صراط مستقم قرآن کی روشنی میں

مختلف کتب عقاید
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

مصنّف:آیۃ اللہ کریمی جہرمی

مترجم:سیّد حیدر علی زیدی مظفر نگری

 

ہدیہ           

                خود تجسس میں چلی آتی صراط مستقیم

                گر سمجھ لیتا زمانہ کاش کیا ہیں فاطمہ سلام اللہ علیہا

میں اپنی اس ناچیز کوشش کو ہدیہ کرتا ہوں مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام اور بنت پیغمبرﷺ حضرت فاطمہ زہرا صلواۃ اللہ علیہا کی خدمت میں کہ جنہوں نے نہ صرف محافظ اسلام و انسانیت  بلکہ صراط مستقیم کے حقیقی مصداق بچے اس دنیا کہ حوالہ کئے ۔اور کربلا کے ان تمام والدین کے نام کہ جنہوں نے ایسے بچے پال کر اس دنیا کو دے دیئے کہ جوامام برحق کے حکم سے اسلام اور انسانیت کو بچانے کیلئے صراط مستقیم پر  قربان ہو گئے اور  آج تک حق و باطل کے درمیان حد فاصل کا کام کر رہے ہیں ۔

اس التجا کے ساتھ کہ خدا وند عالم ان تمام والدین اور شہداء کے صدقہ میں اس زمانہ کے تمام والدین کو اپنے بچوں کی ایسی ہی تربیّت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم کو صراط مستقیم پر چلنے اور اپنے والدین کیلئے باعث عزت و سربلندی بننےکی توفیق عطا فرمائے۔

آمین یا ربّ العالمین

 

انتساب

 

میں اپنی اس ناچیز کوشش کو اپنے مرحوم والدین سید اشفاق حسین زیدی  مرحوم ابن سید ذوالفقار حسین زیدی مرحوم اور سیدہ سردار فاطمہ زیدی مرحومہ بنت سید حامد حسین زیدی مرحوم اور برادر بزرگ سید محمد وصی مرحوم کے نام کرتا ہوں ۔

    جن کی دعائیں آج بھی میرے لئے سپر کا کام کر رہی اور جنکی ربوبیّت و شفقت آج بھی میرے لئے سائبان بنی ہوئی ہیں۔اور جن کی پاک پاکیزہ تربیت نے مجھکو محب اہلبیت علیہم السلام اور صراط مستقیم پر چلنے کے لائق اور قم جیسی مقدس سرزمین پر علوم آل محمد ﷺحاصل کرنے کا اہل بنایا ۔

 

مقدمہ

قرٓن مجید میں کثرت سے استعمال ہونے والے الفاظ میں سے  ایک  صراط مستقیم  ہے۔ اور اس  کا قرآن مجید میں کثرت سے استمال ہونا ایک خاص اہمیت کی جانب اشارہ  کرتا ہے ۔

قرآنمجید میں صراط مستقیم کبھی سیدھے راستہ  کی ہدایت کی دعا، کبھی  اہم ترین سنگر {کہ جسکو شیطان منہدم کرنے کی تاک میں بیٹھا ہوا ہے } کے معنی میں استعمال ہواہے۔اور بعض مقامات پر قرآن مجید  میں صراط مستقیم کے ارکان اور مصادیق کو  بیان کیا گیا ہے  ۔جیسا کہ بعض ایسے لوگوں کے اسماء کا تذکرہ  کیا گیاہےکہ جن کی، اپنی لطف و مہر بانی سے،صراط مستقیم کی جانب ہدایت کی ہے ۔

اسی وجہ سے ہرسلیم الطبع اور پاک  و پاکیزہ فطرت رکھنے والاانسان صراط مسقیما پر رہنا پسند کرتا ہے ۔اس کے تذکرہ سے لطف اندوز اور اس راہ سے بھٹکنے پر اپنی ناراضگی اور پریشانی کا اظہار کرتا ہے اور اس گمراہی کو   اپنے لئے   ننگ و عار سمجھتا ہے ۔حقیقت میں اگر انسان  کبھی بھی اس راہ سے منراف ہواہوگا،  تو  وہ اپنے گذرے ہوئے کل کو یاد کرکے  بہت  نادم وپشیمان ہوگا ۔اور شاید جب تک وہ زندہ رہے گا گزرے دنوں کی یادیں اسکو  غمگین وپریشان کرتی رہیں گی ۔کہ اے کاش :میری زندگی میں اس طرح کے حالات  پیدا نہ ہوئے ہوتےاور میں اس راہ پر نہ چلا ہوتا اور ان برائیوں میں ملوّث اور غلط کام انجام نہ دئے ہوتے ۔

یہ دونوں باتیں اس بات کا تقاضہ کرتی ہیں کہ تمام  ادیان کے ماننے والےبالخصوص اسلام کے پیروکار صراط مستقیم کے متعلّق دقیق و عمیق مطالعہ کریں  اور مفہوم و مصداق کے اعتبار سے اس کی تحقیق کریں ۔بعض  اوقات  یہ کام ضروری اور مفید کاموں میں شمارہوتا ہے۔

 

بیشک:قرآن کریم کے واضح ، زندہ ترین اورحیات بخش الفاظ میں سے ایک  صراط مستقیم بھی  ہے۔

صراط مستقیم ،ہر روشن ضمیر انسان کی آواز ہے ۔

صراط مستقیم ،ہر بیدار ضمیر اور حساس آدمی کا  کھویا ہوا سرمایہ ہے ۔

صراط مستقیم ، ہر روشن ضمیر مسلمان کی دلی خواہش اور آرزو ہے ۔

صراط مستقیم ،وہ ریسمان ہے کہ جس سے کروڑوںمسلمان  صبح و شام متمسک ہوتےاور خداوند عالم سے اس راستہ  کی درخواست کرتے ہیں ۔

صراط مستقیم ،وہ آرزو ہے جس کا مطالبہ { مادی ہویا  معنوی }خدا وند عالم کی بارگاہ میں سب سے زیادہ  کیا جاتا ہے صراط مستقیم ،تمام خوبیوں، اچھائیوں اور انسانی کمالات و ہدایت کا نچوڑ ہے ۔

صراط مستقیم ،ایک ایسا گران بہاموتی ہے کہ جس کو  انسانیت کے دشمن ، شیطان نے اپنا ہدف قرار دیا اوراعلان کیا کہ:

( لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقيمَ ) (16)(1)

میں تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھ جائوں گا ۔اور تمام انسانوں کو  بہکا ئوں گا۔

شیطان کی حساسیّت صراط مستقیم سے ہے اور  وہ کوشش کرتا ہے کہ کسی بھی طرح بندگان خدا کو  اس راستے سے منحرف کردے ۔اس کتاب کے مباحث صراط مستقیم سے متعلّق ہیں اور اس آسمانی لفظ کے مختلف پہلووں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔

یہ کتاب ماہ رجب المرجب ۱۴۲۴ ھ  میں لکھی گئی  اور اب اسکو کئی سالوں کے بعدنظر ثانی کرکے  قارئین محترم کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

--------------

(1):- سورہ اعراف ،آیت

 

اور مجھے امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے ہماری زندگی پر  ایک خاص اثر مترتب ہوگا اور قرآن کریم کی جانب  ایک نیاباب کھلے گا ۔اورہم ایک نئے زاویہ سےاس آسمانی کتاب کے بلند و بالا مفاہیم اور معارف الٰہی  سے آشنا  ہوں گے، ہم صراط مستقیم کے متعلّق  قرآن کریم کے واضح بیانات  کو دیکھیں گے ۔کہ کبھی انسان  گمراہی اور دوزخ کے راستہ کو  صراط مستقیم اور سیدھے راستہ کی شکل میں دیکھتا ہے یا یہ کہ شیطان اور اسکے عوامل اس طرح لوگوں کیلئے  اسکی جلوہ نمائی کرتے ہیں ۔

بہر حال ہم صراط مستقیم کے متعلّق قرآن مجید کے واضح اور روشن بیان کو مد نظر رکھ کر اور مصمّم ارادہ کے ساتھ اس راہ کی جانب حرکت کریں اور اِدھر اُدھرنہ بھٹکیں ۔  اورنتیجہ میں ابدی سعادت اور کمال انسانی تک پہونچ جائیں اور  خدا وند عالم کی رحمت  ورضا کو حاصل کر لیں ۔

والحمد لله اولا و آخرا و صلی الله علی محمد و آله الطاهرین 

فروردین/ ۱۳۸۵

مطابق : ربیع الاول/ ۱۴۲۷

حوزہ علمیہ ،قم

علی کریمی جھرمی

 

صراط مستقیم کی برتری وجدانی ہے

سلیم الطبع اور صحیح فطرت کا مالک انسان اس بات کا بہترین گواہ ہے کہ صراط مستقیم کو دوسری راہوں سے مقایسہ نہیں کیا جا سکتا ، یہ راہ ،انسان کی نجات اور سعادت کی راہ ہے اور اسکے علاوہ جو کچھ بھی ہے اسکی ہلاکت اور انحطاط کا راستہ ہے قرآن کریم ضمیر کی یقینی آواز کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔

(وَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى‏ شَيْ‏ءٍ وَ هُوَ كَلٌّ عَلى‏ مَوْلاهُ أَيْنَما يُوَجِّهْهُ لا يَأْتِ بِخَيْرٍ هَلْ يَسْتَوي هُوَ وَ مَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ هُوَ عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(76) (1)

اور اللہ نے ایک مثال ان دو انسانوں کی بیان کی ہے ۔جن میں سے ایک گونگا ہے اور اس کے بس میں کچھ نہیں ہے ۔ بلکہ وہ خود اپنے مولا کے سر پر بوجھ ہے کہ جس طرف بھی بھیج دے کوئی خیر لیکر نہیں آئیگا ۔ تو کیا اس کے برابر ہو سکتا ہے جو عدل کا حکم دیتا ہے اور سیدھے راستہ پر گامزن ہے۔

(أَ فَمَنْ يَمْشي‏ مُكِبًّا عَلى‏ وَجْهِهِ أَهْدى‏ أَمَّنْ يَمْشي‏ سَوِيًّا عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(22) (2)

کیا وہ شخص جو منھ کے بل چلتا ہے وہ زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا جو سیدھے سیدھے صراط مستقیم پر چل رہا ہے ،

        آپ نے غور کیا کہ دونوں مقامات پر مطلب کو استفہام کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔اگرچہ اسکا استفہام انکاری صورت میں ہے ،ہر حال میں اس بیان کو خبر کی صورت میں بیان نہیں کیا گیا ہے ۔گویا فیصلہ کو پاک فطرت اور وجدان سلیم رکھنے والے اور بیدار مخاطبین کے حوالہ کر دیا گیا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ نحل آیۃ ۷۶:

(2):-سورہ ملک آیۃ ۲۲

 

بیشک قرآن کریم کتاب فطرت ،کتاب دل، پاک و کاکیزہ ضمیر اورکتاب سلیم الطبع ہے۔ اور ہر وہ چیز کہ جوپاک سرشت انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں پنہاں و پوشیدہ ہے (یعنی وہ انسان کہ جو خواب غفلت میں نہیں پڑے ہوئے ہیں )کو بیان کرتا ہے  وجدان اور فطرت سالم اور ان کی خدا جوئی سے ہم آواز اور ھماھنگ ہے ۔اور کون سا روشن ضمیر اور حقیقت شناس انسان ہے کہ جو ایک گمراہ انسان کو ہدایت یافتہ اور با بصیرت انسان کی مانند قرار دے۔اور دونوں کو ایک دوسرے کے برابر و مساوی سمجھے؟

نہیں ؛ ہر گز وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔کیونکہ ان میں ایک باطل پر گامزن ہے اور نہ جانتے ہوئے بھی اسی پر آگے بڑھا چلا جا رہا ہے ۔اور دوسرا وہ ہے کہ جوحق اور انسانیت کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے ۔یعنی پہلاانسان ظلمت وگمراہی میں پڑا ہوا ہے اور دوسرا نور و ہدایت میں غرق، اور اطمینان و سکون اور کھلے ذہن کےساتھ اپنی نورانی ہدایت کو آگے بڑھاتا ہے ۔لہٰذا یہ دونوں ایک دوسرے کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں ؟

صراط مستقیم کا آغاز کرنے والے

        صراط مستقیم اس سے پہلے کہ راہ کے خواہاں ،پاک و پاکیزہ اورخود یافتہ انسانوں کی راہ ہو۔خدا وند عالم ،افضل المرسلین  ﷺاور اولیاء الہی کی راہ ہے۔ قرآن کریم اس گفتگو کے ضمن میں (کہ جو حضرت ہودعلیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان ہوئی )ارشاد فرماتا ہے ، حضرت ہود  علیہ السلامنے ان سے کہا ۔

(إِنِّي تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ رَبِّي وَ رَبِّكُمْ ما مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِناصِيَتِها إِنَّ رَبِّي عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(56) (1)

میرا اعتماد پروردگار پر ہے جو میرا اور تمہارا سب کا خدا ہے اور کوئی زمین پر چلنے والا ایسا نہیں ہے جسکی پیشانی اسکے قبضہ میں نہ ہو ۔میرے پروردگار کا راستہ بالکل سیدھا ہے ،

--------------

(1):- سورہ ھود اآیۃ ۵۶

 

بیشک حضرت ہود علیہ السلام نے اپنے پروردگار کی کہ جوتمام عالمین کا پالنے والا ہے ؛ اسطرح تعریف کرتے ہیں کہ میرا پروردگار صراط مستقیم پر ہے یعنی اسکی راہ میں اور اسکے لئے کجی اور انحراف و لغزش نہیں ہے ۔اسی بنیاد پر آنحضرت  ﷺنے اپنے کاموں کو خدا کے سپرد کر دیااور اس پر توکل و اعتماد کرتے ہیں ۔ اور لوگوں کے درمیان معارف الٰہی کی تبلیغ و ترویج کیلئے کوشش کرتے ہیں اور اسی وجہ سے خدا وند متعال ہی موجودات اور کل کائنات کا حاکم علٰی الاطلاق ہو سکتا ہے کہ جو تمام چیزوں کے امور کو بہترین شکل میں چلا سکے۔قرآن کریم کے بیان کے مطابق پیمبرں اسلام ﷺصراط مستقیم پر ہیں ۔خدا وند عالم ان کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے (يس (1)وَ الْقُرْآنِ الْحَكيمِ (2)إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلينَ (3)عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(4) (1)

یسین  [ای پیغمبر ] قرآن حکیم کی قسم ۔: آپ مرسلین میں سے ہیں اور صراط مستقیم پر ثابت اور استوار ہے ۔

چنانچہ آنحضرت(ص)کے دوسرے افتخار آمیز خطاب میں ارشاد فرماتا ہے(فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذي أُوحِيَ إِلَيْكَ إِنَّكَ عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(43) (2)

لہذا آپ حکم کو مضبوطی سے پکڑے رہیں کہ جسکی وحی کی گئی ہے [قرآن کریم] کہ یقینا آپ بالکل سیدھے راستہ پر ہیں ۔

یہ افتخار صرف اس انسان کیلئے ہے کہ جو صراط مستقیم اور بالکل سیدھے راستہ پر ہو۔اور جس نے انحراف اور لغزش کے راستے پر قدم بھی نہ رکھا ہو ۔اور خطرناک اور حیرت آور راستوں کے بارے میں سوچا بھی نہ ہو ۔وہ افراد کہ جنہوں نے صراط مستقیم پر قدم رکھا اور اسی راہ پر گامزن ہیں تو انہوں نے راہخدا کو انتخاب کیا اور پیمبر  اسلام ﷺ کی راہ کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔اور ان کی یہ حرکت خدا و رسولﷺکی جانب اور اور ان کی راہ پر گامزن  ہے ۔

--------------

(1):- سورہ یس آیۃ ۱،۲،۳،۴

(2):- سورہ زخرف ۴۳

 

صراط مستقیم کی جانب ہدایت کرنے والے

        انسان اپنی پاکیزہ فطرت کی بنیاد پر صراط مستقیم کی تلاش میں اور اسکا خواہاں ہوتا ہے۔ لیکن اس کیمیائے سعادت تک پہونچنا بہت مشکل ہے۔ اسلئے کہ خطا کا امکان پایا جاتا ہے ۔اور غلط راہ اسکی نظر میں صراط مستقیم کی حیثیت سے جلوہ گر ہو سکتی ہے ۔اسی بنیاد پر وہ ہادی اور راہنما کا محتاج ہے ۔اور پہلے مرحلہ میں  اس طرح کی ہدایت کرنے والا خدا وند عالم اور اسکے پیمبرا ہیں ۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ۔

(وَ إِنَّ اللَّهَ لَهادِ الَّذينَ آمَنُوا إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (54) (1)

اور یقینا اللہ ایمان لانے والوں کو سیدھے راستہ کی طرف ہدایت کرنے والا ہے ۔

یہ آیت صریحی طور پر بیان کرتی ہے کہصراط مستقیم کی جانب انسانوں کی ہدایت کی ذمہ داری خدا وند عالم کی ذات پر ہے ۔

لیکن یہاں پر صاحبان ایمان کیلئے صراط مستقیم کی جانب الٰہی ہدایت کو انہیں کا  خاصہ قرار دیا گیا ہے ۔اور اسکی دلیل شاید ان چیزوں میں سے کوئی ایک ہو۔

(1) وہ افراد کہ جو ہدایت الٰہی سے بہرہ مند ہیں ،وہ مومنین ہیں کہ جو صراط مستقیم کی جانب ہدایت خدا وندی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور خدا وند عالم کی اس عظیم عطا کی مٹھاس کو محسوس کرتے ہیں ۔

(2) اہل ایمان اگرچہ ہدایت یافتہ ہیں لیکنصراط مستقیم  کی جانب ہدایت کرنے کے مختلف مراتب ہیں ۔اور خدا وند عالم اپنے خاص لطف کے ذریعہ ابتدا سے آخری مرحلہ تک عروج عطا کرتا ہے ۔ اور اس طرح ہمیشہ صراط مستقیم  کی جانب انوار الٰہی سے استفادہ کرتے ہیں اور زیادہ ترقی حاصل کرتے ہیں ۔

--------------

(1):- سورہ حج آیۃ ۵۴

 

اور قرآن کریم میں بھی ارشاد ہوتا ہے ۔

(وَ إِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(73) (1)

اور آپ انہیں سیدھے راستہ کی دعوت دینے والے ہیں۔

بیشک پیمبری اسلامﷺکہ جو رحمت اور لطف الٰہی کا عظیم الشان مظہر ہیں لوگوں کو صراط مستقیم کی جانب دعوت دیتے ہیں اور اسکی جانب ان کو لے جاتے ہیں ۔

خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے ۔

(وَ إِنَّكَ لَتَهْدي إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ (52)صِراطِ اللَّهِ الَّذي لَهُ مافِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ أَلا إِلَى اللَّهِ تَصيرُ الْأُمُورُ) (53) (2)

اور بیشک آپ لوگوں کو راستہ کی طرف ہدایت کر رہے ہیں[۵۲]اس خدا کا راستہ جسکے اختیار میں زمین و آسمان کی تمام چیزیں ہیں ۔

اگر پہلے والی آیت میں کلمہ(دعوت) استعمال کیا گیا تھا تو اس آیت میں لفظ اور عنوان دونوں ہی (ہدایت) کو قرار دیا گیا ہے ۔ اگرچہ پیمبر  اسلامﷺکی دعوت بھی اسکی ہدایت ہی ہے اور لوگوں کوصراط مستقیم کی جانب بلانا گویا ان کو اس راہ کی جانب ہدایت کرنا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ مومنون آیۃ ۷۳

(2):- سورہ شوری آیۃ ۵۲،۵۳

 

صراط مستقیم کی جانب ہدایت کرنے کے لایق افراد

        اگرچہ خدا وند عالم کی جانب سےلوگوں کی طرف اسکا فیض جاری و ساری ہے ۔ اور صراط مستقیم کی جانب ہدایت منقطع نہیں ہوتی ہے ۔لیکن اس کے درمیان لوگوں کی قابلیب (قبول کرنے کی صلاحیّت) کی بھی شرط ہے اور اگر محل ہدایت (انسان کا دل)قابل(قبول کرنے کی صلاحیت ) نہ رکھتا ہوگا تو طبعی طور پر صراط مستقیم کی جانب ہدایت حاصل  نہیں کر سکتے ہیں اسکی وضاحت کیلئےان آیات پر غور و فکر کریں۔

( قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(142) (1)

اے پیغمبر آپ کہدیجئے کہ مشرق و مغرب خدا کے ہیں وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کیہدایت دیتا ہے ۔

( وَ اللَّهُ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(213) (2)

اور وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کر دیتا ہے ۔

( مَنْ يَشَأِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَ مَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (39) (3)

اور خدا جسے چاہتا ہے یونہی گمراہی میں رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے صراط مستقیم پر لگا دیتا ہے ۔

(وَ اللَّهُ يَدْعُوا إِلى‏ دارِ السَّلامِ وَ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (25) (4)

اللہ ہر ایک کو سلامتی کے گھر کی طرف دعوت دیتاہے اور جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت دے دیتا ہے۔

--------------

(1):- سورہ بقرہ، آیہ ۱۴۲

(2):- سورہ بقرہ،آیہ ۲۱۳

(3):- سورہ انعام ،آیہ،۳۹

(4):- سورہ یونس ،آیہ ،۲۵

 

 (وَ اللَّهُ يَهْدي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (46) (1)

اور اللہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت دے دیتا ہے ۔

اب قابل غوربات یہ ہے کہ خدا وندمتعال جن افراد کو ہدایت دینا چاہتا ہے وہ افراد شائتہ ہدایت  ہوتے ہیں ۔اور خود چاہتے ہیں کہ صراط مستقیم پر چلیں اور راہنمائی حاصل کریں۔انہوں نے ہدایت کی متلاشی  فطرت کو ظالموں کے ہاتھوں فروخت کرکے خاموش نہیں کر دیا ہے ۔اور انہیں کے مقابل میںوہ افرادبھی ہیں کہ جنہوں نے اپنے ضمیر اور وجدان کو پامال کر دیا ہے ۔اور اپنے کانوں میں انگلیاں دے دی ہیں ۔تاکہ حق کی آواز کو نہ سنیں ۔اور حق و حقیقت سے رو گردانی کریں ۔ انکی آخری آرزو حیوانی غرائز کی تسکین ہے۔اوروہ اسکے علاوہ کچھ بھی نہیں سوچتے ہیں ۔خدا وند عالم اس طرح کے انسانوں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔ اور ان کو گرااہی میں ہی چھوڑ دیتا ہے ۔اور یہ بالکل اسی طرح صحیح ہے جیسے ایک کھیل کود میں زندگی بسر کرنے والا اور درس نہ پڑھنے والا طالب علم بالکل اسی بیکار طالب علم کی مانند کہ جس کو نہ پڑھنے اور درس کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے مدرسہ اور اسکول سے نکال دیا گیا ہو ۔ اور امتحان سے محروم کر دیا گیا ہو ۔ یہ کام اس سے بغض و عناد کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اسلئے ہے کہ اسنے اپنی طاقت و قوت اور صلاحیت کو کاہلی اور تباہکاری میں خرچ کر دیا ہے ۔طالب علموں اور اساتذہ کی نصیحتوں اور ہمدردیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ہے بلکہ ان کی مخالفت کو اپنا شعار بنا لیا ہے ۔ اس حقیقت کو نہ تنہا ان آیات سے جو بندوں کے تئیں ظلم کی نفی کرتی ہیں سمجھا جا سکتا ہے ۔بلکہ بہت سی آیات میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔اور خدا وند متعال بطور نمونہ ارشاد فرماتا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ نور ،آیہ ، ۴۶

 

(قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَ كِتابٌ مُبينٌ (15)يَهْدي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَ يَهْديهِمْ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(16) (1)

تمہارے پاس خدا کی طرف نور اور کتاب آچکی ہے [۱۵] جسکے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے ہدایت کرتا ہے اور انہیں تارکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے [۱۶]

توجہ کریں کہ خدا فرماتا ہے

(يَهْدي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ ) (2)

یعنی خدا وند عالم قرآن کی برکت اور اسکی روشنی میں ان لوگوں کی ہدایت کرتا ہے کہ جو رضوان الٰہی کی پیروی کرتے ہیں اور خدا وند متعال کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے در پے ہوتے ہیں ۔

        اگر اس آیئہ کریمہ کو پہلے والی آیتوں کے ساتھ ملائیں تو اس نتیجہ پر پہونچے گے کہ خداوند متعال جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی جانب ہدایتکردیتا ہے ۔اور یہ وہ افراد ہوتے ہیں۔ جورضائے خداوندی اور ذات لایزال کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔

1سی بنا پر ہوا و ہوس اور خواہشات کے پجاری کہ جنکی آرزو و حسرت خواہشات نفسانی کے حصول میں سمٹی ہوئی ہے اور وہ عناصر کہ جو حق اور خدا کے مخالف ہیں ہدایت الہی کے لیے شائستہ وہ لائق نہیں ہو سکتے ۔

دوسرے مقام پر خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے

--------------

(1):- سورہ مائدہ ، آیہ، ۱۶،۱۵

(2):-سورہ مائدہ، آیہ ،۱۶

 

(وَ لَوْ أَنَّا كَتَبْنا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِيارِكُمْ ما فَعَلُوهُ إِلاَّ قَليلٌ مِنْهُمْ وَ لَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا ما يُوعَظُونَ بِهِ لَكانَخَيْراً لَهُمْ وَ أَشَدَّ تَثْبيتاً (66)وَ إِذاً لَآتَيْناهُمْ مِنْ لَدُنَّا أَجْراً عَظيماً)(67) (1)

حالانکہ اگر یہ اس نصیحت پر عمل کرتے تو انکے حق میں بہتر ہوتا  اور انکو زیادہ  ثبات حاصل ہوتا اور ہم انہیں اپنی طرف سے اجر عظیم عطا کرتے  اور انہیں سیدھے راستے کی ہدایت بھی کردیتے ۔

  اس مقام ایمان اور کتاب آسمانی سے تمسک کو ہدایت کا مقدمہ قرار دیا گیا ہے ۔کتاب خدا کو مضبوطی سے تھامنا ہدایت کاسبب ہے اسی بنیاد پر اگر کسی نے کتاب خدا کو پس پشت ڈال دیا تو وہ ہر گز ھدایت الہی کے لائق نہیں ہے  ۔

 

صراط مستقیم کیلئے مشکلات

اس کائنات میںپائی جانے والی ہرچیزکے لئے کوئی نہ کوئی مشکل ہوتی ہے ۔بلکہ جتنی وہ فائدہ مند،قمیتی اور مئوثر  ہو۔ اسکیمشکلات اتنی ہی عظیم اور خترناک ہوتی ہیں۔لیکن کیا کوئی چیز صراط مستقیم سے زیادہ فائدہ مند اور قیمتی ہے ۔

ہر گز نہیں ؛ اسی بنیاد پر اسکی راہ میں مشکلات ہیں بلکہ اسکی مشکلات عظیم اور اعلیٰ درجہ کی خطرناک اور متحرک ہیں ۔اور اتنی آسانی سے دور ہونے والی نہیں ہیں ۔

صراط مستقیم کی رکاوٹ اور اسکی مشکل قرآن کریم کے بیان کے مطابق شیطان ہے کہ جو فعّال ،نہ تھکنے والا عامل اور تمام انسانیت کا دشمن ہے ۔اور ایک قسم خوردہ اور با ارادہ دشمن ہے کہ جس نے یہ ارادہ کر رکھا ہے کہ ہر صورت میں انسان کی راہ میں بیٹھ جائیگا اور اس کو صراط مستقیم پر چلنے سے روکے گا ۔   قرآن کریم نے اس مقام پر کہ جہان خدا اور شیطان کے درمیان گفتگو ہوئی ہے ارشاد فرماتا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ نساء ،آیہ، ۶۸،۶۷،۶۸

 

(قالَ فَبِما أَغْوَيْتَني‏ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقيمَ (16)ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْديهِمْ وَ مِنْ خَلْفِهِمْ وَ عَنْ أَيْمانِهِمْ وَ عَنْ شَمائِلِهِمْ وَ لا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شاكِرينَ) (17) (1)

اس نے کہا کہ پس جس طرح تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھ جائونگا [۱۶] اسکے بعد سامنے پیچھے اور داہنے اور بائیں سے آئو نگا اور تو اکثریت کو شکر گذار نہ پائیگا ہے ۔

بیشک شیطان نے وعدہ کیا ہے کہ اور یہ دھمکی دی ہے کہ بندگان خدا کی راہ پر بیٹھ جائیگا ۔اور ان کو صراط مستقیم ،ہدایت پانے اور اس راہ پر چلنے سے روکے گا اوروہ صاف صاف کہتا ہے کہ ہر سمت اور ہر جانب سے انکو بہکانے آئونگا اور اوپر ،نیچے اور داہنے ،بائیں میں کوئی فرق نہیں کرتا ہے ۔

اور اس سے مراد یہ ہے کہ ہر جہت سے جیسے بھی ممکن ہوگا انکو صراط مستقیم سے دور رکھے گا اورہر طریقے سے انکو گمراہ کریگا ۔

     لیکن لوگوں کی زندگی ایک جیسی نہیں ہے بلکہ ان کی سطح فکر اور ثقافت مختلف ہوتی ہے۔ اور ہر ایک کے امکانات ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ۔لہٰذا ان جھات و ابعاد کے اعتبار سے ہر ایک کے انحراف کیلئے مخصوص راہ کو اپناتا ہے۔ علماء کا شیطان عالم شیاطین ہیں  وہ جو ان کو ایک راہ کے ذریعہ اور بوڑھوں کو دوسری راہ کے ذریعہ اپنا اسیر بناتا ہے ۔ اور صاحبان دولت و حشمت کو مال و دالت کے ذریعہ سے اور فقیر و غریب کو فقر و تنگدستی کے ذریعہ سے بہکاتا ہے ۔ اور ان وسیلوں کے ذریعہ ان لوگوں کو صراط مستقیم ، تقوا اور ایمان سے دور کرتا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ اعراف ، ۱۷،۱۶

 

صراط مستقیم کی ہدایت پانے والے

        اس حصہ میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہدایت یافتہ اور صراط مستقیم پر چلنے والے گروہ کو پہچانیں ۔تاکہ انکو اپنے لئے نمونئہ عمل اور آئیڈیل قرار دیں اور مطمئن ہو جائیں کہ ہم صراط مستقیم پر گامزن ہیں ۔

     جسوقت خدا وند عالم حضرت ابراہیم علیہ السلامکی خلت اور انکی شان و رفعت کے متعلق گفتگو کرتا ہے ۔اور انکے بیٹوں اور انکی ہدایت کے متعلق اشارہ کرتا ہے ۔مثلا نوح  علیہ السلام اور انکی ہدایت کو بیان کیا ہے ۔اور ان کی بعض ذریت مثلا حضرت دائود ، سلیمان،ایوب  ، یوسف  ، موسیٰ  ، ھارون  ،زکریا ، یحیٰی  ،عیسیٰ ، الیاس  ، اسماعیل  ، الیسع ، یونس   اور لوط   علیہم السلام کو شمار کرتا ہے اور انکے لئے فضائل اور امتیازات کو ذکر کرتا ہےاور اسکے بعدارشاد فرماتا ہے۔

(وَ مِنْ آبائِهِمْ وَ ذُرِّيَّاتِهِمْ وَ إِخْوانِهِمْ وَ اجْتَبَيْناهُمْ وَ هَدَيْناهُمْ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(1)

اور پھر باپ ،دادا، اولاد اور برادری میں اور خود انہیں بھی منتخب کیا اور سب کو سیدھے راستہ کی ہدایت کر دی ۔

چناچہ یہ بات واضح اور آشکار ہے کہ صراط مستقیم کے ہدایت یافتہ ابراہیم ،اسحاق ، یعقوب  ،اور نوح   اور دوسرے پیغمبر  ہیں جنکا نام لیا گیا ہے ۔اور خدا وند عالم نے صراط مستقیم کی جانب انکی ہدایت کی ضمانت لی اور تائید کی ہے ۔

    اور دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔

-------------

(1):- سورہ انعام، ۸۷

 

(إِنَّ إِبْراهيمَ كانَ أُمَّةً قانِتاً لِلَّهِ حَنيفاً وَ لَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكينَ) (120)(شاكِراً لِأَنْعُمِهِ اجْتَباهُ وَ هَداهُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ)(121) (1)

ابراہیم ایک مستقل امت اور اللہ کے اطاعت گذار اور باطل سے کترا کر چلنے والےتھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے [۱۲۰] اور وہ اللہ کی نعمتوں کےشکر گذار تھے خدا نے انہیں منتخب کیا تھا اور سیدھے راستہ کی ہدایت دی تھی ۔

اس آیئہ کریمہ میں حضرت ابراہیم   ؑکا نام لیا گیا ہے ۔اور صراط مستقیم کی جانب ان کی ہدایت کے متعلق گفتگو کی گئی ہے ،گویا کہ ان کا نام استعمال کرنا اور ہدایت کے عظیم ترین نمونہاور مصداق کے عنوان سے ہے۔

تیسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔

(وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلى‏ مُوسى‏ وَ هارُونَ (114)وَ نَجَّيْناهُما وَ قَوْمَهُما مِنَ الْكَرْبِ الْعَظيمِ (115)وَ نَصَرْناهُمْ فَكانُوا هُمُ الْغالِبينَ (116)وَ آتَيْناهُمَا الْكِتابَ الْمُسْتَبينَ (117)وَ هَدَيْناهُمَا الصِّراطَ الْمُسْتَقيمَ) (118) (2)

اور ہم نے موسی اور ھارون پر بھی احسان کیا ہے [۱۱۴] اور انہیں اور ان کی قوم کو عظیم کرب سے نجات دلائی ہے [۱۱۵] اور ان کی مدد کی ہے تو وہ غلبہ حاصل کرنےوالوں میں ہو گئے ہیں [۱۱۶] اور ہم نے انہیں مطالب والی کتاب عطا کی ہے [۱۱۷] اور دونوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت بھی دی ہے [۱۱۸]

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیہ، ۱۲۱،۱۲۰

(2):- سورہ صافات ،آیہ ۱۱۴تا ۱۱۸

 

   یہاں پر جناب موسیٰ و ھارونعلیہما السلام کا نام لیا گیا ہے اور ان کو جو چیزیں عطا کی گئیں ہیں ان میں سے ایک صراط مستقیم بھی شمار کی گئی ہے ۔اور سیدھے راستہ کی جانب ہدایت کی گئی ہے ۔بیشک صراط مستقیم کی جانب ہدایت پائے جانے والے حضرت ابراہیم ،حضرت موسیٰ اور جناب ھارون ہیںجو کہ امر نبوت اور لوگوں کو خدا کی جانب دعوت دینے میں حضرت موسیٰ  کے معاون اور شریک کار ہیں ۔

اس بیان سے ہم اس نتیجہ تک پہونچتے ہیں کہ صراط مستقیم پر قدم رکھنا گویا اسی راہ پر قدم رکھنا ہے کہ جس پر حضرت ابراہیم  ، موسیٰ  ، عیسیٰ  ، زکریا  ،یحیی  ، یوسف ، یعقوب و دیگر اولیاءعلیہم السلام اور بزرگان انسانیت نے قدم رکھا ہے ۔اور صراط مستقیم پر چلنا گویا انبیاء اور پیامبران الٰہی کی پیروی اور انکی راہ کو آگے بڑھانا ہے اور جو اس راہ پر چل رہے ہیں اور انبیاء اور پیامبران الٰہی کے قدم بقدم اور ہمراہ ہیں ۔ان لوگوں کے   مقابلہمیںکہ جو صراط مستقیمسے بہت دور ہیں ۔اور اس سے الگ ہو کر نمرود اور نمرودیوں ،فرعون اور فرعونیوں اور دیگر کفر، ضلالت ،انحراف،بدی ،ستمگری،ناپاکی و فسادکے راہنمائوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔فساد کے عناصر اور بدی و شرارت کے جراسیم کے ہماہنگ ہو جاتے ہیں اور ان کی راہ کو آگے بڑھاتے ہیں ۔اور نتیجہ میں جابروں اور خائنوں کے گروہ میں شامل ہو کر شرک و کفر، ظلم و خیانت کا مصداق بن جاتے ہیں ۔اور یہ لوگ بھی انہیں کے ساتھ محشور کئے جائیں گے۔

 

سب کی دائمی دعا ،صراط مستقیم کی ہدایت

    قرآن کریم میں بہت سی دعائیں ذکر ہوئی ہیں اور اسلام کے پیرو کاروں کو تعلیم دی گئی ہے کہ ان کے وسیلہ سے خدا وند متعال سے مناجات کریں ۔ اور اسکی بارگاہ میں اپنی مناجات اور ضروریات کو پیش کریں اور ان پر برکت دعائوں میں سے یہ جملہ بھی ہے ۔

 

(ادنا الصراط المستقیم) (1)

خدا یا :ہم کو سیدھے راستہ کی ہدایت فرما۔

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کریم کی دوسری دعائوں کا پڑھنا لازم نہیں ہے ۔ اس دعائے مقدس کے بر خلاف کہ جس میں صراط مستقیم کی جانب ہدایت طلب کرنے کی دعا کو لازم قرار دیا گیا ہے ۔اور بندگان خدا کو چاہئے کہ وہ خدا وند عالم کی بارگاہ میں ہدایت کی درخواصت کریں ۔بیشک:یہ جملئہ مبارک ،سورہ حمد کی آیات میں سے ہے کہ جو نماز کی پہلی اور دوسری رکعت میں پڑھا جاتا ہے اور عمدا اسکا ترک کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے ۔اس ترتیب سے ہر مسلمان دن و رات چوبیس گھنٹے میں کم از کم دس(10) مرتبہ اس جملہکواپنی زبان پر جاری کرتا ۔اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب چار رکعتی نماز کی تیسر اور چوتھی رکعت میں اور تین رکعتی نماز کی تیسری رکعت میں تسبیحات کی جگہ سورئہ حمد نہ پڑھی جائے (2) وگرنہ اس سے زیادہ ہو جائے گی۔

صراط مستقیم کی جانب ہدایت کی عظمت و اہمیت کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہر مسلمان دن و رات میں خدا وند عالم سے ہدایت کی درخواصت کرتا ہے ۔اور خضوع و خشوع کے ساتھ نماز کی حالت میں خدا کی باگاہ میں دعا کرتا ہے کہ صراط مستقیم کی جانب ہدایت فرما ۔اگرچہ تمام ہدایت یافتہ ہیں ۔اور اسی بنیاد پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔اور خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں۔لیکن انسان ہر حالت میں ہدایت الٰہی کا محتاج ہے کہ اگر یہ عظیم نعمت اس سے چھین لی جائے تو ہلاک ہو جائے گا ۔

--------------

(1):- سورہ فاتحۃ ،آیہ ۶

(2):- یہ عمل فقہی اعتبار سے صحیح ہے۔

 

      اور دوسری جانب ہدایت ایک ایسا امر ہے کہ جو مختلف مراتب و حالات رکھتا ہے۔اور ہر وہ انسان کہ جو سیڑھی کے ایک مرحلہ کو طے کرتا ہے اور دوسرے مرحلہ پر پہنچ جاتا ہے ۔اور ہر ایک وہ مرحلہ کہ جسکو وہ پیچھے چھوڑ کر جاتا ہے تو اسکے مقابل ایک بلند وبالا درجہ حاصل کرتا ہے ۔اسی طرح ایک نماز گزار انسان اور خدا کا بندہ بھی کمال کے مدارج و مراتب کی راہ میں رکتا نہیں ہے بلکہ وہ ہمیشہ متحرک رہتا ہے اور ہمیشہ ترقی اور معنوی کمالات کے حصول کے در پی ہوتا ہے ۔

اس بحث کے آخر میں اس آیت سے مناسب ایک مطلب کو بیان کر رہے ہیں     شیخ صدوق قدس سرہ اور دوسرے علماء نے نقل کیا ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے اس آیئہ شریفہ  (اهدنا الصراط المستقیم یعنی ہم کو سیدھے راستہ کی ہدایت کر )کے متعلق ارشاد فرمایا ہے(اس راستہ کی جانب کہ جو ہم کو تیری محبت کی جانب کھینچے اور تیرے دین کی جانب لے جائے ۔اورہم کو اپنی اس ہوا و ہوس کی پیروی کرنے سے کہ جسکے بعد ہم ہلاک ہو جائیں اور ہم کوہر اس چیز سے بچا کہ جو خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہوئے ہلاک کر ڈالے ۔اور اپنی آراء و نظریات کے اتباع کی وجہ سے برے انجام کا شکار ہو جائیں)

