لفظ خود اُس چیز کی حقیقت نہیں ہوتا بلکہ اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے
یہ جو ہم دن میں کئی مرتبہ اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بولتے ہیں ، اِس سے ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم دن میں کئی مرتبہ توبہ کرتے ہیں ہم اگر روزانہ ایک مرتبہ بھی سچی توبہ کرلیں، تو یقیناً قربِ الٰہی کے مراحل اور منزلیں حاصل کرلیں
تمہید کے طور پر کچھ عرائض پیش خدمت ہیں ، توجہ فرمایئے:
جمادات، نباتات اور حیوانات کے درمیان ایک فرق پایا جاتا ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ جمادات میں خود اپنا راستہ بدلنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی، وہ از خوداپنارخ بدلنے پر قادر نہیں ہیں جیسے زمین کی سورج کے گرد، یاخود اپنے محور پر گردش، یا وہ حرکتیں جو تمام ستارے اپنے مدار میں کرتے ہیں ، یا اُس پتھر کی حرکت جو اوپر سے چھوڑنے پرزمین کی طرف آتا ہےیہ بات مسلَّم اور قطعی ہےیعنی وہ پتھرجسے آپ چھوڑتے ہیں اور وہ ایک معین راستے پر چلتا ہے، اسی راستے پر اور اسی رُخ پر رواں دواں رہتاہےخود اس پتھر کے لئے اپنے راستے کی تبدیلی اور رُخ کا بدلناممکن نہیں ہےاس پتھر اور اس جماد کا راستہ بدلنے کے لئے باہر سے کسی عامل کا اس پر اثر انداز ہونا ضروری ہےاب خواہ یہ عامل کوئی مجسم شے ہو یا ہوا کے ایک جھونکے کی مانند کوئی چیز ہومثلاً جن ”اپالوز“ یا ”لونا“ کوفضا میں بھیجا جاتا ہے وہ از خود کبھی اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے، ماسوا یہ کہ راستے کی تبدیلی کے لئے باہر سے اُنہیں ہدایت دی جائےلیکن نباتات اور حیوانات جیسے زندہ موجودات میں خود اپنے آپ اپنا راستہ تبدیل کر لینے کی استعداد پائی جاتی ہےیعنی اگر وہ ایسے حالات کاسامنا کریں جو ان کی زندگی کی بقا کے لئے سازگارنہ ہوں، تو وہ اپنا راستہ بدل لیتے ہیں یہ چیز حیوانات میں تو بہت ہی واضح ہےمثلاً ایک بھیڑ، ایک کبوتریا حتیٰ ایک مکھی بھی جب چلتی ہے، تو جوں ہی کسی مشکل کو سامنے پاتی ہے، فوراً اپنا راستہ بدل لیتی ہے
حتیٰ ممکن ہے وہ ایک سو اسی درجے گھوم جائےیعنی اپنی پہلی سمت سے یکسر مخالف سمت میں حرکت شروع کردےحتیٰ نباتات بھی ایسے ہی ہیں یعنی نباتات بھی خاص حالات اور معینہ حدود میں اپنے اندر سے اپنی ہدایت کرتے ہیں ، اپنا راستہ تبدیل کرتے ہیں ایک درخت کی جڑیں جو زیرِ زمین حرکت کرتی ہیں اور ایک سمت کو چل رہی ہوتی ہیں ، اگر کسی چٹان کا سامنا کریں، اب چاہے اُس تک پہنچی ہوں یا نہ پہنچی ہوں، ازخود اپنا راستہ بدل لیتی ہیں جیسے ہی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانے کی جگہ نہیں ہے، وہاں کوئی گزرگاہ اور راستہ نہیں ہے، تو فوراً اپنا راستہ تبدیل کرلیتی ہیں
واضح ہے کہ انسان بھی اس حد تک نباتات اور حیوانات کی مانند ہے، یعنی اپنا راستہ تبدیل کرلیتا ہے
توبہ سے مراد انسان کا راہ بدل لینا ہےالبتہ سادہ سا راہ بدل لینا نہیں ، جیسے ایک پودا اپنا راستہ بدلتا ہے، یا جس طرح حیوان اپنا راستہ بدل لیتا ہےبلکہ اس انداز سے راہ بدلنا مراد ہے جو انسان کا خاصّہ ہےاوریہ نفسیاتی اور روحانی نکتہ نظر سے قابلِ تجزیہ و تحلیل اور تحقیق کے لائق ہے
”توبہ“ ایک قسم کا باطنی انقلاب ہے، ایک قسم کا قیام ہے، انسان کاخود اپنے خلاف ایک قسم کا انقلاب ہےاس لحاظ سے یہ انسان کے امتیازات میں سے ہےنباتات اپنا راستہ بدلتے ہیں لیکن اپنے خلاف قیام نہیں کرتے، کربھی نہیں سکتے، اُن میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی جمادات اورنباتات کے درمیان فرق یہ ہے کہ جمادات اپنی بقا کے لئے خود سے اپناراستہ تبدیل نہیں کرسکتے، جبکہ یہ حیرت انگیزصلاحیت نباتات میں پائی جاتی ہے (حیوانات میں بھی موجود ہے)
انسان میں اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز صلاحیت موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے خلاف قیام کرتا ہے، حقیقتاً قیام کرتا ہےاپنے خلاف انقلاب بپا کرتا ہے، واقعاً انقلاب بپا کرتا ہےدو مختلف اور باہمی طور پر جدا جداچیزیں (ایک دوسرے کے خلاف) قیام اور انقلاب بپا کرسکتی ہیں مثلاً ایک ملک میں معاملات کی باگ ڈورکچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، بعد میں کچھ دوسرے لوگ ان کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے(کیونکہ) جن لوگوں کے خلاف انقلاب بپا ہوا ہے وہ دوسرے افراد ہیں اورجنہوں نے انقلاب بپا کیا ہے وہ دوسرے لوگ ہیں اُنہوں نے اِن پر ظلم کیاتھا، اِنہیں ناراض اور باغی بنا دیاتھا، جو ان کی طرف سے بغاوت اور انقلاب کا سبب بنا اورانہوں نے اچانک انقلاب بپاکردیا، زمامِ حکومت ان سے چھین لی اور ان کی جگہ پر خود بیٹھ گئےاس میں کوئی نہ ہونے والی بات نہیں
لیکن ایک انسان کے خود اپنے اندر سے انقلاب اٹھنا، خود اپنے خلاف قیام کرنا، یہ کیسے ممکن ہے؟
کیا ممکن ہے کہ ایک شخص خود اپنے خلاف اٹھ کھڑا ہو؟ ہاں ممکن ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ ایک شخص ہے، جبکہ اس کے اس خیال کے برخلاف ایسا ہے نہیں وہ ایک واحد شخص ہے لیکن ایک مرکب شخص ہے، بسیط شخص نہیں ہے (۱) یعنی ہم جو یہاں بیٹھے ہیں ، حدیث میں آنے والی تعبیر کی رو سے ایک جماد یہاں بیٹھا ہے، ایک نبات بھی یہاں بیٹھا ہے، شہوت رکھنے والا ایک حیوان بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک درندہ بھی یہاں بیٹھا ہے، ایک شیطان بھی یہاں بیٹھا ہے اورعین اسی حال میں ایک فرشتہ بھی یہاں بیٹھا ہےیعنی شاعروں کے بقول انسان ایک ایسا نادر و نایاب معجون ہے جس کے وجود میں تمام خصوصیات جمع ہیں کبھی وہ شہوانی حیوان (جس کا مظہر سُوَر کو سمجھا جاتا ہے) انسان کے وجود میں پایا جانے والا وہ سُوَر اُس پر حاوی ہوجاتا ہے، اور (اپنے اندر موجود) درندے، شیطان اور فرشتے کوابھرنے کا موقع نہیں دیتاکبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے، اورانسان کے وجود پر ایک نئی حکومت قائم ہوجاتی ہے
گناہ گار انسان، وہ انسان ہے جس کے اندر کا حیوان اس پر مسلط ہے، یا اس کے اندر کا شیطان اس پر مسلط ہے، یا اس کے وجود کا درندہ اس پر حاوی ہےعین اُسی وقت ایک فرشتہ، ایک عالی قوت بھی اس کے وجود میں محبوس اوراسیر ہے
--------------
1:- بسیط یعنی غیر مرکب
توبہ، یعنی خود انسان کے اندر سے قیام
جب انسان کے وجود میں پائے جانے والے عالی مقامات اُس کے اندر موجود اس کی باطنی مملکت کے امور پر قابض پست مقامات کے خلاف یکایک قیام کرتے ہیں ، ان سب (پست مقامات) کو پکڑ کر قید میں ڈال دیتے ہیں اور خود اپنی فوج اور سپاہ کے ذریعے معاملات کی باگ ڈور سنبھال لیتے ہیں ، تو یہ وہ حالت اور صورت ہے جو حیوان اور نبات میں نہیں پائی جاتیاسی طرح اس کے برعکس بھی ہے، یعنی کبھی کبھی انسان کے وجود میں پائے جانے والے دانی اور پست مقامات اس کے وجود میں موجود عالی اور بلند مقامات کے خلاف قیام اور انقلاب بپا کردیتے ہیں انہیں گرفتار کرکے قید کر دیتے ہیں اور اس مملکت کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں
تربیت کا غلط انداز
اگر آپ نے تجربہ کیا ہو (تو دیکھا ہوگا کہ) کچھ لوگ جو تربیت کے فن سے واقف نہیں ہوتے، وہ نہیں جانتے کہ انسانی وجود میں جو قوتیں موجود ہیں اُن سب میں تربیت کے حوالے سے حکمتیں اور مصلحتیں پائی جاتی ہیں اگر ہمارے اندر شہوانی غرائزپائی جاتی ہیں ، تو وہ لغو اوربے کار نہیں ہیں ہمیں طبیعی احتیاج کی حد میں ان شہوانی غرائز کی تسکین کرنی چاہئےان کی ایک حد ہے، ایک حق ہے، ایک حصہ ہےہمیں ان کا مقررہ حصہ انہیں دینا چاہئےاس کی مثال ایسے ہے جیسے آپ سواری کے لئے اپنے گھر میں ایک گھوڑارکھتے ہیں یاحفاظت کے لئے گھر میں ایک کتّا پالتے ہیں اس گھوڑے یااس کتّے کو خوراک کی ضرورت ہے، آپ پر لازم ہے کہ اسے خوراک فراہم کریں
اب کچھ کج سلیقہ لوگ ایسے ملتے ہیں جو اپنے آپ پر یا اپنے زیرِ کفالت بچوں پر جبر کرتے ہیں بچے کے لئے کھیل کود ضروری ہے اور خودکھیل کود کی یہ ضرورت پروردگار کی حکمتوں میں سے ہےبچے کے بدن میں انرجی کی جو مقداراکھٹی ہوتی ہے اُسے وہ صرف کھیل کود کے ذریعے خارج کرسکتا ہےبچے میں کھیل کودکے لئے غریزہ پایا جاتا ہےاب ہمیں کچھ ایسے افراد نظر آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ب ہت خوب، اچھی بات ہے
آپ کیسے تربیت کرنا چاہتے ہیں ؟
وہ اپنے پانچ چھے سالہ بچے کودوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کود کی اجازت نہیں دیتے، جس کسی محفل میں خود جاتے ہیں اپنے بچے کو بھی ساتھ لیجاتے ہیں کیوں؟ تاکہ اس کی تربیت ہو، اسے ہنسنے سے منع کرتے ہیں ، اسے کھانے سے منع کرتے ہیں یا ایسے افراد بھی پیدا ہوگئے ہیں (ہم نے خوددیکھا ہے) کیونکہ وہ خود عمامہ پہنتے ہیں ، ایک عبا ایک عمامہ اور خاص چپل بنواتے ہیں ، پھر اپنے آٹھ سالہ بچے کے سر پر عمامہ رکھتے ہیں ، اس کے شانوں پر عبا ڈالتے ہیں اور اسے اپنے ہمراہ لئے ادہر ادہر پھرتے ہیں
یہ بچہ اس حال میں بڑا ہوتا ہے کہ اس کے وجود میں پائی جانے والی احتیاجات کی تسکین نہیں ہوئی ہوتی، اس کے سامنے بس خدا، قیامت، آتش جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے، یہاں تک کہ بیس برس سے زیادہ عمر کو پہنچنے پراس میں اکھٹی ہونے والی وہ قوتیں، وہ شہوتیں اوروہ تمایلات جن کی تسکین نہیں ہوئی ہوتی یکلخت زنجیر توڑ ڈالتی ہیں
وہ بچہ جسے آپ دیکھا کرتے تھے کہ اپنے باپ کی تلقین کے زیرِ اثر بارہ سال کی عمر میں جس کی نماز بیس منٹ طویل ہوا کرتی تھی، جو نمازِ شب پڑھاکرتا تھا، دعا ئیں پڑھتا تھا، پچیس سال کی عمر میں یکایک آپ کو سرسے پیر تک فسق و فجور میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے
کیوں؟
اسلئے کہ آپ نے اعلیٰ روحانی مقامات کے بہانے اس کی تمام غرائز کوکچل دیا تھاالبتہ بچے کی فطرت میں خدا تھا، قیامت اور عبادت تھی لیکن آپ نے خدا اور عبادت کے اس فطری جذبے کو اس انداز سے اس کے اندرمضبوط کیا کہ اس کے سارے غرائز (کی تسکین) کا راستہ روک دیا، اس کے سارے غرائز کو قید کردیا، انہیں غضبناک اور ناراض کردیا، انہیں جیل میں ڈال دیا، ان کا حق اور حصہ انہیں نہیں دیا(اب وہ غرائز) ایک موقع کی تلاش میں تھے، جوں ہی انہیں ایک موقع ملتا ہے، جوں ہی وہ بچہ ایک فلم دیکھتا ہے یا کسی محفل میں ایک جوان لڑکی سے راہ و رسم پیدا کرتا ہے، اسی وقت یہ جمع شدہ اور کچلی ہوئی قوتیں یک بیک سارے بندھن توڑ ڈالتی ہیں اور اس عمارت کو جسے اس کے باپ نے غلط انداز میں اس کے وجود میں تعمیر کیا تھامسمار کر ڈالتی ہیں ، بالکل اسی طرح جیسے بارودپھٹتا ہے، پھٹ پڑتی ہیں
توبہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہےایسا انسان جو گناہ اور نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے، نفسانی خواہشات اور حیوانیت میں ڈوبا ہواہوتا ہے، جب وہ اپنے وجود کے فرشتے کو اس قدر اذیت دیتا ہے اور اس کی خواہشات کی تسکین نہیں ہونے دیتا، تو اچانک ایک دھماکہ ہوتا ہے
آخر میں اور آپ بھی تو انسان ہیں ، ہمارا ایک دہان نہیں ہوتااگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کا صرف ایک دہان ہے اور آپ کو فقط اسی سے غذا فراہم کی جائے، تو آپ غلط فہمی میں مبتلا ہیں آپ کے سینکڑوں دہان ہیں آپ کے لاتعداد سر ہیں ، لاتعداد دہان ہیں ، ان سب سے آپ کو غذا پہنچنی چاہئے
ان لاتعداد دہان میں سے آپ کاایک دہان عبادت کادہان ہےآپ کے لئے ضروری ہے کہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کی تسکین کریںیعنی آپ کو اسے اس کایہ حق اور یہ حصہ دیناچاہئےآپ ملکوتی صفات کا حامل ایک وجود ہیں آپ کو اس عالم کی طرف محوپرواز ہوناچاہئےاگر آپ اس فرشتے کوقید کردیں، توکیا آپ جانتے ہیں کہ اس کے بعد کیابیماریاں اور کتنی زیادہ مشکلات جنم لیں گی؟
