عباد الرحمٰن کے اوصاف

اخلاق
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

تالیف: محمد محمدی اشتہاردی

ترجمہ: سید سعیدحیدر زیدی

 

عرض ناشر

قرآن کریم انسانوں کی ہدایت اور ان کی رہنمائی کے لیے نازل ہونے والی کتاب ہےاس کا مخاطب عالمِ انسانیت ہےاس میں انسان کی خلقت، اسکی خصوصیات، اسکی منزلت، اس کے مقصد ِتخلیق اور اسکی ہدایت و رہنمائی سے تعلق رکھنے والے تمام امور کا تذکرہ ہوا ہےاسی کتاب ِ ہدایت میں ان پسندیدہ صفات و خصوصیات کو بھی بیان کیا گیا ہے جو خداوند ِعالم انسان میں دیکھنا چاہتا ہے، اور پرودگارِ عالم کی نظر میں ناپسندیدہ صفات بھی اس میں بیان کی گئی ہیںوہ امور بھی بیان ہوئے ہیں جن کی جانب ربُ العالمین نے انسانوں کو شوق و رغبت دلائی ہے، اور ایسے امور سے اجتناب کی تاکید بھی کی گئی ہے جو دنیا اور آخرت میں انسان کی تباہی و بربادی کی وجہ بنتے ہیں۔

زیر نظر تالیف قرآنِ مجید کے پچیسویں سورے، سورئہ فرقان کی آخری چند آیات کی تشریح و تفسیر پر مشتمل مضامین کا مجموعہ ہےان آیات میں خداوند ِعالم نے اپنے خاص اور ممتاز بندوں کو عبادالرحمن قرار دیتے ہوئے ان کی بارہ خصوصیات کا ذکر کیا ہے، اور ان کے انفرادی واجتماعی کردار کی تصویر کشی کی ہے۔

حوزئہ علمیہ قم کے ممتاز اساتید میں شمار ہونے والے حجۃ الاسلام محمد محمدی اشتہاردی نے یہ مضامین حوزئہ علمیہ قم سے شائع ہونے والے ماہنامے ” پاسدار اسلام“ کے لیے تحریر کیے جن کا اردو ترجمہ ” دوماہی رسالت کراچی“ میں قسط وار شائع کیا گیااب ان مضامین کو کتابی صورت میں پیش کیا جارہا ہے امید ہے دارالثقلین  کی دوسری کتب کی طرح یہ کتاب بھی قارئین میں پسند کی جائے گی۔

 

تواضع و انکسا ری

قرآنِ مجید کی سورئہ فرقان میں خداوند ِعالم نے عبادالرحمٰن (خدا کے خاص بندوں) کی تعریف و ستائش کی ہے اور اس سورے کی آیات نمبر ۶۳سے۷۴ تک میں اپنے ان بندوں کی بارہ خصوصیات کا ذکر کیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ دیا ہے کہ: اُولٰىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا (یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے صبرو استقامت کی وجہ سے (جزائے الٰہی کے طور پر) بہشت کے بلند محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم و سلام پیش کیے جائیں گےسورئہ فرقان۲۵آیت ۷۵)

عباد الرحمٰن کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ ان بارہ خصوصیات و امتیازات کا ذکر کریں، اور بارہ علیحدہ علیحدہ مضامین کی صورت میں ان میںسے ہر خصوصیت کو مختصراً بیان کریں، اس امید کے ساتھ کہ ان اعلیٰ اقدار و صفات سے متصف ہوکر ہم بھی کمال کے مدارج طے کرسکیں اور عبادالرحمٰن یعنی خداوند ِسبحان کے خاص اور ممتاز بندوں کی صف میں شامل ہوسکیں۔

 

پہلی خصوصیت: تواضع و انکساری

قرآنِ مجید خداوند ِعالم کے خاص بندوں کی پہلی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَي الْاَرْضِ هَوْنًا ( وہ جو زمین پر آہستہ آہستہ چلتے ہیںسورہ فرقان ۲۵آیت ۶۳) یعنی عبادالرحمٰن وہ لوگ ہیں جو آہستہ قدموں اور کسی قسم کے غرور تکبر کے بغیر زمین پر چلتے ہیں۔

تواضع کے معنی ہیں، عاجزی و انکساریجبکہ اس کی ضد تکبر اور خود پسندی ہے جو غرور، غفلت اور سرکشی کی وجہ بنتی ہے، جس کی بنا پر انسان گمراہ، بے راہ رو اور تباہ ہوجاتا ہے۔

تواضع و انکساری دو طرح کی ہوتی ہے:

 

۱:- خدا کے سامنے عاجزی و انکساری، جو عبودیت و بندگی کے بنیادی خواص میں سے ہے، اور جس کے بغیر بندگی کا جوہر پیدا نہیں ہوتا۔

 

۲:- با ایمان انسانوں کے ساتھ انکساری اور فروتنی سے پیش آنایا اُن انسانوں کے سامنے تواضع و فروتنی جن کے مقابل عاجزی و انکساری کا اظہار مثبت اثرات کا حامل ہوتا ہے اور ان میں اعلیٰ اقدار و صفات کی جانب رغبت کا سبب بنتا ہے۔

 

خدا کے مقابل تواضع و انکساری

خدا کے سامنے عاجزی اور انکساری کی علامت یہ ہے کہ انسان اسکے فرامین تسلیم کرے، اسکی اطاعت بجالائے اور اسکی عظمت کے سامنے انتہائی خضوع و خشوع کا اظہار کرےاس پر یہ کیفیت اس حد تک طاری ہوکہ اسے جو کچھ حاصل ہے اُس سب کو خدا کی طرف سے سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اسکی مخلوقات میںسے ایک ناچیز ذرّہ سمجھےبے چوں و چرا اسکا شاکروسپاس گزار رہے اور خدا کی مرضی کے سامنے اپنی کسی بھی قسم کی مرضی چلانے سے پرہیز کرے۔

خداوند ِعالم کے سامنے عاجزی و انکساری، ایمان و معرفت کی کنجی اور درگاہِ حق اور تقرب ِ الٰہی کا ذریعہ ہےاس کے برعکس خدا کے سامنے تکبر اور گھمنڈ اس سے سرکشی اور بغاوت کا موجب اور ہر قسم کی بدبختی اور گمراہی کا سبب ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے روایت کی گئی ہے کہ آنحضرتؐ پروردگارِ عالم کی عظمت و بزرگی کے مقابل انتہائی تواضع و عاجزی کے حامل تھے، یہاں تک کہ جب خدا نے انہیں اختیار دیا کہ رسول اور بندہ بن کر رہیں یا رسول اور بادشاہ بن کر ہر صورت میں خدا کے نزدیک ان کے مقام میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، تب بھی آنحضرتؐ نے بندگی اور رسالت کا انتخاب کیا اور خدا کا عاجزبندہ اور رسول بننا پسند کیا، رسول اور بادشاہ بننا قبول نہ کیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:مااکل رسول الله(ص) متّکناً منذبعثه الله عزّوجلّ نبیّاً حتّی قبضه الله الیه، متو اضعاًلله عزّوجلّ (جب سے رسول اللہ رسالت کے لیے مبعوث ہوئے تھے، اس وقت سے اپنی عمر کے اختتام تک خداوند ِ عالم کے مقابل عاجزی و انکساری کی بناپر کبھی آپ نے کسی چیز پر ٹیک لگا کر غذا تناول نہیں فرمائیکحل البصرص ۱۰۰، ۱۰۱از محدث قمی)

 

ایک دن آنحضرتؐ چند غلاموں کے ساتھ زمین پر تشریف فرما، کھانا کھانے میںمشغول تھے کہ وہاں سے ایک گستاخ عورت کا گزرہواآنحضرتؐ کو اس طرح تشریف فرمادیکھ کر اس عورت نے کہا :اے محمد! خدا کی قسم آپ بندوں (غلاموں) کی مانند کھانا کھارہے ہیں اور انہی کی مانند بیٹھے ہوئے ہیں (آپ کی روش اور انداز بادشاہوں اور حکمرانوں کا سانہیں ہے) پیغمبر اسلام ؐ نے اسے جواب دیا :ویحک ایّ عبداعبدمنّی(وائے ہوتجھ پر، کونسا بندہ مجھ سے بڑھ کر بندہ (غلام) ہوگاحوالہ سابق ص ۱۰۱)

خداوند ِعالم کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کی تواضع و انکساری کے بارے میں روایت کی گئی ہے کہ آپ کثرت کے ساتھ غربا اور ضرورت مندوں کی مدد کیا کرتے تھےایک دن ایک شخص نے تنقید کے طور پر آپ سے عرض کیا :آپ اس قدر افراط کے ساتھ صدقہ کیوں دیا کرتے ہیں، اپنے لیے کوئی چیز کیوں نہیں بچاتے؟ آپ نے جواب دیا:ہاں!خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ خداوند ِعالم میرے انجام دیئے ہوئے کسی عمل یا فریضے کو قبول کررہا ہے، تو میں اس افراط کے ساتھ خرچ کرنے سے پرہیز کرتالیکن مجھے نہیں معلوم کہ میرے اعمال بارگاہِ الٰہی میں قبول ہورہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ مجھے اس بارے میں اطلاع نہیں اس لیے (راہ خدا میں) اس قد ر خرچ کرتا ہوں، تاکہ ان میں سے کوئی ایک قبول ہوجائے ( الغاراتج ۱۔ ص۔ ۹۱۔ از ابراہیم بن محمد ثقفی)

یہ واقعہ خداو ند ِبزرگ و برتر کے مقابل حضرت علی علیہ السلام کی انتہائی تواضع و انکساری اور آپ کےخضوع و خشوع کو ظاہر کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ آپ توحید ِافعالی کی عظیم بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے انتہائی ناچیز سمجھتے تھے۔

پاک و پاکیزہ عارف ” ورام ابن ابی فراس“ بیان کرتے ہیں کہ ایک شہر میں اولیااللہ میں سے ایک عمر رسیدہ بزرگ رہا کرتے تھےاس شہر میں زلزلہ اور طوفان آیا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے اور بہت سے بے گھر ہوکر مصائب و ابتلا کا شکار ہوگئےان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور مشکلات کے حل کے لیے ان سے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔

 

یہ لوگ جمع ہوکر ان پارسابزرگ کی خدمت میںحاضر ہوئے اور اپنی بدحالی اور ابتر صورتحال کا ذکر کیا، اور ان سے دعا کی درخواست کییہ بزرگ خدا کے سامنے انتہائی فروتنی اور عاجزی کا اظہار کرنے لگے اور روتے ہوئے ان لوگوں سے کہا:کہیں ایسا نہ ہوکہ میں خود ہی اس ہلاکت اور تمہارے مصائب کا ذمے دار ہوںلہٰذا اس فقیر ناچیز او رگناہ گار سے دعا اور اسکی استجابت کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔ (تنبیہ الخواطر۔ ص ۳۰۳ازورام بن ابی فراس)

جی ہاں! پاک و پاکیزہ عرفا اور اولیاء اللہ پروردگارِ عالم کی عظمت کے سامنے اس انداز سے خاضع و متواضع ہوتے ہیںکیا خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں یہ نہیں فرمایا ہے کہ: يٰاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ اِلَى اللهِ (اے انسانوں! تم سب اللہ کے محتاج ہوسورہ فاطر۳۵۔ آیت ۱۵)

امام زین العابدین علیہ السلام اپنی ایک دعا کے ایک حصے میں خداوند ِمتعال سے عرض کرتے ہیں کہ :یا غنی الاغنیاء ها، نحن عبادک بین یدیک، وانا افقر الفقرائ الیک، فاجبر فاقتنا بوسعک (اے بے نیازوں میں سب سے زیادہ بے نیاز! اب ہم تیرے بندے، تیری بارگاہ میںحاضر ہیں اور تیرے فقیروں میں سب سے زیادہ فقیر میں ہوں پس ہماری تہی دستی کا اپنی تونگری کے ذریعے ازالہ فرماصحیفہ سجادیہ۔ دعا۱۰)

 

لوگوں کا آپس میں انکساری سے پیش آنا

تواضع و انکساری کی ایک قسم دوسرے انسانوں کے ساتھ، والدین کے ساتھ، ہمسایوں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ اور عام لوگوں کے ساتھ انکساری اور عاجزی سے پیش آنا ہے۔

عاجزی و انکساری کا طرزِ عمل انسانوں کے باہمی تعلقات میں استحکام اور ان کے درمیان محبت و الفت میں اضافے کا موجب ہوتا ہےجس کے نتیجے میں ان کے مابین خلوص و صفامیں اضافہ ہوتا ہے، اور معاشرے سے ہر قسم کی کدورت، بدگمانی اور دوسرے مذموم اثرات مثلاً غرور و تکبر اور خود پسندی ختم ہوجاتے ہیں۔

عاجزی و انکساری، معاشرے میں انسان کے احترام اور اس کے وقار کی بلندی کا سبب بن کر باہمی اعتماد اور سکون وراحت کا باعث بنتی ہے۔ یہ صفت انسان کے اخلاق کو زینت بخشتی ہے اور اچھے تعلقات اور مخلصانہ روابط کو مضبوط کرتی ہے، انسانوں کو حق کے سامنے تسلیم کرکے ہر قسم کی جارحیت اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے سے روکتی ہےمختصر یہ کہ عاجزی، انکساری اور فروتنی بہت سی انفرادی و اجتماعی، معنوی و اخلاقی برکات کا سرچشمہ ہے۔

قرآن کریم نے، زیر بحث آیت میں اس اخلاقی صفت کو خدا کے ممتاز بندوں کی اوّلین خصوصیت قرار دیا ہے اور اس کی علامت ” انکساری اور آہستگی سے چلنا“ ہے جو دوسروں کے دل میں محبت اور پسندیدگی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔

رسول خدا صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے :علما کی ہمنشینی تمہیں تین چیزوں سے دوسری تین چیزوں کی جانب لے جاتی ہے: (۱) تکبر سے تواضع و انکساری کی طرف(۲) بے تعلقی سے احساس ذمے داری اور نصیحت کرنے کی طرف(۳) جہل و نادانی سے علم و دانش کی طرف (مجموعہ ورام۔ ص۲۳۳)

 

البتہ تواضع و انکساری کی مختلف صورتیں ہوا کرتی ہیں، ان میں سے ایک واضح ترین صورت راستہ چلنے کا انداز ہےبعض افراد غرور اور تکبر کی بنا پر اس انداز سے چلتے ہیں جیسے زمین کا سینہ چاک کردینا چاہتے ہوںیہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں حضرت لقمان کی اپنے فرزند کو کی جانے والی نصیحتوں میں آیا ہے کہ آپ نے اس سے فرمایا:

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ

اور خبردار لوگوں کے سامنے اکڑ کر ان سے منھ نہ پھیر لینا اور زمین پر غرور کے ساتھ نہ چلنا کہ خدا اکڑنے والے اور مغرور کوپسند نہیں کرتاسورئہ لقمان ۳۱۔ آیت ۱۸

خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلامؐ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:

وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا

اور روئے زمین پر اکڑ کر نہ چلنا کہ نہ تم زمین کو شق کرسکتے ہو اور نہ سراٹھا کر پہاڑوں کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہوسورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۷

سچ ہے، اگر انسان خود اپنے آپ اور کائنات کے بارے میں معمولی سی معرفت وشناسائی بھی رکھتا ہو تو جان لیتا ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات کے مقابل وہ کس قدر معمولی او ر حقیر ہے، خواہ اگر وہ اپنی گردن لمبی کرتے ہوئے پہاڑوں کی بلندیوں کو بھی چھولےجبکہ حال یہ ہے کہ زمین پر موجو بلند ترین پہاڑ بھی زمین کی عظمت کے سامنے کچھ نہیں اور خود زمین عظیم کہکشائوں کے سامنے ایک ناچیز ذرہ ہے۔

یہ سب جاننے کے باوجود انسان کا کبروغرور میں مبتلا ہونا کیا اس کے مطلق جہل و نادانی کی دلیل نہیں؟

 

مختصر یہ کہ تواضع و انکساری اور عاجزی وخاکساری کا اظہار متقین کے خاص امتیازات میں سے ہےامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے متقین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

ومشیهم التّواضع

اور ان کی چال منکسرانہ ہوتی ہےنہج البلاغہ خطبہ۱۹۲

 

رسولِ کریم ؐکی انکساری کی ایک جھلک

سیرت نویسوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ِطیبہ میں لکھا ہے کہ: ایک دن آنحضرتؐ ایک گروہ کے پاس گئے (وہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے)آنجناب کو اپنے درمیان دیکھ کر وہ لوگ احتراماً ایک ساتھ اٹھ کھڑے ہوئےرسول کریمؐ نے اُن کے اِس عمل کو پسند نہ کیا اور فرمایا: اِس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح اہلِ عجم ایک دوسرے کی تعظیم میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

انس بن مالک کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعدلوگ رسول ؐاللہ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنحضرؐت کو یہ بات پسند نہیں آنحضرتؐ جب کسی مجلس میں آتے تو اس مجلس میں کمتر درجے کی جگہ پر تشریف فرماہوتے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: پیغمبر اسلام کی انکساری اور عاجزی میں سے یہ بھی ہے کہ آپؐ برہنہ پشت گدھے پر سوار ہونا اور خاک پر بیٹھنا پسند فرماتے تھےآپؐ غلاموں کے ساتھ بیٹھ کر غذا تناول فرماتے اور سائلوں کوخود اپنے ہاتھوں سے کھانا پہنچاتے آپؐ گدھے پر سوار ہوتے اور اپنے غلام یا کسی دوسرے شخص کو اپنے پیچھے بٹھاتے۔

 

آنحضرتؐ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ انتہائی انکساری کے ساتھ دسترخوان پر تشریف فرما ہوتے، اور کھانا کھاتے ہوئے اپنی انگلیوں کو چاٹتے جاتے۔ اپنے مویشیوں کا دودھ خود دوہتے اور اپنے پھٹے کپڑوں اور جوتوں کی سلائی خود کرتےگھر میں جھاڑو لگاتے اور اپنے اونٹ کوخود اپنے ہاتھوں سے اصطبل میں باندھتے، اپنے گھریلو ملازم کے ساتھ مل کر گندم اور جو پیستے، اس کے آٹے کو خمیر کرتے، گھریلو ضروریات کی اشیا بازار سے خرید فرماتے اور انہیں اٹھا کر گھر تک لاتےفقرا کے ساتھ بیٹھتے اور ان کے ساتھ غذا تناول فرماتے، اور خود اپنے ہاتھوں سے انہیں کھانا دیتے۔ (کحل البصر۔ ص ۱۷۷از محدث قمی)

ایک روز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک گلی سے گزررہے تھےآپ ؐنے دیکھا کہ کچھ لوگ ہجوم لگائے کھڑے ہیںنزدیک تشریف لے گئے اور فرمایا: کیا بات ہے، کیا ہورہا ہے؟ لوگوں نے ایک شخص کی جانب اشارہ کیا اور کہا :یہ ایک دیوانہ ہے، جو اپنی مضحکہ خیز حرکات اور باتوں سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیےہوئے ہےلوگ اس کا تماشا دیکھنے کے لیے یہاں جمع ہیں۔

پیغمبر اسلامؐ نے ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ان سے فرمایا:یہ شخص بیماری میں مبتلا ہےکیا تم لوگ چاہتے ہو کہ میں تمھیں حقیقی دیوانے سے متعارف کرائوں؟ ان لوگوں نے کہا: جی ہاں آپؐ نے فرمایا: المتبختر فی مشیہ، النّاظر فی عطفیہ، المحّرک جنبیہ بمنکبیہ الّذی لایر جی خیرہ، ولا یومن شرّہ (حقیقی دیوانہ وہ شخص ہے جو تکبر اور غرور کے ساتھ راستہ چلتا ہے، مسلسل اپنے دائیں بائیں دیکھتا جاتا ہے اور اپنے پہلوئوں کو اپنے شانوں سے ہلاتا جاتا ہے(صرف اپنے آپ میں مگن رہتا ہے) لوگوں کو اُس سے خیر کی کوئی امید نہیں ہوتی اور اُسکے شر سے امان میں نہیں ہوتےالمواعظ العددیہ۔ ص ۱۷۵۔ ازشیخ حرعاملی)

 

حضرت علیؑ کی تواضع اور انکساری کی ایک جھلک

حضرت علی علیہ السلام بھی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں انتہائی حد تک تواضع و انکساری کو ملحوظ رکھتے تھےآپؑ اِس قدر فروتن اور خاکسار تھے کہ پیغمبر اسلامؐ نے آپ ؑکو ابو تراب کہا اور آپ ؑکو پسند تھا کہ لوگ آپ ؑکو اِس نام سے پکاریں۔

تاریخ میں آیا ہے کہ ” غزوہ عُشَیرہ“ کے موقع پر جب اسلامی سپاہ محاذ پر پہنچیں اور دشمنوں اور شرپسندوں کو اِس علاقے سے نکال دیا تو حضرت عماریاسر کے بقول:ہم اس محاذ پر ایک بیابان میں تھےحضرت علی ؑنے مجھ سے فرمایا:کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان کسانوں کے پاس چلیں جو (اس علاقے کے نزدیک) اس چشمے کے کنارے کام میں مشغول ہیں اور ان کے کام کرنے کا طریقہ دیکھیں؟ میں نے رضا مندی کا اظہار کیا اور ہم اکھٹے اُس جگہ گئے اور قریب سے اُن کے کام کرنے کا انداز دیکھاپھر ان کے نزدیک ہی کھجور کے درختوں کے ایک جھنڈ تلے آرام کی غرض سے زمین پر لیٹ کے سوگئےپیغمبر اسلامؐ نے آکر ہمیں بیدار کیا اور حضرت علیؑ سے فرمایا:اے ابو تراب اٹھ بیٹھئے۔ علی ؑاٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے لباس پر لگی ہوئی گردوغبار کوجھاڑااِس طرح علی ؑاِس لقب سے معروف ہوگئے۔ (کحل البصر۔ ص۱۹۳۔ ازمحدث قمی)

حضرت علی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک دلچسپ اور سبق آموز قصہ وہ ہے جسے امام حسن عسکری علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے، فرماتے ہیں: ایک باپ اور اسکا بیٹا حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے (یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ زمانہ آپؑ کا دورِ خلافت تھا) حضرتؑ نے انہیں اپنا مہمان بنایا۔ انہیں صدرِ مجلس میں جگہ دیخود انتہائی انکساری کے ساتھ ان کے سامنے تشریف فرما ہوئے اور کھانا لانے کو کہاکھانا لایا گیا اور مہمانوں نے اسے تناول کیااس کے بعد قنبر لوٹا اور لگن لے کر حاضر ہوئے تاکہ ان کے ہاتھ دھلا دیںحضرت علیؑ، باپ کے ہاتھ دھلانے کے لیے خود کھڑے ہوئےاس نے جب یہ دیکھا تو اس بات پر تیار نہ ہوا اور شدید اصرار کیا کہ آپؑ اس کے ہاتھ نہ دھلائیںلیکن حضرت علیؑ راضی نہ ہوئے اور بالآخر پانی ڈال کر اسکے ہاتھ دھلوائے۔

 

اس شخص نے حضرتؑ سے عرض کیا:میرے لیے انتہائی شرمندگی کی بات ہے کہ خداوند ِ عالم مجھے اس حال میں دیکھے کہ آپ ؑمیرے ہاتھ دھلارہے ہوں۔

حضرتؑ نے اسے جواب دیا:نہیں، یہ تو بہترین حالت ہے، کیونکہ خداوند ِعالم دیکھ رہا ہے کہ تمھارا بھائی کسی قسم کے امتیاز کے بغیر تمہاری خدمت کررہا ہے اور اس خدمت سے اس کا مقصد بہشت کے کئی گنا اجروثواب کا حصول ہے۔

اس کے بعد حضرت علیؑ نے لوٹا اپنے فرزند محمد بن حنیفہ کو دیا اور فرمایا:اب بیٹے کے ہاتھ تم دھلائوبیٹا! اگر یہ تنہا یہاں آیا ہوتا تو اس کے ہاتھ میں دھلاتا لیکن خدا وند ِعالم کو یہ بات پسند نہیں کہ کسی جگہ باپ اور بیٹا ایک ساتھ ہوں اور ان کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائےلہٰذا تمھارے باپ نے اس کے باپ کے ہاتھ دھلائے ہیں اور اب تم بیٹے کے ہاتھ دھلائو۔ محمد بن حنیفہ نے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔

اس کے بعد امام حسن عسکریؑ نے فرمایا :فمن اتبع علیّاً علی ذالک فهو الشّیعّی حقّا (جو اس بات میں علی ؑکی پیروی کرے وہ ان کا حقیقی شیعہ ہےمناقب ابن شہر آشوب ج ۲۔ ص ۱۰۵، بحارالانوار۔ ج۴۱۔ ص۵۶)

حضرت علیؑ کی تواضع و انکساری کے بارے ہی میں ” زید بن علی“ نقل کرتے ہیں:آپؑ پانچ مقامات پر، اپنی جوتیاں ہاتھ میں اٹھا کر برہنہ پاچلاکرتے تھے(۱)عید ِفطر کے دن نماز کے لیے جاتے وقت (۲) عید قرباں کے دن نماز کے مقام پر جاتے وقت (۳) جمعہ کے دن، نمازجمعہ کے لیے جاتےوقت (۴) کسی بیمار کے گھر اس کی عیادت کے لیے جاتے ہوئے (۵) اور تشیع جنازہ کے وقتاور فرمایا کرتے تھے کہ یہ مواقع خدا سے منسوب ہیں اور مجھے اس قسم کے مواقع پر (انکساری اور تواضع کے اظہار کے لیے ) برہنہ پا چلنا پسند ہے۔

 

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دن حضرت علی علیہ السلام سواری پر سوار کہیں سے گزررہے تھےآپؑ کے چند اصحاب آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگےآپؑ نے ان اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: کیا تم لوگوں کی کوئی حاجت ہے؟ ان لوگوں نے عرض کیا: نہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپؑ کے ہمراہ اسی طرح چلیں آپؑ نے فرمایا: انصرفواوار جعو ا، النعال خلف اعقاب الرّجال مفسدة للقلوب (جائو، واپس چلے جائو، اس طرح لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنا(ان کے) قلوب کی تباہی کی وجہ بن جاتا ہےمناقب ابن شہر آشوب ج۲۔ ص۱۰۴)

یعنی ممکن ہے یہ عمل اس شخص کو خود پسندی میں مبتلا کردے جس کے ساتھ یہ طرزِ عمل اختیار کیا جارہا ہے اور اس سے عاجزی وانکساری کی خصلت چھین لے اور نتیجے میں معنوی لحاظ سے اسکی روح اور قلب تباہ اور بیمار ہوجائے۔

جی ہاں! پیغمبر اسلاؐم، حضرت علیؑ اور دیگر اولیا اللہ اسی قدر منکسرالمزاج تھے، عمدہ اخلاق اور نیک خصائل کا احترام کیا کرتے تھے اور عبادالرحمٰن کی اس اوّلین خصلت کو اہمیت دیتے تھے۔

 

مثبت اور منفی انکساری

البتہ حدود کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ ذلت اور انکساری کے درمیان بہت باریک فرق ہےلہٰذا بہت سے افراد غلط فہمی کی بنا پر تواضع و انکساری کے نام پر ذلت کا گناہ کربیٹھتے ہیں، جسے ہم منفی تواضع و انکساری کا نام دے سکتے ہیں اس قسم کی منفی تواضع و انکساری سے اسلام شدت کے ساتھ روکتا ہےقرآنِ کریم ممتاز بزرگ ہستیوں کی توصیف کرتے ہوئے فرماتا ہے: اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ (یہ لوگ مومنین سے نرمی برتتے ہیں اور کفار کے مقابل سخت ہوتے ہیں۔ سورہ مائدہ ۵۔ آیت ۵۴)

 

اس آیت میں واضح ہدایت موجود ہے کہ کفار اور سرکش و نافرمان افراد کے مقابل عاجزی و انکساری کا اظہار درست نہیں۔

اسی بنیاد پر امیر المومنینؑ نے فرمایا ہے: من اتی غنیاءً فتضعضع له لشیٔ یصیبه منه ذهب ثلثا دینه (ایسا شخص جو مالِ دنیا میں سے کسی چیز کے حصول کی غرض سے کسی دولت مندکے پاس آئے اور اس کے آگے خود کو حقارت سے پیش کرے، تو اس کا دو تہائی دین ختم ہوجاتاہےبحارالانوار۔ ج۷۷ص۴۳۔ ازعلامہ مجلسی)

نیز آپؑ ہی نے فرمایا ہے: مااحسن تواضع الاغنیاء للفقراء طلباً لما عندالله، واحسن منه تیه الفقراء علی الاغنیاء اتکا لاًعلی الله (کس قدر اچھی بات ہے کہ مالدار لوگ اجر الٰہی کی خاطر فقرا کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئیں، لیکن اس سے بھی اچھی بات فقرا کا خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے دولت مندوں کے ساتھ وقار اور بے اعتنائی سے پیش آنا ہےنہج البلاغہ کلمات قصار ۴۰۶)

ہم انکساری اور عاجزی کے موضوع پر اپنی گفتگو کو اس دلچسپ اور سبق آموزداستان پر ختم کرتے ہیں:جنگ ِاحد میں پیغمبر اسلامؐ کے ایک صحابی ” ابودجانہ انصاری“ نے اپنے سرپر ایک شاندار عمامہ باندھا، اس کے کپڑے کا ایک ٹکڑا اپنے کاندھے پر ڈالا اور انتہائی فخر وناز کے ساتھ ایک عجیب پرشکوہ انداز میں چلتے ہوئے دشمن کے سامنے گئے(عام حالات میں اس طرح چلنا ایک طرح کا غرور اور تکبر ہوتا) پیغمبر اسلامؐ نے جب انہیں اس انداز سے چلتے دیکھا تو فرمایا: انّ هذه لمشیة یبغضها الله عزّوجلّ، الاّ عندالقتال فی سبیل الله (اس طرح چلنے پر خدا ناراض اور غضبناک ہوتا ہے، مگر راہِ خدا میں معرکہ آرائی کے دوران یہ عمل (اسلامی قدرت و ہیبت کے اظہار اور دشمن کو خوفزدہ کرنے کی خاطر) پسندیدہ عمل ہے۔“ (وسائل الشیعہ ج۱۱ص۹)

ان روایات سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے کہ تواضع اور عاجزی و انکساری دو طرح کی ہوتی ہےایک مثبت اور دوسری منفیاسی طرح اس کی ضد تکبر بھی کبھی کبھی مثبت اور پسند یدہ ہوجاتا ہے۔

 

حلم اور ضبط ِنفس

قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے ممتاز بندوں کی دوسری خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ: وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (اور جب جاہل ان سے (نامناسب انداز سے) خطاب کرتے ہیں تو یہ لوگ ان کے جواب میں انہیں سلامتی کا پیغام دیتے ہیںسورئہ فرقان۲۵۔ آیت۶۳) یعنی ان کے سامنے سے، بے اعتنائی اور بزرگواری کے ساتھ گزرجاتے ہیںمراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تحمل وبردباری کی صفت پائی جاتی ہے اور انہیں اپنے اعصاب اور جذبات و احساسات پر قابو ہوتا ہے۔

ان لوگوں کا وصف یہ ہے کہ نامعقول افراد کے رویے کے مقابل بردباری اور ضبط ِ نفس سے کام لیتے ہوئے، اسلامی اخلاق کی حدوں سے باہر نہیں نکلتےعظمت ِکردار اور بزرگواری کی بدولت غیظ وغضب سے مغلوب نہیں ہوجاتےان کے مضبوط ارادے، ان کے صبرو تحمل اور سکون و اطمینان کی بنا پر انہیں پہاڑ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

یہ کہنا کوئی فخر کی بات نہیں کہ فلاں نے مجھ پر اعتراض کیا، مجھے برابھلا کہا، تو اس کے جواب میں، میں نے اسے دس گنازیادہ سنا ڈالیںبلکہ قرآنِ کریم کی رو سے فخر و افتخار کی بات یہ ہے کہ ہم نامعقول لوگوں کے نامناسب رویے کے جواب میں ان کی اس حرکت کو نظر انداز کردیں۔ یعنی لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ا ن کی طرف سے منھ پھیر لیں۔

البتہ جس سلام کا یہاں (آیت میں) ذکر ہورہا ہے وہ دوستی والاسلام نہیں، بلکہ بے اعتنائی والا سلام ہے، ایک طرح کے اعتراض اور ناراضگی کا اظہار ہے جس میں تعلق برقرار رکھتے ہوئے صلح و صفائی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پیغام موجود ہے۔

ممکن ہے اس مقام پر یہ سوال پیش آئے کہ قرآنِ کریم اور روایات ِمعصومینؑ میں متعدد مقامات پر مخالفین کو برابری سے جواب دینے کی تاکید کی گئی ہےتاکہ ان ناشائستہ لوگوں کی گستاخی کا سدباب ہوسکےمثلاً قرآنِ مجید فرماتا ہے: فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ (لہٰذا جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسی زیادتی اس نے تمھارے ساتھ کی ہے۔ سورئہ بقرہ ۲آیت۱۹۴)

 

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ، نامناسب طرزِ عمل اپنانے والے ناشائستہ لوگوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں: پہلی قسم کے لوگ وہ بدخواہ دشمن ہوتے ہیں جو جانتے بوجھتے، بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ، نامناسب طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اسی انداز سے جواب دینا چاہیےجبکہ دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو لاعلمی میں ایسا طرزِ عمل اپناتے ہیں اور ان سے ایسی گفتار و حرکات جہل اور نادانی کی بناپر سرزد ہوتی ہیں ایسے لوگوں کے ساتھ حلم و بردباری اور نرمی و ملائمت کا سلوک کرنا چاہیے۔

زیر بحث آیت میں اسی ثانی الذکرگروہ کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کی گئی ہےلہٰذا حلم و بردباری کا اظہار اپنے صحیح مقام پر، یعنی جہاں اسے ملحوظ رکھنا چاہیے، نہ صرف تخریبی اور نقصاندہ نہیں بلکہ تعمیری اور موثر بھی ہے۔

مذکورہ آیت میں جن لوگوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے ان کے بارے میں رسول کریم نے فرمایا ہے کہ: اَحَلمُ الناس مَن فرَّ مِن جُهّال الناس (لوگوں میں سب سے زیادہ بردبارشخص وہ ہے جو جاہل انسانوں سے دور بھاگےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۱۲)

 

قرآنِ مجید کی رو سے حلم اور غصہ ضبط کرنے کا مفہوم

قرآ نِ مجید میں حلم اورکظم غیظ (یعنی غصہ پی جانے) کا ذکر دوعمدہ اور عالی صفات کے طور پر کیا گیا ہےان دونوں صفات کی بازگشت ایک ہی مفہوم کی جانب ہوتی ہے اور وہ ہے اپنے اعصاب پر کنٹرو ل ہونا، جذبات و احساسات کو قابو میں رکھنا، ضبط ِنفس کا مالک ہونا۔

کہاجاسکتا ہے کہ حلم اس حالت کو کہتے ہیں جو کظم غیظ یعنی غیظ و غضب کو ضبط کرلینے کا موجب بنتی ہےبالفاظِ دیگر حلم کی واضح بلکہ بہترین مثال کظم غیظ ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

خیر الحلم التّحلّم

بہترین حلم غصہ پی جانا ہےغررالحکم ، نقل از میزان الحکم تہ۔ ج ۲ص۵۱۳

قرآنِ مجید میں حلم کا لفظ ” حلیم“ کی تعبیر کے ساتھ پندرہ مرتبہ آیا ہےان میں سے گیارہ مرتبہ خداوند ِعالم کی ایک صفت کے طور پر اسکا ذکر ہوا ہے۔ (۱) جبکہ چار مرتبہ اسکا ذکر حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت اسماعیل اور حضرت شعیب کی ایک صفت کےعنوان سے ہوا ہے۔ (۲)

--------------

۱:- سورئہ بقرہ۲آیات ۲۲۵، ۲۳۵، ۲۶۳، سورئہ آل عمران ۳آیت ۵۵، سورئہ نساء۴آیت ۱۲، سورئہ مائدہ ۵آیت ۱۰۱، سورئہ حج ۲۲۔ آیت ۵۹، سورئہ تغابن ۶۴آیت ۱۷، سورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۴۴، سورئہ احزاب ۳۳آیت ۵۱، سورئہ فاطر ۳۵آیت ۴۱)

۲:- سورئہ توبہ ۹۔ آیت ۱۱۴، سورئہ ہود ۱۱آیت ۸۷، سورئہ صافات ۳۷آیت ۱۰۷۔

 

قرآن مجید میں کظم غیظ کو پرہیز گار بندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہےارشادِ رب العزت ہے: وَالْكٰظِمِيْنَ الْغَيْظَ (وہ ایسے لوگ ہیں جو اپنا غصہ پی جاتے ہیں سورہ آلِ عمران ۳آیت ۱۳۴)

حلم کے معنی اپنے شدید غیظ وغضب پر قابو پالینا ہےلغت ِقرآن کے معروف عالم

” راغب اصفہانی“ اپنی کتاب ” مفردات القرآن“ میں لکھتے ہیں کہ:

الحلم ضبط النفس عن هیجان الغضب

غیظ وغضب کے ہیجان کے موقع پر ضبط ِنفس کو حلم کہا جاتا ہے

مزید کہتے ہیں کہ: کیونکہ یہ حالت عقل اور خرد کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اسی لیے کبھی کبھی حلم کے معنی عقل اور خرد بھی لیے جاتے ہیں(مفردات راغب، لفظ حلم کے ذیل میں)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

العقل خلیل المرء، والحلم وزیره

عقل انسان کی مخلص دوست ہے اور حلم عقل کا وزیر ہے

آپ ؑہی کا ارشاد ہے:

الحلم نور جو هره العقل

حلم ایک ایسا نور ہے جس کی حقیقت عقل و خرد ہےغرر الحکم ، نقل ازمیزان الحکم تہ۔ ج۳۔ ص۵۱۳، ۵۱۴

دوسری احادیث میں بھی حلم کی صفت کا ذکر انہی معنی میں ہوا ہےمثلاً ایک شخص نے امام حسن علیہ السلام سے پوچھا: حلم کیا ہے؟ آپؑ نے جواب دیا: کظم الغیظ وملِک النفس (غصہ پی جانا اور نفس پر قابو ہونابحارالانوار ج ۷۸۔ ص ۱۰۲)

 

نیزامیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

لا حلم کانصیرت والصّمت

کوئی حلم صبرواستقامت اور زبان کی حفاظت کی مانند نہیں

لفظ حلم کا استعمال امورو معاملات میں ثابت قدمی اور استقامت کے معنی میں بھی کیا گیا ہے(بحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص ۷۸، سفینۃ الیحارلفظ ” حلم“ کے ضمن میں)

ان لغوی معنی اور ائمہ معصومین کی تشریحات کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ حلم سے مراوضبط ِنفس، انقلابی صبر اور امور و معاملات کے دوران ثابت قدمی ہے۔

اس مفہوم کوپیش نظر رکھا جائے تو ضبط ِنفس میں زبان پر کنٹرول، اعصاب اور تمام اعضا و جوارح پر تسلط شامل ہےلہٰذا لفظ ” حلم“ کا ترجمہ ” برداشت“ جو ہمارے یہاں معروف ہوگیا ہے، درست نہیں ہےکیونکہ ” سختی برداشت کرنا“ حلم کے مطلق معنی نہیں ہیں ا س لیے کہ بسا اوقات اسکا مفہوم ظلم کے سامنے خاموشی سے گھٹنے ٹیک دینا اور اسے قبول کرنا ہوتے ہیں اور یہ عمل کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔

اسی بنیاد پر حلم اور ظلم سہنے کے درمیان انتہائی کم فاصلہ پایا جاتا ہےلہٰذا ان دونوں کے مقامات کی اچھی طرح شناخت لازم ہے تاکہ ظلم سہنے کو حلم نہ کہا جانے لگے اور انسان بافضیلت عمل کی انجامدہی کی بجائے فضائل و اقدار کے مخالف کسی عمل کا مرتکب نہ ہو۔

 

کظم اور غیظ کے الفاظ میں لفظ ” غیظ“ کے لغوی معنی شدید غصہ، اور غیر معمولی روحی ہیجان اور اشتعال ہیں اور اسکی وجہ روحانی اذیت یا گزند پہنچنا ہوتی ہے۔

لغت میں ” کظم“ کے معنی ہیں پانی سے بھری ہوئی مشک کا منھ بند کرناکنایتاً یہ لفظ ایسے افراد کے بارے میں استعمال ہوتا ہے جو شدید غیظ و غضب سے بھرے ہوئے اور غصے کی شدت سے پھٹ پڑنے کے نزدیک ہوتے ہیں اور ان سے کوئی شدید ردِعمل ظاہر ہواچاہتا ہےلیکن ان میں پایا جانے والا ضبط ِنفس مضبوط تسمے کی مانند غصے سے بھری ان کی مشک کا منھ بند کردیتا ہے اور انہیں پھٹ پڑنے سے باز رکھتا ہےلہٰذا کظم غیظ اور غصے کا ضبط کرلینا، حلم کے واضح ترین مصادیق میں سے ہے، جو غصے سے پھٹ پڑنے اور بے جاتندی کے سدباب کا موجب ہے اور انسان کو نامعقول تندی اور ضرررساں اور کبھی کبھی خطرناک ثابت ہونے والے جوش وخروش سے نجات دیتا ہے۔

البتہ اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر حلم اور کظم غیظ گناہگار اور مجرم شخص کی جرات و جسارت کی وجہ بنے یا دوسرے مذموم نتائج کا سبب بن جائے تو بے جا اور منفی ہوجاتا ہے۔ مثلاً پیشہ ورمجرموں کے مقابل حلم کا اظہار اور غصے کو پی جانا، یا ایسے منافقین، کفار اور بے دین افراد سے رعایت اور ان سے چشم پوشی درست نہیں جو اسلام و مسلمین کونقصان پہنچانے یا معاشرے میں فساد برپا کرنے میں مشغول ہوں۔

 

قرآنِ کریم کی نظر میں ضبط ِنفس کی اہمیت

زیر بحث آیت کے علاوہ بھی قرآنِ کریم میں اور کئی آیات ہیں جن میں حلم، ضبط ِنفس، متانت اور بردباری کی تلقین کی گئی ہے۔ مثلاً:

اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَه عَدَاوَةٌ كَاَنَّه وَلِيٌّ حَمِيْمٌ

تم برائی کا جواب اچھے طریقے سے دو، اس طرح وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے وہ بھی ایسا ہوجائے گا جیسے تمہارا مخلص دوست ہو۔ سورئہ فصلت۴۱۔ آیت ۳۴

یہ آیت حلم اور ضبط ِنفس کے ایک خوبصورت اثر کی جانب اشارہ کررہی ہے اور اس بات کی تلقین پر مشتمل ہے کہ دوسروں کی ناگوار اور رنجیدہ کردینے والی باتوں کے جواب میں حسنِ سلوک، اظہارِ محبت اور اچھے ردِ عمل کے ذریعے اپنی زندگی کو آرام دہ اور آسودہ رکھیےکیونکہ جب آپ اس انداز سے جواب دیں گے تو دشمنیاں اورعداوتیں، دوستی اور محبت میں بدل جائیں گی، فتنہ و فساد کی آگ کے بھڑکتے شعلے سرد پڑجائیں گے اور معاشرے میں یکجہتی، مہرومحبت اور برادری کا چلن عام ہوگا۔

