نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟

مختلف کتب
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

مؤلف: شیخ نجم الدین طبسی

مترجم: ناظم حسین اکبر



انتساب

عالم جوانی میں داعی اجل کو لبیک کہنے والے سپاہی امام زمانہ عجّل اللہ فرجہ الشریف،
مہر شکیل حید ر آف لک موڑ ضلع سرگودھا کے نام، اس امید سے کہ خدا وند متعال
روز ظہوراسے لشکر امام زمانہ میںسے قراردے .

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم


مقدّمہ مترجم

اسلام نے آراء ونظریات میں اختلاف کی نہی نہیں فرمائی ہے بلکہ صرف ایسے اختلافات مذموم ہیں جن سے تنازعے کھڑے ہوتے ہیں ،اُمّت گروہوں میں بٹ جاتی ہے اور اختلاف وتفرقہ پیدا ہوتا ہے اسلام کا یہ حکم اس کی عقلیت پسندی اور منطقی روش کی دلیل ہے ۔
تقاضائے انصاف تو یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے کسی نظریہ کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے اس نظریہ کوباریک بینی سے علمی معیارات کی کسوٹی پر پرکھا جائے تاکہ درست نتیجہ حاصل کیا جا سکے ۔
انہیں نظریات میں سے ایک نظریہ( نماز میں ہاتھ باندھنا) ہے جس کاشریعت مقدّسہ پر گہرا اثر مترتب ہوتا ہے اس بارے میں شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اہل بیت علیہم السلام اور صحابہ کرام میں سے کسی نے نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم نہیں دیا سوا حضرت عمر کے ۔ اور اسی طرح اہل سنت علماء میں سے بھی کوئی اس کے وجوب کا قائل نہیں ہے بلکہ بعض نے تو اسے مکروہ قرار دیا ہے جیسا کہ محقّق بزرگوار شیخ نجم الدین طبسی حفظہ اللہ نے ا س کتاب میں اس موضوع کو بہت احسن انداز میں بیان کیا ہے جو ہر اہل انصاف اور تحقیق کرنے والے کے لئے کافی ہے کہ وہ اس نظریہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کرتے ہوئے حق کی پیروی کرنے کی کوشش کرے ۔
خدا وند متعال اس کتاب کی اشاعت میں کسی بھی طرح کی مدد کرنے والے دوستوں کی اس سعی کو درجہ قبولیت تک پہنچائے اور قارئین محترم کو اس کتاب کے مطالعہ سے زیادہ سے زیادہ علمی فائدہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔والسّلام علی من اتّبع الھدٰی

ناظم حسین اکبر ( ریسرچ اسکالر)
ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ لا ہور پاکستان (٣ذی الحجہ ١٤٣٠ھ بمطابق٢١ نومبر ٢٠٠٩ئ)



مقدّمہ مؤلف

حوزہ علمیہ کے علماء وفضلاء میں سے ایک بزرگ آفریقی عالم نے فون پر بات کرتے ہوئے اس خواہش کا اظہار کیا کہ نما زمیں ہاتھ باندھنے کے متعلق روایات ،فتاوٰی اور تاریخی مطالب کو اکٹھا کرنے کے بعد تحقیق کرکے انہیں مرتب کردوں .
کثرت مصروفیات اور قلّت وقت کے باعث انتہائی مختصر مگر جلد ان مطالب کو جمع اور ان کے بارے میں تحقیق کرکے مجموعہ حاضر کو زیر قلم لانے میں کامیاب ہوا۔

۱
ہاتھ کھولنا یا باندھنا ؟ نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ ہاتھ کھولنا یا باندھنا ؟ ایساسوال جو ہمیشہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا نماز میں ہاتھ باندھنا جائز ہے یا نہیں ؟
شیعوں کے نزدیک یہ عمل جائز نہیں ہے ؟ (١)جیسا کہ خلاف (٢)، غنیة (٣)اور دروس( ٤)جیسی کتب میں ذکر ہوا ہے ۔
سید مرتضٰی نے اپنی کتاب الانتصار( ٥)میں اس کے جائز نہ ہونے پر اجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہے.اسی طرح اہل بیت علیہم السلام سے بھی اس بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔
نیز اہل سنّت میں بھی امام مالک اور بعض فقھائے سلف اسے مکروہ سمجھتے ہیں اسی تابعین بلکہ بعض صحابہ کرام سے نقل ہوا ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ کھولنے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔(٦ )
اہل سنّت کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف کا باعث پیغمبر ۖ کی نماز کے متعلق وہ صحیح جن
------------
١۔ خلاف١: ١٠٩.
٢۔ خلاف ١: ١٠٩.
٣۔ غنیة النزوع : ٨١.
٤۔الدروس الشرعیة : ١٨٥.
٥۔الانتصار : ٤١.
٦۔ بدایة المجتھد ١:١٣٦؛ذہبی اس کتاب کے مؤلف قرطبی کے بارے میں کہتے ہیں : وہ فقہ میں علّامہ تھے...فقہ میں برتری پائی ...وہ اندلس میں علم وفضل اور کمال میںبے نظیر تھے ...جیسا کہ فقہ میں لوگوں کی پناہ گاہ تھے اسی طرح حکمت میںبھی لوگ انہیں کی طرف رجو ع کیا کرتے ...سیر اعلام النبلاء ٢١: ٣٠٨.
میں یہ ذکر ہوا ہے کہ آنحضرتۖ حالت نماز میں ہاتھ نہیں باندھتے تھے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
ابراہیم نخعی (١)جنہوں نے اہل سنّت کے آئمہ اربعہ میں سے بعض سے پہلے وفات پائی و ہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے ۔
اسی طرح حسن بصری(٢) تابعی جسے اہل سنّت علم وعمل میں اہل زمانہ کا سردار مانتے ہیں وہ بھی نماز میں ہاتھ کھول کر پڑھا کرتے تھے ۔
-------------
١۔وہ پہلی صدی کے بزرگوں میں سے ہیںجنہوں نے بعض صحابہ کرام کو بھی درک کیا اور ٩٦ھ میں وفات پائی .
ذہبی کہتے ہیں: وہ امام ، حافظ ، فقیہ عراق اور بزرگ شخصیت تھے اور ایک جماعت نے ان سے روایات نقل کی ہیں اسی طرح انہوں نے حکم بن عتیبہ ، سلیمان بن مہران اور ان کے علاوہ کئی ایک افراد سے روایات نقل کی ہیں. وہ معتقد تھے کہ ابوہریرہ کی بہت سی روایات منسوخ ہیں ۔
عجلی کہتے ہیں : وہ مفتی کوفہ ...فقیہ اور پرہیز گار انسان تھے ...احمد بن حنبل سے بھی نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں: ابراہیم ذہین ، حافظ اور صاحب سنّت تھے ۔سیر اعلام النبلاء ٤: ٥٢٠.
٢۔حسن بصری حضرت عمر کی خلافت کے پورے ہونے سے دو سال پہلے پیدا ہوئے اور حضرت عثمان کی اقتداء میں نماز جمعہ میں شریک ہوا کرتے... کہاجاتا ہے کہ علم وعمل میں وہ اپنے زمانے کے سردار تھے .
ابن سعد لکھتے ہیں: وہ جامع ، عالم ، رفیع، فقیہ ، ثقہ، حجّت ، قابل اعتماد ، عابد ، ناسک اور کثیر العلم تھے ۔سیراعلام النبلاء ٤: ٥٧١.
جبکہ ہمارے(شیعوں)ہاں اس کی مذمّت میں روایات ذکر ہوئی ہیں۔
ابن سیرین (١)اور لیث بن سعد ( ٢) اور عبداللہ بن زبیر جو صحابی ہے اور مالک کے مذہب میں بھی مشہور نظریہ یہی ہے، اسی طرح اہل مغرب بھی اسی نظریے (نماز میں ہاتھ کھولنے )پر عقیدہ رکھتے اور اسی پر
عمل کیا کرتے تھے ۔
-------------
١۔ محمد بن سیرین خلیفہ دوم کی خلافت کے اواخر میں پیدا ہوئے اور ١١٠ ھ میں وفات پائی .اس نے تیس صحابہ کرام کودرک کیا ۔ عجلی کہتے ہیں: پرہیزگاروں میں اس سے بڑھکر فقیہ اور فقہاء میں اس سے بڑھکر کسی کو پرہیز گار نہیں دیکھا ۔ طبری کہتے ہیں: ابن سیرین فقیہ ، عالم، متّقی ، کثیر الحدیث اور سچے انسان تھے ، اہل علم وفضل نے بھی اسکی گواہی دی ہے جو حجّت ہے سیر اعلام النبلاء ٤: ٦٠٦.وہ بھی نماز میں ہاتھ کھولنے کا عقیدہ رکھتے تھے ۔
اگرچہ ہمارے سابقہ علماء نے اس کے متعلق کوئی اشارہ نہیں کیا لیکن حجاج بن یوسف کی مدح میں اس کچھ مطالب نقل ہوئے ہیں۔
تستری کہتے ہیں: اگر اس کے متعلق بیان کئے جانے والے مطالب صحیح ہوں تو یہی اس کی نادانی اور جہالت کے لئے کافی ہیں۔ قاموس الرّجال ٩: ٣٢٢؛ تنقیح المقال ٣: ١٣٠.
٢۔لیث بن سعد کے بارے میں کہا گیا ہے : وہ امام ،حافظ ، شیخ الاسلام اور عالم دیارمصر تھے جو ٩٤ھ میںپیدا ہوئے اور ١٧٥ھ میں وفات پائی ۔احمد بن حنبل کہتے ہیں : لیث کثیر العلم ، صحیح الحدیث ،...ثقہ اور قابل اعتماد تھے ...مصریوں میں ان سے بڑھکر کوئی صحیح الحدیث نہیں ہے۔
ابن سعد کہتے ہیں: لیث فتوٰی میں مستقل اور ثقہ تھے اس نے بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔عجلی اور نسائی اسکے بارے میں کہتے ہیں : لیث ثقہ ہے.ابن خراش کہتے ہیں: وہ سچا انسان ہے اور اسکی احادیث بھی صحیح ہیں ۔ شافعی کہتے ہیں: لیث ،مالک سے بھی بڑھکر فقیہ تھا لیکن اصحاب نے اسے ترجیح نہ دی ؟ سیر اعلام النبلاء ٨: ١٣٦۔وہ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے قائل تھے ۔
ہم شیعوں کے مطابق اس نے امام صادق علیہ السلام کو درک کیا ان عظمت و منقبت بھی بیان کی لیکن یہ اس کی ہدایت کا باعث نہ بن سکی ۔
خطیب (بغدادی )سے نقل ہوا ہے : اہل مصرعثمان کو برا بھلا کہتے تھے یہاں تک کہ لیث ان میںظاہر ہوا اور عثمان
کے فضائل بیان کئے جس سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا ۔تستری اس کے بعد لکھتے ہیں: ( خدا جانتا ہے ) اس شخص کے بارے میں برائیوں کے سوا کچھ نہیں ملتا اور وہ لوگوں کو ان احادیث پر عمل کا کہتا جو معاویہ نے گھڑوا رکھی تھیں اور اہل مصر بھی کتنے نادان تھے کہ عثمان کے متعلق جو کچھ آنکھوں سے دیکھ چکے تھے اس سے چشم پوشی کر بیٹھے اور جو جھوٹ بیان کیا گیا اس سے فریب کھا بیٹھے ۔قاموس الرّجال ٨: ٦٣٢؛ تنقیح المقال ٢:٦٤.