بسا اوقات آپ دیکھتے ہیں کہ ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے والا جوان، ایک ایسا جوان جسے تمام وسائل اورآسائشیں فراہم ہیں ، وہ ایک انتہائی معمولی بات پر خودکشی کرلیتا ہےلوگ کہتے ہیں نہ معلوم اس نے کیوں خودکشی کرلی؟ یا یہ کہتے ہیں کہ ارے یہ تو بہت چھوٹی سی بات تھی! کیوں خودکشی کرلی؟
دراصل وہ جوان اس بات سے واقف نہیں تھا کہ اس کے وجود میں کچھ مقدس قوتیں قید تھیںوہ مقدس قوتیں اُس کی زندگی کے اس انداز سے آزردہ تھیں، ان کی برداشت ختم ہوچکی تھی جس کے نتیجے میں اس طرح کا ایک طوفان اٹھا
کبھی کبھی آپ دیکھتے ہیں کہ ایک انسان سب کچھ ہونے کے باوجود مضطرب اورپریشان ہےبقول شاعر :
آن یکی در کنج زندان مست و شاد
و ان دیگر در باغ ترش و بی مراد
وہ جیل کی کوٹھڑی میں بھی خوش و خرم ہے اور دوسرا باغ کے اندر رہتے ہوئے بھی غمگین اور نامراد ہے
آپ دیکھتے ہیں کہ وہ ایک پر آسائش ماحول میں رہتا ہے، زندگی کی تمام سہولتیں اسے میسر ہیں ، اس کے باوجود وہ پریشان ہے، ناخوش اور زندگی سے ناراض ہے
راہ لذت از درون دان نز برون
احمقی دان جستن از قصر و حصون
لذت کا راستہ اندر سے ہے نہ کہ باہر سےاس کو محل اور قلعہ میں تلاش کرنا حماقت ہے
اسلئے کہ کچھ لذتیں ایسی بھی ہیں جوخود انسان کے اندر سے اسے پہنچنا چاہئیں نہ کہ باہر سےاوریہ لذتیں انسان کی معنوی لذتیں ہیں
چنانچہ ”توبہ“ انسانی روح کے اعلیٰ اور مقدس مقامات کا اُس کے حیوانی اور پست مقامات کے خلاف ظاہر ہونے والاردِ عمل ہے
”توبہ“یعنی انسان کی فرشتہ صفت مقدس قوتوں کااُس کی شیطانی اور درندہ صفات قوتوں کے خلاف قیام وانقلابیہ ہے توبہ کی حقیقت
رجوع کرنے، ندامت اور پشیمانی کی یہ حالت انسان میں کیسے پیدا ہوجاتی ہے؟
توبہ کی کیفیت کیسے پیدا ہوتی ہے
پہلی بات یہ جان لیجئے کہ اگر انسان کے وجود میں کوئی ایسا عمل ہو جس کے نتیجے میں اس کے وجود میں پائے جانے والے یہ مقدس عناصر مکمل طور پر ناکارہ ہوجائیںوہ ایک ایسی مضبوط زنجیر سے باندھ دیئے جائیں جس سے وہ آزاد نہ ہوسکیں، توپھر انسان کو توبہ کی توفیق حاصل نہیں ہوتیلیکن جس طرح ایک ملک میں انقلاب اور تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب وہاں اس ملک کی عوام کے درمیان پاکیزہ لوگوں کا ایک گروہ موجود ہوتا ہے، چاہے وہ گروہ بہت چھوٹا ہی کیوں نہ ہواسی طرح اگر انسانی وجود میں بھی کچھ مقدس اور پاک عناصر باقی بچے ہوں، تو انسان کو توبہ کی توفیق حاصل ہوجاتی ہےبصورتِ دیگر اسے ہرگز توبہ کی توفیق نہیں ہوگی
اب کن حالات میں انسان رجوع کرتا ہے، پشیمان ہوتا ہے اور اگر خدا پرست ہو تو خدا کی جانب پلٹتا ہے اور اگر خداپرست نہ ہو تو اس میں ایک دوسری حالت پیدا ہوتی ہے، کبھی پاگل پن اور دیوانگی کا شکار ہوجاتا ہے، اور کبھی دوسری صورتحال پیش آتی ہے
ہم نے کہا کہ ”توبہ“ ایک ردِعمل ہےآپ ایک گیند ہاتھ میں لیجئے اور اسے زمین پر ماریئےگیند زمین سے اچھلے گیآپ کاگیند کو پھینکنایعنی آپ کااپنے ہاتھ کی قوت سے گیند کو زمین پرمارنا، آپ کا عمل ہے اور گیند کا زمین سے اچھلنا ردِعمل ہےیہ ردِ عمل گیند کے زمین سے ٹکرانے سے پیدا ہوتا ہےپس وہ عمل ہے اور یہ ردِعمل، وہ فعل ہے اور یہ آج کل کی عربی اصطلاح میں ردُّالفعل ہے، وہ ایکشن ہے اور یہ ری ایکشن
جب آپ گیند کو زمین پر مارتے ہیں تو وہ کتنی بلند ہوتی ہے؟ اس کا تعلق ایک طرف اُس طاقت سے ہے جو اسے زمین پر مارنے میں استعمال ہوتی ہے، یعنی اُس قوت سے ہے جس سے آپ نے اُسے زمین پر مارا ہے اوردوسری طرف یہ سطحِ زمین کی کیفیت سے وابستہ ہےجس قدر زمین سخت اور ہموار ہوگی، جس قدروہ پختہ ہو گی، اُس کا ردِعمل زیادہ ہوگا (یعنی اتنا ہی گیند زیادہ بلند ہوگی) پس ردِعمل کا تعلق ایک طرف آپ کے عمل کی شدت سے ہے اور دوسری طرف اس سطح کی سختی اور ہمواری سے ہے جس سے گیند جا کر ٹکراتی ہے
گناہوں کے مقابل انسانی روح کا ردِعمل بھی دو چیزوں سے وابستہ ہوتاہےایک طرف اس کاتعلق شدتِ عمل سے ہےیعنی گناہ اور نافرمانی کی شدت سے، اس ضرب کی شدت سے ہے جو آپ کی روح کے پست مقامات روح کے اعلیٰ مقامات پر لگاتے ہیں
انسان کا گناہ جتنا کمتر اور جتنا چھوٹا ہوگا، وہ روح میں بھی اتنا ہی کم ردِعمل پیدا کرے گا، اور جس قدر معصیت بڑی ہوگی، ردِعمل بھی اتنا ہی زیادہ ایجاد کرے گیلہٰذا وہ لوگ جو بہت زیادہ شقی القلب اور سنگدل ہوتے ہیں ، اپنی شقاوت اور قساوت ِقلبی کے باوجود اگر ان کا گناہ بہت بڑا ہو، تو ان کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی روح ردِعمل ظاہر کرتی ہےآپ دیکھتے ہیں کہ وہ امریکی پائلٹ جس نے وہ (ایٹم) بم لے جا کر ہیروشیما پر پھینکا تھا، جب وہ واپس آنے کے بعد اپنے عمل کے اثرپرایک نظر ڈالتا ہے، تو دیکھتا ہے کہ اس نے ایک شہر نذرِ آتش کردیا ہے، بوڑھے جوان، مرد عورت، چھوٹے بڑے سب ایک دَھکتے ہوئے جہنم میں جل رہے ہیں اسی وقت اس کے ضمیر میں ہلچل مچ جاتی ہے، وہ اسے ملامت کرتا ہےحالانکہ ایسے لوگوں کو سنگدل ترین افراد میں سے منتخب کیا جاتا ہے
جب وہ (ہواباز) اپنے ملک لوٹتا ہے تو اس کا استقبال کیا جاتا ہے، اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں ، اسے اعلیٰ عہدے پر ترقی دی جاتی ہے، اس کی تنخواہ میں اضافہ کیا جاتا ہے، اخبارات میں اس کی تصویر چھپتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہےلیکن وہ ایسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا تھا، اس کا گناہ اس قدر بڑا تھا کہ اُس نے ایسے قسی القلب انسان کے ضمیر کو بھی بیدار کردیایعنی اس کی روح پر لگنے والی ضرب اتنی شدید تھی کہ ایسے سنگدل انسان کی روح بھی ردِ عمل ظاہر کئے بنا نہ رہ سکییہ شخص بھی جب پارٹیوں میں جاتا تو ہنستا مسکراتا، لوگوں کو بتاتا کہ اس نے یہ کیا وہ کیا، لیکن جب وہ تنہا ہوتا، جب بستر میں سونے کے لئے لیٹتا، تو یکدم وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا، (وہ سوچتا کہ) ہائے! یہ میں تھاجس نے اتنا بڑا جرم کیا!وائے ہو مجھ پر! میں کیسے عظیم ظلم کا مرتکب ہوا ہوں! نتیجتاً وہ شخص پاگل ہو جاتا ہے، اس کا عمل اسے پاگل خانے لیجاتا ہے
ایساکیوں ہوتا ہے؟
ایسا اسلئے ہوتا ہے کہ اس کا جرم بہت بڑا تھا
معاویہ کی فوج کا ایک سرداربسر بن ارطاۃ انتہائی سنگدل اور عجیب انسان تھامعاویہ نے حضرت علیؑ کو پریشان اور بے بس کرنے کے لئے جو پالیسیاں اختیار کیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ ”بسر بن ارطاۃ“یا ”سفیان غامدی“جیسے ایک خبیث فرد کی سربراہی میں کچھ فوجیوں کو حضرت علیؑ کی حکومت کی حدود کے اندر بھیجتے اور ان سے کہتے کہ اب گناہگار اور بے گناہ کو نہ دیکھنا (اسی طرح جیسے آج اسرائیل اسلامی ممالک کے ساتھ کر رہا ہے) جاؤانہیں تباہ و برباد کرنے کے لئے ان پر شبخون مارو، آتش زنی کرو، بے خطا اور خطا کار میں تمیز کئے بغیر جو سامنے آئے اسے تہ تیغ کردو، چھوٹے بڑے کسی پر رحم نہ کرو، ان کا مال و دولت لوٹ لواور معاویہ کے فوجی ایسا ہی کرتےایک مرتبہ انہوں نے اسی بُسر بن ارطاۃ کو بھیجاوہ گیاادھر ادھر سے ہوتا ہوا یمن پہنچا،
وہاں اس نے بہت مظالم ڈھائےان ہی میں سے اس کا ایک ظلم یہ بھی تھا کہ اس نے یمن میں امیر المومنین حضرت علی ؑکے گورنر اور آپ کے چچازاد بھائی عبید اﷲ ابن عباس بن عبدالمطلب کے بیٹوں کوپکڑ لیااور ان دو چھوٹے بے گناہ بچوں کی گردنیں اڑادیںکیونکہ یہ ظلم بہت بڑا تھا، لہٰذا آہستہ آہستہ اس سنگدل آدمی کا ضمیر بھی بیدار ہونے لگا اور پھر وہ ضمیر کے عذاب میں مبتلا ہوگیاوہ جب بھی سوتااسے خواب میں اپنا وہ ظلم نظر آتاجب راہ چلتا تو اس کی نظروں کے سامنے یہ دو بے گناہ بچے اور اس کے دوسرے مظالم آکھڑے ہوتےرفتہ رفتہ وہ دیوانہ ہوگیاوہ لکڑی کے گھوڑے پر سوار ہوجاتا، لکڑی ہی کی ایک تلوار ہاتھ میں لیتا اورگلی کوچوں میں دوڑتاپھرتا اور کوڑے مارتابچے اس کے گرد جمع ہوجاتے اور اس کا مذاق اڑاتے
ہم نے عرض کیا کہ انسانی روح کی جانب سے ردِ عمل کے اظہار کا دوسرا عامل یہ ہے کہ جس سطح پر ضرب لگ رہی ہو وہ ہموار ہو، مضبوط اور مستحکم ہویعنی اس انسان کا ضمیر، اس کی فطرت اور اس کا ایمان قوی ہواس صورت میں معمولی ضرب کے باوجود ردِ عمل نسبتاً زیادہ ہوگالہٰذا آپ دیکھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی خطائیں، گناہانِ صغیرہ، حتیٰ وہ اعمال جو مکروہ ہیں اور جنہیں گناہ نہیں سمجھا جاتاوہ باایمان افراد (ایسے افراد جو مضبوط روح کے مالک ہوتے ہیں ، جن کا معنوی فرشتہ، جن کا ایمان، جن کا معنوی ضمیر مستحکم ہوتا ہے) کے نزدیک قابلِ مذمت ہوتے ہیں اور یہ اعمال اُن میں ردِ عمل پیدا کرتے ہیں ایسے اعمال جن کے ہم روزانہ سیکڑوں مرتبہ مرتکب ہوتے ہیں اور جنہیں انجام دینے کے بعد ہمارے اندریہ معمولی سا احساس بھی جنم نہیں لیتا کہ ہم نے کچھ کیا ہے(جبکہ) پاک سرشت انسان جوں ہی کوئی مکروہ عمل بھی انجام دیتے ہیں تو ان کی روح مضطرب ہوجاتی ہے اور وہ مسلسل اور بار بار توبہ واستغفارکرتے ہیں
روحانیت کے اعتبار سے ایک انتہائی عظیم ہستی، میرے استاد جن کا میں نے گزشتہ برس ماہِ رمضان میں بھی ذکر کیا تھاوہ مرحوم حاج میرزا علی آقائی شیرازی اصفہانی رضوان اﷲ علیہ ہیں آنجناب ان روحانی شخصیات میں سے ایک عظیم ترین شخصیت ہیں جنہیں میں نے اپنی زندگی میں دیکھا ہےایک رات وہ قم میں ہمارے مہمان تھے اور ہم بھی ان کے ساتھ قم کے ایک عالم کے یہاں دعوت میں مدعو تھےبعض ادبی ذوق رکھنے والے افراد اور شعرا بھی وہاں موجود تھےاُُس رات مجھے معلوم ہوا کہ آنجناب شعر وادب سے کس قدر شغف رکھتے ہیں اور عربی و فارسی کے کس قدر بہترین اشعارانہیں یاد ہیں دوسرے لوگ بھی شعر سنا رہے تھے لیکن انتہائی عام سے اشعار، سعدی اور حافظ وغیرہ کے اشعارآنجناب بھی شعر پڑھ رہے تھے اور بتاتے جاتے تھے کہ فلاں شعرفلاں سے بہتر ہے، فلاں مضمون کو فلاں نے بہتر انداز میں بیان کیا ہے، کس نے اس طرح کہا ہے اور کس نے اُس طرح
شعر پڑھنا اور وہ بھی اس طرح کے شعر پڑھنا گناہ نہیں ہےالبتہ رات کے وقت شعر پڑھنا مکروہ ہےخدا جانتا ہے، جب ہم باہر نکلے تو وہ (ہمارے استاد) شدت کے ساتھ لرز رہے تھےکہتے تھے کہ میں بہت ارادہ کرتا ہوں کہ رات کو شعر نہ پڑھوں لیکن آخر کار اپنے آپ کو نہیں روک پاتامسلسل اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه اُن کی زبان پر جاری تھاایک ایسے انسان کی مانند جو انتہائی عظیم گناہ کر بیٹھا ہومعاذ اﷲ اگر ہم نے شراب پی ہوتی، تب بھی اس قدر مضطرب نہیں ہوتے جس قدر وہ ایک مکروہ عمل پر اظہارِ اضطراب کر رہے تھے
ایسے افراد کیونکہ خدا کے محبوب بندے ہوتے ہیں اس لئے خدا کی طرف سے انہیں ایک قسم کی سزا دی جاتی ہے، جبکہ ہم اور آپ اس قسم کی سزاؤں کی اہلیت اور لیاقت نہیں رکھتےآنجناب روزانہ صبح طلوع ہونے سے کم ازکم دو گھنٹے پہلے بیدار ہوجاتے تھے،
میں نے شب بیداری کا مفہوم انہی سے سیکھا ہےمیں نے ”شب ِمردانِ خدا روزِ جہان افروزاست“ (اﷲ والوں کی رات روشن دن کی طرح ہوتی ہے) کے معنی انہی سے سیکھے ہیں ، عبادت اور خداشناسی کا سبق انہی سے حاصل کیا ہے، استغفار کامفہوم انہی سے سیکھا ہے، حال اور خدا میں مجذوب ہو جانا انہی سے سمجھا ہے
اس رات جب وہ بیدار ہوئے تو صبح کی اذان ہو رہی تھیخدا نے انہیں سزا دے دی تھیبیدار ہوتے ہی انہوں نے ہمیں جگایااور کہا کہ یہ گزشتہ رات کی شعر خوانی کا اثر تھا!!
ایک ایسی روح جس کا ایمان اس قدر مستحکم ہو، جب اُس پر معمولی سی بھی ضرب پڑتی ہےیعنی جب اس کے پست مقامات کی جانب سے اس کے عالی مقامات پراس قسم کا چھوٹا سا حملہ بھی ہوتا ہے، تویہ عالی مقامات اس (حملے) پراپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں ، اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہیں ، حتیٰ سزا بھی دیتے ہیں کہ دیکھو!ہم تمہیں بخشیں گے نہیں ، یوں ہی چھوڑ نہیں دیں گے!
