عبادت و نماز

مختلف کتب
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

تالیف: استاد شہید مرتضیٰ مطہری

 

ترجمہ: سید سعید حیدر زیدی

 

عرضِ ناشر

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ بھی قرآنِ مجید میں اور متعدد آیات موجود ہیں، جو ماہِ رمضان اور شب ِ قدر میں نزولِ قرآن پر دلالت کرتی ہیںجیسے سورہ ٔقدر کی پہلی آیت اور سورہ ٔدخان کی تیسری آیت۔

”اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ“

”بے شک ہم نے اسے (یعنی قرآن ِمجید کو) شب ِ قدر میںنازل کیا ہے۔“(سورہ قدر۹۷۔ آیت۱)

”اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیلَةٍ مُّبٰرَکَةٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ“

”ہم نے اس( قرآن) کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے، ہم بے شک عذاب سے ڈرانے والے تھے“(سورہ ٔدخان۴۴آیت۳)ان آیاتِ قرآنی سے بخوبی یہ بات روشن ہے کہ قرآنِ مجید، پیغمبر اسلامؐ پرماہِ مبارک رمضان میں نازل ہوا ہےالبتہ اس مہینے میں آنحضرتؐ پر نزولِ قرآن کی کیفیت کیا تھی؟ اس بار ے میں ایک علیحدہ گفتگو کی ضرورت ہے، جس کا یہاں موقع نہیں۔زیر نظر رسالہ عبادت اورنماز کے موضوع پر استادشہید مرتضیٰ مطہری کی چار تقاریر کا مجموعہ ہے۔ یہ تقاریر رمضان المبارک۱۳۹۰ ھ میں حسینیہ ارشاد تہران میں کی گئیںان تقاریر میں شہید مطہری نے اسلام میں عبادات و معنویات کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے، خداوندِ عالم پر ایمان اور عبادات کے تربیتی اثرات پر گفتگوکی ہے اورفقط انہی میں ڈوب کے رہ جانے، یا انہیں یکسر نظر انداز کردینے کی نفی کرتے ہوئے اسلام کے ایک جامع اور دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی اور فلاح کے طالب دین ہونے کی وکالت کی ہے۔تقریر اور تحریر، اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کے دو ذرائع ہیں ان میں سے ہر ایک کا اپناعلیحدہ انداز اور مخصوص اثرہوا کرتاہےمقرر اپنی حرکات و سکنات اور چشم و ابرو کی جنبش کے ذریعے بھی پیغام دیتا ہے، جبکہ تحریر اس سہولت سے محروم ہوتی ہے۔ لہٰذا کسی تقریر کو اسکی پوری تاثیر کے ساتھ قلم بند کرنا ممکن نہیں۔ زیر نظر تقاریر کا ترجمہ کرتے ہو ئے کوشش کی گئی ہے کہ انکا تقریری انداز بھی محفوظ رہے اور ان میں کی جانے والی گفتگو بھی تحریر کی صورت میں پوری پوری پہنچ جائے۔ ہم اس کوشش میں کس حد تک کامیاب رہے اس سے ہمیں قارئین مطلع کریں گے۔

امید ہے ہماری دوسری مطبوعات کی طرح یہ کتاب بھی قارئین میں مقبول ہوگی۔

 

احیا

یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَعِیْْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو۔ (سورہ بقرہ ۲آیت ۱۵۳)

ہم اپنی بحث کا آغاز اسی کلمے ”احیا“ سے کرتے ہیںجیسا کہ ہم نے عرض کیا ”احیا“ یعنی زندہ کرنا، اسکی ضد ”اماتہ“ہے، یعنی مارنا۔ اس لفظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رات، جو انسان کے وقت کا ایک حصہ ہے، اسکی دو حالتیں ہیں، ممکن ہے کسی کی شب زندہ ہو، اور ممکن ہے اسکی شب مردہ ہو۔ زندہ شب، وہ شب ہے جس میں انسان پوری رات، یا کم از کم اس رات کے ایک حصے کو ذکرِ الٰہی، مناجات اور ذاتِ پروردگار سے راز و نیاز میں بسر کرےاورمردہ شب، و ہ شب ہے جس میں انسان تمام رات پروردگارکی مقدس ذات سے غفلت اور فراموشی کی حالت میں رہے۔

ممکن ہے کوئی یہ خیال کرے کہ یہ تعبیر ایک مجازی تعبیر ہےایک قسم کا تکلف ہے۔ کوئی رات زندہ اور مردہ نہیں ہوتی، رات آخر رات ہے، وقت ہےوقت کاوہ حصہ جس میں کرہ زمین کا وہ نصف حصہ جس پر ہم زندگی بسر کرتے ہیں سورج کے سامنے نہیں ہوتا اور اس پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی، اسے رات کہا جاتا ہے۔ رات بہر صورت رات ہے، رات کی نہ زندگی ہوتی ہے اور نہ اسکی موت۔

یہ بات صحیح ہےلیکن وہ شخص جو کہتا ہے کہ احیا، رات میں جاگتے رہنا، اسکی مراد یہ نہیں ہے کہ آپ وقت کے اس حصے کو جگاکے رکھئے، بلکہ جاگے رہنے سے مراد وقت کے اس حصے میں خود آپ کاجاگے ہونا ہے۔

اور زیادہ دقیق عبارت میں، جیسا کہ ابتداً تصور ہوتا ہے اسکے برخلاف، ہم خیال کرتے ہیں کہ وقت ایک چیز ہے جس کے اندر ہم سب داخل ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہےوہ وقت جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ہم سب اسکے اندر داخل ہیں، وہ ہمارا وقت نہیں ہےوہ وقت جس کی بنیاد پر ہم حساب لگاتے ہیں، گھنٹوں، منٹوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کا حساب کرتے ہیں، وہ ہمارا وقت نہیں ہے، وہ اس زمین کا وقت ہےہمارا وقت ہمارے اپنے وجود سے متحد ایک حقیقت ہے، ہمارے وجود کا حصہ

 

ہےہماراوقت، ہمارے وجود کاوقت، خود ہم سے علیحدہ اور جدا نہیں ہےدراصل ہوتایہ ہے کہ ہم اس وقت کاحساب، جس کی ایک مقدار ہوتی ہے، زمین کے وقت سے کرتے ہیں، اس کے مطابق کرتے ہیں، اسکے بعد یہ تصور کرتے ہیں کہ وقت ایک چیز ہے اور ہم سب اسکے اندر ہیں۔ نہیں میراوقت ایک چیز ہے اور آپ کاوقت ایک دوسری چیز ہےیعنی وہ خود آپ سے مخصوص ہےاسی طرح جیسے آپ کا قد مثلاً ایک سو ساٹھ سینٹی میٹر ہے، یہ کمیت اور مقدار آپ کی چیزہے، اور میرا قد جوایک سو ستّر سینٹی میٹر ہے، وہ مجھ سے مخصوص ہے۔ آپ کا ایک قد اور سائز ہے، اورمیرا بھی اپنا ایک مخصوص قد اور سائز ہے (اب یہ ایک دوسرے کے برابر ہوں یا نہ ہوں، ایک علیحدہ بات ہے) آپ کا وجود کیونکہ ایک متحرک، سیال اور متغیر وجود ہے، اس لئے خود آپ کے اپنے اندرایک وقت ہے اور میں بھی اپنے اندر ایک وقت رکھتا ہوںوہ پھول بھی اپنے اندر ایک وقت رکھتا ہے، وہ درخت بھی اپنے اندر ایک وقت رکھتا ہے، یہ پتھر بھی اپنے اندر ایک وقت رکھتا ہےاورہر چیزکے اندر پایا جانے والا وقت، عین اس چیز کا وجود ہوتاہے۔

اب جبکہ ہم نے اس نکتے کو سمجھ لیا ہے، شبِ قدر میں احیا کے معنی بھی ہماری سمجھ میں آگئے ہیں۔ وقت کو ز ندہ رکھیں، یعنی ہم خود اپنے وقت کو زندہ رکھیں، ہم میں سے ہر ایک اپنے اندر موجود وقت کو زندہ رکھے۔

وہ وقت جو ہمارے اندر موجود ہے، وہ کیا ہے؟

وہ خود ہم ہیں، ہم سے جدا کوئی چیز نہیں ہےپس ہم خود اپنے وقت کو خود اپنی شب کو زندہ رکھیں یعنی ہم خود ایک رات واقعاً زندہ رہیں، واقعاً زندہ بسر کریں، نہ کہ مردہ بسر کریں۔

اخبار و احادیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن انسان پر گزرنے والی چیزوں کو، اُس پر گزرنے والے زمانے کو انسان کے سامنے پیش کیا جائے گا، اوروہاں مختلف انسان نظر آئیں گےکبھی انسان کوایک ایساموجود دکھائی دے گا جس کا کچھ حصہ سیاہ اور تاریک ہے اور کچھ حصہ سفید اور چمکداراس سے مختلف ایک انسان اپنے آپ کو دیکھے کہ اُس کازیادہ تر حصہ سیاہ ہے، جبکہ ایک اور انسان دیکھے گا کہ اُس کابیشتر حصہ سفید اور براق ہے۔ ممکن ہے کوئی انسان ایسا بھی ہو جسے اپنے اندر صرف چند ہی سیاہ نقطے دکھائی دیں، پورا

 

کا پورا سفید نظر آئے، جبکہ ایک دوسرااسکے برعکس ہو اور وہ اپنے اندر صرف چند ہی سفید نقطے دیکھے، بقیہ پوراکا پورا اسے سیاہ نظر آئے۔

وہ تعجب کرے گا }اور پوچھے گا {کہ یہ کیا چیز اسکے سامنے پیش کی گئی ہے؟ کہیں گے کہ: یہ تمہارا وقت ہے، یہ تمہاری عمر ہے۔ وہ لمحات جن میں تم نے اس وقت کو، اس عمر کو روشن اور نورانی رکھا تھا، ان لمحات میں جب تم محو پرواز تھے، جذبے اور ولولے کے ساتھ تھے، عشق کے ہمراہ تھے، تمہارا دل اپنے خدا کی یاد سے زندہ تھا، وہ لمحہ، وہ نورانی اور چمکدار لمحہ ہےوہ لمحہ جب تم نے کسی کی خدمت کی تھی، کوئی مفید کام انجام دیا تھا، وہ تمہارا نورانی لمحہ ہےلیکن وہ لمحہ جس لمحے میں تم غافل رہے تھے، شہوات میں غرق رہے تھے، تم نے خدا کی رضا کے برخلاف قدم اٹھایاتھا، وہ تمہاری عمر کے سیاہ اور تاریک اوقات ہیںیہ تمہارا وقت ہے، تمہاری عمر ہے۔

روحِ عباد ت یادِ خدا

یادِ خدا، روحِ عبادت ہےعبادت کی روح یہ ہے کہ جب انسان عبادت کر رہا ہو، کوئی نماز پڑھ رہا ہو، کوئی دعا کر رہا ہو الغرض کوئی بھی عمل انجام دے رہا ہو، تو اس کا دل اپنے خدا کی یادمیں زندہ ہو: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْ (۱) قرآن کہتا ہے نماز قائم کروکس لئے؟ اس لئے کہ میری یاد میں رہوایک دوسری جگہ قرآنِ کریم فرماتا ہے : اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ لَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُ(۲) اس آیت میں نماز کی خاصیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ وہ نماز جو حقیقی ہو، جو واقعی نماز ہو، ایسی نماز ہو جو صحیح شرائط اور آداب کے ساتھ ادا کی گئی ہوفرماتا ہے: اگر انسان حقیقتاً نماز پڑھنے والا ہو اور صحیح نماز پڑھے، تو خود نماز انسان کو نازیبا کاموں اور منکرات سے روکتی ہےمحال ہے کہ انسان درست اور مقبول نماز پڑھے اور جھوٹا ہومحال ہے کہ انسان صحیح اور درست نماز پڑھے اور اس کا دل غیبت کرنے کو چاہے۔ محال ہے کہ انسان درست اور صحیح نماز پڑھنے والا ہو اور اس

--------------

۱:- اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (سورہ طہ ۲۰آیت ۱۴)

۲:- نماز ہر بُرائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے، اور اللہ کا ذکر بہت بڑی شئے ہے۔ (سورہ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)

 

کی شرافت اسے شراب خوری کی طرف جانے کی اجازت دے، وہ بے حیائی کی طرف جائے، کسی بھی دوسرے نازیبا کام کی طرف قدم اٹھائے نماز کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو عالمِ نورانیت کی طرف لے جاتی ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک روایت ہے، جو معروف کتاب ”مصباح الشریعہ“ میں نقل ہوئی ہےہمارے پاس ”مصباح الشریعہ“ نامی ایک کتاب ہے، جسے بہت سے بزرگ علما معتبر سمجھتے ہیں، جبکہ بعض علما، جیسے مرحوم (علامہ) مجلسی، اس کتاب کو خاص معتبر نہیں سمجھتے، اس اعتبار سے کہ اسکے مضامین کچھ عرفانی مضامین پر مشتمل ہیں۔ البتہ یہ ایک معروف کتاب ہےحاجی نوری، سید بن طاؤوس اور ان جیسے دوسرے حضرات اس کتاب سے نقل کرتے ہیں اس کتاب میں بکثرت احادیث ہیں۔فضیل بن عیاض نام کا ایک شخص ہے، امام جعفر صادق علیہ السلام کا معاصر ہے، اُس کا شمار معروف لوگوں میں ہوتاہے، ایک ایسا شخص ہے جس نے اپنی عمر کا ایک حصہ گناہ، فسق و فجور، چوری، ڈاکے اور اسی قسم کے دوسرے مشاغل میں بسر کیا ہےبعد میں اس میں ایک عجیب روحانی انقلاب پیدا ہوتا ہے اوروہ اپنی بقیہ عمر (اپنی آدھی عمر) تقویٰ، زہد، عبادت اور معرفت و حقیقت کی تلاش میں بسر کرتا ہے۔ اسکی داستان معروف ہےوہ ایک مشہور چور تھا، نقب زن، وہ خود اپنی داستان کچھ یوں بیان کرتا ہےکہتا ہے: ایک رات میں نے ایک گھر کو نظر میں رکھا ہوا تھا، کہ آج رات اس گھر میں چوری کروں گااس گھر کی دیوار بلند تھیآدھی رات گزر چکی تھی۔ میں دیوار کے اوپر چڑھا، جب میں دیوار کے اوپر پہنچا اور چاہا کہ نیچے اتروں، تو ہمسائے کے کسی گھر میں (یا اسی گھر کے اوپر) ایک عابد، زاہد اور متقی شخص، ایسے لوگوں میں سے ایک شخص جو اپنی راتوں کو بیداری کے عالم میں بسر کرتے ہیں، قرآن پڑھنے میں مشغول تھا، بہت اچھے انداز اور انتہائی خوبصورت لحن کے ساتھ(۳)

--------------

۳:-آپ جانتے ہیں کہ قرآن کو تجوید کے ساتھ پڑھنا(تجوید یعنی خوبصورت بنانا) یعنی حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ پڑھنا، اچھے انداز میں پڑھنا، ایسا انداز جو الحانِ اہلِ فسق نہ ہو، ایک ایسے اندازسے پڑھنا جو قرآن سے تناسب رکھتا ہو قرآنی سنتوں میں سے ہے اور ہمارے ائمہ اطہار علیہم السلام خود اس میدان میں دوسروں سے آگے تھےہماری روایات میں ہے کہ امام محمد باقرعلیہ السلام اور امام سجادعلیہ السلام، انتہائی خوبصورت آواز میں قرآن پڑھا کرتے تھےجب گھر کے اندرسے آپ کے قرآن پڑھنے کی آواز بلند ہوتی، تویہ آواز سن کر گلی سے گزرنے والوں کے قدم وہیں جم کے رہ جاتے (اس زمانے میں مدینہ میں سقے گھروں میں پانی پہنچایا کرتے تھے) کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سقے پانی کی مشکیں اٹھائے ہوئے، باوجود یہ کہ انہیں زحمت کے ساتھ اٹھائے ہوتے تھے، جب وہاں پہنچتے تو یہ بھاری بوجھ اُٹھائے ہونے کے باوجود قرآن کی یہ دلنشیں تلاوت سننے کے لئے کھڑے ہو جاتےوہ عابد شخص اس قرآنی سنت کے ساتھ مطابق آدھی رات کے وقت قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا اور اپنے کمرے میں خوش الحانی کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہا تھا۔

 

جب میں دیوار کے اوپر پہنچا تواتفاقاً قرآن کا وہ قاری اور عابدشخص اس آیت پر تھا:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اﷲِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ(۴) ظاہر ہے فضیل عرب تھا، معنی سمجھتا تھااس آیت کے معنی یہ ہیں کہ :کیا وہ وقت نہیں آیا جب با ایمان لوگوں کے دل، ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے دل، خدا کی یاد قبول کرنے کے لئے نرم ہوجائیں؟ کب تک قساوتِ قلبی رہے گی؟ کب تک غفلت و بے خبری رہے گی؟ کب تک نیندکی حالت طاری رہے گی؟ کب تک حرام خوری میں مبتلا رہیں گے؟ کب تک دروغ گوئی اور غیبت کریں گے؟ کب تک شراب خوری اور قمار بازی کے مرتکب رہیں گے؟ کب تک نافرمانی میں مصروف رہیں گے؟

یہ خدا کی آواز ہے، اسکے مخاطب بھی ہم تمام لوگ ہیںخدا ہم سے بات کر رہا ہےاے میرے بندے، اے مسلمان! وہ وقت کب آئے گا جب یادِ خدا کے لئے تیرا دل نرم ہو جائے، جب توخدا کی یاد کے لئے خاضع اور خاشع ہو جائے؟

اس عابد شخص نے اس انداز سے اس آیت کو پڑھا کہ فضیل، جو دیوار پر چڑھا ہوا تھا، اُسے یوں محسوس ہوا کہ خود خدا اپنے بندے فضیل سے مخاطب ہےوہ کہتا ہے: اے فضیل! تو کب تک چوری اورڈاکا زنی اور لوٹ مار کرے گا؟

یہ آیت سُن کر فضیل لرز کر رہ گیا اور یکلخت پکار اٹھا: خدایا! بس اب وہ وقت آن پہنچا ہےپھر وہ اُسی وقت دیوار سے اتر آیااور توبہ کی، سچی توبہ، ایسی توبہ جس نے اُس شخص کو اوّل درجے کا عُبّاد بنا ڈالااس حد تک کہ تمام لوگ اُس کااحترام کرنے لگے۔

وہ ایسا شخص نہ تھا جو ہارون الرشید کے دربار میں حاضری دےہارون الرشید کو فضیل بن عیاض سے ملاقات کی بڑی آرزو تھی، لیکن کہتے ہیں کہ فضیل کبھی ہارون کے دربار میں نہیں آتے تھے۔ ہارون کہتا ہے کہ اگر فضیل نہیں آتے، تو میں چلا جاتا ہوںایک مرتبہ وہ فضیل کے پاس گیاوہ ہارون ہے، ایک مقتدر خلیفہ ہے، دنیا میں بہت کم بادشاہ ایسے گزرے ہیں

--------------

۴۔ کیا صاحبانِ ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکرِ خدا اور اُس کی طرف سے نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہوجائیں۔ (سورہ حدید ۵۷آیت ۱۶)

 

جن کی مملکت کی وسعت اس کی مملکت کے برابر ہو، وہ دنیا کے مقتدر ترین سلاطین میں سے ایک ہےایک فاسق اور فاجر شخص ہےایک ایسا شخص ہے جو رات رات بھر شراب نوشی، رقص و سرود اور اسی قسم کی باتوں میں مشغول رہا کرتا ہے وہ فضیل کے پاس آتا ہے۔ وہی فضیل اپنی گفتگو کے چند جملوں سے (اسے منقلب کر دیتے ہیں) وہاں موجود تمام لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ فضیل کے سامنے ہارون انتہائی چھوٹا دکھائی دے رہا تھا، اور اسکی آنکھوں سے آنسو برسات کی طرح جاری تھے۔ فضیل اُسے وعظ و نصیحت کر رہے تھے، اسکے

سامنے اسکے ایک ایک گناہ کو گنوا رہے تھے۔ فضیل بن عیاض اس قسم کے شخص تھےوہ اس حالت میں، جو انہوں نے اس دور میں پیدا کی، تقویٰ اور معرفت کے اس درجے پر پہنچ گئے، امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر تھے اور انہوں نے ہارون یعنی امام موسیٰ ابن جعفر (الکاظم) کا زمانہ بھی دیکھا تھا۔

کتاب ”مصباح الشریعہ“ ایک ایسی کتاب ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوااور امام سے چند مسائل کے بارے میں سوال کیا اور امام نے مجھے یہ جوابات دیئےظاہر بات ہے کہ جب اس قسم کا عارف، با معرفت، متقی اور زاہد انسان امام کی خدمت میں حاضر ہو گا، تو یہ کسی ایسے ساربان کے آپ کی خدمت میں جانے سے بہت مختلف ہو گا جو مثلاًشکیات (نماز) کا کوئی مسئلہ آپ سے پوچھنا چاہتا ہوقدرتی طور پر اسکے سوالات، ایک درجہ بلند تر ہوں گے اور امام کے جواب بھی دوسروں کو دیئے جانے والے جوابات سے ایک درجہ بلند سطح کے ہوں گےقدرتی طور پر یہ کتاب ایک بلند درجہ کتاب ہےمثلاً امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کتاب میں اسرارِ وضو بیان کئے ہیں، اسرارِ نماز بیان کئے ہیں۔

 

امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث

وہ جملہ جس سے ہم استدلال کر رہے ہیں، وہ اس کتاب میں ہےاور آپ نے اس جملے کو کم و بیش عرفانی کتب میں دیکھا ہو گاامام جعفر صادق علیہ السلام نے فضیل سے فرمایا: یا فُضَیلُ اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ (انتہائی عجیب جملہ ہے، اور ایک لحاظ سے ہلا دینے والا جملہ بھی ہے) فضیل! کیا تم جانتے ہو کہ عبودیت کیا ہے؟ کیا جانتے ہو عبودیت کیسا گوہر ہے؟ عبودیت ایک ایسا گوہر ہے کہ اس کا ظاہر عبودیت ہے اور اس کا کنہ، نہایت اور باطن، اسکی آخری منزل اور ہدف ربوبیت ہے۔

ممکن ہے آپ کہیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟ کیا امام جعفر صادق علیہ السلام یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عبودیت کی ابتدا بندگی ہے اور اسکی انتہا خدائی؟ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک بندہ، بندگی کے راستے خدائی تک پہنچ جاتا ہے؟ نہیں، ائمہ علیہم السلام کی تعبیروں میں کسی صورت اس قسم کی کوئی تعبیر نہیں آ سکتیاہلِ عرفان دوسرے لوگوں پر طنز کرنے کے لئے، جو معانی نظر میں رکھتے ہیں، کچھ تعبیریں استعمال کرتے ہیں، تاکہ دوسرے ہل کے رہ جائیں، انہیں جھٹکا لگے، یہ ایک طرح سے لوگوں کوچھیڑناہوتا ہےمثلاً مولانا روم یا شبستری کے یہاں اس قسم کی تعبیریں ملتی ہیں، شبستری کہتے ہیں:

مسلمان گربدانستی کہ بت چیست

بدانستی کی دین در بت پرستی است

یہ انتہائی عجیب بات ہےلیکن اس سے مراد وہ نہیں ہے جو اسکے الفاظ سے ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ شعرایک صحیح مراد کا حامل ہےایک مقام پر اُس نے کہا ہے کہ بقول خود اُس کے اُس نے زاہد نما افراد کوچھیڑا ہے ایک معروف شعر ہے، جسے مولانا روم سے منسوب کیا جاتا ہے، مجھے نہیں معلوم یہ مثنوی میں ہے یا نہیں۔ کہتے ہیں:

از عبادت می توان اﷲ شد

فی توان موسیٰ کلیم اﷲ شد

 

انتہائی عجیب (کلام) ہےکہتے ہیں کہ عبادت کے ذریعے موسیٰ کلیم اﷲ نہیں بنا جا سکتا لیکن عبادت کے ذریعے اﷲ بننا ممکن ہے!مراد کیا ہے؟ یہ حدیث جس کے ہم آپ کے لئے معنی کر رہے ہیں، اسکی روشنی میں اس شعر کے معنی بھی واضح ہو جائیں گے۔

دراصل ربوبیت کے معنی ہیں تسلط، خداوندگاری، البتہ خدائی نہیںخدائی اور خداوندگاری کے درمیان فرق ہے خداوند گاری، یعنی مالک ہونا، صاحبِ اختیار ہونااصحاب الفیل کے قصے میں جب ابرھہ کعبہ کو مسمار کرنے کی غرض سے آیا، تووہ وہاں بیابان میں موجودحضرت عبدالمطلب کے اونٹوں کوپکڑکر اپنے ساتھ لے گیاعبدالمطلب ابرھہ کے پاس گئےحضرت عبدالمطلب کے قیافے، شخصیت اور عظمت نے ابرھہ کو انتہائی متاثر کیا، یہاں تک کہ وہ سوچنے لگا کہ اگر اس مردِ بزرگ نے سفارش کی اور مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں کعبہ کے خلاف اقدام نہ کروں، اور اسے نہ ڈھاؤں، تو میں اسے مسمار نہیں کروں گا۔ لیکن اسکی توقع کے برخلاف، جب حضرت عبدالمطلب نے بات کی تو فقط اپنے اونٹوں کے بارے میں گفتگو کی، کعبہ کے بارے میں ایک لفظ تک نہ کہاابرھہ کو تعجب ہوا، وہ بولا: میں تو آپ کو انتہائی بزرگ انسان سمجھا تھا، میرا خیال تھا کہ آپ کعبہ کی سفارش کرنے کے لئے آئے ہیںلیکن میں نے دیکھا کہ آپ تو اپنے اونٹوں کی سفارش کر رہے ہیںحضرت عبدالمطلب نے بھی اسے ایک خوبصورت جواب دیافرمایا: اَنارَبُّ الْاِبِلْ وَ لِلْبَیْتِ رَبُّ (میں اونٹوں کا مالک ہوں اور اس گھر کا بھی ایک مالک ہے)

”رب“ یعنی مالکہم جو خدا کو رب کہتے ہیں، تو اس عنوان سے کہ وہ تمام عالم اور تمام عالموں کامالکِ حقیقی ہےہم کہتے ہیں: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ شکر و سپاس اس خدا کے لئے جو مالک ہے، تمام عالموں کا مالک ہےپس ”رب“ کے حقیقی معنی ہیں مالک اور خداوند گار اور ربوبیت یعنی خداوند گاری، خدائی نہیں۔ خدائی اور خداوندگاری کے درمیان فرق ہے۔ جو کوئی جس چیز کا مالک ہے، وہ اس چیز کا رب اور خداوند گار بھی ہے۔

اب اس حدیث کے کیا معنی ہیں، جس میں امام نے فرمایاہے کہ: عبودیت ایک ایسا جوہر ہے جس کی انتہا اور کنہ ربوبیت ہے۔

 

ایک نہایت خوبصورت نکتہ ہےعبودیت اور خدا کی بندگی کی خاصیت یہ ہے کہ جس قدر انسان خداکی بندگی کے راستے کو زیادہ طے کرتا ہے، اسی قدر اُس کے تسلط، قدرت اور خداوندگاری میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ کس طرح؟ ہم اس نشست میں فقط ایک انتہائی چھوٹا سا موضوع آپ کی خدمت میں عرض کر رہے ہیں، اس کے بعض دوسرے مسائل کی ایک فہرست عرض کر رہے ہیں لیکن ایک موضوع کو کھول رہے ہیں۔

ربوبیت کا اوّلین درجہ: اپنے نفس پر تسلط

عبودیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ربوبیت اور خداوند گاری کا اوّلین درجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے نفس کا رب اور مالک ہو جاتا ہے، اپنے نفس پر تسلط اور غلبہ حاصل کر لیتا ہےہماری بے چارگیوں میں سے ایک بے چارگی، جسے ہم مکمل طور پر محسوس کرتے ہیں، یہ ہے کہ: ہمارے نفس کی لگام خود ہمارے اختیار میں نہیں ہوتی، ہم اپنے آپ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنی زبان پر اختیار نہیں رکھتے، اپنی شہوت پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے شکم پر اختیار نہیں رکھتے، اپنی شرم گاہ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنی آنکھ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے کان پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے ہاتھ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے پیر پر اختیار نہیں رکھتے۔ اور یہ ہماری انتہائی بد بختی ہےہم ان گلی کوچوں میں چلتے پھرتے ہیں لیکن یہ آنکھ ہمارے اختیار میں نہیں ہوتی، }بلکہ{ ہم اس آنکھ کے اختیار میں ہوتے ہیںیعنی ہم ہیں کہ اس آنکھ کا دل چاہتا ہے کہ نظر بازی کرے، اس کا دل چاہتا ہے کہ لوگوں کی عزتوں پر شہوت کی نگاہ ڈالے اور ہمارا دل بھی اس انکھ کے تابع ہو جاتا ہے:

دل برود چشم چو مایل بود

دست نظر رشتہ کش دل بود

ہم خود اپنی زبان کے مالک نہیں ہیں، ہمیں اپنی زبان پر اختیار نہیں ہےجب گرم ہوتے ہیں، تو اصطلاحاً ہمارا دماغ گھوم جاتا ہے اور ہم جو دل میں آتا ہے بول ڈالتے ہیںبغیر سوچے سمجھے کہ کیا بول رہے ہیں، ایسی حالت میں نہ اپنے رازوں کی حفاظت کر پاتے ہیں

 

نہ لوگوں کے اسرار کیاس حالت میں ہم لوگوں کے عیب نہیں چھپا پاتے، اپنے آپ کولوگوں کی غیبت سے نہیں روک پاتے۔۔۔ (۱) ہم اپنے کانوں پر بھی اختیار نہیں رکھتے، جو چیز ہمارے کانوں کو اچھی لگے، مثلاً انہیں غیبت اچھی لگتی ہے، تو ہم بھی اسکے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، انہیں لہو ولعب پسند ہے، توہم بھی تسلیم ہو جاتے ہیںہم اپنے ہاتھ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے پیر پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے غصّے پر اختیار نہیں رکھتے، کہتے ہیں (خود میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہوں)

جناب!اب مجھے غصّہ آ گیا ہے، جو میرے منہ میں آئے گا کہہ ڈالوں گامجھے غصّہ آ گیا ہے، یعنی کیا؟ یعنی میں ایک ایسا آدمی ہوں جو اپنے نفس کا مالک نہیں ہوں، جوں ہی مجھے غصّہ آتا ہے،  میرا کنٹرول اسکے ہاتھ میں چلا جاتا ہے، جو میرے منہ میں آتا ہے، کہہ ڈالتا ہوں، کیونکہ میں غصّے میں ہوںایک اور شخص ہے، جو اپنی نفسانی خواہشات کا مالک نہیں ہوتاکیا انسان کو اپنے نفس کا مالک نہیں ہونا چاہئے؟ جب تک ہم اپنے نفس کے مالک نہ ہوں، کیا مسلمان ہو سکتے ہیں؟ نہیں، مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کا مالک ہو۔

دوسرا درجہ: نفس کے خیالات کا مالک ہونا

یہاں تک ہم نے اس درجے کے بارے میں گفتگو کی، اب ہم اس سے بلندایک درجے پر چلتے ہیں۔ ہمیں اپنے نفس میں آنے والا خیالات کا، اپنے ضمیر کے خیالات کا مالک (ہونا چاہئے) اس مسئلے پر مکمل طور پر توجہ کی ضرورت ہے۔

ہم میں سے وہ لوگ جو اپنی آنکھ کے مالک ہیں، اپنی زبان کے مالک ہیں، مضبوط قوتِ ارادی کے مالک ہیں، اپنے ہاتھ کے مالک ہیں، اپنے پیر کے مالک ہیں، اپنی زبان کے مالک ہیں، اپنی شہوت کے مالک ہیں، اپنے غصّے کے مالک ہیں، وہ ایک چیزکے مالک نہیں ہیںہم لوگ جویہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم میں سے کوئی ایک بھی فرد (اگر یہاں اولیا اﷲ موجود ہوں، تو مجھے نہیں معلوم ) اپنے ذہنی اور نفسانی خیالات کا مالک نہیں ہے

--------------

۱:-یہاں چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہو سکی ہے۔

 

یعنی کیا؟ یعنی ہمارے ذہن میں آنے والے مفاہیم و معنی ہمارے اختیار کے بغیر اِس شاخ سے اُس شاخ پر اور اُس شاخ سے اِس شاخ پر اڑتے پھرتے ہیںہمارے خیال کی قوت ایک چڑیا کی مانند ہےآپ نے درختوں پر بیٹھی چڑیا کو دیکھا ہو گا، وہ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر پھدکتی رہتی ہے، تیزی کے ساتھ ایک شاخ سے دوسری شاخ پر اڑتی پھرتی ہے، ہمارے خیال کی قوت بھی مسلسل اِس شاخ سے اُس شاخ پر اڑتی ہےہم سے کہا جاتا ہے کہ برائے مہربانی اپنے ذہن کو دس منٹ کے لئے ایک نکتے پر مرکوز کر دیجئےصرف ایک موضوع کے بارے میں غور و فکر کیجئےکیا ہمارے لئے ممکن ہے؟ ؟

