تالیف:ڈاکٹر اسد وحید قاسم
مترجم : ابن حسین بن حیدر
عرض مترجم
زیر نظر کتاب حقیقت کے متلاشی ڈاکٹر اسد وحید قاسم صاحب کی تالیف ہے ہیں جنہوںنے حق تک پہنچنے کیلئے اس وقت تک جد وجہد کی جب تک اللہ نے ان کو صراط مستقیم کی رہنمائی نہ فرمادی(اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جدوجہد کی ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے ۔عنکبوت 69)اور ان کے ضمیر کی آواززبان پر ان الفاظ میں نمودار ہوئی''میرے عقیدے کے مطابق شیعہ مذہب ہی اسلام ہے اور اسلام ہی شیعہ مذہب ہے ''۔(المتحولون ،ج1، ص 462)
مولف مقبوضہ فلسطین کے دارالاگوسان نامی گائوں جو دریائے عمان کے مغربی کنارے پرواقع ہے میں پیدا ہوئے ،ہائی سکول پاس کرنے کے بعد وہ ملک عمان چلے گئے جہاں انہوںنے انجینرنگ میں ڈپلوما کی ڈگری حاصل کی اور پھر فلپائن میںپہلے ڈگری اور بعد میں ماسٹرس ان کنسٹرکشن منیجمنٹ( construction management)کی ڈگری حاصل کی۔آخر میں انہوں نے اسلامک پبلک اڈمنسٹریشن (Ph.D in islamic public administration)میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ڈاکٹر صاحب ایک صاحب بصیرت مسلمان تھے جو ایک اہلسنت گھرانے میں پیدا ہوئے اور شیعوں کے خلاف نفرت اور تعصب کے پروپگنڈے سے تنگ آکر بعد تحقیق اپنے کچھ دوستوں سمیت مذہب شیعہ قبول کر لیتے ہیں اور اپنے تحقیقی سفر کو اس کتاب میں بیان کرتے ہیں۔ اس کتاب کا نام انہوں نے'' حقیقت مذہب اثناعشریہ'' رکھاجو عربی زبان میں چھپ چکی ہے ۔ اسکے علاوہ اس دانشور نے دوسری مشہور زمانہ کتاب ''امامت و خلافت اور اسکے جدید آثار'' لکھی اور تیسری کتاب''اسلامی مدیریت پر ایک تحقیق'' لکھی جو اصل میں اسکی پی۔ایچ ۔ڈی تھیسیس ہے۔ پہلی کتاب کا فارسی ترجمعہ ایران کے استاد جواد مہری نے بھی کیا ہے۔ انگریزی ترجمہYASIN T al JIBOURI (یاسین جبعوری )نے کیا ہے او ر اسکا نام (search for truth) رکھا۔ میں نے اسے مجمع جہانی اہلبیت کی ویب سائٹ www.ahl-ul-bayt.org سے ڈاؤن لوڈ کرکے اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی اور اسکا نام '' میں حسینی ہوگیا '' رکھا اپنے خالق حقیقی سے اس مشکل کام کے لئے مدد کی دعا کی جو شاید قبول ہوئی اور ترجمہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
ترجمہ کرتے ہوئے اپنی کم علمی کا پورااحساس ہوا اور کیوں نہ ہوتا چونکہ مصنف کی ذہنی روش کو قائم رکھنا ہی تھا اور کتاب اصل عربی سے انگریزی زبان کے قالب میں ڈھل چکی تھی اور اب اردو قالب میں ڈھلنے کی منزل طے کرتے ہوئے میری عقل و دانش پر حاوی ہوئی کیونکہ میں اردو زبان کی دنیا سے اجنبی ہوں۔ میں اپنے خالق و مالک سے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے پنا ہ مانگتا ہوں اور معصومین علیہم السلام کی بارگاہ میں یہ ہدیہ پیش کرتا ہوں،اگر قبول ہوجائے تو ہمیں زمین و آسمان و ما فیہما کی نعمتوں سے زیادہ قیمتی بخشش حاصل ہوگی۔ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے خاصکر مجھ جیسے نافہم عاصی کیلئے۔میں خود بھی حیران ہوں کہ میں ایسے کام ہاتھ میں کیوں لیتا ہوں جبکہ میں اس وادی کے نشیب و فراز سے بالکل بے بہرہ ہوں۔شاید اسکا راز یہی ہے کہ یہ ایک مظلوم ترین قوم کی درد بھری آہوں کا ثمرہ ہے جو میرے ارد گرد کے ماحول کی خبر گیری کرکے مجھے للکارکر احساس دلا رہا ہے کہ خواب غفلت سے جاگ زرا اوراللہ کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لئے سامان سفر باندھ کے اپنی نوبت کا انتظار کر۔ اس قوم کی مظلومیت کی ایک معمولی مثال یہاں پیش کرتا ہوں'' میرا ایک دوست ہے جس کے شیعوں کے بارے میں وہی فرسودہ اور بیہودہ تصورات تھے جو کہ ایک تعصبی جاہل کے ہوتے ہیں اور مجھ سے چھوٹے چھوٹے مناظرات کرکے اور تقریباََ بیس پچیس کتابیں پڑھ کر نوے فیصد شیعت کے قریب آیا ہے۔اس نے آج یعنی تین مئی 2014 ء کو ا سی ظلم کی باتیںکرتے بتایا کہ ایک دفعہ ایک ہمسایہ شیعہ گا ؤں کے تین چار لوگوں نے میرے دادا کے حقہ میںکش لگالئے (تمباکو پیا)اور جب دادا کو ان کے شیعہ ہونے کی خبر ہوئی تو وہ ان سے فحش کلامی سے پیش آئے اپنا حقہ بھی توڑ ڈالا اور ان سے اسکی قیمت بھی وصول کی ''۔
اس جیسی بہت سی کتابیں میرے پاس موجود ہیں جن سے شیعت کی حقانیت ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ان دانشوروں نے روز روشن کی طرح ثابت کیا کہ مذہب شیعہ کتب اہلسنت میںسے اچھی طرح ثابت کیا جا سکتا ہے۔اس کی مثال ایک اعلیٰ تحقیقی کتاب'' حقیقت گمشدہ ''تالیف شیخ معتصم سید احمد سوڈانی سابق اہلسنت میں اسطرح درج ہے: جب شیخ معتصم کو ایک شیعہ بنام'' عبدالمنعم''( جو کہ کچھ عرصہ پہلے شیعہ بن چکا تھا) سے ملاقات ہوتی ہے جو معتصم کے پوچھنے پر کہتا ہے : چار سال کی تحقیق سے میری کمرٹوٹی اور وہابی مذہب کو سرزمین سوڈان میں داخل ہونے پر اور چھا سمجھ کر اسکا ماخذ ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھے اصلی دین یعنی شیعہ مذہب مل گیا جس پر شیخ معتصم نے کہا کہ تم نے جلد بازی میں غلط فیصلہ کیا ہے۔
منعم نے کہا کہ تم خود تحقیق کیوں نہیں کرتے جس پر شیخ معتصم نے کہا کہ مجھے شیعوں کی کتا بیں کہاں سے ملیں گی۔منعم نے کہا کہ شیعہ مذہب کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ یہ اہلسنت کی کتا بوں سے ثابت ہوتا ہے چہ جائیکہ شیعوں کہ اپنی ہزاروں کتا بیں ہیں ۔ اور شیخ معتصم بھی منعم کی طرح چار سال بعد شیعان آل محمد علہم السلام میں میں شامل ہوگئے۔ میں ان سب دوستوں کا شکر گذار ہوں جنہوں نے سخنے،قدمے یا درہمے اس کار خیر میں میری حوصلہ افزائی کی، اور اللہ سے انکے لئے بلند درجات کی دعاکرتا ہوں تاکہ وہ آئندہ بھی خدمت خلق خاص کر علمی میدان میں اپنی ذمہ داری کو نبھائیں۔ جناب مولانا اظہر عباس صاحب دہلی نے اردو زبان کی تصحیح جنکا میں بیحد مشکور ہوں ۔ آخر میں اپنے اہل خانہ خاص کر اہلیہ کا بھی کافی مشکور ہوں جس نے ناسازگار صحت کے باوجود ہمہ وقت اس کام میں میری حوصلہ افزائی کی۔ اللہ انہیں بھی بحق محمد و آلہ محمد با صحت و سلامت رکھے اور ہم سب کو دین اسلام کے احکام پر عمل پیرا ہونے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین
عاصی و سرا پا گناہگار
ابن حسین بن حیدر
مسلمانوں کی موجودہ حالت زار سچ مچ قابل رحم ہے۔کیونکہ سامراجیت کے ہاتھوں امت مسلمہ کے درمیان مسلکی اختلافات اور بدامنی پھیلی ہوئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیرقومیں مسلمانوں ان پر اسطرح حملہ آور ہوئی ہیں جسطرح بھوکے لوگ حرص بھری چاہت کے ساتھ لذیذ(وازوان)ڈش پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔
اسلام دشمن عناصر نے مسلمانوں کے درمیان خلیج کو اتنی وسعت اس لئے دی تاکہ یہ اپنے منحوس عزائم کو پورا کر سکیںاور یہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوائے بغیر ہر گز ممکن نہ تھا ۔ دشمنان اسلام کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا کہ وہ اسلام کی بہارِ نو سے مسلمانوں کو خوش و خرم اور سرشار دیکھیں
انقلاب اسلامی ایران سے مغرب کو ایک بہت بڑا دھچکا لگا چنانچہ وہ متحد ہوکر انقلاب اسلامی ایران کو دبانے اور اس کے اثر ورسوخ کو ختم کرنے کے لئے جہد مسلسل کے عنوان سے بر سر پیکار ہوگئے۔
پچھلے کچھ سالوں سے یہ لوگ شیعہ ،سنّی کے درمیان مسلکی منافرت کو ہوا دینے میںسر جوڑ کر مصروف ہیںاور یہ کام مسلم ممالک میںانہوں نے اپنے چیلے چپاٹوں کے سپرد کر رکھا ہے جس کی وہ ہر طرح سے پشت پناہی کر رہے ہیں۔خاص طور سے سعودی حکمرانوںکے۔ کہ جن کے زیر تسلط دو متبرک جگہیں ہیں جس کی خدّامی کے بہانے وہ سب کچھ کرتے ہیں ۔اُن کے مبلغوں کا کام صرف اپنے حکمرانوں کی تعریف کرنا ہے وہ اپنے زر خرید ہاتھوں کو ہدایات جاری کئے ہیں کہ وہ صرف ایسی کتابیں لکھیں اور شائع کرائیں جن میں شیعوں پرکفر کا الزام ، یہود و نصاریٰ سے مشابہت اور دوسرے خرافات ان سے منسوب ہوں۔اس مکروہ چال کے ذریعے بدقسمتی سے بہت سارے سیدھے سادھے لوگ شکار ہوئے ہیں،جنہوں نے ان زہر بھری کتابوں پربلا تحقیق و تصدیق بھروسہ کیا۔ ایسی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں تمام اسلامی ممالک میں پھیلائی گئیں ہیں ۔
چنانچہ دوسرے مسلمانوں کی طرح مجھ تک بھی یہ مہم پہنچی جو ایسے عناصر نے شروع کی تھی جنکا دعویٰ تھا کہ شیعہ کافر،یہودی و نصاریٰ ہیں اور انکا مقصد سنی مسلمانوں کو ان عقائد سے روشناس کرانا اور انکے خطروں سے بچانا تھا۔ میں نے پہلے ہی اس تحریک کو رد کیا کیونکہ ان کا طریقہ نا زیبا اور غیرشائستہ ہوتاتھا اور وہ شیعوں کے عقائد بڑھا چڑھا کر اور جذباتی انداز میں سنسنی خیز بنا کر پیش کرتے تھے۔حالانکہ میں فلسطین کے ایک سُنی گھرانے میں پیدا ہواجہاں اکثریت اہلسنت والجماعت مسلک کی ہے اور میرے اُس وقت کے عقیدہ کے مطابق چونکہ مسلک اہلسنت ہی برحق تھا،میں یہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ شیعہ کس طرح کافر ہیں۔مجھے اتنا ہی معلوم تھا کہ وہ حضرت علی کی بہت قدر کرتے ہیںاوروہ ان کو دوسرے صحابہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ مجھے اسکا علم نہیں تھا کہ ان(علی ) کامقام اس سے زیادہ اور کیا ہے؟ جس کے اکثر اہلسنت قائل ہیں،یعنی وہ صرف خلفائے راشدین میں چوتھے ہیں،وہ صرف ایک صحابی ہیں جن کو وہ دوسرے صحابہ جیسے معاویہ اور عمر وعاص کے برابر مانتے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق حضرت علی کے مقام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے پر، شیعوں کوملت اسلامیہ سے خارج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔انکے کچھ ایسے بھی دعوے تھے کہ شیعہ حضرت علی کو ختم رسل (ص) پر ترجیح دیتے ہیں،شیعہ عقیدہ ہے کہ جبرائیل نے وحی پہنچنانے میں غلطی کی ہے،وہ حضرت علی کو خدا بھی مانتے ہیں ان کا قرآن ہمارے قرآن سے مختلف ہے اور اسی طرح کے اور بہت سے الزامات۔لیکن میں نے ان کی طرف کبھی کوئی توجہ نہیں دی اس کی وجہ میرے ہائی اسکول کے استادکا وہ قول ہے جس کو میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ'' شیعہ اثنا عشریہ یا فرقہ جعفریہ مذہب اہلسنت کے بہت قریب ہے اور اس کے ماننے والے مسلمان ہیں''۔یہ الفاظ میں نے اس شخص سے سنے تھے جسکی حقیقت پسندی،رحم دلی،علمی معلومات، اعتدال پسندی اور مذہبی گفتگو میں ایک خاص انداز کا میں شاہد تھا،یہ الفاظ میرے کانوں میں بہت دنوں اور سالوں سے گھونج رہے تھے۔ان کے علاوہ بھی میں اپنے ایک رشتہ دار سے بہت متاثر ہوا جو دوسروں کو اللہ کی راہ کی دعوت دیتا تھا اور مجھے اسکے خلوص اور مسلمانوں کی یکجہتی کیلئے اسکی دلچسپی پر کوئی شک نہیں ہے۔
اس تصور نے میرے ذہن میں اس وقت تک پختہ جگہ بنائی جب یہ ایک سچی حقیقت بنی جب مجھے معلوم ہوا کہ بہت سے اہلسنت دانشور شیعوں کو مسلمان مانتے ہیں جو اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ان میں سے شہید حسن البنات،شہید سید قطب،علامہ مودودی، شیخ محمد کشک،علامہ شیخ محمد غزالی،شیخ محمد شلتوت،پروفیسر البہنصاوی، التلماصانی،انور الجندی،حسن ایوب،سعد حاوی،فتح یکُن،ابو زہرہ،یوسف العزم، پروفیسر راشد الگھنوچی اور بہت سارے جن کی تصانیف پڑھنے کا مجھے موقع ملا ہے جو کہ ایک نسل کی الماریوں کی زینت بنی ہیں جو اسلام کے بہار نو کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ بس بغیر شک میرے ذہن میں یہ داخل ہوا کہ شیعہ مسلمان ہیں۔
میں نے شیعہ اور سنی میں کوئی فرق نہیں کیا کیونکہ میں نے ان کے اختلاف کو نظر اندازکرنے کا فیصلہ کیا جو کسی طرح سے بھی ایک کو مسلمان اور دوسرے کو غیر مسلم نہیں بناتے ہیں۔ میںاختلافات کی پوری تفصیل نہیں جانتا تھا اور نہ میں ان پر سوچنے یا تحقیق کرنے کیلئے تیار تھا کیونکہ میرا خیال تھا کہ اس بارے میں تحقیق کرنا گویا تاریخ کی بھول بھلیوں میںپھنسنا ہے جس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے نہیں۔اس وقت میرا یقین تھا کہ ان اختلافات پر غور کرنا تفریق کی بنیاد ہے جن سے ہر ایک کو دور رہنا چاہئے خاص کربحث ومباحثہ سے کیونکہ دونوں فریق مسلمان ہیں۔میں شیعہ اور سنیوں کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھتا تھا جس طرح میں علی اور معاویہ کو دیکھتا تھا کہ دونوں مسلم تھے اسکے باوجود کہ ان کے درمیان کیا پیش آیا۔
مغربی ممالک کی طرف میرا تعلیمی سفر 1980 کے آس پاس تھا جب اس منافرت نے شدت اختیا ر کی اور جب شیعوں کودھمکانے کی آوازیں اٹھائی گئیں۔ وہ آوازیں جو انقلاب ایران کے خلاف تھیں اور اسکارہنما جو میرے خیال کے مطابق اس پروپگنڈے کا خاص نشانہ تھا۔اکثر اوقات، میں بھی اس مخالفت کا نشانہ بنا صرف اس وجہ سے کہ میرا یقین تھا کہ شیعہ کسی بھی طرح کافر نہیں ہیں۔جب بھی میں نے اپنے آپ کوایک حملہ سے بچانا چاہا تو اس سے زیادہ زوردار دوسرا حملہ مجھ پر ہوتا تھا اور حالات یہاں تک پہنچے کہ ایک دفعہ کسی نے مجھ سے کہا کہ مجھے ایک ہی راستہ اختیار کرنا چاہئے یعنی ( مجھے اپنا مسلک صاف ظاہر کرنا چاہئے )، یہ نہیں ہوسکتا میں ایک ہی وقت میںسنی بھی رہوں اور شیعو ں کا ہمدرد اور انقلاب ایران کا حمائتی بھی، کیونکہ ان کے مطابق یہ عقیدہ کا معاملہ تھا۔میں یہ حقیقت چھپا نہیں سکتا ہوں کہ شیعہ مسلک کے مکمل تفصیلات معلوم نہ ہونے کی وجہ سے مجھے سخت اور پریشان کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کچھ لوگوں کے ان د عوؤںں کا جواب کیسے دوں جو شیعوں کے عقائد جیسے امامت،عصمت،تقیہ،عقیدہ صحابہ وغیرہ پر انکو مکمل طور سے دین اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔ مجھ میں ان عقائد کو جاننے کیلئے بہت ہی دلچسپی بڑھ گئی۔اسطرح میں وہ کرنے کیلئے آمادہ ہوا جس سے اکثر لوگ فرار کرتے ہیں یعنی ''سچائی کی تلاش'' تاکہ مدتوں بھری شک و حیرانگی کا خاتمہ ہوجائے۔
لیکن کیسے ؟ میں ان سنی مصنفوں کی کتابوں سے مطمئن نہیںتھا جو شیعوں کو کافر کہتے ہیں؟میں نے اس وقت تک ان بہت کو پڑھا تھا لیکن مطمئن نہیں تھاکیونکہ وہ اچھے آداب اور علمی تناظر سے محروم تھے جس کیلئے علمی گہرائی اور ثبوت پیش کرناضروری شرط ہے۔اور کیا میں اعتدال پسند اہلسنت جیسے ا لغزالی،البہنصاوی ،عزیز دین ابراہیم وغیرہ کی آرائوں سے مطمئن ہوجائوں جو ان شیعہ،سنی نظریاتی اختلافات کو خواہ مخواہ کی مصنویٔ پریشانی سمجھتے ہیں۔ لیکن ان نظریات سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے،بلکہ وہ ا س مسئلہ کو اسی جگہ معلق رکھتے ہیں جہاں سے وہ شروع ہواہے۔میرے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا کہ میںسچائی کو ان کتابوں سے تلاش کروں جو شیعوں نے خود لکھیں ہیں۔مگر پہلے میں نے اس رائے کو بھی رد کیا کیونکہ میں نے سوچا کہ شیعہ اپنے دلائل کا دفاع ان احادیث سے کریں گے جو ان کے اپنے مراکز سے ماخوذ ہوں جوکہ اہلسنت کو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہوں گے۔آخر کار میرے ہاتھ''المراجعات''نامی کتاب لگی جو مجھے ایک دوست نے عاریتاََ دی جس سے مجھے جان پہچان ہوئی خوش قسمتی سے وہ دوست بھی میری طرح سچائی کا متلاشی تھا۔اس کو وہ کتاب ایک شیعہ دوست نے پڑھنے کیلئے اس وقت دی تھی جب اس نے ایک ایسی کتاب مانگی تھی جس سے وہ شیعوں کے عقائد جان سکے۔ حالانکہ المراجعات کا مصنف شیعہ ہے پھر بھی میری تعجب کیلئے وہ شیعہ عقائد کے ثبوت اہلسنت کی خاص کتب احادیث یعنی بخاری و مسلم سے پیش کرتا ہے۔ واقعی میں نے اس کتاب میںوہ پایا جس نے مجھے حقیقت کی تلاش کیلئے ہمت افزائی کی،وہ حقیقت جس سے لوگ حیران اور متفرق رہے۔میںاکثر اس کتاب کے مضامین(جو عالم اہلسنت علامہ سلیم بشری جامعةالازھرکے اس وقت کے سربراہ اور شیعہ عالم علامہ شرف الدین الموسوی لبنان کے درمیان خط و کتابت کا مجموعہ ہے) پر بحث و تحقیق میں اپنے دوستوں کو شریک کرتا تھا ۔یہ مراسلہ خاص مسائل کے گرد گھومتا ہے جنمیں شیعہ سنی اختلافات ہیں۔
میں اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتا کہ جو میں نے اس کتاب میں پڑھا،میرے لئے بہت بڑی حیرانگی کا باعث تھا اور یہ مبالغہ نہیں ہے کہ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا۔میرے تصور میں ہی نہ تھا کہ شیعہ ،سنی اختلافات ایسے ہوںجو اس کتاب میں بیان کئے گئے ہیںاس کے مطالعہ کے بعدمجھے ماننا پڑا کہ میں تاریخ اسلام اور حدیث سے ناواقف ہوں اوروہ ہرکوئی جو اس مسئلہ سے وابستہ ہے اور جن سے اس بارے میں میری ملاقات ہوئی جنمیں وہ بھی ہیں جنہوں نے شریعت میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں،جیسا کہ آپ اس تحقیق کی تفصیلات میں دیکھیں گے۔کتاب میں بیان کئے گئے واقعات سے ہوئے صدمہ کی نوعیت اور اس کے باوجود کہ مؤلف کے اس دعوے، کہ اس نے یہ سب دلائل قرآن اور صحاح ستہ ،مسلم و بخاری سے ثابت کئے ہیں،ہم میں سے کچھ نے ان کتابوں کی صحت پر اشکال کرنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک دوست نے کہا کہ اگر اس شیعہ مصنف نے جو کہا ہے سچ نکلااو رصحیح بخاری میں ایسے حقایق موجود ہیں تو آج سے میں بخاری کے کسی بھی حدیث پر بھروسہ نہیں کروں گا ۔ اصل میں اسکا یہ مطلب نہیں تھا بلکہ یہ کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ شیعہ مصنف صحیح ہوسکتا ہے۔ہم سب نے یہ خواہش کی کہ کاش اس کتاب کے مضامین صحیح ہوتے،یہ ہمارے لئے بہت کچھ ہوتا تاکہ ہمیں شیعہ سنی اختلافات کے پس پردہ تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوتے۔یہ ضروری بن گیا کہ المرا جعات کے مضامین کو ہم بذات خودصحیح بخاری سے جانچ پڑتال کریں۔اللہ نے بیشک ہمیں کامیابی عطا کی جب ہم نے بڑی محنت و مشقت سے صحیح بخاری کا مطالعہ کیا۔میں بالکل حیران نہیں تھا جب میں نے صحیح بخاری میں وہ سب حوالے دیکھے جو شیعہ مصنف نے پیش کئے ہیں۔کچھ لوگ حیران ہونگے کی صحیح بخاری پر اتنی تاکید کیوں ؟ یہ اسلئے ہے کہ جو دلائل وہ اللہ کی کتاب سے نچوڑتاہے وہ تشریح طلب ہیں ۔ اور ایک ہی آیت کے مختلف معنیٰ ہوتے ہیں جو حالانکہ ہر ایک کی اپنی تشریح کے عین مطابق ہوتے ہیں۔جیسے قرانی آیت '' اس نے تیوری چڑھائی کیونکہ ایک اندھا آدمی اسکے پاس آیا ''(80۔12)۔ان آیات میںاس آدمی کا نام جس نے تیوری چڑھائی اور اندھے کانام بھی ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔اسلئے حدیث کا کام انہی باتوں کی وضاحت کرنا ہے۔اس وجہ سے اہلسنت کے مطابق صحیح بخاری جو اس کے سب مندرجات قبول کرنے کو واجب سمجھتے ہیں اللہ کی کتاب کے بعد احادیث کی معتبر ترین کتاب کا درجہ حاصل کرگئی۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث آیات ِ قرآن مجید کی مختلف تشریحات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔
جب میں نے اس موضوع پر اور کتابیں پڑھیں،توسچائی صاف نظر آنے لگی اور آخر کار روز روشن کی طرح ایسے چمکنے لگی کہ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہ رہی لیکن ایک سوال جو ہمیشہ سے میرے لئے باعث تکلیف تھا وہ ان ا ہلسنت کی معتبر کتابوں میں تصدیق شدہ تاریخی حقائق اور احادیث رسول (ص) کو چھپانے کے وجوہات ہیںجو صدیوں سے چلے آرہے ہیں ،شیعہ، سنی اختلافات کو کم کرنے میں کافی مدد گار ہوسکتے ہیں۔کیا حقائق کو چھپانے کا یہ طریقہ یا ان کے بارے میں زبردستی بلیک آؤٹ یا ان کے متعلق غلط فہمی پھیلانا وغیرہ اختلافات سے بچنے کا یہ جواز قابل قبول ہوگا جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں۔کیا حقائق چھپانا اور یا توڑ مروڑ کے پیش کرنا تفریق نہیں ہے؟
جب میں نے اس حساس مسئلہ پر تحقیق شروع کی،میرا اصل مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ کیا شیعہ مسلمان ہیں کہ نہیں۔ مجھے اس پر ذرہ بھر بھی شک نہیں تھا کہ اہلسنت و الجماعت کا طریقہ عبادت سب سے صحیح تھا۔مگر بعد تحقیق اور سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور وفکر کرنے سے جو نتیجہ مجھے ملا وہ بالکل ہی مختلف اور حیران کن تھا،اب میں ایک لمحہ کیلئے بھی اس سچ کوقبول کرنے میں تامل نہیں کر سکتا جس کو میں نے دریافت کیا۔میں اسکو قبول کیوںنہیں کر سکتا جب کہ وہ اسکو ان مضبوط شواہد اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں جو کہ اہلسنت میں ثابت شدہ ہیں اور عقل ودلیل سے قبول کرتے ہیں ۔یہی سچ ہمارے بہت سے شاگردوں نے قبول کیا ہے جن سے کچھ تعصبیوں اور شیعوں کے خلاف حکم کفر دینے والوں کو جلن ہوئی جو یہ تک کہتے ہیں کہ شیعہ کو اس طرح سلام کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ اہلسنت کو۔انہوں نے ہمارے خلاف بہت سارے الزامات پھیلائے جن میں سے ہلکا الزام یہ تھا کہ جو کوئی شیعہ بنتا ہے اسکو ایرانی سفارت خانہ سے تین سو ڈالر انعام ملتا ہے۔جس صحیح بخاری کو ہم ان کیلئے دلائل و ثبوت کے طور پر دکھاتے تھے وہ اسکو جعلی مان کر قبول نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اصلی بخاری نہیں ہے!ایک طرف سے ایسے تعصب اور جہالت کا سامنا اور دوسری طرف سے شیعوں کی مظلومیت دیکھ کر میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنے تحقیق کا خلاصہ لکھوں اور دنیا کے ہر سچائی کے متلاشی کے سامنے پیش کروں تاکہ ہر کوئی اسکا بھی معائنہ کرے۔
جہاں تک ان کا تعلق ہے جو دوسرو ں کو گمراہ کرنے کیلئے شیعوں کے متعلق جھوٹ بولتے ہیں،وہیں پر ایسے لوگ بھی ہیں جو جھوٹ بول کر کہتے ہیںکہ ایساکرنا صحیح ہے، مگر اس سے زیادہ مستحق ہے وہ سچ جو لکھ کے شائع کیاجائے اس کے باوجود کہ اس کتاب سے کچھ متعصب لوگوں کو درد اور تکالیف ہوں گی ،میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں: ذمہ دار کون ہے ؟
یہ کتاب جو دونوں مکاتب کے نظریات اور خاص اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کے دعوؤں کی تردید پر مشتمل ہے اس میں سارے دلائل و شواہد اہلسنت کی معتبر کتابوں خاص کر صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ماخوذ ہیں،اسلئے وہ اس جہالت کو الزام کیوں نہیں دیتے ہیں جس نے ان کو یہ حقائق جاننے سے روک دیا ؟ یا یہ کہ تعصبی ملائوں نے ان سے جان بوجھ کر حقائق چھپائے ؟ یا وہ بخاری اور مسلم اور دوسرے احادیث کے ماہروں کو اپنی کتابوں میں ایسا لکھنے پر الزام کیوں نہیں دیتے ہیں جن سے ان کو ایسا صدمہ پہنچتا ہے ؟! لیکن یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ اہلسنت نے وہ سب کچھ ماننے کا حلف اٹھا یا ہے جو ان دو کتابوں میں لکھا ہے؟
مکتب شیعہ امامیہ جس کا ہم اس تحقیق میں تذکرہ کر رہے ہیں،وہ ہے جسکے ماننے والے نبی رحمت (ص) کے بعد امام علی سمیت بارہ ائمہ اہلبیت کی امامت کے پیرو کار ہیں ۔ کچھ دوسرے گروپ جیسے نصیری یا غالی وغیرہ کا شیعوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔اسلئے کچھ لوگ اس پر کیوں زور دے رہے ہیں کہ وہ شیعہ ہیں ؟ وہ اور انکے ہمنواہی عام اور بے خبرلوگوں کو گمراہ کرنے کیئے ایسا بیہودہ پروپگنڈہ کیوں کرتے ہیں ؟ اور مسلمانوں کی تاریخ اور ان کے برد بار عقائد میں یہ جعلسازی کیوں ؟!
امامت یا خلافت کے معنی ہے رہبریت۔اللہ کے رسول (ص) کے وصال کے بعد یہ مسئلہ رہبریت ایسا معاملہ بن گیا ہے جسکا کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا کیونکہ رہبریت کسی بھی گروپ کیلئے ایک فطری ضرورت ہے۔شیعہ اور سنی مسلمانوں میں اس بارے میں اختلاف ہے کہ امام یا خلیفہ کو کیسے چنا جائے اور اسکا کیا کام ہے۔یہ ان کا سب سے گہرا اختلاف ہے اور دوسرے اختلافات اسی بڑے اختلاف کے فطری نتائج ہیں۔یہ اسلئے ہے کہ شیعوں کی نظر میں امامت کو احادیث رسول (ص) کی تائید ہوناچاہئے اور یہ اہلبیت کے بارہ اماموں سے مخصوص ہے۔رسول رحمت (ص) کی رحلت کے بعد اسلامی تعلیمات ان ہی ائمہ سے رجوع کرنے سے حاصل کی جاسکتی ہیںیا ان روایات سے جو ان سے منسوب ہیں۔جب ان کے بیانات دوسروں سے اختلافی ہوں تو اقوال ِ اہلبیت کو قبول کرنا چاہئے کیونکہ وہ سنت رسول (ص) کے قابل اعتماد محافظ ہیں۔امامت کے مسئلہ میں اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ امام شوریٰ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے مگر اس پر اعتراض نہیں کرتے جب کوئی سبگدوش ہونے والا خلیفہ اپنا جانشین خود معین کرتاہے جیساحضرت ابوبکر کاحضرت عمر کو اپنا جانشین بنانا۔ان میں یہ بھی جائز ہے کہ خلافت زور زبردستی یا تلوار سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے جسطرح بنوامیہ ،بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ میں کیا گیا۔اسلامی تعلیمات واحکامات کے متعلق ان کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام سے بلا کسی تفریق کے صحیح طریقہ سے حاصل کرنا ۔اسلئے انہوں نے تمام صحابہ کو برابر اور قابل اعتماد(عادل) مان لیاچہ جائیکہ ان میں سے اکثر جنگ صفین،جنگ جمل اور ایسے دوسرے موقعوں پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کیلئے لڑ پڑے یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے ان کی اکثریت کی عدالت پر ایک سوالیہ نشان بن کر اور بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔آپ انشاء اللہ باب صحابہ میں ان کی عدالت پر تفصیلی بحث کامطالعہ کریں گے۔
چونکہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ جس پر شیعہ ،سنی اختلاف ہے اور اس سے پہلے کہ اس پر ایک کو غلط ہونے یا کسی کی طرفداری کرنے کاکوئی فتویٰ صادر کریں ہمیں کچھ وقت کی مہلت چاہئے تاکہ ہم دونوں فریق کے دلائل و ثبوت پر غور کریں۔ہم نے یہ تحقیق اسی مقصد کیلئے منتسب کی ہے۔ہم یہاں امامت کے ثبوت میں شیعوں کے دستاویذات کا خلاصہ اور اہلسنت کی تردید پیش کرتے ہے :۔
1: وہ دلائل و قرائن جن سے امامت ِ اہلبیت ثابت ہوتی ہے:
اپنے بعد امامت کے متعلق رسول خدا (ص) سے اہلبیت رسول (ص) کے بارے میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں،ان میں سے کچھ خاص اسطرح ہیں:
صحیح مسلم میں زید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا :'' اے لوگو ! میں ایک انسان ہوں اورمجھے اپنے رب کی طرف سے بلاوا آیا ہے۔میں اللہ کے بلاوے پر لبیک کہتا ہوں،اور میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں:ان میں ایک اللہ کی کتاب قران مجید ہے جو سرا پاہدایت اور نور ہے،اسلئے اللہ کی کتاب پکڑ لو کیونکہ اس میں ھدایت و نور ہے۔کتاب اللہ کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ وابستہ رہو ۔ اور دوسرے میرے اہلبیت ہیں ،میں اللہ کی خاطر اہلبیت کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں۔میں اللہ کی خاطر اہلبیت کے بارے میں وصیت کرتا ہوں۔ میں اللہ کی خاطر اہلبیت کے بارے میں وصیت کرتا ہوں(3بار) '' (2)
صحیح ترمذی میں جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو میدان عرفات میں حجتہ الوداع کے موقع پر یہ فرماتے سنا کہا:''اے لوگو میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ،جس وقت تک تم ان سے متمسک رہوگے کبھی گمراہ نہ ہوگے،ان میں سے ایک کتاب اللہ اور دوسرے میری عترت،میرے اہلبیت ''۔(3)
قرآن اور اہلبیت سے وابستہ ہ رہنے کیلئے یہی ایک حدیث شیعوں کے حق پر ہونے کیلئے کافی ہے۔اس حدیث میں رسول خدا (ص) کاواضح حکم ہے کہ قرآن کے بعد اہلبیت سے وابستہ رہنے سے ہی گمراہی کے بدلے نجات پر ہونے کی ضمانت (شرط)ہے۔حالانکہ بہت سے اہلسنت کے ماہرِ احادیث نے اس حدیث کو اپنی صحیح اور مستند کتابوں میں درج کیا ہے، مگر میں اس پر حیران ہوں کہ اکثر اہلسنت اس سے ناواقف ہیں۔
وہ جب اس کو سنتے ہیں تو انکار کرتے ہیں جیسا کہ یہ ہے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ اس بارے میں حدیث ِ ابوہریرہ صحیح ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا:میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں ،قرآن اور سنت چھوڑے جا رہا ہوں،جو ان کے ساتھ وابستہ رہے گاوہ کبھی گمراہ نہیں ہوگا۔(4)اس حدیث کے ماخذ پر تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ یہ کسی بھی صحیح کتاب میں موجود نہیں ہے۔ بخاری،ذہبی، نسائی اور دوسروںنے اسے'' ضعیف ''گردانا ہے۔(5) اسکو حاکم نے مستدرک میں درج کیا ہے جس کو علمائے اہلسنت نے باجماع صحیح مسلم سے کم درجہ دیا ہے جس میں کتاب اللہ اور میری عترت،میرے اہلبیت درج ہے۔اگر ہم یہ بھی فرض کریں کہ ان دو بیانوں میں کچھ فرق نہیں ہے،ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو کلمہ ''میری سنت '' حاکم کی روایت کے مطابق کہا گیا ہے وہی سنت ہے جو اہلبیت رسول سے منسلک ہے نہ کی دوسروں سے جیسا کی صحیح مسلم میں صاف نظر آرہا ہے۔مسلم کی حدیث ''کتاب اللہ اور عترت و اہلبیت '' کے مقابلے میں حاکم کی حدیث کتاب اللہ و سنتی سے وابستہ رہنا اہلسنت کے اکثرمحدثوں کی مخالفت کے مترادف ہے کیونکہ وہ احادیث مسلم کو احادیث حاکم پر کافی ترجیح دیتے ہیں۔یہ دلیل عقل و منطق کے خلاف بھی ہے ۔لفظ ''سنت '' جیسا کہ حاکم نے بیان کیا ہے کوئی خاص مطلب نہیں بتا رہا ہے کیونکہ تمام مسالک سنت رسول (ص) پر چلنے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ ان مسالک کے درمیان بہت سارے اختلافات ہیں جن کی نبیاد رسول اللہ(ص) سے مختلف طریقوں سے روایات منتقل کرانے کے طریقہ میں فرق،یعنی سنت جس سے قرآن کی تفسیر و تشریخ ہوتی ہے،سنت جسکی صداقت پر تمام مسالک متفق ہیں ۔اسلئے منتقل ِحدیث میں اختلاف کی وجہ سے قرآن کو سمجھنے میں بھی اختلاف ہوگیا۔سنت رسول (ص) اب اختلافی سنت بن گیا اور اسی بناپر مسلمان فرقوں اور مسلکوں میں بٹ گئے جن کی تعداد 73 تک پہنچ گئی۔اب ان میں کون سی سنت صحیح ہے جس کا اتباع کیا جائے ؟یہ سوال ہر شخص کے دماغ میں آئے گا جو گہرائی سے ان اختلافات پرنظر ڈالیگا اوپر بیان کی گئی حدیث اختلافات کا خاتمہ کرنے کیلئے نسخہ ٔکیمیا کی حیثیت رکھتی ہے تاکہ مسلمان اس نبی رحمت (ص) کی رحلت کے بعد اسلامی عقائد میںپریشان نہ ہوں جس نے یہ حدیث انکو بتائی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ رسول رحمت (ص) کی طرف سے متبرک احکام جاری ہوئے ہیں کہ نبی (ص) کی صحیح سنت اہلبیت رسول (ص) سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے جنکو قرآن کریم نے پاک و پاکیزہ(طاہر) بتا کر وہ خصوصیت عطا کی ہے جس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یہ وضاحت ایسی صاف ہے جس کی تاویل نہیں کی جاسکتی ہے۔(اس بحث میں مزید معلومات کیلئے ڈاکٹر تیجانی سماوی کی کتاب ،کونو مع الصادقین اور شیخ معتصم کی حقیقت گمشدہ سے رجوع کریں، مترجم )ایسا ماخذ اور صرف ایسا ماخذ (قران اور ا ہلبیت) ہی گمراہی اور تفریق کے خلاف حفاظت کی ضمانت دیتاہے۔یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب دیئے بغیر تصویر کبھی بھی صاف نظر نہیں آئے گی۔
اول: اہلبیت کون ہیں جن کا ذکر مندرجہ بالا حدیث میں کیا گیا ہے ؟
دوم: اس حدیث میں کیوں اہلبیت سے ہی اسلامی احکام حاصل کرنے کی خاص ہدایت ہے نہ کہ تمام اصحاب سے جیسا کہ اہلسنت دعویٰ کرتے ہیں ؟
صحیح مسلم میں صفیہ بنت شایبہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے کہا:''رسول اللہ (ص) ایک کالا اونی جبہ اوڑھ کے آئے،انہوںنے حسن ابن علی ،حسین ابن علی فاطمہ اور بعد میں علی کو ایک ایک کرکے بلایا اور اس چادر کے اندر لیا،پھر اس آیتِ تطہیر کی تلاوت کی(بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اسطرح پاک رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے احزاب۔33)۔(6) اسکے علاوہ صحیح مسلم میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی( ۔۔ان سے کہد یجئے کہ آئو ہم اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میںدعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ آل عمران۔61)، اللہ کے رسول (ص) نے علی ، فاطمہ ،حسن اور حسین کو بلایا اور کہا کہ اے اللہ یہ میرے اہلبیت ہیں۔(7) ان دونوں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ رسول (ص) سے اہلبیت ،علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں فرزند تھے۔
ازواج نبی (ص) کے متعلق کیا ہے ؟
صحیح مسلم میںزید بن ارقم سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں،ایک کتاب اللہ ،دوسرے اپنی عترت جو بھی ان کے ساتھ متمسک ہوگیا وہ ہدایت پاگیا اور جس نے ان سے روگردانی کی وہ گمراہ ہوا۔اسی حدیث میں لوگوں نے پوچھا کہ کیا ازواج نبی (ص) اہلبیت میںشامل ہیں؟ توآنحضرت (ص) نے فرمایا: اللہ کی قسم نہیں !عورت مرد کے ساتھ ایک خاص مدت کیلئے رہتی ہے اورطلاق کی صورت میںوہ اپنے والدین کے پاس چلی جاتی ہے۔آنحضرت (ص) کے اہلبیت ان کے بدن مبارک کے حصے ہیں،ان کے قریب ترین قرابت دار ہیں جن پر آنحضرت (ص) کے بعد صدقہ حرام ہے۔(8)
صحیح ترمذی میں پروردۂ رسول (ص) امر ابن ابو سلا مہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ تطہیر انما یرید اللہ۔۔۔۔۔۔۔ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی اس وقت اللہ کے رسول نے حسن،حسین،فاطمہ اور علی علیہم السلام کو اپنی چادر میں لیا اور دعا کی کہ اے میرے پروردگاریہ میرے اہلبیت ہیں۔ان سے ہر رجس کو دور کر اوراعلیٰ درجہ کی پاکی عطاکر۔ام سلمہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول (ص) کیا میں بھی اندر آکر ان کے ساتھ شامل ہوجائوں تو جواب ملا کہ تم خیر پر ہو اور اپنی جگہ رہو(9)
مسند احمد بن حنبل میں ام سلمہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص)نے فاطمہ سے کہا:میرے پاس اپنے شوہر اور دونوں فرزندوںکو لاؤ،وہ ان کو لے کر آئیں آنحضرت (ص) نے فدک میں بنی ہوئی ایک چادر اوڑھ لی اور ان پر اپنا دست مبارک رکھ کر کہا :اے اللہ ! یہ محمد (ص) کی آل ہے،اللہ کا درود و سلام ہو محمد وآلہ محمدپر، یقیناََ تم ہی حمد و ثنا کے لائق ہو۔میں نے اندر جانے کیلئے وہ چادر اٹھائی،لیکن آنجناب (ص) نے میرے ہاتھ سے وہ کھینچ لی اور کہا،تم خیر پر ہو۔(10)
اہلبیت کو پہنچاننے کیلئے اوپر دئیے گئے ثبوت اور وضاحت کے باوجودکچھ لوگ اس کو سورة احزاب کی آیت نمبر 28۔33 میں اہلبیت کے ساتھ ازواج نبی (ص) شامل ہونے کا دعویٰ کرکے جھٹلاتے ہیںجس میں اللہ تعا لی ٰ فرماتا ہے :
''اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم زندگانی دنیا اور اسکی زینت کی طلبگار ہو تو آئو میں تمہیں متائے دنیا دیکر خوبصسورتی کے ساتھ رخصت کردوں۔ اور اگر اللہ اور رسول (ص) اور آخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے۔ اے زنانِ پیغمبر جو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائی کا ارتکاب کریگی اسکا عذاب بھی دہرا کیا جائے گا اور یہ بات خدا کے لئے آسان ہے۔ اور جو بھی تم میں سے خدا اور رسول (ص) کی اطاعت کرے اورنیک عمل کرے اسے دہرا اجر عطا کریں گے اور ہم نے اس کے لئے بہترین رزق فراہم کیا ہے۔ اے زنان ِ پیغمبر تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمہارا مرتبہ کسی عام عورت جیسا نہیں ہے لہذا کسی آدمی سے لگی لپٹی بات نی کرنا کہ جس کے دل میں بیماری ہو اسے لالچ پیدا ہوجائے اور ہمیشہ نیک باتیں کیا کرو۔ اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور پہلی جاہلیت جیسا سنگار نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکواة ادا کرو اور اللہ اور اسکے رسول (ص) کی اطاعت کرو۔پس اللہ کا ارادہ ہے اے اہلبیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے'' ( سورہ احزاب آیت 28۔33)۔ ان آیات کا ایک ہی جگہ جمع ہونے سے کچھ لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے کہ آیت تطہیر میں ازواج بھی شامل ہیں جب اللہ اعلان کر رہا ہے۔۔ اے اہلبیت اللہ کا ارادہ ہے۔۔۔
یہ دعویٰ کہ آیت تطہیر میں ازواج نبی (ص) بھی شامل ہیں
مندرجہ وجوہات کی بنا پر غلط ثابت کیا جا سکتا ہے :
(1):قرآنی آیات کے شان نزول میں ازواج نبی (ص) کو طلاق کے تنبیہ کے بعد اہلبیت کو رجس سے پاک کرنے کے حکم سے دونوں بار ازواج نبی (ص)ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ بہت سی آیات میں اکٹھے دو مختلف موضوعات کا ذکر ملتا ہے۔ایک ہی آیت میں دونوں کاہونا شاید اس واقعہ کا ایک ہی وقت میں پیش آنے سے ہوا ہے۔اس کی مثال اس آیت سے نکالی جاسکتی ہے: (تمہارے اوپر حرام کردیا گیا ہے مردار،خون،سور کا گوشت اور جو جانور غیر خداکے نام پر ذبحہ کیا جائے اوممنخنقہ،موقوزہ،متردیہ، ر نطیحہ اور جس کو درندہ کھا جائے مگر یہ کہ تم خود ذبحہ کرو اور جو نصاب پر ذبحہ کیا جائے اور جسکی تیروں کے ذریعہ قرعہ اندازی کرو کہ یہ سب فسق ہے اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں۔لہذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو،آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کرلیا اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا اور تمہارے لئے دین کو پسندیدہ بنادیا،لہذا جو شخص بھوک میں مجبور ہوجائے اور گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بڑابخشنے والا مہربان ہے ۔مائدہ3)
آپ اس آیت میں دیکھتے ہیں کہ امت کے تزکیہ نفس کا موضوع حرام غذا کے موضوع کے بیچ میں کیسے آیاہے!