ایک ایسا انسان جو رات کو شعر خوانی کرے، اپنے دو گھنٹے شعر پڑھنے میں گزارے، وہ دو گھنٹے خداوند متعال کے ساتھ مناجات کے لائق نہیں رہتا
آپ کی خدمت میں ایک اور مثال عرض کرتا ہوں: اگر آپ ایک نہایت صاف وشفاف آئینہ لے کر، اسے صاف کرنے کے بعد ایک ایسی صاف فضا میں میز پررکھ دیں جس میں خود آپ بھی بخوشی سانس لینا پسند کرتے ہوںکچھ دیر بعد آپ دیکھیں گے کہ اُس آئنے پر گرد جمی ہوئی ہےیہ گرد آپ کو پہلے محسوس نہیں ہورہی تھی، میز پر بھی یہ آپ کو دکھائی نہیں دے رہی تھیدرو دیوار پر بھی اس کا احساس نہیں ہو رہا تھا
جتنی دیوار زیادہ گندی ہوگی، اُس پرگندگی اور سیاہی کے اثرت اور داغ دھبے اتنے ہی کم دکھائی دیں گےیہاں تک کہ اگر وہ سیاہ اور تارکول زدہ ہو تو اس پر لگنے والا چراغ کا سیاہ دھواں بھی نظر نہ آئے گاپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہر مجلس میں پچیس مرتبہ استغفار کرتے تھےکہا کرتے تھے کہ: اِنَّهُ لَیُغانُ عَلیٰ قَلْبِیْ وَ اِنِّیْ لَاَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ کُلَّ یَوْمٍ سَبْعِیْنَ مَرَّةٍ (سفینۃ البحارج ۲ص ۳۲۲)
یہ سب کیا ہے؟ ہم کہتے کیا ہیں اور سمجھتے کیا ہیں ؟
فرماتے تھے: میں اپنے دل پر کدورت کے آثار محسوس کرتا ہوں اور اس کدورت کو دور کرنے کے لئے روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں
یہ کدورتیں کیا ہیں ؟ یہ کدورتیں ہمارے لئے آئینہ ہیں ، ہمارے لئے نورانیت ہیں ، لیکن اُن کے لئے کدورت ہیں جب وہ ہمارے ساتھ بات کرتے ہیں ، چاہے اُن کی بات خدا کے لئے ہو، چاہے وہ ہمارے آئینہ وجود میں خدا کو دیکھ رہے ہوں، پھر بھی اُن کی نظر میں یہ کدورت ہے
”امِ سَلَمہ“ اور دوسروں نے کہا ہے کہ آنحضرت کی وفات سے ایک دو ماہ پہلے ہم دیکھا کرتے تھے کہ آپ جب بھی اٹھتے یابیٹھتے یا کوئی بھی کام کرتے سُبْحَانَ اللّٰهِ وَ اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه ضرور کہتےیہ ایک بالکل نیا ذکر تھا
امِ سلمہ کہتی ہیں ، میں نے عرض کیا: یارسول اﷲ! ان دنوں آپ اس قدر زیادہ استغفار کیوں کررہے ہیں ؟ فرمایا: مجھے یہی حکم دیا گیا ہےنُعِیَتْ اِلیٰ نَفْسِی ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ آخری سورہ جو آنحضرت ؐکے وجودِ اقدس پر نازل ہوا، وہ سورہ نصر ہےجب یہ سورہ نازل ہوا تو پیغمبر اکرم کو احساس ہوگیا کہ یہ اُن کی موت کی اطلاع ہےیعنی اب آپ کا وقت پورا ہوچکا ہے، اب تمہیں یہاں سے کوچ کرناہےسورہ مبارک نصر یہ ہے:
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اﷲِ وَ الْفَتْحُ وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اﷲِ اَفْوَاجً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ اسْتَغْفِرْه اِنَّه کَانَ تَوَّابًا
یہ قرآن کس قدر لذت بخش ہے! کس قدر خوبصورت ہے!انسان اسے اپنی زبان پر جاری کرکے لطف اندوز ہوتا ہے، خوشی محسوس کرتا ہے
ارشادِ الٰہی ہے:اے پیغمبر! جب پروردگار کی مدد آجائے، جب پروردگار کی مدد آکر آپ کو آپ کے مخالفین پر فتح عطا کردے، جب آپ کو شہر کی فتح یعنی فتحِ مکہ نصیب ہوجائے، اور جب آپ دیکھ لیں کہ لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہورہے ہیں ، تواس کے بعد فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد کیجئے اور استغفار کیجئے کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے
کیا تعلق ہے اُس ابتدا اور اِس انتہا کے درمیان؟
فتح و کامیابی اور لوگوں کے گروہ در گروہ دین اسلام میں داخل ہونے کے بعد آنحضرت کیوں تسبیح کریں؟
مراد یہ ہے کہ اب آپ کی ذمے داری ختم ہوئی
یہ پیغمبر اسلام ؐ پر نازل ہونے والاآخری سورہ ہے، حتیٰ یہ حضرت علی ؑکے بارے میں نازل ہونے والی آیات اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (سورہ مائدہ۵آیت۳) اور یٰاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّک (سورہ مائدہ۵آیت۶۷) کے بھی بعد نازل ہوا ہے
اب آپ اپنی ذمے داری ادا کرچکے ہیں ، پس (اپنے پروردگار کی) تسبیح کیجئےپیغمبر اسلام نے محسوس کر لیا کہ مراد یہ ہے کہ اب میرا کام ختم ہو گیا ہے، پس اب اپنی فکر کرواسی لئے آپ ہر وقت تسبیح و استغفار میں مشغول رہاکرتے تھے
لیکن ہم بدبختوں کا دل اُسی تارکول زدہ دیوار کی مانند ہےافسوس ایک کے بعد ایک گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں ، ایک نافرمانی کے بعد دوسری نافرمانی کرتے ہیں ، لیکن ہماری روح میں کسی قسم کا ردِ عمل پیدا نہیں ہوتامجھے نہیں معلوم ہماری روح کے وہ فرشتے کہاں اورکس قدر قید ہوچکے ہیں ، ان کے ہاتھ پاؤں کن زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ، کہ ہمارے دل میں ہلچل نہیں مچتی، ہمارا دل نہیں لرزتا
عبودیت کی پہلی منزل توبہ ہےاگر آپ کو اپنی روح میں کوئی ہلچل نظر آتی ہے، اگرکوئی ندامت دکھائی دیتی ہے، اگر احساسِ پشیمانی دکھائی دیتا ہے، اگر اپنا ماضی سیاہ محسوس ہوتا ہے، اگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ جس راستے پر آپ آج تک چلتے رہے ہیں ، وہ غلط تھا، زوال کی جانب تھا، جو آپ کو پستی کی طرف لے جا رہا تھااور اب آپ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سے باہر نکلنا ہے، اوپر کی جانب اٹھنا ہے، خدا کی طرف آنا ہے، تو آپ عبودیت، عبادت اور سلوک کی پہلی منزل پر پہنچ چکے ہیں اور یہاں سے آغاز کر سکتے ہیں ، اور اگر ایسا نہیں ، توپھر یہ ممکن نہیں
عمل کے بغیر آخرت بخیر نہیں ہوگی
ایک شخص مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے امیر المومنین! مجھے نصیحت فرمایئےحضرت ؑ نے اُسے کئی نصیحتیں کیںان نصائح کے پہلے دو جملے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوںہمارے لئے فی الحال یہی دو جملے کافی ہیں فرمایا: لاَ تَکُنْ مِمَّنْ یَرْجُواالْآخِرَةَ بِغَیْرِ عَمَلٍ وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِیَقُوْلُ فِی الدُّنْیَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِیْنَ وَ یَعْمَلُ فِیْهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِیْنَ (۱)
فرمایا: تمہیں میری نصیحت یہ ہے کہ، تم اُن لوگوں میں سے نہ ہونا جو آخرت کی امید رکھتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ بغیر عمل کئے آخرت حاصل کرلیںہم سب لوگوں کی طرحہم بھی کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب ؑ کی محبت کافی ہے، جبکہ ہماری محبت بھی سچی محبت نہیں ہے، اگر ہماری محبت سچی ہوتی تو اس کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہوتاہم کہتے ہیں کہ (علی ؑ سے) یہی ظاہری تعلق کافی ہے! ہم سمجھتے ہیں کہ علی ؑ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں (محبت کرنے والوں کی) ضرورت ہے، اور اگر کچھ لوگ ان سے جھوٹ موٹ کا تعلق رکھیں تو یہ بھی کافی ہے، ہمیں سرِ دست دکھاوے کے لئے لشکر کی ضرورت ہے، دکھاوے کے لئے یہی لشکری کافی ہیں
--------------
1:- تمہیں اُن لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہئے جو عمل کے بغیر حسنِ انجام کی امید رکھتے ہیں اور امید بڑھا کر توبہ میں تاخیر کرتے ہیں جو دنیا میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر اُن کے اعمال دنیا طلب لوگوں جیسے ہوتے ہیں (نہج البلاغہ کلماتِ قصار۱۵۰)
ہم سمجھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام پر ایک جھوٹ موٹ کاگریہ کافی ہے، لیکن امیر المومنین نے فرمایا ہے: یہ جھوٹ ہےاگر علی ابن ابی طالب ؑکی محبت تمہیں عمل کی طرف مائل کرے، تو جان لو کہ تمہاری محبت سچی ہے، اگر حسین ا بن علی ؑ پر گریہ تمہیں عمل کی طرف لیجائے، تو جان لو کہ تم نے حسین ابن علی ؑ پر گریہ کیا ہے اور تمہارا گریہ سچا ہے، ورنہ شیطان کا فریب ہے
دوسرے جملے میں آپ ؑ نے فرمایا: وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَل اے شخص! ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا جو اپنے اندر توبہ کی ضرورت تو محسوس کرتے ہیں لیکن یہ کہہ کر توبہ نہیں کرتے کہ ابھی دیر نہیں ہوئی، بہت وقت پڑا ہے
بھائیو! اگر حضرت علی ؑ تشریف لائیں اور ہم اُن کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں کہ آقا ہمیں نصیحت فرمائیے اور وہ وہی جملہ ہم سے کہیں کہ: لاَ تَکُنْ مِمَّنْ یَرْجُواالْآخِرَةَ بِغَیْرِ عَمَلٍ وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِ، توہم کب تک یہی کہتے رہیں گے کہ ابھی دیر نہیں ہوئی ہے، ابھی وقت پڑا ہے؟ ابھی تو ہم جوان ہیں کہیں گے کہ:حضور! ابھی تو میں بیس سالہ جوان ہوں، ابھی میرے لئے توبہ کرنے کا وقت کہاں آیا ہے؟
جوانی، توبہ کا بہترین وقت
عجیب بات یہ ہے کہ بعض بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد جب کسی جوان کو دیکھتے ہیں کہ وہ عبادت کی طرف مائل ہے اور اپنے گناہ کی طرف متوجہ ہے، اور توبہ اور ندامت کی حالت میں ہے، تواُس سے کہتے ہیں : ارے بیٹا! تم توابھی جوان ہوابھی تمہارے لئے ان باتوں کا وقت نہیں ہے
اتفاقاً جوانی ہی اس کا بہترین وقت ہےایک شاخ جب تک تازہ ہوتی ہے، اُس میں سیدھا ہونے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہےاور جوں جوں وہ بڑی اور خشک ہوتی چلی جاتی ہے، اُس کی یہ صلاحیت کم ہونے لگتی ہےعلاوہ ازیں کس نے اس جوان کو اس کی زندگی، ادھیڑ عمری اور اُس کے بعد بڑھاپے تک پہنچنے کی گارنٹی دی ہے؟
جب تک جوان ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ جوان ہیں ، جب ادھیڑ عمرکو پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ابھی بہت وقت پڑا ہےتوبہ تو بڑھاپے میں کی جاتی ہے، جب بوڑھے ہوجائیں گے، کسی کام کے نہ رہیں گے اور تمام طاقتیں ہم سے چِھن جائیں گی، تواُس وقت توبہ کرلیں گے
ہم نہیں جانتے کہ یہ ہماری غلط فہمی ہےاتفاقاً اُس وقت بھی ہم توبہ نہیں کرتے، اُس وقت ہمارے پاس توبہ کا حوصلہ ہی نہیں ہوگاگناہوں کے بوجھ سے ہماری کمر اس طرح خم ہوجائے گی کہ پھر ہمارا دل توبہ کرنے پر تیارہی نہیں ہوگاایک بوڑھے سے زیادہ ایک جوان کا دل توبہ کے لئے تیار ہوتا ہےمولاناروم نے کیا خوب کہا ہے:
خار بن در قوت و برخاستن
خار کَن در سستی و در کاستن
وہ ایک مثال پیش کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ایک شخص نے سرِ راہ ایک خاردار جھاڑی لگائییہ جھاڑی بڑی ہونے لگی تولوگوں نے اُس سے کہا کہ جناب اس جھاڑی کو اکھاڑ دیجئےاُس نے کہا: ابھی جلدی کیا ہے، معمولی سی جھاڑی ہے آسانی سے اکھڑ جائے گی(کچھ دن بعد) لوگوں نے دوبارہ اُس سے درخواست کیاُس نے جواب دیا: کیا جلدی ہے، ابھی کاٹ پھینکیں گے، آئندہ سال کاٹ دیں گےاگلے سال وہ جھاڑی بڑھ کر تنومند ہوگئیاور جھاڑی بونے والا؟ وہ مزید بوڑھا ہوگیالوگوں نے کہا :آؤاسے کاٹ ڈالیںکہنے لگا: ابھی جلدی کیا ہے؟ بعد میں کاٹ ڈا لیں گے
خاردار جھاڑی ہر سال بڑھتی رہی، جڑیں پھیلاتی رہی، اس کا تنا موٹا ہوتا چلاگیا، اس کے کانٹے تیز تر ہوتے گئے او راس کا خطرہ بڑھتا گیاجبکہ اسے کاشت کرنے والا شخص بوڑھا ہوتا گیا اور اس کی طاقت کمزور پڑتی رہی:
خاربن در قوت و برخاستن
خار کن در سستی و در کاستن
مولانا روم ہم سے کہنا چاہتے ہیں کہ تمہارے وجود میں بُری عادات اورناپسندیدہ اخلاق اُس خاردار جھاڑی کی مانندنشو ونما پاتے رہتے ہیں ، اُن کی جڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں ، اُن کا تنا موٹے سے موٹا، اُن کے کانٹے تیز تراور زیادہ سے زیادہ خطرناک ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن تم خوددن بدن بوڑھے ہوتے جاتے ہو، تمہاری قوت، تمہاری وہ مقدس قوتیں کمزور پڑتی چلی جاتی ہیں
جوانی کے دنوں میں تم ایک ایسے طاقتور انسان کی مانندہوتے ہوجوایک پودے کو اکھاڑنا چاہتا ہے، تو اسے فوراً اکھاڑ سکتا ہے، اس کی جڑوں کو بھی کاٹ کر دور پھینک سکتا ہے، لیکن بوڑھا ہونے کے بعد تم ایک ایسے کمزور انسان کی مانند ہوگے جو اپنے ہاتھوں سے ایک مضبوط درخت اکھاڑنا چا ہے، تو خواہ وہ کتنا ہی زور لگا لے درخت جڑ سے نہیں اکھاڑسکے گا
خدا کی قسم! ایک ایک دن، ایک ایک گھنٹہ اہمیت کا حامل ہےاگر ہم ایک رات کی بھی تاخیر کریں تو غلطی پر ہیں !یہ نہ کہئے کہ کل رات شب ِ تئیس رمضان ہے، لیلۃ القدر میں سے ایک رات ہے اور توبہ کے لئے بہترین شب ہےنہیں ، یہی آج کی رات کل کی رات سے بہتر ہےیہی لمحہ اگلے لمحے سے بہتر لمحہ ہےتوبہ کے بغیر عبادت قبول نہیں ہےپہلے لازم ہے کہ توبہ کریں
کہتے ہیں : ”صفائی ستھرائی کرو، پھر خرابے میں گھومو“پہلے صفائی کرو، اس کے بعد اس پاک وپاکیزہ جگہ میں داخل ہوہم توبہ نہیں کرتے اور روزہ رکھتے ہیں ! توبہ نہیں کرتے اور نماز پڑھتے ہیں ! توبہ نہیں کرتے اور حج کو جاتے ہیں ! توبہ نہیں کرتے اور قرآن پڑھتے ہیں ! توبہ نہیں کرتے اور ذکر کرتے ہیں ! توبہ نہیں کرتے اور ذکر کی مجلسوں میں شرکت کرتے ہیں !
خدا کی قسم! اگر آپ ایک توبہ کرکے پاک ہوجائیں اور پھراس توبہ اورپاکیزگی کی حالت میں ایک دن اور ایک رات نماز پڑھیں، تو یہی ایک دن اور ایک رات آپ کو دس سال کے برابر آگے لے جائے گی اور مقامِ قربِ الٰہی پرپہنچادے گیہم قبولیت ِدعا کادروازہ گم کر چکے ہیں ، اس کے راستے سے واقف نہیں ہیں
استغفار کی حقیقت
ایک شخص امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور استغفار کیاوہ شخص بھی ہماری طرح یہ سمجھتا تھا کہ اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیْه بول دینے سے توبہ ہوجاتی ہےاور اگر اس (اَسْتَغْفِرُاللّٰهَ) کے ”غ“ کو زیادہ گاڑھا کر کے بولیں، تو ہماری توبہ بہت اچھی ہوجائے گیحضرت علی ؑ سمجھ گئے تھے کہ یہ بدبخت کس قدرگمراہ ہےبہت کم ایسا ہوا ہے کہ آپ ؑ نے اتنی شدت اختیار کی ہو اور اتنے سخت لہجے میں بات کی ہولیکن یہاں پر سخت لہجے میں بات کی اور فرمایا:
ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیِّیْنَ
”خدا تجھے موت دے! تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے! کیا تجھے معلوم ہے استغفار کیا ہے؟ استغفار بلند مرتبہ انسانوں کا درجہ ہے۔“ (نہج البلاغہ کلماتِ قصار۴۱۷)
استغفار، توبہ کی حالت اور ایک مقدس کیفیت ہے، ایک مقدس اور پاک فضا ہےآپ توبہ کی حالت پیدا کیجئے، سچی توبہ کیجئے، اس کے بعد آپ خود کو ایک مقدس فضا میں محسو س کریں گےآپ کو احساس ہوگا کہ لطف و عنایت ِ الٰہی آپ کی روح پر سایہ فگن ہےمحسوس کریں گے کہ فرشتوں کے ایک گروہ نے آپ کو گھیراہوا ہےآپ پاک ہو جائیں گےکیونکہ توبہ کی حالت میں انسان خودپسندی سے دور ہو جاتا ہےاپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور اپنے گناہوں کو نظر میں رکھتا ہے
اسلام میں کہتے ہیں کہ اگر توبہ کرنا چاہتے ہو، تو کسی پادری کے پاس جانے کی، کسی مولوی کے پاس جاکر اسے اپنے گناہ بتانے کی ضرورت نہیں ہےخدا کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرو، اسے اپنے گناہ بتاؤکیوں کسی انسان کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار و اعتراف کرتے ہو؟ اپنے غفار الذنوب (گناہوں کو معاف کرنے والے) خدا کے سامنے اقرار کرو