علی ابن ابراہیم نے اپنی تفسیر میںاس آیت کے ضمن میں کہا ہے کہ: خداوند ِعالم نے اسی آیت پر اپنے پیغمبر کی تربیت فرمائی اور لوگوں کے ساتھ پیغمبر اسلام کے طرزِ عمل اور سلوک و برتائو کی بنیاد یہی حکم تھا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شاگرد ” حفض“ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: تم پر لازم ہے کہ تمام امور میں صبروتحمل اور متانت و بردباری کا مظاہرہ کرویہ بات ذہن نشین رکھو کہ خداوند ِعالم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت کے لیے منتخب کیا اور انہیں صبرو تحمل کی ہدایت کی (اسکے بعد حضرت نے مذکورہ آیت کی تلاوت کی) اور فرمایا:پیغمبرؐ نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا اور اس کے ذریعے بلند اور عظیم الشان مقاصد و نتائج حاصل کیے۔

 

شیخ صدو ق علیہ الرحمہ کی ” امالی“ میں روایت ہے کہ: ایک شخص رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیںمیں صلہ رحم کرتا ہوں لیکن وہ قطع رحم کا مظاہرہ کرتے ہیںپیغمبر اسلام نے اس کے جواب میں مذکورہ بالا آیت پڑھی اور اسے ہدایت کی کہ وہ بردباری، صبر اور تحمل کے ساتھ (ان کی) بدسلوکی کا نیکی سے جواب دے۔

اس شخص نے صبروتحمل اور لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، پیغمبر اسلام نے اس کے اشعار کی تعریف کی اور فرمایا:بعض اشعار حکمت پر مشتمل ہوتے ہیں اور بعض اپنے بیانات میں جادوئی اثررکھتے ہیں۔ (اقتباس از تفسیر نور الثقلین ج ۴ص ۵۴۹، ۵۵۰)

جیسا کہ ذکر ہوا، قرآنِ کریم میں پندرہ مقامات پر اللہ رب العزت کو ” حلیم“ کی صفت سے یاد کیا گیا ہےپس یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو لوگ (صحیح اور کامل طور پر) اس صفت کے حامل ہیں وہ خدا کی اس صفت کے مظہر ہیں اور یہ بات حلم اور ضبط ِنفس کی انتہائی اہمیت کی علامت ہے۔

خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید میں اپنے عظیم المرتبت پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس وجہ سے تعریف و تمجید کی کہ وہ ” حلم“ جیسی عالی صفت کے حامل تھے اور فرمایا ہے کہ:

اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاهٌ مُّنِيْبٌ

بے شک ابراہیم بہت ہی حلیم اور خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھےسورئہ ہود۱۱آیت ۷۵

 

اور حضرت ابراہیم کو ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں بشارت دیتے ہوئے فرمایا:

فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِـيْمٍ

پھر ہم نے انہیں ایک حلیم فرزند کی بشارت دیسورئہ صافات ۳۷آیت ۱۰۱

یہاں سبق آموز نکتہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ اور بھی دوسرے عالی فضائل اور انسانی خصائل کے مالک تھے، لیکن اس کے باوجود ان دونوں آیات میں صرف ان کی صفت ” حلم“ کا ذکر کیا گیا ہے۔

ایک اور آیت میں پیغمبر اسلاؐم کو حلم اور ملائمت کی ہدایت کی گئی ہےارشادِ رب العزت ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ

یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم ہو، ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سےبھاگ کھڑے ہوتےسورئہ آل عمران۳آیت ۱۵۹

 

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومینؑ کے گفتار و کردار میں حلم کی اہمیت

پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ نے جابجا اپنے کردار اور اقوال کے ذریعے تلخ و ناگوار حوادث کے مقابل حلم اور ضبط ِنفس کی تاکید اور تلقین کی ہےاس بارے میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:کمال العلم الحلم، وکمال الحلم کثرة الاحتمال والکظم (حلم کمالِ علم ہے اور کمالِ حلم، کثرت سے تحمل اور بکثرت غصے کو ضبط کرنا ہےغرالحکم ، نقل از میزان الحکم ۃ۔ ج ۲۔ ص۵۱۶)

 

آپؑ ہی نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:جمال الرجل حلمه، انک مقوم بادبک فزیّنه بالحلم (انسان کی زیبائی، اس کا حلم ہےاے انسان! تو اپنے مودب ہونے سے پرکھاجاتا ہے، تیری زینت حلم کے ذریعے فراہم ہوتی ہےحوالہ سابق۔ ص ۵۱۳)

آپؑ ہی کا ارشاد ہے:

الحلم یطفیٔ نارالغضب والحدّة تو جّج احراقه

حلم، غصے کی آگ کو بجھاتا ہے لیکن تندی اور گرم مزاجی، اس آگ کے شعلوں کو بھڑکاتی ہےحوالہ سابق۔ ص۵۱۸

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

الحلم سراج الله

حلم و ضبط ِنفس خداوند ِعالم کا روشن چراغ ہے بحارالانوار ج۷۱ص۴۲۲

یہاں ہم نے اس موضوع پر موجود سیکڑوں احادیث میں سے صرف چند احادیث بطورِ مثال پیش کی ہیں ان میں سے ہر حدیث میں مختلف تعبیروں کے ذریعے ” حلم“ کی صفت کو سراہا گیا ہے اور تحمل اور ضبط ِنفس کی خصوصیت کے حامل انسان کی تعریف کی گئی ہے۔

پیغمبر اسلام، ائمہ معصومین، اولیائے الٰہی اور علمائے ربانی کی زندگیوں میں یہ بات کثرت کے ساتھ نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مہر و محبت آمیز طرزِ عمل کے ذریعے صفت ِحلم کا مظاہرہ کرتے تھے۔

 

انس بن مالک کہتے ہیں: میں پیغمبر اسلامؐ کی خدمت ِاقدس میں موجود تھاآپؐ کے کاندھوں پر ایک ایسی عباپڑی ہوئی تھی جس کے کنارے سخت تھےاسی اثنا میں ایک بدوعرب آنحضرتؐ کے نزدیک آیا اور آپؐ کی اس عبا کو پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں نے آنحضرتؐ کی گردن زخمی کردیپھر اسکے بعد گستاخی سے بولا: اے محمد! تمہارے پاس اللہ کا جو مال ہے اسے میرے ان اونٹوں پر لاد دو، تاکہ میں اسے لے جائوں کیونکہ یہ نہ تو تمہارا مال ہے نہ تمہارے والد کا۔

آنحضرت ؐنے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: یہ مال، خدا کامال ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔

پھر مزید فرمایا: اے اعرابی! جو زخم تم نے مجھے لگایا ہے، کیا ویسا ہی زخم میں تمہیں لگائوں؟

اس بدونے جواب دیا:نہیں۔

آنحضرت ؐنے فرمایا کیوں؟

اس نے کہا؟ کیونکہ آپ برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتےبلکہ اسے اچھے انداز سے دور کرتے ہیںپیغمبر اسلامؐ اسکی یہ بات سن کر مسکرائے اور پھر اس کے ایک اونٹ کو جو سے اور دوسرے کو کھجوروں سے لاد کر اسکے حوالے کردینے کا حکم دیا۔ (کحل البصرص۱۴۵)

فتح مکہ کے موقع پر، بہت سے مشرکین کو سپاہِ اسلام نے قیدی بنالیاان لوگوں کو یقین تھا کہ آنحضرت ؐانہیں قتل کردیں گے اور ان کے مال و اسباب کوتباہ و برباد کردیں گےاسی اثنا میں لشکر اسلام کے ایک پرچمدار ” سعد“ کی صدابلند ہوئی: الیوم یوم الملحمة، الیوم تسبی الحرمة، الیوم اذّل الله فریشا (آج انتقام کا دن ہے، آج دشمنوں کے مال و اسباب عزت و آبرو کی بربادی کا دن ہے، آج قریش کی ذلت و خواری کا دن ہے)

 

آنحضرت ؐنے جب یہ نعرہ سناتو اسے ایک محبت آمیز نعرے سے بدل دیا اور فرمایا: الیوم یوم المرحمة، الیوم اعزّفریشاً (آج رحمت کا دن ہے، آج قریش کی عزت کا دن ہے ) اور پھر آپؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا:پرچم ہاتھ میں لو اور مکہ میں داخل ہوجائو۔

اسکے بعد پیغمبر اسلام نے قریش کو مخاطب کرکے فرمایا: اذهبوا فانتم الطّفاء (جائو، تم سب آزاد ہواقتباس از بحارالانوار۔ ج ۲۱ص۱۰۹اور۱۰۵)

ایک دوسری روایت کے مطابق پیغمبر اسلام ؐنے ان لوگوں سے فرمایا: تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ ان لوگوں نے عرض کیا: ہم آپ ؐسے اچھے طرزِ عمل کی توقع رکھتے ہیں، آپؐ ہمارے کرم پرور بھائی اور ہمارے کریم النفس بھائی کے فرزند ہیںپیغمبر اسلام نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ: لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (آج تم پر کوئی عتاب نہ ہوگا سورہ یوسف۱۲آیت۹۲)جائو تم آزاد ہو(کحل البصر۔ ص۱۴۶)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی حیات کے تذکرے میں آیا ہے:آپؑ نے اپنے عہد ِخلافت میں ایک روز لوگوں سے فرمایا:جو سوال تمھارے ذہن میں ہو مجھ سے پوچھ لو۔ زیر آسمان چیزوں کے متعلق ہر سوال کا جواب میں تمہیں دوں گا اور میرے بعد یہ دعوی سوائے جھوٹے اور دروغ گوکے کوئی اور نہیں کرے گا۔

اس موقع پر مجلس کے ایک گوشے سے ایک بلند قامت شخص اٹھااس کی گردن میں ایک کتاب لٹک رہی تھییوں محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی یہودی عرب ہےوہ بلند آواز میں انتہائی گستاخی کے ساتھ حضرت علی ؑکو مخاطب کرکے بولا: اے اس چیز کے دعوے دار جسے تم نہیں جانتے اور بے جاحد سے تجاوز کرنے والے انسان! میں تم سے ایسے سوالات کروں گا جن کے جواب تم نہ دے سکو گے۔

 

اس شخص کی یہ گستاخی دیکھ کر حضرت علی ؑکے اصحاب اورشیعوں میں سے کچھ لوگ اسے سبق سکھانے کے لیے اٹھےیہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے سختی کے ساتھ ان لوگوں کو اس عمل سے روکا اور فرمایا:اسے کہنے دو، جلد بازی، تیز مزاجی اور غصے کو خود سے دور رکھو، ان اعمال سے بندگانِ خدا پر خدا کی حجتیں تمام نہیں ہوتیں اور براہین الٰہی آشکار انہیں ہوتے۔

اس کے بعد آپ ؑنے انتہائی تحمل اور بزرگواری کے ساتھ اس شخص کی طرف رخ کیا اور فرمایا: جو سوال تمھارے ذہن میں ہے اسے پوچھواس شخص نے اپنے سوال پیش کیے اور حضرت ؑ نے اس کے تمام سوالوں کے جواب دیئے۔

یہ طرزِ عمل دیکھ کر اور سوالات کے تسلی بخش جواب پاکر وہ شخص حضرت علیؑ کے حلم اور علم کا شیفتہ ہوگیا اور آپؑ کی مدح میں چند اشعار پڑھے اور امیر المومنینؑ کو صاحب ِعلم، گمراہوں کے راہبر، اور کمال و انسانی فضائل میں جوانمردقرار دیا(بحارالانوارج۷۱ص۴۲۴)

اسی طرح ایک اور موقع پر آپؑ کی حیات ِمبارکہ میں تحریر ہے کہ ایک دن ایک شخص نے آپؑ کی موجودگی میں آپؑ کے غلام قنبر کو سخت وسست کہاجب قنبر نے بھی اسے دوبدو جواب دینا چاہا تو امیر المومنینؑ نے انہیں صدادی اور فرمایا: مھلاً یا قنبر، دع شاتمک۔۔۔ (اے قنبر آرام سے رہو، دشنام دینے والے کو اپنی بے اعتنائی سے بخش دو، تاکہ اپنے پروردگار کو خوش، شیطان کو غضبناک اور اپنے دشمن کو عذاب میں مبتلا کرو (کیونکہ بے اعتنائی سے بڑھ کر اسکے لیے کوئی عذاب نہیں) اس خدا کی قسم، جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور انسان کو خلق کیا ہے، مومن اپنے پروردگارکو جس قدر ” حلم“ سے خوش کرتا ہے کسی اور چیز سے خوش نہیںکرتا اور جتنا حلم اور ضبط ِنفس سے شیطان کو غضبناک کرتا ہے اتنا کسی اور چیز سے اسے غضبناک نہیںکرتااحمق اور نادان کو جتنا عذاب سکوت اور خاموشی سے پہنچتا ہے اتنا کسی اور چیز سے نہیں پہنچتا(بحار الانوارج۔ ۷۱ص۴۲۴)

 

اس بیان میں حضرت علیؑ کا قسم کھانا، حلم کی غیر معمولی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے۔

دوسرے تمام ائمہؑ کی زندگیوں میں بھی کثرت کے ساتھ اس قسم کا بزرگوارانہ طرزِ عمل نظر آتا ہےاسی طرح ان کے اصحاب، شاگردوں اورعلمائے ربانی کے یہاں بھی یہ روش بکثرت دکھائی دیتی ہے یہاں اختصار کے پیش نظر ہم اسکی مثالوں کے ذکر سے گریز کررہے ہیں۔

امیر المومنینؑ پرہیزگاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں: فحلماء علماء ( یہ لوگ حلیم اور دانا ہوتے ہیں)

نیز فرماتے ہیں:یمزج الحلم بالعلم (ان کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے حلم کو علم کے ساتھ ملا دیا ہےنہج البلاغہ۔ خطبہ ۱۹۳)

حضرت علی ؑکے ایک بہترین شاگرد اور آپ کی سپاہ کے بے مثل سردار، مالک اشتر، ایک دن بازارِ کوفہ سے گزررہے تھےایک شخص جوان سے واقف نہ تھا اس نے کچھ کچرا اٹھا کر ان پر پھینک دیا اور اپنی اس حرکت پر ہنسنے لگامالک اشتراس سے کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گئےایک دکانداریہ سب کچھ دیکھ رہا تھامالک اشتر کے چلے جانے کے بعد اس نے اس احمق شخص سے کہا: تجھے معلوم ہے یہ محترم ہستی کون تھی؟ یہ حضرت علیؑ کی سپاہ کے جری سردار مالک اشتر تھےیہ سن کر وہ شخص معذرت کی غرض سے ڈرتا کانپتا مالک اشتر کے پیچھے دوڑا اور اس نے دیکھا کہ مالک اشتر مسجد میں نماز میں مشغول ہیںجب انہوں نے نماز تمام کرلی تو وہ شخص ان کے پاس گیا اور معذرت طلب کرنے لگامالک اشتر نے کہا:بخدا میں اِس وقت خدا وند ِعالم سے تیرے لیے بخشش طلب کرنے کی غرض سے ہی مسجد آیا ہوںتاکہ خدا تیرے اخلاق کی اصلاح فرمائے اور تجھے بخش دے۔ (بحارالانوار ج ۴۲۔ ص۱۵۷)

 

حلم اور ضبط ِنفس کے مثبت اثرات

حلم کی ایک برکت اور اثر عفوودرگزرہےعفوودرگزر جوانمردوں کی صفات میں سے ہے جس کے ذریعے دوستی کے تعلقات اور باہمی روابط میں استحکام اور مہرومحبت پیدا ہوتی ہے۔

ایسا انسان جس میں حلم کی صفت نہ ہو، اس میں عفوودرگزر کی خصوصیت نہیں ہوسکتییہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم کا حلیم ہونا، اس کی جانب سے عفووبخشش کا موجب ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ایک خطبے کے آغاز میں فرماتے ہیں: الحمد لله  الذی عظم حلمه فعفا (اس خدا کی حمدوسپاس جس کے حلم کی عظمت اسکے عفوودرگزر کا موجب ہے۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱)

حلم کی ایک اور تاثیر یعنی اس کی وجہ سے دوستوں میں اضافہ ہونے کے بارے میں امیر المومنین فرماتے ہیں: وبالحلم عن السّفبه تکثر الانصار (احمق لوگوں کے مقابل حلم و بردباری کا اظہار انسان کے ساتھیوں میں اضافہ کرتا ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار ۲۲۴)

اسی بنیاد پر آپ نے فرمایا ہے کہ: الحلم عشیره (حلم خود ایک قبیلے کی مانند ہے(نہج البلاغہ کلمات ِقصار۔ ۴۱۸)

حلم سے ہمت پیدا ہوتی ہے اور یہ انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت کا موجب ہوتا ہےحلم کی اس تاثیر کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: والحلم والا ناة توامان ینتجها علوّ الهمّة (حلم اور بے اعتنائی دو جڑواں مولود ہیں جن سے بلند ہمتی پیدا ہوتی ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار۴۶۰)

ایک دوسرے مقام پر فرمایا: الحلم غطاء ساتر (حلم ڈھانکنے والا پردہ ہے)

 

حلم کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ یہ عزت و شرف کا باعث ہےلہٰذا حضرت علیؑ نے فرمایا ہے: ولاعز کالحلم (کوئی شرف حلم کی مانند نہیں۔ نہج البلاغہ۔ کلمات ِقصار۱۱۳) یعنی حلم اور ضبط نفس خداوند ِعالم کی بارگاہ اور لوگوں کی نظروں میں عزت وشرف کا باعث ہے۔

حلم ہی کے اثرات اور برکات میں سے ایک یہ ہے کہ کاموں میں تقصیر اور کوتاہی کا موجب نہیں ہوتا اور لوگوں کے سامنے ایک پسندیدہ اور خوشگوار زندگی کا باعث بن جاتا ہےبقول امام علی علیہ السلام: ومن حلم لم یفرط فی امرہ، وعاش فی الناس حمیداً (حلیم شخص، اپنے کاموں میں تفریط و کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوتا اور لوگوں کے درمیان پسندیدہ انداز سے زندگی بسر کرتا ہے۔ نہج البلاغہ کلمات ِقصار۳۱)

خداوند ِعالم سے دعا گوہیں کہ ہم ان فرامین اور بزرگانِ دین کے اس طرزِ عمل سے حلم اور ضبط ِنفس کا درس لیں اور اس خصلت کے ذریعے دنیا اور آخرت میں امتیازی مقام حاصل کریں۔

 

عبادت ِالٰہی میں خلوص و معرفت

قرآنِ مجید میں، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی تیسری خصوصیت اور امتیاز کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَبِيْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِيَامًا

خدائے رحمان کے خاص بندے وہ لوگ ہیں جو اپنی راتیں پروردگار کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں بسر کرتے ہیں۔ سورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۴

یعنی یہ لوگ خدا سے انتہائی قریبی اور مضبوط عبادی تعلق رکھتے ہیں اسی گہرے تعلق کا نتیجہ ہے کہ وہ راتوں کو اپنے نرم اور گرم بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے رازونیاز میں مشغول ہوجاتے ہیں، اور سجودوقیام کے ذریعے، اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کے سامنے عاجزی اور انتہائی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

یہ بندگانِ خالص خالقِ کائنات کی مخلصانہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کو جلا اور صفا بخشتے ہیں، تعلق باللہ سے پھوٹنے والے صاف و شفاف چشمے کے پانی سے اپنا قلب دھوتے، چمکاتے اور نورانی کرتے ہیں۔

جس وقت غفلت شعار لوگ گہری، میٹھی نیند سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں، اور ایک ایسے وقت جب ریا اور خودنمائی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اس وقت خدا کے یہ مخلص بندے اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر اس سے بھی زیادہ لذت آور شئے، یعنی خدا کے ذکر اور اس کی عظیم بارگاہ میں قیام وسجود میں مشغول ہوجاتے ہیں، خدا کے ساتھ اپنے روحانی اور عرفانی بندھن کو مضبوط ومستحکم کرتے ہیں، توحید کے بے کنار سمندر میںغوطہ ورہوکے، یکتاپرستی کے جام سے مست ہوکر اپنے قلب کو عشقِ حقیقی سے آشنا کرتے ہیں اور اپنی روح کی تشنگی اور پاکیزہ اور تشنہ توحید فطرت کو چشمہ توحید سے سیراب کرتے ہیں۔

 

عبادت اور اس کا فلسفہ

قرآنِ مجید میں خدا کی عبادت اور عبادی رسومات، جیسے نماز، روزے، حج اور دعا وغیرہ کے بارے میں خصوصیت اور اہمیت کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے اور دوسری ہر چیز سے پہلے عبادت کو خدا کے خاص بندوں اور ممتاز انسانوں کی اصل اور بنیادی خصوصیات میں سے قرار دیا گیا ہےیہ پاکیزہ صفات افراد عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعمال کو بھی بندگی ٔرب کے طور پر انجام دیتے ہیں اور اپنی تمام سرگرمیوں کو خالص نیت اور ہر قسم کی آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک کرکے الٰہی رنگ دیتے اور عبادت کے صاف و شفاف پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔

عبادت کا لفظ دراصل لفظ ” عبد“ سے لیا گیا ہے اور عبد ِکامل اس انسان کو کہا جاتا ہے جو اپنے مولا اور مالک کا سراپا اطاعت گزار اور تابعدار ہو، اس کا ارادہ اپنے آقا و مالک کا تابع ہو، اس کی خواہشات اپنے حاکم اور مولا کی تابع ہوں(وہ انسان جو خدا کی بندگی اور عبودیت کا دعویدار ہوتا ہے) خدا کے سامنے اپنے آپ کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھتا، اور اس کی اطاعت میں سستی اور کاہلی کو کسی صورت اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتا۔

واضح الفاظ میں عرض کریں کہ اپنے بندے کو نہایت انعام واکرام سے نوازنے والے معبود، یعنی خدائے یکتا اور بے ہمتا کے سامنے زندگی کے ہر شعبے اور ہر میدان میں حددرجہ خضوع اور انکساری کا اظہار ” عبادت اور بندگی“ کہلاتا ہے۔

عبودیت، ذات ِخدا کے سامنے انتہائی تسلیم اور تابعداری کا نام ہےعبودیت، ہر میدان میں خداوند ِعالم کی بے قید و شرط، بلاچوں وچرا اطاعت وفرمانبرداری کا نام ہے۔

 

عبودیت ِکامل کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس حقیقی معبود، اس کمالِ مطلق کے سوا کسی اور کو خاطر میں نہ لائے، اسکی دکھائی ہوئی راہ کے سوا کسی اور راستے پر قدم نہ رکھے، سوائے اسکے کسی اور کے ساتھ دل وابستہ نہ کرے، اور سب سے کٹ کر صرف اسی کا ہورہےخدا کے ساتھ اس کی یہ وابستگی اس حد تک پہنچی ہوئی ہونی چاہیے جس کا ذکر مناجات ِشعبانیہ میں آیا ہے، جسے حضرت علی علیہ السلام اور دوسرے تمام ائمہ تلاوت کیا کرتے تھےاس مناجات کے ایک حصے میں ہے کہ:

لَهِی هَبْ لیِ کَمَال الانِقِطَاعِ اِلیْکَ وَاَنِرْ اَبْصَارَقُلُوبِنَا بِضِیاءِ نَظَرِ هَا اِلَیْکَ، حَتّٰی تَخْرِقَ اَبْصَارَ الْقُلُوبِ حُجُبَ النُّورِ، فَتَصِیلَ اِلیٰ مَعْدِنِ اَلْعَظَمَةِ، وَ تَصِیرَ اَرْوَاحُنَا مُعَلَّقَةُ بِعِزً قُدْسِکَ

بار ِالٰہا! مجھے اپنی مخلوقات سے کٹ جانے اور(تو) اپنی ذات ِپاک سے جڑ جانے کا کمال بخش دے، (خدایا مجھ کو اپنی جانب مکمل انقطاع عطا کر) اور میرے دل کی آنکھ کو اس نور سے روشن فرماجو تیرا مشاہدہ کرسکے تاکہ میری دیدہ بصیرت نور کے پردوں کو چاک کرتی ہوئی عظمت کے معدن تک جاپہنچے، اور ہماری روحیں تیرے مقامِ قدس کی عزت سے وابستہ ہوجائیں(مناجات شعبانیہ از مفاتیح الجنان)

قرآنِ کریم میں خدا کی عبادت و بندگی کو ہدف ِخلقت اور انسانی کمال کی انتہائی بلندی قرار دیا گیا ہےارشادِ باری ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ

ہم نے جن و انس کو صرف اس لیے خلق کیا ہے کہ وہ ہماری عبادت کریں۔ سورہ ذاریات ۵۱آیت ۵۶

اس آیت کے مطابق انسان کی خلقت کا مقصد یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں اس طرح خدا کی عبادت کرے جیسا اس کی عبادت کا حق ہے۔

 

اس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ خدا وند ِعالم انسانوں کی عبادت کا محتاج نہیں ہےکیونکہ اگر تمام کائنات کافر ہوجائے، اللہ سبحانہ تعالیٰ سے منھ موڑ لے، تب بھی اللہ رب العزت کے دامنِ کبریائی پر کوئی معمولی سی بھی آنچ نہ آئے گی۔

بلکہ عبادت، دراصل خود انسان کی تعمیر ذات، بہبود اور تکمیل کے لیے ہےانسان صحیح صحیح اور شرائط کے ساتھ انجام دی گئی عبادت کے ذریعے تربیت پاتا ہے، اس کی شخصیت جلاِپاتی اور پاکیزہ ہوتی ہےوہ خدا کی بندگی کے برخلاف ہر قسم کے گناہ اور گمراہی سے دور رہتا ہے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے اعلیٰ و ارفع روحانی فضیلتیں حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے کمال کی چوٹی پر جاپہنچتا ہے۔

فلسفہ عبادت کے بارے میں یہ آیت ِقرآن اسی جانب اشارہ کررہی ہے کہ:

يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

اے لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، جس نے تمہیں اور تم سے پہلے آنے والے لوگوں کو خلق کیا ہے، شاید کہ تم پرہیز گار بن جائو۔ (سورہ بقرہ۲آیت ۲۱)

اس آیت میں فلسفہ عبادت کی وضاحت کی گئی ہے جو پرہیز گاری، پاکیزگی اور روح سے ہرقسم کی آلودگیوں کو دھوڈالنا ہے۔

لہٰذا عبادت کا ایک مقصد انسان کے گناہوں کو دھوڈالنا اور اسے پاک کرنا ہے۔ اس مرحلے کے بعد عبادت کے دوسرے مرحلے یعنی مرحلہ تکامل کی نوبت آتی ہے، جس میں انسان تکامل کے درجات ومراحل طے کرتا ہے۔

 

قرآنِ کریم میں جس مقام پر خدا وند ِعالم نے پیغمبر اسلام کی معراج کو بیان کیا ہے (معراج جو آنحضرت کی عظمت کی انتہائی بلندیوں کی علامت ہے) اسی مقام پر پیغمبر کی عبودیت کے معاملے پر بھی گفتگو فرمائی ہے اور وضاحت کی ہے کہ پیغمبر اسلام کے تکامل اور ان کی عظمت کی بلندیوں کی بنیاد، آنحضرت کی بندگی ہےارشاد ہوتا ہے:

 سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَه لِنُرِيَه مِنْ اٰيٰتِنَا اِنَّه هُوَالسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ

پاک و پاکیزہ ہے وہ (معبود) جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم نے بابرکت بنایا ہے، تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں، بے شک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے(سورہ بنی اسرائیل ۱۷ آیت ۱)

شب ِمعراج پیغمبر اسلام کے سدرۃ المنتہیٰ پہنچنے کا ذکر کرتے ہوئے قرآنِ کریم کہتا ہے: فَاَوْحٰى اِلٰى عَبْدِه مَآ اَوْحٰى( پھر خدا نے اپنے بندے (پیغمبر) پر جو وحی کرنی چاہی وہ وحی کردیسورہ نجم ۵۳ آیت ۱۰)

یہ دو آیات، پیغمبر اسلام کی معراج اور آپ کی بندگی کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو واضح کرتی ہیںیعنی رسولِ کریم کا خدا کی عبودیت اور اس کی بندگی کے اعلیٰ ترین مدارج پر فائز ہونا معراج کی بلندیوں تک آپ کی رسائی اور تکامل کا موجب بنا۔

خود پیغمبر اسلام اور ائمہ معصومین کے کلمات میں بھی مختلف طریقوں سے اس نکتے کو بیان کیا گیا ہےمثال کے طور پر روایت کی گئی ہے کہ معراج کے دوران ایک فرشتہ پیغمبر اسلام کے پاس آیا اور عرض کیا: خدا وند ِعالم نے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں آپ کے حوالے کرنے کی غرض سے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے اگر آپ چاہیں تو پیغمبر اور عبدرہیں اور اگرچاہیں تو پیغمبر اور بادشاہ بنیں۔

 

رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو جواب دیا: بَلْ اَکُونُ نَبِیّاً عَبْداً (میں پیغمبری اور عبودیت کو چنتا ہوںبحارالانوار۔ ج ۱۸ ص ۳۸۲)

ائمہ معصومین کے فرامین میں ملتا ہے: اِنَّ الصَّلَا ةَ مِعْراجُ الْمُومِنِ (بے شک نماز، مومن کی معراج اور اسکے عروج و بلندی کا وسیلہ ہےبحارالانوارج ۸۲۔ ص ۳۰۳)

احادیث قدسی میں ایک مقام پر ہے: شب ِمعراج خداوند ِعالم نے پیغمبر اسلام کو مخاطب کرکے فرمایا:

عَبْدی اَطِعْنِی اَجْعَلَکَ مَثَلِی اِذَا قُلْتَ لِشَی ءٍ کُنْ فَیَکُونْ

اے میرے بندے! میری اطاعت کر، تاکہ میں تجھے اپنا ایک ایسا مظہربنادوں کہ جب تو کسی چیز کو کہے کہ ہوجاتو وہ چیزواقع ہوجائے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلْعُبُودِیَّةُ جَوْهَرَةُ کُنْهُهَا الرَّبُو بِیَّهْ

عبودیت اور بندگی وہ جوہر ہے جس میں ربوبیت پوشیدہ ہےمصباح الشریعہباب۱۰۰

مراد یہ کہ عبودیت اور بندگی، انسان کو خدا سے انتہائی قریب کرکے اسے مقامِ ربوبیت پر پہنچادیتی ہے، اسے خدا کی صفات کا مظہر بنادیتی ہے اور وہ اذنِ الٰہی سے عالمِ تکوین میں تدبیرو تصرف کرنے لگتا ہے، اس کے ہاتھوں کرامات اور غیر معمولی امور سرزدہونے لگتے ہیں۔

 

اس بات کی وضاحت اس مثال کے ذریعے کی جاسکتی ہے کہ اگر ٹھنڈے اور سیاہ لوہے کو، لوہار کی بھٹی میں ڈال دیا جائے تو وہ پگھل کر سرخ انگارا بن جاتا ہےیہ لوہا، لوہا ہونے کے ساتھ ساتھ، آگ کے نزدیک ہونے کی وجہ سے چمکتا ہوا انگارہ سا محسوس ہوتا ہےلوہے کی یہ حدت اور چمک اُس آگ کا معمولی سا اثر ہے جس میں وہ پڑا ہوتا ہے اور جو اسے اس رنگ میں لے آتی ہے۔ انسان بھی عبودیت کے اثر سے خدا کی طرح بن سکتا ہےاستاد شہید مرتضیٰ مطہری علیہ الرحمہ کے بقول بندے کو یہ سیرومقام پانچ مراحل میں حاصل ہوتا ہے:

۱:- بندگی کے سائے میں انسان اپنے نفس پر غلبہ اور کنٹرول حاصل کرلیتا ہے۔

۲:- اس مرحلے کے بعد انسان اس قدر قوی بن جاتا ہے کہ اس کا نفس طاقتور ہوکر گناہوں کو اپنے آپ سے دور کرنے کی قوت پالیتا ہے۔

۳:- اس مرحلے کے بعد، بہت سے امور میں روح بدن سے بے نیاز ہوجاتی ہے۔

۴:- اس مرحلے کے بعد روح بدن کو چھوڑ دیتی ہے اور بدن ہر لحاظ سے روح کے کنٹرول میں آجاتا ہے۔

۵:- پانچویں مرحلے میں، انسان اس قدر طاقتور ہوجاتا ہے کہ حتیٰ اپنے بدن سے باہر کی اشیاء پر بھی اثر انداز ہونے لگتا ہےاولیائے الٰہی جن سے معجزے، کرامات اور عالمِ تکوین میں تصرف جو خداوند ِعالم سے مخصوص کاموں میں سے ہے، اس شخص سے بھی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ (ولا هاو ولایتها۔ ص۷۲تا۸۲، بطور افتباس)

 

عارفانہ اور مخلصانہ عبادت

عبادت میں پایا جانے والا خلوص اور معرفت، اس میں تاثیر پیدا کرتا ہے اور اسی کے سائے میں انسان کمال کی بلندیوں کو چھوتا ہے۔

اگر عبادت معرفت سے خالی ہوتو ایک بے جان جسم کی مانند ہے، بے سوچے سمجھے انجام دی جانے والی حرکات و سکنات اور ایک کھوکھلا عمل ہےاسی طرح اگر عبادت شرک آلود ہو، دکھاوے کے لیے انجام دی جائے تو شرک ِخفی کا موجب بن کر خدا سے تقرب کی بجائے اس سے مزید دوری کا سبب بن جائے گی اور نتیجے کے طور پر بے سود رہے گیاس کھوکھلے پھل کی مانند جس میں نہ صرف کوئی مفید خاصیت نہیں پائی جاتی بلکہ نقصان دہ بھی ہوجاتا ہے۔

عارفانہ عبادت ایسی عبادت کو کہتے ہیں جسے انسان خدا کی معرفت اور شناخت کے ساتھ انجام دیتا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے خدا کی عبادت کرتا ہے کہ وہی لائق عبادت ہے اور اسکی عطا کردہ نعمتوں پر شکر کا تقاضا ہے کہ اسی کی پرستش کی جائےایسا ہی شخص عبادت کے مغز اور اس کے فلسفے کو جانتا ہے اور اس کی روح اور فکر میں عبادت کی حقیقت جڑ پکڑ چکی ہوتی ہے، رچ بس گئی ہوتی ہے، اور وہ اس بلند اور رفیع الشان سوچ کے ساتھ رہوارِ عبادت پر سوار ہوکر ملٰکوت کی جانب پرواز کرتا ہے۔

اس جانب متوجہ کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :

بے شک ایک گروہ بہشت کی رغبت میں خدا کی عبادت کرتا ہے، یہ تاجروں کی عبادت ہےایک دوسرا گروہ آتشِ جہنم کے خوف سے خدا کی پرستش کرتا ہے، یہ غلاموں کی عبادت ہےجبکہ ایک اور گروہ خدا کی نعمتوں کے شکر میں اس کی عبادت بجالاتا ہے، یہ آزاد منش افراد کی عبادت ہے(نہج البلاغہ کلمات قصار ۲۳۷)

 

امام ؑکے اس قول سے ظاہر ہے کہ کامل اور عارفانہ عبادت، ایسی عبادت ہے جو صرف خدا کے لیے اور اس کی نعمتوں پر شکر کی غرض سے ہو۔

مخلصانہ عبادت، وہ عبادت ہے جو حضور قلب، اخلاص و صفا اور ہر قسم کے ریا اور خودنمائی سے پاک ہوصرف اور صرف خدا کے لیے ہومثال کے طور پر پانی مایہ حیات ہےیہ خصوصیت صرف اسی پانی میں پائی جاتی ہے جو صاف و شفاف ہو جبکہ آلودہ پانی جس میں مختلف جراثیم کی آمیزش ہو، نہ صرف مایہ حیات نہیں بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

ریا سے آلودہ اور غیر خالص عبادت، ایسے ہی آلودہ اور جراثیم بھرے پانی کی مانند ہے جبکہ مخلصانہ اور بے ریا عبادت، مثبت اور تعمیری آثار کی حامل اور انسان سازی اور انسانی کمال کا موجب ہوتی ہے۔

عبادالرحمن کی تیسری خصوصیت کو بیان کرنے والی زیر بحث آیت (یعنی سورہ فرقان کی آیت نمبر۶۴) دو نکات پر مشتمل ہے:

۱:- خدا کے یہ مخلص بندے ہمیشہ خدا ہی کی عبادت کرتے ہیںعبادت ِالٰہی کے خوگر ہو کر مسلسل اسی میں مشغول رہتے ہیں اور متواتر قیام و سجود کے ذریعے اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔

 

۲:- یہ لوگ رات ڈھلے آرام دہ بستر چھوڑ کر خدا کی عبادت اور اس سے راز و نیاز میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

آیت میں ان بندگان خدا کے راتوں کو اٹھ اٹھ کر عبادت کرنے کی جو بات بیان کی گئی ہے وہ ان کے اخلاص کو ظاہر کرنے کے لیے ہےیعنی یہ لوگ تاریکی ٔ شب میں، جب کسی بھی قسم کے دکھاوے اور ریا کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی (یہ صورت ِحال عام طور پر رات کی تاریکی ہی میں پیدا ہوتی ہے) خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں۔

 

حقیقی اخلاص یہ ہے کہ عمل کے ارادے اور اس کی انجامدہی کا سبب صرف اور صرف اللہ رب العزت ہومرحوم فیض کاشانی کے بقول:اخلاص یہ ہے کہ انسان کی نیت ہر قسم کے شرک ِخفی اور شرک ِجلی سے پاک ہواس کے بعد سورہ نحل کی چھیاسٹھویں آیت کی روشنی میں لکھتے ہیں کہ:خالص دودھ وہ ہوتا ہے جس میں نہ ہی خون کے ذرات ہوں اور نہ ہی شکم کے اندر کی کسی غلاظت وغیرہ کا کوئی اثر اس میں پایا جاتا ہو، بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و صاف ہوخالص نیت اور عمل بھی اسی طرح ہوتے ہیں، سوائے رضائے الٰہی کے کوئی اور محرک ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ (المحجتہ البیضا۔ ج ۸۔ ص۱۲۸)

قرآنِ کریم میں بارہا اخلاص، مخلصین، اورمخلّصین کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً ارشادِ باری ہے:

فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ

اللہ کو پکارو اور اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروسورہ غافر ۴۰آیت ۱۴

ایک دوسرے مقام پرپیغمبر اسلام کو خطاب کیا گیا ہے کہ

قُلْ اِنِّىْ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ

کہہ دیجئے کہ میں اس بات پر مامور ہوں کہ خدا کی عبادت کروں، اس حال میں کہ اپنے دین کو اس کے لیے خالص کروںسورہ زمر۳۹۔ آیت ۱۱

قرآنِ مجید میں شیطان کی زبانی نقل ہوا ہے کہ وہ ضداور ہٹ دھرمی کے ساتھ خدا سے کہتا ہے کہ:

فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ

تیری عزت کی قسم، میں تمام انسانوں کو گمراہ کردوں گا علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہوں نے خود کو خالص کرلیا ہوگا۔ سورہ ص ۳۸۔ آیت۸۲، ۸۳

 

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

لاٰیَکُونُ الْعَبْدُ عَابِداً لِلهِ حَقَّ عِبَادتِهِ حَتّٰی یَنْقَطَعَ عَنِ الْخَلْقِ کُلَّهِ اِلَیْهِ، فِحینَئذٍ یَقُولُ هَذَا خَالِصٌ لیِ فیَتَقَبَّلَهُ بَکرَمِهِ

کوئی عبادت گزار خدا کاحقِ عبادت ادا نہیں کرسکتا علاو ہ اس کے جو مخلوقات (پر بھروسہ کرنے) سے منھ موڑ کر صرف اسی (خدا) کی طرف متوجہ ہوتا ہےاس موقع پر خدا وند ِعالم فرماتا ہے: یہ شخص میرے لیے خالص ہوا ہےپس وہ اپنے کرم سے اسےقبول کرتا ہےمستدرک الوسائل ج۱۔ ص ۱۰۱

مختصر یہ کہ خدا وند ِرحمٰن کے منتخب اور پسندیدہ بندوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خلوص اور معرفت کے ساتھ عبادت کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں اور ہمیشہ، شب و روز خالص نیت اور محکم ارادے کے ہمراہ خدا کے راستے پر قدم بڑھاتے ہیں اور بندگی کے اعلیٰ مقام تک رسائی حاصل کرتے ہیں جو دوسرے تمام مقامات کی بنیاد کا پتھر ہے۔

انبیاء، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی سب سے اوّلین خصوصیت یہ تھی کہ وہ خدا کے خالص اور مخلص بندے تھے اور اپنی اس صفت پر فخر کا اظہار کرتے اور اس میدان میں انتہائی سعی و کوشش میں مشغول رہتے تھےیہاں تک کہ مثلاً حضرت علی ؑاور امام سجاؑد کبھی ایک ایک رات میں ہزار ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے اور دوسری تمام عبادات کے دوران بھی اپنی انتہائی توانائیوں کے ساتھ کوشاں رہتے تھے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اگر تم خدا کی عبادت کی مٹھاس اور لذت کو جان لواور اس کی برکات کو دیکھ لو، اور اس کے نور کے سائے سے بہرہ مند ہوتو ایک لمحے کے لیے بھی اس سے دور نہ ہوہر چند تم عبادت کی مشقت سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائوایسا شخص جو عبادت ِ الٰہی سے گریزاں ہے اس (صورتحال) کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ عصمت و توفیق کے ممتاز آثار و فوائد سے محروم ہے۔

(مصباح الشریعتہص ۵۵، بحارالانوار۔ ج ۷۰ص ۶۹)

 

اسی بنا پر آپ اپنے محترم اجداد کی مانند، اور پیغمبر اسلامؐ اور حضرت علیؑ کی پیروی میں خدا کی عبادت، اس سے رازونیاز اور مناجات کے ہر موقع سے استفادہ کرتے تھے۔

حسنِ اختتام کے طور پر قارئین کی توجہ درج ذیل قصے کی جانب مبذول کراتے ہیں:

ابن ابی یعفور کہتے ہیں:میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیے ہوئے فرمارہے ہیں: رَبِّ لَاتَکِلْنی إِلیَ نَفْسِی طَرْفَةَ عَیْنٍ اَبَداً، لَااَقَلَّ مِنْ ذَالِکَ وَلَااَکْثَرَ (بارِ الٰہا ! مجھے کسی صورت پلک جھپکنے کے لیے بھی میرے اپنے حال پر نہ چھوڑدینا اور نہ ہی اس سے کم وقت کے لیے اور نہ اس سےزیادہ وقت کے لیے)

اس موقع پر میں نے دیکھا کہ آپؑ کی ریشِ مبارک کے دونوں اطراف سے آنسوئوں کے قطرے بہہ رہے ہیں۔

پھر آپؑ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:اے ابن ابی یعفور! خدا وند ِعالم نے پلک جھپکنے کے وقت سے بھی کم عرصے کے لیے (حضرت) یونس پیغمبر کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور ان کے لیے وہ ماجرا (ترکِ اولیٰ اور مچھلی کے شکم میں چلے جانا۔۔۔ ۔ )پیش آیا تھا۔

ابن ابی یعفور نے کہا: کیا حضرت یونس کا معاملہ (نعوذ باللہ) کفر کی حد تک پہنچ گیا تھا؟

امام نے فرمایا:نہیں لیکن اگر کوئی بغیر توبہ کیے اس حال میں مرجائے تو ایسا شخص ہلاکت کی موت مرا ہے(اصولِ کافی ج۲۔ ص۵۸۱)

 

خوف وخشیت ِالٰہی

قرآنِ مجید میں خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی چوتھی خصوصیت کے بارے میں آیا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا اِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَــقَرًّا وَّمُقَامًا