(2): اس قول (کہ ازواج نبی (ص) اس آیت میں مذکور نہیںہیں) کی نشان دہی اس بات سے ہوتی ہے کی ازواج نبی (ص) کا ذکر عربی صیغہ(مونث) میں ہے جو عورتوں کے مجمع سے مخصوص ہے جبکہ موضوع اہلبیت کی طہارت کی طرف آنے پر صیغہ (مذکر)مردوں کے مجموعہ میں بدلتا ہے۔
(3):پچھلے صفحوں میں ذکر کئے گئے ،مسلم ،ترمذی ،مسند احمد اور دوسرے ماخذ سے صحیح احادیث ایک زبان ہوکر ثابت کرتے ہیں کہ ازواج نبی (ص) اہلبیت میں شامل نہیں ہیں۔جب ام سلمہ نے اللہ کے رسول (ص) سے ان میں شامل کرنے کی خواہش کی تھی تو آنحضرت (ص) نے صاف فرمایا تھا کہ تم خیر پر ہو او اپنی جگہ ٹھہرو۔ مسلم کی روایت میں لوگوں کے پوچھے جانے پر کہ کیا ازواج اہلبیت میں شامل ہیں ،جواب نفی میں آیا۔
(4):مسلم،احمد اور دوسرے راویوں نے حدیث ثقلین کے سلسلہ میں اللہ کے رسول (ص) سے روایت کی ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا :اے لوگو میں تمہارے درمیان دو گراں قدرچیزیں ،کتاب اللہ اوراپنی عترت،میرے اہلبہت (ص) چھوڑے جارہا ہوں ،جنکے ساتھ اگر تم وابستہ رہے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے،جسکا مطلب ہے کہ تمام معاملوںمیں ان کی پیروی واجب ہے۔اگر ہم یہ فرض بھی کریں کہ اس حدیث میں اہل بیت سے مراد ازواج نبی ہیں تو وفات رسول (ص) کے بعد مسلمان ان سے وا بستہ کیسے رہیںگے، ذہن میں یہ رکھتے ہوئے کہ انہیں گھر میں بیٹھنے کا حکم رسول (ص)ہے ؟اس سوال کا جواب کوئی کیسے دے سکتا ہے کہ وہ صرف ایک ہی ملک میں رہتی تھیں ؟ اگر ان سے وابستہ رہنے کا مطلب ان سے احادیث روایت کرنا ہے،تو اس کاکیا جواب ہے کہ ان میں سے کچھ نے ایک بھی حدیث بیان نہیں کی ہے؟
لفظ رجس جو اس آیت تطہیر میں آیا ہے ......کہ اللہ کا بس یہی ارادہ ہے کہ آپ سے ہرجسمانی ناپاکی کو دور رکھے اور آپ کو صاف و پاک رکھے،کا زبانی مطلب ہے گندگی یعنی گناہوں کی طرف اشارہ جبکہ طہارت کا مطلب ہے زہد و تقویٰ۔ لائق ِحمد و ثنا اللہ جلہ شانہ کی اہلبیت کو ہر رجس سے پاک رکھنے کے اراد ہ کا مطلب ہے انکو گناہوں اور ایسی حرکات سے دور رکھ نا جو کسی خامی کا باعث ہو او رانکا مقام اونچا کرنا ہے ۔اس کامطلب ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ اہلبیت کو ہر چھوٹے بڑے گناہ کے ارتکاب سے پاک رکھے اور یہ صرف اہلبیت کی پاکیزگی اور معصومیت کی دلیل ہے۔ یہ کہنا کہ اس پاکیزگی کا مطلب جو کہ اس آیت میں کہا گیا ہے،زہدو تقویٰ کی نشانی ہے،یہ انکا اپنے اللہ کے احکام کی نا فرمانی سے بچنے کے مطابق ہے،اس بناپر رد کیا جاتا ہے کہ ایسی پاکیزگی اہلبیت سے مخصوص نہیں ہے
بلکہ ہر ایک مسلمان کیلئے۔ مسلمانوں پر اپنے مذہب کے احکام پر عمل پیرا ہونا واجب ہے :(۔۔۔ اللہ تمہارے لئے کسی طرح کی زحمت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاتا ہے کہ تمہیں پاک و پاکیزہ بنا دے اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کردے شاید تم اسطرح اسکے شکر گذار بندے بن جائو۔مائدہ۔6) ۔اسلئے اگر ہم یہ قبول کریں گے کہ وہ معصوم ہیں جن کے متعلق یہ آیت اتری ہے،ہم کو معلوم ہوجائیگا کہ وہ ازواج نبی(ص) نہیں ہیںکیونکہ وہ معصوم نہیں ہیں( بلکہ انکے افعال، اقوال و بیا نات میں بہت تضاد ہے مترجم)۔یہ حقیقت ہے کہ نہ ہی پہلی نسل میں کسی نے ایسا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی بعد میں کسی نے یہ جانتے ہوئے کہ نبی (ص) نے اپنی کچھ ازواج کو طلاق اور دوسرے تنبیہ کی دھمکی دی تھی جیسا کہ آپ اگلے باب میں دیکھیں گے۔
عصمت ِاہلبیت کے ثبوت میں مزید دلائل:
(1): حدیث ثقلین :
دو گراں قدر چیزیں والی حدیث کے متن! (اے لوگو میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں، کتاب اللہ اور اپنی عترت ،میرے اہلبیت چھوڑے جارہا ہوں جنکا دامن تھامنے سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوؤ گے) میں خدا کے رسول (ص) کا حکم ہے کہ کتاب اللہ اور اہلبیت و آل ِ رسول (ص) ،دونوں سے ایک ساتھ وابستہ رہناگمراہی سے بچنے کی شرط ہے۔اس سے ثقلین یعنی ثقل اکبر کتاب اللہ جس کے آگے یا پیچھے برائی آہی نہیں سکتی اورثقل اصغر اہلبیت ،دونوں (ص) کی عصمت ثابت ہوجاتی ہے کیونکہ ضلالت میں گرنے کے خلاف قرآن کے ساتھ اہلبیت کا دامن پکڑنے کا حکم ِ رسول (ص)ان کی بیگناہی اور غلطی سے پاک ہونے پردلالت کرتا ہے۔
(2): قرآنی آیت :
'' اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعے حضرت ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کر دیا تو اللہ نے کہا کہ ہم تمکو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں،ابراہیم نے عرض کی ،کیا میری ذریت کو بھی ؟ ارشاد ہوا کہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں پہنچ پائے گا ۔ البقرہ ۔124 ''۔ امامت کا اعلی ٰ مقام بیان کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ امامت ظالمین کا حق نہیں ہے۔ گناہ چھوٹا ہو یا بڑا،انجام دینے والے کو ظالمین میں شمار کرواتا ہے۔اسی لئے امام گناہ یا اور کسی برائی کے ارتکاب سے خدائی حفاظت میں ہونا چاہئے۔
(3):مستدرک علی صحیحین سے گواہی :
حناش الکنانی کے اسناد سے امام حاکم روایت کرتے ہے کہ میں نے ابو ذر کو خانہ کعبہ کے دروازہ کو پکڑ کر یہ کہتے ہوئے سنا ! اے لوگو تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں اوراگر کوئی نہیںجانتا تو وہ جان لے کہ میں ابوذر ہوں۔ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو یہ کہتے سنا ہے کہ: میرے اہلبیت کی مثال تمہارے درمیان سفینۂ نوح کی طرح ہے،جو بھی اسمیں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ڈوب گیا۔(11)۔ حاکم کہتا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اسی کتاب میں حاکم ابن عباس کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا !ستارے اہل زمین کوڈوبنے سے بچاتے ہیں جبکہ میرے اہلبیت میری امت کو اختلافات سے بچانے کیلئے جائے امان ہیں۔اگر عرب میں کوئی ان کی مخالفت کرے گا۔تو اس کا شمار ابلیس کی جماعت میں ہوگا۔(12)۔
(4): صحیح بخاری میں :
اہل بیت کس مقام ومنزلت پر فائز ہیں اس کی وضاحت کیلئے ہم صحیح بخاری کی کچھ حدیثیں بیان کرتے ہیں جنمیں انکو علیہم السلام کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔اور یہ انہیں کا لقب ہے نہ کہ کسی صحابی یا ازواج کا۔مثال کے طورپر صحیح بخاری میں بیان کیا گیا ہے کہ :
علی علیہ السلام سے روایت ہے ،'' مجھے مال غنیمت سے ایک خاص حصہ ملتا تھا اور نبی رحمت (ص)مجھے خمس کا ایک خاص حصہ بھی دیتے تھے،جبکہ مجھے ایک بیٹی بھی ہوئی تھی اللہ کے رسول (ص) کی بیٹی فاطمہ سے۔۔۔۔۔۔(13) بخاری میں یہ بھی روایت ہے کہ ۔۔۔۔ اور اللہ کے رسول (ص) درِ علی و فاطمہ علیہم السلام پر رات کو آکے کہتے تھے'' الصلوات'' (14) دوسری روایت میں یہ لکھا ہے کہ ۔۔ اس نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ حسن بن علی علیہ السلام اپنے نبی کے ہوبہو ہے۔۔۔(15) اسی حوالہ میں یہ بھی کہا گیا ہے ! علی ابن حسین علیہ السلام سے اس نے کہا ۔۔۔۔(16)
کیا کوئی دلیل دیگا کہ اس سے انکی عظمت ثابت نہیں ہوتی ہے مگر پھر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر کیوں انہی کو ا ن القاب سے نوازا جاتا تھا نہ کہ اور کسی کو۔
(5):احادیث سے گواہی :
اللہ کے رسول نے ہر ایک کو حکم دیا ہے کہ ان پر درود بھیجنے میں ان کی آل کو بھی شامل کیا جائے۔ بخاری اپنی صحیح میں عبد الرحمان ابن ابی لیلیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ''۔۔کعب ابن اجراہ مجھ سے ملا اور کہا،' مجھے ہدیہ دو ! نبی (ص) ہم کو دیکھنے باہر آئے اور ہم نے اسے کہا،' اے اللہ کے رسول (ص) ہمیں پہلے ہی معلوم ہے کہ آپ (ص) کو سلام کیسے کریں مگر ہمیں بتائیے کہ آپ پر درود کیسے بھیجیں ؟ انہوںنے کہا کہ اسطرح کہو:اللہم صلی علٰی محمد و علٰی آلِ محمد کما صلیت ابراہیم و علٰی آلِ ابراہیم انک حمید المجید۔(17) ۔
اس حدیث میں جہاں ایک طرف ہمارے آقا حضرت ابراہیم ـ اور آقاحضرت محمدمصطفیٰ (ص) کا ذکر ہے تو دوسری طرف انکے درمیان یہ رشتہ ہے کہ دونوں حضرت ابراہیم اور حضرت محمد نبی تھے اور انکی ذریت محافظ شریعت تھی۔مسلمانوں کو وصال نبی (ص) کے بعد ان کی آل پاک سے رجوع کرنے کا حکم تھا فرق صرف یہ تھا کہ وہ امام تھے جبکہ آل ابراہیم نبی بھی تھے۔ ایک دوسری حدیث میں ہمارے آقا حضرت محمد (ص) نے فرمایا: اے علی کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کیلئے تھے سواے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا؟۔(18) اس حدیث پر بعد میں بحث کریں گے۔
اوپر بیان کئے گئے واقعات سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اہلبیت رسول (ص) کو عصمت و پاکیزگی اسی لئے عطا کی ہے تاکہ وہ وصال نبی (ص) کے بعداللہ و رسول (ص) کا پیغام اگلی نسلوں تک صاف و شفاف طریقہ سے پہنچائیں اور تحریف و شبہات سے یہ محفوظ رہے۔ اللہ کے رسول (ص) کے ذریعے الٰہی شریعت کا پیغام دینے سے کیا فائدہ ہے اگر یہ بعدوفات رسول (ص) بھروسے مند افراد کے ہاتھوں محفوظ نہ رہے ؟ اس سوال کا بہترین جواب یہ ہے کہ پچھلی امتوں کو کیا ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ جعلسازی نے انہیں رنج والم کیوں دیا جیسا کہ خدائے حمید و مجید نے کہا ہے ''کیا تمہیں امید ہے کہ وہ تمہاری طرح ایمان لائیں گے جب کہ ان کے اسلاف کا ایک گروہ کلام خدا کو سن کر تحریف کردیتا تھا حالانکہ سب سمجھ بھی جاتے تھے اور جانتے بھی تھے''؟۔(البقرہ 75)
یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قرآ ن کریم کا متن تحریف سے محفوظ رکھنے سے شریعت دین اسلام کی تحریف سے از خود حفاظت کی ضمانت نہیں ہے ۔امامت اسی لئے احکام عامہ میں نبوت کی توسیع مانی جاتی ہے سوائے وحی الہٰی کے متعلق معا ملوں میں جو کہ نبوت سے مخصوص ہے۔امامت کو نبوت کی توسیع ماننے کا مطلب ہے علم و عمل سے شریعت کی حفاظت کرنا۔اس لئے اماموں کی عصمت الہٰی قوانین کے تحت برائے نشر و ترسیل آیندہ نسل کیلئے اشد ضروری ہے جو کہ صرف خاندان نبوت کے بارہ اماموں کے صاف وپاک مقامات سے ہی ممکن ہے۔
دوم،اہلبیت میں اماموں کی تعداد کے بارے میں ثبوت :
اللہ کے منتخب شدہ رسول (ص) نے فرمایا ہے کہ انکے بعد خلیفہ یا امام قریش سے ہونگے اور انکی تعداد بارہ ہوگی۔امام بخاری جابر بن سمرہ سے روایت کرتے ہیں کہ جابر نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا: '' میرے بعد بارہ امیر ہونگے۔۔وہ کہتا ہے کہ جابر نے کہا کہ اس کے بعد اللہ کے رسول (ص) نے کیا فرمایا،میں نے نہیں سنا مگر میرے باپ نے کہا کہ انہوں نے فرمایا کہ وہ سب قریش سے ہونگے''۔(19) صحیح مسلم میں ایک حدیث اسطرح ہے : ''ایمان اس وقت تک باقی رہیگا جب تک کہ بارہ خلیفہ حکومت کریںگے جو سب کے سب قریش سے ہونگے'' (20) ۔اسی حوالہ میں یہ بھی درج ہے :''لوگوں کے معاملات اس وقت تک برقرا رہیں گے جب تک کہ بارہ خلفاء ہونگے''(21)۔ مسندد احمدابن حنبل میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک بار اللہ کے رسول (ص) سے ان خلفا کے بارے میں پوچھا تو نبی خدا (ص) نے فرمایا: ''وہ بارہ ہیں جیسا کہ بنی اسرائیل کے قبیلوں کی تعداد ہے''۔(22)
اہل کتاب کی توریت کے ایک مضمون کا مفہوم یہ ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو حضرت اسمعٰیل کی خوش خبری دی اور یہ کہ ان کی ذریعہ بہت زیادہ پھیل جائے گی اور ان کی اولاد میںسے بارہ شہزادے اور ایک عظیم قوم وجود میں آئے گی۔(23) عظیم قوم کی طرف اشارہ ہمارے نبی (ص) کی امت ہے جن کا سلسلۂ نسب حضرت اسمعٰیل سے ملتا ہے۔ اور جو بارہ شہزادوں کا ذکر ہے،وہ وہی بارہ امام یا خلفاء ہیں جو اللہ کے رسول (ص) کے بعدآئے اور انکی ہی نسل پاک سے ہیں۔ وہ،وہ ہیں جن کا ذکر اوپر بیان کی گئیںصحیح احادیث میں کیا گیا ہے۔
یہ مسئلہ اہل سنت دانشوروں کیلئے بڑاپیچیدہ ہے کیونکہ وہ ان کی صحیح کتب احادیث میں مذکور ان بارہ اماموں یا خلفا ء کی پہچان کے متعلق ایک بھی واضح یا قابل اطمینان دلیل نہیں دے پارہے ہیں یہاں تک کہ یہ مسئلہ ان کے لئے ایک الجھن بن گیا ہے۔اس بارے میں انکی وضاحت متزلزل ہے اوربلا نتیجہ ہے کیونکہ بارہ کی تعداد چار خلفائے راشدین سے شروع کرکے کیسے برابرکریں،بنو امیہ ،بنو عباس اور سلظنت عثمانیہ سے یا انکو ان سب میں چن کر لینا ہے ؟
اس حدیث کے متعلق ان کی الجھن بھری وضاحت کی ایک مثال ہم یہاں پیش کرنا چاہتے ہیں :۔ جلال الدین سیوطی کا کہنا ہے کہ،'' بارہ خلفاء میں سے پہلے چار خلفاء ہیں ،پھرحسن ۔معاویہ۔عبداللہ ابن زبیر۔عمرابن عبدالعزیز۔یہ آٹھ ہیں اور یہ ممکن ہے کہ مہدی عباسی خلیفہ بھی شامل ہوسکتا ہے کیونکہ بنو عباس میں ا س کی وہی حیثیت ہے جو کہ بنو امیہ میں عمر ابن عبدالعزیز کی ہے۔ اور عباسی خلیفہ'' طاہر'' بھی ان کی برابری کی بناپر ہے۔دو باقی ہیں جنکا انتظار ہے،ان میں ایک مہدی المنتظرہیں کیونکہ وہ اہلبیت میں ہے '' (24)
جب ہم اس بارہ خلفا والی الجھن کو حل کرنے والی انکی پریشانی کی بات کرتے ہیں ،ہمارا مطلب ان کے دانشوروں کی پریشانی وحیرانی ہے۔جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے ،انہوں نے یہ حدیث جس میں خلفاء کی تعداد کا ذکرہے ،حدیث ثقلین اور دوسری احادیث جن سے عظمت اہلبیت کتب اہلسنت سے ثابت ہے اکثر سنی ہی نہیں ہے۔ میں اس وقت بہت حیران ہوا جب جارڑن یونیورسٹی میں شریعت کالج کے پروفیسر ڈاکٹر احمد نوفل نے میرے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہا کہ یہ بارہ خلفاء والی حدیث میری اپنی(شیعی) ایجادہے اور یہ اہلسنت کی کتب احادیث میں موجود نہیں ہے،یہ کہکر وہ فوراََ اٹھ کے چلا گیا اور بحث کرنے سے مکرگیا۔یہ اس کے بعد کا واقعہ ہے جب اس نے منیلا(فلپائن) میں ایک لیکچر پر شیعوں کے متعلق پوچھے جانے پر کچھ سوالات کے جوابات دئیے تھے۔اسکے جوابات سچ سے بہت دور تھے ،اسی لئے میں نے اس کے جھوٹ کو رد کرنے کیلئے اس سے بحث کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ میں نے بہت سی احادیث پیش کیںکہ شیعہ حضرت محمد (ص) کے پیروکار ہیں نہ کہ عبداللہ ابن سبا کے جیسا کہ اس کادعوٰی تھا ۔یہ واقعہ بیان کرکے ہم اس نیک پروفیسر کو بدنام نہیں کرنا چاہتے ہیں،اللہ اسکو معاف کرے۔ ہم صرف حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں جو واضح ہونی چاہئے کیونکہ تعصب کچھ لوگوں کو اس سے زیادہ کرنے کیلئے اکساتا ہے۔سچ مچ یہ حیران کن ہے کہ کیسے کوئی کسی موضوع کی بنیاد نہ جانے بغیر ہی اسکے متعلق سوالات کا جواب دینے کی زحمت کر سکتا ہے چہ جائیکہ اس کا تعلق مذہبی معاملات کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو اسکے متعلق کیا فیصلہ ہے جو جانے بغیر ہی فتویٰ دیتا ہے؟ لاحول ولا قوت الا باللہ علی العظیم۔ اسطرح ہم اہلسنت کو اس بارہ خلفاء والی الجھن سے پریشان دیکھتے ہیں جبکہ وہ ان کے متعلق رہنمائی کرنے والی روایت شدہ ،ستاروں کی طرح چمکتی ہوئی احادیث سے ناواقف ہیں۔
اہلبیت رسول (ص) کے پیرو کار،شیعہ امامی نے پہلے ہی یہ معاملہ صفائی سے بیان کیا ہے کہ جو ان احادیث میں بارہ خلفاء مذکور ہیں، وہی اہلبیت رسول (ص) سے بارہ امام ہیں۔اسکے علاوہ اہلبیت طاہرین سے وہ ثبوت اپنی کتب احادیث سے اسطرح پیش کرتے ہیں جن میں ان اماموں کے نام صاف ظاہر ہیں اور شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔وہ یہ ہیں:1 ۔امیر المومنین امام علی ابن ابی طالب ،2۔امام حسن ابن علی ،3۔امام حسین ابن علی ،4۔امام علی ابن حسین زین العابدین (سجاد) ،5۔امام محمد ابن علی باقر ،6۔امام جعفر ابن محمدصادق، 7۔امام موسی ابن جعفر کاظم ،8۔ امام علی ابن موسی رضا ،9۔امام محمد ابن علی جواد ،10۔امام علی ابن محمدہادی ،11۔امام حسن ابن علی عسکری ،12۔امام محمد ابن حسن مہدی منتظر ۔ ِ
رسول اکرم (ص)نے اپنا جانشین علی علیہ السلام کو بنایا اس بارے میں ثبوت
ہم امامت اہلبیت اور تعداد ائمہ کے ثبوت تفصیل سے پہلے ہی بیان کر چکے ہیں جن میں پیغمبر (ص) نے فرمایا ہے کہ میرے بعد امت میں یہ میرے جانشین ہوںگے حدیث ثقلین کے علاوہ حضرت علی ابن ابی طالب کو نبی آخر زمان (ص) کے ذریعے مقرر کرنے کے مندرجہ ذیل ثبوت ہیں: حضرت علی کی خلافت کے بیان میں سب سے مشہور ہے رسول خدا (ص) کا 11ھ (632ئ) میں حجة الوداع کے موقع پر خطبۂ غدیر۔یہ وہی موقع ہے جب اللہ کے رسول (ص)نے آخری بار کہا: من کنت مولا فھٰذا علی مولا یعنی جس کا میں مولا (حاکم) ہوں،یہ علی آج سے اس کا مولا ہے۔اس کی روایت ترمذی نے زید بن ارقم سے کی ہے(25) ابن ماجہ نے براء ابن عازب کی روایت سے اس خطبہ کا ایک حصہ اپنی صحیح میں اسطرح درج کیا ہے:
براء ابن عازب کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ص) کے اس حج میں ان کے ہمراہ تھے۔انہوں نے سڑک سے تھوڑی دور پڑاؤ ڈالا اور باجماعت نماز کا حکم دیا۔ پھر انہوں نے علی کا ہاتھ پکڑ کر کہا : کیا مجھے مسلمانوں پر اس سے زیادہ حقوق نہیں ہیں جتنے کہ انہیں اپنے آپ پر ہیں؟ سب نے ہاں میں جواب دیا۔ پھر انہوں نے فرمایا: کیا مجھے ہر مومن پر اس سے زیادہ اختیارنہیں ہے جتنا کہ اسکو اپنے او پر ہے۔سب نے کہا: ہاں ۔ پس آپنے فرمایا: کہ آج سے علی ہر اسکا مولیٰ ہے جسکا میں مولیٰ ہوں،اے اللہ ! تو بھی اسکو دوست رکھ جو اسکو دوست رکھے اور تو اسکو دشمن رکھ جو اسکو دشمن رکھے۔(26)
مسند احمد بن حنبل میں بھی یہ روایت براء بن عاز ب سے اسطرح موجووہے :براء بن عازب کی زبانی'' ہم اللہ کے رسول (ص) کے ہمراہ سفر میں تھے،ہم غدیر خم نامی جگہ پر ٹھہرے اور نماز جماعت کا حکم ہوا۔ اللہ کے رسول (ص) کیلئے کچھ پودے بچھائے گئے، ظہر کی نماز ادا کی گئی اور پھر علی کا ہاتھ بلند کرکے فرمایا : کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ مجھے مومنین پر ان سے زیادہ اختیار ہے ؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا۔تو نبی برحق نے کہا : من کنت مولیٰ فھٰذا علی مولاہ۔ اے اللہ ! علی کے دوست کو دوست اور علی کے دشمن کو دشمن رکھ''۔عمر ابن خطاب ان سے ملنے کے بعد اسطرح مبارک باد دیتے ہیں :اے علی ابن ابی طالب مبارک ہوتمہیں صبح و شام ہرمومن مرد اور عورت کی مولایت مل گئی ہے۔(27) اس حدیث کو مکہ کے نزدیک غدیر خم نامی جگہ پر واقع ہونے سے '' حدیث غدیر'' کہتے ہیں۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسکی صداقت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے کیونکہ اسکو اہلسنت کے اکثر کتب حدیث میںدرج کیا گیا ہے یہاں تک کہ کچھ محققوں نے اہلسنت سے ہی اسی (80) طریقوں سے اسکو نقل کیا ہے۔
مذکورہ حدیث سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے اس وقت لوگوں سے اپنی حاکمیت کا اقرار لیا جب انہوں نے کہا کہ کیا مجھے مومنین پر اس سے زیادہ اختیا رنہیں ہے جتنا کہ انہیں اپنے آپ پر ہے؟۔۔۔۔کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ مجھے تم پر تم سے زیادہ اختیار ہے ؟ اسکا مطلب یہ ہے کہ جس کو مومنین پر ان سے زیادہ حق اختیار ہے وہ انکا اسی طرح رہبر و رہنما ہے جسطرح اللہ کا رسول (ص) انکا رہبر ورہنما تھا۔ جب آنجناب (ص) نے علی کو اس فرمان میں شامل کردیا کہ جس جس کا میں مولا ہوں ،یہ علی بھی اسکے مولا ہیں،انہوں نے علی کو اپنی رحلت کے بعد لوگوں کی رہبریت عطا کی۔شیعہ اس موقعہ کو ہر سال عید غدیر کی حیثیت سے مناتے ہیں۔اہلسنت اس حدیث کا دوسرا مطلب نکال کے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے خلافت علی ظاہرنہیں ہوتی ہے۔وہ لفظ ''مولیٰ'' کو بحیثیت ''دوست ''مانتے ہیں نہ کہ ولی امر یعنی رہبر۔انک کی نظر میں اس حدیث کا مطلب ہے : کہ جسکا میں دوست ہوں یہ علی بھی اسکا دوست ہے! سچ تو یہ کہ لفظ ''مولیٰ'' کے بہت سے معنٰی ہیں یہاں تک کہ سترہ جن میں آزاد کردہ یا نوکر بھی ہے۔
حدیث میں یہ لفظ مولیٰ سمجھنے کی ضرورت ہے،اس کے علاوہ جو کہ بہت سے دلائل کے ذریعے اوپر بیان کئے گئے ولایت کے ضمنی مفہوم میں کہا گیا ہے،مندرجہ ذیل دلائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔:
(1):سورہ مائدہ کی آیت نمبر 76 '' اے رسول (ص) آپ لوگوں تک وہ پیغام پہنچادیں جس کا تمہیں اللہ کی طرف سے حکم دیاگیا ہے،اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو اس کامطلب ہے کہ گویا آپ نے کار رسالت ہی انجام نہیں دیا اور اللہ آپ کو دشمنوں سے محفوظ رکھے گا۔'' بہت سی کتب تفاسیر میں خطبہ غدیر سے اس کا تھوڑا پہلے نازل ہونا ثابت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی خاص حکم ہے جس کا پہنچانا ضروری ہے۔جیسا کہ اس آیت مبارکہ کے الفاظ اور لہجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی اہمیت کا کوئی حکم ہے جو کہ علی کی محبت اور نصرت کے طرف اشارہ نہیں ہوسکتا ہے۔
(2): سورہ مائدہ ہی کی آیت نمبر 4'' آج کے دن میں نے تمھارے دین کوکامل کیا ،تم پر اپنی نعمتیں پوری کردی اور تمہارے دین اسلام سے راضی ہوا '' بہت سے مفسرین کے مطابق خطبہ غدیر کے بعد ہی نازل ہوئی۔ یہ حضرت محمد (ص)کے پیغامات کے اختتام ہونے کا پیغام ہے ،ایک ایسا پیغام جو کہ امام علی اور دوسرے اہل بیت کی حاکمیت کے اعلان کے بغیرناممکن لگتا ہے۔یہ بات بعید از عقل ہے کہ احکام نبوت (ص) کا اختتام اس حکم پر ہو کہ علی سے محبت و دوستی کی جائے۔
(3):ان حالات میں پیغمبر محمد (ص) کا خطبۂ غدیر دینا جہاں تقریباََ نوے ہزارلوگ سخت دھوپ میں جمع کئے گئے(تاریخ نے جمع ہونے والوں کی تعداد ستّر ہزار سے ایک لاکھ بیس ہزار تک لکھی ہے مترجم) تاکہ ان پرعلی کی حاکمیت کا حکم دینے سے پہلے ان سے اللہ اور رسول (ص) کی حاکمیت کا اقرار لیا جائے،ثابت کرتا ہے کہ مسئلہ علی محبت اور دوستی کانہیں تھا۔
(4):اوپر بیان کی گئیں حدیثیں بالخصوص حدیث ثقلین جو امام علی کی خلافت پر صراحتاً دلالت کرتی ہے جس کے بعد شک کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی مگر پھر بھی ذیل میں ہم کچھ اور دلائل پیش کر رہے ہیں :
حضرت علی علیہ السلام کی وصایت وخلافت پر مزید شواہد :
صحیح ترمذی میں عمران بن حصین سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے علی ابن ابی طالب کی سربراہی میں ایک مہم روانہ کی جو کہ طے ہوئی۔ مالِ غنیم میں ایک کنیز حضرت علی کے حصّہ میں آئی۔کچھ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔چار صحابی اللہ کے رسول (ص) کے پاس ان کی شکایت لیکر آئے۔اللہ کے رسول (ص) کے چہرہ مبارک پر ناراضگی کے آثار صاف نمودار ہوئے اور ان سے کہا،'' تم علی سے کیا چاہتے ہو ؟ یاد رکھوعلی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں،اور وہ میرے بعد تم سب کا حاکم ہے ۔(28)
اور اللہ کی طرف سے اس آیت پر غور کرو '' بیشک تمہارا سرپرست اللہ اور اس کارسول (ص) ہے اور وہ صاحب ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة ادا کرتے ہیں سورہ مائدہ آیت 58 ''۔اہلسنت کے اکثر مفسرین مانتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں اس وقت نازل ہوئی جب انہوں نے حالت رکوع میں ایک سائل کو اپنی انگلی سے انگھوٹھی نکال کر بطور صدقہ دی۔ صحیح بخاری میں مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ص) نے علی کے بغیر ہی تبوک کی طرف کوچ کیا۔ جس پر علی نے عرض کی یا رسول اللہ کیا آپ (ص) مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ رہے ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا : کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون کو جناب موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ؟ (28) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علی کو اس امت میں وہی حیثیت حاصل تھی جو جناب ہارون کو قوم بنی اسرائیل میں تھی سوائے نبوت کے جو کہ قادر مطلق اللہ جلہ و شانہ نے اپنی کتاب میں اسطرح بیان کیا ہے :''۔۔۔اور مقرر کردے میرے لئے ایک وزیر میرے کنبے سے یعنی ہارون کو جو میرا بھائی ہے اور مضبوط کردے تو اس کے ذریعے میری پشت کو اور شریک کردے تو اسکو میرے کام (نبوت) میں ....طہٰ ''آیت 25۔32 ۔۔۔۔۔ اور اللہ نے موسی ٰ کی دعاقبول کی اور فرمایا : اے موسٰی تمہاری دعا قبول ہوئی(طٰہ 36) اور ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی اور ہم نے ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنایا ( فرقان 35)
حضرت علی عہد ہ ٔ خلافت کے زیادہ حقدار تھے چونکہ بقو ل صحیح بخاری وہ تمام صحابہ میں سب سے زیادہ علم والے تھے جیسا کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا : قرآن کی تلاوت سب سے بہتر میرے باپ کرتے ہیں اور ہم میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں (30) جو احکام اور قوانین سب سے زیادہ جاننے والا ہو وہ ہی سب سے بہتر قاضی ہوتا ہے۔یہ ثبوت کافی ہے کہ علی تمام صحابہ سے اعلم ہیں اور سب سے اچھی عقلی دلیل یہ ہے کہ وہ نبی (ص) کے شہر علم کے دروازہ ہیں۔مستدرک علیٰ صحیحین میں ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے،جس کو علم حاصل کرنا ہے وہ دروازہ سے داخل ہو(31)۔ صحیح ترمذی میں روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے (32)۔مستدرک علیٰ صحیحین میں یہ بھی روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا : اے علی! میرے بعد امت میں جن امور میںاختلاف ہوگا،تم انکو صاف صاف بیان کروگے(33)۔اللہ کے رسول(ص) نے علی سے نفرت کرنے کو منافق کی ایک نشانی قرار دیا ہے جیسا کی صحیح مسلم میں علی سے روایت ہے ! اس کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جس نے ٹھنڈی ہوا چلائی، اللہ کے رسول (ص) نے قسم کھا کر مجھ سے فرمایا : اے علی منافق کے سوا تجھ سے دشمنی کوئی نہیں کرے گا اور مومن کے سوا تجھ سے کوئی محبت نہیں کرے گا(34)۔
اگر اللہ کے رسول (ص) نے اپنے بعد کیلئے جانشین مقرر و نامزد نہیں بھی کیا تو کیا امت کیلئے یہ فرض نہیں تھا کہ وہ سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ اعلیٰ صفات والے شخص کو اپنا رہبر چنتے؟ ہم یہ پہلے ہی ثابت کرچکے کہ علی تمام صحابہ کرام میں اعلم تھے۔ جب بھی ان کو کوئی پیچیدہ دینی مسئلہ پیش آتا تھا تو وہ امام علی کی طرف رجوع کرتے تھے۔سنن ابن داوئود میں ابن عباس سے روایت ہے کہ عمر ابن خطاب نے ایک ذہنی مرض میں مبتلا عورت کو جس نے بدکاری کی تھی سنگساری کا حکم دیا۔
حضرت علی ابن ابی طالب کوجب اس کا علم ہوا کے توآپ اس کو اپنے ساتھ لیکر عمر ابن خطاب کے پاس پہنچے اور ان سے کہا: کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ تین طبقے سزا سے بری ہیں،پاگل جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہوجائے،سویا ہوا جب تک کہ وہ نیند سے اٹھ نہ جائے اور چھوٹا بچہ جب تک کہ وہ عقلی طور سے بالغ نہ ہوجائے ؟ انہوںنے کہا ،ہاں۔ علی نے کہا پھر اس عورت کو سنگساری کا حکم کیسا ؟ عمر ابن خطاب خاموش ہوگئے۔عورت چھوڑدی گئی اور عمر تکبیر پڑھتے رہے(35) ۔بخاری میں بھی اس واقعہ کا ایک حصہ درج ہے۔(36)۔
اس کے علاوہ امام علی زاہدوں کے امام ہونے کے حیثیت سے بھی مشہور تھے اور وہ بلندحوصلہ اور مد مقابل کو للکارنے کیلئے بھی بہت مشہور تھے،ہر اسلامی معرکہ میں اللہ کے رسول (ص) کی طرف سے لڑتے لڑتے انہوں نے فیصلہ کن رول ادا کیا ہے،جنگ بدر میں انہوں نے اپنی ذوالفقار سے تیس قریشی بہادروں کو تہہ تیغ کیا، احد اور حنین کی جنگوں میں انہوں نے رسول (ص) کی حفاظت کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر لیکرتاریخی اقدام کئے جب کہ بہت سے صحابی میدان جنگ سے راہ ِفرار اختیار کر گئے تھے ! جنگ خندق (موتہ) میںانہوں نے مشرکوں کے دیو قامت سردار عمر ابن عبدود کو للکار کر اس وقت واصل نار کیا جب کہ رسول (ص) کے تین بار پکارنے پر بھی کوئی صحابی ہمت کرکے اسکا مقابلہ نہ کر سکا، حالانکہ امام علی اس وقت ان میں سب سے چھوٹے تھے، جنگ خیبر میں اللہ نے علی کے ہاتھوں کامیابی عطا کرکے درِ خیبر کو مسلمانوں کیلئے کھول دیا جب کہ بہت سے صحابہ اکٹھے مل کر بھی اسکو کھول نہ سکے۔
صحابہ میںجو منزلت ومقام حضرت علی کا ہے وہ کسی کا نہیں ، زمانۂ جاہلیت میں بھی آپ نے بتوں کی پرستش نہیںکی ۔ آپ کی خاص تربیت انسانیت کے سب سے اعلیٰ معلم محمد عربی (ص) کے ہاتھوں ہوئی ،جن کے وجود ِمقدس سے وہ ایک لمحہ کیلئے بھی الگ نہیں رہے۔جب آنحضرت (ص) نے رحلت فرمائی علی ان کی خدمت میں تھے۔علی ہمیشہ آنجناب (ص) سے علم و دانش حاصل کرتے رہے۔ اسلئے وہ آنجناب (ص) کے علم و حکمت کے دروازہ کے حقدار اور ان کے بھائی ہیں۔
صحیح بخا ری میں عبدللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول (ص) نے صحابہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا،علی آنسوں بھری آنکھوں کے ساتھ آئے اور کہا! اے اللہ کے رسول (ص) آپ(ص) نے اپنے صحابہ کرام کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا اور مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: اے علی تم دنیا اور آخرت میںمیرے بھائی ہو(37)۔ روایت یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: اے علی تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں(38)۔ علی کو بہت سی خوبیوں کی بنا پر صحابہ پر فوقیت تھی جیسا کہ مستدرک علیٰ صحیحین میں حاکم نے احمدبن حنبل سے روایت کی ہے:'' اللہ کے رسول (ص) کے صحابہ میں امام علی ابن ابی طالب ٭جتنی فضیلتوں کے حامل تھے،اتنا کوئی نہیں تھا(39)۔صحیح ترمذی میں روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا :،'' اللہ نے مجھ سے فرمایا :کہ فاطمہ کا نکاح علی سے انجام دو(40)۔ یہ اسکے بعد ہوا جب رسول اللہ (ص) نے بہت سے صحابہ کا پیغام ِ نکاح رد کیا جنہوں نے انکا ہاتھ مانگا تھا تاکہ انہیںاس خاتونِ پاک سے نکاح کرنے کا شرف حاصل ہو جائے جو اللہ کے رسول (ص) کا حصہ تھیں،مومن عورتوں اور اہل جنت کی سردار اور وہ خاتون جس کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔اسلئے سچ ہی کہا گیا ہے کہ ،'' اگر علی پیدا نہ ہوتے،فاطمہ کا کفو ہی نہ ہوتا(41)''۔ اوپر بیان کئے گئے واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر خلافت کا چنائو حقیقتاً لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتا، توعلی تمام صحابہ میں سر فہرست ہوتے کیونکہ وہ خلافت کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔
مسلمانوں کی اکثریت نے اہلبیت کے متعلق احادیث کی مخالفت کی
ہم نے پہلے ہی وہ دلائل بیان کئے ہیں جن سے اہلبیت کا حق ِولایت ثابت ہوتا ہے جنمیں بارہ اماموں کی امامت خصوصی طور پرواضح وآشکار ہے ہے جو کہ وصال ِ نبی (ص) کے بعد امام علی سے شروع ہوتی ہے۔ ایک فیصلہ کن سوال کا جواب دینا باقی ہے تاکہ صدیوں سے جاری شیعہ،سنی اختلاف کی بنیاد کا ازالہ ہوسکے ۔سوال یہ ہے :'' اگر قدیم روایات سے اہل بیت کی امامت صریحی طور پر ثابت ہے، توکیوں اور کیسے خلافت دوسروں کی حصے میں آگئی؟کیا صحابہ پیغمبر (ص) کے ہر اس فرمان کی تعمیل نہیں کرتے تھے جس کاوہ ان کوحکم دیتے تھے؟
اس سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں ِ اسلام کے ابتدائی دور کے کچھ واقعات سامنے لانے ہونگے جنہوں نے تاریخ اسلام کا رخ موڑنے میں بہت ہی اہم رول ادا کیا ہے تاکہ قاری آخر میں خود ہی اپنا فیصلہ سنائے۔ ان میں سے آئے کچھ اہم واقعات یہ ہیں :
(1)کچھ صحابہ نے اللہ کے رسول (ص) کو وصیت لکھنے سے روکا:۔
صحیح بخاری میں اس حادثہ کے متعلق چھ (6 )بیان موجود ہیںجو وصال نبی (ص) کے چار دن پہلے پیش آئے۔
ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا:پنجشنبہ کا دن ! ہائے یہ کیسا د ن تھا! رسول خدا (ص) کے درد میں اضافہ ہوا،تو انہوں نے فرمایا ،'' میرے پاس کچھ لائو تاکہ تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں جو تمہیں اس کے بعدکبھی بھی گمراہ نہیں ہونے دیگا۔''انہوں نے نبی (ص) کے سامنے ایک دوسرے سے تنازعہ کیا،اور نبی (ص) کے سامنے کسی کو تنازعہ نہیں کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا ،' ان کو کیا ہوگیا ہے ؟! کیا ان کو ہذیان ہوا ہے؟ (استغفر اللہ ) جس پر رسول اکرم نے فرمایا :مجھے اکیلا چھوڑدو ،جو درد مجھے ہورہا ہے وہ اس سے بہتر ہے جس کا تم مجھے الزام دے رہے ہو'' (42)
دوسرے بیان میں ابن عباس سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب رسول خدا (ص) کا وقت رحلت قریب پہنچا،وہاں کچھ لوگ بھی تھے تو آنجناب (ص) نے فرمایا ،'چلو میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے،ان میں سے کچھ نے کہا کہ رسول خدا (ص) کو درد کا غلبہ ہوگیاہے، اور تمہارے پاس قرآن ہے۔ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔رسول کے پاس جمع لوگوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا اور تنا زعہ اٹھ کھڑا ہو۔ان میں سے کچھ نے کہا کہ اللہ کا رسول جو لکھنا چاہتا ہے اسے لکھنے دیا جائے ،جبکہ باقی وہی دُہرا رہے تھے جو حضرت عمر نے کہا تھا۔جب ان کاشور اور اختلاف بہت زیادہ بڑھ گیا،تواللہ کے رسول (ص) نے کہا،' یہاں سے چلے جائو! '' ۔عبید اللہ نے کہا،'' ابن عباس کہا کرتے تھے،عظیم مصیبت تھی وہ،کہ جب لوگوں کے اختلاف اور جھگڑے نے اللہ کے رسول کو وصیت لکھنے سے روک دیا''(43) ۔
تیسرے بیان میں ابن عباس سے روایت ہے کہ جب رسول خدا (ص) کا وقت وصال نزدیک آیا تو وہاں کچھ لوگ تھے جنمیں عمر ابن خطاب بھی تھے۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،' چلو میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہو۔ عمر ابن خطاب نے کہا ،' رسول خدا (ص) کو درد کا غلبہ ہوا ہے ا س وجہ سے ایسا کہ رہے ہیں ہمارے لئے قرآن کافی ہے ،وہاں جمع لوگوں کے درمیان اختلاف اور نزاع ہوگیا۔کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ رسول (ص) کے حکم کی تعمیل کرنا ضروری ہے تاکہ رسول اکرم جو کچھ چاہیں وہ تحریر فرمادیں ،باقی عمر ابن خطاب کی کہی ہوئی بات دہرا رہے تھے۔جب انکا اختلاف اور جھگڑا نبی (ص) کے سامنے تیز ہوا تو انہوں نے کہا ! میرے پاس سے چلے جائو !
ابن عبا س ہمیشہ کہتے رہے کہ ہائے کیسی مصیبت،سب سی بڑی مصیبت جب لوگ اختلاف اور جھگڑے کی وجہ سے رسول اور وصیت کے درمیاں حائل ہوئے۔(یعنی آپس کو وصیت نہ لکھنے دی ) (44) ۔ صحیح مسلم میں درج ہے کہ انہوں نے کہا۔۔۔۔ کہ ا للہ کا رسول ہذیان بک رہا ہے(45) ۔(استغفر اللہ ،مترجم)
ایک بیان میں اسطرح درج ہے: ۔۔۔۔۔۔۔عمر ابن خطاب نے کہا کہ اللہ کے رسول (ص) کو درد کا غلبہ ہوا ہے،ہمارے لئے قرآن ہے،اللہ کی کتاب کافی ہے(46)۔ جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ اس آخری بیان میں لفظ ''ہذیان '' درد کے غلبہ سے بدل دیا گیا ہے۔ اوپر بیان کئے گئے واقعات پر غور و فکر کرنے سے یہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ وہ عمر ابن خطاب ہی تھے جنہوں نے اللہ کے رسول (ص) کے ساتھ لفظ 'ہذیان' منسوب کیا اور ان کا ساتھ وہاں موجود کچھ صحابہ نے دیا جس سے اللہ کے رسول (ص) بہت ناراض ہوئے اور انکو '' میرے پاس سے چلے جائو'' کہکرکر وہاںسے نکال دیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اس حادثہ سے بلا شک یہی تاثر ملتا ہے کہ عظمت والے اللہ کے رسول (ص) کی شان کو ٹھیس پہنچی ہے۔جب مجھے اسکا پتہ چلا تو بہت صدمہ ہوا ،اوریہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اہلسنت کی اکثریت اس حادثہ کے اثرات کی تباہی کے باوجود اس سے بے خبر ہے۔
کچھ حضرات جن کومیں نے اس کے بارے میں آاگاہ کیا نے تو انہوں نے یقین ہی نہیں کیا۔ ان میں سے ایک نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ اگر ایسے واقعہ کا تھوڑا سا بھی ثبوت صحیح بخاری میں ملا،تو میں اس صحیح بخاری کی کسی روایت پر یقین نہیں کروں گا۔کچھ نے اس واقعہ پر یقین کیا مگر جب انکو پتہ چلا کہ رسول خدا (ص) پر سب سے پہلے ہذیان کا الزام دینے والے عمر ابن خطاب ہیں تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کیا۔ وہ اس حد تک گئے کہ وہ بخاری یا اور کسی ایسی حدیث کی کتاب پر یقین نہیں کریں گے جس میں ایسے واقعات درج ہوں جن سے ان کے مطابق نیک اجداد کی صورت مشکوک ہوجاتی ہے۔اس حادثہ کی حیرانگی کے پیچھے راز یہ ہے کہ جو صحابہ وہاں موجود تھے انہیں بلا کسی تاخیر اس کو ترجیح دینی چاہئے تھی جسکا اللہ کے رسول (ص) نے حکم دیا تھا تاکہ آنجناب (ص) ان کے لئے ایک ایسی آخری وصیت لکھ دیتے جس میں انکی تقدیر کا معاملہ تھا اور پیروی کرنے کی صورت میں انکی گمراہی سے بچنے کی ضمانت تھی،جیسا کہ بیان سے صاف ظاہر ہے۔ اہلسنت میں کون یہ گمان کرسکتا ہے کہ رسول خدا (ص) کی صحابہ سے آخری نشست ان کی ناراضگی کا باعث بنی کیونکہ انہوں نے آنجناب (ص) کو ایسے تکلیف دہ جملہ کہہ کر وداع کیا جس کاصرف ایک ہی معنی ہوسکتا ہے؟ جس کو النوائی نے شرح صحیح مسلم میں درج کیا ہے جہاں اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے''ہذیان بکنا '' ہم اللہ کی ناراضگی سے پناہ مانگتے ہیں ۔
ا مام شرف الدین(مولف ِ المراجعات) کے مطابق اگر آپ پیغمبر (ص) کے اس فرمان،' میرے پاس کچھ لائو تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جس سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوں گے اور آنجناب (ص) کا بیان ِ حدیث ثقلین جس میں آپ (ص) فرماتے ہیں ،' میں تمہارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن اور دوسری اپنی عترت ، اہلبیت جن سے اگر تم متمسک رہے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہو گے'' پر غور و خوض کریں تو تمہیں ہوجائیگا کہ دونوں کا مدعاء و مقصد ایک ہی ہے۔ اپنی علالت میں اللہ کے رسول (ص) نے حدیث ثقلین کی واجب تکمیل اور تفصیل بیان کرنے کی خواہش کی لیکن آنجناب (ص) نے ان کے ذریعے حیران کرنے والے بیان سے ارادہ بدل دیا اور آنحضرت (ص) وہ نہ لکھنے پر مجبور ہوئے ورنہ کچھ لوگ نبوت پر شک کرنے کا درازہ کھولنے میں کامیاب ہوجائیںگے ۔ یہ اس لئے ہے کہ ایسی دستاویز لکھنے کا کوئی مقصد ہی نہ رہا صرف آنحضرت (ص) کے بعداختلاف کہ انہوں نے جو لکھا ،ہذیان ہے کہ نہیں کیونکہ لوگوں نے حضور (ص) کے سامنے اختلاف،جھگڑا اور شور و غل کر ڈالا جیسا کہ مذکور بالا احادیث سے صاف واضح ہے،ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔
انہوں نے پیغمبر (ص) کی حالت ِ علالت میں ان کے حکم کی روگردانی کے جواز میں اپنے آپ کیلئے وہی کافی سمجھا جو قرآن مجید میں ہے۔ یہ ایسا ہے کہ شاید وہ بھول گئے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے عظیم پیغمبر (ص)کے متعلق اعلان کیا ہے ،''۔۔۔ نہ بھٹکا ہے تمہارا رفیق اور نہ بہکا ہے ۔نہیں ہے ہ کلام مگر ایک وحی،جو نازل کی جارہی ہے۔تعلیم دی ہے اسے زبردست قوت والے نے اور بڑا صاحب حکمت ہے۔( سورہ نجم 2۔6) اور یہ قرانی آیت :اور جو کچھ دے تمہیں رسول (ص) سو اسے لے لو اور جس سے روک دے تمہیں رسول (ص)،پس رک جائو اس سے اور ڈرو اللہ سے،بلا شبہ اللہ بہت سخت ہے سزا دینے والا۔( سورہ حشر 7)۔ اور اس قرانی آ یت ''۔۔ بیشک یہ (کلام) پیغام ہے زبانی فرشتئہ عالی مقام کے جو صاحب قوت ہے،مالک عرش کے ہاں،اونچے مرتبہ والا ہے۔اسکی بات مانی جاتی ہے وہاں اور امین بھی ہے اور نہیں ہے اے لوگو تمہارا یہ ساتھی (نبی (ص)) کوئی دیوانہ۔(سورہ تکویر 19۔22) (47)
ابن عباس نے ان آخری حالات کو اچھی طرح بیان کیا جب آپ نے کہا : مصیبت ،کتنی بڑی مصیبت ہے کہ جب انہوں اختلاف اور جھگڑے سے اللہ کے رسول (ص) کو وہ نوشتہ لکھنے سے روکا ۔ اس سب کے باوجود اور جو ابن عباس کا بیان صحیح بخاری میں درج ہے کہ اللہ کے رسول (ص) یہ کہنے سے پہلے فوت نہیں ہوئے،''۔۔مجھے اکیلا چھوڑو،میرا یہ درد اس سے کم ہے جوتم مجھ سے منسوب کرتے ہو۔پھر آنحضرت (ص) نے انہیں حکم دیا کہ تین چیزوں کی تعمیل کرو : جزیرۂ عرب سے مشرکوں کو نکال باہر کرو۔ دوسرے ممالک کے سفیرو ں کے ساتھ میری طرح اچھے طریقے سے پیش آؤ۔اور تیسرا حکم کہنے سے وہ رک گیا یا کہا کہ میں یہ بھول گیا!(48)۔ یہ صحیح ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے یہ سفارشات اپنے اہل خانہ اور کچھ رشتہ دار مع اپنے چچا زاد بھائی ابن عباس کے سامنے انہی ایام ِ المیہ جمعرات کے دوران صادر کئے تھے۔لیکن حیرانگی یہی ہے کہ بخاری کے مطابق ابن عبا س نے تیسری سفارش ظاہر نہیں کی ہے کیونکہ وہ افشاکرنے کیلئے آمادہ نہیں تھے۔بہر حال شیعوں نے اہل بیت کی روایات کے مطابق ثابت کیا کہ''بھولا ہوا '' یا'' خاموشی کے پردہ میں لپٹا ہوا'' مسئلہ امام علی کا اعلان خلافت ہے۔
(2): کچھ صحابہ کا لشکر اسامہ میں جانے سے پس و پیش اور ان کی سرداری پراعتراض
تمام مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ص) نے سترہ سالہ اسامہ بن زید کی سرداری میں ملک روم پر فوجی مہم بھیجنے کا فیصلہ کیا۔یہ حیات رسول (ص) کی آخری فوجی مہم تھی۔ کسی بھی بڑے انصار یا مہاجر صحابی بشمول حضرت ابوبکر،حضرت عمر،ابوعبیدہ،سعد وغیرہ کو اس مہم سے پیغمبر (ص) نے مستثنیٰ(باہر)نہیں رکھا(49)۔ یہ حقیقت تمام سیرت نگاروں اور تاریخ دانوں نے بہ اتفاق رائے قبول کی ہے کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔پیغمبر (ص) نے اسامہ کو کوچ کرنے کا حکم صادر کیا ،مگر انہوں نے اپنے قدم پیچھے کھینچے اور کچھ نے ان کی سرداری پر شکوک ظاہر کئے یہان تک کہ رسول (ص) منبر پر تشریف لے گئے جیسا کہ علامہ بخاری نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ابن عمر کہتے ہیں ،'' اللہ کے رسول (ص) نے اسامہ کو لوگوں کا سردار مقرر کیا۔ انہوں نے اس تقرری پراعتراض کیا جس پر پیغمبر (ص) نے فرمایا : ،تم اس کے باپ کی سرداری پر بھی معترض تھے ۔اللہ کی قسم اسکا باپ اس منصب کے قابل تھا اور وہ میرے قریب ترین محبوں میں تھا اور یہ اس کا بیٹا ہے جس کو میں اس کے باپ کے بعد بہت زیادہ عزیز ر کھتاہوں(50)۔ پھر آنجناب (ص) نے انہیں جلدی سے نکلنے کی ایک بار پھرتاکید فرمائی،مگر پیغمبر کے تاکیدی حکم کے با وجود وہ اسامہ کے ساتھ نہیں گئے۔ پیغمبر (ص) اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔(انا لا للہ و انا الیہ راجعون،مترجم)۔اس واقعہ سے ہم مندرجہ ذیل نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں :
(ا): کچھ صحابہ نے فرمان ِ رسول (ص) کی مخالفت کرکے اپنے ذاتی اجتہاد کی پیروی کی۔ اسامہ کے کم سن ہونے کی بنا پر ان کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا حالانکہ پیغمبر (ص) نے اپنے دست مبارک سے پرچم اسلام ان کے سپرد کیا تھا۔اگر ہم یہ سب سمجھ جائیں،تو کیا یہ سمجھنا مشکل ہوگا کہ انہوں نے خلافت ِ علی اور ان کے امام ہونے جیسے بڑے مسئلہ میں اپنے ذاتی اجتہا د کی پیروی کیوں اور کیسے کی۔
(ب):پیغمبر (ص) کے ہاتھوں اسامہ کی بحیثیت ان کے سردارِلشکر کی تعایناتی صحابہ کیلئے اپنے سے کم عمر کی سرداری قبول کرنے کے معاملے میںایک عملی سبق تھا،خاص کر کہ جب آنحضرت (ص) کی جبین مبارک پر ناراضگی کے آثار صاف نمودار ہوئے جب انہوں نے ایک جوان آدمی کو سردار لشکر مقرر کرنے کے آنحضرت کے منصوبہ پر شکوک ظاہر کئے۔
(ت):جس اللہ کے رسول (ص) نے اسامہ کو لشکرکی سربراہی سونپی،اسکو معلوم تھا کہ وہ سب سے مکرم صحابی کو الودا ع کرنے جارہا ہے،اور بیشک وہ خلافت پر اٹھنے والے تنازعہ پر غور و فکر فرما رہے تھے جس کی بنا پر انہوں نے اعلیٰ دانشمندی کا ثبوت دیکر بڑے بڑے انصار و مہاجر صحابہ کو اس مہم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جس کو آنجناب (ص) نے اپنے وصال کے کچھ ہی دن پہلے روانہ ہونے کا حکم دیا تھا تاکہ رہبریت پر تنازعہ کرنے کا موقعہ کسی کو نہ ملے۔
علی ،پیغمبر (ص) کے حالات ِ علالت میں پورے ایام ان کے ساتھ رہے۔آنجناب (ص) کے رحلت کے بعد علی انکے تجہیز و تکفین میں مشغول رہے جبکہ انصار و مہاجر سقیفہ بنی سعد میں چلے گئے جہاں انہوں نے رہبریت کے معاملے میں ایک دوسرے سے ہنگامہ آرائی کی جبکہ انہوں نے لشکر اسامہ میں پیر پیچھے کھینچ کے جانے سے انکار کیا جسمیں انہیں پیغمبر (ص) نے شامل کیا تھا۔یہ انہوں نے اپنے اس ذاتی اجتہاد اور فکر سے کیا کہ انکی غیر موجودگی میں وفات رسول (ص) کے بعد کیا ہوجائے گا ! اس لئے صحابہ کے ذریعے علی ابن ابی طالب کو امام تسلیم کرنے سے انکار کرنا قبول یا ہضم کرنا مشکل ہے ورنہ کوئی اسی گروہ کے ذریعے اسامہ کو اپنا لیڈر ماننے سے انکار کرنے اور اس پر شک کرنے کاکیا مطلب نکال سکتا ہے حالانکہ یہ بھی رسول خدا (ص)نے حکم صادر کیا تھا ؟ چونکہ یہ دونوں واقعات ،'' المیہ جمعرات '' اور '' اسامہ کی سرداری میں شک کرنا '' پیغمبر (ص) کی حیات ِ مبارکہ میں ہی ان کے سامنے پیش آئے،ان واقعات کے مضر اثرات کی تباہ کاریوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا کوئی توقع کرسکتا ہے کہ آنحضرت (ص) کے بعد کیا ہونے والا ہے ؟!
