اہل بیت حلاّل مشکلات

مختلف کتب
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی

ترجمہ: سید امتیاز حیدر

عرض مترجم

 

ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی دور حاضر میں دنیاے تشیع کی ایک جانی پہچانی شحصیت کا نام ہے۔ دینی اور دنیاوی دونوں علوم سے آراستہ اس شخصیت نے خود سے راہ حق و حقیقت کی جستجو کی خاردار وادی میں قدم رکھا اور منزل حق تک پہنچ کر دم لیا۔ آج یہ عظیم شیعہ مبلغ اور بے مثل صاحب قلم اپنی بے دریغ کاوش اور بے مثال جہاد لسان و قلم کے ذریعہ پوری دنیا کو مکتب اہل بیت(ع) کی حقانیت سے روشناس کرانے میں ہمہ تن سرگرم عمل ہے۔

تیونس نام کے ایک اسلامی افریقی ملک کے باشندہ ڈاکٹر تیجانی نے اب تک دنیا کے بہت سے ملکوں کا دورہ کیا اور ہزاروں بھٹکےہوئے افراد کو صراط مستقیم کی ہدایت کی ہے۔ ان کی کئی کتابیں ” پھر میں ہدایت پاگیا “، ” میں بھی سچوں کے ساتھ ہوجاؤں “، ” شیعہ ہی اہل سنت ہیں“، دنیا کی بہت سی اہم زبانوں میں عربی سے ترجمہ ہوکر شائع ہوچکی ہیں بلکہ ایک ایک کتاب کے دس دس اور بیس بیس  ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

قارئین کرام، اس وقت جو کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے اس کا اصل نام ” کل الحلول عند آل الرسول“ ہے، اس کافارسی ترجمہ بنیاد معارف اسلامی قم کی جانب سے ” اہل بیت(ع) کلید مشکلات“ کے نام سے شائع ہوا۔ جس میں فارسی مترجم نے بعض حاشیہ بھی لکھے ہیں ۔ اسی کا اردو ترجمہ ” اہل بیت(ع) حلال مشکلات“ کے عنوان سے پیش خدمت ہے۔ یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے بقیہ کتابوں سے جدا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں اغیار کے معائب پر

 روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مسلک میں پیش آنے والی بعض چیزوں پر بھی اس طرح قلم چلایا ہے جیسے جراح کسی پھوڑے کا آپریشن  کرتا ہے اور اس کا علاج کرتا ہےسطحی نقطہ نظر سے ان کی بعض تحریریں سخت ہیں اور مترجم ان میں اپنی رائے محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن اس میں وہ مفید مطالب بھی ہیں جن کا گہری نظر سے مطالعہ پوری ملت اسلامیہ کو راہ ثواب سے ہمکنار کرسکتا ہے ۔ حقائق کتنے ہی تلخ ہوں ہمیں ان کا اعتراف کرنا ہی چاہئے ۔ بہر حال مجموعی طور سے یہ کتاب مصنف کی جرات و ہمت کی  پوری عکاسی کرتی ہے۔

خداوند عالم ہم کو راہ حق کی معرفت اور اس پر مضبوطی سے گامزن رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

                                                                                                سید امتیاز حیدر

مقدمہ

حمد و ثناء خدا  کے لیے سزاوار ہے اور وہی سارے عالم کا پروردگار ہے۔ اور اعلی ترین درود و سلام پروردگار عالم کی جانب سے منتخب حضرت ابوالقاسم محمد بن عبداللہ(ص) پر ہو جو عالمین کےلیے رحمت، ہمارے سید و سردار، آخری پیغمبر اور اللہ کے رسول(ص) ہیں اور آںحضرت کی عترت طاہرہ(ع) جو ہدایت کی نشانی، گمراہی سے نجات کی مشعل، امت کا سہارا اور ملت کے نجات دہندہ ہیں۔

خدا وند عالم نے محمد(ص) و آل محمد(ص) کی برکت سے ہم پر احسان کیا اور حق کی  شناخت کے لیے ہدایت فرمائی۔ ایسا حق کہ جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں ہے اور مجھے ان میووں کا مزہ چکھایا جو میری چھ کتابوں کا ثمرہ تھے۔

حق کو بیان کرنے کی وجہ سے میری کتابوں پر پردہ ڈال دیا گیا تھا لیکن خدا کے فضل و کرم سے شائع ہوئیں اور ان کی وجہ سے بہت سے سچے اور حق کے جو پاکیزہ طینت مومنین عترت طاہرہ(ع) کے گردیدہ ہوگئے اور ایمان کا جز بن گئے جن کی تعداد سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔

                  ” وَ ما يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلاَّ هُو“ ( مدثر،۳1)

                             خداوند کی فوج کو سواے اس کے کوئی نہیں جانتا۔

جو خطوط دنیا کے کونے کونے سے یہاں پیرس اور تیونس  مین ہمیں مل رہے ہیں وہ ہمارے حوصلہ افزائی  کرتے  ہیں۔ اور ہمیں اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ فرج الہی نزدیک ہے اور اس کا وعدہ سچا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں میں اس کی اس آیت کو ورد کرنے لگتا ہوں کہ ۔

” أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْساءُ وَ الضَّرَّاءُ وَ زُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى‏ نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَريبٌ ‏“(بقرہ۔۲1۴)

کیا تم خیال کرتے ہو کہ جن آزمائشوں سے بزرگوں کو گزرنا پڑا ان کے بغیر جنت مین داخل ہوجاؤ گے۔ وہ رنج و مصیبت میں گرفتار ہوئے، سختیاں برداشت کیں اور اس طرح ان میں لرزہ پیدا ہوا کہ انبیاء(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے مومنین بارگاہ پروردگار میں گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگے کہ خدا کی جانب سے ںصرت کب پہنچے گی؟ بے شک ( مومنین کو بشارت دے دو) کہ خدا کی نصرت قریب ہے۔“

ان ڈھیر سارے خطوط کے پڑھنے کے بعد احساس کرتا ہوں کہ بھلائی کبھی بھی بند نہ ہوگی۔ اور حق ہمیشہ کامیاب ہے۔

”بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْباطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذا هُوَ زاهِقٌ وَ لَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُون‏“ (الانبیاء۔ 1۸)

” ہمیشہ باطل پر حق کو غالب رکھیں گے تا کہ باطل کو سرنگوں کرکے نابود کرے۔“

اور جب خود خداوند عالم نے باطل کو مٹانے کا عہد کر لیا ہے تو میں جس چیز کو حق ہونے کا معتقد ہوں اس کے اظہار میں لیت و لعل نہ کروں گا یہاں تک کہ خداوند عالم میرے اور کج فکروں  کے درمیان فیصلہ کردے۔ یہ حق سے دور بھاگتے ہیں۔ اور جس چیز کے عادی بن گئے ہیں۔ چاہے وہ سو فیصد ہی غلط ہو۔ اس کے سوا کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتے، باطل  سے پرہیز نہیں کرتے۔

میں پھر خداوند عالم سے ان کے لئے ہدایت کی آرزو رکھتا ہوں اس لیے کہ صرف وہی ہے کہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔

اور چون کہ بہت سے قارئین اور حق کے جو یا افراد کے ساتھ خطوط کے ذریعہ یا ان سے ملاقات کے وقت، یا اپنی تقریروں میں مخلتف موقعوں پر تند و ترش ہو جاتا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات کا احساس ہے کہ بعض افراد ہماری باتوں کو حق سمجھتے ہیں پھر بھی یہ کہتے ہیں کہ اس وقت جب  کہ اسلام کی نابودی کی خاطر مشرقی و مغرب متحد ہوچکے ہیں ہم ایسی مشکلات کھڑی نہیں کرنا چاہتے ۔ جو مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچائیں۔

ہم نے ان کی اس بات کو ایک حد تک معقول سمجھا اور ان کے نظریہ کو پسند کیا۔ کیوں کہ ان کی کوشش یہ ے کہ اختلاف کم کیے جائیں۔ اور مسلمانوں کی صفوں کو منظم کیا جائے لہذا ان کے نظریوں کو ماننا چاہئے۔ اور ان کی نصیحتوں کو قبول کرنا چاہئے اور ان کا ممنون ہونا چاہئے۔ اس جگہ پر امیر المومنین(ع) کا ارشاد یاد آتا ہے، آپ(ع) فرماتے ہیں

          ” اور تم کو چاہئے کہ اپنے امور مین اس عمل کو زیادہ دوست رکھو کہ نہ حق سے غفلت ہو اور نہ اسے کنار چھوڑا جائے، عدالت کی ہمہ گیری رکھتا ہو اور رعیت کو پسند آئے۔ چونکہ  زیادہ افراد کی ناراضگی بعض کی خوشنودی کو بے اثر بنادیتی ہے اور اپنوں کی ناخوشی لوگوںکی خوشنودی کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔“