اور یہ (لوگ) کہتے ہیں کہ پروردگار ہم سے عذاب ِجہنم کو پھیر دے کہ اسکا عذاب بہت سخت اور پائیدار ہےوہ بدترین منزل اور محلِ اقامت ہےسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۵، ۶۶

خداوند ِعالم نے اس آیہ شریفہ میں اپنے خاص اور ممتاز بندوں کی چوتھی خصوصیت کی جانب اشارہ کیا ہے جو ” خوف وخشیت ِالٰہی“ کی صفت ہےیعنی یہ لوگ خدا کی نافرمانی کے بُرے انجام سے شدت کے ساتھ خوفزدہ رہتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا کی نافرمانی کے معنی شیطان کے حکم کی تعمیل ہے اور یہ عمل عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ میں ڈالے جانے کا باعث ہوگا۔

یہ لوگ گناہ کے انجام اور دوزخ کے عذاب سے اس قدر خائف اور ہراساں رہتے ہیں کہ ان کی یہ باطنی کیفیت اپنا اظہار کرتی ہے اور وہ انتہائی عاجزی کے ساتھ درگاہِ الٰہی میں دست ِدعا بلند کرتے ہوئے التماس کرتے ہیں کہ: بار الٰہا! ہمیں مجرموں کے لیے تیار کیے گئےدوزخ کے سخت عذاب سے دوررکھنا۔

اس طرح یہ لوگ قدرتی طور پر عذاب ِالٰہی کی وجہ بننے والے عوامل سے پرہیز کرنے لگتے ہیں اور فرامینِ الٰہی کی تعمیل اور احکامِ الٰہی کی انجامدہی کے ذریعے خداوند ِعالم کی بے پایاں رحمت کو اپنی جانب جلب اور جذب کرتے ہیں۔

 

ان لوگوں پر یہ حالت ہمیشہ طاری رہتی ہے، اور ایک لمحے کے لیے بھی خوف ِخداان سے دور نہیں ہوتایہ لوگ غرور و غفلت میں مست، مدہوش اور بے پروا زندگی بسرکرنے والے لوگوں کی طرح خدا کی اس وعید کو ہنسی مذاق نہیں سمجھتے۔

خوف کے معنی، باطنی ڈراور وحشت ہے۔ لہٰذا اسے ترک ِگناہ اور ہر قسم کے جرم سے دوری کے لیے ایک باطنی ہتھیار شمار کیا جاتا ہے۔ مثلاً قانون، عدالت، جرمانے، قید اور سزائوں کے خوف کی وجہ سے انسان جرائم کا مرتکب نہیں ہوتا اور یہ سوچ کرلا قانونیت سے گریز کرتا ہے کہ کہیں اسے سزاکا سامنا نہ کرنا پڑےلہٰذا خوف ِخداکے معنی اللہ رب العزت کی ذات ِپاک سے ڈر اور وحشت نہیں، بلکہ اسکے معنی اسکے قانون اور اس کی عدالت سے ڈرنا ہیں۔

خوف ِخدا پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان عدلِ الٰہی کے پیمانے پر اپنے اعمال کا وزن کرےلہٰذا خوف کے معنی ان سزائوں کو ناگوار سمجھنا ہے جو گناہ اور خدا کی نافرمانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

قرآنِ مجید انبیائے الٰہی کا تعارف بشیر ونذیر کی حیثیت سے کراتا ہےیعنی یہ ہستیاں انسانوں کو رحمت ِالٰہی، بہشت اور بے پایاں جزاو ثواب کی نوید بھی دیتی ہیں، او رانہیں خبردار کرتے ہوئے گناہ کے خطرناک انجام سے متنبہ بھی کرتی ہیں۔

انبیا کی یہ دو صفات، اس بات کی ترجمان ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ وہ خوف اور امید کے بین بین زندگی بسر کرےخدا کی رحمت کی امید بھی رکھے اور اس سے خوف بھی کھائےیہی اعتدال کا راستہ ہےاگر کوئی ان میں سے کسی ایک کو اپنا لے اور دوسرے کو چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے باعث ِخطر ہےکیونکہ اگر وہ صرف(رحمت ِالٰہی) کا امید وار رہا، تو دھوکے میں پڑجائے گا اور خدا کی رحمت واسعہ کی امید پر ہر گناہ میں ہاتھ رنگنے لگے گااس کے برخلاف اگر وہ صرف خوفزدہ رہا، تو یاس و ناامیدی میں مبتلا ہوجائے گا اور یہ حالت انسان کو افسردگی اور خستگی میں مبتلا کردے گی، اس کے اندر سے ولولہ، نشاط اور آگے بڑھنے کی امنگ ختم کرکے اسکی پیشرفت کو روک دے گی۔

 

اسی بنیاد پر بہت سی روایات کے مطابق پیغمبر اسلام اور ائمہ اطہار نے فرمایا ہے کہ:مومن خوف اور رجا (امید) کے درمیان زندگی بسرکرتا ہے اور اس میں یہ دونوں خصوصیات مساوی طور پر پائی جاتی ہیںلہٰذا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: میرے والد امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے تھے کہ:

اِنَّهُ لَیْسَ مِنْ عَبْدٍمُؤْمِنٍ اِلّا وَفِی قَلْبِهِ نُورٰانِ، نُورُخِیَفةٍ وَنُورُ رَجٰاءٍ، لَوْوُزِنَ هٰذٰالَمْ یَزِدْعَلٰی هٰذٰا، وَلَوْ وُزِنَ هٰذٰا لَمْ یَزِدْ عَلٰی هٰذٰا

کوئی شخص مومن نہیں، سوائے اس کے جس کے دل میں دو نور پائے جاتے ہوںنورِ خوف اور نورِ امیداگر اس میں ان دونوں کا باہم وزن کیا جائے تو دونوں کا وزن برابر ہو گااصول کافی  ج ۲۔ ص۷۱از محدث کلینی

یہ نکتہ قرآنِ کریم سے ماخوذ ہےسورہ زمر کی آٹھویں اور نویں آیت میں غیر مومن اور مومن انسان کا مواز نہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ پہلا گروہ (یعنی غیر مومن گروہ) بلا اور مصیبت کے موقع پر خوفزدہ ہوجاتا ہے اور نعمت و آسائش کے موقع پر مغرور اور خدا سے بے خبر، جبکہ دوسرا گروہ (مومنوں کا گروہ) ہمیشہ خائف اور امیدوار رہتا ہےیہ دونوں گروہ کسی صورت برابر نہیں ہوسکتےبلکہ پہلا گروہ گمراہ اور دوسرا گروہ راہِ راست پر گامزن ہےدوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو:

يَحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّه

عذاب ِآخرت سے ڈرتے ہیں اور رحمت ِپروردگار سے امید رکھتے ہیں۔ سورہ زمر۳۹۔ آیت ۹)

 

قرآن کی نظر میں خوف اور اسکے مراتب

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں خوف وخشیت ِالٰہی کی اہمیت او رمختلف ابعاد میں اسکے درجات کا تذکرہ ہوا ہےمثال کے طور پر سورہ سجدہ کی آیت سولہ میں، سچے اور حقیقی مومنین کی شان میں فرمایا گیا ہے:

تَـتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا

ان کے پہلو بستر سے جدا رہتے ہیں اور( قیام کی حالت میں خدا کی طرف رخ کرکے) وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں۔ سورہ سجدہ ۳۲آیت ۱۶

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خوف اور امید، خدا کے ان مخلص بندوں کی شب بیداریوں اور ان کے خدا سے مضبوط تعلق کا سبب اور وجہ ہیں اور یہ لوگ خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔

سورہ ناز عات کی آیات نمبر چالیس اور اکتالیس میں ہے کہ:

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى

اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے، تو جنت اس کا ٹھکانہ اور مرکز ہےسورہ نازعات ۷۹ آیت ۴۰، ۴۱

اس آیت کی بنیاد پر، خوفِ خدا ترک ِگناہ کا مقدمہ ہے اور اسکا نتیجہ خدا کا اجرِ عظیم یعنی جنت ہے۔

اسی بات کو سورئہ رحمٰن کی چھیالیسویں آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے:

وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّه جَنَّتٰنِ

اور جو شخص بھی اپنے رب کی بارگاہ میں کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، اسکے لیے جنت میں دو باغات ہیںسورئہ رحمٰن ۵۵آیت ۴۶

 

جب ہم عظمت ِالٰہی کے سامنے خوف و ہراس سے متعلق آیات ِقرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ اس خصلت کے بارے میں ایسے مختلف الفاظ اور تعبیرات کے ذریعے گفتگو کی گئی ہے، جن میں سے ہر ایک مختلف انسانوں کے خوف و ہراس کے درجات اور مراتب کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

مرحوم شیخ صدوؒق نے کتاب ” خصال“ میں قرآنِ کریم کی روشنی میں خوف کو پانچ اقسام میں قرار دیا ہے اور ان میں سے ہر قسم کے لیے ایک آیت کا ذکر کیا ہےیہ پانچ اقسام درج ذیل ہیں: ۱خوف ۲خشیت۳وجل۴رہبت ۵ہیبتاسکے بعد ان کے بار ے میں ذرا تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

خوف، گناہگاروں کے لیے ہے۔

خشیت، علما کے لیے ہے۔

وجل(دل کا خوفزدہ ہونا)، انکساری کے ساتھ تسلیم ہونے والوں کے لیے ہے۔

رہبت، عابدوں کے لیے ہے اور ہیبت کا تعلق عارفوں سے ہے۔

پھر ان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:خوف، گناہوں کی وجہ سے ہےخشیت، وظائف و فرائض کی انجامدہی میں کوتاہی کے احساس کی وجہ سے طاری ہونے والا خوف و ہراس ہےوجل اور قلبی خوف و ہراس، خدمت ترک کرنے کی وجہ سے ہے رہبت، عبادت میں تقصیر اور کوتاہی کے احساس کی وجہ سے ہےاور ہیبت، اسرار کے انکشاف کے وقت شہودِ حق کی وجہ سے خدا کے لامتنا ہی شکوہ وعظمت سے خوف و ہراس کا نام ہے(خصال۔ ج۱۔ ص۲۸۳)

 

خوف کے مراتب کے بارے میں ایک دوسرا موضوع یہ ہے کہ خوف شدت اور ضعف رکھتا ہےجوشخص خوف کے جس مرتبے کا حامل ہو۔ اسی کی مناسبت سے مقامات حاصل کرتا ہےوہ ہستیاں جو خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہیں، مثلاً انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی، ان میں خدا کا شدید ترین خوف پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ رات کے درمیانی حصے میں اپنی نمازوں اور مناجات کے دوران خوف ِخدا سے گریہ ونالہ وفغاں کرتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے بہنے والے شفاف آنسوئوں سے اپنی روح کو دھوتے ہیں، اور اپنے شوق و خوف کے آنسوئوں کے ذریعے اپنے پرزور احساسات کے ساتھ اپنی انتہائی تواضع اور کمالِ بندگی کا اظہار کرتے ہیں اس قسم کا گریہ وزاری اس قدر پسندیدہ اور قدر و قیمت کا حامل ہے کہ بقول پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:

مَنْ دَرَفَتْ عَیْنٰاهُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، کٰانَ لَهُ بِکُلِّ قَطْرَةٍ مِنْ دُمُوعِهِ مِثْلَ جَبَلِ اُحُدٍیَکُون فِی مِیزانِهِ فِی الأَجْرِ

جس کی آنکھ خوف ِخدا سے بہنے والے آنسوئوں سے تر ہوجائے، اسکے آنسوئوں کا ہر قطرہ روزِ قیامت اس کے میزانِ عمل میں احد کے پہاڑ کی مانند وزن رکھے گابحارالانوار۔ ج ۹۳ص ۳۳۴

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَلْبُکٰاءُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ مِفْتٰاحُ رَحْمَةِ اللهِ

خوفِ خدا سے رونا، رحمت ِالٰہی کا دروازہ کھولنے کی کنجی ہے۔ غررالحکم

 

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ اطہارؑ کے کلام میں خوف کی اہمیت

اس بات کے پیش نظر کہ عظمت ِالٰہی کے مقابل خوفزدہ ہونا تہذیب و تکامل کا ایک قوی عامل ہے اور اگر کسی میں یہ خصلت قوی اور راسخ ہوجائے تو وہ اس انسان کے راستے سے راہِ کمال کی ہر قسم کی رکاوٹوں کو دور کردیتی ہےپیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کلام میں اس خصلت کو بہت زیادہ سراہا گیا ہے اور خوف ِخدا نہ رکھنے کی مذمت کی گئی ہےمحترم قارئین کی توجہ اس سلسلے میں رسولِ مقبول ؐاور ائمہ اطہارؑ کے چند اقوال کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:

اَعْلَی النّٰاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَاللهِ اخْوَفُهُمْ مِنْهُ

خدا کے نزدیک لوگوں میں اعلیٰ وارفع مقام کے حامل افراد وہ لوگ ہیں جو ان میں سے زیادہ خوف ِخدا رکھتے ہیں بحارالانوارج ۷۷۔ ص۱۸۰

امیر المومنین حضرت علی علیہ اسلام نے فرمایا:جب قیامت برپا ہوگی تو منادیٔ حق ندا دے گا کہ:

ایُّهَاالنّٰاسُ اِنَّ اَقْرَبَکُمُ الْیُوْمُ مِنَ اللهِ اَشَدُکُمْ مِنْهُ خَوْفاً

اے لوگو! آج بارگاہِ خدا میں تم سب سے مقرب ترین شخص وہ ہے جو دنیا میں دوسروں سے زیادہ خدا کی عظمت سے خوفزدہ تھابحارالانوارج ۷۸۔ ص۴۱

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

لٰایَکُونُ الْعُبُدُ مُؤْمِنًا حَتّیٰ یَکُونَ خٰائفاً رٰاجِیاً

کوئی بندہ خدا اس وقت تک ایمان کے درجہ کمال تک نہیں پہنچتا، جب تک اس میں خوف اور امید کی خصلتیں نہ پائی جاتی ہوں بحارالانوارج ۷۰۔ ص ۳۹۲

 

البتہ یہ بات واضح ہے کہ سچا خوف وہ ہوتا ہے جو اطاعت اور ترک ِمعصیت کا موجب بنے اور اسکی علامات عمل سے ظاہر ہوں، جبکہ جھوٹا خوف کھوکھلا اور غیر موثر ہوتا ہے۔

اسی بنیاد پر امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ عَرَفَ اللهَ خَافَ اللهَ، وَمَنْ خٰافَ اللهَ سَخَتْ نَفْسُهُ عَنِ الدُّنْیٰا

جو شخص خدا کی معرفت رکھتا ہے، وہ اس سے خوف کھاتا ہے، اور جوشخص خوف ِ خدا رکھتا ہے، وہ دنیا کا شیفتہ نہیں ہوتااصول کافی ج ۲ص ۶۸

امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی کا کہنا ہے کہ میں نے امام سے عرض کیا: بعض لوگ گناہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم خدا کی رحمت سے (مغفرت کی) امید رکھتے ہیں ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی خیال رہتا ہے، یہاں تک کہ موت ان کے سرپر آپہنچتی ہے (اور وہ اسی حالت میں مرجاتے ہیںکیا انہیں اُن کی اِس امید کا کوئی نتیجہ حاصل ہوگا؟ )

امام ؑنے فرمایا: اس قسم کے لوگ، ایسے افراد جو اپنی آرزئوں ہی میں مگن رہتے ہیں، یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیںیہ لوگ (دراصل) امید وار نہیں ہوتےجوشخص کسی چیز کی امید رکھتا ہے؟ اس کا طلبگار ہوتا ہے، اور جو شخص کسی چیز سے ڈرتا ہے، اس سے گریز کرتا ہے (اس خصلت سے عاری یہ لوگ درحقیقت خدا سے روگرداں ہیں اور عذاب کے موجبات، جوگناہ ہیں، کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں)(اصولِ کافی  ج۲۔ ص۶۸)

امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لاٰخَوْفَ کَخَوْفِ حٰاجِزٍ، وَلاٰ رَجٰاءَ کَرَجٰاء مُعِینٍ

کوئی خوف، اس خوف کی مانند گراں قیمت نہیں جو گناہ سے باز رکھتا ہےاور کوئی امید اس امید سےگراں قدر نہیں جو (توبہ اور عواملِ نجات کے سلسلے میں) مدد گار ہوتی ہےبحارالانوارج ۷۰۔ ص۱۶۴

 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

اَلْعَجَبْ مِمَّنْ یَخَافُ الْعِقٰابَ فَلَمْ یَکِفَّ، وَرَجَا الثَّوابَ فَلَمْ یَتُبْ

باعث ِتعجب ہے وہ شخص جو عذاب ِالٰہی سے ڈرتا ہے لیکن اپنے آپ کو گناہوں سے باز نہیں رکھتا اور ثواب وپاداشِ الٰہی کی امید رکھتا ہے لیکن توبہ نہیں کرتابحارالانوارج ۷۷۔ ص ۲۳۷

امام حسین علیہ السلام ” دعائے عرفہ“ میں ایک مقام پر خدا سے عرض کرتے ہیںکہ:

اَللَّهُمَّ اجْعَلْنی اَخْشاکَ کَاَنِّی اَرَاکَ

بارِالٰہا! مجھے اپنی بارگاہ میں ایسا خائف بنادے کہ گویا میںتجھے دیکھ رہا ہوں۔

 

تجزیہ وتحلیل اور جمع بندی

مذکورہ بالا گفتگو سے استفادہ ہوتا ہے کہ خوف کی خصلت، خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی خصوصیت اور ایک اعلیٰ اور تعمیری انسانی فضیلت ہےخوف صرف زبان اور حالت کے ذریعے اظہار کا نام نہیں بلکہ کامل خوف وہ ہے جس کے آثار عمل میں دکھائی دیں اور جو گناہوں سے دوری کا قومی عامل بنے۔

خوف کے اعلی مراحل وہ ہیں کہ انسان رات کی تنہائی میں خدا کے ساتھ راز و نیاز اور اس سے مناجات کے دوران گریہ وزاری کرے اور انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اپنا دل خدا سے وابستہ رکھے اور اپنے آپ کو خدا کی عظمت کے سامنے ایک ناچیز ذرّہ سمجھے۔

 

مومن، خائف بھی ہوتا ہے اور امیدوار بھی، وہ اپنے اندر یہ دونوں خصلتیں مساوی طور پر پروان چڑھاتا ہے اور ان دوپروں کے ذریعے دنیائے سماوی کی بلندیوں میںپرواز کرتا ہے اور ان دوانوار کے ذریعے اپنے قلب کو پرنور اور روح کو پاکیزگی اور صفا سے سرشار کرتاہے۔

خوف ورجا کا مسئلہ، تربیتی مسائل میں تعلیم کے بنیادی ارکان و اصول میں سے ہےاسی بناپر انبیا علیہم السلام نذیر بھی تھے اور بشیر بھیمثال کے طور پر اگر جماعت کا استاد اپنے طالب علموں سے کہے کہ اس سال تمام طلبا پاس ہوجائیں گے، اس طرح انہیں صرف امید دے، خوف نہ دے، تو طلبا مطمئن ہوکے، دھوکے میں آکے تصور کرنے لگیں گے کہ وہ سب پاس ہوجائیں گے اور اس طرح پڑھائی لکھائی سے غفلت اور سستی برتنے لگیں گےاس کے برعکس اگر استاد کہے کہ اس سال تم سب فیل ہوجائوگے، تو ان الفاظ سے استاد اپنے تمام طالب علموں کو مایوس اور ناامید کردے گا، اور ان میں پڑھنے کی امنگ اور جوش وخروش کو ٹھنڈا کردے گااور اس کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا کہ طالب علموں کا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجائے گا اور ان میں پڑھنے کی تمنا اور جوش وخروش ختم ہوجائے گا۔

سمجھدار اور لائق معلم وہ ہے جو نذیر (خوف دلانے والا) بھی ہو اور بشیر (خوش خبری اور امید دلانے والا) بھی، جو امید بھی دلائے اور خوف بھی اور اپنے طالب علموں کو ان دو خصلتوں کے درمیان رکھےکیونکہ یہ اعتدال اور دونوں خصائل کی آمیزش شوق ورغبت، حرکت و عمل اور نورانیت و پاکیزگی کا موجب ہے۔

 

خوف و رجا کے درمیان اعتدال کا مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اسلامی روایات میں ناامیدی (جو رجا کی ضد ہے) اور عذاب ِالٰہی سے امان و حفاظت (جوخوف کی ضد ہے) کودو گناہان کبیرہ شمار کیا گیا ہےیہاں تک کہ صحیح روایت میں نقل ہوا ہے کہ: عمروبن عبید امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے ان گناہانِ کبیرہ سے آگاہ فرمائیے جن کا قرآنِ کریم میں ذکر ہوا ہےامام جعفر صادق علیہ السلام نے انہیں انیس گناہ گنوائےاور ان میں سے ہر گناہ کے بارے میں ایک آیت ِقرآن بطور دلیل پیش کیامام ؑنے انیس گناہوں میں عذاب ِالٰہی سے محفوظ ہونے اور ناامیدی کو بھی شمار کیا اور فرمایا:خدا کے ساتھ شرک کے بعد (دوسرے نمبر کا گناہِ کبیرہ) رحمت ِالٰہی سے یاس و ناامیدی ہےجیسا کہ خدا وند ِعالم کا ارشاد ہے:

اِنَّه لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ

کفار کے سوا کوئی رحمت ِخدا سے ناامید نہیں ہوتاسورہ یوسف۱۲۔ آیت ۸۷

پھر امام ؑنے فرمایا: اس کے بعد (یعنی تیسرے نمبر کا گناہ ِکبیرہ) خدا کے مکرو عذاب سے تحفظ کا احساس (یعنی خدا سے خوف نہ کھانا) ہےجیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے: اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللهِ۰ فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ (کیا یہ لوگ خدائی تدبیر کی طرف سے مطمئن ہوگئے ہیں، جب کہ ایسا اطمینان صرف گھاٹے میں رہنے والوں کو ہوتا ہےسورہ اعراف ۷۔ آیت ۹۹)(اصولِ کافی ۔ ج ۲۔ ص ۲۸۵)

 

اس گفتگو کو ہم اس معروف قصے پر ختم کرتے ہیں جو قیامت کے وحشتناک حوادث سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے خوف کی نشاندہی کرتا ہے:امام حسن علیہ السلام اپنی حیات کے آخری لمحات میں خوف ِخدا سے گریہ کررہے تھےوہاں موجود لوگوں میں سے ایک نے سوال کیا: اے فرزند ِرسول! آپؑ جو بارگاہ الٰہی میں انتہائی بلند درجے اور مقام کی حامل ہیں، آپؑ جن کے بارے میں پیغمبر اسلام ؐنے بکثرت فرمایا ہےآپؑ جو بیس مرتبہ پیدل حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے ہیں، تین مرتبہ آپؑ نے اپنا تمام مال و دولت راہِ خدا میں ضرورت مندوں کو بخشا ہے(لہٰذا موت کا یہ سفرتو آپؑ کے لیے مبارک و مسعود سفر ہے) اسکے باوجود آپؑ کیوں گریہ فرمارہے ہیں؟

امام حسن علیہ السلام نے جواب دیا: اِنَّما اَبْکِی لِخِصْلَتَیْنِ لَهِوْلِ الْمُطَّلَعِ وَفِراقِ الاَحِبَّهِ (جان لو کہ میں دو وجوہات کی بنا پر رورہا ہوں، ایک روزِ قیامت کی وحشت کی وجہ سے، کہ اس روز ہر کوئی حالات سے آگاہی اور نجات کی کوئی راہ تلاش کرنے کی غرض سے اِدھر اُدھر بھاگ دوڑ کررہا ہوگا اور دوسری وجہ دوستوں کی جدائی ہے(امالی ٔشیخ صدوقمجلس ۳۹حدیث ۹)

 

انفاق اور خرچ میں اعتدال

قرآنِ کریم خداوند ِرحمان کے خاص اور ممتاز بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا

یہ لوگ وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف (فضول خرچی) کرتے ہیں اور نہ بخل (کنجوسی) سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کے درمیان، اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپناتے ہیںسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷

اس آیت میں زندگی کے ایک اہم ترین مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے، جسے ملحوظ او رپیش نظر رکھنا فرد اور معاشرے کی آسائش، فلاح اور اطمینان کا باعث ہے اور بہت سی سماجی اور اقتصادی مشکلات کے حل اور خرابیوں کی اصلاح کا ذریعہ ہےیہ اہم ترین مسئلہ خرچ میں اعتدال اور میانہ روی ہے۔

اعتدال، یعنی میانہ روی، یعنی حد سے زیادہ بڑھنے اور حد سے کم ہونے کی درمیانی لکیراسلام تمام امورومعاملات میں اس طرزِ عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اسلام کی پیروی کی وجہ سے مسلمانوں کو امت ِوسط، یعنی معتدل امت کہا گیا ہےارشادِ قدرت ہے: وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا(اور اس طرح ہم نے تمہیں امت ِوسطہ قرار دیا ہےسورئہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۴۳)

حضرت علی علیہ السلام نے ان لوگوں کو جاہل قرار دیا ہے جو اعتدال سے نکل کر افراط یا تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں آپ ؑفرماتے ہیں: لَاتَرَی الجاهلَ اِلَّا مُفرطاً اُو مفرّ طا (جاہل کوہمیشہ افراط یا تفریط کا شکار دیکھو گےنہج البلاغہ۔ کلمات قصار۷۰)

 

زیر ِبحث آیت جو (سورئہ فرقان میں بیان ہونے والی) خداوند ِعالم کے ممتاز اور خاص بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بیان پرمشتمل ہے، اس میںاعتدال کے ایک اہم ترین شعبے پر گفتگو کی گئی ہے، جس کا تعلق اقتصادی امور اور اجتماعی و سماجی زندگی سے ہے اور جو زندگی کی اصلاح و بہتری اور خوشگوار اجتماعی اور عائلی حیات کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہے اور وہ خصوصیت ” خرچ میں میانہ روی“ کی خصوصیت ہےیعنی مردِ مسلمان کو چاہیے کہ خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف اور فضول خرچی کرے، اور نہ کنجوسی اور بخل سے کام لے، بلکہ ان دونوں کی درمیانی راہ اپنائے۔

 

اسلام میں فضول خرچی کی مذمت

کسی بھی عمل میں حد ِاعتدال سے کسی بھی قسم کی افراط، تجاوز اور زیادتی اسراف کہلاتی ہےمثلاً ایک وقت کے کھانے کے لیے چھ سوگرام غذا کافی  ہےاب اگر کوئی اپنے لیے ایک کلو گرام غذا بنائے، اس میں سے آٹھ سو گرام کھائے، اور باقی بچ جانے والی دو سو گرام غذا کو پھینک دے، تو اس نے ایک وقت کے کھانے میں دو طرح کا اسراف اور فضول خرچی کی ہےایک یہ کہ اس نے دو سوگرام غذا زیادہ کھائی ہے اور دوسرے یہ کہ آٹھ سو گرام سے زیادہ جو دو سو گرام غذا تیار کی تھی، اسے کوڑے دان میں پھینک دیا ہےاس طرح اس نے ایک وقت کے کھانے میں چار سو گرام غذا فضول خرچ کی ہے۔

اس مثال کو سامنے رکھ کر اور اس کی روشنی میں زندگی کے دوسرے مختلف پہلوئوں اور شعبوں کا جائزہ لے کر ہم بآسانی جان سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف صورتوں میں کس قدر اسراف اور فضول خرچی ہوتی ہے۔

 

اسراف کی مختلف شکلیں ہیں، اس کی ایک شکل جس سے زیر ِبحث آیت میں روکا گیا ہے، خرچ میں اسراف ہےجیسے کھانے پینے میں اسراف، کھانے کو پھینک کر ضائع کرنے میں اسراف، فضول تکلفات اور بے جاتزین وآرائش وغیرہ میں اسرافحتیٰ اگر عبادات کے دوران بھی افراط ہونے لگےمثلاً کوئی وضو اور غسل میں عقلی اور فطری حد سے زیادہ پانی خرچ کرے، تو یہ بھی اسراف ہےاسی بنیاد پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا: فی الوضوء اسرافٌ وفی کلِّ شی ءاسرافٌ (وضو اور ہر چیز میں اسراف ہوسکتا ہےکنزالعمال حدیث ۲۶۲۴۸)

عباسی، نامی ایک شخص امام رضا علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور گھر میں بیوی بچوں کی ضروریات اور دوسرے امور کے بارے میں اخراجات کے سلسلے میں امام سے رہنمائی طلب کیامام رضا علیہ اسلام نے اس سے فرمایا: تمہارے خرچ کو دو ناپسندیدہ کاموں (فضول خرچی اور کنجوسی) کے درمیان ہوناچاہیے۔

عباسی نے پوچھا:اِس سے آپ ؑکی کیا مراد ہے؟

فرمایا: کیا تم نے قرآنِ کریم میںخدا وند ِعالم کا وہ کلام نہیں پڑھا، جس میںاس نے فضول خرچی اور کنجوسی دونوں کو ناپسند قرار دیا ہے اور (خدا کے ممتاز بندوں کے اوصاف میں) فرمایا ہے کہ: وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا (اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں، تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کا درمیانی راستہ اپناتے ہیںسورئہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷) لہٰذا اپنے افرادِ خانہ کے اخراجات اور ان کی ضروریات ِ زندگی کی خریداری اور ان چیزوں کو خرچ کرنے میں اعتدال سے کام لو(سفینتہ البحار از محدث قمیج ۱ص ۶۱۵ اور بحار الانوار از علامہ مجلسی ج ۷۱ص ۳۴۷)

 

ایک دوسری روایت کے مطابق، ایک روز امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کے سامنے اسی (مذکورہ بالا) آیت کی تلاوت فرمائی اور پھر زمین سے مٹھی بھر سنگریزے اٹھا کے انہیں سختی کے ساتھ ہاتھ میں بھینچا اور فرمایا: یہ بخل اور سخت گیری ہے (جس کی آیت میں ممانعت کی گئی ہے)پھر آپ نے سنگریزوں کی ایک اور مٹھی اٹھائی اور اس طرح اپنے ہاتھ کو کھولا کہ وہ سب سنگریزے زمین پر گرگئے، اور فرمایا:یہ اسراف ہےپھر تیسری مرتبہ مٹھی بھر سنگریزے اٹھائے اور اپنا ہاتھ تھوڑا سا کھولا، اتنا کہ کچھ سنگریزے گرگئے، اور کچھ آپ کے ہاتھ ہی میں رہے، اور فرمایا:یہ اسراف اور کنجوسی کے درمیان پایا جانے والا اعتدال ہے(تفسیر نورالثقلین ۔ ج۴ص ۲۹ از محدث خبیر عبدعلی بن جمعہ حویزی)

قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اسراف اور فضول خرچی کی ممانعت کی گئی ہےمثال کے طور پر چند آیات ملا حظہ فرمایئے:

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا

کھائو اور پیو مگر فضول خرچی نہ کرو (سورہ اعراف۷آیت ۳۱)

وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّه لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ

فضول خرچی نہ کرنا، کہ خدا فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

(سورہ انعام۶آیت ۱۴۱)

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَـقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا

اور نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ کر رکھو اور نہ بالکل کھلا چھوڑ دو کہ آخر میں خالی ہاتھ اور قابل ِ ملامت ہوجائو(سورئہ بنی اسرائیل ۱۷۔ آیت ۲۹)

 

اسی آیت اور حکمِ الٰہی کو سامنے رکھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:

ما مِنْ نَفَقَةٍ احبَّ اِلَی الله مِنْ نفقةِ قَصْدٍ ویبْغُضُ الاسراف

خدا کے نزدیک کوئی بھی انفاق (خرچ)، اعتدال پر مبنی انفاق سے بڑھ کر پسندیدہ نہیںخدا انفاق میں اسراف کو پسند نہیں کرتاقصار الجمل ازآیت اللہ علی مشکینی۔ ص ۳۰۵

یہی وجہ تھی کہ رسولِ مقبول، امیر المومنین اور تمام ائمہ اطہار انتہائی سادہ زندگی بسرکرتے تھے اور ہر قسم کی شان وشوکت کے اظہار اور بے جا تکلفات سے سختی کے ساتھ گریزاں رہتے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اہل کاروں کے نام ایک خط میں لکھا کہ:

آدِقّوا ا قلٰامَکُمْ، وقارِ بُو بَیْنَ سُطُورکُمْ، واَحذِ فُو عَنْ فُضُو لِکُمْ، وَاقُصُدُ والمعانیَ، وایَاکُمْ والا کْثٰارَ، فَاِنَّ اموالَ الْمُسْلِمینَ لاتَحْتَمِلْ الضَّرَر

اپنے قلموں کی نوک کو باریک تراشو، سطروں کے درمیان فاصلہ کم رکھو، زیادہ الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرو، معانی کے بیان کو مطمع نظر قرار دو، فضول اور زیادہ باتوں سے دور رہو، تاکہ مسلمانوں کے مال کو نقصان نہ پہنچےبحارالانوار ازعلامہ مجلسیج ۴۱۔ ص ۱۰۵

نیز آپؑ ہی نے فرمایا ہے:

یاد رکھو کہ مال کا ناحق عطا کردینا بھی اسراف اور فضول خرچی میں شمار ہوتا ہےاگر یہ عمل انسان کی دنیا میں بلندی کا باعث بنے بھی، تو آخرت میں اسے پست کردیتا ہے، اور اگر لوگوں کی نظر میں قابلِ احترام بنابھی دے، تو خدا کی نگاہ میں ذلیل کردیتا ہےجب کوئی شخص مال کو ناحق یا نااہل پر خرچ کرتا ہے تو پروردگار اسے اسکے شکرانے سے بھی محروم کردیتا ہے۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۴)

 

مَنْ اَنْفَقَ شَیْئاً فی غَیْرِ طاعَةِ اﷲِ فَهُوَ مُبَذِّر

جوشخص اپنی کسی چیز کو اطاعت ِخدا کے سوا کسی اور مقصد میں صرف کرے، وہ مسرف (فضول خرچ) ہےبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۲۔ ص ۳۰۲

یاسر خادم کہتے ہیں: ایک روز امام رضا علیہ السلام کے کچھ غلام پھل کھارہے تھے اور انہیں پوری طرح کھائے بغیر ایک کونے میں پھینکتے جاتے تھےامام ؑنے جب ان کا یہ مسرفانہ عمل دیکھا تو ناراض ہوکر ان سے فرمایا: سبحان اللہ! اگر تمھیں ان پھلوں کی ضرورت نہیں، تو دوسرے انسان ہیں جنہیں ان کی ضرورت ہےتم (آدھے کھائے ہوئے) یہ پھل کیوں دور پھینک رہے ہو؟ انہیں اٹھائو اور ضرورت مندوں کو دے دو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے کھجور کی گٹھلیوں کو پھینکنے سے منع کرتے ہوئے اور مسرفوں (فضول خرچ کرنے والوں) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:

برتن کی تہہ میں بچے ہوئے پانی کو بھی نہ پھینکو کہ یہ بھی اسراف (فضول خرچی) ہے۔

(انوار البھیتہ از محدث قمیص ۳۲۹، بحار الانوار ج ۷۱۔ ص۳۴۶)

 

امام خمینیؒ کا‘ فضول خرچی سے شدید پرہیز کرنا

حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ، جو اسلامی احکام و فرامین پر عمل کے معاملے میں انتہائی سخت گیر تھے اور اس سلسلے میں مثالی حیثیت کے حامل ہیں، آپ تمام باتوں اور خصوصاً اخراجات میں فضول خرچی کے حوالے سے بھی بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرتے تھےنمونے کے طور پر درج ذیل مثالیں ملاحظہ ہوں:

امام خمینی کے دفتر کے ایک اہل کار نے لکھا ہے: ایک بار مالی امور کے انچارج نے ایک لفافے کی پشت پر کچھ تحریر کرکے امام خمینی کی خدمت میں بھیجاامام نے ایک چھوٹے کاغذ پر اس کا جواب لکھا اور اس کے نیچے تحریر کیا کہ: آپ چاہتے تو اس چھوٹے سے کاغذ پر بھی لکھ سکتے تھےاس واقعے کے بعد وہ صاحب اپنے کاغذوں کو جمع کرکے ایک تھیلی میں رکھ لیتے اور جب امام خمینی کے لیے کوئی چیز لکھنا ہوتی، تو کاغذ کے ان ٹکڑوں پر لکھتے اور امام خمینی بھی اسی کاغذ کے نیچے اس کا جواب تحریر فرما دیتے۔

امام خمینی کی صاحبزادی، خانم زہرا مصطفوی، اپنے بچپنے کی یادیں بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ:امام خمینی کا درس ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوتا تھا، اس موقع پر آپ بیس منٹ میر ے ساتھ کھیلا کرتےپھر ظہر سے دس منٹ پہلے نماز کی تیاری کے لیے آتےامام خمینی کھیل کود کے سامان کی خریداری کے سخت مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ فضول خرچی ہےہم مٹی وغیرہ سے گولیاں بنا کر ان سے کھیلتے، جو کوئی ان گولیوں کا نشانہ لگاتا وہ جیت جاتا تھا۔ بیس منٹ ہم یہی سادہ سا کھیل کھیلتے تھے۔

 

امام خمینی کے دفتر کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ:ہر مہینے کے آخرمیں (جماران کے) ماہانہ اخراجات کی تفصیل امام خمینی کی خدمت میں پیش کرنا میری ذمے داری تھیایک روز حسب ِمعمول میں نے اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں ارسال کیاس تفصیل میں امام کے گھر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع، امام کی رفت وآمد اور بجلی کے اخراجات بھی تحریر تھےحساب بھیجنے کے آدھے گھنٹے بعد، امام خمینی کے فرزند، احمد خمینی نے مجھے فون کرکے بتایاکہ:جب سے آپ نے حساب ارسال کیا ہے، امام مسلسل باغ میں ٹہل رہے ہیں اور سخت ناراض ہیں کیونکہ امام کے گھریلو اخراجات اس ماہ (اس زمانے کے) دس ہزار تومان سے بڑھ گئے ہیں لہٰذا امام فرماتے ہیں کہ اگر میرے گھریلو اخراجات دس ہزار تومان ہوگئے ہیں تو میں یہ جگہ چھوڑ دوں گا۔

احمد خمینی نے مجھ سے کہا:آپ دیکھیے کہ اس مہینے کون سا اضافی خرچہ ہوا ہے، تاکہ میں امام کو بتاکر انہیں اطمینان دلائوں۔

میں نے کاغذات کی جانچ پڑتال کی تو مجھے تین اضافی خرچے نظر آئے، جو کسی صورت امام کے گھریلو اخراجات میں سے نہ تھے۔

۱جلانے کا تیل، جو امام کے گھر میں زیادہ آگیا تھا اور جسے میں نے حسینیہ جماران کے اسٹور میں ڈلوا دیا تھا۔

۲امام کے گھرانے کی آمدورفت کے لیے استعمال ہونے والی گاڑی، ڈرائیور کی غفلت سے خراب ہوگئی تھی، جس کی مرمت پر اخراجات آئے تھے۔

۳امام کے گھر پر فائبر کی چھت ڈلوائی گئی تھی تاکہ اوپر سے امام کے گھر کا اندرونی حصہ دکھائی نہ دے کیوں کہ وہاں پاسدار پہرہ دیا کرتے تھے۔

میں نے ان اضافی اخراجات کی تفصیل امام کی خدمت میں بھجوائی جس کے بعد وہ مطمئن ہوئے۔

اسی ایک مثال سے ہم یہ بات جان سکتے ہیں کہ امام خمینی گھریلو اخراجات میں فضول خرچی سے کس قدر سخت پرہیز کیا کرتے تھے۔

 

گھرانے کی معاشی ضروریات میں سخت گیری سے پرہیز

خرچ میں اعتدال، جوخدا کے ممتاز اور پسندیدہ بندوں کی ایک خصوصیت ہے، دو حدوں کے درمیان واقع ہےایک حدافراط ہے، جو اسراف اور فضول خرچی کہلاتی ہے، جس کے متعلق ہم نے ابھی گفتگو کی ہےجبکہ اس کی دوسری حد تفریط ہے، جسے سخت گیری یا کنجوسی کہا جاتا ہے۔

اسلام آسان دین ہے، یہ دین ہر گز اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان اقتصادی طور پر سختی اور دبائو میں زندگی بسر کریںبلکہ وہ چاہتا ہے کہ مرد مسلمان محنت مشقت اور تدبیر کے ذریعے ایک خوشحال اور پرآسائش زندگی کی ضروریات فراہم کرے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح اسراف اور فضول خرچی سے لوگوں کو روکتے تھے، اسی طرح کنجوسی اور اہل و عیال کے لیے نان و نفقے میں تنگی کی بھی ممانعت فرماتے تھےآپؐ کا ارشاد ہے: ان من سعادۃ المراء المسلم ان یشبھہ ولدہ، والمرۃ الجملاء ذات دین، والمرکب الھنی والمسکن الواسع (مسلمان آدمی کی سعادت اور خوش بختی میں سے یہ بھی ہے کہ اسکا ایسا بیٹا ہو جو نیک کاموں میں اس کی شبیہ ہو، اس کی بیوی دیندار اور خوبصورت ہو اوروہ سبک رفتار سواری اور کشادہ گھر کا مالک ہوبحارالانوار از علامہ مجلسیج ۷۶۔ ص ۱۴۹) بعض روایات میں پہلے فقرے کی بجائے صالح فرزند کا ذکر ہوا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۶۔ ص۱۵۵)

ابولبابہ، جو یہودیوں کے سامنے حکومت ِاسلامی کا ایک فوجی راز افشا کرکے گناہ میں مبتلا ہوئے تھےجب انہیں اپنے گناہ کا علم ہواتو انہوں نے صدقِ دل سے توبہ کیکچھ مدت بعد ان کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت ۱۰۲ نازل ہوئیپیغمبر اسلام نے اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے، انہیں بشارت دی تو ابولبابہ نے پیغمبر سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے کہ اپنی توبہ قبول ہونے کے شکرانے کے طور پر، میں اپنا آدھا مال راہِ خدا میں خرچ کردوںپیغمبر نے انہیں اس بات کی اجازت نہ دیانہوں نے عرض کیا: ایک تہائی مال بخشنے کی اجازت دیجئےپیغمبر نے انہیں اس کی اجازت دے دی(بحارالانوار ج ۲۲۔ ص۹۴)

 

آنحضرت نے انہیں راہِ خدا میں آدھا مال خرچ کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دی کہ کہیں اس کے نتیجے میں وہ اور ان کا گھرانہ معاشی طور پر تنگی اور سختی میں مبتلا نہ ہوجائے۔

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ:مدینے کا ایک مسلمان بسترِ مرگ پر تھا، اس کے چند بچے اور چھ غلام تھےاس شخص نے خدا سے اجرو ثواب کے حصول کے لیے، اپنی موت سے پہلے اپنے چھ کے چھ غلام آزاد کردیئےموت کے بعد مسلمانوں نے اسے غسل و کفن دے کر سپردِ خاک کردیا اور اسکے بعد اسکے غلاموں کو آزاد کرنے کا قصہ اور اب اسکے بچوں کے فقر و تنگدستی کے متعلق آنحضرت کے گوش گزار کیاآنحضرت نے فرمایا: لو علمت مادفنتہ مع اھل الاسلام، ترک ولدہ یتکففون الناس (اگر مجھے پتا ہوتا تو میں اسکا جنازہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیتاکیونکہ اس نے اپنے بچوں کو مال ودولت سے محروم کرکے، انہیں دوسروں کے سامنے دست ِسوال دراز کرنے کے لیے فقیر اور بے آسرا چھوڑ دیا ہےعلل الشرائع ازشیخ صدوق۔ ص ۵۵۸، بحارالانوار۔ ج۱۰۳۔ ص ۱۹۷، ۱۹۸)