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِهِمْ لااَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِط اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا
کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت ِ خدا سے مایوس نہ ہونا کہ اﷲ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے(سورہ زمر۳۹آیت ۵۳)
یہ خدا کی آواز ہے: اے میرے زیادتی کرنے والے بندو! اے میرے گناہ گار بندو! اے میرے معصیت کار بندو! اے میرے وہ بندو جنہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے! میری رحمت سے ناامید نہ ہوناآؤ میرے پاس آؤمیں مان لوں گا، قبول کرلوں گاتوبہ کی فضا میں داخل ہوجاؤ
اس حدیث ِقدسی میں کتنے اعلیٰ اندازسے توبہ کی توصیف کی گئی ہے: اَنِینُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ تَسْبِیْحِِ الْمُسَبِّحِیْنَیعنی اﷲ تبارک و تعالیٰ، اس رحمت ِمطلق و کامل نے فرمایاہے کہ: گناہ گاروں کی نالہ و زاری، مجھے تسبیح کرنے والوں کی تسبیح سے زیادہ پسند ہےجاؤ اوراپنے خدا کی بارگاہ میں نالہ و فریاد کروسوچو تاکہ تمہارے گناہ تمہیں یاد آجائیںکسی دوسرے سے نہ کہنادوسروں کے سامنے گناہ کا اقرار خود گناہ ہےلیکن اپنے دل میں (تم خود تو جانتے ہی ہو، خود ہی اپنے قاضی اور اپنے محتسب بن جاؤ) اپنے گناہوں کو نظر میں رکھو، اس کے بعد ان گناہوں کو ذات ِپروردگار کے سامنے لے جاؤ، اپنی کوتاہیاں بیان کرو، گریہ کرو، زاری کرو، مغفرت طلب کرو، پاکیزگی مانگوخدا تمہیں بخش دے گا، تمہاری روح کو پاک و پاکیزہ کردے گا، تمہارے دل کو خالص کردے گا، اپنا لطف تمہارے شاملِ حال کردے گا
اور اس کے بعد ایک لذت، ایک ایسی حالت تمہارے اندر پیدا ہوجائے گی کہ عبادت کی مٹھاس محسوس کروگے، گناہ اور گناہوں کی لذت تمہاری نظروں میں گر جائے گی، پھر تم میں فلاں شہوت انگیز فلم دیکھنے کی رغبت نہیں رہے گی، لوگوں کی ناموس کی جانب دیکھنے کی طرف مائل نہیں ہوگے، تمہارا دل غیبت کرنے، جھوٹ بولنے، لوگوں پر تہمت لگانے کو نہ چاہے گا، تم دیکھو گے کہ تمہاری پوری توجہ پاکیزہ اور اچھے کاموں کی جانب ہے
اس کے بعد حضرت علی ؑنے استغفار کے لئے چھے شرائط کا ذکر کیا، جن میں سے دو توبہ کی رکن ہیں ، دو توبہ کی قبولیت کی شرط ہیں ، اور آخری دو کمالِ توبہ کی شرائط ہیں انشاء اﷲ کل رات آپ کے سامنے اس حدیث کی تشریح کریں گے
آپ دیکھتے ہیں کہ اُن پاکیزہ ترین پاک لوگوں کو اس بات سے لذت حاصل ہوتی تھی کہ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو کریں، اپنی تقصیر و کوتاہی، اپنے گناہ (کہ ان کا گناہ ہماری نسبت ترکِ اولیٰ ہے اور ترکِ اَولیٰ سے بھی ایک درجہ بلند تر ہے) کے بارے میں بات کریںحَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ (نیک لوگوں کی نیکیاں صاحبانِ قرب کے لئے گناہ ہیں )
دعائے ابوحمزہ ثمالی کو پڑھئے، دیکھئے کہ امام علی ابن الحسین ؑ اپنے خدا کے ساتھ کس طرح گفتگو کرتے ہیں ؟ کس طرح نالہ و فریاد کرتے ہیں ؟ اَنِینُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ تَسْبِیْحِ الْمُسَبِّحِیْنَ
دعائے ابوحمزہ ثمالی علی ابن الحسین ؑ کا نالہ وفریاد ہےآیئے خدا کے اس پاک وپاکیزہ بندے کے نالہ وفغاں کا کچھ حصہ دیکھتے ہیں انہیں اس بات سے لطف اور لذت حاصل ہوتی تھی کہ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپنی تمام تر حقارت، اپنے فقر، اپنی احتیاج ونیازاور اپنی کوتاہیوں کا ذکر کریں آپ کہا کرتے تھے کہ بارِ الٰہا !میری جانب سے کوتاہی ہی کوتاہی ہے اور تیری جانب سے لطف ورحمت مَوْلَایَ مَوْلَایَ اِذَا رَأیْتُ ذُنُوْبِیْ فَزَعْتُ وَ اِذَا رَأَیْتُ کَرَمَکَ طَمَعْتُ (دعائے ابو حمزہ ثمالی)
علی ا بن الحسین ؑفرماتے ہیں : میرے خدا! میرے مولا! میرے آقا! جب میری نظر اپنے گناہوں پر پڑتی ہے تومجھ پرخوف وہراس طاری ہوجاتا ہےلیکن جوں ہی میری نگاہ تیری طرف اٹھتی ہے، تیری رحمت کو دیکھتا ہوں، تو میرے دل میں امید پیدا ہوجاتی ہےمیں ہمیشہ خوف اور امید کے درمیان رہتا ہوںجب میں اپنی طرف دیکھتا ہوں تو مجھ پر خوف طاری ہوجاتا ہے، اور جب تجھے دیکھتا ہوں تومجھ پر امید غالب آجاتی ہےجی ہاں، وہ ایسے تھے
دو جملے مصائب کے بھی آپ کی خدمت میں عرض کروں گانو محرم کو عصر کے وقت لشکرِ عمر سعد نے عبید اﷲ ا بن زیاد کے حکم سے (امام حسین ؑپر) حملہ کردیاوہ اسی رات حسین ؑ سے جنگ کرنا چاہتے تھےامام حسین ؑ نے اپنے بھائی ابو الفضل العباس ؑکی وساطت سے ان سے ایک شب کی مہلت طلب کیفرمایا: بھیا! ان سے کہو کہ آج کی رات ہمیں مہلت دے دیںمیں کل جنگ کروں گامیں تسلیم ہونے والا نہیں ہوںمیں جنگ کروں گا لیکن مجھے آج ایک رات کی مہلت دے دیں (غروب کا وقت تھا) پھر اسلئے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ حسین ؑ وقت گزارنا چاہتے ہیں ، یہ جملہ فرمایا: بھیا! خدا خود جانتا ہے کہ میں اس کے ساتھ مناجات کو پسند کرتا ہوںمیں چاہتا ہوں کہ آج کی رات اپنی زندگی کی آخری رات کے طور پر اپنے خدا سے مناجات میں بسر کروں اوراسے اپنے لئے توبہ و استغفار کی شب قرار دوں
عاشور کی وہ شب، اگر آپ جان لیں کہ وہ کیسی رات تھی! معراج تھی، اس رات خوشی، شادابی اور مسرت حکم فرما تھیاس رات انہوں نے خود کو پاک و صاف کیا، حتیٰ اپنے بالوں کی بھی آرائش کی
ایک خیمہ تھا جس کا نام خیمہ ٔ تنظیف (صفائی کا خیمہ) تھااس خیمے میں کوئی موجودتھا اورباہر دو آدمی اپنی باری کے انتظار میں تھےان میں سے ایک نے جو بظاہر بُرَیر تھے، دوسرے کے ساتھ مذاق کیادوسرے نے اُن سے کہا: آج کی رات مذاق کرنے کی رات نہیں ہےانہوں نے کہا: بنیادی طور پر میں بھی شوخ طبیعت آدمی نہیں ہوں لیکن آج کی رات مذاق کی رات ہے
جب دشمن نے آکر ان توبہ کرنے والوں اور ان استغفار کرنے والوں کو دیکھا تو آپ جانتے ہیں انہوں نے ان کے بارے میں کیا کہا؟ امام حسینؑ کے خیمے کے قریب سے گزرنے کے بعد کہنے لگے (یہ دشمن کے الفاظ ہیں !!) : لَهُمْ دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَّحْلِ مَا بَیْنَ رَاکِعٍ وَ سَاجِدٍ (دمع السجوم ص ۱۱۸) یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انسان شہد کی مکھیوں کے چھتے کے قریب سے گزرا ہو
شہد کی مکھی کی بھنبھناہٹ کیسے بلند ہوتی ہے؟
امام حسین ؑ اور ان کے اصحاب کے ذکر، دعا، نماز و استغفار کی آواز بھی اسی طرح بلند تھی
امام حسین ؑ فرماتے ہیں : میں چاہتا ہوں آج کی رات کو اپنے لئے توبہ و استغفار کی شب قرار دوں (چاہتے ہیں اپنی شب ِ معراج قرار دیں)
کیا ہمیں توبہ کی ضرورت نہیں ہے؟
انہیں تو ضرورت ہو اور ہمیں نہ ہو؟
جی ہاں، حسین ابن علی ؑ نے وہ رات اِس طرح بسر کیعبادت میں بسر کیاپنے اور اپنے اہلِ بیت کے کام انجام دیئے، اور اسی رات اپنے اصحاب کے سامنے وہ عظیم خطبہ ارشادفرمایا
آپ کے سامنے صحرائے کربلا کے ایک تائب کا ذکر کرنے کے بعد اپنے عرائض ختم کروں گا:
ایک قبول ہونے والی توبہ، ایک انتہائی سچی توبہ، کربلا میں حر ابن یزید ریاحی کی توبہ ہےحر، ایک بہادر اورمضبوط انسان ہےپہلی بار جب عبید اﷲ ابن زیاد نے حسین ابن علی ؑ سے مقابلے کے لئے ایک ہزار سواروں کو بھیجنا چاہا، تو (اُن کی سربراہی کے لئے) اُسی کا انتخاب کیاوہ اہلِ بیت پیغمبر پر ظلم و ستم کا مرتکب ہوا
ہم نے عرض کیا تھا کہ جب بڑا ظلم سرزد ہوتا ہے تو انسان کا ضمیر، اگر نیم مردہ ضمیر بھی ہو، توردِعمل ظاہر کرتا ہےاب دیکھئے کہ روح کے پست مقامات کے مقابلے میں روح کے اعلیٰ مقامات کس انداز سے اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں ؟
راوی کہتا ہے کہ میں نے لشکرِ عمر سعد میں حرا بن یزید ریاحی کو اس حال میں دیکھا کہ وہ بید کی طرح لرز رہے تھےمجھے تعجب ہوا، آگے بڑھا اور کہا: حر! میں تمہیں بہت بہادر انسان سمجھتا تھااگر مجھ سے کوئی پوچھتا کہ کوفہ کا بہادر ترین انسان کون ہے، تو میں تمہارا نام لیے بغیر نہ رہتاتم کس طرح خوفزدہ ہو؟ تمہارے جسم پر لرزہ طاری ہےحر نے کہا: تم غلط سمجھ رہے ہومیں جنگ سے خوفزدہ نہیں ہوں(اس نے کہا ہوگا:پھر کس چیز سے ڈر رہے ہو؟ ) میں اپنے آپ کو جنت اور جہنم کے درمیان دیکھ رہا ہوںمیرے لئے جنت یادوزخ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہےمجھے سمجھ نہیں آرہاکہ کیا کروں، یہ راستہ اختیار کروں یا وہ راستہ؟
لیکن آخرکار حر نے جنت کا راستہ اختیار کیااس نے آہستہ آہستہ اپنا گھوڑا ایک طرف کیااس طرح سے کہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ اس کا مقصد او رہدف کیا ہےجیسے ہی وہ ایک ایسے مقام پر پہنچاجہاں اب کوئی اس کا راستہ نہیں روک سکتا تھا، اُس نے یکایک اپنے گھوڑے کو چابک رسید کی اور امام حسین ؑ کے خیموں کی طرف آگیا
لکھا ہے کہ اس علامت کے طور پر کہ میں جنگ کی نیت سے نہیں آیا ہوں، امان کی غرض سے آیا ہوں، حر نے اپنی ڈھال کو الٹا کرلیاتھاامام حسین ؑ کے قریب پہنچتا ہے، سلام عرض کرتا ہے، اور اس کا پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ: هَلْ تَریٰ لِیْ مِنْ تَوْبَةٍ؟ (لہوف ص۴۳) کیا اس گناہ گار کی توبہ قبول ہوگی؟ امام حسین ؑ فرماتے ہیں : ہاں! قبول ہے
امام حسین ؑ کی کرم نوازی دیکھئے! یہ نہیں فرماتے کہ یہ کیسی توبہ ہے؟ ہمیں اس مشکل میں ڈالنے کے بعد اب توبہ کرنے آئے ہو؟ لیکن حسین ؑ اس طرح نہیں سوچتے تھےحسین ؑ ؑہر صورت میں لوگوں کی ہدایت کرنا چاہتے ہیں اگرآپ ؑ کے تمام جوانوں کو قتل کرنے کے بعد بھی عمر سعد کا لشکر توبہ کرلیتا، تب بھی آپ ؑفرماتے کہ تم سب کی توبہ قبول کرتا ہوںاس کی دلیل یہ ہے کہ جب حادثہ کربلا کے بعد یزید ابن معاویہ نے علی ابن الحسین (امام زین العابدین) سے کہاتھا کہ اگر میں توبہ کرلوں تو کیا میری توبہ قبول ہوگی؟ توامام ؑ نے فرمایاتھا کہ: ہاں، اگر تو واقعی سچی توبہ کرلے توقبول ہوگی لیکن اُس نے توبہ نہیں کی
حر نے امام حسین ؑ سے کہا: آقا!مجھے میدان میں جانے کی اجازت دیجئے تاکہ میں آپ پر اپنی جان فدا کردوںامام ؑ نے فرمایا: تم ہمارے مہمان ہو، گھوڑے سے نیچے آؤ، چند لمحے یہاں ٹھہروحر نے عرض کیا: آقا! آپ کی اجازت سے میرا جانا بہتر ہوگا
حر شرمندہ تھے، انہیں شرم آرہی تھیکیوں؟ اسلئے کہ وہ دل میں کہہ رہے تھے کہ خدایا میں ہی وہ گناہگار ہوں جس نے سب سے پہلے تیرے اولیا کے دلوں کو تڑپایا تھاتیرے نبی کی اولاد کو دہشت زدہ کیا تھا
وہ کیوں حسین ابن علی ؑ کے ساتھ بیٹھنے پر تیار نہیں ہوئے؟
کیونکہ انہوں نے یہ سوچا ہوگاکہ میں یہاں بیٹھوں، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ حسین ؑ کا کوئی بچہ یہاں آجائے، اس کی نظر مجھ پر پڑے اور میں شرم کے مارے ڈوب مروں
’وَ لَاحَوْلَ وَ لَاقُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ وَ صَلَّی اللّٰهُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلَهِ الطَّاهِرِیْنَ “
”بِاِسْمِکَ الْعَظِیْمِ الْاَعْظَمِ، اَلْاَعَزِّ الْاَجَلِّ الْاَکْرَمِ یَااَللّٰه اَللّٰهُمَّ اقْضِ حَوَائِجَنَا، وَاکْفِ مُهِمَّاتِنَا، وَاشْفِ مَرْضَانَا، وَ ارْحَمْ مَوْتَانَا، وَ اَدِّ دُیُوْنَنَا، وَوَسِّعْ فِیْ اَرْزَاقِنَا، وَاجْعَلْ عَاقِبَةَ اُمُورِنَا خَیْراً، وَ وَفِّقْنَا لِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضیٰ “
”رَحِمَ اللّٰهُ مَنْ قَرَأالْفَاتِحَةَ مَعَ الصَّلَوٰاتِ “
دوسرا خطاب
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالَمِینَ بٰارِیِٔ الْخَلاٰئِقِ اَجْمَعیِنَ وَالصَّلوٰةُ وَالسَّلاٰمُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰهِ وَ رَسُولِهِ وَحَبِیبِهِ وَصَفِیِّهٍ، وَحَافِظِ سِرِّه، ِ وَ مُبَلِّغِ رِسَالاتِهِ سَیِّدِنٰا وَنَبِیِّنٰا وَمَوْلاٰنٰااَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِهِ الطَّیِّبیِنَ الطَّاهِرِینَ الْمَعْصْومِینَاَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمْ:
قَالا اَارَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاوَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(سورہ اعراف۷آیت۲۳)
گزشتہ رات ہماری گفتگو توبہ کے بارے میں تھیہم نے عرض کیا تھا کہ توبہ اہلِ سلوک اور اہلِ عبادت و بندگی کی پہلی منزل ہےاگر کوئی پروردگار کے تقرب کا خواہشمند ہو، تواس کے لئے اپنے آپ کو تیارکرنے کی غرض سے اُسے چاہئے کہ اپنے سیاہ ماضی سے منھ موڑے اور توبہ کرے
توبہ کی مہلت کب تک ہے؟
ہم نے وعدہ کیا تھا کہ توبہ کی جووضاحت حضرت علی علیہ السلام نے کی ہے، اور جس میں توبہ کی حقیقت، اس کی شرائط اور اس کے مرحلہ کمال کی نشاندہی کی ہے، اُسے آپ کی خدمت میں بیان کریں گےاس بارے میں امام ؑ کے بیان کو عرض کرنے سے پہلے مقدمے کے طور پر ایک سوال کا جواب عرض کرتے ہیں وہ سوال یہ ہے کہ: انسان کی توبہ کس وقت قبول ہوتی ہے، کونسا موقع توبہ کا وقت ہوتا ہے؟ یعنی کس وقت تک انسان کو توبہ کی مہلت حاصل ہے؟
انسان جب تک اس دنیا میں ہے اور اس کارشتہ حیات باقی ہے اور جب تک موت بالکل اس کے سر پر نہ آجائے، اسے توبہ کی مہلت حاصل ہےجب انسان موت کے چنگل میں گرفتار ہوچکا ہو اور اسے نجات کی کوئی امید نہ ہو، صرف اس وقت اس کی توبہ قبول نہیں ہوتیوہ آخری لمحات اور لحظات جنہیں احادیث میں وقت ِ معائنہ کہا گیا ہے، یعنی وہ لمحہ جب انسان موت کااور اگلے جہان کا معائنہ کرتا ہے، انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، اور عین اس وقت جبکہ ابھی وہ زندہ ہوتا ہے اسکے باوجود اگلی دنیا کو اپنے سامنے موجود پاتا ہےاس لمحے سے پہلے پہلے انسان کی توبہ قبول ہوسکتی ہےلیکن خود اس لمحے میں توبہ قبول نہیں ہوگیاسی طرح آخرت میں بھی توبہ بے معنی ہوجاتی ہےوہاں نہ انسان کو توبہ کا حوصلہ ہوگا اورنہ اگر بالفرض توبہ کرنابھی چاہے، جو قطعی طور پر حقیقی توبہ نہیں ہوگی، صرف ایک ظاہری عمل ہوگا، اس کی توبہ قبول نہیں ہوگیاس معاملے میں ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ اس سوال کا جواب ہماری گزشتہ رات کی گفتگو کو مکمل کرے گا، اسلئے ہم آج رات یہ گفتگوکر رہے ہیں
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ ”معائنے“ کے لمحے میں توبہ کیوں قبول نہیں ہوتیقرآن واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ :
فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْآ ٰامَنَّا بِاﷲِ وَحْدَه وَ کَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِه مُشْرِکِیْنَ
پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کر رہے ہیں (سورہ مومن۴۰آیت ۸۴)
یعنی جوں ہی انہوں نے ہمارے انتقام کودیکھا، توبہ کرنا چاہی، ہم اُن کی توبہ قبول نہیں کریں گےجس لمحے ہمارا انتقام ان کے سر پر پہنچے، اس لمحے ان کا اظہارِ ایمان کرنا، اظہارِتوبہ کرنا بے فائدہ ہوگا
کیوں؟ اسلئے کہ توبہ صرف پشیمانی اورصرف پلٹنے کا نام نہیں ہےیعنی اگر انسان کسی بھی سبب سے صرف اپنی گمراہی سے لوٹ آئے، تو اسے توبہ شمار نہیں کیا جائے گاتوبہ اس وقت ہوگی جب انسان کے اندر ایک اندرونی انقلاب پیدا ہوجائےیعنی انسان کی شہوانی، غضبی اور شیطانی قوتیں اُس کی تباہکاریوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوں، اور انسان کے وجود کی مملکت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیںیہ ہیں توبہ کے معنیتوبہ یعنی انسان کا اندرونی انقلاب