حالات ِ سقیفہ اور حضرت ابوبکر بعنوان خلیفہ:
جب علی اور ان کے ساتھ رسول (ص) کے رشتہ دار وصال نبی (ص) کے بعد ان کے تجہیز و تکفین میںمشغول تھے،عمر ابن خطاب نے رسول (ص) کے وفات ہونے کے تصور کو ماننے سے انکار کرنے کا اعلان کیا اور ہر کسی کو قتل کرنے کی دھمکی دی جو اسکے خلاف کہے۔ ان کو یقین نہیں آیا کہ رسول (ص) وفات کر گئے ہیں جب تک کہ حضرت ابوبکر مدینہ سے باہر 'سخ' نامی جگہ سے واپس نہ آئے۔جیسا کہ بخاری میںحضرت عائشہ سے روایت ہے کہ : اللہ کے رسول (ص) نے جب رحلت کی، حضرت ابوبکر سخ میں تھے،اسمعٰیل کہتا ہے کہ ان کا مطلب ہے پہاڑی علاقہ۔عمر کہتے رہے،'' اللہ کی قسم رسول (ص) مر ے نہیں ہیں ! حضرت عائشہ کا یہ بھی فرمانا ہے کہ،'' عمر نے یہ بھی کہا : اللہ کی قسم میں نے کبھی بھی اس کے علاوہ کچھ پسند نہ کیا اور اللہ ان کو واپس بھیجے گا اور وہ لوگوں کے ہاتھ و پائوں کاٹے گا '' حضرت ابو بکر آئے،رسول (ص) کے چہرے سے پردہ اٹھایا اور اس کا بوسہ لیا۔پھر انہوں نے کہا،'' میرے ماں باپ کی قسم آپ (ص) اچھے زندہ اور مردہ ہو! اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری روح ہے اللہ آپ کو دو دفعہ موت کا مزہ چکھنے نہیں دیگا ''پھر وہ یہ کہتے چلے گئے ،'' اے قسمیں کھانے والے (عمر)! اب خاموش بھی ہوجائو ! (51) انصار جو تھے سقیفہ بن سعدمیں جمع ہوئے اور سعد بن عبادہ کو بحیثیت رسول (ص) کا جانشین نامزد کیا۔جب بزرگ مہاجرین( حضرت ابوبکر،حضرت عمر،ابو عبیدہ ) کو اسکے متعلق معلوم ہوا،وہ فوراََ وہاں پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ خود اس کے زیادہ حقدار ہیں۔انصار و مہاجرین کے درمیان تکرار ہوئی اور تنازعہ اٹھا۔ انصار کا لیڈر سعد بن عبادہ کھڑا ہوا اور کہا ،' ہم اسلام کے مدد گار اور اس کی کمک ہیں جبکہ تم اے مہاجرین اسکے رشتہ دار ہو ۔آپ میں سے ایک ڈھول بجانے والے نے اپناڈھول بجاڈالا،اسلئے وہ ہمیں اپنی بنیاد سے محروم کرنا اور ہمیں اس مسئلہ سے پیچھے دھکیلنا چاہتے ہو (52)۔
حضرت ابوبکر کھڑے ہوگئے اور مہاجرین کے فضائل بیان کرتے ہوئے ایک خطبہ دیا،اپنے دلائل کو نسب ِ قریش سے مشرف ہونے کو خلافت کا حقدار ثابت کرنے لگے جیسا کہ صحیح بخاری میں درج ہے، ''۔۔۔۔پھرحضرت ابو بکر،حضرت عمر اور ابو عُبیدہ ابن جراح ان کے پاس گئے۔ عمر ابن خطاب نے کہنا شروع کیا مگر حضرت ابوبکر نے انہیں خاموش کردیا (53)۔ ابوبکر نے کہا ،''۔۔۔نہیں؛ لیکن ہم شہزادے ہیں اور تم وزیر ۔ اور وہ عرب میں سب سے اچھے خاندانی اور مرتبہ والے ہیں (54)۔۔ اور میں نے تمہارے لئے ان دو میں سے ایک کی تائید کی ہے(55)۔ اسطرح انہوں نے عمر ابن خطاب یا عبیدہ ابن جراح کی بیعت کی (56)۔ الحباب ابن المنضر نامی ممتاز انصار نے انکا جواب اسطرح دیا: ''نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں کریں گے ! ہم سے ایک امیر ہوگا اور تم میں سے بھی ایک امیر ہوگا ''(57)
دوسرے بیان میں انصار نے اسطرح جواب دیا،انصار میں ایک آدمی کھڑا ہوا اور تقریر کرنا شروع کی ،'' ہم اسکا اگا ہوا تنہ ا ورمتوقع شدہ گچھاہیں۔ اے قریش کے لوگو !ہم میں سے ایک امیر چننا ہوگا اور ایک تم میں سے بھی۔مختلف آوازیں زور و شور سے اٹھنے لگیں اور افرا تفری مچ گئی یہاں تک کہ اختلاف کا خوف پیدہوا(58) جب حالات اس درجہ پر پہنچ گئے،عمر ابن خطاب کا کردا رنمودار ہوا۔ انہوں نے کہا کہ '' ایک نیام میں دو تلواریں نہیں آسکتی ہیں! اللہ کی قسم عرب تم کو کبھی بھی امیرقبول نہیں کریں گے کیونکہ انکا نبی (ص) تم میں سے نہیں ہے۔ ہمارے پاس اس کے حق میں یہ دلیل ہے چہ جائیکہ کوئی مخالفت ہی کرے۔''الحباب نامی ممتاز انصار کھڑا ہوا اور کہا ،'' اے گروہ ِ انصار اپنی رائے پر متفق ہوجاؤ،اس آدمی کی باتوں میں نہ آؤ اور نہ ہی اس کے ہم نوائوں کی کیونکہ تم اس مسئلہ میں ان سے زیادہ حقدار ہو۔'' لیکن اسی دوران انصار میں آپسی اختلاف ہوگیا۔ قبیلہ عوص کا سردارسید ابن حزیر نے قبیلہ خضرج کے سردار سعد ابن عبادہ کی مخالفت کی اور مہاجرین میں جاکر ان کی حمایت کا اعلان کیا اور ان کی بیعت کرنے کا عہد کیا ۔
اس وقت عمر ابن خطاب کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکر سے کہا : '' اپنا ہاتھ بڑھائو تاکہ میں تمہاری بیعت کروں۔'' حضرت عمر نے اور ان کے بعد کچھ مہاجر اور انصار نے حضرت ابوبکر کی بیعت کی۔ بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ،'' حضرت عمر نے ڈرا دھمکا کر لوگوں سے ابوبکر کی بیعت لی۔نیز حضرت عائشہ کہتی ہیں : ''اللہ نے انکا خطاب فایدہ بخش بنادیا: عمر نے لوگوں کو خوفزدہ کیا۔ان میں منافقت تھی،تو اللہ نے اسکا سد باب کیا '' (59)
سعد ابن عبادہ (جو بہت بو ڑھا تھا) کی بیعت سے انکار کے متعلق صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ جب اسکو کچھ دنوں کے بعد مشکوک حالت میںمردہ پایا گیا اس وقت عمر ابن خطاب نے کہا،'' شاید اس کو اللہ نے ما را ہے(60 )
سقیفہ کے حالات پر سے پردہ اٹُھانے کے لئے اتنا کافی ہے جن کا اختتام انصار و مہاجرین کے درمیان محاذ آرائی کے بعدحضرت ابو بکر کی تعایناتی پر ہوتا ہے اس محاذآرائی پر جاہلیت کے اثرات کی چھاپ تھی جیسا کہ دونوں فریق کے طرزبیانات اور لب ولہجہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے جو انہوں نے ایک دوسرے کے مقابلے میں استعمال کئے۔ خلیفہ عمر ابن خطاب نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بذاتِ خود اس بات کا اعتراف کیا کہ حضرت ابو بکر کی بیعت کرنا ایک غلطی تھی مگر اللہ نے ان کے شر سے ہمیںمحفوظ رکھا(61)ہر کوئی جانتا ہے کہ امام علی اور ان کے حمایتی جو بنی ہاشم اور دوسرے جیسے سلمان،مقداد،ابوزر، خذیمہ بن ثابت،خالد بن سعید،ابی ابن کعب، زبیر،طلحہ ،ابو ایوب انصاری اور دوسرے اس حلف برداری میں شامل ٔنہیں تھے اور نہ ہی وہ اس دن سقیفہ میں داخل ہوئے کیونکہ وہ سب وصال نبی (ص) کے عظیم سانحہ اور اپنے محبوب (ص) کے کفن و دفن کے فرائض میں مصروف تھے۔ اہل سقیفہ نے حضرت ابو بکر کے ساتھ ہی معاملہ طے کیا جس کی وجہ سے علی اور ان کے حامیوں کو اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کریں اور بیعت کرنے سے انکار کریں جیسا کہ عمر ابن خطاب کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے: ''۔۔۔ ہم پوری طرح حالات سے باخبر تھے جب اللہ نے اپنے نبی (ص) کی روح قبض کی،مگر انصار نے ہم سے اختلاف کیا اور وہ اکٹھے سقیفہ بنی سعد میں جمع ہوگئے۔ اختلاف کرنے والوں میں علی ، زبیر اور ان کے حامی بھی تھے '' (62)۔
امام علی ابن ابی طالب نے ان کے خلاف احتجاج کرنے میں کوئی نتیجہ نہیں دیکھا سوائے افراتفری کے۔ انہوں نے اپنے حقوق کی پامالی کو ان اٹھنے والے فتنوں پر قربان کیا۔ کیونکہ اسلام کوچاروں طرف خطرات نے گھیر لیا تھا۔ اسلام کومدینہ کے مشرکوں اور ارد گرد کے بدوئوں کا خطرہ تھا جن کا حوصلہ وصال ِ رسول (ص) کے بعد بڑھ چکا تھا۔ اسکے علاوہ مسیلمہ کذاب،شر انگیر طلیحہ، سجاح کے علاوہ قیصر و کسریٰ اور دوسرے دشمن بھی تھے جو مسلمانوں کے خلاف تاک میں بیٹھے تھے۔ اور بھی بہت دشمن تھے جو بقاء اسلام کیلئے خطرہ تھے یہ تو فطری تقاضہ ہے کہ امام علی اپنے حقوق کو قربان کریں اور اس بحث میں نہ الجھیں کہ رسول اللہ (ص) نے انہیں پہلے ہی اس کیلئے نا مزد کیا ہے۔ انہوں نے اپنے حق خلافت اور اپنے طریقہ سے سوچنے والوں کے مقابلہ میں اپنے قوت ِدلائل کو محفوظ اور زندہ رکھا۔ انہوں نے یہ سب اسلئے کیا تاکہ اسلام کے دشمن اس اختلاف کے موقعہ سے فائدہ نہ اٹھانے پائیں۔وہ اس لئے گھر پر بیٹھے اور حلف برداری میں حصہ نہیں لیا اور جو باقی ان کے ساتھ تھے انہوں نے بھی وہی کیا۔یہ برابر چھ مہینے تک برقرار رہا(63)۔
صحیح بخاری میں ایک اور بیان درج ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر امام علی کے پاس اپنا حق حا صل کرنے کیلئے فوجی طاقت ،اور اختلافات کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ ضرور وہی کرتے۔حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ،'' حضرت فاطمہ صرف چھ مہینے پیغمبر (ص) کے بعد زندہ رہیں۔جب وہ وفات کر گئیں تو ان کے شوہر نے رات کی تاریکی میں انہیں دفن کیا۔ حضرت ابوبکر نے نہ ہی ان کے لئے اعلان کیا اور نہ ہی ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ بعد رسول (ص) وفات فاطمہ تک لوگوں میں علی کا احترام باقی تھا۔جب وہ رحلت کر گئیں ، تولوگوں نے ان سے منہ موڑ لیا،تب انہوں نے حضرت ابو بکر کے ساتھ صلح کرنے اور انکی بیعت کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے وہ ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔انہوں نے حضرت ابوبکر کو پیغام بھیجا جس میں فرمایا،'' تم مجھ سے اس شرط پر ملنے آسکتے ہو کہ تمہارے ساتھ اور کوئی دوسرا نہ ہو، (دوسرے سے مراد شاید حضرت عمر رہے ہوں )حضرت عمر جو وہاں موجود تھے انہوں نے کہا،' نہیں ، اللہ کی قسم تمہیں ان کے گھر اکیلا نہ جانا چاہیئے ۔ حضرت ابوبکر نے کہا،' کیوں نہیں ؟ تم کیاسمجھتے ہو کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچائیں گے ؟ اللہ کی قسم ! میں ضرور ان سے ملنے جائوں گا ''(64) ۔
امام شرف الدین موسوی نے امام علی کے اس رویہ(اقدام) کی تشریح اسطرح کی ہے،''اگر امام علی نے ا سوقت جلدی میں ان کی بیعت کی ہوتی،وہ اپنا قضیہ گھر نہیں لے جاتے اور نہ ان کے ساتھی ایسا کرتے لیکن انہوں نے اپنے طریقہ کارسے امت کو بھی بچایا اور اپنا حق خلافت بھی محفوظ رکھا اس وقت کے حالات تلوار سے دفاع کرنے اور اس مسئلہ میں ایک دوسرے سے بحث کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے (65)۔ یہ حقیقت اس وقت سامنے آتی ہے جب ابو سفیان نے کئی دفعہ امام علی کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آپ اپنا حق خلافت حاصل کرنے کے لئے اٹھیں ' تو میں ان سے مقابلہ کرنے کیلئے زمین پیدل فوج اور شہسواروں سے بھر دوں گا اور ان کے فرار کے تمام راستے اسی وقت مسدود کردونگا''(66)۔ لیکن امام علی نے اس کی پیش کش کو ہر بار ٹھکرادیا کیونکہ آپ اس کے ارادہ سے بخوبی واقف تھے ۔وہ چاہتا تھا کہ اختلافات کی آگ بھڑکے اور جنگ چھڑ جائے تاکہ اسلام کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے۔
حضرت فاطمہ نے اس حالت میں دنیا سے رحلت فرمائی کہ آپ حضرت ابوبکر سے ناراض تھیں کیونکہ انہوںنے شہزادی کو اس میراث سے محروم کردیا تھا جو کہ آپ کے بابا جان ،پیغمبر خدا (ص)نے آپ کے لئے چھوڑی تھی۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے،''۔۔۔کہ حضرت فاطمہ بنت سول اللہ (ص) کو وہ میراث حاصل کرنا تھا جو انکے لئے فے ( امن کے معا ہدہ میں ملنے والا حصہ) میں رکھا گیا تھا جو اللہ نے اپنے رسول (ص) کوعنایت کیا تھا۔حضرت ابوبکر نے ان (فاطمہ) سے کہا ، ''اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ہے کہ ہم انبیا کوئی میراث نہیں چھوڑتے،جو بھی ہم پیچھے چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے جس کی بنا پرفاطمہ بنت رسول اللہ (ص) ابوبکر سے ناراض ہوئیں۔ وہ وصالِ رسول (ص) کے بعد صرف چھ مہینے زندہ رہیں''۔ حضرت عائشہ سے ہی روایت ہے،'' حضرت فاطمہ نے حضرت ابوبکر سے اس میراثِ نبی (ص)کا دعویٰ پیش کیا جس کی وہ حقدار تھیں جو کہ علاقہ خیبر سے فدک نام کا ہے اور خیرات ِمدینہ کا حصہ مگر حضرت ابوبکر نے یہ کہکر انکار کیا کہ میں وہ کچھ نہیں چھوڑوں گا جو اللہ کے رسول (ص) کیا کرتے تھے''(67)۔
وہ حضرت ابوبکر سے اتنی ناراض تھیں کہ انہون نے حضرت علی سے وصیت کی کہ حضرت ابوبکر اس کے مرنے پر اسکے نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں اور نہ ہی وہ ان کے جنازے کے پیچھے چلے۔امام علی نے ان کے جسد مبارک کو رات کی تاریکی میں خاموشی سے دفنایا جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا،''۔۔ حضرت ابوبکر نے انکار کیا کہ فاطمہ کو کچھ دیا جائے۔حضرت فاطمہ اسی لئے اس سے حد سے زیادہ ناراض تھیں یہاں تک کہ اس نے ان سے علیحدگی اختیار کی اور اپنے وفات تک اس سے بات نہیں کی۔وہ وصال نبی (ص) کے بعد صرف چھ مہینے زندہ رہیں۔جب وہ وفات پاگئیں تو انکے شوہر نے انہیں رات میں دفن کیا۔ابوبکر نے ان کی وفات کا اعلان بھی نہیں کیا اور نہ ہی ان کے نماز جنازہ میں شریک ہوئے''(68)۔ فدک کی زمین جس کا حضرت فاطمہ نے مطالبہ کیا،حجاز میں ایک گائوں ہے جسمیں کچھ یہودی آباد تھے۔جب اللہ کے رسول (ص) نے خیبر کی طرف کوچ کیا،اللہ نے ان یہودیوں کے دلوں میں خوف طاری کیا جس کہ وجہ سے انہوں نے اللہ کے رسول (ص) سے فدک کے بدلے میںایک معاہدہ کیا۔ اس لئے فدک رسول (ص) کی ملکیت بن گئی کیونکہ اس کو فتح کرنے کیلئے نہ تو کوئی فوج استعمال ہوئی اور نہ ہی کوئی ساز و سامان۔پھر آنحضرت (ص) نے وہ او ر اپنے خمس و عطیات کا حصہ اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے نام ہبہ کیا یہ سب کچھ نبی خدا (ص) کی ذاتی جائداد تھی جس پر ان کے علاوہ کسی کا کوئی حق نہیں بنتا۔ بخاری کے خیال میں حضرت فاطمہ اس چیز کا دعویٰ کر رہی تھیں جس کی وہ حقدار نہیں تھیں۔ اس نظریہ کے مطابق حضرت فاطمہ صرف دو ہی افعال کی مرتکب ہو رہی تھیں جب کہ تیسرے کا امکان نہیں ہے:
(1) وہ لا علم تھیں اور ان کو وراثت ِ رسول (ص) کا قانون معلوم نہیں تھا جبکہ حضرت ابوبکرکو معلوم تھا۔
(2) وہ جھوٹی تھیں(نعوذ باللہ) اورجس کا وہ لالچ کر رہی تھیں وہ اس کی حقدار نہیں تھیں۔
(عیاذاًباللہ ) حضرت فاطمہ زہرا سے متعلق اس طرح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔فاطمہ وہ با عظمت بی بی ہیں جن کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے،مومن عورتوں اور اہل جنت کی سردار اور ایسی خاتون جس سے اللہ نے ہر گناہ و رجس کو دور کیا ہے جیسا کہ پہلے ہی بیان ہوا ہے۔
صحیح بخاری میں درج بیان کے مطابق اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' اے فاطمہ کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ تم مومن عورتوں یااس قوم کی عورتوں کی سردار ہو''؟(69)۔ فاطمہ میرا ایک حصہ ہے، جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا(70) ۔ فاطمہ خواتینِ جنت کی سردار ہیں (71) اگر ہم یہ بھی مان لیں کہ فاطمہ دوسری عورتوں کی طرح تھیں اور ایسی خصوصیات کہ حامل نہیں تھیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے،توان کا دخترِ معلمِ انسانیت اور زوجہ امیرالمومنین ہونا ہی ان کی فضیلت کے لئے کافی ہے
کیا حضرت فاطمہ صلواة اللہ علیہ کی موت جاہلیت کی موت ہوئی؟
صحیح بخاری میں عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا :،'' جو کوئی اپنے امیر میں کوئی قابل اعتراض فعل دیکھے،اسکو صبر کرنا چاہئے اور جو اسکے حکم سے ایک بالشت کا انحراف کرے وہ زمانہ جاہلیت کی موت مرتا ہے'' (73)۔ اور صحیح مسلم میں بھی روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ،''جو بھی بیعت کی ذمہ داری کے بغیر ہی مرتا ہے،وہ بھی زمانہ جاہلیت کی موت مرتا ہے ''(74)۔ مسند احمد میں رسول خدا (ص) سے منسوب روایت ہے کہ،'' جو کوئی بھی بغیر بیعت امام کے فوت ہوا ،وہ جاہلیت کی موت مرا''(75)۔ یہ تین حدیثیںفیصلہ کن طریقہ سے ثابت کرتی ہیں کہ جو کوئی اپنے امیر یا امام کی بیعت کئے بغیر مرجائے،وہ جاہلیت کی موت مرا ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہاں جو کہا گیا ہے اس کامطلب امام ہے جس کی اطاعت شریعت الٰہی کے مطابق واجب ہے نہ کہ او ر کوئی۔ فاطمہ زہرا حضرت ابو بکر کی بیعت کئے بغیر ہی اس دنیا سے رحلت کر گئیں۔اور وہ ان سے ناراضگی کی حالت میںاس دنیا سے رخصت ہوئیں اس وصیت کے ساتھ کہ وہ ان کے جنازہ کے پیچھے بھی نہ نکلے اور نہ ہی نماز جنازہ میں شرکت کرے جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضرت ابو بکر نے فاظمہ کو باپ کی میراث سے محروم رکھا جس کی بنا پر وہ اس سے تا حیات ناراض رہیں اور مرنے تک بھی اس سے بات نہیں کی۔
وہ رسول خدا (ص) کے بعد صرف چھ مہینے زندہ رہیں اور جب انتقال کیا تو ان کے شوہر نے رات کی تاریکی میں دفن کیا۔حضرت ابوبکر نے نہ ہی ان کے مرنے کا اعلان کیا اور نہ ہی ان کے نماز جنازہ میں شرکت کی(76)۔
کیاکوئی کہہ سکتا ہے کہ فاطمہ زہرا نے اوپر ذکر شدہ احادیث کی روشنی میں حکم نبی (ص) کی تعمیل نہیں کی؟ جبکہ انہوں نے آنکھوں دیکھے حالات پر صبر کا ثبوت دیااور فعل ابوبکرپر متنفر ہوئیں۔انہوں اطاعت نہیں کی،ان کی خلافت پر اعتراض کیا،ان سے ناراض تھیںاور یہ وصیت کی کہ وہ نماز جنازہ میں شرکت نہ کرے اور نہ ہی جنازہ کے پیچھے نکلے۔اس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ وہ حضرت فاطمہ ، ابوبکر کی حاکمیت سے ایک بالشت ہی نہیں بلکہ بہت دور رہیں !پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ فاطمہ جاہلیت کی موت مریں؟جبکہ تمام مسالک کی رائے کے مطابق وہ مومن عورتوں کی سرداراور زنانانِ جنت کی سردار ہیں جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے فرمایا : '' اے فاطمہ ! کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ تم مومن عورتوں کی سردار اور امت کی عورتوں کی سردار ہو '' ؟(77) ۔اسکے علاوہ اللہ کے رسول (ص) اس وقت ناراض ہوتے تھے جب فاطمہ ناراض ہوتی تھیں۔اس کا بیشک یہ مطلب ہے کہ ا للہ اس وقت ناراض ہو جائے گا جب فاطمہ ناراض ہوگی جیسا کی اس حدیث کے متن سے ظاہر ہے جس میںاللہ کے رسول (ص)نے فرما یا ،'' فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے،جس نے اسے ناراض کیا ،اس نے مجھے ناراض کیا ''(78)۔ اس سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ امام یا امیر جس کی اطاعت واجب ہے اور جو اسکی بیعت نہیں کریگا،جاہلیت کی موت مریگا،وہ حضرت ابو بکر یا قاتل و فاجرمعاویہ ( خلافت و ملوکیت مولانا مودودی،یزید نامہ خواجہ حسن نظامی،مولا اور معاویہ حاجی بابا خلیل چستی) ا ور نہ ہی ان جیسے لوگ ہو سکتے ہیں۔
جب حضرت ابوبکر بیمار ہوئے تو انہوں نے عثمان بن عفان کو اپنے پاس بلوایا اور کہا،'' لکھو: بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ یہ ابوبکر بن قحافہ کی طرف سے مسلمانوں کو وصیت ہے۔'' ابھی اتنا ہی لکھوا پائے تھے کہ بیہوش ہوگئے ۔حضرت عثمان نے از خود باقی وصیت اس طرح لکھ کر مکمل کی : '' میں تمہارے لئے عمر ابن خطاب کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہوں اور میں نے اس بارے میں تمہاری بھلائی کا پورا خیال رکھا۔''
اس دوران حضرت ابو بکر کو ہوش آگیا اور عثمان سے کہا،'' پڑھو دیکھوں تم نے کیا لکھا ہے عثمان نے جو لکھا تھا پڑھ کر سنایا ،جسے سن کر حضرت ابوبکر نے تکبیر کہی اور بولے کہ تم ڈرے کہ میں بے ہوشی کی حالت ہی میں دنیا سے نہ چلا جائوں اور لوگوں میں خلافت کے سلسلے میں اختلاف ہو عثمان نے کہا ہاں ۔ حضرت ابو بکر نے کہاجو تم نے لکھا ہے وہ صحیح ہے ،'' اللہ تم کواسلام اور اہل اسلام کی طرف سے خیر و برکت عطا کرے۔'' اور تحریر پر دستخط کردئیے (79)۔
یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ عمر ابن خطاب ہاتھ میں وہ کاغذ لئے ہوئے تھے جس پر سقیفہ کے دن حضرت ابو بکر نے انہیں اپنا جانشین نامزد کیا تھا جس وقت انہوں نے لوگوں کو ڈرادھمکا کر ابو بکر کی بیعت لی تھی جیسا کہ پہلے ہی بیان ہوا ہے، انصار وں میں پھوٹ پڑنے کا فائدہ اٹھا کر ان کی غیر موجودگی میں جو ہاتھوں میں خلافت کی جائزدعوے داری کا حق لئے ہوئے تھے اور جو پیغمبر خدا (ص) کے تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو خلیفہ نامزد کرنے میں وہی کردار ادا کیا جو حضرت عمر نے ان کے لئے کیا تھا۔ اس کیلئے کچھ خرچ نہیں ہوا سوائے تھوڑی سیاہی کے۔ حضرت ابو بکر کی وصیت لکھنے کے دوران میں بہت ہی درد و تکلیف اور بوجہ بیہوشی کے باوجود کسی نے انکے تحریر لکھنے پر ''ہذیان '' کہنے کی تہمت نہیں لگائی۔اسکے برخلاف حضرت عمر اور ان کے ہمنوائیوں نے اللہ کے رسول (ص) کو ایسے دکھ بھرے لفظ ''ہذیان '' سے نوازا جب انہوں نے انہیں قلم و دوات لانے کو کہا تھا تاکہ وہ ان کو گمراہی سے بچنے کیلئے ایک وصیت لکھ دیں۔ حضرت ابو بکر نے دعو یٰ کیا کہ انہوں نے اپنے بعد حضرت عمر کو اسلئے نامزد کیا تاکہ ان کے بعد اختلاف پیدا نہ ہو۔ اسطرح کیا اہلسنت اسکا یہ عذر قبول کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے شوریٰ کے اصول کی خلاف ورزی کی تھی جو کہ ان کے مطابق مسلمانوں کیلئے خلیفہ چننے کا بنیادی اصول ہے۔ آپ بعد میں دیکھیں گے کہ انہوں نے معاویہ اور اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے یزید کی خلافت کیسے قبول کی جبکہ وہ جبر و زیادتی اور تلوار کی طاقت سے اقتدار پر قابض ہوئے،جس دوران بہت سے مسلمانوں کا خون بہایا خاصکر ذریت ِ اہلبیت ِ طاہرین علیہم السلام۔ لیکن جو سوال ہم یہاں رکھنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ،'' اہلسنت حضرات یہ نظریہ قبول کیوں نہیں کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے بلاشک اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو نامزد کیا ہے جبکہ وہ حضرت ابوبکر کے ذریعہ ایسا کرنے کو تسلیم کرچکے ہیں
خاص کر اس تناظر میں کہ وصال رسول (ص) پر خلافت پر اختلافات اٹھنے کا زیادہ اندیشہ تھا بنسبتِ انتقال ابو بکر کے موقعہ پر،اس کے علاوہ وصال رسول (ص) کے بعد امت میں اختلافات ہونے کی صورت میں اہل بیت رسول (ص) سے وابستہ رہنے کی اہمیت کے معاملے میں صاف و شفاف روایات ؟ اور خلافتِ حضرت علی علیہ السلام ؟
جب حضرت عمر جا ن لیواحملے میں زخمی ہوئے تو ان کو بتایا گیا کہ ان کا جانشین پہلے ہی نامزد کیا گیا ہے جس پر انہوں نے کہا ،'' کاش ابو عُبیدہ ابن جراح زندہ ہوتے ،میں ان کو اپنا جانشین مقرر کرتا اور کاش سالم،غلامِ ابو ہدبیہ زندہ ہوتا میں اس کو اپنا جانشین نامزد کرتا۔''پھر انہوںنے کہا،'' کچھ لوگ کہتے ہیں کی ابوبکر کی بیعت ایک غلطی تھی ،جس کے شر سے اللہ نے ہمیں محفوظ رکھا اور عمر کی بیعت میں مشاورت کی خامی تھی،اور اب میرے بعد مسئلہ کو شوریٰ کی ذریعے حل کیا جائے گا ''(80)۔ انہوںنے کہا ،'' میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے لئے معاملہ کچھ بزرگ مہاجرین طے کریں گے جنکے نام انہوں نے اسطرح بتائے،'' میرے پاس علی ،عثمان ،طلحہ،زبیر، عبد الرحمان بن عوف اور سعد ابن وقاص کو بلائو۔ اگر ان میں سے چار افراد نے کسی ایک کو خلیفہ چننے پر اتفاق کیا توباقی دو کو بھی وہی قبول کرنا ہوگا اور اگر رائے تین۔تین میں بٹ گئی،تم کو عبد الرحمان بن عوف کی رائے ماننا پڑے گی،اسلئے اسکا فیصلہ مانو اور اسکی اطاعت کرو۔۔'' (81) ( اور اس طرح بھی ملتا ہے اگر ان میں سے پانچ آدمی کسی ایک کو منتخب کرلیں لیکن کوئی ایک اس فیصلے کی مخالفت کرے تو اسے قتل کردینا۔ اور اگر چار نفرکسی ایک کو چن لیں اور دو اس کی مخالفت کریں، تو ان دونوں کو قتل کردینا ۔ اور اگر تین کسی کا انتخاب کرلیں تو اس صورت میں عبداللہ کو حاکم اور قاضی قرار دینا اور اگر عبداللہ کے فیصلے پر راضی نہ ہوں ۔تو تم اس کے ساتھ ہوجانا جن میں عبدالرحمن بن عوف ہو اور باقی کو قتل کردینا۔۔ مترجم) اوپر بیان سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ حضرت عمر نے عبدالرحمان بن عوف کے ذریعے جانشین چننے کا بندو بست کیا ۔یہ شوریٰ کاتیسرا نمونہ ہے جس کی اہلسنت وکالت کرتے ہیں ۔۔ خلیفہ عمر نے عبد الرحمان بن عوف کو جانشین(امیدوار) کی بیعت کرنے کیلئے شرط طے کرنے کا حکم صادر کیا ۔شرط یہ ہے کہ اسکو قرآن اور سنت ِ نبی (ص) کے علاوہ سنت ِ ابوبکر اور سنتِ عمر پر بھی عمل کرنا ہوگا۔حسب توقع یہ چھ افرا دو گروہ میں بٹ گئے،تین بندے اور دو امیدوار۔پہلے تین علی،طلحہ اور زبیر تھے اور ان کے امیدوا رحضرت علی تھے۔
دوسرا گروہ ،عثمان،عبدالرحمٰن ابن عوف اورسعد ابن وقاص تھے جن کے امیدوار عثمان تھے۔ امام علی نے حضرت ابوبکر و حضرت عمر کی سنت پر عمل کرنے کے شرط کو یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ،'' میں اللہ کی کتاب، سنت ِ رسول (ص) اور اپنے اجتہاد پر عمل کروں گا ''(82)۔ جبکہ حضرت عثمان نے یہ شرط قبول کی اور اس کے ساتھ ہی خلیفہ بن گئے۔ صحیح بخاری میں اس قصہ کا ایک حصہ اسطرح موجود ہے: حصیر ابن مخارمہ سے روایت ہے کہ ،''نصف شب کے قریب کی بات ہے ۔دق الباب ہونے پر میں نے دروازہ کھولا تو سامنے عبدالرحمان بن عوف کو پایا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا وہ بولا،''شاید تم سوئے ہوئے تھے۔اللہ کی قسم میں آج بہت کم سو پایا ہوں ۔تم زبیر و سعدکو میرے گھر بلا لاؤ۔میں ان کو لیکر گیا اس نے انکے ساتھ مشورہ کیا۔پھر وہ میرے پاس آیا اور کہا،'' علی کو میرے پاس بلائو۔ میں نے ان کو بھی بلایا اور انہوں نے تادیر گفت و شنید کی۔ پھر حضرت علی ان سے با امید نکل کر چلے گئے۔اس نے مجھے پھر حضرت عثمان کو بلانے کیلئے بھیجا۔انہوں نے بھی مخفی طور پر صبح کی اذان تک گفتگو کی۔ صبح کی نماز کے بعد یہ سب لوگ منبر رسول (ص) کے نزدیک جمع ہوئے، تواس نے حاضرانصار و مہاجرین کو اپنے پاس بلایا اور سردارانِ لشکر کو بھی جمع ہونے کیلئے قاصد بھیجے، اور یہ سب حضرت عمر کے وفادار تھے۔ جب سب لوگ جمع ہوئے تو عبد الرحمان بن عوف نے کلمہ شہادتین کی تلاوت کرنے کے بعد کہا ،'' اے علی ! میں نے لوگوں کے حالات کا جائزہ لیا اور عثمان کے مقابلہ میں انکا کوئی مثالی شخص نہیں ملا،اسلئے اپنی جان خطرے میں مت ڈالو '' اور حضرت عثمان سے کہا،'' میں قرآن،سنتِ نبی (ص) ،سنتِ ابوبکر اور سنتِ عمر کے مطابق تمہاری بیعت کرتا ہوں۔اسطرح عبد الرحمان نے حضرت عثمان کی بیعت کی اور لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا ''(83) ۔ اب یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خلیفہ عمر نے بیعت کرنے کیلئے قرآن اورسنت ِ نبی (ص) کے علاوہ سنت ِ ابو بکر اور سنت عمر ِ پر عمل پیرا ہونے کی شرط عائد کی۔اسطرح انہوں نے پہلے ہی خلا فت ِ حضرت عثمان کا تہیہ کیا تھا کیونکہ وہ اس مسئلہ میں امام علی کے رویہ سے با خبر تھے اور اس واقفیت کہ طلحہ وزبیر امام علی کی حمایت کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے حالات سقیفہ میں کیا ہے۔اوپر بیان کئے گئے واقعات کے علاوہ یہ حقیقت کہ حضرت عمر نے پہلے ہی عبد الرحمان بن عوف کو حق اختیار میں ترجیح دی تھی سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کس قسم کے شوریٰ کا دعویٰ کرتے ہیں
حضرت عثمان کے قتل کے متعلق کافی کچھ کہا گیا ہے۔اس معاملے میںبہت سے بیانات ایک دوسرے سے متضاد ہیںخاصکر ان گروہوں کے متعلق جو دوسروں کو ان کے قتل کرنے کیلئے اکساتے تھے،وہ وجوہات جن سے وہ ایسا کرنے کیلئے آمادہ ہوئے اور ایسے واقعات جو حضرت عثمان کے قتل پر اپنے عروج کوپہنچے۔سب سے معقول توجیہات سرکار کے طرزِ حکومت کے احاطے میں ہیں،صوبہ داروں کی تائناتی جو حضرت عثمان کے رشتہ دار تھے اور وہ مال جو انکو سرکاری خزانہ سے دیا جاتا تھا۔یہ سب کچھ مخالفوں اور باغیوں کو حضرت عثمان کے خلاف اٹھنے کا باعث بنا۔ مشہور نقاد خالد محمد خالد لکھتا ہے ،'' اس میں شک نہیں کہ حضرت عثمان جانتے تھے کہ لوگوں کی اکثریت جنہوں نے انکو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مقابلہ میں خلیفہ بننے پر خوش آمدید کہا تھا،وہ جس آزادی کے خواہاں تھے انہیں میسر نہ ہوتی اگرحکومت کی باگ ڈور علی کے ہاتھ میں آجاتی(84)۔ بنی امیہ میں حضرت عثمان کے رشتہ داروں کے ذریعے سرکاری خزانہ کی تباہی مچ گئی یہانںتک کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ بنی امیہ نے ا سی وقت سے حکومت کرنا شروع کی جب انہوں نے حضرت عثمان کو خلیفہ چنا اور ان کی بیعت کی۔یہاں ابوسفیان اس کی تائید کرتا ہے اس نے حضرت عثمان کی بیعت کرنے کے بعد کہا ،'' اسکو ایک گیند کی طرح پکڑو،اس کیلئے جس کی قسم ابوسفیان کھاکر کہتا ہے کہ مجھے امید ہے کہ تم بھی اسکو حاصل کرو گے اور تمہاری اولاد کو وراثت میں ملے گی '' (85)۔ اسی کے متعلق دوسرے بیان میں آیا ہے کہ ابوسفیان نے کہا ،'' اسکو گیند کی طرح پکڑو،کیونکہ نہ کوئی جنت ہے اور نہ ہی کوئی جہنم''۔۔۔ (86) ۔جنہوں نے حضرت عثمان کی مخالفت کی ان میں کچھ بزرگ صحابہ کرام تھے جیسے ابوذر،عبداللہ ابن مسعود اورعمار بن یاسر۔ خلیفہ نے ان کے خلاف جوشیلا رویہ قائم کیا اور انہیں سخت سزا دی۔ جناب ابو ذر نے علاقہ ربذہ میں جلاوطنی کی حالت میں جان دی ،کیونکہ انہوں نے معاویہ کو شام کا گورنربنائے جانے پر مخالفت کی تھی ۔ ابوذر نے معاویہ کے ہاتھوں مسلمانوں کے بیت المال سے سونا اور دولت لوٹنے پر اعتراض کیا تھا۔زید ابن وہاب نے کہا ہے ،'' میں علاقہ ربذہ سے گذر رہا تھا کہ میں نے وہا ںابوزر کو دیکھا اور ان سے پوچھا،'' تم کو یہاں کون سی آفت لائی ہے،تو انہوں نے کہا ،'' میں شام میں تھا ار مجھے معاویہ سے اس آیت پر اختلاف تھا ،''۔
۔ اور وہ لوگ بھی ہے جو سونا،چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے'' (توبہ۔34)۔ معاویہ نے کہا کہ یہ اہل کتاب کے باے میں نازل ہوئی ہے جبکہ میں نے کہا کہ یہ ان کے اور ہمارے متعلق نازل ہوئی ہے اور یہی میرے اور اس کے درمیان اختلاف کا باعث بنا۔اس نے حضرت عثمان کو میرے بارے میں اس کی شکایت لکھی۔حضرت عثمان نے مجھے مدینہ آنے کیلئے لکھا، میں وہاں گیا اور میں نے حضرت عثمان کو یہ قصہ سنایا جبکہ وہاں اور لوگ تھے جو مجھے دیکھنے کیلئے آئے تھے۔حضرت عثمان نے کہا ،'' اگرتم چاہو تو کہیں نزدیک ہی جا سکتے ہو جس سے آج میری یہ حالت ہے۔اگر انہوں نے ایک اتھوپیائی(Ethopian) کو امیر بنایا ہوتا،میں نے ان کی بات سنی ہوتی اور بیعت بھی کی ہوتی''(87)۔ جہاں تک عبداللہ ابن مسعود،کوفہ کے بیت المال کے ذمہ دار کا تعلق ہے،اس کی پسلیاں حضرت عثمان کے غلام نے اس وجہ سے توڑیں کہ اس نے خلیفہ عثمان کے سوتیلے بھائی ولید بن مُعیت کے رویہ پر اعتراض کیا جو سعد ابن وقاص کی معزولی پر والیٔ کوفہ بنایا گیا تھا۔اس خالد بن مُعیت نے بیت المال سے پیسہ لیا اور کبھی واپس نہیں کیا (88)۔ جہاں تک عمار بن یاسر کا تعلق ہے ان کوحضرت عثمان کے غلام نے اتنا مارا کہ ان کو ہرنیا (Hernia)ہوگیا کیونکہ انہوںنے خلیفہ کی اجازت کے بغیر ابن مسعود کی نماز جنازہ پڑھادی تھی۔ دراصل حضرت عمار نے ابن مسعود کی وصیت کی بناپر ایسا کیا تھا جونہیں چاہتے تھے کہ خلیفہ ان کی نماز جنازہ پڑھائے(89)۔
اور بھی بہت لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عثمان کے رشتہ داروں کے ہاتھوں بیت المال کے ناجائز استعمال پر اعتراض کیا۔مروان ابن حکم نے مثلاََ خراج ِ افریقہ کا پانچواں حصہ لیا۔اس کی تفصیل مولانا مودودی کی کتاب خلافت و ملوکیت اور سیرت حلبیہ ج 6میں دیکھئے۔ ایک گہرا اثر ام المومنین حضرت عائشہ کی ناراضگی اور اعتراض سے پیدا ہوا یہاں تک کہ انہوں نے لوگوں کو اکسایا کہ اس کو قتل کرو جیسا کہ انہوں نے کہا ،'' نعثل کو قتل کرو کیونکہ وہ کافر ہوگیا ہے'' (90)۔اور کہا کہ اس(عثمان ) نے سنت ِ نبی (ص)کو بدل ڈالا ہے۔اس سے ان کے خلاف ہنگامہ بڑھ گیا۔ مصر،شام،کو فہ اور مدینہ کے کچھ لوگ جمع ہوئے اور انہیں قتل کر ڈالا۔
حضرت عثمان کے قتل کے بعد لوگ جوق در جوق امام علی کے پاس بحیثیت خلیفہ بیعت کرنے کی غرض سے گئے۔انہوں نے آنجناب سے کہا ،'' حضرت عثمان مارے گئے ہیں اور لوگوں کیلئے امام ہونا چاہئے۔ان دنوں اس عہدہ کیلئے اور کوئی موزوں شخصیت موجود نہیں ہے۔'' بیعت لینے کی رسم مکمل ہوئی۔ امام علی لوگوں کیلئے عدل وانصاف لاگو کرنا چاہتے تھے اور کمزور اور زور آوروں کے درمیان برابرری قائم کرنا چاہتے تھے۔ وہ کتاب ِ اللہ کا قانون نافذکرنا چاہتے تھے۔کچھ لوگوں نے اعتراض کیا۔انہوں نے اختلافات کا سہارا لیا اور فوج جمع کی،کھلے عام امام علی کے خلاف بغاوت اور غداری کا اعلان کیا جس کی وجہ سے بہت سی لڑائیاں وجود میں آئیں خاصکر جنگ جمل اور جمگ صفین۔
جنگِ جمل : ام المومنین امام علی سے جنگ لڑنے کیلئے نکلتی ہیں
جب بذریعہ عبید بن ابی سلمہ ام المومنین حضرت عائشہ کو قتل حضرت عثمان اور حضرت علی کے خلیفہ ہونے کی خبر ملی کہ لوگوں نے علی کی بیعت کرلی ہے تو آپ کی زبان سے نکلا : کہ اگر مسئلہ ٔ خلا فت علی کے حق میں ہوا (یعنی وہ خلیفہ بن گئے)تو سزاوار ہے کہ آسمان زمین پر گر پڑے ۔