ہم اور آپ سے کہا جاتا ہے کہ جب آپ نماز پڑھیں، تو آپ کاذہن اسی جانب مرکوز رہے، اورآپ میں حضورِ قلب پایا جائے ”لا صَلوٰةَ اِلّابِحُضُورِ الْقَلْب“ حضورِ قلب کے بغیر نماز قبول نہیں ہےصحیح ہے، یعنی آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ نے نماز کیوں نہیں پڑھی، لیکن ایسی نماز قبول نہیں ہےیعنی }ایسی نماز{آپ کو کسی مقام پر نہیں پہنچاتی، آپ کے لئے کسی خاصیت کی حامل نہیں ہوتیجوں ہی ہم اﷲ اکبر کہتے ہیں، اگر بالفرض ہم دکاندار ہیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم نے اپنی دکان کا تالا کھول لیا ہے، حمد اور سورہ پڑھتے ہیں، لیکن ہمارا دل دکان میں لگاہوتا ہے، ہمارا دھیان دفتر میں ہوتا ہے، ہمارا دل اپنی فلاں ملکیت میں اٹکا ہوتا ہے، فلاں شہوت کے پیچھے ہوتا ہے۔ ہم اچانک اُس وقت ہوش میں آتے ہیں، جب ”السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ“ کہہ رہے ہوتے ہیں۔

ہم نے }اس انداز سے{ اس قدر زیادہ نمازیں پڑھی ہیں کہ یہ ہماری عادت سی ہو چکی ہے۔ ہم اپنی اِس روش کو ترک نہیں کرپاتے۔ خودکار انداز میں ”اﷲ اکبر“ سے ”السلام علیکم“ تک پہنچ جاتے ہیں اور بغیر کچھ سمجھے بوجھے }نماز کو{ ختم کر لیتے ہیںحالانکہ نماز کے دوران حضورِ قلب اور ذہن کا مرکوزہونا ضروری ہے آپ یہ نہ کہئے گا کہ یہ ناممکن بات ہےنہیں، ممکن ہے، بہت زیادہ ممکن ہےاگر آپ عبودیت (اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ) کے ساتھ کوشش کریں، عبودیت کی راہ میں قدم اٹھائیں، تو واقعاً آپ ایسی نماز پڑھ سکتے ہیں جو اگر پانچ منٹ کی ہو، تو ان پورے پانچ منٹ میں آپ صرف خدا کی طرف متوجہ ہوں، آپ دس منٹ نماز پڑھیں تو خدا کی طرف متوجہ ہوںاصلاً آپ کا ذہن خدا کے سوا کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہی نہ ہو، آدھے گھنٹے، ایک

 

گھنٹے (اسی حال میں رہیں) اور پھر رفتہ رفتہ بعض اولیا اللہ کی مانند ہو جائیں اور ابتدائے شب سے صبح تک مسلسل عبادت کریں اور آپ کا ذہن خدا کے سوا کسی بھی چیز کی طرف متوجہ نہ ہواس قدر غرق ہوں کہ اگر کوئی آ کر عین آپ کے سر پر کھڑا ہوکے شور وغل بھی مچائے، تب بھی آپ نہ سنیں، نہ سمجھیں اور اسکی جانب متوجہ نہ ہوں، آپ کا ذہن اس قدر مرکوز ہو جائے۔

حالتِ نماز میں امام سجاد ؑ کا حضورِ قلب

امام سجاد علیہ السلام عبادت میں مشغول تھےآپ کا ایک بچہ چھت سے نیچے گرا اور اس کا ہاتھ ٹوٹ گیاعورتیں جمع ہوگئیں اور چیخنے چلّانے لگیں کہ بچے کا ہاتھ ٹوٹ گیا ہےجا کر بازوجوڑنے والے کو لاؤ، لوگ گئے اور اعضا جوڑنے والے کو بلا لائے اور بچے کا ہاتھ باندھ دیابچہ رویا، عورتوں نے آہ وفغاں کی، دوسرے افراد نے بھی چیخ پکار مچائی، بات ختم ہوگئی، قصہ گزر گیاعبادت سے فارغ ہونے کے بعدامام صحن میں تشریف لائے، اُن کی نگاہ اپنے بچے پر پڑی، دیکھا اُس کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، آپ نے پوچھایہ کیا ہوا؟ لوگوں نے بتایا :بچہ چھت سے گر گیاتھا، اِس کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، ہم اعضاجوڑنے والے کو لائے، اُس نے اِس کا ہاتھ باندھ دیا، اُس وقت آپ نماز اور عبادت میں مشغول تھےامام نے قسم کھا کر کہا کہ مجھے بالکل پتا نہیں چلا۔

ممکن ہے آپ کہیں کہ وہ امام زین العابدین علیہ السلام تھے، ہر آدمی تو ان کی مانند نہیں ہو سکتاخود ہم نے اپنی زندگی میں ایسے افراد کو دیکھا ہے (البتہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس حد اور اس درجے تک ) ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ نماز شروع کرنے کے وقت سے لے کر اسکے اختتام تک ذکرِ خدا اور یادِ خدا میں اس طرح ڈب جاتے، اور نماز میں اس طرح غرق ہو جاتے کہ اپنے ارد گردسے یکسر بے خبر ہوجاتے تھے! ہم نے ایسے افراد کو دیکھا ہے ”اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ“ عبودیت اور بندگی کا نتیجہ اور اس کا اوّلین اثر یہ غلبہ اور تسلط ہے۔

 

ہم نے اِس نشست میں تسلط کے دو مرحلوں کے بارے میں عرض کیا ہے۔ تسلط کا ایک درجہ، جو تسلط کا کم سے کم درجہ ہے، اور اگر یہ انسان میں پیدا نہ ہو، تو انسان کو یقین رکھنا چاہئے کہ اسکی عبادتیں درگاہِ الٰہی میں مقبول نہیں ہیں }اور یہ درجہ{ اپنے نفس پر تسلط ہےیہ وہی چیز ہے کہ قرآن نماز کے بارے میں کہتا ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ(۱) نمازبے حیائی اوربُرے کاموں سے روکتی ہے۔

نماز کس طرح بے حیائی اور بُرے کاموں کا راستہ روکتی ہے؟

کیا نماز پولیس ہے، کہ جب آپ کسی بُرے کام کی طرف جانا چاہتے ہیں، تو وہ ڈنڈا لئے آکر آپ کا راستہ روک لیتی ہے؟ نہیں، نماز عبودیت اور بندگی ہےاس عبودیت کا نتیجہ ربوبیت اور تسلط ہے، اور تسلط اور غلبے کا کم از کم درجہ نفس پر تسلط اور غلبہ ہے۔

تقویٰ

اِنَّ تَقْوَی اﷲِ حَمَتْ اَولیاءَ اﷲِ مَحارِمَهُ وَاَلْزَمَتْ قُلوبَهُمْ مَخا فَتَهُ

۔ تقویٰ ہی نے اللہ کے دوستوں کو حرام کئے گئے کاموں سے بچایا ہے، اور اُن کے دلوں میں خوف پیدا کیا ہے(نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۲)

تقویٰ سے کیا مراد ہے؟

یعنی اپنے آپ کوبچانا، محفوظ رکھنا۔

اپنے آپ کو بچانے سے کیا مراد ہے؟مراد ہے اپنے نفس پر تسلط۔

--------------

۱:- نماز ہر بُرائی اور بد کاری سے روکتی ہے۔ (سورہ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)

 

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں، تقوائے الٰہی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ یہ انسان کو محرماتِ الٰہی سے محفوظ رکھتا ہےاسکی دوسری خاصیت یہ ہے کہ یہ انسان کے دل میں خدا کا خوف بٹھاتا ہے۔

قرآنِ مجید روزے کے بارے میں کہتا ہے: یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(1)اے اہلِ ایمان ! تمہارے لئے روزہ فرض کیا گیا ہے، اُسی طرح جیسے تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھاکیوں؟ قرآن روزے کا مقصد بھی بیان کرتا ہے: ”لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن“ اس لئے کہ تمہارے اندر تقویٰ کی روح اور تقویٰ کا ملکہ پیدا ہو جائے۔

تقویٰ کے ملکہ سے کیا مراد ہے؟

مراد ہے نفس پر تسلط نفس پر تسلط وہی چیز ہے جس کے بارے میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایاہے : اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ

پس اگر ہم نے ماہِ رمضان گزار لئے ہیں، احیا کی راتوں}شبہائے قدر{ کو گزار لیا ہے، مسلسل روزوں کو گزار لیا ہے، اور ماہِ رمضان کے بعدا اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں کہ ہم اب اپنی شہوات پر اس سے زیادہ مسلط ہیں جیسے ہم ماہِ رمضان سے پہلے ان پرمسلط تھے، اپنے غصّے پر پہلے سے زیادہ مسلط ہیں، اپنی آنکھوں پر ہمیں زیادہ قابوہوگیا ہے، اپنی زبان پر پہلے سے زیادہ کنٹرول ہے، اپنے اعضا و جوارح پر زیادہ مسلط ہیں، مختصر یہ کہ اپنے نفس پر زیادہ مسلط ہیں اور ہم نفس امارہ کا راستہ روک سکتے ہیں، تو یہ ہمارے روزے کی قبولیت کی علامت ہے۔لیکن اگر ماہِ رمضان گزر گیا، ختم ہوگیا، اور ماہِ رمضان سے ہمارا حاصل (جیسا کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ روزے سے بعض لوگوں کو صرف بھوک اور پیاس حاصل ہوتی ہے) صرف یہ ہو کہ ہم نے ایک مہینے بھوک اور پیاس برداشت کی ہے (اکثر کیونکہ ہم لوگ سحر و افطار کرتے ہیں،

--------------

1:- صاحبانِ ایمان تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ (سورہ بقرہ ۲آیت۱۸۳)

 

اس لئے بھوک اور پیاس بھی نہیں لگتیالبتہ ہم کم از کم بے حال توہوہی جاتے ہیں) ایک مہینے تک بے حالی کا شکار رہے، اور اِس بے حالی کے نتیجے میں کام کے لئے ہماری توانائی کم ہو گئی، اور کیونکہ کام کاج کے لئے ہماری قوت و توانائی کم ہو گئی، تو آ کے روزے پر الزام لگاتے ہیں کہ اِس روزے کی وجہ سے ہماری کارکردگی کم ہوئی(جوطالبِ علم ہے وہ کہتا ہے کہ پورے ماہِ رمضان میں میری پڑھنے کی قوت کم ہو گئی، جوکوئی اور کام کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ میری فلاں کام کی طاقت کم ہو گئیپس روزہ ایک بُری چیز ہے) یہ ہمارے روزے کے قبول نہ ہونے کی علامت ہےجبکہ اگر انسان ماہِ رمضان میں واقعی معنی میں روزہ رکھنے والا ہو، اگر واقعاً اپنے آپ کو بھوکا رکھے، اگر جیسا کہ کہا گیا ہے تین وقت کے کھانے کو دو وقت کا کر لےیعنی پہلے وہ ناشتہ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا کھاتا تھا، اب دوپہر کا کھانا نہیں کھائے، اسکی افطار ایک ناشتے کی مانند مختصر ہو، اسکے بعد سحر کے وقت معدے پر بہت زیادہ بوجھ نہ ڈالے، بلکہ ایک معمول کی غذا کھائے، تو اسے احساس ہو گا کہ کاموں کے سلسلے میں اسکی جسمانی قوت میں بھی اضافہ ہوا ہے، اور کارِ خیر کے لئے اسکی روحانی قوت بھی بڑھی ہےیہ کم از کم عبادت ہے۔

ہم نے گفتگو کی ابتدا میں ایک آیت پڑھی تھیآپ کی خدمت میں اس آیت کا ترجمہ پیش کرتے ہیں، جس کا مفہوم یہی ہےقرآنِ مجید، نہج البلاغہ، امام جعفر صادق علیہ السلام، امام زین العابدین علیہ السلام جو بھی باتیں مختلف الفاظ اور مختلف زبانوں میں کہیں، جب آپ ان پر نگاہ ڈالتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ یہ سب ایک ہی حقیقت تک پہنچے ہوئے ہیں، اور ایک ہی حقیقت کا ذکر کرتے ہیںہم آیاتِ قرآنی میں سے دو آیات میں اس طرح پڑھتے ہیںیعنی دو مقامات پر یہ آیت آئی ہے : یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَعِیْْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ(۱)اے اہلِ ایمان! نماز اور صبر (جس کی تفسیر روزہ کی گئی ہے) سے مدد لویہ انتہائی عجیب تعبیر ہے !ہم سے کہتے ہیں کہ نماز سے مدد مانگو، روزے سے مدد مانگویعنی تم نہیں جانتے کہ یہ نماز قوت کا کیسا سرچشمہ ہے !یہ روزہ طاقت کا کیسا منبع ہے!

--------------

1:- :- سورہ بقرہ ۲آیت ۱۵۳

 

 اگر تمہیں نماز پڑھنے کے لئے کہا گیا ہے، تو قوت و طاقت کے ایک سرچشمے کی جانب تمہاری رہنمائی کی گئی ہے، اور اگر روزہ رکھنے کوکہا گیا ہے، تو طاقت کے ایک سرچشمے کی طرف تمہاری رہنمائی کی گئی ہےتم اپنے نفس اور روح پر مسلط ہونے کے لئے نماز پڑھو، روزہ رکھو۔  اَلْعُبودِیَّةُ جَوْهَرَةٌ کُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ۔

اب کیا اِس ربوبیت اور تسلط کا خاتمہ یہیں پر ہو جا تا ہے؟ نہیںاسکے درجات اور مراتب ہیں آپ عبادت کے راستے پر جس درجے بھی آگے بڑھیں گے، ربوبیت حاصل کریں گے اور اصطلاحاً ولایت حاصل کریں گےیعنی تسلط حاصل کریں گےاِس درجے سے جس کے بارے میں ہم نے عرض کیا ایک درجے بالاتر}جا پہنچیں گے{، وہاں پہنچ جائیں گے کہ آپ اپنے نفس کے خیالات کے مالک بن جائیں گے۔

بالاتر درجات

کیا اس سے بھی بالاتر کوئی درجہ ہے؟ ہاں، انسان (کم از کم اپنے بارے میں) مستجاب الدعوۃ ہو جاتا ہےحتیٰ عبودیت کے نتیجے میں اپنے بدن پر اثر انداز ہو سکتا ہے، معجزہ کر سکتا ہے، کرامت کر سکتا ہے، (اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ) اس کا نتیجہ تسلط ہے۔کیا اِس سے بڑھ کر بھی ہے؟

جی ہاں، لیکن یہ بڑھ کر اور بالاتر درجہ ہمارے فہم اور ہماری فکر کے لئے بہت زیادہ ہےبہت سے افراد یہ باور نہیں کر سکتے کہ کوئی انسان عبودیت کے اثر سے، خدا کی بندگی اور تذلل کے اثر سے، صراطِ عبودیت کو طے کرنے کی وجہ سے، اس مقام پر جا پہنچتا ہے کہ کائنات میں بھی تصرف کر سکتا ہےیعنی ایک بیمار کا روحی راستے سے علاج کر سکتا ہے، ایک پیدائشی اندھے کو شفا دے سکتا ہے، ایک مبروص (leper) کو شفا دے سکتا ہے (جیسا کہ قرآنِ کریم حضرت عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں بیان کرتا ہے)

 

البتہ اذنِ الٰہی سےخدا نے انہیں یہ قدرت دی ہوئی ہےاذنِ خدا وہی قدرت ہے جو خدا عطاکرتا ہے: وَ تُبْرِئُ الْاَکْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ وَ اِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتٰی بِاِذْنِیْ (۱) یا ایک دوسری آیت میں: وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اﷲِ(۲) یہ ایک بلند تر درجہ ہے جس کے بارے میں ہم فی الحال گفتگو کرنانہیں چاہتے، بعد کی نشست میں انشاء اﷲ آپ کی خدمت میں ”قرب“ کے بارے میں کچھ نکات عرض کریں گےیہ جو ہم عبادت میں کہتے ہیں کہ ”قربۃً اِلَی اﷲ“ اس کے کیا معنی ہیں؟ تقربِ خدا سے کیا مراد ہے؟ اس بات کی انشاء اﷲ آپ کی خدمت میں وضاحت کریں گے۔

حضرت علی علیہ السلام اُن بندوں اور عابدوں میں سے ہیں جو اِس خداوند گاری پر پہنچے ہوئے ہیں البتہ غلط فہمی پیدانہ ہو جائے، آپ یہ تصور نہ کیجئے گا کہ یہ عبودیت جس کا نتیجہ خداوند گاری اور تسلط ہے اس کا نتیجہ خود پسندی بھی ہےہرگز نہیں، خود پسندی کا عبودیت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیںکیااس کا نتیجہ غرور اور انانیت ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔

وہ بندہ جو ربوبیت کے لئے بندگی کرتاہے، اسے اپنے عمل کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتاعبودیت تذلل اور خاکساری کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے۔ حضرت علی علیہ السلام اپنی مناجات میں عرض کرتے ہیں: خدایا ! کَفیٰ لی فَخراً اَنْ اَکونَ لَکَ عَبْداً وَکَفیٰ لی عِزّاً اَنْ تَکونَ لی رَبّاً بارِالٰہا! میرے لئے یہ افتخار کافی ہے کہ میں تیرا بندہ رہوں اور میرے لئے یہ عزو شرف بہت ہے کہ تو میرا رب، خداوندگار، اور پروردگار ہے۔

ہم حضرت علی علیہ السلام کے لئے بہت سے مقامات اوردرجات کے قائل ہیں، اور قائل ہونا بھی چاہئےدراصل مسئلہ ولایت، جس کے حوالے سے کہتے ہیں کہ بغیر ولایتِ تکوینی کے (ان حدود میں جس کے بارے میں شاید ایک نشست میں آپ کی خدمت میں عرض کریں) دراصل ولایت ہی نہیں ہوتی}وہ لوگ{غلط فہمی کاشکار ہیں، انہوں نے سمجھا نہیں ہے، علم نہیں رکھتے،

--------------

1:- اور تم پیدائشی اندھوں کو اور برص میں مبتلا لوگوں کو ہماری اجازت سے صحیتیاب کردیتے تھے اور ہماری اجازت سے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ (سورہ مائدہ ۵آیت ۱۱۰)

2:- اور حکمِ خدا سے مردوں کو زندہ کروں گا۔ (سورہ آل عمران ۳آیت ۴۹)

 

 وہ لوگ جو ولایت تکوینی کے منکر ہو گئے ہیں اور حتیٰ ولایتِ تکوینی کو نہیں سمجھے ہیں کہ وہ کیا ہےانہوں نے ایک اور چیز کو جاہلانہ طور پر فرض اور تصور کر لیا ہے اور اسی کو بار بار لوگوں سے کہا ہے، انہوں نے اسے اپنی کتابوں میں بھی لکھا ہےکیونکہ ان کا ذہن ان مسائل تک نہیں پہنچتایہ لوگ بنیادی طور پر انسان اور خدا کو نہیں پہچانتےاس قسم کے مسائل کے بارے میں اظہارِ رائے کرنا، دو مسئلوں کی فرع ہے:اوّل خدا کی شناخت، دوّم: انسان کی شناخت اور انسان کی اندرونی صلاحیتوں کی شناخت، اور خدا سے انسان کے تقرب کے معنی اور عبودیت اور عبادت کے معنی۔

حضرت علی علیہ السلام جنہیں اس قدر محبوبیت حاصل ہے، یہ ان کی عبودیت کی وجہ سے ہےکیا خوب کہتے ہیں ابوسعید ابی الخیر (یاخواجہ عبداﷲ انصاری)

آن کس کہ تورا شناخت جان راچہ کند

فرزند و عیال و خانمان راچہ کند

دیوانہ کنی(1) ھر دوجہانش بخشی(2)

دیوانہ توھر دو جھان راچہ کند

ایسا شخص جو تیرا مجذوب ہو جاتا ہے، اُسے ان ربوبیتوں کی کیا پروا جو انانیت، غرور اور تکبر پیدا کرتی ہیں۔

یہ ایام، ایک طرف تو احیا کے دن اور راتیں ہیں، دعا کے دن اور راتیں ہیں، عبودیت اور بندگی کرنے کے دن اور راتیں ہیں اور دوسری طرف مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے ایام ہیں اس ہستی کی شہادت کے ایام ہیں جو عظیم ترین بندگانِ خدا میں سے ایک ہےپیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ہم ایسی بندگی رکھنے والے کسی اور بندے سے واقف نہیں ہیں۔

--------------

1:-یعنی اسے اپنا شیفتہ اور مجذوب کر لیتا ہے۔

2:-اسی ربوبیت کے بارے میں کہہ رہے ہیں(اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ)

 

حضرت علی علیہ السلام کے ضرب لگنے سے شہادت تک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً پینتالیس گھنٹے ہوں گےیعنی اس لحظے تک جب کہ آپ کی روح نے عالمِ ملکوت کی جانب پرواز کیاور ہمارے خیال میں پینتالیس گھنٹے کی یہ مدت حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے حیرت انگیز ترین ادوار میں سے ہےان پینتالیس گھنٹے میں انسان حضرت علی کی شخصیت کو دیکھتا ہے، ان پینتالیس گھنٹوں میں علی کایقین اور ایمان دوسروں پر نمایاں ہوتا ہےخود اُن کی نظر میں یہ ایسے لحظات اور ساعتیں ہیں کہ جس میں انہوں نے اپنا انعام حاصل کیا ہےمقابلے کو انتہا تک پہنچایا ہے، انتہائی افتخار کے ساتھ اپنے پروردگار کے پاس جانا چاہتے ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری ہی شئے ہیںنہج البلاغہ میں ہے، فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ :اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّّقُوْلُوْآ ٰامَنَّا وَ هُمْ لااَا یُفْتَنُوْنَ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اﷲُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ(۵) تو میں سمجھ گیا کہ امتِ اسلامیہ میں فتنے پیدا ہوں گےمجھے شہادت کی بڑی تمنا تھی، میری آرزو تھی کہ احد میں شہید ہو جاؤںمسلمانوں کے ستر افراد شہید ہو گئےجب میں شہید نہ ہوا تو میں انتہائی دل گرفتہ تھا، میں رنجیدہ ہو گیا (یہ باتیں ایک جوان کر رہا ہےجنگِ احد کے زمانے میں حضرت علی علیہ السلام ایک تقریباً پچیس برس کے مرد تھے، ان کے دو چھوٹے بچے تھے، امام حسن اور امام حسین، صدیقہ طاہرہ جیسی ان کی زوجہ تھیں، اسکے باوجود شہادت کی آرزو نے علی کو اس قدر بے تاب کر رکھا تھا کہ جب آپ شہید نہ ہوئے تو رنجیدہ تھے) پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے پہلے ہی ان سے وعدہ کیا ہوا تھاشایدخود انہوں نے ہی رسولِ کریم سے سوال کیا تھا کہ اے اﷲ کے رسول! میں کس انداز سے دنیا سے رخصت ہوں گا؟ پیغمبر نے فرمایاتھا کہ تم ایک شہید کی صورت میں دنیا سے جاؤ گےلیکن جب آپ نے دیکھا کہ آپ جنگِ احد میں شہید نہیں ہوئے، تو آپ رنجیدہ ہو گئےرسولِ کریم کی خدمت میں تشریف لے گئے اور کہا: اے اﷲ کے رسول ! آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ خدا شہادت کو میرا مقدر بنائے گاپس آخر کیوں میں احد میں شہید نہیں ہوا؟

--------------

۵۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور اُن کا امتحان نہیں ہوگا۔ بے شک ہم نے اُن سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں۔ (سورہ عنکبوت ۲۹۔ آیت ۲ اور ۳)

 

آنحضرت نے فرمایا: علی جان، زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا، آپ یقیناًاس امت کے شہید ہوں گےاسکے بعد پیغمبر نے علی سے ایک سوال کیا: علی جان، بتاؤ جب تم بسترِ شہادت پر ہو گے تو کس طرح صبر کرو گے؟ آپ کیسا شاندارجواب دیتے ہیں}فرماتے ہیں{: اے اﷲ کے رسول! وہ تو صبر کی جگہ نہیں، وہ توخوشی کی جگہ ہے، شکر اور سپاس گزاری کامقام ہےآپ مجھے بتایئے کہ جب میں بسترِشہادت پر ہوں، تو کس طرح خدا کا شکر ادا کروں؟

علی ہمیشہ اپنے اس گم گشتہ کی تلاش میں رہتے تھےاجمالاً آپ جانتے تھے کہ آپ کا یہ سر راہِ خدا میں ضرب کھائے گاآپ کہا کرتے تھے کہ خدایا! وہ پیارا لمحہ، وہ خوبصورت لحظہ، وہ پر لذت اور شادمانی بھری ساعت کب آئے گی؟ رسولِ مقبول نے حضرت علی سے فرمایا تھا کہ آپ کی شہادت ماہِ رمضان میں واقع ہو گی اور اِس اکتالیس ہجری کے ماہِ رمضان میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علی کے دل کو پتا چل گیا تھا کہ اس ماہِ مبارک میں اس کی تمنا پوری ہو جائے گاعلی کے بچوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ اُن کے بابا اس ماہِ رمضان میں ایک انتظار، اضطراب اور بے چینی کا شکار ہیں ایسے جیسے کسی بڑی بات کا انتظار کر رہے ہیں۔

رمضان کی تیرہویں تاریخ ہے، آپ لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے ہیں، اُن سے خطاب فرماتے ہیں، خطبے کے درمیان آپ کی نگاہ امام حسن پر پڑتی ہے، اپنی گفتگو روک دیتے ہیںء آواز دیتے ہیں حسن !بتاؤ اس مہینے کے کتنے دن گزر گئے ہیں؟ ایک انتہائی عجیب سوال ہےعلی خود ہر ایک سے بہتر جانتے ہیں کہ کتنے روز گزر چکے ہیںکیوں اپنے اس جوان سے دریافت کر رہے ہیں؟ حسن عرض کرتے ہیں :بابا جان! تیرہ دن گزر چکے ہیں آپ فوراً امام حسین کی طرف رخ کرتے ہیں: بیٹا حسین! اس مہینے کے کتنے دن باقی بچے ہیں؟ (بالکل واضح ہے کہ جب تیرہ دن گزر چکے ہیں تو سترہ دن باقی رہے ہیں) بابا! سترہ روز باقی رہ گئے ہیں}یہ سن کر{ آپ اپنی ریشِ مبارک پر ہاتھ پھیرتے ہیں اور فرماتے ہیں: ا س داڑھی کا اس سر کے خون سے رنگا جانا بہت قریب ہےآپ کو اس ساعت، اور اس دن کا انتظار تھا۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ان پینتالیس گھنٹوں کے دوران جو خوبصورت جملے ارشاد فرمائے ان میں سے ایک یہ ہےدوسرے لوگ انتہائی مضطرب اور رنجیدہ تھےآنسو بہا رہے تھے، رو پیٹ رہے تھے،

 

لیکن خود علی، بشاشت کا اظہار کر رہے تھےفرمایا: واﷲِ مافَجَأَنی مِنَ الْمَوْتِ وارِدٌ کَرِهْتُهُ وَلا طالِعُ اَنْکَرْتُهُ وماکُنْتُ اِلّاکَقارِبٍ وَرَدَوَطالِبٍ وَجَدَ خدا کی قسم اگر میں مر گیا تو مجھے کوئی کراہت نہیں ہو گی، ذرّہ برابر کراہت نہیںیہ میرے لئے ایک انجانی بات نہیں تھی، ایک انجانا مہمان نہ تھا، ایک جانا پہچانا مہمان تھااسکے بعد فرمایا: تم جانتے ہو کہ میری مثال کیسی مثال ہے؟ اُس عاشق کی سی مثال ہے جو اپنے مطلوب اور معشوق کا پیچھا کرتا ہے، اور اُسے پا لیتا ہےمیری مثال اس پیاسے کی سی مثال ہے جو ایک تاریک رات میں پانی کی تلاش میں ہوتا ہے اور اچانک پانی دریافت کر لیتا ہے، وہ کس قدر خوش ہو تا ہے!