ایک مرحلے پر پہنچنے کے بعد، جب انسان کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ موت کے چنگل میں پھنس چکا ہے اور عذاب ِ الٰہی اسے اپنے سامنے نظر آتا ہے، ظاہر ہے وہ ایسے موقع پر اظہارِ ایمان کرتا ہے، لیکن ایمان کا یہ اظہار اُس کے اندر پیدا ہونے والا مقدس انقلاب نہیں ہوتاقرآن، فرعون کے بارے میں کہتا ہے :
حَتّٰی اِذَآ اَدْرَکَهُ الْغَرَقُلا قَالَ ٰامَنْتُ اَنَّه لااَآ اِٰلهَ اِلَّا الَّذِیْ ٰامَنَتْ بِه بَنُوْآ اِسْرَآئِیْلَ
یہاں تک کہ جب غرق ہونے کے قریب پہنچ گیا تو اس نے آواز دی کہ میں اس خدائے واحد ہٗ لا شریک پر ایمان لے آیا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں (سورہ یونس۱۰آیت ۹۰)
فرعون جب تک دنیا میں ہے اوراس کے جسم کو دنیا کی ہوالگ رہی ہے وہ فرعونیت کا مظاہرہ کرتا ہے، کوئی دلیل نہیں مانتا، کسی وعظ و نصیحت کوقبول نہیں کرتا، موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلے منعقد کرواتا ہے، خود جادوگر ایمان لے آتے ہیں لیکن وہ مزید سرکشی کا اظہار کرتا ہے، موسیٰ اور ان کی قوم کے قتل کے درپے ہوجاتاہے، اُن کا تعاقب کرتا ہےجب وہ دریا میں ڈوبنے لگتا ہے، پانی اسے گھیر لیتا ہے، اُسے اپنی زندگی کا اختتام نظر آنے لگتا ہے اور اسے یقین ہوجاتا ہے کہ اب اُس کے پاس بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہا، تو کہتا ہے: قَالَ امَنْتُ اَنَّه لااَآ اِٰلهَ اِلَّاالَّذِیْ ٰامَنَتْ بِه بَنُوْآ اِسْرَآئِیْلہاں، میں اب موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آیا
اب یہاں پہنچ کر اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی
خدا اس کی توبہ کیوں قبول نہیں کرے گا؟
کیا خدا بخل سے کام لے رہا ہے؟
نہیں ، اگر توبہ ہو تووہ قبول کرے! یہ توبہ ہی نہیں ہےتوبہ، یعنی باطن میں پیدا ہونے والا ایک مقدس انقلابیہ مقدس باطنی انقلاب نہیں ہے
ایک ایسا انسان جو دریا کی تہہ میں ہو، جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہو، وہ جس طرف بھی نگاہ اٹھائے اُسے پانی ہی دکھائی دے، اور اس حال میں وہ توبہ کا اظہار کرے، تو ایسے شخص کا ضمیر منقلب نہیں ہوا ہے، اُس کی فطرت زندہ نہیں ہوئی ہے، اُس نے خود اپنے خلاف قیام نہیں کیا ہےبلکہ اب اس حال میں جب وہ اپنے آپ کوبے بس اور لاچار محسوس کر رہا ہے، تو مجبوراً اظہارِ تسلیم کر رہا ہےلہٰذا اُس سے کہتے ہیں کہ: ٰٓالْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْل
تو آواز آئی کہ اب جبکہ تو پہلے نافرمانی کر چکا ہے(سورہ یونس ۱۰آیت ۹۱)
لمحے بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اُس وقت تم نے یہ بات کیوں نہ کہی؟ گھڑی بھر پہلے جب تم آزاد تھے، اگر اُس وقت یہ کہا ہوتا، تو پتا چلتاکہ تمہارے اندر ایک مقدس انقلاب پیدا ہوا ہےلیکن اب جب یہ کہتے ہو، تو یہ، کسی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ مجبوری اور بے بسی کی بنا پرہے
دنیا کا کونسامجرم ایسا ہے جو عدالت کے کٹہرے میں آنے کے بعد پشیمانی کا اظہار نہیں کرتا؟ لیکن یہ پشیمانی نہیں ہے، اصلاح نہیں ہے، راہِ راست پرآنے کی علامت نہیں ہےاگرگرفتار ہونے سے پہلے خودمجرم کے اندر انقلاب پیدا ہو جائے اور اس کے پاس جرم کرنے کاموقع ہو، اُس کے باوجود جرم کا مرتکب نہ ہو، تواس کا نام توبہ اور مخلصانہ رجوع ہےپس آخری لمحات میں، اس حال میں کہ جب انسان کو دوسری دنیا نظر آنے لگتی ہے اُس کی توبہ قبول نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ توبہ ہوتی ہی نہیں ایسا نہیں ہوتا کہ وہ توبہ ہے لیکن اسے قبول نہیں کیا جاتا، نہیں ، یہ اصلاً توبہ ہوتی ہی نہیں ہے
رہی بات یہ کہ اُس دوسری دنیا میں انسان کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوتی؟ توپہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا جواب اسی پہلے جواب سے واضح ہےکیونکہ اُس دنیا میں بھی انسان ہر چیز کو دیکھ لیتا ہے، سب کچھ اُس کے سامنے ہوتا ہےلہٰذا جب وہ وہاں پرتوبہ کا اظہار کرتا ہے
اور کہتا ہے کہ خدایا! میں پشیمان ہوں، تو اُس کا یہ اظہارِ پشیمانی اُس میں پیدا ہونے والے باطنی مقدس انقلاب کی وجہ سے نہیں ہے، ایک آزاد انقلاب نہیں ہے
دوسری بات یہ کہ جوں ہی انسان اس دنیا سے قدم باہر رکھتا ہے، اُسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اب اُس کی حیثیت کیاہےاُس کی حیثیت اُس پھل کی سی ہے جو ایک درخت پر تھااور اب پک کریا کسی بھی وجہ سے درخت سے جدا ہو گیا ہے
پھل جب تک درخت پر رہتا ہے، اُس وقت تک درخت کے نظام کا تابع ہوتا ہےاگر اُس کی نشوونما ہوتی ہے، تو درخت کے ذریعے ہوتی ہےاگر اُس تک پانی پہنچتا ہے، تو درخت کی جڑوں کے راستے پہنچتا ہےاگر غذائی مواد اُس تک پہنچتا ہے، تو درخت کے ذریعے پہنچتا ہےاگر وہ ہوا سے استفادہ کرتا ہے، تو درخت کے ذریعے استفادہ کرتا ہےاگر اُس کا ذائقہ میٹھا ہوتا ہے، تو اُس عمل اور ردِ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جو درخت میں انجام پاتا ہےاگر اُس کا رنگ بدلتا ہے، تو یہ بھی درخت ہی کے ذریعے ہوتا ہے
جوں ہی پھل درخت سے جدا ہوتا ہے، اُس کے لئے موجود تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں مثلاً لمحے بھر پہلے جو سیب زمین پر گرا تھا، وہ کچا درخت پر موجود تھا، اُس کے لئے اِس بات کا امکان تھا کہ وہ پک جائے، ایک اور مرحلہ طے کرلے، اُس کا رنگ بدل جائے، اُس کے حجم میں اور اضافہ ہوجائے، ذائقہ اور خوشگوار ہوجائے، اُس کی مٹھاس بڑھ جائے، وہ زیادہ خوشبو دارہوجائےلیکن جوں ہی وہ درخت سے گرتا ہے، اُس کے لئے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں یعنی جس لمحے وہ درخت سے گرا تھا وہی اُس کی آخری کیفیت، آخری حالت ہوتی ہے انسان درخت ِ کائنات کا پھل ہے، دنیا کے درخت کا پھل ہےہم انسانوں کے لئے موجود تمام امکانات، اسی کائنات، اسی دنیا میں ہیں ہمارے لئے اچھے ہونے کا امکان اسی دنیا میں پایاجاتاہے،
ہمارے بُرے اور بدتر ہونے کے وسائل بھی اسی دنیا میں موجود ہیں جب ہم اس دنیا میں موجود ہوتے ہیں ، توکائنات اور دنیا کے درخت پر ہوتے ہیں ، اس درخت کا پھل ہوتے ہیں
این جہان ہمچون درخت است اے گرام
ما بر آن، چون میوہ ھای نیم خام
جب تک ہم کائنات کے درخت کی شاخ پر ہیں ، ہمارے پاس تمام امکانات موجودہیں اگرہم عبادت کریں، توپکے ہوئے پھل کی طرح پک جائیں گے اور اگر گناہ کے مرتکب ہوں، توسڑے ہوئے پھل کی مانند سڑ جائیں گےجیسے کوئی کیڑا یا گھن (۱) درخت کے ذریعے اس پھل تک پہنچ گیا ہو
توبہ بھی امکانات میں سے ایک امکان ہےاُس پانی یا خوراک کی مانند ہے جو درخت ِ کائنات کے ذریعے ہم تک پہنچنا چاہئےلہٰذامرنے کے بعد ہمارے کام نہیں آئے گی
کیوں؟
اسلئے کہ ہم نے عرض کیا کہ توبہ ایک مقدس انقلاب ہے، اور تمام تبدیلیوں، تغیرات اور انقلابات کا تعلق اِس دنیا سے ہےاپنی راہ کو بدلنا، اپنی سمت میں تبدیلی لانا سب کا سب اِس دنیا سے تعلق رکھتا ہے اوپر اٹھنا اور نیچے گرنا اس دنیا میں ممکن ہےجوں ہی ہم اُس دنیا میں قدم رکھیں گے، جس حد اور درجے میں ہوں گے، جس راہ پر ہوں گے، جس سمت ہمارا رخ ہوگا وہیں ٹھہر کے رہ جائیں گےاُسی مقام پر ہمارے عمل کی آخری حد ختم ہوجائے گی
ایک اور مثال پیش خدمت ہے:
بچہ جب تک رحمِ مادر میں ہوتا ہے، ماں کے وجود سے وابستہ ہوتا ہےاُس کی خوراک ماں کی جانب سے ہے، اُس کے بدن کا مائع او رپانی ماں کے وجود سے ہے، اُس کی تندرستی اور بیماری ماں سے ہےلیکن جیسے ہی وہ ماں سے پیدا ہوتا ہے،
--------------
1:- درخت یا غلے میں لگنے والا ایک کیڑا
ماں سے اُس کی یہ وابستگیاں ختم ہوجاتی ہیں ، اُس کی زندگی ایک اور نظام کے تابع ہوجاتی ہےاور اب وہ ایک لمحے کے لئے بھی اُس پہلے نظام کے ساتھ، جو رحمِ مادر کا نظام تھا، زندگی بسر نہیں کر سکتاجوں ہی انسان اِس دنیا سے جاتا ہے، اُس کی زندگی کا نظام یکسر بدل جاتا ہےاور اُس کے لئے اِس دنیا کے نظاموں سے معمولی سے استفادے کاامکان بھی نہیں رہتاعمل اور توبہ، پیش قدمی اور پسپائی، اوپر اٹھنا اور نیچے آنااور راستے اور سمت کو تبدیل کرنا، یہ سب باتیں اِس دنیا سے تعلق رکھتی ہیں
حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:
اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَ (۲)
فرماتے ہیں : اے لوگو ! آج عمل کا دن ہے، حساب کادن نہیں دنیا جزا اور احتساب کا مقام نہیں البتہ یہ نہیں کہہ رہے کہ دنیا میں کسی مکافات ِعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑتابعض اعمال کی دنیا ہی میں مکافات ہےاور دنیا میں انسان کو جن مصیبتوں کا سامناکرنا پڑتا ہےاُن میں سے بعض انسان کے عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں لیکن یہ نہ سمجھئے گا کہ خدا ہر بُرے عمل کا حساب اسی دنیا میں لے لیتا ہے، اور نہ یہ تصور پیدا ہوکہ جس کسی بُری حالت کا انسان کو شکار ہونا پڑتا ہے وہ اُس کے کسی گزشتہ عمل کا نتیجہ ہوتی ہےنہیں ، ایسا نہیں ہے
لہٰذا اگر اِس دنیا میں انسان کو کوئی سزا نہیں ملتی، تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُس کا حساب صاف ہےنہیں ، ایسا نہیں ہےاوراگر کسی کو دنیا میں کوئی سختی دیکھنا پڑے، تو یہ اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اعمالِ بد کا مرتکب ہوا ہےمثلاً یہ جوایک سیلاب آیا اور پاکستانیوں کو ہلاکت سے دوچار کیا (۳)
--------------
۲:- آج عمل کا دن ہے، حساب نہیں ہے اور کل حساب کا دن ہوگا، عمل کی گنجائش نہیں ہوگی(نہج البلاغہخطبہ۴۲)
۳:- یہ اُس زمانے میں پاکستان میں آنے والے ایک سیلاب کی جانب اشارہ ہے
کیا یہ اُن کے بُرے عمل کی دلیل ہے؟ یعنی خدا نے اِس دنیا ہی میں اُن کا حساب کردیا ہے؟ نہیں ، ایسا نہیں ہےاسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ: اَلْیَوْمَ عَمَلٌ وَ لَا حِسَابٌ وَ غَدًا حِسَابٌ وَ لَا عَمَلَدنیامقامِ عمل ہے، مقامِ حساب نہیں اِس کے برعکس آخرت مکانِ عمل نہیں ، صرف اور صرف حساب لئے جانے کی جگہ ہے
پس یہ جو انسان کے لئے توبہ کا وقت موت اور اُس کے آثار نظر آنے سے پہلے تک محدودکیا گیا ہے، اور جب انسان کو موت اپنے سر پر نظر آنے لگے (جیسے فرعون کے ساتھ ہوا تھا) تو ایسے وقت میں اُس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اور اسی طرح عالمِ آخرت میں توبہ نہ ہونے کا سبب وہی باتیں ہیں جنہیں ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا
اِن سے ہمیں کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہئے؟
بقول حضرت علی علیہ السلام: اَلْیَوْمَ عَمَل (آج عمل کا دن ہے) لہٰذا ہمیں موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئےاُن لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہئے جویہ سوچ کرتوبہ میں تاخیر کرتے رہتے ہیں کہ ابھی بہت وقت پڑاہےخداوند عالم فرماتا ہے:
یَعِدُهُمْ وَ یُمَنِّیْهِمْط وَ مَا یَعِدُهُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (۴)
یہ امید رکھنا کہ ابھی دیر نہیں ہوئی، ابھی توہماری کافی عمر باقی ہے، ابھی ہم نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے، یہ شیطانی بہلاوے ہیں ، نفسِ امارہ کے فریب ہیں انسان کو توبہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے
یہاں ہماری تمہید ختم ہوئی، اب حضرت علی ؑ کے کلام کی طرف آتے ہیں :
--------------
۴:- شیطان اُن سے وعدہ کرتا ہے اور اُنہیں امیدیں دلاتا ہے، اور وہ جوبھی وعدہ کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے(سورہ نسا ۴آیت ۱۲۰)
توبہ کی شرائط
جب اُس شخص نے حضرت علی ؑ کے سامنے استغفار کی اور حضرت ؑ نے یہ محسوس کیا کہ وہ شخص استغفار کے معنی، اُس کی حقیقت اور اُس کے بلند مقام سے واقف نہیں ہے، توآپ ؑ نے اعتراض کرتے ہوئے اُس سے کہا: ثَکِلَتْکَ اُمُّکَ، أَ تَدْرِیْ مَا الْاِسْتِغْفَارُ؟ اَلْاِسْتِغْفَارُ دَرَجَةُ الْعِلِّیِّیْنَ خدا تجھے موت دے، تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے اورروئے!تولفظ استغفارکہتا ہے؟ جانتا بھی ہے استغفار کی حقیقت کیا ہے؟ استغفار علیین کا مرتبہ ہے(علیین یعنی وہ لوگ جو قرب ِ الٰہی کے اُن بلند درجات پر فائز ہیں ) اِس کے بعد آپ ؑنے فرمایا: استغفار اور توبہ ایک کلمہ ہے جو چھے بنیادوں پر قائم ہے
حضرت علی ؑکی بیان کی ہوئی ان چھے بنیادوں کو علما نے اس طرح سمجھا ہے کہ اِن میں سے دوتوبہ کی رکن و اساس ہیں دوسری دوتوبہ کی قبولیت کی شرط ہیں (یعنی دو توبہ کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہیں اور دوسری دو حقیقی توبہ کی قبولیت کی شرط کو) اور آخری دوتوبہ کے کامل ہونے کی شرط ہیں
اب دیکھتے ہیں یہ چھے شرائط ہیں کیا؟
فرماتے ہیں : اَوَّلُهَا النَّدَمُ عَلٰی مَا مَضَی توبہ کی پہلی شرط (رکن) ماضی پر پشیمانی، حسرت، افسوس اور باطنی خلش اور تکلیف ہےیعنی توبہ اُس وقت حقیقی توبہ ہے جب آپ اپنے گزشتہ سیاہ اعمال نامے پر نگاہ ڈالیں، تویکلخت ایک ندامت، ایک پشیمانی، ایک افسوس اور غیرمعمولی حسرت آپ کے اندر پیدا ہو، آپ اپنے دل میں ایک خلش محسوس کریں اور خود سے کہیں کہ یہ میں نے کیا کیا تھا؟
آپ نے دیکھا ہوگا کہ کبھی انسان کوئی کام اس خیال سے کرتا ہے کہ اس سے اُسے فائدہ پہنچے گایہ کام کرنے کے بعد یکایک وہ دیکھتا ہے کہ مثلاً اس کام سے اُسے دس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہےجب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے توکہتا ہے:اوہ!اور اپنی انگلی دانتوں میں دبا لیتا ہےہائے! میں نے کیوں ایسا کام کیا؟ اس چیز کو پشیمانی اور حسرت کہتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ:میں نے فلاں کام کیا، اور اب اس کی وجہ سے اتنا پشیمان ہوں، ایساپچھتا رہا ہوں کہ اگر پچھتاوے کے سینگ ہوتے تو ابھی میرے سینگ نکل آتےایسی ہی پشیمانی اور ندامت توبہ کی پہلی شرط ہےخدا نخواستہ آپ کے لب ایک حرام مثلاً شراب سے آلودہ ہیں پھر ایک مرتبہ آپ سوچتے ہیں کہ آخر قرآنِ کریم نے شراب نوشی کے بارے میں کیا کہا ہے؟ قرآن کہتاہے کہ:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلااَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن
اے ایمان والو !شراب، جوا، بت، پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہٰذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو(سورہ مائدہ۵آیت۹۰)
شراب، جوا اوربت پرستانہ کام خبائث ہیں ، اگربہتری، سعادت اور کامیابی چاہتے ہو، تو اِن سے دور رہوشراب نوشی، سعادت اور کامیابی کے منافی عمل ہےجوا، اسلام میں حرام قرار دیا گیاہے، یہ جس شکل وصورت میں بھی ہوگناہانِ کبیرہ میں اِس کاشمار ہوتا ہے
مسلمان جوا نہیں کھیلتا
غیبت کی مذمت
ہم کیسے مسلمان ہیں جو اسلام کی طرف سے حرام کئے گئے بڑے بڑے کاموں کا بھی ارتکاب کر بیٹھتے ہیں ؟ قرآن ہمارے درمیان رائج اس گناہ یعنی غیبت کرنے اورتہمت لگانے کے بارے میں اورکس قدرمتنبہ کرے؟ خدا کی قسم! انسان کو لوگوں کے درمیان رائج اس قدر تہمت پر تعجب ہوتا ہے!!