اہل سنّت کے تین نظریات

نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ اہل سنّت کے تین نظریات اہل سنّت میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں تین طرح کے مختلف نظریا ت پائے جاتے ہیں:
١۔مکروہ ہے.
٢۔ اس کا انجام دینا کراہت نہیں رکھتا اور ترک کرنا مستحب نہیں ہے .
٣۔ مستحب ہے.( ١)
ہمیں (اہل سنّت کی) کوئی ایسی کتاب نہیں ملی جس میں ( نماز میں ہاتھ باندھنے کو) واجب قرار دیا گیا ہو اور وجوب کی نسبت صرف اہل سنّت عوام کی طرف دی جاتی ہے .(٢)
کتب اہل سنّت میں اس سلسلے میں بیان کی جانے والی روایات وآثار کی تعداد (قطع نظر اس سے کہ ان کی سند ضعیف ہے)بیس تک جا پہنچتی ہے ان میں سے ایک روایت ابو حازم سے صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے ۔(٣)لیکن جیسا کہ عینی نے (٤) شوکانی نے (٥)اوردیگر فقھاء نے اسکی تصریح کر دی ہے کہ اس حدیث میں مرسل و منقطع ہونے کا شبھہ پایا جاتا ہے۔
-------------
١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤.
٢۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٤: ٨٧٤؛المجموع ٣:٣١٣؛المغنی ١: ٥٤٩؛المبسوط سرخسی ١:٢٣.
٣۔صحیح بخاری ١: ١٣٥.
٤۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥:٢٨٠.
٥۔نیل الأوطار ٢:١٨٧.
اسی طرح دوسری حدیث صحیح مسلم کے اندر ابووائل سے نقل ہوئی ہے اور یہ حدیث بھی مرسل ومنقطع ہونے کی آفت میں مبتلا ہے.اس لئے کہ علقمہ کی اپنے والد سے نقل کی جانے والی ر ویات مرسل ہیں ابن حجر نے اسے واضح طور پر بیان کردیا ہے ۔(١)
اور باقی روایات کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خود اہل سنّت کے ہاں انہیں ضعیف شمار کیا گیا ہے اوراصحاب سنن وجوامع اور علمائے رجال کے اقرار کے مطابق ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا .اس بناپر نماز میں ہاتھ باندھنے پر کوئی جواز باقی نہیں رہتا ۔
اسکے علاوہ یہ خود ایک عمل اور فعل ہے جس کے نماز میں جائز ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے لہذا اسے جائز یا سنّت یا آداب نماز میں سے ہونے کے قصد سے انجام دینا بے شک حرام ہے ۔ اس لئے کہ اسکی حرمت کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ شریعت میں اس کے جوازپر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے بر عکس اس کے انجام دینے کے متعلق نہی ثابت ہے۔( ٢)
اہل بیت علیہم السلام نے بھی اس کے انجام دینے سے منع فرمایا ہے اور پھر نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ایک عمل ہے جس کا نماز میں انجام دینا جائز نہیں ہے .جیسا کہ ابن رشد نے بھی اس بات(یا اسی سے ملتی جلتی بات)کی طرف اشارہ کیا ہے .
اور آئمہ علیہم السلام کا اسے (تکفیر ) سے تعبیر کرنا جسے مجوسی انجام دیا کرتے(٣)یہ اس عمل کے سنّت پیغمبر ۖ میں سے نہ کی تائید بلکہ اس پر تاکید ہے ۔
-------------
١۔ تہذیب التہذیب ٨: ٣١٤.
٢۔مصباح الفقیہ ١:٤٠١.
٣۔ کتاب آئینہ آئین مزدیسنی ٫٫اشاعت دوّم،، تالیف کیخسرو صفحہ ٢٠پر لکھا ہے : ان کے ہاں نماز اور عبادت کا طریقہ کا ر اپنے خداکے سامنے کھڑے ہو کر دست عبودیت کو سینے پر رکھنا ہے اور وہ یوں عبادت و پرستش کرتے ہیں.
نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق اہل سنّت فقھاء میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ہاتھوں کو ناف کے اوپر رکھا جائے یا اس سے نیچے ؟ دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا جائے یا بالعکس ؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا عمل جس کی کیفیت تک مشخص نہیں ہے وہ کس طرح سنّت مؤکدہ ہو سکتا ہے؟اور پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ صحابہ کرام جو مستحبی نمازوںکے علاوہ نماز میّت ،نماز عیداورروزانہ کی نمازیں پیغمبر ۖ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے پابند تھے ان پر اس (نماز میں ہاتھ باندھنے ) کی کیفیت مخفی رہی ہو!
یہ تمام شواہد اور تاکیدات اس بات کی علامت ہیں کہ پیغمبر ۖ کے زمانے میں ایسے عمل کا کوئی وجود نہیں تھا.اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی نماز تراویح باجماعت اداکرنے،اذان میں الصلاة خیر من النوم کے اضافہ کرنے،اذان سے حی علی خیر العمل کے نکالنے ،متعہ کی دونوںقسموں( متعہ الحجّ اور متعة النکاح) کوحرام قرار دینے اور تدوین احدیث سے منع کرنے جیسے امور میں سے ہے جوپیغمبر ۖ کے بعد وجود میں آئے۔