آپ کے اصحاب آتے ہیں، }کہتے ہیں{ بے شک اے امیر المومنین! آپ کے لئے ایسا ہی ہےلیکن آپ کے بعد ہم کیا کریں گے؟ انیسویں کی شب، حضرت علی کے بچوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ آج ایک اور ہی طرح کی رات ہے، کیونکہ اس رات حضرت کی ایک خاص وضع تھیکبھی آپ باہر تشریف لاتے، آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے اورواپس پلٹ جاتےاس رات بھی علی صبح تک نہ سوئےآپ کے بچے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھےامیر المومنین کے یہاں نماز پڑھنے کی ایک مخصوص جگہ تھییعنی گھر میں ایک کمرہ تھا جہاں نماز پڑھا کرتے اور عبادت کیا کرتے تھےحسن ابن علی علیہما السلام، جو اپنے گھر چلے گئے تھے، صبح طلوع ہونے سے پہلے اپنے گھر سے لوٹ آئے، اپنے پدرِ بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے نماز پڑھنے کی جگہ گئے، دیکھا کہ علی بیٹھے ہوئے عبادت میں مشغول ہیں اس موقع پر آپ نے وہ قصہ جو اس رات واقع ہوا تھا اپنے فرزند حسن سے بیان کیافرمایا: بیٹا! کل رات میں اسی طرح بیٹھا ہوا تھا (یعنی میں کل رات نہیں سویا تھا، بستر نہیں بچھایا تھا) کہ میری آنکھ لگ گئیایک لمحہ میں، ایک عجیب سرعت کے ساتھ، اسی خواب کے عالم میں، میں نے تمہارے نانا پیغمبر اکرم کو دیکھا ”مَلَکَتْنی عَینی وَاَنا جالِسٌ فَسنَحَ لی رَسولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْهِ وَآلِهِ“ میری آنکھ لگ گئی، مجھ پر نیند کا غلبہ ہو گیا، میں نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے ایک لمحے کے لئے پیغمبر کو دیکھاجوں ہی پیغمبر پر میری نگاہ پڑی میں نے اُن کی خدمت میں امت کی شکایت کی، میں نے عر ض کیا : یا رسولَ اﷲِ ماذا لَقیتُ مِن اُمَّتِکَ مِنَ الْاَودِ وَاللَّدَدِاے اﷲ کے رسول! میں نے آپ کی امت کے ہاتھوں کیا کیا ستم سہے ہیں، اور اس امت نے میرا کیسا کیسا دل دکھایا ہے! اے اﷲ کے رسول! میں آپ سے اپنے دشمنوں کی۔ ۔ (*)

*آخری چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔

 

حقیقی طور پر نزدیک ہونا

گزشتہ نشست میں ہم نے عبودیت، حق کی بندگی، حق کی پرستش اور ان آثار کے بارے میں کچھ گفتگو کی تھی جوعبودیت سے انسان کے لئے مرتب ہوتے ہیں، اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی وہ حدیث جو ”مصباح الشریعہ“ میں نقل ہوئی ہے، اُسے پیش کیا تھاحدیث یہ تھی: اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُنیزاس حدیث کے بارے میں کچھ وضاحتیں عرض کی تھیںلیکن گزشتہ وضاحتوں کے بارے میں مزید گفتگو کی ضرورت ہےساتھ ساتھ ہم ان نکات کے بارے میں بھی کچھ عرائض آپ کی خدمت میں پیش کریں گے جن کے حوالے سے ہم نے اِس نشست میں گفتگو کا وعدہ کیا تھا، یعنی مسئلہ ”تقربِ الٰہی“ جو عبادت کی روح ہےپہلے ہم آپ کی خدمت میں تقرب کا مسئلہ عرض کرتے ہیں۔

آپ جب کبھی کوئی عبادت انجام دینا چاہتے ہیں، مثلاً نماز پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، حج انجام دیتے ہیں، یا زکات دیتے ہیں، تو نیت کرتے ہیں اور نیت میں کہتے ہیں کہ: نماز پڑھتا ہوں قُرْبَةً اِلَی اﷲ یعنی نماز پڑھتا ہوں تاکہ خدائے تبارک و تعالیٰ کے نزدیک ہو جاؤںروزہ رکھتا ہوں قُرْبَةً اِلَی اﷲِ، اس لئے کہ خدا سے نزدیک ہو جاؤں، حج کرتا ہوں قُرْبَةً اِلَی اﷲِ، اس لئے کہ خدا کا قرب حاصل کر لوں، احسان کرتا ہوں، دوسرے انسانوں کے کام آتا ہوں، تاکہ خدا کا قرب میسر آ ئے۔

ہم اس نشست میں، آپ کی خدمت میں، خد ا سے نزدیک ہونے کے معنی کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں}یہ واضح کرنا چاہتے ہیں{کہ بنیادی طور پر خدا سے نزدیک ہونا کوئی معنی ومفہوم رکھتا بھی ہے یا نہیں بالفاظِ دیگر خدا سے نزدیک ہونا کیا ایک حقیقی نزدیکی ہے، واقعاً انسان ایک وسیلے سے، عبادت و اطاعت کے وسیلے سے (وہ عبادت و اطاعت جس شکل کی بھی ہوا کرے) خدا سے نزدیک ہوتا ہے، یا خدا سے واقعی نزدیک ہونے کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا سے نزدیک ہوتے ہیں، یہ ایک تعبیر ہے، ایک مجازی مفہوم ہےکس طرح؟ ہم آپ کی خدمت میں دو مثالیں پیش کرتے ہیں ایک اُس مقام کی جس میں ایک شئے کی دوسری شئے سے نزدیکی حقیقی ہے اور ایک اُس مقام کی جہاں ایک شئے کا دوسری شئے سے نزدیک ہونا ایک مجازی تعبیر ہے، حقیقی اور واقعی نہیں۔

 

حقیقی طور پر نزدیک ہونا

جہاں نزدیک ہونے سے ہماری تعبیر حقیقی }طور پر نزدیک ہونا{ ہے }وہ یہ ہے کہ{ آپ یہاں }تہران{ سے قم جانا چاہتے ہیں، آپ جس قدر چلتے چلے جائیں گے اس قدر کہیں گے کہ میں قم سے قریب ہو رہا ہوں اور تہران سے دورسچ مچ یہاں قم سے آپ کا قریب ہونا ایک معنی اور مفہوم رکھتا ہےیعنی آپ جو تہران میں ہیں، آپ کے اور شہر قم کے درمیان ایک حقیقی فاصلہ موجود ہے، اور آپ }سفر کے ذریعے{ تدریجاً اس فاصلے کو کم کر رہے ہیںلہٰذا آپ کہتے ہیں کہ میں قم شہر سے نزدیک ہو رہا ہوںیہ نزدیک ہونے کے ایک معنی ہیں حقیقتاً آپ تہران سے چل کر قم کی طرف جا رہے ہیں، آپ کے اور قم کے درمیان ایک فاصلہ ہے، اور تدریجاً یہ فاصلہ کم ہو تا جاتا ہے، یہاں تک کہ آپ قم پہنچ جاتے ہیں آپ اس قدر نزدیک ہو جاتے ہیں کہ پھر ”نزدیکی“ کا لفظ بھی تقریباً بے معنی ہو جاتا ہےیعنی آپ قم پہنچ گئے ہیں اور واصلِ قم ہو گئے ہیںیہ نزدیک ہونا، حقیقی طور پر نزدیک ہونا ہے۔

مجازی طور پر نزدیک ہونا

ہم ایک اور طرح کے نزدیک ہونے سے بھی واقف ہیں، جو فقط تعبیر ہے، حقیقی طور پر نزدیک ہونا نہیں ہےوہ کس طرح؟

آپ ایک عہدے و منصب کے حامل شخص، یا کسی دولت مند شخص کو پیش نظر رکھئے، جس کے پاس بہت زیادہ طاقت اور بہت زیادہ مال و دولت ہےپھر ہم بعض افراد کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں عہدیدار سے نزدیک ہے، فلاں شخص فلاں عہدیدار سے نزدیک ہےآپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ فلاں قدرت مند شخص سے نزدیک ہیں، یا نزدیک نہیں ہیں؟ مثلا آپ کہتے ہیں :نہیں، میں}اُس سے {نزدیک نہیں ہوںلیکن فلاں شخص اُس سے بہت نزدیک ہے۔

کیسے؟ مجھے کسی قدرت مند اور منصب ومقام کے حامل شخص سے کوئی کام پڑتاہے، میں چاہتا ہوں کہ ایک ایسے شخص کے پاس جاؤں جو اس سے نزدیک ہو، وہ میرا اس سے تعارف کرائے اور میری مشکل حل ہو جائےیہ نزدیک ہونا کس قسم کا نزدیک ہونا ہے؟

 

اگر آپ کہتے ہیں کہ ایاز، سطان محمود سے نزدیک تھا، تو اس نزدیک ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ کوہر قدرت مند شخص کے حوالے سے اس قسم کی چیزنظر آئے گیمثلاً کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نزدیک تھےکیا اس سے مرادیہ ہے کہ ہمیشہ پیغمبر اور علی کے درمیان کم مکانی فاصلہ رہاکرتاتھا؟ یعنی اگر اس کا حساب کیا جاتا، تو ہمیشہ دوسرے افراد پیغمبر سے ایک فاصلے پر ہوتے تھے اور وہ شخصیت جس کے جسم کا فاصلہ پیغمبر کے جسم سے سب سے زیادہ کم تھا وہ علی تھے؟

جب آپ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں عہدیدار سے قریب ہے؟ تو کیا آپ کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اُس کا مکانی فاصلہ کم ہے؟ نہیں، یہ مراد نہیں ہوتی۔ اگر اس طرح ہو، تو اس عہدیدار کے دروازے پر رہنے والا چپراسی، تمام دوسرے لوگوں سے زیادہ اس سے نزدیک ہےکیونکہ وہ ہمیشہ اس سے صرف تین چار میٹر کے فاصلے پر رہتا ہے اور اسکی خدمت کے لئے تیار رہتا ہےکوئی بھی اور قدرت مند شخص اس عہدیدار کے چپراسی سے زیادہ اس سے نزدیک نہیںحالانکہ آپ کی مراد یہ نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ چپراسی ان معنی میں جو آپ کہہ رہے ہیں، اس شخص سے نزدیک نہیں ہے}بلکہ{ سرے سے نزدیک ہی نہیں ہے۔

پس پھر آپ کس معنی میں کہتے ہیں کہ اسکے نزدیک قریب اور مقرب ہے؟ آپ کی مراد یہ ہے کہ اسکے دل میں، اسکے ذہن میں اس انسان کوایسی محبوبیت اور ایسااحترام حاصل ہے کہ وہ اسکی بات نہیں ٹالتا، اسکی خواہش رد نہیں کرتا، اسکی خواہش اسکے لئے ایسے ہی ہے جیسے خود اسکی اپنی خواہش ہویہ قرب، قربِ معنوی ہےلیکن جب ہم قربِ معنوی بھی کہتے ہیں، تو در حقیقت تعبیر ہے، قربِ مجازی ہےیعنی خود یہ، خود اُس سے، یہ شخص اُس شخص سے نزدیک نہیں ہے، بلکہ یہ فقط اس انسان کے ذہن اور روح میں ایک خاص محبوبیت رکھتا ہے، اسکے لطف و عنایت کا مورد ہے، اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ نزدیک ہے۔

 

ایک بندے کے خدا سے نزدیک ہو نے کے کیا معنی ہیں؟

یقینی طور پر پہلے معنی والی نزدیکی مرادنہیں ہےیعنی جب ہم کہتے ہیں کہ بندہ عبادت کی وجہ سے خدا سے نزدیک ہو جاتا ہے، تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس بندے کا خدا سے فاصلہ کم ہو جاتا ہےیعنی پہلے اسکے اور خد ا کے درمیان فاصلہ موجود تھا، اب تدریجاً وہ اس سے نزدیک اور نزدیک ہو رہا ہےیہاں تک کہ فاصلہ کم ہوتا جاتاہے اور وہ مرحلہ }آپہنچتا ہے{ جس کے متعلق قرآنِ مجید کہتا ہے کہ: یٰاَیُّهَاالْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْهِ(۱) جس کا نام پروردگارِ عالم سے ملاقات اورلقائے رب ہےدو جسموں کی مانند جو ایک دوسرے کے نزدیک آ جاتے ہیںمثلاًجس طرح آپ قم پہنچ جاتے ہیں، ویسے ہی بندہ خدا تک پہنچ جاتا ہےاس قسم کے معنی نہیں ہیں اور یقیناًمراد یہ نہیں ہے۔

کیوں؟ اس لئے کہ اُن دسیوں عقلی دلائل سے قطع نظر جو یہاں موجود ہیں کہ خدا اپنے بندوں سے فاصلے پر نہیں ہے، خدا کا کوئی مکان نہیں ہے، جس کی بنا پر اس قسم کا فاصلہ فرض ہو سکے، قرآن اور اسلام کی منطق کے لحاظ سے بھی، یعنی نقلی منطق کے لحاظ سے بھی، جس نے ہمیں خدا سے قرب اور نزدیکی کا حکم دیا ہے، جس نے ہمیں زُلفای عنداﷲ کا حکم دیا ہے، وہی جس نے ہم سے کہا ہے کہ خدا کا قرب حاصل کروکوئی خدا سے دور ہوتاہے اور کوئی خدا سے نزدیک ہےوہی منطق کہتی ہے کہ خدا تمام موجودات سے نزدیک ہے، خدا کسی موجود سے دور نہیں: وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِه نَفْسُه وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(۲) ہم انسان کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اسکے قریب ہیںدوسری آیت: وَ هُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ(۳) تم جہاں کہیں ہو، خدا تمہارے ساتھ ہےخدا کسی موجود سے دور نہیں ہے۔

--------------

۱۔ اے انسان! تو اپنے رب کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے، توایک دن اس کا سامنا کرے گا۔ (سورہ انشقاق۸۴۔ آیت۶)

۲۔ اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اس کا نفس کیا کیا وسوسے پیدا کرتا ہے اور ہم اس سے رگِ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔ (سورہ ق ۵۰آیت ۱۶)

۳۔ اور وہ تمہارے ساتھ ہے، تم جہاں بھی ہو۔ (سورہ حدید ۵۷آیت ۴)

 

پس ان معنی میں فاصلے کو کم کرنے کا کوئی مفہوم نہیں پایا جاتاہاں، ایک نکتہ ہے جسے ہم بعد میں عرض کریں گےخدا تمام لوگوں سے مساوی طور پر نزدیک ہےبلکہ تمام اشیا سے یکساں طور پر نزدیک ہےلیکن اشیا مساوی طور پر خدا سے نزدیک نہیں ہیںبعض اشیا خدا سے دور ہوتی ہیں لیکن خدا تمام اشیا سے نزدیک ہے، اور اس میں بھی ایک راز پوشیدہ ہے، جسے شاید آپ کے لئے عرض کر سکوںبہرحال، ان معنی میں نہیں ہے کہ دو چیزوں کے درمیان فاصلہ ہو اور ہم عبادت کے ذریعے اِن دوچیزوں کا فاصلہ کم کریں۔

پس کیا دوسرے معنی مراد ہیں؟ یعنی کیاخدا وندِ عالم کا قرب، معاشرتی عہدے و مقام کی حامل ہستیوں سے تقرب کی مانند ہے؟ بالفاظِ دیگر خداسے تقرب ایک ایسی تعبیر ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں؟ ایک مجاز ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں؟ اسی طرح جیسے ہم نے اپنی اجتماعی گفتگو میں اس قسم کی باتوں کو قرار دیا ہوا ہےایک مطلب جو واقعی نزدیک ہونا نہیں ہے }بلکہ ہم نے{توجہ کا مورد ہونے کو، عنایت کا مورد ہونے کو، لطف کا مورد ہونے کو قرب اور تقرب کا نام دیاہوا ہےبہت سے افراد، حتیٰ بہت سے علما اس طرح تصور کرتے ہیںکہتے ہیں کہ پروردگار سے تقرب کے یہی معنی ہیں جو نتیجے میں تعبیر اور مجاز ہے۔

اگر ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ خدا سے نزدیک ہیںیعنی دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ خدا کے نزدیک مقرب ہیںیعنی ان پر خدا کا سب سے زیادہ لطف اور عنایت ہےبلاتشبیہ }عرض ہے{، ہم خدا سے تشبیہ دینا نہیں چاہتےممکن ہے آپ کے ایک سے زیادہ بچے ہوں، اور ان بچوں میں سے ایک بچہ آ پ کے ذوق، مزاج اور آئیڈیل کے زیادہ مطابق ہوآپ کہتے ہیں کہ اپنے بچوں میں سے یہ بچہ دوسرے بچوں کی نسبت میرے سب سے زیادہ قریب ہےیعنی ان سب سے زیادہ میری توجہ کا مرکز ہےاگرچہ آپ کے تمام بچے، جسمانی اعتبارسے آپ سے مساوی طورپر نزدیک ہیں، سب کے سب ایک ہی گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیںکبھی کبھی وہ بچہ جسے آپ کم پسند کرتے ہیں وہ آپ کے نزدیک بیٹھ جاتا ہے اور وہ بچہ جسے آپ زیادہ پسند کرتے ہیں وہ آپ سے دو میٹر فاصلے پر بیٹھتا ہے۔

 

کہتے ہیں کہ پروردگار کے مقرب ہونے کے معنی اسکے سوا کچھ اور نہیں ہیں کہ ہم زیادہ پروردگار کی عنایت کے مرکز ہوںوگرنہ یہ بے معنی بات ہے کہ ہم نزدیک ہو ں اور خدا کی طرف چلیںاسی طرح یہ بات بھی بے معنی ہے کہ خدا ہماری طرف آئے اور خدا ہم سے نزدیک ہو جائےہمارے واقعاً خدا سے نزدیک ہونے کا بھی کوئی مفہوم نہیںخدا تو ہر چیز سے نزدیک ہےہم خدا سے نزدیک ہو جائیں، یعنی کیا؟

قربِ الٰہی کے معنی

لیکن وہ علما جو گہری نظر رکھتے ہیں اور زیادہ معرفت کے حامل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نہیں، بات اس طرح نہیں ہےخدا سے نزدیک ہونا، حقیقی طور پر نزدیک ہونا ہے، مجازی اور تعبیری طور پر نزدیک ہونا نہیںانسان واقعاً خدا سے نزدیک ترہو جاتا ہےلیکن یہ تصور نہ کیجئے گا کہ اس نزدیک ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہم کسی فاصلے کو کم کرتے ہیںفاصلے کی بات نہیں ہے۔پس پھر کیا بات ہے؟ کہتے ہیں کہ خداوندِ تبارک و تعالیٰ کمالِ مطلق ہے، وجودِ بے حد ہے، ہستی کا لامتناہی مرکز ہے، وہ علمِ محض ہے، عین علم ہے}مشہور فلسفی عالم{میر داماد کے الفاظ میں: عِلْمٌ کُلُّهُ وَکُلُّهُ الْعِلْمُ، قُدْرَةُ کُلُّهُ وَکُلُّهُ الْقُدْرَةُ، حیاةٌ کُلُّهُ وَکُلُّهُ الْحَیاةُ، اِرادَةٌ کُلُّهُ وَکُلُّهُ الْاِرادَةُ، وہ کمالِ مطلق ہےموجودات جو ں جوں اپنے وجود کے واقعی کمالات حاصل کرتے جاتے ہیں اسی قدر ہستی کے مرکز، محور اور حقیقت سے واقعاً نزدیک ہوتے چلے جاتے ہیںیہ نزدیک ہوناواقعی نزدیک ہونا ہے، جسمانی نزدیکی نہیں لیکن واقعی اور حقیقی نزدیکی ہے، مجاز اور تعبیر نہیں ہے}یہ تقرب{ایک انسان کے کسی معاشرتی مقام کے حامل شخص کے مقرب ہو جانے یا ایک بچے کے اپنے باپ کے مقرب ہونے کی قسم سے نہیں ہے، جو اس معنی میں ہے کہ اسکے لطف کے آثار زیادہ ہیںنہیں، واقعاً پیغمبر ہماری نسبت خدا سے زیادہ نزدیک ہیں، حقیقتاً امیر المومنین ہماری نسبت خدا سے زیادہ نزدیک ہیں، اور یہ قرب واقعی قرب ہےنتیجے میں جہاں ہم عبادت کرتے ہیں، عبودیت انجام دیتے ہیں، اگر واقعاً ہماری عبودیت عبودیت ہو، تو ہم قدم بقدم خدا کی طرف (حرکت کرتے ہیں) یہاں جو ہم ”قدم“ کہہ رہے ہیں، تو یہ بھی ایک تعبیر ہے، کیونکہ اس مقام پر یہ کلمات درست نہیں ہیں، ہم ”سیر“ کہتے ہیںکیونکہ علی ابن الحسین علیہما السلام جیسے اشخاص نے یہی تعبیر کی ہے، لہٰذا

 

ہم بھی تعبیر کر رہے ہیں امام علی ا بن الحسین فرماتے ہیں: اَللّٰهُمَّ اِنِّی اَجِدُ سُبُلَ الْمَطالِبِ اِلَیْکَ مُشْرَعَةٌ وَ مَناهِلَ الرَّجاءِ لَدَیْکَ مُتْرَعَةٌ وَاَعْلَمُ اَنَّکَ لِلرّاجین بِمَوْضِعِ اِجابَةٍ وَلِلْمَلْهوفینَ بِمَرْصَدِاِغاثَةٍ یہاں تک کہ فرماتے ہیں: وَاَنَّ الرّاحِلَ اِلَیْکَ قَریبُ الْمُسافَةِ بارِالٰہا! جو مسافر تیری طرف حرکت اور کوچ کرتا ہے، اُس کا فاصلہ نزدیک ہے، اسے بہت دور کا راستہ طے نہیں کرناہوتا، اسکی مسافت نزدیک ہے۔

دنیا ئے تشیع میں عظیم خزانے موجود ہیں، ان میں سے ایک یہ دعائیں ہیں، خدا کی قسم یہ معرفت کے خزانے ہیں، اگر ہم اپنے پاس موجود ان دعاؤں کے سوا کوئی اور دلیل نہ بھی رکھتے ہوں، علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی صحیفہ علویہ، امام زین العابدین علیہ السلام کی صحیفہ سجادیہ، یا صحیفہ سجادیہ کے علاوہ اور دعائیں، اگر ہمارے پاس علی ابن ابیطالب کی دعائے کمیل اور علی ابن الحسین کی دعائے ابوحمزہ ثمالی کے سوا کوئی اوردعا نہ ہو، اور اسلام کے پاس چودہ صدیوں میں کوئی اور چیز نہ ہو، تو اسلام کے ان دو شاگردوں کے توسط سے، اس بدویت اور جاہلیت سے پر دنیا میں ان دو آثار کا ظاہر ہونا ہی کافی ہےیہ اس قدر اوج و رفعت کے حامل ہیں کہ اصلاً معجزہ اسکے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔

بہر حال کہتے ہیں کہ، تقرب، تقربِ واقعی ہے، اورحقیقت ہے اور انسان سچ مچ خدا سے نزدیک ہو جاتا ہے۔

خدا سے اس طرح نزدیک ہونے کے کیا معنی ہیں؟

یعنی خدا جو کمالِ مطلق ہے، ہم مسلسل زیادہ سے زیادہ کمال حاصل کریںخدا علمِ علیٰ الاطلاق ہے، ہمارے علم، ایمان اور بصیرت میں اضافہ ہوتا چلا جائےخدا قدرت علیٰ الاطلاق ہے، ہماری قدرت میں اضافہ ہو تا چلا جائےخدا حیات علیٰ الاطلاق ہے، ہماری حیات اور ارادے میں اضافہ ہوتا چلا جائےپس مسلہ عبودیت (اور یہ کہ) بندگی کرو (ایک شاعر کے بقول: بندگی کن تا کہ سلطانت کنند، یا امام جعفر صادق علیہ السلام کے الفاظ میں : اَلْعُبودِیَّةُ جَوْهَرَةٌ کُنْهُهَا الرُّبوبِیَّةُعبودیت کے راستے پر جس قدر آگے بڑھو گے، اتنا ہی تمہاری ربوبیت او خداوند گاری (نعوذ باللہ خدائی نہیں) کے مالک ہونے اورتمہارے تسلط اور قدرت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گاعبادت قدرت اور تسلط کے حصول کا راستہ ہے۔

 

اب سوال یہ ہے کہ یہ تسلط کس قسم کا ہے؟

اس تسلط کو ہم پانچ مرحلوں (یا ایک اعتبا سے چھے مرحلوں) میں آپ کی خدمت میں واضح کریں گے۔ اگرچہ اس کے وہ آخری مراحل اس قسم کی نشستوں کی حدود سے زیادہ ہیںلیکن کیونکہ ہم نے اوّلین مراحل کو تو عرض کرنا ہی ہے، لہٰذا آخری مرحلے کی جانب اشارہ کرنے پر بھی مجبورہیںگزشتہ نشست میں ہم نے اسکے کچھ حصوں کو عرض کیا تھا۔

عبادت کااوّلین اثر اپنے آپ پر تسلط

عبادت جو انسان کو خدا سے نزدیک کرتی ہے، اُس کا اوّلین اثر(اپنے نفس پر تسلط ہے) یہاں سے آپ سمجھ جائیں کہ کونسی عبادت مقبول ہے، اور کونسی عبادت قبول نہیںایسی عبادت جو انسان کو خدا سے نزدیک نہ کرے، عبادت نہیں ہے۔ یعنی آپ یقین نہ کیجئے گا کہ کوئی انسان درست طریقے سے عبادت کرے لیکن خدا سے نزدیک نہ ہویہ محال ہےعبادت خداوند عالم سے تقرب اور اس سے نزدیک ہونے سے مرکب ہےمیری اور آپ کی عبادت اس وقت مقبول ہے، جب وہ ہمیں خدا سے نزدیک کرے اور باور نہ کیجئے گا کہ انسان خدا سے، کائنات کے اس لامتناہی مرکز سے نزدیک ہو لیکن اسکی بصیرت، ایمان اور نور میں اضافہ نہ ہو، اسکی قدرت، حیات، ارادے اور اپنے آپ پر تسلط میں اضافہ نہ ہو۔

اوّلین مرحلہ، جو اس بات کو جاننے کی سب سے پہلی علامت ہے کہ ہماری عبادت پروردگار کی بارگاہ میں قبول ہوئی ہے یا نہیں ہمارے عمل کی اجتماعی قدر و قیمت ہے، یعنی کیا؟ یعنی اگر ہم عبادت کریںیہ عبادت (جو بار بار کی جاتی ہے اور بالخصوص نماز کے بارے میں زیادہ صادق آتی ہے) کس لئے ہے؟ یہ اس لئے ہے کہ یہ بات ہمیشہ ہمارے ذہن میں رہے کہ ہم بندے ہیں اور ہمارا ایک خدا ہے۔

بسا اوقات بعض افرادسوال کرتے ہیں کہ ہمارے نماز پڑھنے سے خدا کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ خدا کوکیا فائدہ ہے جو ہم نماز پڑھیں؟

 

دوسرا کہتا ہے: آپ کہتے ہیں کہ ہم نماز پڑھیں، خدا کے سامنے اسکی بندگی کا اظہار کریں، کیا خدا نہیں جانتا کہ ہم اسکے بندے ہیں جو ہم بار بار جا کر اسکی بارگاہ میں کھڑے ہوں اور بندگی کا اعلان کریں، تعظیم کریں، خوش آمد کریں، تاکہ خدا بھول نہ جائے کہ اُس کا ایسا بندہ ہے۔ اور اگر خدا بھول جاتا ہے، توایسا خدا تو خدا نہ ہواآپ جو کہتے ہیں کہ خدا کبھی نہیں بھولتا، تو پھر ہم کس لئے عبادت کریں؟

نہیں جناب، نماز اس لئے نہیں ہے کہ خدا نہ بھول جائے کہ اس کاایسا بندہ موجود ہے، بلکہ نماز اس لئے ہے کہ بندہ نہ بھول جائے کہ اس کا خدا ہے۔ نماز اس لئے ہے کہ ہمیشہ ہمیں یاد رہے کہ ہم بندے ہیںیعنی ہمارے سر پر ایک دیکھنے والی آنکھ موجود ہے، ہمارے دل میں موجود ہے، پوری کائنانت میں موجود ہے۔ ہم یہ بات نہ بھول جائیں کہ ہم بندے ہیں، لہٰذاہماری خلقت بے کار نہیں ہے، ہم بندے ہیں، لہٰذا ہمارے فرائض اور ذمے داریاں ہیںپس جب ہم نماز پڑھتے ہیں اور بار بار اللّہ اکبر، لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ، سبحان اللّٰہ کہتے ہیں، اوراپنی عبودیت کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں، کہ ہم بندے ہیں، تو یہ اس لئے ہے کہ خدا کی یاد ہمیشہ ہمارے دل میں رہے۔

اِس کا کیا فائدہ ہے؟

اس مرحلے میں اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیں یاد ہے کہ ہم بندے ہیں، ہمیں یاد ہے کہ ہمارے فرائض ہیں، ہمیں یاد ہے کہ دنیا میں خدا کا قانون موجود ہے اور اس قانون پر عمل ہونا چاہئے، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک عادلانہ قانون موجود ہے۔

ابن سینا کا کلام

عظیم اسلامی فلسفی، بو علی سینا نے، اسلام کی روشنی میں کچھ مسائل کا ذکر کیا ہے، اس سے پہلے کسی یونانی اور غیر یونانی فلسفی نے ان مسائل کاذکر نہیں کیا تھاانہی میں سے ایک مسئلہ وہ یہ چھیڑتے ہیں کہ انسان مدنی بالطبع ہےاسکے بعد عبادت کے مسئلے میں داخل ہوتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اجتماعی نکتہ نظر سے (وہ اجتماعی نکتہ نظر سے بھی گفتگو کرتے ہیں اور غیر اجتماعی نکتہ نظر سے بھی) اور انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خدا کو پہچانتا ہو اور اسے پہچاننے کے بعد متوجہ ہو کہ اس

 

خدا کی جانب سے انسانی زندگی کے لئے ایک عادلانہ قانون موجود ہے اور پھر واجب اور لازم ہے کہ عبادت کا وجود ہوعبادت کو بھی مکرر ہونا چاہئے، تاکہ ہمیشہ انسان کو یاد رہے کہ وہ بندہ ہے اور اُس کا ایک خدا ہےجب اسکی روح میں یہ یاد دہانی اور تلقین موجود ہو گی، تویہ اسکے گناہ اور معصیت کا شکار ہونے میں مانع ہو گیوہ ظلم کرنا چاہے گا، تو نماز آ کر اسکی آنکھوں کے سامنے مجسم ہو جائے گی، اور کہے گی کہ تو نے تو عبودیت کا اقرار کیا ہے، تو نے تو کہا ہے کہ میں آزاد نہیں ہوں، (پس کیوں ظلم کرنا چاہتا ہے؟ )(۱) یہاں کونسا قانون پایا جاتا ہے؟ کہتے ہیں: وفُرضت علیہم العبادۃ المفروضۃ بالتکریر، عبادت اس لئے واجب کی گئی ہے، تاکہ انسان کی روح میں ایک ایسی قوت پیدا ہو، کہ اس قوت کے اثرسے جو ایمان سے تجدیدِ عہد ہے مسلسل اس کے ایمان کی تجدید ہوتی رہے اور یہ ایمان گناہ کرنے میں مانع ہوجائے۔

یہ اس تسلط کا اوّلین درجہ ہے جو اپنے اوپر انسان عبادت کے ذریعے حاصل کرتا ہےاس مرحلے کو ہم نے گزشتہ نشست میں ایک حد تک آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا، کہ عبادت کی ایک قطعی خاصیت انسان کا خود اپنے نفس پر تسلط ہےیعنی انسان کا اپنی شہوات پر تسلط، انسان کا اپنی جاہ طلبی پر تسلط، انسان کا اپنی جبلّتوں پر تسلط، انسان کا اپنے اعضا وجوارح پر تسلط، انسان کا اپنی آنکھ پر تسلط، انسان کا اپنی زبان پر تسلط، انسان کا اپنے کان پر تسلط، انسان کا اپنے ہاتھ پر تسلط، انسان کا اپنے پیرپر تسلط، الغرض انسان کا اپنے پورے وجود پر تسلطاگر (یہ خاصیت) نہ ہو (تو ایسی عبادت) عبادت نہیںقرآنِ کریم کی نص کے مطابق: اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ کے ذریعے (ہمیں پتا چل چکا ہے کہ) خداوند گاری، قدرت و تسلط کا اوّلین مرحلہ، اورلا متناہی قدرت کے مرکز (خدا) سے قربت کی اوّلین علامت، اپنے قوہ، جبلّتوں، شہوات، نفسانی خواہشات پر تسلط اور اپنے اعضا پر غلبہ ہے، ہم خود اپنے آپ پر مسلط ہوں۔

--------------

۱۔ یہاں کیسٹ میں چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہوئی ہے۔

 

یہ مرحلہ، عام افراد کا مرحلہ ہےعام افراد اگر عبادت کریں بھی تو ضروری نہیں کہ انہوں نے انتہائی مشق کی ہو، وہ اس مرحلے پر پہنچتے ہیںیہ جو ہم عرض کر رہے ہیں کہ ”عام افراد“ تو اس سے یہ تصور نہ کیجئے گا کہ پس ہماری اور آپ کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، نہیں ہماری بہت اہم ذمے داری ہے۔

اپنے قوہ خیال پر تسلط

اس مرحلے سے جب ہم گزرجاتے ہیں، تو ایک بالاتر اور عالی تر مرحلہ ہے، اور وہ اپنے تصورات اور خیالات پر تسلط ہےیعنی ابھی ہم اور آپ جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں، دن کے وقت اپنے کام کاج اور روزگار کے سلسلے میں مشغول ہوتے ہیں، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے تصورات اور خیالات ہمارے اختیار میں ہیں اور ہم اپنے اوپر حاکم ہیںہم اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ ہم پر ہمارے فکر و خیال کا حکم چلتا ہے (یہاں فکر سے مراد قوہ خیال ہے) یعنی کچھ بکھرے ہوئے افکار ہم پر حاکم ہوتے ہیں آپ ایک جلسے میں بیٹھ جائیں، اگر آپ اپنے ذہن کو ایک گھنٹے کے لئے ایک خاص موضوع پر مرکوز کر سکیںاس انداز سے کہ آپ کی قوہ خیال آپ کے قابوسے باہر نہ نکل سکے، تب پتا چلے گا کہ آپ اپنے فکر و خیال پر مسلط ہیں۔نما ز حضورِ قلب کے لئے ہےحضورِ قلب دراصل ہے کیا؟ یہ حضورِ قلب کا مسئلہ ایک انتہائی عجیب تعبیر ہےحضورِ قلب، یعنی دل حاضر ہو، غائب نہ ہویعنی جب آپ نماز پڑھ رہے ہوں اور آپ قبلہ رخ ہوں، تو اپنا جائزہ لیں، دیکھیں کہ آپ کا دل نماز میں حاضر ہے یا غائب؟ آپ نماز کی ابتدا میں اپنے دل کودیکھتے ہیں، وہ حاضر ہوجاتا ہےآپ کا دل بھی چاہتا ہے کہ وہ حاضر رہےجب آپ اﷲ اکبر، بسم اللہ الرحمن الرحیم، الحمد ﷲ رب العالمین کہتے ہیں، تو یکایک آپ دیکھتے ہیں کہ جماعت کا یہ طالبِ علم بھاگ گیا ہے، آپ نے اوّل سے آخر تک درس دیا ہے لیکن طالبِ علم کلاس میں نہیں تھاجب ہم نماز پڑھتے ہیں اور الحمد ﷲ رب العالمین کہتے ہیں، تو ہم اپنے دل کو تفہیم کرنا چاہتے ہیں، اپنی روح کو تلقین کرنا چاہتے ہیں، لیکن جب ہم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارا جسم، یعنی ہماری زبان اورہمارے اعضا و جوارح ہمارے دل کو درس دینے میں مشغول تھے، اور جماعت کا طالبِ علم یہ دل تھا، لیکن افسوس کہ یہاں صورتحال یہ تھی کہ ہم نے درس دیا، جماعت کے طالبِ علم نے ابتدا میں اپنے حاضر ہونے کا اعلان کیا اور بعد میں بھاگ گیا اور ہم نے درس دیا اور فضول درس دیا۔

 

ہم سے حضورِ قلب کے لئے کہا گیا ہے، نماز میں تمہارا دل حاضر رہے، غائب نہ ہواس بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیںعلی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کی ایک روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث ہے، اورعلما میں سے جس نے سب سے بہتر انداز میں اس نکتے کو بیان کیاہے وہ شیخ الرئیس بو علی سینا ہیں، وہ عارف کی عبادت کے باب میں کہتے ہیں: والعبادة عند العارف ریاضةٌ ما لهممه و قواه المتخیلة و المتوهمة لیجرّها با لتعو ید عن جناب الغرور الی جناب القدس(یہ مضمون ہو بہو حدیث کا مضمون ہےایک درس ہے جو بو علی نے پیغمبر اور ائمہ سے لیا ہے) کہتے ہیں کہ ایک عارف انسان جو عبادت کرتا ہے، ایک دانااور شناسا انسان جب عبادت کرتا ہے، توعبادت کے دوران ہر چیز سے زیادہ، اپنے قوہ خیال کے تمرکز کو اہمیت دیتا ہے، تاکہ اسکا ذہن خدا کی طرف متوجہ ہوجائے اور قوہ خیال ہمیشہ حاضر ہو اور اس کلاس سے فرار نہ کرے۔