        اسکے بعد فرمایا (جو شخص بھی ہوا و ہوس کی پیروی کرے گا اور اپنی رای میں مغرور ہوگا تو وہ اس شخص کی مانند ہے کہ جسکے بارے میں میں نے سنا ہے کہ عوام الناس اسکی تعظیم کرتے ہیں اور اسکی بزرگی و عظمت کے بارے میں باتیں کرتے ہیں ۔میںچاہتا ہوں کہ اسکو نزدیک سے دیکھوں اسطرح سے کہ وہ مجھکو نہ پہچانے تاکہ میں یہ دیکھوں کہ اس کی قدر و منزلت کس طرح کی ہے ۔میں گیا تو میں نے دیکھا کہ عوام الناس کی اکثریت اس کے ارد گرد جمع ہے اور میں نے اپنے آپ کو نقاب سے چھپا رکھا تھا اور اس کو دیکھ رہا تھا ۔ اور وہ لگاتار فریب خوردہ عوام سے اپنی بڑائی کو بیان کر رہا تھا یہاںتک کہ لوگوں سے جدا ہو گیا اور تنہا چلنے لگا تو میں بھی اسکے پیچھے پیچھے جا رہا تھا ۔

 

تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ آدمی ایک روٹی کی دکانکے سامنے رکا اور روٹی بنانے والے سے آنکھ بچاتے ہوئے دو عدد نان اٹھائے اور اپنے کپڑوں میں چھپاکر چل دیا ۔

          مجھے تعجب ہوا اورمیں نے اپنےدل میں سوچاکہ شاید اس نے پہلے سے معاملہ کیا ہو اور پہلے ہی سے پیسے دے دئے ہوں یا بعد میں دے گا ۔پھر اسکے بعد ایک انار فروش کی دوکان پر پہونچا اور جب میوہ فروش کو کہیں اور مصروف پایا تو دو عدد انار اٹھائے اور انکو بھی اپنے لباس میں چھپا کر چل دیا تو مجھے مزید تعجب ہوا ۔لیکن خود سے کہا کہ شاید اسنے معاملہ کر رکھا ہو ۔البتہ یہ بھی خیال آیا کہ اگر ایسا ہے تو پھرچوروں کے انداز میں نہ اٹھاتا ۔

آخر کار وہ چلا یہاں تک کہ ایک بیمار کے سرہانے پہونچا اور دونوں روٹی اوردو عدد انار اس بیمار کو دیدئے ۔تو میں اسکے نزدیک گیا اور کہا ۔

اے بندہ خدا :میں نے تمہارا نام توبہت سناتھا اور تم سے ملاقات کرنا چاہتا تھا لیکن اس وقت تم کو عجیب و غریب کام کرتے دیکھا ہے ۔ جس کی وجہ سے میں سخت تعجب میں پڑ گیا ہوں ۔اور چاہتا ہوں کہ تم سے کچھ پوچھوں تاکہ مطمئن ہو جائوں ۔اس نے کہا : وہ کیا ہے ؟ میں نے کہا ،( میں نےدیکھا کہ تم روٹی کی دوکان سے گذرے تو دو روٹی چرائیں اور انار فروش سے بھی دو انار چرائے اور اسکے بعد آکر اس بیمار کو دیئے ) اس نے جواب میں کہا:(سب سے پہلے بتائو کہ تم کون ہو ؟میں نے کہا :فرزندان آدم میں سے ایک شخص اور امت محمدﷺمیں سے ایک امتی ہوں ۔اسنے کہا :کس خاندان سے ہو ؟ میں نے جواب دیا : رسول خدا کے خاندان سے ۔ اسنے پوچھا :تمہارا شہر کون سا ہے ؟میں نے کہا : مدینہ منورہ۔اس نے کہا : تو تم ضرور جعفر ابن محمدعلیہما السلام ہو؟

 

       میں نے کہا : ہاں ۔تو  اسنے کہا : افسوس ، اس شرافت نسب کا کیا فائدہ ۔جب کہ ایک جاہل ہو اور اپنے باپ دادا کے علم کو کھو بیٹےے ہو۔ ورنہ اس عمل پر کہ جسکا کرنے والا اور خود وہ عمل بھی قابل ستائش ہے یہ عیب نہ نکالتے ۔ میں نے کہا : تم نے مجھ سے کون سی جہالت دیکھی ؟ اس نے کہا : خدا وند عالم کے اس قول سے کہ جسمیں اسنے ارشاد فرمایا ہے ۔

(مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها وَ مَنْ جاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلا يُجْزى‏ إِلاَّ مِثْلَها وَ هُمْ لا يُظْلَمُونَ)(160) (1)

جو شخص بھی نیکی کرے گا اسے دس گنا اجر ملے گا اور صرف اتنی ہی سزا ملے گی ۔اور اس پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔

        میں نے چونکہ دو نان چرائے تو دو گناہ کئے اوردو عدد انار چرائے تو دو عدد اور گناہ کئے مجموعی طور پر میں چار گناہوں کا مرتکب ہوا ۔لیکن ان دو اناروں اور روٹیوں کو راہ خدا میں دیا اور چونکہ ہر ایک اچھائی کے بدلے دس اچھائیاں ہوں گی تو سب ملاکر چالیس اچھائیاں ہو جائیں گی۔

لہٰذا چار برائیوں کو چالیس اچھائیوں میں سے نکال دیں گے تو پھر چھتیس اچھائیاں میرے حصہ میں بچ جائیں گی ۔

میں نے کہا :خدا تجھے موت دے ،توخود کتاب خدا سے جاہل ہے کہ اس طرح کاحساب و کتاب کرتا ہے۔کیا تو نے نہیں سنا ہے کہ خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ۔

(اِنَّمَا یَتَقَبَّلَ اللْ مِنَ المْتَّقِینَ) (2

خدا صرف صاحبان تقوا کے اعمال کو قبول کرتا ہے ۔

-------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ،۱۶۰

(2):- سورہ مائدہ ،آیۃ، ۲۷

 

اور چونکہ تونے دو روٹیاں چرائیں تو دو گناہ کئے اور پھر اسی طرح دو انار چرائے تو دو گنا ہ اور کئے ۔اور چونکہ ان روٹیوں اور اناروں کو بغیر مالک کی اجازت کے صدقہ دیا تو ایک گناہ اور کیا کہ ان چار کے ساتھ مل کر پانچ ہو گئے نہ کہ تو نے چالسے اچھائیاں  حاصل کیہوں۔اور جب میں یہ کہ رہا تھا تو وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھتا رہا اور میں وہاں سے چلا آیا۔

اسکے بعد فرمایا :اسطرح کی جاہلانہ تفاسیر اور بری توجیھات سبب بنتی ہیں کہ آدمی خود گمراہ ہواور دوسروں کو بھی گمراہ کرے ۔(1)

 

صراط مستقیم کا اجمالی تعارف

اب جب کہ ہم نے صراط مستقیم کی اور اسکی جانب ہدایت کی اہمیت کو قرآن کریم سے پہچان لیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صراط مسمیا  کیا ہے ؟ تاکہ اس تک پہونچنے کیلئے سعی و کوشش کریں ۔

قرآن کریم میں  صراط مسمیپی کو دو طرح سے بیان کیا گیا ہے ایک جگہ اسکو اجمالا بیان کیا گیا ہے ۔اور دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔اسکے اجمالی مقامات مندرجہ ذیل ہیں ۔

(إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هذا صِراطٌ مُسْتَقيمٌ)(51) (2)

اللہ میرا اور تمہارا دونوں کا رب ہے لہذا اسکی عبادت کرو کہ یہی صراط مسیمم  ہے ۔

(وَ مَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ) (101) (3)

اور جو خدا سے وابستہ ہو جائے سمجھ لوکہ اسے سیدھے راستہ کی ہدایت کر دی گئی ہے۔

--------------

(1):- معانی الاخبار ،ص ۳۳

(2):- سورہ آل عمران ، آِیۃ ۵۱

(3):- سورہ آل عمران ، آیۃ ،۱۰۱

 

(وَهذا صِراطُ رَبِّكَ مُسْتَقيماً قَدْ فَصَّلْنَا الْآياتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ) (126) (1)

       یہی تمہارے پروردگار کاسیدھا راستہ ہے ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کیلئے آیات کو مفصّل طور سے بیان کر دیا ہے۔

(قُلْ إِنَّني‏ هَداني‏ رَبِّي إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ ديناً قِيَماً مِلَّةَ إِبْراهيمَحَنيفاً وَ ما كانَ مِنَ الْمُشْرِكينَ) (161) (2)

آپ کہ دیجئے کہ میرے پروردگار نے مجھے سیدھے راستہ کی ہدایت دے دی ہے۔جو ایک مضبوط دین اور باطل سے اعراض کرنے والے ابراہیم کا مذہب ہے اور وہ مشرکین میں سے ہرگز نہیں تھے۔

(وَ إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هذا صِراطٌ مُسْتَقيمٌ) (36) (3)

اور اللہ میرا اور تمہارا دونوں کا پروردگار ہے لہٰذا اسکی عبادت کرو۔اور یہی  صراط مستقیم ہے ۔

(وَ أَنِ اعْبُدُوني‏ هذا صِراطٌ مُسْتَقيمٌ) (61) (4)

اور میری عبادت کرو کہ یہی صراط مستقیم ہے۔

(وَ إِنَّكَ لَتَهْدي إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقيمٍ (52)صِراطِ اللَّهِ الَّذي لَهُ ما فِي السَّماواتِ وَ ما فِي الْأَرْضِ أَلا إِلَى اللَّهِ تَصيرُ الْأُمُورُ) (53) (5)

اور بیشک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کر رہے ہو کہ یہی راہ خدا ہے۔

-------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ،۱۲۶

(2):- سورہ انعام ،آیۃ ،۱۶۱

(3):- سورہ مریم، آیۃ ، ۳۶

(4):- سورہ یس ، آیۃ ،۶۱

(5):- سورہ شوری آیۃ ، ۵۳،۵۲

 

( وَ اتَّبِعُونِ هذا صِراطٌ مُسْتَقيمٌ) (61) (1)

اور میرا اتباع کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے ۔

(إِنَّ اللَّهَ هُوَ رَبِّي وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ هذا صِراطٌ مُسْتَقيمٌ) (2)

اور اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی عبادت کرو کہ یہی صراط مستقیم  ہے۔

جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ ان مقامات پر اجمالی طور پر صراط مستقیم کو بیان کیا گیا ہے۔کبھی خدا سے وابستہ ہونے اور کبھی دین خدا اورکسی مقام پر عبادت پروردگار یا خدا و رسول ﷺکی اتباع و پیروی کے عنوان سے اور انہیں کے مشابہ دوسرے عناوین سے یاد کیا گیا ہے۔ اور اس طرح سے اسکی تفسیر و تاویل کی گئی ہے۔

          --------------

(1):- سورہ زخرف ،آیۃ ،۶۱

(2):- سورہ زخرف ،آیۃ ،۶۴

 

    صراط مستقیم کا تفصیلی بیان

        قرآن کریم میں ایک مقام  پر صراط مستقیم کی تفصیلی تفسیرکی گئی ہے۔اور اسے واضح طور پر بیان کیا گیا ہے ۔

(قُلْ تَعالَوْا أَتْلُ ما حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْساناً وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ إِيَّاهُمْ وَ لا تَقْرَبُوا الْفَواحِشَ ما ظَهَرَ مِنْها وَ ما بَطَنَ وَ لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتي‏ حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ (151)وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَ أَوْفُوا الْكَيْلَ وَ الْميزانَ بِالْقِسْطِ لا نُكَلِّفُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَها وَ إِذا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَوْ كانَ ذا قُرْبى‏ وَ بِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ذلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْتَذَكَّرُونَ (152)وَ أَنَّ هذا صِراطي‏ مُسْتَقيماً فَاتَّبِعُوهُ وَ لا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبيلِهِ ذلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) (153) (1)

کہہ دیجئیے  کہ آئو ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے۔خبردار کسی کو اسکا شریک مت بنانا۔اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتیائو کرنا۔اپنی اولاد کو غربت کی بنیاد پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انھیں بھی ۔ اور بدکاریوں کے قریب مت جاناوہ ظاہری ہوں یا چھپی ہوئی ۔اور کسی ایسے نفس کو کہ جسے خدا نے حرام کر دیاہے قتل نہ کرنا ۔ مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو ۔یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے (151)

اور خبردار مال یتیم کے قریب بھی نہ جانا مگر اس طریقہ سے جو بہترین طریقہ ہو ۔یہاں تک کہ وہ توانائی کی عمر تک پہونچ جائیں ۔اور ناپ طول میں انصاف سے پورا پورا دینا۔ ہم کسی نفس کو اسکی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ہیں ۔اور جب بات کرو تو انصاف کے ساتھ چاہے اپنے ہی اقرباء کے خلاف کیوں نہ ہو اور عہد خدا کو پورا کرو کہ اسکی پروردگارنے تمہیںوصیت کی ہے کہ شاید تم عبرت حاصل کر سکو۔(152)

--------------

(1):- سورہ انعام ، آیۃ ،۱۵۳،۱۵۲،۱۵۱

 

 اور یہی ہمارا سیدھا راستہ ہے اسکا اتباع کرودوسرے راستوں کے پیچھے نہ جائو کہ راہ خدا سے الگ ہو جائو گے اسی کی پروردگار نے ہدایت دی ہے کہ اسی طرح شاید متقی و  پرہیزگار بن جائو (153) (1)

ان تینوں آیتوں میں دس امور کو ذکر کیا گیا ہے اور ان کو ( صراط مستقیم )کے نا م سے یاد کیا ہے اور وہ امور مندرجہ ذیل ہیں ۔

(1)  خدا کا شریک قرار نہ دینا۔

(2)  ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا (اچھا برتائو کرنا)

(3)  فقر و تنگدستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کرنے کی بدترین سنت کو ترک کرنا۔

(4)  فواحش اور منافی عفت اعمال سے دوری اختیار کرناچاہے اعلانیہ ہوں یا مخفی طور پر۔

(5)  کسی کو قتل نہ کرنا ۔مگر یہ کہ مسحق  قتل ہو۔

(6)  یتیم کے مال کے قریب نہ جانا مگر اس زمانے تک جب وہ شعور کی منزل تک پہونچ جائے۔

(7)  ناپ اور تول میں پورا تولنا (ڈنڈی نہ مارنا)اور عدل کے ساتھ۔   

(8)  کلام کرتے وقت عدل سے کام لینا۔

(9)  خدا وند عالم سے کئے گئے عہد و پیمان کو وفا کرنا۔

(10)  مختلف راہوں کی طرف نہ جانا۔

اب ہم ان میں سے ہر ایک موردکے بارے جداگانہ طور پر بحث کریں گے۔

--------------

(1):- ترجمہ ،علامہ جوادی طاب ثراہ

 

شرک سے پاک رہنا اور اس سے دوری اختیا ر کرنا

         بیان کئے گئے مقامات میں سے اہم ترین ترین مقامشرک سے اجتناب کرنا ہے۔انبیاء اور اولیاء الٰہی کی دعوت کی بنیاد معاشرہ کو خدا کے شرک کی آلودگیوں اور کثافتوں سے پاک کرنا ہے ۔

ہر انسان کے اسلام کا کلی معیار شرک سے پاک ہونا اور خدا وند عالم کی توحید کا اقرار کرنا ہے ۔چنانچہ پیغمبر اسلامﷺارشاد فرماتے ہیں ۔

قْوْلْوْا لَا اِلٰهَ اِلِّا الله تُفْلِحُوْا

لَا اِلٰہَ اِلِّا اللہ کہو کامیاب ہو جائو گے۔

آنحضرتﷺنے معاشرہ کو شرک سے پاک کرنے اوراسے توحید کی جانب لیجانے کیلئے متعدد وسائل سے استفادہ کیا ہے ۔اور شرک کی تمام قسموں سے کھلّم کھلّا،مسلسل اور بغیر تھکے ہوئے مقابلہ کیا ہے ۔فتح مکہ کے دن تمام بتوں یہاں تک کہ انبیاء کی مورتیوں جیسے جناب ابراہیم یا دیگر انبیاء الٰہی کی مورتیوں کو بھی کہ جنکو خا نئہ کعبہ کی دیواروں پر نقش کررکھا تھا سب کو ایک ساتھ زمین پر گرا دیا ۔اور سب کو توڑ ڈالا۔اسلام نے کسی ایک کو بھی بت پرستی کو ترک کئے اور جدا ہوئے بغیر قبول نہیں کیا ۔یہاں تک کہ بعض لوگوں نے مہلت طلب کی کہ کچھ دنوں کیلئے اپنے بتوں کو اپنے پاس رکھیں ۔

 لیکن آپ نے لمحہ بھرکیلئے بھی اسے قبول نہیں کیا   ۔چنانچہ وفد ثقیف کے واقعہ میں (پانچ افراد اس گروہ کی جانب سے انکی نمائندگی میں پیغمبر اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے)بیان ہوا ہے کہ ان لوگوں نے یہ درخواست کی کہ تین سال تک عزّیٰ کو نہ توڑیں۔لیکن پیغمبر اکرم ﷺنے قبول نہیں کیا ۔انہوں نے ایک سال کم کیا لیکن رسول خدا  (ص)نے پھر بھی قبول نہیں کیا ۔پھر ایک سال اور کم کیا لیکن اسکو بھی پیغمبرﷺنے قبول نہیں کیا ۔

 

یہاں تک کہ وہ ایک مہینہ کیلئے آمادہ ہو گئے لیکن پیغمبر ﷺنے ایک لمحہ کیلئے بھی اس موضوع کو قبول نہیں کیا ۔اگرچہ وہ ظاہرا چاہتے تھے کہ فضا کو ہموار کریں۔لیکن انہوں نے کوشش کی کہ جوانوں اور شورشیوں کو آمادہ کریں ۔لیکن آخر کار آنحضرت ﷺنے انکی کسی درخواست کو قبول نہیں کیا۔ پیغمبرﷺصرف ایک بات کہتے تھے کہ وہ کسی شخص کو بھیجیں اور ان بتوں کو منہدم کر دیں  ۔(1)

پیمبرخ اکرم ﷺ نے [حتی ان تقریبات میں بھی شرکت سے پرہیز فرماتے تھے]کہ جو انکی شان و شوکت کیلئے برپا کی جاتی تھیں ۔ یا ان میں شائبہ شرک پایا جاتا تھا یا یہ شائبہ ممکن تھا کہ شرک تک پہونچ جائے تو اس سے روکتے تھے اور سختی سے اسکا مقابلہ کرتے تھے ۔

    ابن میثم بحرانی نے صہیب سے نقل کیا ہے کہ جیسے ہی معاذ یمن سے پلٹے تو پیغمبر اکرمﷺکیلئے سجدہ کیا۔آنحضرت  ﷺنے فرمایا : معاذ : یہ تم نے کیا کیا ہے ؟

        انہوں نے جواب میں  کہا : میں نے دیکھا کہ یہودی اپنے بزرگوں اور علماے کیلئے سجدہ کرتے ہیں اور زمین پر گر جاتے ہیں ۔اور میں نے نصاریٰ کو بھی دیکھا ہے کہ وہ بھی قدسیّین اور بزرگوں کیلئے سجدہ کرتے ہیں ۔میں نے ان سے کہا کہ یہ کیسا عمل ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : یہ پیغمبروں کا احترام ہے ۔

تو آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا :۔

(کَذَّبْوْا عَلیٰ ا َنْبِیَائِهِمْ) (2)

وہ انبیاء اورپیغمبروں پر بہتان باندتے ہیں ۔

--------------

(1):- سیرہ ابن ھشام ،ج۴ ، ص ۱۸۲

(2):- شرح نہج البلاغہ ،ج ۱، ص ۱۷۳

 

علامہ حلی (رضوان اللہ علیہ  )نقل فرماتے ہیں : روایت کی گئی ہے کہ ایک بدّو عرب پیغمبر ﷺکی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا ۔وہ پیغمبرﷺکی باتوں سے خوش ہوا ۔اور اسی خوشی کی حالت میں آنحضرتﷺ سے اجازت چاہی تاکہ ان کے چہرے کو چومے۔آنحضرتﷺنے اجازت دے دی ۔اسنے پھر اجازت چاہی کہ پیغمبر ﷺ کے ہاتھوں کا بوسہ لے ۔ تو اسکی بھی اجازت دیدی ۔