اوربولیں : اے عبید وائے ہو تم پر! ہوش میں تو ہو ، تم کہہ کیا رہے ہو!'' عبید اللہ نے کہا،'' اے ام المومنین !سچ یہی ہے جو میں نے بیان کیاہے۔ '' اس بیان سے سے وہ بہت ناراحت ہو ئیں ،جس پر عبید نے ان سے کہا ،''اے ام المومنین ! آپ کو اتنی فکر کیوں لاحق ہے ۔اگر لوگوں نے علی کی بیعت کرلی تو اس پر آپ کیوں رنجیدہ ہیں۔ آپ کیوں علی کی خلافت کو پسند نہیں کرتیں ۔ اللہ کی قسم :وہ مقام خلافت کے لئے سب سے بہتر اور اس عہدہ کے سب سے زیادہ سزاوار ہیں ، ؟ام المومنین نے چلا کر کہا :'' مجھے واپس لے چلو ! مجھے واپس لے چلو !'' وہ مکہ لوٹیں اور زبان پر یہ الفاظ تھے ،'' اللہ کی قسم عثمان بے قصور مارے گئے۔ اللہ کی قسم میں اس خون کا بدلہ لوں گی !'' عبید نے کہا ،'' اللہ کی قسم ان کے خون بہانے کی ذمہ دار پہلی تم خودہو ! کل تک تم کہا کرتی تھیں،'' نعثل کو قتل کر ڈالو ،وہ کافر ہو گیا ہے۔
'' عائشہ نے کہا ،''کہ لوگوں نے عثمان سے توبہ بھی کرائی ۔اور پھر انہیں قتل کیا ۔اور یہ قول کہ قتل کرو نعثل کو صرف میرا ہی نہیں تھا بلکہ اوروں کا بھی تھا ،مگر اب میرا آخری بیان پہلے سے بہتر ہے۔وہ مکہ چلی گئی اور درِ مسجد سے چپک گئی جہاں بہت سے لوگ اسکے گرد جمع ہوئے جن سے اس نے خطاب کر تے کہا ،'' اے لوگو ! عثمان نا حق مارا گیا ہے۔اللہ کی قسم ! میں اس کے خون کا انتقام ضرور لوں گی''(91)۔ ام المومنین عائشہ کا غصہ طلحہ اور زبیر کی ناراضگی سے امام علی کے ہاتھوں ان کی یمن اور مصر کی گورنری سے برطرفی کے بعد ہم آہنگ ہوا؛جسکی وجہ سے ان دونوں نے امام علی کی بیعت سے کنارہ کشی کی اور مکہ چل کر ام المومنین سے امام علی کے خلاف لڑنے کیلئے عہد کہا۔ وہ ام المومنین کی سربراہی میں ایک بہت بڑا لشکر لیکر بصرہ کی طرف نکل پڑے جہاں جنگ ِ جمل نامی تباہ و بربادی کی جنگ پیش آئی ، طلحہ و زبیر سمیت تیرہ ہزار مسلمان مارے گئے اور جیت امام علی کے فوج کی ہوئی۔یہ سب ام ا لمومنین کے اعلانِ انتقام ِ خونِ حضرت عثمان کے شکار ہوئے۔ان کا دعویٰ تھا کی قاتل امام علی کی لشکر میں گھس گئے ہیں۔ صورت حال کچھ بھی رہی ہو ؛کیا ان کیلئے جائز نہیں تھا کہ ایسا معاملہ ولیٔ امر کے فیصلہ پر چھوڑدیتیں خاصکر کہ جب اللہ نے انہیں حکم دیا تھا کہ ِ'' ۔ ۔تم گھر میں ہی ٹھہرو '' احزاب 33 )؟ اور انکا ایسے واقعہ کے ساتھ کیونکرکوئی تعلق ہونا چاہئے جبکہ حضرت عثمان بنی امیہ میں سے تھے اور وہ بنی تیمہ سے تھیں ان کے باہر نکلنے کا کوئی اور ہی مقصد ہے؟حالانکہ اس واقعہ کی حقیقت اس سوال کا آسانی سے جواب مہیہ کرتی ہے،اس کے علاوہ ان اختلافات اور ان کے پیچھے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے پیشین گوئی نبی خدا(ص) نے پہلے ہی کی تھی۔مثلاََ عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے،'' پیغمبر (ص) خطبہ دینے کیلئے کھڑ ے ہوئے ،انہوں نے حضرت عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ،''اختلاف یہاں سے شروع ہوگا،اپنے بیان کو تین بار دہرایا۔ وہ جناب فرماتے گئے،'' یہاں سے ہی شیطان کے سینگ نکلیں گے'' (92)۔ عمار یاسر نے ایسے حالات میں حضرت عائشہ کی پیروی اللہ علی العظیم کی پیروی کے بالمقابل قرار دی۔ ابن زید الاسدی نے کہا ہے ،''۔۔۔۔ تو میں نے عمار کو یہ کہتے سنا،''عایشہ بصرہ کی طرف کوچ کر گئیں۔اللہ کی قسم وہ اس دنیا اور آخرت میں تمہارے رسول کی زوجہ ہے مگر خدائے حمید و مجید نے تمہارا امتحان لیا ہے کہ آیا تم اس کی(اللہ) اطاعت کرتے ہو یا حضرت عائشہ کی'' (93)۔
اس واقعہ سے بہت پہلے حضرت عائشہ حضرت علی سے کینہ برتنے کیلئے مشہور تھیں۔وہ ان کا نام تک زبان پر لانا گوارا نہیں کرتی تھیں۔ عبد اللہ ابن عتبہ سے روایت ہے کہ حضرت عایشہ نے فرمایا ،''جب اللہ کے رسول (ص)کو تھکاوٹ کا غلبہ ہوا اور درد میں اضافہ ہوا،انہوںنے اپنی ازواج سے اجازت چاہی اور میرے گھر میں آرام کرنے کی خواہش کی تو انہوں نے اجازت دی۔پیغمبر خدا (ص) دو آدمیوں کے سہارے اس عالم میں وہاں سے تشریف لائے کہ آپ کے پاؤں زمین پر خط دیتے جارہے تھے ۔ وہ عباس اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔عبید اللہ کا بیان ہے،'' میں نے یہ بات عبداللہ ابن عباس سے کہی جس پر انہوں نے مجھ سے پوچھا ،'' کیا تمہیں خبر ہے کہ وہ دوسرا آدمی کون تھا ؟ میں نے کہا،نہیں ۔کہا،وہ علی تھے ''(94) ۔یہ شاید اس وجہ سے تھا کہ حضرت عائشہ نے اپنے او پر الزام لگنے پرحضرت علی کو پیغمبر خدا سے کچھ کہتے سنا تھا۔ یہ اس کینہ اور نفرت کی وجہ تھی۔ عبید اللہ ابن مسعود کا بیان ہے کہ ،''۔۔۔۔جہاں تک علی ابن ابی طالب کا تعلق ہے،انہوں نے کہا،' اے پیغمبر خدا،اللہ نے آپ (ص) پر کوئی دبائو نہیں ڈالا ہے، بیشک اس کے علاوہ بھی بہت سی عورتیں ہیں ''(95)۔ شاعروں کے بادشاہ ،'' احمد شعوقی نے حضرت علی کے بارے میں حضرت عائشہ کا کینہ اپنے شعروں میں بیان کیا ہے جسمیں وہ امام علی سے اسطرح مخاطب ہیں ،'' اے پہاڑ! جو بار تم اٹھا ئے ہوئے ہو ،دوسرے پہاڑوں نے قبول نہیں کیا ہے۔ اونٹ کی مالکہ نے آپ پر کتنا بار ڈالا ہے ؟ کیا یہ حضرت عثمان کا اثر تھا جس سے وہ دکھی تھیں ؟ یا،کیا یہ وہ غم تھا جو کبھی ظاہر نہیں ہوا ؟ یہ ایسی دشمنی تھی جس کی کسی نے کبھی بھی امید نہیں کی تھی۔ عورتوں کی چالیں پہاڑوں کو گرا دیتی ہیں اور ام المومنین بھی عورت ہی تھیں۔ پاک اور پاکیزہ عورت کو کس چیز نے اپنے آشیانہ اور سنت سے باہر نکالا وہ وہی کینہ تھا جو ہمیشہ رہتا ہے۔''
اس افسانہ کا خلاصہ اسطرح ہے؛'' ایک یہودی آدمی بنام ِ عبد اللہ بن سبا جو ملک ِ یمن سے تھا اس نے حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں مسلمان ہونے ڈھونگ رچا ،تاکہ دھوکہ وفریب سے مسلمانوں کو ورغلا سکے ۔وہ خاص اسلامی شہروں جیسے مصر،شام،بصرہ اور کوفہ میں گھوم کر یہ خوش خبری پھیلاتا رہا کہ پیغمبر خدا (ص) دوبارہ زندہ ہونگے،علی ان کے وصی ہونگے اور حضرت عثمان نے ان کے وصی کا حق غصب کیا ۔
بزرگ صحابہ اور تابعین جیسے عمار یاسر،ابوذر غفاری۔حذیفہ بن یمانی اور محمد بن حنفیہ وغیرہ ان کے پیروبنے جس کی بنا پر وہ ایک بہت بڑا لشکر جمع کرکے عثمان کو ان ہی کے گھر میں قتل کرنے میں کامیاب ہوئے۔اسطرح اس خیالی افسانہ کے قصے چلتے رہے یہاں تک کہ جنگِ جمل میں عبداللہ بن سباء اپنے پیروکاروں کو حضرت علی اور حضرت عائشہ کی فوجوں میں گھسنے کا حکم دیتا ہے تاکہ جنگ چھڑ جائے اور اسطرح ' جنگِ جمل 'پیش آتی ہے''(96)۔ سید مرتضیٰ عسکری جنہوں نے اس منحوس خیالی افسانہ کو بے پردہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا کا کہنا ہے،'' اس خیالی عبداللہ ابن سباء کا موجد ایک شاطر بنامِ' سیف ابن عمر تمیمی برجمی کوفی ہے جو 170ھ بمطابق 786 ئ میں فوت ہوا اور اسی سے تمام مورخین نے اس جعلی افسانہ کو پیش کیا ہے۔اس وضعئی قصہ نے اتنی شہرت حاصل کی کہ یہ تمام کتب ِ تواریخ میں صدیوں سے پھیلتا رہا اور آج تک موجود ہے یہاں تک کہ اس نے ایک حقیقت کا روپ اختیار کر رکھا ہے اور کوئی بھی شک نہیں کر پاتا ہے۔مشرق کے اکثر قلم کار اور تاریخ دان اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ یہ افسانہ ایک منفرد راوی'سیف ابن عمر' کی ذہنی پیداوارہے جس نے خود اپنے طور اپنے ذہن میں جنم دیکر اسکو پیش کیا اور یہ راوی سیف ابن عمر قدیم محدثوں کے مطابق جعلساز ہے اور اس پر کافر ہونے کا بھی الزام ہے (97) ۔ابن دائود اس کے متعلق کہتا ہے ،'' وہ کچھ بھی نہیں ہے صرف ایک جھو ٹا ہے''۔ ابن عبد البر کہتا ہے،'' سیف مردود ہے۔ہم نے اس کی حدیث صرف اسلئے بیان کی ہے تاکہ آپ کو اسکے متعلق باخبر کریں ''۔ امام نسائی اسکے متعلق کہتے ہیں،'' اسکی احادیث ضعیف ہیں،وہ قابل اعتماد نہیں ہے اور کسی کو اس پر بھروسہ نہیں ہے''۔
اس کے باوجود اس جھوٹے راوی کی روایات کے حوالے ' طبری،ابن عساکر ،ابو بکر وغیرہ نے دئیے ہیں اور طبری کا حوالہ آج تک مورخوں نے دیا ہے۔اور آج بھی دیتے رہتے ہیں (98)۔
تاریخ کا سب سے عظیم مسخراپن یہ ہے کہ شیعوں کو اس جعلی عبد اللہ ابن سباء کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ وہی ہے جس نے امام علی کا وصی ہونے کا تصور پھیلایا اس کے باوجود کہ شیعہ مستنند احادیث کی روشنی میں ہمیشہ سے صرف اور صرف پیغمبر محمد (ص)کی پیروی کرتے ہیں اور کسی کی نہیں۔ مذکورہ باب ِ امامت کے صفحات میں دیکھئے کہ ابن سباء کا ذکر کہاں ہے اور وہ کس فہرست میں ہے ؟کیا ابن سباء وہی ہے جس نے کہا :(1) میں تمہارے درمیان قرآن اور اپنی عترت، اپنے اہلبیت چھوڑے جا رہا ہوں ،ان سے تمسک رکھوگے تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے''؟(2) یا وہ ہے جس نے فرمایا ،'' جسکا میں مولا ہوں ،آج سے یہ علی اسکے مولا ہیں'' ؟ یا وہ ہے جس نے فرمایا ،''(3) علی سے مہدی تک میرے بعد امام بارہ ہیں (4) علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے(5) علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرے بعد تمام صاحبان ایمان کا ولی اور حاکم ہے (6) جو شخص میری طرح جینا اور مرنا چاہتا ہے،اسکو میرے بعد علی کو اپنا حاکم بنانا چاہئے(7) میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا دروازہ ہے(8) علی کی محبت ایمان ہے اور علی سے بغض نفاق ہے (9) علی باب حطہ ہیں جو اس میں داخل ہوا وہ مومن ہے اور جو نکل گیا وہ کافر ہے (10) علی مومنوں کے سردار،پرہیزگاروں کے پیشوا اور قیامت کے دن سرخ رو لوگوں کے سردار ہیں(11) علی کی نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسے سر کو بدن سے ہوتی ہے(12) میری امت میں علی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے قاضی ہیں (13) جس نے علی کو خیر البشر نہیں کہا اس نے کفر کیا (14) میرے اہلبیت کی مثال کشتی نوح کی ہے،جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جس نے ان سے روگردانی کی وہ ہلا ک ہوگیا۔۔۔۔
1فسوس! کیسی منحوس کہانی ہے کہ ایک یہودی یمن سے آکر منافقانہ طریقہ سے اسلام قبول کرلیتا ہے اور پھر ایسی بیہودہ حیرت انگیز حرکتیں انجام دیتا ہے جس سے مسلم فوجیں آپس میں خون ریزی کرتی ہیں اور کسی کو اسکی اصیلت پر شک بھی نہیں ہوتا ہے ؟۔کیا یہ قابل یقین ہے کہ امام علی جس کے متعلق پیمبر خدا (ص) نے فرمایا،'میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے' اس یہودی کی چال میں پھنس گئے ؟ حقیقتاََ جو ایسا کہتا ہے بہت گمراہ ہوچکا ہے،اور راہِ نجات سے کوسوں دور ۔
معاویہ کی بغاوت اور جنگِ صفین:
جنگِ جمل کے بعد امام علی نے شام میںمعاویہ ابن ابوسفیان کی بغاوت کو کچلنے کیلئے اپنی فوج پر توجہ دینا شروع کی۔ دریائے فرات پر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں۔ اما م علی نے حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے امن کا سہارا لیا مگر امام علی کے بھیجے ہوئے وفد کو معاویہ نے یہ جواب دیا ،'' میرے پاس سے چلے جائو، تمہارے لئے میرے پاس کچھ نہیں ہے ،سوائے تلوار کے'' (99)اسطرح دونوں طرف کی فوج جنگ میں الجھ گئیں۔ جب فتح امام علی کے حق میں نمودار ہونے لگی،تو معاویہ نے قرآن استعمال کرنے کی مکاری کی۔ معاویہ نے اپنے فوجیوں کو قرآن نیزوں اور تلواروںپر بلند کرنیکا حکم دیا۔ حالانکہ امام علی نے اس فتح کو تخریب کاری سے ورغلانے کی معاویہ کی کوشش کو دبانے کی ٹھان لی مگر فوج میں داخل جو عناصرجنگ ختم کرنے کا مطالبہ کررہے تھے ،انہوںنے امام کے لگاتار پیغام پر کان نہیں دھرا اور امام کو تحکیم ماننے پر مجبور ہوناپڑا۔امام علی نے ابو موسیٰ عشری کی کم عقلی اورناتواں خیالات کی بنا پر اس کی فوجی نمایندہ کی حثیت سے بطور ثالث ہونے پر بھی بہت احتجاج کیا۔امام علی نے فرمایا ہے،''میری نظر میں تم ابو موسیٰ کو ایسا اہم کام سونپ رہے ہو جس کا وہ اہل نہیں، کیونکہ وہ عمر وعاص کی فریب کاری کا مقابلہ کرنے میں بہت کمزور (100) امام علی نے ابو موسیٰ عشری کو پہلے ہی کوفہ کی گورنری سے برطرف کیا تھا۔ قرآن کو نیزوں پر چڑھانے کا منصوبہ پہلے سے ہی رچا گیا تھا تاکہ امام کی فوج میں گھسی ہوئی معاویہ کی تحریک کو استحکام مل جائے جس سے تحکیم قبول کرنے اور ابو موسیٰ کی بحیثیتِ ثالث کی سازش نے زور پکڑلیا۔تحکیم کا فیصلہ جیسا کہ امام علی کا اندیشہ تھا معاویہ کے حق میں ہوگیا۔ اس بغاوت اور خلیفہ مسلمین کی اطاعت نہ کرنے سے معاویہ کیلئے حالات سازگار ہونے لگے اور اس کی دنیا داری کی امیدیں قوی ہوگئیں جن کا وہ ہمیشہ سے خواب دیکھتا تھا۔
ما ضی میں اس واقعہ پر میں حیران رہتا تھا جسمیں طرفین سے نوے ہزار(90000) مسلمان مارے گئے(صحابہ و تابعین)۔جب بھی میں نے اپنے اہلسنت دوستوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو بہت ہی غیر معقول جواب ملا، کہ'' یہ دو بڑے صحابہ کے درمیان صرف ایک اختلاف ہے۔دونوں نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔جسکا اجتہاد صحیح نکلا ،اسکو دوہرا ثواب ملے گا اور جسکا اجتہاد غلط نکلا،اسکو اکہرا ثواب ملیگا۔کسی کو اس پر سوچنا نہیں چاہئے۔وہ ایک امت تھی ،جو گذر گئی؛ انکے اپنے اعمال ہیں جنکا انہیں صلہ ملیگا اور تم کو تمہارے اعمال کا صلہ ملیگا۔'' ان کے پاس ایسے ہی اور جوابات ہیں ایسے اختلافات پرسے پردہ نہیں اٹھنے دیتے ،'' جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔ اسطرح کیا اہلسنت کے مطابق ایسا مسئلہ حل کئے بغیر ہی ایک پراسرار الجھن جیسا معلق رہتا ہے۔اس نے مغربی سکالروں کیلئے ہمارے مذہب کے متعلق رائے زنی کرنے کا دروازہ پوری طرح سے کھولدیاہے،یہاں تک کہ کچھ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسلام میںتضادہے جب وہ اس حدیث رسول (ص)کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں آنحضرت (ص) نے فرمایا ہے ،''اگر دو مسلمان ہاتھوں میں تلوار لئے ہوئے ایک دوسرے کا مقابلہ کریں،تو دونوں قاتل و مقتول جہنم میں جائیں گے''۔اس حدیث سے اہلسنت کے اس دعویٰ کی تردید ہوتی ہے کہ جنگ صفین میں دونوں جماعتیں مسلمان تھیں اور انکے رہنما صحابہ کبار تھے! تو غلط اور صحیح کیا ہے پر غور نہ کرنے پر اتنی تاکید کیوں کی جاتی ہے؟ سچ کوآشکار کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا یہ حقیقت مشکوک ہے؟ بہرحال جس کسی کو معاویہ کے متعلق سچائی کے بارے میں پریشانی یا الجھائو ہے اس کو نیچے دئیے گئے حقائق پر سنجیدگی سے غور و فکر کرکے اپنے لئے کوئی فیصلہ کرنا چاہئے :
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ امام علی نے فرمایا ،''میں اسکی قسم کھا کر کہتا ہوں جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور جس نے صبح کی ٹھنڈی ہوا چلائی کہ پیغمبر خدا (ص) نے مجھے ضمانت دی کہ اے علی سوائے مومن کے کوئی تم سے دوستی نہیں کرے گا اور سوائے منافق کے کوئی آپ سے نفرت نہیں کریگا'' (101)
تو تم اسکے متعلق کیا کہوگے جس نے امام علی کے خلاف لڑنے کیلئے فوج اکٹھا کی؟! اور اہلسنت کا فیصلہ اسکے متعلق کیا ہے جو امام ِ مسلمین کی اطاعت نہیں کریگا ،جسکی اطاعت واجب ہے ؟ صحیح بخاری میں معاویہ کے مظالم کے بارے میں حوالہ جات موجود ہیں۔ ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ،'' ایک دفعہ ہم مسجد کی اینٹیں ایک ایک کرکے لیجارہے تھے جبکہ عمار یاسر دو،دو اینٹیں لیجاتے تھے۔پیغمبر خدا(ص) ن کے نزدیک گئے،ان کے سر سے دھول ہٹائی اور فرمایا ،'' اللہ عمار پر رحم کرے! عمار کو ایک ظالم گروہ قتل کریگا ؛عمار ان کو اللہ کی دعوت دیگا جبکہ وہ اسکو آگ کی دعوت دیں گے''(102)۔پیغمبر خدا(ص) کی یہ پیشین گوئی اسوقت ثابت ہوئی جب عمار جنگِ صفین میں امام علی کے جھنڈے تلے لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ مستدرک علی صحیحین میں خالد العربی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ،'' میں اور ابو سعید خدری،حذیفہ بن یمان سے ملے اور ان سے کہا،'' اے ابو عبد اللہ! ہم سے بیان کیجئے کہ آپ نے اختلاف کے بارے میں اللہ کے رسول (ص) کو کیا فرماتے سنا ہے۔ حذیفہ نے کہا ،' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: اللہ کی کتاب،قرآن سے وابستہ رہو،اسکے پیچھے چلو۔ ہم نے عرض کیا کہ اگر لوگوں میںاختلاف ہوا تو ہم کس کے ساتھ رہیں؟ تو آنحضرت (ص) نے فرمایا،' اس گروہ کو تلاش کرو جس میں 'سمیہ' کا بیٹا (عمار یاسر) ہو اور اسی کے ساتھ رہو کیونکہ وہ اسی طرف جاتا ہے جہاں اللہ کی کتاب جارہی ہے۔میں نے پیغمبر خدا (ص) کو عمار یاسر سے یہ کہتے سنا،'' اے یکذان کے بیٹے! تم اس وقت تک نہیں مرو گے جب تک کہ تاک میں بیٹھاایک ظالم گروہ آپ کو قتل نہیں کریگا'' (103)۔ معاویہ کی بغاوت اور اس کے مظالم سب متوقع ہی تھے۔ چونکہ وہ حضرت عمر کے زمانے میں والیٔ شام بنا،دولت،اقتدار اور محل خانے جو اس نے اپنے لئے بنائے تھے جاری رہے اور اس نے حضرت عثمان کے دور میں اپنی عمارت بہت وسیع کی اور اس جیسے انسان کیلئے یہ سب کچھ چھوڑنا آسان نہیں تھا۔اسکو اسکا مکمل یقین تھا کہ اگر امام علی نے اسکو اپنے عہدے سے برطرف نہیں بھی کیا تو وہ اسکو اس سب سے محروم کردیں گے جو اس نے مسلم بیت المال سے لیا ہے اور اس کو دوسرے مسلمانوں کے برابر ی پر لے آئیں گے۔
دور ِعثمان میں بزرگ صحابی ،ابوذر غفاری اور معاویہ کے درمیان کیا پیش آیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دنیا کی حشمتوں کے پیچھے،عیش پرستی اور قومی سرمایہ کے لوٹ کھسوٹ کے پیچھے پڑاتھا۔معاویہ کے رویہ پر اعتراض کرنے کی وجہ سے حضرت عثمان نے ابوذر کو مدینہ بلانے کے بعد 'ربذہ' نامی علاقہ میں جلاء وطن کیا۔زید ابن وہب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا،''میں ربذہ سے گذرتے ہوئے ابوذر سے ملا، اورپوچھا تم کو کون سی چیز اس ویران علاقہ میں لے آئی ہے؟ تو انہوں نے کہا ،' ہم شام میں تھے۔ ''اور جو لوگ سونا،چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے ہیں،پیغمبر آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیدیں (سورۂ توبہ 34) کے بارے میں معاویہ نے کہا کہ یہ آیت مسلمانوں کے متعلق نہیں اتری ہے بلکہ اہل کتاب کیلئے۔میں نے کہا کہ یہ ہمارے متعلق بھی نازل ہوئی ہے اور ان کے متعلق بھی '' (104)
اسطرح ابوذر غفاری کو جلاوطنی کے سزا دی گئی حالانکہ رسولخدا (ص) نے اس کے سچا ہونے کی ضمانت دی ہے۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ہے،'' نہ ہی کسی شجر نے ابوذر جیسے سچے انسان کا سایہ کیا ہے اور نہ ہی کسی صحراء نے ایسا سچا آدمی دیکھا ہے'' (105) ۔ اس معاملہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ معاویہ نے کسطرح قرانی آیات کی غلط تاویل کرکے بیت المال کے اپنے لوٹ کھسوٹ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے جس کو اپنی عیاشی لئے اسطرح بیباک خرچ کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا کہ معاویہ کسطرح ایک فقیہ ہوسکتا ہے ! ابو ما لیکا نے کا بیان ہے ،''معاویہ نے نماز مغرب کے بعد ایک رکعت نماز وتر پڑھی اور اس کے ساتھ ابن عباس کا ایک غلام تھا۔ابن عباس آئے اور اپنے غلام سے کہا؛اسکوچھوڑو کیونکہ وہ رسول خدا (ص) کا ایک صحابی ہے!(106) اس واقعہ کو دوسرے طریقہ سے اسطرح بیان کیا گیا ہے کہ،'' ابن عباس نے فرمایا ہے کہ معاویہ ایک 'فقیہ' تھا!(107) ۔جب تم کو معلوم ہوجائے گا کہ معاویہ نے پچیس سال بحیثیت خلیفہ مسلمین کے گذارے جس سے پہلے وہ والیٔ شام تھا،قاری خودسمجھ سکتا ہے کہ اس نے جعلی احادیث لکھوانے،پھیلانے اور پیغمبر خدا (ص) سے منسوب کرکے اپنے کرتوت کا جواز پیدا کرنے کیلئے اپنے اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال کس حد تک کیا ہے۔
ان تمام ذرائع کے باوجود جو اسنے اپنے کرتوت چھپانے کیلئے کیا،وہ احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں اسطرح صاف درج ہیں جن سے اس نام نہاد خلیفہ مسلمین کے متعلق حقائق کے معلومات کی کسی مغالطہ کی کوئی گنجائش نہیں رہجاتی ہے جسکو اہلسنت'امیر المومنین 'کا لقب بھی دیتے ہیں ''! حاکمیت اور اقتدار کے بارے میں معاویہ کے برتائو کی جڑیں سفیانی خاندان سے پیوست ہیں۔اس کے باپ ابوسفیان نے حضرت عثمان کی بیعت کرنے کے بعد کہا ِ،' اسکو گیند کی طرح پکڑتے رہو، اس کیلئے جسکی قسم کھا کر ابوسفیان کہتا ہے،میں پُر امید ہوں کہ تم (بنو امیہ) کو بھی یہ ملے گی اور تمہاری نسل کوبھی وراثت میں ملیگی''(108) دوسرے ایسے ہی بیان میں اس نے فرمایا'' اس کو گیند کی طرح پکڑو،کیونکہ نہ کوئی جنت ہے اور نہ کوئی جہنم'' اسطرح وہ فتحہ مکہ کے بعد جہاں سب مکہ والوں نے اسلام قبول کیا تھا اسلام قبول کرنے کے بہانہ کے اصلی راز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اور اس آگے والے بیان شدہ واقعہ سے دیکھو کہ انہوں نے کونسا اسلام کراہتاََ قبول کیا تھا:
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے،'' ابوسفیان نے کہا،' اللہ کی قسم میں یقین کے ساتھ اس خوف میں رہا کہ رسول (ص) خدا کا پیغام حاوی ہوکے رہے گا یہاں تک کی اللہ نے میری خواہش کے بر خلاف میرے دل میں اسلام داخل کر دیا (109)۔زبانِ ابوسفیان کی اقرار سے خیال کرو کہ اگر اسکے دل کو بیان کرنے کی اجازت دی جاتی تو وہ کہتا کہ اس میں کیا ہے!
پیغمبر خدا (ص) نے معاویہ کے متعلق کیا فرمایا
صحیح مسلم میں یہ بیان درج ہے۔''پیغمبر خدا نے کچھ لکھنے کیلئے ایک دن عبداللہ ابن عباس کو معاویہ کو بلانے کیلئے بھیجا ۔ابن عباس نے اس کو کھانا کھاتے دیکھاتو واپس آگئے کچھ وقفہ کے بعدا بن عباس پھر گئے اسی طرح تین مرتبہ ابن عباس اس کو بلانے گئے مگر اسے کھانا کھانے میں مصروف پایا ،تیسری مرتبہ جب ابن عباس نے آکربتایا تو اللہ کے رسول نے کہا،' اللہ کبھی بھی اس (معاویہ) کا پیٹ سیر نہ کرے''(110)۔
صحیح مسلم میں ہی یہ بھی درج ہے:'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا : ۔۔جہاں تک معاویہ کا تعلق ہے،وہ کنگال اور بے روح انسان ہے''(111)۔ مسندا حمد بن حنبل میں معاویہ اور عمروعاص کے متعلق روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا:''اے اللہ ! ان کو جلد اختلاف میں مبتلا کر اور انکو جہنم میں جگہ دے''۔
جگرخور کے بیٹے معاویہ کے ہاتھوں اپنی زندگی میں ہی اپنے شراب خور ،عیاش اوربدکار بیس سالہ بیٹے یزید کو اپنے بعد مسلمانوں کا امیر المومنین بنانے کیلئے راہ ہموار کرنا انکے متعلق حقائق کا پردہ اٹھانے کیلئے کافی ہے۔ معاویہ نے امام حسن کے ساتھ ہوئے صلح نامہ کو توڑکر احکام الہٰی اور فرمان رسول (ص) کی مخالفت کے ساتھ ساتھ سنتِ خلفائے راشدین اور اہلسنت کے تسلیم شدہ دوسری احادیث کی بھی دھجیاں اڑائیں''۔
امام علی کے ہاتھوں لڑی گئی آخری جنگ ''جنگِ نہروان'' ہے۔یہ جنگ آنجناب نے ان لوگوں سے لڑی جنہوں نے آپ کو صفین میں تحکیم ماننے پر مجبور کیا مگر کچھ دنوں بعد مکر گئے،عہدنامہ کو بھی توڑا اور بیعت امام علی سے دغا بازی کی۔بعد میں وہ 'خوارج' یا 'مارقین' کے نام سے موسوم ہوگئے۔ان کو دبانے کے بعد امام علی نے کوششِ صلح کی ناکامی کے بعد شام کے باغیوں کی سرکشی روکنے کیلئے اقدام کرنے شروع کئے مگر امام ایک خارجی بنام ابن ملجم لعنتی کے ہاتھوں شہید کئے جاتے ہیں جب وہ نامراد امام کو دورانَ نماز صبح سجدے کی حالت میںزہریلے خنجر سے زخمی کرتا ہے۔یہ واقعہ مسند خلافت سنبھالنے کے پانچ سال بعد مسجدِ کوفہ میں 19 ماہِ رمضان 40ھ بمطابق 26 جنوری 661ء پیش آیا۔انا لا اللہ و انا الیہ راجعون۔امام اس زخم کاری کے بعد صرف تین دن زندہ رہے جن کے دوران انہوں نے اپنے بڑے فرزند اور پہلے نواسئہ رسول (ص)، امام حسن کو منصب امامت حوالہ کیاتاکہ وہ امت کی رہبری کے فرائض سنبھال سکیں۔ منصب خلافت امام حسن کو سپرد کرنے کا جواز امام علی کا بیٹے ہونے کی نسبت سے نہیں تھا بلکہ اللہ کے حکم کی تعمیل کی بناپر بارہ جانشینِ رسول (ص)کی فہرست کے مطابق وہ سلسلۂ امامت کی دوسری کڑی ہیں ۔
صلح نامہ اور شہادتِ امام حسن :
امام علی کی شہادت کے بعد اہلِ کوفہ نے امام حسن کی بحیثیتِ جانشین رسول(ص) اور امامِ امت بیعت کی۔مگراس کی مدت چھ مہینے سے زیادہ نہ ہوئی ۔جب شام یہ خبر پہنچی کی امام علی شہید کئے گئے تو معاویہ نے ایک بڑی فوج جمع کرکے کوفہ کی طرف کوچ کیا تاکہ اما م حسن ابن علی کو دستبر داری پر مجبور کرنے کے بعد خود مسلمانوں کا امیر بنے امام حسن کے سامنے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ معاویہ کے ساتھ صلح کریں۔ جن وجوہات کے تحت آپ صلح کے لئے آمادہ ہوئے وہ یہ تھے:فوج میں پھوٹ، عراق کے اندرونی اور بیرونی خراب حالات اور ملکِ روم کی اہل اسلام پر حملہ کرنے کی سازش جو ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ حملہ آور ہونے کے تاک میں تھا۔ان حالات میں امام حسن اور معاویہ کے درمیان جنگ کی صورت میں جیت رومیوں کی ہوتی نہ کہ امام حسن یا معاویہ کی۔اسطرح امام حسن کے ذریعے صلح کرنے کی وجہ سے اسلام ایک بڑے خطرہ سے محفوظ ہوا۔صلح نامہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھے :
(1): امام حسن کو اقتدار و نظم ونسق معاویہ کے سپرد کرنا تھااس شرط کے ساتھ کہ مذکور الآخر(معاویہ) قرآن اور سنت رسول (ص) کا اتباع کرے۔
(2): معاویہ کے مرنے کے بعد خلافت امام حسن کا خصوصی حق ہوگا۔اگر ان کو کچھ ہوگیا،تو یہ حق ان کے بھائی امام حسین کو ملیگا۔
(3): امام علی کی شان میں تمام گستاخیاں اور لعن و طعن پرپابندی لگنی چاہئے،چاہے وہ بر سرمنبرہو یا اور کہیں پر۔
(4):کوفہ کے بیت المال میں جمع پچاس لاکھ درہم اما م حسن کی نگرانی میں رہیں گے۔اور معاویہ کو سالانہ ایک لاکھ درہم خراج (ٹیکس) امام حسن کے سپرد کرنا تھا جو کہ امام علی کی صف میں جنگِ صفین اور جمل کے مقتولین کے اہل و عیال کے لئے تھا۔
(5): معاویہ کو ضمانت دینی تھی کہ وہ تمام لوگوں کوبلا لحاظ نسل اور ذات چھوڑنا ہے اور انکا تعقب نہ کرنا اور نہ ہی انہیں نقصان پہنچانا۔اور اسکو اس عہد نامہ صلح کے شرائط کی مکمل پاسداری و بجا آوری پر عمل کرنا تھا اور عوام کو اس کیلئے گواہ مقرر کرنا تھا۔
مگر امام حسن 50 ھ بمطابق 670 ء میں اپنی زوجہ جعدہ بنت اشعت ابن قیس کے ہاتھوں زہر دینے سے شہید ہوئے۔ اس عورت کا تعلق اس خاندان سے تھا جو ہمیشہ ذریتِ امام علی کا دشمن تھا۔ معاویہ نے اس کو ایسا سنگین جرم کرنے کیلئے ایک لاکھ درہم دئیے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے امام حسن کو زہر دیا تو وہ اس کی شادی اپنے بیٹے یزید سے کردیگا۔معاویہ امام حسن کی خبر ِ شہادت سن کر بہت ہی خو ش ہوا ، اس نے اس میں اپنے کرتوت کی بجا آوری میں سب سے بڑی رکاوٹ سے چھٹکارا پالیا تھا اور اسطرح اس نے سلطنت ِ بنی امیہ کی بنیاد ڈالی۔اس کے بعد معاویہ کو وہ سب کچھ حاصل ہو گیا جس کے وہ خواب دیکھ رہا تھااس نے اپنے عیاش و فحاش بیٹے یزید کو امت پر زبردستی حکمران معین کردیا۔تو اہلسنت کے عقیدہ کے مطابق'' کہ خلیفہ اجماع سے منتخب ہوتا ہے''؟ اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ۔
کیا وہ ان ثبوتوں کی مخالفت نہیں کرتے ہیں جن میں ِ اہل بیت کے اماموں کی خلافت کا حکم تھا ؟ کیا انکی نظر میںوہ خلافت جائز ہے جو مشورہ اور اجماع سے نہیں بنی ہے؟ آخر وہ کیسے معاویہ و یزید کی خلافت برحق سمجھتے ہیں؟ اور کیسے وہ ان کو امیر المومنین کے ا لقاب سے نوازتے ہیں !؟ اسلامی تاریخ کے تاریک صفحات الٹ کر ان دونوں امیرالمومنین یزید ابن معاویہ اورمعاویہ ابن ابوسفیان کے کا لے کرتوت ملاحظہ فرمائیںجن کا ہم ذکر کرنے جارہے ہیں۔
انقلابِ کربلا اور شہادتِ امام حسین علیہ السلام:
امام حسن کی شہادت کے بعد 50ھ بمطابق 670 ء میں شیعیانِ عراق نے امام حسین کو یہ عرضداشت لکھنے شروع کئے کہ معاویہ کو خود ساختہ حاکمِ مسلمان کے عہدہ سے برطرف کریں۔لیکن امام حسین نے جواب دیا کہ معاویہ کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے جسکو ہم توڑ نہیں سکتے ہیں۔ جہاں تک معاویہ کا تعلق ہے،اس نے اپنے بیس سالہ اقتدار میں اپنے عیاش و فحاش بیٹے ''یزید'' کی سلطنت کیلئے راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور صلح نامہ کے شرائط کی کوئی پرواہ نہیں کی جن پر عمل کرنا اس نے قبول کیا تھا( یعنی شرعاََ اس پر واجب تھا)اور اہلسنت کے اس عقیدہ کے ۔خلیفہ 'شوریٰ' کے ذریعے اس شرط پر منتخب کیا جانا چاہئے کہ وہ سب سے'' نیک ،دیندار ،خداترس اورمتقی ہو'' کو بھی پائوں تلے روند ڈالا۔اگر آپ ان سب پر غور و فکر کریں گے ،تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئے گئے معاویہ کے جرائم کا اندازہ ہوگا۔ اسکی روش باقی خلفائے بنو امیہ،بنو عباس اور سلطنت عثمانیہ کے حکمرانوں نے جاری رکھی اور آج بھی بعض عیاش وفحاش اور رشوت خور مسلمان حکمراںاس کی روش پر عمل پیرا ہیں۔
معاویہ کی وفات کے بعد 60ھ بمطابق 680 ئ میں یزید خلیفہ وقت بن بیٹھا۔ اس کا محل خانہ رشوت اور گناہوں کا مرکز تھا۔اکثر مسلم گروہوں کے مطابق یزید شامیانہ (راتوں)محفلوں میں کھلے عام شراب پیتا تھا۔اسکی تصدیق شدہ عاشقانہ مزاج کی تصویر اس کے ان مخصوص اشعار سے عیاں ہوتی ہے:۔
'' اے حریفانِ شراب،اُٹھو اور گانوں کی صدا سنو، ساغر شراب پیو اور دوسری باتوں کا ذکر چھوڑدو۔مجھے ستارہ اور سارنگی کے نغمہ سے اذان کی آواز سننے کی فرصت نہیں اور حوروں کے بدلے میں نے شیشہ کی پری کو پسند کرلیا''
''اگر دینِ احمد میں شراب پینے کو حرام سمجھا گیا ہے،تو خیر دینِ مسیح پر ہو کر ہی پی لو '' ''خدا نے شراب خوروں کو عذاب سے ڈرانے کیلئے ''ویل لِلشاربین'' نہیں کہا بلکہ قرآن میں نماز گزاروں کیلئے ''ویل لِلمصلین'' کہا ہے ''
اس سے ہم کو حیرانی نہیں ہوتی ہے کیونکہ یزید کی پرورش ایک نصرانی دایہ نے کی ہے۔ تاریخ دانوں نے اسے آوارہ ،بے حیا،تنگ نظر ، خود پسند اور اوباش گردانا ہے جو ہمیشہ عیاشی اور عیش و عشرت میں بے خود رہتا تھا۔اسکے متعلق جمعہ کی نماز بدھ وار کو پڑھنے اور صبح کی نماز دو کے بدلے چار رکعت پڑھنے کے واقعات بیان کئے گئے ہیں کیونکہ وہ اکثر شراب میں مست ہوتا تھا۔ اسکے متعلق ایسے بھی واقعات درج ہوئے ہیں جنکا بیان کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ہم نے یزید کی خلاف ورزیوں کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ ان حالات پر روشنی ڈالیں جنمیں امام حسین نے دیکھا کہ انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ اسلام اور سنت کو زندہ کرکے حفاظت کی جاسکے کیونکہ انہیں تحریف کا شکار ہوکے ناپید ہونے کا خطرہ لاحق تھا۔اس انقلاب کے پیچھے امام حسین کا اقتدار جمانے یا خلافت پر قابض ہونے کا کوئی مدعاء نہیں تھا کیونکہ انکو معلوم تھا کہ بنی امیہ اس پر قابض ہونے کیلئے پوری طرح سے تیار تھے خاص کر جب اہل عراق بنی امیہ کے خوف سے دستبردار ہوچکے تھے۔
کربلا کے نزدیک امام حسین اپنے ایک خطبہ میں اس انقلاب کے مقاصد اسطرح بیان کرتے ہیں ،
'' اے لوگو! جو کوئی کسی ظالم رہنما کو اس حالت میں دیکھتا ہے کہ وہ اللہ کے منع کئے گئے احکام پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے،اللہ کے احکام جاننے کے بعد انکی خلاف ورزی کرتا ہے،اپنے نبی (ص) کی سنت کے برخلاف کرتا ہے، گناہوں اور ظلم کے ساتھ اللہ کی رعایا پر حکومت کرتا ہے تو اللہ اس انسان کو اسی حاکم کے ساتھ نارِ جہنم میں پھینکے گا ''۔دوسرے بیان میں انہوں نے اسطرح فرمایا ہے ،'' اے لوگو! انہوں نے (امویوں) نے شیطان کی پیروی کی ہے،سب سے اچھے رحم دل (محمد(ص))کی مخالفت کی،زمین میں رشوت قائم کی،سنتِ رسول (ص) کی بجا آوری کو معطل کیا،مسلمانوں کے حقوق اپنے لئے حلال کئے،اللہ کے ممنوع کو جائز قرار دیا،اللہ کے اجازت شدہ کو ممنوع کیا،اور میں(حسین ) سب سے زیادہ اسکا حقدار ہوں کہ انکی مخالفت کروں''۔
جب امام حسین کو ان کے ساتھ ہوئے عہد نامے کی کوفہ میں غداری اور خلاف ورزی کے متعلق خبر ہوئی،انہوںنے اپنے اہل وعیال اور اصحاب کو جمع کیا جو پہلے ہی ان کے ساتھ تھے اور بلا جھجک ان سے فرمایا:'' لوگوں نے ہم سے بے وفائی کی ہے۔جو کوئی ہم سے الگ ہوناچاہتا ہے، وہ ہوسکتا ہے جن کو جانا تھا وہ چلے گئے ان کے ساتھ صرف وہی رہے جو مکہ و مدینہ سے ان کے ساتھ آئے تھے۔مگر امام حسین اسی جذبہ اور ارادے کے ساتھ آگے بڑھتے رہے جس سے وہ مکہ مکرمہ سے نکلے تھے۔کسی شاعر نے انکے حالات کا خاکہ اسطرح کھنچا ہے:'' اگر دینِ محمد (ص) میرے قتل کے بناسیدھی راہ پر نہیں رہ سکتا ہے، میں حاضر ہوںاے خنجر!