یہ قصہ اخراجات میں فضول خرچی کی مذمت کے ساتھ ساتھ، اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ یہ عمل اہلِ خانہ کے سختی اور دبائو میں مبتلا ہوجانے کا موجب نہیںہونا چاہئے۔ بلکہ ہر پہلو میںخرچ میں اعتدال اور میانہ روی کا لحاظ رکھا جائے۔

بصرہ سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ ” عاصم“ پر حضرت علی علیہ السلام کی شدید تنقید کا قصہ بھی، ضروریات زندگی میں سخت گیری اور اقتصادی تنگی کی مذمت پر واضح دلیل ہےعاصم نے معاشرے سے اپنا رشتہ توڑ لیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ اور اس کے

 

اہلِ خانہ معاشی تنگی کا شکار ہوگئے تھےیہ قصہ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر۲۰۷ میں آیا ہے۔ (۱)

اس گفتگو کو ہم درجِ ذیل دلچسپ قصے پر ختم کرتے ہیں: امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نےاپنے آزاد کردہ ایک غلام کے لیے گھر خریدا، اور اس سے فرمایا کہ: اس گھر میں جائو اور وہاں زندگی بسرکروکیونکہ تمھارا (موجودہ) گھر تنگ اور چھوٹا ہے۔

غلام نے کہا: مولا ! تنگ اور مختصر ہونے کے باوجود میرے لیے یہی گھر کافی  اور اچھا ہے کیونکہ یہ میرے والد کی یادگار ہےلہٰذا میں اسی گھر میں رہوں گا۔

امام ؑنے اس سے فرمایا: ان کان ابوک احمق ینبغی ان تکون مثلہ (اگر تمھارے والد نے غلطی کی تھی تو کیا درست ہوگا کہ تم بھی انہی کی مانند کرو؟ محاسن برقی۔ ص ۶۱۱بحار الانوار۔ ج ۷۶۔ ص ۱۵۳)

--------------

۱:- قصہ کچھ یوں ہے کہ: حضرت علی ؑکے ایک صحابی ” علاء ابن زیادحارثی“ نےامام ؑ سے کہا کہ مجھے اپنے بھائی ” عاصم ابن زیاد“ کی آپ سے شکایت کرنی ہےامام ؑنے فرمایا:کیوں اسے کیا ہوا ہے؟ علاء نے کہا: اس نے ایک چادر اوڑھ لی ہے، اور دنیا کو یکسر ترک کردیا ہےامام ؑنے فرمایا کہ اسے میرے پاس لائوجب عاصم کو لایا گیا تو امام ؑنے اس سے فرمایا:اے اپنی جان کے دشمن! شیطانِ خبیث نے تمھیں بھٹکادیا ہےتمھیں اپنی آل اولاد پر رحم نہیں آتا؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ نے جن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لیے حلال کیاہے اگر تم انہیں کھائو پیو اور استعمال کرو گے تو اسے ناگوار گزرے گاتم اللہ کی نظروں میں اس سے کہیں زیادہ پست ہوکہ وہ تمھارے لیے یہ چاہے۔ اس نے کہا کہ یا امیر المومنینؑ! آپ بھی تو معمولی لباس اور روکھے پھیکے کھانے پرگزارا کرتے ہیں؟ اس پر آپؑ نے فرمایا:تم پر حیف ہے کہ تم اپنا موازنہ میرے ساتھ کررہے ہو، خدا نے ائمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔

 

ہر طرح کے شرک سے پرہیز

سورہ فرقان میںخدا وند رحمٰن کے خاص اور ممتاز بندوں کی چھٹی خصوصیت، ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ: وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ (اور وہ لوگ خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔ سورہ فرقان ۲۵آیت ۶۸) یعنی یہ لوگ خالص توحید کی صراطِ مستقیم پر ہیں اور ہر قسم کے شرک اور شرک آلود عبادات سے پرہیز کرتے ہیں۔

تمام انبیائے کرام نے اپنی دعوت کا آغاز، لوگوں کو توحید کی طرف بلانے اور ہر قسم کے شرک کی نفی سے کیاہےتوحید، آسمانی ادیان کی عظیم الشان عمارت کا سنگ ِبنیاد ہےانبیا کی زیادہ ترجد و جہد مشرکین کے خلاف اور ان کی سرنگونی کے لیے رہی، اور ان مقدس حضرات نے اس راہ میں کٹھن مشکلات کا سامنا کیاانہوں نے اپنی آخری سانس تک شرک اور مشرکین کے خلاف جنگ لڑی، اور ان کا اصل اور حقیقی مقصد توحید کی بنیاد پر ایک انسانی معاشرے کی تشکیل تھا۔

توحید کی مختلف اقسام کی مانند، شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں انبیا، آسمانی کتب اور ائمہ ٔ معصومین نے لوگوں کے سامنے توحید کی تمام اقسام کو واضح کیا ہےاسی طرح انہوں نے شرک کی مختلف شاخوں کی بھی وضاحت کی ہے اور لوگوں سے تقاضا اور مطالبہ کیاہے کہ وہ توحید کے سیدھے راستے پر چلیں، ایک ایسا راستہ جوہر قسم کے شرک سے پاک اور دور ہے۔

اگر چہ انبیا کے زمانے میں زندگی بسر کرنے والے لوگ شرک کی مختلف اقسام سے آلودہ تھے، لیکن اکثر لوگ ” عبادت میںشرک“ کے شکار تھے اور خدائے واحد کی پرستش و عبادت کی بجائے، دوسری اشیا، جیسے طرح طرح کے بتوں، سورج، چاند اور ستاروں کی پرستش میں مصروف تھےیہی وجہ ہے کہ انبیا کی اکثر جدوجہد اس قسم کے شرک کے خلاف رہی۔

 

زیر بحث آیت (سورہ فرقان کی آیت ۶۸) میں اگر چہ ہر قسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے لیکن اس میں بھی زیادہ تر ” عبادت میں توحید“ کا مسئلہ پیش نظر ہےکیونکہ عبادت میں خالص اور کامل توحید ہر قسم کے شرک سے پرہیز کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتیلہٰذا آیت کہہ رہی ہے کہ: خداوند ِرحمٰن کے خاص بندوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ خالص توحید پرست ہیںکسی بھی صورت میں، بالخصوص عبادت میں، کسی کو خدا کا شریک اور ہمسر نہیں سمجھتےہر قسم کے جلی و خفی شرک اور شرک آلود امور سے اجتناب کرتے ہیںنورِ توحید کی کرنوں سے ان کا قلب منور ہے، اور چشمہ توحید کے خالص اور شفاف پانی نے ان کی روح کو شرک کی غلاظتوں سے پاک کیا ہوا ہےبالفاظِ دیگر، یہ لوگ توحید میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور ان میںذرّہ برابر بھی شرک نہیں پایاجاتا۔

قرآنِ مجید میں دو سو سے زیادہ مرتبہ، شرک اوربت پرستی کی ممانعت اور غیر توحیدی رجحانات کی نفی اور انکار کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےچھتیس مرتبہ ” مُشْرِكِيْنَ“ کے لفظ کے ساتھ، مشرکوں کو سرزنش کی گئی ہے اور اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ خداوند ِعالم کا شدید اور سخت عذاب ان کا منتظر ہےمثال کے طور پر سورہ توبہ کے آغاز میں ارشادِ الٰہی ہے: بَرَاءَةٌ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه اِلَى الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ (جن مشرکین سے تم نے عہدوپیمان کیا تھا، اب ان سے خدا اور رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہےسورہ توبہ ۹آیت ۱)

اسی سورے میں ارشاد ہے: اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (مشرکین نجس اور ناپاک ہیں، پس مسجد الحرام کے نزدیک نہ آئیںسورہ توبہ۹آیت۲۸)

ایک اور مقام پر ارشاد ہے: وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدِ افْتَرٰى اِثْمًا عَظِيْمًا (اور جو بھی اللہ کا شریک بنائے گا، وہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہوا ہےسورہ نساء ۴آیت ۴۸)

 

نیز فرمانِ الٰہی ہے: وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِيْدًا (اور جوخدا کا شریک قرار دے گا، وہ گمراہی میں بہت دور تک چلاگیا ہےسورہ نساء ۴۔ آیت ۱۱۶)

اسی طرح حضرت لقمان کی زبانی ان کے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے: يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللهِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (اے بیٹا! خبردار کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہےسورہ لقمان ۳۱آیت ۱۳)

 

قرآن کریم میں مشرکین کی مثالیں

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مفاہیم و نکات کی وضاحت کے لیے مثالوں سے کام لیا گیا ہےکیونکہ مثال حسی اور قابلِ محسوس امور کے ذریعے عقلی حقائق کی تشبیہ کا نام ہے، جس کے ذریعے بلند عقلی مفاہیم کو سننے والے آسانی اور گہرائی کے ساتھ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اس بناپر قرآنِ کریم میں اہم ترین مفاہیم کو (پچاس سے زیادہ) مثالوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہےانہی میں وہ مثالیں بھی شامل ہیں جو شرک اور مشرکین کے بارے میں قرآنِ کریم میں ذکر ہوئی ہیں اور جو شرک کے گناہ اور مشرکین کی نجاست اور آلودگی کو بخوبی ظاہر کرتی ہیں اس حوالے سے قرآنِ کریم میںذکر ہونے والی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

مَثَلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَمَادِ اشْـتَدَّتْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ يَوْمٍ عَاصِفٍ لَا يَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰي شَيْءٍ

جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا انکار کیا، ان کے اعمال کی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے طوفان کے دن کی تیزہوا اڑا لے جائے، کہ وہ اپنے حاصل کیے ہوئے پر بھی کوئی اختیار نہ رکھ سکیں گے(سورہ ابراہیم ۱۴۔ آیت ۱۸)

 

بے شک مشرکین کفار ہی میں سے ہیں، لہٰذا ان کے اعمال، حتیٰ ان کے نیک اعمال ایسے کھوکھلے اور بے مغز ہیں جو راکھ کی حیثیت رکھتے ہیں، جسے شدید طوفانی ہوائیں اڑالے جاتی ہیں۔

نتیجے کے طور پر، مشرکین اپنے اعمال اور ان کے نتائج سے محروم رہتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ اور بہت کم اعمال اور ان کے نتائج کو بھی اپنے لیے ذخیرہ آخرت نہیں بناسکتےشرک اور کفر کاشدید طوفان کفار اور مشرکین کے نیک اعمال کو اس طرح بہالے جاتا ہے، جیسے شدید طوفانی ہوائیں، خاک کے ذرّوں کو اڑالے جاتی ہے۔

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ اَحَدُهُمَآ اَبْكَمُ لَا يَـقْدِرُ عَلٰي شَيْءٍ وَّهُوَكَلٌّ عَلٰي مَوْلٰىهُ اَيْنَـمَا يُوَجِّهْهُّ لَا يَاْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوِيْ هُوَ وَمَنْ يَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَهُوَعَلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ

اور اللہ نے ایک اور مثال ان دو (مومن اور مشرک) انسانوں کی بیان کی ہے جن میں سے ایک پیدائشی گونگا ہے اور کسی کام کی قدرت نہیں رکھتا بلکہ وہ خود اپنے آقا کے سرپر ایک بوجھ ہے کہ وہ اسے جس کام کے لیے بھی بھیجتا ہے اسے اچھی طرح انجام نہیں دیتاتو کیا ایسا انسان اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھے راستے پر گامزن ہے(سورہ نحل ۱۶۔ آیت ۷۶)

اس مثال میں خداوند ِعالم مشرکین کو درجِ ذیل پانچ خصلتوں کے حامل افراد قرار دیتا ہے:

۱۔ یہ غلام اور بے اختیار ہیں۔

۲۔ یہ گونگے اور بہرے ہیں۔

۳۔ یہ کسی کام کے قابل نہیں۔

۴۔ یہ اپنے آقا اور مالک کے سرپربوجھ ہیں۔

۵۔ یہ ہر کام میں شکست خوردہ اور ناکام ونامراد رہتے ہیں۔

 

لیکن مومنین، جو ہر طرح کے شرک سے دور رہتے ہیں، ان میں نہ صرف مذکورہ ناپسندیدہ صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی نہیں پائی جاتی بلکہ وہ ہمیشہ عدل و انصاف کی تلقین کرتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہتے ہیں۔

لہٰذا کیا مومن اور مشرک برابر ہوسکتے ہیں؟

بے شک یہ برابر نہیں ہوسکتے۔

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ

اور کسی طرح کا شرک اختیار نہ کرو، کہ جو کسی کوخدا کا شریک بناتاہے وہ گویا آسمان سے گرپڑتا ہے اور اسے پرندہ اچک لیتا ہے، یا اسے ہوا کسی دور دراز مقام پر لے جاکے پھینک دیتی ہے(سورہ حج ۲۲آیت ۳۱)

اس مثال میں انتہائی وضاحت کے ساتھ مشرکین کی بے چارگی اور ان کے وحشت ناک زوال و نابودی کا ذکر کیا گیا ہےمشرکین اس قدر بے چارے ہیں کہ پہلے تو انہیں ان کے شرک کی وجہ سے آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جاتا ہے اور پھر وہ درمیان میں لاش خور پرندوںکی غذا بنتے ہیں اور اس کے بعد اگر ان پرندوں کے ہاتھوں سے بچ جاتے ہیں تو ہولناک طوفان کا شکار بنتے ہیں اور آخر کار یہ طوفان انہیں ایک ایسی جگہ زمین پر پٹخ دیتاہے جہاں کوئی ان کا مونس و مدد گار اور نجات دہندہ نہیں ہوتااس موقع پر ان کا بدن چورہ چورہ ہوجاتا ہے اور اس کا ذرّہ ذرّہ بکھرکے رہ جاتا ہے۔

ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ آسمانِ توحید سے جدا ہوکر شرک کی ہولناک گھاٹی میں جاپڑے ہیں، اور بے رحم شیطان کے طوفان نے انہیں اچک کر دور دراز مقام پر اٹھا پھینکا ہے اور انہیں بکھیر کے رکھ دیا ہے۔

 

مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللهِ اَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا وَاِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ

اور جن لوگوں نے خدا کوچھوڑ کردوسرے سرپرست بنالیے ہیں، ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنالیا ہے، لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے، اگر ان لوگوں کے پاس علم و ادراک ہو۔  (سورہ عنکبوت۲۹۔ آیت۴۱)

سب جانتے ہیں کہ مکڑی کا گھر انتہائی نازک اور کمزور ہوتاہے۔ نہ اس میں درودیوار ہوتے ہیں، نہ کھڑکی اور چھتاسے انتہائی نازک اور باریک تاروں سے بنایا گیا ہوتاہےلہٰذا جوں ہی ہلکی سی بھی ہوا چلے، اس کے تاروپود بکھرکے رہ جاتے ہیں۔

اسے ملیا میٹ کردینے کے لیے بارش کے چند قطرے ہی کافی  ہوتے ہیں۔

آگ کا معمولی سا شعلہ بھی اسے نابود کردینے کے لیے بہت ہوتاہے۔

جھاڑو کا ہلکا سا اشارہ ہی اسے زیرو زبر کردیتا ہے، اس میں بقا کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی، اپنی بقا کے لیے سہارے کا محتاج ہوتا ہے۔

خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں مشرکین کے مسکن کو مکڑی کے کمزور گھر سے تشبیہ دی ہے، جس کی کمزوری اور بے وقعتی کسی سے پوشیدہ نہیں۔

مذکورہ بالا چار مثالوں میں، انتہائی وضاحت کے ساتھ، شرک کے بد صورت باطن اور مشرکین کی کمزوری اور ضعف کو ہمارے لیے بیان کیا گیا ہےیہ مثالیں صاف وصریح الفاظ میں ہم سے کہتی ہیں کہ طاغوت اور باطل معبود خواہ ظاہراً دلکش اور دلربا نظر آتے ہوں لیکن اندر سے خالی اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔

 

یہ نہ صرف کسی بھی طرح نجات دہندہ نہیں ہوسکتے بلکہ کمال و ارتقاکی راہ میں رکاوٹ ہیں اور انسان کو گمراہی کے راستوں پر ڈال کر اسے بے سہارا چھوڑدیتے ہیںمکڑی کے گھر کے کمزور تار انسانوں کو کبھی بھی گمراہی کے ہولناک گڑھے سے نہیں نکال سکتے، صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مشرکین کی زندگی ایسی ہی ہوگی بلکہ اس سے بھی زیادہ بدتر ہو گیقرآنِ کریم کہتا ہے:

لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ

 

اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمھارے تمام اعمال برباد کردیئے جائیں گے اور تمھارا شمار گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوجائے گا۔ سورہ زمر۳۹۔ آیت ۶۵

 

شرک کے معنی کی وسعت اور اسکے مختلف پہلو

اگر کوئی انسان شرک سے بچنا چاہتا ہے، تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ شرک کی تمام اقسام سے واقف ہولہٰذا ہمار ے لیے ضروری ہے کہ ہم شرک اور توحید کی تمام علامات اور اقسام سے باخبر ہوں، تاکہ ہر قسم کے شرک سے مکمل طورپر دور رہ سکیں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ: اِنَّ بَنی اُمَیَّةَ اَطلقُوا اللنّاسِ تعلیمَ الایمانِ وَلَم یُطلقوا تَعلیمَ الشِّرکِ، لکَنی اِذَاحَمَلو هُم عَلَیهِ لَمْ یَعْرِ فُوه (بنی امیہ نے لوگوں کو ایمان کی تعلیم کے لیے آزاد چھوڑا لیکن انہیں(وسیع معنی میں)شرک کے متعلق جاننے کی آزادی نہیں دی۔ تاکہ جب وہ انہیں شرک کی طرف لے جانا چاہیں تو لوگ جان نہ سکیںاصولِ کافی ۔ ج۔ ۲۔ ص۴۱۵، ۴۱۶)

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر نبی امیہ لوگوں کو شرک کے وسیع معنی جاننے کی آزادی فراہم کرتے، تو لوگ جان لیتے کہ خداوند ِعالم کے فرمان کو چھوڑ کر غاصب حکمرانوں کی اطاعت و پیروی بھی شرک کی ایک قسم ہےاس طرح نتیجے کے طور پر یہ علم انہیں ظالم خلفا کی اطاعت سے باز رکھتا۔

ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا: وہ کم سے کم چیز کیا ہے جس کے ارتکاب سے انسان مشرک ہوجاتا ہے؟ امام ؑنے جواب دیا: مَنْ قَالَ للنَّواةِ اِنّها حَصاةً وَلِلْحَصاةِ اِنّها نَواةٌ ثُمَّ دانَ بِهِ (جوکوئی گٹھلی کو کہے کہ کنکر ہے اور کنکر کو کہے کہ گٹھلی ہے اور پھر اسی کو اپنا دین اور عقیدہ بنالےاصولِ کافی  ج ۲۔ ص ۴۱۵، ۴۱۶)

 

عارف اور محقق عالم ” فیض کاشانی“ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: اگر کوئی اپنے دل سے اس بات کا معتقد ہوجائے اور اسی کو اپنا دین بنالے، تو وہ مشرک ہےاس کا سبب یہ ہے کہ اس شخص کا یہ عمل اس کی نفسانی خواہش کا نتیجہ ہےاور یہ عقیدہ رکھنے والا شخص اگر چہ خدا کی عبادت و پرستش کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی نفسانی خواہش کی اطاعت بھی کرتا ہے اور نتیجے کے طور پر اس نے (اپنی خواہش کو) اطاعت میں خدا کا شریک قرار دیا ہوا ہے۔

اصولِ کافی (مترجمہ فارسی)۔ ج ۴۔ ص ۱۱۳)

دوسری طرف رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: مَن اصغی الی ناطق فَقد عبدهُ، فانْ کانَ النّاطِقُ عنِ الله عزّو جلَ فَقَدْ عَبَدالله، واِن کانَ النّاطقُ عَنْ ابلیسَ، فَقَدْ عبدَابلیسَ (ایسا شخص جو کسی خطیب کی بات (اس کی گفتگو کی سچائی پر عقیدے کے ساتھ) سنے، اس نے اس خطیب کی عبادت کی ہےپس اگر وہ خطیب خدا کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے خدا کی عبادت کی ہے، اور اگر وہ شیطان کی طرف سے بول رہا ہو، تو اسے سننے والے نے شیطان کی پرستش کی ہےبحارالانوار۔ ج۲۶۔ ص ۲۳۹)

اس قسم کی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شرک انتہائی وسیع معنی کا حامل مفہوم ہےمومنِ کامل اور خالص توحید پرست شخص وہ ہے جو شرک کے تمام پہلوئوں سے باخبر ہو، اور ان سے اجتناب کرتا ہو، وگرنہ وہ بھی غیر شعوری طور پر شرک کی وادی میں اتر جائے گا۔

اس حوالے سے ایک دوسری بات یہ ہے کہ ائمہ معصومین کی روایت کے مطابق شرک کی دو قسمیں ہیں: ایک شرک ِجلی (یعنی آشکار، کھلا اور ظاہر شرک) اور دوسری شرک ِخفی (یعنی چھپا ہوا اور نہاں شرک)

بت پرستی اور ایک سے زیادہ معبودوں کی پرستش وغیرہ شرک ِجلی میں سے ہیں جبکہ عبادت و اطاعت ِالٰہی میں خودنمائی اور ریاکاری شرک ِخفی میں سے ہیں۔

 

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشادہے:شرک، اون سے بنے سیاہ لباس پر، تاریک رات میں چیونٹی کے رینگنے سے زیادہ خفیہ اور پوشیدہ ہوتاہےاسکی ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان خدا سے طلب ِحاجت کے لیے اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو گھمائے۔

نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے: شرک، سیاہ رات میں، سیاہ ٹاٹ پر چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی ہوتا ہے، جیسے یہ کہ انسان خدا کے علاوہ کسی اور کے لیے نماز پڑھے، یا قربانی دے یا اس سے دعا مانگے۔ (بحارالانوار۔ ج۷۲۔ ص۹۶)

لہٰذا عبادت اور اطاعت ِالٰہی میں ہر قسم کی ریاکاری اور خود نمائی، شرک کی ایک قسم ہے۔

کیونکہ توحید اور صحیح عبادت و پرستش کی شرائط میں سے ایک شرط اخلاص ہےاسی بنیاد پر اولیا اللہ اور خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے اس بات کی طرف سے انتہائی ہوشیار، محتاط اور چوکس رہا کرتے تھے کہ اپنی زندگی کے تمام پہلوئوں میں اخلاص کی حدوں سے باہر نہ نکلنے پائیں اور خدانخواستہ کہیں شرک کے کسی غیر محسوس پہلو کا شکار نہ ہوجائیں۔

نقل کرتے ہیں کہ جب امام خمینی علیہ الرحمہ نجف ِاشرف میں ہواکرتے تھے، تو بعض طلبا نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ آپ کا عمامہ اور داڑھی چھوٹی ہے، ایک مرجع تقلید کے شایانِ شان نہیں۔  امام خمینی نے ان کے جواب میں فرمایا: ان سے کہو کہ میں ابھی مشرک نہیں ہوا ہوں۔

یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ خودنمائی کی غرض سے عمامہ اور داڑھی کا بڑا کرنا بھی، شرک کی ایک قسم ہے۔ (برداشتھائی از سیرت ِامام خمینی۔ ج۱ص ۳۲۴، پابہ پائے آفتاب۔ ج ۴۔ ص۴۸)

شرک کا دامن اس قدر وسیع و عریض ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے بقول: اگر کوئی مومن تمام عبادات انجام دے لیکن ایک چیز جسے خدایا اسکے رسول نے معین کیا ہے اس کے بارے میں کہے کہ: کیوں (خدا نے) اس کے برخلاف چیز معین نہیں کی، یا اس کے باطن میں ایسی حالت پیدا ہوجائے تو ایسا شخص بغیر زبانی اظہار کے شرک میں گرفتار ہوگیا ہے(اصولِ کافی ۔ ج۲۔ ص۳۹۸)

 

نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے: اگر کوئی کہے کہ: اگر فلاں (شخص) نہ ہوتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا مجھے نقصان اٹھانا پڑتا، یا میں اپنی مراد حاصل نہ کرپاتا اور اسی طرح کی دوسری باتیں کرے، تو ایسے شخص نے مالکیت اور رازقیت میں (اس فلاں شخص کو) خدا کا شریک قرار دیا ہےپس اگر ایسے مواقع پروہ یہ کہے کہ: اگر خداوند ِعالم فلاں شخص کو میری مدد کے لیے نہ بھیجتا تو میں ہلاک ہوجاتا، یا اپنا مقصود حاصل نہ کرپاتا، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے(بحارالانوار ج ۷۲۔ ص ۱۰۰)

نیز روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ایسا مومن جو ایک مالدار کے یہاں جائے، اور اس کی دولت کی خاطر اسے سلام کرے، اور اسکے سامنے انکساری اور عاجزی کا مظاہرہ کرے، تو وہ اپنے دو تہائی دین سے محروم ہوجاتا ہے(بحارالانوار۔ ج۷۳۔ ص۱۶۹)

ہم اس موضوع پر گفتگو کومختصر کرتے ہوئے اسے توحید اور شرک کے مختلف پہلوئوں کے ذکر پر ختم کررہے ہیں۔

اسلامی فلاسفہ اور علمائےعلمِ کلام کہتے ہیں کہ: توحید کی متعدد شاخیں ہیںجیسے توحید ِذات، توحید ِصفات، توحید ِعبادی، توحید ِافعالی جومختلف اقسام پر مشتمل ہے، جیسے خالقیت میں توحید، ربوبیت میں توحید، مالکیت میں توحید، تکوینی وتشریعی حاکمیت میں توحیداسی طرح توحید کی ضد یعنی شرک کی بھی مختلف اقسام ہیں اور ان میں سے کسی ایک قسم میں بھی کسی کا گرفتار ہوجانا، اس انسان کو مشرک بنانے کے لیے کافی  ہےلہٰذا شرک بھی وسیع معنی رکھتا ہے۔

خدا اپنے ممتاز اور خاص بندوں میں ایک صفت یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ شرک کے تمام پہلوئوں اور اس کی تمام اقسام سے باخبر ہوں اور ہر قسم کے شرک سے دور رہیں تاکہ وہ فکر، عقیدے اور عمل میں توحید کی پاک وپاکیزہ راہ پر گامزن ہوسکیں۔ یقیناً اگر تمام پہلوئوں میں ان کی توحید درست ہوجائے تو وہ ہر میدان میں اسکے خوبصورت معنوی آثار کا مشاہدہ کریں گے اور مطلوبہ نتائج حاصل کریں گے۔

 

توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی

اس گفتگو کو مکمل کرنے کی غرض سے توحید کی اہمیت اور شرک کی ناپسندیدگی کے بارے میں چند احادیث کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

شریح بن ہانی سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا:جنگ ِجمل کے دوران، ایک عرب امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میںحاضر ہوا اور کہا: اے امیر الومنین! کیا آپ خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں؟ وہاں موجود جو لوگ اس شخص کی یہ بات سن رہے تھے انہوں نے اس پر چڑھائی کردی اور کہا: اے بدو! کیا تجھے نظر نہیں آرہا کہ اس وقت امیر المومنین کا ذہن دوسرے مسائل کی جانب متوجہ ہے (ہر بات کا ایک وقت ہواکرتا ہے کیا یہ اس قسم کے سوالات کا موقع ہے؟ )

یہ دیکھ کر امیر المومنین ؑنے ان لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا: دَعوُهُ فَانَّ الّذی یُریدهُ الاعرابیّ هُوَالّذی نُریدُهُ مِنَ القوم (اسے کچھ نہ کہو، یہ بدو جس چیز کے بارے میں ہم سے سوال کررہا ہے وہ وہی چیز ہے جو ہم اس دشمن جماعت سے چاہتے ہیں (اور اسکی خاطر ان کے خلاف مصروف ِجنگ ہیں)۔

پھر آپ ؑنے فرمایا: اےاعرابی! ہم جو یہ کہتے ہیں کہ خداواحد ہے، تو اس کے چار معنی ہیں، ان میں سے دو معنی خدا کے بارے میں روانہیں ہیں اور دو معنی (اسکے بارے میں) ثابت و مسلم ہیں۔ جو دو معنی روانہیں(وہ درجِ ذیل ہیں)

 

۱:- کوئی شخص کہے کہ خدا واحد ہے اور اسکا مقصد ” واحد ِعددی“ ہوکیونکہ جس چیز کا دوسرا نہیں ہوتا وہ اعداد کی فہرست میں نہیں آتی اور اسکے بارے میں ایک اور دو نہیں کہا جاسکتا۔

 

۲:- اور اسی طرح اگر کوئی کہے کہ خدا واحد ہے اور اس کی مراد جنس میں سے واحد ِنوعی ہوتو یہ بھی درست نہیںکیونکہ اسکا مفہوم یہ ہوگا کہ خدا کی شبیہ موجودہے۔

اب رہے توحید کے وہ دو معنی جو خدا کے لیے روا اور ثابت ہیں، تو ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ یکتا ہےلہٰذا اسکی کوئی شبیہ اور مثل موجود نہیں۔ دوسرے یہ کہ: وہ ” احدی المعنی“ ہے۔ یعنی اسکی ذات ناقابلِ تقسیم ہے، نہ خارجی وجود میں، نہ ہی عقل میں اور نہ وہم و تصور میں (بلکہ اسکی ذات بسیط ِمعنی ہے)۔ (بحارالانوار۔ ج۳۔ ص۲۶)

رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی ابن مسعود سے فرمایا: ایّاکَ اَنْ تُشْرِکَ بِاللهِ طَرفَةَ عَیْنٍ، واِنْ نُشِرْتَ بِالمِنشارِ اَوْ قُطِّعْتَ اَوْصُلِبْتَ اَوْاُحْرِقْتَ بالنّارِ (پلک جھپکنے کے عرصے کے لیے بھی خدا کا شریک قرار دینے سے پرہیز کرو۔ چاہے تمہیں آرے سے چیر کے رکھ دیا جائے، یا تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا آگ میں جلادیا جائےبحارالانوار۔ ج ۷۷۔ ص۱۰۷)

 

انسانی قتل اور ایذارسانی سے اجتناب

قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے خاص اور ممتاز بندوں کی ساتویں صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: وَلَا يَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِيْ حَرَّمَ اللهُ اِلَّا بِالْحَقِّ (اور وہ کسی بھی نفس کو، جسے خدا نے محترم قرار دیا ہے، ناحق قتل نہیں کرتےسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۸)

کسی انسان کا ناحق خون بہانا بڑے اور خطرناک گناہوں میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ قدیم زمانے ہی سے انسان اس گناہ میں مبتلا رہا ہے، اور اس نے بکثرت انسانوں کو برباد کیا ہےحضرت آدم علیہ السلام کا ایک بیٹا ” قابیل“ تاقیامِ قیامت لعنت ملامت کا مستحق رہے گا کیونکہ اس نے اپنے بھائی ” ہابیل“ کو قتل کرکے اس گناہ کی ابتدا کی۔

انسانی قتل اس قدر گھنائو نا اور ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا ہے کہ جب خداوند ِعالم نے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت اور اپنے خلیفہ اور نمائندے کی حیثیت سے فرشتوں کے سامنے ان کے تعارف کا فیصلہ کیا، تو ملائکہ نے عرض کیا: پروردگار! کیا زمین پر اسے بھیجے گا جووہاں فساد اور خونریزی برپا کرے گا؟ اس پر خدا وند ِعالم نے فرشتوں کو حضرت آدم کے مثبت پہلوئوں (یعنی علم ومعرفت) سے روشناس کرایایہ جاننے کے بعد فرشتوں نے اللہ سے معذرت طلب کی۔ (سورہ بقرہ ۲۔ آیت ۳۰ تا۳۲کا خلاصہ)

انسانی قتل انتہائی بڑا گناہ ہے اور اس کے لیے سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیںخداوند ِعالم قرآنِ مجید میں فرماتا ہے کہ:

وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُه جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَه وَاَعَدَّ لَه عَذَابًا عَظِيْمًا

اور جو بھی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے گا، اسکی سزا جہنم ہے، وہ اس میں ہمیشہ رہے گا اور اُس پر خدا کا غضب بھی ہے اور خدا اُس پر لعنت بھی کرتا ہے، اور اُس کے لیے سخت عذاب بھی تیار کررکھاہےسورہ نساء ۴۔ آیت۹۳)

 

اس آیت میں قاتل کے لیے چار سخت سزائوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کاٹھکانہ دوزخ رہے گا، دوسرا یہ کہ وہ خدا کے غضب اور ناراضگی کا نشانہ بنے گا، تیسرا یہ کہ اس پر خدا کی لعنت پڑے گی اور چوتھا یہ کہ اسے خدا کے سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا

جس شخص نے کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے، یاروئے زمین پر فساد کی سزا کے علاوہ قتل کیا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا ہےسورہ مائدہ۵آیت ۳۲

اسلام نے قاتل کی دنیاوی سزایہ مقرر کی ہے کہ قصاص کے طور پر خود اسے بھی سولی پر چڑھا دیا جائےالبتہ اگر مقتول کے ورثاء اسے معاف کردیں، اور اسکے عوض دِیَت وصول کرلیں، یادیت بھی معاف کردیں تو وہ اس سزا سے بچ سکتا ہےلیکن اس کے باوجود قتل کے سخت گناہ سے اسے چھٹکارا نہیں مل سکے گا۔

کبھی کبھی ورثاء کا معاف کردینا بھی بے سود رہتا ہے اور قاتل کو لازماً سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہےایسا اس وقت ہوتا ہے جب وہ شخص شرپسندوں میں سے ہو اور سرد یا گرم اسلحہ کے زور پر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلاتا اور معاشرے کے امن و امان کو خطرے میں ڈالتا ہوایسے فرد کو ” محارب اور مفسدفی الارض“ کہا گیا ہے اور حکومت ِاسلامی اسے موت کی سزادیتی ہےاس بارے میں قرآنِ کریم میں ہے کہ:

 

اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْ يُصَلَّبُوْا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ

بس خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں کی یہی سزا ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھادیا جائے، یاان کے ہاتھ اور پیر مخالف سمت سے کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں ارضِ وطن سے نکال باہر کیاجائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں سخت عذاب ہےسورہ مائدہ ۵۔ آیت۳۳

اس آیت کے ذریعے بھی انسانی قتل کے گناہ کی شدت واضح ہوتی ہے، جوسخت سزائوں کا موجب اور دنیا و آخرت کی ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔

 

انسان کے قاتلوں کے لیے قصاص اوردیت کی شدید سزائیں

معاشرے میںامن و امان ایک اہم ترین نعمت ہے جس کے زیر سایہ ایک صحت مند اور آئیڈیل معاشرہ تعمیر کیا جاسکتا ہےاس کے برعکس امن وامان کا فقدان فتنہ و فساد، برائیوں اور طرح طرح کی آفات کا باعث ہےلہٰذا اسلام نے محکم اور سخت قوانین بناکر معاشرے کے مختلف شعبوں میں امن وامان کے تحفظ کی کوشش کی ہےپہلے مرحلے میں اسلام نے جان کی سلامتی پرزور دیا ہے اور امن وامان درہم برہم کرنے والوں کے لیے (اُخروی عذاب کے علاوہ) دنیوی سزائیں بھی تجویز کی ہیں۔ مثلاً قصاص کا قانون مقرر کیا ہے، جس پر اگر واقعی عمل ہو، تو انسانی قتل اور اُنہیں ہر قسم کا نقصان پہنچانے کی روک تھام کی جاسکتی ہےقصاص اور حدودو دیات کا نفاذ معاشرے میں ایک پُرسکون اور سالم و صحت مند زندگی کی ضمانت فراہم کرے گاجیسا کہ قرآنِ مجید کہتا ہے کہ:

 

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ

صاحبانِ عقل تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، شاید تم اس طرح متقی بن جائو۔ سورہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۷۹

یعنی قصاص، انفرادی طور پر کسی سے انتقام لینے کانام نہیں، بلکہ یہ قانون آسودہ زندگی اور معاشرتی امن و سکون کا ضامن ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں انسانوں کے قاتل سے قصاص نہ لیا جائے ایک مردہ معاشرہ ہےجس طرح علمِ طب، ذراعت اور ڈیری فارمنگ میں مویشیوں کی نگہداشت کے دوران خطرناک جراثیم کوختم کرنا ایک علمی اصول ہے، اسی طرح معاشرتی و سماجی علم میں جرائم پیشہ اور انسانوں کو قتل اور انہیں نقصان پہنچانے والے افراد کا قلع قمع کرنا ایک عقلی اور منطقی امر ہے۔

قصاص کا قانون عدل و انصاف کا ضامن اور زندگی وسکون کا باعث ہےاور معاشرے سے اضطراب، کشیدگی اور بے چینی کے خاتمے میں ایک موثر کردار کا حامل ہےیہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے مذکورہ آیت میں قصاص کو تقویٰ کا موجب قرار دیا ہےیعنی قصاص، قتل وغارت گری کی روک تھام اور انسانوں کی جان و مال، عزت وآبرو کو نقصان سے بچانے کا باعث ہوتا ہےاس مقام پر یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ فرد اور معاشرے کا تقابل کیا جائے، تو معاشرے کو فرد پر تقدم اور فوقیت حاصل ہے۔

قتل کے علاوہ، انسانی بدن کو نقصان پہنچانے کا بھی قصاص ہےاگر کوئی کسی انسان کے ناک، کان، آنکھ، دانت، مختصر یہ ہے کہ اسکے بدن کے کسی بھی عضو کو نقصان پہنچائے، تو جسے نقصان پہنچاہے، اسے قانونی طور پر حق حاصل ہے کہ جس قدر اسے نقصان پہنچا ہے، اسی قدر نقصان پہنچانے والے سے اس کا قصاص لےاس بارے میں سورہ مائدہ کی ایک آیت ہے کہ:

 

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ

اور ہم نے اس میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ جان کا بدلہ جان اور آنکھ کابدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں کا بھی بدلہ لیا جائے گاسورہ مائدہ ۵۔ آیت ۴۵

قانونِ قصاص، جسے اسلام نے انتہائی تفصیل اور جزیات کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ قانون اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام کی نظر میں انسانی جان کو بہت زیادہ احترام حاصل ہے اور اس نے قانونِ قصاص مقرر کرکے چاہاہے کہ انسانی جان کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچ سکے۔

پس قانونِ قصاص، قانون حدودو دیات ہے جو خود اپنی جگہ سہواًاور بھول چوک سے بھی انسانوں کی جان اور معاشرتی امن و سکوں کی حفاظت کا ایک طاقت ور عامل ہے۔

سہواً اور غلطی سے سرزدہونے والا ہر گناہ، توبہ کے ذریعے معاف ہوجاتا ہےلیکن اگر کوئی بھولے سے اورنادانستگی میں کسی انسان کو قتل کردے، یا انسانی بدن کے کسی عضو کو نقصان پہنچابیٹھے، تو اسکی دیت ہے اور یہ حقوق العباد میں سے ہے جنہیں ادا کیے بغیر توبہ قبول نہیں ہوتی۔

دیت کے مسائل نہایت تفصیلی ہیں، جنہیں بیان کرنے کی اس مختصر مقالے میں گنجائش نہیں لیکن ہم یہاں مثال کے طور پر چند مسائل کا ذکر کرکے اسلام کی نظر میں انسانی جان کے احترام کی اہمیت جان سکتے ہیں۔ مثلاً چند چیزیں ایسی ہیں جن کی دیت اتنی ہی ہے جتنی ایک انسان کو قتل کرنے کی دیت ہوتی ہے۔

 

مکمل دیت ایک ہزار مثقال سونا، یا سواونٹ یا دوسوگائیں ہےاگر کوئی کسی مسلمان کے کان پر مارے اور اسکی وجہ سے وہ شخص بہرا ہوجائے، تو مارنے والے کو مکمل دیت کی آدھی دیت ادا کرنی چاہیے اور اگر کسی کے دونوں کانوں پر مارے اور دونوں کو بہرا کردے، تو اسے مکمل دیت ادا کرنی چاہیے۔

حدیہ ہے کہ اگر والدین یا اساتذہ اپنے بچے یا شاگرد کو اس قدر زدوکوب کریںکہ ان پر اسکی دیت واجب ہوجائے، تو یہ سخت گناہ ہے۔

اگر کوئی کسی دوسرے کے منھ پر تمانچہ مارے، اور اس کے نتیجے میں تمانچہ کھانے والے کا چہرہ سرخ ہوجائے، تو مارنے والے پر ڈیڑھ مثقال سونا، یااسکی قیمت کے برابردیت کی ادائیگی واجب ہوگیاگر اس کا چہرہ نیلا پڑ جائے، تو تین مثقال اور اگر سیاہ پڑ جائے، تو چھ مثقال یا اسکی برابر قیمت اسکی دیت ہےاور اگر چہرے کے سوا جسم کے کسی اور حصے پر مارے، جس کی وجہ سے وہ حصہ سرخ، نیلا یا سیاہ پڑجائے، توچہرے کے بارے میں جس دیت کو بیان کیا گیا ہے مارنے والے پر اس کی نصف دیت ادا کرنا اور اس شخص کو راضی کرنا ضروری ہوگا۔

اسلام، انسان کو اس قدر احترام دیتا ہے کہ اگر انسان منعقدشدہ نطفے کی صورت میں بھی ہو، تو اسے ساقط کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔

بچہ جس مرحلے میں بھی سقط کیا جائے، اسلام نے اسکی مناسبت سے دیت کا تعین کیا ہےفقہائے عظام فرماتے ہیں کہ: اگر انسان کوئی ایسا عمل انجام دے، جس کی وجہ سے حاملہ عورت کا بچہ ساقطہ (ضائع) ہوجائے، تو اگر سقط ہونے والا بچہ ابھی صرف نطفہ تھا، تو اس کی دیت بیس مثقال سکہ دار سونا ہے اور اگر علقہ (یعنی منجمد خون) ہو، تو اسکی دیت چالیس مثقال اور اگر مضغہ (یعنی گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں) ہو، تواسکی دیت ساٹھ مثقال اور اگر وہ ہڈیاں بننے کے مرحلے تک پہنچ گیا ہو، تو اسکی دیت اسّی مثقال اور اگر اس پر گوشت چڑھ گیا ہو، تو سو مثقال اور اگر اس میں روح آ چکی ہو، تو اگر وہ لڑکا ہو، تو اسکی دیت ہزار مثقال اور اگر لڑکی ہو، تو اسکی دیت پانچ سو مثقال ہوگی۔

 

فقہایہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کسی حاملہ عورت کو قتل کردے، تو اسے عورت اور اس بچے کی دیت بھی دینا پڑے گی جو اس عورت کے شکم میں تھااگر اس عورت کے شکم میں دویادو سے زیادہ بچے ہوں، تو اسی مناسبت سے ساقط کرنے والے پر ان کی دیت واجب ہوگیلیکن اگر حاملہ عورت خود ہی بچے کو سقط کرے، تو اسے بچے کے ورثاء کو اسکی دیت ادا کرنی چاہیے اور اس دیت میں خود اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔

قتلِ عمد کی صورت میں قاتل پر دیت کے ساتھ ساتھ کفارہ جمع بھی واجب ہےیعنی اسے چاہیے کہ ایک غلام آزاد کرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل دو ماہ روزے بھی رکھے اور ساٹھ مسکینوں کو کھانا بھی کھلائےاور اگر چند لوگوں نے مل کر کسی ایک شخص کو قتل کیا ہو، تو ان سب پر کفارہ واجب ہے(تحریر الوسیلہ۔ ج۲۔ ص۵۹۷، ۵۹۸اور۶۰۶)

ان سخت احکام میں سے ہر حکم، انسانی قتل اور انسانی جان کو نقصان پہنچانے کے گناہ کی سنگینی کو واضح کرتا ہےلہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس عمل سے شدت کے ساتھ پرہیز کریںکیونکہ ان ظاہری سزائوں کا مستوجب بننے اور دنیوی رسوائی کا مستحق قرار پانے کے علاوہ اس عمل کے نتیجے میں معنوی رسوائی بھی ان کا مقدر بنے گی۔ مکافات ِعمل میں قتل کی مکافات بھی شامل ہے، جو بہت جلد قاتل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہےمناسب ہوگا کہ اس حوالے سے موجود سیکڑوں مثالوں میں سے، یہاں صرف دو مثالیں قارئین کی خدمت میں پیش کردی جائیں۔

۱علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ:اصفہان کے نواحی جنگل میں ایک شخص نے ایک مسلمان کو قتل کردیاپھر اپنے گناہ پر پردہ ڈالنے کے لیے مقتول کی لاش ایک کنویں میں پھینک دیمقتول کا کتا اس کنویں کے پاس آتا اور اس کے اطراف کی مٹی کنویں میں ڈالنے لگتا اور جوں ہی قاتل کودیکھتا اس کی جانب لپکتا اور زور زور سے بھونکنے لگتاکتے کے باربار یہ عمل دھرانے سے مقتول کے ورثاء کوتشویش ہوئیان لوگوں نے اس کنویں میں تلاش کیا، تو انہیں وہاں مقتول کی لاش مل گئیاسکے بعد انہیں اس شخص کے بارے میں شک ہوا جس کی جانب کتاباربار لپکتا تھا۔

 

 اس شخص کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا اور بالآخر اس نے اپنے جرم کا اقرار کرلیا(بحارالانوار ج۶۲۔ ص۶۰) وہ شخص رسوا ہوا اور اسے اسکے جرم کی سزادی گئی۔

۲ایک ظالم اور بے رحم سردار، ایک دن ایک نیک دل شہزادے کے یہاں دعوت پر اس کے دسترخوان پر بیٹھا تھا۔ اتفاق سے اس دسترخوان پر دو بھنے ہوئے تیتر رکھے گئےجوں ہی اس سردار کی نگاہ ان تیتروں پر پڑی، یہ انہیں دیکھ کر ہنسنے لگاشہزادے نے جب اس سے اس بے موقع قہقہے کی وجہ پوچھی تو سردار نے جواب دیاکہ ایک روز جنگل میں مجھے ایک تاجر ملا، میں نے اسے پکڑا، اسکا مال و اسباب لوٹا اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیاوہ تاجر میرا ارادہ بھانپ گیا، اسی اثنا میں اس تاجر کی نگاہ ایک پہاڑی پتھر پر بیٹھے ہوئے دو تیتروں پر پڑی، تاجر نے ان تیتروں کو مخاطب کرکے کہا :اے تیترو! گواہ رہنا کہ یہ شخص میرا قاتل ہے۔

آج جب دسترخوان پر مجھے یہ دو تیتر بھنے ہوئے نظر آئے تو مجھے اس تاجر کی بے وقوفی یاد آگئی کہ وہ جن تیتروں کو اپنے قتل کا گواہ بنا رہا تھا وہ خود ذبح ہوکر ہماری خوراک بن رہے ہیں اور اب گواہی دینے کے لیے زندہ نہیں رہے ہیں۔

نیک دل شہزادے نے اس ظالم سردار سے کہا:اتفاقاً تیتروں نے گواہی دے دی ہےپھر اس نے اسی وقت حکم دیا کہ اس سردار کی گردن اڑادی جائےاور یوں آخر کار اس ظالم کو اپنے جرم کی سزا بھگتنی پڑی۔ (حیات الحیوان)

 

پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ ؑکے اقوال میں انسانی قتل کا گناہ

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادہے کہ:جب کبھی مسلمانوں میں سے دو افراد ناحق ایک دوسرے کے خلاف تلوار نکال لیں، اور اس مڈبھیڑ کے دوران ان میں سے کوئی ایک مارا جائے، تو یہ دونوں افراد جہنمی ہوںگے۔

اس موقع پر موجود افراد میں سے ایک نے سوال کیا:اے اللہ کے رسولؐ! مقتول کیوں جہنمی ہوگا؟ آنحضرت ؐنے جواب دیا: لانّہ اراد قتلاً (کیونکہ وہ بھی قتل کا ارادہ رکھتا تھاوسائل الشیعہ ۔ ج۱۱۔ ص۱۱۳) لیکن اس کاارادہ پورا نہ ہوسکا اور وہ خود مارا گیا۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے: مَنْ اَعٰانَ عَلٰی قَتْلِ مُؤمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ لَقَی اللهُ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ مَکْتُوباًبَیْنَ عَیْنَیُهِ آیِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اللهِ (جو شخص کسی مومن کو قتل کرنے میں کسی قاتل کی مدد کرے (چاہے یہ مدد ایک لفظ کہہ کر ہی کیوں نہ کی گئی ہو) تو ایسا شخص روزِ قیامت خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکی پیشانی پر تحریر ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت سے مایوس ہےکنزالعمال۔ حدیث۳۹۸۹۵)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے فرمایا ہے: قَتْلُ الْمُؤْمِنِ اَعْظَمُ عِنْدَاللهِ مِنْ زَواٰلِ الدُّنْیٰا (خدا کے نزدیک مومن کا قتل دنیا کی بربادی سے زیادہ بڑی (بری) بات ہے۔ کنزالعمال حدیث۳۹۸۸۰)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے: مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّداً اَثْبَتَ اللهُ عَلٰی قٰاتِله جَمیعَ الذُّنُوبِ (جوشخص کسی مومن کو عمداًقتل کرتا ہے، تو خدا وند ِعالم مقتول کے تمام گناہ اس (قاتل) کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہےوسائل الشیعہ ج۔ ۱۹۔ ص۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا قول ہے:جس شخص نے کسی مومن کو قتل کیاہو، جب اس شخص کی موت کا وقت آتا ہے، تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اسلام کے سوا جس دین پر چاہو مرو، چاہوتو یہودی، چاہو تو عیسائی اور چاہو تو مجوسی مرو۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال (مترجمہ فارسی) ص۲۳۵)

 

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: قیامت کے روز سب سے پہلے اس شخص کا محاکمہ ہوگا جس نے کسی انسان کا خون بہایا ہوگاآدم کے بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کو لایا جائے گا اور ان کے بارے میں فیصلہ ہوگا (اور ہابیل کو قتل کرنے کے جرم میں قابیل کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا)اسکے بعد زمانے کی ترتیب کے لحاظ سے دوسرے افراد کو لایا جائے گا اور ان کا محاکمہ ہوگا، یہاں تک کے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے گاہر مقتول اپنے قاتل کو میدان میں لائے گااس موقع پر مقتول کا چہرہ اپنے خون سے رنگین ہوگا اور وہ لوگوں سے کہہ رہا ہوگا کہ: اس شخص نے مجھے قتل کیا ہےاور خدا وند ِعالم قاتل سے کہے گا کہ:کیا تو نے اس شخص کو قتل کیا ہے؟ اور (اس وقت) قاتل میں اتنی طاقت نہ ہوگی کہ وہ اپنا معاملہ خدا سے پوشیدہ رکھ سکے۔ (ثواب الاعمال وعقاب الاعمال(مترجمہ فارسی)۔ ص۲۳۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے: واٰدٍفِی جَهَنَمَ لَوْ قَتَلَ النّٰاسَ جَمیعاً کٰان فِیهِ، وَلَوْ قَتَلَ نَفْساًواٰجدَةٌ کٰانَ فِیهِ (دوزخ میں ایک وادی ہے، اگر کوئی شخص تمام انسانوں کو قتل کردے تو یہ وادی اس کا ٹھکانہ ہوگی اور اگر کسی نے ایک انسان کو بھی قتل کیا ہوگا، تو اسے بھی اسی وادی میں ڈالا جائے گامیزان الحکم تہ۔ ج۸۔ ص۳۹)

نیز آپ ؑہی کا ارشاد ہے: خدا وند ِعالم نے حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام کو وحی کی کہ بنی اسرائیل سے کہو کہ انسانوں کو قتل کرنے سے پرہیز کریںکیونکہ جوشخص کسی مومن کو ناحق قتل کرے گا، تو خدا وند ِعالم اسے آتش دوزخ میں سو مرتبہ اس طرح قتل کرے گا جس طرح اس نے (اس انسان کو) قتل کیا ہوگا(اختصاص ازشیخ مفید۔ ص۲۳۵)

 

ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ:رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا ایک مسلمان کا قتل ہوا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ اسکا قاتل کون ہےرسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غیظ میں آگئے اور اسی وقت لوگوں کو مسجد میں طلب کیا، منبر پر تشریف لے گئے اور حمدوثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:مسلمان کا قتل ہوتا ہے اور کسی کواسکے قاتل کا پتا نہیں !اُس خدا کی قسم، جس کے اختیار میں میری جان ہے، جب بھی آسمانوں اور زمین کے رہنے والوں نے کسی مومن کے قتل پر اتفاق کیاہے، یا اس پر اظہارِ رضا مندی کیا ہے، تو خداوند ِعالم نے ان سب کو آتشِ جہنم میں ڈالا ہےخدا کی قسم، جوکوئی بھی ظلم کرتے ہوئے کسی شخص کو ایک تازیانہ مارے گا، تو روز ِقیامت آتشِ جہنم کے درمیان ویسے ہی تازیانے سے اسے پیٹا جائے گا۔۔۔ ۔ (بحارالانوارج ۱۰۴۔ ص۳۸۴)

انسانی قتل کے گناہ کی سنگینی کو بیان کرنے والی سیکڑوں روایات میں سے منتخب کردہ مذکورہ روایات میں سے ہر روایت انسانی قتل کو سخت اور درد ناک سزائوں کی وجہ بننے والا گناہ قرار دیتی ہے اور مسلمانوں کو اس خطرناک عمل کے ارتکاب سے باز رہنے کی تلقین کرتی ہے۔

 

انسانی قتل میں تعاون کا گناہ

جس طرح انسان کو قتل کرنا ایک بہت بڑا گناہ ہےاسی طرح کسی انسان کے قتل میں تعاون کرنا بھی سخت اور بڑے گناہوں میں سے ہےچاہے یہ تعاون براہِ راست نہ بھی کیا گیا ہو، انتہائی معمولی اور خفی ہی کیوں نہ ہو، چاہے مدد کرنے والے نے صرف ایک لفظ کے ذریعے ہی مدد کی ہو، تب بھی ایسا شخص شریک ِجرم اور ” اعوان الظّلمۃ“ سمجھا جائے گا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی متعدد روایات اس مسئلے پر تاکید کرتی ہیں، آیات ِقرآنی بھی اس نکتے پر گواہی دیتی ہےمثلاً ارشادِ الٰہی ہے: وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (اور گناہ اور ظلم وستم میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرناسورہ مائدہ۵۔ آیت۲)

اس حوالے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ اہلِ بیت علیہم السلام کے چند اقوال قارئین کی خدمت میں پیش ہیں:

رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لَوْ اَنَّ رَجُلًا قُتِلَ بِالْمَشْرِقِ وَآخَرُ رَضِیَ بِهِ بِالْمَغْرِبِ کانَ کَمَنْ قَتَلَهُ وَشَرَکَ فِی دَمِهِ (اگر مشرق میں کسی شخص کا قتل ہو، اور مغرب میں رہنے والا کوئی شخص اس قتل پر راضی ہو، تو (یہ شخص بھی) قاتل کی مانند ہے اور مقتول کے خون میں شریک ہےبحارالانوار۔ ج۱۰۴۔ ص۳۸۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:قیامت کے دن ایک شخص کو ایک دوسرے شخص کے پاس لائیں گےپہلا شخص دوسرے شخص کو خون سے رنگین کرے گاجب دوسرا شخص اس سے خون آلود کرنے کی وجہ پوچھے گا، تو وہ جواب دے گا کہ: تم نے فلاں دن میرے بارے میں فلاں کلمہ کہا تھا جس کی وجہ سے میرا خون بہایاگیا تھا، آج تم اس کا جواب دو۔ (ثواب الاعمال ازشیخ صدوق(مترجمہ فارسی)ص ۶۳۴)

 

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ مسجد ” جھینہ“ میں ایک مقتول کا جنازہ رکھا ہےآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور پیدل اس مسجد کی جانب تشریف لے گئےلوگوں کو پتا چلا تو سب اس مسجد میں جمع ہوگئےرسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ اس شخص کو کس نے قتل کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا:اے اللہ کے رسول ؐ! ہمیں پتا نہیں آنحضرت ؐنے فرمایا:کیا یہ مناسب بات ہے کہ کسی مسلمان مقتول کا جنازہ مسلمانوں کے درمیان موجود ہو اوروہ اس بات سے بے خبر ہوں کہ اسے کس نے قتل کیا ہے؟ اس خدا کی قسم جس نے مجھے اپنی نبوت کے لیے برحق معبوث کیا ہے، اگر آسمانوں اور زمین کے رہنے والے تمام لوگ کسی مسلمان کا خون بہانے میںشریک ہوں، یا اس عمل پر راضی ہوں، تو خداوند ِعالم ان سب کو منھ کے بل آتشِ جہنم میں پھینک دے گا(ثواب الاعمال ازشیخ صدوق (مترجمہ فارسی)۔ ص۶۳۷)

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ارشاد ہے: قیامت کے دن ایک انسان کو لے کے آئیں گے جس نے دنیا میں کسی کا خون نہیں بہایا ہوگاپھر اسے خون سے بھرا ہوا ایک چھوٹا سا برتن دیں گے اور اس سے کہیں گے کہ یہ فلاں مقتول کے خون میں تمہارا حصہ ہےوہ عرض کرے گا: بارِ الٰہا! تو جانتا ہے کہ میں نے پوری زندگی کسی کا خون نہیں بہایاخداوند ِعالم فرمائے گا: ہاں (درست ہے لیکن) تو نے فلاں شخص کی ایک بات سنی اور اسے دوسروں سے نقل کیایہ بات دوسروں تک پہنچی، یہاں تک کہ وہ بات اس زمانے کے ظالم حکمراں کو بتائی گئی اور اس ظالم حکمراں نے اس شخص کو قتل کردیالہٰذا تو نے اس مقتول کا خون بہانے میں اتنا حصہ لیا ہے(محاسنِ برقیص ۱۰۴، بحار الانوارج ۱۰۴ص ۳۸۳)

 

ہم اس امید کے ساتھ اس موضوع پر اپنی گفتگو تمام کرتے ہیں کہ یہ آیات وروایات اور دل ہلادینے والے کلمات ہم سب کے لئے باعث ِانتباہ ہوں گے اور ہم سختی کے ساتھ اس بات کا خیال رکھیں گے کہ کبھی کہیں کسی بے گناہ کا خون بہانے میں شریک نہ ہوں جس کی سزا انتہائی شدید ہے اور خدائے رحمٰن کے خاص بندے ہر قسم کی خونریزی سے شدت کے ساتھ پرہیز کرتے ہیں۔

اس گفتگو کو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ایک انتباہی حدیث پر ختم کرتے ہیں۔

مولا کی خدمت میں تین افراد کو لایا گیا اور بتایا گیا کہ ان میں سے ایک نے ایک شخص کو پکڑا اور اس کی نگرانی کرتا رہا، دوسرا آیا اور اس نے اسے قتل کردیا اور تیسرا یہ سب کچھ دیکھتا رہا اور انہیں روکنے کی کوشش نہیں کیحضرت علی ؑنے فیصلہ سنایا کہ: جس شخص نے مقتول کی نگرانی کی اسے قید کر دیا جائے، یہاں تک کہ قید ہی میں اس کی موت واقع ہوقتل کرنے والے شخص کو سولی پر چڑھادیا جائے اور جس شخص نے اس پورے واقعے کو دیکھا، اس کا تماشائی رہا اور اس کا سد ِباب نہیں کیا، سلائی پھیر کر اس کی آنکھیں اندھی کردی جائیں(بحار الانوارج۱۴ص ۳۸۶)

 

ناجائز صنفی تعلقات سے سخت اجتناب

قرآنِ مجید سورئہ فرقان میں بیان ہونے والی خدا کے ممتاز اور خاص بندوں کی بارہ خصوصیات میں سے آٹھویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:

وَلَا يَزْنُوْنَ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ يَلْقَ اَثَامًا

اور (وہ) زنا بھی نہیں کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا عمل انجام دے گا وہ اسکی بہت سخت سزا پائے گاسورئہ فرقان ۲۵آیت ۶۸

اس آیت میں خدا کے صالح اور نیکو کار بندوں کی ایک انتہائی اہم فضیلت بیان کی گئی ہےیہ اہم فضیلت عفت وپاکدامنی کی حفاظت، اور ہر قسم کے ناجائز صنفی تعلقات سے شدت کے ساتھ اجتناب ہےکیونکہ عفت کے منافی عمل ” زنا“ بے عفتی کی ایک انتہائی گھناؤنی صورت ہے۔

یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ صحت مند اور سالم معاشرے کا ایک عامل عفت وپاکدامنی اور عزت وناموس کے بارے میں ” غیرت“ کا اصول ہے، جس کی غیر معمولی اہمیت کے تمام انبیاء، ائمہ اور صاحبانِ عقل ودانش قائل ہیں، یہ اصول انسانی برادری اور مردوں اور عورتوں کے درمیان جائز اور معقول تعلقات کو تقویت پہنچاتا ہے اور بہت سی معاشرتی اور گھریلو خرابیوں، گمراہیوں اور بدبختیوں سے تحفظ کے لیے ایک مضبوط ڈھال ہے۔

زنا جو گھناؤنا ترین جنسی گناہ ہے اسکے بہت سے شرمناک اور تباہ کن اثرات ہیں اور جو خاندانوں کی ٹوٹ پھوٹ، فتنہ وفساد، خود کشی، منشیات کا عادی ہوجانا، قساوتِ قلبی اور بہت سے بڑے بڑے جرائم کی بنیاد بنتا ہےیہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم نے اس برے عمل کے قریب جانے تک سے منع کیا ہے اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ:

 

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰى اِنَّه كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيْلًا

اور دیکھو زنا کے قریب بھی نہ جانا کہ یہ بدکاری اور بہت برا راستہ ہےسورئہ بنی اسرائیل ۱۷آیت ۳۲

اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ زنا نہ کرنا، بلکہ کہتی ہے کہ اس شرمناک اور قبیح عمل کے قریب بھی نہ جانا، اس تعبیر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اکثر اوقات انسان ایسے مقدمات کے نتیجے میں زنا میں مبتلا ہوتا ہے جو اسے تدریجا ً اس عمل کے قریب لیجاتے ہیںلہٰذا انسان کو چاہیے کہ ان مقدمات سے بھی سختی کے ساتھ پرہیز کرےنظر بازی، عریانی، پردے کی طرف سے بے توجہی، ہیجان انگیز فلمیں دیکھنا، گمراہ کن لٹریچر کا مطالعہ اور بے راہ روی کا باعث بننے والی موسیقی اور گانوں کا سننا وہ باتیں ہیں جن میں سے ہر ایک جنسی گمراہی اور زنا کے ارتکاب کی وجہ بن سکتی ہے اور انسان کو بے راہ روی کی جانب لے جاسکتی ہے۔

زنا، اسلام کی نظر میں بہت بڑا گناہ ہے لہٰذا اُس میں اسے انجام دینے والے کے لیے سخت سزا مقرر کی گئی ہےاگر محرم عورتوں کے ساتھ زنا کیا جائےیا زنائے محصنہ (یعنی شادی شدہ مرد یا شادی شدہ عورت زنا کا ارتکاب کرے) تو اسے سنگسار کرنے یا سزائے موت دینے کا حکم ہےاور اگر زنائے غیر محصنہ ہوتو پہلی مرتبہ ارتکاب کی صورت میں قاضی کے حکم سے زنا کرنے والے کو سو کوڑے مارے جائیں گےدوسری مرتبہ ارتکاب پر بھی اس پر یہی حد جاری کی جائے گیلیکن تیسری یا چوتھی مرتبہ اس جرم کے ارتکاب پر اس کے لیے سزائے موت کا حکم جاری کیا جائے گابعض مواقع پر زنا کرنے والے کو تازیا نے بھی مارے جائیں گے اور سنگسار بھی کیا جائے گاجیسے زنائے محصنہ کرنے والے بوڑھے مرد یا بوڑھی عورت کو(تحریر الوسیلہج۲ص۴۶۳)

ارتکاب ِزنا پر یہ سخت دنیوی سزائیں، اس گناہ کی شدت اور اسکے انتہائی برے اور تباہ کن اثرات کی جانب اشارہ ہیں اسلام جو ایک مقدس آئین ہے، اور سالم و صحت مند معاشرے اور ایک پرسکون گھریلو زندگی کا خواہشمند ہے، وہ ان سخت سزاؤں کے ذریعے ہر قسم کی جنسی گمراہی اور گناہ کی روک تھام چاہتا ہے، نیز یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرے کی عفت وپاکدامنی کو اس پر نقب لگانے والوں سے محفوظ رکھا جائے۔

 

قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں، زنا کے مرتکب افراد کے لیے شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےمثلاً ارشاد ہوتا ہے:

اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

زنا کار عورت اور زنا کار مرد، دونوں کو سو سو کوڑے لگاؤاور خبردار خدا کے دین کے معاملے میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا، اگر تمہارا ایمان اﷲ اور روزِ آخرت پر ہےاور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو اسکا مشاہدہ کرنا چاہیےسورئہ نور۲۴آیت۲

اس آیت میں تین ایسے نکات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک زنا کے اس سخت گناہ کے خلاف اسلام کے شدید موقف کی نشاندہی کرتا ہےپہلا نکتہ یہ ہے کہ: زنا کے مرتکب مرد اور عورت کو سو سو کوڑے لگائے جائیںدوسرا نکتہ یہ ہے کہ: اس حکم پر عمل درآمد کے موقع پر ان سے کسی قسم کی نرمی اور ہمدردی نہ کی جائے اور ان کے بارے میں قانونِ الٰہی کو دو ٹوک انداز میں جاری کیا جائےتیسرا نکتہ یہ ہے کہ: یہ حکمِ الٰہی برسر عام جاری کیا جائے، اور اس موقع پر کچھ لوگ موجود ہوں جو مجرموں کوکوڑے کھاتے دیکھیںتاکہ ایک طرف تو زنا کار اچھی طرح اس سزا کا مزہ چکھے اور دوسری طرف تماشائیوں کو بھی عبرت ہو اور وہ اس گناہ کے ارتکاب سے باز رہیں۔

 

جنسی آلودگی سے پرہیز اور محفوظ رہنے کے راستے

یہاں سورئہ فرقان کی جس آیت پر گفتگو ہورہی ہے اُس میں عفت وپاکدامنی کی حفاظت اور جنسی گمراہی اور آلودگی (بالخصوص زنا) سے پرہیز کو خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی ایک صفت بتایا گیا ہے، نیز دوسری متعدد آیات میں بھی (جن میں سے ہم نے یہاں صرف دو کے بیان پر اکتفا کیا ہے) اس بڑے گناہ کے ارتکاب کی ممانعت کی گئی ہےلہٰذا سوال یہ ہے کہ اب ہم کون سے طریقے اختیار کریں جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ اس قبیح عمل کا مرتکب نہ ہو اور اس سے محفوظ رہے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس گناہ سے اجتناب اور اسکی روک تھام کے مجموعی طور پر دو راستے ہیں ایک نظری راستہ اور دوسرا عملی راستہ۔

پہلا راستہ جسے ہم نے نظری راستے کا نام دیا ہے، اسکے بارے میں عرض ہے کہ اس گناہ کی شدت اور سنگینی کی طرف متوجہ رہا جائے اور جنسی گمراہی کی قباحت اور اسکے شرمناک آثار کے بارے میں ذہن کو حاضر رکھا جائے۔

اس طرح عقل، تجربے کی مدد کے ہمراہ ہم سے کہے گی کہ اگر جنسی گمراہی، بالخصوص زنا ہمارے معاشرے میں رائج ہوجائے (جیسا کہ پست مغربی تمدن میں دیکھا جارہا ہے اور لرزہ طاری کردینے والے اعداد وشمار اس کے گواہ ہیں) تو یہ بہت سی برائیوں اور تباہیوں کا موجب ہو جائے گاکیونکہ عفت وپاکدامنی کے منافی یہ عمل ایک طرف تو طرح طرح کے امراض مثلاً ” ایڈز“ کی لاعلاج مہلک بیماری کا باعث ہوا ہے، اور دوسری طرف اس نے وہاں کی نئی نسل کو گھر بسانے اور عائلی زندگی اپنانے سے دور رکھا ہے اور اس میں بے نظمی اور عزم وہمت میں کمی کا باعث بنا ہے۔

 

عائلی زندگی گزارنے والوں اور رشتہ ازدواج کی بنیاد رکھنے والوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ گھر سے باہر جنسی تعلق کا قیام محبت بھری عائلی زندگی میں بحران اور بد اعتمادی کی وجہ بنتاہے اور اسکا آخری نتیجہ میاں بیوی کے درمیان طلاق اور خاندان کی تقسیم کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ زنا، ناجائز بچوں کی ولادت کا باعث ہے، جس کی وجہ سے وہ تعلق جو بچوں اور والدین کے درمیان قائم ہونا چاہیے وہ قائم نہیں ہوپاتا اور نتیجے کے طور پر افرادِ معاشرہ کا باہمی تعلق جس کی بنیاد اہل خانہ کے باہمی تعلقات پر استوار ہوتی ہے متزلزل ہوجاتا ہے اور معاشرہ زوال وانحطاط کی طرف چل پڑتا ہے۔

زنا کے عام ہوجانے کا ایک اور برا اثر یہ ہے کہ یہ عمل لوگوں کے ازدواجی زندگی سے دور ہونے کا باعث بن جاتا ہے اور اسکے نتیجے میں شادی کے نیک اور مثبت اثرات، جیسے روحانی سکون، صحیح اور فطری راستے سے جنسی خواہش کی تسکین، روحانی انس، زندگی کے کاموں میں باہمی تعاون، اچھے بچوں کی تربیت اور دوسرے اچھے معاشرتی اثرات مرتب ہونے کے بجائے گمراہی اور اس کے تباہ کن اثرات سامنے آتے ہیں۔

اس مسئلے پر غورو فکر، انسان کو اس برے عمل سے دور رکھے گا اور بڑی حد تک اسے جنسی گمراہی میں مبتلا ہونے بالخصوص پاکدامنی کے منافی عمل ” زنا“ کے ارتکاب سے باز رکھے گاکیونکہ کوئی بھی عقل مند آدمی ایسے عمل کا مرتکب نہیں ہوگا جو ایسے تباہ کن جسمانی اور روحانی اثرات کا باعث ہو، اور جس کے ایسے بھیانک نتائج برآمد ہوں۔

دوسرا راستہ جو عملی راستہ ہے، اسکے بارے میں عرض ہے کہ یہ راستہ ہم سے کہتا ہے کہ ہمیں بے عفتی اور جنسی گمراہی کے عوامل واسباب سے آگاہ ہونا چاہئے اور اس سے چھٹکارے کے راستے جاننا چاہئیں اور منصوبہ بندی کے ذریعے اس سے اجتناب کرنا چاہئے۔

 

اس حوالے سے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اپنی نیت کو سالم اور پاک رکھیں، تاکہ ہمارا فیصلہ بھی پاک اور سالم ہو۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ گفتگو کرتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا: موسیٰ اپنے اصحاب سے کہتے تھے کہ زنا نہ کرنالیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ زنا کا خیال بھی دل میں نہ لانا (اس کے بعد انہوں نے یہ مثال پیش کی) اگر کوئی شخص ایک خوبصورت نقاشی سے مزین کمرے میں آگ جلائے، تو اس آگ کا دھواں اس کمرے کو دھواں آلود اور سیاہ کردے گا، اگرچہ آگ نے اس کمرے کو جلا کر راکھ نہیں کیا ہوگازنا کا خیال اسی دھویں کی مانند ہے جو انسان کے معنوی چہرے کو بدنما کردیتا ہے اگرچہ یہ چہرہ ختم نہیں ہوا ہوتا(سفینتہ البحارج۱ص۵۶)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم سلام اﷲ علیہا کی عفت، غیرت اور پاکیزگی کا عالم یہ تھا جب ان کے فرزند حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو ایک طرف تو آپ انتہائی خوش تھیں اور دوسری طرف یہ سوچتے ہوئے کہ کہیں نادان لوگ ان کی پاکدامنی پر انگلیاں نہ اٹھائیں، مضطرب اور سخت پریشان بھی تھیں لہٰذا انہوں نے کہا کہ:

يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَكُنْتُ نَسْـيًا مَّنْسِـيًّا

اے کاش! میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور بالکل فراموش کردی گئی ہوتی سورئہ مریم۱۹آیت ۲۳

مغربی دنیا، جس کی اکثریت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دین کی پیروی کا دعویٰ کرتی ہے اور جس میں دن بدن بے راہ روی اور آوارگی بڑھ رہی ہے، درحقیقت حضرت عیسیٰ ؑاور ان کی والدہ حضرت مریم ؑکے دین وآئین سے دور ترین لوگ ہیں ان کی گستاخی اس حد تک جاپہنچی ہے کہ وہ حضرت مریم ؑکی تصویر کے طور پر ایک بدحجاب اور نیم عریاں عورت کی تصویر شائع کرتے ہیںیہ ایسی گستاخی اور شرمناک اہانت ہے جو یقینا حضرت مریم ؑکی پاک روح کو آزردہ کرتی ہوگیوہ آج اس صورتحال کو دیکھ کر فرماتی ہوں گی کہ: کاش! میں دنیا میں نہ آئی ہوتی اور بالکل بھلا دی گئی ہوتی اور مجھے اس قسم کی تصاویر اور مجسموں کی صورت میں پیش نہ کیا گیا ہوتا اور ایسی بے ہودہ تصو یر کے ذریعے، جس کا مجھ سے دور کا بھی واسطہ نہیں، میری عفت کا مذاق نہ اُڑایا گیا ہوتا۔

 

بہرحال، فکر کی پاکیزگی کے مرحلے کے بعد ان عوامل واسباب کو پہچاننا اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے جو انسان کو جنسی گمراہی کے ہولناک گڑھے کے کنارے لے جاتے ہیں ان میں سے چند عوامل درج ذیل ہیں:

۱:- لوگوں کے سامنے بے حجابی یا حجاب سے بے پروائی کے ساتھ آناکیونکہ یہ چیز جنسی شہوت کی آگ کو بھڑکاتی اور جنسی آلودگیوں کا موجب ہوتی ہے۔

۲:- نگاہوں کو کنٹرول نہ کرنا اور وسوسہ پیدا کرنے والی نگاہوں سے اجتناب نہ کرنا۔

۳:- گمراہ کن فلموں اور شہوت انگیز مناظر دیکھنا اور مردوں اور عورتوں کا باہم مخلوط ہونا۔

۴:- بری باتیں سکھانے والی مطبوعات کا مطالعہ کرنا۔

۵:- ہیجان انگیز تصاویر دیکھنا۔

۶:- حرام غذاؤںکا استعمال اور پرخوری۔

۷:- برے دوستوں کی صحبت۔

۸:- شادی جو جنسی خواہش کی تسکین اور جنسی گمراہی سے نجات میں موثر کردار کی حامل ہے، اس میں بلاوجہ تاخیر کرنا۔

 

ایک موقع پر پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

یٰا مَعشر الشَّبابِ انْ اِستَطاع مِنْکُم الباءَ ةُ فَلْیَتَزَوَّجُ فانَّهُ اَغَضُّ للْبَصَرِ واَحْصَنُ للْفَرْج، وَ مَنْ لَمْ یَستَطعُ فَعَلَیْهِ بِالصَّوْمِ

اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی شادی کرسکتا ہے اسے چاہیے کہ شادی کرے، کیونکہ شادی کی وجہ سے انسان (دوسروں کی ناموس کی طرف سے) نگاہیں نیچی کرلیتا ہے اور اپنے دامن کو بے عفتی کی آلودگی سے بچا لیتا ہےاور جو کوئی شادی نہیں کرسکتا، اسے چاہیے کہ روزہ رکھےاصولِ کافی ج۲ص۷۹

اپنے اندر حیا، عفت، حمیت اور اپنے ناموس کے بارے میں غیرت جیسی صفات پیدا کرنا بھی انسان کو جنسی گمراہیوں اور زنا سے باز رکھنے والے طاقتور عوامل میں سے ہےاس بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: مازَنیٰ غَیُورٌ قَطُُّّ(غیرت مند انسان کسی صورت زنا نہیں کرتانہج البلاغہ کلمات قصار۳۰۵)

نیز آپ ہی نے فرمایا ہے: عِفّةُ الرّجُلِ عَلی قَدْرِ غَیْرتِةِ (انسان اتنا ہی پاکدامن ہوتا ہے جتنی اس میں غیرت ہوتی ہےغرر الحکم )

 

بے عفتی کے خلاف پیغمبر اسلام کا شدید موقف

پیغمبر اسلام معاشرے کی عفت وناموس کی حفاظت کے سلسلے میں انتہائی حساس تھےآپ ؐنے بارہا فرمایا کہ: کانَ ابراھیمُ اَبی غَیوراً وانا اَغْیَرُ مِنْهُ، وارْغَمَ اللّٰهُ انْفَ مَنْ لا یُغارُ (میرے باپ! ابراہیم بہت غیرت مند تھے اور میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوںخداوند ِعالم بے غیرت انسان کی ناک خاک پر رگڑ دیتا ہےبحار الانوارج۱۰۳ص۲۹۳)

اس حوالے سے درجِ ذیل دو قصے ملاحظہ فرمائیں:

۱مروان بن حکم کا باپ اور حضرت عثمان کا چچا حکم بن ابی العاص مہاجر مسلمان ہونے کے باوجود دوسروں کی عزت وناموس پر بری نظر رکھتا تھاایک روز اس نے مدینہ میں پیغمبر اکرم ؐکے گھر کے دروازے سے آنحضرت ؐکے گھر میں جھانکاآنحضرؐت کو اس کے اس گھناؤنے عمل کی خبر ہوگئی اور آپ ؐاس قدر ناراض ہوئے کہ آپ نے ایک کمان اٹھالی تاکہ اس کے ذریعے اسے تیر کا نشانہ قرار دیںلیکن وہ بھاگ کھڑا ہوا اور چھپ گیا(سفینتہ البحارج۱ص۲۹۳)

ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے خمیدہ سر کی ایک لاٹھی، جس کی نوک تیز تھی اٹھائی اور اسکے پیچھے دوڑے، وہ سر پٹ دوڑا اور آنحضرؐت کی پہنچ سے نکل گیاآنحضورؐ نے فرمایا: اگر وہ میرے ہاتھ آجاتا تو اس کی آنکھیں نکال لیتااس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ حکم اور اسکے بیٹے مروان کو جلا وطن کرکے طائف بھیج دیا جائے۔

یہ دونوں پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں اور پھر اسکے بعد حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کے ادوارِ خلافت میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے رہےلیکن حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں حضرت عثمان کی وساطت سے مدینہ لوٹ آئےحضرت عثمان پر مسلمانوں نے جو اعتراضات کیے ان میں سے ایک شدید اعتراض یہ تھا کہ آپ نے ان لوگوں کو واپس کیوں بلایا جنہیں پیغمبر اسلامؐ نے جلا وطن کیا تھا(الغدیرج۸ص۲۴۳، اسد الغابہ ج۲ص۳۳)

 

۲امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ملی کہ ” ہیت“ اور ” ماتع“ نامی دو افراد مدینہ میں فضول اور بیہودہ باتیں کرتے پھرتے ہیں اور عورتوں کی خوبصورتی کے تذکرے کرکے اور لوگوں کو بیہودہ لطیفے سنا کر معاشرے میں عفت وپاکدامنی کے ماحول کو نقصان پہنچانے کی وجہ بن رہے ہیں آنحضرتؐ نے انہیں بلایا اور انہیں سرزنش کرنے کے بعد مدینہ سے (چند فرسخ کے فاصلے پر) ” العرایا“ نامی مقام پر جلا وطن کردیاانہیں کھانے پینے کی اشیا اور ضروریات ِزندگی کی خریداری کے لیے صرف جمعے کے دن مدینہ آنے کی اجازت تھیاس کے بعد وہ پھر ” العرایا“ واپس چلے جاتے تھے(بحار الانوارج۲۲ص۸۸ سے اختصار کے ساتھ)

اس طرح آنحضرتؐ نے انہیں تنبیہ کی اور آپؐ کے اس سخت موقف سے دوسروں کو یہ سبق ملا کہ وہ عفت وپاکدامنی کی حفاظت کرکے افرادِ معاشرہ کو جنسی گمراہی سے محفوظ رکھیں۔

 

گناہ کی محفلوں میں شرکت سے پرہیز

قرآنِ کریم، سورئہ فرقان میں بیان کی گئی خدا کے خاص بندوں کی بارہ صفات میں سے نویں صفت کے بارے میں فرماتا ہے کہ: وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ (یہ لوگ جھوٹی گواہی (اور گناہ کی محفلوں میں شرکت) سے پرہیز کرتے ہیںسورئہ فرقان۲۵آیت۷۲)

یہ خدا کے خاص بندوں کی ایک ممتاز صفت ہے، جو دوسروں کے حقوق کا لحاظ رکھنے اور ہر قسم کے فضول، بیہودہ اور باطل امور کی آلودگی سے بچنے کا باعث ہوتی ہے، نیز اپنی اصلاح کے لیے وقت سے مفید استفادے کے سلسلے میں بہترین کردار ادا کرتی ہے۔

 

” زُوْرَ“ کے معنی ہیں حق سے انحرافیہ معنی متعدد امور مثلاً باطل، دروغ، حرام موسیقی اور ظلم وستم پر صادق آتے ہیں، لیکن روایات کی بنیاد پر یہ لفظ اکثر جھوٹ، تہمت، بیہودہ موسیقی کی محفلوں اور باطل محافل کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

” شہادتِ زُور“ جس کی مذکورہ بالا آیت میں ممانعت کی گئی ہے اور جسے ترک کرنا خدا کے ممتاز بندوں کی امتیازی خصوصیت قرار دیا گیا ہے، مفسرین نے اس کے دو معانی بیان کیے ہیںممکن ہے مذکورہ آیت میں یہ دونوں ہی معنی مراد ہوں۔

 

۱:- یہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتےجس چیز کو حق نہیں سمجھتے اسکی تصدیق نہیں کرتےباطل امور کی تائید نہیں کرتے۔

 

۲:- یہ لوگ عیاشی اور باطل ساز وآواز کی محفلوں میں شرکت نہیں کرتےاور اپنی شرکت کے ذریعے ان فضول اور بیہودہ محفلوں اور ان کا انعقاد کرنے والوں کی تائید نہیں کرتے۔

ان معنی کو پیش نظر رکھیں تو اس آیت میں دو بڑی تباہ کن اور ناپسندیدہ دینی اور سماجی آفات سے پرہیز کی تلقین کی گئی ہےاگر کوئی معاشرہ ان آفات میں مبتلا ہوجائے، تو یہ اس معاشرے کی سلامتی، اسکے اچھے روابط وتعلقات اور اس میں عدل وانصاف کے لیے سنگین نقصان کا باعث ہوں گی اور اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کو گمراہی کی خطرناک راہوں پر لے جائیں گی۔

لہٰذا ان دونوں معانی کی تشریح ضروری ہے، تاکہ ان دونوں گناہوں اور بڑی آفات کی خرابی ہمارے سامنے واضح ہوجائے۔

 

جھوٹی گواہی سے پرہیز

جھوٹی گواہی یا کسی ناحق بات کی تائید تہمت کہلاتی ہے جو ایک گناہِ کبیرہ اور حقوق العباد کی خلاف ورزی ہے اور جسے آیات وروایات کی زبان میں بہتان کہا گیا ہے، جو گناہ پر گناہ کا اضافہ ہےکیونکہ یہ جھوٹ بھی ہے اور اس کی گواہی دینا حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرنا ہےاس طرـح یہ عمل دوسروں کے حقوق کی پامالی کا باعث بنتا ہے۔

جھوٹی گواہی اس قدر ناپسندیدہ اور فتنہ وفساد انگیز عمل ہے کہ قرآنِ کریم نے اسکا ذکر بت پرستی کے ساتھ کیا ہے اور شدت کے ساتھ اسکی ممانعت کی ہے، فرمانِ الٰہی ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (لہٰذا تم ناپاک بتوں سے پرہیز کرتے رہو اور جھوٹی گواہی سے اجتناب کرتے رہوسورئہ حج۲۲آیت۳۰)

تہمت اور بہتان جو جھوٹی گواہی بھی ہے، ایمان پر اس قدر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے کہ بقول امام جعفر صادق علیہ السلام: اذا اتّهَمَ المؤْمِنُ اَخَاهُ، انمات الایمانُ فی قلبِهِ، کما یَنماتُ الملحُ فی الماء (اپنے برادرِ ایمانی پر تہمت لگانے والے شخص کے دل سے ایمان اس طرح گم ہوجاتا ہے جیسے پانی میں نمک غائب ہوجاتا ہےوسائل الشیعہ ج۸ص۶۱۳)

یہی وجہ ہے کہ کسی کے لیے نقصاندہ ثابت ہونے والی تہمت پر خدا کی طرف سے انتہائی سخت سزا اور شدید عذاب ِآخرت ہےابن یعفور نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایسا شخص جو کسی مومن مرد یا عورت پر تہمت لگائے اور اُسکی طرف کوئی ایسی صفت منسوب کرے جو اُس میں نہ پائی جاتی ہو، تو خداوند ِعالم اسے روز ِقیامت بدبودار پانی سے نکالے گا(وسائل الشیعہ ج۸ص۶۰۳)

 

ظاہر ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن انتہائی کریہہ چہرے اور غلیظ ونفرت انگیز بدبو کے ساتھ لوگوں کے سامنے لایا جائے گا۔

رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا: مَنْ شَهِدَ شَهَادَةَ زور عَلی رجُلٍ مسلمٍ اوذِمّیٍ اوْمَن کان مِن النّاس غُلّق بلسانهِ یوْمَ القیامةِ وهُوَ مع المُنافقین فی الدّرکِ الاسْفَلٍ مِنَ النّارِ (ایسا شخص جو کسی مسلمان یا ذمی کافر یا کسی بھی انسان کے بارے میں جھوٹی گواہی دے گا روزِ قیامت اُسکی زبان باندھ دی جائے گی اور وہ منافقین کے ساتھ دوزخ کے نچلے ترین طبقے میں ہوگابحار الانوارج۷۶ص ۳۶۴)

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسولِ اکرمؐ نے فرمایا ہے: مَنْ بَهَتَ موْمناً اوْ موْمنةً اوقالَ فیهِ ما لَیْسَ فیه، اقامَهُ الله یَومَ القیامَةِ عَلی تلٍّ مِنْ نارٍ حتّی یخْرُجَ ممّا قالَ فیه (ایسا شخص جو کسی مومن مرد یا مومنہ عورت پر تہمت لگائے، یا اُن سے کوئی ایسی چیز منسوب کرے جو اُن میں نہ پائی جاتی ہو تو خداوند ِعالم ایسے شخص کو روزِ قیامت اُس وقت تک آگ کے ایک ڈھیر پر ٹھہرائے رکھے گا جب تک وہ اِس تہمت سے (جس پر تہمت لگائی گئی ہے اسکے راضی ہونے کی وجہ سے) بری نہ ہوجائےوسائل الشیعہ ج۸ص۶۰۳، ۶۰۴)