  اسکے بعد اسنے پیغمبرﷺسے اجازت چاہی کہ آنحضرت ﷺکو سجدہ کرے۔تو آنحضرتﷺنے اسکو اس چیز کی اجازت نہیں دی ۔(1)

ایک شخص پیغمبرﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :کیا آپ اس دعوت کی سچائی پر کوئی دلیل بھی رکھتے ہیں ؟ پیغمبرﷺنے فرمایا : بیشک؛تم اس درخت کے قریب جائو ۔اور کہو کہ رسول خداﷺنے تم کو بلایا ہے ۔وہ گیا اور اسنے یہیکہا ۔درخت اس حکم کو بجا لانے کیلئے داہنے بائیں اور آگے کی جانب متمائل ہو کر اپنی جگہ سے الگ ہوا اور رسول خداﷺکے سامنے جاکر کھڑا ہو گیا ۔اس شخص نے کہا ۔اب اسکو حکم دیں کہ یہ اپنی جگہ پر پلٹ جائے ۔ پیغمبرﷺ نے حکم دیا تو درخت اپنی جگہ پر پلٹ گیا۔

اس شخص نے عرض کیا : اجازت دیں تاکہ میں آپکے لئے سجدہ کروں۔پیغمبرﷺنے ارشاد فرمایا : اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ کسی کیلئے سجدہ کرے تو عورت کو حکم دیتا کہ شوہر کیلئے سجدہ کرے ۔اسنے عرض کیا ۔پس آپ اجازت دیں کہ میں آپکے ہاتھوں کا بوسہ لوں۔ توپیغمبر ﷺنے اجازت دیدی ۔ 

--------------

(1):- تذکرۃ الفقھاء ،طبع قدیم، ج ۱، ص ۱۷۳

 

         عظیم الشان محدّث مرحوم دیلمی کہتے ہیں کہ روایت کی گئی ہے  کہ ایک نوجوان کہ جو حد بلوغ کو نہیں پہونچا تھا ۔پیغمبر اکرمﷺ کو سلام کیا اور دیدار رسول خداﷺکو عظیم جانا ۔پیغمبرﷺ نے فرمایا :اے جوان کیا مجھ کو دوست رکھتے ہو ؟اسنے عرض کیا ؛ بیشک: خدا کی قسم آپ پیغمبر خداﷺہیں ۔

آپ نے فرمایا :کیا اپنی آنکھ کی طرح دوست رکھتے ہو؟ اسنے جواب دیا : اس سے بھی زیادہ ۔آپ نے فرمایا : اپنے باپ کی طرح چاہتے ہو ؟ اسنے جواب دیا : ان سے بھی زیادہ ۔ آپ نے فرمایا : کیا اپنی ماں کی مانند چاہتے ہو ؟ اسنے جواب میں کہا : ان سے بھی زیادہ ۔ آپ نے فرمایا: کیااتنا چاہتے ہو کہ جتنا تم اپنے آپ کو چاہتے ہو ؟ اسنے جواب دیا: یا رسول اللہ(ص)خدا کی قسم اس سے بھی زیادہ ۔پیغمبر اکرم ﷺنے سوال کیا : کیا اپنے پروردگار کی مانند مجھکو دوست رکھتے ہو ؟ جوان نے جواب دیا : اللہ اللہ یا رسول اللہ : یہ مرتبہ صرف آپ کیلئے ہے نہ کسی دوسرے کیلئے ۔میں آپ کو خدا کی محبت کے لئے دوست رکھتا ہوں ۔

پیغمبر اکرم ﷺ ان لوگوں کی جانب مخاطب ہوئے کہ جو آنحضرت  ﷺکی بزم میں بیٹھے ہوئے تھے اور کہا :

(ٰکَذَا کُوْنُوْا اَحِبُّوْا اللَ لِاِحْسَانِِ اِلَیْکُمْ وَ اَنْعَامِِ عَلَیْکُمْ وَ اَحِبُّوْنِیْ لِحُبِّ الله) (1)

  اسطرح بنو ؛  خدا کو اس احسان ،انعام اور لطف کی بنیاد پر کہ جو اسنے تم پر کیا ہے دوست رکھو۔ اور مجھکو خدا وند عالم کی دوستی کی خاطر دوست رکھو۔

حضرت امام جعفر صادق   علیہ السلام سے رویت کی گئی ہے کہ قبیلہ بنی فہد کے قبیلہ کہ ایک شخص نے اپنے غلام کو مارا اور وہ غلام کہہ رہا تھا (میں خدا وند متعال کی پناہ چاہتا ہوں) لیکن اس مرد نے اس کو نہیں چھوڑا ۔اسنے کہا :( میں حضرت محمدﷺکی پہاتہ چاہتا ہوں )اس شخص نے اسکو چھوڑ دیا ۔اور مارنا بند کردیا ۔

--------------

(1):- ارشاد القلوب ،ص ۲۶۶، طبع جدید ،ص ۱۶۱

 

پیغمبر(ص)نے فرمایا :غلام نے خدا کی پناہ مانگی تو تم نے اس کو پناہ نہ دی ۔اوراس  نے محمدﷺکے نام پر پناہ مانگی اور تونے اس کو پناہ دیدی  ؟درحالانکہ خدا وند عالم محمد  ﷺسے کہیں زیادہ سے سزوار ہے کہ پناہ چاہنے  والوں کو پناہ دے ۔

اس مرد نے عرض کیا :میں نے اس غلام کو راہ خدا میں آزاد کردیا ۔پیغمبرﷺنے ارشاد فرمایا :قسم اس ذات کی کہ جس نے مجھکو عہدہ نبوت پر فائز کیا اگر تم اس کام کو نہ کرتے( یعنی اس کو آزادنہ کرتے)تو ہر لمحہ تم جہنم کے نزدیک ہو تے جاتے  ۔(1)

یہ اوراس جیسےدسیوں واقعات اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ بزرگان دین بالخصوص پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے مکمل اہمارم کیا تھا تاکہ خدا وند عالم کی عظمت و بزرگی محفوظ رہے ۔

اور ذرا سا بھی خدشہ نظر نہ آئے ۔لوگ کسی کو بھی خدا وند عالم کی ذات کے برابر نہ مانیں ۔اور کسی کا بھی اس پاک و پاکیزہ ذات سے موازنہ نہ کریں ۔کہ کوئی بھی چیز اور کوئی بھی ذات خدا وند عالم کی ذات سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ کوئی چاہے جتنی بھی عظمتوں کا مالک ہو وہ خدا وند عالم کی عظمت و بزرگی اور جلالت تک نہیں پہونچ سکتا۔ اسکے علاوہ تمام عظمتیں، بزرگی، خوبیاں اور تمام جلالتیں خدا وند عالم کی عظمت و جلالت کی طرف پلٹتی ہیں کہ وہ خالق ہے اور اسکے ما سوا سب مخلوق ہیں۔

یہی وہ مقام ہے کہ جہاں پر علماءاور معاشرہ کے بزرگوں اور دینی رہبروں کو ہوشیار رہنا چاہئے۔کہ شعراء  و ذاکرین کو ہر گز اس بات کی اجازت نہ دیں کہ کسی کو اس کے مقام و رتبہ سے زیادہ بلند  کریں اور وہ عظمت و جلالت کہ جو خدا وند عالم سے مخصوص ہے کسی اور کی جانب منسوب  کریں۔اور خدا نخواستہ انکو خدائی کے مرحلہ تک  پہونچا دیں۔

ابن اثیر، حسن ابن زید علویصاحب طبرستان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ:انہوں نےانّیس (۱۹)سال ،آٹھ مہینہ، چھ (۶) دن حکومت کی ہے ۔

----------------

(1):- وسائل الشیعہ ،ب ۳۰ ،از ابواب کفارات ،ح ۲

 

      اور بہت زیادہ صاحب جود و بخشش تھے ۔اس طرح کہ ایک شخص نے انکی مدح و ثنا کی :توانہوں نے دس ہزار درھم اسکو دئیے ۔اور وہ خدا کے لئے بہت ہی خاضع تھے۔

حکایت کی گئی ہے کہ ایک شاعر نےانکی شان میں اشعار کہے اور یہ جملہ بیان کیا (اللہ فرد و ابن زید فرد )یعنی خداجود بخشش میں  یگانہ ہے اور حسن ابن زید بھی سخاوت میں یگانہ ہیں ۔ 

ابن زید یہ جملہ سنتے ہی  سخت برہم  ہوئے اور کہا :اے جھوٹے ،خاموش ہو جا۔ یہ کیوں نہیں کہتا ہے کہ خدا یگانہ ہے اور حسن ابن زید اسکا بندہ ہے ؟

پھر اپنی جگہ سے اٹھے اور خدا کیلئے سجدہ میں گر پڑے ۔اور اپنی پیشانی کو خاک پر ملا۔اور جود و سخی ہونے کے باوجود شاعر کو محروم کر دیا او راسکو کچھ بھی نہیں دیا ۔ (1)

علما ء و ٖفضلاء اور معاشرہ کے حاکم و لیڈروں مداحوں کو اس مداحی کے ذکر سےجو غلو پر مشتمل ہو اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور تمام ائمہ علیہم السلام اور بزرگوں کو خدا تک پہونچاتے ہیں ۔اور انکو الوہیّت کے مرحلہ میں قرار دیتے ہیں منع کریں ۔اور  مذہب کیلئے توہین وسہل انگاری کا سبب نہ بنیں ۔

   اور اسی طرح شعراء کو اسطرح کے اشعار پڑھنےسے روکیں۔ اور خدا وند عالم کی عظمت و بزرگی کو اپنے خواہشات کا اسیر نہ بنائیں ۔ اور  یہ جان لیں کہ اسطرح کے اشعار کہنے اور  پڑھنے کا نقصان اسکے نفع اور فائدہ سے زیادہ ہے۔دشمنوں کا مذہب شیعہ کے خلاف منھ کھل جاتا جاتا ہے ۔اور ان لوگوں کو مشرک قرار دیتے ہیں اور نتیجے میں مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں ۔کہ جسکو کوئی بھی قوت اور طاقت دور نہیں کر سکتی ہے۔ اور پھر کوئی بھی طاقت وحکومت اسکو بلند نہیں کر سکتی ہے ۔

-------------

(1):- کامل ابن اثیر ،ج ۷ ،ص ۴۰۸و۴۰۷

 

قابل ذکر بات یہ ہے کہ شرک دو  طرح کا ہے ۔ایک شرک جلی اور دوسرا شرک خفی ۔ اور یہ جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے یہ شرک جلی و آشکار سے متعلق ہے ۔

        لیکن شرک خفی ،ریاکاری ہے کہ جہاں  بت اور بت کدہ کا پتہ نہیں ہوتا ۔اور اسے روایات میں صریحی طور پر شرک کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔

حضرت امام صادق   ؑ سے روایت کی گئی ہے ۔رسول خدا ﷺسے سوال کیا گیا ؛ قیامت کے دن رہائی اور نجات کس چیز میں ہے ؟ آپ   ﷺ نے فرمایا : نجات اس میں ہےکہ خدا کے ساتھ دھوکا دھڑی نہ کرو ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ خدا وند عالم بھی تمہارے ساتھ ایسے ہی  پیش آئے ۔ اور تمہارے ایمان کو چھین لے ۔اوراگر اس طرح کے افراد سمجھ بوجھ کر ایسا کرتے ہیں   تو حقیقت میں انہوں نے اپنے ہی ساتھ دھوکا کیا ہے ۔

عرض کیا  گیا: کس طرح خدا کے ساتھ دھوکا کرتے ہیں ۔؟آپ نے فرمایا :جس چیز کا خدا وند عالم نےحکم دیا ہے اسکو انجام دیتے ہیں ۔اور غیر خد ا کو مد نظر میں رکھتے ہیں ۔ اسکے بعد فرمایا:

(فَاتَّقُوْ ا اللهَ وَاجْتَنِبُوْا الریَا فَاِنَّهُ شِرْکُُُ بِااللهِ ان المرائی یدعی یوما القیا مه باربعة اسمائ یا کافر یافاجر یا غادر یا خاسر حبط عملک و بطل اجرک ولا خلاق لک الیوم فالتمس اجرک ممن کنت تعمل له) (1)

پس تقوی الہی اختیار کرو اور ریاکاری نہ کرو ۔اس لیے کہ ریا خدا وند عالم کے ساتھ شرک قرار دینا ہے ۔ ریا کار انسان کو قیامت کے دن چار ناموں سے پکارا جائے گا ۔اے کافر،اےفاجر ،اے خیانت کا ر ،اے نقصان اٹھانے والے۔تمہارے اعمال ختم کردیئے گئے اور تمہارا اجر و ثواب ضائع کردیا گیا ۔آج تمہارے لیئے کچھ بھی نہیں ہے لہٰذا اجر و ثواب کو اسی سے طلب کرو کہ جس کے لیئے تم نے اعمال انجام دیئے ہیں ۔           

--------------

(1):- امالی شیخ صدوق قدس سرہ ، ص ۳۳۶

 

ماں باپ کے ساتھ احسان

        دوسرا  حکم اور عنصر کہ جو صراط مستقیم اور اس کے محقق ہونے میں دخالت رکھتا ہے وہ ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا ہے  ۔

توحید الہی اور نفی شرک کے موضوع کے بعد ما ں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کے موضوع کو بیان کر نے کا راز یہ ہے کہ خدا وند عالم کی  ذات لایزال کے بعد انسان کے اوپر سب سے زیادہ لطف و مہربانی کر نے والے ماں اور باپ ہیں ان کے علاوہ انسان کا خالق خدا ہے اور ماں باپ انسان کی خلقت کا ذریعہ  ہیں ۔لہٰذا وہ بھی انسان کی خلقت میں ایک طرح کی دخالت رکھتے ہیں ۔انسان اپنی خلقت اور اپنے وجود میں خدا وند متعال کی ذات کے بعد ماں اور باپ کا مقروض اور انکا مرہون منت ہے ۔

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کو خدا وند متعال کی بندگی اور عبودیت کے ساتھ اور اس کے فورا بعد ذکر کیا  گیا ہے ۔

(وَ إِذْ أَخَذْنا ميثاقَ بَني‏ إِسْرائيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللَّهَ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْسانا)……(۸۳) (1)

اس وقت کو یاد کرو کہ جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبر دار خدا کے علاوہ کسی اور کی عباد ت نہ کرنا ۔اور ماں باپ کے سا تھ اچھا برتائو کرنا۔

(وَ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ لا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْسانا) (36) (2)

اور خدا کو یاد کرو اور کسی کو بھی اسکا شریک قرار نہ دو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔۔۔۔۔

--------------

(1):- سورہ بقرہ ،آیۃ ۸۳

(2):- سورہ نساء ،آیۃ ۳۶

 

(وَ قَضى‏ رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاهُ وَ بِالْوالِدَيْنِ إِحْسانا) (۲۳) (1)

اورآپ کے پروردگار کا فیصلہ یہ ہے کہ تم سب اسکے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتائو کرنا ۔

( أَنِ اشْكُرْ لي‏ وَ لِوالِدَيْك‏) (۱۴) (2)

میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کرو ۔

ابتد ا کی تین آیتوں میں واضح طور پر پروردگار کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ نیکبرتائو کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔اور دوسری آیت میں ذات لا یزال نے اپنی شکر گذاریکے بعد ماں باپ کی شکر گذاری کا حکم دیا گیا ہے ۔

لیکن محل بحث  آیت میں توحید اور نفی شرک کے بعد والدین کے ساتھ نیکی کوذکر کیا گیا ہے ۔اور یہ  تمام چیزیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ خدا وند عالم کے بعد کسی کا حق ماں باپ کے حق کے برابر نہیں ہے ۔

   ہم خودبھی والدین کی اپنی اولادوں کی بنسبت بے انتہا رنج و مشقت کے شاہد ہیں۔انسان کی طبیعت سلیم اس بات کاتقاضا  کرتی ہے کہ ان تمام احسانات ،الطاف اور مہربانی کا بہترین بدلا دیا جائے ۔اور یہ عقل کے مسلم اصولوں میں سے ہے کہ منعم کا شکر ادا کرنا واجب و لازم ہوتا ہے ۔ اور طبیعی طور پر انسان اس طرح کا ہے  کہ یہ اپنے آپ کو ان لوگوں کے مقابلہ میں کہ جن لوگوں نے اس پر احسان کیا ہے مقروض سمجھتا ہے ۔

--------------

(1):- سورہ اسراء ،آیۃ ۲۳

(2):- سورہ لقمان ،آیۃ ۱۴

 

لیکن یہ ہماری حالت و کیفیت ان لوگوں کے مقابلہ میں ہےکہ جنہوں نے ہمارے ساتھ کوئی  چھوٹا سا احسان کیا ہے ۔ یا ہماری کسی آرزو کو پورا کیا ہے ۔اسے بہترطور پر محسوس کرتے ہیں بالخصوص اگر ہم نے ان سے کسی چیز کا مطالبہ کیا اور انہوں نے اسکو پورا کر دیا ہو ۔ مثلا    اگر کسی نے ہماری تھوڑی سی بھی مدد کر دی یا کسی ادارہ سے ہمارا کام کرا دیا ہو ۔ تو ہم  اس احسان اور نیکی کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور اسکوفراموش نہیں کرتے ہیں۔  لیکن ان لوگوں کے متعلق کہ جنہوں نےہمارے  ساتھ غیر معمولی احسان کیا ہے ۔

یا کسی درخواست کے بغیر  ایسے کاموں کو انجام دیا ہے کہ شاید اسکو ہم خود بخوبی نہیں کر سکتے  ہیں ان افراد میں سے والدین ہیں کیونکہ اوّلا: انکا مدد کرنا اس قدر با عظمت اور انکا احسان اسقدر عظیم ہے کہ جسکو ہماری عقل درک نہیں کر سکتی ۔ ثانیا : اس سے پہلے کہ ہم کسی چیز کی ضرورت محسوس کریں اور مانگیں ۔انہوں نے ہماری مدد کی ہے ۔

ایک عظیم دانشمند کے بقول : کتنی ہی ایسی سرد راتیں گذر گئیں کہ جب ماں کا بدن کانپتا رہا ،دل لرز تا رہا اور وہ جاگتی رہی تاکہ ہم سوتے رہیں اور کتنے ہی ایسے گرم دن گذر گئےہیں کہ جب باپ زحمت اٹھاتا رہا اور پسینہ  بہاتا رہا تاکہ ہم اپنا وقت کھیل کود  میں گذاریں۔

شاید ماں باپ کے حق کی بنسبت ہماری اسی غفلت و فراموشی کے سبب خدا وند عالم نے ان دونوں کے حق کے بارے میں اسقدر تاکید فرمائی ہے کہ ان کے ساتھ نیک برتائو کو اپنی عبادت و بندگی کے پہلو میں قرار دیا ہے ۔

بیشک: ہر وہ شخص کہ جوخلاق  دو عالم کو بزرگ جانے ماں باپ کے حق کو بھیبزگ جانے گا ۔کیونکہ وہ انسان کے وجو د میں شریک ہیں اور اگر کوئی انکا احترام اور انکے بلند و بالا مقام کی رعایت نہ کرے گا گویا اسنےخالق کائنات کے حق میں کوتاہی کی ہے ۔

 

 روایت کے مطابق  شرک کے بعدسب سے عظیم گناہ ماں باپ کی بے احترامی  کرناہے اور یہ عظیم عذاب کا سبب بنتا ہے ۔ چنانچہ خود اسی دنیا اور عالم مادی میں ماں باپ کی بے احترامی کرنے کے بہت سے بد ترین آثار مرتب ہوتے  ہیں اور سعادت و خوشبختی کو انسان سے چھین لیتے ہیں۔

        کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس گناہ کبیرہ کوانجام دینے اور والدین کی حرمت کو پامال کرنے کی بنیاد پر انسان خوشی اور خوش بختی سے محروم ہو جاتا ہے ۔اور  یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ احسان اور نیکی کرنا خود انکی زندگی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ایک جامع اور باقی امر ہے کہ ہر زمانے میں انکے ساتھ احسان اور نیکی کرے ۔ لیکن انکی موت کےبعد انکے ساتھ نیکی کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہے۔