آپ جانتے ہیں تہمت کیا ہے؟ ہمارے پاس اوّل درجے کے دو گناہانِ کبیرہ ہیں ان میں سے ایک جھوٹ بولنااور دوسرا غیبت کرناہےگناہِ کبیرہ، یعنی وہ گناہ جس کی وجہ سے انسان جہنم میں جانے کا مستحق ہوجاتا ہے
وَ لااَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًاَ(۱)
ایک دوسرے کی غیبت نہ کرنا، کیا تم میں سے کوئی یہ بات پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے(سورہ حجرات۴۹آیت۱۲)
اے لوگو! ایک دوسرے کی غیبت نہ کرناکیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ مسلمان بھائی کا گوشت کھائے؟ مردے کا گوشت کھاناکس قدرکریہہ اور نفرت انگیز ہےخصوصاً اگر انسان اس مردہ شخص کوجانتا ہو اور وہ اس کا دوست بھی ہوکیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی تعبیر ہوسکتی ہے؟
تہمت، یعنی جھوٹ بھی اور غیبت بھییعنی جب یہ دو گناہ (جھوٹ اور غیبت) مل جائیں، تو اس کا نام تہمت ہوجاتا ہےہمارے درمیان تہمت کتنی عام ہےہم میں سے بعض لوگ مقدس بننے کی خاطر (کسی کی غیبت کرتے ہوئے) اپنی بات سے پہلے ”لوگ کہتے ہیں “ لگادیتے ہیں مثلاً کسی شخص نے کسی دوسرے پر تہمت لگائی، اب ہم چاہتے ہیں کہ اس تہمت کا بار اپنی گردن پر نہ لیں (ہم سمجھتے ہیں کہ خدا کو بھی دھوکا دیا جاسکتا ہے!) لہٰذا ہم کہتے ہیں :لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا ہے، کہتے ہیں کہ فلاں جگہ ایسی ہےدوسرا ہم سے سننے کے بعد کسی اور جگہ جاکے کہتا ہے:لوگ ایسا کہتے ہیں اور پھر کہتا ہے:میں یہ نہیں کہتاکہ میں کہتا ہوں (بلکہ) دوسرے ایسا کہتے ہیں قرآن نے اس سے بھی منع کیاہے اور اس کو بھی ایک بڑا گناہ شمار کیا ہےفرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے، اُن کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے(سورہ نور۲۴آیت ۱۹)
جو لوگ کسی مومن شخص، مومن افرادیا مومنین کے کسی ادارے کے بارے میں کوئی بُری اور قبیح بات پھیلانا پسند کرتے ہیں (اُن کے لئے ایک دردناک عذاب ہے) اگر آپ نے کسی احمق سے، کسی مفاد پرست سے یاکسی ایسے شخص سے جس کی بات کی جڑکے بارے میں آپ جانتے ہوں کہ وہ کہاں ہے کسی کے متعلق کوئی بات سنی ہو، تو آپ کو حق نہیں پہنچتا کہ آپ کہیں کہ ”میں نے سنا ہے“یا یہ کہ ”لوگ کہتے ہیں “خودیہ کہنا بھی کہ ”کہتے ہیں “ تشیع فاحشہ (برائی پھیلانا) ہےدوسرے گناہ بھی اسی طرح ہیں
جو شخص نظربازی کرتا ہے، لوگوں کی عزت وناموس کے ساتھ خیانت کرتا ہے، اسے پتا ہونا چاہئے کہ پیغمبرا سلام کا فرمان ہے :
زِنَی الْعَیْنِ النَّظَر
نظر بازی آنکھوں کا زنا ہے(بحار الانوارج ۱۴)
(اسی طرح) جس نے نماز ترک کی، جس نے روزہ چھوڑا
مجھے نہیں معلوم ہم کس قسم کے مسلمان ہیں ؟ انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے، لوگ ماہِ رمضان میں سڑک پر چلتے ہوئے، علیٰ الاعلان ہونٹوں میں سگریٹ دبائے چلے جارہے ہوتے ہیں ! کوئی گاڑی میں بیٹھا سگریٹ پیتا نظر آتا ہےہر سال پولیس کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ کسی کو روزہ خور وں کے خلاف اقدام کا حق نہیں ہے، خودپولیس کارروائی کرے گیہم نے تو نہیں دیکھا کہ کسی پولیس والے نے کسی روزہ خور کوٹوکا ہو
علیٰ الاعلان روزہ خوری اسلام کی بے حرمتی ہے، یہ عمل قرآن کی بے عزتی کرنا ہے، پیغمبر اسلام کی توہین کرنا ہےاگر آپ روزہ خوری کرنا چاہتے ہیں ، تو اپنے گھر میں کیجئےاگرآپ نے اپنے گھر میں روزہ خوری کی، توآپ ایک گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے لیکن جب آپ سڑکوں پر روزہ خوری کرتے ہیں ، تو روزہ خوری کے ساتھ ساتھ آپ اسلام کی توہین بھی کرتے ہیں
توبہ کرنے کے لئے پہلے ہمیں چاہئے کہ اپنی کی ہوئی غیبتوں پرایک نظر ڈالیں، اپنی شراب نوشیوں کو پیش نظررکھیں، اپنی کی ہوئی تہمتوں کو مد ِنظررکھیں، اپنے جوا کھیلنے پرنظرڈالیں، اپنی نظر بازیوں کو دیکھیں، خواتین اپنے عریاں لباسوں کاجائزہ لیںپیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے معراج میں ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں ان کے بالوں سے لٹکایا گیا تھا اور آتشیں کوڑوں سے ان کو مار رہے تھےمیں نے حیرت کے ساتھ جبرئیل ؑ سے پوچھا: یہ کون ہیں ؟
جبرئیل ؑ نے کہا: یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں جواپنے بال نامحرموں سے نہیں چھپاتی تھیںاُس وقت بے پردگی کا رواج تو نہیں تھا لیکن رسولؐ نے چشمِ باطن سے دیکھا(یہ چیزیں چودہ سو سال پہلے سے کتابوں میں ہیں ) فرمایا: میں نے ایسی عورتوں کو دیکھا جنہیں ان کے سینوں سے لٹکایا گیا تھا اور ان کے سینوں پر کوڑے مارے جارہے تھےیہ عورتیں جو اِس حال میں تھیں، یہ کون تھیں؟ فرمایا: مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کی امت کی وہ عورتیں ہیں جو دوسروں کے سامنے اپنے بدن کی نمائش کرتی ہیں
آخر دنیا کی یہ چار دن کی زندگی کیا حیثیت رکھتی ہے کہ (اِسے اس طرح بسر کرکے) انسان اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے عذابِ الٰہی میں مبتلاکرلے؟ بخدا! درست ہے، بقولِ یہ چکنے گھڑے ہیں یہ جسارت آخرکب تک؟ خدا کے خلاف بغاوت کب تک؟ پیغمبر اسلام کی توہین کب تک؟ اب یہ توہین چاہے زبانی کی جائے چاہے تحریریانسان کیا کہے کہ اِس ملک میں ایسی کتاب شائع ہوتی ہے جو سر تا پا پیغمبر اسلام کی توہین سے بھری ہے او راس کی پشت پر باقاعدہ نمبر بھی ثبت ہے (یعنی وہ باقاعدہ حکومت سے منظور شدہ بھی ہے) اسے اشاعت کی باقاعدہ اجازت بھی دی گئی ہے! ہوش میں آؤ، ذرا سوچو، کب تک غفلت میں پڑے رہو گے؟
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَق “ (سورہ حدید۵۷آیت ۱۶)
کیا وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہمارے یہ دِل جھک جائیں، خاشع ہوجائیں، یادِ خدا کے لئے نرم ہوجائیں اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والے اس برحق قرآن کی پرواہ کریں؟ اس کی تعلیمات پر توجہ کریں؟
دیکھئے محرم آرہا ہےاگرہمارا دل زیادہ سے زیادہ اس بات پر خوش ہوکہ کسی مجلس میں شرکت کر کے چند قطرے آنسو بہا لیں، توواﷲ یہ کافی نہیں ہےہمیں اپنے اوراپنے اسلام کے حال پرکچھ دیرغوروفکر کرنا چاہئےہمارے بچے ہاتھ سے نکل گئے ہیں ، ہماری اولادیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ، ہماری لڑکیاں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ، ہمارا معاشرہ ہاتھ سے نکل گیا ہے، ہمیں ان کے بارے میں کچھ سوچنا چاہئے، ہمیں چاہئے توبہ کریں
(دوبارہ امیر المومنین ؑکے کلام کی طرف آتے ہیں )
فرمایا: سب سے پہلے توتمہاری روح میں خلش پیدا ہونی چاہئے، اسے شعلہ ور ہونا چاہئے، تم اپنے آپ کو حسرت میں ڈوبا ہوا محسوس کرو، ندامت اور پچھتاوے میں غرق محسوس کرواپنے گناہوں پر نظر ڈالو! اپنے اعمال کا محاسبہ کرو، اپنے آپ سے حساب لو، دیکھو کہ روزانہ کتنے گناہانِ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہو؟ شیخ بہائی کہتے ہیں :
جد تو آدم بہشتش جای بود
قدسیان کردند بہر او سجود
یک گنہ ناکردہ، گفتندش تمام
مذنبی، مذنب، برو بیرون خرام
تو طمع داری کہ با چندین گناہ
داخلِ جنت شوی اے روسیاہ؟
(اے انسان تیرے جد آدم ؑ بہشت میں تھے اور فرشتوں نے ان کو سجدہ کیا تھالیکن جوں ہی وہ ایک گناہ کے مرتکب ہوئے، اُن سے کہہ دیا گیا کہ بس اب یہ سب کچھ ختمتم گناہ گار ہواب یہاں سے چلے جاؤلیکن اے روسیاہ! تویہ سمجھتا ہے کہ کئی گناہ کرکے بھی جنت میں چلا جائے گا)
توبہ کی دوسری شرط (رکن) کیا ہے؟ فرمایا: اَلْعَزْمُ عَلیٰ تَرْکِ الْعَوْدِ ایک مردانہ عزمِ، ایک پکا ارادہ کہ اب مزید میں یہ عملِ بد انجام نہیں دوں گا
البتہ یہ جو شعر میں نے پڑھے ہیں ، اِن سے کہیں میں نے آپ کو مایوس نہ کیا ہویہ نہ سمجھئے گا کہ لیجئے ہمارا تو کام تمام ہوگیانہیں
لاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِ
(سورہ زمر۳۹آیت ۵۳) خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا
جتنے بھی گناہ کئے ہوں، بارگاہِ الٰہی میں لوٹ جائیے، خدا قبول کرلے گا(توبہ کی قبولیت کی) تمام شرائط کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن گناہ کی حد اور مقدار کا ذکر نہیں کیا گیایہ نہیں کہا ہے کہ اگر تمہارے گناہ اس حد تک ہوئے تو تمہاری توبہ قبول ہوگی اور اگر اس سے زیادہ ہوئے تو نہیں بلکہ یہ کہا ہے کہ توبہ کرو، قبول ہوگی، البتہ شرط یہ ہے کہ توبہ صدقِ دل سے کی گئی ہواگرآپ کے باطن میں خلش پیداہوجائے، آپ کی روح میں ایک مقدس انقلاب بپا ہوجائے،
آپ گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا عزم کرلیں، تو آپ کی توبہ قبول ہےہاں، شرط یہ ہے کہ آپ کاعزم حقیقی عزم ہوایسا نہ ہو کہ یہاں آئے اور دل ہی دل میں اپنے بُرے حالوں پر افسوس کیا اور باہر جاتے ہی سب کچھ بھول گئےاس سے کوئی فائدہ نہیں ، بلکہ یہ زیادہ بُری چیز ہے
امام ؑ فرماتے ہیں : جو لوگ استغفار کرتے ہیں اور پھردوبارہ گناہ کرتے ہیں ، اُن کا استغفار کرنا استغفار نہ کرنے سے زیادہ برا ہےکیونکہ یہ توبہ کا مذاق اڑانا ہے، خدا کی تضحیک کرنا ہے، توبہ کی تضحیک کرناہے
یہ دوچیزیں توبہ کی رکن ہیں :
پہلی چیز: ندامت، حسرت، باطنی خلش، ماضی پر دکھ، گناہ پر مکمل پچھتاوا
اور دوسری چیز: دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم اور پکا ارادہ
لیکن توبہ کی دو شرطیں بھی ہیں :
پہلی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے حقوق، حقوق الناس اُن کو لوٹانا چاہئیں خدا عادل ہے، وہ اپنے بندوں کے حقوق نظرانداز نہیں کرتا(لوگوں کے حقوق انہیں لوٹانے کے) معنی کیا ہیں ؟ آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے؟ آپ کو چاہئے کہ وہ مال اس کے مالک کو واپس کریں، یا کم از کم اُس کی رضامندی حاصل کریں آپ نے لوگوں کی غیبت کی ہے؟ آپ کو انہیں راضی کرنا چاہئے، آپ کو چاہئے کہ خود کو چھوٹا بنائیں، اُن کے پاس جائیں، اُن سے کہیں کہ جناب میں نے آپ کی غیبت کی ہے، التماس کرتا ہوں کہ مجھے معاف فرمادیں
ایک قصہ خود میرے ساتھ بھی پیش آیا ہے، نہیں معلوم اسے بیان کرنا درست ہے یا نہیں ؟
میری طالب ِ علمی کا زمانہ تھا، طالب ِ علمی کے دنوں میں، البتہ دوسری جگہوں سے کم، لیکن پھر بھی ایسا اتفاق ہوجاتا ہے کہ انسان کسی محفل میں بیٹھا ہوتا ہے اور کچھ لوگ مختلف لوگوں کی غیبت شروع کردیتے ہیں اور بسا اوقات انسان خود بھی اس میں مبتلا ہوجاتا ہےخدا رحمت کرے مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ آقائے حجت رضوان اﷲ علیہ پرمیں ایک مرتبہ ایسے حالات میں پھنس گیا اور کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ جا بیٹھا جنہوں نے آقائے حجت کی غیبت کی آقائے حجت میری گردن پر استادی کا حق رکھتے ہیں ، میں نے کئی سال ان سے درس پڑھاتھا، حتیٰ اُن کے درس میں ایک عام مقابلے میں اُن سے انعام بھی حاصل کیاتھا
ایک مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہےمیں کیوں وہاں جا پھنسا؟ ایک مرتبہ گرمیوں میں وہ حضرت عبد العظیم (کے حرم کے علاقے) میں تشریف لائے ہوئے تھےایک دِن سہ پہرکے وقت میں نے ان کے گھر پر دستک دی اور کہا کہ اُنہیں بتائیں فلاں آیا ہےوہ اندرونی میں تھےاجازت عنایت کی مجھے یاد ہے کہ میں اندر گیا، اُن کے سر پر ٹوپی تھی اور وہ ایک تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے (وہ بوڑھے اور بیمار تھے، یہ اُن کے انتقال سے دو تین سال پہلے کی بات ہے) میں نے عرض کیا: جناب ِ عالی میں ایک بات عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں انہوں نے فرمایا:کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا:میں نے آپ کی غیبت کی ہے، البتہ بہت کم، لیکن نسبتاً زیادہ غیبت سنی ہےمیں اپنے اِس عمل پر پشیمان ہوں، کہ آخر میں کیوں ایک ایسی محفل میں شریک رہاجس میں لوگ آپ کی غیبت کررہے تھے، پھر میں نے آپ کی غیبت سنی اور کیوں خود میری زبان پر بھی آپ کی غیبت آگئی اب جبکہ میں نے عزم کرلیا ہے کہ کبھی آپ کی غیبت نہیں کروں گا، اور ہرگز کسی سے آپ کی غیبت نہیں سنوں گالہٰذا میں یہ عرض کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں، مجھ سے درگزر فرمائیں
وہ جس بزرگواری کے حامل تھے، انہوں نے اُس کامظاہرہ کرتے ہوئے مجھ سے فرمایا: ہم جیسے لوگوں کی غیبت کرنے کی دو قسمیں ہیں ایک مرتبہ (ہماری غیبت) اس طرح کی جاتی ہے کہ اُس سے اسلام کی توہین ہوتی ہے اور ایک مرتبہ (غیبت) خود ہماری ذات سے متعلق ہوتی ہے(میں سمجھ گیا کہ ُان کا مقصد کیا ہے) نہیں ، میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اورکوئی ایسی جسارت نہیں کی جس سے اسلام کی توہین ہوتی ہوجو کچھ تھا وہ آپ کی ذات سے متعلق تھاانہوں نے فرمایا: میں نے تمہیں معاف کیا
انسان اگر توبہ کرنا چاہتا ہے، تواُسے چاہئے کہ لوگوں کے حقوق اور اُن کے قرض ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے زکات ہو اور اس نے وہ ادا نہ کی ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اسے چاہئے کہ وہ ادا کرےایسا شخص جس کے ذمے خمس ہو اوراُس نے وہ ادا نہ کیا ہو، اُس کی گردن پر حق الناس ہے، اُسے چاہئے اُسے ادا کرےایسا شخص جس نے رشوت لی ہو، اُسے چاہئے وہ اسے اس کے مالک کو واپس کرےایسا شخص جس نے کسی بھی ذریعے سے کوئی حرام مال بنایا ہے، اُسے چاہئے کہ اُس مال کو واپس کرےاگر کسی نے کسی پرکوئی زیادتی کی ہو، تو اسے چاہئے کہ اُ س کی رضاحاصل کرےتوبہ، یوں ہی نہیں کی جاسکتی!