دل کے لئے پیغمبر اکرم کی تعبیر

دل کے بارے میں پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک تعبیر ہےاس قسم کے دل جو ہمارے پاس ہیں، وہ دل جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں انتہائی عجیب تعبیر ہے! پیغمبر اکرم ایک مثل بیان کرتے ہیں، فرماتے ہیں: اِنَّما مَثَلُ هٰذَاالْقَلْبِ کَمَثَلِ ریشَةٍ فی فَلاةٍ مُعَلَّقِةٍ عَلٰی شَجَرَةٍ تُقَلِّبُهَاالرِّیحُ ظَهْراً لِبَطْن انسانوں کے دل کی مثل، وہ انسان جن کے دل کی تربیت نہیں ہوئی ہے، اور اب تک انہوں نے عبادت کی مشق نہیں کی ہے، ایک پر کی (مثلاً ایک پرندے کے پر کی) مثل ہےاگرآپ ایک پر کو صحرا و بیابان میں، ایک درخت پر لٹکا دیں، اسکے بعد یہ دیکھیں کہ کیایہ پر ایک حالت میں ٹھہرا رہتا ہےآپ دیکھیں گے کہ وہ مسلسل کبھی اِس طرف اور کبھی اُس طرف ہوتا رہتا ہےہوا کا ایک انتہائی معمولی جھونکا، جس کے چلنے کا آپ کو احساس بھی نہیں ہوتا، آپ دیکھتے ہیں کہ }اس ہوا کے اثر سے{یہ پر اس شاخ پر حرکت کرنے لگتا ہے۔ کہتے ہیں بنی آدم کے قلب (جس سے یہاں قوہ خیال مرادہے) کی مثل، قوہ خیال کی مثل ہے، جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتا، اس شاخ سے اس شاخ پر اڑتا پھرتا ہے، انسان کے اختیار سے باہر ہےاس پر کی مثل ہے، جو بیابان میں ایک شاخ پر آویزاں ہو، جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتامولانا روم اسی مضمون کو شعر میں لائے ہیں:

 

گفت پیغمبر کہ دل ہمچون پری است

دربیابانی بہ دست صرصری

کیا تمام دل اسی طرح کے ہوتے ہیں؟  نہیں، ہرگز نہیں۔

لازماً آپ کے دل میں خیال پیدا ہو گا کہ حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کا دل بھی نعوذ باﷲ اسی طرح کا تھانہیں، ایسا نہ تھانہ صرف علی ابن ابی طالب، بلکہ اُن کے معمولی سے شاگرد بھی اس طرح کے نہیں تھے۔

کیا اویس قرنی، عمارِ یاسر اور کمیل ابن زیادہ نخعی اسی طرح کے تھے؟ نہیں ہرگز نہیں۔

حتیٰ ان سے بھی کم تر لوگوں کو ہم نے دیکھا ہےوہ افراد جنہیں ہم نے اپنے زمانے میں دیکھا ہے، ان میں بھی، ان افراد میں بھی ہم نے بہت دیکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے قوہ خیال کے مالک اور اپنے قوہ خیال پر مسلط ہیں۔ یعنی خدا کی عبودیت اور بندگی کے زیر اثر وہ اپنے اندر ایسی قوت پیدا کر سکے ہیں کہ اگر وہ چاہیں کہ مسلسل ایک گھنٹے اپنے ذہن کو ایک نقطے پر مرکوز رکھیں، اس طرح سے کہ اس پورے وقت میں ان کا ذہن ذرّہ برابر بھی کسی اور نقطے کی طرف متوجہ نہ ہو، تو وہ ایسا کر سکے ہیںیہ خود ایک قدرت اور تسلط ہے، اور خداوندِ تبارک و تعالیٰ سے واقعی قرب کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہےاس قسم کی چیز ممکن ہے۔ بنیادی طور پر ان لوگوں کی اہمیت اسی بنا پر ہے کہ وہ اپنی فکر و خیال پر حاکم ہیں، فکر یعنی خیال ان پر حکومت نہیں کرتااس قسم کے نکتے کو مولانا روم نے کس قدر عالی بیان کیا ہے! پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا: یَنامُ عَیْنی وَلا یَنامُ قَلْبیمیری آنکھ سوتی ہے، لیکن میرا دل بیداررہتا ہےہمارے برعکس کہ ہماری آنکھ بیدار ہے اور ہمارا دل عالمِ خواب میں ہےپیغمبر نے فرمایا ہے کہ میں آنکھ سے سوتاہوں، میرا دل بیدار ہوتا ہےفرماتے ہیں:

گفت پیغمبر کہ عینای ینام

لاینام القلب عن رب الانام

 

چشم تو پیدار و دل رفتہ بہ خواب

چشم من درخواب و دل در فتح یاب

حاکم اندیشہ ام محکوم نی

چون کہ بنا حاکم آمد بربنی

میری اور میرے فکر و خیال کی مثل بنّا}معمار{ اور بنا}عمارت{ کی سی ہے، اسے میں نے بنایا ہے، فکر و خیال نے مجھے نہیں بنایا ہے۔

من چومرغ او جم اندیشہ مگس

کی بود برمن مگس را دسترس

یہ دوسرا (اور ایک اعتبار سے تیسرا) مرحلہ، ان مراحل میں سے ہے کہ انسان تسلط اور قدرت پیدا کرتا ہے۔

روح کا بدن سے بے نیاز ہوجانا

کیا دوسرے مراحل بھی ہیں؟ اگرچہ یہ مراحل ہماری سطحِ فکر اور تصورات سے بعید ہیں لیکن صرف اس بنا پر کہ دوراور بعید ہیں ہمارے لئے یہ عذر نہیں ہوتا کہ ہم انہیں نہ پہچانیں اور ان سے بے خبر رہیںجی ہاں، ایک بالاتر مرحلہ بھی ہے (البتہ یہ خیال نہ کیجئے گا کہ جن مراحل کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں، وہ امام یا پیغمبر کے مراحل ہیں، امام اور پیغمبر کے مرحلے تک پہنچنے سے پہلے بہت سے مراحل ہیں) انسان خداوندِ عالم سے تقرب کے نتیجے میں (اور خداوندِ عالم سے تقرب عبودیت، اخلاص، اپنے آپ کو بھول جانا، پروردگارِ عالم کے مقابل خضوع و تذلل اور اسکے مقابل اطاعتِ محض کا نتیجہ ہے) ایک ایسے مرحلے پر پہنچ جاتا ہے کہ باوجود یہ کہ اُس کا بدن روح کا محتاج ہوتا ہے، اسکی روح بدن سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔

 

ایسا کیسے ہوتا ہے؟

اس وقت ہماری روح ہمارے بدن کی محتاج ہے، اور ہمارا بدن بھی ہماری روح کا محتاج ہےاس وقت اگر وہ روح اوروہ قوہ حیات نہ ہو، تو ہمارایہ بدن زندہ نہیں رہے گااگر ہمارایہ بدن بھی نہ ہو، تو ہماری روح بھی یہاں کسی کام کی نہ رہے گی، وہ کوئی کام نہیں کر سکے گی۔

لیکن کیا تمام انسان اسی طرح کے ہیں کہ ان کا بدن بھی روح کی ضرورت رکھتا ہے اور ان کی روح بھی بدن کی محتاج ہوتی ہے؟ یا یہ کہ بعض انسان خدا سے تقرب اور پروردگار کی عبودیت کے نتیجے میں اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ کم از کم ان کی روح ان کے بدن سے بے نیاز ہو جاتی ہے۔

کیسے بے نیاز ہو جاتی ہے؟

یعنی وہ یہ قدرت حاصل کر لیتے ہیں کہ بقول روح کو اس بدن سے نکال لیتے ہیں (البتہ یہاں نکالنے کے معنی مرجانا نہیں ہیں) یعنی بدن کے مقابل روح کے استقلال کو محفوظ رکھتے ہیں۔

خود ہمارے زمانے میں ایسے اشخاص موجود ہیں جو روح کو نکالنے کی قدرت رکھتے ہیںیعنی روح کو بدن سے جدا کرتے ہیں، اس طرح کہ اپنے آپ کو اس بدن پر مسلط دیکھتے ہیں اپنے بدن کو دیکھتے ہیں کہ مثلاً یہاں عبادت میں مشغول ہے اور وہ خود کسی دوسری جگہ کی سیر کر رہے ہوتے ہیں ایک وسیع ترین دریچہ اُن کے سامنے کھلا ہوتا ہےشیخ شہاب الدین سہروردی، جو ”شیخ اشراق“ کے نام سے معروف ہیں، اُن کی ایک عبارت ہےکہتے ہیں کہ ہم حکیم کواس وقت تک حکیم نہیں سمجھتے، جب تک اس میں اس بات کی قدرت نہ ہو کہ وہ اپنی روح کو اپنے بدن سے علیحدہ کر لےمیر داماد کہتے ہیں: ہم حکیم کو حکیم صرف اسی وقت سمجھتے ہیں جب بدن کو (روح سے) خالی کرنا اسکے لئے ملکہ بن چکا ہویعنی جب بھی وہ ارادہ کرے، اپنی روح کو بدن سے مستقل اور جدا کر سکے۔

 

ہمارے لئے یہ باتیں انتہائی سنگین اور زیادہ ہیںہم ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتےہمیں ان پر یقین نہ رکھنے کا حق بھی ہےکیونکہ ہم ان مراحل سے بہت دور ہیںلیکن اس بدگمانی اور بے یقینی سے ذرا اوپر اٹھئےہم تو نہیں گئے ہیں، ہم نے تو عبودیت کے راستے کے اس پہلے ہی مرحلے کو طے نہیں کیا ہے تاکہ دیکھ سکیں کہ کیا خدا کی عبادت کا اتنا اثر بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ ہم نے ایک بھی ماہِ رمضان میں، ایک بھی صحیح روزہ نہیں رکھا ہےآپ اسی ماہِ رمضان میں حقیقتاً تجربہ کرکے دیکھئےآپ دنیا کے تمام کاموں میں تجربہ کرتے ہیں ایک ماہِ رمضان میں تجربہ کیجئے اور ایک واقعی روزہ، ایسا روزہ جیسا پیغمبر اکرم نے فرمایاہے اور ائمہ اطہار نے حکم دیا ہے رکھئےیعنی پہلے تو روزے کے ظاہر پر، جو کھانے پینے کی اشیااور کچھ دوسری چیزوں کو ترک کرنا ہے، عمل کیجئےالبتہ یہ کام ہم سب کرتے ہیںلیکن وہ روزہ جسے حدیث میں روزہَ خاص کہا گیا ہے، اس روزے کو بھی رکھ کر دیکھیں۔ یعنی اس ایک ماہ میں، صرف ہمارا دَہان روزے سے نہ ہو، بلکہ ہماری زبان بھی روزہ رکھےماہِ رمضان میں کوشش کریں کہ ہماری زبان غیبت نہ کرے، جھوٹ نہ بولے، خواہ یہ جھوٹ اسکے انتہائی فائدے میں ہوزبان روزہ نہ توڑے، جھوٹ نہ بولے، کیونکہ روزہ صرف کھانے سے پرہیزکا نام نہیں ہےپیغمبراکرم نے فرمایا ہے: رُبَّ صاءِمٍ لاحَظَّ لَهُ اِلَّا الْجوعُ وَالْعَطَشُ بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں، روزے سے جن کے حصے میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں آتاہماری زبان بیہودہ اور لغو باتیں نہ بولے، وہ الفاظ جو ہماری دنیوی زندگی یا ہماری آخرت کے لئے ضروری ہوں ان کے سوا کوئی لفظ نہ بولےہمارے کان غیبت نہ سنیں، لہو ولعب نہ سنیں، فحش کلامی نہ سنیںہماری آنکھیں دوسروں کی عزت و آبرو پر نہ اٹھیںہمارے ہاتھ خیانت کے لئے دراز نہ ہوںہمارے قدم خیانت اور ظلم کی طرف نہ بڑھیںاسکے مقابل، اس ماہِ رمضان کو اطعام (دوسروں کو کھانا کھلانا) دلجوئی، محبت، احسان اور خدمت گزاری کا مہینہ قرار دیں۔

 

امتحان کریں، ایک ماہِ رمضان انسان بننے کی کوشش کریںاس وقت آپ دیکھیں گے کہ ایک ماہ بعد، عبادت اور عبودیت اپنا اثر بخشتی ہے یا نہیں، دیکھیں کہ ایک ماہ بعد یہی روزہ آپ کو بدلتا ہے یا نہیں، دیکھیں کہ ایک ماہ بعد یہی روزہ آپ کو ربوبیت یعنی خداوندگاری اور تسلط و قدرت دیتا ہے یا نہیںاگر آپ دیکھیں کہ نہیں دیا، تب آپ ان بعد کے مراحل کا انکار کیجئےلیکن اگرآپ دیکھیں کہ نہیں، اس ایک مہینے میں آپ نے اس قدر ربوبیت، خداوند گاری، تصاحب، یعنی اپنے نفس پر، اپنی جبلّتوں اور شہوات پر، اپنے اعضا و جوارح پرتسلط حاصل کر لیا ہے، تو پھر یقین کر لیجئے گاکہ وہ اگلے مراحل بھی عملی ہیں۔

بدن پر تصرف کی قدرت

کیا اس سے بھی بڑھ کرہے؟ کیا عبودیت کی یہ سواری انسان کو اس سے زیادہ خدا سے نزدیک کرتی ہے اور کیا انسان کو اس سے زیادہ قدرت و توانائی دیتی ہے؟

جی ہاں، نہ صرف اس کا رابطہ (یعنی انسان کا اپنے بدن سے رابطہ) اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ روح بدن سے مستقل ہو جاتی ہے، اور بدن سے اپنی نیاز سلب کرلیتی ہے، اس مرحلے پر جا پہنچتی ہے کہ اپنے بدن پر جو بھی تصرف کرنا چاہتی ہے کر لیتی ہےحتیٰ} انسان{یہ قدرت بھی حاصل کر لیتا ہے (ہم جانتے ہیں کہ آپ میں سے بعض لوگ شاید اس بات پر دیر سے یقین کریں) کہ ایک گھنٹے تک اپنی حرکتِ قلب کو روک لیتا ہے، اور نہیں مرتااس بات کی قدرت حاصل کر لیتا ہے کہ دو گھنٹے سانس نہ لے اور نہیں مرتااس بات کی قدرت حاصل کر لیتا ہے کہ اس بدن کے ساتھ طی الارض کرےہاں، }انسان {ایسی قدرت حاصل کر لیتا ہےیہ عبادت کا اثر ہے۔

 

بیرونی دنیا پر تصرف کی قدرت

کیا اس سے بھی بڑھ کر ہے؟ جی ہاں، اگر آپ وحشت کا شکار نہ ہوں، تو اس سے بلند تر بھی ہےوہ بالاتر مرحلہ، وہ قدرت ہے کہ انسان خدا کی بندگی اور عبودیت کے اثر سے اور ذاتِ اقدسِ الٰہی سے قرب کے اثر سے اور ہستی کے لامتناہی مرکز سے نزدیک ہونے کے زیر اثر اپنے سے باہر کی دنیا میں بھی تصرف کر سکتا ہےوہ ایک عصا کو اژدھے میں بدل سکتا ہے، وہ چاند کے گولے کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتا ہے، وہ تختِ بلقیس کو پلک جھپکتے میں یمن سے فلسطین لا سکتا ہےجی ہاں، کر سکتا ہےاَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌ کُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ لیکن یہ مراحل ہم سے بہت دور ہیںہم اپنے ہی مرحلے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔

ہم جو آج رات یہاں جمع ہوئے ہیں، قطع نظر اسکے کہ یہ رات احیا کی راتوں میں سے ایک رات ہے، جسے ہمیں جاگ کر بسر کرنا چاہئےلیکن اس رات کو ایک اعتبار سے ایک برکت و سعادت حاصل ہے، اور ایک اعتبار سے ایک نحوست اور بدشگونی بھینحوست اس اعتبار سے ہے کہ ایسی ہی ایک رات کو ہم علی ابن ابیطالب جیسی ہستی سے محروم ہوئے ہیں، اور برکت و سعادت اس اعتبار سے ہے کہ علی ابن ابیطالب کا جانا، ایک عام جانا نہیں تھاایک ایسا جانا ہے جو واقعاً ”مبارکباد“ کا حامل ہےجیسے کہ ”صعصعۃ بن صوحان عبدی“ امیر المومنین کے دفن کی شب، جب امیر المومنین کی قبر کے سرہانے آیا، کھڑا ہوا (وہ اور گنتی کے چند اور امیر المومنین کے خاص ساتھی تھے جنہیں امام حسن مجتبیٰ سلام اﷲ علیہ نے اس موقع پربلایا تھا) اور کہا کہ کیسی اچھی زندگی بسر کی اور کیسی عالی موت پائی!

آج کی رات احیا کی شب بھی ہے اور وہ رات بھی ہے جو امیر المومنین علی علیہ السلام سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ حضرت علی کو دوسروں کی نسبت کیا خصوصیت اور امتیاز حاصل ہے کہ آپ علی کے اس قدر شیفتہ ہیں؟ علی کی آپ سے کیا رشتہ داری ہے؟ کوئی نہیںعلی کا آپ سے کیا مادّی تعلق ہے؟ کسی قسم کا مادّی تعلق نہیں ہےعلی کا امتیاز اور ان کی خصوصیت کیا ہے؟ علی کی خصوصیت عبودیت اور بندگی ہےعلی خدا کے ایک کامل صالح بندے ہیں ایک ایسے بندے ہیں جو بندگی کے سوا کسی اور بات کے

 

بارے میں نہیں سوچتےایک ایسے بندے ہیں کہ ربوبیت اور تسلط کے اُن تمام مراحل کو، جن کے متعلق ہم نے عرض کیا، علی نے اعلیٰ حد تک طے کیا ہےایک ایسے بندے ہیں جو ہمیشہ خدا کو اپنے اعمال پر حاضر و ناظر سمجھتے ہیں۔

مالک اشتر نخعی کو کیا عالی تحریر کیا ہے! مالک اشتر کو حضرت علی علیہ السلام کا فرمان، جو نہج البلاغہ میں موجود ہے، اسلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہےانسان حیرت زد ہ ہو جاتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے، ایسی گنوار اور وحشی قوم کے درمیان ایک ایسا عظیم الشان اجتماعی دستورِ عمل (صاد ہوتا ہے) کہ انسان کو خیال گزرتا ہے کہ اسے انیسویں اور بیسویں صدی میں کچھ فلاسفہ نے بیٹھ کر تحریرکیا ہےمجھے نہیں معلوم کہ وہ لوگ جو معجزے کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ خیال کرتے ہیں کہ بس معجزہ یہ ہے کہ عصا، اژدھا بن جائےیہ معجزہ عوام کے لئے ہے۔ عالم لوگوں کے لئے دعائے کمیل، دعائے ابوحمزہ ثمالی اور مناجاتِ شعبانیہ معجزہ ہیں، مالکِ اشتر کے نام حضرت علی علیہ السلام کا فرمان معجزہ ہےاس فرمان میں آپ یوں تحریرفرماتے ہیں: مالک ! خیال نہ کرنا کہ اب جبکہ تم مصر گئے ہو، تو اب ان لوگوں کے والی اور ان سے برتر ہوگئے ہو اور لوگوں کو اپنی رعایا سمجھنے لگولہٰذا ایک درندے بھیڑیئے کی طرح جو دل چاہے کرتے پھرونہیں، ایسا نہیں ہےلوگوں کی تقسیم کرتے ہیں: وہ جو مسلمان ہیں، وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور وہ جو مسلمان نہیں ہیں، وہ تمہارے ہم نوع انسان ہیں اسکے بعد آخر میں (ہماری گفتگو کا شاہد یہی ہے) فرماتے ہیں: مالک! فَاِنَّکَ فَوْقَهُم تم اپنی رعیت پر بالادست بنائے گئے ہووہ محکوم ہیں اور تم حاکم لیکن وَاِلی الاَ مْرِعَلَیْکَ فَوْقَک جس ہستی نے یہ فرمان تمہارے نام تحریر کیا ہے اور اس ابلاغ کو تمہارے لئے صادر کیاہے، اور جو میں ہوں، وہ تمہارے اوپر ہےمیں تم پر نظر رکھے ہوئے ہوںاگر تم نے کوئی غلطی کی، تو تمہیں اسکی سزا دوں گا وَاللّٰهُ فَوْقَ مَنْ وَلّاکَ(۱) اور پروردگارِ اقدس کی ذات اس کے اوپر ہے جس نے تمہیں مصر کے لوگوں کا حاکم بنایا ہےخدا علی کے اوپر ہے اور علی ہمیشہ اپنے خدا سے خوفزدہ رہتا ہے کہ کہیں کوئی خطا سرزد نہ ہوجائے۔

--------------

۱۔ نہج البلاغہ مکتوب۵۳

 

دوسرا مرحلہ، جو خیال اور فکر کے تمرکز کا مرحلہ ہے (اس کے تعلق سے) اب اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ علی نماز میں کھڑے ہوتے ہیں، خدا اور عبادت میں ایسے ڈوب جاتے ہیں کہ وہ تیر جو آپ کے پائے مبارک میں پیوست ہے اور اگر عام حالت میں اسے آپ کے پیر سے نکالیں تو بہت تکلیف دے اور شاید بے تاب کر دے، حالتِ نماز میں آپ کے بدن سے باہر نکالتے ہیں اور آپ کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔

حضرت علی علیہ السلام کوجو عظمت ومنزلت حاصل ہے وہ آپ کی شخصیت کے انہی پہلوؤں کی وجہ سے ہےحضرت علی علیہ السلام ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں کہ طی الارض اور اس طرح کے مسائل آپ کے لئے انتہائی آسان ہیںمیں نے سنا ہے کہ ایک جاہل و نادان شخص نے کہا ہے کہ ایک ڈیڑھ میٹر یا دو میٹر کے انسان (یعنی العیاذ باﷲ علی ابن ابیطالب علیہ السلام) کے لئے جواس قدر فضائل اور معجزات بیان کئے جاتے ہیں وہ گھڑے ہوئے ہیں ایسے لوگوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہےان لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کے مسائل کا تعلق انسان کے قد کاٹھ سے ہےلہٰذا ایک ایسا شخص جس کا قد دو میٹر ہو، وہ زیادہ موثر ہوا کرتا ہےاس قسم کے انسانوں کی نظر میں اگر دنیا میں کوئی معجزہ وجود رکھتا ہے تو اسکا تعلق ”اوج بن عُنُق“ سے ہےکیونکہ وہ عظیم الجثہ تھایہ لوگ انسان کو پہچاننا کیوں نہیں چاہتے؟ کیوں خدا کو نہیں پہچاننا چاہتے؟ کیوں تقربِ الٰہی کو نہیں سمجھنا چاہتے؟ کیوں عبودیت کے معنی نہیں سمجھنا چاہتے؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ ولایتِ تکوینی، یعنی اس نے یہ نہیں کہا ہے کہ خدا نے دنیا کے کام کونعوذ باﷲ ایک انسان کے سپرد کر دیا ہے، اور خود ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا ہے، ایسی چیز محال ہےولایتِ تکوینی، یعنی بنیادی طور پر عبودیت کا پہلا قدم ولایت ہےلیکن درجہ بدرجہ (ولایت یعنی تسلط و قدرت) اِس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ اس ہاتھ کا مالک ہو جائے، اس آنکھ کا مالک ہو جائے، اس کان کا مالک ہو جائے، اپنے پیر کا مالک ہو جائے، اپنی جبلّتوں کا مالک ہو جائےدوسرا قدم اپنے فکر و خیال کا مالک ہو جائے، اپنے بدن کے مقابل اپنے نفس کا مالک ہو جائےقدم بقدم (آگے بڑھتا ہے) یہاں تک کہ عالمِ

 

تکوین پر بھی کچھ تسلط حاصل کر لیتا ہےپھر یہ باتیں نہیں کیا کرتا، یہ باتیں بے شعوری اور بے معرفتی کا نتیجہ ہیںہمیں علی اس لئے محبوب ہیں اور ہم اس لئے علی کے شیفتہ ہیں کہ یہ بات انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہےوہ شخص جو خود اپنے آپ سے بے خود ہو گیا ہے، وہ جس کی دنیا میں اب خودی نہیں پائی جاتی، جو کچھ ہے خدا ہے اور خدا کے سوا کوئی اور چیز اسکی بساط میں نہیں۔

علی، بسترِ شہادت پر

آیئے پروردگار کے اس صالح بندے کی عیادت کو چلتے ہیں آج کی رات علی کے بچوں کے لئے، علی کے شیعوں اور دوستوں کے لئے انتہائی پر اضطراب رات ہے۔

کم و بیش بہت سے لوگ سمجھ چکے تھے کہ علی ؑ اس مسموم ضربت سے نہیں بچ سکیں گےجیسا کہ آپ نے سنا ہے، علی ؑ نے جنگِ خندق میں عمرو بن عبدود سے ایک سخت ضرب کھائی تھی، یہ ضرب علی ؑ کے فرقِ نازنین پر پڑی تھی اور سپر کو توڑتی ہوئی امام کے سر میں ایک شگاف کا باعث بنی تھیالبتہ ایسی نہ تھی کہ خطرناک ہوتی اور بعد کے مرحلے میں امام نے عمرو کو زمین پر پٹخ دیا تھایہ زخم صحیح ہو گیا تھاکہتے ہیں کہ اس ازل و ابد کے لعین (ابن ملجم) کی ضربت اسی جگہ پر پڑی تھی، جہاں اس سے پہلے عمرو بن عبدود کی ضربت لگی تھی حضرت علی ؑ کے سرِ اقدس میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا تھابہت سے لوگوں کو اب بھی اس بات کی امید تھی کہ علی ؑ صحت یاب ہو جائیں گےحضرت علی ؑ کے بچوں میں سے ایک، ظاہر اً ان کی محترم صاحبزادی امِ کلثوم کی گزرتے ہوئے عبدالرحمن ابن ملجم پر نظر پڑی، انہوں نے کہا: اے ازل و ابد کے لعین! مجھے امید ہے تیری تمنا پوری نہ ہوگی، خدا میرے والد کو شفا عنایت کرے گا(ابن ملجم) مسکرایا اور کہا کہ میں نے اس تلوار کو ہزار درہم میں خریدا ہے، یہ بہت کارآمد تلوار ہے، اور میں نے اسے زہر میں بجھانے کے ہزار درہم ادا کئے ہیں، میں جانتا ہوں کہ یہ ضربت جو میں نے تمہارے باپ کے سر پر لگائی ہے، اگر اسے تمام انسانوں پر تقسیم کیا جائے، تو سب لوگ مر جائیں گےآپ خاطر جمع رکھئےاس بات نے علی ؑ کے بچوں کی امید کو بڑی حد تک توڑ دیاکہا کہ طبیب کو بلاؤایک شخص ہے جس کا نام ”ہانی بن عمرو سلولی“ ہے، ظاہراً یہ شخص (جیسا کہ ایک مرتبہ

 

میں نے تاریخ میں پڑھا) ایک ایسا طبیب تھا جس نے ”جندی شا پور“ کی یونیورسٹی سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی، یہ یونیورسٹی ایران میں تھی اور ایران کے عیسائی اسے چلاتے تھےیہ شخص کوفہ میں مقیم تھالوگ گئے اور اسے لے کر آئے، تاکہ معائنہ کرے، بلکہ ہوسکے تو علاج کرےلکھا ہے کہ اس نے ایک گوسفند یا ایک بکرے کو ذبح کرنے کو کہااسکے پھیپھڑے سے اس نے ایک رگ باہر نکالی، اس رگ کو گرم گرم اس زخم کی جگہ میں داخل کیا، وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس زہر کے آثار کس قدر ہیں، یا جاننا چاہتا تھا کہ یہ کس قدر نفوذ کر گیا ہے، ان باتوں کو اس سے زیادہ میں نہیں جانتالیکن صرف اس قدر جانتا ہوں کہ تاریخ میں یہ لکھا ہے۔ یہ شخص اپنی طبی آزمائش سے فارغ ہوا، توخاموش بیٹھ گیا، کوئی لفظ منہ سے نہ نکالا، صرف اتنا کیا کہ امیر المومنین کی طرف رخ کرکے عرض کیا کہ: اے امیر المومنین ؑ ! اگر آپ کی کوئی وصیت ہے تو کر دیجئےیہ وہ مقام ہے جہاں حضرت علی ؑ کے گھرانے، علی ؑ کے اعزہ اور علی ؑ کے شیعوں کی امید ختم ہو گئی۔

علی ؑ مہر و محبت اور بغض و عداوت ہردوچیزوں کا مرکز ہیں آپ کے ایسے ایسے محب ہیں جو آپ سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور آپ کے دشمن بھی انتہائی شدید ہیں، جیسے عبدالرحمن ابن ملجماسی طرح آپ کے دوست بھی عجیب و غریب تھےان دو راتوں اور دنوں میں، حضرت علی ؑ کے دوستوں میں ایک ولولہ پایا جاتا تھا، وہ علی کے گھر کے گرد جمع تھے اوروہ سب علی ؑ کی عیادت کی اجازت طلب کر رہے تھےسب کہہ رہے تھے کہ ایک بار ہمیں اپنے مولا کے جمال کے دیدار کی اجازت دے دیجئےکیا ممکن ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر علی ؑ کی آواز سن سکیں، علی ؑ کا رخِ انور دیکھ سکیں؟ ان میں سے ایک ”اصبغ بن نباتہ“ ہیںوہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ لوگ علی ؑ کے گھر کے گرد جمع ہیں، مضطرب ہیں اور گریہ و بکا کر رہے ہیں، سب داخلے کی اجازت ملنے کے منتظر ہیں یکلخت میں نے دیکھا کہ امام حسن ؑ باہر تشریف لائے اور اپنے والدِ بزرگوار کی طرف سے لوگوں سے ان کی محبت کا شکریہ ادا کیااسکے بعد فرمایا: اے لوگو! میرے والد کی حالت ایسی نہیں ہے کہ آپ ان سے ملاقات کر سکیںوالد صاحب نے آپ سے معذرت چاہی ہے اور فرمایا ہے کہ آپ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں، چلے جایئے، یہاں ٹھہرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہےمیرے لئے آپ سے ملاقات ممکن نہیںلوگ چلے گئےمیں نے بھی بہت چاہا کہ میں بھی چلا جاؤں لیکن نہ جا سکا میرے قدموں میں جانے کی

 

طاقت ہی نہیں رہی تھیمیں کھڑا رہاامام حسن ؑ ایک مرتبہ پھر تشریف لائےمجھے دیکھا اور کہا: اصبغ کیا تم نے نہیں سنا میں نے کیا کہا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں آقا سنا ہےفرمایا:پھر کیوں نہیں گئے؟ میں نے عرض کیا: میرا دل جانے کو تیار نہیں ہوتا، میرا دل چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک مرتبہ پھر اپنے آقا کی زیارت کر لوںامام تشریف لے گئے اور میرے لئے اجازت حاصل کر لائےمیں امیر المومنین کے سرہانے پہنچ گیامیں نے دیکھا کہ امیر المومنین کے سر پر ایک زرد رومال باندھا گیا ہےمیں تعین نہیں کر پا رہا تھا کہ علی کا چہر ہ اقدس زیادہ زرد ہے یا وہ رومال۔

بعض نے کہا ہے کہ تلوار کی ضربت اور اس مسمومیت کے مقابل حضرت علی علیہ السلام کے بدن کی قوتِ مدافعت ایک غیر معمولی بات ہےقاعدتاًعلی کو ضربت لگتے ہی دنیا سے رخصت ہو جانا چاہئے تھاان آخری لمحات میں علی کبھی بے ہوش ہو جاتے کبھی ہوش میں آ جاتےجب آپ ہوش میں آتے تو آپ کی زبانِ مقدس پر ذکرِ خدا اور وعظ و نصیحت جاری ہو جاتےکیسے کیسے نصائح، کیسے کیسے مواعظ، کیسی کیسی باتیں۔

اب اس موقع پر علی ؑ کی اولاد کے سوا کوئی علی ؑ کے بستر کے نزدیک نہ تھاذکرِ مصیبت ہمارا یہی ایک جملہ ہےعلی کے بچے علی کے بستر کو گھیرے میں لئے ہوئے تھےوہ دیکھتے تھے کہ آقا کبھی باتیں کرنے لگتے ہیں اور کبھی بے حال ہو جاتے ہیںہم نے ایک مرتبہ علی ؑ کی آواز سنی، جیسے آپ کسی سے باتیں کر رہے ہیںفرشتوں کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں:اِرْفَقوا مَلا ءِکَةَ رَبّی بی میرے خدا کے فرشتو، جومیری روح قبض کرنے کے لئے آئے ہو، میرے ساتھ نرمی کا سلوک کرناایک مرتبہ دیکھتے ہیں کہ علی ؑ کی صدا بلند ہوئی: اشْهَدُ اَنْ لا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَهُ لاشَریکَ لَهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسولُهُ اَلرَّفیقُ الْاَعْلیٰ اَلرَّفیقُ الْاَعْلیٰیہ علی کے کلمات تھےمیں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتا ہوں، میں پیغمبر کی رسالت کی شہادت دیتا ہوں}اسکے بعد{جان، جان آفرین کے سپرد کی اور علی ؑ کے گھر سے نالا و شیون کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ (۱)

--------------

1:-تقریر کے آخری چندسیکنڈ کیسٹ پر ریکارڈ نہیں ہوئے ہیں۔

 