لہذا میں اپنی کتاب ” اہل بیت (ع) حلال مشکلات“ قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اس کتاب میں کوشش کی ہے کہ وہ مسائل جو لوگوں کو مشتعل اور برانگیختہ کرتے ہیں ان سے پرہیز کروں تاکہ وہ حق سے دور نہ ہوں اور ان میں ہدایت کی تلاش کا جذبہ ختم نہ ہو۔ اگر چہ میں اس بات کا معتقد ہوں کہ جذبات کو برانگیختہ کرنے کی روش آزاد افراد کی نفسیات میں جوش و ولولہ پیدا کرتی ہے اسی اپنی گزشتہ کتابوں میں، میں نے اس روش کا استعمال کیا ہے جس کا قیمتی و تعجب انگیز نتیجہ حاصل ہوا ہے۔

البتہ نرم اور مصلحت آمیز روش اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چونکہ اس سے بہت سے لوگ مطمئن اور راضی ہوں گے۔ اور بلاشبہ اس کا نتیجہ شیریں و لذت بخش ہوگا۔ چنانچہ ہم نے دونوں روشوں کا استعمال کیا اور قرآن کریم کی پیروی کی ہے اور یہ دونوں روشوں آرزو اور خوف، بہشت کی آرزو رکھنے والوں کو روانہ بہشت کرتی ہے اور خوف کھانے والوں کو جہنم سے نجات دیتی ہے۔ اور مجھے قطعی طمع نہیں ہے کہ پرہیز گاروں کے پیشوا، امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے اس عظیم مقام کو حاصل کرلوں  جو نہ جنت کی لالچ میں عبادت کرتے تھے اور نہ ہی جہنم کے خوف سے عبادت کرتے تھے اور اگر پردے اٹھ جاتے تو ان کے یقین میں اضافہ نہ ہوتا، لہذا میں پروردگار سے صمیم قلب کے ساتھ دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنی رحمت کو ہمارے شامل حال کرے اور مجھے سچوں کے ساتھ ملحق کردے۔

                                                           محمد تیجانی سماوی

پیش لفظ

میں نے اپنی گزشتہ کتابوں میں کوشش کی کہ مسلمانوں کو ثقلین( قرآن و عترت(ع)) کی طرف واپس لاؤں اور ان سے چاہا کہ گمراہی سے نجات اور ہدایت کی ضمانت کے لیے ان دونوں ( قرآن و اہل بیت(ع)) کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔ جیسا کہ رسول خدا(ص) کی زبانی بیان ہوا ہے اور معتبر و مورد اعتماد راویوں نے اپنی صحاح و مسانید میں سنی و شیعہ دونوں ہی سے نقل کیا ہے۔

میں نے اس مطلب پر کافی بحث کی، حتیٰ کے بعض افراد یہ خیال کرنے لگے کہ ہماری اساس اصحاب کی تحقیر اور ان کی بے عدالتی کو ثابت کرنے میں منحصر ہے۔ لیکن خداوند عالم گواہ ہے کہ میری غرض صرف یہ تھی کہ پیغمبر اکرم(ص) کی حرمت کا دفاع کروں اس لیے کہ آنحضرت(ص) کے وجود ہی سے پورا اسلام سامنے آتا ہے۔ اسی طرح منزلت اہل بیت(ع) کا بھی دفاع کرنا چاہتا تھا اس لیے کہ وہ بھی قرآن کےہم پلہ و ہم رتبہ ہیں جس نے بھی ان کی پہچانا قرآن کو پہچانا اور جس نے بھی ان کو نظر انداز کیا اس نے قرآن کو نظر انداز کیا ہے۔ پیغمبر(ص) نے برابر اس کی  گواہی دی اور اسی پر زور دیا ہے۔

ان شاءاللہ اس کتاب میں، میں ان مسلمانوں پر ثابت کروں گا۔ جو بیسویں صدی جی رہے ہیں، مختلف ناموں میں بٹے ہوئے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ واقعی اسلام تک رسائی پیدا کریں اور اس پر عمل کریں ، ان کے لیے اہل بیت(ع)  کی پیروی واجب ہے۔ وہ حقیقت جس سے یہ گریزاں ہیں، یہ ہے کہ قرآن و سنت دونوں ہی میں تاویل و تحریف کی گئی ہے۔ قرآن کو مختلف معنی میں