حضرت علی ؑنے فرمایاہے: توبہ کی شرط یہ ہے کہ لوگوں کے جو حقوق تمہارے ذمے ہیں اُنہیں واپس لوٹاؤمثلاً آپ نے لوگوں کا مال ہڑپ کیا ہے اور اب اُنہیں دینے کے لئے آپ کے پاس کچھ نہیں ہے او رآ پ ایسے حالات میں ہیں کہ اُن تک دسترس نہیں مثلاً وہ لوگ مرچکے ہیں ایسی صورت میں استغفا رکریں، اُن کے لئے مغفرت طلب کریں، انشاء اﷲ خدا اُنہیں (آپ سے) راضی کردے گا
توبہ کی (قبولیت کی) تیسر ی شرط یہ ہے کہ حقوق اﷲ ادا کریں حق اﷲ سے کیامراد ہے؟ مثلاً روزہ حق اﷲ ہے، روزہ خدا کا ہےجو روزے آپ نے چھوڑے ہیں اُن کی قضا کیجئےجو نمازیں آپ نے چھوڑی ہیں ، ان کی قضا ادا کیجئےآپ مستطیع تھے لیکن حج کو نہیں گئے تھے، آپ کو چاہئے کہ اپنا حج انجام دیںیہ مذاق نہیں ہےحج کے بارے میں آیا ہے کہ اگر کوئی صاحب ِ استطاعت ہوجائے اوراُسے کوئی عذرِ شرعی بھی نہ ہو، یعنی اُسے طبیعی استطاعت حاصل ہو اور سفر کے لحاظ سے کوئی رکاوٹ نہ ہواُسے مالی استطاعت حاصل ہو اوراُس کی اقتصادی حالت اسے اجازت دیتی ہوجسمانی استطاعت رکھتا ہو اورایسا مریض نہ ہو جو چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوتا، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے، یہاں تک کہ مر جائے، ایسا شخص مرتے وقت اسلام کی حالت میں دنیا سے نہیں جائے گااُس کے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں اور اُس سے کہتے ہیں : مُتْ اِنْ شِئْتَ یَهُوْدِیِّاً وَ اِنْ شِئْتَ نَصْرَانِیِّاً (وسائل الشیعہ ج ۸ص۲۰، ۲۱) تم نے اسلام کے اِس رُکن کو انجام نہیں دیااب تمہیں اختیار ہے، چاہوتو یہودی مرواور چاہوتو نصرانیاب تم مسلمان نہیں مر سکتے
کیسے ممکن ہے کہ انسان مسلمان ہو اور نماز نہ پڑھتاہو؟ مجھے یاد آیا کہ دو تین رات قبل جب میں نے فُضَیل بن عَیاض کے بارے میں بات کی تھی، تو بعد میں مجھے ایک محترم خاتون کا ایک خط دیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ اگر آپ اپنے سننے والوں کا احترام کرتے ہیں تو اپنی تقریر میں اس بات کا بھی تذکرہ کریں کیونکہ یہ بات بتانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بہتر ہےلہٰذامیں بیان کرتا ہوں:
انہوں نے لکھا تھا کہ میں ایک رات صرف اُسی پہلی مرتبہ کے لئے یہاں آئی تھی لیکن میں اس قدر متاثر ہوئی کہ میں نے فیصلہ کیا کہ دوبارہ بھی یہاں آؤں گیمیں آج آئی ہوں اورآئندہ بھی آؤں گیمیں نے تربیتی علوم میں ماسٹرز کیا ہے، پرنسپل ہوں
(اس وقت مجھے یہ یاد نہیں کہ وہ پرائمری اسکول کی پرنسپل تھیں یا ہائی اسکول کی) آپ نے بہت سی باتیں کیں فُضَیل بن عَیاض میں قرآن کی ایک آیت سُن کرانقلاب بپاہوگیا، یا نماز اور حضورِ قلب کے بارے میں بیان کیامیں بدقسمت جو سرے سے قرآن کے معنی ہی نہیں سمجھتی، کیا کروں؟ میں، جو نماز کے معنی ہی نہیں سمجھتی میرے لئے اِس کے دوران حضورِ قلب کیونکر ممکن ہے؟ گویا یہ خاتون اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہی ہیں کہ ہم نے نرسری پڑھی، پرائمری پڑھی، ہائی اسکول اور کالج، یونیورسٹی کی تعلیم بھی مکمل کی لیکن قرآن ہمیں کہیں نہیں سکھایا گیالہٰذا آپ یہاں اس حد تک عربی سکھانے کا کوئی بندوبست کیجئے کہ لوگ کم و بیش قرآن کے معنی سمجھ سکیں، نماز کے معنی جان سکیں اور کم ازکم نماز کو اُس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کو اس کی روح کے ساتھ پڑھ سکیں، قرآن کی ایک آیت بھی پڑھیں، تو اسے سمجھیں
میں (دوستوں کے مشورے سے) آپ سب کے لئے ایک جوا ب دینا چاہتا ہوںمیں نے ہمیشہ اظہار کیا ہے اور اس کو واجب ترین واجبات میں سے سمجھتا ہوں کہ مسلمان عربی زبان سے واقفیت حاصل کریں، وہ سمجھیں کہ نماز میں کیا پڑھتے ہیں ، اپنے قرآن کو سمجھیں لیکن کیا کیا جائے کہ دنیا کی ہوس نے ہمیں اس طرح گرفت میں لے لیا ہے کہ کیونکہ انگریزی زبان آمدنی اور مادّیات کی کنجی ہے اسلئے ہم اپنے سات سالہ بچے کو بھی انگریزی سیکھنے بھیج دیتے ہیں بہت کم گھرانے ایسے ہوں گے جن میں کم از کم ایک فرد انگریزی نہ جانتا ہو لیکن ہم اس بات کے لئے تیار نہیں کہ عربی کے لئے ایک کلاس ترتیب دیں اور خدا کی خاطر عربی زبان سیکھیں، اپنی نماز کے لئے عربی سیکھیں، اپنے قرآن کے لئے عربی سیکھیںکئی مرتبہ اعلان کر چکے ہیں کہ ہم یہاں عورتوں اور مردوں کے لئے عربی سیکھنے کی کلاس ترتیب دینے کو تیار ہیں ، لوگ آئیں اور اپنے نام درج کرائیں، عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ کلاسیں ہوں گی، یہ ادارہ (حسینیہ ارشادمراد ہے) ان کے لئے مفت عربی زبان سکھانے کے انتظام کوتیار ہے کیونکہ یہ واجب ہے
(پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں )
اس کے بعد حضرت علی ؑ نے دوموضوع بیان کئے ہیں ، جو سچی توبہ کی تکمیل کی شرائط ہیں فرمایا: توبہ، اُس وقت توبہ ہے جب اُس گوشت کو گھلادو جسے تم نے حرام کھا کر پروان چڑھایا ہےیہ انسان کا گوشت نہیں ہےیعنی؟ یعنی یہ گوشت جو رت جگے کی محفلوں میں تمہارے بدن پر چڑھا ہے، یہ بدن جو تم نے بنایا ہے حرام سے ہے، تمہاری ہڈیاں حرام سے بنی ہیں ، تمہاری جِلد حرام سے بنی ہے، تمہارا گوشت حرام سے بناہے، تمہارا خون حرام سے بناہےتمہیں کوشش کرنی چاہئے کہ ان کو پگھلاؤ اور اس کی جگہ وہ گوشت نشو ونما پائے جو حلال ذرائع سے پیدا ہوا ہواپنے آپ کو گھلاؤ
یقینا، اِس بات کاآپ کو یقین نہیں آرہاہوگا
میرے والد بتاتے تھے کہ مرحوم حاج میرزا حبیب رضوی خراسانی، جن کے شعر آج کل آپ لوگ بہت سنتے ہیں اور جو خراسان کے ایک بڑے مجتہد، عارف، فلسفی اور حکیم تھے، اچھے ڈیل ڈول کے مالک اور بہت فربہ تھےزندگی کے آخری دنوں میں ان کی ملاقات ایک اہلِ دِل، اہلِ معنی اور اہلِ حقیقت ہستی سے ہوئیحاج میرزا حبیب نے اپنے اس علمی مقام، معاشرے میں اپنی اس شہرت اور خراسان کے درجہ اوّل کے مجتہد ہونے کے باوجود اس زاہد، متقی اور روحانی انسان کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے
والد صاحب بتاتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد میں نے اچھے تن وتوش کے مالک اُن حاج میرزا حبیب کواِس حال میں دیکھا کہ اُن کا بدن انتہائی لاغر ہوچکا تھا (لوگ دبلا ہونے کے لئے یورپ جاتے ہیں اور ڈائٹنگ کرتے ہیں !) ہم نے دیکھا کہ حاج میرزا حبیب کا بدن اپنی عمر کے آخری حصے میں گُھل کر کم ہوگیا تھاوہ حضرت علی ؑ کے فرمان کا مصداق بن گئے تھے کہ اس گوشت کو
(البتہ میں اُن کی شان میں گستاخی نہیں کرسکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا کہ حرام کے راستے سے) جوتم نے غفلت کے عالم میں پروان چڑھا یاہے، اسے گھلاؤ
چھٹی شرط بھی آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوںفرمایا:یہ بدن جس نے اس قدر گناہوں کی لذت چکھی ہے، اسے طاعت کی تکلیف کا مزہ چکھاؤنزاکت اور نازونعم کی فضا سے باہر نکلو، ناز ونعم کادلدادہ شخص خدا کا بندہ نہیں بن سکتاایسا شخص سرے سے انسان ہی نہیں بن سکتا، وہ انسان ہی نہیں آپ روزہ رکھتے ہیں ، دشوار ہوتا ہےکیونکہ دشوارہوتا ہے اسلئے خاص طور پر رکھئےآپ ساری رات عبادت میں گزارنا چاہتے ہیں ، لیکن آپ کو دشوار محسوس ہوتا ہے، کیونکہ دشوار محسوس ہوتا ہے اسلئے خاص کریہ کام کیجئےکچھ عرصے اپنے آپ کو مشقت اور صعوبت میں ڈالیں، اپنی تربیت کریں
قرآن میں دو تعبیریں ہیں ، جن کا ذکر اُس نے توبہ کے بعدکیا ہے ایک یہ کہ توبہ کو تطہیر کے ساتھ ملاتا ہےمثلاً ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ
بے شک خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے(سورہ بقرہ۲آیت۲۲۲)
خدا توبہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں کوپسندکرتا ہے
قرآن کیا کہنا چاہتا ہے؟
کہتا ہے، توبہ کرو اور توبہ کے پانی سے خود کو دھو ڈالو، پاک کروچشمِ بینا رکھوصفائی صرف بدن کی نہیں ہوتیبدن کو ہم اچھی طرح صاف رکھتے ہیں البتہ یہ نہ صرف کوئی بُری بات نہیں بلکہ اچھی بات بھی ہے، اسے صاف رکھنا بھی چاہئےہمارے رسولؐ دنیا کے صاف ترین رہنے والے لوگوں میں سے تھےہم ہر روز شاور لیتے ہیں ، چند دنوں میں ایک بار اپنے بدن پر صابن لگاتے ہیں ، اپنا لباس تبدیل کرتے ہیں ، اپنے کوٹ پینٹ کو صاف ستھرا اور داغ دھبوں سے محفوظ رکھتے ہیں کیوں؟ اسلئے کہ ہم صاف ستھرا رہنا چاہتے ہیں تو کیا آپ صرف یہی بدن ہیں ؟ اپنے آپ کو پاک کیجئے، اپنی روح کو پاک کیجئے،
اپنے قلب کوپاک کیجئے، اپنے دل کو پاک کیجئےاپنے اس قلب، دل اور روح کو آبِ توبہ سے پاک کیجئے ”اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ “
قرآن کی ایک اور تعبیر یہ ہے کہ وہ بعض دوسرے مقامات پر توبہ کو کلمہ اصلاح کے ساتھ بیان کرتا ہے:
فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِه وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اﷲَ یَتُوْبُ عَلَیْهِط اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
پھر ظلم کے بعد جو شخص توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے، تو خدا اس کی توبہ قبول کرلے گا کہ اﷲ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے(سورہ مائدہ۵آیت ۳۹)
کل رات ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اس کا نصف وجود اس کے دوسرے نصف وجودکے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے، انقلاب برپا کردیتا ہےاوریہ بھی عرض کیا تھا کہ یہ قیام اور یہ انقلاب کبھی تو انسان کے وجود کے پست مقامات کی جانب سے ہوتا ہے،
شہوت قیام کرتی ہے، غضب اٹھ کھڑا ہوتا ہے، شیطنت سر ابھارتی ہے اور کبھی یہ قیام انسان کی روح کے اعلیٰ مقامات کی جانب سے ہوتا ہےعقل قیام کرتی ہے، فطرت جوش میں آتی ہے، ضمیر اٹھ کھڑا ہوتا ہے، دل اور ضمیر کی گہرائی قیام کرتی ہے
اگر انسان کے وجود کے غیرمقدس مقامات کی جانب سے قیام ہو، (یہاں جب ہم اعلیٰ اور پست کہتے ہیں تو مراد مقدس او رغیر مقدس ہے) حیوانی عناصر کی طرف سے قیام ہو، تو اس قیام و انقلاب کا نتیجہ ایک ہلچل اور افراتفری کی صورت میں برآمد ہوتاہے، اس کا نام بلوہ ہےکل رات ہم نے مثال عرض کی تھی کہ جن لوگوں نے تقدس، زہد اور تقویٰ کے نام پر خواہشات کے اعتبار سے محرومی اٹھائی ہے اور خود کو محروم رکھا ہے، یکاک دیکھتے ہیں کہ وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں ، ایک عجیب دھماکے کی سی کیفیت اورافراتفری کا عالم اُن پرطاری ہو جاتا ہےاسے دھماکے اور بلو ے کے سوا کوئی اور نام نہیں دیاجاسکتالیکن یہ کیفیت اُس قیام اور انقلاب کے برخلاف ہے جوانسانی وجود کے مقدس عناصر کی جانب سے برپا ہوتا ہےوہ انقلاب جو عقل انسانی وجود میں برپا کرتی ہے، وہ شورش جوانسان کی خدا شناس اور خدا پرست فطرت برپا کرتی ہے، وہ ایک مقدس انقلاب ہےمقدس انقلاب اصلاح کے ساتھ ساتھ ہوتا ہےمقدس انقلاب ماضی کے قبیح اثرات کا خاتمہ کردیتا ہےمقدس انقلاب قصاص لیتا ہے
وَ لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰاُآولِی الْاَلْبَابِ
صاحبانِ عقل، تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے(سورہ بقرہ۲آیت ۱۷۹)
ہم نے عرض کیا تھا کہ حضرت علی ؑ نے فرمایاہے: اپنے بدن سے انتقام لو، قصاص لوجو گوشت حرام سے پروان چڑھا ہے، اسے گھلاؤ، اُسے تحلیل کرویہ نفسانی خواہشات سے قصاص اور انتقام لینا ہےانقلاب جب مقدس ہوتا ہے، تو گزشتہ بُرے اثرات کو مٹانا چاہتا ہے اور مٹا بھی دیتا ہےاسی لئے قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ: فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِه وَ اَصْلَحَیعنی جو توبہ اور اصلاح کرے
بنیادی طور پر توبہ ایک اصلاحی قیام ہے اس کے سوا کچھ اور نہیں
آج جاگنے کی رات ہےہمیں چاہئے آج کی شب دعا کریں، قرآن سر پر رکھیں لہٰذا میں اپنی گزارشات کو مختصر کرتا ہوں
ہم نے کل رات عرض کیا تھا کہ انسان کا ایک امتیاز توبہ ہے، نیز یہ بھی عرض کیا تھاکہ راستہ بدلنا، رُخ تبدیل کرنا صرف انسان کا خاصّہ نہیں ہے، حیوانات میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور حتیٰ نباتات میں بھی کسی حد تک یہ صفت موجودہےلیکن راہ کی جس تبدیلی کا نام توبہ ہے اورجس کے معنی ایک قسم کا مقدس اندرونی انقلاب ہے، یہ صرف انسان کے ساتھ مختص ہےیہ بات ذہن میں رہے
نوعِ بشر کے تمام رہنماؤں کے مقابلے میں انبیا کو ایک امتیاز او رایک خصوصیت یہ حاصل ہے کہ دوسرے رہنما معاشرے میں جو انقلاب لے کر آتے ہیں ، اُن کی زیادہ سے زیادہ کامیابی یہ رہی ہے کہ انہوں نے ایک گروہ کو، ایک طبقے کو، یا افرادِ بشر کے طبقات کوکسی دوسرے طبقے یا طبقات کے خلاف کھڑا کیا ہےمعاشرے میں دو محاذ وجود میں لے آتے ہیں ، اور ایک محاذ کو دوسرے محاذ کے خلاف کمربستہ کردیتے ہیں ایک کے ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے کے ہاتھ میں خنجر دے کر اُنہیں ایک دوسرے کے خلاف یلغار پرا بھارتے ہیں
البتہ یہ ایک اچھا کام ہے
کس مقام پر یہ کام اچھا ہے؟
اُس مقام پر جہاں ایک ظالم اور ایک مظلوم طبقہ پیدا ہوجائے
مظلوم کو اپنے حق کے حصول کی دعوت دینا، خود ایک انسانی عمل ہےیہ عمل اسلام میں پایا جاتا ہےانبیا نے بھی یہ عمل انجام دیا ہےخاص طور پر اسلام میں توظالم کے خلاف مظلوم کی حوصلہ افزائی کرنااور اسے تقویت پہنچانا شامل ہےاپنے دو عظیم بیٹوں حسن اور حسین کے نام حضرت علی ؑکی وصیتوں میں سے یہ بھی ہے کہ: کُوْنَا لِظَالِمِ خَصْماً وَ لِلمَظْلُومِ عَوْناً (ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنانہج البلاغہ مکتوب ۴۷)
لیکن ایک اور عمل ہے جسے دوسرے انقلابی رہنما انجام دینے پر قادر نہیں ، صرف انبیا اسے انجام دینے پر قادر تھےان کے سوا کسی اور میں اسے انجام دینے کی قدرت نہیں اور وہ عمل یہ ہے کہ وہ انسان کوخود اپنے خلاف ابھارتے تھےیعنی ایسا کام کرتے تھے کہ از خودانسان میں احساسِ گناہ پیدا ہواور پھر وہ خود اپنے خلاف قیام کرے، مقدس انقلاب بپا کرے، شورش کرےاسی کو توبہ کہا جاتاہےآپ کوانبیا کے سوا کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں ملے گاجس میں یہ قدرت پائی جاتی ہو کہ وہ لوگوں کو خود اپنی بدکاریوں اور جرائم کے خلاف قیام وانقلاب پر آمادہ کرےانبیا نہ صرف مظلوم کو ظالم کے خلاف ابھارتے تھے بلکہ اُنہوں نے خود ظالم کواُس کے اپنے ہی خلاف ابھارا!