نماز کی اہمیت

یآ اَیُّهَا الذَِّیْنَ اٰمَنُوا ا ذْکُرُ وااﷲَ ذِکْرًا کَثِیْرًا ه وَّسَبِحُّوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلاً(۱)

ہم اپنے مذہبی مضامین میں بعض ایسی چیزیں بھی دیکھتے ہیں جو کچھ اذہان میں عبادت کے موضوع پر سوالات پیدا کرتی ہیںمثلاً نماز کے بارے میں ہم سے کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے یا ائمہ اطہار علیہم السلام(۲) کا فرمان ہے کہ: اَلصَّلوٰةُ عَمودُ الدّینِ (نماز دین کا ستون ہے۔ وسائل الشیعہج ۳ص ۲۳ح ۱۳) یعنی اگر ہم دین کو ایک نصب شدہ خیمہ سمجھیں، جس میں اس کی چادر بھی ہے، طناب بھی، حلقہ بھی، زمین میں گڑی ہوئی بڑی بڑی کیلیں بھی اور ایک ستون بھی جس نے اس خیمے کو کھڑا کیا ہوا ہے، تو نماز اس نصب شدہ خیمے کے ستون کی مانند ہے۔

حدیث نبوی میں، جو خود رسول کریم سے نقل ہوئی ہے، خاص طور پر اسی بات کی بالکل اسی طرح وضاحت کی گئی ہے، جس طرح ہم نے آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے۔

نماز کے بارے میں روایت ہے: اِنَّ قُبِلَتْ قِبُلَ مَاسوِیها وَانْ رُدَّتْ رُد مَّاسواهامراد یہ ہے کہ انسان کے تمام اعمال کی قبولیت نماز کے قبول ہونے سے مشروط ہےیعنی اگرانسان کوئی نیک عمل انجام دے لیکن نماز نہ پڑھے، یا نماز پڑھے تو سہی لیکن درست نہ پڑھے، ایسی نماز پڑھے جوبارگاہِ الٰہی میں قبول نہ کی جائے، مسترد کر دی جائے، تو ایسی صورت میں اسکے دوسرے تمام نیک اعمال بھی مسترد کر دیئے جائیں گےانسان کے تما م نیک اعمال کی قبولیت اسکی نماز کی قبولیت سے وابستہ ہے۔

ایک اور حدیث میں ہے: اَلصَّلوٰةُ قُرْبَان کُلِّ تَقِّی (نماز ہر متقی کے لئے وسیلہ تقرب ہےنہج البلاغہ کلمات قصار ۱۳۶)اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان اس وقت تک مومن سے دور اوراس سے ناراض رہتا ہے جب تک وہ اپنی نماز کی حفاظت اورپابندی کرتا ہے۔

--------------

1:-ایمان والو ! کثرت کے ساتھ اﷲ کا ذکر کیا کرواور صبح و شام اسکی تسبیح کیا کرو۔ (سورہ احزاب ۳۳آیت ۴۱، ۴۲)

2:-کیونکہ یہ چیز پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلمات میں بھی پائی جاتی ہے اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے فرمودات میں بھی موجود ہے۔

 

احادیث و روایات میں کثرت کے ساتھ اس طرح کی باتیں ملتی ہیں، حتیٰ خود آیاتِ قرآنی سے اس مفہوم یعنی نماز کی غیرمعمولی اہمیت کو اخذ کیا جا سکتا ہے۔

اس بارے میں اٹھنے والا ایک سوال جو گاہ بگاہ کچھ لوگوں کی زبان پر آتا ہے، وہ یہ ہے کہ نماز کی اہمیت کے بارے میں اس قدر زیادہ احادیث میں سے کچھ احادیث تو ضرور جعلی ہوں گی، درست نہ ہوں گی، صحیح اور معتبر نہ ہوں گی، پیغمبر یا ائمہ اطہار کا کلام نہ ہوں گی؟ ان احادیث کو شاید اس دور میں وضع کیا گیا ہو گا جس میں عالم اسلام میں زاہد اور عبادت گزار افراد کی کثرت ہو گئی تھی، یہ اس دور کی ساختہ ہوں گی جب (اسلامی دنیا) میں زہد و عبادت کا بازار گرم تھا، بالخصوص دوسری اور تیسری صدی ہجری میں جبکہ زاہد مسلک اور عبادت میں حد سے گزر جانے والے افراد ظاہر ہوئے تھے، جو کم و بیش رہبانیت اختیار کر چکے تھے۔

زاہد اور صوفی نما لوگ

ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت سے دنیائے اسلام میں تصوف نے جنم لیا، اسی دور سے ایسے افراد پیدا ہو گئے تھے جو دیگر اسلامی فرائض و واجبات کو بھلا کر اپنی ساری طاقتیں صرف عبادت اور نماز میں صرف کرتے تھے۔

مثلاً ہم حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں ربیع بن خثیم نامی ایک شخص کوپاتے ہیں، یہ وہی معروف خواجہ ربیع ہیں جن سے منسوب ایک قبر مشہدِ مقدس میں ہےاب میںیہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ قبر انہی کی ہے یا نہیں، مجھے اس بارے میں خاطر خواہ معلومات نہیںالبتہ اس بارے میں شک نہیں کہ یہ ”زھادِ ثمانیہ“ یعنی دنیائے اسلام کے آٹھ معروف زاہدوں میں سے ایک شمارکئے جاتے ہیں۔

 

ربیع بن خثیم کے زہد و عبادت کا یہ عالم تھا کہ اپنی عمر کے آخری دور میں(۱) انہوں نے اپنی قبر کھودی اور وقتاً فوقتاً جا کے اس قبر میں لیٹ جایا کرتے اور اپنے آپ کو وعظ ونصیحت کرتےقبر میں لیٹ کراپنے آپ سے کہتے کہ :یہ نہ بھلا بیٹھنا کہ آخر کارتمہیں یہیں آنا ہے۔

جب انہیں اطلاع ملی کہ لوگوں نے فرزندِ رسول حسین ابن علی علیہ السلام کو شہید کردیا ہے تو انہوں نے اس اندوہناک واقعے پر اظہارِ افسوس کے طور پر صرف اتنا کہا کہ: ”وائے ہو اس امت پر جس نے اپنے پیغمبر کے فرزند کوشہید کیا۔“ اور یہ (اس بیس سال کے عرصے میں) ذکرِ الٰہی اور دعاومناجات کے سوا ان کی زبان سے ادا ہونے والا واحد جملہ تھا۔ کہتے ہیں کہ بعد میں انہوں نے استغفار کیا اور پشیمان ہوئے کہ آخر کیوں میں یہ چند کلمات زبان پر لایا جو ذکرِ خدا نہ تھے۔

یہی ربیع بن خثیم، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دورِخلافت میں، حضرت کی سپاہ میں شامل تھےایک روز امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا اَمیر اَلْمُؤمِنِینَ اَنّا شَکَکْنٰا فی هٰذَا الْقِتال(۲)اے امیر المومنین! ہمیں اس جنگ کے بارے میں شک ہےہمیں خدشہ ہے کہ کہیں یہ جنگ غیر شرعی نہ ہو۔ (کیوں؟ کس وجہ سے؟ ) اس لئے کہ ہم اہل قبلہ (مسلمانوں) کے خلاف برسرِپیکار ہیں، ہم ایسے لوگوں کے خلاف تلواریں اٹھائے ہوئے ہیں جو ہماری ہی مانند شہادتین (کلمہ) پڑھتے ہیں، ہماری ہی طرح نماز ادا کرتے ہیں، ہماری ہی مثل روبہ قبلہ کھڑے ہوتے ہیں۔

--------------

1:-ربیع، حضرت علی علیہ السلام کے بعد امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے زمانے تک حیات رہے، یہ تقریباً ۲۰ سال پر محیط عرصہ ہےیعنی جس زمانے میں امام حسین کو شہید کیا گیا، یہ زندہ تھےکتابوں میں لکھا ہے کہ پورے ۲۰ سال ان کا کام فقط اور فقط عبادت تھا، اور اس عرصے میں انہوں نے کوئی دنیاوی بات زبان سے ادا نہ کی۔

2:-ان کے ”انا“ کہنے سے پتا چلتا ہے کہ وہ کئی لوگوں کے نمائندے کی حیثیت سے آئے تھے۔

ایک ایسا شخص جوحضرت علی علیہ السلام جیسی شخصیت کے لشکر میں شامل ہولیکن علی کی دکھائی ہوئی راہ، اور علی کے فرمانِ جہاد کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہو، یہ خیال اسکے ذہن میں آئے کہ آپ کا یہ فرمان، یہ حکم درست بھی ہے یا نہیں؟ اس موقع پروہ احتیاط پر عمل کرے، احتیاط پر بنا رکھےاسی طرح جیسے آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کیوں مشکوک روزہ رکھیں؟ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان یہ بات بہت عام ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کیوں ایسا روزہ رکھیں جس میں شک ہے، یہ بھی کوئی عمل ہوا؟ کیوں ایسی جگہ جنگ کریں جہاں شک ہو؟ ہمیں ایسی جگہ چلنا چاہئے جہاں رکھے جانے والے روزے میں شک نہ ہو۔

 

ربیع، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے شیعہ تھے اس لئے ان سے جدا بھی نہیں ہونا چاہتے تھے، لہٰذا کہتے ہیں: اے امیر المومنین! برائے کرم میرے سپرد کوئی ایسا کام کیجئے جو شک و شبہ سے پاک ہو۔ مجھے کسی ایسی جگہ، کسی ایسی ڈیوٹی پر بھیج دیجئے جس میں شک نہ ہوامیر المومنین نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا : بہت اچھا، اگر تم شک میں مبتلا ہو تو میں تمہیں ایک دوسری جگہ بھیج دیتا ہوں۔

معلوم نہیں خود انہوں نے اس جگہ جانے کی درخواست کی یا خودامیر المومنین ہی نے فیصلہ کر کے انہیں مملکتِ اسلامی کی سرحدوں میں سے ایک سرحد پر بھیج دیا، وہاں بھی وہ سپاہی کی حیثیت سے تعینات تھے، لیکن یہ ایک ایسی سرحد تھی کہ اگر اتفاق سے وہاں جنگ اور خونریزی کی نوبت آتی بھی تو دوسری طرف کفار یا بت پرست ہوتے، غیر مسلم ہوتے۔

جی ہاں، یہ تھا اس زمانے کے زہاد اور عبادت گزار افراد کا ایک نمونہ۔

ایسا زہد و عبادت کس کام کا؟ کسی کام کا نہیں۔

اس بات کی کیا اہمیت ہے؟

اسلام بصیرت کا تقاضا کرتا ہےعمل بھی طلب کرتا ہے بصیرت بھییہ شخص (خواجہ ربیع) بصیرت کے حامل نہ تھےانہوں نے معاویہ اور یزید جیسے ظالم کے دور میں زندگی بسر کیدورِ معاویہ جس میں دین خدا میں تبدیلیاں کی گئیں، اس میں بدعتیں ایجاد کی گئیںیزید جو تاریخ اسلام کے بھیانک ترین جرائم کا مرتکب ہوا، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام تر کوششوں اور محنتوں پر پانی پھیر دینے کے درپے ہوالیکن ایسے دور میں یہ صاحب (خواجہ ربیع) گوشہ نشینی اختیار کر کے شب و روز مسلسل نماز میں مشغول رہتے ہیں، ذکرِ الٰہی کے سوا کوئی کلمہ ان کی زبان سے ادا نہیں ہوتا اور اگر حسین ابن علی علیہ السلام کی شہادت پر اظہارِ تاسف کے لئے ایک جملہ ان کی زبان سے نکل بھی جاتا ہے، تو بعد میں اپنے اس عمل پر پشیمان ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ

 

تو دنیوی بات ہو گئی، میں نے اس کی بجائے سبحان اﷲ، الحمد ﷲ، کیوں نہ کہا؟ اسکی جگہ یاحی یا قیوم کیوں نہ کہا؟ اﷲ اکبر اور لاحول ولا قوۃ الا باﷲ کیوں نہ پڑھا؟

یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات سے موافق نہیںلایُرَی الجاهِلُ اِلاّمُفْرِ طاًاَوْ مُفَرَّطاً (جاہل کو نہ پاؤ گے مگر یا حد سے بڑھا ہوا اور یا ا س سے بہت پیچھےنہج البلاغہ کلمات قصار ۲۶)جاہل یا تو بہت آگے بڑھ جاتا ہے یا بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

 

دین کے بارے میں ایک غلط تصور

ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: الَصَّلوٰۃُ عَمُودُ الدّین (نماز دین کا ستون ہے) والی بات کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات سے موافق نہیں۔ کیونکہ دین اسلام تو سب چیزوں سے زیادہ اجتماعی مسائل کو اہمیت دیتا ہےاسلام تو اِنَّ اﷲَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالِاْ حْسَانِ(۱) کا دین ہےاسلام تو لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَات وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ(۲) کا دین ہےاسلام تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دین ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(۳) اسلام جہدِ مسلسل اور کوشش اور عمل کا دین ہےاسلام ایک عظیم دین ہے۔

--------------

۱:-بے شک اﷲ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے(سورہ نحل ۱۶آیت ۹۰)

2:-بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو نازل کیا ہے، تاکہ لوگ انصاف کے ساتھ قیام کریں(سورہ حدید ۵۷آیت ۲۵)

3:-تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظر عام پر لایا گیا ہےتم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اوربرائیوں سے روکتے ہو(سورہ آل عمران ۳آیت ۱۱۰)

 

ایک ایسا دین جو مذکورہ مسائل کو اتنی اہمیت دیتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ عبادت کے لئے اتنی زیادہ اہمیت کا قائل ہو؟ نہیں، دین اسلام میں عبادت کے مسئلے کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل نہیںہمیں اسلام کی اخلاقی اور اجتماعی تعلیمات کے نفاذ کے لئے کوشش کرنی چاہئےعبادت بے کار لوگوں کا مشغلہ ہےجنہیں کوئی اہم ترین کام نہ ہو وہ نماز پڑھیں، وہ عبادت کریںلیکن ایک ایسا شخص جس کے سامنے اہم ترین کام ہوں اسکے لئے لازم نہیں کہ وہ عبادت بجا لائے۔

یہ بھی ایک غلط فکر ہے اور انتہائی انتہائی خطرناکاسلام کو اس طرح سمجھنا چاہئے، جیسا کہ وہ ہے۔

میرے ان عرائض کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں کومیں اپنے معاشرے میں ایک بیماری کی صورت میں محسوس کر رہا ہوںانتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں جو لوگ اسلام کا نعرہ بلند کر رہے ہیں ان میں سے اکثر (البتہ سب کو نہیں کہتا) دو گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک گروہ ربیع بن خثیم جیسے طرزِ فکر کا حامل ہے، خواجہ ربیع کی طرح سوچتا ہےایسے لوگوں کے نزدیک ”اسلام“ ذکر و دعاکرنے، نوافل پڑھ لینے، زیارات پر جانے اور زیارتِ عاشورہ کی قرآئت کا نام ہےایسے افراد کے نزدیک اسلام کے معنی مفاتیح اور زاد المعاد ہے (دعاؤں کی دو معروف کتابیں)ان کا پورا کا پورا اسلام مفاتیح الجنان میں سمٹ آیا ہےاسکے سوا ان کے نزدیک کسی اور چیز کا وجود ہی نہیں، یہ لوگ بالکل ربیع بن خثیم کی سی سوچ رکھتے ہیں انہیں دنیا سے کوئی سروکار ہی نہیں، مسائل حیات سے کوئی غرض ہی نہیں، اسلام کی اجتماعی تعلیمات سے کوئی مطلب نہیں، اسلامی اصول و ارکان سے کوئی لگاؤ نہیں، اسلامی تربیت سے کوئی واسطہ نہیںانہیں سرے سے کسی بھی چیز سے مطلب نہیں۔

ان لوگوں کی تفریط کے ردِ عمل میں ایک افراطی طبقہ پیدا ہوا ہےیہ طبقہ اسلام کے اجتماعی مسائل کو اہمیت دیتا ہے، ان کے بارے میں حساسیت کا اظہار بھی کرتا ہےاس پہلو سے یہ لوگ قابل قدر ہیںلیکن انہی لوگوں میں سے کچھ کو بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ مثلاً مستطیع ہونے کے باوجود حج کو نہیں جاتےیہ شخص جو واقعاً مسلمانوں سے، حقیقتاً اسلام سے لگاؤ رکھتا ہے، اسکا دل اسلام کے لئے دھڑکتا ہے، لیکن مستطیع ہوتے ہوئے بھی حج کو نہیں جاتا، اس کی نظر میں حج کی کوئی اہمیت ہی نہیں، تقلید ضروری ہے لیکن اسے اہمیت نہیں دیتاحالانکہ تقلید ایک معقول بات ہے۔

 

تقلید کسے کہتے ہیں؟

کہا جاتا ہے کہ یا تو آپ، نماز روزہ جیسی چیزوں کے مسائل کو (مصادرِ شرع سے) براہِ راست خود اخذ کیجئےیعنی اس میدان میں اس قدر ماہر ہو جائیے کہ اس مہارت کے بل بوتے پر خود استنباط کر سکیں۔ یا پھر یہ کہ احتیاط پر عمل کیجئے، جو ایک خاصا دشوار کام ہےیا پھرایک ماہر جامع الشرائط عادل شخص کاانتخاب کیجئے اور جس طرح ایک ماہر طبیب سے رجوع کر کے اسکے بتائے ہوئے پر عمل کرتے ہیں اسی طرح اس کی رائے پر عمل کیجئےانسان بغیر تقلید کے رہ ہی نہیں سکتایعنی اگر وہ تقلید نہ کرے تو اپنے آپ کو بہت زیادہ مشکل میں ڈال لیتا ہے۔

اسی طرح بعض لوگ روزے کو اہمیت نہیں دیتےاگر کسی سفر کی وجہ سے ان کا روزہ قضا ہو جائے تواس قضا کو ادا نہیں کرتےیہ لوگ بھی اپنے آپ کو ایک کامل مسلمان سمجھتے ہیںوہ اوّل الذکر گروہ بھی خود کو کامل مسلمان سمجھتا ہے، جبکہ نہ یہ کامل مسلمان ہیں نہ وہ۔

دین اسلام نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ(1) سے اتفاق نہیں کرتایہ نہیں ہوسکتا کہ انسان اسلامی عبادات کو تو اپنائے لیکن اسکے معاشرتی اور اخلاقی قوانین کو نہ لے، اسکے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اختیار نہ کرےاور یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو لے لے، اور اسلامی عبادات کوچھوڑ دے۔

قرآنِ مجید جہاں کہیں بھی اقیمو الصلاۃ کہتا ہے، اسکے فورا بعد آتوالزکاۃ کہتا ہےاگر اقام الصلاۃ کہتا ہے تواسکے بعد آتی الزکاۃ کہتا ہےجب یقیمون الصلاۃ کہتا ہے تو اسکے بعد یوتون الزکاۃ کہتا ہےیقیمون الصلاۃ کا تعلق بندے اور خدا کے درمیان رشتے سے اور یوتون الزکاۃ کا ربط بندگانِ خدا کے آپس کے تعلقات سے ہے۔

--------------

1:-ہم بعض چیزوں پر ایمان لائیں گے اور بعض چیزوں کا انکار کریں گے(سورہ نسا ۴آیت ۱۵۰)

 

جس طرح ایک مردِ مسلمان کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان ایک مستقل اور مسلسل رابطے کی ضرورت ہے اسی طرح اسکے لئے ضروری ہے کہ اپنے اور اپنے معاشرے کے درمیان بھی ایک مستقل اور مسلسل رابطہ قائم رکھے۔

بغیر عبادت کے، بغیر ذکرِ الٰہی کے، بغیر یادِ خدا کے، بغیر مناجات کے، بغیر حضورِ قلب کے، بغیر نماز کے، بغیر روزے کے ایک اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا، حتیٰ خود انسان بھی سالم نہیں رہ سکتا۔

اسی طرح بغیر ایک سالم معاشرے کے، بغیر ایک سالم ماحول کے، بغیر امر بالمعروف کے، بغیر نہی عن المنکرکے، بغیر مسلمانوں سے پیار و محبت کے اوربغیر دوسروں کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کے انسان ایک اچھاعبادت گزار بندہ نہیں بن سکتا۔

علی ؑ ایک جامع الصفات ہستی

آپ اگر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی حیات پر ایک سرسری سی نگاہ بھی ڈالیں تو پتا چل جاتا ہے کہ آپ ایک عابد بلکہ دنیا کے اوّلین درجے کے عابد ہیں یہاں تک کہ آپ کی عبادت تمام عالم میں ضرب المثل بن جاتی ہےعبادت بھی ایسی کہ فقط خم و راست ہونا نہیں، (بے روح رکوع و سجود نہیں) بلکہ ایسی عبادت جو اوّل سے آخر تک جذبات سے، ولولے سے، عشق سے، گریہ و زاری سے لبریز ہے۔

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ”ضرار“ نامی ایک شخص کی معاویہ سے ملاقات ہوتی ہےمعاویہ کو معلوم تھا کہ ”ضرار“ حضرت علی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیںچنانچہ فرمائش کی: تم علی کے ساتھ ہوا کرتے تھے، میرے سامنے ان کے فضائل بیان کروخود معاویہ اچھی طرح حضرت علی سے واقف تھےلیکن اسکے باوجود وہ دوسروں سے ان کے بارے میں سننا پسند کرتے تھے کیونکہ وہ دل کی گہرائیوں سے حضرت علی کی عظمت کے قائل تھے، حالانکہ یہی تھے جنہوں نے حضرت علی کے خلاف تلوار تک اٹھائی تھی۔

انسان ایسا ہی موجود ہے!! وہ علی کے عقیدتمند بھی تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے حضرت علی کے خلاف نا پسندیدہ اقدامات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

 

”ضرار“ نے معاویہ کے سامنے اپنا ایک مشاہدہ نقل کیاکہا: میں نے ایک رات علی کو محرابِ عبادت میں دیکھا : یَتَمَلْمَلَ تَمَلْمَلَ السَّلیِم وَیَبْکی بَکاءَ الْحَزینِیعنی آپ محرابِ عبادت میں خوفِ خدا سے، ایک ایسے شخص کی مانند تڑپ رہے تھے جسے سانپ نے کاٹ لیا ہوغم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ایک انسان کی مانند گریہ و زاری میں مشغول تھے، سرد آہیں بھرتے تھے، آتش جہنم سے لرزاں آہ آہ کرتے تھےمولائے کائنات کی یہ کیفیت سن کر معاویہ کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے۔

اسی طرح جب حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد ایک موقع پر معاویہ اور عدی بن حاتم کی ملاقات ہوئی تو معاویہ نے عدی بن حاتم کو حضرت علی کے خلاف بھڑکانا چاہاعدی سے کہا: این الطرفات؟ طریف، طرفہ اور طارف کیا ہوئے؟ (۱)

حضرت عدی بن حاتم نے جواب دیا: وہ سب صفین میں علی کی رکاب میں شہید ہو گئے۔

معاویہ نے کہا: علی نے تیرے ساتھ نا انصافی کی، اپنے بچوں حسن اورحسین کو تو پیچھے رکھا اور تیرے بچوں کو آگے کر کے موت کے منہ میں دھکیل دیا۔

حضرت عدی بن حاتم نے جواب دیا : حقیقت تویہ ہے کہ میں نے علی کے ساتھ ناانصافی کیاگر میں انصاف کرتا تو آج میں زندہ اور علی زیرِ خاک نہ ہوتے۔

معاویہ نے جب اپنا نشانہ خطا جاتے دیکھا تو عدی سے کہا: اے عدی ! میرا دل چاہتا ہے کہ تم مجھے علی کے بارے میں کچھ بتاؤعدی بن حاتم نے تفصیل کے ساتھ حضرت علی کے اوصاف بیان کئےوہ کہتے ہیں کہ آخر میں، میں نے دیکھا کہ معاویہ زار و قطار رو رہے ہیں اسکے بعد انہوں نے آستین سے اپنے آنسو صاف کئے اور کہا : افسوس کہ زمانہ علی کی مانند انسان جننے سے بانجھ ہے۔

--------------

1:-حضرت عدی بن حاتم کے تین فرزند تھے، جن کے نام طریف، طرفہ اورطارف تھےان کے ان تینوں فرزندوں نے حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھامعاویہ عدی بن حاتم کے جذبات بھڑکانا چاہتے تھےلہٰذا ان کے زخموں پر نمک پاشی کی تاکہ ان کے منہ سے حضرت علی کے خلاف ایک لفظ ہی نکلوا سکیں۔

 

دیکھئے حقیقت کیسے جلوہ گر ہوتی ہے؟

یہ تو تھی حضرت علی علیہ السلام کی عبادت، لیکن کیا علی صرف اہل محراب تھے، محراب کے سوا کہیں اور نظر نہ آتے تھے؟

ہم حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک اور رخ کا جائزہ لیتے ہیں (اور وہ آپ کی حیاتِ اجتماعی سے تعلق رکھتا ہے) آپ ہر لحاظ سے ایک اجتماعی ترین فرد تھے، ضرورت مندوں، بے کسوں، مسکینوں اور لاچاروں کے حالات سے واقف ترین فرد تھےخلیفہ ہونے کے باوجود آپ دن کے وقت اپنا درہ یعنی کوڑا کاندھے پر لٹکائے، بنفس نفیس لوگوں کے درمیان گشت فرماتے تھےان کے معاملات کا جائزہ لیتے تھےجب تاجروں کے پاس پہنچتے تو فرماتے: اَلْفَقْهَ ثُمَّ اَلْمَتْجَر(۲)جاؤ پہلے تجارت کے مسائل سیکھو، اسکے شرعی احکام کی تعلیم حاصل کرو، اسکے بعد آ کے تجارت کرناحرام خرید و فروخت نہ کرو، سودی معاملہ نہ کرو۔

اگر کسی کو تاخیر سے اپنے کام پر جاتے دیکھتے تو فرماتےاُغْدوا اِلٰی عِزَّکُمْایک انتہائی عبادت گزار فرد ہونے کے ساتھ ساتھ آپ میں یہ خصوصیت بھی تھیپہلی مرتبہ میں نے مذکورہ حدیث مرحوم آیت اﷲ العظمیٰ بروجردی علیہ الرحمہ کی زبانی سنی تھیایک مرتبہ ایک گداگر، آقائے بروجردی کے یہاں آ کے ان کے سر ہو گیا، اور کچھ طلب کرنے لگاانہوں نے اس پر نگاہ ڈالی، دیکھا تو محسوس کیاکہ یہ شخص محنت مزدوری کر سکتا ہے لیکن گداگری کو اس نے اپنا پیشہ بنا لیا ہےلہٰذا انہوں نے اسے نصیحت کی اور بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ حضرت علی علیہ السلام کا یہ جملہ بھی فرمایا: کہا کہ امیر المومنین لوگوں سے فرماتے تھے:

اُغْدوا اِلیٰ عِزَّکُمْ (۳)

علیٰ الصبح اپنی عزت و شرف کی طرف روانہ ہوا کرو۔

--------------

2:-وسائل الشیعہ ج ۱۲ص ۲۸۲ح ۱

3:-وسائل الشیعہ ج ۱۲۔ ص۴۔ ح ۱۰

 

یعنی اپنے کام، محنت مزدوری اور حصول روزگار کی طرف جایا کروانسان اس وقت عزیز وسربلند ہے جب وہ خود کماتا ہو، اپنی معاش کا بندوبست خود کرتا ہومحنت مزدوری عزت ہے، شرافت ہے۔

اسے کہتے ہیں حقیقی مثالی مسلمان۔

آپ عبادت کے میدان میں سرِفہرست عبادت گزار ہیںجب قضاوت کی مسند پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو ایک عادل قاضی ہیں، ذرہ برابر بے انصافی نہیں کرتےجب میدانِ جنگ کا رخ کرتے ہیں تو ایک بہادر سپاہی اور شجاع سپاہ سالار ہیں، ایک اول درجے کے کمانڈر ہیں، خود فرماتے ہیں: میں نے ابتدائے شباب ہی سے جنگ کی ہے، جنگ کا تجربہ رکھتا ہوںاور جب آپ خطابت کی کرسی پر تشریف فرما ہوتے ہیں تو اوّل درجے کے خطیب ہیںجب تدریس کی ذمے داری سنبھالتے ہیں تو اوّل درجے کے معلم و مدرس ہیں۔

ہر ایک فضیلت میں آپ کا یہی حال ہےیہ ہیں اسلام کا نمونہ کامل۔

اسلام کسی صورت نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ کو قبول نہیں کرتالہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اسلام کے اِس ایک پہلو کو تو مانیں گے لیکن اس کے اس دوسرے پہلو کا انکار کریں گےدنیائے اسلام میں پیدا ہونے والے انحراف کا نقطہ آغاز یہی ہےاگر ہم اسلام کے کسی ایک پہلو کو لے لیں لیکن اسکے دوسرے پہلووں کو چھوڑ دیں تو اس طرح ہر چیز میں خرابی اور بگاڑ پیدا کر بیٹھیں گے۔

جس طرح گزشتہ ادوار میں ہمارے بہت سے زاہد پیشہ افراد کی روش غلط تھی، ایسے لوگوں کی روش غلط تھی جوپورے اسلام کو مثلاً مفاتیح الجنان میں منحصر سمجھتے ہیں، (دعاؤں کی ایک کتاب) بیاض میں محدود کر دیتے ہیں، اسی طرح ایسے لوگوں کی روش بھی غلط ہے جو دعا، عبادت، نوافل اور فرائض کو یکسر چھوڑ بیٹھتے ہیں اور اسلام کے صرف اجتماعی مسائل کے بارے میں توجہ چاہتے ہیں۔

 

مردِ مسلمان کی بعض نمایاں صفات

سورہ مبارکہ ”انا فتحنا“ میں ارشاد الٰہی ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِیْنَ مَعَه،  اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ (محمد اﷲ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے لیے سخت ترین اور آپس میں انتہائی مہربان ہیں سورہ فتح ۴۸آیت ۲۹)

اس آیت میں ایک اسلامی معاشرے کی تصویر کشی کی گئی ہےسب سے پہلے جس مسئلے کاذکر کیا گیا ہے وہ پیغمبر کی معیت اور ان پر ایمان ہے، اسکے بعد اشداء علی الکفار یعنی بے گانوں کے مقابلے میں سخت ترین، قوی اور طاقتور ہونے کا ذکر ہے۔

پس وہ خشک مقدس نما لوگ جو مسجد میں ڈیرہ جمائے رہتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باجود صرف ایک سپاہی کی للکار پر دم سادھ لیتے ہیں اور چوں بھی نہیں کرتے، وہ مسلمان نہیں۔

قرآن کریم نے مسلمان کی ایک خصوصیت، بلکہ اولین خصوصیت یہ بیان کی ہے کہ وہ دشمن کے بالمقابل سخت، پائیدار اور ثابت قدم ہوتا ہےاسلام سست اور کمزور مسلمان کوپسند نہیں کرتا: وَلاَ تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَنْتُمُ الْاَ عْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (خبردار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ہونا، اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سر بلندی تمہارے ہی لئے ہےسورہ آل عمران ۳آیت ۱۳۹)۔

اسلام میں سستی اور کمزوری کی کوئی گنجائش نہیں ویل ڈیورنٹ کتاب ”تاریخ تمدن“ میں کہتا ہے: کسی اور دین نے اپنے ماننے والوں کو قوت و طاقت کے حصول کی ایسی دعوت نہیں دی، جتنی اس سلسلے میں اسلام نے دعوت دی ہے۔ ۔

گرد ن ڈالے رکھنا، گوشہ لب سے رال ٹپکنا، گریبان (collar) کا ایک طرف ڈھلکا ہونا، اسکا گندہ ہونا، خود کو غریب و لاچار ظاہر کرنا، زمین پر پیر گھسیٹ کر چلنا، عبا سر پر ڈال لینا، یہ سب چیزیں اسلامی تعلیمات کے برعکس ہیںیوں ہی بلا وجہ آہیں بھرنا اسلام کے خلاف ہے۔

 

وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّث (اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کو مسلسل بیان کرتے رہنا سورہ ضحٰی ۹۳آیت ۱۱)

خدا نے آپ کو صحت دی ہے، جسمانی سلامتی دی ہے، قوت عطا کی ہے، طاقت و توانائی سے نوازا ہےآپ اپنی کمر سیدھی رکھ سکتے ہیں تو کیوں بلاوجہ اسے جھکاتے ہیں؟ آپ اپنی گردن سیدھی رکھ سکتے ہیں، کیوں بغیر کسی وجہ کے اسے ایک جانب لٹکائے رکھتے ہیں؟ کیوں بے وجہ آہ و نالہ بلند کرتے ہیں؟ آہ و نالہ تو انسا ن تکلیف کی حالت میں بلند کرتا ہےخدا نے آپ کو کسی درد اور تکلیف میں مبتلا نہیں کیا ہے، توپھر کیوں آپ آہیں بھرتے ہیں؟ یہ تو نعماتِ الٰہی کا کفران ہےکیا حضرت علی علیہ السلام بھی اسی طرح راستہ چلتے تھے جیسے ہم اور آپ چلتے ہیں؟ کیا علی اسی طرح عبا سر پر ڈالتے تھے اور اسی طرح ٹیڑھے ٹیڑھے چلتے ہوئے راستہ طے کرتے تھے؟ (۱)ان چیزوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اشداء علی الکفار یعنی بے گانوں کے مقابل سخت ترین، پکے اور مضبوط، جیسے سدِ سکندری۔