وہ فوجِ یزید کے کمانڈر عمر ابن سعد سے ملے جو تیس ہزار یزیدی لشکرلیکر قتلِ امام حسین پر مامور کیا گیا تھا۔ یزید ابن معاویہ کی بھاری اور پیشہ ور فوج کیلئے امام حسین کی چھوٹی سی جماعت کو شہید کرنا بہت ہی آسان تھا۔اس دن اہلبیت کا سانحہ عملایا گیا،انکے ساتھ دن دھاڑے کیسی زیادتی ہوئی۔ یزید ابن معاویہ اس قتلِ عام سے وہ اجر پیش کر رہا تھا جو رسول خدا (ص) نے ان سے اسطرح قرآنی آواز میں مانگا تھا: ''میں تم سے اپنے اہلبیت کی محبت کے سوا کچھ اجرنہیں مانگتا ہوں(شوریٰ 42)۔ تاریخ ایسے دلخراش واقعات کی اصلیت پیش کرتی ہے جنکو بیان کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں ہے۔ ان میں سے ایک امام حسین کے شیر خوار بیٹے کا جگر سوز قتل جس کو امام دشمنوں کے سامنے میدانِ جنگ میں اسلئے لائے تھا کہ اسکو پانی پلا سکیںکیونکہ ظالموںنے دریائے فرات پر پہرہ بٹھاکر پانی تک رسائی سے محروم کر رکھا تھا۔ شدت تشنگی سے بچے بلک رہے تھے۔امام نے شیر خوار بیٹے کو اس غرض سے ہاتھوں پر لیا تاکہ اس کے لئے کچھ پانی ملے اور ان کے ضمیر اور انسانی ہمدردی کو بیدار کیا جائے۔مگر انہوں نے ایک بھاری تیر سے حملہ کرکے اس شیرخوار کو بھی باپ کی باہوں میں شہید کرڈالا۔(انا للّٰہ و انا الیہ راجعون)۔امام حسین کے جانباز اور اہلبیت رسول (ص) کے رفیق ایک ایک کرکے میدانِ کارزار میں شہید ہوئے۔اس فیصلہ کن لڑائی کے آخری شہید امام حسین تھے ۔وہ سردارِ جوانانِ جنت کو شہید کرنے سے بھی اپنی پیاس بجھا نہ سکے،ان کے بدنِ مبارک سے سرِاطہر کو قلم کرکے دوسرے سرہائے شہدا کے ساتھ نیزوں پر سوار کرکے اصلی قاتل یزید ابن معاویہ کو شام کے محل خانہ پرتحفہ میں بھیجے۔
( امام حسین کے بدن مبارک سے لباس بھی لوٹا، بے سر بدنوں پر گھوڑے دوڑائے،خیموں میں لوٹمارکرکے آگ لگائی،آل رسول (ص) کے یتیموں مع مخدرات اہلبیت رسول (ص) کو زندہ جلانے کی وحشتناک اور درندہ صفت کوشش کی،شہدائے بنی ہاشم اوردیگر اصحاب حسین کی بے سر نعشوں کو بے گور و کفن اس ویران میں درندوں کے رحم وکرم پر اسلامی اصولوں کے خلاف چھوڑا،اسیران کربلا جن میں شیر خوار بچے اور رسول (ص) کی نواسیاں تھیں کورسیوں میں باندھ کر شہر،شہر تشہیر کرکے دربارِ ابن زیاد اور یزیدِملعون میں کھڑا رکھکر کر طعنے دیئے گئے۔ مترجم)۔ اور کچھ مسلمان اسی یزید کو'' امیر المومنین ''کہنے کیلئے بہت زور دیتے ہیں۔۔ لاحول ولا قوة الا بااللہ علی العظیم۔۔! ان واقعات کو بیان کرنے سے جن میںاقدام ِ امام حسین کے عظیم مقاصد کی نشان دہی ہوتی ہے،ایک ایسا انقلاب ہے جسکو ایک بہت بڑے اسلامی دانشور ڈاکٹر امر عبد الرحمان نے اس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے :'' امام حسین علیہ السلام کی شہادت ان کے زندہ رہنے سے ہزار گنا عظیم ہے ''۔ لیکن کچھ لوگ بنی امیہ کے گمراہ کن پروپگنڈہ کا شکار ہوکے ان کی عظمت کو گٹھانا چاہتے ہیں۔ایسے پروپگنڈہ نے تاریخ کو مسخ کرنے کی سخت کوشش کی ہے۔ اور وہ مجرمانہ مسلکی تعصب کے شکار ہوئے۔ اسی لئے وہ ایسی شرمناک تحریفی حقائق قبول کرنے کیلئے مجبور کئے جاتے ہیں جیسا کہ نام نہاد شیخ الا اسلام ابن تیمیہ کے اس خیال سے: '' امام حسین نے اپنے اقدام سے امت اسلام میں انتشار پیدا کیا انہوں نے ایک مسلم حکمران کی نافرمانی کی''۔۔۔!!! اگر ہم اس نام نہاد '' شیخ الاسلام ''سے معاویہ کے متعلق پوچھیں ،جس نے اس وقت کے خلیفۂ مسلمین امام علی سے بغاوت کی،وہ اس میں کوئی امتشار نہیں پائے گا اور اسمیں اسکو معاویہ کا کوئی گناہ بھی نظر نہیںآئیگا۔ حضرت عائشہ کا بھی یہی حال ہے جنہوںنے امام علی کی بغاوت کی۔۔یہ کچھ نہیں ہے ،صر ف ہما ری تاریخِ اسلام کو کھلے عام جھٹلانے کی ایک کوشش ہے؛ورنہ ہم اس کی وضاحت کیسے کر پائیں گے کہ اکثر اہلسنت حضرات اس عظیم تاریخی سانحہ کو کیسے بھلا دیتے ہیں جس میں رسول خدا (ص) کی ذریت کو بڑی بے رحمی اور سفاکانہ طریقہ سے ماراگیا؟
معاویہ کی ذریت اور اس کے بیٹے یزید نے بنی امیہ اور بنی عباسی کے نقش قدم پر پوری طرح عمل کیاانہوں نے اپنے خلاف ہر کوشش کو پوری طرح کچل ڈالا خاص کر اس وقت جب خانۂ نبوت کے کسی فرد نے ایسی کوشش کی اور انہیں قتل،غارت گری، جلاوطنی اور ظلم و بربریت کی سزا سے دبایا گیا۔ ایسا ظلم و تشدد اہلبیت رسول (ص) تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بنی امیہ کے مظالم کے شکار دوسرے بھی ہوئے جیسے عبداللہ ابن زبیروغیرہ۔
تاریخ نے مکہ مکرم میں ہونے والے اس وحشتناک واقعہ کو درج کیا ہے جس میں ابن زبیر کو بیدردی سے ذبحہ کیا گیا اور اسکی کھال اتاری گئی۔اس جگہ کی پاکدامنی دورِ جاہلیت میں بھی محفوظ تھی کیونکہ اس کے احاطہ میں جانور بھی مارنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی چہ جائیکہ انسان۔اور متبرک کعبہ بھی اسکو بنی امیہ کی درندگی سے بچا نہ سکا جب اس نے اس کے پردوںسے اپنے آپ کو چمٹایاتھا۔اسی کعبہ پرنوکیلے پتھروں کی بمباری کی گئی جب عبد الملک بن مروان نے اپنے بدنامِ زمانہ کمانڈر حجاج کو بیگناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی پوری آزادی دی۔ان دونوں کے متعلق حسن البصری کا کہنا ہے کہ،'' اگر عبد الملک نے حجاج کو ایسا کرنے کی صرف ایک بار اجازت دی ہوتی،وہی اس کی تباہی کیلئے کافی تھا۔''عمر ابن عبد العزیز کا کہنا ہے،'' اگر ہر قوم اپنا ایک ظالم پیش کرے اور ہم امویوں سے صرف حجاج کو پیش کردیںتو یہ سب پر سبقت لے جائے گا ''۔
تو کیا ایسے کرتوت بجا لانے والا اپنے آپ کو مسلمان کہلانے کا حقدار ہے،صرف اس بات پر کہ وہ خلیفہ یا امیر المومنین ہے''؟؟ ! ہمیں اپنی تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنا چاہئے(112)۔ اس کے کچھ واقعات کا ادراک کرکے ان تمام مسالک کی جڑوں تک پہنچ کر ان کا خلاصہ پیش کرنا چاہئے جن سے آج کے مسلمان وابستہ ہیں۔ان میں وہ واقعات درج ہیں جو حقیقتاََ ہمیں اس فرقہ کی نشان دہی کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہونگے جو ظلم اور نا انصافی سے مبرّاہے۔ان ہی واقعات کے ذریعے مسلمان محمدمصطفیٰ (ص)کی دینی راہِ نجات سے بہک گئے،مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹ گئے اور ہر کوئی فرقہ نجات یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
ہم میں سے کسی کو بھی ''الہٰی وحی '' کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ہمیں اس فرقہ کا نام بتائے گی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہمیں صحیح اور غلط کا ادراک کرنے کیلئے عقل و دانش سے نوازا ہے جو اس نے بطور دلیل اپنے بندوں کو عطا کی ہے تاکہ وہ آنکھ بند کرکے دوسروں کی نقل کرنے سے باز رہیں۔اور فرمایا ہے ،''۔۔کیا یہ ایسا ہی کریں گے چاہے ان کے باپ دادا جاہل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں؟!(بقرہ 170)۔اللہ نے یہ بھی فرمایا،''۔۔جب کہ وہ انکے پاس حق لیکر آیا ہے اور انکی اکثریت حق کو ناپسند کرتی ہے (مومنون 71)اللہ نے کسی بر بھروسہ اور یقین کرنے سے پہلے ہم پر تحقیق اور غور وفکر کرنے کا حکم صادر کیا ہے اور فرمایا ،''اے ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لیکر تمہارے پاس آئے،تو اس کی تحقیق کرو،ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو تم تکلیف دو اور پھر اپنے کئے ہوئے پر نادم ہونا پڑیگا(حجرات 6)۔
کیا سب اصحابِ رسول (ص) عادل تھے
اصحاب کا مسئلہ اور انکی عدالت کا درجہ ایک ایسا معاملہ ہے جو سب سے زیادہ مقابلہ آرائی کا حامل اور حساس ہے۔ اہلسنت کاعقیدہ ہے کہ تمام صحابہ عادل اور مساوی ہیں اور ان سے کسی طرح کی غلطی کے امکان کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔احادیث رسول (ص) کے بارے میں ان کی رائے کے متعلق ان پر نقطہ چینی یا رائے زنی نہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی شک۔ اسطرح اہلسنت وہ سب قبول کرلیتے ہیں جس کے راوی صحابہ ہیں۔اہلسنت کے مطابق جیسا کہ النواوی نے شرح صحیح مسلم میں کہا ہے کہ جس مسلمان نے اللہ کے رسول (ص)کو ایک لمحہ کیلئے دیکھا،وہ ''صحابی'' ہے ۔امام احمد بن حنبل ، امام بخاری اور دوسرے محدثوں کے مطابق یہی صحیح ہے(113)۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق تمام صحابہ عدل و انصاف میں مساوی نہیں ہیں او رقرآن و سنت کی روشنی میں ان پر تنقید کی جاسکتی ہے۔جہاں تک اس جھوٹ کا تعلق ہے کی شیعہ تمام صحابہ کو گالی گلوچ کرنے کے علاوہ کافر کہتے ہیں،ایک انتہائی شرمناک بہتان کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
صحابہ پر تنقید کرنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انکو کافر کہا جائے جیسا کہ کچھ بیوقوف پروپگنڈہ کرتے ہیں۔ اگر ایسی تنقید صحیح دلائل کی بنیادپر مشتمل ہے تو کوئی ناراض کیوں ہوتا ہے اور خوامخواہ کی پریشانی مول لیتا ہے؟ صحابہ میں مومن بھی ہیں جنکی تعریف قرآن پاک اسطرح کررہا ہے:'' یقیناََ اللہ صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ(ص) کی بیعت کر رہے تھے،پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلوں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انہیں اسکے عوض قریبی فتح نصیب کی ''(فتحہ 18)
علامہ لطف اللہ صافی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ درخت کے نیچے بیعت رضوان میں شامل لوگوں میں ان خاص بندوں کا ذکر کررہا ہے جو باایمان تھے اور اللہ ان منافقین سے راضی نہیں ہوسکتا ہے جو وہاں موجود تھے جیسے عبداللہ بن ابی اور عوص بن خولی وغیرہ۔ اس آیت میں کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ سارے بیعت کرنے والوں کی مدح خوانی میں نازل ہوئی ہے اور یہ ان تمام با ایمان بیعت کرنے والوں کے اچھے افعال و اعمال کی ضمانت پیش نہیں کرتی ہے۔ یہ آیت اس مطلب کے سوا کچھ نہیں بتا رہی ہے کہ اللہ رسول (ص)کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر ان سے راضی ہے۔ یعنی اللہ نے ایسی بیعت قبول کی اور ان سے راضی ہوتا ہے۔ ان بیعت کرنے والوں سے اللہ کے راضی ہونے سے انکے آخرت میں بھی راضی ہونا لازمی نہیں ہے۔اس کے ثبوت میں وہ ہے جو اللہ نے اسطرح فرمایا،''بیشک جو لوگ آپ (ص) کی بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ کی بیعت کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہی ہاتھ ہے اب اس کے بعد جو بیعت کو توڑ دیتا ہے وہ اپنے ہی خلاف اقدام کر لیتا ہے اور جو عہد الہٰی کو پورا کرتا ہے خدا اسی کو عنقریب اجر عظیم عطا کریگا،( فتحہ10)۔ اگر ان بیعت کرنے والوں میں سے کچھ نے اپنی بیعت توڑی ہوتی یا بغاوت کی ہوتی اور اللہ کی مرضی ان کے ساتھ ہمیشہ رہتی ،تو اللہ کی طرف سے یہ آیت نازل کرنے کی کوئی وجہ ہی نہیں تھی :''۔۔۔ اور جو کوئی اپنی بیعت سے پیچھے ہٹے گا،وہ اپنی آخرت برباد کرنے کیلئے ہی ایسا کرے گا ( فتحہ 10)۔
صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جن کے متعلق اللہ کے رسول (ص) نے پیشین گوئی کی تھی کہ وہ آنجناب (ص) کی رحلت کے بعدالٹے پائوں اپنے پرانے دین پر پلٹ جائیں گے او ر روز قیامت نابودہوجائیں گے۔ اس کی تصدیق صحیح بخاری میں درج سہل ابن سعد کی سند سے روایت شدہ اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں سعد کہتا ہے کہ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا ،'' میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچوں گا۔جو بھی وہاں میرے پاس پہنچے گا وہ آب کوثر پیئے گا اور کبھی بھی پیاس محسوس نہیں کریگا۔وہ لوگ جو مجھے جانتے ہیں اور میں بھی ان کو جانتا ہوں ،جب وہاں میرے پاس آئیں گے تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہوجائے گا۔اللہ کا رسول (ص) فرمائیگا،'' کہ یہ میرے اصحاب ہیں!'' تو اللہ کا جواب آئیگا،'' آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انہوں نے کیسی بدعتیں پھیلائیں''۔ اللہ کے رسول (ص) فرمائیں گے،'' ان کے لئے تباہی،جس نے میرے بعد بدعات پھیلائے، اسکے لئے تباہی'' (114)۔عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے کچھ صحابہ سے فرمایا:'' میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہنچو نگا۔ تم میں سے کچھ لوگ میرے پاس آئیں گے۔جب میں ان کو آب کوثر دینے کی کوشش کروں گا تو وہ مجھ تک پہنچ نہ پائیں گے۔میں کہوں گا،'' اللہ!یہ میرے اصحاب ہیں ! تو اللہ کی آواز آئے گی'' آپ کو پتہ نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیسی کیسی بدعتیں پھیلائیں''(115)
اوپربیان کی گئیں دونوں احادیث میں امت میں بدعات رائج کرنے کا اشارہ ہے جس کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ کے رسول (ص) اپنے کچھ اصحاب کا موازنہ قومِ یہود و نصاریٰ سے کرتے ہیں جنہوں نے ِ اللہ کے کلام کی تحریف کرکے سیدھی راہ سے منھ موڑلیا۔ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' تم پچھلی امتوں کی بالشت ببالشت اور قدم بقدم پیروی کرو گے اور اگر وہ سوسمار کی بِل میں گھس جائیں گے،تم انکی پیروی کرتے کرتے وہاں بھی گھس جائو گے'' ہم(صحابہ) نے پوچھا ،'' یہودی اور نصرانی ؟! آنحضرت (ص) نے فرمایا،''پھر کون؟! (116)
اور صحابہ میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کے متعلق اللہ اپنی کتاب میں اسطرح مخاطب ہے،'' جب وہ کوئی دنیاوی کاروبار یا لالچ دیکھتے ہیں تو اے بنی(ص) تم کوچھوڑدیتے ہیں کھڑا۔۔( جمعہ 11)۔ یہ آیت ان صحابہ کے متعلق نازل ہوئی جنہوں نے رسولخدا (ص) کو جمعہ کے خطبہ کے دوران ہی چھوڑا جب انہوں نے شام سے ایک تجارتی قافلہ کو آتے دیکھا اور آنحضرت (ص) کے ہزاروں صحابہ میں سے صرف بارہ افراد وہاں ٹھہرے۔ اس واقعہ کو بہت سے طریقوں سے نقل اور بیان کیا گیا ہے اور اتنی ہی صحابہ کی تعداد 12نے جنگ احد میں اللہ کے رسول (ص) کا ساتھ دیا،باقی سب فراری ہوگئے جسکی وجہ سے پیغمبر خدا (ص) ان کے اس فعل سے بیزار ہوئے۔برا ء بن عازب سے روایت ہے،''میرا چچا انس ابن نضرجنگ احد میں غیر حاضر تھا اور اسی لئے اس نے کہا ،'' اے اللہ کے رسول (ص)! میں پہلے دن غیر حاضر تھا جب آپ (ص) نے مشرکوں سے جنگ کی۔اگر اللہ نے چاہا کہ میں بھی مشرکوں کے ساتھ جنگ میں شامل ہوجائوں،تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کروں گا۔ جب جنگ احد کا وقت نزدیک آیا اور مسلمان فرار ہوگئے،تو رسولخدا (ص) نے فرمایا ''اے اللہ ! ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،میں انکے اس فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں ،''(117)۔ اس کے علاوہ جنگ حنین میں پیش آئے واقعات زیر نظر رکھئے جہاں صحابہ کی خراب حالت نے بہت ہی بدمزگی کی مثال قائم کی۔ قرآن مقدس نے انہیں ایسے نفرت انگیز افعال انجام دینے پر اسطرح سرزنش کیا :''بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا اور اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔پھر اسکے بعد خدا نے اپنے رسول (ص) اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیا کہ یہی کافرین کی جزا اور انکا انجام ہے '' ( توبہ 25۔26)۔ اور صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جنکے بارے میں اللہ جلہ شانہ اعلان کررہا ہے ،''کسی نبی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ قیدی بنا کر رکھے جبتک زمین میں جہاد کی سختیوں کا سامنا نہ کرے۔
تم لوگ تو صرف مال دنیا چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت چاہتا ہے اور وہی صاحب عزت و حکمت ہے۔اگر اللہ کی طرف سے پہلے فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو فدیہ لیا تھا اس پر عذاب عظیم نازل ہوجاتا'' (انفال 67۔68)۔ یہ آیت صحابہ کے اس گروہ کے بارے میں نازل ہوئی جن کا منشا اس کاروان پر قبضہ کرنے کا تھا اور جو ابو سفیان کا کاروان لیجا رہا تھا، اوراس کو جنگ پر ترجیح دی جب اللہ کا رسول (ص) ان سے جنگ بدر کے متعلق ان کی آمادگی اور تیاری کو جانچنے کے سلسلے میں ان سے بات چیت کر رہا تھا۔ صحابہ میں وہ بھی شامل تھے جنہیں آنحضرت (ص) نے جاہلیت اورقبیلہ داری کے طور طریقے اپنانے پرڈانٹ پلائی تھی۔یہ اس واقعہ سے بھی صاف ظاہر ہے جو جابر بن عبداللہ سے بیان ہوا ہے کہ:'' ایک دفعہ ہم ایک مہم میں شامل تھے۔مہاجرین میں سے ایک شخص نے انصار کی ایک فرد پر حملہ کردیا۔ اس پر انصاری فرد نے پکار کر کہا کہ کون انصار کی مدد کریگا؟ ادہر مہاجربھی چیخا کہ مہاجر کی مدد کون کریگا ؟ جب اللہ کے رسول نے یہ سنا تو فرمایا ،'' یہ کس جاہلیت کی دعوت ہے ''؟ (118)۔ اس جاہلیت کی آواز سے قبیلہ عوص اور قبیلہ خزرج میں جنگ کا ماحول بن گیا جو کہ دونوں انصار کی اکثریت میں سے تھے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے جس میں وہ کہتی ہیں ،''۔۔۔پھر سعد بن معاث کھڑے ہوئے اور کہا،' اے اللہ کے رسول (ص)! میں اس سے نپٹنے کیلئے آپ (ص) پر چھوڑتا ہوں! اگر وہ قبیلہ عوص سے ہے ،تو ہم اس کی گردن ابھی ماریں گے اور اگر وہ خزرج بھائیوں میں سے ہے توآپ ہمیں حکم دیں ہم اس پر عمل کریں گے۔ خزرج کا سربراہ سعد ابن عبادہ جو اس سے پہلے ایک اچھا آدمی تھا کو شاید قبائلی پن نے زیر کیا اور اس نے کہا : تم نے جھوٹ کہا ہے،اللہ کی قسم ! ہم اسے قتل کریں گے کیونکہ تم منافق ہو اور منافقوں کی طرفداری کی کوشش کرتے ہو۔ عوص اور خزرج کے درمیان بحث و تکرار تیز ہوئی اور اس وقت رسولخدا (ص) منبر پر تشریف فرما تھے۔وہ جناب (ص)نیچے آئے اور اور ان کی شرارت کو شانت کیا جب تک وہ خاموش ہوگئے اور خود بھی شانت ہوگئے'' (119)
صحابہ میںوہ بھی شامل تھے جو علی سے نفرت کرتے تھے،جن کی نفرت منافقت کی نشانی ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ہی بیان کیا ہے۔ ابو بریدہ سے روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں :'' پیغمبر خدا (ص) نے علی اور خالدبن ولید کو مال خمس جمع کرنے کیلئے روانہ کیا اور میں علی سے نفرت کرتا تھا جس نے اسی وقت غسل کیا تھا جس پر میں نے خالد سے کہا،' کیا تم یہ نہیں دیکھ رہے ہو؟! جب ہم نبی (ص) کے پاس گئے ،تو میں نے اسے یہ سب کچھ بتا دیا۔انہوں(رسول(ص)) نے مجھ سے فرمایا،' اے بریدہ! کیا تم علی سے نفرت کرتے ہو؟ میں نے کہا ،ہاں۔انہوں نے کہا،'' اس سے نفرت مت کرو کیونکہ خمس میں اس کاحصہ اس سے بہت زیادہ ہے'' ''(120)۔
صحابہ میں وہ بھی تھے جنہوں نے پیغمبر خدا (ص) کے دانشمندانہ فیصلوں پر اعتراض کیا۔یہ اسوقت نمایاں ہوا جب انہوں نے اسامہ کو لشکر کا کمانڈر مقرر کیا اور اصحاب نے اعتراض کیا اور کچھ نے اس قائد کومقرر کرنے پر شک کیا۔ اس پر اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' اس کی سربراہی پر اعتراض مت کرو کیونکہ تم نے اس سے پہلے اسکے والد (زید) کی سرداری پر بھی اعتراض کیا تھا ''(121)۔
صحابہ میں وہ بھی تھے جنہیں پیغمبر خدا (ص) نے اپنے پاس سے بھگایا تھا جب انہوں نے آنجناب (ص) کو وقتِ آخر وصیت لکھنے پر بھی اعتراض کیا اور ہذیان کہنے کا الزام دیا۔ سعد ابن زبیر عبد اللہ ابن عباس سے روایت ہے جس میں ابن عباس کہتے تھے ،'' پنج شنبہ کا دن! ہائے وہ کیا دن تھا پنج شنبہ کا! یہ کہہ کروہ اتنا روئے کہ آنسوئوں سے سنگریزے تر ہوگئے۔پھر کہا، اسی پنج شنبہ کے دن رسول خدا (ص) کی تکلیف بہت بڑھ گی تھی آنحضرت نے فرمایا:'' میرے لئے کاغذ اور قلم لائو،میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھدوں تاکہ تم پھرکبھی گمراہ نہ ہوسکو'' اس پر لوگ جھگڑنے لگے حالانکہ نبی (ص)کے پاس جھگڑنا مناسب نہیں ہے لوگوں نے کہا: رسول (ص) بیہودہ بک رہے ہیں(نعوذباللہ) اس پر آنحضرت (ص) نے فرمایا:مجھے میرے حال پر چھوڑدو اور میرے پاس سے چلے جائو۔میں جس حال میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کا تم مجھے الزام دے رہے ہو ''(122)
صحابہ میں وہ بھی شامل ہیں جنہوں نے وصال نبی (ص) کے بعد اقتدار کیلئے جھگڑا کیا یہاں تک کہ کچھ نے کہا کہ ہم میں دو حکمران ہونے چاہیئیں، ایک محاجرین میں سے اور ایک انصار میں سے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے دورِ جاہلیت کا قبائلی نظریہ اور سوچ ترک نہیں کیا تھا جو ان میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی جاری رہا جو حالاتِ سقیفہ میں بیان ہوا ہے۔
صحابہ میں معاویہ اور ابوہریرہ بھی ہیں جن کے متعلق اس تحقیق میں الگ سے بحث ہوئی ہے۔شاید اہلسنت کے ذریعے صحابہ کی شان بڑھانے کے مغالطہ نے صحابہ کا رسول (ص) کے ساتھ چلنے سے جنم لیا ہے مگر یہ اس احترام سے زیادہ نہیں ہے جو ان کے ذریعے انکی بیٹیوں سے نکاح کرنے سے ملتا ہے کیونکہ اللہ نے ازواج رسول (ص) کے بارے میں فرمایا ہے:''اے ازواج پیغمبر جو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائی کا ارتکاب کریگی،اسکا عذاب بھی دوہرا کیا جائے گا اور یہ بات اللہ کیلئے بہت آسان ہے۔ اور جو بھی تم میں سے خد ا اور رسول (ص) کی اطاعت اور نیک اعمال کریگا اسے ہم دوہرا اجر عطا کریں گے ''(احزاب 30،31)َ۔ اور اس نے ازواج رسول (ص) (حضرت عائشہ و حفصہ) کی نا فرمانی کے متعلق فرمایا ہے:'' اب تم دونوں توبہ کرو کہ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے ورنہ اگر اس کے خلاف اتفاق کروگی تو یاد رکھو کہ اللہ اس کا سرپرست ہے اور جبرائیل اور نیک مومنین اور ملائکہ سب اس کے مددگار ہیں۔وہ اگر تمہیں طلاق بھی دیدے تو خدا تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عطا کردیگا مسلمہ،مومنہ،فرمانبردار،توبہ کرنے والی،عبادت گذار۔روزہ رکھنے والی۔کنواری اور غیر کنواری سب۔۔۔۔۔۔ خدا نے کفر اختیار کرنے والوں کیلئے زوجۂ نوح اور زوجۂ لوط کی مثال بیان کی ہے کہ یہ دونوں خدا کے نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں لیکن ان سے خیانت کی تو اس زوجیت نے خدا کی بارگاہ میں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم بھی تمام جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاو'' ( تحریم 4۔10)۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رسول (ص) کے ساتھ زیادہ وقت گذارنابلندیٔ درجات کا باعث نہیں ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوئیں قرآنی آیات اور احادیث سے اصحاب اور ازواج نبی (ص) کے متعلق نظر آرہا ہے۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ ،'' میں ایک سال حضرت عمر سے ان ازواج کے متعلق دریافت کرنا چاہتا تھا جنہو ں نے آنحضرت (ص) کی نافرمانی کی تھی مگر میں ان سے ڈرتا تھا۔آخر وہ ایک دن ایک مکان میں داخل ہوئے اور جب باہر آئے تو میں نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔تو انہوں نے کہا،' وہ عا ئشہ اور حفصہ تھیں۔پھر بولے دور جاہلیت میں ہم عورتوں کو بیکار شَی مانتے تھے لیکن جب اسلام آیا اور اللہ نے انکا ذکر کیا ہم کو احساس ہوا کہ زور زبر دستی کے بجائے اب ان کے تئیں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں ۔ میری اپنی بیوی کے ساتھ ایک مرتبہ تکرار ہوئی،میں اس پر بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم ایسی،ویسی ہو تو اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تم میرے بارے میں ایسا کہتے ہو جبکہ تمہاری بیٹی اللہ کے رسول (ص) کو اذیت دیتی ہے؟ اسلئے میںاپنی بیٹی حفصہ کے پاس گیا اور اس سے کہا،'' میں تمہیں اللہ اور اس کے رسول (ص) کی نافرمانی کرنے سے تنبیہ کرتا ہوں ''!(123)۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں،'' اللہ کے رسول (ص)نے ایک مرتبہ (اپنی ایک بیوی) زینب بنت جحش کے یہاں شہد تناول فرمایا تھا ۔ میں نے اور حفصہ نے سازش کی کہ جب پیغمبر (ص) ہم میں کسی کے پاس آئیں گے تو ہم ان سے کہیں گے کہ آپ سے مغافیر کی بو آرہی ہے اور جب آنجناب (ص) سے ایسا کہا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں،میں نے زینب کے یہاں شہد تناول کیا ہے اور اب ایسا کبھی نہیں کروں گا۔ تم قسم کھا ؤ کہ یہ بات کسی کو نہیں بتائو گی(124)۔ حضرت عایشہ نے یہ بھی کہا ہے،'' ہم ازواج نبی (ص) دو گروہ میں تقسیم تھیں، ایک میں ،مَیں (عایشہ) ،حفصہ، صفیہ اور سوداء اور دوسرے میں ام سلمیٰ اور باقی'' (125)۔
حضرت عائشہ ہی کا بیان ہے،'' میں ان عورتوں سے حسد کرتی تھی جو اپنا نفس نبی (ص) کے حوالہ کرتی تھیں اور کہتی کہ کیا سچ مچ عورت حضو(ص)ر کوپیش ہوتی تھی؟! جب یہ قرانی آیت نازل ہوئی،''تمہارے لئے نکاح کے پیغام کی پیشکش یا دل ہی دل میں پوشیدہ ارادہ میں کوئی ارادہ نہیںہے۔خدا کو معلوم ہے کہ تم بعد میں ان سے تذکرہ کروگے لیکن فی الحال خفیہ وعدہ بھی نہ لو صرف کوئی نیک بات کہہ دو تو کوئی حرج نہیں ہے اور جب تک کوئی مقرر ہ مدت پوری نہ ہوجائے عقد نکاح کا ارادہ نہ کرنا یہ یاد رکھو کہ خدا تمہارے دل کی باتیں خوب جانتا ہے لہذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ وہ غفور بھی ہے اور حلیم و بردبار بھی(بقرہ 235) تو میں (عایشہ) نے ان (ص) سے کہا ،'' میں سمجھتی ہوں کہ تمہارا اللہ تمہارے دل کی خواہشات کیسے جلدی پوری کرتا ہے''(126)۔
حضرت عائشہ کا ہی بیان ہے ' کہ خدیجہ کی بہن حالہ بنت خویلد نے ایک دفعہ پیغمبر (ص) سے ملاقات کی اجازت چاہی اور چونکہ وہ خدیجہ کے طریقۂ دخول بیت سے باخبر تھے انہوںنے حیران ہوکر فرمایا ،''اللہ! مجھے یقین ہے کہ یہ حالہ ہے!۔مجھے حسد ہوا جس پر میں نے کہا،'' آپ(ص) اب تک ایک بوڑھی سرخ آنکھوں والی قریش عورت کونہیں بھولے جو کب کی مر چکی ہے اور اللہ نے آپ (ص) کو اُ س سے بہترعطا کی ہے(یعنی خودعائشہ )(127)۔ حضرت عائشہ نے حضرت خدیجہ سے حسد کیا ان سے حسد کیا جو دوسری تمام ازواج نبی میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔وہ آنحضرت (ص) پر اس وقت ایمان لائیںجب لوگ انہیں (عیاذاً باللہ) جھوٹا کہتے تھے۔ انہوںنے اپنی دولت آنجناب (ص) پر اس وقت نچھاور کردی جب لوگوں نے انہیں محروم کیا تھا اور اللہ نے رسول (ص)کو ان کے ذریعہ ہی صاحب اولاد بنایا۔ یہ سب کچھ بتا رہا ہے کہ حضرت عایشہ جناب خدیجہ سے حسد اسی لئے کرتی تھیں کیونکہ اس کے احسانات کا ذکر اللہ کے رسول (ص) ان کے وفات کے بعد بھی کرتے تھے اور یہ حضرت عائشہ کے اس دعویٰ کی تردید کرتا ہے کہ اللہ نے رسول (ص) کو خدیجہ سے بہتر عورت عطا کی تھی۔حضرت عائشہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ میں ازواج رسول (ص) میں خدیجہ سے زیادہ کسی سے حسد نہ کرتی تھی۔ حالانکہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا ہے مگر رسول (ص) ان کا ذکر ہمیشہ کرتے تھے۔اللہ کے رسول (ص) ایک اونٹ ذبحہ کرکے ٹکڑوں میں بانٹ کے حضرت خدیجہ کے دوستوں میں تقسیم کرتے تھے۔ میں آنجناب (ص) کو کہتی تھی کہ شاید دنیا میں خدیجہ جیسی عورت کوئی نہیں ہے؟ ،تو وہ (ص) فرماتے تھے کہ وہ ایسی اور ویسی تھی اور اللہ نے مجھے ان سے صاحب اولاد بنایا'' (128)۔
جو لوگ تمام صحابہ کی عدالت کے معتقد ہیں، وہ اپنے عقیدہ کی بنیادپر دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ہے،''میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں: جس کی تم پیروی کرو گے ،تمہیں ہدایت ملے گی۔'' حالانکہ اہلسنت کھلے عام صحابہ کی عصمت کے قائل نہیں ہیں،پھر بھی جو کوئی اس حدیث کے صحیح ہونے کا یقین کرتا ہے،اس کو تمام صحابہ کی عصمت ضرور قبول کرنا پڑیگی۔یہ اس لئے ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ کے رسول (ص) بغیر کسی شر ط وشروط کے کسی بھی اپنے نافرما ن کی مکمل پیروی کا حکم صادر کرے جیسا کہ اس فرضی بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے۔ اسلئے مذکورہ احادیث اصحاب کی عدالت پر دوبارہ غور وخوض سے جائزہ لینے کی دعوت دیتی ہیں۔
بالخصوص ان اصحاب کے متعلق جنہوں نے زیاد ہ وقت پیغمبر خدا (ص) کے ساتھ گذارا۔تو پھر آپ ان کی عدالت کے متعلق کیا کہیں گے جنہیں پیغمبر خدا (ص) کاصرف ایک بار دیدار کرنے یا ایک لمحہ کیلئے دیکھنے پر ہی ''صحابہ'' کے اعزاز سے نوازا گیا؟ اور اس بارے میں اتنی مبالغہ آرائی کیوں کی جاتی ہے ؟! کیا کوئی ''عدالت'' اور'' تقویٰ'' صرف پیغمبر (ص) کے روئے نازنین پر ایک نظر کرنے سے حاصل کر سکتا ہے؟ یا یہ اخلاص اور نیک ارادوں پر استوارمکمل طریقہ سے آنحضرت (ص) کی پیروی اور اتباع سے حاصل ہوسکتا ہے؟ایسا تضاد جو مضبوط دلیل اور انسانی روش سے رد کیا جاتا ہے اس وقت روشنی کی طرح صاف ظاہر ہوتا ہے جب کچھ اہلسنت دانشور جیسے ابن تیمیہ معاویہ بن ابو سفیان کو نیک خلیفہ عمر بن عبد العزیز پر اس وجہ سے ترجیح دیتا ہے کہ معاویہ صحابی تھا اور عمربن عبدالعزیزتابعی تھا اسکے باوجود کہ عمر۔۔ مشہورنیک اور عادل تھا جبکہ معاویہ مسلمانوں میں مشہور فساد برپا کرنیوالا اور امام علی کی بغاوت کرکے جنگ صفین میں 000،75 ہزار اصحاب و تابعین قتل کرانے کا ذمہ دار ہے۔ اسکے علاوہ اہلسنت کی یہ شہرت کہ عمر ابن عبدالعزیز پانچواں خلیفہ راشد ہے معاویہ کے خلیفہ برحق ہونے کا دعویٰ پوری طرح سے مسترد ہوتا ہے۔ اسی لئے صرف صحابی رسول (ص) ہونے کی بنا پر کوئی بھی انسان عادل ،راشد یا برحق نہیں بن سکتا ہے ۔اس معاملے میں پوچھنے کی اصل بات یہ ہے: اونچا مقام اس کا ہے کہ جس نے اپنے آنکھوں سے رسول خدا(ص) کے ہاتھوں واقع ہوئے معجزات دیکھ کر اسلام قبول کیا یا جس نے ایسا دیکھے بغیر ہی دل سے اسلام قبول کیا ؟! حقیقت تو یہ ہے کہ میں صحابہ کی عدالت اور تقویٰ پر ایسی مغالطہ آرائی کا کوئی جواب نہیں پاتا ہوں جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سب ''صحیح '' تھے صرف ا س دروازہ پر تالا چڑھانا ہے جہاں پر ان صحابہ پر تنقید کی جاتی ہے جنہوں نے زور و شور سے خلافت کو اصلی حقداروں سے باہر دھکیل دیا۔ اسطرح کچھ اہلسنت ان سارے ناقابل تردید ثبوت کو فراموش کرتے ہیں جنمیں اہلبیت ِ رسول (ص) مسلمانوں کے امام بننے کیلئے ہر طرح سے موزوں تھے صرف اس وجہ سے کہ وہ تمام اصحاب کو عادل سمجھتے ہیں۔ وہ اسی لئے اس سب کو صحیح مانتے ہیں جو ان صحابہ نے انجام دیا۔
جہاں تک انکا تعلق ہے جنہوں نے اس غلط نظریہ کو عام کرنے میں سخت محنت کی،انہوں نے ایسا اسلئے کیا کہ وہ اہلبیتِ رسول (ص) کے اماموں کو اپنے اقتدار کیلئے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ امام اپنے دعوئوں میں حق بجانب تھے۔ اس لئے ان قرآنی آیات اور مستنند احادیثِ رسول (ص) پردہ ڈالنے کی اشدضرورت تھی جن سے ان اماموں کی فضیلت عیاں ہوتی تھی تاکہ تمام صحابہ کی فضیلت کو بڑھا یا جائے جس سے فضیلتِ اہلبیت کو مدھم (کم)کیا جاسکے جس کی وجہ سے وہ امت کی رہبریت کیلئے اللہ اور رسول (ص) کے پسندیدہ تھے اور رحلت نبی (ص) کے بعدامتِ مسلمہ کے بھی ۔اوپربیان ہوئی جعلی حدیث کے متن اور مطلب ،جو کہتا ہے کہ''تمام صحابہ ستارے ''ہیں، اس حدیث ِ رسول (ص)کے بالمقابل وضع کیا گیا ہے جسمیں فرمایا گیا ہے کہ ،'' ستارے اہل زمین کو ڈوبنے سے امان دیتے ہیں جبکہ میرے اہلبیت لوگوں کو مذہبی فتنوں و فسادوں سے امان دیتے ہیں،اب اگر کوئی عرب قبیلہ ان کی مخالفت کریگا ،توہ اختلاف کا شکار ہوجائیگا اور ابلیس کی جماعت بنے گا ''(129)۔ تمام صحابہ کو عادل ماننے کا سب سے منفی اثر یہ ہوا کہ کتب احادیث ''غلط بیانات'' سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کی جڑیں یہود اور نصاریٰ سے پیوست ہیں اور دوسرے توہمات (افسانات) جن سے ملتِ اسلامیہ کی چھبی مشکوک بنا کے پیش کی جاتی ہے۔ ایسی احادیث (بیانات) اسی بنا پر صحیح مان کرقبول کئے گئے کہ وہ صحابہ سے بیان ہوئے ہیں اس کے باوجود کہ ان کے افعال قابل تنقیدہیں جیسا کہ پہلے ہی بہت سے واقعات میں بیان ہوا ہے۔
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے برگزیدہ نبی(ص) پر نازل ہوئی ہے جس میں ہر شئے کا صاف صاف تذکرہ ہے۔ قرآن نبی (ص) کا دائمی معجزہ ہے جس کا مقابلہ کرنے سے بشر عاجز ہے،بلاغت میں،فصاحت میں اور ان مضامین میں جن پر یہ قرآن حاوی ہے حقائق و معارف عالیہ کی باتوں سے قرآن میں تبدیلی،تغیر و تحریف نہیں ہوسکتی اور یہ قرآن جو ہمارے سامنے ہے بعینہ وہی قرآن ہے جو نبی (ص) پر نازل ہوا ہے۔
جو اسکے خلاف دعویٰ کریگا،وہ اجماع کے خلاف چلیگا،بڑی غلطی کا مرتکب ہوگا ۔یا اسکو اشتباہ ہوگا اور اس قسم کے لوگ گمراہی پر ہونگے کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے جس کے پاس باطل چیز آہی نہیں سکتی،آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی (130)۔ ایک عظیم شیعہ محدث شیح صدوق فرماتے ہیں:'' ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ قرآن جو اللہ نے اپنے آخری نبی (ص) پر نازل کیا وہی قرآن آج تمام لوگوںکے ہاتھوںمیںہے ،اس میں کوئی کمی و زیادتی نہیں ہوئی ہے۔جو شخص ہماری طرف تحریف کی نسبت دیتا ہے وہ جھوٹا ہے،(131)۔ اوپر دئیے گئے حوالات کی تصدیق کرتے ہوئے اخوان المسلمون( (Muslim Brotherhoodکے مشہور دانشور پروفیسر بہنصاوی((Bahinsawiکہتے ہیں :''شیعہ جعفری ،اثنا عشری کا عقیدہ ہے کہ جو کوئی اس امت میں طلوعِ اسلام سے رائج قرآن کی تحریف کا قائل ہے،وہ کذاب ہے۔۔۔اہلسنت میں رائج قرآن وہی ہے جو شیعوں کے گھروں اور ان کی مساجد میں ہوتا ہے''۔ظہیر اورخطیب(شیعہ مخالف) کی تردید کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ''جہاں تک امت مسلمہ کے معلومات ہیں ،قرآن میں کبھی بھی تحریف نہیں ہوئی ہے اور جو ہمارے پاس ہے،وہی قرآن ہے جو اللہ نے اپنے رسول (ص) پر نازل کیا ہے۔(132)
شیخ محمد الغزالی اپنی کتاب '' دفاء عن العقیدہ الشریعہ و متاعن المستشرقین(a defense of faith and the islamic legislative system against the charges of the orientalists)
میں لکھتا ہے:''دانشوروں کی ایک محفل میں ،میں نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ شیعوں کے پاس اور کوئی قرآن ہے جو عام قرآن سے تھوڑا مختلف ہے۔میں نے اسے اسی وقت کہا؛''وہ قرآن کہاں ہے؟اور آج تک کسی انسان حتیٰ کہ کسی جن نے بھی اتنی لمبی تاریخ کے دوران نہیں دیکھا ہے؟ اور ایسا الزام کیوں تراشا جاتا ہے؟اور کیوں لوگوں اور وحی کے متعلق اتنے جھوٹ؟(133)۔ جہاں تک جھوٹی احادیث کا تعلق ہے جن پر کچھ لوگ بھروسہ کرکے کہتے ہیں کہ قرآن میںتحریف ہوئی ہے جو کہ شیعوں کی کتب احادیث میں درج ہے، ایسے الزامات سراسر رد کئے جاتے ہیں کیونکہ ایسی بہت ساری احادیث اہلسنت کی معتبر کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔علامہ نے حضرت عایشہ سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ:'' اللہ کے رسول (ص) نے رات کے وقت ایک آدمی کو ایک قرآنی سورہ تلاوت کرتے سنا اور اس سے کہا ،'' اللہ اس پر رحم کرے ! اس نے مجھے ایسی آیات یاد دلائیں۔۔۔(134)۔
اس حدیث پر کون بھروسہ کرسکتا ہے جو اشارہ کرتا ہے کہ رسول خدا (ص) کو سارا قرآن یاد نہیں تھا اور وہ قرآن کی کچھ آیات بھول جاتے ہیں۔۔!علامہ بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے: زید بن ثابت سے روایت ہے ،''جب ہم نے تختیوں(قرانی نسخوں)کو جمع کرنا شروع کیا،میں نے سورہ احزاب میں ایک آیت کو کم پایا جو کہ میں اللہ کے رسول(ص) سے بارہا سن چکا تھا اور اسکو میں نے صرف خذیمہ الانصاری کے پاس پایا جس کو اللہ کے رسول(ص) نے ذوالشہادتین کے لقب سے نوازا ہے جسکی شہادت دو مومنوں کے برابر ہے۔۔۔جو اللہ کے ساتھ اپنے وعدہ میں سچے نکلے(135)۔صحیح بخاری میں ہی زید بن ثابت سے یہ روایت بھی درج ہے''۔۔۔اسطرح میں نے قرآن کاغذ کے اوراق،سبز پتوں اور حافظوں سے جمع کیا یہاں تک کہ میں سورہ ٔبرأت کی کچھ آیات صرف خذیمہ الانصاری کے بغیر کسی کے پاس نہیں پاسکا (136)۔ تو اس بیان کو اس حقیقت سے کیسے یگانیت ہوسکتی ہے جسمیں قران کا تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچنا ثابت ہے ؟! اور بہت سی احادیث جو کہ بخاری اور اہلسنت کی دوسری صحیح کتابوں اور مسندوں میں بیان ہوئی ہیں ۔ صاف تحریف قرآن کی طرف اشارہ ملتا ہے جس میں ایک روایت عبداللہ بن عباس ،عمر ابن خطاب کے متعلق اسطرح منسوب کرتے ہیں ،'' عمر ابن خطاب باہر گئے۔میں نے انہیں آتے دیکھا اور سعد ابن زید ابن امر ابن نفیل سے میں نے کہا،' آج رات وہ(عمر) ایک ایسی بات بتائے گے جو انہوںنے خلیفہ بننے کے بعد سے آج تک کبھی نہیں بتائی ہے۔اس نے مجھ پر بھروسہ نہیں کیا اور کہا کہ وہ آج کون سی ایسی بات بتائے گے جو انہوں نے آج تک نہیں کہی ہے؟ جب موذن نے اذان تمام کی توعمر ابن خطاب منبر پر گئے اور خطبہ دینا شروع کیا: اللہ کی تعریف کرکے کہا،'' جو میں نے کہا ہے سو کہا ہے،سنو میں آج ایک خاص اعلان کرنے جارہا ہوں جو میرا فرض ہے۔میں نہیں جانتا ہوں کہ یہ شاید میںمرنے سے پہلے ہی بتاتا ہوں۔جو کوئی اسکو سمجھتا ہے اور اسکی اہمیت سے واقف ہے،وہ اسکو اپنے علاقے تک نشر کرتا جائے اور اگر کوئی ڈرتا ہو،اسکو درک نہیں کرسکتا اور میںاسے میرے بارے میں جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا ہوں۔اللہ نے محمد (ص) کو حق کے ساتھ معبوث کیا اور اس پر کتاب نازل کی جس میں آ یت رجم (سنگسار) بھی تھی جسکو ہم نے تلاوت کیا، سمجھ لیا اور اس پر عمل بھی کیا۔اللہ کے رسول نے رجم کیا اور ان کے بعدہم نے بھی کیا۔مجھے ڈر ہے کہ اگر بہت عرصہ گذر گیا اور لوگ کہیں گے کہ ہم اس قران میں آیت رجم نہیں پاتے ہیں وہ اسطرح اللہ کافرمان چھوڑنے اور اس پر عمل نہ کرنے کہ وجہ سے گمراہ ہوجائیں گے۔اللہ کی کتاب میں رجم(سنگساری)سچ ہے ان شادی شدہ مرد اور عورتوں کے لئے جن پر بدکاری کرناثابت ہوجائے یا حمل آشکار ہوجائے یا جو اس فعل کا اقرار کریں''(137)۔
بخاری میں ہی درج ہے کہ عمر ابن خطاب نے اس آیت کو موجودہ قرآن میں شامل کرنا چاہا جو اس نے خود اس خوف سے حذف کردی کہ لوگ کیا کہیں گے:''عمر نے کہا،' اگر یہ ممکن نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کیا ہے تو میں خود اپنے ہاتھ سے اس آیتِ رجم کو قرآن میں لکھ لیتا اور پیغمبر خدا (ص) کے اس حکم کی تائید کرتا جسمیں چار شواہد ملنے پر بدکا رانسان کوسنگساری کا حکم ملتا تھا (138) ۔جہاں تک ان آیاتِ بینات کا تعلق ہے،تو اس میں کہا گیا ہے،'' جہاں تک بزرگ مرد اور عورت کا بدکاری میں شا مل ہونا ثابت ہو جائے تو انکو پوری طرح سے سنگسار کرنا چاہئے(139)۔ سنن ابن ماجہ میں بھی یہ اسی طرح لکھا ہے۔
چونکہ ہم سب یک زبان ہوکر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو قرآن ہمارے ہاتھوں میں ہے،وہ تحریف سے پاک ہے تو عمر ابن خطاب کو مغالطہ ہوا ہوگا اور اس الجھن کا ماخذ اس آیت ِ رجم کا قرآن میں نہ ہونا بلکہ اس کا کتابِ '' تورات'' میں ہونے سے پیدا ہوا ہوگا جیسا کہ ابن عمر کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے ، ''ایک یہودی اور ایک یہودن جنہوں نے بدکاری کی تھی پیغمبر خدا (ص) کے پاس لائے گئے۔آنحضرت (ص) نے یہودیوں سے پوچھا کہ تم ایسے (بدکاروں)سے کیا سلوک کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان کا چہرہ کالا کرتے ہیں اور بے شرمی پر انکوملامت کرتے ہیں۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ توریت لاکر میرے سامنے تلاوت کرو اگر تم سچے ہو۔انہوں نے ایک کانے(one eyed) آدمی کو اپنی مرضی سے بلایا اور اسکو تلاوت کیلئے کہا۔ جب وہ ایک آیت پر پہنچا تو اس پر ہاتھ رکھ کر ٹھہرا۔پیغمبر (ص) نے اس سے کہا کہ ہاتھ ہٹا،تو جب اس نے ہاتھ ہٹایا،آیت رجم صاف نظر آئی۔اس آدمی نے کہا،' اے محمد (ص) ! انہیں سنگسار کرنا ہے جبکہ ہم خود ہی اسے چھپاتے آئے ہیں۔پیغمبر خدا (ص) نے انہیں سنگسار کرنے کا حکم دیا''(140)۔ اس کاامکان ہے کہ عمر ابن خطاب کو اہل کتاب کی توریت اور اللہ کی مقدس کتاب(قرآن) میں مغالطہ ہوا ہے کو'' الجزری'' کی کتاب جسکا نام ہے'ہر ایک شیعہ کیلئے یہ میری نصیحت ہے ''(This is my advice to every shia ) میں درج بیان سے تقویت ملتی ہے۔ اس کتاب میں الجزری کہتاہے۔۔''ایسی تحریف شدہ کتابوں کی تلاوت کیسے ہوسکتی ہے جب اللہ کے رسول (ص) نے توریت کا ایک ورق ہاتھ میں لہرا کے عمر ابن خطاب کو ڈانٹ پلائی تھی اور کہا تھا ،'' کیا میں نے تمہیں صاف و شفاف اسلام پیش نہیں کیا ہے؟! اللہ کے رسول (ص) نے یہ منظور ہی نہ کیا کہ عمر توریت کے ایک ورق کی طرف بھی نظر کریگا''(141)۔
بخاری میں یہ بھی درج ہے کہ عمر ابن خطاب نے کہا ِ''ہم اللہ کی کتاب میں یہ آیت بھی پڑھتے تھے:''اگر تم اپنے والدین سے منہ موڑو گے،تو تم کافر ہو '' یا یہ کفر ہے کہ اگر تم والدین سے منہ موڑو گے''(142)۔یہ کوئی رازداری نہیں ہے کہ ان دونوں آیات کا قرآن میں کوئی وجود نہیں ہے۔عبداللہ ابن مسعود کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ یہ دونوں الفاظ '' ذکر(male )اور انثیٰ(female) اس متبرک آیت میں شامل کرتا تھا:وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ 92:1 القمہ نے کہا ہے،''۔۔۔عبداللہ یہ کیسے پڑھتا ہے وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ؟ میں نے اسکو اسطرح سنایا :وَالَیلِ اِذَا ےَغشیٰ وَ النَھَارِ اِذَاتَجَلیٰ وَمَاخَلَقَ الذَکَرَوَالاُنثیٰ ۔۔۔ اللہ کی قسم اللہ کے رسول (ص) نے مجھے اپنی زبان مبارک سے اسی طرح تلاوت کی''(143)۔ بخاری نے ایک اور واقعہ اپنی صحیح میں درج کرکے ایک اور اختلاف کو جنم دیا ہے جب وہ اللہ کے رسول (ص) سے یہ منسوب کرتا ہے کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ تلاوت قرآن چار آدمیوں سے سیکھو:عبداللہ ابن مسعود، سالم غلامِ ابو حدیبیہ،ابی ابن کعب اور معاذ بن جبل(144)۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کے رسول (ص) ہمیں ان اشخاص سے تلاوت قرآن سیکھنے کا حکم دیں جوخودبھی اسے پوری طرح سے یاد نہیں کر پائے؟! ہم اس سوال کا جواب بخاری پر چھوڑدیتے ہیں اور ان پر بھی جو اس کے نقش قدم پر ٹہل رہے ہیں اور اسکی صحیح پر یقین کرتے ہیں۔ صحیح مسلم کی حالت بھی ایسی ہی ہے،'' عائشہ سے روایت ہے کہ قرآن میں جو کچھ نازل کیا گیا ہے اس میں یہ آیات بھی تھیں 'دس مشہور شیرخوار '' اللہ کے رسول (ص) نے وصال فرمایا اور وہ پھر بھی قران میں تلاوت کی جاتی تھیں(145)۔حضرت عایشہ کے اس دعوی میں ان لوگوں کو کڑا جواب ملاہے جو پروپگنڈہ کرتے ہیں کہ قرآن کی تحریف کی گئی ہے ورنہ اس کا کیا مطلب ہے جب وہ کہتی ہیں کہ ان آیات کی تلاوت آنحضرت (ص) کے وصال کے بعد بھی جاری تھی؟! ابو اسود اپنے والد سے روایت کرتا ہے،'' ابو موسیٰ عشری نے بصرہ کے ان لوگوں کو پیغام بھیجا جو قرآن کی تلاوت جانتے تھے اور وہ تین سو نفر تھے۔ اس نے ا ن سے کہا:'' ہم ایک سورہ کی تلاوت کرتے تھے جو کہ تقریباََ سورہ ٔبرٔات(توبہ) جیسا بڑا تھا لیکن میں اس سے صرف یہ یاد رکھ پایا ہوں:اگر ابن آدم کو دو دولت بھری وادیاں مہیا ہوتیں،وہ تیسری کی تمنا کرتا اور ابن آدم کی پیٹ کو سوائے خاک کے کسی چیز سے تسلی نہیں ہوتی ہے'' (146)۔
علامہ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب 'اِتقان فی العلوم القران ' میں رقمطراز ہیں کہ کچھ احادیث قرآن میں صرف ایک سو بارہ 112 سوروں کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ ایکسو چودہ 114 کے علاوہ اور دو سوروں حفد اورخل (Hafd and Khal)کا ذکر کرتے ہیں(147)۔
اوپر بیان کئے گئے واقعات سے کیا کوئی شیعہ اہلسنت کی طرف تحریف قرآن کے قائل ہونے کا الزام دیتا ہے۔ہرگز نہیں حالانکہ اہلسنت کی صحاح ستہ خاص کر بخاری اور مسلم میں ایسی روایت درج ہیں جنکو وہ ماننے کیلئے واجب جیسا اقرار کر چکے ہیں۔اس سب کا ما حصل صرف دو ممکنات ہیں اور کوئی تیسرا نہیں :
(1):ایسی احادیث صحیح ہیں مگر ان میں راویوں کو مغالطہ ہوا ہے جنہوں نے انکی روایت کی ہیں جیسا کہ رجم(سنگساری) کے بارے میں ہے
(2):ایسی احادیث صحیح نہیں ہیں جیسا کہ اوپر بیان کئے گئے دوسرے احادیث سے صاف ظاہر ہے۔
اس طرح اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا ہے کہ بخاری اور مسلم جیسی حدیث کتابوں پر ''صحیح '' ہونے پر نظر ثانی کی جائے۔
پھرہم اس زہریلے پروپگنڈے کو کیسے بیان کر پائیں گے جو کچھ قلم کاروں جیسے ظہیر،الخطیب اور ان جیسوں نے شیعوں کے خلاف برپا کر رکھا ہے ،اس بنیاد پر کہ ان کی کتابوں میں بھی کچھ ایسی ضعیف روایات پائی جاتی ہیں جنہیں شیعوں نے کب کا رد کیا ہے اس کے باجود کہ اہلسنت کی ان کتابوں میں اس سے زیادہ ایسی روایات موجود ہیں جنہیں صحیح کا درجہ دیا گیا ہے؟! کانچ سے نبے مکانوں کے مکینوں کو پختہ مکانوں میں رہنے والوں پر پتھر نہیں برسانے چاہیٔیں۔
کچھ بیوقوفوں کے ذریعے شیعوں کے متعلق یہ جھوٹ بھی پھیلایا جاتا ہے کہ شیعہ رسول خدا(ص) کی سنت کو رد کرتے ہیںجو کہ ایک ایسی بیہودہ تہمت ہے جسکی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ہم آگے شیعوں کا سنت رسول (ص) کے متعلق عقیدہ کے بارے میںکچھ سنی دانشوروں کے خیالات پیش کریں گے۔
اپنی کتاب '' امام جعفر صادق '' میں شیخ ابو زہرہ کہتے ہیں ''تواتر کے ساتھ روایت شدہ سنت ان کے لئے ایک گواہی ہے جس کی معقولیت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور علم تواتر ان کیلئے گہرے علم کی بنیاد پر منحصر ہے۔۔۔ پیغمبر خدا (ص) سے تواتر سے ثابت شدہ پیاری سنت کا انکار کفر ہے کیونکہ یہ رسول (ص) کے لائے ہوئے پیغام کا انکار ہے۔ جہاں تک اماموں کے اقوال کا انکار ہے، تو وہ گمراہی ہے نہ کہ کفر''(148) ۔ شیخ محمد الغزالی اپنی کتاب '' دفاع عن العقیدہ و الشریعہ فی المتاع ال مستشرقین (a defence of doctrine and shariah against the charges of orientalists) میں کہتے ہیں''ان جھوٹوں میں ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ بکتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی کے پیرو کار ہیں اور سنی حضرت محمد (ص) کے اور شیعوں کا عقیدہ ہے کی حضرت علی وحی کا زیادہ حقدار تھے یا یہ کہ وحی غلطی سے اوروں کی طرف چلی گئی، یہ قابل مذمت اور حد سے زیادہ بیہودہ تہمت ہے۔شیعہ پیغام محمدی (ص) پر پورا ایمان رکھتے ہیں اور حضرت علی کا نبی (ص) کے ساتھ رشتے اور سنت کے ساتھ وابستہ رہنے کا حق ادا کر ہے ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ اگلی اور پچھلی امتوں میں کسی فرد کو اللہ کے رسول (ص) کے برابر نہیں مانتے ہیں۔ ایسا الزام ان کے ساتھ کیسے منسوب کیا جا سکتا ہے'' ؟!(149)
شیعوں اور سنیوں کے درمیان مرتبئہ صحیح سنت نبی (ص) کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس پر عمل ہونا چاہئے لیکن انہیں سنیوں سے اس میں اختلاف ہے کہ کیسے اور کس طریقے سے ایسی سنت زمانہ نبی (ص) کی نسل سے اگلی نسل تک پہنچائی جائے یا اسکو کیسے پرکھا جائے۔
سنی حدیث کی سند کسی صحابی جس کی عدالت پر انہیں یقین ہے سے بیان کرنے کو کافی سمجھتے ہیں کیونکہ انکے ہاں سب صحابہ عادل ہیں۔ان کے یہاں جو بھی حدیث بخاری یا مسلم میں ہے اس پر کبھی بھی شک نہیں کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ ان دو کتابوں کی حیثیت قرآن کے برابر کی ہوگئی ہے جہاں تک انکے صحیح ہونے کا مطلب ہے ورنہ اس کا کیا جواز ہے کہ اکثر سنی ان کتابوں میں درج بیانات کو سر آنکھوں پر لیتے ہیں؟! اس کی توثیق کیلئے ہم شارح صحیح مسلم شیخ ابو امر ابن صلاح کا ذکر کرتے ہیں جو مقدمہ نواع شرح مسلم میں لکھتے ہیں :'' جو سب امام مسلم نے صحیح مسلم میں صحیح مانا ہے وہ بالکل مستند ہے۔ اسی طرح بخاری نے جو کچھ اپنی کتاب میں صحیح جانا ہے بالکل مستند ہے۔ یہ اسلئے ہے کہ قوم نے اسکو قبول کیا ہے سوائے ان کے کہ جن کو اجماع کے ذریعے بے توجہ سمجھا گیاہے۔'' وہ پھر کہتا ہے،'' ایک معصوم شخص کی رائے کو نہ چھوٹنے کی بنا پر قوم اپنے اجماع کے ذریعے غلطی کرنے سے محفوظ ہے۔'' (150)
شیعوں کیلئے سب سے پہلی شرط سنت کی سند اہلبیتِ رسول (ص) کے اماموں میں سے کسی ایک امام سے منسوب ہونا ضروری ہے جس کی بنیاد رسول خدا (ص) کے اس فرمان سے وابستہ ہے:'' میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم ان سے متمسک رہو گے ،تو تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے،ایک قرآن مجید اور دوسرے میرے اہلبیت،میری عترت''(151)۔ اور اس قرآنی آیت کی بنیاد پر '' بس اللہ کا ارادہ ہے کہ اے اہلبیت رسول تم سے ہر رجس کو دور رکھے ''( احزاب 33)۔دوسری بڑی شرط یہ ہے کہ حدیث کو قرانی آیت سے پرکھو کہ کہیں یہ قرآن کے مخالف نہ ہو اور پھر متنِ حدیث، سندِ حدیث اور تواترِ حدیث اور آخر میں عقل و منطق سے موازنہ کرنا۔ کسی بھی حدیث میں کسی ایک شرط کی کمی کی وجہ سے کافی غور و فکر کے بعد ہی قابل توجہ سمجھا جائے گا۔ شیعوں میں احادیث کی چار بڑی کتابیں ہیں، اصول کافی، من لایحضرہ الفقیہ، تہذیب اور استبصار۔ اور ان کتابوں کی تمام احادیث قابل تحقیق ہیں اس کے بجائے کہ انہیں آنکھ بند کرکے قبول کیا جائے جیسا کہ برادران اہلسنت کرتے ہیں۔
شیعہ ا ن کتابوں میں درج سب احادیث کو صحیح نہیں مانتے ہیں کیونکہ شیعوں کے یہاں کسی بھی کتاب کو قرآن کے ہم پلہ کا درجہ نہیں دیا گیا ہے جیسا کہ اہلسنت بخاری اور مسلم کے بارے میں کہتے ہیں۔مثلاََکتاب '' مصادر الحدیث عند الشیعہ و الامامیہ
(sources of hadith according to shia imamia ( میں سید محمد حسین الجلالی اصول کافی میں درج احادیث کی تقسیم اس طرح کرتا ہے : کل احادیث 16,121 صحیح5073=،حسن,302=قوی,144=موثق1118=،اور ضعیف =9475=
کیسی شفافیت سے شیعہ دانشور کافی کے ہزاروں احادیث پرغور کرتے ہیں۔پھر وہ حقیقت کہاں ہے جو کچھ جھوٹے بکتے ہیں جیسے احسان ظہیر اور خطیب اور دعویٰ کرتے ہیں کہ شیعہ اصول کافی کو وہی درجہ دیتے ہیں جو اہلسنت بخاری کو دیتے ہیں۔ یہ دل ہلادینے والا جھوٹ ہے جو وہ اپنی زہریلی کتابوں میں لکھتے ہیں تاکہ کافی اور دوسری کتابوں میں درج ضعیف احادیث بحیثیت صحیح شیعوں کے ساتھ منسوب کرکے قاری کو گمراہ کریں اور شیعوں کو بدنام ۔۔
عصمت نبی (ص)دونوں مکاتب کی روشنی میں:
بہت سے جھوٹوں کے علاوہ کچھ مفادِ خصوصی رکھنے والے لوگ بے بنیاد افواہیں پھیلاتے ہیں کہ شیعہ اپنے اماموں کو اللہ کے رسول (ص) پر ترجیح دیتے ہیں ۔میں نے اپنی تحقیق سے یہ پایا کہ شیعہ نبی پاک (ص) کے تقدس کے اتنے معتقد ہیں جو کہ اہلسنت عقیدے سے کافی بہتر ہے۔شیعہ نبی پاک (ص) کی سنت کے پورے پابند ہیں اور انکا عقیدہ ہے کہ جوبھی سنت رسول (ص) کا انکار کرے وہ کافر ہے۔وہ نبی پاک (ص) کو پچھلی اور اگلی امتوں میں سب سے اعلیٰ شخصیت تصور کرتے ہیں۔ وہ اہلبیتِ رسول (ص) میں سے بارہ اماموں سے اس لئے وابستہ رہتے ہیں کہ وہ سنت رسول (ص) حاصل کرنے کا سب سے صحیح ذریعہ ہیں۔وہ عصمت نبی (ص) کے متعلق کوئی بھی شک و شبہ نہیں رکھتے۔ ان کی نظر میں آنحضرت (ص) زندگی کے ہر لمحہ اور ہر معاملہ میں معصوم ہیں،اعلان نبوت سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی۔
اہلسنت بھی نبی پاک (ص) کو پچھلی اور اگلی امتوں میں سب سے اعلیٰ مانتے ہیں مگر وہ آنجناب(ص) کو صرف دینی معاملوں میں معصوم مانتے ہیں جن میں اللہ کا پیغام پہنچانا ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ دوسرے معاملوں میں آنحضرت (ص) دوسرے عام لوگوں کی طرح ہے جہاں وہ صحیح اور غلط بھی ہوسکتے ہیں۔آئیے ہم آپ کو اہلسنت کی کتابوں جن کو انہوں نے قرآن کے بعد سب سے صحیح ہونے کا درجہ دیا ہے میں سے درج بیانات سے دکھایئں گے کہ انکے یہاں نبی پاک کی شبیہ کس طرح پیش کی گئی ہے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلی وحی جو رسول اللہ (ص) پر شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے۔۔۔۔یہاں تک کہ آپ (ص) کے پاس وحی آگئی اور آپ (ص) غار حرا میں تھے۔فرشتہ آپ (ص) کے پاس آیا اور کہا کہ پڑھو۔آپ (ص) نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور زور سے دبادیا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں، اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور کہا پڑھو تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ (ص) فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے تین بار پکڑ کر زور سے دبایا اور کہا کہ پڑھو۔وہ (ص) کانپتے کانپتے واپس آئے اور حجرہ خدیجہ میں داخل ہوئے اور کہا مجھے کمبل اڑھادو۔ان پر کمبل ڈالا گیا یہاں تک کہ آپ (ص) کے دل سے خوف جاتا رہا تو آپ (ص) نے خدیجہ سے کہاکہ مجھے کیا ہوگیا ہے ؟خدیجہ آپ(ص) کو لیکر اپنے نصرانی چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عضٰی بن قصی جو کہ عربی زبان سے واقف تھا کے پاس لے گئیںجو انجیل مقدس کو عربی زبان میں لکھتا تھا جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا۔وہ بہت بوڑھا آدمی تھا اور اس کی بینائی جا چکی تھی۔اس سے خدیجہ نے کہا،اے میرے چچا کے بیٹے اپنے بھتیجے(محمد(ص)) سے ان کا حال سنو۔ورقہ نے کہا،اے میرے بھتیجے تم نے کیا دیکھا؟رسول خدا (ص) نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کردیا۔تو ورقہ نے آپ (ص) سے کہا کہ یہ فرشتہ ہے جسے اللہ نے موسیٰ پر نازل کیا۔اے کاش میں اس وقت اس زمانہ میں(جب آپ نبی ہونگے) زندہ ہوتا جب آپ (ص) کی قوم آپ کو(مکہ سے ) نکالے گی۔اللہ کے رسول (ص) نے یہ سن کر تعجب سے فرمایا:کیا وہ لوگ مجھے بیشک نکالیں گے؟(152)۔
کیا اس کو عقل قبول کرسکتی ہے کہ رسول اللہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جو ان پر نازل ہوا وہ نبوت کا منصب تھا اور یہ کہ نصرانی ورقہ بن نوفل آنحضرت (ص) سے زیادہ صاحب علم تھا اور اسی نے آپ کو باخبر کیا ؟؟!