اگر آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو دیکھیں گے کہ اسلام نے مظلوم، مفلس، محروم رکھے گئے اور حقیر سمجھے جانے والے لوگوں کو ابو سفیان اورابو جہل جیسے اکڑ باز لوگوں کے خلاف بھی ابھارا اورابو سفیان اور ابو جہل کی صف اور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خود اپنے خلاف بھی کھڑا کردیااور انہیں بھی ان محروم کئے ہوئے
لوگوں کی صف میں لا کھڑا کیایہ طاقت صرف انبیا اور اولیا ہی میں پائی جاتی ہےانسان کو خود اُس کی بدکاریوں اور جرائم کے خلاف ابھارنا انبیا اور اولیا کے سوا کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام بغداد کے بازار سے گزر رہے تھےہم جانتے ہیں کہ امام کس حال میں ہوں گے (شور شرابے، دھوم دھڑکے کے ساتھ نہیں گزر رہے ہوں گے) ایک گھر سے ساز و آواز، رقص و سرود کی آوازیں بلند تھیںجس وقت امام اس گھر کے سامنے سے گزرے، عین اُسی وقت اُس گھر سے ایک کنیز باہر نکلی، اُس کے ہاتھ میں کوڑے کا تھیلا تھا، جسے وہ مثلاً اسلئے لائی تھی کہ شہر کی صفائی پر مامور عملا اسے اٹھا کے لیجائےامام نے اُس کنیز سے پوچھا:یہ صاحب ِ خانہ بندہ ہے یا آزاد؟ کنیز نے اس سوال پر اظہارِ تعجب کیا، اور بولی:ظاہر ہے آزاد ہے؟ اس گھر کا مالک شہر کی ایک معروف اورجانی پہچانی شخصیت ”بشر“ہےآپ یہ کیسا سوال کرتے ہیں ؟
شاید اس موقع پر اور سوال جواب بھی ہوئے ہوں، جو تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں درج نہیں ہوئےلیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کنیز کو واپس جانے میں تاخیر ہوگئی جب وہ گھر میں واپس آئی تو صاحب ِ خانہ ”بشر“ نے اس سے پوچھا: کیوں تاخیرہوئی؟ دروازے پرکیوں کھڑی رہی؟ اُس نے کہا: اس اس طرح کی وضع قطع کے ایک صاحب گھر کے سامنے سے گزر رہے تھےانہوں نے مجھ سے یہ یہ باتیں کیں، یہ سوال کیا جس کا میں نے یہ جواب دیا اور آخر میں انہوں نے مجھ سے کہا کہ: اچھا، اب پتا چلا وہ بندہ نہیں آزاد ہےکیونکہ اگر وہ بندہ ہوتا تو یہاں سے اِس قسم کی آوازیں نہ آرہی ہوتیں، یہ رقص و سرود یہاں نہیں ہو رہا ہوتا، یہ شراب نوشیاں نہ ہوتیں، یہ عیاشیاں نظر نہ آرہی ہوتیں
بشر یہ فقرہ اور کنیز کی بتائی ہوئی علامات سن کر سمجھ گیا کہ وہ موسیٰ ابن جعفر ؑ تھے(یہ ہوتا ہے توبہ پر آمادہ کرنا اور انسان کے اندر سے انقلاب اٹھانااور یہ انبیا اور اولیا کے کاموں میں سے ہےانبیا اور اولیا کے سوا کسی اور میں اس قسم کے کاموں کی قدرت نہیں پائی جاتی) یہ شخص بغیر جوتے پہنے، ننگے پیر ہی دروازے کی طرف دوڑ ا، اور پوچھا وہ کس طرف گئے تھےاُسے بتایا گیا: اس طرفوہ دوڑتا ہوا امام کی خدمت میں پہنچا، اپنے آپ کو امام کے قدموں میں گرالیا، اور بولا: آقا! آپ نے صحیح فرمایا تھامیں بندہ ہوں، لیکن مجھے اپنے بندہ ہونے کا احساس ہی نہ رہا تھاحضور! اب اسی لحے سے میں واقعاً بندہ بننا چاہتا ہوں آپ کی خدمت میں توبہ کے لئے حاضر ہوا ہوں
اُس نے وہیں امام کے سامنے توبہ کی اور واپس اپنے گھر لوٹ آیاگھر پہنچ کر اُس سارے ساز وسامان کو اُٹھا کر پھینک دیاپھر اس کے بعد کبھی جوتے بھی نہ پہنےوہ بغدا د کے بازاروں اور گلی کوچوں میں ننگے پاؤں پھرا کرتااور لوگ اسے ”بشر حافی“یعنی، ننگے پاؤں رہنے والا بشر کہا کرتے تھےجب لوگ اُس سے پوچھتے کہ: ننگے پیر کیوں چلتے ہو؟ تو وہ کہتا تھا کہ: جب مجھے امام موسیٰ ابن جعفر کی خدمت میں (توبہ کی) وہ توفیق حاصل ہوئی تھی تو میں ننگے پیر تھااب میرا دل نہیں چاہتا کہ دوبارہ جوتے پہنوں میں چاہتا ہوں کہ اسی حالت کو ہمیشہ محفوظ رکھوں جس میں مجھے وہ توفیق حاصل ہوئی تھی
بنی قریظہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک خیانت کے مرتکب ہوئےپیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے نمٹنے کا فیصلہ کیاان لوگوں نے کہا کہ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیجئے، وہ ہمارا حلیف ہے، ہم اُس سے مشورہ کریں گےنبی کریم نے ابو لبابہ سے کہا کہ وہ جائیں
وہ گئے، اور اُن سے مشورہ کیالیکن یہودیوں سے اپنے ایک خاص تعلق کے زیر اثر انہوں نے مشورت کے دوران اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کوپیش نظر نہ رکھااور ایک ایسا جملہ کہا، ایک ایسا اشارہ کیا جو جملہ یا اشارہ یہودیوں کے مفاد اور مسلمانوں کے نقصان میں تھا
جب وہ باہر آئے تو انہیں احساس ہوا کہ وہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں ابھی کسی کو بھی اس بات کی خبر نہیں ہوئی تھیجوں جوں وہ چلتے ہوئے مدینہ سے نزدیک ہورہے تھے، اُن کے دل میں لگی یہ آگ اوربھڑک رہی تھیوہ گھر آئے، البتہ اپنے بیوی بچوں سے ملنے کے لئے نہیں ، بلکہ انہوں نے وہاں سے ایک رسی اُٹھائی اور مسجد ِ نبوی میں آکراس رسی کے ذریعے اپنے آپ کو مضبوطی کے ساتھ ایک ستون سے باندھ لیااور کہا کہ: بارِالٰہا! جب تک میری توبہ قبول نہ ہوگی میں اپنے آپ کو اس ستون سے نہیں کھولوں گاصرف نماز یا قضائے حاجت کے لئے ان کی بیٹی آکر ان کی رسی کھولتیوہ غذا بھی انتہائی مختصر کھاتے، بس ہر وقت التماس اور تضرع میں مشغول رہتےکہتے کہ: خدایا! میں نے غلطی کی ہے، گناہ کر بیٹھا ہوں، الٰہی! میں نے اسلام اور مسلمین سے خیانت کی ہے، تیرے پیغمبر سے خیانت کا مرتکب ہوا ہوں، بارِ الٰہا! جب تک میری توبہ قبول نہ ہوجائے میں خود کو اس ستون سے نہ کھولوں گا، یہاں تک کہ میری موت واقع ہوجائے
لوگوں نے رسول اﷲ کو آکے بتایا کہ ابو لبابہ نے ایسا کیا ہےآنحضرت نے فرمایا: اگر وہ میرے پاس آتا اور اقرار کرتا، تومیں بارگاہِ الٰہی میں اُس کے لئے استغفار کرتالیکن وہ براہِ راست خدا کے حضور چلا گیا ہے، اور اب خود خدااس کا فیصلہ کرے گامجھے نہیں معلوم دو شبانہ روز گزرے یا اس سے زیادہ پیغمبر اسلام حضرت امِ سلمہ کے گھر پر تھے کہ آپ پر وحی نازل ہوئی کہ اس شخص کی توبہ قبول کی جاتی ہےپیغمبر نے حضرت امِ سلمہ سے فرمایا: امِ سلمہ اُس شخص کی توبہ قبول ہوگئیامِ سلمہ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! اجازت دیجئے کہ میں یہ بشارت اُسے سناؤں؟
آنحضرت نے فرمایا: کوئی حرج نہیں پیغمبر کے تمام حجروں کی ایک کھڑکی مسجد کی جانب کھلتی تھی اور انہیں مسجد کے اطراف تعمیر کیا گیا تھاامِ سلمہ نے اپنا سر کھڑکی سے نکالا اور کہا: ابو لبابہ! میں تمہیں بشارت دیتی ہوں کہ خدا نے تمہاری توبہ قبول کرلی ہےیہ بات مدینہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ خدا نے ابو لبابہ کی توبہ قبول کرلی ہےمسلمان اس کی رسی کھولنے کے لئے وہاں جمع ہوگئےابو لبابہ نے کہا: نہیں ، کوئی میری رسی نہ کھولےمیری خواہش ہے کہ رسول اﷲ اپنے دست ِ مبارک سے مجھے کھولیں
لوگوں نے کہا: یا رسول اﷲ! ابو لبابہ کی خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں اور اپنے دست ِ مبارک سے اسے کھولیں آنحضرت تشریف لائے اور اسے رسیوں سے آزاد کیا(یہ ہے حقیقی توبہ) فرمایا: ابولبابہ !تمہاری توبہ قبول ہوئی، تم پاک ہوکر اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ (بے شک اﷲ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے) کے مصداق بن گئے ہواب تمہاری حالت اس بچے کی سی ہے جوابھی ابھی اپنی ماں سے متولد ہوا ہواب تمہارے وجود پر گناہ کا کوئی داغ نہیں ہے
جن لوگوں نے مدینہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے، وہ جانتے ہیں کہ مسجد ِ نبوی کے ایک ستون پر اُسْطُوانَةُ التَّوْبَه یا اُسْطُوانَةُ اَبی لُبابَه تحریر ہےیہ وہی ستون ہے، لیکن اُس وقت یہ ستون لکڑی کا تھا، ا لبتہ ستونوں کی جگہ تبدیل نہیں ہوئی ہےیہ وہی ستون ہے جس سے پیغمبر اکرم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ابولبابہ کوکھولا تھا
ابولبابہ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول !میں اﷲ کی طرف سے توبہ قبول کئے جانے کی اِس نعمت کے شکرانے کے طورپراپنی تمام دولت راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتا ہوں آنحضرت نے فرمایا: نہیں ، ایسا نہ کرواُس نے کہا: یا رسول اﷲ! میں اﷲ کی طرف سے توبہ قبول کئے جانے کی اِس نعمت کے شکرانے کے طوراپنی دولت میں سے دو تہائی راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتا ہوں
آپ نے فرمایا: نہیں اُس نے کہا: اجازت دیجئے کہ میں اپنی آدہی دولت راہِ خدا میں صدقہ کردوں آپ نے اس سے بھی منع کیااس پر ابو لبابہ نے کہا: اچھا مجھے اپنی ایک تہائی دولت راہِ خدا میں صدقہ کرنے کی اجازت دیجئےرسولِ کریم نے فرمایا: ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے
یہ ہے اسلام، جو تمام امور کو اپنی ٹھیک ٹھیک جگہ پر رکھتا ہےتم کیوں اپنی ساری دولت صدقے میں دینا چاہتے ہو؟ تم کیوں اپنی آدھی دولت راہِ خدا میں صدقہ دینا چاہتے ہو؟ تمہارے بیوی بچے کیا کریں گے؟ کچھ مقدار، ایک تہائی مقدارراہِ خدا میں دے دو، بقیہ کو اپنے پاس رکھو(سفینۃ البحارج ۲ص ۵۰۳)
ایک شخص کی وفات ہوگئی پیغمبر نے اُس کی نمازِ جنازہ پڑھائیاس کے بعد پوچھا: اس کے کتنے بچے ہیں ، اور اس نے اُن کے لئے کیا چھوڑاہے؟ (کسی نے جواب دیا) اے اﷲ کے رسول!اس کے پاس کچھ دولت تھی، لیکن مرنے سے پہلے اس نے وہ ساری دولت راہِ خدا میں دے دیآپ نے فرمایا: اگر تم لوگوں نے یہ بات مجھے پہلے بتائی ہوتی، تو میں اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھتا! یہ شخص معاشرے میں اپنے بھوکے بچے چھوڑکر گیا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ اگر آپ وصیت کرنا چاہتے ہیں کہ میرے بعد میری دولت کو راہِ خدا میں اس طرح خرچ کیا جائے، تو اس دولت کے ایک تہائی کے بارے میں وصیت کیجئےایک تہائی سے زیادہ پر آپ کی وصیت لاگو نہیں ہوگیحتیٰ بعض علما کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار شخص، اُس مرض کے دوران جو اُس کی موت پر منتہی ہو، اپنے ایک تہائی سے زیادہ مال کو، اپنی موت سے قبل راہِ خدا میں دینا چاہے،
تو کیونکہ اُس نے یہ عمل اپنے مرضِ موت میں انجام دیا ہے اسلئے، چاہے اُس نے اسے وصیت کے عنوان سے نہ دینا چاہا ہو بلکہ خود اپنے ہاتھ سے یہ مال دیا ہو، تب بھی اُس کا ایسا کرنا جائز نہیں ہےکیوں؟ کیونکہ وہ صرف اپنے ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہے
البتہ توبہ کے درجات اور مراتب ہیں ، لہٰذا ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئےہم نے خاص طور پر ان شبوں میں توبہ کی گفتگو چھیڑی ہے، کیونکہ یہ دعا، عبادت اور استغفار کی شبیں ہیں
برادران! پہلے درجے میں خود اپنے لئے استغفار کیجئے، مغفرت طلب کیجئےپہلے مرحلے میں کوشش کیجئے کہ آپ اپنے گزشتہ گناہوں سے پاک ہوجائیں آپ کا پاک ہونا یہ ہے کہ آپ پشیمان ہوجائیں، یہ ہے کہ آپ عزم کرلیں کہ اب دوبارہ گناہ نہیں کریں گے، یہ فیصلہ کرلیں کہ لوگوں کو اُن کے حقوق واپس لوٹائیں گے، خدا کے حقوق اسے واپس کریں گےبخدا! اگر آپ اپنے آپ کو پاک کرلیں، تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی تمام دعائیں مستجاب ہورہی ہیں لہٰذاتوبہ کیجئے
کل رات ہم نے آپ کی خدمت میں حر ابن یزید ریاحی کی توبہ کی داستان بیان کی تھی حسین ابن علی کے اصحاب میں ایک اور شخص شامل ہیں ، جن کا نام ”زہیر ابن قین“ ہےان کا شمار بھی توابین میں ہوتا ہے، لیکن ایک دوسری صورت سےزہیر عثمانی تھے، یعنی حضرت عثمان کے شیعوں میں سے تھے، اُن لوگوں میں سے تھے جن کا عقیدہ تھا کہ حضرت عثمان مظلوم قتل کئے گئے ہیں ، اور یہ تصور رکھتے تھے کہ نعوذ باﷲ ان فتنوں میں حضرت علی کا ہاتھ تھاحضرت علی کے بارے میں ان کے خیالات اچھے نہ تھےوہ مکہ سے عراق واپس جارہے تھےامام حسین بھی عراق تشریف لے جا رہے تھےزہیرکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ حسین ابن علی کاسامنا کریں یا نہ کریں؟
کیونکہ بہر حال وہ دل سے ایک مومن شخص تھے اور اس بات سے باخبر تھے کہ حسین فرزند ِرسول ہیں اور امت پر کیا حق رکھتے ہیں وہ خوفزدہ تھے کہ کہیں اُن کا امام سے سامنا ہو اورامام اُن سے کوئی ایسا تقاضا کربیٹھیں جسے وہ پورا نہ کرسکیں، اگر ایسا ہوا تو بہت بُرا ہوجائے گا
راستے میں ایک منزل پر وہ امام کے ساتھ پڑاؤ ڈالنے پر مجبور ہوگئےیعنی کسی پانی کے پاس یا کسی کنویں کے قریب پڑاؤ ڈالاامام نے ایک شخص کو ”زہیر“کو بلانے کے لئے اُن کے پاس بھیجاجب وہ شخص وہاں پہنچا تو اتفاقاً وہ کچھ لوگوں، اپنے ساتھیوں اور اپنے قبیلے کے افراد (زہیر اپنے قبیلے کے سردار تھے) کے ہمراہ ایک خیمے میں دوپہر کا کھانا کھا رہے تھےجوں ہی امام حسین کے بھیجے ہوئے شخص نے آکے کہا کہ: یَا زُهَیْرُ! اَجِبِ الْحُسَیْن یا اَجِبْ اَبا عَبْدِ اللّٰه الْحُسَینزہیر کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اورانہوں نے (خود سے) کہا: جو میں نہیں چاہتا تھا وہی ہوگیا
لکھا ہے کہ زہیر اور اُن کے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے ہاتھ دسترخوان پر جہاں تھے وہیں رکے کے رکے رہ گئےکیونکہ سب پریشان ہوگئے تھےنہ وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم آرہے ہیں اور نہ یہ کہہ سکتے تھے کہ نہیں آتےلکھتے ہیں : کَاَنَّهُ عَلیٰ رُؤُسِهِمُ الطَّیْرُ(گویا اُن کے سر پر پرندے بیٹھے ہوں) زہیر کی بیوی نیک اور مومنہ عورت تھیجب اسے معلوم ہوا کہ زہیر نے حسین کے نمائندے کے جواب میں خاموشی اختیار کرلی ہے، تو وہ آگے بڑھی اور عجیب ملامت آمیز لہجے میں بولی: زہیر! تمہیں شرم نہیں آتی؟ فرزند ِرسول، فرزند ِ زہرا نے تمہیں بلایا ہے، تمہیں توان کے پاس جانے پر فخر کرنا چاہئےتمہیں تردد ہے؟ اٹھو، کھڑے ہو! زہیر اٹھے اور چلے گئے لیکن طوعاً وکرہاً، بے دلی سے
مجھے نہیں معلوم، یعنی تاریخ میں درج نہیں ہے اور شاید کسی کوبھی نہیں معلوم کہ امام حسین اور زہیر کی ملاقات کے دوران کیا ہوا؟ اُن کے درمیان کیا ہوا؟ کیا گفت وشنید ہوئی؟ لیکن جو بات مسلَّم ہے، وہ یہ ہے کہ جب زہیر واپس آئے تو اُن کا چہرہ اُس چہرے سے بالکل مختلف تھا جب وہ گئے تھےجب وہ جارہے تھے تو اُن کا چہرہ افسردہ اورغمگین تھا لیکن جب وہ باہر نکلے، تو اُن کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا
ہمیں نہیں معلوم امام حسین نے اُن کے وجود میں کیا انقلاب ایجاد کیا، انہیں کیا بات یاد دلائی، ہم نہیں جانتےلیکن اتنا جانتے ہیں کہ زہیر کے وجود میں ایک مقدس انقلاب پیدا ہوچکا تھاآئے اور آکے بیٹھ نہیں گئے، بلکہ دیکھا کہ وہ وصیت کررہے ہیں میرے مال ودولت کا یہ کرنا، میرے بچوں کا یہ کرنا، اپنی زوجہ کے بارے میں وصیت کی کہ اسے اس کے والد کے گھر پہنچا دیناوصیت مکمل کرنے کے بعد اپنے آپ کو تیار کیا اور کہا کہ میں جا رہا ہوںسب سمجھ گئے کہ اب زہیر نہیں آئیں گے
کہتے ہیں کہ جب وہ جانے لگے، تو اُن کی زوجہ نے آگے بڑھ کر اُن کادامن تھام لیا اور بولیں: زہیر! تم جارہے ہو اور ایک عظیم مقام حاصل کررہے ہو، حسین کے نانا تمہاری شفاعت کریں گےمیں آج تمہارا دامن پکڑتی ہوں کہ قیامت میں حسین کے نانااورحسین کی ماں میری شفاعت کریںاس کے بعد زہیر کربلا کی صف ِ اوّل کے اصحاب میں سے ہوگئے
عجیب عالم تھازوجہ زہیر مضطرب تھی کہ کیا ہوتا ہے؟ جب اسے اطلاع ملی کہ حسین اور اُن کے تمام اصحاب شہید ہوگئے ہیں ، توسوچنے لگیں کہ یقینا سب کے پاس کفن ہوگا لیکن زہیر کے پاس کفن نہیں تھا اور وہاں اُن کا کوئی نہیں ہےاس نے اپنے غلام کے ہاتھ ایک کفن بھیجااوراُس سے کہا کہ: جاؤ زہیر کی تکفین کرولیکن جب وہ غلام وہاں پہنچا توجو حالت اُس نے دیکھی اُس سے اُسے زہیر کو کفن دیتے ہوئے شرم محسوس ہوئی، کیونکہ اُس نے دیکھا کہ زہیر کے آقا کا بدن بھی بے کفن پڑاہے
لاٰحَوْلَ وَلَاٰ قُوَّةَ اِلاَّ بِاللّٰهِ وَ صَلَّ اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِینَ
بارِ الٰہا! ہم سب کا انجام نیک فرما
بارِ الٰہا!ہم سب کو سچی توبہ کی، توبہ نصوح کی توفیق عنایت فرما
بارِ الٰہا! اپنے لطف و کرم سے ہمارے گناہوں سے درگزر فرما
بارِ الٰہا! ہمیں ان راتوں کے فیض سے محروم نہ فرما
رَحِمَ اللّٰهُ مَنْ قَرَ ءَ الْفَاتِحَةُ مَعَ الصَّلَوٰة
Comments powered by CComment