[۱]    ذکر خیر اور ان کو اچھائیوں سے یا د کرنا ۔

[۲]    انکی قبر و ں کی زیارت کرنا ۔

[۳]    انکے واجبات کو ادا کرنا جو ان کے ذمہ باقی رہ گئے ہو ں۔

[۴]    فقراء اور ضعفاء کو ان کی طرف سے خیرات دینا ۔

[۵]    انکی بخشش اور طلب رحمت و مغفرت الہی کے لیے دعا کرنا۔

[۶]    ان کے عزیزوں کا احترام کرنا ۔

[۷]    انکے دوستوں کا احترام اور دوستوں کے فرزندوں اور ان کے ماں باپ کا ان کی وفات کے بعد احترام کرنا اور گذشتہ تعلقات کوختم نہ کرنا۔

 

 والدین کے حقوق کی بربادی فقط ان کی زندگی ہیپر  منحصر نہیں ہے۔بلکہ ان کی موت کے بعد بھی ممکن  ہے ۔اور اس بات کا امکان پایا جاتا ہےکہ کوئی والدین  کی زندگی میں انکے تمام حقوق کو ادا کرے ،انکا مکمل احترام کرے ،تمام معنی میں والدین کی رضاو خوشنودی کو حاصل کرے ۔اور وہ بھی کامل رضا کے ساتھ اس سے جدا ہوں  اور موت کی آغوش میں سو جائیں ۔لیکن دوسرے عالم میں یعنی عالم آخرت میں اسکا بالکل الٹا ہو جائے۔   اور ماں باپ ان سے ناراض ہو جائیں یا مشہور و معروف تعبیر کے مطابق عاق والدین ہو جائیں ۔اوریہ اس وقت ممکن ہے کہ جب بیٹا ماں باپ کی موت کے ساتھ اپنے روحی اتصال و تعلق کو ان سے توڑ لے ۔اور ان کی یاد کو ذہن سے نکال دے ۔اور انکو بالکل بھول جائے۔نہ انکی قبر کی زیارت کو جائے اور نہ انکی جانب سے کار خیر کرے ۔اور نہ اس بات کی کوئی فکر ہو کہ اگرآخرت میں انہیں کوئی مشکل پیش آجائے تو عمل خیر اور دوسروں کے ساتھ نیکی کے ذریعہ یا انکے واجب حقوق کو ادا کرکے اوردوسرے جہان کے چین و سکون کو انکے لئے فراہم کرے۔

ایسے ہی  رفتار و کردار ماں باپ سے قطع تعلق کی طرح ہیں  ۔اور جیسے موت کے ساتھ جسمانی اور فزیکی طور پرتعلق ٹوٹ  جاتا  ہے ۔اسی طرح  ایسے کردار و رفتار سے اپنے معنوی اور روحی روابط کو بھی منقطع کر لیتا ہے اور اس صورت میں کوئی بعید نہیں ہے کہ ماں باپ کی بدترین بددعا کے مستحق قرار پائیں ۔

 

اولاد کے قتل سے اجتناب

        جاہل عرب یا ایک گروہ کے درمیان ایک بدترین اور دلخراش عادت یہ رائج تھی کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے ۔اور یہ انکی ہولناک اور وحشانی روایات تھیں کہ گذرتے زمانہ کے ساتھ اپنے اس بدترین اور وحشی عمل کا بالکل بھی احساس نہیں کرتے تھے ۔اور انکے اس وحشی عمل کی دو وجہیں تھیں ۔

 

[۱]جنگ و غارت گری کے وقت انکی بیٹیاں نہ جنگ کی طاقت رکھتی تھیں ،نہ حملہ کی قوت اور نہ جنگجو و غارت گر دشمن کے مقابل دفاع کی صلاحیت رکھتی تھیں جسکی وجہ سے دشمن کے ہتھے چڑھ جاتی تھیں جو کہ عرب کیلئے ننگ و عار کا سبب تھا اسی وجہ سے وہ  بیٹیوں کو ختم اور نابود کرنے میں اپنی قوت و طاقت لگاتے تھے۔

[۲] معاشی عوامل :فقر و تنگدستی بھی سبب ہوئی کہ وہ اپنی بیٹیوں کو شروع ہی سے قتل کر دیں یا زندہ در گور کر دیں ۔یہ بد ترین اور ظالمانہ روایت کی پیروی کی وجہ سے جب کسی عورت کو درد زہ کا احساس ہوتا ،تو اپنے خیمہ سےد ور صحرا یا کسی دوسری جگہ چلی جاتی تھی اور اس گڈھے میں کہ جو انکے لئے آمادہ کیا گیاتھا نو مولو د دنیا میں آتا تھا ۔

   اور اگر مولود بیٹا ہوتا تھا تو قبیلہ اور اطر اف کی عورتیں نوزاد  اوراسکی ماں کو شوق و امنگاور خوشی کے ساتھ مردوں کےپاس لاتیں تھیں اور اگر لڑکی ہوتی تھی تو مایوسی کے مرجھائے ہوئے  چھرہ کے ساتھ سبھی  بیٹھ جاتی تھی اور بے گناہ نوزاد کو اسی گڑھے میں دفن کرکے واپس آجاتی تھیں ۔

قرآن مجید کم سے کم  تین مقامات پر اولاد کے قتل ہونے کے موضوع کو بیان کرتا ہے ۔ اور اس سے جم کرقابلہ کے لئے ابھارتا ہے ایک مقام پر اس طرح ارشادفرماتا ہے ۔

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ) (9) (1)

اور جب زندہ در گور لڑکیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ  انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے ۔ 

اوردوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبيراً) (2)

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۸،۷

(2):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۱

 

اور خبر دار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرناکہ ہم انہیں بھی  رزق  دیتے ہیں ۔اور تمہیں بھی رزق دیتے ہیں۔بیشک انکاقتل کردینا بہت بڑا گناہ ہے ۔

یہ بات قابل توجہ ہے کہ بظاہر یہ بد ترین عمل ایک خاص گروہ یا کچھ مخصوص گروہ کی عادت تھی وگرنہ لڑکیوں کا فقدان قظع نسل کا سبب بنتا ۔کیونکہ توالد ،تناسل اور انسانی نسلکی افزائش لڑکیوں کے وجود  کی مرہون منت ہے جسطرح سے مردوں اور لڑکیوں کے وجود سے بھی اسکا تعلق ہے۔

        ممکن ہے کہ یہ کہا جائے بعض لڑکیوں کےساتھ ایساکرتے تھے اور بعض کو بقائے نسل کیلئے باقی رکھتے تھے۔یا یہ کہ بعض لوگ کلی طور پر ایسا کرتے تھے اور انکے درمیان قطعی اور اجتماعی حکم  نہیں تھا قرآن مجید کی بعض  آیات سے اس نتیجہ کو اخذ کیا جا سکتا ہے اور وہ آیت یہ ہے۔

(وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ) (58)(يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59) (1)

اور جب خود ان میں کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے ۔ اب اسکو ذلت سمیت زندہ رکھے یا خاک میں ملا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں۔

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

 

دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اقتصادی و معاشی مشکلات اور فقر و تنگدستی کے عامل سے ہٹ کر کہ اس میں بیٹے  اور بیٹی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

کیونکہ دونوں خرچےزندگی کے ضرورت مند ہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر اپنی بیٹیوں کو قتل کر دیتے تھے؟جو چیز ہم تک پہونچی ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ کلی طور پر لڑکی کے وجود سے نفرترکھتے تھے۔اس وجہ سے اسکو قتل کرنے اور زندہ درگور کرنے میں لڑکیوں کو لڑکوں پر مقدم کرتے اور ترجیح دیتے تھے ۔

مفسر بزرگ علامہ طبا طبائی رضوان اللہ علیہ سورہ اسراء کی آیت کے ضمن میں کہتے ہیں :

(ولا تقتلوا اولادکم خشية املاق جریان وادنبات)

وہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کو اولاد کے قتل کرنے سے الگ جانتے ہیں اور فرماتےہیں:

لڑکیوں کو زندہ درگور کر نے کی آیات خاص ہیں کہ جو ا س موضوع سے مخصوص اوراسکی حرمت کی تصریح کرتی ہیں :

مثلا یہ آیت :

(وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ (8)بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)(9) (1)

اور یہ آیت (وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى‏ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظيمٌ (58)يَتَوارى‏ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى‏ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ) (59) (2)

لیکن مورد بحث آیت اور اس کے مشابہ دوسری آیات اپنی اولاد کو فقر و تنگدستی کی  وجہ سے قتل کرنے کو منع کرتی ہیں ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل بھی نہیں ہے کہ ان آیات میں اولاد کو لڑکوں کے معنی میں لیا جائے ۔

--------------

(1):- سورہ تکویر ،آیۃ ۹،۸

(2):- سورہ نحل ،آیۃ ۵۹،۵۸

 

درحالانکہ اولاد لڑکا ،لڑکی دونوں کے لیے عام ہے اور یہ دوسری سنت لڑکیو ں کو زندہ درگور کرنے کے علاوہ کہ جو ننگ وعارکی بنیاد پرہے او ر اولاد کو قتل کرنے کی عادت اعم ہے کہ جو لڑکا اور لڑکی دونو ں کو فقر و فاقہ کی بنیاد پر قتل کرنے سے منع کیا گیا  ہے ۔(1)

راغب نے مفردات میں کہا ہے کہ اولا د  سے مراد لڑکا ،لڑکی دونوں ہوتے ہیں اس بیان کے مطابق یہ شبہ ختم ہوجاتا ہے کیونکہ فقرو تنگدستی کا خوف انکو اس بات کی جانب ابھارتا ہے کہ اپنی اولاد کو چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی قتل کریں اور اس مقام پر ان دونوں کے درمیان کسی فرق کے قائل نہیں تھے ۔بیشک ان کی ایک بد ترین سنت یہ تھی کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ننگ و عار کی خاطر زندہ دفن کردیتے تھے کہ اگر ایسا نہ کرتے تو جنگوں میں دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں گی ۔

 دوسراقابل بیان نکتہ یہ ہے فقرو تنگدستی کاخوف دو جگہ ظاہر ہوتا ہے ۔اور برے نتائج کاسبب بنتا ہے ،خدا وند عالم نے ان دونوں مقامات  پر انسانیت کی حمایت کی ہے یعنی اسکے حالات کی اصلاح کی ضمانت لی ہے اور اسکی روزی کا وعدہ کیا ہے ۔

۱ : بسا اوقات جوان شادی اور انتخاب ہمسر کیلئے مضطرو پریشان ہوتے ہیں کہ کس طرح اپنے علاوہ اپنی بیوی کی ضرورت کو پورا کرے گا ۔اور یہی اضطراب و مایوسی اور شادی میں تاخیرکا سبب بنتا ہے۔خداوند عالم اسکے متعلق ارشاد فرماتاہے۔

(وَ أَنْكِحُوا الْأَيامى‏ مِنْكُمْ وَ الصَّالِحينَ مِنْ عِبادِكُمْ وَ إِمائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَراءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ) (32) (2)

اور اپنے  غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے با صلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر فقیر بھی ہونگے تو خدا اپنےفضل و کرم سے انہیں مالدار بنا دیگا ۔

--------------

(1):- المیزان ،ج ۱۳ ،ص ۸۹

(2):- سورہ نور ،آیۃ ۳۲

 

۲: صاحب اولاد ہو جانے کی صورت میں یہ پریشانی اس دور کےماں باپ کیلئے تھی چنانچہ آج بھی یہ پریشانی بطور کلی ختم نہیں ہوئی ہے خصوصا  جزیرۃ العرب میں کہ جہاں قحط سالی ،بارش کی کمی اور رزق کا کم ہونا انکو غمگین کئے ہوئے تھا ۔   اور کسی فرزند کا پیدا ہوجانا انکے لئے ذہنی پریشانی کا سبب تھا ۔خدا وند عالم اس پریشانی کو دور کرنے کیلئے ارشاد فرماتا ہے۔

(وَ لا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ مِنْ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ إِيَّاهُمْ) (1)

سعدی شیرازی کہتے ہیں ۔

یکی طفل دندان بر آودہ بود   

پدر سر بہ فکرت فرو بردہ بود 

کہ من نان برگ از کجا آرمش 

                                مروت نباشد کہ بگزارمش     

چو بیچارہ گفت این سخن نزدجفت                        

        نگر تا زن او را چہ مردانہ گفت

مخور ھول ابلیس تا جان دھد                

                        ھر آن کس کہ دندان دھد نان دھد

ایک بچے کے دانت نکل آئے تو باپ پریشان ہو گیا کہ اب اس کے کھانے وغیرہ کا انتظام کیسے کرے گا  ۔اور یونہی چھوڑ دینا بھی مروت کے خلاف ہے ۔جب اس نے یہ بات اپنی بیوی سے کہی ۔تو اس عورت نے ایک مردانہ اور حکیمانہ جواب دیا :کہ جب تک یہ بچہ زندہ ہے تم شیطان کے ان وسوسوں کا خوف نہ کھائو کیونکہ جس نے اس بچہ کو دانت دئے ہیں  وہی روزی بھی دیگا ۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۱

 

۴: عفت کے منافی اعمال سے دوری

دوسرانکتہ کہ جو صراط مستقیم سے مربوط ہے وہ ہے فواحش سے اجتناب کرنا اور عفت کے منافی اعمال کو انجام نہ دینا ۔آیت کی تعبیر یہ ہے کہ :

(وَ لا تَقْرَبُوا الْفَواحِشَ ما ظَهَرَ مِنْها وَ ما بَطَن‏ ) (۱۵۱) (1)

اور بدکاریوں کے قریب مت جانا وہ ظاہری ہوں یا چھپی ہوئی ۔

اسلام نے جن کاموں کی انجام دہی سے روکا ہے ان کا صرف انجام نہ دینا کافی نہیں ہے ۔بلکہ ان کے قریب جانے کی مذمت  اور ممانعت  بھی کی گئی ہے لہذا اسکے قریب جانے سے بھی اجتناب ہونا چاہئے ۔

        بیشک اس طرح کے کاموں کے قریب ہو نا خطرناک بھی ہے ۔کیونکہ جس وقت  انسان ان سے نزدیک ہوتا ہے تو دھیرے دھیرے عمل کی جانب قدم بڑھاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انکو انجام دیتا ہے ۔

کسی بھی کام سے قریب ہونا اس کام میں ملوث ہونے کا مقدمہ ہوتا ہے ۔اگرچہ اس میں ملوث ہونے کا ارادہ نہ رکھتا ہو ۔بہر حال اس با ت کا خطرہ اور خوف پایا جایا ہے۔کہ انسان اس میں ملوث ہو جائے ۔اس لئے اسلام تمام فواحش اور برے کاموں سے چاہے وہ ظاہری ہوں یا مخفی ۔منع  کرتا ہے اور اس کی دو طرح سے توجیہ کی جاتی ہے ۔

        ۱: ان اعمال کو نہ صرف دوسروں کی آنکھوں کے سامنے انجام دیا جائے بلکہ تنہا ئی میں بھی ان سے اجتناب کیا جائے۔اور کوئی یہ تصور بھی نہ کرے کہ فواحش اور برائیوں کو کھلے عام انجام نہیں دینا چاہئے ۔کیونکہ عمومی عفت داغدار ہو جائے گی ۔لیکن مخفیانہ طور پر کوئی مشکل نہیں ہے۔

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ۱۵۱

 

جیسا کہ تفسیر مجمع البیان میں کہا گیا ہے کہ عصر جاہلیت کے لوگ مخفیانہ زنا کو برا تصور نہیں کیا کرتے تھے ۔اور تنہا کھلے عام زنا سے منع کرتےتھے لہذا خدا وند عالم نے ان کو ہر حال میں زنا سے منع فرمایا ۔

اس بنا پر گویا آیت یہ کہنا چاہتی ہے ظاہرا برے اعمال سے پرہیز آسان ہے اور انکی خود اپنی ایک جگہ ہے ۔حتی ان اعمال کو مخفیانہ انجام دینے سے بھی پرہیز کرو۔

۲:برے اور غلط کاموں سے اجتناب کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان کے بدن کے اعضاء و جوارح سے انجام پاتا ہے کہ یہ ہر حال میں  ظاہری قسم ہے ۔ چاہے اسکو مخفی طور پر ہی کیوں نہ انجام دیا جائے ۔اور وہ برا عمل کہ جو انسان کے دل و دماغ میں ابھرتا ہے ۔گویا فرمایا ہے کہ اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ برے اور عفت کے منافی اعمال سے اجتناب کرو ۔اس طرح سے کہ تمہارے ذہن و فکر میں بھی اسکا تصور نہ آنے پائے ۔اور تمہارے باطن میں بھی منافی عفت  عمل نہ آئے ۔

بیشک قلبی تصورات اور گناہ کی فکر اور سوچ بھی گنا ہ کیلئے راہ ہموار کرتا ہے ۔ اور بالخصوص  اسکی تکرار اور ہمیشہ سوچنے میں ایک  عظیم خطرہ پایا جاتا ہے ۔ جو دھیرے دھیرے انسان کیلئے نا فرمانی کی راہ کو کھول دیتا ہے ،اسکو گناہ کے انجام دینے پر ابھارتا ہے ۔اور خانئہ دل کو سیاہ وتاریک بنا دیتا ہے۔

اسی بنیاد پر آدمی کے تصورات و خیالات اسکے دل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ اسکے دل اور قساوت قلب میں یا اسکی نرمی اور آسانی میں واضح اور نا قابل انکار اثر رکھتا ہے۔

 

قرآن کریم کے اسی جملہ کی جانب  اشارہ کرتے ہوئے حضرت علی ابن الحسین  ؑدعائے ابو ہمزہ ثمالی کے آخر میں :اپنی عارفانہ اور پر درد مناجات میں فرماتے ہیں۔

اللهم انی اعوذبک من الکسل والفشل----والفواحش ما ظهر منها وما بطن -----

پروردگار میں تیری باگاہ میں سستی و کاہلی سے پناہ چاہتا ہوں اور فواحش و برے اعمال سے وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے۔

یاد رہے اگرچہ قرآن کریم میں فاحشہ اور فواحش کو عام طور سے بد ترین گنا ہوں من جملہ زنا ،لواط یا پاکدامن عورتوں کی جانب بری نسبت دینے وغیرہ میں استعمال کیا گیا ہے ۔

لیکن یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بعض ایسے اعمال ہیں جن میں ان گناہوں کی تھوڑی سی برائیاں پائی جاتی ہے ۔اور کبھی کبھی ان اعمال یا بعض اعمال کیلئے مقدمہ بن جاتے ہیں جیسے :

۱:نامحرم کے ساتھ خلوت :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایک مرد اورعورت

یا ایک لڑکے یا لڑکی کا خلوت مثلا کسی بند کمرہ میں ہونا ،بدکاری اور خلاف عفت اعمال کے لیے ایک راستہ ہوتا ہے اس اعتبار سے اسلام میں اس کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔

    ۲:لڑکے اور لڑکیوں کی  دوستی:

اگرلڑکے کی کوئی لڑکی دوست ہو یا لڑکی کا کوئی لڑکا دوست ہو ،تو یہ آلودگی انکی بدکاری وفساد میںپڑنے کا مقدمہ اور سبب ہے کبھی کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے درمیان اچھے اور دوستانہ روابط ہیں یہ تمام باتیں  دھوکاہیں بلکہ شیطان نے ان کے سامنے گناہوں کو مزین کرکے پیش کیا ہے ۔

 

اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک سکہ کے دورخ ہیں اس کا ایک رخ دوستی ،تفریح اور ایک ساتھ باتیں کرناہے اور اس کا دوسرا رخ زنا،فواحش ،اخلاقی فساد اور اسی کے ساتھ ساتھ قتل ،خود کشی اور حدو تعزیر ہے۔خدا کرے کہتمام مسلمان خصوصا  ایرانی مسلمان جوان اس بحث کا مطالعہ کرتے وقت خود کو ہوا و ہوس سے دور رکھ کر منصفانہ مطالعہ کریں اور محکم ارادہ کریں ۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے بے غیرت باپ یا ناپاک مائیں بھی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اخلاقی فساد اور نا مشروع تعلقات کے بارے میں جانتے ہیں اور کسی بھی طرح کا خطرہ محسوس نہیں کرتے ہیں۔

    ۳ :  نا محرم کو دیکھنا :

  یہ خودبدکاری کے زمینہ کو فراہم کرتا ہے  اور دھیرے دھیرے اتنا آگے تک لے جا تا ہے کہ وہ اپنا دا من گنا ہ کبیرہ سے آلو دہ کر لیتا ہے  ۔  