حضرت عائشہ آگے بیان کرتی ہیں جو کہ اس سے زیادہ افسوس ناک ہے جس سے بدن کانپتاہے۔۔۔۔۔''ورقہ مرگیا اور وحی آنا بند ہوگئی یہاں تک کہ رسول (ص)اللہ کو کافی صدمہ ہوا۔ہم نے محسوس کیا کہ اس صدمہ نے آنحضرت(ص) کو اس حد تک گھیر لیا کہ اکثر وہ حضرت (ص)پہاڑ کی چوٹی پر جاکر اپنے آپ کو گراناچاہتے تھے( یعنی خود کشی کرنا چاہتے تھے ،استغفراللہ۔۔مترجم)جبرائیل ان کے پا س آتے اور کہتے،'' اے محمد (ص) آپ بیشک پیغمبر ہیں!آنجناب (ص) کو کچھ راحت ملتی اور آپ واپس آجاتے تھے۔ اگر وحی آنے میں دیر لگتی تھی تووہ جناب (ص) وہی دہراتے تھے ،پہاڑ پر جاتے۔۔جبرائیل آکر اپنی بات پھر دہراتے''(153)۔
اور کیا کوئی مسلمان باور کرسکتا ہے کہ رسول (ص) ساراقرآن یاد نہیں رکھ پا رہے تھے؟ بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے:کہ اللہ کے رسول (ص) نے مسجد میں ایک آدمی کو قرآن پاک کی کوئی سورة تلاوت کرتے سنا اور کہا ،'' اللہ اس پر رحم کرے! اس نے مجھے فلاں ،فلاں آیت یاد دلائی جو میں نے فلاں،فلاں سورة سے چھوڑدی تھی!(154)۔ اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر خدا (ص) بھول جاتے تھے جیسا کہ جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ جنگ خندق کے موقعہ پر عمر بن خطاب آنحضرت (ص) کے پاس گئے اور کہا ،'' اے اللہ کے رسول (ص)(ص) ،'' میں نماز پڑھنے کی تیاری میں تھا جب سورج غروب ہونے والا تھا جس کے بعد روزہ دار افطار کرنے والے تھے۔'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' اللہ کی قسم تم نے پھر نہیں پڑھی ہے۔عمرابن خطاب کہتے ہیں کہ رسول (ص) میرے ساتھ نیچے وادی میں گئے۔ّآنجناب (ص)نے وضو فرمایااور نماز عصراداکی جب کہ سورج پہلے ہی غروب ہوچکا تھا اس کے بعد آنجناب (ص) نے نماز مغرب ادا کی ''(155)۔
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ،''نماز کیلئے اذان دی گئی،صف باندھی گئی اور اللہ کے رسول(ص) ہمارے سامنے آئے۔جب آنحضرت (ص) امامت کیلئے کھڑے ہوگئے،تو انہیں یاد آیا کہ وہ مجنب(بے غسل) ہیں ہم سے فرمایا کی تم یہیں ٹھہرو تاکہ میں پہلے غسل کرکے آوئں۔وہ(ص) غسل کرکے آئے اور ان کے سرمبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔انہوں نے تکبیر کہی اور ہم نے انکے ساتھ نماز پڑھی''(156)۔ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ پیغمبر خدا (ص) نے ہم کو نماز عصر صرف دو رکعات پڑھائی اور مسجد سے باہر آکر ایک لکڑی کی تختی پر اپنا ہاتھ رکھا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بربنائے شرم ان سے اس بارے میں نہیں پوچھا۔لوگ جلدی باہر آئے اور آنحضرت(ص) سے پوچھا: کیا نماز آدھی پڑھائی؟ ان میں سے ایک شخص ذُ لیدین تھا جس نے کہا: اے رسول (ص) آپ نے نماز ادھوری کیوں پڑھائی؟! نبی اکرم (ص) نے فرمایا: نہ ہی میں بھولا اور نہ ہی میں نے ادھوری نماز پڑھائی۔لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول (ص) بیشک آپ بھول گئے ہیں! اس پر رسول اکرم نے فرمایا،'' ذُلیدین نے صحیح کہا ہے''(157) ۔
تعجب ہے! اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ ایک یہودی نے رسول (ص) کو جادو سے قابو کیا جس کی وجہ سے رسول (ص) کوایسے کا م انجام دے چکنے کا خیال آتا تھا جو کہ آنجناب نے نہیں کئے تھے! اور ان کو حضرت عائشہ سے پوچھنا پڑتاکہ آیا ان پر وحی نازل ہوئی ہے یا نہیں! یا آیا وہ اپنی زوجہ کے پاس گئے ہیں یا نہیں ۔۔(افسوس صد افسوس مترجم) حضرت عائشہ سے ہی روایت ہے،'' پیغمبر خدا (ص) بہت عرصہ تک اس خیال میں رہے کہ انہوں نے اپنی زوجہ سے صحبت کی ہے جب کہ حقیقاََ انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ ایک دفعہ آنجناب (ص) عائشہ نے مجھ سے کہا: اللہ نے مجھ پر ایک فیصلہ نازل کیا جس کے متعلق میں نے درخواست کی تھی۔دواشخاص میرے پاس آئے،ایک میرے سرہانے اور دوسرا پائینتی کی طرف بیٹھا۔ پائینتی کی طرف بیٹھنے والے نے سرہانے کی طرف بیٹھنے والے شخص سے پوچھا،'' اس شخص ( محمد(ص)) کو کیا ہوگیا ہے؟ اس نے کہا،'' اس پر جادو ہوگیا ہے۔دوسرے نے پوچھا،'' اس پر جادو کس نے کیا؟ اس نے جواب دیا: لبید ابن عصام''(158)
حضرت عائشہ سے بھی یہ روایت ہے کہ آ ّنحضرت(ص) پرسحر ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ ایسی حرکتیں کرنے کا گمان کرتے تھے جو کہ انہوں نے اس وقت تک نہیں کی تھیں ،جب وہ ایک دن میرے ساتھ تھے ،وہ اللہ کی عبادت کرتے رہے اور پھر کہا،'' کیا تم نے دیکھا کی اللہ نے مجھ پر ایک ایسا فیصلہ نازل کیا جسکا میں نے سوال کیا؟''(159)۔
مشہور اہلسنت دانشور شیخ محمد عبدہ ان روایات کو مسترد کرتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ نبی کریم (ص) جادوگری کے شکار ہوئے کیونکہ یہ اس قرآنی آیت کے مخالف ہے ،'' بدذات لوگ کہتے ہیں کہ تم صرف ایک دیوانے کی پیروی کرتے ہو( سورة۔۔۔۔)۔ جہاں تک نبی رحمت (ص) کا اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے کا سوال ہے بخاری نے اپنی صحیح میں ابو ہشام سے روایت کی ہے کہ ،'' جب نبی رحمت (ص) بیمار تھے وہ اپنی بیویوں کے گرد گھوم گھوم کر عائشہ کے خاطرکہتے رہے: کل میں کہاں ہونگا؟ کل میں کہاں ہونگا؟ ۔ حضرت عائشہ نے کہا جب آنحضرت (ص) کی مجھ سے صحبت کرنے کی باری تھی،انہیں تسلی ہوئی''(160)۔ حضرت عائشہ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول (ص) کو اپنی بیویوں کے پاس جانا ہوتا تھا تو وہ قرعہ اندازی کا سہارا لیتے تھے اور جس بیوی کا نام نکلتا تھا وہ اسکے ساتھ جاتے تھے۔ ہر بیوی کو ایک دن اور رات ملتا تھا لیکن سودہ بنت زماہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو دی۔ انس بن مالک سے روایت ہے،'' پیغمبر خدا رات دن ایک گھنٹہ میں گیارہ بیویوں کے پاس جاتے تھے'' انس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ایسا کرنے کے قابل تھے؟! انس نے کہا ،'' ہاںہم ایسی باتیں کرتے کرتے کہتے تھے کہ آنحضرت (ص) کو تیس(30) مردوں کی طاقت تھی''!(161)۔
13 اپریل 2014 بروز اتوار مرکزی جامعہ مسجد (حنفی)پلوامہ کشمیر میں سیرت نبی (ص) پر بولتے ہوئے دیوبند عالم مولانا مفتی نظیر احمد قاسمی جو دارالعلوم بانڈی پورہ کشمیر کے سربراہ ہیں اور مکتب دیوبند کشمیر کے قاضی القضاة ہیں نے صحیح بخاری کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: (سی ڈی سے نقل شدہ) نبی (ص) نے ایک جنگ میں کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ ، 2: ۔نبی (ص) نے اپنے کمرہ میں ہی پیشاب کرنے کیلئے ایک برتن رکھا ہواتھا تاکہ ضرورت پڑنے پرخاص کر رات کے وقت کام آسکے۔3: ۔نبی (ص) کی قوت مردانگی ایک سو جنتی افراد جیسی تھی جو کہ اس دنیا کے ہزار افراد کے برابر ہے۔ یہی روایات سلمان رشدی لعنتی نے اپنی شیطانی کتاب میں تحریر کرکے رسول محترم (ص) کی ذات مقدس کو مجروح کرنے کی کوشش کی مترجم )
اہلسنت دعویٰ کرتے ہیں کہ نیچے دی گئی آیت نابینا عبداللہ بن مکتوم پر تیوری چڑھانے پر نبی کریم (ص) کہ مذمت میں نازل ہوئی۔ کہاجا تا ہے کہ نبی کریم (ص) عتبہ بن رابیہ،ابوجہل ابن ہشام اور عباس ابن عبدالمطلب کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے جس دوران عبداللہ بن مکتوم آئے اور نبی رحمت (ص) سے الہٰی تعلیم کے خاطر کوئی قرآنی آیت سنانے کیلئے کہا جس پر آنجناب (ص) کوغصہ آیا کیونکہ انکی بات چیت میں خلل پڑ گیا اور اس نے اپنے آپ سے کہا ،'' یہ خاص لوگ کہیں گے کہ نبی رحمت (ص) کا اتباع صرف غلام اور نابینا لوگ کرتے ہیں''۔اسلئے اللہ کے رسول(ص) اس کی طرف سے مڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوئے جن کے ساتھ ہم کلام تھے۔آیات یہ ہیں :''وہ ترش رو ہوا اور منہ پھیر لیا،ایک نابینا کے آنے پر۔اور آپ کیا جانتے ہیں شاید وہ پاکیزگی اختیار کرتا ؟ یا وعظ و نصیحت اُسے فائدہ دیتی،اور جو اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا ہے''(سورہ عبس آیت 1۔4)۔
شیعہ اس کہانی کو پوری طرح سے مسترد کرتے ہیں اس دعویٰ کے ساتھ کہ یہ آیات بنو امیہ کے ایک شخص کے متعلق نازل ہوئیں جس نے نابینا سے منہ موڑ لیا تھانہ کہ نبی رحمت (ص) کے بارے میں۔علامہ سیدمحمد حسین طبا طبائی اپنی مشہور زمانہ تفسیر قران''المیزان '' میں فرماتے ہیں: یہ آیات قطعاًیہ ثابت نہیں کرتی ہیں کہ یہ آیات اللہ کے رسول (ص) سے مخاطب ہیں بلکہ اور کسی شخص کو مخاطب ہیں کیونکہ ماتھے پرتیوری چڑھانا نبیوں کی صفت نہیں ہے حالانکہ اپنے دشمنوں کے لئے بھی چہ جائیکہ ان مومنوں کے لئے جو کہ ہدایت کیلئے آتے ہیں۔
اس کے علاوہ اس شخص کی مذمت غریب سے منہ موڑکر امیروں کی طرف متوجہ رہنے کی پاداش میں ہوئی ہیں جو کہ آداب نبی (ص) کے شایان شان نہیں ہے۔اور اللہ ااخلاق ِنبی (ص) کی تعریف اس طرح کر رہا ہے،'' اے ہمارے نبی یقیناََآپ اخلاق کے عظیم ترین درجہ پر فائز ہیں(سورہ قلم آیت 4)''۔اب کون اس پر اعتبار کرسکتا ہے کہ اعلان نبوت کے ساتھ ہی اللہ اپنے حبیب (ص) کے خلق عظیم کی ضمانت دے اور بعد میں مومن نابینا جوکہ نصیحت لینے آیا تھا سے منہ موڑکر کافرامیروں سے متوجہ رہنے پر مذمت کرے''(162)۔ ان جیسی روایات پیش کرنے سے اہلسنت نے یہ عقیدہ اپنایا کہ نبی (ص) کی عصمت صرف وحی اور دین کے معاملات میں ہے۔مگر اللہ نے ہمیں متعلقاََ (absolutely) اور بلا کسی شرط کے نبی (ص) قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے ہیں بلکہ وہی فرماتے ہیں جو انکو اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے( سورہ نجم آیت 3۔4)۔ اور اللہ یہ بھی فرماتا ہے کہ رسول (ص) جسکا حکم دیں وہ لے لو اور جسکومنع کریں اس سے رک جائو( القران)۔ یہ آیات ثابت کرتی ہیں کی نبی (ص) کی عصمت متعلق ہے نہ کہ محدود۔ اگر نبیوں کو غلطی کرنے کی اجازت ہوتی تو امت کو پھر ان غلطیوں کا اتباع کرنے کا حکم ہوتا۔ یہ ایسی منطق ہے جسکے بیان سے ہم اللہ کے غضب سے پناہ مانگتے ہیں۔ ان روایات کی نشریات جن سے عصمت نبی (ص) مجروح ہوتی ہے،ان میں جعلسازوں کی کارستانی کا عمل دخل ہے تاکہ اس منصوبہ سے امت اسلامیہ کی چھبی مشکوک ہوجائے۔اس جعلسازی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان اصحاب کی پردہ پوشی کی جاسکے جنہوں نے اللہ کے رسول (ص) کوزندگی کے آخری ایام جن میں وہ بیمار تھے اور کاغذ و قلم مانگا تھا تاکہ امت کو گمراہی سے بچنے کیلئے نوشتہ لکھیں کو ہذیان بکنے کی تہمت دی۔تو اس کے بعد ایسی روایات دیکھنے میں کوئی اجنبیت نہیں ہے جنمیں کسی صحابی کو صحیح اور نبی (ص) کو(معازاللہ) غلط کہا گیا ہے۔ ان میں سے ایک روایت نزول حجاب (پردہ) سے منصوب ہے جس میں عمر ابن خطاب اللہ کے رسول (ص) کو اپنی ازواج پر پردہ کرنے کیلئے کہتا ہے! انس بن مالک سے روایت ہے ،'' عمر نے فرمایا کہ ،' میں نے کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص)! آپ (ص) کے ہاں نیک اور برے لوگ آتے ہیں ،لہذا اپنی عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں۔عائشہ کہتی ہیں کہ نبی (ص) نے کوئی توجہ نہیں دی جس کی بنا پر اللہ نے اس کے لئے آیت نازل کی''(163)۔
اہلسنت کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ منافقین کے نماز جنازہ کی ممانعت بھی عمر بن خطاب کی رائے پر نازل ہوئی اور کہتے ہیں کہ منافق عبداللہ بن اُبی کے نماز جنازہ کے لئے نبی (ص) کے اسرار کے خلاف عمر بن خطاب کی تائید میں یہ آیت نازل ہوئی۔عبداللہ بن عمر سے روایت ہے ،'' جب عبداللہ بن ابی فوت ہواتو اسکا بیٹا رسول خدا (ص) کے پاس آیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) مجھے اپنی قمیص دیجئے تاکہ میں اپنے باپ کے لئے اسے کفن بناوں اور آپ (ص) اسکی نماز جنازہ پڑھائیں اور دعائے مغفرت کریں آنحضرت (ص) نے اسے اپنی قمیص دیدی اور کہا ،''جب تم کفن دیکر فارغ ہوجائو تو اذان دیدینا۔ اور جب اذان دی گئی اللہ کے رسول (ص) اسکی نماز جنازہ پڑھانے آئے جس پر عمر ابن خطاب نے آنحضرت (ص) کو ایک طرف کھینچا اور کہا ،'' کیا اللہ نے آپ (ص) کو منافقین کا نماز جنازہ پڑھانے سے منع نہیں کیا ہے؟ اور کہا آپ اس کیلئے مغفرت چاہیں یا نہ چاہیں اور اگر آپ دعاء مغفرت کریں گے بھی تو اللہ ان کو نہیں بخشے گا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (ص) کا انکار کیا ہے اور اللہ ہرگز باغیوں کی ہدایت نہیں کرتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی: اور اے نبی(ص) تم کبھی بھی ان پر نماز جنازہ نہ پڑھانا جو مر جائے اور نہ اس کی قبر پر دعائے مغفرت کے لئے کھڑے ہوناکیونکہ انہوں نے اللہ اور اسکے رسول(ص) کا انکار کیا اور وہ مرے ہیں سرکشی کی حالت میں(توبہ آیت 84)َ۔ خود عمر ابن خطاب سے ایک اور روایت ہے جس میں انہوں نے کہا،''۔۔میں پیغمبر خدا (ص) کے مقابل اپنی جرأت پر بہت زیادہ حیران تھا''(165)۔اس واقعہ کی اصلی حقیقت یہ ہے کہ رسول خدا (ص) کو منافقین کا نماز جنازہ پڑھنے اور مغفرت مانگنے کا حقِ اختیار اس آیہ شریفہ کے پس منظر میںدیا گیا تھا،'' ان کیلئے مغفرت مانگو یا مت مانگو اور اگر بہت بار بھی مانگو اللہ انکو بخشنے والا نہیں ہے(سورہ توبہ آیت 80)۔پیغمبر خدا (ص) نے اس خاص منافق پر نمازجنازہ پڑھنے کا فیصلہ ایک بڑے فائدہ کے لئے کیا تاکہ اسکے قبیلہ بنی خز رج کا دل جیت سکیں جن میں سے ایک ہزار افراد نے اسلام قبول کیا۔یہ نماز جنازہ ممانعت سے بہت پہلے پڑھی گئی۔
مذکورہ آیت میں تم مغفرت مانگو یا نہ مانگو۔۔ میں ممانعت کا حکم نہیں ہے جیسا کہ حضرت عمر نے سمجھا اور جس کی بنا پر انہوں نے نبی (ص) پر اعتراض کیا اور غلط سمجھا۔ منافقوں پر نماز جنازہ کی ممانعت میں نازل ہوئی آیت کسی بھی صورت میں ثابت نہیں کرتی ہے کہ اللہ کے رسول (ص) عیاذاًباللہ عبداللہ بن ابی کی نماز پڑھانے میں غلط تھے۔یہ اس وقت غلط ہوسکتا ہے اگر ایسا فعل ممانعت نازل ہونے کے بعد انجام دیا گیا ہو نہ کہ اس سے پہلے ۔
اس واقعہ کا کوئی مقصد نہیں ہے سوائے اس اظہار کے کہ عمر ابن خطاب کتنے غلط تھے اور یہ کہ وہ کس زوور شور سے رسول خدا(ص) پراعتراض کرتے تھے۔ انہوں نے اس بات کا خود بھی اعتراف کیا ہے اور کہا،'' مجھ سے اسلام میں ایک ایسی غلطی ہوئی ہے جیسی کبھی نہیں ہوئی تھی اور وہ اس وقت ہوئی جب نبی رحمت (ص) نے نماز جنازہ پڑھنے کا ارادہ کیا ۔۔۔۔وغیرہ''(166)۔ ایسا ہی واقعہ ہے جنگ بدر کے قیدیوں سے جزیہ(blood money) وصول کرنے کا ۔۔۔۔ بقولِ اہلسنت پیغمبر خدا (ص) کو ان قیدیوں کو اس وقت قتل کرنے کے بجائے جزیہ لینے پر اللہ نے ڈانٹ پلائی جب عمر ابن خطاب نے انہیں قتل کرنا چاہا،جس پر یہ آیت عمر ابن خطاب کی تائید میں نازل ہوئی۔ اہلسنت یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر کے ساتھ روتے تھے انہوں نے کہا،'' عمر ابن خطاب سے ایک اختلاف کی وجہ سے ہم پر ایک عذابِ عظیم نازل ہونے والا تھا اور اگر وہ عذاب نازل ہوتا تو اس سے صرف عمر ابن خطاب بچ پاتے''(167)۔ ا س واقعہ کی حقیقت اس طرح ہے: پچھلی آیت صحابہ کو ڈانٹ پلاتی ہوئی جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئی جنہوں نے ابو سفیان کے تجارتی کاروان کو ترجیح دی جب انہیں رسول خدا (ص) نے منافقین سے جنگ کرنے کے سلسلے میں ہونے والی تیاری اور آمادگی کے بارے میں مشورہ کے لئے طلب کیا تھا۔ اس آیت میں رسول (ص) کے ذریعے جنگی قیدی بنانے کے لئے ممانعت نہیں ہے بلکہ منافقین سے لڑنے سے پہلے ہی قیدی بنانے پر ممانعت ہے جو کہ کچھ صحابہ کا منشا تھا جن سے پیغمبر (ص) نے منافقین سے یا تو کاروان ضبط کرنے یا بھر جنگ کرنے کے بارے میں مشاورت کی تھی۔ اس پر یقین کرناکیسے مناسب ہوسکتا ہے کہ جو آیت ان کو ڈرانے کے لئے نازل ہوئی جو لڑنا نہیں چاہتے تھے پیغمبر خدا (ص) کو ڈانٹنے کے لئے نازل ہوئی جس نے پہلی ہی منافقین کو قتل کیا تھا؟!۔ قریش میں سے ستر(70) جانباز اس جنگ میں مارے گئے۔
ابوہریرہ کے ذریعے بہت زیاد ہ حدیثیں مروی ہونے کی بنا پر میں نے ان کی زندگی کا کچھ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ محدثوں نے ایک رائے ہوکے قبول کیا ہے کہ ابوہریرہ نے رسول خدا (ص) کے متعلق سب سے زیادہ احادیث بیان کی ہیں حالانکہ انہوں نے نبی (ص) کے ساتھ صرف ایک سال اور نو مہینے یا زیادہ سے زیادہ تین سال گذارے کتب اہلسنت میں اسکی 5374احادیث درج ہیں جنمیں صحیح بخاری کے 446 ہیں۔ ابوہریرہ نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ،'' کسی بھی صحابی رسول (ص) نے اتنی احادیث روایت نہیں کی ہیں جتنا کہ میں نے کی ہیں سوائے عبداللہ بن عمر کے کیونکہ وہ لکھ،پڑھ سکتے تھے(اور میں نہیں )''(168)۔لیکن عبداللہ بن عمر نے کل722 احادیث روایت کی ہیں جن میں بخاری نے صرف سات اور مسلم نے بیس درج کی ہیں۔ ابوہریرہ اپنے سے مروی شدہ کثرت احادیث کی وجہ خود ہی ان الفاظ میں بیان کر رہا ہے: میرے مہاجر اور انصار بھائی زیادہ تر تجارت اور کار و بار میں مشغول رہتے تھے ۔میں چونکہ مفلس تھا،اسی لیے رسول خدا(ص) کی بارگاہ میں اکثر بیٹھا رہتا تھا تاکہ اپنا پیٹ بھر سکوں اور وہ بھی حلال رزق سے۔اسطرح جب وہ غائب تھے،تومیں حاضر تھا اور جب وہ بھول گئے،میں یاد کر بیٹھا،''(169)۔ وہ یہ بھی کہتا ہے،'' کہ بھوک کی شدت سے میں اپنی پیٹ پر پتھر باندھتا تھا اور اپنے ساتھ قرآن کی تلاوت بھی کرتا تھا تاکہ آنجناب (ص) کچھ کھلائیں۔مسکینوں پر سب سے رحم دل جعفر بن ابو طالب تھے۔ وہ ہمیں اپنے گھر لیجا کرکھلاتے تھے جو کچھ وہاں موجود ہوتا یہاں تک کہ وہ خوردنی سامان کے خالی ڈبے بھی لاتے تھے جس کو ہم کاٹ کر چاٹتے تھا(170)۔
ابو ہریرہ نے جعفر ابن ابوطالب کے کھانا کھلوانے کی تعریف اسطرح کی: بعد از رسول (ص)جس کسی نے بھی چپل ُپہنی،یا گھوڑے کی سواری کی یا زمین پر قدم رکھا جعفر ابن ابی طالب سے بہتر کوئی نہیں تھا(171)۔ تو ابوہریرہ نے جعفر بن ابو طالب کو دوسرے صحابہ پر ترجیح دینے کیلئے کونسا معیار لاگوکیا؟! صحیح مسلم میں درج ہے کی عمر ابن خطاب نے ابوہریرہ کی پٹائی کی جب انہوںنے اسکو نبی(ص) سے یہ حدیث منسوب کرتے سنا،'' جس نے زبان سے لا الاہ الا اللہ کہا،وہ جنت میں داخل ہوگا '(172)
ابن عبد البر نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا ۔'' میں نے آپ سے وہ حدیثیں بیان کی ہیں جن کو میں اگر حضرت عمر کے زمانے میں بیان کرتا،وہ مجھے دُرے لگاتے''(173)۔ فقہ کے راوی رشید رضا سے روایت ہے،'' اگر حضرت عمر اور زندہ رہتے (یعنی ابوہریرہ کے زندہ رہنے تک حیات رہتے) تو اتنی زیادہ حدیثیں ہم تک نہ پہنچ پاتیں''۔مصطفٰی صادق الرافی اسی لئے کہتاہے،''وہ ابوہریرہ ہی پہلا راوی تھا جس پر احادیث وضع کرنے کا الزام ہے''۔ جب جنگ صفین ہوئی،ابوہریرہ نے معاویہ کا ساتھ دیا اور اسکو بنی امیہ کی حمایت کرنے اور ان کے حق میں وضعی احادیث پھیلانے کی عوض میں بہت سا روپیہ ،پیسہ مل گیا۔ مروان بن حکم نے اس کو اسی لئے اپنا ڈپٹی اور شہر کا والی(گورنر) بنایا۔اسطرح اس کی مالی حالت بہت بہتر ہوگئی۔ایوب بن محمد سے روایت ہے کہ اس نے کہا،'' ہم ایک دفعہ ابوہریرہ کے ساتھ تھے اور وہ دو خوبصو ت سوتی کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے اپنی ناک صاف کردی اور کہا،'' یہ کیسے ہوسکتا ہے؟! ابوہریرہ سوتی کپڑے پہن کر ناک صاف کرسکتا ہے؟! مجھے یاد ہے کہ میں منبررسول (ص) اور حجرہ ٔحضرت عائشہ کے نزدیک ترین بیٹھنے والا شخص ہوں جہاں میں ہوش و حواس کھو بیٹھتا تھا۔کوئی مجھے پاگل سمجھ آکے میری گردن پر پیر رکھتا تھا ،میں پاگل نہیں بلکہ بھوکا ہوتاتھا (174)۔ بنی امیہ کی حمایت کی غرض سے اسنے جان بوجھ کر کچھ احادیث کا ذکر نہیں کیا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اسکی مالی معاونت ہی نہیں بلکہ اسکی جان بھی خطرہ میں پڑ سکتی تھی۔ ابوہریرہ اسکا اعتراف ان الفاظ میں کرتا ہے،'' میں احادیث رسول (ص) دو تھیلیوں میں جمع کر چکا تھا۔ایک تھیلی کی احادیث میں نے بیان کی اور اگر میں دوسری تھیلی کی احادیث بھی بیان کرتا،میری گردن کب کی کٹ چکی ہوتی''(175) ۔
اس بیان کا ابو ہریرہ کے دئیے ہوئے اس دوسرے بیان کے مقابلے میں کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے جس میں وہ خود کہتا ہے،''لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ نے بہت زیادہ احادیث روایت کی ہیں۔اگر اللہ کی کتاب میں یہ دو آیتیں نہ ہوتیں ،میں کوئی بھی حدیث بیان نہیں کرتا،''یقیناََ وہ لوگ ہمارے نازل کردہ واضح بیانات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں جسے ہم لوگوں کیلئے کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔ان لوگوں پر اللہ لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کرلیں اور اصلاح کر لیں اور جس کو چھپایا ہے اسکو واضح کردیں تو ان لوگوں کی میں توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں ''(بقرہ آیت 159۔160)(176)۔
ان ناقابل تردید ثبوتوں سے ابوہریرہ کی ' اصلیت اور دیانتداری بحیثیت راوی بے نقاب ہوجاتی ہے اور اسکا ہمارے زمانے کے' سرکاری مبلغ ' جیساہونا ثابت ہوتا ہے
ابوہریرہ نے حضرت رسول خدا سے نقل کیا ہے ،'' جب ملک الموت کواللہ نے حضرت موسیٰ کی روح قبض کرنے کیلئے بھیجا،تو وہ ملک الموت سے جھگڑنے لگے اور ایسا طمانچہ مارا جس سے ان کی آنکھ باہر نکل آئی۔ ملک الموت وہ آنکھ ہاتھ میں لئے ہوئے اللہ کے پاس واپس پہنچے اور شکایت کی کہ آپ نے مجھے ایک ایسے شخص کی روح قبض کرنے کیلئے بھیجا جو مرنا ہی نہیں چاہتا۔ اللہ نے جواب دیا کہ واپس جاکر موسیٰ سے کہو کہ ایک بیل پر ہاتھ رکھدو۔ اور ہاتھ کے نیچے جتنے بال آجائیںہر بال کے بدلے ایک سال عمر میں اضافہ کیا جائے گا۔چنانچہ ملک الموت پھر حضرت موسیٰ کے پاس تشریف لائے اور ساری گفتگو کہہ سنائی اس پر حضرت موسیٰ نے اللہ سے پوچھاپالنے والے اس کے بعد کیا ہوگا؟ کہا موت: اس پر جناب موسیٰ بولے جب آخر موت ہے! تو آج ہی میری روح قبض کرلے اور اے اللہ مجھے ارض بیت المقدس کے قریب پہنچادے تاکہ روح وہیں قبض ہو ''(179) (یعنی موت دیدے)
ابوہریرہ ہی سے روایت ہے،'' جب جہنم سے پوچھا جائے گا کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا ؟تو وہ کہے گا کہ کیا کچھ اور ہے؟ اس وقت اللہ ذوالجلال اپنی ٹانگ جہنم میں ڈال دے گا جس پر وہ پکار اٹھے گا؛ بس،بس!!'(180)۔ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،''اللہ تبارک و تعالیٰ ہر رات کے آخری پہر میں عرش سے نیچے آکراعلان کرتاہے: کون ہے جو مجھ سے مانگے،تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے ،تو میں بخش دوں؟(181) یہ آخری روایت اہلسنت کے اس عقیدہ سے پوری طرح متضاد ہے کہ اللہ عرش پر مستقل تشریف فرما ہے ۔
ابو ہریرہ سے یہ بھی مروی ہے کہ،'' بنی اسرائیل عریان ہوکر نہاتے تھے اور ہر کوئی ایک دوسرے کی طرف دیکھتا تھامگر حضرت موسیٰ تنہائی میں نہاتے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے: اللہ کی قسم موسیٰ کو کوئی چیز ہم سے الگ نہانے کے لئے مانع نہیں ہے سوائے اسکے کہ ان کے آلۂ تناسل نہیں ہے ۔ایک دفعہ موسیٰ نہانے گئے اور اپنے کپڑے ایک چٹان پر رکھدئیے۔چٹان کھسک کر موسی کے کپڑوں سمیت دور چلتی گئی اور موسی اسکے پیچھے چلاتے دوڑے،میرے کپڑے واپس دیدو۔میرے کپڑے واپس دیدو یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسی ٰ کو(عریان )دیکھ لیا اور کہا،'' اللہ کی قسم !موسی ٰ کے بدن میں کوئی نقص نہیں ہے۔ انہوںنے چٹان سے اپنے کپڑے لئے اور ان سے اس چٹان کو مارنے لگے تاکہ اسے سبق سکھائیں! ابوہریرہ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم! انہوں نے اور چھ یا سات چٹانوں سے بھی کہا کہ اس چٹان کو پیٹنے میں ان کا ساتھ دیں ۔(182)
ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ،'' جب نماز کیلئے اذان دی جاتی ہی،شیطان بھاگ جاتا ہے۔وہ مقعد(anus) سے آواز دار گیس(ریح) خارج کرتا رہتا ہے تاکہ اذان نہ سنی جائے۔جب اذان مکمل ہوتی ہے وہ پھر آتا ہے نماز شروع ہونے کے ساتھ ہی۔ اس کے بعد وہ پھر بھاگ جاتا ہے اور جب نماز تمام ہوتی ہے وہ پھر آجاتا ہے۔ انسان اپنے آپ سے مختلف چیزوں اور معاملات کے بارے میں باتیں کرنا شروع کرتا ہے یہاں تک کہ اس کوپتہ ہی نہیں رہتا ہے کہ اس نے نماز کیسے پڑھی(183)۔
حقیقت میں یہ احادیث بنی اسرائیل کی کتابوں میں موجود ہیں جو ابو ہریرہ اکثر بیان کرتا ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ ایک یہودی کعب الاکبار کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا جس نے بہانہ(منافق) کا اسلام قبول کیا تھا۔
جنت میں داخل ہونے کے بارے میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول (ص) کو فرماتے سنا،''میری امت میں ایک گروہ جنت میں جائے گا جن کی تعداد ستر ہزار ہے،ان کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہونگے۔آقاشاہ بن مسلم الاسعدی کھڑا ہوا اور کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص) میرے لئے دعاء کیجئے کہ میں بھی ان میں شامل ہوجائوں! آنحضرت (ص) نے دعاء کی،'' اے مالک! اس کو بھی ان میں شامل کیجئے! پھر انصار میں ایک شخص اٹھا اور کہا:اے اللہ کے رسول (ص)! میرے لئے بھی دعاء کیجئے تاکہ میں بھی ان میں شامل ہوجائوں! اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا''آقاشاہ نے پہلے ہی تم پر اس کیلئے بازی ماری ہے''(184)
ابوہریرہ سے یہ بھی روایت ہے،'' ہم پیغمبر خدا (ص) کے ہمراہ تھے،میں سویا تھا اور میں نے خواب میں اپنے کو جنت میں دیکھا۔ میں نے ایک محل کے پاس ایک عورت کو غسل کرتے دیکھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا عمر ابن خطاب۔ مجھے اس وقت یاد آیا کہ وہ کتنا حاسد ہے،اسلئے میں بھاگ گیا۔عمر نے رویا اور کہا،'' اے اللہ کے رسول (ص) میں صرف آپ کے بارے میں حاسد ہوں''!(185) ابوہریرہ اپنا ایک فتویٰ رسول خدا (ص) سے منسوب کرکے اسطرح صادر کرتا ہے،'' اگر کوئی بغیر اجازت تمہارے گھر میں جھانکے اور تم پتھر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ ڈالو، تو تم پر کوئی الزام نہیں ہے''(186)۔ دوسرے ایک فتویٰ میں رسول (ص) سے منسوب کرکے کہتا ہے،'' تم میں سے کوئی بھی صرف ایک چپل پہن کر نہیں چلے گا، یا تم دونوں پہن کے چلو یا دونوں کو اتار کے چلو''(187)۔
صحیح بخاری کی روایات عقل و دانش کی ترازو میں:
یہ بہت ضروری ہے کہ صحیح بخاری پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں کیو نکہ اہلسنت کے نزدیک کتب احادیث میںجو مقام ومرتبہ کتاب بخاری کا وہ کسی دوسری کا نہیں ہے اس میںدرج روایات کو بالکل مستند مان کر کافی معتبرسمجھاجاتا ہے ۔اس کے برعکس اس میں ابوہریرہ اور دوسروں سے روایت شدہ بہت سارے ایسے واقعات درج ہیں جن میں عصمت نبی(ص) اور کچھ دوسرے معاملات مشکوک ہوجاتے ہیں۔امام بخاری کا کہنا ہے کہ'' انہوںنے وہ حدیثیںجمع کی جو چھ لاکھ میں سے صحیح ہیں۔ آگے لکھتے ہیںکہ میں نے اس کتاب میں صرف وہی بیان کیا جو مستند ہے اورجو میں نے اُن صحیح احادیث میں سے اپنی اس کتاب میںدرج نہیں کیا ہے، وہ اس سے کافی زیادہ ہے'' ۔ بخاری پر ہمارا پہلا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے صرف عدالتِ راویان احادیث پر اعتماد کو اپنی کتاب میں درج کرنے کا معیار قرار دیا ہے نہ کہ متنِ حدیث اور اس کے معنی و مطلب پر ۔ اسی وجہ سے اس کتاب میں متزلزل،غلط اور متضاد احادیث شامل ہو گئی ہیں۔حالانکہ اگر راوی عادل بھی ہو، تو اس کا عادل ہونا سنی ہوئی حدیث کا کچھ حصہ بھول جانے سے تو اسے نہیں روک سکتا،یہ بھی احتمال ہے کہ وہ حدیث کو اپنے معنی میں بیان کرے نہ کہ ان الفاظ میں جیسے اس نے سنا تھا۔ اس وجہ سے حدیث کے کچھ اصلی الفاظ چھوٹ سکتے ہیں جنکا کچھ اور معنی ہوسکتا ہے جس کی طرف راوی متوجہ نہیں تھا خاصکر جب راویوں کی تعداد زیادہ ہو ، کبھی سات سے آٹھ تک۔اگر ہم راویوں کی عدالت کی تصدیق کے مشکلات بھی ذہن میں رکھیں ،خاص کر وہ منافقین جن کے اندرونی راز صرف مالک دو جہاں جانتا ہے تو بخاری کی روایات قبول کرنے کے طریقہ کار میں بہت بڑی خرابی صاف نظر آتی ہے۔اس کی نوٹس لیتے ہوئے احمد امین کا ماننا ہے،'' کچھ راویان جن کی روایات انہوںنے بخاری میں درج کی ہیں قابل بھروسہ نہیں ہیں ''۔ حفاظ کا خیال ہے کہ بخاری کی ہر دس میں سے آٹھ حدیثیںضعیف ہیں(188)۔ بخاری نے اپنی صحیح میں مندرجہ ذیل احادیث کو مستند مان کر درج کیا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی اہلسنت نے ان کے متن کی حامی بھر لی ہے:
ابو سعید خدری سے منسوب روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے روز قیامت کے متعلق فرمایا ،''۔۔۔۔۔۔ وہ جہنم میں گرتے رہیں گے یہاں تک کہ صرف اللہ کی بندگی کرنے والے نیک یا گناہ گار بچیں گے جن سے کہا جائے گا،'' تم کیسے بچ گئے جب کہ باقی لوگ جہنم میں جا چکے ہیں۔ وہ جواب دیں گے :ہم ان کے ساتھ وابستہ رہے جن کی وابستگی آج کے لئے بہت ضروری تھی ۔اور ہم نے ایک ندا دینے والے کو سنا جو اعلان کر رہا تھا کہ تمام لوگ ان کے ساتھ جمع ہوجائیں جن کی وہ عبادت کر تے تھے، اس لئے ہم اپنے خدا کا انتظار کر رہے ہیں۔اللہ ذوا لجلال ان کے پاس اس صورت میںنہیں آئے گا جیسے انہوں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا اور وہ کہے گا! کیامیں تمہارا خدا ہوں؟،'' وہ کہیں گے،'' ہاںتو ہماراخدا ہے''۔صرف انبیا ء اس سے بات کریں گے اور ایک ان سے ہوچھے گا،'' کیا تمہیں اس کی پہچان کی کوئی علامت ہے؟ وہ کہیں گے،'' اسکی پنڈلی(ٹانگ)،تو وہ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگا۔۔''(189)۔
جابر بن عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' ایک رات ہم نبی(ص) کے ساتھ بیٹھے تھے۔انہوںنے چاند کی طرف دیکھا جو کہ چودھویں رات کاتھا اور فرمایا،' تم اسی چاند کی طرح اپنے رب کودیکھو گے، اور تمہیں اس کا دیدار کرنے سے نہیں روکا جائے گا(190)۔ ان دوحدیثوںکو مسترد کرنے کیلئے اسی صحیح بخاری میں مشروق سے روایت ہے کہ،'' میں نے ام المومنین حضرت عائشہ سے پوچھا! کیا اللہ کے رسول (ص) نے کبھی اپنے خدا کو دیکھا؟ تو انہوں نے کہا،' آپ کا سوال سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔جس نے بھی تم سے کہا کہ محمد (ص) نے اپنے خدا کو دیکھا،وہ کذاب (جھوٹا) ہے۔پھر انہوں نے قرآن کی اس آیت کی تلاوت کی،''نگاہیں اسے پانہیں سکتیں اور وہ نگاہوں کا برابر ادراک رکھتا ہے کہ وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے(سورہ انعام آیت 6)۔''کسی انسان کیلئے مناسب نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وحی کردے، یا پس پردہ سے بات کرے یا کوئی نمائندہ فرشتہ بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ پیغام پہنچادے کہ وہ یقینا َ بلند و بالا اور صاحب حکمت ہے (سورہ شوریٰ آیت 51)''( 191)۔
علامہ مرتضیٰ عسکری کے مطابق اس آیت' اس دن بعض چہرے شاداب ہونگے ( سورہ قیامت آیت 5) کا یہ مطلب ہے کہ مومن جنت میں داخل ہونے کے لئے اپنے رب کے حکم کے منتظر ہونگے ۔ یہ اِ س آیت کے معنی ٰ میں ہے جس میں حضرت یعقوب سے انکے بیٹے کہتے ہیں، 'آپ اس بستی سے پوچھئے( یوسف 82) یعنی بستی میں بسنے والوں سے پوچھ لیجئے۔ اسطرح آیت کے ظاہری معنی بیان کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے مجسم ہونے کا ابہام ہوتا ہے(192)۔
بخاری میں درج اسرائیلی نظریات کی ایک اور مثال عبداللہ کی سندسے درج ہے جس میں کہا گیا ہے ،''ایک اعرابی رسول خدا (ص) کے پاس گیا اور کہا،' اے محمد(ص)! ہم نے اپنی کتابوں میں دیکھا ہے کہ اللہ جنت کو ایک انگلی پر،پیڑ پودوں کودوسری انگلی پر،زمین کو تیسری انگلی پر،پانی کو چوتھی انگلی پر، اور باقی ذُریات کو پانچویں انگلی پر اٹھاکر کہے گا،'' میں بادشاہ ہوں'' پیغمبر خدا اعرابی کی باتوں کی تصدیق کرتے ہوئے اتنا ہنسے کہ ان کے آخری دانت نمودار ہوگئے۔پھر اللہ کے رسول (ص) نے اس آیت کی تلاوت کی:اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی۔۔(انعام 91)۔(193)
عبداللہ بن عمر سے منسوب روایت ہے کہ،'' اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'جب سورج چڑھنے لگے ،نماز پڑھنا موخر کردو یہاں تک کی سورج پوری طرح سے طلوع ہوجائے۔اور جب سورج ڈوبنے لگے پھر بھی نماز موخر کرد یہاں تک کہ یہ پوری طرح سے غروب ہوجائے ؛سورج طلوع اور غروب ہوتے وقت نماز مت پڑھو کیونکہ یہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے چڑھتا ہے(194)
مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ لوگ ایسی اوہام پرستی پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں! یہاں ابوذرغفاری سے منسوب ایک اور روایت ہے کہ،'' اللہ کے رسول (ص) نے کہا، اے ابوذر تمہیں پتہ ہے کہ سورج غروب ہوکر کہاں چلا جاتا ہے؟ ابوذر نے کہا،' اللہ اور اس کا رسول (ص) بہتر جانتا ہے۔
آنحضرت (ص) نے فرمایا:یہ عرش کے نزدیک جاکر سجدہ ریز ہوتا ہے اور اجازت مانگتا ہے جو نہیں ملتی۔یہ پھر سجدہ ریز ہوکر اجازت مانگتا ہے مگر وہ بھی منظور نہیں ہوتی اور اسے حکم ملتا ہے کہ جہاں سے آئے ہو،وہاں واپس چلے جائو،تو یہ طلوع ہوتا ہے مکان غروب سے۔یہ اس قرآنی آیت کے حوالہ سے ہے،'' اور آفتاب اپنے ایک مرکز پردوڑ رہا ہے کہ یہ خدائے عظیم و علیم کی معین کی ہوئی حرکت ہے(سورہ یٰسین آیت 38)َ ۔ اس قرآنی آیت : 'اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے' (سورہ اسراء 15)کے باوجود عمر بن خطاب سے روایت ہے،'' کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ مردہ پر رونے سے عذاب نازل ہوتا ہے؟'' عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' پیغمبر خدا (ص) کے سامنے ایک آدمی کے متعلق کہا گیا کہ وہ صبح دیر تک بغیر نماز پڑھے سوتا رہتا ہے اس پر رسول (ص) نے فرمایا: شیطان نے اس کے کانوں میں پیشاب کیا ہے(195)۔
جابر بن عبداللہ سے منسوب روایت ہے کہ،'' رات کے وقت پانی اور برتنوں کو ڈھک دو،دروازے بند کرکے رکھو اور بچوں کو گھروں میں بند رکھو کیونکہ جن آ کے لوٹ لیتے ہیں۔ سونے سے پہلے چراغ بجھا دو کیونکہ چراغ کی بتّی جل کر مکان میں بھی آگ لگا سکتی ہے(196)۔
اس سے صاف ثابت ہوا کہ بخاری اور دوسری کتب احادیث بھی جن کے متعلق برادران اہلسنت کا دعویٰ ہے کہ صحیح اور مستند ہیں ،میں بہت ساری مشکوک اور اسرائیلی روایات بھری ہیں جیسے اللہ کا دیدار کرنا، جہنم میں اللہ کی ٹانگ ڈالنا، اللہ کا پنڈلی کھولنا ، نبی کا قرآن بھول جانا،نماز ادھوری پڑھنا، بے غسل نماز کے لئے کھڑے ہوجانا (العیاذاً باللہ)، شہوانی خواہشات کا اظہار کرنا، عمر کے ذریعے اصلاح کر پانا، حضرت موسی کا ملک الموت کی آنکھ پھوڑنااور عریان غسل کرنا اور اس جیسی بہت ہی رکیک اور نازیبا تہمتیں جو کہ عصمت انبیا کو مجروح کرتی ہیں ۔۔ وغیرہ
(یہ وہی بخاری ہے جسکا اہلسنت کے گھرانوں میں ہونا آگ سے بچنے کا تعویز ہے اور جس میں علوم ِ نبوت کے وارث امام محمد باقر ، صادق آل محمد امام جعفر صادق اور ریحان رسول ،سردار جوانان جنت ،شہسوار دوش رسول ،جگر گوش زہرا بتول، فرزند شیر خدا امیر المومنین یعنی حضرت امام حسین سید شہدا علیہ السلام (بنائے لا الاہ الا اللہ )کی ایک بھی حدیث درج نہیں ہے جن کے متعلق آقائے دو جہان نے فرمایا'' حسین ُ مِنی و اَ نا مِن حُسین'' یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں! اس بغض علی و آل علی کے لئے سرکاری مبلغوں ،مصنفوں اور مفتیوں کو اللہ کی بارگاہ میں حساب دینا ہی پڑے گا۔مترجم) اسلئے ہم پر لازم ہے کہ ہم اسلامی تاریخ کی بنیاد پر بخاری اور دوسرے روایوں کی روایات پر دوبارہ غور کریں تاکہ ان وجوہات کا محاسبہ کریں جس کی وجہ سے منافقین نے اختلافات اور فرقہ بندی کے وہ بیج بوئے جن کی پیداوار کا خمیازہ ساری امت کو آج تک اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
یہ ایک عورت اور مرد کا کچھ وقت کے لئے نکاح ہے جس میں وہ تمام شرعی شرائط و تحفظات ہوتے ہیں جو کہ نکاح دائمی میں ہوتے ہیں۔ جب مرد اور عورت میں معاہدہ نکاح متعہ مخصوص اجرت اور مدت کے لئے طے ہوتا ہے تو عورت مرد سے اسطرح صیغہ پڑھتی ہے،'' مجھے تم سے اتنے وقت اور اتنے مہر (اجرت) پر نکاح کرنا قبول ہے،پھر مرد بھی کہتا ہے کہ مجھے یہ شرائط قبول ہیں''۔ ان شرائط کے ساتھ ایک معینہ وقت تک یہ دونوں ایک دوسرے کے میاں بیوی بنتے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو اس کی مدت بڑھا بھی سکتے ہیں یا نکاحِ دائمی میں بدل سکتے ہیں ۔ مدت ختم ہونے پر عورت کو ''عدت'' کا وقت گذارنا پڑتا ہے۔ ماہانہ عادت سے گذرنے کی صورت میں عدت دو مہینے ہوگی بصورت دیگر صرف چالیس دن۔ متعہ نکاح میں پیدا ہونے والا بچہ،لڑکا ہو یا لڑکی باپ کے پاس رہیں گے(197)۔
نکاح متعہ شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کے جائز ہونے کے معتقد ہیں۔ مگر یہاں سوال پیدا ہوتے ہیں کہ :شیعوں نے یہ طریقہ نکاح کہاں سے لیا ہے؟
کیا اس کا جائز ہونا (حرام یا حلال)مجتہد کے فتویٰ کا محتاج ہے؟
قرآن اور سنت پاک میں اس کے جائز ہونے کے کیا ثبوت ہیں؟
ان سوالات کا جواب دینے کے لئے ہم کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کے تمام فرقوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کے شروع میں نکاح متعہ حلال تھا۔صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے کہ،''ہم ایک فوجی مہم پہ رسول (ص) کے ساتھ تھے اور ہمارے ساتھ ازواج نہیں تھیں،اس لئے ہم نے آنحضرت (ص) سے کہا ،' کیا ہم ہیجڑوں کو اپنا سکتے ہیں؟لیکن انہوں نے اس سے منع کیا اور بعد میں عورتوں سے تھوڑے کپڑوں کے عوض نکاح کرنے کا حکم دیا اور اس قرآنی آ یت کی تلاوت کی:اے ایمان والو! اللہ کی طرف سے حلال شدہ چیزوں کو حرام مت کرو۔ اور یہ آیت،'' ۔۔ پس جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دیدو(نساء 24) اس طرح کے نکاح کے لئے پہلے ہی نازل ہوچکی ہے۔اکثر مفسرین اہلسنت نے اس آیت میں ''تمتع' 'فائدہ اٹھانے کو نکاح متعہ ہی مانا ہے۔مگر ابن عباس،ابی ابن کعب اور سعد ابن زبیر اس آیت کو حالانکہ اسطرح پڑھتے ہیں ،'' جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاتے ہو، انہیں اسکی اجرت ضرور دیدو''(199)۔
ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس کے متعلق لکھتے ہیں:یہ بہت دور کی بات ہے کہ ہم تحریف قرآن پر یقین کریں؛ اسلئے اسکا مقصد تشریح کرنا ہے نہ کہ تلاوت(200)۔ لیکن اسلامی فرقوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہ کہاں تک رائج رہا،کب ممنوع ہوگیا یا ممنوع ہوا بھی کہ نہیں۔ یہ حدیث کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت کرتی ہے کہ نبی(ص) نکاح متعہ کو ممنوع کئے بغیر ہی وفات کر گئے: عمران سے منسوب روایت ہے کہ،'' آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی،اس لئے ہم نے اس پر عمل کیا اور اسکو منسوخ کرنے والی آیت کبھی نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی آنحضرت (ص) نے اسکو اپنی عمر میں تا وفات حرام کیا۔ایک آدمی(شاید عمر ابن خطاب) نے اپنی رائے سے جو کچھ چاہا، کیا(201)