روایات اہل بیت علیہم السّلام نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ روایات اہل بیت علیہم السّلام اہل بیت علیہم السّلام سے بہت زیادہ روایات وارد ہوئی ہیں جن میں نماز میں ہاتھ باندھنے سے منع کیا گیا ہے اور اسے مجوسیوں کاعمل قرار دیا گیا ہے:
١۔((عنحدھما علیہما السّلام قلت: الرّجل یضع یدہ فی الصلاة ،وحکی الیمنٰی علی الیسرٰی ؟فقال : ذلک التکفیر ، لا تفعل.))(١)
راوی کہتا ہے : میں نے دونوں( امام باقر یا امام صادق علیہما السلام) میں سے کسی ایک سے سوال کیا کہ ایک شخص نماز میں ہاتھ باندھتا ہے اور کہا گیا ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں پہ رکھتا ہے . اس بارے میں کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا: یہ عمل تکفیر ہے اسے مت بجا لاؤ.
علاّمہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے کہتے ہیں :یہ حدیث حسن اور صحیح کے مانند ہے اور تکفیر سے مراد ہاتھ پر ہاتھ رکھنا ہے جسے اہل سنّت بجا لاتے ہیں . اور اس سے نھی کی وجہ اس کا حرام ہونا ہے جیسا کہ ہمارے اکثر علماء کا عقیدہ یہی ہے۔
٢۔عنبی جعفر علیہ السّلام : وعلیک بالاقبال علی صلاتک ...ولاتکفّر فانّما یفعل ذلک المجوس)).(٢)
امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں : نماز کی حالت میں قبلہ کی طرف منہ کرو ...اور تکفیر مت بجالاؤاس لئے کہ یہ مجوسیوں کا عمل ہے ۔
-------------
١۔وسائل الشیعة ٧:٢٦٦،باب ١٥،مؤسسہ آل البیت ؛ مرآة العقول ١٥: ٧٤.
٢ ۔وسائل الشیعة ٥:٥١١،باب١٧،ح٢و ص٤٦٣؛مرآة العقول ١٥:٧٤.
((علی بن جعفر قال: قالخی: قال علی بن الحسین علیہ السّلام:وضع الرّجل احدٰی یدیہ علی الأخرٰی فی الصّلاة عمل ،ولیس فی الصّلاة عمل )).(١)
علی بن جعفر کہتے ہیں میرے بھائی (امام موسٰی کاظم علیہ السّلام )نے بتایا کہ امام زین العابدیں علیہ السّلام نے فرمایا:نماز میں ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ پر رکھنا ایک طرح کا عمل اور نماز میں کسی قسم کاکوئی عمل جائز نہیں ہے ۔
٤۔ علی بن جعفر ]عنخیہ موسٰی بن جعفر[وسألتہ عن الرّجل یکون فی صلاتہیضع احدٰی یدیہ علی الأخرٰی بکفّہو ذراعہ ؟قال:لایصلح ذلک ،فان فعل فلایعود لہ)).( ٢)
علی بن جعفر اپنے بھائی امام موسٰی کاظم علیہ السّلام کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ میں نے ان سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو نماز کی حالت میں ہو .کیا وہ ہاتھ کو کلائی یا بازو پررکھ سکتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا: یہ عمل درست نہیں ہے اگر انجام دے بیٹھا تو دوبارہ اس کا تکرار نہ کرے۔
٥۔عن علی علیہ السّلام فی حدیثربعمأة:قال:لایجمع المسلم یدیہ فی صلاتہ وھوقائم بین یدی اللہ عزّوجلّ ،یتشبّہ بأھل الکفر یعنی المجوس )).(٣)
امام علی علیہ السّلام حدیث اربعماة میں فرماتے ہیں: مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ جب نماز کے لئے خدا کی بارگاہ میں کھڑاہو تو اپنے ہاتھوں کواکٹھا کرے چونکہ وہ اپنے اس عمل سے اہل کفر یعنی مجوسیوں کے
-------------
١۔حوالہ سابق.
٢۔حوالہ سابق.
٣۔حوالہ سابق.
مشابہ بن جائے گا۔
٦۔ ((عنبی عبد اللہ علیہ السّلام فی حدیث:أنّہ لمّا صلّی قام مستقبل القبلة ،منتصبا ،فأرسل یدیہ جمیعا علی فخذیہ قد ضمّصابعہ)).(١)
امام صادق علیہ السّلام کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جب نماز کے لئے کھرے ہوتے تو قبلہ کی طر ف رخ کر کے اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھتے اور انگلیوں کو ملا لیتے.
٧۔ ((عنبی جعفر علیہ السّلام : قال: اذا قمت الی الصلاة فلاتلصق قدمک بالأخرٰی ...وأسد منکبیک وأرسل یدیک ولاتشبّکصابعک ولیکونا علی فخذیک قبالة رکبتیک ...ولا تکفّر فانّما یفعل ذلک المجوس )).(٢)
امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں: جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو پاؤں کونہ ملاؤ ،شانہ کوجھکا لو،ہاتھ کھلے رکھو ،انگلیوں کو ایک دوسرے میں ڈالو اور اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھو ...اور تکفیر مت بجالاؤ چونکہ یہ مجوسیوں کا شیوہ ہے۔
٨۔ ((المجلسی عن الجامع البزنطی عنبی عبداللہ علیہ السّلام:فاذاقمت فی صلاتک فاخشع فیھا ...ولاتکفّر )). (٣)
علامہ مجلسی جامع بزنطی سے امام صادق علیہ السّلام کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:جب نماز کا ارادہ کرو تو خشوع وخضوع کے ساتھ ہو اور تکفیر مت بجا لاؤ۔
-------------
١۔حوالہ سابق.
٢۔وسائل الشیعة ٧: ٢٦٧،باب ١٥،ح٧.
٣۔بحارالأنوار ٨٤:١٨٦،ذیل حدیث ١؛مستدرک الوسائل ٥: ٤٢٠.
٩۔ ((القاضی نعمان المصری عن جعفر بن محمد علیہ السّلام انّہ قال:اذاکنت قائما فی الصّلاة فلا تضع یدک الیمنٰی ،فانّ ذلک تکفیرھل الکتاب ،ولکن ارسلھما ارسالا ،فانّہحرین لا یشغل نفسک عن الصّلاة)) .(١)
قاضی نعمان مصری امام صادق علیہ السّلام سے نقل کرتے ہیںکہ آپ نے فرمایا:جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر یا بائیں کو دائیں پر مت رکھو ، چونکہ یہ اہل کتاب کا عمل ہے بلکہ ہاتھوں کو کھلا رکھو .پس مناسب یہی ہے کہ تم اپنے کو نمازکے علاوہ کسی عمل میں مشغول نہ کرو.
١٠۔((عنبی جعفر علیہ السّلام قال:قلت لہ:((فصلّ لربّک وانحر ))؟
قال:النحرالاعتدال فی القیامن یقیم صلبہ ونحرہ .وقال:ولاتکفّر ،فانّما یصنع ذلک المجوس)).(٢)
امام باقر علیہ السّلام سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرت سے پوچھا گیا کہ ((فصلّ لربّک وانحر ))سے کیا مراد ہے ؟تو آپ نے فرمایا:نحر کا معنٰی قیام میں اعتدال ہے اس طرح کہ پشت اور گردن کو سیدھا رکھا جائے اور فرمایا: تکفیر مت بجالاؤاس لئے کہ یہ مجوسیوں کا شیوہ ہے۔
-------------
١۔ دعائم الاسلام ١:١٥٩؛مستدرک الوسائل ٥: ٤٢٠.
٢۔اصول کافی ٣:٣٣٧.

۴
شیعہ فقہاء کا نظریہ نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ شیعہ فقہاء کا نظریہ ١۔ شیخ مفید : (نماز میں ) ہاتھ کھلے رکھنے کے بارے میں شیعوں میں اتفاق نظر پایا جاتا ہے.اور اہل کتاب کے مانند تکفیر یعنی ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنے کو جائز نہیں سمجھتے. اور یہ کہ جو بھی ایسا عمل انجام دے اس نے بدعت کا ارتکاب کیا اور سنّت رسول ۖاورآئمہ طاہرین علیہم السّلام کی مخالفت کی ہے ۔(١)
٢۔سید مرتضٰی:وہ امور جن کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ شیعوں کے ساتھ مختص ہیں ان میں سے ایک نماز میں ہاتھ باندھنے کا ممنوع ہونا ہے چونکہ امامیہ کے علاوہ باقی فرقوں کاعقیدہ یہ ہے کہ یہ مکروہ ہے .طحاوی نے فقہاء کے اختلاف کو نقل کرتے ہوئے بیان کیا ہے مالک کے نزدیک اگر مستحب نماز میں رکوع طولانی ہو جائے تو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز ہے اور میرے نزدیک اسے ترک کرنا بہتر ہے۔(٢)
٣۔شیخ طوسی: نماز میںدائیں ہاتھ کابائیں پر یا بائیں کادائیں پر رکھنا جائز نہیں ہے اور مالک سے دو روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک شافعی کے قول کے مطابق ہے جس مٰن نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھناجائز قرار دیا گیا ہے اور ابن القاسم والی روایت میں ہاتھ کھولنے کو مناسب تر بیان کیا گیاہے۔
-------------
١۔الاعلام :٢٢،تالیفات شیخ مفید کے ضمن میں یہ کتاب چھپ چکی ہے،ج٩؛کتاب التذکرة ٣:٢٥٣.
٢۔الانتصار :٢٢.
اور اس (مالک )سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا :مستحب نمازوں میں جب قیام طولانی ہو جائے تو ہاتھ باندھنا جائز ہے اوراگر طولانی نہ ہو تو جائز نہیں ہے جبکہ واجب نمازوں میں یہ جائز نہیں ہے ۔نیز لیث بن سعد کا بھی کہنا ہے :اگر تھکاوٹ محسوس ہو تو ہاتھ باندھ سکتے ہیں لیکن اگر تھکاوٹ نہ ہو اسے انجام نہ دیا جائے اور مالک کا بھی یہی قول ہے ۔
ہماری دلیل فرقہ امامیہ کا اجماع ہے اور نمازمیں ہاتھ باندھنے کے مبطل نمازہونے میں ان کے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا ۔نیز نماز میں کسی جزو کے ثابت ہونے کے لئے دلیل شرعی کی ضرورت ہوتی ہے جو شریعت مقدّسہ میں موجود نہیں ہے اور احتیاط کا تقاضابھی یہی ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے سے پرہیز کیا جائے چونکہ اس میں شک نہیں ہے کہ ایسی نماز جس میں ہاتھ نہ باندھے گئے ہوں وہ یقینا صحیح ہے اور دوسری جانب نماز کے صحیح ہونے کا یقین حاصل کرنا واجب ہے۔(١)
٤۔ شیخ بہائی: تکفیر یعنی دائیں ہاتھ کا بائیںپر قرار دینا جسے اہل سنّت بجالاتے ہیں اور اکثر فقہاء نے اس کے بارے میں کے پائے جانے کی وجہ سے اسے حرام قراردیا ہے، کیا یہ مبطل نماز ہے؟اکثر علماء اسے( مبطل نماز)سمجھتے ہیںبلکہ شیخ طوسیاور سید مرتضٰی نے تو اس اجماع ہونے کا دعوٰی کیا ہے۔(٢)
-------------
١۔الخلاف ١:١٠٩.
٢۔الحبل المتین :٤ ١ ٢؛ملاذالأخیار ٣:٥٥٣.
نماز میں ہاتھ باندھنے کا آغاز کہا گیا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا بھی خلیفہ دوم کی بدعات میں سے ہے جو اس نے عجمی قیدیوں سے لی۔
محقّق نجفی لکھتے ہیں :
((حکی عن عمر لمّا جیء بأسارٰی العجم کفّرومامہ ،فسأل عن ذلک ،فأجابوہ : بأنّا نستعملہ خضوعا وتواضعا لملوکنا ،فاستحسن ھو فعلہ مع اللہ تعالی فی الصلاة ،و غفل عن قبح التشبّہ بالمجوس فی الشرع)) (١)
بیان کیا گیا ہے کہ جب خلیفہ دوم کے پاس عجمی قیدیوں کو لایا گیا تو انہوں نے اس کے سامنے اپنے ہاتھوں کوہاتھوں پر رکھا ۔
خلیفہ نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو بتایا گیا کہ ہم اپنے بادشاہوں کے سامنے خضوع وخشوع کا اظہار کرنے کے لئے اس کرتے ہیں خلیفہ کو ان کا یہ عمل پسند آیا اور اس نے نماز میں خدا کے سامنے ایسا ہی کیا جبکہ وہ اس بات سے غافل رہا کہ شریعت میں مجوسیوں سے مشابہت جائز نہیں ہے!
البتہ ہمیں کتب تاریخ میں اس سلسلے میں کوئی دلیل نہیں ملی۔
-------------
١۔جواہر الکلام ١١:١٩؛مصباح الفقیہ ،کتاب الصلاة :٤٠٢.