ایک عرب شا عر کہتا ہے کہ

نظرة فابتسانة وسلام                  

فکلام فموعد فلقاء

ابتدا میں ایک نگا ہ اس کے بعد مسکرا ہٹ اور مسکرا ہٹ کے بعد سلام، اس کے بعد گفتگو، پھر وعدہ اور آخر میں ملا قا ت اور پھر خلا ف عفت اور مخالف تقوی عمل کو انجام دینا ۔اور اس کی حقیقت وہی ہے کہ جو فارسی زبان شاعر نے کہا ہے ۔

                برِ پنبہ آتش نباید فروخت                      

                کہ تا چشم بر ہم زنی خانہ سوخت

روئی پر آگ نہ ڈالو کہ ایک لمحہ میں گھر کو جلا کر خاک کر دے گی ۔

 

۴: لڑکے اور لڑکیوں کے لئے بعض کپڑوں کا پہننا :

خود انسان یا طرف مقابل کے لئے ایسے مساعد حالات فرا ہم کرتا ہے جو فسادا ور گناہ کا سبب بنتے ہیں ۔وہ لباس جس سے ان کے بدن کے خد وخال ظاہر ہو تے ہیں  بغیرکسی شک و شبہ کے جو انو ں اور جنس مخا لف میں برا اثر چھو ڑتا ہے ۔تنگ اور چھو ٹے لبا س افکا ر شیطا نی کے ایجا د کر نے کے لئے موثر ہو تے ہیں۔ بلکہ ظا ہر و آشکا ر اور سریع و قطعی اثر رکھتے ہیں ۔کبھی کبھی ان میں سے کسی ایک منظر کو دیکھنے سے لڑکی کو بد ترین عمل کی طرف کھینچتا ہے یا لڑکے کو شرارت اور نا پا کی و بے عفتی کے کام کے لئے آمادہ کر تا ہے ۔

با ر الہا:آخر کیا ہو جائے گا کہ اگر لوگ اس طرح ہو جا ئیں کہ ضروری ،بدیہی اور مسلم امو ر کا انکار نہ کریں اور فساد وبدی اور بے عفتی و ناپا کی کی تو جیہ کرنے وا لے نہ بنیں؟

    ۵:جسمانی اتصال مثلا ہا تھ ملانا :

 اسی بنیا د پر اسلامی شریعت میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ جب بچے چھ سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دئے جائیں ۔یہ ایک درس ہے جوہم کو ایک راز سکھا تا ہے ۔یہ احکام بتا تے ہیں کہ ان کے جسموں کا ملنا موثر ہے ۔

ممکن ہے کہ یہ باطل خیالات اورشیطانی اوہام کو ان کے  اندر بیدار کرے اور ان کی فساد وناپاکی کا سبب بنے ۔جبکہ یہ اس صو رت میں ہے کہ جب بچوں کے درمیان جسموں کا ملاپ بہن اور بھائی کے درمیان انجام پا تا ہے۔

اس اجمال کی تفصیل تک آپ خو د پہو نچ سکتے ہیں ۔

 

آدم کشی سے اجتناب

        دعوت الھی کے امو ر میں سے پا نچواں امر آدم کشی اور محترم نفوس کو قتل کرنے سےاجتناب کرنا ہے ۔خدا وند عالم نے انسانوں کی جان کو محترم شما ر کیا ہے اور ان کے لئے غیر معمولی عظمت کا قائل ہے اسلام کی نظر میں کسی بھی چیز کا احترا م لو گو ں کے خون کے برا بر نہیں ہے ۔اور کو ئی بھی گناہ کسی انسا ن کے قتل سے بڑھ کر نہیں ہو تا ہے ۔اس اعتبا ر سے ہر انسان کو دوسروں کی جان کا محا فظ ہو نا چا ہئے اور یہ بات خود اپنے آپ کو سمجھا ئے کہ جس طرح ہم اپنی جان کو عزیز رکھتے ہیں اور اس کی حفا ظت کی کو شش کر تے ہیں۔تو دوسروں کی جان کو بھی اپنی جان کی طرح عزیز  رکھیں ۔لہذا ہم کو ان کی حفا ظت و  نگہداشت کا بھی اہتمام کرنا چا ہئے کہ خدا وند عا لم نے ان کو بہت زیادہ محترم شما ر کیا ہے ۔

قرآن مجید کی آیت میں اسے :حرم اللہ :کے عنوان سے پیش  کیا گیا ہے ۔در حا لیکہ اس کو :حرم الاسلام :یا :حرم اللہ فی الاسلام :کے نا م سے یا د کرنا چا ہئے تھا۔شاید اس تعبیر کا را ز یہ ہو کہ :خو ن انسا ن کی حر مت فقط شریعت اسلام میں  منحصر نہیں ہے بلکہ تما م ادیا ن میں اس اعتبا ر سے کہ لو گو ں کے خو ن کی حفا ظت کرنا چا ہئے اور کو ئی خدشہ مسلما نو ں کی جا ن میں ایحا د نہ کرے :متفق ہیں اور تمام انبیا ء ،پیمبرا ن الہی اور تمام آسمانی  مذا ہب اور شریعتیں اس اعتبا ر سے متفق ہیں ۔

        قر آن کریم   میں موضوع قتل بہت ہی شدت کےساتھ بیان کیا گیا ہے اور اسکی تعبیرات کی سختی اور عظمت میں دوسرے گناہوں کی بنسبت واضح اور آشکار ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ،

(وَ مَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ خالِداً فيها وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ عَذاباً عَظيماً) (93) (1)

--------------

(1):- سورہ نساء ،آیۃ ۹۳

 

 اورجو بھی کسی مومن کو قتل کرے گا اسکی جزا جہنم ہے ۔اور اسی میں ہمیشہ رہنا ہے اور اس پر خدا کا غضب ہے  اور خدا لعنت بھی کرتا ہے اور اس نے اسکے لئے عذاب عظیم بھی مہیہ کر رکھا ہے ۔اس آیئہ کریمہ میں قاتل کیلئے پانچ انجام بتائے گئے ہیں ۔

۱:اسکی سزا دوزخ ہے ۔

۲: ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔

۳: خدا اس پر غصب کریگا ۔

۴: اس پر خدا کی لعنت ہے ۔

۵: خدا وند عالم نے اسکے لئے عذاب عظیم مہیاکر رکھا ہے ۔

اور یہ بھی فرماتا ہے ۔

(مِنْ أَجْلِ ذلِكَ كَتَبْنا عَلى‏ بَني‏ إِسْرائيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّما قَتَلَ النَّاسَ جَميعاً وَ مَنْ أَحْياها فَكَأَنَّما أَحْيَا النَّاسَ جَميعا ) (۳۲) (1)

اسی بنیاد پر ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کے علاوہ قتل کر ڈالے گا ۔اس نے گویا سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے ایک نفس کو زندگی دیدی اس نے گویا سارے انسانوں کو زندگی دیدی۔

اس آیئہ کریمہ میں ایک انسان کو قتل کرنا تمام انسانیت کو قتل کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے اور  ایک انسان کو نجات دینا تمام انسانوں کو نجات دینے کے برابر ہے۔

--------------

(1):- سورہ مائدہ،آیۃ ۳۲

 

محل بحث آئیہ کریمہ دو حصوں پر مشمل ہیں ۔ جملہ مستثنی اور جملہ مستثنی منہ ۔اور جو کچھ کہا گیا ہے وہ مستثنی منہ کے مورد میں ہے ۔لیکن مستثنی یعنی مخصوص مواردمیں قتل کا جائز ہونامحل بحث آیت میں بطور کلی ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ارشاد ہوتا ہے۔:الابالحق:اور اسکا فائدہ یہ ہے کہ ان موارد میں افراد کا قتل کرنا حق ہے ۔اسطرح کہ اسمیں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور یہ موارد تین عناوین میں خلاصہ ہوتے ہیں ۔  

 

    ۱: باب قصاص:

  اگر کسی نے دوسرے کے قتل کا اقدام کیا لیکن مقتول یہ حق رکھتا ہے کہ قاتل کو اس کے جرم میں کہ جسکا وہ مرتکب ہوا ہے ۔اور محترم جان کو مار ڈالا ہے ۔قتل کر دیا جائے ۔البتہ خودیہ کام معاشرہ سے قتل کو ختم کرنے  اور نفسوں کی حفاظت کیلئے ایک وسیلہ ہے ۔ اور یہ حکم صراحت کے ساتھقرآنمجیدمیںآیاہے ۔اسطرحسےکہجوقابل تصرف وتاویل نہیں ہے ۔

ایک مصری دانشمند فرید وجدی   کہتا ہے کہ : اکثر یورپی قوانین قاتل پر قتل کا حکم لگاتی ہیں کہ اسکو قتل کر دیا جائے ۔لیکن ایک نیا نظریہ وجود میں آیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ قاتل کو قتل نہیں کرنا چاہئے ۔بلکہ قید و بند ہی اسکے لئے کافی ہے بعض ممالک جیسے سوئزر اوراٹلی نے اس نظریہ کو قبول کیا ہے ۔ قاتل کو ان ممالک کی شریعتوں اور قوانین کے تحت قتل نہیں کیا جاتا ہے بلکہ انفرادی قید خانہ میں قید کر دیا جاتا ہے ۔کہ جہاں کوئی آواز اسکے کانوں تک نہ پہونچے اور اسکو چند سال تک اسی طرح چھوڑ دیتے ہیں۔ اسکے بعد اسکو عمومی زندان کی طرف منتقل کر دیا جاتا ہے ۔اور اس سے سخت سے سخت کام لئے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ مر جائے۔

 

ان اسلامی قوانین کےاحکام کی حکمت (کہ جن کے قتل کی سزا بعض یوروپی ممالک میں ایک دوسری صورت میں لاگو ہوتی ہے )سے موازنہ کرنے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔کیونکہ اس طرح کی زندگی کا کیا فائدہ ہے ۔؟ اسکے علاوہ قتل کے ذریعہ قصاص ،خود اس عمل کی قسم میں سے ہے ۔قید کے برخلاف کہ یہ ایک سزا کی الگ قسم ہے اور  اسکا قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے  ۔جرم اور اسکی سزا کے درمیان کا تناسب اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ولی قاتل کو قتل کرے ۔اوروہ روک تھام کہ جو قتل کے قصاص میں ہے حبس اور اسی کے مثل دوسری سزائوں میں نہیں ہے ۔                        

 

۲ : باب حدود:۔

 زنا کےبعض  اقسام میں صرف قتل کا حکم یا پھرخاص اندازمیں مار ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے ۔

الف: اپنے نسبی محرم کے ساتھ زنا کرنا ۔      

ب: کافر ،مسلمان عورت کے ساتھ زنا کرے ۔

ج: وہ مرد کہ جو کسی عورت کو زنا پر مجبور کرے ۔  

د:شادی شدہ مرد یا عورت لذت جنسی کے امکان کے باوجود زنا کریں  ۔

جیسا کہ لواط کی حد میں قضیہ کے طرفین کی بنسبت اپنے خاص شرائط کے ساتھ قتل کا حکم ہے ۔البتہ دوسرے موارد  بھی ہیں کہ جو مفصل کتابوں میں بیان ہوئے ہیں  ۔(1)

--------------

(1):- ہم نے اسکو اپنی کتاب الدر المنضود فی احکام الحدود[ جو تین جلدوں میں لکھی گئی ہے ] مفصل طور پر بیان کیا ہے

 

۳:باب ارتداد:

مسلمان کا اسلام سے پھر جانا ۔اور توحید اور اسلام کے بعدراہ کفر وشرک کو اختیار کرنا  وہ بھی خاص شرائط کے ساتھ اسکا یقینی اثبات قتل کا سبب ہوتا ہے ۔ اور اسکے تمام احکام و شرائط فقہ کی تفصیلی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں کہ خواہشمند حضرات ان کی جانب رجوع کر سکتے ہیں  ۔(1)

لیکن اس مقام پر اس نکتہ کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ قتل کا حکم ابتدائی مورد میں یعنی باب قصاص میں مقتول کے ولی سے مربوط ہے اور اسکے اختیار میں ہے کہ قاتل سےقصاص لے یا اسے معاف کر دے ۔

       لیکن دوسرے اور تیسرے مورد میں یہ حکم  خود حاکم شرع سے مربوط ہے  کہ پہلے قضیہ  واضح ہو جائے اور اسکے بعد قتل کا حکم اور اسی کی مانند حاکم اور قاضی کی قضاوت سے وابستہہوتا ہے ۔

اس بحث کے اختتام میں مسلمان جوانوں :ہم لڑکے اور لڑکیوں کو خیر خواہی کے ساتھ یہ وصیت کرتے ہیں کہ اپنے نفوس کی کڑی حفاظت کریں ،۔تاکہ ان تین ہلاکتوں میں گرفتار نہ ہو جائیں ۔اور بے گناہ انسان کے خون کے بہنے کا سبب نہ بنیں ۔قتل کی حد کے مستحق نہ بنیں ۔اور کسی ایسے گناہ سے اپنے دامن کو داغدار نہ کریں کہ خدا نہ خواستہ دین الہی سے بدبین ہو کر کافر ہو جائیں کہ نتیجہ میں ارتدای قتل کے مستحق قرار پائیں ۔

۶ :یتیم کے مال کی رعایت  کرنا

        آئیہ کریمہ میں چھٹا  امر یتیموں {یعنی وہ بچے جنکے باپ اور سرپرست نہ ہوں } کے مال کی رعایت کرنا ہے ۔اس مقام کو بھی اس امرکو قرب {لاتقربوا } کے ذریعہ بیان کیا ہے۔یہاں تک کے یتیم کے مال سے قریب تک ہونے  کو منع کیا گیا ہے اس لئے کہ اس سے نزدیک ہونا خطرہ میں پڑنا ہے ۔

--------------

(1):- ر،ک بہ نتائج افکار ،مئولف کی کتاب

 

یہ بات واضح ہے کہ تمام لوگوں کے مال کو محترم شمار کرنا اور اسکو ضایع کرنے اور بغیر اجازت کے خرچ کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔لیکن یتیم کے مال کا خاص طور سے ذکر کرنا اس اہمیت کی وجہ سے ہے کہ جو یتیم کے متعلق ہے اور اسکی علت یہ ہے کہ وہ بچپنے اور کمسنی کی وجہ سے عدم ورود اور خود  اسکے لئے اپنا دفاع ممکن نہیں ہے ۔ اور وہ اپنے مال و دلت کے متعلق بہتر تدبیر اور اسکی حفاظت نہیں کر سکتا ہے ۔اس بنیاد پر مخصوص توجہ اور خاص شفارش کی گئی ہے ۔اور حکیم علی الاطلاق خدا وند عالم نے اس آیت میں یتیم کے مال کو خاص طور پر موضوع بحث بنایا ہے ۔اور اسکے مال میں تصرف سے بھی منع کیا گیا ہے۔

حقیقت میں کس قدر عظیم گناہ ہے کہ انسان اس شخص کے مال کو ہاتھ لگائے کہ جو نہ اپنی اور نہ اپنے مال کے دفاع کی قدرت نہیں رکھتا ۔اور یہ کھلا اور واضح ضعیف پر ظلم کا مصداق ہوتا ہے ۔

اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ جملئہ مبارک اور قرآن مجید کا محل بحث فقرہ اسی لفظ اور خاص عبارت کے ساتھ قرآن میں دو مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔

سورہ انعام کی وہ آیت کہ جو ہماری موضوع بحث ہے ۔

اور دوسری آیت سو رہ اسراء یا بنی اسرا ئیل کی ۳۴ ویں میں فر ما تا ہے ۔

(وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ ) (1)

اور یہ آیت  اس مو ضو ع کی اہمیت کو بیا ن کر سکتی ہے ۔قا بل تو جہ با ت یہ ہے کہ سو رہ انعا م میں اس مو ضوع کو صرا ط مستقیم کے عنا صر اور احکام کے عنوا ن سے ذکر کیا گیا ہے ۔اور سو رہ اسرا ء میں اس دلیل کے سا تھ کہ یہ حکمت الہی کے حکم کا جز ہے بیا ن کیا گیا ہے ۔جیسا کہ مندر جہ ذیل آیت میں ارشا د ہو تا ہے کہ

--------------

(1):- سورہ انعام ،آیۃ ۱۵۲

 

(ذلِكَ مِمَّا أَوْحى‏ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَة ) (1)

یہ وہ حکمت ہے جس کی وحی تمہا رے پر ور دگا ر نے تمہا ری طرف کی ہے۔

 

حا کم اور یتیم بچہ اور آیا ت قر آنی کی تا ثیر

        ایک انسا ن دنیا سے چل بسا اور کچھ یتیم بچو ں کو چھو ڑ گیا اور ایک با ایمان شخص کو اپنا وصی اور اپنے چھوٹے بچو ں کا محا فظ قرار دیا ۔اس زمانے کے ظا لم اور طا قتور حاکم نے ایک شخص کو وصی کے پا س بھیجا اور کہا میں نے سنا ہے کہ فلا ں شخص مر گیا ہے اور اتنی مقدار نقد چھو ڑ گیا ہے اس میں سے اتنی مقدا ر مجھ کوقرض دو  ۔وصی نے دو تھیلی پیسے اس یتیم بچے کے دا من میں رکھےاور اس کو حاکم کے پا س بھیج دیا ۔

اور حا کم کو ایک خط لکھا کہ پیسہ اس بچے کا ہے ۔خود اس سے لے لو اور قیامت کے دن خو د اس کو پلٹا  دینا۔اور اس کا مجھ سے  کو ئی تعلق نہیں ہے ۔حاکم نے جیسے ہی یہ خط پڑھا تو آئیہ شریفہ کا مضمو ن اس کی نظروں میں گھو م گیا کہ جس میں خدا ارشا د فر ما تا ہے ۔

(انَّ الَّذينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامى‏ ظُلْماً إِنَّما يَأْكُلُونَ في‏ بُطُونِهِمْ ناراً وَ سَيَصْلَوْنَ سَعيراً) (10) (2)

جو لوگ ظا لمانہ اندا ز سے یتیمو ں کا مال کھا جا تے ہیں وہ در حقیقت اپنے پیٹ میں آگ بھر ر ہے ہیں اور عنقریب وا صل جہنم ہو ں گے ۔

--------------

(1):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۹

(2):- سورہ نساء، آیۃ ۱۰

 

حا کم خدا وند عا لم کے عذاب سے خوفزدہ ہوا او ر گریہ کرنے لگا اور بچے سے پوچھا:کیا تم مکتب جا تے ہو؟ بچے نے جو اب دیا :ہا ں۔پو چھا کیا پڑھتے ہو ؟اس نے جو ا ب دیا :قر آن ۔

اس نے پو چھا ۔کیا قرآن حفظ کر تے ہو ؟اس نے جو اب دیا :ہا ں

اس نے کہا پڑھو ۔دیکھو ں کس طرح حفظ کیا ہے ؟بچے نےیہ آیت پڑھنا شرو ع کیا ۔

(اعوذ بالل من الشیطان الرجیم ، وَ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتيمِ إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّه‏ )

حا کم نے دو با رہ گر یہ کیا ااور کہا :میں خدا وند عا لم کے حکم کے خلا ف کوئی کام نہیں کرو ں گا ۔اور پھرتھیلیو ں کو ہا تھ  نہیں لگا یا ۔بلکہ ایک خلعت بچے کو اپنی طرف سے دیا اور ایک خلعت وصی کے لئے بھی دے کر اس کو وا پس کر دیا  ۔(1)

سا ت سالہ یتیم بچہاورحجا ج

        عظیم الشا ن محدثمر حو م دیلمی رضوا ن اللہ علیہ لکھتے ہیں :ایک سات سالہ بچہ حجا ج کے سا منے آیا اور کہا اے امیر :یہ با ت جا ن لو کہ میرا با پ اس وقت اس دنیا سے گذرگیا جب میں اپنی ما ں کے شکم میں تھا اور میری ماں بھی اس وقت دنیا سے گذر گئی جب میں شیر خوا ر تھا ۔           

اور دو سرے لو گ میرے امو ر کی کفا لت کر تے تھے ۔اور میرے باپ نے ایک باغ میرے لئے چھو ڑا کہ جو میرا معین و مددگا ر تھا اور میری زندگی کے لوا زما ت اسی سے پورے ہو تے تھے ۔لیکن فی الحا ل تمہا رے عمّال میں سے ایک نے اس کو غصب کر لیا ہے۔جو شخص خدا سے نہیں ڈرتا ہے تو وہ امیر کی شا ن وشو کت اور قدرت و منزلت سے کیا ڈرے گا ۔یہ تمہا ری ذمہ دا ری ہے کہ ظا لم کو منع کرو اور لو گو ں کے حقوق ان کو پلٹا دو تاکہ اس کا نتیجہ حا صل کرسکو ۔