'' ۔شرح الباری علیٰ صحیح بخاری میں کہا گیا ہے کہ جس شخص کے متعلق اوپر والی حدیث میں اشارہ ہے،وہ عمر ابن خطاب ہے(202)۔
صحیح مسلم میں درج ابو نظرہ کی روایت سے اس کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے،'' میں جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس تھا جب کوئی آیا اور ان سے پوچھا: ابن عباس اور ابن زبیر متعہ(متعہ نساء و متعہ حج) میں اختلاف کرتے ہیں جس پرجابر نے کہا،' ہم نے نبی (ص) کے ساتھ ان دونوں پر عمل کیا،پھر حضرت عمر نے ہمیں ان پر عمل کرنے سے منع کیا، تو ہم نے ان پر اب عمل نہیں کیا' (203)۔
صحیح مسلم میں بھی عطا سے روایت ہے،'جابر عمرہ کرنے آیا،ہم اس کے گھر گئے اور لوگوں نے اور سوالوں کے علاوہ متعہ کے بارے میں پوچھا۔جابر نے کہا، ہاں ہم نے زمانہ رسول (ص) ،زمانہ ابوبکر اور زمانہ عمر میں اس پر عمل کیا'(204)۔
مسلم میں ہی جابر بن عبداللہ سے روایت ہے،'' ہم کچھ عدد کھجور اور کچھ آٹے کے عوض رسول خدا (ص) اور حضرت ابوبکرکے زمانے میں متعہ پر عمل کرتے تھے یہاں تک کہ عمر ابن خطاب نے اس کوعمرو بن حریث کے مسئلہ پر حرام کیا ۔۔(205)۔
عمرو بن حریث کا قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت اس کے پاس حاجت کے لئے آئی تاکہ وہ اپنی پیٹ کی بھوک مٹائے مگر اس شخص نے اسے کچھ دینے سے انکار کیا جب تک کہ وہ اسے راضی (شہوانی ضرورت)نہ کرے اس بہانے کے ساتھ کہ یہ نکاح متعہ تھا۔اس عورت نے یہ شرط اپنی مرضی کے خلاف مجبوری میں قبول کی۔ خلیفہ عمر بن خطاب کو جب اس کی خبر ملی تو غضبناک ہوئے جس کی بنا پر اس کو ممنوع کیا۔ انہوں نے اس کے بعد متعہ نکاح پر عمل کرنے کی سزاہ سنگساری رکھی ،جیسا کہ صحیح مسلم میں ابونظرہ سے روایت ہے،' ابن عباس متعہ پر عمل کرتے تھے اور ابن زبیر منع کرتے تھے جس کی بنا پر میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے پوچھا اور اس نے کہا : ہم رسول خدا (ص) کے ساتھ اس پر عمل کرتے تھے اور جب عمر خلیفہ بنے،انہوں نے کہا کہ اللہ جو چاہے نبی (ص) پر حلال کرتا ہے ۔ اسلئے متعہ حج اور متعہ نساء پر عمل کرنے کرنے سے باز رہو۔اگر کسی مرد کو میرے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ اس نے نکاح (متعہ) کیا ہے،تو میں اسے سنگسار کروں گا'(206)۔
صحیح ترمذی میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہے جس میں اسے ایک شامی نے پوچھا کہ کیا متعہ حلال ہے تو ابن عمر نے جواب دیا،ہاں یہ حلال ہے اس شخص نے کہا کہ تمہارے باپ عمر بن خطاب نے اسے منع کیا ہے جس پر ابن عمر نے کہا،'' کیا تمہارا مطلب ہے کہ ہم نبی (ص) کی سنت چھوڑ کر اپنے باپ کی سنت پر عمل کریں؟ (207)
امت کے دانشور ابن عباس آیت متعہ کے منسوخ نہ ہونے کے اعتقاد کیلئے مشہور تھے۔ زمخشری اپنی تفسیر کشاف میں ابن عباس کی روایت پراس بات کے معتقد ہیں کہ آیت متعہ منسوخ نہیں ہوئی ہے۔صحیح بخاری میں بھی اس حقیقت کی گواہی موجود ہے۔ابو جمراح کا بیان ہے،'' میں نے ابن عباس کو متعہ نساء کے متعلق فرماتے ہوئے سنا کہ یہ حلال ہے ۔مولیٰ نے اسے کہا،اس پر حالت مجبوری میں عمل کیا جاتا ہے ،جب عورتوں کی کمی ہو یا اور کچھ ایسا ہی جس پرابن عباس نے کہا،''ہاں''(208) طبرانی اور ثعلبی،دونوں اپنے تفاسیر میں حضرت علی سے روایت کرتے ہیں،'' اگر عمر متعہ کو ممنوع نہیں کرتے،توبدبخت کے سوا کوئی زنا کا مرتکب نہ ہوتا''(209)۔
نکاح متعہ کے حلال ہونے کی واضح دلیلوں سے ثابت ہونے کے باوجود آج کل کے اکثر اہلسنت اسکے مخالف ہیں ،یہ کہہ کر کہ آیت متعہ منسوخ ہوچکی ہے۔انہیں اس میں بھی اختلاف ہے کہ کب اور کس نے منسوخ کی۔ کچھ کہتے ہے کہ قرآنی آیت سے منسوخ ہوئی،تو کچھ کہتے ہیں سنت سے۔ یہ دونوں خیال بے بنیاد ہیں جیسا کہ اوپر بیان شدہ روایات سے ثابت ہے۔کچھ کہتے ہے کہ نکاح متعہ قرآنی آیت،''۔۔اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں علاوہ اپنی بیویوں اور اپنے ہاتھوں کی ملکیت کنیزوں کے کہ ان کے معاملہ میں ان پر کوئی الزام آنے والا نہیں ہے( مومنون 5۔6) اس سے منسوخ ہوگئی ہے جبکہ یہ مکی آیت ہے اور آیت متعہ مدنی ہے۔اور جو سنت سے منسوخ ہونا کہتے ہیں ان میں بھی کافی اختلاف ہے۔ایک کہتا ہے خیبر میں ،دوسرا موتہ میں ،تیسرا فتح مکہ کے موقعہ پر،چوتھا تبوک میں ،پانچواں عمرہ قضاء میں اور چھٹا حجتہ الوداع میں۔۔۔! ان غیر متواتر اور متضاد بیانات سے اس کا ضعف ہوناثابت ہوتا ہے۔
احادیث کی روشنی میں خبر واحد پرانحصار نہیں کیا جا سکتا ہے اور کوئی قرآنی آیت بھی اس کے منسوخی کی دلالت نہیں کرتی ہے ،جیسیاکہ اللہ خود اعلان کر رہا ہے،''۔۔۔ہم جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے ہیں یا دلوں سے محو کرتے ہیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی آیت ضرور لے آتے ہیں'' (بقرہ آیت 106)۔نکاح متعہ کے حلال ہونے کے ثبوت میں اتنی صحیح روایات ہونے اور رسول خدا (ص) کے ذریعے کبھی بھی حرام نہ کرنے کے باوجود عمر بن خطاب نے اپنی مرضی سے اسے عمرانی وجوہات کی بنا پر نہ کہ شرعی بنیاد پر اپنی خلافت کے اواخر میں ممنوع قرار دیا۔عمر بن خطاب کو اسلامی اصولوں میں دخل دینے کاکوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے،' حلال محمد (ص) قیامت تک حلال ہے اور حرام محمد(ص) قیامت تک حرام ہے '' اور ''جو نبی(ص) تمہیں دیدے اسے لیلو اور جس سے منع کریں اس سے دور رہو(القران)''۔ یہ فقط ایک مسئلہ نہیں ہے جس میں حضرت عمر نے دخل اندازی کی ہے بلکہ بارہا انہوں نے اپنے ذاتی اجتہاد سے دینی معاملات میں ایسا کیا ہے(210)۔ ایسی ہی ایک مثال ہے نماز تراویح کا جماعت قائم کرنا جبکہ رسول (ص) اور حضرت ابوبکر نے انفرادی طور رمضان کے نفل نمازیں پڑھی ہیں۔صحیح بخاری میں ابن شہاب سے روایت ہے،'' ماہ رمضان کی نوافل زمانہ رسول (ص)،زمانۂ حضرت ابوبکراور زمانۂ حضرت عمر کے اوائل میں فرادا ادا کی جاتی تھیں۔ ایک شب کو میں حضرت عمر کے ساتھ مسجدگیا اور ہر ایک کو الگ الگ نماز پڑھتے دیکھا۔ حضرت عمرنے کہا کہ میری رائے ہے کہ انہیں جمع کرکے ایک قاری کے پیچھے اکٹھے نماز پڑھی جائے ۔انہوں نے ان سب کو جمع کرکے ابی ابن کعب کے پیچھے نماز پڑھوائی۔ایک دوسری شب کو ہم پھر اکٹھے گئے اور سبھی کو ابی ابن کعب کے پیچھے نماز پڑھتے دیکھا۔ حضرت عمرنے کہا،' کیسی ایک اچھی بدعت ہے'! اور جو نماز سونے کے بعد(آخری شب) پڑھی جائے،سونے سے پہلی والی (عشاء کے ساتھ ہی) سے بہتر ہے(211)۔ اس میں حضرت عمر بن خطاب نے ایک اور اجتہاد کرکے بیس رکعات بنا دیا جبکہ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے کبھی بھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھیں چاہے ماہ رمضان رہا ہو یا اور کوئی مہینہ(212)۔
اس سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اہلسنت وضعی احادیث امام علی کیساتھ منسوب کرکے متضاد روایات سے استدلال کرتے ہیں جیسا کہ بخاری میں درج ہے،'' کسی نے امام علی سے کہا کہ ابن عباس متعہ کو حلال سمجھتا ہے جس پر علی نے کہا : اللہ کے رسول (ص) نے اس کوجنگ خیبر میں ممنوع قرار دیا اور پالتو گدھوں کا گوشت بھی۔ کچھ نے کہا،' اگر کوئی متعہ پر عمل کرنے کے لئے چال چلے،تواسکا نکاح باطل ہے،کچھ اور کہتے ہیں،' نکاح جائز ہے مگر شرائط کے بغیر''(213)۔ اگر ان لوگوں نے سمجھا ہوتا کہ خلیفہ حضرت عمر نے متعہ کو کیوں ممنوع کیاتھا تو انہیں ایسی حماقت نہ اٹھانی پڑتی اور نہ ہی اتنا تضاد ہوتا۔متعہ کے شرعی اور تاریخی پس منظر میں جانے کی ضرورت ہے۔اخلاقی اور سماجی نقطۂ نظر سے اس قانون کا لاگو ہونا انسان کے لئے رحمت بن کے آیا ہے اور کچھ کے لئے آسانی کی خاطر خاصکر ان کے لئے جو تعلیمی سفر پر ہوتے ہیں،کاروبار،جہاد یا جنگی حالات میں جہاں بیوی ساتھ رکھنا ممکن نہیں ہے۔ ان جیسے لوگوں کے بہت سے مشکلات ہوتے ہیں۔جنسی خواہش پر قابو پانے کے لئے انہیں جہاد نفس میں ملوث ہونا پڑے گا جو کی سب کے لئئے ناممکن ہے اور ذہنی دباؤ (depression) کے شکار ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے۔ یابدکاری کا شکار ہوجانے کا خطرہ ہے جس کی آج دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے جس نے اب فساد اور جرائم کو جنم دیا ہے۔
یہ وہ وجوہات ہیں جس نے ایک عربی مولوی شیخ احمد القتان کو فلپائن میں زیر تعلیم طالب علموں کے لئے '' نکاح بنیت طلاق'' فتویٰ دینے پر مجبور کیا۔اس نکاح کی شرط یہ ہے کہ خاوند اس نیت سے شادی کرے کہ عین وقت (اپنی حاجت پوری کرکے )طلاق دے اور خاوند کی نیت سے نکاح ادھورا ہے جبکہ بیوی کی نیت سے دائمی ہے۔ خاوند بیوی کو اس وقت طلاق دیتا ہے جو اس کے ذہن میں پہلے ہی سے تھا۔جنہوں نے اس نئے نکاح کو ایجاد کیا ،انہیں پتہ ہے کہ یہ بیوی سے جھوٹ اور دھوکہ ہے اور قرآن و سنت سے اسکا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔پھر بھی یہ مفتی کہتے ہیں کہ ہر صورت میں اس کے برے اثرات ہیں مگر اتنے نہیں جتنے کہ بدکاری میں! اس شیخ نے یہ فتویٰ اس وقت دیا جب اسے نکاح متعہ کے بارے میں یہ پوچھا گیا کہ ابن عباس اسکو جائز سمجھتے ہے۔
اس نے جواب دیا کہ یہ حرام ہے اور ابن عباس نے اس کے بارے میں غلطی کی ہے۔ اس نے اسطرح کا بیان بھی دیا ،'' اگر ہم نے دانشوروں کی غلطی کا اتباع کیا ہوتا تو ہم کافر بن گئے ہوتے''!۔اسطرح' نکاح بِنیت طلاق' کا بدعت شیخ قتان کے مطابق نکاح متعہ کا متبادل بن گیا جو کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید نے ان جان بوجھ کر پیدا کئے ہوئے بدعات کے خلاف اسطرح خبر دار کیا ہے '' کیابہترین نعمتوں کے بدلے تم معمولی نعمت لینا چاہتے ہو؟!(بقرہ آیت 61)۔ لا حول و لا قوة الا با اللہ العلی العظیم
متعہ حج پر اللہ کے رسول (ص) نے اس قرآنی آیت کے پس منظر میں عمل کیا،''اور حج و عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو۔پس اگر تم محصور کر لئے جاؤ تو جو قربانی ممکن ہو وہ دیدو اور اس وقت تک سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنی منزل تک نہ پہنچ جائے۔جو تم میں سے مریض ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو وہ روزہ رکھے، صدقہ یا قربانی دے،پھر جب اطمینان ہوجائے تو جس نے عمرہ سے تمتع کا ارادہ کیا ہے وہ ممکنہ قربانی دیدے اور جس کو قربانی میسر نہ ہو تو وہ تین روزے حج کے دوران اور سات روزے واپسی پر رکھے اس طرح پورے دس ہوجائیں۔یہ حج تمتع اور قربانی ان کے لئے ہے جن کے گھرمسجد الحرام کے حاضر شمار نہیں ہوتے۔۔(بقرہ آیت 96)۔یہ ایام حج و عمرہ میںدوران احرام ممنوع شدہ افعال سے استفادہ کرنے کے جواز کے لئے ایک قسم کی چھوٹ ہے(214)۔ اور اس کو بھی عمر بن خطاب نے ممنوع قرار دیا ،اس کے باوجود کہ اللہ کے رسول (ص) نے اپنی وفات تک اس کو ممنوع نہیں کیا۔
بخاری میں سعد بن مصعیب سے روایت ہے،'' حضرت علی اور عثمان نے اس پر اختلاف کیا۔علی نے فرمایا: تم اس چیز سے منع کرنا چاہتے ہو جسکو اللہ کے رسول (ص) نے خود انجام دیا ہے۔علی نے دونوں (حج و عمرہ ) کی اجازت دی(215)۔ نیچے دی گئی بخاری کی حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے لوگ تھے جو رسول خدا (ص) کے ارشادات کے مقابلے میں اپنے اجتہاد پر چلتے تھے۔ حاکم سے روایت ہے کہ میں نے دونوں ،حضرت علی و عثمان کو دیکھا۔عثمان نے متعہ حج کو ممنوع کیا اور دونوں کو یکجا کرنے پر ایک پر پابندی لگائی۔
علی نے دونوں کی اجازت دی حج اور عمرہ دونوں کے لئے لبیک کہتے ہوئے اور کہا کہ میں کبھی بھی کسی (عمر بن خطاب )کے کہنے پرسنت رسول کی ممانعت نہیں کروں گا(216)۔
حضرت عثمان متعہ کو حرام قرار دینے کے لئے مجبور تھے کیونکہ خلافت قبول کرنے سے پہلے ہی اس کوعبدالرحمان بن عوف نے افعال ابو بکر و عمر عمل کرنے کی شرط رکھی تھی جو کہ امام علی (ص) نے پوری طرح سے رد کی تھی اس اعلان کے ساتھ کہ میں صرف قانون الٰہی اور سنتِ نبی (ص) کا پابند رہونگا۔ یہ روایت تواتر سے بیان کی گئی ہے کہ عمر ابن خطاب نے ببانگ دہل فرمایا ،'' دو قسم کے متعہ( متعہ نساء و متعہ حج) زمانۂ رسول (ص) میں رائج تھے،میں دونوں کو اب حرام قرار دیتا ہوں''(217)۔ حضرت عمر کا یہ فرمان بتاتا ہے کہ اپنے فیصلوں پر عمل کرنا اور کرانا صرف انہیں کا شیوہ رہا ہے اور کسی کا نہیں۔وہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ دونوں متعہ زمانہ رسول میں حلال تھے اور اب میں دونوں کو حرام قرار دیتا ہو ںجبکہ اللہ کے رسول (ص) نے اسے کبھی بھی حرام نہیں کہا۔ اہلسنت اس کاکیا جواز پیش کریں گے جب قرآن کہتا ہے،'جو نبی (ص) دیدے اسے لیلو اور جس سے منع کریں اس سے دور رہو'۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کوئی تاریخ اسلام کا بغیر کسی تعصب کے علمی جائزہ لے تو اسکو محکم فرمان رسول (ص) کے باوجود بہت سے ایسے احکام(خاصکر عمر بن خطاب) کے اجتہادی فیصلے نظر آئیں گے جو احکام رسول کے بالکل مخالف ہیں۔مگر برادران اہلسنت انکی لاعلمی کی وجہ سے سنت رسول (ص)مانتے ہیں اور الزامات سنتِ نبوی پر حقیقی عمل کرنے والے بیگناہ شیعوںپرلگاتے ہیں
امام مہدی منتظر عجل اللہ تعا لیٰ فرجہ الشریف اور اختلافات
تمام اسلامی فرقوں کا ایک انسان پر اتفاق ہے جو کہ آخری وقت میں ظہور کریگا تاکہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے اور کرۂ ارض پر منصفانہ حکومت حقیقی قائم کریگا جس کی تائید اس قرآنی آیت سے ہوتی ہے؛ ،''اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے( انبیا آیت 105) '' اور '' ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوںکو زمین پر کمزور بنا دیا گیا ہے ان پراحسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنا ئیں اور زمیں کا وارث قرار دیں( قصص آیت 5)''
اور'' یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منھ سے پھونک مار کر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہے کافروں کو کتنا ہی برا کیوں نہ لگے۔ خدا تو وہ ہے جس نے اپنے رسول (ص) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکوں کوکتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو''( توبہ آیت 32۔33 ) ۔اللہ کے رسول (ص) نے صاف الفاظ میں ا س کی نشاندہی کی ہے کہ منتظر شخص ان کے اہلبیت میں سے ہے ۔ اور فرمایا،'' یہ دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک کہ عرب پر میرے اہلبیت میں سے میرا ہم نام ان پر حکومت نہیں کریگا۔۔''(218) ۔
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ زمین ظلم ،جور اور نا انصافی سے پُر نہ ہوجائے، پھر میرے اہلبیت میں سے ایک شخص آئے گا اور ظلم و جور سے بھری زمین کو عدل و انصاف سے پر کریگا''(219)۔
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ،'' اگر دنیا میں زندگی کا صرف ایک دن باقی رہے اللہ تبارک و تعالیٰ اس دن کو اتنا لمبا کریگا یہاں تک کہ میرے اہلبیت میں سے ایک شخص لوگوں پر حکومت کریگا ''(220)۔
ام سلمہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا ،'' مہدی میری اور فاطمہ کی ذریت میں سے''۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ کا آخری وقت میں ظہور ہوگا اور مہدی کے پیچھے نماز پڑھے گا۔ ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' آپ کی حالت اس وقت کیا ہوگی جب عیسیٰ ابن مریم آئیگا اور تمہارا ہی امام تمہارا حاکم ہوگا''؟!(221)۔ حافظ نے شرح بخاری میں کہا ہے ،'' احادیث تواتر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ مہدی اس قوم سے ہوگا اور عیسیٰ ابن مریم اس کے پیچھے نماز پڑھے گا''(222)۔ رباتت العالم الاسلام(The Fiqh Assembly of the Muslim World League) نے 31 مئی 1976 میںامام مہدی کے متعلق یہ فتویٰ صادر کیا:'' امام مہدی ،محمد ابن عبداللہ الحسنی العلوی الفاطمی المہدی منتظر ہے۔اس کا ظہور آخری وقت ہوگا اور وہ حجاز میں بیعت لیگا،مکہ مکرمہ میں رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان،خانہ کعبہ اور حجرہ ٔاسود کے درمیان۔
وہ اس وقت ظہور کریگا جب رشوت خوری عام ہوگی،بے دینی پھیل جائے گی، اور ظلم عام ہوگا۔ اور وہ عدل و انصاف سے زمین کو ایسے پر کرے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔وہ تمام دنیا پر حکومت کریگا اور ہر کوئی اس کی اطاعت ایک باریقین اور ایک بار جنگ سے کریگا۔ وہ زمین پر سات سا ل حکومت کرے گا اور پھر عیسی آسمان سے اتر کر دجال کو قتل کرینگے۔یا اس کے ساتھ آئیگا اور وہ باب لود فلسطین میں قتلِ دجال میں مہدی کی مدد کریگا۔اور وہ رسول خدا (ص) کے بتائے ہوئے سچے بارہ خلیفوں میں آخری ہوگا جیسا کہ صحاح ستہ میں درج ہے۔ ظہور مہدی پر ایمان رکھنا واجب ہے اور یہ اتباع سنت و اجماع کے بنیادی اصولوں میں ایک ہے۔ اور اس کاانکار سنت سے بے خبر اور ایک بدعتی کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا ہے۔''(223)۔ اسطرح برادران اہلسنت شیعوں سے اس پر متفق ہیں کہ امام مہدی ان بارہ خلفا ء میں آخری ہے جن کی خوش خبری اللہ کے رسول (ص) نے دی ہے اور دونوں فریق مہدی منتظر کے بارے میں اکثر نقاط پر متفق ہیں سوائے:
(اول): اکثر سنیوں کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی آخری زمانے پیں جنم لینگے جبکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ جناب 255 ھ (869 ئ) میں امام حسن عسکری ـ کے یہاں تولد ہوئے۔لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی حکمت اور قدرت اسے پردہ غیب میں لیا،وہ زندہ ہے اور آخری وقت میں ظہور کرینگے
(دوئم): سنیوں کا اپنی روایات کی بنا پر عقیدہ ہے کہ مہدی ،حسن کی نسل سے ہیں اور ان کے باپ کا نام عبداللہ ہے ،رسول خدا(ص) سے منسوب اس روایت کی بنیاد پر کہ اس کا نام میرے نام جیسا ہے اور اسکے باپ کا نام ،میرے باپ کے نام جیسا۔ جبکہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ وہ امام حسین کی نسل سے ہیں اور اپنے باپ امام حسن العسکری سے پیدا ہوئے ہیں۔۔۔اسکا نام مجھ جیسا ہوگا اور اسکے باپ کا نام میرے فرزند کا نام ہوگا،(امام حسن عسکری کی طرف اشارہ) ۔ کچھ سنی دانشوروں نے شیعوں کے ان عقائد پر تنقید کرنا چاہا اس بنا پر کہ امام مہدی پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے پانچ سال کی عمر میں عہدہ امامت سنبھا لا ہے۔ یہ تنقید صرف انکے اپنائے ہوئے تعصب کی وجہ سے ہے جو کہ انکی عادت ہے یا ورثہ میں ملا ہے۔وہ بلا سوچے سمجھے دوسروں کے دلائل سننے کے بغیر ہی انکی تردید کرتے ہیں۔ اسکے متعلق ہمارا جواب یہ ہے:
(ا): کچھ سنی دانشور ہیں جو یہ مانتے ہی کہ مہدی منتظر ،امام مہدی ابن حسن عسکری ہیں،وہ زندہ ہیں،اور اس وقت تک پردہ ٔغیب میں رہیں گے جب تک اللہ انہیں ظہور کرنے کا حکم نہ دیگا ۔اسطرح انکا وہی عقیدہ ہے جو کہ شیعہ اثنا عشریہ کا ہے۔ وہ دانشور یہ ہیں :
1:۔ محی الدین ابن عربی کتاب فتوحات مکیہ میں ؛ 2:۔ سبط ابن جووزی تذکرة الخواص میں ؛ 3:۔ عبد الوحاب الشعرانی عقائد الاکابر میں
4: ابن خشاب تواریخ موالید الائمہ و وفِیاتھم میں ؛ 5:۔ محمد بخاری حنفی فصل خطاب میں ؛ 6:۔ بلاذری الحدیث متسلسل میں ؛
7: ابن سباغ مالکی فصول مہمہ میں ؛8:۔العارف عبدالرحمان مرات الاسرار میں ؛ 9:۔ کمال دین ابن طلہ مطالب سؤل فی مناقب آل رسول(ص) میں؛9:۔ القندوزی حنفی ینابیع المودة میں،10:۔؛ جلال الدین رومی حالات ایمہ اثنا عشریہ میں ؛11:۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی احوال ایمہ اثنا عشریہ میں؛12:۔پروفیسر خسرو قاسم اپنی کتاب امام حسن عسکری میں۔۔۔۔ اسکے علاوہ اور بھی ہیں (224)۔
(ب) : اس کے خلاف شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ امام مہدی کے غیبت جیسے معجزات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ نوح اپنی قوم میں 950 سال انہیں دعوت حق دیتے رہے: ''۔۔ اور وہ انمیں پچاس کم ایک ہزار سال رہے( عنکبوت آیت 14)۔وہ حالانکہ اس سے زیادہ وقت تک رہے۔ اصحاب کہف 309 سال سوتے رہے۔ اللہ نے عیسیٰ کو آسمان پر چڑھا کر ظالموں سے بچایا اور آخری زمانہ میں واپس اس زمین پر بھیجے گا۔ حضرت خضر بھی پردہ ٔغیب میں زندہ ہیں۔ جہاں تک امام مہدی کی اپنے والد ،اہلبیت میںسے گیارہویں امام حسن عسکری کی وفات پر چھوٹی عمر میں منصب امامت حاصل کرنے کا معاملہ ہے، اس جیسے یا اس سے بڑے بہت سے معجزات ہیں۔ حضرت عیسی ابن مریم نے گہوارے میں ہی نبوت کا اعلان کیا''۔۔ میں اللہ کا بندہ ہوں،اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا (مریم 29)۔اور '' یحییٰ ! کتاب کو مضبوتی سے پکڑلو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں نبوت عطا کی(مریم آیت 12)''۔ اگر کوئی کہے کہ یہ معجزات نبیوں کیلئے تھے،تو ہم کہیں گے کہ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد بند ہوگئے۔
اصحاب کہف اور مریم بنت عمران مادر حضرت عیسیٰ پیغمبر تو نہیں تھے۔ حالانکہ شیطانوں کے سربراہ ابلیس کو اللہ نے وقت معلوم تک زندگی عطا کی۔ اس کے برعکس جو مہدی برحق کی غیبت پر اعتراض کرتے ہیں، یہ ان کی جہالت اور اس عظمت مہدی کی لاعلمی کی بنا پر ہے جسکو اللہ تعالیٰ نے اس عیسی کا امام بنایا جو شیرخواری کی حالت میں پیغمبر بنایا گیا ہے۔اگر اہلسنت یہ جانتے اور اعتراف کرتے کہ اللہ وہ ہے جس نے اہلبیت رسول (ص) میں سے بارہ اماموں کو پیغمبر خدا (ص) کے جانشین اور محافظ شریعت منتخب کیاتو ان کی حیرانگی( بمناسبت اللہ کے ذریعے ختم امامت کا احاطہ اور اس کے ذریعے دین اسلام کا تمام امتوں پر غالب آنا) ختم ہوجائے گی اور انہیں کوئی بہانہ نہیں ملے گا۔ اکثر سنیوں کو اس پر تعجب نہیں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے طریقوں سے کیا قبول کیا ہے یا اور بہت سے چیزیں جو ان کے مسلک نے اختیا ر کئے ہیں اس کے بجائے وہ اسکو قبول کرتے ہیں اورسر آنکھوں پر تسلیم کرتے ہیں چاہے وہ قرآن میں بیان شدہ یہ معجزات ہوں جنکے متعلق کوئی شک کرنے کی سوچ بھی نہیں سکتا ہے بلکہ صحیح بخاری و مسلم میں درج شدہ وہ قابل تنقیدروایات بھی جنہوں نے روح اسلام کو مجروح کیا ہے ۔ مثلاََ اللہ رات کے آخری حصہ میں نیچے آتا ہے، وہ روز قیامت اپنا پیر جہنم میں ڈالے گا، (ا ن عقائد کے متعلق ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں )یا نبی (ص) کا قرآن بھول جانا،ادھوری نماز پڑھنا، جادو کے ذریعہ قابو ہونا،موسی کا ملک الموت کی آنکھ پھوڑنا،حضرت ابوبکر کا ایمان ساری امت کے ایمان سے بھاری ہونا، حضرت عمر کا واقعہ ساریا میں ہزاروں میلوں تک نظر کرنا،اگر محمد (ص) کے بعد کوئی نبی ہوتا و وہ عمر بن خطاب ہوتا، اذان کا طریقہ حضرت عمر کی رائے پر لاگو ہونا، شیطان کا نبی (ص) کے راستے سے نہیں بلکہ عمر کے راستے سے بھاگ جانا، ملائکہ کاحضرت عثمان سے شرمانا وغیرہ اور ان جیسی بہت سی کہانیاں جن کو اہلسنت خرابیوں سے آلودہ ہونے کے باوجود قبول کرتے ہیں۔اور جو دوسروں کے عقائد ہیں ان کو کسی تحقیق کے بغیر ہی مسترد کرتے ہیں۔
مجھے پورا یقین ہے کہ اگر غیبتِ امام مہدی کا عقیدہ سنی مذہب میںشامل کیا گیا ہوتا،تو نہ وہ اس کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہوتے اور نہ ہی وہ اس پر اعتراض کرتے! مجھے وہ دلچسپ واقعات یاد آتے ہیں جو مجھے اپنے سنی بھائیوں سے بحث کرتے ہوئے پیش آئے۔ ان میں سے جس ایک نے شیعوں کی طرف سے جائز قرار دئیے ہوئے نکاح متعہ کا انکار کیا،اسکو پتہ ہی نہیں تھا کہ اسلام نے غلامی کو حرام قرار نہیں دیا ہے۔اسی لئے وہ غلامی کی مخالفت کر رہا تھا کیونکہ یہ اسکی ذہنیت کے موافق نہیں تھی۔ اور جب میں نے اسے سمجھایا کی سنی اس کو حرام سمجھتے ہے،اس نے فوراََ ہاں میں ہاں کرکے انکے ساتھ اتفاق ظاہر کیا۔ نکاح متعہ جس کے متعلق بخاری میں بھی ممانعت کی کوئی شہاد ت نہیںدیکھی مگر پھر بھی علامہ بخاری جائز نہیں مانتے صرف اس بناپر کہ سارے سنی اسے حرام سمجھتے ہیں! اس سے مضحکہ خیز اور کیا ہوسکتا ہے۔
میں ہدایت یافتگی کے دوران اپنے دفاع میں دوسروں سے ( بہانے کے طور پر) کہتا تھا کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبی (ص) قرآن کی کچھ آیات بھول گئے تھے، ایک یہودی نے انہیں جادو میں پھنسایا اور حضرت موسی نے ملک الموت کی آنکھ پھوڑدی وغیرہ تو وہ اسکو فوراََ مسترد کرکے ایسے عقائد کی مذمت کرتے تھے! اور جب میں ثابت کرتا تھا کہ یہ وہی اہلسنت کے عقائد ہیں جن پر شیعہ انکی تنقید کرتے ہیں اور یہ کہ ایسے احادیث اہلسنت کی معتبر کتابوں بخاری اور مسلم میں موجود ہیں تو ان میں اکثر انکا دفاع کرکے ان کی وکالت کرنے آتے تھے۔ یہ اس کے سوا کیا ہے؟ صرف اندھا مسلکی تعصب ۔اسکی مخالفت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے اور انکو سچائی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ آنکھیںبند کرنے سے حق کے وجودکا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی مثال اس شتر مرغ کی سی ہے۔(جو شکاری کو دیکھ کر ریت میں سر چھپاتا ہے اور اسطرح اپنے کو ناقابل یقین دھوکہ دیتا ہے جب شکاری آکے آسانی سے اسکا شکار کرتا ہے)۔کچھ لوگوں کے خیال کے برخلاف تمام اسلامی فرقوں کے امام مہدی کے آخری وقت ظہور ہونے کے عقیدے کے باوجود وہ اسکے بارے میں وقت ِ ظہور اختلاف کریں گے اور یہ مسلمانوں کا سب سے بڑا امتحان ہوگا حالانکہ اہل کتاب میں سے یہود اور نصارا بھی معتقد ہیں کہ آخری وقت میں ایک نجات دہندہ آئے گا جو دنیا کی اصلاح کریگا۔
روایات میں آیا ہے کہ مسلمانوں کا دجال کے خلاف مہدی کی طرف سے لڑنے میں سخت امتحان لیا جائے گا کیونکہ بہت سے لوگ دجال کی فوج میں شامل ہونگے۔ میرے خیال میں سچائی اس سے بہت دور ہے جسکا اہلسنت اس بارے میںعقیدہ رکھتے ہیں یعنی کہ دجال کے ماتھے پر لفظ ''کافر '' لکھا ہوگا۔ ایسے میں یہ کافی ناممکن ہے کہ مسلمان 'کافر لفظ 'پڑھ سکنے کی صورت میں آزمایا جائے گا جو اسکے متعلق سچائی بتائے گا۔ کیونکہ انکا دعویٰ ہے کہ صرف مومن ہی اس لفظ کو دجال کے ماتھے پرپڑھ پائیگا ۔یہ دعویٰ بھی ناقابل قبول ہے کیونکہ اسکا نتیجہ پھر دجال کو دیکھنے سے پہلے ہی سے معلوم ہونا چاہئے تھا۔ جس اختلاف( لفظ کا فر پڑھنے یا نہ پڑھنے) کی طرف روایت نے اشارہ کیا ہے کا کوئی معنی و مطلب نہیں ہے۔ میں پہلے اس پرتعجب کرتا تھا کہ یہ مانتے ہوئے کہ اللہ اس کو فتح نصیب فرمائے گا،مسلمان امام مہدی کے ظہور کرنے پر ان کی بیعت کیوں نہیں کریں گے یا ان کانتظار کرنے کے باوجودوہ ان کے ساتھ مقابلہ کیوںکریں گے ؟؟!!
لیکن شیعہ اور سنی اختلافات پر تحقیق کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ شیعہ اس شخص (مہدی ) سے اپنا بارہواں امام ماننے کی بنا پر حد سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ یہ اختلاف پہلے سے زیادہ صاف ظاہر ہوتا ہے۔ جب امام منتظر شیعوں کے عقیدہ کے مطابق ظہور فرمائیں گے،وہ فوراََ بغیر کسی پس و پیش کے خوشی خوشی ان کی بیعت کریں گے جب کہ تعصبی سنی کہیں گے کہ یہ شیعوں کا امام مہدی ہے اور جس کا ہم انتظار کر رہے ہیں یہ وہ نہیں ہے اور وہ بیشک سنی ہونا چاہئے! یہ ہمارے زمانے میں سچ ثابت ہوا جب متعصب سنی حضرات نے اسلامی انقلاب ایران خاص کر اس کے رہنما آیت اللہ خمینی کے خلاف نکتہ چینی اور الزامات کے ذریعے مخالفت کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے اس عظیم رہنما پر صرف اسلئے کیچڑ اچھالا کیونکہ وہ شیعہ ہے! انہوں نے ایسا ان لوگوں کو پہچاننے کے بغیر ہی کیا جو اس سازش کے پیچھے تھے اور جو ا سلام نماہوکر اسلام دشمنوں کے لئے مجرمانہ مقاصد پورا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔
یہ (مخالفت ِانقلاب اسلامی ایران) اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اللہ کے رسول (ص) نے اسلام کی اس متبرک احیاء نو کی خوشخبری پہلے ہی دی ہے جس کا ذکر صحیح بخاری میں بھی ان الفاظ میں رقم ہے: ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ،'' جب سورۂ جمعہ کی آیت ، ' ۔ اور ان میں سے ان لوگوں کی طرف بھی جو ابھی ان سے ملحق نہیں ہوئے ہیں اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی' (آیت نمبر 3)تو ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ ہم نے تین بار پوچھا اور سلمان فارسی بھی ہمارے ساتھ تھا۔ اللہ کے رسول (ص) نے سلمان فارسی پر ہاتھ رکھ کر فرمایا،'' اگر ایمان کے ذرائع ستارہ زہرہ میں بھی مل جاتے،یہ ان(فارسی) میں کے آدمی حاصل کرتے''(225)۔ اللہ صبحانہ و تعالیٰ نے بھی اپنی مقدس کتاب میں ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے،'' ہاں ہاں تم وہی لوگ ہو جنہیں راہ خدا میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے بعض لوگ کنجوسی کرنے لگتے ہیں اور جو کنجوسی کرتے ہیں،وہ اپنے ہی حق میں کنجوسی کرتے ہیں اور خدا سب سے بے نیاز ہے،تم سب ہی اسکے محتاج اور فقیر ہو اور اگر تم منھ پھیر لوگے تو وہ تمہارے بدلے دوسری قوم کو لے آئے گا جو اس کے بعد تم جیسے نہ ہونگے'' (سورہ محمد آیت 38)۔
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (ص) سے پوچھا گیا کہ وہ کون لوگ ہونگے کہ جب ہم اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹیں گے تو وہ ہماری جگہ لیں گے اور ہم جیسے نہیں ہونگے؟ اس پر آنحضور (ص) نے سلمان کو تھپتھپاتے ہوئے کہا،'' یہ شخص اور ان کی قوم۔ اگر ایمان ستارہ زہرہ میں بھی ہوتا ،یہ لوگ اسکو حاصل کر پاتے''( 226)۔ اللہ کے رسول (ص) نے اسکی طرف بھی متوجہ کیا ہے کہ ہمارے زمانے میں ایک طبقہ اپنے طور سے مسلمانوں میںفتنہ اور تفرق پیدا کریگا۔ ابن عمر سے روایت ہے،'' ایک دفعہ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا! اے اللہ ہمارے سیریا پر رحمت نازل کر! اے اللہ ہمارے یمن پر رحمت نازل کر!'' اسے پوچھا گیا، ہمارے نجد کے متعلق کیا ہے؟
آنحضور نے فرمایا! اے للہ ہمارے سیریا پر رحمت نازل کر،اے اللہ ہمارے یمن پر رحمت نازل کر! انہوں نے پھر اسے پوچھا،اے اللہ کے رسول (ص) ہمارے نجد کے متعلق کیا ہے توا نہوں نے فرمایا،'' وہاں زلزلے اور اختلافات ہونگے اور وہاں سے شیطان کے سینگ نکلیں گے''(227)۔
میں اس حدیث میں بیان کئے گئے اس فتنہ کو سوائے وہابیت کے بانی عبدالوہاب کے علاوہ کچھ نہیں مراد لے سکتا ہوں جو کہ نجد کے ایک گا وں ، اُ یانا میں پیدا ہوا۔ اس ٹولہ نے توحید کا زرق و برق جعلی نقاب چہرے پر ڈال کر اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لئے اکثر مسالک خاص کر مذہب اہلبیت کو شرک اور کفر کے الزامات سے مجروح کیا۔ مثلاََ وہ اللہ کی بارگاہ میں انبیاء اور مومنین سے توسل کرنے کو شرک عظیم قرار دیتے ہیں، برعکس اُسکے جو کہ بخاری میں موجود ہے اور جو کچھ عمر بن خطاب نے عملایا۔ انس سے روایت ہے،' عمر بن خطاب عباس بن عبدالمطلب سے طلب بارش کیلئے مدد مانگتے تھے۔اس نے کہا،'' اے اللہ ہم آپ کو اپنے نبی کے توسل سے مانگتے تھے اور آپ بارش نازل کرتے تھے اور اب ہم نبی (ص) کے چچا کے توسل سے مانگتے ہیں تاکہ ہم پر بارش کی نعمت عطا ہوجائے اور انکو بارش عطا ہوتی تھی'' (228)۔ کیا وجہ ہے کہ وہابیوں نے اس مسئلہ میں اتنی زیادہ شدت سے توجہ دی،یہ اس لئے ہے کہ اہلبیت کا اتباع کرنے والے شیعہ ہی نبی (ص) کا تقدس اور عظمت بر قرار رکھنے والے ہیں اور اسکے بعد اپنے ائمہ معصومین کا کیونکہ وہ اللہ کی بارگاہ میں انکے درجہ کی حیثیت کو سمجھتے ہیں۔ ان ہستیوں کے بغیر انسانیت کو اللہ کی معین کردہ صراط مستقیم تک رسائی نا ممکن تھی اور انکے بغیر وہ ابھی بھی گمراہی اور ذلالت میں ڈوبی ہوتی۔ وہابیوں اور انکے بانی کے لئے وہ جواب کافی ہے جو انکے متعلق بخاری میں درج ہے جس میں اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' مشرق سے کچھ لوگ اٹھیں گے اور قرآن کی تلاوت کریں گے جو کہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔وہ دین سے اسطرح خارج ہوں گے جسطرح کمان میں سے تیر، اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آئیں گے جب تک کہ تیر کمان میں واپس نہ آئے''۔ آنحضرت (ص) سے پوچھا گیا کہ انکی پہچان کیا ہے؟ جواب ملا، ' al-tasbeedتسبید ' یعنی منڈوانا(229)۔
تسبید کے وہی معنی ہیں جو کہ اس حدیث پاک میں بیان ہوا ہے۔'' ابن عباس آئے اور انکا سر مسباد تھا یعنی منڈا ہوا'' (230) ۔ یہ وہابیوں کاtrade mark یعنی مارکہ ( خاص نشانی) بن چکی ہے جیسا کہ ان کی تاریخ میں تصدیق شدہ ہے۔
امام مہدی ظالم حکمرانوں کے خلاف زمین پر مظلوموں کی نجات کے لئے آئیں گے،تو ان کے دشمنوں سے کیا توقعات ہیں؟ کیا وہ مسلم صفوں میں منافقین حکمراں سرکاری ملاّئوں اور گمراہی کے اماموں کو ان کے خلاف لڑنے کے لئے استعمال نہیں کریں گے؟( ضرور کریں گے کیونکہ جنگ صفین و جمل اور سانحہ کربلا میں انہوں نے اس کا نہ مٹنے والا ثبوت دیا ہے۔مترجم) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کیسے ہمارے زمانے میں گناہوں اور کفر میں مشہورعراقی حکمران نے لاکھوںلوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے باایمان ہونے کا بہانہ بناکر اللہ کو ماننے کاڈھونگ رچایا اور لوگ اسکے حق میں نعرہ بازی کرتے سڑکوں پر نکل پڑے جب اس نے مشرکوں اور کافروں سے لڑنے کا اعلان کیا یہاں تک کہ سادہ لوگوں نے سمجھا کہ یہ دجال حقیقت میں مسلمانوں کا امام بن گیا؟! بڑی آزمائش (ظہور مہدی) میں ڈالے جانے کے وقت ایسے حالات کا برپا لوگ کالے جھنڈے لیکر آئیں گے اور وہ حق ہونے کے لئے یہ اشارہ کافی ہے۔ اللہ کے رسول (ص) نے اپنی وفات کے بعد ایسے حالات میں راہ ہدایت پر رہنے اور گمراہی کے دلدل میں ڈوب نہ جانے کے لئے امت کو خاص ہدایت اس طرح دی،'' میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن کا دامن تھامنے سے تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوؤگے، قرآن اور میری عترت،میرے اہلبیت'' (حدیث ثقلین)۔حذیفہ بن یمان سے روایت ہے،'' لوگ آنحضرت (ص) سے نیکی کے متعلق پوچھتے تھے اور میں اس ڈر سے برائی کے متعلق پوچھتا تھا کہ کہیں میں اس میںکبھی پھنس نہ جاوں۔ میں نے کہا،اے اللہ کے رسول (ص)! ہم جاہلیت اور برائی میں تھے ،تب اللہ نے ہمیں نیکی کی ہدایت دی۔ کیا اس نیکی کے بعد بھی برائی ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا،'ہاں۔میں نے پوچھا کہ کیا اس برائی کے بعد نیکی ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا،'ہاں مگر اس میں ملاوٹ ہوگی۔ میں نے پوچھا،ملاوٹ کیسی؟ تو انہوںنے کہا،' لوگ خود پوری طرح سے ہدایت یافتہ نہ ہونے کے باوجود دوسروں کے ہادی بنیں گے۔ میں نے پوچھا ،کیا اس نیکی کے بعد بھی برائی ہوگی؟ انہوں نے کہا،'ہاں جہنم کے دروازے پر بلانے والوں پرجو کان دھریں گے،وہ انکو جہنم رسید کریں گے۔
میں نے پوچھا،یا رسول (ص) ہمیں انکے متعلق ( نشانی)بتائیے۔ انہوں نے کہا،' وہ ہماری امت میں سے ہیں اور وہ عربی زبان بولتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر میں نے وہ حالات دیکھے تو میرے لئے کیا حکم ہے؟ انہوں نے کہا،'' مسلم عوام اور امام کے ساتھ رہو''۔ میں نے کہا کہ اگر نہ عوام ملے اور نہ ہی امام تو کیا کروں؟ تو انہوں نے کہا ،'ان سب گروہوں سے علیحدہ رہنا یہاں تک کہ آپ کو درختوں کی جڑ یںتک کھانا پڑیں گی اور آپ کو موت اپنے گہوارے میں لیگی(231)۔ یہ حدیث ہمیں عوام اور امام کے ساتھ واجبی طور سے رہنے کی کی تاکید کرتی ہے خاص کر جب اختلاف ہوگا اور ہمیں سچائی کہ خبر نہیں ہوگی۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ جو بھی درِ جہنم پر ان کی طرف متوجہ ہوگا،وہ اسے جہنم رسید کریں گے اور یہ کہ وہ غیر عرب میں سے نہیں ہونگے جو انکے ایجاد کردہ بدعات کی نشان دہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے فتنوں اور سازشو ں جن کے ہم شکار ہیں کے خلاف اللہ کے رسول (ص) نے ہمیں خبر دار کیا ہے جس کی بنا پر ہمیں راہ نجات پر قائم رہنے کے لئے کافی محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ روایات کے مطابق بہتر(72) مختلف راہیں تیار ہوگئیں ہیں جن میں صرف ایک نجات یافتہ ہے۔
اللہ نے نجات یافتہ لوگوں سے اپنی مدد کا وعدہ کیا ہے۔اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا،'' میری امت میں ایک گروہ نیکی کی راہ پر گامزن رہیگا؛انہیں اپنے مخالف کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں جب تک کہ نہ اللہ کا حکم آئے گا۔آج کا مسلمان اپنے ارد وگرد فتنہ و فساد اور تفرقہ بازی کے ماحول میں اجنبی کی طرح حیران ہے یہاں تک کہ وہ اپنے مذہب میں پھر سے غور کرے اور تاریخ اسلام کے کچھ دلخراش واقعات اس قول رسول (ص) کی تصدیق کر تے ہیں ،' اسلام پردیسی آیا اوراسی طرح پردیسی ہی رخصت ہوا۔۔'' بیشک اگر کوئی صاحب بصیرت تاریخ اسلام اور ہماری حالت زارپرپھر سے غور و فکر کرے اور دیکھے کہ اہلبیت رسول (ص) خاص کر اماموںپر کیا بیتی اور ان پر کتنا ظلم و جبر ہوا اور قید خانوں میں انکے ساتھ کیا کیا سلوک ہوا تو اسے معلوم ہوجائیگا کہ اہلسنت میں حقیقت کیوں غائب ہے۔۔۔۔، اور اسکو اسلام کا پردیسی جیسا واپس جانے کا مطلب سمجھ آئے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پچھلے کچھ سالوں سے وہ واپسی زیادہ ہی تیز ہونے لگی ہے۔
ظالموں کے ہاتھوں صدیوں سے اس تباہی کے پھیلانے کی سوچ کے خلاف ہمارے آقا محمد رسول اللہ (ص) نے پہلے ہی پیشین گوئی فرمائی ہے،'' ہمارے خاندان والوں کے لئے اللہ نے دنیا کے بدلے آخرت کوچن لیا ہے''۔ میرے اہلبیت میرے بعد تعصب،سختی اور جلاوطنی کا شکار ہونگے یہاں تک کہ مشرق سے کچھکا مطالبہ کریں گے جو انکو نہیں دیا جائے گا ،وہ جنگ کرکے فتح یاب ہونگے؛ انکو اپنا حق دیا جائے گا جو وہ اہلبیت میں سے ایک شخص کی طرف لوٹا دیں گے جو کہ زمیں کو عدل وانصاف اس طرح پُر کریگا جسطرح یہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی۔جو بھی اس وقت زندہ ہوگا اسکو انکا ساتھ دینا چاہئے اگرچہ اس کو برف پر بھی پیٹ کے بھل چلنا پڑے''(232)۔
اے اللہ ! امام مہدی کے ظہور کو نزدیک کر اور ہمیں ان کے پرچم کے نیچے آنے کی توفیق عطا کر اور ان کے اعوان و انصار میں ہماراشمار فرما۔ آمین
وآخر دعواناعن الحمدللّٰہ رب العالمین و صلی اللہ علیٰ محمدِِ و آلہ الطیبین الطاہرین
ترجمہ 3 1رجب1435 ھ بمطابق13 مئی2014 ء بروز ولادت با سعادت امام اول علی ابن ابی طالب علیہ السلام مکمل ہوا۔
والسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
(1) المراجعات،شیعہ سنی مباحثہ پر ایک منفرد اور بے نظیر کتاب جس کا ترجمہ دنیا کی اہم ترین زبانوں میں ہوچکا ہے اور قاری کو راہ حق کی نشان دہی کرتی ہے،
(2) صحیح مسلم باب فضائل علی ج 5 ص272 (3 )صحیح ترمذی ج 2 ص 308؛(4)مستدرک الحاکم ج 1 ص 93(5) ایضاََ (6) صحیح مسلم ج5 ص 287 باب فضائل حسن و حسین (7) ایضاََ ج5 ص 268 باب فضائل علی (8) ایضاََ ج5 ص 274(9) صحیح ترمذی ج2 ص 209(10) مسند احمد ج6 ص 306(11) مستدرک صحیحین الحاکم ج2 ص 343(12)ایضا َ ج3 ص 149(13)بخاری ج3 ص171(14) ایضاَ ج2 ص126(15)ایضاَ ج4 ص 486( 16) ایضاَ ج9 ص 418(17) ایضاَ ج8 ص 245؛(18)ایضاَ ج5 ص 492(19)ایضاَ ج9 ص 250(20)مسلم ج4 ص 482(21) ایضاَ (22)مسند احمد ج1 ص389(23) توراتold testmemt, genesis.