تاویل کیا گیا تاکہ اس کو شریعت کے حقیقی مقاصد سے دور کردیں اور سنت میں جعلی احادیث داخل کر کے تحریف کردی گئی۔ لہذا آج قرآن کی جو تفسیریں ہمارے پاس ہیں وہ اسرائیلیت یا بعض مفسروں کی ذاتی اجتہاد سے خالی نہیں ہیں جو اس بات کے معتقد ہیں کہ قرآن کی بعض آیتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔ اسی طرح کتب احادیث اس درجہ جھوٹ اور تحریف کا شکار ہوئی ہیں کہ کسی پر بھی سو فیصد اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

یہی وہ مقام ہے. جہاں معصوم ائمہ(ع) اور رہبروں کی طرف رجوع کرنا واجب ہوجاتا ہے. اس لیے کہ صرف وہ ہیں جو کتاب خدا کی تفسیر اور احکام خدا کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور صرف وہی احادیث پیغمبر اکرم(ص) کو تمام  تبدیلیوں، تحریفوں اور شبہات سے محفوظ رکھ سکتے ہیں.

اگر آج مسلمانوں کی آخری خواہش سلف صالح کی جانب واپسی ہے تاکہ ان دونوں تشریعی ماخذ کو ان سے حاصل کریں اور چونکہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ (اہل بیت(ع))  سب سے افضل ہیں، لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان سے پوچھیں کہ آپ کے پاس کیا دلیل ہے. ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم ان سے بین و واضح دلیل و برہان طلب کریں جو انسان کے لیے بہانہ کی راہ کو بند کر دیتی ہے، اسے قانع کردیتی ہے اور قلب مطمئن ہوجاتا ہے. اس لیے کہ صرف حسن ظن کافی نہیں ہے حتی کہ استقامت اور نیک رویہ بھی فہم کے صحیح ہونے اور غلطی سے محفوظ رہنے کا ذریعہ نہیں بن سکتا.

نبی(ص) کے شہر علم کا در، جناب امیرالمومنین(ع) اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.

                   ” لوگوں  کے ہاتھ میں حق و باطل ہے. سچ و جھوٹ، ناسخ و منسوخ، عام        اور خاص، محکم

اور متشابہ ہے. جو چیز لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے،جس پر حدیث بیان کرنے والے نے گمان

 کیا ہے. اور رسول خدا(ص)

کے زمانے میں ہی جھوٹ باندھا، یہاں تک کہ آںحضرت(ص) خطبہ دینےکے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا ” جس نے بھی عمدا میری طرف جھوٹی باتین     منسوب کیں اس نے اپنے لیے جہنم میں جگہ تیار کر لی.

اور تمہارے لیے جو حدیث بیان کرتے ہیں وہ صرف اور صرف چار ہیں.

( ۱ ) دو چہرے رکھنے والا جو کہ اظہار ایمان کرے لیکن بظاہر مسلمان ہو، گناہ سے نہ ڈرے اور دل میں خوف نہ رکھتا ہو، عمدا رسول خدا(ص) پر جھوٹ باندھے اور خوف نہ کرے اور اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ وہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس کی ( بیان کی ہوئی) حدیث کو قبول نہ کریں. اور اس باتوں کو سچ نہ سمجھیں. لیکن اگر رسول خدا(ص) کے دوستوں میں سے ہو تو اس کو دیکھنا اور سننا چاہئے. اور اس کی باتوں کو محفوظ کرنا چاہئے. اس کے کہے ہوئے کو قبول کرنا چاہیے. خدا نے تم کو منافقوں کے متعلق بتایا ہے اور جس طرح ان کی قلعی کھلنی چاہیے خدا نے بیان فرما دیا ہے.

یہ رسول خدا(ص) اور اہل بیت(ع)  جب پر خدا کی رحمت ہو اپنی جگہ رہ گئے اور لوگ جھوٹ و تہمت کے ذریعہ گمراہوں کے سرغنہ اور جہنم کی طرف دعوت دینے سے نزدیک ہوگئے۔ انہوں نے ان منافقوں کو عہدوں پر مامور کیا اور لوگوں کے امور کو ان کے حوالہ کردیا۔ اور انہیں کے ہاتھوں دنیا کو ہتھیایا۔ اور لوگ تو وہاں جاتے ہیں جہاں بادشاہ اور دنیا رخ کرتی ہے۔ مگر یہ کہ خدا محفوظ رکھے۔ ان چار میں سے یہ ایک ہے۔