ایک روز رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے سامنے کفار کی جانکنی کی سخت کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: عزرائیل، کافر کے سامنے آگ کی ایک سیخ لائیں گے اور اس کے ذریعے اسکے جسم سے اسکی روح نکالیں گے اور اس موقع پر جہنم ایک چیخ بلند کرے گاحضرت علی ؑنے دریافت کیا: اے اﷲ کے رسولؐ! کیا آپ کی امت میں کوئی ایسا شخص ہے جس کی روح اس قدر اذیت ناک طریقے سے قبض کی جائے گی؟ آنحضرتؐ نے جواب دیا: نَعَمْ، حاکِمُ جابر، وآکِلُ مالِ الیَتیمِ ظُلماً، وَشاهدُ زُورٍ(ہاں، (میری امت کے تین قسم کے لوگوں کی روح اس طرح قبض کی جائے گی) ظالم حکمراں کی، یتیم کا مال ناحق کھانے والے کی اور جھوٹی گواہی دینے والے کیتحف العقولج۱ص۷۰)

 

یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جھوٹی گواہی کئی قسم کی ہوتی ہے، مثلاً سیاسی الزام تراشی، عزت وناموس پر بہتان باندھنا، مالی اور اقتصادی معاملات میں بدعنوانی کی تہمت لگانا وغیرہ وغیرہان تہمتوں اور جھوٹی گواہیوں میں سیاسی تہمت اور کسی کی عزت پامال کرنا ناقابل معافی اور انتہائی بڑا گناہ ہےکیونکہ یہ عمل انتہائی برے اور تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے، اور محترم ومعزز افراد کی عزت ووقار کو نقصان پہنچانے کا موجب ہو کر افراد اور معاشرے کے لیے انتہائی ناپسندیدہ نتائج کا باعث بنتا ہے۔

بعض خاص مواقع، مثلاً انتخابات کے موقع پر اِس قسم کی الزام تراشیوں کا رواج عام ہےاِس عمل کا کم از کم ازالہ یہ ہے کہ تہمت لگانے والا انسان ان تمام لوگوں کے اذہان صاف کرے جنہوں نے اُسکی لگائی ہوئی تہمت سنی ہے اور کھلم کھلا اپنے جھوٹ کا اعتراف کرے اور اس بات کا اعلان کرے کہ جس پر اُس نے یہ الزام لگایا تھا وہ اس سے بری اور منزہ ہے۔

قارون نے ایک عورت کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تہمت لگانا چاہیلیکن اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو اس تہمت سے محفوظ رکھا اور قارون پر اِس قدر غضبناک ہوا کہ زمین کو حکم دیا کہ وہ قارون اور اسکے مال ودولت کو نگل جائے اور زمین نے خدا کے اس حکم کی تعمیل کی(ان نکات کا مطالعہ سورئہ قصص کی آیت نمبر اکیاسی میں کیا جاسکتا ہے)

اسی طرح کسی کی عزت وناموس پر الزام لگانا بھی ایک بڑا گناہ اور سنگین عَقاب کا باعث ہےیہاں تک کہ یہ عمل آخرت کے شدید عذاب کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی سخت سزا کا موجب ہےجیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا وَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ فراہم نہیں کرتے، انہیں اَسّی کوڑے لگاؤ اور پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرنا اور یہ لوگ سراسر فاسق ہیںسورئہ نور۲۴آیت۴

 

اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی انسان کسی پاکدامن عورت کی عزت وناموس کے بارے میں کوئی ناروا بات کہے، چاہے اس نے سچ ہی کہا ہو، اُسے چاہیے کہ اسکے لیے چار گواہ بھی لائے، وگرنہ مجرم کے طور پر اَسّی کوڑے کھانے کو تیار رہےیہ وہی ” حد“ ہے جو اسلامی فقہ میں ” حدِ قذف“ کے نام سے معروف ہے اور جو زنا یا لواط کا الزام لگانے والے پر جاری کی جاتی ہےاگر یہ الزام چار مرتبہ لگایا جائے اور ہر مرتبہ کے بعد اس کے لگانے والے پر حد جاری ہو، تو چار مرتبہ کے بعد ایسے شخص کو موت کی سزا دینے کا حکم ہے(تحریر الوسیلہج۲ص۴۷۶۴۷۹)

جھوٹی گواہی کی کچھ اور صورتیں بھی ہیںمثلاً بعض فحش کلامی، گالم گلوچ، جیسے ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ تو زنا زادہ یا حرام زادہ یا ایامِ حیض کی پیدائش ہےیہ تہمتیں گناہانِ کبیرہ میں سے ہیں اور اگر قاضی کے سامنے ثابت ہوجائیں تو ایسی تہمت لگانے والے شخص کو قاضی کے حکم سے سزا دی جائے گی۔

اس گفتگو کو مکمل کرنے کی غرض سے ایک دلچسپ اور سبق آموز قصہ نذرِ قارئین ہے:

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک دوست تھا، جو ہمیشہ آپ کے ہمراہ ہوا کرتا تھاایک روز اُس دوست نے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے امام جعفر صادق کے ایک غلام سے کہا: اے زنازادے! تو کہاں تھا؟ امام جعفر صادق اپنے دوست کی اس بد زبانی پر اس قدر ناراض ہوئے کہ اُسکی پشت پر ایک زور دار ہاتھ مارا اور فرمایا: سبحان اﷲ! کیا تم اسکی ماں کو زانیہ قرار دے رہے ہو؟ میں تو سمجھتا تھا کہ تم متقی اور پرہیز گار شخص ہوآج مجھے پتا چلا کہ تم بے تقویٰ ہواُس نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤ! اِس غلام کی ماں کا تعلق سندھ سے ہےوہ مشرک تھی اور اِسی مشرکانہ زندگی میں اُس کے بطن سے اِس غلام نے جنم لیا ہے، لہٰذا یہ غلام زنازادہ ہےامام ؑنے فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم کہ ہر قوم میں شادی بیاہ کا ایک قانون ہوتا ہے؟ تم میری نظروں سے دور ہوجاؤ، اب مجھے کبھی نظر نہ آنا۔

 وہ بدزبان شخص امام ؑکے پاس سے چلا گیا اور پھر آپؑ عمر بھر اس سے نہ ملے(اصولِ کافی ج۲ص۳۲۴)

 

بیہودہ محفلوں میں شرکت سے پرہیز

جن چیزوں پر جھوٹی گواہی کا عنوان صادق آتا ہے، اُن میں سے ایک ناشائستہ اور بیہودہ محفلوں میں شرکت اور ان میں حاضری ہےزیرِ بحث آیت میں اِس عمل کا ترک کرنا خدا کے ممتاز اور خاص بندوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہےکیونکہ ایسی محفلوں میں شرکت اور موجودگی ایک طرح سے باطل کی تائید اور لہو لعب کی ان محافل کو رونق بخشنا ہے۔

اسی طرح، عام طور پر گناہ کے کاموں میں مشغول رہنے والے غیر صالح افراد کی ہم نشینی بھی جھوٹی گواہی کی ایک قسم ہےکیونکہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا اُن کے عمل کی تائید اور گناہ کے کاموں میں اُن کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے، ماسوا اسکے کہ جب نہی عن المنکر کا فریضہ اس بات کا تقاضا کرے کہ انسان ان مجالس میں شرکت کرے اور ان محفلوں کا ماحول بدل دینے کا ذریعہ بنے۔

قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر لہو ولعب کی محافل میں شرکت سے منع کیا گیا ہےمثلاً اِس آیت میں ہے کہ:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰيٰتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِه اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ

اور اس نے کتاب میں یہ بات نازل کردی ہے کہ جب کچھ لوگوں کے بارے میں یہ سنو کہ وہ آیات ِالٰہی کا انکار کررہے ہیں اور اُن کا مذاق اڑا رہے ہیں، تو خبردار ان کے ساتھ ہر گز نہ بیٹھنا، جب تک وہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہوجائیں، وگرنہ تم انہی کی مانند ہوجاؤ گےسورئہ نساء۴آیت۱۴۰

 

اسی طرح کی گفتگو سورئہ انعام کی آیت نمبر ۶۸ میں بھی کی گئی ہے۔

ایک روز امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ کانَ یؤمِنُ باللّٰهِ والیَومِ الآخِر فلا یَجْلِسُ فی مَجْلسٍ یُسَبً فِیهِ امامُ اوْیُغْتَابُ فیهِ مُسْلمُ (جو شخص خدا اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے، وہ ایسی مجلس میں نہیں بیٹھتا جس میں امامِ حق کو برا بھلا کہا جاتا ہے، یا وہاں کسی مسلمان کی غیبت کی جاتی ہےاسکے بعد امام نے اس آیت (سورئہ انعام۶آیت۶۸) کی تلاوت فرمائی کہ:

وَاِذَا رَاَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوْضُوْنَ فِيْ اٰيٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتّٰي يَخُوْضُوْا فِيْ حَدِيْثٍ غَيْرِه وَاِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰي مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ

اور جب تم دیکھو کہ لوگ ہماری نشانیوں کے بارے میں بے ربط بحث کررہے ہیں، تو ان سے کنارہ کش ہوجاؤ، یہاں تک کہ وہ دوسری بات میں مصروف ہوجائیں اور اگر شیطان غافل کردے تو یا دآنے کے بعد پھر ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھنا)(بحار الانوارج۷۵ص۲۴۶)

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

لا یَنبغی للمؤمن ان یَجْلسَ مجلِساً یُعْصَی ﷲ فیهِ، ولا یَقْدِرُ عَلیٰ تَغْییره

مومن کے لیے کسی ایسی محفل میں شرکت مناسب نہیں جس میں خدا کی نافرمانی ہوتی ہو اور وہ مومن اِس محفل میں تغیر لانے کی قدرت نہ رکھتا ہواصولِ کافی ج۲ص۳۷۴

 

تاریخ میں ہے کہ دوسرے عباسی خلیفہ منصور دوانیقی نے اپنے ایک بیٹے کی ختنہ کے موقع پر ایک پُرشکوہ شاہانہ محفل کا انعقادکیا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو بھی اس میں مدعو کیا، یہاں تک کہ آپ اس محفل میں شرکت پر مجبور ہوگئےجب کھانے کا دستر خوان لگایا گیا تو اچانک امام ؑکی نظر پڑی کہ دستر خوان پر شراب کے برتن بھی رکھے جارہے ہیں آپ ؑیکلخت اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے، اور انتہائی غیظ وغضب کے عالم میں ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اس دستر خوان اور اس کے گرد بیٹھنے والوں کے بارے میں فرمایا: مَلْعُونٌ مَنْ جَلَس عَلی مائدهٍ یُشْربُ علیهَا الْخَمْر (ایسا شخص ملعون ہے جو کسی ایسے دسترخوان پر بیٹھے جس پر شراب پی جارہی ہوفروع کافی ج۶ص۲۶۷)

 

نتیجہ اور خلاصہ

قرآن کریم، پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکی تعلیمات و فرامین کی رو سے ہر مسلمان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ حق کی تائید اور اسکی حفاظت ودفاع کے لیے کوشاں رہے اور معاشرے کو خدا اور دینی باتوں کی طرف دعوت دےاس فریضے کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ کسی صورت جھوٹا گواہ نہ بنےیعنی نہ تو جھوٹی گواہی دے اور نہ گناہ کی تائید اور حوصلہ افزائی کا باعث بنےجیسا کہ قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ: وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کروسورئہ مائدہ۵آیت۲)

 

اس بات کی جانب متوجہ رہنا بھی ضروری ہے کہ جھوٹی گواہی کی صورتوں میں سے ایک صورت ساز وآواز اورگانے بجانے کی محفلوں میں شرکت ہےجیسا کہ خوشی کی بعض محافل بالخصوص شادی بیاہ کی محفلوں میں معمول ہےایسی محفلوں میں حاضری اور ان میں شرکت حرام ہے اور فسق وفجور کی تائید اور حرام اعمال کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہےخدا کی نظرمیں پسندیدہ بندے اس قسم کی محفلوں میں شرکت سے لازماً گریز کرتے ہیںیہاں تک کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا: وَمَن لم یَحْکُم بما انزَل ﷲ کان کمَنْ شَهِدَ شهادةَ زورٍ، ویَقْذِفُ بِهِ فی النّار ویُعَذِّبُ بعَذابِ شاهِدِ زُورٍ (وہ شخص جو خدا کے نازل کیے ہوئے (قرآنِ مجید) کے مطابق فیصلہ نہ کرے جھوٹی گواہی دینے والے شخص کی مانند ہےایسے شخص کو دوزخ میں پھینکا جائے گا اور اُسے جھوٹی گواہی دینے والے کا عذاب دیا جائے گابحار الانوارج۷۶ص۳۶۷)

ایک حدیث میں ہے کہ عبد الاعلیٰ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا: یہ آیت جس میں فرمایا گیا ہے کہ: وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(سورئہ حج۲۲آیت۳۰) اس سے کیا مراد ہے؟ امام ؑنے فرمایا: الغنا (یعنی حرام موسیقی مراد ہے)(بحار الانوارج۷۹ص۲۴۵)

نیز امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہونے والی بہت سی روایات کے مطابق، زیرِ بحث آیت ” وَالَّذِیْنَ لَا یَشُهَدُوْنَ الزُّوْر“ میں لفظ ” زُوْر“ سے مراد، غنا (یعنی حرام موسیقی) ہےاور اِن حضرات نے اِس آیت کے ضمن میں فرمایا ہے کہ: خدا کے ممتاز بندے فاسقوں کی محافل میں شرکت اور باطل اور بیہودہ محفلوں میں حاضری سے پرہیز کرتے ہیں(نور الثقلین ج۴ص۴۱)

 

فضول کاموں اور وقت کے زیاں کی مخالفت

قرآنِ مجید (سورئہ فرقان میں) عباد الرحمٰن کی دسویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ: وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا (اور جب فضول کاموں کے قریب سے گزرتے ہیں، تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں سورئہ فرقان۲۵آیت۷۲)

یہ خصوصیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ خدا کے خاص اور ممتاز بندے نہ صرف ہر قسم کی لغویات، فضول کاموں اور باطل امور کے خلاف ہوتے ہیں، ان چیزوں کے خاتمے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں، بلکہ اسکے ساتھ ساتھ لغویات اور باطل امور سے اپنی ناخوشی اور ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ہیں اور سہل پسندی اور سستی وغیرہ کی وجہ سے کبھی بھی باطل کو قبول کرنے اور اسکی تائید وحمایت پر تیار نہیں ہوتےایک معقول ہدف ان کے پیش نظر ہوتا ہے، ان کی تمام حرکات وسکنات، اعمال ورفتار منطقی اور سنجیدہ ہوتے ہیں اور ان کے فکر وعمل میں کسی قسم کی فضولیات اور لغویات جگہ نہیں بنا پاتیںکلی طور پر ان کا یہ عمل نہی عن المنکر کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔

نہی عن المنکر جو ایک اہم دینی فریضہ ہے شدید مقابلے اور جدوجہد کا تقاضا کرتا ہےلیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو بدو جنگ کا کوئی بھی راستہ کارگر ثابت نہیں ہوپاتاایسی صورت میں غیظ وغضب اور ناراضگی کے اظہار کے ذریعے سلبی جنگ کی راہ اپنانی پڑتی ہےیہ طرزِ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خدا کے ممتاز بندے باطل اور بدی کے ماحول سے کسی طرح کی خوشی اور رضا مندی کا اظہار نہیں کرتےبلکہ اس کے خلاف ایک دو ٹوک اور سنجیدہ قطعی موقف کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

لغو کے معنی ہیں بیہودہ، کھوکھلی اور فضول گفتگونیز یہ کتے کے بھونکنے، قسم کے توڑنے اور بے وجہ اور جھوٹی قسم کھانے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے (المنجدلفظ لغو کے ذیل میں)اس بنیاد پر لغو سے مراد ہر قسم کے ایسے بے ہودہ، کھوکھلے اور بے اساس اعمال اور نقصاندہ اور بے مقصد سرگرمیاں ہیں، جو انسان کے وقت، اس کی تعمیری قوتوں اور اس کی عمر کے زیاں کا باعث ہوںلہٰذا اس میں ہر وہ چیز شامل ہے جو وقت کے ضائع ہونے اور مواقع ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ بنتی ہے۔

 

قرآن وحدیث کی نگاہ میں لغو سے اجتناب

مذکورہ آیت کے علاوہ، قرآنِ مجید میں دو اور مقامات پر لغو سے اجتناب اور اس سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور اِس اجتناب اور دوری کو مومنین اور حق طلب افراد کی خصوصیات اور خصائل میں سے قرار دیا گیا ہے۔

مومنین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ:

وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ

اور وہ لغو باتوں سے اجتناب کرنے والے ہیںسورئہ مومنون۲۳آیت۳

اور حق کے متلاشی افراد کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ارشادِ الٰہی ہے:

وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ

اور جب لغو بات سنتے ہیں، تو اجتناب کرتے ہیںسورئہ قصص۲۸آیت۵۵

قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں آیا ہے کہ بہشت ہر قسم کی لغویات اور بیہودگیوں سے پاک ہے اور وہاں سلامتی، شادمانی اور بہشتی نعمتوں کے سوا کچھ اور نہیں ہوگا(۱)۔

-------------

۱:- سورئہ طور ۵۲آیت ۲۳، سورئہ مریم ۱۹آیت ۶۲، سورئہ واقعہ ۵۶آیت ۲۵، سورئہ نبا ۷۸آیت ۳۵، سورئہ غاشیہ ۸۸آیت ۱۱۔

 

یہ آیات اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ اگر انسان اسی دنیا میں ایک جنت نظیر معاشرہ بنانا چاہتے ہیں، تو اِس معاشرے کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر قسم کی لغویات اور فضولیات سے محفوظ اور پاک ہو۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اَعْظَمُ النّٰاسِ قَدْراً مَنْ تَرَکَ مَالاً یَعْنیه

لوگوں میں بافضلیت ترین انسان وہ ہے جو بے معنی کاموں کو چھوڑ دے۔

بحار الانوارج۷۱ص۲۷۶

نیز آپؐ نے فرمایا ہے:

تَرْکُ مٰالاٰ یَعْنی زینةُ الْوَرَعِ

لغو وبیہودہ کاموں کو چھوڑنا، پرہیز گاری کی زینت وزیبائی ہے۔

بحار الانوارج۷۷ص۱۳۱

امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے:

اِیّٰاکَ وَالدُّخُولُ فیمٰا لاٰ یَعْنیک فَتَذِلَّ

بے مقصد اور فضول کاموں میں پڑنے سے پرہیز کرو کیونکہ ایسے کاموں میں مشغول ہونا تمہاری ذلت ورسوائی کا موجب ہوگا۔

بحار الانوارج۷۸ص۲۰۴

 

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

رُبَّ لَغْوٍ یَجلبُ شَرّاً

بسا اوقات فضول کام بدی اور برائی کا موجب ہوجاتے ہیں۔

غرر الحکم نقل از میزان الحکم ۃج۸ص۵۱۴

نیز آپؑ ہی کا ارشاد ہے:

مَن اشتَغَلَ بالفُضُول، فٰانَهُ مِنْ مُهِمّةِ المامولِ

ایسا شخص جو اپنے آپ کو فضول اور بے مقصد کاموں میں مشغول کرلے، وہ قابلِ توجہ اہم کاموں کی انجام دہی سے محروم رہے گاحوالہ سابق

امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں میں ہے کہ:

وَعَمِّرْنی مٰا کٰانَ عُمْری بِذْلَةً فی طٰاعَتِکَ، فَاِذٰا کٰانَ عْمری مَرْتَعاً لِشّیْطانِ فَاقْبِضْی اِلَیْکَ

بارِ الٰہا! جب تک میری زندگی تیرے فرامین کی بجا آوری میں بسر ہورہی ہے، اُس وقت تک اُسے باقی رکھنا اور جب وہ شیطان کی چراگاہ بن جائے، تو میری روح قبض کرلینا۔

صحیفہ سجادیہدعا۲۰

 

روایت کی گئی ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے میں، مدینہ میں ایک مسخرہ رہا کرتا تھا، جو اپنی بے سروپا حرکات سے لوگوں کو ہنساتا تھابعض اوقات اُس نے اشارتاً کہا تھا کہ اِس شخص (یعنی امام زین العابدینؑ) نے مجھے زچ کرکے رکھ دیا ہے، میں نے ہر ممکن کوشش کرکے دیکھ لی، مگر انہیں نہیں ہنسا سکاایک روز یہی مسخرہ امام زین العابدین ؑکے پیچھے پیچھے چلتا ہوا آیا اور آپ ؑکے دوشِ مبارک سے آپ ؑکی عبا اچک کر لے گیاامام ؑنے اُس کی اِس حرکت پر بھی کوئی توجہ نہ دیلیکن امام ؑکی معیت میں چلنے والے لوگ دوڑے اور اُس کے ہاتھ سے عبا چھین کر امام ؑ کی خدمت میں واپس لے آئےامام ؑنے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ عرض کیا گیا: یہ مدینہ کا رہنے والا ایک مسخرہ ہے، جو اپنی اِس قسم کی حرکتوں سے لوگوں کو ہنساتا ہے۔

امام ؑنے فرمایا: اِس سے کہو کہ: اِنَّ ﷲ یَوْمَاً یخسِرُ فیهِ المُبْطِلُونَ(۲) (خدا کے پاس ایک دن ایسا ہے (قیامت) جس دن فضول کام کرنے والے لوگ نقصان اٹھائیں گےمناقبِ آلِ ابی طالب ج۴ص۱۵۸)

لغویات اور فضولیات سے دور رہنے کے بارے میں موجود بے شمار روایات میں سے ہم نے جن چند منتخب روایات کو پیش کیا وہ اِس موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتی ہیں اِن روایات کے ذریعے پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑنے بیہودگی اور ہر قسم کے غیر مفید کاموں اور بے فائدہ سرگرمیوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہےاسکے ساتھ ساتھ یہ روایات اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ وقت اور مواقع انتہائی قدر وقیمت کی حامل شئے ہیں، انہیں باطل امور اور بے فائدہ کاموں میں تلف نہیں کرنا چاہیے۔

--------------

۲:- جملہ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ، سورئہ غافر ۴۰ کی آیت ۷۸ میں آیا ہے۔

 

وقت کی پہچان اور اسکی قدر

فضولیت کی جانب رجحان اور بے معنی اور بے مقصد زندگی انتہائی نقصان دہ چیز ہے، جو انسان کی شخصیت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو دیمک کی طرح چاٹ کر برباد کردیتی ہے، انسان کو نہ صرف ترقی وتکامل سے روکتی ہے، اُسے اُس کی حقیقت سے دور کردیتی ہے بلکہ اس کے زوال، انحطاط اور ہلاکت کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

اس ضرر رساں چیز کا ایک انتہائی نمایاں اثر یہ ہے کہ یہ انسان کے قیمتی وقت کے زیاں کا سبب بن کر اسے اس کے اصل سرمائے یعنی وقت کے گوہر گراں قیمت سے محروم کردیتی ہےلہٰذا بے مقصدیت کی مخالفت اور ہر قسم کے لغو امور سے پرہیز، وقت کے قیمتی سرمائے کی حفاظت اور اس سے بہترین نتائج کے حصول کا باعث ہے۔

اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اسلام اور عقل ودانش، دونوں ہی ” وقت“ کی انتہائی قدر وقیمت کے قائل ہیں، وقت کا صحیح اور بہترین استعمال زندگی کے مختلف میدانوں میں ترقی اور کمال کی وجہ بنتا ہے۔

اسلام میں وقت کی قدر جاننے، اس کو اہمیت دینے اور اس سے صحیح صحیح اور بجا استفادے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، اور اسے خدا کی عظیم نعمت شمار کیا گیا ہے، جس کا روزِ قیامت حساب لیا جائے گاجیسا کہ رسولِ کریم ؐنے فرمایا ہے:

روزِ قیامت انسان ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکے گا، جب تک اس سے ان چار چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے: اُس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کس راہ میں بسر کیااُس کے جسم (یاجوانی) کے بارے میں کہ اُسے کن امور میں صرف کیااُس کے مال ودولت کے بارے میں کہ اُسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا اور میری اور میرے اہل بیت کی محبت کے بارے میں(بحار الانوارج۳۶ص۷۹)

 

اس روایت کی روح سے قیامت کے دن خدا کا سب سے پہلا سوال عمر، یعنی انسان کی زندگی کے اوقات کے بارے میں ہوگا، کہ ُانہیں کس راہ میں صرف کیا اور اُن کے عوض کیا حاصل کیا؟ فضول اور باطل امور میں خرچ کیا؟ یا حصولِ علم وکمال، تقویٰ اور مثبت کاموں کے لیے اُن سے کام لیا؟

انسانی زندگی کی گزرتی ساعتوں کو وقت کہتے ہیںمعروف عالم ” فخر الدین رازی“ کے بقول وقت برف کی مانند ہے، جو پگھل کر ختم ہوجاتا ہے(تفسیر کبیرج۱۰سورئہ عصر کی تفسیر کے ذیل میں)لہٰذا ضروری ہے کہ اِس سے بہترین استفادہ کیا جائے، اس سے خوشگوار مشروبات کو ٹھنڈا کیا جائے، پیاسوں کو سیراب کیا جائے اور اِس کے ذریعے کھانے پینے کی اشیاء کو خراب ہونے سے بچایا جائے۔

لیکن اگر برف کو سخت گرمی میں پتھریلی زمین پر رکھ دیا جائے، تو وہ بغیر کوئی فائدہ پہنچائے پگھل کر ختم ہوجائے گااور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اِسے نشہ آور مشروبات ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کرے جو انسان کے فہم وادراک، عقل وخرد کی تباہی کا باعث بنیں۔

لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ منظم پروگرام کے ذریعے فضول کاموں اور کھوکھلے اور بے فائدہ امور سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں، تاکہ اپنی زندگی کے ایک ایک سیکنڈ، ایک ایک منٹ اور ایک ایک گھنٹے سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکیںاس بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:

مومن اپنے شب وروز کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہےایک حصے کو اپنی زندگی کے امور کی اصلاح اور تلاشِ معاش میں صرف کرتا ہےدوسرے حصے کو آرام واستراحت، حلال لذتوں سے استفادے اور قوت جمع کرنے کے لیے استعمال کرتا ہےاور تیسرے حصے کو خدا سے راز ونیاز اور اپنے اور خدا کے درمیان معاملات کی اصلاح (خود سازی اور مختلف شعبوں میں تعمیر) کے لیے کام میں لاتا ہے(اقتباس ازنہج البلاغہ کلمات قصار۳۹۰)

 

وقت کی قدر اور اہمیت کے بارے میں یہ کہنا ہی کافی  ہوگا کہ بعض مفسرین نے آیہ والعصر کی تفسیر میں کہا ہے کہ یہاں عصر (جس کی خدا نے قسم کھائی ہے) سے مراد وقت ہےیعنی وقت کی قسم!!!! کیونکہ اگر اِس سے بہتر استفادہ کیا جائے، تو یہ انسان کے لیے بے مثل سرمایہ ہےاور اِس سے بہترین استفادے کے لیے ضروری ہے کہ انسان فضولیات اور بے کار اور منفی کاموں سے دور رہے۔

اگر ہم وقت کو لغو کاموں اور منفی امور میں برباد کرنے کی بجائے اس سے صحیح اور درست استفادہ کریں، تو اِس طرح ہم اپنے قیمتی وقت کو تباہ اور ضائع نہیں کریں گےاور اگر ایسا نہ کر سکیں، تو ہمیں آخر عمر میں اور روزِ قیامت غم واندوہ کے سوا کوئی اور نتیجہ حاصل نہ ہوگاجیسا کہ اِس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:

وَاتَّبِعُوْا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَّاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ اَنْ تَـقُوْلَ نَفْسٌ يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْبِ اللهِ وَاِنْ كُنْتُ لَمِنَ السّٰخِرِيْنَ

اور تمہارے رب کی طرف سے جو بہترین قانون نازل کیا گیا ہے اُس کا اتباع کرو، قبل اسکے کہ تم تک اچانک عذاب آپہنچے اور تمہیں اِس کا شعور بھی نہ ہوپھر تم میں سے کوئی نفس یہ کہنے لگے کہ ہائے افسوس میں نے خدا کے حق میں بڑی کوتاہی کی ہے اور میں (آیات ِالٰہی کا) مذاق اڑانے والوں میں سے تھاسورئہ زمر۳۹آیت۵۵، ۵۶

 

قابل توجہ بات ہے کہ قرآنِ کریم میں دو الفاظ ” لہو“ اور ” لعب“ بار بار استعمال ہوئے ہیں اور ان سے پرہیز کی تلقین کی گئی ہےلہو ولعب (جن کے معنی عیاشی، غافل کردینے والے اور منفی اثرات کے حامل کھیل کود ہیں) اُن عوامل میں سے ہیں جو انسان کو لغو اور فضول کاموں میں مصروف کردینے کا باعث ہوتے ہیں۔

ہم لہو ولعب سے پرہیز کے بارے میں قرآنِ کریم کی ہدایت سے یہ نکتہ بھی حاصل کرسکتے ہیں کہ اِن سے پرہیز، وقت کی قدر کرنے اور اس سے مفید استفادے کا بہترین ذریعہ ہےلہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ فضولیت کی جانب رجحان سے جو نقصانات بشریت کو اٹھانا پڑے ہیں (جن کی ایک شکل لوگوں کا منشیات کا عادی ہونا ہے) وہ خطرناک اور انتہائی بڑی خسارتیں ہیں۔

 

وقت کی قدر اور لغویات سے پرہیز کے خوبصورت نتائج

وقت کی قدر کرنے والا انسان نہ صرف اپنی آخرت کی کامیابی کا بندوبست کرسکتا ہے اور معنویت کے بلند درجات پر پہنچ سکتا ہے بلکہ اِس دنیا میں بھی علم وعمل کے میدانوں میں کمال کی بلندیوں کو چھوسکتا ہے اور ایک عالمی شخصیت بن کر بشریت کو اپنی قیمتی خدمات سے فیضیاب کرسکتا ہےاگر ایڈیسن نے بجلی دریافت کی اور بہت سی دوسری مفید دریافتوں کا سبب بنا، اگر بو علی سینا نے علمِ طب اور فلسفے اور عرفان کو وسعت اور گہرائی دی اور اگر آئن اسٹائن نے فزکس کو رونق بخشی اور اس کے تجزیئے اور تحلیل کی وسعت میں اضافہ کیا اور بہت سے دوسرے لوگ جو مختلف میدانوں میں علوم کی وسعت وترویج اور صلاحیتوں میں اضافے کا سبب بنے، تو یہ سب کچھ وقت سے صحیح استفادے کی بدولت ممکن ہوا ہےکیونکہ اگر یہ لوگ اپنے بہترین وقت کو لغو اور فضول کاموں میں گزار دیتے تو اِس سے خود اُن کی اور اُن کے معاشروں کی تباہی کے سوا کوئی اور نتیجہ برآمد نہ ہوتا۔

 

ہم خود اپنے ارد گرد اپنے بزرگ علما کو دیکھتے ہیں، جنہوں نے اپنے وقت سے استفادے اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عالی ترین درجات حاصل کیے اور معاشرے کے لیے عظیم الشان علمی اور عملی خدمات انجام دیں اور اس کے لیے برکات وثمرات کا باعث ہوئےاس سلسلے میں ہم آپ کی توجہ کے لیے اختصار کے ساتھ چار علما کی مثالیں پیش کرتے ہیں۔

۱:- آیت اﷲ العظمیٰ شیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ، المعروف صاحب ِجواہر (وفات ۱۲۶۶ھ) جنہوں نے اپنی یادگار کے طور پر استد لالی فقہی کتاب“ جواہر الکلام“ چھوڑی ہے، جو چالیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل ہے اور جس میں تمام ابواب ِفقہ شامل ہیں اِن بزرگوار نے اپنے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور اِس میں ممتاز شاگردوں کی تربیت کی اور گراں قدر کتاب جواہر الکلام تالیف کی جو اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے شیعہ استدلالی فقہ میں بے نظیر حیثیت کی حامل ہےیہ کتاب بجا طور پر فقہ شیعہ کا دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے علامہ مجلسی علیہ الرحمہ کی کتاب ” بحار الانوار“ احادیث ِمعصومین کا دائرۃ المعارف اور خاندانِ رسالت کے علوم ومعارف پر مبنی ایک چھوٹا سا کتب خانہ ہے۔

مرحوم صاحب الجواہر کی ولادت تقریباً ۱۱۹۲ء میں ہوئی۲۵ برس کی عمر میں آپ نے ” جواہر الکلام“ کی تالیف کا آغاز کیا اور ۱۲۵۷ء میں اِسے مکمل کیایعنی آپ نے بغیر کسی وقفے کے اِس کتاب کو ۴۰ سال میں تحریر کیا اور یہ عظیم توفیق حاصل کیآپ نے ۱۲۶۶ء میں ۷۴ سال کی عمر میں وفات پائیاِس کتاب کے علاوہ بھی آپ نے دوسری کتب تالیف کیں، جن میں نجاۃ العباد، ہدایۃالناسکین اور علم اصول پر ایک کتاب بھی شامل ہےبعض علما کے بقول اگر صاحب ِجواہر کے دور کا کوئی تاریخ نویس اُس دور کے حیرت انگیز واقعات قلمبند کرتا، تو اُسے کتاب جواہر الکلام کی تالیف سے زیادہ حیرت انگیز کوئی اور واقعہ نہ مل پاتا(جواہر الکلامطبع بیروتج۱ص۱۲، ۱۴، ۱۷ اور ۲۴ مقدمہ)

 

غور سے پڑھیےشیخ محمد حسن نجفی علیہ الرحمہ کا ایک بہت پیارا فرزند، جس کا نام حمید تھا، اُس کا انتقال آپ کی حیات ہی میں ہوگیا تھایہ بات پیش نظر رہے کہ شیخ کو اپنی معاشی ضروریات کی تکمیل اور زندگی کے امور میں بہتری کے لیے اِس بیٹے کی بہت زیادہ ضرورت تھیشیخ اپنے اِس فرزند کے جنازے پر آئے اور چند آیات ِقرآنی کی تلاوت کیابھی جنازے کو تدفین کے لیے تیار ہونے میں کچھ وقت تھایہ دیکھ کر شیخ وہیں بیٹھ گئے، اپنا بستہ کھول کر اس میں سے قلم وکاغذ نکالا اور کتاب جواہر الکلام (جسے اُس زمانے میں وہ تحریر کررہے تھے) لکھنے میں مصروف ہوگئے۔

وقت کی اہمیت اور اِس سے زیادہ سے زیادہ استفادے کے سلسلے میں شیخ کا یہی طرز عمل تھا جس کے ذریعے آپ نے فقہ وفقاہت کے میدان میں ایسی گرانقدر کتاب پیش کیامام خمینی نے اپنے ایک بیان میں اِس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے۔

 

۲:- مرجع اعظم حضرت آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی علیہ الرحمہ اپنی جوانی میں حوزہ علمیہ اصفہان میں تحصیل علم میں مشغول تھےکبھی کبھی آپ رات کے وقت مطالعے میں ایسے غرق ہوجاتے کہ صبح موذن کی اذان ہی آپ کو وقت گزرنے کا احساس دلاتییہ ترقی اور کمال کے لیے وقت سے استفادے کی ایک اور مثال تھی۔

 

۳:- ابو ریحان البیرونی (متوفی ۴۳۰ھ) کا شمار ممتاز علما میں ہوتا ہےیہ بو علی سینا کے ہم عصر تھے اور علمِ طب اور ریاضی وغیرہ میں اپنے زمانے کے چوٹی کے علما میں اِن کا شمار ہوتا تھاانہوں نے مختلف علوم کے حصول کے لیے اُس دور میں دور دراز علاقوں کے سفر کیے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کیں، کثیر علمی سرمایہ اکٹھا کیا اور علم کے اعلیٰ درجات تک پہنچےوقت کی قدر کے سلسلے میں کم ہی لوگ اُن کی مثل ہوں گےوہ اپنی عمر کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھتے تھے، دیکھا کرتے تھے

 

 کہ کہیں وہ فضول اور باطل امور میں برباد تو نہیں ہورہااِن کے حالات ِزندگی میں تحریر کیا گیا ہے کہ: ہمیشہ قلم ان کے ہاتھ میں رہتا تھا، مسلسل غور وفکر میں غرق رہتے تھے، عید ِنو روز اور عید ِ مہرگان (ایرانی سال کے مہینے مہرکے پہلے دن) کے سوا پورے سال کام اور تحقیق میں مصروف رہا کرتے تھے۔

تعجب انگیز قصہ ہے کہ جب وہ بسترِ مرگ پر تھے تو اُن کا ایک شاگرد احوال پرسی کے لیے اُن کے یہاں آیااِس موقع پر بھی انہوں نے ریاضی کے ایک مسئلے ” حساب جدّات“ کے بارے میں اس سے گفتگو کیاس شاگرد نے ان سے کہا کہ آپ اس حال میں بھی ریاضی کے مسائل پر گفتگو کررہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میری نظر میں اس مسئلے سے آگاہی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہونا، اس سے ناواقفیت کے ساتھ دنیا سے گزر جانے سے بہتر ہےشاگرد کہتا ہے کہ میں نے اس مسئلے کی وضاحت کی، اِس کے بعد ان سے رخصت چاہی، ابھی میں اپنے گھر بھی نہیں پہنچ پایا تھا کہ منادیوں نے خبر دی کہ ابو ریحان کا انتقال ہوگیا ہے(سفینتہ الیحاررج۱ص۵۳۸)

 

۴:- عظیم فلسفی ملّا ہادی سبزواری، جو تیرہویں صدی ہجری کے بڑے فلاسفہ اور حکما میں شمار کیے جاتے ہیں اور جو ایران اور اسلام کے لیے باعث ِافتخار لوگوں میں سے ہیں، انہوں نے اپنی جوانی میں حوزہ علمیہ اصفہان سے تعلیم حاصل کیآپ وقت کو اِس قدر اہمیت دیتے تھے کہ اپنے وطن سے آنے والے خطوط تک کو کھول کر نہیں پڑھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن میں سے کوئی ایسی ناگوار خبر ہو جو ان کے ذہن کو اپنی طرف مشغول کرلے اور اِس کی وجہ سے اُن کی پڑھائی کا نقصان ہوجائےتعلیم ختم کرنے کے بعد، جب انہوں نے وطن واپسی کا ارادہ کیا تو ان خطوط کو کھول کر پڑھااِن میں سے ایک خط میں اُن کے ایک قریبی رشتہ دار کی موت کی خبر تھییہ دیکھ کر علامہ سبزواری نے کہا کہ: خدا کا شکر ہے کہ جب مجھے یہ خط ملا تھا اُس وقت میں اِس ناگوار خبر سے مطلع نہ ہواکیونکہ یہ میری تعلیم کے لیے نقصان کا باعث ہوتا(تاریخ فلاسفہ اسلامج۲ص۱۵۳)

 

حضرت امام خمینی علیہ الرحمہ بھی اِن عظیم افراد میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں تنظیم اور نظم وضبط کے ذریعے وقت سے بہترین استفادہ کیا اور ہر قسم کی لغویات اور فضولیات سے پرہیز کے ذریعے عظیم دنیوی اور اُخروی فوائد حاصل کیےانہوں نے اپنے ایک کلام میں فرمایا ہے: ہمیشہ قلیل منظم گروہ نے کثیر غیر منظم گروہ پر غلبہ حاصل کیا ہے(صحیفہ نورج۱۴ص۱۷۸)

مقالے کی اختتامی سطور کو ہم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اِس پُر معنی کلام سے زینت بخشتے ہیں امام ؑنے اپنی ایک گفتگو کے دوران فرمایا: سخت ترین غم واندوہ، فرصت اور مواقع کا ہاتھ سے نکل جانا ہے(غرر الحکم ج۲ص۴۴۱)

 

قرآنِ کریم سے درست استفادہ

قرآنِ کریم خداوند ِعالم کے خاص اور ممتاز بندوں کی گیارہویں امتیازی خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِـرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا

اور جب ان لوگوں کو آیات ِالٰہی کی یاد دلائی جاتی ہے تو بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرپڑتے ہیںسورئہ فرقان۲۵آیت ۷۳

یہ خصوصیت، خدا کے ممتاز بندوں کی اہم ترین خصوصیت اور سب سے بڑی نشانی ہےوہ قرآنِ کریم سے، اس عظیم ترین آسمانی کتاب اور پیغمبر اسلام کے یگانہ دائمی معجزے سے گہرا اور مضبوط نظری اور عملی تعلق رکھتے ہیں اور اُن کا یہ تعلق اِس قدر موثر ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیمات اُن کے طرزِ عمل میں نمایاں نظر آتی ہیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے اِسی اور اِسی طرح کی دوسری آیات ِقرآنی کی بنیاد پر فرمایا ہے کہ: قرآن کے قاری تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اسے مادّی امور کے حصول کا وسیلہ اور بادشاہوں سے تعلقات کے قیام کا ذریعہ بناتے ہیں، اور اس کے ذریعے لوگوں کے سامنے اپنی بڑائی جتاتے اور خودنمائی کرتے ہیںدوسری قسم کے قاری وہ ہوتے ہیں جو تلاوت کے دوران حروف (اور تجوید) کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن اسکے حدود و قوانین کو قدموں تلے روندتے ہیںخداوند ِعالم ایسے لوگوں میں اضافہ نہ کرےتیسری قسم کے قاریانِ قرآن وہ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن کی دوا سے اپنے بیمار دل کا علاج کرتے ہیں (اور قرآن کو اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کا ذریعہ بناتے ہیں) اسکے ساتھ شب بیداری کرتے ہیں اور دن کو تشنگی (روزے کی حالت) میں بسر کرتے ہیں قوﷲ لهو لاء فی قُرّاء القرآنِ اعزُّ مِنَ الکبریتِ الاحمرِ (اور خدا کی قسم قرآن کے قاریوں کے درمیان اس قسم کے لوگ سرخ گندھک سے بھی زیادہ کمیاب ہیں اصولِ کافی ج۲ص۶۲۷)

 

جب ہم قرآنِ مجید سے تعلق کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں، تو (نادر مقامات کے سوا) مجموعی طور پر یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ قرآن کے مقابل ہماری دو ذمے داریاں ہیں ایک، قرآنی تعلیمات سے آگہی اور دوسرے، ان تعلیمات پر عمل۔

اس نکتے کی وضاحت میں عرض ہے کہ قرآنِ مجید میں لفظ ” قرآن“ اسی صورت میں ۶۵ مرتبہ استعمال ہوا ہے، جبکہ ” کتاب“ کے عنوان سے دسیوں مرتبہ اس کا ذکر ہوا ہےوہ آیات جن میں قرآن کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، انہیں دیکھیں تو اُن میں سے اکثر میں قرآن سے شناسائی، اسکی تعلیمات جاننے اور پھر قرآنی احکام پر عمل کی تاکید موجود ہےجیسے کے زیر بحث آیت (سورئہ فرقان کی آیت۷۳) میں انتباہی انداز میں اس نکتے کی جانب متوجہ کیا گیا ہے کہ قرآنِ مجید سے آپ کا تعلق اندھوں بہروں کا سا تعلق نہیں ہونا چاہیے بلکہ کھلی آنکھوں اور سنتے کانوں کے ساتھ قرآن پر توجہ دیں، اس سے اچھی طرح شناسائی حاصل کریں اور اپنی روح کو قرآنِ مجید کے صاف شفاف پانی سے پاک کریں۔