--------------

(1):- عدد السنۃ،سبزواری ، ص ۱۲۴

 

(يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَ ما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَها وَ بَيْنَهُ أَمَداً بَعيدا) (۳۰)(1)

اس دن کو یاد کرو جب ہر نفس اپنے نیک اعمال کو بھی حاضر پائے گا اوربد اعمال کوبھی ۔کہ جن کو دیکھ کر یہ تمنا کرے گا کہ کاش ہمارے اور ان برے اعمال کے درمیان طویل فاصلہ ہوجاتا  ۔

حجاج نے حکم دیا کہ اسکا باغ اسکو پلٹا دیا جائے ۔اور یہ بھی حکم دیا کہ ادیبوں کو بھی اسکے گھر سے دور کر دو اسلئے کہ وہ ان سب سے بڑا ادیب ہے  ۔(2)

ہم کومتوجہ رہنا چاہئے کہ مورد بحث آیہ کریمہ اور اس سے مشابہ آیات مورد استثناء پر مشتمل ہیں ۔ {إِلاَّ بِالَّتي‏ هِيَ أَحْسَنُ } یعنی یتیموں کے مال کے نزدیک نہ جانا مگر اس طریقہ سے کہ جو بہترین طریقہ ہے اور اسکے مال کی حفاظت وسعت کا سبب ہو۔ البتہ وہ تصرف کہ جسکا نتیجہ یتیم کے مال کی حفاظت یا فائدہ ہو تو کوئی مشکل نہیں ہے بلکہ بسا اوقات مطلوب اور پسندیدہ ہوتا ہے ۔

مندرجہ بالا آیئہ کریمہ دونوں مقام  یعنی محل بحث آیئہ کریمہ  اور اس سے مشابہ سورہ اسراء کی  آیئہ کریمہ سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے ۔ کہ  یتیم کے مال کے نزدیک ہونے کی حرمت کے  معنی اسکے مال میں تصرف حاصل کرنا  ہے ۔ کہ جو اقتصادی امور کی تدبیر کی قدرت اور اپنے مال کی حفاظت اور اس سے فایدہ حاصل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔لیکن جس وقت وہ حد بلوغ تک پہونچ جائے اورتم کویہ  احساس ہو کہ اب وہ خوداپنے مال کی حفاظت اور اسکو صحیح جگہ پر تصرف اور فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت حاصل کر چکا  ہے ۔تو اس وقت اسکے مال میں تصرف سے منع کیا گیا ہے ۔مگر یہ کہ وہ شرعی ضوابط کی بنیاد پر ہو ۔

--------------

(1):- سورہ آل عمران ،آیۃ ۳۰

(2):- ارشاد القلوب ،ص ۲۳۰

 

۷:ناپ اور تول میں عدل اور انصاف سے کام لینا

        ساتواں محل بحث موضوع ناپ تول میں عدل اور انصاف سے کام لیناہے ۔

        خریدار کواسکی چیز صحیح و سالم اور مکمل حوالہ کرنا خود ایک اہم موضوع  ہے ۔ کہ جو  عوام الناس کے اعتماد کوبحال کرتا ہے ۔اور معاشرہ کے مختلف افراد کو زندگی میں متحرک کر دیتا ہے ۔اور ایک راہ پر لگا دیتا ہے ۔ جیسا کہ خود قوانین کی رعایت دولت کی عادلانہ تقسیم کا ایک  وسیلہ ہے  ۔  اور ان قوانین کی رعایت کرکے جھوٹی اور نا مشروع دولت غلط لوگوں کے پاس جمع نہیں ہو سکتی ۔ اور ہر ایک اپنا شرعی اور واقعی حق کو حاصل کر سکتا ہے ۔

اور انہیں کے مقابل میں جو شخص  اشیاء کے تولنے کا ذمہ دار ہو ۔لیکن اگر وہ امانت دار اور قابل اعتماد نہ ہو اور خریدار کے  حق میں کٹوتی  اور ناپ اور تول میں خیانت کرے  گا۔تومعاشرہ میں ایک دوسرے کے اوپر سے اعتماد کی روح ختم ہو جائیگی اور ایک دوسرے کے تئیں اعتماد کی جگہ بدگمانی پیدا ہو جائے گی ۔اور اسی کے ساتھ معاشرہ میں دشمنی ، عداوت ،بغض و حسد اور کینہ  رائج ہو جائیگا  ۔

اور نتیجہ میں طرف مقابل کم تولنے  پر مجبور ہوگا کہ جسکی وجہ سے معاشرہ میں ایک دوسرے کے تئیں خیانت کا دروازہ کھل جائیگا۔اور پھر یہی چیز رواج پیدا کر لے گی ۔اور صحیح و سالم اجتماعی روابط باقی نہیں رہیں گے  بلکہ نظام اجتماعی درہم برہم ہو جائیگا  ۔اور ایک بدگمان اور خیانت کار معاشرہ کی داغ بیل پڑ جائیگی  اسطرح کہ لوگوں کے اجتماعی اور اخلاقی حقوق ضایع ہونے لگے گیں ۔

اور خریدارنے جو قیمت ادا کی ہے اس کے مقابل اسے جنس نہیں ملسکے گی۔جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں حق کشی اور ایک دوسرے کےحق کو ضایع کرنا بھی مکمل طور پر رائج ہو جائیگا  اور پھر غلط اور نا جائز طریقے سے دولت اکھٹا کرنے کا راستہ ہر ایک کے لئے کھل جائیگا ۔ اور ایک سالم اور الہی معاشرہ کی جگہ مادی اور شیطانی معاشرہ وجود میں آجائیگا۔اس سلسلے میں ہم کو خدا سے پناہ ماگنا چاہئے ۔

 

خدا وند متعال صحیح ناپ تول کے لئے محل بحث آیت میں ارشاد فرماتاہے ۔

(وَ أَوْفُوا الْكَيْلَ وَ الْميزانَ بِالْقِسْط )

اور سورہ اسراء میں ارشاد فرماتا ہے (وَ أَوْفُوا الْكَيْلَ إِذا كِلْتُمْ وَ زِنُوا بِالْقِسْطاسِ الْمُسْتَقيمِ ذلِكَ خَيْرٌ وَ أَحْسَنُ تَأْويلاً) (35)(1)

اور جب ناپو تو پورا ناپو اور جب تولو  تو صحیح ترازو سے پورا پورا تولو کہ یہی بہتری اور بہرین انجام کا ذریعہ ہے ۔

اور حضرت شعیب علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کی داستان میں بھی فرماتا ہے ۔

(وَ إِلى‏ مَدْيَنَ أَخاهُمْ شُعَيْباً قالَ يا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْرُهُ وَ لا تَنْقُصُوا الْمِكْيالَ وَ الْميزانَ إِنِّي أَراكُمْ بِخَيْرٍ وَ إِنِّي أَخافُ عَلَيْكُمْ عَذابَ يَوْمٍ مُحيطٍ (84)وَ يا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيالَ وَ الْميزانَ بِالْقِسْطِ وَ لا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْياءَهُمْ وَ لا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدينَ) (85)  (2)

اور ہم نے مدین کی طرف انکے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نےکہا کہ اے  قوم اللہ کی عبادت کر کہ  اسکے علاوہ تیرا کوئی خدا نہیں ہے اور خبردار ناپ تول میں کمی نہ کرنہ  کہ میں تمہیں بھلائی میں دیکھ رہا ہوں اور میں تمہارے بارے اس دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں جو سب کو احاطہ کریگا ۔{۸۴}اے قوم ناپ تول میں انصاف سے کام لو اور لوگوں کو کم  چیزیں مت دو اور روی زمین میں فساد مت پھیلا تے پھرو ۔{۸۵}

--------------

(1):- سورہ اسراء ،آیۃ ۳۵

(2):- سورہ ھود ،آیۃ ۸۵،۸۴

 

ان آیات سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ شھر مدین کے لوگ دو گناہوں کر مرتکب ہوئے  تھے ۔ایک اللہ تعالی کا شرک اور دوسرے کم فروشی ۔ حضرت شعیبؑ انکے شرک سے مبارزہ کے ساتھ ساتھ انکے درمیان رائج کم فروشی سے جنگ کرتے ہیں ۔ ہم قرآن کے اس نکتہ سے ناپ  تول میں گناہ کی اہمیت کو پہچان سکتے ہیں ۔

 اور دوسرے یہ کہ حضرت شعیبؑ ان دو بڑے گناہوں کی وجہ سے اس دنیا میں سب کو گھیر لینے والی بلا کے نزول کے دن سےبے چین تھے ۔اور آخر کار چونکہ قوم نے اس مرد الہی کی خیر خواہی اور ارشادات پر کوئی توجہ نہیں دی {یا قبول نہیں کیا } عذاب الہی ان پر نازل ہوا۔ یا دوسری صریحی آیات کے مطابق آسمانی عذاب {بجلی} نے ان کو گھیر لیا اور زمین کے زلزلوں سے دوچار ہو ئے۔ اور بھی بہت سی دوسری آسمانی بلائیں ان پر نازل ہوئیں ۔

ایک کم فروش کی جان کنی کا ہولناک قصہ

        مر حو م برغا نی نقل کر تے ہیں کہ مالک دینا ر کہتے ہیں کہ :میرا پڑو سی بیما ر ہو ا اور میں اس کی عیا دت کے لئے گیا تووہ حا لت احتضا ر میں تھا اور فر یا د کر رہا تھا {دو آگ کے پہا ڑ میری جان لینا چا ہتے ہیں }میں نے کہا :یہ فقط وہم و گما ن ہے ۔اس نے سنا اور کہا :{نہیں بلکہ عین حق ہے۔ کیو نکہ میں دو پیما نے {ترا زو }رکھتا تھا ۔ایک سے کم دیتا تھا۔ اوردوسرے سےزیادہ لیتا تھا اوریہ اسی کا نتیجہ ہے }(1)

اختتا م بحث میں اس موضو ع سے متعلق دوبا توں کو بیان کر نا ضروری ہے ۔جس طرح نا پ ،تو ل میں عدا لت کی رعا یت کرنا چا ہئے اور جنس و متا ع کو مکمل اور بغیر کمی کے دینا چا ہئے۔ اسی طرح متا ع کو بھی معمو لی قیمت سے زیادہ خریدا ر کونہیں دینا چاہئے ۔

--------------

(1):- مجالس المتقین ،ص ۱۰۵

 

اگر چہ وہ انسا ن کہ جو مالک ہے اس کو یہ حق ہے کہ اپنی چیزکو نہ بیچے یا اپنی چیز کو بہت زیا دہ مہنگی بیچے۔ لیکن انصاف اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس طرح نہ کرے۔ اور اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جنس کی ایک ایسی قسم کو کہ جس کی قیمت کم ہو اس کو نفیس تر اور بہتر چیز کے بدلے بیچے ۔ اوریہ کام خریدار پر مال کا چھپانا ہے ۔

ایک ذمہ دار لباس فروش کا واقعہ

        مصر کے مشہور مصنفقطب نقل کرتا ہے کہ یونس ابن عبید ایک معمولی انسان اور لباس فروش تھا وہ لباس کہ جن کو وہ بیچتا تھا وہ دوقسم کے لباس تھے۔ ایک دو سو درہم والا،دوسرا چار سو درہم والا ۔ایک دن اس نے اپنے بھتیجے کو اپنی جگہ بٹھا دیا ۔اور نماز پڑھنے کے لیے مسجد چلاگیا۔

اسی دوران ایک عربی آیا اور اس نے ایک لباس کہ{ جس کی قیمت تقریبا چار سو درہم ہوتی تھی }کو منگایا ۔توبچہ نے ایک دوسودرہم والا کپڑا اس کو دیکھایاتو مرد عرب نے اس کو پسند کرلیا اور چار سو درہم اس کو ادا کیا ۔

یونس کہ جو مسجد سے پلٹ رہاتھا راستے میں اس شخص سے ملاقات ہوگئی اورجیسے ہی اس نے کپڑے کو دیکھا سمجھ گیا کہ اس کی دوکان سے خریدا گیا ہے ۔سامنے آیا اور اس عرب سے پوچھا ؛یہ کپڑا کتنے کا خریدا ہے ؟

عرب نے جواب دیا :چارسو  درہم کا ۔یونس نے کہا :اس کی قیمت تو دو سو درہم سے زیادہ نہیں ہے کیسے چارسو درہم کا تمکو بیچا ہے؟ واپس چلوتاکہ بقیہ درہم تم کوواپس دیدوں۔

عرب نے کہا : اتفاقا ٹھیک ہی قیمت ہے ۔اورہمارے قصبہ میں تو اس کو پانچ سو درہم میں بیچتے ہیں۔ آخر کا ر یونس اس کو دوکان واپس لایا اور دو سو درہم اس کو واپس دیئے ۔ اس کے بعد اپنے بھتیجے سے غصہ میں کہا:خدا سے شرم و حیا کیوں نہیں کرتے ہو ؟

 

نوجوان نے جواب دیا :میں کیا کروں وہ خود اس قیمت پر راضی ہوگیا اور خرید لیا ۔یونس نے تعجب سے اپنے سر کو ہلایا۔اور کہا :افوس اگر وہ اس قیمت پر راضی ہوگیا تھا تو تم کیوں خود اساہم نکتہ کی جانب متوجہ نہ تھےکہ منافع اس سے قبول کرلیا ؟ (1)

۲ : جس طرح لوگوں کی چیزوں میں کم تولنا اور ناپنا  گناہ و نافرمانی اور حکم الہی کی خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی شخصیت کو بے توجہی اور ان کے مقام ومراتب کو چھوٹا سجھنا بھی گناہ عظیم ہے ۔

اور انسانو ں کے لیے بھی علم ،فضیلت اور کمالات نفسانی کی شخصیت کا بھی ایک میزان پایا جا تا ہے اور اس میزان کو کم اور زیادہ  کرنا      معاشرہ کے نظم و نسق میں خلل ایجاد کرنا ہے اور فضیلت کے معیاروں کو ختم کردینا ہے ۔

اور وہ افرادکی جوبڑے بڑے  القاب کے لائق  نہیں ہیں اگر ان القاب کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں اور اسکو رائج کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے بھی اپنا سماجی مرتبہ ضایع و برباد کر دیا ہے  ۔

اور وہ افراد کہ جو بے وجہ اپنی مدح و ثنا کرنے والے افراد کو تریج دے رہیں ہیں خدا وند متعا ل کی بارگاہ میں مسئول ہوں  گے اور وہ آخرت کے دن اپنے آپ کو پروردگار کی عدالت کے لیے آمادہ رکھیں ۔  ان لوگوں کے مقابل میں کہ جو علم و عمل کے اعتبار سے بلند و بالا مقام کے حامل ہیں۔ اگر لوگ ان کی شائستگی کے بیا ن کرنے میں کوتاہی کریں گے اور ان کو نچلی سطح کے افراد سے پہچنوائیں گے تو یہ جان لیں کہ انھوں نے برائی کی وادی میں قدم رکھ لیا ہے ۔اور اپنے اس ناجائز عمل کے ذریعہ سے دوزخ کے دروازہ کو اپنے اوپر کھول لیا ہے۔ اور خدا وند متعال کے عذاب اور غضب کی جانب جارہے ہیں۔             

--------------

(1):- انسان بین مادّیگری و اسلام، محمد قطب، ترجمھ سید خلیل خلیلیان چاپ دوم ص ۱۳۸

 

 اور وہ افرادکہ جنھوں نے معاویہ ،ولید ،ہشام ،ہارون اور منصور جیسے کو   امیرالمومنین کہاہے اور اسی نام کے ذریعہ ان کو نماز جمعہ کے خطبوں میں یاد کرتے ہیں اور دوسری جانب امام حسین علیہ السلام اور مسلم ابن عقیل علیہ السلام کو فساد،تفرقہ اور خروج کا سبب جانتےہیں  ۔ اور لوگوں کے معیار و میزان کو توڑ ڈالا اور جابجا کردیا ہے تو وہ عذاب خدا کے منتظر رہیں ۔

عدل کے ساتھ گفتگو

محل بحث آیات میں دسواں  امر یہ ہے ۔کہ

(وَ إِذا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَ لَوْ كانَ ذا قُرْبى‏  ) (انعام ۱۵۲)

اورجب بات کرو تو انصاف کے ساتھ چاہے اپنے اقرباء ہی کے خلاف کیوں نہ ہو ۔

اور یہ حقیقتا الہی تعلیمات میں سے عالی ترین تعلیم اور آسمانی آیین نامہ میں سے نورانی اور روشن آیین کا کام ہےاور کس قدر مشکل ہے کہ انسان گفتگو کرتے وقت حدود عدالت سے باہر نہ جائے اور اس کی تمام باتیں عدل کے صراط مستقیم پر ہوں ۔

امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام اپنی عمر کے آخری لمحات میں قرآن کریم کی پیروی کرتے ہوئے اپنے بیٹوں حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السلام کو اسی موضوع کے متعلق وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔

وقولا بالحق (1)

ہمیشہ حرف حق کہنا ۔یہ بات اس وقت اور بلند مرتبہ اور عظمت کی آخری بلندی تک پہونچ جاتی ہے کہ جب خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

(وَ لَوْ كانَ ذا قُرْبى)

حق بات کہوحق و عدل کے ساتھ گواہی دو اگرچہ اعزا و اقربا کے ہی خلاف کیوں نہ ہو ۔

--------------

(1):- :نہج البلاغہ،بخش نامہ ھا  ،ش ۴۷

 

لہذا تمہاری ذمہ داری ہے کہ فقط دوسروں کے متعلق حق با ت کہنے یا دوسروں کے خلاف گواہی دینے ہی میں منحصر نہیں ہوتی ہے ۔

بیشک : انسان کے قدم لڑکھڑا نے کا خطرناک مقام وہ جگہ ہوتی ہے کہ جہاں وہ اپنے کسی ایک عزیز اور رشتہ دار کے خلاف گواہی دینا چاہے اور وہ یہ  جبکہ جانتا ہے کہ بھائی یا بھتیجہ ،بہن یا بھانجہ ،باپ یا سالہ اصلی قصور وار ہیں۔اور  کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ممکن ہے اس کے درمیان ایک بے گناہ انسان پھنس جائے اور جرم ایک پاک و بے گناہ انسان کی گردن پر ڈال دیا جائے اور اس انسان کی گواہی سے قضیہ کا فیصلہ ہو سکتا ہے ۔ تو اس طرح کے موقع پر ایک شیر دل انسان اور سلمان و ابوذر جیسے ایمان کا مالک انسان ہو کہ جو اپنے اعزاو اقربا  سے اپنی آنکھوں کو بند کر لے ۔اور فقط خدا کو نگاہوں کے سامنے رکھے ۔اور حق کو ضایع و برباد نہ کرے اور عدالت کو اقرباء پر قربان نہ کرے ۔ عدل کی ارزش و قیمت ہر چیز اور ہر شخص سے زیادہ اوربزرگ شمار کرے۔اور علم و یقین کے ساتھ گفتگو کرے ۔

کسی چیز کی گواہی دینا {کہ جو ایسے لوگوں کیلئے نقصان کا سبب ہو کہ جنکا گواہی دینے والے سے کوئی تعلق نہیں ہے }کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔اور ایسے انسان کیلئے کوئی کمال نہیں ہے ۔ اسلئے کہ وہ گواہی دینے والے سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے ۔ کہ ان کی جانب سے کسی خطرہ کا احساس یا تعلقات کے ختم ہو جانے کا خوف اور رشتہ داروں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا ڈر پایا جاتا ۔در حالیکہ عزیزوں اور رشتہ داروں کے متعلق ان نا مساعد و ناخوشگوار حالات کا احتمال پایا جاتاہے ۔حقیقتا ایسے مقام پر آزاد اور آزاد فکر انسان ہی ہو سکتا ہے جو شہامت و جراٗت کے ساتھ واقعہ کی حقیقت کو بیان کرے ۔اور اپنے رشتہ داروں کو اصل قصور وار ،گناہگار اور مجرم ٹہرائے ۔اور تمام ناخشگوار حالات اور مشکلات کے سامنے ثبات قدم کا مظاہرہ کرے ۔

اور قابل غور مسئلہ یہ ہے یہاں پر موضوع عدل کو "قول" قرار دیا گیا ہے ۔

 