(ایک مردِ مسلم کو) حلقہ یاراں میں، مسلمانوں کے ساتھ، کس طرح ہوناچاہئے؟ رحماء بینھم یعنی آپس میں مہربان، گہرے دوست(ایک دوسرے کے ساتھ ریشم کی طرح نرم ہونا چاہئے)۔

(اسکے بر خلاف) جب ہم اپنے بعض مقدس نما لوگوں سے ملتے ہیں، ان کے یہاں جاتے ہیں تو جو چیز ہمیں ان میں نظرنہیں آتی وہ یہی اخلاص اور مہربانی ہےہمیشہ ان کی تیوریوں پر بل پڑے رہتے ہیں، بداخلاق اور ترش رو ہیںکسی کے ساتھ گرم جوشی سے پیش نہیں آتے، کسی سے ہنس کے نہیں ملتے، دنیا کے ہر انسان پراحسان رکھتے ہیں ایسے لوگ مسلمان نہیں، یہ لوگ خود کو اسلام سے وابستہ ظاہر کرتے ہیں۔

--------------

1:-شہید مطہری نے ان سطور میں اپنے دور کے بعض علما نما افراد کی تصویر کشی کی ہے(مترجم)

 

یہ تھی (ایک مسلمان میں پائی جانے والی) دوسری خصوصیتکیا یہی کافی ہے؟

کیا مسلمان ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ انسان کفار کے ساتھ سختی سے پیش آئے اوراہل اسلام سے مہربانی اور پیارو محبت کا برتاؤکرے؟ ۔ ۔ جی نہیں: تَرٰهُمْ رُکَّعاً سُجَّداً یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَاناً (تم انہیں دیکھو گے کہ بارگاہِ احدیت میں سر جھکائے ہوئے سجدہ ریز ہیں اور اپنے پروردگار سے فضل و کرم اور اسکی خوشنودی کے طلبگار ہیں سورہ فتح ۴۸آیت ۲۹)

وہ شخص جو بے گانوں کیلئے سخت دل اور اپنوں کے لئے مشفق و مہربان ہے، اسی فرد کو جب محرابِ عبادت میں دیکھو گے تو رکوع و سجود، دعا و عبادت اور مناجات میں مشغول پاؤ گےرکعاً و سجداً اسکی عبادت ہے، یبتغون فضلا من اﷲ و رضوانا اسکی دعا ہے۔

البتہ ہم دعا اور عبادت کے درمیان حد بندی کے قائل نہیں ہیںدعا عبادت ہے اور عبادت بھی دعا ہےلیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک عمل فقط اور فقط خالص دعا ہوتا ہےیعنی ایک ایسی عبادت ہوتی ہے جو صرف دعا پر مشتمل ہےلیکن کچھ عبادات ایسی ہیں جن میں دعا اور دعا کے علاوہ دوسری چیزیں بھی پائی جاتی ہیں، جیسے نمازاسی طرح اور عبادات ہیں جو بنیادی طور پر دعا نہیں، جیسے روزہ۔

سِیْمَا هُمْ فِیْ وُجُوهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ (سجدوں کی کثرت کی وجہ سے ان کے چہروں پر نشان پائے جاتے ہیں)یہ لوگ اتنے زیادہ عبادت گزار ہیں کہ عبادت کے آثار، تقویٰ کے آثار، خدا پرستی کے آثار ان کے چہروں سے عیاں ہیں ان کودیکھنے والا ہر شخص ان کے وجود میں خدا کی معرفت اور خدا کی یاد کا نظارہ کرتا ہے، اور انہیں دیکھ کر یادِ خدا میں ڈوب جاتا ہے۔

 

شاید رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے منقول ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے ان سے سوال کیا : یا روحَ اﷲ ! مَنْ نُجَالِسَ؟ (اے روح اﷲ ! ہم کس قسم کے لوگوں کے ساتھ میل جول رکھیں؟ )حضرت عیسیٰ نے فرمایا: مَنْ یُذَکِّرُ کُمُ اﷲَ رَؤْیَتَهُ وَیَز یدُ فی عِلْمِکُمْ مَنْطِقُهُ وَیر غَبُکُمْ فیِ الْخَیْرِ عَمَلُهُ(۲)(ایسے شخص کے ساتھ میل جول رکھو جسے دیکھ کر خدا کی یاد میں ڈوب جاؤ)، اسکی شکل و صورت پر، اسکے چہرے مہرے پر خدا ترسی کو دیکھوعلاوہ ازایں یزید فی علمکم منطقہ (جب وہ بات کرے تو اسکی باتوں سے استفادہ کرو، اسکی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرے) یرغبکم فی الخیر عملہ (اسکا کردار دیکھ کر، تمہارے اندر بھی نیک کاموں کا شوق پیدا ہو)

آگے چل کر آیت کہتی ہے:

:ذٰلِکَ مَثَلُهُمْ فِی التّوِْرٰه وَ مَثَلُهُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَه، فَاٰزَ رَه، فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِه یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِهِمُ الْکُفَّارَ

یہی ان کی مثال توریت میں ہے اور یہی ان کی صفت انجیل میں ہےجیسے کوئی کھیتی ہو جو پہلے سوئی نکالے، پھر اسے مضبوط بنائے، پھر وہ موٹی ہو جائے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے کہ کاشتکاروں کو خوش کرنے لگے تاکہ ان کے ذریعے کفار کوجلایا جائےسورہ فتح ۴۸آیت ۲۹

توریت و انجیل میں ان کی یہی صفت بیان کی گئی ہے، ایک ایسی ملت کے وجود میں آنے کی بات کی گئی ہےان کی ایسی تصویر کشی کی گئی ہے، اس انداز میں توصیف کی گئی ہےان کی مثال ایک زراعت کی مثال ہے، گندم کے ایک دانے کی مانند ہیں جسے زمین میں بویا جاتا ہے اور کیونکہ یہ دانہ زندہ ہوتا ہے اس لئے ایک باریک پتی کی صورت میں اپنا سر زمین سے باہر نکالتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ ایک سخت پتے کی صورت اختیار کر لیتا ہے،

--------------

2:-اصول کافی ج ۴کتاب فضل العالم، باب مجالس العلماء وصحبتھم۔

 

 اس میں مضبوطی اور استحکام آ جاتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ ایک موٹی ڈالی بن جاتا ہےاسکے بعد خود اپنے قدموں پر کھڑا ہو جاتا ہےحالانکہ ابتدا میں وہ زمین پرپڑا ہوا ایک معمولی سا پتا تھا، جسے ثبات و استحکام حاصل نہ تھابعد میںیہ ایسا پھلتا پھولتا ہے کہ انسان شناسی کے تمام ماہرین کو حیرت زدہ کر دیتا ہے اور وہ فکر میں ڈوب جاتے ہیں کہ یہ کیسی پختہ اور شاندار قوم وجود میں آئی ہےالبتہ حیرت و استعجاب کا باعث ایسی ہی قوم ہوسکتی ہے جو اشداء علی الکفار بھی ہو، رحماء بینھم بھی ہو اور رکعاً سجداً اور یبتغون فضلا من اﷲ و رضوانا بھی ہواس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہوں۔

اب بتایئےہم مسلمان اس قدرزوال و انحطاط کا شکار کیوں ہیں؟ اس قدر بد بخت اور ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ بتایئے ان مذکورہ خصوصیات میں سے کونسی خصوصیت ہمارے اندر موجود ہے؟ اورہم کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں؟

 

معنویات کو خفیف نہ سمجھئے

ہمیں صد در صد اعتراف ہے کہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے، اسکے احکام و فرامین اسکے اجتماعی ہونے کے عکاس ہیںلیکن یہ حقیقت اس بات کا سبب نہیں ہو سکتی کہ ہم عبادت، دعا اور خدا سے ارتباط کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں، انہیں معمولی سمجھنے لگیں، نماز کو بے اہمیت سمجھیں۔

نماز کوخفیف اور معمولی سمجھنا بھی ایک گناہ ہےنماز نہ پڑھنا ایک بڑا گناہ ہے لیکن نماز پڑھنا مگر اسے خفیف سمجھنا، اسے بے اہمیت قراردینا بھی ایک گناہ ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات کے بعد (آپ کے ایک صحابی) ابو بصیر تعزیت کی غرض سے ام حمیدہ کے یہاں حاضر ہوئےام حمیدہ رونے لگیںابو بصیر، جو نا بینا تھے وہ بھی رونے لگےاسکے بعد ام حمیدہ نے ابو بصیر سے کہا: اے ابو بصیر! تم نہ تھے، تم نے اپنے امام کے آخر لمحات کو نہ دیکھا، اس وقت ایک عجیب قصہ ہواامام قریب قریب عالم غشی میں تھے، اسی اثنا میں آپ نے اپنی آنکھوں کو کھولا اور فرمایا: میرے تمام نزدیکی رشتے داروں کو بلاؤ، سب کو میرے سرہانے جمع کرو۔ ہم نے امام کے حکم کی

 

تعمیل کرتے ہوئے سب لوگوں کو اکھٹا کیاجب سب لوگ جمع ہو گئے تو امام نے اسی عالم غشی میں، جبکہ آپ اپنی حیاتِ مبارک کے آخری لمحات طے کر رہے تھے، اپنی آنکھوں کو کھولا، ارد گرد جمع ہونے والوں کی طرف رخ کیا اور صرف ایک جملہ ارشاد فرمایا: اِنَّ شَفا عَتَنا لاٰ تَنٰالُ مُسْتَخِفُّا بِالصَّلوٰةِ (ہماری شفاعت کسی بھی صورت میں ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز کو معمولی سمجھتے ہیںوسائل الشیعہج۳ص۱۷۔ ح ۱۱) امام نے صرف اتنا کہا اور جان، جان آفرین کے سپرد کر دی۔

امام نے یہ نہیں فرمایا کہ ہماری شفاعت ان لوگوں کو نہ ملے گی جو نماز نہیں پڑھتےان لوگوں کا معاملہ تو بالکل واضح ((clearہےبلکہ فرمایا کہ ایسے لوگ جو نماز کو سبک اور معمولی سمجھتے ہیں، وہ ہماری شفاعت نہ پا سکیں گے۔

کون لوگ ہیں جو نماز کو سبک اور معمولی سمجھتے ہیں؟

نمازکو معمولی چیز اور بے اہمیت سمجھنے والے لوگ وہ ہیں جنہیں وقت اور فرصت میسر ہوتی ہے، وہ اطمینان کے ساتھ ایک اچھے طریقے سے نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن ایسا نہیں کرتےظہر عصر کی نماز اس وقت پڑھتے ہیں جب سورج غروب ہونے کو ہوتا ہےجب دیکھتے ہیں کہ سورج ڈوبنے کو ہے تو بھاگم بھاگ وضو کرتے ہیں، جھٹ پٹ نماز پڑھتے ہیں اور تیزی کے ساتھ سجدہ گاہ ایک طرف رکھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ایسی نماز پڑھتے ہیں جس کا نہ مقدمہ ہوتا ہے نہ موخرہ، نہ جس میں اطمیان ہوتا ہے نہ حضورِ قلبایسا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں، جیسے نماز بھی دوسرے معمولی کاموں کی طرح کا ایک کام ہے۔

یہ ہے نماز کو خفیف سمجھناایسی نماز، اس نمازسے بہت زیادہ مختلف ہے جس کی طرف انسان ذوق وشوق کے ساتھ جاتا ہےجوں ہی ظہر کا اول وقت آتا ہے وہ مکمل اطمینان کے ساتھ جا کر وضو کرتا ہے، ایسا وضو جس میں تمام آداب کو ملحوظ رکھا گیا ہوتا ہےاسکے بعد جا نماز پر آ کر اذان و اقامت کہتا ہے اورسکون اور دل جمعی کے ساتھ نماز پڑھتا ہےسلام کہہ کر فوراً ہی کھڑا نہیں ہوجاتابلکہ اطمینانِ قلب کے ساتھ کچھ دیر تعقیباتِ نماز پڑھتا ہے، ذکرِ خدا کرتا ہےیہ اس بات کی علامت ہے کہ (اس گھر میں) اس کی نظر میں نماز کو احترام حاصل ہے۔

 

ایسے نمازی جو نماز کو خفیف قرار دیتے ہیں، یعنی حقیر اور معمولی سمجھتے ہیں، وہ فجرکی نماز عین طلوعِ آفتاب کے وقت پڑھتے ہیں اور ظہر و عصر کی نماز غروبِ آفتاب کے وقت ادا کرتے ہیں، مغرب اور عشاء کی نماز انہیں رات کے چار گھنٹے گزرجانے کے بعد یاد آتی ہےیہ لوگ برق رفتاری اور تیزی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیںتجربہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے بچے سرے سے نماز پڑھتے ہی نہیں۔

آپ اگر حقیقی نمازگزار بننا چاہتے ہیں، اور یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے بھی نماز کے پابند بنیں تو آپ کو نماز کا احترام کرنا چاہئےہم آپ سے صرف یہ تقاضا نہیں کر رہے کہ نماز پڑھئے، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ چاہتے ہیں کہ نماز کا احترام کیجئےاس مقصد کیلئے پہلے توخود اپنے لئے گھر میں نماز پڑھنے کی ایک مخصوص جگہ بنایئے (یہ مستحب بھی ہے)یعنی گھر میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیجئے جو آپ کی عبادت گاہ ہو، مصلا نما ایک چیز اپنے لئے بنایئے۔

جیسے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کے لئے ایک جگہ معین کی ہوئی تھی اگر ممکن ہو تو آپ بھی ایک کمرے کو نماز پڑھنے کی جگہ کے طور پرمقرر کرلیجئےاگر گھر میں کمرے زیادہ نہ ہوں تو خود اپنے کمرے میں نمازکے لئے ایک خاص جگہ معین کر لیجئےایک پاک صاف جا نماز وہاں رکھئے، نماز کے لئے کھڑے ہونے سے قبل اسے بچھایئےآپ کے پاس ایک مسواک بھی ہو، ذکر پڑھنے کے لئے تسبیح بھی ہو۔

جب وضو کر رہے ہوں تو اسے بھی جلدی جلدی اور عجلت میں نہ کیجئےہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضرت علی کے شیعہ ہیںبرادرِ عزیز !نام رکھ لینے سے علی کاشیعہ نہیں ہوا جاسکتا، جس شخص نے حضرت علی کے وضو کو بیان کیا ہے وہ کہتا ہے: علی ابن ابی طالب جب وضو کے لئے تشریف لاتے اور ہاتھوں کو پانی میں ڈالتے (وضو کا پہلا مستحب عمل یہ ہے کہ انسان اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوئے) تو فرماتے :

 

بِسْمِ ﷲِ وَ بِاﷲِ اَللَّهُمَّ اجعَّلَنْی مِنَ التَّوّٰابِینَ وَاجْعَلْنی مِنَ الْمُتَطَهِّریِنَ

اﷲ کے نام اور اﷲ ہی کے سہارے سےخدایا ! مجھے توبہ کرنے والوں میں قرار دے، مجھے پاکیزہ رہنے والوں میں قرار دے

دو دن پہلے ہم نے توبہ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ توبہ کے معنی خود کو پاکیزہ کرنا ہیںپانی رمزطہارت ہےیہی وجہ ہے کہ جب علی پانی کا رخ کرتے ہیں تو، توبہ کو یاد کر کے، اپنے ہاتھوں کو صاف کرتے ہوئے، اپنی روح کی طہارت کی جانب متوجہ ہو کے، ہم سے کہتے ہیں کہ جب اس پانی، جب اس طہور، جب اس مادے کا سامنا کرو جسے خدا نے پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا ہے، جب اس مادّے کی طرف جاؤ اور تمہاری نگاہ اس پر پڑے اور اپنے ہاتھوں کو اس سے دھوؤ اور پاک کرو تو یہ بات ذہن میں رکھو کہ ایک اور پاکیزگی بھی ہے، ایک اور پانی بھی ہے، وہ پاکیزگی روح کی پاکیزگی ہے اور وہ پانی، توبہ کا پانی ہے۔

کہتے ہیں کہ ہاتھوں کو دھونے کے بعد علی، اپنے چہرے پر پانی ڈالتے اور فرماتے: اَللَّهُمَّ بَیَّضْ وَجْهِی یَوْمَ تَسْوَ دَفیه الْوُجُوهُ وَلاَ تُسَوَّدْ وَجْهی یَوْمَ تَبْیَض فیهِ الْوُجُوهُ

آپ اپنے چہرے کو دھوتے ہیں اور حسب ظاہر صاف کرتے ہیںخوب! جب اپنے چہرے کوپانی سے دھوتے ہیں تووہ سفید براق ہو جاتا ہےلیکن علی اسی پر اکتفا نہیں کرتے، اسلام بھی اسی پر اکتفا کا قائل نہیںیہ عمل درست ہے اور اس پر عمل بھی کرنا چاہئے لیکن ایک اور پاکیزگی کے ساتھ اور ایک اور نورانیت کے ہمراہ، چہرے پر ایک اور سفیدی ہونی چاہئےفرماتے ہیں:

اَللَّهُمَّ بَیَّضْ وَجْهِی یَوْمَ تَسْوَ دَفیه الْوُجُوهُ وَلاَ تُسَوَّدْ وَجْهی یَوْمَ تَبْیَض فیهِ الْوُجُوهُ

خدایا میرے چہرے کو اس دن روشن کر دینا جس دن چہرے سیاہ ہو جائیں (روزِقیامت) اور اس دن چہرے کو سیاہ نہ کرنا جس دن چہرے روشن ہو جائیں۔

 

اس کے بعد دائیں ہاتھ پر پانی ڈال کے فرماتے ہیں :

اَللَّهُمَّ اَعْطِنی کِتٰابی بِیَمِینی واَلْخُلَد فیِ الْجَنَانِ بِیَسَاریِ وَ حٰاسِبْنی حِسٰاباً یسراً

خدایا! قیامت میں میرانامہ اعمال میرے داہنے ہاتھ میں دینا (کیونکہ کامیاب اور نجات یافتہ لوگوں کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا) اور جنت مجھے آسانی سے عنایت فرما دینا، اور حساب میں بھی آسانی فرمانا۔

اس طرح آپ آخرت کے حساب کو یاد کرتے ہیں اس کے بعد بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

اَللَّهُمَ لاٰ تَعْطِنی کِتٰابی بِشِمٰالیِ وَلاٰ مِنْ وَراءِ ظَهری وَلاَ تَجْعَلْهَا مَغَلولَةَ اِلیٰ عُنْقی وَاَعُوذُبِکَ مِنْ مُقطَّعٰات النِیران

خدایا! میرے نامہ اعمال کو بائیں ہاتھ میں یا پشت کی طرف سے نہ دینا(کچھ لوگوں کا نامہ اعمال انہیں پیچھے سے پکڑایا جائے گا اور یہ بھی ایک رمز ہے) اور نہ میرے ہاتھوں کو میری گردن سے باندھ دینامیں جہنم کی آگ کے قطعات سے تیری پناہ چاہتا ہوں

کہتے ہیں: اسکے بعد آپ نے سر کا مسح کرتے ہوئے فرمایا:

اَللَّهُمَّ غَشَنی بِرَحْمَتِکَ وَ بَرَکاتِک

خدایا ! مجھے اپنی رحمت اور برکتوں میں ڈبو دے

پھر آپ نے پیر کا مسح کرتے ہوئے فرمایا:

اللَّهُمَّ ثَبَّتْ قَدَمی عَلیٰ الصِّراطِ یَوْمَ یَزِلُّ فیهِ الْاَقْدَامُ

خدایا ! میرے ان قدموں کوصراط پر اس دن ثابت رکھنا جس دن سارے قدم پھسل رہے ہوں گے

وَاجْعَلْ سَعْیی فیما یَرضِکَ عَنّی

میرے عمل اور کد و کاوش کو ان کاموں میں قرار دینا جو تجھے راضی کر سکیں

 

ایسا وضو جو اس قدر عشق و اشتیاق اورتوجہ و اہتمام کے ساتھ کیا جائے گا، وہ (بارگاہِ الٰہی میں) ایک علیحدہ ہی انداز سے قبول کیا جائے گا، اور وہ وضو جو ہم اورآپ کرتے ہیں اسکی قبولیت کسی اور طرح کی ہو گی۔

پس نماز کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے، سبک نہیں شمار کرنا چاہئےایسا نہ ہو کہ انسان دورانِ نماز صرف اسکے واجبات کی ادائیگی پر اکتفا کی کوشش کرے(اور جب کوئی اسے اس جانب متوجہ کرے تو کہے کہ) آؤ، دیکھیں، مرجع تقلید کا فتویٰ کیا ہے، کیا وہ کہتے ہیں کہ (دوسری اورتیسری رکعت میں) تین مرتبہ سبحان اﷲ، والحمد اﷲ، ولا الہ الا اﷲ، واﷲ اکبر کہنا چاہئے، یا اسے ایک ہی مرتبہ کہنا کافی قرار دیتے ہیں؟

جی ہاں (درست ہے کہ)، مجتہد فتویٰ دیتے ہیں کہ اسے ایک ہی مرتبہ کہنا کافی ہےالبتہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ احتیاطِ مستحب یہ ہے کہ اسے تین مرتبہ کہا جائےلہٰذاہمیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ جب مجتہد نے ایک مرتبہ کہنا کافی قرار دیا ہے تو ہم بھی صرف ایک ہی مرتبہ کہیں گےیہ دراصل نماز سے جی چرانا ہےہمیں ایسا ہونا چاہئے کہ اگر مجتہد ایک مرتبہ کہنا واجب قرار دے اور مزید دو مرتبہ کہنا مستحب سمجھے، تو ہم بہترسمجھتے ہوئے اس مستحب کو بھی انجام دیں ہے۔

روزے کو بھی معمولی اور خفیف نہیں بنادینا چاہئےبعض لوگوں کا روزہ رکھنے کا ایک خاص انداز ہے (یہ میں ازراہِ مذاق کہہ رہا ہوں) کہ نعوذ باﷲ اگر میں خدا کی جگہ ہوں تو کسی صورت ان کایہ روزہ قبول نہ کروں۔

میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو ماہِ رمضان میں رات بھر نہیں سوتےالبتہ ان کی یہ شب بیداری عبادت کی غرض سے نہیں ہوتی بلکہ اس لئے جاگتے ہیں کہ ان کی نیند پوری نہ ہو سکےصبح تک چائے پینے اور سگریٹ نوشی میں وقت گزارتے ہیںصبح طلوع ہونے کے بعد اول وقت نمازِفجر پڑھ کے سو جاتے ہیں اور (سارے دن سو کر) اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب ظہر اور عصر کی نماز کی ادائیگی کاانتہائی قلیل وقت باقی رہ جاتا ہےاور پھر برق رفتاری سے یہ نمازیں پڑھنے کے بعد افطار کے سامنے آ بیٹھتے ہیں۔

 

آخر یہ کس قسم کا روزہ ہے؟

انسان رات بھر صرف اس لئے نہ سوئے کہ دن میں روزہ رکھ کر سوتا رہے، تاکہ روزے کی سختی اورمشقت محسوس نہ کرے۔

کیا یہ روزے کو معمولی سمجھنا نہیں؟

میرے خیال میں تو یہ روزے کو گالی دینے کے مترادف ہے، یعنی یہ تو زبانِ حال سے یہ کہنا ہے کہ اے روزے! میں تجھ سے اس قدر نفرت کرتا ہوں کہ تیرا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا!!

ہم حج کرتے ہیں لیکن حقارت کے ساتھ، روزہ رکھتے ہیں لیکن معمولی بنا کے، نماز پڑھتے ہیں لیکن سبک کر کے، اذان کہتے ہیں لیکن بے حیثیت انداز میں۔

دیکھئے، ہم اذان کو کیسے بے حیثیت کرتے ہیں؟

موذن کا ”صیّت“ یعنی خوش آواز ہونا مستحب ہےاسی طرح جیسے قرآنِ مجید کی قراءت کے لئے تجوید یعنی حروفِ قرآن کی خوبصورتی کے ساتھ ادائیگی، خوبصورت آواز میں قرآن پڑھنا سنت ہے، جو روح پر بھی بہت زیادہ اثر اندا ز ہوتا ہےاسی طرح اذان میں بھی مستحب یہ ہے کہ موذن ”صیّت“ یعنی خوش آواز ہو، اس انداز سے اذان کہے کہ سننے والوں پروجد طاری کر دے، ان میں خدا کی یاد تازہ کر دے۔

بہت سے افراد خوش آواز ہیں اور اچھے انداز میں اذان کہہ سکتے ہیںلیکن اگر ان سے کہا جائے کہ جناب آگے بڑھئے، آج آپ اذان کہہ دیجئے تو وہ تیار نہیں ہوتےکیوں؟ اس لئے کہ وہ اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ دل ہی دل میں کہتے ہیں کہ کیا میں اس قدر حقیرشخص ہوں کہ موذن بنوں؟

جناب! موذن ہونے پر تو آپ کو فخر کرناچاہئے، علی ابن ابی طالب علیہ السلام موذن تھےجس دور میں آپ خلیفہ تھے، اس دور میں بھی اذان کہا کرتے تھےموذن ہونے کو اپنی توہین سمجھنا، یا موذن ہونے کو کسی خاص طبقے سے وابستہ قرار دینا اور یہ کہنا کہ میں جو اشراف و عمائدین میں سے ہوں، رجال و شخصیات میں میرا شمار ہوتا ہے، میں اذان دوں؟ ۔۔۔ یہ سب باتیں اذان کی تحقیر کرنا اور اسے حقیر سمجھناہیں۔

 

پس ہمیں کسی بھی صورت میں عبادات کی تحقیر نہیں کرنی چاہئےہمیں ایک کامل اور جامع مسلمان ہونا چاہئےاسلام کی حیثیت اور قدر و قیمت اسکی جامعیت میں ہےنہ تو ہمارا کردار یہ ہو کہ صرف عبادات سے چپکے رہیں، اسکے سوا تمام چیزوں کو ترک کر دیں اور نہ ہی ہمیں دورِ حاضر میں پیدا ہونے والے ان لوگوں کی مانند ہونا چاہئے جنہیں اسلام کی صرف اجتماعی تعلیمات ہی نظر آتی ہیں اور عبادات کی تحقیر کرنے لگیں۔

انشاء اﷲ آئندہ شب جب ہم اسی بحث کے تسلسل میں عرائض پیش کریں گے تو دوسرے تمام اسلامی فرائض کی نظر سے عبادت کی اہمیت پر گفتگو کریں گےاور واضح کریں گے کہ خود عبادت خدا کے تقرب کا ایک رکن اورمرکب (سواری) ہونے کے علاوہ، نیز علاوہ اس کے کہ ”وَاَقِمِ الصَّلٰوةِ لِذِکْرِیْ“(۱) نماز کا مقصد یادِ خدا اور تقربِ الٰہی ہے اور خدا کا تقرب اور اس سے نزدیکی خود اتنا بڑا مقصد ہے کہ اسے اپنے سے بڑھ کرکسی اور مقصد کی ضرورت نہیں (خود یہی اعلی ترین مقصد ہے)ان سب باتوں سے قطع نظر اگر ہم عبادت کی تحقیر کریں تو دوسرے تمام فرائض کی ادائیگی سے بھی رہ جائیں گےعبادت تمام دوسرے اسلامی احکام و فرامین کی قوہمجریہ اوران کے اجرا کی ضامن ہے۔

یہیں پر ہم اپنے عرائض ختم کرتے ہیں۔

خدایا! تجھے تیری درگاہ کے عبادت گزار بندوں کے حق کا واسطہ، ان صاحبانِ قرآن کے صدقے، اپنے پاکیزہ اور مخلص مناجات کرنے والوں کے صدقے، ہم سب کو حقیقی عبادت گزاروں میں قرار دے۔

بارِالٰہا! ہمیں دین اسلام کی جامعیت سے آشنا فرما اور ہمیں ایک جامع مسلمان بنادے۔

پروردگار! ہم سب کو خلوصِ نیت کی توفیق کرامت فرما۔

الٰہی! ان محترم شبوں میں ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے مرحومین کی مغرفت فرما۔

رَحِمَ اﷲُ قَرَأَ الْفاتِحَةَ مَعَ الصَّلَوَات

--------------

۱۔ اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ ( سورہ طہ ۲۰ آیت ۱۴)

 

عبادت اور تربیت

اِنَّ الصَّلوٰةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَلَذِکْرُ اﷲِ اَکْبَرُ (۱)

اسلام میں عبادات اصل اور بنیاد کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اسکی تربیتی اسکیم کا حصہ بھی ہیں اس بات کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ :عبادات کے اصل اور بنیاد کے حامل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے ہر پہلو سے قطع نظر، انسانی زندگی کے مسائل سے قطع نظر خود عبادت مقاصدِ خلقت میں سے ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

اور میں نے جنات اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے(سورہ ذاریات ۵۱آیت ۵۶)

عبادت انسان کے حقیقی کمال اور تقربِ الٰہی کا ایک وسیلہ ہے۔

ایسی چیز جو خود انسان کے کمال کا مظہر، اورخود ہدف اور غایت ہے اسکے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی دوسری چیز کا مقدمہ اور وسیلہ ہولیکن اسکے باوجود، عبادات اس اصالت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دوسری چیز کا مقدمہ بھی ہیںیعنی جیسا کہ ہم نے عرض کیا (عبادات) اسلام کی تربیتی اسکیم کا حصہ ہیںیعنی اسلام، جو اخلاقی اور اجتماعی لحاظ سے افراد کی تربیت کرنا چاہتا ہے، وہ اس مقصد کے لئے جو وسائل اختیار کرتا ہے ان میں سے ایک وسیلہ عبادت ہے اور اتفاق سے یہ وسیلہ انسان کے اخلاق اور روح پر ہر دوسرے وسیلے سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہےایسا کس طرح ہے؟ ہم آئندہ سطور میں اس کی وضاحت کریں گے۔

اخلاقی مسائل کا محور ”ایثار و فدا کاری“ اور اپنے فائدے اور مفاد کوپس پشت رکھنا ہےجس طرح ”حمیہ“ یعنی پر خوری سے اجتناب، جسمانی سلامتی کا ایک اصول ہے، جو (جسمانی صحت سے متعلق) تمام خوبیوں کی اسا س اوربنیاد ہے، اسی طرح اخلاق میں بھی ایک چیز ہے،

----------

1:-بے شک نماز ہر برائی اور بد کاری سے روکنے والی ہے اور اﷲ کا ذکر بہت بڑی شے ہے(سورہ عنکبوت ۲۹آیت ۴۵)

 

 جو تمام اخلاقی مسائل کی اصلِ اساس ہے، اور وہ ہے اپنی ذات سے گزر جانا، اپنی ذات کوبھلا دینا، ”انانیت“ کی اسیری سے آزاد ہو جانا اور ”میں“ کو ترک کر دینا۔

اجتماعی مسائل میں عدالت کا اصول تمام اصولوں کی ماں ہےعدالت، یعنی دوسرے افرادکے حق کوملحوظ رکھنا، ان کے حقوق کی رعایت کرنا۔

وہ مشکل جس سے انسانیت اخلاقی مسائل میں بھی دوچار ہے اور اجتماعی مسائل میں بھی اس کا سامنا کر رہی ہے، وہ ان اصولوں کو روبہ عمل لانے کا مسئلہ ہےیعنی کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو اخلاق سے ناواقف ہو، یا اس بات کا علم نہ رکھتا ہو کہ عدالت کس درجہ ضروری ہےلیکن مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ان اصولوں پر عمل کا مرحلہ آتا ہے۔

جس وقت انسان کسی اخلاقی اصول کی پابندی کرنا چاہتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ اسکا مفاد اور منفعت ایک طرف ہے اوراس اخلاقی اصول کی پابندی دوسری طرفوہ دیکھتا ہے کہ راست گوئی ایک طرف ہے اور منفعت اور فائدہ دوسری طرفیا تو وہ جھوٹ بولے، خیانت کرے اور نفع حاصل کر لے، یا پھرسچ بولے، امانت داری کا ثبوت دے اور اپنے منافع کو پس پشت ڈال دےیہ وہ مقام ہے جہاں ہم دیکھتے ہیں کہ عدل و اخلاق کا دم بھرنے والا انسان بھی عمل کے موقع پر اخلاق اور عدالت کی مخالف راہ اختیار کرتا ہے۔

ایمان کی تاثیر

جو چیز اخلاق اور عدالت کی پشت پناہ اور ضمانت ہے، اور جو اگر انسان میں پیدا ہو جائے تو انسان باآسانی اخلاق اور عدالت کے راستے پر قدم بڑھاسکتا ہے اور اپنے نفع اور مفاد سے دستبردار ہوسکتا ہے، وہ صرف ”ایمان“ ہے۔