۵
فقہا ئے اہل سنّت کے اقوال نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ فقہا ئے اہل سنّت کے اقوال ١۔مدونة الکبرٰی (ابن قاسم کے بقول امام مالک کا نظریہ ):
امام مالک نماز میں دائیں ہاتھ کے بائیں پر رکھنے کے بارے میں کہتے ہیںمیرے نزدیک واجب جائز نہیںہے۔
مالک اسے مکروہ سمجھتے لیکن مستحب نمازوں میں رکوع کے طولانی ہوجانے کی بنا پر اسے جائز قرار دیتے تھے ۔( ١)
٢۔ قرطبی : وہ کہتے ہیں کہ نماز میں ایک ہاتھ کے دوسرے پر رکھنے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے. مالک اسے واجب نماز میں مکروہ سمجھتے ہیں لیکن مستحب نماز میں جائز قرار دیتے ہیں ہیں.بعض کا خیال ہے کہ یہ نماز کے مستحبات میں سے ہے اور وہ جمہور اہل سنّت ہیں ۔ان کے اس اختلاف کی وجہ وہ پیغمبر ۖ کی نماز کے متعلق وہ ثابت شدہ آثار ہیں جن میں سے کسی ایک میں بھی اس (آنحضرت ۖ کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے) بارے میں اشارہ نہیں ہوا .دوسری جانب لوگوں کو اس کا حکم دیا گیا ہے روایت ابو حمید میں بیان ہوا ہے کہ پیغمبر ۖ یہ عمل بجا لایا کرتے تھے .
اس بنا پر بعض لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ جن روایا ت وآثار میں نماز میں ہاتھ باندھنا ثابت ہے ان میں ان روایات کی نسبت ایک زائد چیز کاتقاضا کیا گیا ہے جن میں ہاتھ باندھنا ثابت نہیں ہے پس واجب ہے کہ اس اضافہ کو بھی انجام دیا جائے ۔
اسی طرح بعض کا کہنا ہے کہ ان آثار پر عمل کیا جائے جن اضافہ نہیں ہے چونکہ ان روایات کی
-------------
١۔مدونة الکبرٰی ١:٧٦.
تعداد زیادہ ہے اس بنا پر نماز میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے اور یہ خدا وند متعال سے مدد طلب کرنے کے باب سے ہے اسور مالک بھی اسی وجہ سے اسے مستحب نماز میں جائز قرار دیتے جبکہ واجب میں اس کی اجازت نہ دیتے ...(١)
٣۔ کتاب بیان وتفصیل :اس کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں اپنے استاد سے پوچھا :کیاواجب یا مستحب نماز کے قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر رکھناصحیح ہے؟
محمد بن رشد کہتے ہیں: مالک کا یہ قول ((میں اس میں اشکال نہیں دیکھتا ))بغیر تفصیل کے واجب ومستحب نمازوں میں ہاتھ باندھنے کے جواز کو بیان کر رہا ہے ۔اور مدوّنة الکبرٰی میں ابن قاسم والی روایت میں یوں بیہان ہوا ہے کہ نماز میں اس کا ترک کرنا بہتر ہے چونکہ اس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ میں اسے واجب نماز میں جائز نہیں سمجھتا اورمالک اسے مکروہ سمجھتے مگر یہ کہ مستحب نماز میں قیام کے طولانی ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو تو اس کا انجام دینا جائز ہے اور بعض روایات میں یہ جملہ (اسے مکروہ سمجھتے) موجود نہیں ہے ا س جملے کو محذوف سمجھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مالک کے مذہب کے مطابق ہاتھ باندھنے کو ترک کرنا افضل ہے چونکہ ان کے اس قول((لعرف ذلک فی الفریضة ))کا معنٰی یہ ہے کہ میںاسے واجب نماز کے مستحبات یا سنّت ہونے میںسے جائز نہیں سمجھتا .
اور جہاں پہ یہ کہا ہے کہ اگر مستحب نماز میں قیام کے طولانی ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہو تو ایسی صورت میں تھکاوٹ دور کرنے کی خاطر ہاتھ باندھنے میں کوئی عیب نہیں ہے لیکن اگر واجب نماز میں قیام طولانی ہوجائے پھر بھی جائز نہیں ہے ،اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر مستحب نماز میں قیام طولانی
-------------
١۔بدایة المجتھد ١:١٣٦،ابن رشد قرطبی متوفٰی ٥٩٥ ہجری .
نہ ہوتو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے ۔اور اگر یہ جملہ ((کان یکرہ))موجود ہو تو اس کی دلالت تو بالکل واضح ہے ؛اس لئے کہ مکروہ کا معنٰی یہ ہے کہ اس کا ترک کرنا ثواب رکھتا ہے اور اس کے انجام دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔(١)
٤۔ نووی :ہم نے بیان کردیاہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہمارے مذہب میں سنّت ہے ... ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ،حسن بصری اور نخعی سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ۖ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے اور ایک کو دوسرے پر نہ رکھتے ۔قاضی ابو طیّب نے بھی ابن سیرین سے حکایت کی ہے اور لیث بن سعد نے بھی کہا ہے: کہ وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے لیکن اگر قیام طولانی ہوجاتا تو آرام حاصل کرنے خاطر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے۔جبکہ ابن قاسم نے مالک سے (ہاتھ کھولنے کو)نقل کیا ہے اور مشہور بھی یہی ہے اور تمام اہل مغرب اصحاب ہوں یا جمہور عوام سب کا یہی نظریہ ہے اور وہ نمازمسیئ(بھول جانے والے شخص کی نماز ) سے استناد کرتے ہیں .جس میں پیغمبر ۖ نے اسے نماز سکھائی لیکن اس میں ہاتھ باندھنے کے متعلق کچھ بیان نہیں کیا ...۔(٢)
اس بنا پر اس مسئلے میں تین اقوال موجود ہیں:
اوّل۔واجب اور مستحب نماز میں جائز ہے یعنی نہ تو ا سکا انجام دینا مکروہ ہے اور نہ ہی ترک کرنا مستحب ہے.یہ نظریہ اس روایت(نماز مسیئ)سے استفادہ ہوتا ہے۔
دوم۔ مکروہ ہے .اس کا واجب اور مستحب نماز میں ترک کرنا مستحب ہے مگر یہ کہ مستحب نماز میں قیام طولانی ہوجائے تو ایسی صورت میں ہاتھ باندھنا جائز ہے نہ مکروہ ہے اور نہ ہی مستحب اور یہ قول مالک کا
-------------
١۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤؛مرقاة المفاتیح قاری ٢:٥٠٨.
٢۔المجموع ٣:٣١٣.
ہے جسے مدوّنة الکبرٰی میںذکر کیا گیا ہے۔
سوم۔واجب اور نافلہ نماز میں اس کا انجام دینا مستحب ہے اور ترک کرنا مکروہ ہے ۔اور یہ قول مالک کا ہے جسے مطرف بن ماجشون (١)کی روایت میں نقل کیا گیا ہے۔(٢)
٥۔عینی: ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ، حسن بصری اور ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ وہ (نماز میں)ہاتھ کھلے رکھتے.اور اسی طرح مالک کے بارے میں بھی یہی معروف ہے اور اگر قیام طولانی ہو جاتا تو دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے۔
نیزلیث بن سعد کہتے ہیں : اوزاعی ہاتھ کھولنے اور باندھنے میں اختیا ر کے قائل تھے۔(٣)
٦۔شوکانی: وہ دار قطنی سے نقل کرتے ہیں کہ ابن منذر نے عبد اللہ بن زبیر ، حسن بصری اور نخعی کے بارے میںنقل کیا ہے کہ وہ نماز میں ہاتھ کھلے رکھتے اور دائیں ہاتھ کوبائیں پر نہ رکھتے۔نووی نے لیث بن سعد ، مھدی نے کتاب البحر میں قاسمیہ وناصریہ اور باقر سے اور ابن قاسم نے مالک سے اسی طرح نقل کیا ہے ۔( ٤)
-------------
١۔وہ مفتی مدینہ اور مالک بن انس کے شاگرد تھے .غنا کو بہت پسند کرتے اور علم حدیث سے بے بہرہ تھے ۔سیرعلام النبلائ١٠: ٣٦٠.
٢۔البیان والتحصیل ١:٣٩٤؛ مرقاة الأصول قاری ٢:٥٠٨.
٣۔عمدة القاری فی شرح صحیح بخاری ٥: ٢٧٨؛المغنی ١: ٤٧٢.
٤۔نیل الأوطار ٢:١٨٦؛المجموع ٣:٣١١؛المغنی ١:٥٤٩؛ شرح کبیر ١: ٥٤٩؛ المبسوط سرخسی ١:٢٣؛الفقہ علی المذاہب االأربعة١:١٥١.
٧۔ زحیلی : وہ کہتے ہیں:مالکی مذہب کے علاوہ جمہور علماء کہتے ہیں: نماز پڑھنے والے کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ تکبیر کے بعد اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر رکھے...۔
٨۔ مالک : مالکی مذہب کا یہ کہنا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ نماز میںوقار کی خاطر ہاتھ کھلے رکھے جائیں .اور مستحب نماز میں بغیر ضرورت آرام کی خاطر ہاتھ باندھنا مکروہ ہے .
اور مذہب مالک کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے: مالکی مذہب میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے مکروہ ہونے فتوٰی دینے کی وجہ اس فاسد عقیدے اوراس عمل سے جو (پیغمبر ۖ)کی طرف منسوب نہیں ہے یا اس عوام کے نماز میں ہاتھ باندھنے کے واجب سمجھنے والے عقیدے سے جنگ کرنا ہے ...۔(١)
-------------
١۔الفقہ الاسلامی وأدلّتہ ٢:٨٧٤.