روایت میں آیا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد ابو بصیر نے امام سے مذکورہ آیت کی وضاحت چاہی تو امام ؑنے فرمایا: مستبصرینَ لَیْسُوا بِشَکّاکِ (بصیرت اور معرفت کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرو، اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہ کروروضۃ الکافی ص۱۷۸حدیث۱۹۹)

لہٰذا نظری اعتبار سے قرآن کو پہچاننا اور اسکے احکام وتعلیمات پر یقین رکھنا خدا کے ممتاز بندوں کی ایک خصوصیت ہے۔

قرآنِ مجید کی اور دوسری آیات میں بھی مذکورہ بالا دو ذمے داریوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےمزید وضاحت کے لیے چند آیات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

 

٭پہلی ذمہ داری (قرآن سے شناسائی) کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ:

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا

تو کیا یہ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے، یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں(سورئہ محمد۴۷آیت۲۴)

یہ آیت زور دے کر ہمیں قرآنی احکام وتعلیمات سے آگہی اور اُن میں غوروفکر کی دعوت دے رہی ہے۔

نیز ارشادِ الٰہی ہے:

وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ

اور ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے، تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟ (سورئہ قمر۵۴آیت۱۷)

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خداوند ِعالم نے قرآنِ مجید کو آسان اور رواں زبان میں نازل کیا ہےتاکہ سب لوگ اس سے شناسائی حاصل کرسکیں اور اس شناسائی کا مقصد نصیحت حاصل کرنا، متنبہ ہونا، سیکھنا اور عمل کرنا ہے۔

ارشادِ پروردگار ہے:

وَاِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ

اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے، تو خاموش ہوکر غور سے سنو، شاید اس طرح خدا کی رحمت تمہارے شاملِ حال ہوجائے۔

(سورئہ اعراف۷آیت۲۰۴)

یہ آیت بتاتی ہے کہ آیات ِقرآنی کی تلاوت کے موقع پر خاموشی اور ان کی جانب توجہ فہم قرآن کی کنجی ہےاور قرآن کے بارے میں بہترین ادب یہ ہے کہ جب اس کی تلاوت کی جائے تو مکمل یکسوئی کے ساتھ اسے سنا جائے اور اپنی روح کو قرآن کریم کی ظاہری اور باطنی خوشبو سے معطر کیا جائے۔

 

٭قرآن کریم کے حوالے سے دوسری ذمہ داری (اس پر عمل) کے بارے میں قرآن کی چند آیات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

قرآن فرماتا ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُه زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ

صاحبانِ ایمان درحقیقت وہ لوگ ہیں جن کے سامنے خدا کا ذکر کیا جائے تو ان کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا ہواور اس کی آیتوں کی تلاوت کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو۔ اور وہ لوگ صرف اﷲ ہی پر توکل کرتے ہیں۔

(سورئہ انفال۸آیت۲)

جی ہاں، مومنین کا دل قرآنِ مجید کے سامنے ایسے ہی خاشع اور خوفزدہ ہوتا ہےآیات ِ قرآنی سننے سے ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ خدا سے ان کے تعلق کی مضبوطی کا باعث بنتا ہے۔

ارشادِ الٰہی ہے:

يٰاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ

اے لوگو! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبانِ ایمان کے لیے رحمت، قرآن آچکا ہے۔

(سورئہ یونس۱۰آیت۵۷)

 

نیز فرمانِ الٰہی ہے:

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ

یہ کتاب ہے، جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو خدا کے حکم سے (شرک اور جہل) کی تاریکیوں سے نکال کر (ایمان اور علم وآگہی کے) نور کی طرف لے آئیں(سورئہ ابراہیم۱۴آیت۱)

 

قرآن مجید میں غوروفکر اور اس پر عمل حضرت علی ؑکی نظر میں

نہج البلاغہ میں بہت سی جگہوں پر قرآنِ مجید سے شناسائی اور اس کے احکام پر عمل اور ان کے اجراء ونفاذ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہےبطور مثال چند اقتباسات پیش خدمت ہیں:

امام ؑفرماتے ہیں:

وَتَعَلّمُوا القُرآنَ فانَّهُ أحسنُ الحدیث، و تَفَقّهوا فیهِ فانَّهُ رَبیعُ الْقُلوبِ وَاستشْفُوا بنورِهِ فانَّهُ شِفاءُ الصّدورِ

قرآن کی تعلیم حاصل کرو، کہ یہ بہترین کلام ہے۔ اور اس میں غوروفکر کرو، کہ یہ دلوں کی بہار ہے۔ اور اسکے نور سے شفا طلب کرو، کہ یہ دلوں کی شفا ہےنہج البلاغہ خطبہ۱۱۰

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

 

تالینَ الا جزاء القرآن یُرتلوا ترتیلاً یحزنونَ بِهِ أنفسهمْ، ویستشیرونَ بِهِ دواءَ دائهم، فَاذامَرّوابآیَةِ تَشویق رَکَنُوا الیْها طمَعاً و تَطَلّتْ نفوسُهُمْ الیها شَوْقاً وظنّوا أنّها نُصْبَ اعیُنِهمْ، واِذا مَرّوا بآیةٍ فیها تَخْویفٌ أصغَوْا الَیها مَسامِعَ قُلُوبِهمْ، وَظنُّواأنَّ زَفیرَ جَهَنَّمَ وشَهیقها فی أصُولِ آذا نِهِمْ

پرہیز گار وہ لوگ ہیں جو ٹھہر ٹھہرکر اور غور وفکر کے ہمراہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اسکے ساتھ اپنی روح کو محزون کرتے ہیں اور اس سے اپنے درد کی دوا حاصل کرتے ہیںجب بھی کسی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں شوق دلایا گیا ہو، تو اشتیاق کے ساتھ اس کا سامنا کرتے ہیں اور ان کی روح انتہائی شوق کے ساتھ خیرہ ہوجاتی ہے اور اسے ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتے ہیں اور جب کبھی ایسی آیت پر پہنچتے ہیں جس میں خوف دلایا گیا ہو، تو اسے سننے کے لیے اپنے دل کے کانوں کو کھول دیتے ہیں اور نالہ وفغاں کی آوازیں اور دوزخ کے لپکتے شعلے اپنی ہولناکی کے ساتھ ان کے کانوں میں گونجنے لگتے ہیںنہج البلاغہ خطبہ۱۹۳

یہ عبارتیں انتہائی واضح الفاظ میں ہمیں اپنی دو ذمہ داریوں (یعنی قرآنِ مجید سے شناسائی اور اس کے احکام پر عمل)کی دعوت دیتی ہیں اور یہ بیان کرتی ہیں کہ آیات ِقرآنی کو ہمیشہ مومنین کے دل پر اثر انداز ہونا چاہیے اور ان میں فکری اور عملی تبدیلیوں کا باعث بن کر ان کی ترقی اور ارتقا کا ذریعہ بننا چاہیےبصورت ِدیگر قرآن ہمارے لیے ایک غیر موثر کتاب ہو کر رہ جائے گی بلکہ بعض اوقات (خدا نہ کرے) ہمارے لیے نقصان کا باعث ہوجائے گیجیسا کہ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ: وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِـمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا (اور ظالمین کے لیے خسارے میں اضافے کے سوا کچھ اور نہیںسورئہ بنی اسرائیل۱۷آیت۸۲) بالکل اسی طرح جیسے بارش کے قطرات باغ کو تروتازہ کردیتے ہیں، جبکہ کیچڑ میں پڑ کر اسکی گندگی کو اور بڑھا دیتے ہیں۔

 

قرآنِ کریم سے ایسا ہی شخص استفادہ کرسکتا ہے جس نے تقویٰ اور پرہیز گاری کا پختہ عزم کر رکھا ہو اور جس کا وجود جہل، شرک، ظلم اور نفاق سے آلودہ نہ ہوکیونکہ یہ رذیلہ صفات اس بات کا باعث ہوجاتی ہیں کہ ان کا حامل شخص نہ صرف نورِ قرآن کی جانب مائل نہیں ہوتا، بلکہ چمگادڑ کی طرح اس نور سے لڑنے لگتا ہےمثلاً اگر ایک عالم مجاہد اور مبارز دانشور کو ایک قوت بخش غذا دی جائے تو وہ تعلیم وتربیت اور راہِ حق میں جہاد کی خاطر اس سے قوت حاصل کرے گالیکن اگر یہی مقوی غذا کسی ظالم وجابر کو دیں، تو وہ اس سے حاصل ہونے والی قوت کو مزید ظلم وستم کے لیے استعمال کرے گافرق غذا کا نہیں ہے بلکہ شخصیتوں اور طرزِ تفکر کا فرق ہے۔

نتیجہ یہ کہ قرآن اپنی تعلیمات قبول کرنے پر آمادہ وتیار لوگوں کے لیے نہ صرف ایک دائمی شفا بخش نسخہ ہے، بلکہ تمام انفرادی واجتماعی اور اخلاقی اور دوسرے امراض کے لیے ایک موثر دوا بھی ہےایک ایسی شفا بخش دوا ہے، جو تمام بیماریوں کا علاج کرکے، زیبائی، اعتدال اور سلامتی پیدا کرتی ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک روز قرآنِ کریم سے صحیح صحیح استفادہ کرنے والے اپنے شہید اصحاب عمار یاسر، ابن تیھان اور ذوالشھادتین وغیرہ کا ذکر اپنے بھائیوں کے عنوان سے کیا اسکے بعد ان کی جدائی کے غم میں اپنی ریش مبارک کو ہاتھ میں لے کر بہت دیر تک جاں سوز انداز میں گریہ کیا اور پھر فرمایا:

أوّهِ عَلیٰ اِخْوانِیَ الّذینَ تَلَوُا الْقُرآنَ فَاَحْکَمُوُهُ

ان بھائیوں کے دیدار پر حسرت وآہ کہ جنہوں نے قرآن کی تلاوت کی، اس (کی تعلیمات) پر کاربند ہوئے اور اس (کے احکام) پر اپنی زندگیوں کو استوار کیانہج البلاغہ خطبہ۱۸۲

 

امام ؑنے اس گفتگو میں اپنے ان اصحاب کی چھے خصوصیات کی جانب اشارہ کیا اور ان کی پہلی خصوصیت کے طور پر قرآنِ مجید سے ان کے گہرے فکری اور عملی تعلق کا ذکر کیالہٰذا امیر المومنین ؑکی نگاہ میں ممتاز اور بہترین مسلمان ایسا شخص ہے جس کا قرآن کے ساتھ عمدہ اور گہرا رابطہ ہو۔

 

قرآن کریم سے صحیح استفادے کی چند مثالیں

جب سے قرآن نازل ہوا ہے، اُس وقت سے اب تک ایسی ہزار ہا مثالیں ملیں گی جن میں لوگوں میں قرآن کریم کی گہری تاثیر کے تحت اور اس سے شعوری اور عملی استفادے کے ذریعے فکری اور عملی انقلاب پیدا ہونے، ان کے ایک نیا جنم لینے اور نورِ قرآن کے زیر سایہ ان کی اپنی روح سے ہر قسم کی تاریکیوں کو دور کرنے کا ذکر ہےیہاں ایسی ہی چند مثالیں آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں:

 

۱:- حضرت ابو ذر غفاریؓکہتے ہیں کہ ایک رات رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم عبادت کے لیے اٹھے اور آپ ؐنے وہ پوری رات یہ آیت دھراتے اور اس کے بارے میں غوروفکر کرتے بسر کی کہ: اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (اگر تو ان پر عذاب کرے گا، تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر معاف کردے گا، تو تو صاحب ِعزت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھیسورئہ مائدہ۵آیت۱۱۸) (یعنی نہ تیرا عذاب دینا بے حکمتی کی علامت ہے اور نہ تیرا بخش دینا تیرے ضعف کی نشاندہی)۔ آنحضرتؐ اس رات صبح ہونے تک مسلسل یہی آیت دھراتے رہے(المحجۃ البیضاءج۲ص۲۳۷)

 

۲:- امِ عقیل ایک بادیہ نشین مسلمان خاتون تھیں، جو قرآنِ کریم سے انتہائی بہترین تعلق رکھتی تھیںایک دن وہ اپنے گھر میں کھانا پکانے اور دوسرے گھریلو کاموں میں مشغول تھیں کہ انہیں مطلع کیا گیا کہ ان کا ایک بیٹا گھر کے باہر اونٹ سے گر کر مرگیا ہےاس دن ان کے یہاں دو مہمان آئے ہوئے تھےامِ عقیل نے یہ سوچ کر کہ کہیں مہمانوں کو تکلیف نہ ہو، انہیں اس خبر سے مطلع نہیں کیا، ان کی خاطر مدارت میں لگی رہیں اور انہیں کھانا پکا کے دیاجب کھانے کے بعد ان مہمانوں کو یہ بات پتا چلی تو وہ ام عقیل کی عالی ہمتی پر متعجب ہوئےمہمانوں کے جانے کے بعد کچھ لوگ تسلیت کے لیے امِ عقیل کے پاس آئے، تو امِ عقیل نے اُن سے کہا: کیا تم میں سے کوئی شخص آیات قرآنی کے ذریعے مجھے تسلیت کرسکتا ہے، اور میرے دل کو قرار دے سکتا ہے؟ یہ سن کر حاضرین میں سے ایک نے ان آیات ِقرآنی کی تلاوت فرمائی:

وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ قَالُوْا اِنَّا لِلهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ اُولٰىِٕكَ عَلَيْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ

وَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ

اور اُن صبر کرنے والوں کو بشارت دے دیں جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم اﷲ ہی کے لیے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں، کہ ان کے لیے پروردگار کی طرف سے صلوات اور رحمت ہے، اور وہی ہدایت یافتہ ہیںسورئہ بقرہ۲آیت۱۵۵ تا ۱۵۷

یہ آیات سننے کے بعد امِ عقیل کے دل کو قرار آگیا، اُن کا اضطراب سکون واطمینان میں بدل گیا، وہ یکلخت اٹھیں، وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور نماز کے بعد اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور انتہائی عاجزی اور خاص تسلیم کے ساتھ عرض کیا کہ: بارِ الٰہا! مجھ تک تیرا فرمان پہنچا، میں نے اسے قبول کیا، اب میں صبر کررہی ہوں، تو بھی مجھے وہ جزا عنایت فرما جس کا تو نے صابروں سے وعدہ کیا ہے(سفینۃ البحارج۲ص۷لفظ صبر کے ذیل میں)

 

جی ہاں! یہ ہوتی ہے قرآنِ مجید سے اُنسیت اور یہ ہے اس کی تعلیمات پر عمل، جس کے ذریعے انسان کی شخصیت میں تغیر اور اسکی فکر میں انقلاب پیدا ہوتا ہے اور جو انسان کو ناگوار حوادث کے سامنے صابر اور ثابت قدم رکھتی ہیں۔

 

۳:- ایک دن پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان آیات کی تلاوت فرما رہے تھے:

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَآ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَيْتَه وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍرَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلْاِيْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِرَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰي رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ

بے شک زمین اور آسمانوں کی خلقت، لیل ونہار کی آمدورفت میں صاحبانِ عقل کے لئے قدرتِ خدا کی نشانیاں ہیںجو لوگ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق میں غوروفکر کرتے ہیں، کہ خدایا! یہ سب تو نے بیکار نہیں پیدا کیا ہے، تو پاک وبے نیاز ہے، ہمیں عذاب ِجہنم سے محفوظ فرماپروردگار، تو جسے جہنم میں ڈال دے گا، گویا اسے ذلیل ورسوا کردیا اور ظالمین کا کوئی مددگار نہیں ہےپروردگار، ہم نے اس منادی کو سنا جو ایمان کی آواز لگا رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لے آؤ، تو ہم ایمان لے آئےپروردگار، اب ہمارے گناہوں کو معاف فرما اور ہماری برائیوں کی پردہ پوشی فرما، اور ہمیں نیک بندوں کے ساتھ محشور فرماپروردگار، جو تو نے اپنے رسولوں سے وعدہ کیا ہے اسے عطا فرما، اور روزِ قیامت ہمیں رسوا نہ کرنا کہ تو وعدے کے خلاف نہیں کرتاسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۹۰ تا ۱۹۴

 

اس کے بعد آپؐ نے فرمایا: ویْلٌ لِمَنْ کَهٰا بَیْنَ فکّیهِ ولَمْ یَتَامَّلْ فیها (وائے ہو اس پر جو ان آیات کو اپنے دہان میں گردش دے اور پھرائے لیکن ان پر غوروفکر نہ کرےمجمع البیانج۲ص۵۵۴)

 

۴:- اسلام کے عظیم مفسر، شہید راہِ خدا سعید بن جُبیر ایک رات، ابتدائے شب سے صبح دم تک اسی ایک آیت کی تلاوت فرماتے، اس پر غوروفکر کرتے اور گریہ کرتے رہےیہ آیت جس میں قیامت کے دن ندائے الٰہی کا ذکر ہے: وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ (اور اے مجرمو! آج تم ذرا ان سے الگ تو ہوجاؤسورئہ یٰسین۳۶آیت۵۹)

 

۵:- فضیل بن عیاض کا تعلق دوسری صدی ہجری سے ہےاُن کا شمار اوّل درجے کے چوروں اور ڈاکوؤں میں ہوتا تھاایک رات وہ اپنا خنجر لیے بُرے ارادے سے ایک گھر کی جانب روانہ ہوئےگھر کی دیوار پھاند کر اس کے احاطے میں داخل ہوگئےاسی اثناء میں اُنہیں اس گھر کے پڑوس سے تلاوتِ قرآن کی دل نشین آواز سنائی دیتلاوت کرنے والا اُس وقت اِس آیت کی تلاوت کررہا تھا: اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ(کیا صاحبانِ ایمان کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ اُن کے دل ذکرِ خدا اور اُسکی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لیے نرم ہوجائیںسورئہ حدید۵۷آیت۱۶)

فضیل پر یہ آیت اس قدر اثر انداز ہوئی کہ اُن میں ایک عظیم انقلاب رونما ہوگیا، اُن کی روح میں ایک ہلچل مچ گئی، یہاں تک کہ وہ یکسر بدل گئےاسی لمحے انہوں نے خلوصِ دل کے ساتھ توبہ کی اور ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرکے روتے ہوئے عرض کیا: یاربّ قدآنَ (پروردگار! ہاں، تیرے سامنے خضوع وتسلیم کا وقت آن پہنچا ہے)

 

وہ اسی وقت اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئےانہوں نے راستے میں ایک قافلے کے بعض افراد کو دیکھا جو آپس میں کہہ رہے تھے کہ: ہمیں جلد از جلد صبح ہونے سے پہلے اس جگہ سے گزر جانا جانا چاہیے تاکہ فضیل کے راہزن ہمیں لوٹ نہ سکیںفضیل نے ان لوگوں سے اپنا تعارف کرایا اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ اب امان میں ہیں۔

جی ہاں، فضیل نے قرآن کا ایسا احترام کیا!! قرآن کی صدا کو گوشِ جاں سے سنا اور اسے اپنے دل میں اتار کر پارسا، پرہیز گار اور خدا کے ممتاز بندوں میں شامل ہوگئےاس کے بعد وہ مکہ آئے اور خانہ خدا کے جوار میں سکونت اختیار کرلی اور اس جگہ سے سیروسلوک اور لوگوں کی تربیت کا کام جاری رکھا، یہاں تک کہ ۱۸۷ ہجری میں عاشور کے دن دنیا سے رخصت ہوئے(سفینۃ الیحارج۲ص۳۶۹وفیات الاعیانج۲ص۳۱۵)

یہ تھے عباد الرحمن کے چند نمونے جنہوں نے حقیقی معنوں میں قرآن کو پہچانا اور اسکے احکام پر عمل کیا اور اپنے قلب اور روح کو آیات ِقرآنی سے جلا بخشیان لوگوں کے برعکس، دل کے ایسے اندھے بھی ہیں جو آیاتِ قرآنی کو پڑھتے ہیں لیکن اِن سے نور کی بجائے اپنے قلب کی سیاہی میں اضافہ کرتے ہیںجیسے نہروان کے خوارج۔

ایک مرتبہ کمیل ابن زیاد، آدھی رات کے وقت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ کوفہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھےاچانک انہوں نے ایک آواز سنی جو قرآنِ کریم کی (سورئہ زمر کی آیت۹ کی) تلاوت کررہی تھیکمیل جو تلاوت کرنے والےاس شخص سے واقف نہ تھے، اُس کی پرحزیں آواز کے اثرمیں آگئے اور بے ساختہ ان کے لبوں سے نکلا کہ اے کاش! میں اس شخص کے بدن کا ایک بال ہوتا اور ہمیشہ اس سے قرآن کی تلاوت سنا کرتاحضرت علی ؑنے کمیل کی یہ بات نہیں سنی تھی لیکن آپ یہ جان گئے تھے کہ وہ اس آواز کے فریب میں آگئے ہیںلہٰذا آپ نے اُن سے فرمایا: قرآن کے اس قاری کی پر درد آواز پر حیرت زدہ نہ ہو، تعجب نہ کرو، کیونکہ یہ شخص اہلِ جہنم میں سے ہےکچھ عرصے بعد میں اپنی اس بات کا سبب تمہیں بتاؤں گا۔

 

تھوڑے عرصے بعد جنگ ِنہروان واقع ہوئیوہی قاری جس کی قرات نے کمیل کو متاثر کردیا تھا حضرت علی ؑکے خلاف میدان میں اترا، اور اس جنگ میں مارا گیاکمیل حضرت علی ؑکی رکاب میں لڑرہے تھےامام ؑکمیل کو اس خارجی کے لاشے کے پاس لائے، اپنی تلوار کی نوک اس کے سر پر رکھی اور فرمایا: اے کمیل! جو شخص اس دن اس قدر سوزوگداز کے ساتھ آیاتِ قرآن پڑھ رہا تھا، وہ یہی شخص تھا۔

کمیل کو ایک جھٹکا سا لگا، اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور بے قرار ہوکر اپنے آپ کو حضرت علی ؑکے قدموں پر گرالیا اور انہیں چومنے لگے اور خدا سے مغفرت طلب کی(سفینۃ الیحارج۲ص۴۹۷)

ایسے افراد (خوارج) وہ اندھے اور بہرے ہیں جو بند آنکھوں اور کانوں کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتے ہیںجبکہ اُن کے برعکس عباد الرحمٰن آگہی، شعور اور اپنے دل کی آنکھوں اور کانوں کے ذریعے انوارِ قرآن سے اپنے دل کو منور کرتے ہیں۔

آئیے حقیقتاً قرآن سے آشنائی حاصل کریں، تاکہ اسے دنیا میں اپنا معلم اور آخرت میں اپنا شفیع قرار دیں اور اس عمل کے ذریعے عباد الرحمٰن (خدا کے ممتاز بندوں) کی صف میں کھڑے ہوںتاکہ جن لوگوں کے خلاف روزِ قیامت رسول اﷲ ؐشکایت کریں گے، ان میں ہمارا شمار نہ ہوآپ روزِ قیامت عرض کریں گے کہ: يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا هٰذَا الْقُرْاٰنَ مَهْجُوْرًا (اے پروردگار! میری قوم اس قرآن کو چھوڑ بیٹھی تھیسورئہ فرقان۲۵آیت۳۰)

 

گفتگو کے آخری حصے کو، اس بارے میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ایک دل نشیں کلام سے زینت بخشتے ہیں، جس میں آپ ؑنے فرمایا: تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول ہے اور ایسا کلام کرنے والا ہے (جس کی ہر بات) تصدیق شدہ ہےقیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کرے گا وہ اسکے حق میں مانی جائے گی اور اس روز جس کے عیب بتائے گا اس کے بارے میں بھی اسکے قول کی تصدیق کی جائے گیقیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا کہ دیکھو! قرآن کی کھیتی بونے والوں کے علاوہ ہر کاشتکار اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجے میں مبتلا ہےفکونُوا مِنْ حَرَثتهِ واتباعِهِ، واستدِلّوهُ عَلٰی ربّکُمْ واستنصحوهُ عَلی انفسِکُمْ، واتّهِمُواعَلیهِ آرائکُمْ، و سْتَغِشّوا فیهِ أهْوائکُمْ (لہٰذا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اور اسکے پیروکار بنو، اپنے پروردگار تک پہنچنے کے لیے اسے دلیل راہ بناؤ اور اپنے نفسوں کے لیے اس سےپندونصیحت چاہو اور (جب کبھی تمہاری رائے قرآن کے خلاف ہو تو) خود کو الزام دو اور اس کے مقابلے میں اپنی خواہشوں کو غلط اور فریب خوردہ سمجھونہج البلاغہ خطبہ۱۷۴)

 

دعا اور اُس کے مضامین پر توجہ

قرآنِ کریم، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی بارہویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا

اور وہ لوگ برابر دعا کرتے رہتے ہیں کہ خدایا ہمیں، ہماری ازواج اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں صاحبانِ تقویٰ کا پیشوا بنا دےسورئہ فرقان۲۵۔ آیت۷۴

 

خدائے رحمان کے خاص بندوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی دعا میں خداوند ِعالم سے عرض کرتے ہیں کہ: بارِ الٰہا! ہمارے بیوی بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے اور ہمیں متقین کا پیشوا قرار دے۔

یہ خصوصیت اس بات کا اظہار ہے کہ خدا کے یہ ممتاز بندے دعا ومناجات سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیںلیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی خاص توجہ دیتے ہیں کہ دعا کے ذریعے کیا طلب کرنا چاہیےخدا سے ایسی چیزوں کا سوال کرتے ہیں جو انتہائی اہم اور موثر ہوتی ہیںجیسے نیک بیوی کی خواہش، نیک اولاد کی خواہش اور اس سے بھی بڑھ کر خدا سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں ایسے مقام پر پہنچا دے کہ معاشرے کے پیشوا اور اسکے لیے ماڈل بن جائیں۔

لہٰذا ہمیں یہاں دو موضوعات پر گفتگو کی ضرورت ہے:

۱دعا کی اہمیت۔

۲دعا کیا ہونی چاہیے۔

 

اسلام میں دعا کی اہمیت

قرآنِ کریم کی متعدد آیات سے دعا کی غیر معمولی اہمیت کا اظہار ہوتا ہےیہاں تک کہ ان آیات میں دعا کو اہم ترین عبادت شمار کیاگیا ہے اور اس سے بے توجہی کو استکبار (گھمنڈ) اور عذابِ جہنم کا موجب قرار دیا گیا ہے۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ

اور تمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا اور یقیناً جو لوگ میری عبادت سے اکڑتے ہیں، وہ عنقریب ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گےسورئہ غافر۴۰آیت۶۰

 

نیز خداوند ِعالم کا ارشاد ہے:

قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں، تو پروردگار تمہاری پرواہ بھی نہ کرتاسورئہ فرقان۲۵آیت۷۷

قرآنِ کریم میں مختلف شکلوں میں ۲۵ مرتبہ دعا کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے اور سو سے زیادہ مرتبہ انبیا وغیرہ کی دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے جو رب اور ربنا جیسے کلمات سے شروع ہوتی ہیں اور یہ چیز قرآنِ کریم کی نظر میں دعا کی امتیازی اہمیت کی علامت ہے۔

انبیا اور معصومین کے کلمات میں بھی بہت کم چیزوں پر اتنی توجہ دی گئی ہے جتنی توجہ دعا کے موضوع پر دی گئی ہےیہ ہستیاں ہمیشہ، مختلف اوقات میں دعاؤں، مناجات اور خدا سے راز ونیاز میں مشغول رہا کرتی تھیںاس حوالے سے چند مثالوں کی جانب آپ کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الدُّعاء سِلاحُ المؤمِن وعَمُو دُالدّینِ ونُورُ السّماواتِ اوالارض

دعا مومن کا اسلحہ، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

آنحضرتؐ ہی کا ارشاد ہے:

الدُّعاءُ مُخُّ العبادَةِ ولا یَهْلِکُ مَعَ الدُّعاء احَدٌ

دعا عبادت کا مغز ہےکوئی دعا کرنے والا ہلاکت کا شکار نہیں ہوتابحار الانوارج۹۳ص۳۰۰

امام جعفر صادق علیہ السلام نے نقل کیا ہے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

احبُّ الاعمالِ اِلی ﷲ عزّو جلّ فی الارضِ الدُّعاءُ

اﷲ رب العزت کی نگاہ میں زمین پر سب سے پسندیدہ عمل دعا ہے

 

اس کے بعد آپؑ نے فرمایا:

وَکانَ امیرُ المؤمنینَ رجلاً دَعّاءٌ

اور امیر المومنین بہت زیادہ دعا کرنے والے شخص تھےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۷، ۴۶۸

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کا قول ہے:

الدُّعاءُ مفاتیحُ النّجاحِ ومقالیدُ الفَلاحِ

دعا کامیابی کی کنجیاں اور فلاح کے خزانے ہیں

الدُّعاءُ تُرْسُ المؤمِنِ

دعا مومن کی سپر ہےاصولِ کافی ج۲ص۴۶۸

اَعْجَزُ الناسِ مَنْ عَجَزَ عَنِ الدُّعا

جو شخص دعا کرنے سے عاجز ہو، وہ عاجز ترین انسان ہےبحار الانوارج۷۸ص۹

 

دعا کی روشنی میں تین اہم سبق

دعا ومناجات مثبت وتعمیری اثرات (بالخصوص قلب کی پاکیزگی اور تہذیب ِنفس) کی حامل ہوتی ہے اور اس سے بکثرت سبق حاصل کیے جاسکتے ہیں ان اسباق میں دعا کے تین اہم درس، بالفاظ دیگر دعا کے تین پہلو بھی شامل ہیںدعا کے فیوضات حاصل کرنے کے لیے، ان اسباق اور ان پہلوؤں کی جانب متوجہ رہنے کی ضرورت ہے۔

 

۱:- دعا، بلاؤں کے دور ہونے اور حاجتوں کے پورا ہونے کے سلسلے میں موثر کردار کی حامل ہےاسی بنیاد پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:

ادفَعوا امواجَ البَلاء عَنْکُم بالدّعاء قَبْلَ ورودِالبَلاء

بلاؤں کی امواج کو ان کے آنے سے پہلے دعا کے ذریعے اپنے سے دور کروبحار الانوارج۹۳ص۲۸۹

 

۲:- دعا کرتے ہوئے بندہ خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑاتا، سر جھکاتا اور اس کے ساتھ راز ونیاز کرتا ہے اور یہ کیفیات انسان کے غرور کو توڑتی ہیں اور دل کو معنوی امور کی قبولیت کے لیے آمادہ کرتی ہیں اس کے نتیجے میں انسان اطمینانِ نفس، قوتِ قلب اور بلند جذبات واحساسات کا حامل ہوجاتا ہےاس بارے میں قرآنِ مجید فرماتا ہے کہ:

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً

تم اپنے رب کو گڑ گڑا کر اور خاموشی کے ساتھ پکاروسورئہ اعراف۷آیت۵۵

 

۳:- دعا کے مشمولات ومضمون اور دعا میں موجود بلند پایہ معارف پر توجہمثال کے طور پر صحیفہ ٔ سجادیہ کی پہلی دعا اور نہج البلاغہ کا پہلا خطبہ بلند پایہ معارف اور علمی نکات کے اعتبار سے یکساں ہیں ان معارف پر توجہ، انسان کی معلومات کی سطح اور معرفت میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلام کی عالی تعلیمات ومفاہیم سے بہتر آشنائی کا ذریعہ ہیں ان اعلیٰ مفاہیم اور تعلیمات میں سرِ فہرست توحیدوخدا شناسی ہے، جو استجابت ِ دعا کے سلسلے میں اہم کردار کی حامل ہےجیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ ایک گروہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا: ہم دعا کرتے ہیں لیکن قبول نہیں ہوتی، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ امام ؑنے انہیں جواب دیا:

 

لانّکم تدعُونَ مَنْ لا تَعرِفُونَه

اس لیے کہ تم اسے پکارتے ہو، جسے پہچانتے نہیںبحار الانوارج۹۳ص۳۶۸ (یعنی بغیر معرفت ِالٰہی کے دعا کرتے ہومترجم)

مجموعی طور پر دعا ایک ایسی عبادت ہے جسے روح کی پاکیزگی اور اسکی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ کردار کا حامل ہونا چاہئےاس کرادر کے حصول کے لیے واجب، مستحب اور کمالِ دعا کی شرائط کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

دعا کی قبولیت بعض شرائط سے وابستہ ہے اور ان شرائط کے حصول کا تہذیب ِنفس اور تکاملِ انسان سے قریبی تعلق ہے، اور کہا جاسکتا ہے کہ جس قدر انسان میں دعا کا مثبت اثر ظاہر ہوگا اسی قدر دعا درجہ قبولیت پائے گیاس نکتے کی وضاحت کے لیے آپ کی توجہ درجِ ذیل فرامینِ معصومین ؑکی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں:

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ایسا شخص، جو چاہتا ہے کہ اسکی دعا قبول ہو، اسے چاہیے کہ اپنی خوراک اور ذریعہ آمدنی کو پاک کرے۔

نیز آپؐ ہی نے فرمایا ہے:

تمہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے، وگرنہ خداوند ِ عالم تمہارے نیک لوگوں پر برے لوگوں کو مسلط کردے گا اور تم کتنی ہی دعا مانگو لیکن وہ قبول نہیں ہوگی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۸، ۴۴۹)

دعائے کمیل میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

اللهمَّ اغْفِرْلِیَ الذَنوبَ الَتی تَحْبِسُ الدّعاء

بار الٰہا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں

 

ایک شخص نے امیر المومنین ؑسے سوال کیا: ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ امام ؑنے اسے جواب دیا: تم نے خدا کو پہچانا ہے، لیکن اس کا حق ادا نہیں کیارسول پر ایمان لائے ہو، لیکن اُن کے فرامین واحکام کی پیروی نہیں کیآیات ِالٰہی کی تلاوت کی ہے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کیازبان سے کہا ہے کہ آتشِ جہنم سے ڈرتے ہو، لیکن تمہارا کردار آتشِ جہنم میں داخلے کا موجب ہوتا ہےزبان سے کہتے ہو کہ تمہیں جنت پسند ہے، لیکن اپنے عمل سے جنت سے دور ہو گئے ہوخدا کی نعمتوں سے استفادہ کیا ہے، لیکن ان کا شکر ادا نہیں کیاخدا فرماتا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو، تم نے اپنی زبان سے تو اس سے دشمنی کا اظہار کیا ہے، لیکن عمل سے اس سے دوستی کی ہےتم نے دوسرے لوگوں کے عیب تو دیکھے ہیں، لیکن اپنے عیبوں کو نظر انداز کیا ہےاگر تمہاری نیت خالص ہو اور تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرو، تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۹)

ایسی بکثرت روایات موجود ہیں، جن میں دعا کی قبولیت کے لیے اس کی شرائط فراہم کرنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہےلہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں بے سوچے سمجھے اور صرف بظاہر دعا کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیےبلکہ دعا کے مضمون ومشمولات اور شرائط پر بھی توجہ دینی چاہیے، تاکہ اس عمل سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا جاسکے۔

 

دعا کے مضمون پر توجہ اور بے موقع یا کم فائدہ دعاؤں سے اجتناب

زیر بحث آیت (سورئہ فرقان کی آیت۷۴) میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے ممتاز اور خاص بندے وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے ہیں اور دعا کے ذریعے خدا کے سامنے اپنی ان تین خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۱اچھی بیوی۲: صالح اولاد۳: لوگوں کے پیشوا، رہنما اور ان کے لیے نمونہ عمل کامقام۔

 

یعنی یہ لوگ اس بات سے باخبر ہیں کہ انہیں دعا کے ذریعے اپنے رب سے کیا مانگنا چاہیے، لہٰذا خدا سے اہم چیزیں طلب کرتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہیں۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ بارِ الٰہا! ہماری بیوی اور بچوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنادےآنکھوں کی ٹھنڈک یا نورِ چشم کی اصطلاح کمال وسعادت کا رمز ہےکیونکہ اچھی بیوی اور صالح اولاد انسان کے اطمینان اور اسکی سعادت کا موجب ہوتے ہیں اور انسان کی روح کو فرحت بخشتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اسے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ان کا نور حاصل ہوتا ہےواضح الفاظ میں عرض ہے کہ صالح اولاد اور اچھی بیوی، انسان کی زندگی کو نورانیت اور پاکیزگی دیتے ہیں اور دنیا وآخرت میں اس کی عزت وآبرو، سرخروئی اور سربلندی کا باعث بنتے ہیں اس قسم کی دعائیں سودمند اور مفید آثار کی حامل ہیں، برخلاف اُن بیہودہ اور کم فائدہ دعاؤں کے جن کی کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی۔

انسان کو تمام ہی امور میں، حتیٰ اپنی دعاؤں میں بھی بلند عزائم اور بلند تمناؤں کا مالک ہونا چاہیے اور دعا کی نورانیت کے سائے میں بلند مقامات تک رسائی حاصل کرنا چاہیےیہاں تک کہ اس کی دعا ہو کہ وہ لوگوں کا پیشوا، رہبر اور ان کے لئے نمونہ عمل بنے۔

دعاؤں کو صرف مادّی امور تک محدود نہیں رکھنا چاہیے، نہ ہی بارگاہِ الٰہی میں حقیر چیزوں کی درخواست کرنی چاہیےاسی بنا پر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: چار قسم کے لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں

 

(۱) ایسے شخص کی دعا جو اپنے گھر میں بیٹھا یہ دعا مانگتا ہے کہ بارِ الٰہا! مجھے روزی عنایت فرمااس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے کوشش اور جدوجہد کا حکم نہیں دیا تھا؟

 

(۲) ایسے شخص کی دعا جس کی (بری اور مسلسل تکلیف پہنچانے والی) بیوی ہو، اور وہ اس سے نجات کی دعا کرتا ہواس سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے طلاق کا حق نہیں دیا تھا

 

(۳) ایسا شخص جس کے پاس کوئی مال ہو اور اسے اس نے بغیر کسی کو گواہ بنائے کسی دوسرے کو قرض دے دیا ہو (اور قرض لینے والا مکر گیا ہو اور قرض دینے والا یہ دعا کرتا ہو کہ خدایا اسکے دل میں نیکی ڈال تاکہ وہ میرا قرض ادا کردے) ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ کیا میں نے تجھے حکم نہیں دیا تھا کہ قرض دیتے وقت گواہ رکھنا(اصولِ کافی ج۲ص۵۱۱)

جب ہم انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی کی دعاؤں کا جائزہ لیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ دعا کے دوران اکثر ان کی خواہشات کا محور بلند پایہ معنوی، اجتماعی اور سیاسی امور ہوتے ہیںمثلاً حضرت ابراہیم ؑکی دعا یہ تھی کہ:

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

پروردگار! مجھے اور میری ذریت میں نماز قائم کرنے والے قرار دے اور پروردگار میری دعا کو قبول کرلےسورئہ ابراہیم۱۴آیت۴۰

ائمہ معصومینؑ جوراسخون فی العلم ہیں، یوں دعا کیا کرتے تھے:

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ

پروردگار! جب تو نے ہمیں ہدایت دے دی ہے، تو اب ہمارے دلوں میں کجی (گمراہی) پیدا نہ ہونے پائے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما کہ تو بہترین عطا کرنے والا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۸

 

اصحاب کہف کی دعا یہ تھی کہ:

رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا

پروردگار! ہم کو اپنی طرف سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لیے ہدایت اور نجات کی راہ فراہم فرماسورئہ کہف۱۸آیت۱۰

صحیفہ ٔسجادیہ اور مفاتیح الجنان میں نقل ہونے والی ائمہ کی دعاؤں پر توجہ ہمیں دعا کرنے کے انداز سے آشنا کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ ہم کس طرح اپنے رب سے دعا مانگیں۔

مثلاً امام حسین علیہ السلام اپنی دعائے عرفہ کے ایک حصے میں خدا سے یوں عرض کرتے ہیں کہ:

اللهمّ اجعَلنی اَخشاکَ کانّی اراک، واَسْعِدْنی بِتَقواک، ولاٰ تُشْقِنی مِنْ مَعْصِیَتِکَ

بارِ الٰہا! مجھے اپنی درگاہ میں ایسے خوف وخشیت کے ساتھ کھڑا کردے، گویا میں تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوںاور تقویٰ کے سائے میں مجھے سعادت مند فرما، اور گناہ کی بنا پر سیاہ بخت نہ بنا دینامفاتیح الجناندعائے عرفہ

اس نکتے اور مفہوم کی وضاحت کے لیے ایک دلچسپ داستان نقل کرتے ہیں:

بیان کیا گیا ہے خداوند ِعالم نے بنی اسرائیل کے انبیا میں سے ایک نبی پر وحی کی کہ فلاں عابد سے کہیں کہ اس کی تین دعائیں ہماری بارگاہ میں قبول کی جائیں گینبی نے خدا کی یہ وحی اس عابد تک پہنچا دیاس عابد نے معاملہ اپنی بیوی کے سامنے رکھا(۱)اس کی بیوی نے اس پر زور دیا کہ ان تین میں سے ایک دعا میرے لیے طلب کرےعابد نے اس کی یہ تجویز مان لیاس کی بیوی نے اس سے کہا کہ میرے لیے دعا مانگو کہ خدا مجھے اپنے زمانے کی حسین ترین عورتوں میں سے بنادےعابد نے یہ دعا مانگی اور اس کی بیوی دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے ہوگئی۔

--------------

۱:- کتاب سیاستنامہ کے صفحہ ۳۲۳ پر اس شوہر کا نام یوسف اور اس کی بیوی کا نام کُرٰسُف بیان ہوا ہے۔

 

اس کی خوبصورتی کا چرچا ہوا تو بادشاہ وقت اور خواہشات ِنفسانی کے غلام امیر زادے اس کی زلف کے اسیر ہوگئے اور اسے پیغام بھیجنے لگے کہ اپنے مفلوک الحال، بوڑھے اور زاہد شوہر کو چھوڑ کر ہمارے پاس آجاؤ تاکہ دنیا کی ہر لذت سے لطف اندوز ہوسکووہ عورت ان کے فریب میں آگئی اور اپنے شوہر سے بدسلوکی کرنے لگیاس طرح ان میاں بیوی کے باہمی تعلقات خراب ہو گئےآخر کار اس عابد شخص نے اپنی بیوی سے ناراض ہوکر اپنی دوسری دعا مانگی اور وہ یہ تھی کہ: بارِالٰہا! میری بیوی کو کتا بنا دے۔

 

عابد کی دعا پوری ہوئی اور وہ عورت کتا بن گئی۔

اس عورت کے بھائی اور دوسرے رشتے دار عابد کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگوں میں ہماری رسوائی ہورہی ہے، ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ اپنی تیسری دعا طلب کیجئے تاکہ آپ کی بیوی اپنی پہلی والی صورت میں واپس آجائےان لوگوں کے شدید اصرار پر عابد نے اپنی تیسری دعا بھی طلب کی اور عرض کیا کہ: بارِ الٰہا! میری بیوی کو اس کی پہلی حالت پر واپس پلٹا دےعابد کی دعا قبول ہوئی اور اس کی بیوی اپنی پہلی صورت پر واپس آگئی۔