(24)تاریخ سیوطی ص12( 25) ترمذی ج2 ص298(26)سنن ابن ماجہ ج1 ص43(27) مند احمد ج4 ص281(28) ترمذی ج2 ص 297(29):بخاری ج5 ص492؛ 30ایضاَ ج6 ص10 (31):مستدرک۔۔ حاکم ج3 ص126؛32: ترمذی ج2 ص299؛33: مستدرک حاکم ج 3 ص 122 ؛ 34:مسلم ج1 ص 262؛35:سنن ابن داود باب پاگل چور کی سزا؛36: بخاری باب پاگل مرد یا عورت کی سنگساری؛37: ترمذی ج2 ص 299،
؛38بخاری ج5 ص43؛39:مستدرک حاکم ج 3 ص107؛ 40:کنزالعمال ج13 حدیث نمبر7753؛41: کنز الحقائق المناوی، 42:بخاری ج5 ص 511،43:ایضاََ ج5 ص512؛44:ایضاََ ج7 ص 389؛45:مسلم ج 4 ص 175؛46:سقیفہ ابو بکر جوہری؛
47: المراجعات؛ 48:بخاری ج5 ص511؛49: خالد محمود خالد نبی (ص) کے صحابی ص548؛50:بخاری ج5 ص387؛51:بخاری ج5 ص3 52: بخاری ج8 ص541؛53: بخاری ج5 ص14؛54:ایضاََ ج5 ص 14؛ 55:بخاری ج8 ص542؛56:ایضاََ ج5 ص14؛ 57: ایضاََ
58: بخاری ج8 ص542؛59:بخاری ج5 ص15؛60:ایضاََ ج8 ص542،ج5 ص14؛61: ایضاََ ج8 ص 540؛62:ایضاََ ؛ 63: المراجعات
64: بخاری ج5 ص382؛65: المراجعات؛66: خالد محمودخالد خلفائے رسول (ص) ص418؛67:بخاری ج4 ص208؛68:بخاری ج5 ص382؛69:ایضاََ ج8 ص202؛ 70:ایضاََ ج5 ص75؛71:ایضاََج5 ص74؛72:ابن اثیر منال الطالب فی شرح التوال الغرائب ص105؛73:بخاری ج9 ص145؛74:صحیح مسلم ج4 ص517؛75:مسند احمد ج3 ص446؛76:بخاری ج5 ص382؛77:ایضاََ ج5 ص 74؛78:ایضاََج5 ص75؛79:تاریخ طبری،ابن عساکر،تاریخ دمشق؛80:ایضاََ؛81:ایضاََ؛82: خالد محمود خالد خلفائے رسول (ص) ص272؛83:بخاریج9 ص239؛84: خالدمحمود خلفائے رسول ص276؛85:تاریخ طبری،تاریخ مسعودی،ابن اثیر،استعیاب؛
86:ابن اثیر،مسعودی،تاریخ طبری؛87:بخاری ج2 ص278؛ 88: انصاب الاشراف بلازری، واقدی، تاریخ یعقوبی؛89:ابن حدید شرح نہج البلاغہ؛90:تاریخ طبری ج4 ص277؛
91: ایضاََج5 ص172؛92:بخاری ج4 ص217؛93:ایضاََ ج9 ص171؛94:ایضاََ ج1 ص133؛95:ایضاََج6 ص252؛96:علامہ عسکری احادیث ام المومنین ص272؛97:طٰہ حسین فتنتہ الکبریٰ ج1،ڈاکٹر کمال شیبی بیان تصوف؛98:افسانہ عبداللہ بن سباء مرتظی عسکری؛
99:ابن سباغ مالکی فسئول مہمہ ص83؛100: تذکرةالخاص سبط ابن جوزی ص79؛101:مسلم ج1ص262؛102:بخاری ج4 ص52؛
103:مستدرک صحیحین ج 2 ص148؛104:بخاری ج6 ص146؛105:ترمذی ج13 ص210؛106: بخاری ج5 ص73؛107:بخاری ج 5 ص 74؛ 108: تاریخ طبری؛ 109: بخاری ج4 ص122؛110:مسلم ج5 ص462؛111: ایضاََ ج3 ص693؛112: کتاب امیر المومنین یزید کا ٹائٹل کور؛113:شرح مسلم النوائی ج 1 ص28؛114: بخاری ج9 ص144؛115: ایضاََ ؛116: بخاری ج9 ص315؛117: بخاری ج4 ص47؛
118؛بخاری ج6 ص397؛119: ایضاََ ج3 ص508؛ 120: ایضاََ ج5 ص447؛121: ایضاََ ج5 ص57؛ 122: ایضاََج4 ص260؛123: ایضاََج 7 ص72،404؛124: ایضاََ ج6 ص404؛125:ایضاََ ج3 ص454؛ 126:ایضاََ ج6 ص295؛ 1271:ایضاََ ج5 ص105؛128:ایضاََ ج5 ص 104؛ 129:مستدرک صحیحین؛130: شیخ رضا مظفر عقائد امامیہ ص41؛131: اعتقادات صدوق؛ 132:سنن المفتارا علیہ ص60؛
133: دفاع عن عقائد وا لشریعہ۔۔؛134:بخاری ج6 ص508؛ 135: بخاری ج6ص291؛136:ایضاََ ج6 ص162؛137:ایضاََ ج8 ص 539؛ 138: ایضاََ ج9 ص212؛139: سنن ابن داود؛ 140: بخاری ج 9 ص476؛141: ابوبکر جزری،شیعوں کو میری نصیحت ؛ 142:بخاری ج 8 ص 540؛143:ایضاََ ج5 ص71؛ 144:ایضا َ ج5 ص71؛ 145: مسلم ج2 ص1075؛ 146: ایضاََ ج2 ص726؛ 147: اتقان فی علوم قران جلال الدین سیوطی ص65؛ 148: شیخ ابو زہرہ امام جعفر صادق ؛149: شیخ محمد غزالی دفاع عن عقائد الشریہ۔۔۔؛150:مسلم ج 1 ص 14؛
151:ترمذی ج13 ص201؛152:بخاری ج9 ص92؛153: ایضاََ ج9 ص 932؛154:ایضاََ ج9 ص93؛155:ج1 ص349؛156: ایضاََ ج1 ص168؛157:ایضاََ ج8 ص48؛158:ایضاََ ج8 ص57؛159:ایضاََ ج7 ص444؛160:ایضاََ ج5 ص77؛161: ایضا ج1 ص165؛
162: تفسیر میزان آیت اللہ سید محمد طبا طبائی ج20 ص203؛ 1631: بخاری ج6 ص 296؛ 164: ایضاََج7 ص462؛ 165: ایضاََ ج2 ص252؛ 166: کنزالعمال حدیث نمبر 4404؛ 167:ایضاََ ؛168: بخاری ج1 ص86؛169:ایضاََ ج3 ص313؛ 170:ایضاََ ج 5 ص47؛ 171: ترمذی ج 13 ص 189؛ 172: مسلم ج1 ص201؛ 173: شیخ محمد غزالی فقہ السیرت ص41؛174:بخاری ج9 ص137؛175: ایضاََ ج1 ص89؛
176:ایضاََج1 ص88؛177: اختصارِ علوم حدیث ص111؛178:تقریب،النوائی: ص14؛ 179: بخاری ج2 ص236؛ 180: ایضاََ ج6 ص353؛ 181: ایضاََ ج2 ص136؛182:ایضاََ ج1 ص 169؛183: ایضاََ ج1ص336؛ 184: ایضاََ ج7 ص473؛185: ایضاََ ج4 ص 306 ؛ 186: ایضاََ ج 9 ص 18؛ 187: ج7 ص496؛ 188: ظٰہی اسلام احمد امین ج2 ص 117۔118؛189: بخاری ج 9 ص396؛ 190: ایضاََ ج6 ص 355؛191: ایضاََ ج6 ص359؛192: معالم المدرستین علامہ مرتظی عسکری ج1 ص31؛ 193: بخاری ج 6 ص317؛194: ایضاََ ج4 ص 319؛ 195: ایضاََ ج2 ص135؛196: ایضاََ ج4 ص336؛197: فصول مہمہ شرف الدین موسوی؛1981: بخاری ج 6 ص110؛199 تفسیر ابن کثیر، شرح مسلم النوائی ج 3 ص552؛200: تفسیر ابن کثیر؛201: بخاری ج 2 ص375؛ 202: شرح الباری فی صحیح بخاری ج4 ص177،شرح النوائی ج 3 ص364؛203: شرح مسلم النوائی : ج3 ص556؛ 204: ایضاََ ج3 ص555؛205: ایضاََ ج3 ص556؛
206: ایضاََ ج 3 ص331:2072: صحیح ترمذی؛208: بخاری ج7 ص36؛ 209: طبرانی،تفسیر ثعلبی؛210: اصل شیعہ واصولہا کاشف الغطا؛211: ببخاری ج3 ص126؛21221: ایضاََ ج2 ص137؛213: ایضاََ ج9 ص76؛ 214: فصول مہمہ شرف الدین موسوی؛215: بخاری ج2 ص374؛ 216: ایضاََ ج 2 ص371؛217 :تفسیر کبیر فخرالدین رازی ج5 ص153: 218: ترمذی ج9 ص74،ابو داود ج2 ص7، مسند احمد ج1 ص 376؛
219: مستدرک صحیحین ج4 ص 557؛220: سنن ابن ماجہ باب اجتہاد؛221: مسلم ج 1 ص373؛ 222: فتح الباری ج5 ص 362؛
223: معامرات الامتاجرین بدین ص29؛ 224: لا اکون مع صادقین ڈاکٹر تیجانی سماوی ص196؛225: بخاری ج6 ص390؛226: تفسیر ابن کثیر،القرطبی، در المنثور؛227: بخاری ج9 ص166؛ 228: ج2 ص 66؛229: ایضاََ ج9 ص 489؛ 230: ابوبکر رازی مختار الا صحاح ص 282؛231: بخاری ج 9 ص 159؛ 232: سنن ابن ماجہ ج 2 حدیث نمبر 4082، 4087، تاریخ طبری۔
چونکہ شیعت ،دین اسلام کا جوہر ہے تو جن دانشوروں نے کسی وجہ سے اسکا مطالعہ کیا جیسا کہ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر اسد وحید قاسم فلسطینی نے کیا تو انہوں نے گہرے مطالعہ سے حقیقت تک رسائی پائی اور اعلان کیا کہ شیعت ہی اصلی اسلام ہے اور اسلام کا نام ہی شیعت ہے ۔میرے ایک ڈاکٹریٹ کی سند رکھنے والے دوست نے بھی مجھ سے مباحثہ کے بعد تاریخ اسلام اور فریقین کے عقائد و اعمال کا کافی مطالعہ کیا اور دو سال کے بعد اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا،'' اگر ہم دین اسلام کا نام اہل حدیث رکھیں،اہلسنت رکھیں یا اور کچھ ،مگر حقیقت تو یہ ہے کہ شیعت ہی سب کچھ ہے یعنی کہ قرآن، احادیث اور سنت نبوی (ص) کے حقیقی پیروکار صرف اور صرف شیعہ ہیں''۔اسطرح وہ شیعان اہلبیت میں شامل ہوگیا۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ !اس کی خوش خبری اللہ کے رسول (ص) نے ان الفاظ میں دی ہے،'' اے علی تم اور تمہارے شیعہ کامیاب ہیں''۔دنیا کا کوئی بھی علاقہ نہیں ہے جہاں شیعت نے اپنے وجود کا اظہار اور مثبت دلائل سے اکثر قاریوں کو اپنی خوشبو سے معطر نہ کیا ہو۔جرمنی میں 1985ء میں پندرہ سو شیعہ تھے اور آج ساڑے تین لاکھ ہیں۔یوگنڈا میں اُس وقت ایک شیعہ تھا اور آج دو ہزار سے زیادہ۔یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ شیعت کے دشمنوں کے چہروںسے منافقت کا نقاب بوسیدہ ہوکر تار تار ہوگیا ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے رہنما عارف باللہ رہبر کبیرامام خمینی کی اسلامی اصولوں پر مبنی قاعدانہ صلاحیت اور عرفانی قیادت نے شیعت کو دنیا کے سامنے منفرد انداز میں پیش کرکے منتشر اذہان کی لئے مشعل راہ روشن کی جس کی وجہ سے تقریباََ پچاس لاکھ لوگوں نے ایرانی انقلاب سے آج تک شیعت قبول کی اور کر رہے ہیں۔ ان لوگوں میں شیعوں کے خلاف کتابیں لکھنے والا اور ریاض یونیورسٹی سعودی عرب میں اٹھارہ سال تک تعلیم حاصل کرنے والاکٹر وہابی ڈاکٹر عصام العماد یمنی ، سعودی حکمران شاہ فہد کا ذاتی مشیر ڈاکٹر علی شعیبی، سعودی سرکار میں ہوم منسٹری کے مشیر چانسلر دمرداش ذکی عکالی،کینیا کے وہابی عالم و مبلغ شیخ عبداللہ ناصر،
مفتی اعظم فرانس شیخ سنکوہ محمدی، برصغیر کے مشہور غیر مقلد عالم و شارح صحیح بخاری علامہ وحید زمان حیدر آبادی، پاکستان میں شیعہ دشمن سپاہ صحابہ کے کمانڈر مولانا زاہد راشدی، مولانا عمران اور دوسرے تمام مسالک کے ان گنت دانشور ہیں۔ ایسے خوش قسمت افراد کی ایک معمولی فہرست اور انکے ہاتھوں مذہب حق کی ترجمانی کرنے والی انکی کتابیں حاضر خدمت ہیں۔
1نام مؤلف،مصنف،دانشور---------ملک--------------------نام تصنیفات وتالیفات
2محدث محمد بن مسعود بن عیاش------ بغداد-----------تفسیر عیاشی
3شیخ محمد ابوریہ-----------مصر-------------- ابوہریرہ شیخ المضیرہ
4شیخ محمد مرعی الا نطاکی۔عالم دین-----------مصر------------میں نے مذہب اہلبیت کیوں قبول کیا
5-شیخ احمد امین الا نطا کی۔پروفیسر--------------مصر--------------میں کیوں شیعہ ہوا
6 الشیخ سعید ایوب۔عالم دین----------------مصر------------- معالم الفتن 2 جلد
7ڈاکٹرمحمد بیومی مہران۔پروفیسر---------------مصر------------------60 تصانیف(1)امامت اور اہلبیت
8الکاتب محمدعبدلحفیظ----------------------مصر---------------میںجعفری کیوں ہوا
9 ڈاکٹر احمد راسم النفیس ۔پروفیسر---------مصر----------------طریق مذہب اہلبیت
10الاستاد محمد الکثیری ۔پروفیسر---------------مصر------------ اہلسنت اور امامیہ میں فرق
11شیخ سلیم البشری استاد اور انچارج جامعتہ الازہر------------مصر------------مکتوب نمبر56 در کتاب دین حق ص636
12استاد عثمان جاسم---------------القطوز الدانیتہ المسائل الثمانیہ
13استاد موسیٰ صالح--------------فواطر ومشاہدات حیدریہ
14ڈاکٹر قدیر فہمی------------------ایران -----------------من دخل
15شیخ محمد عصمت بکر---------------عبداللہ بن عمر بین سیاست و دین
16 ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی۔عالم دین-------------تیونس---------------مجھے راستہ مل گیا، کونوا مع الصادقین وغیرہ
17ھاشمی علی دانشور-----------تیونس----------------شیعہ دوست سے گفتگو
18سعید بن علی عالم دین---------------------تیونس-----------------درس عقائد
19پروفیسر عبد المجید تراب-----------------تیونس-------------------اسلام و فوقیات
20احمد حسین یعقوب۔پروفیسر-------------------------اردن---------------- نظریہ عدالت صحابہ
21الاستاد صائب عبدل حمید۔پروفیسر---------------------اردن--------------------عقاید شیعہ و اہلبیت
22صالح الوردانی----------------مصر-------------فریب
23مروان خلیفات----------------اردن---------------شیعہ ہی کیوںنہ ہو جائوں
24الاستاد عبدالمنعم محمد الحسن۔پروفیسر------------سوڈان----------------مجھے نورِ فاطمہ سے ہدایت ملی
25الاستاذ متوکل محمد علی ۔پروفیسر ----------------سوڈان---------------- و دخلنا الشیعة سجدا
26الشیخ معتصم سید احمد۔عالم دین--------------سوڈان-----------------حقیقت گمشدہ،دین حق کی مایہ ناز کتاب
27ڈاکٹر محمد مغلی--------------الجزائر-------------------مذہب شیعہ امامیہ
28 قنبر اسدی عالم دین---------------لبنان-----------------حقیقت کا متلاشی
29السید یاسین المعیوب البدرانی ----------------سیریا-----------------کاش میری قوم جان لیتی
30السید حسین الرجا--------------------دمشق------------------میں نے ھدایت کی آواز سنی
31علامہ شیخ محمد ناجی غفری-----------------حلب،سیریا------------------ تحریری دستاویز در کتاب دین حق ص30
32محترم طالب بیگ------------حلب ،سیریا--------------میں کیوں شیعہ ہوا ص123
33 مفتی شیخ محمد بلنکو -----------------حلب ،سیریا--------------- میں کیوں شیعہ ہوا ص91۔95
34ڈاکٹر تاج الدین پروفیسر میڈسن --------------جورڈن-----------------وجود انسان طب اور قران کی روشنی میں
36شہید فتح عبدالعزیز------------------ فلسطین----------------المختار اسلامی
37ڈاکٹر ظہیر غزاوی----------------- فلسطین-----------------موسسات دینیہ
38 ڈاکٹر علی شعیبی (مشیر شاہ فہد)------------------سعودی عرب-------------اسلامی افکار حالات حاضرہ کے مطابق
39 دمر داش بن ذکی عقالی مصری، سعودی ہوم منسٹری کا مشیر------سعودی عرب-----
ایر پورٹ پر شیعہ ایرانی حجاج سے کتابیں ضبط کرکے مطالعہ کیں اور مذہب امامیہ قبول کیا۔
40ڈاکٹر عصام العماد امام جمعہ مرکزی جامع مسجدصنعائ(سابق سلفی)-----------یمن---------وہابیت سے شیعت کی طرف میرا سفر
41سید ادریس الحسینی دانشور و صحافی----------مراکش-----------حسین نے مجھے شیعہ بنادیا
42ڈاکٹر سید سامرائی عالم دین----------سامرہ عراق------------المختار من نہج البلاغہ
43ادریس حام تیجانی عالم دین --------------نایجیریا ------------راہ اہلبیت
44ڈاکٹر محمد تیجانی عالم دین----------فرانس-------------کربلا کا سفر
45شیخ سنکوہ محمدی مفتی اعظم--------------فرانس------------زیارت امام حسین کے موقعہ پر
46سید علی بدری عالم دین-------------سیریا -------------حسن المواھب فی حقائق المذاھب
47 جُما عمری میونگا معتصب وہابی -------------افریقہ----------------تفسیر قران
48ڈاکٹر حمید الغر-------------امریکہ-----------
49شیخ عبداللہ ناصر نامور وہابی عالم -------------کینیا-------------شیعہ اور قران۔شیعہ اورحدیث،شیعہ اور صحابہ،شیعہ اور امامت،شیعہ اور تقیہ
50 مولانا سید مقبول دہلوی-----------------(ہند)----------------ترجمہ وتفسیر قرآن 2جلد
51حامد بن شبیر سا بق چیف جج-------------حیدرآباد(ہند)------------کلمتہ الحق 2 جلد
52 مولانا نواب احمد حسین خان -------------پرتاپ گڈھ(ہند)------------- تاریخ احمدی
53بابا خلیل چستی مشہور صوفی بزرگ-----------بنارس (ہند)-------------مولا علی اور معاویہ
54مولانا جلال الدین حسن۔عالم--------------حیدرآباد(ہند)--------------ایمان و عمل
55مولانا شیخ احمد عثمانی دیوبندی -------------(ہند)------------انوار الہدیٰ اور شمس الضحیٰ
56مولانا اختر سلطان----------------(ہند)----------------تنزیہ الانصاب 2جلد
57مولانا ہمایوںمرزا ایڈوکیٹ--------------کلکتہ (ہند)-------------شاہراہ ِنجات
58سید امداد امام------------پٹنہ بہار (ہند)--------------مصباح الظلم
59مولانا وحید الدین خان-------------دکن(ہند)-----------حد تحقیق بہ مشرب سنی
60 مولانا وحید الزمان ------------حیدرآباد(ہند)---------------- عقائد وحیدیہ
61 مولوی احمد خان درویش -------------حیدرآباد(ہند)-------------شیعہ ہونے کا اعلان مع دستخط موجود ہے
62ڈاکٹر شکیل اختر مع سات دیگر افراد-------------سیوان (بہار)-------------طوفان سے ساحل تک
63 انعام محمد سرکاری ملازم----------------کلکتہ (ہند)-----------ھُد یََ للعالمین (فضائل امام علی )
64جنام دامر مونی استاد-------------سری لنکا-----------قران اور صحیفہ کاملہ کا تامل ترجمہ
65 مولوی کامران حیدر--------------حیدرآباد(ہند)------------------اہلبیت اور السنت
66مولانامظہر الحق دیوبندی ----------پاکستان--------------بیان حق
67 مولانا اسمعٰیل دیوبندی -----------------پاکستان-------------- میں کیوں شیعہ ہوا،فتوحات شیعہ
68مولانا شاہد زعیم دیوبندی --------------پاکستان----------------پردہ اٹھتا ہے----------------
69مولانا عبدالکریم مشتاق -----------------پاکستان---------------8۔(1)میں شیعہ کیوں ہوا
70مولانا حافظ علی -------------------پاکستان----------------------ملک النجا ة
71مولانا حکیم امیر الدین--------------پاکستان----------------ملک النجا ة
72مولانا سید محمود گیلانی---------------پاکستان-----------------امام علی اَ دیانِ عالم کا مرکز نجاتَ
73علامہ ناصر الدین(رشید ترابی) ----------پاکستان-----------۔توحید اور شرک
74مولانا محمد حسین ڈھکو عالم دین ----------پاکستان-------------تحقیق حق
75پروفیسر عبدلحکیم بوترابی -------------پاکستان-----------------آیت اور ہدایت
76 مولانا رکن الدین--------------پاکستان--------------جوھرِقران
77شہیدعلامہ طالب حسین کرپالوی--------------پاکستان--------------50 تصانیف۔سیرت اہلبیت
78 ارشد نعمانی طالب علم------------پاکستان----------- کتاب راہِ خد ا
79مولانا فقیر حسین ،مولاناچودھری محمد نواز،مولانالیاقت علی چک---- اعلان قبول شیعیت در کتاب فتوحات شیعہ مولانا اسمعٰیل دیوبندی ص252
80مولانا عبدالقیوم سلفی رکن سپاہ صحابہ----------تاریخ ناصبیت 2 جلد
81علامہ محمد بشیر------------قران اور اہلبیت
82مولوی فتح محمد المعروف غلام مرتضٰی------------سیالکوٹ-------------فتوحات شیعہ ص229
83مولانا حافظ محمد رشید،مولانا نواب عبد ا لقیوم،مولانا سید احمد علی شاہ،مولاناسیٹھ غلام امامین،مولانا غلام حیدر خان،مولانا عبدل احد خان اور مولانا عبدلصمد خان
-----
مشہور شیعہ عالم دین مولانا سید محمد شیرازی کے ساتھ پشاور پاکستان میں دس دن لگاتار مناظرہ کرنے کے بعد کثیر مجمع کے سامنے مذہب شیعہ قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں فوٹو سمیت کتاب شبہائے پشاور میں موجود۔
84 مولانا غلام حسین نعیمی دیوبند ی--------------پاکستان----------------
85مولانا حافظ محمد رشید،مولانا عبدالقیوم---------پاکستان--------------- در کتاب شبہائے پیشاور
86مولانا حافظ یونس گجر بریلوی --------------پاکستان-------------
87مولاناتوکل حسین دیوبندی -----------------پاکستان------------
88مولانا تاج الدین حیدری --------------پاکستان---------------
98مولانا حافظ محمد --------------پاکستان --------- فلقُ نجات
90علامہ ہارون گیلانی-----------پاکستان------------
91مولانا عبدالساقی ---------------پاکستان---------------
92مولانا زاہد الراشدی،جنرل سیکٹری سپاہ صحابہ سندھ ------------پاکستان---------
93مولانا عمران ،رہنماء سپاہ صحابہ راولپنڈی ------------ پاکستان---------
94شہید علامہ دانش علوی صوبہ سرحد -----------پاکستان---------
95شیخ محمد اردنی----------اردن------------فاطمہ زہرا ------------
96غلام عباس ،وکیل ---------------سپین------------
97مولانا عبدالحکیم کارنے ------------- امریکہ------------
98علامہ محمد بشیر--------------پاکستان-----------قران اور اہلبیت ------------
99شیخ جہاد اسما عیل---------سڈنی(جرمنی)-------------
100پروفیسر علی ابراھیم -------------افریقہ------------
101شیخ حمیدو -------------جنوبی افریقہ-------------
201شیخ سیف اللہ خان۔جامعہ ازہر کا فارغ التحصیل-----------جنوبی افریقہ----------
301شیخ شہید متی --------------جنوبی افریقہ------------
401شیخ اثامہ عبدالغانی-------------امریکہ---------------
401ڈاکٹر حمید الغر--------------امریکہ---------------مشہور خطیب اور مصنف
601مولانا ذکریا ---------------جنوبی افریکہ-------------
701شیخ عبداللہ ناصر-----------------مشرقی افریقہ--------------
801 جما عمری مونگا متعصب وہابی----------------افریقہ----------------تفسیر قران
901شیخ علی گرنٹ --------------ارجنٹینا-----------avail. on www.hyderi.org
110مولانا سخاوت حسین ----------پاکستان ---------------امریکہ اور کنیڈا کا مشہور خطیب
111سومائیکی(روح اللہ)-------------- جاپان ----------------مذہبی سکالر اور کمپیوٹر انجینر
112شیخ عبدالرحمان العلی امام جمہ------------------العنبر عراق-----
113Leonard peter Sorenson--------Dutch---------
114Crystal Edwinson----------Sweden------------
115Doris Cluszin ---------Germany-------------
116Prof.Lekenhowzin---------------America------------
117Prof.Istwili Claude----------France--------
118Roberto Arcadi-------Italy-------------
119Roberto Raico, Fujiro Lumunuku --------------Italy Italy--
120دانشور حسن شوہتا ----------------مصر-----------------
121دانشور زہیرالحسن---------------امریکہ----------------
122ڈاکٹر علی لنستاد -------------ناروے---------------
123 ڈاکٹر علی کروجر ------------ جرمنی-----------
124ڈاکٹر حسین لیبیال--------------- جرمنی--------------
125ڈاکٹر عبدالخالق ایمن-------------مصر-------------
126ڈاکٹر حار ث والڈمین------------آسٹریا-----------
127امیر ابو طارق --------------- برطانیہ-----------
128یوسف قبی سوف --------------روس---------
129عبدالسلام اللاگمش------------ اٹلی-------------
130پروفیسر عبدالوحید-------------روس-------------
131حسن شمسوری------------ملیشیا-------------
132ابراہیم زنکو-----------افریقہ-------------
133مائکل بتھ-------------امریکہ----------
134ڈکٹڑ علی الشیخ ------------عراق-----------
135عبدالباقی------------الجیریا------------
136محمد ندیم زینلوف-------------روس--------------
137 شمس العارف-------------انڈونیشیا------------
138محترمہ کزرم (فاطمہ)------------روس-------------
139محترمہ حسینہ-------------- برطانیہ-----------------
140محترمہ نصرت بن محمد عیسیٰ--------------- ملیشیا--------------
141محترمہ زینب الحسی ------------------جرمنی---------------
142شیخ حسن الدرگھامی--------------مصر--------------
143شیخ عطااللہ السعید---------------مصر--------------
144شیخ قندیل--------------مصر-----------------
145شیخ محمد رجب -------------مصر-------------
146ڈاکٹر شیخ محمد مہران--------------- مصر-------------
147ڈاکٹر شیخ محمد بکر--------------- مصر--------------
148ڈاکٹر شیخ موسیٰ صالح ----------------مصر---------------
149شیخ محمد عبدالحفیظ-------------مصر--------------
150شیخ جما ل حلبی--------------شام------------
151شیخ سعید دھدو-------------شام---------------
152شیخ عبدالمحسن صراوی-------------شام-------------
153شیخ ابراہم القادری----------------شام ------------
154شیخ عبد العزیز قنان-----------شام------------
155شیخ یاسر الحسینی --------------شام------------
156شیخ احمد الغزالی----------------شام---------------
157شیخ ڈاکٹر محمد تیجانی------------تیونس---------------
158شیخ مبارک بغھداش---------------تیونس------------
159شیخ احمد صالح--------------تیونس-----------
160شیخ حماد الریخ-------------سوڈان------------
161شیخ بکرون--------------سوڈان--------------
162شیخ علی ہاشمی---------------کویت---------------
163شیخ محمد السہل--------------سعودی عرب-------------
164شیخ محمد الرابعی--------------سعودی عرب -----------
165شیخ حسن سکاف-------------اردن-----------
166شیخ مصطفی اردنی------------اردن-------------
167شیخ زکریاالھدرامی---------------یمن----------------
168شیخ حسن ادروس---------------یمن --------------
169شیخ ڈاکٹر محمد مگھلی------------ الجیریا-------------
170شیخ عبدال باقی غرنا------------الجیریا-------------
171شیخ موسیٰ شاکی----------مراکش-------------
172شیخ المقدسی----------فلسطین---------------
173شیخ علاوائی عطاس--------------انڈونیشیا------------
174شیخ ادروس سقاف----------انڈونیشیا-----------
175شیخ حسین القاف-----------انڈونیشیا--------------
176شیخ علوم الدین سعید--------------فلپائن-----------
117شیخ احمد قائمی--------------ترکی-------------
178شیخ محمد الاحمدی----------------ترکی---------------
179شیخ مراد بازکن---------------ترکی ---------------
180شیخ حسن قونی--------------برکینا فاسو-----------
181شیخ حسین سورابی------------برکینا فاسو-----------
182شیخ شریف احمد-------------گیانا-------------
183شیخ احمد کولبالی--------------مالی-----------------
184شیخ تیجانی معلم--------------نائجیریا-------------
185علامہ مبارک بادشاہ ----------------ٹیونیس---------------
186شیخ جلیل عیسیٰ------------گانا-------------
187شیخ عبدالغنی عثمان--------------کینیا---------------
188مولوی کامران حیدر--------- حیدر آباد ہند----------اہلبیت اور اہلسنت
189 ابراہیم ایلن مع زوجہ فاطمہ------------- امریکہ-------------
190عبدالمحسن الروائی-------------- مصر---------------القطوز الدانیتہ المسائل الثمانیہ
191السید محمود بن حمود العمدی-------------- واستقری بی انوی------------
192 عاطف سلام-------------فقہیات بین السنت و الشیعہ-----------
193الشیخ حسن عبداللہ------------ وقفتہ مع الجزائری
194ھشام آل قطیط-----------ومن الحوار الکشف الحقیقتہ--------------
195طارق زین العابدین------------ دعوتہ الی سبیل المومنین-----------
196 ڈاکٹر احمد عزالدین------------ امامت و قیادت----------------
197ابو عمر صادق العلائی----------------- تحریف القران بین اعلام سلف-----------
198 الشیخ حسین معتوق--------------- اتصاف فی مسائل الشریعہ----------
199 علامہ نور دین---------------- امریکہ------------
200ہاشم بن علی------------ الصحابہ حجمہم الحقیقی---------
201استاد عثمان جاسم-----------مصر--------------شیعہ فی المصر
203پروفیسر موسیٰ صالح-------------مصر---------------فواطر و مشاہداتِ حیدریہ
204پروفیسر عبدلالمجید تراب--------------تیونس---------------اسلام وفوقیات
205علامہ سید حسین ضرغامی--------------مصر---------------
206ڈاکٹر ظہیر غراوی---------------فلسطین-------------موسسات دینیہ
207ڈاکٹر قدیم فہمی--------------مصر-------------ایران من دخل
208شیخ فتح عبدلعزیز-------------برطانیہ--------------
209ڈاکٹر حلیم صدیقی پاکستانی------------- برطانیہ-----------------
210فتحیرضوان------------مصر ---------------
211محمد حسن محمد العباس-----------قصتہ الصراع بین اسلام ق استقبار
212 ڈاکٹر فہمی شناوی-----------مصر---------
213جسٹس سیدہ صفیہ ناز کاظم------------مصر------------
214شیخ عصمت بکر------------مصر-------------ابن عمر بین سیات و دین
215پروفیسر ابراہیم کرام----------- فلسطین-------------
216ڈاکٹر محمد مغلی-----------الجزائر-------------مذہب شیعہ امامیہ--------------
217محمد فتح ضیاالدین العابد--------------سوڈان
218شیخ عامر حطیط---------------سیریا--------------
219شیخ محمد جنید کردی-----------------پاکستان---------------
220قاضی حیدر ابن اکبر----------------
221شیخ حسن حاضر----------------سیریا ----------------
222میرے دوست،1،2،3،4----------------انڈیا
دنیا میں اس وقت شیعوں کی آبادی تقریباََ پنتیس کروڑ ہے(350,000,000) جو کہ تمام براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے۔اسکا خلاصہ نسبتاََ اس طرح ہے:فیصد آبادی کا تناسب بہت پہلے کا ہے جس میںاب بہت اضافہ ہوچکا ہے۔ اس فہرست سے ان گمراہ اور تعصبی لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو شیعت کو ایرانی پیداوار سمجھتے ہے جبکہ مثبت دلائل و قرائن سے ثابت ہوتا ہے کہ عرب کے ہر علاقہ اور قریہ میں شیعان آل محمد (ص) سکونت پزیر ہیں۔
Shia Muslim to Total Muslim Population-----Total Muslim population--------Country
90%-------------------------------------------------------98%---------------------------Iran
88%---------------------------------------------------------79%-------------------Azerbaijan
70%--------------------------------------------------------99%--------------------Bahrain
65%------------------------------------------------------------97%-----------------Iraq
60%------------------------------------------------------------55%---------------Lebnon
42%-------------------------------------------------------------99%---------------Yemen
35%-------------------------------------------------------------99%---------------Kuwait
30%---------------------------------------------------------------1%---------------Brazil
25%---------------------------------------------------------------63%------------Albania
35%------------------------------------------------------------- 36%-------------- Qatar
98% --------------------------------- 95%------------------------------------Pakistan -
20%------------------------------------------------------------------14%------------India
20%----------------------------------------------------------------99%-------------Turkey
18%---------------------------------------------------------99% ----------------Afganistan
15%-------------------------------------------------------------90%----------------Syria
15%---------------------------------------------------------------96%------------UAE
15%-------------------------------------------------------------1%------------------USA
15%----------------------------------------------------------------19%--------------Serbia
12%---------------------------------------------------------------45%---------------Gana
20%-----------------------------------------------------100%-----------------SaudiArabia
10%-----------------------------------------------------------4%----------------Germany
10%--------------------------------------------------------------3%-----------------UK
10%-------------------------------------------------------2%-----------------SouthAfrica
10%--------------------------------------------------------12%----------------Bulgaria
10%---------------------------------------------------------1%---------------Australia
8%--------------------------------------------------------------3%---------------China
8%---------------------------------------------------------11%-------------------Russia
7%------------------------------------------------------------16%---------------Uganda
7%-----------------------------------------------------------24%-----------------Kenya
7%----------------------------------------------------------60%------------------Bosnia
6%----------------------------------------------------------50%------------------Tanzania
5%---------------------------------------------------------88%----------------Bangladesh
5%----------------------------------------------------------50%---------------Nigeria
5%-------------------------------------------------------47%----------------Kazakistan
5%------------------------------------------------------90%----------------Tajikistan
5%----------------------------------------------------------99%-----------------Oman
5%---------------------------------------------------------99%-----------------Maldives
5%-----------------------------------------------------------6%----------------Mangolia
5%--------------------------------------------------------------0.5%---------------Italy
4%---------------------------------------------------------60%----------------Ivory coast
4%-------------------------------------------------------89%---------------Turkmenstan
4%-----------------------------------------------------------67%----------------Niger
4%-----------------------------------------------------------85%----------------Gunea
4%----------------------------------------------------------50%----------------Burkinafaso
4%------------------------------------------------------------75%----------------kyrgistan
4%----------------------------------------------------------20%------------------------Benin
4%------------------------------------------------------99%-----------------Western sahara
5%-------------------------------------------------------99%--------------------Morocco
4%---------------------------------------------------------73%--------------------Sudan
4%---------------------------------------------------------61%------------------Malaysia
4%----------------------------------------------------------99%------------------Tunisia
4%-----------------------------------------------------------94%-----------------Jorden
4%-------------------------------------------------------------95%---------------Gambia
4%--------------------------------------------------------------44%--------------Israel
5%-----------------------------------------------------------------94%-------------Egypt
4%--------------------------------------------------------------32.5%---------------Ethopia
4%----------------------------------------------------------------99%---------------Somalia
5%------------------------------------------------------------------97%---------------Libya
3%------------------------------------------------------------99%--------------Mauritania
3%-------------------------------------------------------------50%----------------Entrea
3%-------------------------------------------------------------94%---------------Djibouti
2%-----------------------------------------------------------98%---------------comoros
2%--------------------------------------------------------32%--------------Macedonia
شیعہ ویب سائٹس:شیعہ مذہب کے بارے میں کوئی بھی جانکاری ان ویب سائٹس پر دستیاب ہے۔
1.shiamultimedia.com
2.www.shia,org
3.www. alislam.org
4.www.ahl-ul-bayt.org
5.www.sadqeen.com
اس وقت کے مراجع کرام کے ایڈرس: اجتہاد کی علمی برکت سے کسی بھی جدید دینی یا دنیاوی مسئلہ کے بارے میں مندرجہ ذیل فقہاء سے رابتہ کیا جا سکتا ہے۔
آیت اللہ اعظمیٰ سید علی حسینی سیستانی عراق
www.sistani.org
آیت اللہ اعظمیٰ سید علی خامنہ ای ایران
www.leader.ir
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ایران
www.makarem.ir
آیت اللہ سید محمد علی طبا طبائی حکیم عراق
www.alhakeem.com
آیت اللہ جعفر سبحانی ایران
www.hia.org
آیت اللہ سید کاظم حایری عراق
www.alhaeri.org
آیت اللہ شیخ بشیر نجفی عراق
www.alnajafy,com
آیت اللہ سید محمد صادق شیرازی عراق
www,shirazi.ir
شیعہ مذہب کو سمجھنے کے لئے کچھ کتابیں:
نام کتاب ---------------------------------نام مصنف
المراجعات (دین حق) ---------------- آیت اللہ شرف الدین موسوی (لبنان)
مکتب خلافت و امامت ----------------------- آیت اللہ مرتظیٰ عسکری(عراق)
عقائد امامیہ ------------------ آیت اللہ جعرسبحانی (ایران)
عقائد امامیہ ---------------- شیخ رضا مظفر (عراق)
اعتقادات صدوق---------------- عظیم شیعہ محدث شیخ صدوق
شیعت کا مقدمہ---------------- علامہ حسین الامینی(پاکستان)
کلمتہ الحق--------------------جسٹس حامد بن شبیر حیدر آبادی(سابق اہلسنت)
میں ہدایت پاگیا،کونو مع صادقین ،اہل ذکر،المیہ جمعرات وغیرہ ----------- ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی تیونسی(سابق اہلسنت)
حقیقت گمشدہ(شیعہ مذہب قبول کرنے کی داستان)---------------شیخ معتصم سید احمد سوڈانی (سابق اہلسنت)
فریقین کے عقائد --------------آیت اللہ سید محمد سعید طباطبائی حکیم (عراق)
ارحج المطالب فی مناقب امام علی -------------------- علامہ عبید اللہ امرتسری حنفی
ینابیع المودة فی مناقب آل محمد (ص) ----------------- علامہ شیخ سلیمان حسینی قندوذی مفتی اعظم قسطنطنیہ
نہج البلاغہ ---------------- خطبات،کلمات اور خطوط امام علی
غدیر کی معرفت -------------------علامہ علی اصغر رضوانی(ایران)
بہتان(شفاعت رسول (ص) اور ایمان ابوطالب پر وہابیت کی ہار)----------------ابن حیدر(بمبئی)
شیعہ ہی کیوں نہ ہوجآوں ------------------ مروان خلیفات اردنی (سابق اہلسنت )
میں شیعہ کیوں ہوا------------------------ علامہ احمد امین انطاکی پروفیسر و عالم دین سیریا (سابق اہلسنت)
شبہائے پشاورا(پشاور کی راتیں)------------------- آیت اللہ سید محمد الحسینی شیرازی(ایران)
آئینِ شیعہ بجواب آئینہ شیعت ------------------ابو عبداللہ حیدر حیدر انصاری کشمیری
سرمۂ خاموشی،جام جہان نما،آئینۂ حق نما،پاکیزہ خیال،اعجاز دائودی ،ہادی،------------------عالم با عمل مناظر بے بدل منشی سید سجاد حسین اعلی اللہ مقامہ باہروی
جوہر قران ( تحفہ اثنا عشریہ کا بہترین جواب)----------------- سید علی حیدر نقوی
اصل و اصول و شیعہ-----------------------آیت اللہ کاشف الغطائ
(شیعہ مذہب کو سمجھنے کیلئے کچھ کتابیں)
1۔دین حق مذہب اہلبیت :: مولف علامہ سید شرف الدین موسوی(لبنان)
2۔ینابیع المودت : : شیخ سلیمان قندوزی حنفی مفتی اعظم قسطنطنیہ
3۔ارحج المطالب :: علامہ عبیداللہ ا مر تسری حنفی
4۔کلمتہ الحق 2جلد :: جسٹس حامد بن شبیر حیدر آباد(سابق اہلسنت)
5۔مجھے راستہ مل گیاوکونو مع صادقین :: ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی ٹیونسی(سابق اہلسنت)
6۔نہج البلاغہ :: خطبات،خطوت و کلمات ِ امام علی
7۔شبہائے پشاور :: سید محمد موسوی شیرازی(ایران)
8۔حضرت علی کا حقِ خلافت(انگلش) :: پروفیسرایس اے رحمان JNU
9۔ندائے عدالت انسانی :: جارج جرداق (لبنان)
10۔میں کیوں شیعہ ہوا :: سابق سنی عالم و پروفیسر جامعہ ذکریا حلب(شام)
11۔جستجوئے حق مع ضمیمہ :: مولانا انجیئنر دُرالحسن رضوی
12۔مکتب امامت و خلافت :: علامہ سید مرتضٰی عسکری
13۔عبقریتُ امام علی :: مصری دانشور محمود عباس عقاد
14۔اصل و اصول ِ شیعہ :: آیت اللہ شیخ محد حسین آل کاشف الغطاء (عراق)
15۔ مکتب ِ امامیہ :: استاد شیخ محمد رضا مظفر (عراق)
16۔شیعہ جواب دیتے ہیں :: علامہ سید رضا حسینی نسب(ایران)
17۔ ہمیں پہچانئے پھر فیصلہ کیجئے :: آیت للہ سید احمد واحدی(شام)
18۔شیعت کا مقدمہ :: حسین الامینی (پاکستان میں انعام یافتہ کتاب)
19۔ تحقیقی دستاویز :: مرکزی مطالعات اسلامی پاکستان
20۔ حقیقت ِ گمشدہ :: شیخ معتصم سید احمد سوڈانی (سابق اہلسنت)
21۔تاریخ فقہ جعفری :: علامہ سید ہاشم المعروف الحسنی( بیروت)
22۔ شیعہ ہی کیوں نہ ہوجائوں :: مروان خلیفات(سابق اہلسنت ) اردن
23۔غدیر اہلسنت کی نظر میں :: محقق محمد جباران
24۔حقیقت شیعہ اثنا عشریہ :: ڈاکٹر اسد وحید قاسم(سابق اہلسنت) فلسطین (یہی کتاب)
25۔غدیر کی فضا میں :: علامہ علی اصغر مروج خراسانی
26۔ شیعہ شناسی :: آیت اللہ علی ربانی گلپایگانی
27۔عقائدامامیہ :: آیت اللہ جعفر صبحانی
28۔ آئین شیعہ :: مولانا ابو عبداللہ انصاری کشمیری
29۔ غدیر کی معرفت :: علامہ علی اصغر رضوانی
30۔ تشیع در تسنن :: آیت اللہ سید محمد رضا یزدی
31۔فریقین کی عقائد :: آیت اللہ سیدمحمد سعید طبا طبائی حکیم
17۔ہمیں پہنچانئے،پھر فیصلہ کیجئے :: آیت للہ السید احمد واحدی
(یہ سب کتابیں میرے پاس موجود ہیں)
شیعہ مذہب کے متعلق کوئی بھی جانکاری حاصل کرنے کے لئے پتہ
1. www. shia multimedia.com / www.Ali walay .com
2. www.ahl-ul-bayt.org/www.ahl-ul-bayt.net.in
3. http://al-islam.org
4. www. abna.ir
5. www. shia org
6www. sadqeen.com
عصر حاضر کے بعض مراجع کرام سے رابتہ کرنے کے روابط
1۔آیت اللہ اعظمیٰ سید علی سیستانی عراق
E-mail:sistani@sistani.org
2 ۔ آیت اللہ اعظمیٰ سید علی خامنہ ای ایران
E-mail info-leader@leader.ir
3۔آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ایران
www.makaremshirazi.org
4۔آیت اللہ صادق شیرازی ایران
www.shirazi.ir
5۔آیت اللہ جعفرسبحانی ایران
E-mail;info@shia.ir
آیت اللہ عبدالکریم موسوی اردبیلی ایران
E-mail:mousavi@ardebili.org
Comments powered by CComment