۶
روایات اہل سنّت نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ روایات اہل سنّت پہلی روایت : البخاری :((...عنبی حازم،عن سھل:قال:کان النّاس یؤمرونن یضع الرّجل الید الیُمنٰی علی ذراعہ الیسرٰی فی الصّلاة .
قالبوحازم: لاأعلمہ الاّأن یُنمٰی ذلک النبّی ۖ قال اسماعیل: یُنمٰی ذلک ،ولم یقل ینمٰی)).(١)
صحیح بخاری:...ابو حازم نے سھل بن سعد سے نقل کیا ہے :لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں .ابوحازم کہتا ہے:میرا گمان نہیں ہے کہ یہ فعل پیغمبر ۖ کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب ہو۔
اسماعیل کہتے ہیں:نسبت تودی گئی ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ کس نے یہ نسبت دی ہے۔

روایت کے معنٰی میں غور یہ معلوم نہیں ہے کہ کس نے لوگوں کو نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اس حدیث کے راوی (ابو حازم)کو بھی یقین نہیں ہے کہ پیغمبر ۖ نے اس کا حکم دیا ہو اسی تو اس نے یہ کہا : مجھے نہیں معلوم مگر یہ کہ پیغمبر ۖ نے اس کا حکم دیا ہو ۔
پس یہ حدیث مرسل ہے اور اس کی دلالت بھی تنہا واضح ہی نہیں بلکہ اس میں ابہام بھی پایا جارہا ہے جیسا کہ عینی ،شوکانی اور اس حدیث کی شرح بیان کرنے والے دوسرے شارحین کے بیانات سے
-------------
١۔صحیح بخاری ١:١٣٥؛موطّ امام مالک ١:١٥٨.
یہی سمجھا جا رہا ہے۔
الف )عینی : اس حدیث میں لفظ ((یُنمٰی )) یا ء کے ضمہ اور میم کے فتح کے ساتھ مجہول کا صیغہ ہے جبکہ اسے یاء کے فتحہ کے ساتھ معلوم کا صیغہ نہیں پڑھا گیا ۔اس بنا پر یہ حدیث مرسل ہے چونکہ ابوحازم نے معیّن نہیں کیا کہ کس نے نسبت دی ہے اور اگر معلوم کاصیغہ ہو تو حدیث متصل ہے۔(١)
لہذاایسی حدیث جس کے اندر متعدد احتمالات پائے جارہے ہوں اس سے کسی عمل کے سنّت ہونے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس عمل کو یقین واطمینان کے ساتھ پیغمبر ۖ کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے ۔
ب)سیوطی:اسماعیل کہتے ہیں : یُنمٰی (شروع میں ضمہ اور میم پر فتح کے ساتھ) مجہول کا صیغہ ہے اوریہ نہیں کہا :لفظ ینمٰی معلوم کا صیغہ ہے اور اسماعیل وہی ابن ابی انس ہیں .(٢)
ج)شوکانی:بعض نے اس حدیث کو معیوب قراردیا ہے چونکہ خود ابو حازم کو بھی اس میں گمان تھا ...اور اگر یہ حدیث مرفوع یعنی صحیح ہوتی اور پیغمبر ۖ سے صادر ہوئی ہوتی تو پھر ابو حازم کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ (لاأعلمہ) میں نہیں جانتا!

دوسری روایت: روایت صحیح مسلم : ((زھیر بن حرب ،حدّثنا عفان ،حدّثنا ھمام ،حدّثنا محمد بن جحادة ،حدّثنی عبدالجبار بن وائل ومولٰی لھم ،انّھما حدثا ہ عنبیہ وائل بن حجر ،أنّہ رأی النبّی ۖ رفع یدیہ حین دخل فی الصلاة ،کبّر وصفّ
-------------
١۔عمدة القاری ٥:٢٧٨.
٢۔التوشیح علی الجامع الصحیح البخاری ١:٤٦٣.
ھمام حیالذنیہ ،ثمّ التحف بثوبہ ،ثمّ وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی.))
صحیح مسلم ...زہیر بن حرب نے عفّان سے ، اس نے ہمام سے ، اس نے محمد بن جحادہ سے ، اس نے عبدالجبار بن وائل سے ، اس نے علقمہ بن وائل سے ، اور ان کے غلام نے وائل بن حجر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسو ل خدا ۖ کو دیکھا جب نماز پڑھنے لگے تو اپنے ہاتھوں کوکانوں کے برابر بلند کیا ،تکبیر کہی اسکے بعد ہاتھوں کو چھپا لیا اور پھر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا ...۔ (١)

دلالت کے متعلق بحث : یہ کہنا ضروری ہوگا کہ اس حدیث کی دلالت روشن نہیں ہے اس لئے کہ اس میں پیغمبر ۖ کی موجودہ سنّت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جس سے یہ تشخیص نہیں دیا جا سکتا کہ یہ عمل واجب یا مستحب یا مباح ہونے ،یا اختیار یا مجبوری کی حالت میں بجا لایا گیا ہے .اور یہ کہ اس کا سبب کیا ہے ؟ کیا اسے ایک شرعی عمل سمجھ کر بجا لایا گیا یا یہ کہ عبا کو شانوں سے گرنے سے بچانے کی خاطر ایسا کیا گیا ؟یا اس کا سبب سردی اور تھکاوٹ تھا ؟

سند کے متعلق بحث : یہ روایت سند کے اعتبار سے مرسل ہے چونکہ اس کا راوی علقمہ بن وائل ہے جس نے اپنے باپ سے یہ روایت نقل کی ہے جبکہ اس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکا تھا ۔لہذاممکن نہیں ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی ہو ۔
ابن حجر کہتے ہیں : عسکری نے ابن معین سے حکایت کی ہے کہ اس نے کہا : علقمہ کی اپنے باپ سے
-------------
١۔ صحیح مسلم ١:١٥٠؛دارقطنی ١: ٢٨٦،ح٨اور١١.
روایات مرسل ہیں .(١).
نیز بعض کا کہنا ہے کہ وہ بہت چھوٹا تھا لہذا ممکن نہیں ہے کہ اپنے باپ کی نماز کو درک کیا ہو ۔(٢)
بہر حال دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اس لئے کہ جو اپنے باپ کی نماز کو درک نہیں کر سکتا وہ اس سے حدیث کو کیسے درک کر پائے گا ! اس کے علاوہ لفظ ((مولٰی لھم یعنی ان کا غلام )سندروایت میں موجود ہے جس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ غلام کون ہے؟(٣)

٣۔تیسری روایت : الموطّأ :((حدّثنی یحیٰی بن مالک ،عن عبدالکریم بنبی المخارق البصریّنّہ قال: من کلام النبوّة (( اذا لم تستحیی فافعل ماشئت ووضع الید ین احداھما علی الأخرٰی فی الصّلاة (یضع الیمنٰی علی الیسرٰی )وتعجیل الفطر...)).
موطّأ امام مالک میں مالک بن انس نے عبدالکریم بنبی المخارق بصری سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :نبوّت کے حکمت آمیز کلمات میں سے ایک یہ ہے کہ اگر شرم وحیا نہیں ہے تو جو چاہو کرو اور نماز میں ہاتھ باندھنا ہے ...۔
ابن عبداللہ کہتا ہے :((یضع الیُمنٰی علی الیُسرٰی ،دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا ))یہ مالک
بن انس کا کلام ہے نہ کہ حدیث کا حصّہ ہے۔(٤)
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٧:٢٤٧؛ تہذیب الکمال ١٣: ١٩٣(حاشیہ پر).
٢۔تہذیب التہذیب ٨:٣١٤.
٣۔شاید یہاں پہ مولٰی سے مراد ولاء ضمان جریرہ ہو یا کوئی دوسرا معنی مراد ہو.
٤۔موطّأ امام مالک ١: ١٥٨؛ صحیح بخاری ٢:٢٦٣،کتاب الأنبیائ.
اس روایت کی سند کے متعلق : ١۔ اس روایت کی سند میں عبدالکریم بن ابی المخارق ہے جس کے بارے میں معمر نے ایوب سے نقل کیا ہے کہ وہ ثقہ نہیں ہے اور عبدالرحمٰن بن مہدی نے اسے پر ہیز گار نہ ہونے سے متّہم کیا ہے .نیز احمد بن احمد اور ابن معین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ابن حبان نے اسے کثر الوہم ،کثیر الخطا اور ناقابل احتجاج شمار کیا ہے ...اور ابن عبد البرّ کا کہنا ہے کہ اس کے ضعیف ہونے پر اجماع موجود ہے یہی وجہ ہے کہ مالک نے احکام پر مشتمل روایات کو اس سے نہیں لیا اور جو کچھ اس سے نقل کیا ہے وہ فقط مستحبّات میں ہے۔(١)

چوتھی روایت : نصر بن علی نے ابواحمد سے ،اس نے علاء بن زرعہ بن عبدالرّحمٰن سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن زبیر سے سنا ہے کہ وہ کہا کرتا :(( صفّ القدمیں ووضع الیدعلی الید من السّنة ))نماز میں پاؤں کو برابررکھنا اور ایک ہاتھ کا دوسرے ہاتھ پر سنّت ہے۔(٢)

چند نکات اوّل : یہ روایت ابن زبیر کی نماز والی اس روایت سے متعارض ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نماز میں اپنے ہاتھ کھلے رکھتا ۔
دوم:اس روایت کی نسبت پیغمبر ۖ کی طرف نہیں دی گئی ۔
سوم: اس روایت کی سند میں علاء بن صالح تمیمی اسدی کوفی ہے جس کے بارے میں بخاری کہتے ہیں: لایتابع ،اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔
-------------
١۔تہذیب الکمال ١٢:١١؛ التہذیب التہذیب ١٦: ٣٢٦.
٢۔سننبی داؤد ١:٢٠١.
ابن المدینی کہتے ہیں:وہ منکر روایات کو نقل کرتا ہے...۔(١)

پانچویں روایت : محمد بن بکار بن ریّان نے ہشیم بن بشیر اس نے حجّاج بن ابی زینب ،اس نے ابو عثمان نہدی اورا س نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے :
((أنّہ کان یصلّی فوضع یدہ الیسرٰی علی الیُمنٰی ،فرآہ النبّی ۖ فوضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی .)) (٢)
وہ نما ز پڑھتے وقت اپنا بایاں ہاتھ دائیں پر رکھا کرتا ،پیغمبر ۖ نے دیکھا تو اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کے بائیں ہاتھ پر رکھ دیا۔
اس حدیث کی سند میں ہشیم بن قاسم ہے جو احادیث میں ملاوٹ اور ان میں کمی بیشی کرنے میں بدنام ہے اوراپنی عمر کے آخری ایام ہوش وحواس بھی کھو بیٹھا تھا ۔
یحییٰ بن معین نے اس کے بارے میں کہا ہے : علم تو اس کے پاس تھا نہیں .سر سے کیا نکلتا تھا یعنی زبان پرکیا جاری کرتاہے ۔(٣)
اس بنا پر اس کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے اور اس کی روایت بھی قابل قبول نہیں ہے ۔
اسی طرح اس روایت کی سند میں حجاج بن ابی زینب سلمی (ابو یوسف صیقل واسطی ) ہے جسے اہل سنّت کے ہاں ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔
نیز احمد بن حنبل کا کہنا ہے : مجھے اس کی روایات کے ضعیف ہونے کا خوف ہے۔
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٨:١٦٤؛سننبی داؤد ١:٢٠١.
٢۔ سنن ابو داؤد ١:٢٠٠؛سنن ابن ماجہ ١:٢٦٦.
٣۔تہذیب التہذیب ١١:٥٦.
نسائی کہتے ہیں: وہ قوی نہیں ہے اور دارقطنی کا کہنا ہے: وہ حافظ وقوی نہیں ہے ۔(١)