اس طرح عابد کی تینوں مقبول دعائیں رائیگاں گئیں(بحارالانوارج۱۴ص ۴۸۵) اگر وہ عابد سمجھ بوجھ رکھنے والا ہوتا تو اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا تھا اور اپنی دنیا اور آخرت کی کامیابی وسعادت حاصل کرسکتا تھا۔

 

دعا میں تین خوبصورت خواہشیں

ایک مرتبہ پھر زیر بحث آیت کی تفسیر کی جانب آتے ہیں اس آیت میں کہا گیا ہے کہ خداکے ممتاز بندے اپنی دعا میں خدا سےعرض کرتے ہیں کہ: ہمیں اچھی بیوی اور صالح اولاد عنایت فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا اور قائد بنا۔

یہ تین تمنائیں، ایک کامیاب اور سعادت مند زندگی کی بہترین خواہشات ہیں ان تین تمناؤں کی اہمیت جانے کے لیے، ان کی مختصر وضاحت کرتے ہیں۔

 

اچھی بیوی اور اس کے اثرات

اچھی بیوی، اپنے شوہر کے لیے بہترین معاون ومددگار ہوتی ہےزندگی کی خوبصورتی ودوام اور اسکی کامیابی وشادابی کا موجب ہوتی ہے اور گھرانے کی عمدہ نگہداشت اور اسکی تعمیر میں انتہائی موثر کردار ادا کرتی ہےلہٰذا ان خصوصیات کی حامل بیوی کے چناؤ اور اس کی تربیت کے لیے گہری توجہ ضروری ہے۔

بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی شریک ِحیات کے انتخاب کے سلسلے میں رسولِ مقبول سے مشورہ کیاآنحضرتؐ نے اس سے فرمایا:

انکِحْ وعلیکَ بِذاتِ الدّینَ

شادی کرو لیکن تمہیں چاہیے کہ دیندار عورت سے شادی کروفروعِ کافی ج۵ص۳۳۲)

 

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابراہیم کرخی سے فرمایا:

ایسی لڑکی سے شادی کرو جس کا گھرانہ اصیل اور نیک ہو، جو اچھے اخلاق کی حامل ہو، جس میں صاحب ِاولاد ہونے کی صلاحیت پائی جاتی ہو، جو دنیا اور آخرت کے امور میں اپنے شوہر کی مددگار ہو(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۳)

اس بارے میں پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

میری امت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جن کا مہر کم ہو اور جو خوبرو ہوں(فروعِ کافی ج۵ص۳۲۴)

اس حوالے سے جو روایات بیان کی جاتی ہیں ان کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ درجِ ذیل بارہ خصوصیات اچھی بیوی کی علامات ہیں(۱) دینداری(۲) اچھا اخلاق(۳) خوبصورتی(۴) مہر کا کم ہونا(۵) بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت(۶) محبت کرنے والی(۷) پاکدامن(۸) شوہر کی اطاعت گزار اور اس کے لیے سنورنے والی(۹) اچھے اور اصیل گھرانے سے تعلق رکھنے والی(۱۰) سچی اور امانتدار(۱۱) صاف ستھری اور معطر رہنے والی(۱۲) سمجھ بوجھ کی حامل اور خوش اسلوبی کے ساتھ امور زندگی کی تنظیم کرنے والی۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

ایّاکُم و تزویجَ الحَمقاء، فانَّ صُحْبَتَها بَلاءٌ وولَدَها ضِیاعُ

کم عقل عورتوں کے ساتھ شادی سے پرہیز کرو، کیونکہ ان کی ہم نشینی بلا ہے اور ان کے بچے برباد ہیںوسائل الشیعہ ج۱۴ص۵۶

متعدد روایات میں کہا گیا ہے کہ شادی کرتے وقت تمہارے پیش نظر مال ودولت کا حصول اور شریک ِحیات کی خوبصورتی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اپنے شریک ِحیات کے ایمان اور اس کی پاکدامنی کو پیش نظر رکھو۔

 

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: جب کبھی کوئی شخص کسی خاتون سے اس کے مال ودولت کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے اسی مال ودولت کے حوالے کردیتا ہے (اور دوسرے فوائد سے محروم رکھتا ہے) اور جو کوئی کسی عورت سے اس کے حسن وجمال کے لیے شادی کرتا ہے، تو اس سے ناگوار امور سامنے آتے ہیں اور جو کوئی کسی خاتون سے اس کے دین کی خاطر شادی کرتا ہے، تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۳۱)

لہٰذا اچھی بیوی کا شمار زندگی کے اہم ترین عناصر میں ہوتا ہےخداوند ِعالم کا ممتاز بندہ اپنی دعا میں بھی اور اپنے انتخاب میں بھی اس موضوع کو اچھی طرح پیش نظر رکھتا ہے، تاکہ اس کے ذریعے اپنی سعادت اور کامرانی کا ایک اہم عامل فراہم کرسکے۔

 

صالح اولاد

جو عناصر کسی انسان کی سعادت وکامرانی میں شمار کیے جاتے ہیں اُن میں سے ایک اہم ترین عنصر اسکا صالح اولاد کا مالک ہونا ہے، جو واقعا ً ایک بیش بہا الٰہی نعمت ہوتی ہے۔

اسکے برخلاف غیر صالح اولاد بڑی اور تباہ کن بلا ہے، جو دنیا اور آخرت دونوں کی ناکامی اور مصیبت کا باعث ہےانبیا اور اولیائے الٰہی، اپنی دعاؤں اور مناجات میں بھی اور اپنے عمل کے ذریعے بھی صالح اولاد کے حصول کے طالب ہوتے ہیں اور اپنے بچے کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے سلسلے میں کسی تعمیری عامل کو نظر انداز نہیں کرتے۔

اس بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک شیعہ سے فرمایا:

جب تم شادی کا ارادہ کرو، تو دو رکعت نماز پڑھو اور حمدوسپاس الٰہی کے بعد دعا کرو اور دعا میں کہو کہ:۔ ۔ اور میرے لیے اس بیوی سے ایسا طیب اور پاک فرزند نصیب فرما جو میری زندگی میں اور میری موت کے بعد میرا صالح جانشین ثابت ہو(وسائل الشیعہ ج۱۴ص۷۹)

 

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو میں فرمایا:

خدا کی قسم! میں نے بارگاہِ الٰہی میں خوبصورت اور خوش اندام اولاد کی درخواست نہیں کی تھیبلکہ پروردگار سے التماس کی تھی کہ مجھے اﷲ کی مطیع وفرمانبردار اور خوفِ خدا رکھنے والی اولاد عطا فرمااور جب کبھی میں اسے دیکھوں، اور اسے خدا کا اطاعت گزار پاؤں، تو یہ دیکھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہو(مناقب ِابن شہر آشوبج۳ص۳۸۰)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

انّ الولدَ الصّالح ریْحانةٌ مِنْ ریاحینِ الجَنَّةِ

بے شک صالح اولاد جنت کے خوشبودار پھولوں میں سے ایک پھول ہےفروعِ کافی ج۶ص۳

بحار الانوار کے مولف علامہ محمد باقر مجلسی علیہ الرحمہ کے والد ِگرامی، عالمِ بزرگوار مرحوم ملّا محمد تقی مجلسی کے حالات ِزندگی میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ایک رات نمازِ شب کے بعد مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ اگر میں اس موقع پر خدا سے کوئی دعا مانگوں تو وہ دعا قبول ہوگیمیں سوچ ہی رہا تھا کہ کیا درخواست کروں کہ اچانک میرے بیٹے محمد باقر کی آواز بلند ہوئی، جو اس وقت اپنے جھولے میں تھامیں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا کہ: بار الٰہا! بحقِ محمد وآلِ محمد! اس بچے کو مروجِ دین اور سید الانبیا محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو فروغ دینے والا قرار دےاور اسے بھرپور توفیقات عنایت فرما(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

یہی دعا اس بات کا باعث ہوئی کہ خداوند ِعالم نے ملّا باقر مجلسی کو توفیق کے تمام اسباب فراہم کیےیہاں تک کہ جب وہ بڑے ہوئے تو ان کا کمال روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا اور انہوں نے اپنے بیان اور قلم کے ذریعے اسلام اور دینی احکام کی نشر واشاعت کی بھرپور توفیقات حاصل کیں اور بکثرت گرانقدر آثار اپنی یادگار کے طور پر چھوڑے، جن میں سے ایک اثر، ایک سو دس جلدوں پر مشتمل بحار الانوار ہے۔

 

معروف محدث حاجی نوری علیہ الرحمہ کے بقول، علامہ مجلسی کا مقام اور ترویجِ اسلام میں ان کی توفیق اس درجے پر پہنچی کہ عبد العزیز دہلوی نے اپنی کتاب تحفہ میں لکھا ہے کہ: اگر مذہب ِ شیعہ کا نام مذہب ِمجلسی رکھا جائے تو بجا ہےکیونکہ اس مذہب کو رونق اور فروغ علامہ مجلسی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے(مستدرک الوسائلج۳ص۴۰۸)

نتیجہ یہ کہ بڑے لوگ صالح اولاد کے مسئلے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور اسے اپنی زندگی کے سر فہرست مسئلے کے طور پر توجہ کا مرکز قرار دیتے تھے۔

 

لوگوں کا پیشوا اور قائد ہونا

بے شک مقامِ امامت اعلیٰ ترین مقام ہے، جسے اسلام نے بہت زیادہ اہمیت دی ہےزیر بحث آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ عباد الرحمٰن (یعنی خدا کے ممتاز بندے) وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ تقویٰ اور جہد ِ مسلسل کے ذریعے محترم ترین مقام تک رسائی حاصل کریں اور لوگوں کے پیشوا اور قائد بن جائیں۔

واضح ہے کہ اس مقام کا حصول تہذیب ِنفس کے مراحل طے کرنے اور معنوی کمالات کسب کرنے سے وابستہ ہےجیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کڑی آزمائشوں اور عالی درجات طے کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچے اور خداوند ِعالم نے ان سے فرمایا: …اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیںسورئہ بقرہ۲آیت۱۲۴)

یہ دعا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خدا کے ممتاز بندوں کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ایسا بنائیں اور ایسے بلند عزائم رکھیں کہ لوگوں کے رہبر اور رہنما بن سکیں اور لوگ ان کے وجود سے پھوٹنے والی روشنی سے استفادہ کریں اور ان کے فیوضات لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر صراطِ مستقیم اور روشنی کی جانب لے آئیںاور وہ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ اگر وہ کوشش کریں تو تقویٰ اور عملِ صالح کے سائے میں عالی درجات حاصل کرسکتے ہیں۔

 

یہ دعا، تمنا اور خواہش وہی ہے جو تمام انبیا، ائمہ اور اولیائے الٰہی رکھتے تھےجیسے کہ اسی جیسی بات امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائے مکارم الاخلاق میں آئی ہے، جہاں آپ نے خداوند عزوجل سے دعا کرتے ہوئے عرض کیا ہے کہ: وَاجْعَلْنِی مِن اَهْلِ السِّدادِ وَمِنْ اَدِلَّةِ الرَّشادِ (اور مجھے درست کاروں اور ہدایت کے رہنماؤں میں سے قرار دےمفاتیح الجناندعائے مکارم الاخلاق)

 

عباد الرحمٰن کی عظیم الشان جزا

قرآنِ مجید، خدا کے خاص اور ممتاز بندوں کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد روزِ قیامت ان بندوں کی ظاہری اور باطنی جزااور اجر وثواب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ:

اُولٰىِٕكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوْا وَيُلَقَّوْنَ فِيْهَا تَحِيَّةً وَّسَلٰمًا خٰلِدِيْنَ فِيْهَاحَسُنَتْ مُسْـتَقَرًّا وَّمُقَامًا

یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کی بنا پر جنت کے اونچے اونچے محل عطا کیے جائیں گے اور وہاں انہیں تعظیم اور سلام پیش کیے جائیں گےوہ انہی مقامات پر ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کہ وہ بہترین مستقر اور حسین ترین جائے قیام ہےسورئہ فرقان۲۵آیات ۷۵ تا۷۶

ان آیات میں عبا دالرحمن کو ملنے والی جزا وپاداش کو بیان کیا گیا ہے، جو انتہائی عظیم الشان اور خصوصی امتیازات کے ہمراہ ہوگیان آیات کا تقاضا ہے کہ اس گفتگو میں، ان چار موضوعات، یعنی جزا وپاداش، عباد الرحمٰن کی مخصوص جزا، تعمیر کردار میں صبر واستقامت کی اہمیت اور خلود اور ہمیشگی وجاویدانی کے موضوع کا جائزہ لیا جائے۔

صبر کی اہمیت پر گفتگو کو ہم آئندہ نشست کے لیے چھوڑتے ہیںیہاں آپ کی توجہ دوسرے تین موضوعات کی جانب مبذول کراتے ہیں۔

 

جزاو پاداش

جزاو پاداش، بالفاظِ دیگر جزا اور مکافات ِعمل کا مسئلہ خداوند ِعالم کے قطعی تکوینی اور تشریعی قوانین میں سے ہے، جو اچھے یا برے عمل کی مناسبت سے ان اعمال کو انجام دینے والے پر دنیا اور آخرت میں مختلف شکلوں میں اثر انداز ہوتا ہے۔

قرآنِ کریم میں اس بارے میں بکثرت آیات موجودہیں، یہ یقینی امور میں سے ہے اور اسکے وقوع پذیر ہونے میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں۔

اگر ہم قرآنِ مجید میں مختلف انداز سے سیکڑوں بار استعمال ہونے والے لفظ ” جزا“ کا جائزہ لیں، تو بخوبی اس بات کا علم حاصل کریں گے کہ دنیاوی اور اُخروی جزا کا مسئلہ قرآنِ مجید میں بیان ہونے والے مسلمہ امور میں سے ہے اور خداوند ِعالم نے انتہائی زور دے کر اس کا تذکرہ کیا ہے، تاکہ پیروانِ قرآن اس قطعی قانون کو کسی صورت فراموش نہ کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں۔

مثال کے طور پر اگر ہم قرآنِ کریم کی سورئہ نبا کا مطالعہ کریں، تو وہاں دیکھیں گے کہ اس سورے کی آیت ۲۱ سے لے کر ۳۰ تک میں، نہایت واضح الفاظ کے ساتھ اہلِ جہنم کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےاور آیت نمبر ۳۱ سے ۳۶ تک میں اہلِ جنت کی جزا وپاداش کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اسی سورے کی آیت ۲۶ میں فرمان الٰہی ہے: جَزَاءً وِّفَاقًا (یہ اُن کے اعمال کے موافق ومناسب بدلہ ہے)اسی سورے کی آیت ۳۶ میں خدا فرماتا ہے: جَزَاءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حساب کی ہوئی عطا ہے اور تمہارے اعمال کی جزا ہے) لہٰذا انسان جو کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ خداوند ِعالم کے دقیق اور ٹھیک ٹھیک حساب میں ثبت اور درج ہوجاتا ہے اور تمام اچھے برے اعمال کے مقابل مناسب جزا یا سزا مقرر ہے۔

 

جزا وسزاکا مسئلہ صرف آخرت سے مخصوص نہیں ہےبلکہ اس کا کچھ حصہ اسی دنیا میں بھی وجود رکھتا ہے اور انسان کے اعمال کی وجہ سے مختلف صورتوں میں انسان کو اسی دنیا میں نصیب ہوجاتا ہے۔ (۱)

اس بارے میں روایات بھی بے حساب ہیں، مثال کے طور پر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے: کُلٌّ امْرءٍ یُلْقیٰ مٰا عَمِلَ وَیُجْزیٰ بِمٰاصَنَعَ (ہر انسان اپنے عمل کا سامنا کرتا ہے، اور جو کچھ وہ انجام دیتا ہے، اسکی بنیاد پر اسے جزا وسزا دی جاتی ہے) نیز آپ ؑہی نے فرمایا ہے: کَما تدینُ تدان (جیسا کرو گے ویسا بھرو گےغرر الحکم ج۳ص۵۷۱)

لِکُلّ حسنةٍ ثوابٌ (ہر نیکی کا ثواب ہے) لِکُلّ سیّئةٍ عقاب (ہر بدی کا عقاب ہےغرر الحکم ج۳ص۵۷۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

اَما انّه لیسَ مِنْ عرْقٍ یضربُ، ولانکبةٍ، ولاصُداعٍ، ولا مرضٍ الاّبذنبٍ

جو بھی رگ (اور کوئی نبض) زخمی ہوتی ہے، پاؤں پتھر سے ٹکراتا ہے، دردِ سر اور مرض لاحق ہوتا ہے، اسکی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انسان نے کوئی گناہ کیا ہوتا ہے۔ (۲)

--------------

۱:- سورئہ نجم ۵۳ کی آیت ۳۱، سورئہ طہ ۲۰ کی آیت ۱۵ اس بارے میں واضح دلالت کرتی ہیں۔

۲:- اصول کافی ج۲ص ۲۶۹، اسی کتاب کے صفحہ ۲۶۸ سے ۲۷۶ تک ” باب الذنوب“ کے عنوان کے تحت تیس روایتیں نقل کی گئی ہیں، جو مکافات عمل کو بیان کرتی ہیں۔

 

عبد الرحمن کا خصوصی ثواب

کیونکہ عباد الرحمٰن، خدا کے ممتاز اور خاص بندے، اپنی بارہ خصوصیات کی وجہ سے مومنین کی صف ِاوّل میںہوتے ہیں، لہٰذا خداوند ِعالم ان کی جزا اور ثواب کی مناسبت سے انہیں جنت کے بلند اور عالی ترین درجے میں جگہ دیتا ہےیہ وہ درجہ ہے جو اہم ترین امتیازات کا حامل ہے۔

پہلے خداوند ِعالم فرماتا ہے کہ: غرفہ بہشت ان کے اختیار میں ہوگاغرفہ کے معنی گھروں کا بلند ترین طبقہ ہے اور یہاں بے مثل اور انتہائی گراں قیمت محل کا کنایہ ہے، جو جنت کے دوسرے حصوں سے انتہائی بلند مقام کا حامل ہےجیساکہ مذکورہ آیت سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ یہ عظیم الشان محل تین انتہائی اہم خصوصیات رکھتا ہے۔

 

۱:- عباد الرحمٰن کا وہاں ہمیشہ خاص احترام کیا جائے گا، اور وہ خدا، فرشتوں اور اہلِ جنت کے تحیت وسلام سے بہرہ مند ہوں گےہمیشہ بلند مقامات انہیں سلامتی اور ہر قسم کی ظاہری وباطنی رفاہ وآسائش کے ساتھ پاک وپاکیزہ زندگی کی بشارت دیں گے۔

 

۲:- وہ ایک ایسے ٹھکانے میں ہوں گے جو انتہائی خوبصورت، ہرا بھرا، پاک وپاکیزہ اور ہر قسم کی تکالیف، مشکلات اور غموں سے دور ہوگا۔

 

۳:- یہ لوگ ہمیشہ وہاں رہیں گےوہاں فنا، موت اور نابودی کا سوال ہی نہ ہوگا اور انہیں اس عالی شان جگہ سے نکالے جانے کا کوئی دھڑکا اور اندیشہ نہیں ہوگا۔

 

سچی بات ہے، اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی کہ انسان ایک ایسے محل میں رہے جو ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اور وہ اس محل میں زندگی کی تمام نعمتوں، خوبصورتیوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو اور اسے وہاں فنا اور دوسری غم انگیز باتوں کی طرف سے کوئی تشویش نہ ہو۔

ان جزائوںمیںسب سے بڑی جزا، ان پر خدااور اسکے فرشتوںکا مسلسل تحیت و سلام ہےجس کی لذت ولطف قابلِ بیان اورقابلِ ادراک نہیں۔ امتیازی مقام کے حا مل اہلِ جنت پر خدا اور فرشتوں کے سلام کے بارے میں قرآن کی ایک اور آیت میںذکر ہواہے کہ:

سَلٰمٌ، قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ

ان کے حق میں ان کے مہربان پروردگارکا قول صرف سلامتی ہوگا۔ سورہ یٰسین۳۶۔ آیت۵۸

اسی طرح ایک اور مقام پر ہے کہ:

وَالْمَلٰىِٕكَةُ يَدْخُلُوْنَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ

اور ملائکہ ہر دروازے سے ان کے پاس حا ضری دیں گےکہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو کہ تم نے صبر کیا ہے اور اب آخرت کا گھر تمہاری بہترین منزل ہے۔ سورہ رعد ۱۳آیت۲۳، ۲۴

 

خلودوجاویدانگی کی اہمیت

معاد اور جنت و دوزخ کی گفتگو میں ایک مسئلہ خلود اور جاویدانگی کا مسئلہ ہےیعنی دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لیے اور نا قابلِ زوال ہےاسی طرح جیسے بہشت کی نعمتیں بھی دائمی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔

قرآنِ کریم کی متعددآیات میں خلود کے مسئلے پربات ہوئی ہے، اور اس کی وضاحت اس قدر قطعی ہے کہ اسکی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔

خلود کے معنی ایسی بقا اور دوام ہے جس میں زوال اور نا بودی کی گنجائش نہ ہو۔ ــ ” لسانِ العرب“ نامی عربی لعنت میں ” خلد“ کے معنی ایسے ٹھکانے اور سرائے میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا بیان ہوئے ہیں جس سے انسان کو باہر نہیںنکالا جائے گا۔ مزید کہا گیا ہے کہ اسی بنا پر آخرت کو ” دارالخلد“ کہتےہیںکہ لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔ یہی معنی دوسری عربی لغتوں ” مقاییس اللغۃ“ اور ” صحاح اللغۃ“ میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔

اگرچہ بعض مفسرین نے خلود کے معنی کی تو جیہات کی ہیں، مثلاً اسے طولانی وغیرہ کہاہے اور اسکے بارے میں مختلف احتمالات کا اظہار کیا ہے لیکن قرآنی آیات کی وضاحت وصراحت کے سامنے یہ توجیہات واحتمالات قابلِ قبول نہیں، اور علمائے اسلام اور چوٹی کے مفسرین نے انہیں مسترد کیا ہے۔

خلود کے معنی جاویدانگی ہونے کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی متعدد آیات میں اور دوسری تعبیریں بھی موجود ہیں، جواس قسم کی توجیہات واحتمالات کے قابل نہیں، اور جاویدانگی پرصراحت کی حامل ہیں، مثلاًایک مقام پر ہے: وَمَنْ يَّعْصِ اللهَ وَرَسُوْلَه فَاِنَّ لَه نَارَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا (اور جو اﷲاور رسول کی نافرمانی کرے گااسکے لیے جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والا ہے۔ سورئہ جن ۷۲۔ آیت۲۳)

 

 یا ایک اور جگہ پر ہے کہ: وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ (اور ان میں سے کوئی آتشِ دوزخ سے نہیں نکلے گا۔ سورہ بقرہ۲آیت۱۶۷)ایک اور مقام پر ہے: اُكُلُهَا دَاىِٕمٌ وَّظِلُّهَا (اور جنت کے پھل دائمی ہوں گے اور سایہ بھی ہمیشہ رہے گا۔ سورئہ رعد۱۳۔ آیت۳۵)

اہلِ دوزخ کے خلود کے بارے میں ایک اہم اعتراض اٹھایاگیا ہےلہٰذا یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ دائمی عذاب عدالت کے بر خلاف ہو سکتا ہے اور چند سال کے گناہوں سے کوئی تناسب نہیں رکھتا۔ اپنے مقام پر اس اعتراض کا جواب دیا جا چکا ہے۔ (۱)

لیکن بہشت اور ہمیشہ جاری خدا کی نعمتوں کے بارے میں خداوند ِعالم کے بے پایاں فضل و کرم کی بنا پر کسی قسم کااعتراض و اشکال نہیں اٹھایا جاسکتا، وہ خداجس کی رحمت پورے عالم پر چھائی ہوئی ہے بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے، اس کا زیادہ اجر و ثواب عطا کرنا اور بے پایاں لطف وکرم کا برتائو کرنا کسی صورت باعث ِ تعجب نہیں۔

لہٰذا اپنے ممتاز اور پیارے بندوں پر خدا کے مسلسل اور دائمی فضل وکرم کے حوالے سے کوئی عقلی رکاوٹ حائل نہیں، یہ شرع کے لحاظ سے ثابت ہے، اور آیاتِ قرآنی(جن میں زیر بحث آیت بھی شامل ہے )کی رو سے مسلمات میں سے ہے۔

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ بعض آیت ِقرآنی میں دنیا اورآخرت کی جزاوپاداش کے مابین فرق رکھا گیا ہےمثلاً ایک جگہ ہے کہ: فَاٰتٰىهُمُ اللهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَةِ (تو خدا نے انہیں دنیا میں بدلہ بھی دیا اور آخرت کا بہترین ثواب بھی عطا کیاسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۸)

--------------

۱:- اس بارے میں تفسیر موضوعی قرآن ” پیامِ قرآن“ کی۔ ج۶۔ ص ۵۰۰، ۵۰۱ کا مطالعہ فرمایئے۔

 

جزا و ثواب اچھی چیزہے، خواہ وہ دنیاکی ہوخواہ آخرت کی لیکن اسکے باوجود مذکورہ آیت میں صرف آخرت کی جزا کو نیک اور احسن بتایا گیا ہے، اور یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دنیا اور آخرت کی جزا میں فرق ہے۔ کیونکہ دنیا کی جزا جو کچھ بھی اور کتنی ہی کیوں نہ ہو، آخرکا ر اُسے فنااور زوال کا منھ دیکھنا پڑے گا۔ نیز دوسری مشکلات جو دنیا کی زندگی کی خاصیت ہیں، اسکے ہمراہ

ہوں گی، جبکہ آخرت کی جزا، اور وہاں ملنے والا بدلا، دائمی، ہمیشہ رہنے والا اور مشکلات سے خالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ اسلام نے اپنے کلمات میں بار ہا اس نکتے کاذکر کیا ہےایک خطبے میں فرمایا ہے:

فامّا اهلُ الطاعةِ، فاتابَهُم بجوارهِ، وخلّدَ همْ فی داره، حیثُ لا یظعنُ النزال، ولا تتغیّرُ بهمُ الحالُ، ولا تنوبُهُم الافزاعُ، ولا تنالُهُم الا سقام، ولا تعرِضُ لهم الاخطار، ولا تشخصهم الاسفار

جوفرما نبردار تھے انہیں جزا دے گا کہ وہ اسکے جو ارِرحمت میں رہیں اور اپنے گھر میں انہیں ہمیشہ کے لیے ٹھہرادے گا کہ جہاں اترنے والے پھر کوچ نہیں کیا کرتے اورنہ ان کے حالات ادلتے بدلتے رہتے ہیں اور نہ انہیں گھڑی گھڑی خوف ستاتا ہے، نہ بیماریاں ان پر آتی ہیں، نہ انہیں خطرات درپیش ہوتے ہیں اورنہ انہیںسفر ایک جگہ سے دوسری جگہ لیے پھرتے ہیں نہج البلاغہ۔ خطبہ۱۰۷

وضاحت کے طورپر عرض ہے کہ خلود اور جاوید انگی کا مسئلہ کوئی سادہ مسئلہ نہیں۔ بلکہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، جو انسانوں کے لیے ایک عظیم انتباہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی جگہ ایک کا عدد تحریرکریں اوراسکے پہلو میں بے انتہا دور تک صفر لگاتے چلے جائیں اور ان اَن گنت اعداد کے زریعے خلود کی انتہامعلوم کرنا چاہیں، تب بھی معلوم نہ کر سکیںگے۔

لہٰذا وہ مجرمین جن سے خدا نے دائمی آتشِ جہنم کا وعدہ کیا ہے انہیں خیال رکھنا چاہیے کہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں رہنا ہےاور ان کے مقابل ممتاز پاکیزہ بندگانِ خدا، جیسے ” عباد الرحمٰن“ جنہیں خدا عظیم دائمی جزا سے نوازے گا، انہیں یہ بات ذہن سے نکالنی چاہیے کہ انہیں ایسی دائمی جزا سے نوازا جائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگی۔

 

لہٰذا کیا یہ بات مناسب ہوگی کہ انسان دنیا کی چار روزہ زندگی سے دل لگا کر دائمی عذاب کا مستحق ہوجائے اور دائمی جزا وپاداش سے محروم رہے؟

کیا اس صورت میں ” نقد کو پکڑو، ادھار کو چھوڑو“ والی بات کوئی اہمیت رکھتی ہے جب انسان سستی چیز کو اس کے نقد ہونے کی وجہ سے منتخب کرکے اس کے مقابل بعد میں ملنے والے کروڑوں ٹن سونے کو چھوڑ دے؟

ایک دانشور کے بقول، بالفرضِ محال اگر آخرت کے امور احتمالی ہوں، اور دنیا کے امور یقینی، تب بھی عقلمند انسان احتمال کی کروڑوں صدیوں کو یقین کے چند سال پر فدا نہیں کرے گاجبکہ ہم مسلمان معاد اور آخرت پر عقیدہ رکھتے ہیںلہٰذا ہمیں فنا ہوجانے والے اور چند روزہ نقد کے مقابل ہمیشہ اور جاویداں ادھار کا انتخاب کرنا چاہیےاسی بنیاد پر امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا تھا:

والعَجبُ کلّ العَجب للمصدّقِ بدارِا لخلُود، وهوَ یعملُ لدارِ الغُرور

انتہائی تعجب ہے ایسے شخص پر جو آخرت کے ہمیشہ رہنے والے ٹھکانے کی تصدیق کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس فریب اور فانی دنیا سے وابستگی اختیار کرتا ہےبحار الانوارج۷۸۔ ص۱۸۴

نیز فرمایا:

فَلا تعدّن عیشاً منصرفاً، مالَکَ منهُ الاّ لذَّةُ تزدلف بکَ الیٰ حمامِکَ

فانی اور ناپائیدار زندگی کو زندگی نہ سمجھوتم نے کیوں دنیائے فانی سے (جو مجازی ہے اور) جس میں معمولی سی لذت کے سوا کچھ نہیں دل لگایا ہے، جبکہ یہ دنیا تمہیں موت سے نزدیک کررہی ہےبحار الانوارج۷۸ص۱۷۹

یعنی اس سو سالہ دنیا کی لذت وعیش ونشاط میں غرق ہونا اس وقت کیا فائدہ دے گا جبکہ اس کے نتیجے میں خدا کے دائمی عذاب کا مزہ چکھنا پڑے گاکیا اس طرح کے نقد کی لذت اس قدر اہم ہے کہ اس کی خاطر آخرت کی ہمیشگی اور دائمی لذت کو قربان کردیا جائے؟

 

تجزیہ اور تحلیل

بعض لوگوں کے خیال کے برخلاف ” صبر“ کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا اور ہر قسم کے دباؤ اور سختی کو برداشت کرنا نہیں ہےاس قسم کے معنی سے عاجزی اور تظلم (یعنی ظلم کو قبول کرنا) جھلکتا ہے، جس سے اسلام سختی کے ساتھ روکتا ہےبلکہ صبر کے اصل معنی امور کی انجام دہی کے لیے مضبوط عزم وارادے اور مسلسل اور لازوال ثابت قدمی کے ساتھ کام کو جاری رکھنا ہے۔

” مجمع بحرین“ نامی لغت میں صبر کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: الصَّبْرُ کَفُّ النَّفس عَنْ هَواها (صبر یعنی نفس کا نفسانی خواہشات سے پرہیز کرنا، یعنی نفسِ امارہ کے طاغوت کے خلاف جنگ کرنااور ” المنجد“ نامی لغت میں ہے کہ: صَبراً عَلَی الامْر: جَرءَ وشَجَعَ وتَجلّدَ (کسی چیز پر صبر کے معنی ہیں اس کے بارے میں جرات، شجاعت، ثابت قدمی اور شکست کو قبول نہ کرنا)

یہی وجہ ہے کہ خداوند ِعالم نے آیات ِقرآنی میں صبرو استقامت کو مجاہدین راہِ خدا کے لیے ایک بڑی شرط قرار دیا ہے:

اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا

اگر اُن میں سے بیس افراد صابر ہوئے، تو وہ دو سو افراد پر غالب آجائیں گے اور اگر سو افراد ہوئے، تو وہ ایک ہزار افراد پر غلبہ حاصل کرلیں گےسورئہ انفال۸آیت۶۵

یعنی ایک صابر انسان دشمن کے دس افراد کو زیر کرسکتا ہےاگر صبر کے معنی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا ہوں تو ایسا صبر کبھی انسان کو یہ قوت فراہم نہیں کرتا کہ وہ دس افراد کے مقابل کھڑا ہوکر انہیں شکست دیدے۔

 

اسی طرح قرآنِ کریم میں صبر کو ضعف وکمزوری کے مقابل قرار دیا گیا ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ صبر کے معنی استقامت اور پیہم جدوجہد ہے، جو ضعف وسستی کی ضد ہےلہٰذا خداوند ِعالم فرماتا ہے:

وَكَاَيِّنْ مِّنْ نَّبِيٍّ قٰتَلَ مَعَه رِبِّيُّوْنَ كَثِيْرٌ فَمَا وَهَنُوْا لِمَآ اَصَابَهُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَكَانُوْا وَاللهُ يُحِبُّ الصّٰبِرِيْنَ

اور بہت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں جن کے ہم رکاب ہوکر مردانِ الٰہی کے جمع کثیر نے اس انداز سے جنگ کی ہے کہ یہ لوگ راہِ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں سے نہ کمزور ہوئے اور نہ بزدلی کا اظہار کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا مظاہرہ کیا اور اﷲ صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنے والوں ہی کو پسند کرتا ہےسورئہ آلِ عمران۳آیت۱۴۶

قرآن کریم میں دو سو سے زائد مرتبہ مسئلہ صبر کو مختلف الفاظ اور بعض اوقات لفظ ” استقامت“ کے ذریعے بیان کیا گیا ہے(۱) اور اس کے نتائج کا ذکر کیاگیا ہےاس نکتے سے صبر واستقامت کی انتہائی بلند اہمیت کا اظہار ہوتا ہےان آیات کے ذریعے مجموعی طور پر یہ مفہوم حاصل ہوتا ہے کہ صبر واستقامت کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی ہم سمجھتے ہیں اس کی اہمیت کے لیے یہی بات کافی  ہے کہ خداوند ِعالم فرماتا ہے: اِنَّمَا يُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (بس صبر کرنے والے ہی وہ لوگ ہیں جنہیں بے حساب اجر دیا جاتا ہےسورئہ زمر۳۹آیت۱۰)

--------------

1:-معجم المفہرس لالفظ القرآن الکریم، لفظ ” صبر“ اور ’قوم“ کے ضمن میں ملاحظہ فرمایئے۔

 

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

الصَّبْرُ خَیْرُ مَرْ کَبٍ مٰا رَزَقَ اللّٰهُ عبْداً خَیْراً لَهُ وَلٰا أَ وْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ

صبر بہترین سواری ہےخداوند ِعالم نے اپنے کسی بندے کو صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع تر روزی عطا نہیں کی ہےبحار الانوارج۸۲ص۱۳۹

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ایک گفتگو کے ضمن میں فرمایا ہے:

عَلَیْکُمْ بِالصَّبْرِ، فانَّ الصَّبْرَ مِنَ الایمانِ کَالرّاسِ مِن الْجَسَدِ

تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لو، کیونکہ صبر کو ایمان سے ویسی ہی نسبت حاصل ہے جیسی نسبت سر کو بدن سے ہےنہج البلاغہ کلمات ِقصار۸۲

ان عبارتوں سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کی تعمیر، تکمیل اور اسے پاک وپاکیزہ بنانے میں صبر واستقامت انتہائی اہم کردار کا حامل ہےاور اسکے بغیر انسان ہر گز کمال حاصل نہیں کرسکتا اور آلودگیوں سے نجات نہیں پاسکتامولانا جلال الدین رومی کے بقول:

صد ہزار کیمیا حق آفرید

کمیائی ہمچو صبر آدم نہ دید

(خدا نے لاکھوں کیمیا پیدا کیے ہیں، لیکن صبر کی طرح کا کوئی کیمیا انسان نے نہیں دیکھا)

 

عباد الرحمٰن کی ان بارہ خصوصیات سے صبر کا تعلق

متعدد روایات میں ہے، اور خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:

صَبْرٌ عندَ المُصیبَةِ، وَصَبْرٌ الطّاعةِ، وَصَبْرٌ عَلَی الْمَعصیةِ

صبر کی تین قسمیں ہیں: مصیبت کے موقع پر صبر، اطاعت کی راہ میں صبر اور گناہ کے مقابل صبر

یہی حدیث حضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے، اور اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ:

گناہ کے مقابل صبر، ان دو پہلی قسموں کی نسبت زیادہ بلند درجہ رکھتا ہے(اصولِ کافی ج۲ص۱۹۱، میزان الحکم ۃج۵ص۲۶۷)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں فرمایا ہے کہ:

الصَّبْرُ صَبْرانِ، صَبْرٌ عِنْدَالْمُصیبَةِ، حَسَنٌ جَمیلٌ، وأَحْسنُ مِنْ ذلکَ الصَّبرُ عِنْدَ ماحَرَّمَ اللّٰهُ عَزَّوجلّ عَلَیکَ

صبر دو طرح کا ہے: مصائب ومشکلات کے سامنے صبر، کہ یہ صبر خوبصورت اور عمدہ ہے اور اس صبر سے زیادہ عمدہ ان امور کے مقابل صبر ہے جنہیں خداوند ِعالم نے حرام قرار دیا ہےاصولِ کافی ج۲ص۹۰

ان دو احادیث کی رو سے صبر واستقامت کی وہی تین جڑیں اور بنیادیں ہیں۔

جب ہم خدا کے نزدیک امتیازی مقام رکھنے والے بندوں کی ان بارہ خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان پر گہرا غور وفکر کرتے ہیں، تو یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خصوصیت صبر واستقامت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، اور ان بارہ خصوصیات کے حصول کے لیے صبرو استقامت کی مدد لینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کیونکہ جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے، ان میں سے چار خصوصیات منفی پہلو کی حامل ہیں

 

 اور ان کے خلاف جنگ کی ضرورت ہوتی ہےیہ خصوصیات صرف گناہ کے مقابل صبر کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہیںجبکہ چھے خصوصیات مثبت پہلو رکھتی ہیں، جو راہِ اطاعت میں صبر کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں۔

لہٰذا ہمیں چاہیے کہ تمام پہلوؤں میں، بالخصوص گناہ سے مقابلے اور اطاعت کی راہ میں صبر کو اپنی روح ورواں میں جگہ دیں تاکہ یہ بارہ خصوصیات حاصل کرسکیں۔

جی ہاں، صبر واستقامت بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے اور اسکے بغیر انسان کسی صورت اعلیٰ انسانی اقدار تک نہیں پہنچ سکتااسی وجہ سے (جیساکہ ہم نے کہا) قرآنِ کریم نے مختلف الفاظ کے ذریعے دو سو سے زائد مرتبہ مسلمانوں کو صبر واستقامت کی دعوت دی ہے اور انہیں صبر کی عظیم طاقت سے مدد لینے کی تلقین کی ہےقرآنِ کریم ایک مقام پر واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ:

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ

صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگوبیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہےسورئہ بقرہ۲آیت۱۵۳

 

فرامینِ معصومین میں صبر کے اثرات اور اس کا کردار

صبر اور اس کے بہترین اثرات کی زیادہ سے زیادہ اہمیت جاننے کے لیے اور اس بات سے واقف ہونے کے لیے فضائل سے آراستہ ہونے، رذائل سے پیراستہ ہونے اور زندگی کے مختلف مسائل میں سدھار اور سنوار پیدا کرنے کے سلسلے میں صبر ایک انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے، آئیے آپ کو پیغمبر اسلام ؐاور ائمہ معصومین ؑکے کچھ فرامین کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الصّبرُ کَنْزٌ مِنْ کُنوزِ الجنّةِ

صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہےالمحجۃ البیضاج۷ص۱۰۷

 

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:

الصَّبرُ مَطیَّةٌ لٰا تَکْبو

صبر ایسی سواری ہے جو کسی صورت زمین پر نہیں گرتی بحار الانوارج۶۸ص۹۶

حضرت علی علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

الصّبرُ عَوْنٌ عَلٰی کُلّ المْرً

صبر تمام امور میں انسان کا یاورومددگار ہوتا ہےغرر الحکم

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہی کا ارشاد ہے:

عَلیکُم بالصَّبْرِ فانَّهُ لا دینَ لِمَنْ لٰا صَبْرَلَهُ

تمہیں چاہیے کہ صبر واستقامت سے کام لوایسا شخص جس میں صبر واستقامت نہ ہو، اس کا دین نہیں بحار الانوارج۷۱ص۹۲

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

کَمْ مِنْ صَبْرِ ساعةٍ قَدْ اوْرَ ثَتْ فَرَحاً طَویلاً

بہت مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ساعت کا صبر طویل خوشیوں کا باعث بن جاتا ہےبحار الانوارج۷۱ص۹۱

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے پرہیز گاروں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

صَبَرواایّاماً قَصیرَةً اعْققَبَهُمْ راحَةً طَویلةً

ان لوگوں نے دنیا کے چند دنوں میں صبر کیا اور اسکے نتیجے میں آخرت میں طولانی آسائشیں حاصل کیں نہج البلاغہ خطبہ۱۹۳

 

امام علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے:

عَلامةُ الصّابرِ فی ثلاثٍ: اوّلُها ان لا یَکسِلَ، والثانیةُ انْ لا یَضْجِرَ، والثّالَثَةُ انْ لا یشْکُر مِنْ رَبّهِ عَزَّوجَلّ

صبر کرنے والوں کی تین نشانیاں ہیں: (۱) اپنے آپ سے بے حوصلگی کو دور کرنا(۲) بے قراری اور دل تنگی سے دوری(۳) خداوند ِعالم سے گلہ نہ کرنا بحار الانوارج۷۱ص۸۶

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہی نے فرمایا ہے کہ:

مِفتاحُ الظَّفرِ لُزُومُ الصَّبْر

صبر وشکیبائی کامیابی کی کنجی ہے غرر الحکم  حدیث ۹۸۰۹

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:

قِلَّةُ الصَّبْرِ فَضیحَةٌ

صبر کی کمی رسوائی کا باعث بنتی ہےبحار الانوارج۷۸ص۶۶۹

امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے: جب انسان کو قبر میں رکھتے ہیں تو اس کے دائیں طرف نماز، اسکے بائیں طرف زکات اور اسکے سر کی جانب نیکیاں کھڑی ہوجاتی ہیں اور ایک طرف ان سے ذرا دور صبر کھڑا ہوجاتا ہےاس موقع پر جب سوال کرنے والے دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں، تو صبر (جو نورانی صورت لیے ہوتا ہے) نماز، زکات اور نیکیوں کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ: دُونَکُمْ صَاحبَکُمْ فانْ عَجَزتُم عَنْهُ فَاَنادوُنَهُ (اپنے صاحب کی طرف سے ہوشیار رہو، اگر اسے عذاب سے محفوظ رکھنے میں ناکام ہو، تو میں اسکی حفاظت کے لیے حاضر ہوں(اصولِ کافی  ج۲ص۹۰)

 

یہ احادیث انسان کی مادّی، معنوی، دنیاوی اور اُخروی کامیابیوں میں صبرو استقامت کے کردار کی نشاندہی کرتی ہیں اور زبانِ قال وحال سے کہتی ہیں کہ:

صبر و ظفر ہر دو دوستانِ قدیمیند

بر اثر صبر نو بتِ ظفر آید

(صبر وظفر دونوں قدیمی دوست ہیں، صبر کے اثر سے ظفر کی نوبت آتی ہے)

 

 

با تشکر از سایت الحسنین

 

Comments powered by CComment