البتہ کونسا ایمان؟ جی ہاں، خود عدالت پر ایمان، خود اخلاق پر ایمان۔

انسان میں عدالت پر ایک مقدس امر کے طور پر، اخلاق پر ایک مقدس امر کے طور پر ایمان کب پیدا ہوتا ہے؟

 

(یہ ایمان)اس وقت (پیدا ہوتا ہے)جب وہ تقدس کی اصل و اساس یعنی ”خدا“ پر ایمان رکھتا ہولہٰذا انسان عملاً اتنا ہی عدالت کا پابند ہوتا ہے جتنا خدا کا معتقد ہوتا ہے، عملاً اتنا ہی اخلاق کا پابند ہوتا ہے جتنا خدا پر ایمان رکھتا ہے۔

ہمارے دور کی مشکل یہی ہے کہ (لوگ) سمجھتے ہیں کہ ”علم“ کافی ہےیعنی بااخلاق اور عادل ہونے کیلئے ہماراعدالت اور اخلاق سے واقف ہونا اور ان کا علم رکھنا ہی کافی ہےلیکن تجربے نے بتایا ہے کہ اگر علم سے ایمان کا رشتہ ٹوٹا ہوا ہو، تویہ عدالت اور اخلاق کے لئے نہ صرف مفید نہیں، بلکہ مضر بھی ہےاور ”سنائی“ کے ا س قول کے مصداق ہو جاتا ہے کہ: چودزد باچراغ آید گزیدہ تربرد کالا (جب چور چراغ کے ہمراہ آتا ہے تو اچھی طرح چن چن کے مال لے جاتا ہے)

لیکن اگر ایمان پیدا ہو جائے، تو اخلاق اور عدالت میں استحکام آجاتا ہےمذہبی ایمان کے بغیر اخلاق اور عدالت ایسے ہی ہے جیسے بغیر ضمانت کے کرنسی نوٹوں کا جاری کر دیناجب مذہبی ایمان آ جاتا ہے تو اخلاق اور عدالت بھی آ جاتے ہیں۔

یہیں پہنچ کر ہمیں نظر آتا ہے کہ اسلام نے خدا کی پرستش اور عبادت کو اخلاق اور عدالت سے جدا ایک علیحدہ مسئلہ قرار نہیں دیا ہےیعنی جس عبادت کا اسلام حکم دیتا ہے اسکی چاشنی اخلاق اور عدالت کو قرار دیتا ہےیا یہ کہیں کہ جس عدالت اور اخلاق کو تجویز کرتا ہے، اسکی چاشنی عبادت کو قرار دیتا ہے کیونکہ اسکے بغیر یہ ممکن نہیں۔

ایک مثال عرض کرتا ہوں : آپ کوکہاں، اور دنیا میں پائے جانے والے مکاتیب و ادیان میں سے کس مکتب اور دین میں یہ بات نظر آتی ہے کہ ایک مجرم خود اپنے قدموں سے چل کر آئے اور اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کرے؟ مجرم تو ہمیشہ سزا سے بچنے کی کوشش کرتا ہےوہ واحد قدرت جو مجرم کو خود اپنے قدموں پر چلاکے اور اپنے ارادے اور اختیار سے سزا کی طرف لاتی ہے وہ ”ایمان“ کی طاقت ہے، اسکے سوا کوئی اور چیز ایسانہیں کر سکتی۔

 

جب ہم اسلام کے ابتدائی دور پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ایسی بکثرت مثالیں نظر آتی ہیں البتہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی دور میں، تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس ابتدائی دور کے سوا کسی اور دور میں ایسی مثالیں نہیں ملتیںنہیں، صدرِ اسلام کے علاوہ دوسرے ادوار میں بھی، لوگوں میں پائے جانے والے ایمان کے تناسب سے ایسی مثالیں موجود ہیں۔

اسلام نے مجرم کے لئے سزاؤں کا تعین کیا ہےمثلاً شراب نوشی کے مرتکب فرد، زناکار اور چورکے لئے سزائیں معین کی ہیںدوسری طرف اسلام میں ایک اصول ہے اور وہ یہ ہے کہ اَلْحُدُوُد تَدْرَ أُبِالشَّبْهَاتِ یعنی حدود معمولی شبہے پر دفع ہو جاتے ہیں اسلام قاضی اور حاکم کو اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ وہ مجرم کوتلاش کرنے کے لئے جاسوسی کریں، تجسس کریںبلکہ مجرم کے دل میں ایک طاقت ڈالتا ہے جس کے اثر سے وہ خود اپنے آپ کوسزا کے لئے پیش کرتا ہےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دور میں کثرت کے ساتھ ایسا ہوا کرتا تھا کہ لوگ خود پیغمبر یا امام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ یا رسول اﷲ (یا امیر المومنین) ہم فلاں جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، ہمیں سزا دیجئےہم آلودہ ہیں، ہمیں پاک کر دیجئے۔

ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں آیا اور کہا: اے اﷲ کے رسول ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے سزا دیجئے(کیونکہ اس قسم کے مسائل میں ایسے شخص کے لئے چار مرتبہ اقرار کرنا ضروری ہے، ایک مرتبہ کا اقرار کافی نہیں، لہٰذا) پیغمبر نے فرمایا: لَعَلَّکَ قَبَّلْتُ شاید تم نے اس عورت کا بوسہ لیا ہو گا اور کہہ رہے ہو کہ میں نے زنا کیا ہے (یعنی آنحضرت اسکے منہ میں الفاظ رکھ رہے ہیں)اگر وہ کہے کہ ہاں میں نے بوسہ لیا ہے تو کہہ سکتے ہیں کہ بوس و کنار بھی زنا کی مانند ہے اور معاملہ صرف یہیں پر ختم ہو گیا ہو گااس نے کہا : نہیں، اے اﷲ کے رسول! میں نے زنا کیا ہےفرمایا: لَعَلَّکَ غَمَّزْتَ، شاید تو نے برائی کا صرف ارادہ کیا ہو گا، یا اسکے جسم کوگدگدایا ہوگا(شاید وہ کہے کہ ہاں، ایسا ہی تھا، اس سے زیادہ میں نے کچھ نہیں کیا تھا)اس نے کہا: نہیں، اے

 

اﷲ کے رسول! میں زنا کا مرتکب ہوا ہوں آپ نے فرمایا: شاید تو زنا کے قریب قریب پہنچ گیا ہو اور در حقیقت زنا واقع نہ ہوا ہو؟ اس نے کہا: نہیں، اے اﷲ کے رسول! میں آلودہ ہوا ہوں، میں ناپاک ہو گیا ہوںمیں اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھ پر حد جاری فرمائیں اور اسی دنیا میں مجھے سزا دیں، میں نہیں چاہتا کہ میرا یہ جرم دوسری دنیا میں میرے ساتھ جائے۔

یہ حدیث جسے ہم اب پیش کر رہے ہیں ”کافی“ میں ہے (فروع کافی ج ۷ص ۱۶۵)

ایک عورت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: اے امیر المومنین! میں نے زنائے محصنہ کا ارتکاب کیا ہے، میں شادی شدہ ہوں، شوہر کی غیر موجودگی میں زنا کی مرتکب ہوئی ہوں اور اسکے نتیجے میں حاملہ ہو گئی ہوں ”طَهَّرْنی“ مجھے پاک کر دیجئے، میں آلودہ ہوںامام نے فرمایا : ایک مرتبہ کا اقرار کافی نہیں، چار مرتبہ اقرار کرنا ضروری ہے(۱) پھر یہ کہ اگر ایک شادی شدہ عورت زنا کی مرتکب ہو تو اسے ”رجم“ یعنی سنگسار کیا جائے گامیں اگر تمہیں سنگسار کرنے کا حکم دوں گا تو اس بچے کا کیا بنے گا جو تمہارے شکم میں ہے؟ بچے کو تو ہم سنگسار نہیں کر سکتےتم جاؤ، بچے کی پیدائش کے بعد آنا، ہم اس بچے کی وجہ سے تمہیں سنگسار نہیں کر سکتےیہ سن کر وہ عورت چلی گئی۔

چند ماہ بعد دیکھتے ہیں کہ وہی عورت چلی آ رہی ہے، ایک بچہ بھی اس کی گود میں ہےکہتی ہے: یا امیر المومنین طہرنی اے امیر المومنین !مجھے پاک کر دیجئے۔ بولی، میرا عذر یہ بچہ تھا، اب یہ دنیا میں آچکا ہے (یہ دوسرا اقرار تھا)امیر المومنین نے فرمایا: اب اس موقع پر اگر ہم تجھے سنگسار کردیں تو اس بچے کا کیا قصور ہے؟ ابھی اسے ماں کی ضرورت ہے، اسے ماں کا دودھ چاہئے، یہ ماں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا طالب ہےفی الحال جاؤ، ابھی اس بچے کو تمہاری ضرورت ہےوہ عورت دل شکستہ اور رنجیدہ حالت لئے لوٹ گئی۔

--------------

1:-اسلام میں کسی صورت حتیٰ قاضی تک کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ تجسس کرے یابہانے سے اقرار لے بلکہ جب کوئی انسان اقرار کرتا ہے تو قاضی ایک بہانے کے ذریعے اسکے اقرار کو مسترد کرتا ہے۔

 

ایک دو سال بعد وہ عورت دوبارہ آئی، بچہ بھی اسکے ساتھ تھا اور آ کے کہنے لگی: ”یا امیر المومنین! طہرنی“ اب میرا بچہ دودھ نہیں پیتا، اسے دودھ پلانے والی کی ضرورت نہیں رہی، بڑاہو گیا ہےاب مجھے پاک کر دیجئےفرمایا: نہیں، ابھی اس بچے کو ماں کی ضرورت ہےابھی جاؤیہ سن کر اس عورت نے بچے کا ہاتھ پکڑا، اب وہ روتی جاتی تھی اور یہ کہتی جاتی تھی کہ: خدایا! یہ تیسری مرتبہ ہے کہ میں گناہ کی اس آلودگی سے پاک ہونے کی غرض سے تیرے (مقرر کردہ) امام کی خدمت میں آئی ہوں، خلیفہ مسلمین کے پاس آئی ہوں اور وہ ہیں کہ ہر مرتبہ ایک بہانہ کر کے مجھے واپس لوٹا دیتے ہیںبارالٰہا ! میں اس گندگی سے چھٹکارا چاہتی ہوں، میں آئی ہوں کہ وہ مجھے سنگسار کریں اور میں پاک ہو جاؤںوہ یہ کہتی ہوئی جا رہی تھی کہ اتفاقاً اس پر عمرو بن حریث کی نگاہ پڑگئی، یہ ایک منافق انسان تھااس نے عورت سے پوچھا: کیا ہوا؟ کیا معاملہ ہے؟ عورت نے پورا قصہ کہہ سنایاعمرو بن حریث نے کہا : آؤ میرے ساتھ، میں تمہاا مسئلہ حل کرتا ہوں۔ تم ایسا کرو کہ بچہ میرے حوالے کردو، میں اس کی کفالت قبول کرتاہوںاسے یہ معلوم نہ تھا کہ علی اس عورت سے چوتھی مرتبہ اقرار لینا نہیں چاہتے۔

امام دیکھتے ہیں کہ وہ عورت اپنے بچے اور عمرو بن حریث کے ساتھ واپس چلی آ رہی ہے۔ آپ کے نزدیک آتی ہے اور کہتی ہے: یا امیر المومنین! طہرنی (اے امیر المومنین! مجھے پاک کر دیجئے)، میں نے زنا کیا ہے، بچے کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہے، اس شخص نے اسے پالنے پوسنے کی ذمے داری لے لی ہے، اب آپ مجھے پاک کر دیجئے۔۔۔

کہتے ہیں کہ امیر المومنین کو معاملے کا یہاں تک پہنچنا بہت ناگوار گزرا۔

یہ ایمان اور مذہب کی طاقت ہے جو انسان کے ضمیر کی گہرائیوں میں اثر انداز ہو کر اسے عدالت اور اخلاق کے سامنے جھکا دیتی ہےعبادت اس لئے ہے تاکہ انسان کی ایمانی حیات کی تجدید ہو، اسکا ایمان تازہ ہو، اس میں طراوت اور نشاط پیدا ہو، وہ قوت اور طاقت حاصل کرے۔

 

جتنا انسان کا ایمان زیادہ ہو گا، اتنا ہی وہ خداکو زیادہ یاد رکھے گا، اور جتنا انسان کو خدا یا د رہے گا اتنا ہی وہ گناہ کا کم مرتکب ہوگاگناہ اور نافرمانی کرنے یا نہ کرنے کا دارو مدار علم پر نہیں ہے، اسکا دارو مدار غفلت اور یاد پر ہےجتنا انسان غافل ہو گا، یعنی اس نے جتنا خدا کو فراموش کر دیا ہو گا، اتنا ہی زیادہ وہ گناہ کا ارتکاب کرے گا اور جتنا زیادہ وہ خدا کو یاد رکھے گا، اتنی ہی اسکی نافرمانیاں کم ہوں گی۔

 

عصمت اور ایمان

آپ نے سنا ہوا ہے کہ انبیا اور ائمہ معصوم ہوتے ہیں اگر آپ سے پوچھا جائے کہ انبیا اور ائمہ کے معصوم ہونے کے کیا معنی ہیں؟ تو آپ اسکا جواب دیں گے کہ وہ کبھی کسی بھی صورت میں گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے۔

ٹھیک ہے(عصمت کے) معنی یہی ہیںلیکن اگر اسکے بعد آ پ سے سوال کیا جائے کہ (یہ لوگ) کیوں گناہ نہیں کرتے؟ تو ممکن ہے آپ اس سوال کادو طرح سے جواب دیںایک یہ کہ انبیا اور ائمہ اس وجہ سے معصوم ہیں اور گناہ نہیں کرتے کہ خداوند عالم ان کے ارتکابِ گناہ میں رکاوٹ ہے، اس نے انہیں بالجبر گناہ اور معصیت سے روکا ہوا ہےیعنی جب کبھی وہ گناہ کرنا چاہتے ہیں، خدا رکاوٹ کھڑی کر دیتا ہے اور ان کا راستہ روک دیتا ہے۔

اگر عصمت کے معنی یہ ہیں تو یہ (انبیا اور ائمہ کے لئے) کوئی فضیلت اور کمال نہیںاگر میرے اور آپ کے ساتھ بھی اسی طرح ہونے لگے کہ جوں ہی ہم گناہ کرنا چاہیں، خدا کی نافرمانی کرنا چاہیں تو ایک خارجی طاقت ہمارے راستے میں حائل ہو جائے، ہمارے مانع و مزاحم ہو جائے اور ہمارے اور گناہ کے درمیان رکاوٹ بن جائےایسی صورت میں بحالتِ مجبوری ہم بھی گناہ سے محفوظ رہیں گے۔

 

پس، ایسی صورت میں انہیں (انبیا اور ائمہ کو) ہم پر کیا فضیلت ہوئی؟ اس صورت میں ان کے اور ہمارے درمیان صرف یہ فرق ہو گا کہ وہ خدا کے ایسے بندے ہیں جنہیں اس نے خاص امتیاز دیا ہوا ہے، جب وہ خدا کی نافرمانی کرنا چاہتے ہیں، توخدا ان کے راستے میں حائل ہو جاتا ہے لیکن (ہمیں یہ امتیاز حاصل نہیں) جب ہم نافرمانی کا ارادہ کرتے ہیں، تو خدا ہمارا راستہ نہیں روکتا۔

نہیں، یہ خیال غلط فہمی پر مبنی ہے۔

ان (انبیا اور ائمہ) کے معصوم ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ گناہ کرنا چاہتے اورخدا ان کے مانع ہو جاتا ہے !

پس پھرحقیقت کیا ہے؟

عصمت کے معنی، ایمان کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز ہونا ہےجتنا ایمان زیادہ ہو گا اتنا ہی انسان کو خدا زیادہ یاد رہے گامثلاً ایک بے ایمان انسان ایک روز گزارتا ہے ایک ہفتہ گزارتا ہے، ایک مہینہ گزارتا ہے، جو چیز اسکے ذہن میں پھٹکتی تک نہیں، وہ خدا ہےایسا شخص یکسر غافل ہے۔

بعض لوگوں کو کبھی کبھی خدا یاد آتا ہےاس موقع پر انہیں خیال ہوتا ہے کہ ہمارا ایک خدا ہے، خدا ہمارے سروں پر ہے اور وہ ہمیں دیکھ رہا ہےلیکن خدا اسی ایک لمحے کے لئے ان کے ذہن میں آتا ہے، اسکے بعد وہ اسے ایسے بھلا بیٹھتے ہیں جیسے سرے سے کسی خدا کا وجود ہی نہیں۔

لیکن کچھ افراد جن کا ایمان (مذکورہ بالا لوگوں سے کچھ) زیادہ ہوتا ہے، کبھی غفلت میں ہوتے ہیں، کبھی بیدارجب غافل ہوتے ہیں تو ان سے گناہ صادر ہوتے ہیں لیکن جب بیدار ہوتے ہیں تو اس بیداری کے نتیجے میں ان سے گناہ صادر نہیں ہوتےکیونکہ جب وہ خدا کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو ان سے گناہ کے صدور کا امکان ختم ہو جاتا ہےلایزنی الزانی وهو مو من (کوئی حالتِ ایمان میں زنا نہیں کر سکتاوسائل الشیعہ ج ۱ص ۲۴ح ۱۴)

 

جب انسان کی روح میں سچا ایمان موجود ہو اور وہ بیدار ہو تو گناہ میں مبتلا نہیں ہوتااب اگر انسان کا ایمان کمال کی حدوں کو چھو لے، یہاں تک کہ وہ خداکو ہمیشہ حاضر و ناظر سمجھنے لگےیعنی خدا ہمیشہ اس کے دل میں موجود ہو، تواس صورت میں وہ کبھی بھی غافل نہیں ہوتا، ہر عمل کی انجام دہی کے دوران خدا کی یاد اسکے ساتھ ساتھ ہوتی ہےقرآنِ مجید کہتا ہے :

رِجَالٌ لَّا تُلْهِیْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اﷲِ

وہ مرد جنہیں کاروبار یا خرید و فروخت ذکرِ خدا سے غافل نہیں کر سکتی(سورہ نور ۲۴آیت ۳۷)

(قرآن) یہ نہیں کہتا کہ وہ لوگ جوتجارت نہیں کرتےاسلام لوگوں کو تجارت اور کاروبار سے روکنے کے لئے نہیں آیایہ نہیں کہتا کہ تجارت نہ کرواسکے برعکس حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ محنت کرو، کماؤ، کاروبار کرو، تجارت کرووہ لوگ جو خرید و فروخت کرتے ہیں، تجارت کرتے ہیں، کماتے ہیں، ملازمت کرتے ہیں لیکن ان سب چیزوں کے باوجود ایک لمحے کے لئے بھی خدا سے غافل نہیں ہوتےدکان کے کاؤنٹر پر کھڑے ہوتے ہیں، چیزیں فروخت کرتے ہیں، تولتے ہیں، بولتے ہیں، پیسے لیتے ہیں اور مال حوالے کرتے ہیں لیکن جس چیز کو وہ ایک لمحے کے لئے بھی فراموش نہیں کرتے وہ ”خدا“ ہےخدا ہمیشہ ان کے ذہن میں رہتا ہے۔

اگر کوئی ہمیشہ بیدارہو، ہمیشہ خدا اسکے ذہن میں ہو، تو قدرتی بات ہے کہ وہ کبھی بھی گناہ کا مرتکب نہیں ہوگاالبتہ ہم ایسی دائمی بیداری معصومین علیہم السلام کے سوا کسی اور میں نہیں پاتے(چنانچہ)معصومین یعنی وہ لوگ جو کسی بھی لمحے خدا کو نہیں بھولتے۔

آپ کی خدمت میں ایک مثال عرض کرتا ہوں: کیا کبھی آپ کے ساتھ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ (آپ نے جانتے بوجھتے) اپنا ہاتھ آگ میں ڈال دیا ہو، یا آگ میں کود پڑے ہوں؟ اگر آپ کو معلوم نہ ہو، بے خبری میں ایسا ہو گیا ہو تو دوسری بات ہےپوری زندگی میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہم میں سے کوئی ارادتاً خود کو آگ میں جھونک دےالبتہ اگر ہم خودکشی کرناچاہیں تو (بات دوسری ہے)۔

 

ایسا کیوں ہے؟ ایسااس لئے ہے کہ ہم بخوبی یہ بات جانتے ہیں کہ آگ کا کام جلانا ہے، یہ جانتے ہیں کہ اگر آگ کے بھڑکتے شعلوں میں گر جائیں تو یقیناً زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گےہم قطعی اور یقینی طور پر اس بات کا علم رکھتے ہیں اور جوں ہی ہمیں آگ نظر آتی ہے یہ علم ہمارے ذہن میں حاضر ہو جاتا ہے اور ہم ایک لمحے کے لئے بھی اس سے غافل نہیں ہوتےلہٰذا ہم اپنے آپ کو آگ میں جھونکنے سے معصوم ہیںیعنی ہمیں حاصل یہ علم و یقین اور ایمان کہ آگ جلانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ہمیں آگ میں کود پڑنے سے باز رکھتے ہیں۔

جتنا ہم آگ کے جلانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیں، اتنا ہی اولیائے خدا، گناہ کے جلانے کی صلاحیت پر ایمان رکھتے ہیںلہٰذا وہ معصوم ہوتے ہیں (کسی گناہ کے قریب نہیں جاتے)۔

اب جبکہ معصوم کے معنی معلوم ہو چکے ہیں، تواس جملے کا مقصد بھی واضح ہو گیا ہو گا کہ ”عبادت اسلام کی تربیتی اسکیم کاحصہ ہے“عبادت اس لئے ہے کہ انسان کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد خدا کی یاد دلائی جائے اور انسان کو جتنا خدا یاد ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ اخلاق، عدالت اور حقوق کا پابند ہو گایہ ایک بالکل واضح (clear)بات ہے۔

اسلام، دنیا اور آخرت کا جامع

اب اپنی پور ی توجہ اس موضوع پر مرکوز فرمایئے کہ اسلام میں دنیا اور آخرت کس طرح باہم ملے ہوئے ہیں اسلام مسیحیت کی طرح نہیں ہےمسیحیت میں دنیا اور آخرت کا حساب جدا جدا ہےمسیحیت کہتی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں علیحد ہ علیحدہ عالم ہیں (ان دونوں میں سے کسی ایک کو اختیار کیا جاسکتا ہے)، یا یہ، یا وہلیکن اسلام میں ایسا نہیں ہےاسلام آخرت کو دنیا کے ساتھ اوردنیا کو آخرت کے ہمراہ قرار دیتا ہےمثلاً نماز ہی کو لے لیجئے، اسکا خالص اخروی پہلو یہ ہے کہ انسان خدا کو یاد کرے، خوفِ خدا رکھے۔

 

حضورِ قلب اور خداکی جانب متوجہ ہونے کیلئے اس قدرادب آداب کی ضرورت نہیں کہ انسان پہلے جا کر وضو کرے، اپنے آپ کو دھوئے، صاف کرےکیا خدا سے ملاقات کے لئے وضو اور پاکیزگی کوئی تاثیر رکھتی ہے؟ خدا کے حضور جانے کے لحاظ سے اس بات کی کوئی تاثیرنہیں کہ انسان کا منہ دھلا ہوا ہے یا نہیں، لیکن خداوند عالم فرماتا ہے :

اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلوٰةِ، فَاغْسِلُوْ اوُجُوْهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَفِقِ

ایمان والو! جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤ(سورہ مائدہ ۵۔ آیت ۶)

پھر اسکے بعد نماز پڑھو۔

دیکھا آپ نے (اسلام نے) صفائی کو عبادت کے ساتھ ملا دیا ہے: وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُ وْا (اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کروسورہ مائدہ ۵آیت ۶) اوریہاں عبادت کے ساتھ پاکیزگی کا ذکر ہے۔

اگر آپ نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو آپ کی عبادت کی جگہ مباح ہونی چاہئے، غصب شدہ نہ ہووہ جا نماز جس پر کھڑے ہو کر آپ نماز پڑھتے ہیں، وہ لباس جسے پہن کر آپ نماز ادا کرتے ہیں، اسے حلال اورمباح ہونا چاہئےاگر آپ کے لباس کا ایک دھاگا بھی غصبی ہوا، تو آپ کی نماز باطل ہو جائے گیاس مقام پر عبادت حقوق کا دامن تھام لیتی ہےخدا کی عبادت کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ کہا جا رہا ہے کہ (لوگوں کے) حقوق کا بھی احترام کیجئےیعنی اسلام کہتا ہے کہ میں ایسی عبادت قبول ہی نہیں کرتا جس میں دوسروں کے حقوق کا پاس ولحاظ نہ رکھا گیا ہو۔

لہٰذا جب نمازپڑھنے والا کوئی شخص، نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پہلے یہ دیکھتا ہے کہ یہ گھر جس میں، میں ہوں، اسے میں نے کسی سے بالجبر تو نہیں ہتھیایا؟ اگر جبراً قابض ہوں، تو میری نماز باطل ہو گیپس اگر وہ نماز پڑھنا چاہتا ہے تو مجبور ہے کہ پہلے اپنے لئے ایک ایسے گھر کا بندوبست کرے جو اسکے لئے حلال ہویعنی اسکے اصل مالک سے خریدا ہوا ہو، یا وہ (مالک) اسکے وہاں رہنے سے راضی ہو۔

 

 وہ جس فرش پر کھڑا ہے، اس کا مسئلہ بھی یہی ہےاسکا لباس بھی ایسا ہی ہونا چاہئے، حتیٰ اگر ناداروں کے حقوق، خمس یا زکات (وغیرہ) بھی اس کے ذمے ہوں، تو انہیں بھی ادا کرےاگراس نے انہیں ادا نہ کیا ہو گا، تو بھی اسکی نماز باطل ہوگی۔

اسی طرح (اسلام) ہم سے کہتا ہے اگر نماز پڑھنا چاہتے ہو تو تم سب کوکعبہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوناہو گاکعبہ کہاں ہے؟ وہ اوّلین معبد جو دنیا میں خدا کی پرستش کے لئے بنایا گیا، کہاں واقع ہے؟ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّةَ مُبٰرَرکًا (بے شک سب سے پہلا مکان جو لوگوں کے لئے بنایا گیا ہے وہ مکہ میں ہے، مبارک ہےسورہ آل عمران ۳آیت ۹۶) تم سب پر اس اوّلین معبد اور مسجد کی سمت رخ کر کے کھڑا ہونا لازم ہے جسے خدا کے عظیم پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اوران کے فرزند اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم کعبہ کی طرف رخ کر کے کیوں کھڑے ہوں؟ کیا وہاں خدا ہے؟ کیا خدا (معاذ اﷲ) خانہ کعبہ کے اندر ہے؟ قرآن مجید جو یہ کہتا ہے کہ :

فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اﷲِ

لہٰذا تم جس جگہ بھی قبلے کا رخ کر لو گے سمجھو وہیں خدا موجود ہے(سورہ بقرہ ۲آیت ۱۱۵)

تم جہاں کہیں رخ کر کے کھڑے ہو جاؤ، وہیں خدا ہے، تم چاہے دائیں طرف رخ کر و یا بائیں طرف، خدا کی طرف رخ کر کے کھڑے ہواوپر رخ کرو یانیچے، خدا کی طرف تمہارا رخ ہو گااور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : اگر تمہیں رسی سے باندھ کرنیچے زمین کے ساتویں طبقے تک بھی لے جائیں تب بھی خدا کی طرف جاؤ گے۔ مشرق کی طرف جاؤ، تب بھی خداکی طرف جاؤ گے، مغرب کی طرف جاؤ، تب بھی خدا کی طرف جاؤ گے، یہاں جوبیٹھے ہوئے ہو، خداکے ساتھ ہوخداکی کوئی سمت نہیں۔

 

(اگر ایسا ہے تو) پھر ہم کعبہ کی طرف رخ کر کے کیوں کھڑے ہوں؟

(اسلام) کہتا ہے کہ آپ عبادت کی انجام دہی کے دوران ایک اجتماعی تعلیم و تربیت بھی حاصل کیجئےآپ سب کو ایک نقطہ واحد کی طرف رخ کر کے کھڑے ہونا چاہئے، اگرایسا نہ ہو تو ایک شخص ایک طرف رخ کئے کھڑا ہوگا اور دوسرا دوسری طرف اور یہ تفرقے اور انتشار کی علامت ہےلیکن اگرتمام لوگ ایک نقطے کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوں، تو اسکا مطلب ہے کہ سب یکسو ہیں۔

تمام مسلمانوں کی ایک ہی سمت اورجہت ہونی چاہئے، اس مقصد کے لئے کس نقطے کا انتخاب کریں جس میں شرک کی بو بھی نہ پائی جاتی ہو؟ (اسلام) کہتا ہے کہ اس نقطے کا انتخاب کرو جس کی طرف رخ کر کے کھڑے ہونا یہ کہلائے کہ تم نے عبادت کااحترام ملحوظ رکھا ہے، اس سمت رخ کر کے کھڑے ہو جو اوّلین معبد ہے، معبد کا احترام عبادت کااحترام ہے۔

پھر (اسلام) کہتا ہے کہ اگر عبادت کرناچاہتے ہو تواسکا ایک متعین اورخاص وقت ہے، اس میں سیکنڈوں کا بھی خیال رکھا جانا چاہئےصبح کی نماز کا وقت طلوعِ صبح کے آغاز سے لے کر طلوع آفتاب کی ابتداء تک ہےاگر تم نے جانتے بوجھتے صبح طلوع ہونے سے ایک سیکنڈ پہلے یا سورج طلوع ہونے کے بعد نماز شروع کی تو تمہاری نماز باطل ہوگی، درست نہ ہو گی نماز کو ان دو (اوقات) کے درمیان ہونا چاہئےیہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں کہ مجھے نیند آ رہی ہے، رات بھر کا جاگا ہوا ہوں، گو ابھی صبح طلوع ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے، یوں بھی خدا کو نہ تو نیند آتی ہے اور نہ بیداری کا ا س سے کوئی تعلق ہے، کیا خدا طلوعین کے درمیان (معاذ اﷲ) اپنا مخصوص لباس پہن کر نماز قبول کرنے کے لئے تیار ہوکے بیٹھتا ہے؟ ۔ ۔ خدا کے لئے تو تمام ساعات اور تمام لمحات مساوی ہیں: لاَ تَاْخُذُه، سِنَةٌ وَّلاَ نَوْمٌ (اسے نہ نیند آتی ہے اور نہ اونگھسورہ بقرہ ۲آیت ۲۵۵)لہٰذا کیونکہ میں نے رات جاگ کر گزاری ہے، بہت زور وں کی نیند آرہی ہے، کیوں نہ آدھے گھنٹے پہلے نماز پڑھ لوں۔

 

نہیں جناب، وقت کی پابندی ضروری ہےاپنے مقررہ وقت کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔

کیا خدا کی نظر میں اِس وقت یا اُس وقت کے درمیان کوئی فرق ہے؟

نہیں۔

ہاں، آپ کے لئے فرق ہےنماز کے ذریعے آپ کی تربیت مقصود ہے، اگر آپ رات کو دو بجے تک بھی بیدار رہے ہیں، تب بھی آپ کو طلوعین کے درمیان اٹھ کر نماز ادا کرنی چاہئےیہی حال ظہر اور عصر کی نمازوں کا ہے، (یہ بھی) قبل از وقت قبول نہیں، وقت گزرنے کے بعد بھی قبول نہیں۔ مغرب اور عشا کی نمازوں میں بھی ایسا ہی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نماز توعبادت ہے، خدا پرستی ہے، بھلاخدا پرستی کو ان معاملات سے کیا سروکار؟

نہیں جناب، اسلام میں خدا پرستی ان مسائل سے مربوط ہےاسلام عبادت و پرستش اور دوسرے مسائل کے درمیان تفریق کا قائل نہیں۔

(ممکن ہے کوئی کہے کہ) میں نمازپڑھتا ہوں، لیکن نماز کے دوران گریہ بھی کرنا چاہتا ہوں۔ میں مصیبت میں مبتلا ہوں، پریشانی کا شکار ہوں، چاہتا ہوں کہ نماز کے درمیان کچھ آنسو بہا لوںیا کوئی بات میرے ذہن میں آ جائے، کوئی چیز دیکھوں اور ہنس پڑوں (اگر ایسا کروں) توکوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔

نہیں جناب، ایسا نہیں ہےنمازاحساسات کو ضبط کرنے کا مظہر ہے، حالتِ نماز میں جب آپ ایک نقطے کی سمت متوجہ ہوں تو اسی نقطے کی سمت متوجہ رہنا چاہئےنہ دائیں، نہ بائیں، نہ پیچھے، حتیٰ اپنا سر ادھر ادھر گھمانے کا بھی حق نہیں، ایک چوکس ((Alertحالت میں کھڑے ہوناچاہئے۔

کیا نماز میں ہنسا اور رویاجاسکتا ہے؟

نماز کے دوران کھانے پینے کا حکم کیاہے؟

 

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی چیز عبادت کی روح سے متصادم نہیںخداکو یاد کر رہے ہیں ساتھ ساتھ ہنسی آ رہی ہے، ہنسنا چاہتے ہیںرونا آ رہا ہے، رونا چاہتے ہیںیا دورانِ نماز کوئی چیز کھانا چاہتے ہیں۔