چھٹی روایت : محمد بن محبوب نے حفص بن غیاث ،اس نے عبدالرّحمٰن اسحٰق سے ، اس نے زیاد بن زید ،اس نے ابی جحیفہ ،اس نے حضرت علی علیہ السّلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا :(( السنّة وضع الکفّ علی الکفّ فی الصلاة تحت السّرة ))
نماز میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھنا سنّت ہے .(٢)
اس حدیث کی سند میں زیاد بن زید ہے جو مجہول ہے جیسا کہ عسقلانی کے بقول ابو حاتم نے اس کی وضاحت کر دی ہے .نیز تہذیب التہذیب میں بھی بیان ہوا ہے :زیاد بن زید سوائی اعسم کوفی کے بارے میں ابو حاتم نے کہا ہے: وہ مجہول شخص ہے ۔ابوداؤد نے بھی اس سے حضرت علی علیہ السّلام کی ایک ہی روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا : نماز میں زیر ناف ہاتھ کا ہاتھ پر رکھنا سنّت ہے ۔(٣)
بخاری کہتے ہیں:اس میں غور کی ضرورت ہے ۔نیز اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ہے جس کے ضعیف ہونے کے بارے میں علماء کا اتفاق ہے ۔(٤)

ساتویں روایت: محمد بن قدامہ (ابن اعین )نے ابی طالوت عبدالسلام سے ،اس نے ابو جریر ضبی سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے :
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٣:٣١٨.
٢۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛دارقطنی ١:٢٨٦؛ سنن کبرٰی ٢:٤٣.
٣۔ تہذیب التہذیب ٣:٣١٨.
٤۔تہذیب الکمال ١١:٩٩.
((رأیت علیا یمسک بیمینہ علی الراسغ فوق السّرة ))
میں نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ سے زیر ناف پکڑے ہوئے تھے ۔
اس روایت کی سند میں ابوطالوت یعنی عبدالسلام نھدی ہے جس کے بارے مین ابن سعد کا کہنا ہے : وہ روایت کے نقل کرنے میں ضعیف ہے ۔ (١)
نیز اس روایت کی سند میں ابن جریر ضبی ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتا ہے:میں نے میزان الاعتدال میں ذہبی کے ہاتھ سے لکھا دیکھا ہے کہ یہ شخص ناشناختہ یعنی مجہول ہے ۔(٢)

آٹھویں روایت : مسدّد ...نے عبدالرحمن بن اسحاق کوفی سے ،اس نے سیار ابی حکم سے ،اس نے ابووائل سے ، اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
((أخذ الأکف علی الأکف فی الصلاة من السّنة ))
نماز میں ایک ہتھیلی کا دوسری پر رکھنا سنّت ہے ۔(٣)
اسی طرح دار قطنی نے تھوڑے سے اختلاف کے سا تھ لکھا ہے :نماز میں ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے ہاتھ پر رکھنا سنّت ہے ۔(٤)
یہاں پہ یہ ذکر کردینا ضروری ہے کہ اس روایت کی سند میں عبد الرحمن بن اسحاق کوفی ہے جو علمائے
-------------
١۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛ نیل الأوطار ٢:١٨٨.
٢۔تہذیب التہذیب ٢:٦٧.
٣۔سنن ابوداؤد ١:٢٠١؛نیلوطار ٢:١٨٨.
٤۔سنن دار قطنی ١:٨٤.
رجال کے نزدیک ضعیف ہے ۔
ابن معین کہتے ہیں: وہ ضعیف ،ناچیز اور بے ارزش انسان ہے ۔ابن سعد ،یعقوب بن سفیان ، ابوداؤد ،نسائی اورابن حبان نے اسے ضعیف شمار کیا ہے اور بخاری نے کہا ہے : اس میں غور کی ضرورت ہے۔(١)
اس کے علاوہ ابوہریرہ نے اس عمل کی نسبت پیغمبر ۖ کی طرف نہیںدی ہے ۔اس طرح کے مشابہ موارد موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ اس نے انہیں پیغمبر ۖ سے نہیں سنا بلکہ کسی نے اس سے نقل کئے ہیںاور ابوہریرہ نے بھی اس شخص کا نام نہیں لیا .مثال کے طور پر یہ حدیث :((منصبح جنبا فلا صیام لہ))جوشخص جنابت کی حالت میں اٹھے تو اس کا روزہ باطل ہے ۔فانّہ لمّا حوقق علیہ قال:خبرنیہ مخبر ولمسمعہ من رسول اللہ.
ۖ.جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا تم نے خود یہ حدیث پیغمبر ۖ سے سنی ہے تو کہا :نہیں ،مجھ سے کسی نے نقل کی ہے ۔( ٢)

نویں روایت : ابو توبہ نے ہیثم (ابن حمید ) سے ،اس نے ثور سے ،اس نے سلیمان بن موسٰی اوراس نے طاؤس سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:((کان رسول اللہ ۖ یضع یدہ الیُمنٰی علی یدہ الیسرٰی ،ثمّ یشدّ بینھما علی صدرہ ،وھو فی الصّلاة )).
رسول خد ا ۖ نماز پڑھتے وقت اپنے سینے پر دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا کرتے۔(٣)
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٦:١٢٤.
٢۔تاریخ دمشق ١٩:١٢٢؛البدایة والنھایة ٨:١٠٩؛سیرأعلام النبلاء ٢:٦٠٨.
٣۔سنن ابو داؤد ١:٢٠١.
چند اشکال پہلا اشکال:
اس روایت کا راوی طاؤس تابعی ہے جس نے پیغمبر ۖ کو نہیں دیکھا اس اعتبار سے یہ روایت مرسل ہے .

دوسرا اشکال :
اس روایت کی سند میں ہیثم بن حمید ہے جسے ابو داؤد اور ابو مسہّر (١ ) نے ضعیف قراردیا ہے ۔ابومسہّر کہتے ہیں: وہ (علم وحدیث ) میں ماہر اور حافظ نہیں تھا میں اس سے حدیث نقل کرنے میں اجتناب کرتا ہوں اور اسے ضعیف سمجھتا ہوں.(٢)

دسویں روایت : ترمذی نے ابوالأحوص ،اس نے سماک بن حرب ،اس نے قبیصة بن ہلب اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
((کا ن رسو ل اللہ ۖ یؤمّنا فیأخذ شمالہ بیمینہ ))
پیغمبر ۖ نے ہمیں با جماعت نماز پڑھائی جبکہ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑا ہو اتھا(٣)
اس روایت کی سند میں قبیصہ بن ہلب یعنی قبیصہ بن یزید طائی ہے اور ابن مدینی و نسائی کے بقول وہ مجہول ہے۔(٤)

گیارہویں روایت : ابن ماجہ نے علی بن محمد سے ،اس نے عبداللہ بن ادریس ،اس نے بشر بن
-------------
١۔اس کا نام عبدالاعلی بن مسہّر غسّانیدمشقی ہے وہ ١٤٠ھ سے ٢١٨ھ میں تھا.
٢۔تہذیب التہذیب ١١:٨٢.
٣۔جامع ترمذی ٢:٣٢.
٤۔تہذیب التہذیب ٧:٢٤٧؛تہذیب الکمال ١٥:٢٢١.
معاذ ضریر ،اس نے بشر بن مفضل ،اس نے عاصم بن کلیب ،اس نے اپنے باپ سے ،اس نے وائل بن حجر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:
((میں نے پیغمبر ۖ کو نماز کی حالت میں دیکھا وہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو تھامے ہوئے تھے ۔(١)
یہاں پہ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ سنن ابن ماجہ کی بہت سی روایات ضعیف ہیں. ابن حجر کہتے ہیں: اس کی کتاب سنن میں جامع اور ابواب وغرائب میں اچھی ہے لیکن اس کی بہت زیادہ روایات ضعیف ہیں یہاں تک کہ میں نے سنا ہے سرّی نے کہا : جب بھی اس کتاب میں کوئی منفرد روایت بیان ہو تو وہ کئی ایک اعتبار سے ضعیف ہے ۔
ابو زرعہ کہتے ہیں:(( لیس فیہ الاّ نحو سبعةحادیث ))اس (کتاب) میں فقط سات احادیث صحیح ہیں... ۔(٢)
ذہبی کہتے ہیں: سنن ابن ماجہ کے اندر ان روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے جو حجیت نہیں رکھتیں اور شاید ان کی تعداد ایک ہزار تک پہنچتی ہو۔(٣)
اس کے علاوہ ابو داؤد نے عاصم بن کلیب کی اپنے باپ اور دادا سے نقل کی جانے والی روایات کو بے اعتبار جانا ہے ۔(٤).
-------------
١۔سنن ابن ماجہ ١:٢٦٦.
٢۔تہذیب التہذیب ٩:٤٦٨.
٣۔سیرعلام النبلاء ١٣:٢٧٩.
٤۔تہذیب الکمال ١٥:٤١٢؛((عاصم بن کلیب عنبیہ عن جدّہ لیس بشیء )).