(وَ إِذا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا)

در حالیکہ ہم کو  اپنے "فعل " اور کاموں میں عدل کی رعایت کرنا چاہئے۔

        عظیم الشان مفسر ،مرحوم طبرسیرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : کہ یہ اس اعتبار سے ہے کہ اگر گفتار میں عدالت کسی کی عادت ہو جائے تو یہ خود عمل میں بھی عدالت کا سبب ہو جائے گا ۔گفتار میں عدالت افعال میں عملی عدالت کی جانب بڑھنے کیلئے اہم ترین قدم ہے ۔

یہ نکتہ قابل توجہ ہے لیکن اسکے متعلق دوسرے نکتہ کو بھی بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کا بات کرنے میں مبتلا ہونا عمل کے مرحلہ سے بہت زیادہ ہے ۔کہ گفتگو کرنا ہمیشہ انسان کے ساتھ ہے ۔اور منازعات و مشاجرات میں بھی انسان حکم اور فیصلہ میں شاہد و مئوید کے عنوان سے یا دوسرے عناوین سے گفتگو کرتا ہے  کہ جسکی وجہ سے خلاف واقع زبان کھولنے کا امکان رہتا ہے ۔اس مرحلہ پر فرماتے ہیں "یہ امر الہی ان اوامر بلیغہ میں سے ہے کہ جو کم الفاظکے ساتھ زیادہ مفاہیم جیسے اقرار ،گواہیاں ،وصیتیں ،فتوے ،فیصلہ ،احکام ،مذاہب اورامربالمعروف اور نہی از منکر کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے " (1)

بیشک: یہ وہ موارد ہیں کہ جو انسان کے حق و عدل سے انحراف کا سبب ہوتے ہیں اور اس بات کا ڈرپا یا جاتاہے کہ آدمی عدل کے خلاف کلام کرے ۔اور بالخصوص اگر رشتہ داروں کے متعلق ہو ۔

محمد ابن ابی حذیفہ کا معاویہ کے ساتھ سخت رویہ

        اس وقت ہم ایک عظیم الشان انسان کی داستان کو نقل کرتے ہیں کہ جنہوں نے بالکل صحیح اس آیت پر عمل کیا ۔ محمد ابن ابی حذیفہ معاویہ کی دایہ کے بیٹے تھے ۔

--------------

(1):- مجمع البیان ج۲ ، ص۳۸۴

 

اور امیر المومنین علی ابن طالب علیہما السلام کے اصحاب و انصار میں سے تھے ۔ وہ ایک مدت تک معاویہ کے زندان میں قید تھے ۔جس وقت ان کو زندان سے باہر لایا گیا تو معاویہ نے ان سے کہا : کیا اسکا وقت نہیں آیا ہے کہ تم ہوشیار ہو جائو اور گمراہی سے نجات حاصل کر لو ؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ عثمان مظلوم قتل کردئیے گئے اور عائشہ اور طلحہ و زبیر نے ان کے خون کے قصاص کیلئے خروج کیا ۔اور علی ؑنےحکم دیا تھا کہ عثمان کو قتل کردو ۔ اور آج ہم انکے خون کا مطالبہ کر رہے ہیں ؟ محمد ابن ابی حذیفہ نے جواب دیا : تم جانتے ہو کہ تمام لوگوں کی بنسبت  میرا تعلق تم سے سب سے زیادہ ہے اور سب سےزیادہ میں تمہیں جانتا ہوں ؟ معاویہ نے کہا : بیشک : محمد ابن ابی حذیفہ نے کہا :خدا کی قسم تیرے علاوہ کسی نے بھی قتل عثمان میں شرکت نہیں کی ۔ اسلئے کہ جب عثمان نے تجھ کو والی مقرر کیا تو مہاجر و انصار نے اس سے چاہا کہ تم کو معزول کرے اور اس نے ایسا نہیں کیا ۔ مجبورا  : انہوں نے ہجوم کیا  اور اس کو قتل کر دیا ۔ اور خدا کی قسم یہی طلحہ و زبیر و عائشہ تھیں کہ جنہوں نے لوگوں کو  قتل پر ابھارا اور عبد الرحمن ابن عوف ،عبد اللہ ابن مسعود اور عمار اور انصار بھی ان کی مدد کر رہے تھے ۔

اسکےبعد فرما یا : خدا کی قسم : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں جب سے تم کو پہچانتا ہوں۔ تمہارے رفتار و کردار زمانئہ جاہلیت اور اسلام کے زمانے میں مساوی ہے اور اسلام نے تمہارے اندر کوئی بھی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے نہ کم نہ زیادہ ۔

اسکی علامت یہ ہے کہ تم مجھ کو علی ؑکی دوستی کی وجہ سے سر زنش کر تے ہو ۔ حالانکہ وہ افراد کہ جنہوں نے علی ؑکے ساتھ قیام کیا اور جنگ میں ان کی مدد کی یہ وہ فراد تھے کہ جو مسلسل روزہ رکھتے تھے اور راتوں کو ،کھڑے ہو کر عبادت میں بصر کرتے ہیں وہ یا مہاجر تھے یا انصار ۔

لیکن جن افراد نے تیری مددکی ہے وہ منافقوں ،طلقاء اور آزاد شدہ گان کی اولادیں تھیں ۔انکو تونے اپنی مکاری سےان کے دین سے خارج کر دیا ۔اور انہوں نے بھی تیری بات سے دھوکا کھایا ہے ۔ اے معاویہ خدا کی قسم : جو کچھ تونےکیاہےوہ تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہےوہ ان سے بھی پوشید ہ نہیں ہوگا ۔

 

اگر وہ تنہائی میں اپنے بارے میں سوچیں اور حقیقت تک پہونچ جائیں تو جان لیں گے کہ خدا وند عالم کا قہر و غضب تیری اطاعت میں ہے۔اور خدا کی قسم میں ہمیشہ علی ؑ کو خدا و پیغمبرﷺکی وجہ سے دوست رکھتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں تجھ کو خدا و رسول (ص)کی راہ میں اپنا دشمن سمجھتا رہوں گا ۔ معاویہ نے حکم دیا اس کو زندان میں ڈال دیا جائے۔یہاں تک کہ زندان ہی میں دنیا سے رخصت  ہو گئے۔ (1)

اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ عامل کہ جو انسان  کوحق بات کہنے سے روکتا ہے ۔عاجزی ،احساس حقارت اور روحی اضطراب ہے لیکن ان تمام چیزوں کا سر انجام خدا سے ایک طرح کی غفلت ہے ۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین  ؑعمر و عاص کے متلق ارشاد فرماتے ہیں ۔

(و انه لیمنعه من قول الحق نسیان الآخرة) (2)

یہ آخرت سے فراموشی کا نتیجہ ہے کہ جس نےاسے حرف حق کہنے سے روک رکھاہے ۔

--------------

(1):- سفینۃ البحار، محدث قمّی ج ۱  ص ۳۱۳ ،مادہ حمد

(2):- نھج البلاغہ ،خطبہ ۸۳

 

    خدا وند کے عہد کی وفا

        آیات کریمہ میں خدا وند عالم سے کئے گئے عہد وپیمان کے وفا کرنے کو بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ (وَ بِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ) اور عہد خدا کو پورا کرو ۔

        اب ہم یہ دیکھیں گے کہ اس عہد سے مراد کیا ہے ؟ یہاں پر چند احتمالات پائے جاتے ہیں ۔

۱: ممکن ہے کہ اس سے انسان کا لوگوں سے کیا گیا ہوا عہد و پیمان مراد ہو ۔ چونکہ خدا وند عالم نے لوگوں کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرنے کا حکمدیا ہے ۔ لہذا اسکوعہد خدا کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہو ۔

۲: احتمال پایا جاتا ہے کہ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہو کہ جو انسان خدا سے کرتاہے اور کہتا ہے (عاھدت اللہ) میں خدا سے عہد کرتا ہوں کہ فلاں کام کو انجام دونگا اور یہ نذر کے مشابہ ایک چیز ہے لہذا مباحث فقہی میں باب عہد،نذر و قسم کے ابواب کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے البتہ اسکا پورا کرنا واجب ہے اسکی دلیل یہ آیت ہے ۔

(وَ أَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذا عاهَدْتُم‏) (1)

 اور جب کوئی عہد کرو تو اللہ کے عہد کو پورا کرو ۔

        ۳: ممکن ہے اس سے مراد قوانین الہی اور احکام اسلامی ہوں ۔چونکہ خدا وند عالم نے دینی تکالیف کو لوگوں کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اور ان سے چاہا ہے کہ ان کے پابند ہوں اور ان کی خلاف ورزی نہ  کریں ۔ارشادہوتا ہے ۔

(إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَى السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَيْنَ أَنْيَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ كانَ ظَلُوماً جَهُولاً) (72) (2)

--------------

(1):- سورہ نحل ،آیۃ ۹۱

(2):- سورہ احزاب ،آیہ ۷۲

 

بیشک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے

اسکے اٹھانے سے انکار اور خوف ظاہر کیا ۔ بس انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا کہ انسان اپنےحق میں  ظالم اور نادان ہے ۔

ہو سکتا ہے کہ یہ اس معنی پر شاہد ہو ۔اسلئے کہ امانت کو تاسلیف الہی اور مقررات دینی کے معنی کئے گئے ہیں ۔

۴: یہ احتمال بھی پایا جاتا ہے کہ اس  سے مرادخدا وند عالم کاوہ عہد و پیمان ہے کہ جو خدا وند عالم نے اپنے بندوں سے خصوصا شیطان کے بارے میں لیا اور لوگوں سے شیطان کی دشمنی  اور اس سے بچنے کو کہا ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے ۔

(أَ لَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يا بَني‏ آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبينٌ (60)وَ أَنِ اعْبُدُوني‏ هذا صِراطٌ مُسْتَقيمٌ) (61) (1)     

اولاد آدم کیا ہم نے تم سے اس با ت کا عہد و پیمان نہیں لیا تھا کہ خبردار شیطان کی عبادت نہ کرنا کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے [۶۰] اور میری عبادت کرنا کہ یہی صراط مستقیم اور سیدھا راستہ ہے [۶۱]

        فی الحال محل بحث آیت میں اس عہد و پیمان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور لوگوں سے چاہا ہے کہ تا ابد اسکے پابند رہیں ۔ شیطان سے دوستی کیلئے ہاتھ نہ بڑھائیں  اور اسکی اطاعت و پیروی کا عہد نہ کریں ۔ اور یہ احتمال محل بحث آیت میں پائے جانے والے ان تمام احتمالا ت میں ظاہر اور نزدیک ترین ہے ۔ عہد الہی کی وفا یہ ہے کہ انسان شیطان کو اپنا دشمن شمار کرے اور اس بات کو اپنے دل و دماغ میں بٹھا لے کہ شیطان اسکا کھلا ہوا دشمن ہے ۔اور اس سے دشمنی کرنے میں کچھ بھی کمی اور کوتاہی نہیں کرتا ہے ۔کیا بہتر ہے کہ جو اس کی بھلائی چاہے اور اس کی نجات اور خوشبختی کے بارے میں سوچے اس تک پہونچے ۔

--------------

(1):- سورہ یس ، آیۃ ۶۱،۶۰

 

اس بحث کے آخر میں یہ یاد  دلانا  ضروری ہے کہ ان نکات اور احتمالات میں سے ہر ایک اپنی جگہ  اہمیت کا حامل ہے ۔ اور ہر ایک احتمال اپنی جگہ کے قابل ہے ۔

مسلمان اور قرآن  کریم کےتابع افراد کو چاہئے کے ہر اس عہد و پیمان کیلئے کہ جو ایک  دوسرے سے کرتاہے ۔اہمیت و ارزش کا قائل ہو ۔

اور دوسروں سے کئے گئے عہد و پیمان  سے نہ  پھرے تاکہ دوسروں کے اعتماد کو حاصل کر سکے۔اور اپنی انسانی اور اسلامی شرافت کی حرمت کو محفوظ رکھ سکے ۔اور اگر خدا سے کوئی  عہد کرے کہ میں فلاں کام انجام دوںگا اور فلاں برے عمل سے پرہیز کروں گا تو خدا سے کئے گئے اپنے اس معاہدہ پر سختی سے پابند رہے۔ یا اگر کوئی نذر کرے یا ان دو [نذر وقسم} کھائے تو قسم کو محترم شمار کرے اور اس کو پورا کرے ۔

ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ احکام الہی اور قوانین اسلامی کو انجام دینے میں بہت زیادہ کوشش کرے ۔اور اپنے تعہد اور پابندی کو بیان کرے ۔جیسا کہ پیغمبر اکرم ﷺ کے حالات زندگی میں وارد ہوا ہے ۔ انکی بعض ازواج کا کہنا ہے کہ ہم ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جیسے ہی وقت نماز ہوا اور مئو ذن نے اذان کہی پیغمبر اکرمﷺ اس طرح سے پھرے کہ گویا ہم کو پہچانتے ہی نہیں ہیں ۔یعنی نماز کو انجام دینے کیلئے اس قدر بے چین تھے۔

اور ان مقامات پر بھی کہ جہاں شیطان کے گمراہ کرنے کا احساس کرو ۔یا وسوسئہ شیطانی پیدا ہو تو اپنے تمام وجود سے اس سےمقابلے کیلئے آمادہ ہو جائو۔

 اور اپنے وعدہ کو یاد کرو اور اسکو فراموش نہ کرو کہ خدا وند عالم کے قول کےمطابق شیطان اسکا دشمن ہے ۔لہذاابلیس کو ایک ٹھیس پہونچائواور اس کو چھوڑ دو ۔  

 

۱۰:صراط مستقیم کی پیروی

        اس آیت میں آخری نکتہ صراط مستقیم کی پیروی کرنا اور مختلف راہوں پر نہ چلنا ہے بیشک : وہ مطالب کے جو ان آیات میں بیان کئے گئے ہیں صراط مستقیم ہیں جیسا کہ تصریح فرماتا ہے ۔

(وَ أَنَّ هذا صِراطي‏ مُسْتَقيما)

اور بیشک یہی میرا سیدھا راستہ ہے ۔

مجبورا  اور عقل سلیم کی بنیاد پر اس راہ پر چلنا چاہئے ۔لہذا  ارشاد فرماتا ہے۔

(فَاتَّبِعُوه‏)

پس اس صراط مستقیم کی اتباع کرو ۔اور اس سیدھے راستہ سے کہ جسکی انتہا خدا ہے۔اور انسان کو اس سےمتصل کر دیتا ہے۔منحرف نہیں ہونا چاہئے اور مختلف مذاہب و مسالک کی جانب متوجہ نہیں ہونا چاہئے ۔اور یہود، نصار ی ،مجوس ،مذہب الحاد ،اور ما وراء طبیعت کا انکار کرنے والے یا دوسرے لا ابالی مذاہب و مسالک اور سیکڑوں اور ہزاروں بدترین مقاصد رکھنے والوں کی جانب  متوجہ نہ ہونا چاہئے۔اسلئے کہ یہ انسان کو صراط مستقیم پر چلنے سے روکتے ہیں ۔اور انسان کے بلند و بالا مقاصد میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور اسکو تباہی اور فساد کے راستہ پر لگا دیتے ہیں ۔

اور وہ انسان کہ جو صراط مستقیم کی ہدایت حاصل کر چکا ہے ۔اور آسمانی ہدایت کے ذریعہ صحیح ،عادلانہ اور حق کے راستہ کو پا چکا ہے ۔کیوں کہ ان مختلف راہوں کے  زریعہ سے کہ جو  انسان کو ہلاکت  ونا بودی کی جانب ڈھکیل دیتے ہیں دل لگی کرتا ہے ۔اور کیوں مختلف اور پراکندہ راہوں کی جانب کہ جو اسکو گمراہ کرتی ہیں متوجہ ہوتا ہے ؟ 

 

آخر: کس طرح سے ممکن ہے کہ وہ ترقی بخش برنامے  اوروہ دس امور پر مشتمل ہدایات [ کہ جو ابن عباس کی تعبیر کے مطابق قرآن کریم کی آیات محکمات میں سے ہیں۔

 نا دیدہ شمار کریں اور ان کو چھوڑ دیں اور منحرف کنندہ و بغیر سوچے سمجھے بنائے ہوئے راستوں کی طرف ادھر ادھر ٹھوکریں کھائیں ؟ کیا وجدان سلیم اس طرح کے رویہ کو قبول کرتاہے۔ اور اس بات  کو پسند کرتا ہے کہ انسان ان عالی مطالب کو کہ جو اسکے بیدار ضمیر کی آواز ہے چھوڑ دے اور شیطانی منادیوں کی آواز کے پیچھے کہ جو ان میں سے ہر ایک مکاری کرتا ہے اور وہ مخصوص دعوی ٰکہ جو وہ رکھتا ہے اس پر چل پڑے ]اور کیا ایسے کام کا انجام ایک جاہلانہ عمل کے ساتھ جہنم کی پستی اور دوزخ کے دردناک عذاب کے علاوہ اور کچھ ہو سکتا ہے؟ کیا طلحہ و زبیر کا انجام سعادتمندانہ تھا ؟اور کیا ان لوگوں کا فائدہ کہ جنہوں نے امام بر حق کو چھوڑ دیا اور چند روزہ دنیوی حکومت کی خاطر ولی خدا کو بھلا دیا اور صراط مستقیم سے دوری اختیار کر لی تھی ۔مشکلات ،نقصان ،ندامت اور پریشانی کے علاوہ کچھ اور تھا ؟

کیا زیاد ابن ربیہ [کہ جو راہ حق کو اختیار کرنے یعنی امام علی ؑاور مدتوں خدا کے ولی اعظم کی خدمت کرنے کے بعد معاویہ کی جانب چلا  گیا اور اس فساد کی جڑ سے جا ملا] کا آخری انجام اچھا تھا ؟یا اپنے اس غلط عمل کے ذریعہ وہ ظلمت کا اسیر اور فساد میں غرق ہوگیا اور ذلت و رسوائی کا قیدی ہو گیا تھا؟

اور دور حاضر میں انقلاب اسلامی سے دشمنی رکھنے والے منافقین کہ جنہوں نے راہ خدا کو ترک کیا اور مقدسات الہی کو پس پشت ڈال دیا اور اپنے نصیحت کرنے والے اور دلسوز علماء کی ہتک حرمت کی ۔اور بہکانے والے شیاطین کی آواز پر لبیک کہی۔ کیا انہوں نے شرف و بلندی حاصل کی اور معاشرہ میں کوئی بلند و بالا مقام حاصل کیا ؟

نہیں :بلکہ انکے کاموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شرف و انسانیت سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔اوریہ نوبت آگئی کہ یہ لوگ اپنے مخالفوں کے لئےبد ترین کلمات استعمال کرتے ہیں۔

 

اور زندگی کی بھیک لینے کیلئے اپنے دین و ملت  اور مملکت کے دشمن کو پناہ دیتے ہیں اور ذلت و رسوائی کو برداشت کرتے ہیں   اور کیسے کیسے بدترین اعمال انجام دینے پر مجبور ہیں ۔

آخر کار ذلت و رسوائی کو خود اپنے لئےاور اپنے بیوی بچوں کیلئےخریدلیا اور انسانیت کے دشمن افراد کی غلامی پر ذلت و خواری سے راضی ہیں  ۔

بیشک خدا سے منحرف ہونے اور صراط مستقیم سے دوری کانتیجہ یہ ہے کہ وہ  انسان کو پستی اور ذلت و رسوائی کی طرف ڈھکیل دیتا ہے ، اور وہ برنامے کہ جو کوئی بھی شریف انسان برداشت نہیں کرتا ہے اسکے اوپر لاد دئیےجاتے ہیں ۔

آوارگی و بے چارگی ،گھر اور خاندانی تعلقات سے دوری اور غیر اسلامی پست فرہنگ کے کو اپنانا اور بے بنیاد عناصر کے مقابلے میں چاپلوسی کرنا اور دین کی بے حرمتی کا تلخ نتیجہ اور شیطان رجیم کی پیروی ہے ۔

خدایا ؛صراط مستقیم تیری اور تیرے تمام مطلوب و محبوب انبیاء و اولیاء کی آرزو ہے۔ لذ ا ہماری حیات کو اس نورانی راہ پر قرار دے ۔اور ہم کو ایک لمحہ کیلئے بھی اس سے جدا نہ کرنا ۔

                                                آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments powered by CComment