نہیں جناب، آپ کو اس تھوڑی سی مدت کے لئے مشق کرنی چاہئے تا کہ اس دوران آپ کواپنے پیٹ پر کنٹرول ہو، اپنی ہنسی پر کنٹرول ہو، اپنے رونے پر کنٹرول ہو، اپنی بے نظمی پر کنٹرول ہویہ اجتماعی مسائل میں سے ہے، لیکن عبادت ہےکیونکہ اسلا م میں عبادت، تربیتی اسکیم کا ایک حصہ ہے، اس اصول کی رعایت کئے بغیر مقبول نہیں۔

کیا سکون کے ساتھ جم کے کھڑے ہوناچاہئے؟

بعض کہتے ہیں کہ عجیب بات ہے!!! میں نماز کی حالت میں حمد اور سورے کی تلاوت کرتے ہوئے اسکی تمام شرائط کو ملحوظ رکھتا ہوں لیکن اگر اپنے جسم کو حرکت دوں، ایک پیر اٹھا کر دوسرے پیرپر رکھ لوں، اپنے آپ کو دائیں بائیں جنبش دوں، تو کہا جاتاہے کہ تمہاری یہ نماز باطل ہےرکوع یا سجود میں بھی اگر اپنے آپ کو ہلاؤں جلاؤں، اپنے پیروں یا ہاتھوں کو حرکت دوں، تو کہتے ہیں کہ تمہاری یہ نماز باطل ہے(کہتے ہیں) آرام اور سکون کے ساتھ نماز پڑھویعنی جب کھڑے ہو اور اﷲ اکبر کہنا چاہو تو جب تک تمہارا بدن ساکت نہ ہو جائے اس وقت تک اﷲ اکبر نہ کہواگرہلتے ہوئے اللہ اکبر کہا تو نماز باطل ہو گیپہلے سکون سے کھڑے ہو، پھر اللہ اکبر کہواسکے بعد اگر ہلنا ہو تو ہلو لیکن ہلتے وقت کوئی حرف زبان سے ادا نہ کرو، کوئی ذکر نہ کرواگر بالفرض تمہارے پاؤں میں درد ہو، یا تمہارے کسی اور عضو میں تکلیف ہو تو خاموش ہو جاؤ، پرسکون ہو جاؤ جب ٹھہر جاؤ تو پھرذکر شروع کرو بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ کہواگر نمازکے درمیان تمہارے پاؤں میں تکلیف ہو، تو ٹھہر جاؤ، خاموش ہو جاؤ، اسکے بعد دوبارہ وہیں سے شروع کرو۔

(نماز) سکون اور اطمینان کے ساتھ ہونی چاہئےاس دوران تمہاری روح بھی پرسکون ہو اور تمہاراجسم بھی۔

 

آتے ہیں نماز کے دوسرے حصوں کی طرف۔

نماز خدا کی جانب توجہ کا نام ہےغیر خدا کی جانب توجہ شرک ہےلیکن اس کے باوجود ہم سے کہا گیا ہے کہ نماز میں کہو: اَلسَّلامُ عَلَیْنا وَعَلیٰ عِبادِ اﷲِ الصَّالِحینَ (ہم پر اور تمام صالح بندگانِ خدا پر ہمارا سلام ہو) اس طرح ہم خدا کے تمام صالح اور نیک بندوں سے یکجہتی، موافقت اور صلح و صفا کا اعلان کرتے ہیں آج کی اصطلاح میں تمام اچھے لوگوں کے ساتھ مل جل کے باہمی محبت اور سلامتی کے ساتھ رہنے کا اعلان کرتے ہیںحالتِ نماز میں کہتے ہیں کہ ہم کسی صالح بندہ خدا سے دشمنی اور عداوت نہیں رکھتےکیونکہ اگر ہم کسی صالح اور نیک انسان سے دشمنی اور عداوت رکھتے ہوں تو (اسکے معنی یہ ہیں کہ ہم) خود صالح اور نیک نہیں۔

کچھ لوگوں کے خیال میں: اَلسَّلامُ عَلَیْنا وَعَلیٰ عِبادِاﷲِ الصَّالِحینَ کہنا بھی عبادت کی روح (جو بارگاہِ الٰہی میں حضورِ قلب کا اظہار ہے) سے کوئی ربط نہیں رکھتالیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عبادت کی روح اور جسم تربیتی مسائل سے گندھے ہوئے ہیں۔

نماز پروردگار سے قرب کی سواری ہونے کے ساتھ ساتھ، تربیت کا مکتب و مدرسہ بھی ہےمعنوی اور روحانی مسائل کے لحاظ سے انسان جتنا اپنے آپ کو اور دوسروں کو فراموش کرے بہتر ہے لیکن اجتماعی نکتہ نظر سے دوسروں کو فراموش نہ کرنا لازم اور ضروری ہے۔سورہ حمد(۱) جو نماز کالازمی جز ہے، اس میں ہم کہتے ہیں: اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ یہ نہیں کہتے کہ: ایاک اعبدو ایاک استعین ایاک اعبد، اصطلاحاً متکلم واحد ہے، اس کے معنی ہیں کہ خدایا ! میں صرف تیری پرستش کرتا ہوں، صرف تجھ سے مدد لیتا ہوں،

--------------

1:-ہر نماز میں سورہ حمد پڑھنا ضروری ہےلا صلوة الا بفاتحة الکتاب (بغیر سورہ فاتحہ کے نماز درست نہیں) دوسرے سورے کی جگہ پر کسی بھی سورے کا انتخاب کیاجا سکتاہے، لیکن سورہ حمد پڑھنا لازم ہے۔

 

لیکن ہم یہ نہیں کہتے، بلکہ کہتے ہیں: اِیَّاکَ نَعْبُدُوَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ، یعنی خدایا ہم صرف تیری پرستش کرتے ہیں، صرف تجھ ہی سے مدد واستعانت طلب کرتے ہیںیعنی کہتے ہیں: خدایا ! میں تنہا نہیں ہوں، میں دوسرے تمام مسلمانوں کے ساتھ ہوں۔

اس طرح انسان عبادت کی حالت میں اسلامی معاشرے سے اپنی وابستگی اور پیوستگی کا اظہار کرتا ہے۔ کہتا ہے: خدایا میں ایک فرد نہیں ہوں، ایک نہیں ہوں، میں عضو ہوں، کل کا ایک جز اور ایک بدن کا حصہ ”ہم“ ہوں ”میں“ نہیں ہوںدنیائے اسلام میں ”میں“ نہیں پایا جاتا ”ہم“ پایا جاتا ہے۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں، صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

خدا کی کبریائی

نماز کے دوسرے حصے بھی اسی طرح ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک درس ہے، تذکر اور یاد دہانی ہے۔

مثلاً آ پ ”اﷲ اکبر“ کے لفظ پر غور کیجئےآخر وہ کونسا انسان ہے جو کسی عظیم شے کا سامنا ہونے پر اس سے مرعوب نہ ہو؟ انسان میں خوف پایا جاتا ہے۔ ۔ جب وہ کسی پہاڑ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے یااسکی چوٹی پر کھڑے ہو کر نیچے نگاہ ڈالتا ہے، تو اس پرخوف طاری ہو جاتا ہےسمندر کی بپھری ہوئی موجیں دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتا ہےجب کسی صاحبِ قدرت و ہیبت ہستی کو دیکھتا ہے، دبدبے اور جاہ و حشم کی مالک کسی ہستی کا سامنا کرتا ہے، یا اسکی خدمت میں جاتا ہے، تو ممکن ہے اسکے حواس باختہ ہوجائیں، اسکی زبان میں لکنت آ جائے۔ایسا کیوں ہوتا ہے؟

اس لئے کہ وہ اس کی عظمت و ہیبت سے مرعوب ہو جاتا ہےیہ انسان کے لئے ایک طبیعی بات ہے۔

لیکن اﷲ اکبر کہنے والا شخص، ایسا شخص جو اپنے آپ کو خدا کی کبریائی کی تلقین کرتا ہے، اسے کسی چیز یا کسی ہستی کی عظمت مرعوب نہیں کرتیکیوں؟ کیو نکہ ”اﷲ اکبر“ یعنی ہر چیز سے بڑی بلکہ ہر توصیف سے بڑی ذات، ذاتِ اقدسِ الٰہی ہے، یعنی اس بات کا اظہار کہ میں خدا کو عظیم سمجھتا ہوں، اور جب میں خدا کو عظیم سمجھتا ہوں تو اسکے معنی یہ ہیں کہ میرے سامنے اس کائنات کی تمام اشیا حقیر ہیں اللہ اکبر کا الفظ انسان کو شخصیت عطا کرتا ہے، انسان کی روح کو بزرگی اور بلندی عطا کرتا ہے۔

 

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: عَظُمَ الْخالِقَ فِی اَنْفَسِهِمْ فَصَغَرَ ما دَونِهَ فی اَعیَنِهِمْ (خالق ان کی نگاہ میں اس قدر عظیم ہے کہ ساری دنیا ان کی نگاہوں سے گر گئی ہےنہج البلاغہ خطبہ ۱۹۱) یعنی خدا اہل حق کی روح میں جلوہ افروز ہے لہٰذا ان کی نظر میں خدا کے سوا ہر چیزپست اور معمولی ہے۔

اس مقام پر آپ کے لئے ایک وضاحت عرض ہے :

چھوٹا اور بڑا ہونا ایک نسبی (Relative) امر ہےمثلاً آپ حضرات جو اس ہال میں تشریف فرما ہیں، اگر یہاں آنے سے پہلے، اس سے ایک چھوٹے ہال میں (مثلاً اس سے ایک تہائی چھوٹے ہال میں) بیٹھے ہوئے تھے، تو یہ ہال آپ کوبہت بڑا محسوس ہو گا، لیکن اگر اسکے برعکس، پہلے آپ ایک ایسے ہال میں بیٹھے ہوں جو اس ہال سے تین گناہ بڑا تھا توجب وہاں سے یہاں آئیں گے تو آپ کویہ ہال بہت چھوٹا معلوم دے گا۔

انسان جب کبھی مختلف چیزوں کی چھوٹائی اور بڑائی کا موازنہ کرتا ہے تو ان میں چھوٹی دکھائی دینے والی چیزوں کو چھوٹا اور بڑی نظر آنے والی چیزوں کو بڑا قرار دیتا ہےلہٰذا ایسے افراد جو اپنے پروردگار کی عظمت و بزرگی سے آشنا ہیں اور اسکی عظمت کو محسوس کرتے ہیں، ان کی نظر میں خدا کے سوا ہر چیز حقیر اور چھوٹی ہے، بڑی نہیں ہو سکتیسعدی نے بوستان میں بہت عالی بات کی ہے :

بر عارفان جز خدا ہیچ نسیت

رہ عقل جز پیچ در یچ نسیت

سعدی کہتے ہیں: اہل عرفان، خداکے سوا کسی چیز کی حیثیت کے قائل نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کسی اور چیز کا سرے سے وجود ہی نہیں۔

 

”وحدت الوجود“ کے ایک معنی یہی ہیں کہ جب عارف کے سامنے خداکی عظمت اور بزرگی واضح ہوجاتی تووہ کسی بھی صورت میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسکے سوا کسی اور چیز کا بھی وجود ہےوہ کہتا ہے کہ اگر ”وہ“ وجود ہے تو ”اس“ کے سوا جوکچھ ہے وہ عدم ہےسعدی نے بھی وجود کے یہی معنی بیان کئے ہیںبعد میں کہتے ہیں:

توان گفتن این باحقایق شناس

ولی خردہ گیرند، اہل قیاس

حقیقت شناس لوگ جانتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، لیکن وہ لوگ جو (ان کے خیال میں) اہلِ قیاس ہیں وہ ان پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وحدت الوجود کس شئے کا نام ہے؟

کہ پس آسمان و زمین چیستند

بنی آدم و دیو و دد کیستند

اگر خدا کے سوا کسی اورچیز کا وجود نہیں، تو پھر زمین کیا ہے؟ آسمان کیا ہے؟ بنی آدم کیا ہے؟ دیو اور دو کیا ہے؟

پسندیدہ پرسیدی ای ھوشمند

جو ابت بگویم درایت پسند

کہ خورشید و دریا و کوہ و فلک

پری و آدمیزاد و دیو و ملک

ھمہ ہرچہ ہستنداز آن کمترند

کہ باہستیش نام ہستی برند

 

کہتے ہیں: میں جب یہ کہتاہوں کہ خدا کے سوا کچھ اور نہیں ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آسمان و زمین، انسان اور فرشتے کسی بھی شے کا وجود نہیںتم کہتے ہو کہ میں دوسری اشیا کے وجود کا منکر ہو گیا ہوں، نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس (خدا) کی عظمت کو جان لینے کے بعد میں اسکے سوا جس چیز کو بھی دیکھتا ہوں اسے ہستی قرار دینے سے خود کو عاجز پاتا ہوں۔

کہ جای کہ دریا ست من چیستم

گرادہست حقا کہ من نیستم

جب آپ ”اﷲ اکبر“ کہتے ہیں تو اگر اپنی روح اور دل کی گہرائی سے کہیں گے تو خدا کی عظمت آپ کے سامنے مجسم ہو جائے گی۔ اگر آپ کے دل میں خدا کی عظمت و بزرگی پیدا ہو جائے تو پھر آپ کی نظر میں کسی اور کا عظمت و بزرگی کا حامل ہونامحال ہو گا، محال ہے کہ آپ کسی اور سے خوف کھائیں، کسی اور کے سامنے خضوع و خشوع کا اظہار کریں۔

یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ خدا کی بندگی انسان کو آزادی عطا کرتی ہےاگر انسان خدا کی عظمت اور بزرگی کو جان لے، تو اسکا بندہ بن جاتا ہے اورخدا کی بندگی کا لازمہ خدا کے سوا ہر کسی سے آزادی ہے :

نشوی بندہ تانگردی حر

نتوان کرد ظرف پر را پر

چند گوئی کہ بندگی چہ بود

بندگی جز شکندگی نبود

خدا کی بندگی غیر خدا کی بندگی سے آزادی کے مترادف ہےکیونکہ خداکی عظمت اوربزرگی کے ادراک کا لازمہ غیر خدا کی حقارت اوراسکے بے قیمت ہونے کا ادراک ہےاور جب انسان غیر خدا کو، خواہ وہ کوئی بھی ہو، حقیر اور معمولی سمجھنے لگے تو محال ہے کہ جانتے بوجھتے کسی حقیر کی بندگی کرےحقیر کی بندگی کو انسان غلطِ عظیم سمجھتا ہے۔

 

نماز کے دوسرے اذکار جیسے سبحان اﷲ، الحمد ﷲ، سبحان ربی العظیم و بحمدہ، سبحان ربی الاعلیٰ و بحمدہ اور تشہد وغیرہ، ہر ایک میں ایک رمز اور راز پوشیدہ ہے۔

ایک شخص نے حضرت علی علیہ السلام سے سوال کیا : ہم (نماز کی ہر رکعت میں)دو مرتبہ سجدہ کیوں کرتے ہیں؟ جس طرح ایک مرتبہ رکوع کرتے ہیں اسی طرح ایک مرتبہ سجدہ کر لیں!!؟

البتہ آپ جانتے ہیں کہ سجدے میں، رکوع سے زیادہ خضوع و خشوع اور عاجزی وانکساری کا اظہار پایا جاتا ہےکیونکہ سجدے میں انسان اپنے عزیز ترین عضو (انسان کابلند ترین عضو سر ہے، جس میں انسان کا مغز ہوتا ہے اور سر میں بھی عزیز ترین نقطہ پیشانی ہے) کو عبودیت اوربندگی کے اظہار کے طور پر پست ترین چیز یعنی خاک پر رکھتا ہےاپنی پیشانی خاک پر رگڑتا ہے اور اس طرح اپنے پروردگار کے سامنے اپنے معمولی اورحقیر ہونے کا اظہار کرتا ہے۔

اس شخص نے کہا: ہم نماز کی ہر رکعت میں دو مرتبہ سجدہ کیوں کرتے ہیں، خاک میں کیا خصوصیت پائی جاتی ہے؟

امیر المومنین نے(اسکے جواب میں) یہ آیت پڑھی: مِنْهَا خَلَقْنَا کُمْ وَ فِیْهَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِ جُکُمْ تَارَةً اُخْرٰی (اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں پلٹا کے لے جائیں گے اور پھر دوبارہ اسی سے نکالیں گےسورہ طہ ۲۰آیت ۵۵)اور پھر فرمایا: پہلی مرتبہ سجدے میں سر رکھ کر جب اوپر اٹھاتے ہوتو اسکا مطلب اس بات کا اظہار ہے کہ: مِنْهَا خَلَقْنَاکُمْ (ہم سب خاک سے خلق ہوئے ہیں)، ہمارے اس پورے پیکر کی بنیاد خاک ہے، ہم جو کچھ بھی ہیں وہ اس خاک سے وجود میں آئے ہیںجب دوسری مرتبہ اپنا سر خاک پر رکھتے ہو تو تمہارے ذہن میں یہ ہونا چاہئے کہ ایک دن تمہیں مر کر خاک میں واپس جانا ہےاور جب دوبارہ خاک سے اپنا سر اٹھاتے ہو تو تمہارے ذہن میں ہونا چاہئے کہ ایک مرتبہ پھر اس خاک سے اٹھائے جاؤ گے۔

 

اہل خانہ کے حوالے سے ذمے داری

ایک اور نکتے کا ذکر کر کے اپنے عرائض ختم کروں گا :

میرا دل بہت چاہتا ہے کہ نماز جو دین کا ستون ہے، ہم اسکی اہمیت کو جان لیں، سمجھ لیںسب جانتے ہیں کہ ہم اپنے اہل خانہ کی نماز کے ذمے دار ہیںیعنی اپنے بیوی بچوں کی نماز کے ذمے دار ہیںہم میں سے ہر فرد خود اپنی نماز کا بھی ذمے دار ہے اوراپنے اہل خانہ کی نمازوں کا بھی، یعنی اپنے بیوی بچوں کی نمازوں کا بھی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خطاب کیا گیا ہے: وَاْمُرْ اَهْلَکَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْهَا(۱)اے پیغمبر! اپنے اہل خانہ کو نماز کی تاکید کیجئے اور خود بھی نماز کے بارے میں صابر رہئےیہ (حکم) صرف پیغمبر سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہم سب اس بارے میں ذمے دار ہیں۔

بچوں (کو نماز کا عادی بنانے کے لئے ان) کے ساتھ کیا کرنا چاہئے؟

اس سلسلے میں بچوں کو بچپنے ہی سے نماز کی مشق کرانی چاہئےشریعت کا حکم ہے کہ بچوں کو سات سال کی عمر سے نماز کی مشق کراؤظاہر ہے کہ سات سالہ بچہ صحیح طور سے نماز نہیں پڑھ سکتاالبتہ وہ نماز کی حرکات و سکنات ادا کر سکتا ہے، اسی عمر سے نماز کا عادی ہو سکتا ہے(خواہ لڑکا ہو یالڑکی)یعنی جوں ہی بچہ پرائمری کلاسوں میں آئے تو اسے اسکول میں نماز سکھانی چاہئے۔ گھر میں بھی اسے نماز سکھانا چاہئےالبتہ ایک بات پر توجہ رہے، اور وہ یہ کہ بچے کو بالجبر اور زبردستی نماز سکھانا، اسے اس طرح نماز پر آمادہ کرنا، نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔

--------------

1:-اور اپنے اہل کو نماز کا حکم دیں اور اس پر صبر کریں(سورہ طہ ۲۰آیت ۱۳۲)

 

کوشش کیجئے کہ آپ کے بچے ابتداء ہی سے شوق اور رغبت کے ساتھ نماز پڑھیں آپ ان کے اندر نماز سے لگاؤ پیدا کریں، جس طرح بھی ممکن ہو بچوں کے لئے شوق کے اسباب فراہم کریں تاکہ وہ ذوق و شوق سے نماز پڑھیںاس سلسلے میں ان کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی کیجئے، انہیں انعام دیجئے، ان سے محبت کا اظہار کیجئے، یہاں تک کہ وہ سمجھنے لگیں کہ جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو آپ کے دل میں ان کے لئے محبت بڑھ جاتی ہے۔

مزید یہ کہ بچے کو ایسے ماحول میں لے جایئے جس میں اس کے اندر نماز پڑھنے کا شوق پیدا ہوتجربے سے ثابت ہوا ہے کہ اگر بچہ مسجد نہ جائے، اگر اجتماع میں نہ جائے اور لوگوں کو اجتماعی طور پر نماز پڑھتے نہ دیکھے، تو اس میں نماز کا شوق پیدا نہیں ہوتاکیونکہ درحقیقت اجتماع میں حاضری انسان میں شوق پیدا کرتی ہے۔ بڑی عمر کا انسان بھی جب اپنے آپ کو عبادت گزار لوگوں کے مجمع میں پاتا ہے تو اس میں بھی عبادت کی روح بڑھتی ہے، بچہ تو بڑے کی نسبت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

افسوس کہ مساجد، عبادت گاہوں اور دینی محافل میں ہمارے کم جانے اور بچوں کے بہت کم دینی اجتماعات میں شرکت کرنے کی باعث، ان میں ابتداء ہی سے عبادت کی جانب رغبت پیدا نہیں ہوتییہ رغبت پیدا کرنا آپ کی ذمے داریوں میں سے ہے۔

اسلام جو یہ کہتا ہے کہ اپنے بچوں کو نماز کی تلقین کرو، تو اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ آقاؤں کے سے انداز میں انہیں حکم دیں، ڈرائیں، دھمکائیں، ان کے سر پر سوار ہو جائیںنہیں، بلکہ ہر اس ذریعے سے استفادہ کیجئے جس کے بارے میں آپ سمجھتے ہوں کہ آپ کے بچوں کو نماز کی جانب راغب کرنے اورانہیں اس کاشوق دلانے کے سلسلے میں مفید واقع ہو گا۔

ہمیں اپنے بچوں کے ساتھ مسجد جانے کا اہتمام کرنا چاہئے، تاکہ وہ مساجد اور عبادت گاہوں سے آشنا ہوںخودہم لوگ جو اپنے بچپنے ہی سے مساجد اور معابدسے آشنا تھے، اب آج کے ان حالات میں کس قدر مسجد جاتے ہیں؟ ہمارے بچے سات برس کی عمر سے اسکول جاتے ہیں، اسکول کے بعد کالج اور پھر یونیورسٹی لیکن کبھی انہوں نے مسجد میں قدم نہیں رکھا ہوتا، ایسی صورت میں کیا وہ مسجد جائیں گے؟

 

 جی ہاں ! یہ بچے لازماً مسجد سے دور رہیں گےاس صورتحال میں کیا آپ یہ عذر پیش کر سکتے ہیں کہ مساجد کے حالات اچھے نہیں، یا مثلاً (مذہبی اجتماعات میں) خطیب حضرات نامناسب باتیں کرتے ہیں (اس لئے ہم اپنے بچوں کو ان جگہوں سے دور رکھتے ہیں)ان چیزوں (مسجدوں اور منبروں) کو درست کرنا بھی ہمارا فریضہ ہےفریضہ کسی مقام پرختم نہیں ہوجاتااپنی مساجد کی اصلاح بھی ہماری ذمے داری ہے۔

پس اس بات کو بھی کبھی فراموش نہ کیجئے گاکہ ہم پرخود اپنی نمازکی ادائیگی بھی فرض ہے اور اپنے اہلِ خانہ کو نماز کا عادی بنانا بھی ہمارا فریضہ ہےاس کی صورت یہ ہے کہ ہم ان میں نماز کی جانب رغبت اورلگاؤ پیدا کریں، جس قدر ممکن ہو نماز پڑھنے کے فوائد اور خصوصیات اور نماز کے فلسفے سے اپنے بچوں کو آگاہ کریں۔

قرآنِ کریم کہتاہے کہ جب بعض اہلِ جہنم کو عذاب دیا جا رہا ہو گا تو ان سے پوچھا جائے گا : مَاسَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ (کس چیز نے تمہیں اس جہنم میں پہنچا یا ہے) قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ وَلَمْ نَکُ نُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ (ہم نماز نہیں پڑھتے تھے، مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے) وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآ ءِضِیْنَ (لغو باتوں کی جگہ پر جاتے تھےسورہ مدثر۷۴آیت۴۲تا۴۵) جہاں کہیں بھی دین مخالف باتیں کی جاتی تھیں، وہاں جا کر انہیں سنتے تھے، یا خود ایسی باتیں کرتے تھےاور یہ اسی کا نتیجہ ہے۔

یہاں سے سمجھ لیجئے کہ اسلام میں نماز کو اس قدر اہمیت کیوں حاصل ہے؟ کیوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز اس خیمے کا ستون ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر نماز قائم ہو اور اسکا صحیح صحیح اجرا ہو تو ہر چیز ٹھیک ہو جائے۔

حضرت علی علیہ السلام نے اپنی آخری وصیتوں میں، جنہیں آپ نے بارہا سنا ہو گا اور جو اﷲ اﷲ سے شروع ہو تی ہیں (یہ وصیتیں کر نے کے چند ہی لمحے بعد آپ نے جان، جان آفرین کے سپرد کر دی تھی) انہی وصیتوں میں آپ نے نماز کے بارے میں فرمایا: اﷲَ اﷲَ بِالصَّلاةَ فَاِنهَّا عَمُودُ دینِکُمْ(نماز کے بارے میں اﷲ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہےنہج البلاغہمکتوب ۴۷)

 

روزِ عاشورا کے بارے میں آپ نے سنا ہو گا اورجانتے ہوں گے کہ زیادہ تر شہادتیں ظہر کی نماز کے بعد واقع ہوئیںیعنی ظہر کے وقت تک حضرت امام حسین علیہ السلام کے اکثر اصحاب، تمام بنی ہاشم اور خود امام حسین (جو سب سے آخر میں شہید ہوئے) زندہ تھےظہر سے پہلے امام حسین کے فقط تیس اصحاب دشمن کی طرف سے ہونے والی ایک تیر اندازی میں شہید ہوئے تھے، وگرنہ امام کے لشکر کے باقی دوسرے افرادظہر کے وقت تک بقیدِ حیات تھے۔

اصحابِ امام حسین میں سے ایک شخص کو خیال آیا کہ ظہر کی نماز کی ادائیگی کا اول وقت آ پہنچا ہے۔ وہ امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: یا اباعبداﷲ! نماز کاوقت ہوا چاہتا ہے، ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اقتدا میں آخری نمازِ جماعت ادا کریں، امام نے نظر اٹھا کر(آسمان کی طرف) دیکھا اور نماز کا وقت ہو چکنے کی تصدیق کیکہتے ہیں کہ فرمایا: ذَکَرْتَ الصَّلوٰةَ یا: ذَکَّرْتَ الصَّلوٰةَاگر ”ذَکَرْتَ“ کہا ہو تو معنی ہوں گے کہ تمہیں نماز یاد آئی، اور اگر ”ذَکَّرْتَ“ کہاہو تو معنی کئے جائیں گے کہ تم نے مجھے نماز یاد دلائی ذَکَرْتَ الصَّلوٰهَ جَعَلَک اللّٰهُ مِنْ الْمُصَلِّینَ (تم نے نماز یاد دلائی، خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دے)

تصور کیجئے کہ ایک ایسا شخص جو سر بکف ہے، اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہے، ایسے مجاہد کے بارے میں امام دعا فرمارہے ہیں کہ خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دےدیکھا آپ نے حقیقی نماز گزار کتنا عظیم مقام رکھتا ہے۔

فرمایا: ہاں، ہم نماز پڑھیں گے، اسی جگہ میدان جنگ میں نماز پڑھیں گے۔

اس موقع پر ایسی نماز پڑھی گئی جسے فقہ میں ”نمازِ خوف“ کہا جاتا ہےنمازِ خوف، مسافر کی نماز کی مانند چار رکعت کی بجائے دو رکعت ہوتی ہےیعنی انسان اگر اپنے وطن میں بھی ہو تو اسے دورکعت ہی پڑھنا چاہئےکیونکہ حالات سازگار نہیں لہٰذا یہاں مختصر نماز پڑھنی چاہئے، اس لئے کہ تمام افراد کے نماز میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے دفاع کی صورتحال خراب ہو جائے گیسپاہیوں کا فرض ہے کہ اس نماز کے دوران آدھے سپاہی دشمن کا مقابلہ کریں

 

 اور آدھے امام جماعت کی اقتداء میں نماز پڑھیںامام جماعت ایک رکعت پڑھنے کے بعدٹھہرتا ہے تاکہ مقتدی اپنی دوسری رکعت پڑھ لیںاسکے بعد وہ جا کے اپنے دوسرے ساتھیوں کی جگہ لے لیتے ہیںجبکہ امام اسی طرح بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر ان کا انتظار کرتا ہےپھر دوسرے سپاہی آتے ہیں اور امام کی دوسری رکعت کے ساتھ نمازاداکرتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے اسی طرح نمازِ خوف ادا کیلیکن امام کو ایک خاص صورتحال در پیش تھیکیونکہ آپ دشمن سے زیادہ فاصلے پر نہ تھےلہٰذا آپ کی حفاظت کرنے والا گروہ آپ کے بالکل سامنے کھڑا ہوا تھا، جبکہ بے حیا اور بے شرم دشمن نے انہیں نماز تک سکون سے نہ پڑھنے دیآپ نماز میں مشغول تھے کہ دشمن نے تیر اندازی شروع کر دی، آپ پردو قسم کی تیر اندازی کی گئی، ان میں سے ایک زبان کی تیر اندازی تھیدشمن کے ایک سپاہی نے چیخ کر کہا: حسین ! نماز نہ پڑھو، تمہاری نماز کا کوئی فائدہ نہیں، تم اپنے زمانے کے امام (یزید) کے باغی ہو، لہٰذا تمہاری نماز قبول نہ ہو گی(نعوذ باللہ)جبکہ دوسری تیر اندازی معمول کے مطابق کمانوں سے پھینکے جانے والے تیروں کی تھیامام حسین کے وہ ساتھی جنہوں نے اپنے آپ کو امام کی ڈھال بنایا ہوا تھا ان میں سے ایک دو اصحاب (تیر لگنے کی وجہ سے) خاک پر گر پڑےان میں سے ایک سعید بن عبداﷲ حنفی اس وقت گرے جب امام حسین اپنی نماز تمام کر چکے تھےوہ جانکنی کے عالم میں تھے کہ امام ان کے سرہانے پہنچےانہوں نے امام کو اپنے سرہانے دیکھ کر ایک عجیب جملہ کہا، عرض کیا: یا اباعبدا اﷲ ! اوفیت (اے اباعبداﷲ! کیا میں نے وفاکی؟ ) یعنی، اب اس حال میں بھی ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ امام حسین کا حق اس قدر بلند وبالا ہے کہ اس کی ادائیگی کے لئے ایسی گرانقدرفدا کاری بھی شاید کافی نہ ہو۔

صحرائے کربلا میں ابو عبداﷲ الحسین علیہ السلام نے اس انداز سے نماز ادا کی۔

ابا عبداﷲ نے اس نمازمیں تکبیر کہی، ذکر کیا، سبحان اﷲ کہا، بحول اﷲ وقوتہ اقوم واقعد کہا، رکوع و سجود کئےاس نماز کے دو تین گھنٹے بعد امام حسین کے لئے ایک دوسری نماز پیش آئی، دوسرا رکوع پیش آیا، دوسرے سجود پیش آئےایک دوسرے انداز سے آپ نے ذکر کیاآپ کا رکوع اس وقت ہوا جب ایک تیر آپ کے مقدس سینے میں اترا اور آپ اسے اپنی پشت کی طرف سے نکالنے پر مجبور ہوئے۔

 

کیا آپ کوپتا ہے کہ اباعبداﷲ کے سجود کی کیا صورت تھی؟ آپ نے پیشانی پر سجدے نہیں کئے، کیونکہ آپ بے بس ہو کر گھوڑے سے زمین پر گرے تھے، لہٰذاآپ نے اپنا داہنا رخسار کربلا کی گرم ریت پر رکھا۔

اس موقع پر اباعبداﷲ کا ذکر تھا:

بِسْمِ اﷲِ وَبِاﷲِ وَ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُولِ اﷲِ، وَلاحَوْلَ وَلاَ قُوَّهَ اِلاَّ بِاﷲِ الْعلِی الْعَظِیمِ وَصَلَّی اﷲَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطّاهِرینَ

بِسِمِکَ الْعَظِیمِ الْاعْظَمِ

خدایا ! ہماری عاقبت خیر فرما، ہم سب کو اپنی عبادت، عبودیت اور بندگی کی توفیق کرامت فرما۔

خدایا ! ہمیں حقیقی نماز گزاروں میں سے قرار دے، ہم سب کی نیتوں کو خالص کر دےہمیں شیاطینِ جن و انس کے شر سے محفوظ فرما۔

خدایا ! ہم سب کے مرحومین کی مغفرت فرما۔

رَحِمَ اﷲُ مَنْ قَرَأ اْلفاتِحَة مَعَ الصَّلَوات

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

با تشکر  از  سایت  الحسنین

Comments powered by CComment