۷
روایات اہل سنّت نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ بارہویں روایت : دارمی نے ابونعیم سے،اس نے زہیر سے ،اس نے ابواسحاق سے ،اس نے عبدالجبار بن وائل سے ،اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:
((رأیت رسول اللہ ۖ یضع یدہ الیُمنٰی علی الیسرٰی قریبا من الرّسغ ))
میں نے رسو ل خدا ۖ کو دیکھا کہ وہ اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے قریب رکھے ہوئے تھے ۔(١)
یہاں پہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ عبدالجبار بن وائل نے اپنے باپ سے روایت نہیں سنی ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر چکا تھا ۔
ابن حبان الثّقات میں لکھتے ہیں :جو شخص یہ گمان کرے کہ ابن وائل نے اپنے باپ سے روایت سنی ہے تو یہ وہم کے سوا کچھ نہیں ہے اس لئے کہ وہ اپنی ماں کے شکم میں تھا جب اس کے باپ کی وفات ہوئی۔
نیز بخاری کہتے ہیں:یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے پیدا ہونے سے پہلے مر چکا تھا ۔
ابن سعد کہتے ہیں: ...اس کے بارے میں ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ اس نے اپنے باپ سے روایت سنی اور دوسری طرف یہ کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا !
ابو حاتم ،ابن جریر طبری ، جریری ، یعقوب بن سفیان ، یعقوب بن شیبہ ،دار قطنی ، حاکم اور ان سے پہلے ابن مدینی وغیرہ نے اسی سے ملتے جلتے مطالب نقل کئے ہیں۔(٢)
-------------
١۔سیرأعلام النبلاء ١٣:٢٧٩.
٢۔ تہذیب التہذیب ٦:٩٦.
تیرہویں روایت : دار قطنی میں ابو محمد صاعد نے علی بن مسلم سے ،اس نے اسماعیل بن ابان ورّاق سے ، اس نے مند ل ،اس نے ابن ابی لیلٰی ،اس نے قاسم بن عبدالرحمن ،اس نے اپنے باپ اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے:
((انّ النّبی کان یأخذ شمالہ بیمینہ فی الصلاة ))
پیغمبر ۖ نماز میں اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑ کر رکھتے۔(١)
اس حدیث کی سند میں مندل یعنی ابن علی عنزی ہے جو اہل سنّت کے ہاں ضعیف شمار کیا گیا ہے نیز بخاری نے بھی اسے ضعفاء میں سے شمار کیا ہے .نسائی کہتے ہیں : وہ ضعیف ہے ۔ابن سعد کہتے ہیں : اس میں ضعف پایا جاتا ہے ۔جوزجانی کہتے ہیں: اس کی روایات سست ہیں اس لئے کہ وہ منکرا ور غریب روایات کو نقل کرتا ہے ۔ابن قانع اور دار قطنی کا کہناہے : وہ ضعیف ہے ۔ابن حبان کہتے ہیں: وہ حافظہ کی کمی وجہ سے مرسل کو مرفوع اورموقوف کو مسند شمار کیا کرتا ،لہذا حق یہ ہے کہ اس کی روایت کو ترک کیا جائے ۔
نیز طحاوی کہتے ہیں : وہ کسی طرح روایت کے نقل کرنے میں مضبوط نہیں ہے اور اس کی روایت سے استدلال کرنا ممکن نہیں ہے۔(٢)

چودہویں حدیث : دارقطنی میں عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز نے شجاع بن مخلد ،اس نے منصور ،اس نے محمد بن ابان انصاری ،اس نے حضرت عائشہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتی ہیں:
-------------
١۔دار قطنی ١:٢٨٣،ح١.
٢۔تہذیب التہذیب ١:٢٦٦.
((ثلاثة من النبوّة ...ووضع الید الیُمنٰی علی الیسرٰی فی الصّلاة ))
نبوّت کی خصوصیات میں سے تین چیزیںہیں:
....حالت نماز میں دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا ۔(١)
اس حدیث کی سند میں محمد بن ابان انصاری ہے جس کا حضرت عائشہ سے نقل کرنا ممکن نہیں ہے لہذا یہ روایت مرسل ہے ۔(٢)
ذہبی نے بخاری سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہوہ کہتے ہیں:((لایعرف لہ سماع منھا ))معلوم نہیں ہے کہ اس نے حضرت عائشہ سے روایت سنی ہو ۔(٣)
اسی طرح ہشیم (ابن منصور ) جو اس روایت کی سند میں موجود ہے اس کے ضعیف ہونے کے بارے میں پہلے بیان کر چکے ہیں۔(٤)

پندرہویں روایت: دار قطنی نے ابن صاعد ،اس نے زیاد بن ایوب ،اس نے نصر بن اسماعیل ،اس نے ابن ابی لیلٰی ،اس نے عطا ،اس نے ابوہریرہ اور اس نے رسول اکرم ۖ سے نقل کیا ہے کہ آپ ۖ نے فرمایا :
((أُمرنا معاشرالأنبیاء ...ونضرب بأیمانناعلی شمائلنا فی الصلاة ))
ہم انبیاء کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھیں۔(٥)
-------------
١۔دار قطنی ١:٢٨٤،ح٢.
٢۔دار قطنی ١:٢٨٤.
٣۔میزان الاعتدال ٣:٤٥٤.
٤۔ تہذیب التہذیب ١١:٥٦.
٥۔سنن دار قطنی ١:٢٨٤،ح٣.
اس حدیث کی سند میں نضر بن اسماعیل یعنی ابو مغٰرہ ہے ،احمد ،نسائی اور ابو زرعہ نے اس کے متعلق کہا ہے: وہ قوی نہیں ہے اسی ایک قول کے مطابق ابن معین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
ابن حبّان کہتے ہیں: اس کے اشتباہات واضح اور اس کے وہم وخیالات بہت زیادہ ہیںلہذااسے ترک کرنا ہی حق ہے ۔
حاکم نیشاپوری کہتے ہیں: وہ ان (اہل سنّت)کے ہاں قوی نہیں ہے ۔ساجی کا کہنا ہے : اس کی روایات غریب ہیں ۔(١)

سولہویں روایت :
دارقطنی نے ابن سکین سے ، اس نے عبدالحمید بن محمد،اس نے مخلدبن یزید ، اس نے عطا،اس نے ابن عباس اور اس نے پیغمبر ۖ سے نقل کیا ہے کہ آپۖ نے فرمایا:
((انّامعاشر الانبیا ءمرنا...أن نمسک بأیماننا علی شمائلنا فی الصلاة ))
ہم انبیاء کی جماعت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ...نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیںپر رکھیں ۔(٢)
اس حدیث کی سند میں طلحہ (بن عمر و بن عثمان حضرمی کوفی )ہے جسے تمام علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
احمد کہتے ہیں : اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اوراس کی روایات متروک ہیں ۔
ابن معین کا کہناہے: اس کا کوئی مقام نہیں اور وہ ضعیف ہے ۔نیز جوزجانی کہتے ہیں: اس کی روایات سے کوئی بھی راضی نہیں ہے ۔
ابوحاتم کہتے ہیں:وہ قوی نہیں ہے اور اہل سنّت کے ہاں اسے ضعیف قراردیا گیا ہے ۔ابوداؤد کہتے
-------------
١۔تہذیب التہذیب ١٠:٣٨٨.
٢۔سنن دار قطنی ١:٢٨٤،ح٣.
ہیں: وہ ضعیف ہے ۔نسائی کا کہناہے:اس کی احادیث متروک ہیں ،بخاری کہتے ہیں: اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے،یحیٰی بن معین بھی اس کے بارے میں منفی نگاہ رکھتا تھا ، ابن سعد کہتے ہیں : ا سکی احادیث بہت ضعیف ہیں۔
ابن مدینی کہتے ہیں وہ ضعیف ہے اور اس کا کوئی مقام نہیں ہے ،ابوزرعہ ، عجلی اور دار قطنی کہتے ہیں: وہ ضعیف ہے ،فسوی نے اسے ان افراد میں ذکر کیا ہے جن کی روایت پر توجہ نہیں دی جاتی ۔
ابن حبّان کہتے ہیں: اس نے ثقہ افراد سے کچھ نقل نہیں کیا مگر یہ کہ ایسی چیزیں جن کا لکھنا جائز نہیں تھا اور اس سے ایسی روایات کو تعجب کے طور پر نقل کیا گیا ہے ۔(١)

سترہویں روایت: دار قطنی نے محمد بن مخلد سے ،اس نے محمد بن اسماعیل حسانی ، اس نے وکیع ،اس نے یزید بن زیاد بن ابی جحد،اس نے عاصم جحدری ،اس نے عقبہ بن ظہیر ،اس نے حضرت علی علیہ السّلام سے نقل کیا ہے آپ نے (فصلّ لربّک وانحر ) کے بارے میں فرمایا : وضع الیمین علی الشمال فی الصلاة .اس سے مراد نماز میں دائیں ہاتھ کا بائیں پررکھنا ہے .(٢)
اس روایت کی سند مین وکیع ہے جس کے بارے میںیہ کہا گیا ہے کہ اس نے پانچ سو روایات میںخطا کی ہے ۔(٣)
نیز مروزی نے کہا ہے : وہ اپنی عمر کے آخری ایام میں زبانی احادیث نقل کیا کرتا اور الفاظ میں تبدیلی کربیٹھتا ،گویا وہ احادیث کے مفہوم کونقل کیا کرتا اوراسے عربی زبان پر بھی آشنائی نہیں تھی۔( ٤)
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٥:٢١.
٢۔دار قطنی ١:٢٨٥.
٣۔تہذیب التہذیب ١١:١١٤.
٤۔تہذیب التہذیب ١١:١١٤.

۸
روایات اہل سنّت نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ اٹھارہویں روایت : دار قطنی نے احمد بن محمد بن جعفر جوزی سے ،اس نے مضر بن محمد سے ،اس نے یحیٰی بن معین سے ، اس نے محمد بن حسن واسطی سے ، اس نے حجاج بن ابی زینب سے،اس نے ابوسفیان ، اس نے جابر سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا ہے:
((مرّ رسول اللہ ۖ برجل وضع شمالہ علی یمینہ ...مثلہ ))
رسو ل خدا ۖ ایک شخص کے پاس سے گذرے جس نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا ہوا تھا ...پس آنحضرت ۖ نے اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر بائیں پر رکھ دیا ۔(١)
اس حدیث کی سند میں حجاج بن ابی زینب موجود ہے جس کا ضعیف ہوناپہلے بیان کر چکے ۔

انیسویں روایت : دار قطنی نے ایک اور مقام پر حجاج بن ابی زینب واسطہ سے ابن مسعود سے نقل کیا ہے اور یہ روایت بھی سابقہ روایت کی مانند ہے جو ابن ابی زینب کی وجہ سے ضعیف ہے ۔(٢)

بیسویں روایت : حسن بن خضر نے محمد بن احمد ابوالعلاء سے ،اس نے محمد بن سوار ،اس نے ابوخالد احمد ،اس نے حمید ،اس نے انس سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
(کان رسول اللہ ۖ اذا قام فی الصلاة ،قال:ھکذاوھکذا عن یمینہ وعن شمالہ )
پیغمبر ۖ جب بھی نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے دائیں بائیں والوں سے یہ فرماتے کہ یوں اور یوں کھڑے ہوں...۔ (٣)
-------------
١۔سنن دارقطنی ١:٢٨٧اور ١٣،ح١٤؛مسند احمد ٣:٣٨١.
٢۔سنن دارقطنی ١: ٢٨٧اور ١٣،ح١٤.
٣۔سنن دار قطنی ١:٢٨٧،ح١٥.
اس روایت کی سند میں ابو خالد احمد (سلیمان بن حیان ازدی)موجود ہے جس کے حافظ وضابط ہونے کے بارے میں بعض نے اعتراض کیا ہے ۔
ابن معین کہتے ہیں: وہ حجت نہیں ہے ،ابوبکر بزاز نے اپنی کتاب سنن میں کہا ہے :وہ ان افراد میں سے نہیں ہے جن کی روایات حجت ہوںاس لئے کہ علماء کا اس کی روایات کے اتفاق ہے کہ وہ حافظ نہیں تھا اسی طرح اعمش اور دوسرے ایسے افراد سے روایات کو نقل کیا کرتا (جن کی روایات پر کوئی توجہ نہ دیتا )۔(١)
اس کے علاوہ یہ حدیث موضوع بحث پر دلالت بھی نہیں کررہی چونکہ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ پیغمبر ۖ اپنے دائیں بائیں افراد سے یہ فرماتے کہ یوں یوںکھڑے ہوں،جبکہ اس کا نماز میں ہاتھ باندھنے سے کوئی ربط نہیں ہے ۔

اکیسویں روایت: احمد بن حنبل نے محمد بن حسن واسطی (مزنی)سے ،اس نے ابو یوسف حجاج ،اس نے ابن ابی زینب صیقل ،اس نے ابو سفیان ،اس نے جابر سے نقل کیا ہے:
((مرّ رسول اللہ ۖ برجل وھویصلی وقد وضع یدہ الیسرٰی علی الیمنٰی فانتزعھا ووضع الیُمنٰی علی الیسرٰی ))
پیغمبر ۖ نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں پررکھے ہوئے تھا ،آنحضرت ۖ نے فورا اس کے دائیں ہاتھ کو اس کے بائیں پر رکھ دیا ۔(٢)
١۔ یہ وہی دار قطنی والی اٹھارہ نمبر حدیث ہے ۔
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٤:١٦٠.
٢۔مسند احمد بن حنبل ٣:٣٨١.
٢۔اس روایت کی سند میں بھی ابویوسف حجاج ہے جس کے بارے میں علمائے رجال نے غور سے کام لیا ہے ۔
احمد بن حنبل اس کے بارے میں کہتے ہیں: مجھے اس کی روایات کے ضعیف ہونے کا خوف ہے،ابن مدینی کہتے ہیں: وہ ضعیف ہے۔
نیز نسائی نے کہا ہے :وہ قوی نہیںہے،دار قطنی کہتے ہیں:نہ تووہ روایت نقل کرنے میںقوی تھا اور نہ ہی حافظ ۔(١)
اسی طرح اس روایت کی سند میں محمد بن حسن واسطی ہے جس کے بارے میں بحث واقع ہوئی ہے اور ابن حبّان نے اسے ضعفاء کی فہرست میں ذکر کرتے ہوئے اس کے متعلق کہا ہے:
وہ احاد یث کی سند میں کمی واضافہ کرتا۔(٢)
-------------
١۔تہذیب التہذیب ٢:١٧٧؛سیرعلام النبلاء ٧:٧٥.
٢۔تہذیب التہذیب ٩:١٠٤.

۹
روایات اہل سنّت نماز میں ہاتھ کھولیں یاباندھیں؟ بحث کا خلاصہ وہ تمام روایات جن سے نماز میں ہاتھ باندھنے کااستفادہ ہوتا ہے دلالت یا سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے اشکال سے خالی نہیں ہیں۔
پہلی روایت : اسے بخاری نے نقل کیا ہے اور اس کی دلالت میں مشکل کے علاوہ اس کے مرسل ہونے کا شبھہ بھی موجود ہے اور پھر اس کا پیغمبر ۖ کی طرف منسوب ہونا(جیسا کہ عینی اور شوکانی نے
اس کی وضاحت کی ہے) بھی ثابت نہیں ہے ۔
دوسری روایت:اسے صحیح مسلم میں نقل کیا گیا ہے جس کی سند میں علقمہ بن وائل موجود ہے جو اپنے باپ سے نقل کررہا ہے لہذایہ روایت بھی مرسل ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کی پیدائش سے پہلے ہی مر چکا تھا ۔
تیسری روایت:اسے مالک بن انس نے نقل کیا ہے اس کی سند میں ابن ابی المخارق ہے جو ضعیف ہے ۔
چوتھی روایت :اسے ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کے راویوں میں سے ایک علاء بن صالح ہے جس کی روایت پرتوجہ نہیں دی جاتی ؛(یعنی قابل قبول نہیں ہے )جیسا کہ بخاری نے بھی اس کی تصریح کردی ہے اور پھر یہ روایت ابن زبیر والی روایت سے متعارض بھی ہے ۔
پانچویں روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں ہشیم موجود ہے جوروایات میں ملاوٹ اور تصرّف کیا کرتا ،نیز اواخر میں ہوش وحواس کھو بیٹھا تھا ۔اسی طرح اس روایت کا ایک راوی حجاج ہے جو ضعیف ہے ۔
چھٹی روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں زیادبن زید ہے جو مجہول ہے اور پھر اس سند میں عبدالرحمن بن اسحاق بھی ہے جس کے ضعیف ہونے پر علماء کا اتفاق ہے ۔
ساتویں روایت:اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں طالوت ہے اس کی احادیث ضعیف ہیں ۔اسی طرح ضبّی بھی اس سند میں موجود ہے جو مجہول اور ناشناختہ راوی ہے ۔
آٹھویں روایت :یہ روایت بھی ابوداؤد نے نقل کی ہے جس کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق ہے جو ضعیف ہے ۔
نویں روایت : اسے بھی ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کی سند میں ہشیم ہے جو ضعیف ہے اس کے علاوہ یہ روایت مرسل بھی ہے چونکہ طاؤس تابعی ہے جس نے پیغمبر ۖ کو نہ تو دیکھاہے اور نہ ہی ان سے روایت نقل کی ہے ۔
دسویں روایت :یہ روایت ترمذی نے نقل کی ہے جس کی سند میں قبیصہ ہے جو مجہول ہے ۔
گیارہویں روایت:اسے ابن ماجہ نے نقل کیا ہے جبکہ سنن ابن ماجہ کی روایات سات کے علاوہ سب ضعیف ہیں اس کے علاوہ اس کا راوی عاصم بن کلیب بھی ضعیف ہے ۔
بارہویںروایت: اسے دارمی نے نقل کیا ہے جس کی سند میں عبدالجبار ہے جو اپنے باپ سے نقل کر رہا ہے لہذایہ روایت مرسل ہے اس لئے کہ اس کا باپ اس کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی مر چکا تھا پس اس نے اپنے باپ سے روایت نہیں سنی ۔
تیرہویں روایت:یہ دار قطنی کی روایت ہے جس میں مندل ہے جو ضعیف ہے ۔
چودہویں روایت :اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے اس میں محمد بن ابان انصاری ہے جس کا حضرت عائشہ سے روایت نقل کرنا درست نہیں ہے پس یہ روایت مرسل ہے نیز اس روایت کی سند میں ہشیم ہے جو ضعیف ہے۔
پندرہویں روایت:اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے جس میں نضر بن اسماعیل ہے جو ضعیف ہے ۔
سولہویں روایت:اس کی سند میں طلحہ ہے جسے سب علماء نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
سترہویں روایت:اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے جس میں وکیع موجود ہے یہ وہ شخص ہے جس نے پاچ سو حدیث میں خطا کی ہے ۔
اٹھارہویں اور انیسویں روایت:اسے دار قطنی نے نقل کیا ہے ان دونوں روایات کی سند میں حجاج بن ابی زینب ہے جو ضعیف ہے ۔
بیسویں روایت: اسے بھی دار قطنی نے نقل کیا ہے اس کی سند میں ابوخالد احمد ہے جس کے بارے بہت کچھ کہا گیا ہے اور اس کی حدیث بھی حجت نہیں ہے ۔
اور پھر دلالت کے اعتبار سے بھی یہ روایت واضح نہیں ہے کہ اس سے مراد نماز میں ہاتھ باندھنا ہو۔
اکیسویں روایت : یہ وہی اٹھارہویں روایت ہے جسے دارقطنی نے تکرار کے ساتھ نقل کیا ہے اور پھر اس کی سند مین ابو یوسف حجاج ہے جسے ضعیف قرار دیا گیا ہے ۔
اس بنا پر وہ دلائل جن پر اعتماد کرتے ہوئے نما ز میں ہاتھ باندھنے کی نسبت پیغمبر ۖ کی طرف دی جا سکتی ہے ان کا کوئی وجود نہیں رہ جاتا۔اور پھر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بخاری اور مسلم نے بھی ان روایات پر توجہ نہ دیتے ہوئے انہیں اپنی اپنی کتب میں ذکر کرنے سے اجتناب کیا ہے اور یہ خود ان روایات کے غیر معتبر ہونے کی دلیل یا تائید ہے خاص طور پر ان افراد کے لئے جو کسی روایت کے بخاری یا مسلم میں ذکر نہ ہونے کو اس کے ضعیف ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ بعض صحابہ کرام اور آئمہ مذاہب جیسے ابن زبیر ،امام مالک ،ابن سیرین ، حسن بصری اور نخعی و...اسے درست نہ سمجھتے اور نماز میں ہاتھ کھولنے کے معتقد تھے ۔اسی طرح مذہب اہل بیت علیہم السّلام میں بھی جیسا کہ روایات وفتاوٰی سے واضح ہے نماز میں ہاتھ باندھنے کو ناجائز اور شریعت کے مخالف سمجھا گیا ہے۔
پس یہ کہنا درست ہو گا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا سنّت کی نسبت بدعت سے نزدیک تر ہے ۔
والسّلام علی من اتّبع الھدٰی

Comments powered by CComment