( ۲ ) کچھ حدیث نقل کرنے والے ایسے ہیں جو حدیث کو رسول خدا(ص) سے سنتے ہیں لیکن جس توجہ سے سننا چاہیئے نہیں سنتے اور غلط بیان کرتے ہیں لیکن ان کا یہ عمل عمدا نہیں ہوتا۔ جو حدیث اس کے پاس ہے اس کو بیان کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اور کہتا ہے ہم نے اسے

رسول خدا(ص) سے سنا ہے۔ اگر مسلمانوں کو پتہ ہوتا کہ اس نے حدیث سننے میں غلطی کی ہے تو ہرگز اس کو قبول نہ کرتے اور اگر خود اسے معلوم ہوتا کہ یہ حدیث غلط ہے تو اس کو بیان کرنے سے گریز کرتا۔

( ۳ ) اور تیسرا وہ ہے جس نے سنا کہ رسول خدا(ص) نے کسی چیز کو حکم فرمایا اور پھر اس کی نفی کردی لیکن اس نفی کرنے کا علم اسے نہ ہوسکایا حضرت(ص) نے کسی چیز کی نفی کی اور بعد میں اسکا حکم فرمایا۔ لیکن وہ اس حکم سے بے خبر ہے۔ لہذا جو حکم ہوا اس کی تو اسے خبر ہے۔ لیکن اس کے منسوخ ہونے کی اسے خبر نہیں ہے چوںکہ اگر اسے پتہ ہوتا کہ وہ روایت منسوخہوچکی ہے۔ تو وہ اسے ترک کردیتا اور جس وقت مسلمانوں نے اس سے حدیث سنی اگر جانتے کہ منسوخ ہوچکی ہے اسے ترک کردیتے۔

( ۴ ) اور چاتھا شخص وہ ہے جو خدا اور رسول(ص) کی طرف جھوٹی نسبت نہیں دیتا، خدا سے ڈرتا ہے اور رسول خدا(ص) کی حرمت کا خیال رکھتا ہے غلطی کا بھی مرتکب نہیں ہوتا۔ جو کچھ اسے یاد ہے وہی ہے جسے اس نے سنا ہے۔ اور جو کچھ سنا ہے بغیر کسی کمی اور اضافہ کے وہی روایت کرت ہے پس ناسخ کو ذہن میں محفوظ کیا اور اس پر عمل کیا اور منسوخ بھی جو ذہن میں تھا اس سے پرہیز کیا۔ خاص و عام کو سمجھا، محکم و متشابہ کو پہچانا اور ہر ایک کو اسی جگہ پر قرار دیا۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حدیث رسول(ص) کے دو طرح کے معنی ہوتے ہیں۔ ایک خاص گفتگو ہوتی ہے اور ایک عام گفتگو ہوتی ہے۔ ممکن ہے کوئی سننے کے بعد نہ سمجھ پائے کہ خدا اور رسول(ص) اس سے کیا چاہتے ہیں؟ پس سننے والا تاویل کرتا ہے بغیر اس کے کہ کلام کو سمجھے یا اس کے مقصود کو جانے یا یہ نہ جانے کہ یہ کیوں بیان ہوئی ہے؟ رسول خدا(ص)  کے تمام اصحاب تو اس طرح کے نہ تھے کہ آن حضرت(ص) سے پوچھیں اور اس کے معنی کو معلوم کریں۔ بلکہ وہ تو منتظر رہتے تھے کہ کوئی صحرائی عرب پہنچے اور رسول(ص) سے سوال کرے، اس

یہ ہے سچا دین

دو سال قبل سان فرانسکو میں برادران اہلسنت کی مسجد میں، میری تقریر کا یہی عنوان تھا۔ اس روز جلسہ میں افریقہ کے متعدد ممالک نیز ترکی، افغانستان اور مصر کے باشندے شریک تھے۔ اس تقریر اور پھر آزاد بحث کے نتیجہ میں بہت سے حاضرین نے اپنی رضائیت کا اظہار کیا۔

ایک مصری طالب علم جس حال ہی میں اپنی ڈاکڑیٹ حاصل کی تھی مجھ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ کس بنا پر شیعوں کے دین کو حقیقی اسلام سمجتھے جبکہ شہرت اس کے برعکس ہے اور جیسا کہ کہا جاتا ہے اہل سنت والجماعت ہی فرقہ ناجیہ ہے۔ کیوں یہ لوگ قرآن و سنت سے متمسک ہیں اور دیگر فرقے گمراہ ہیں؟

میں نے بہت ضبط و حوصلہ اور نرمی سے حاضرین کو مخاطب کر کے اس کا جواب دیا:

میرے بھائیو! میں حق کو حاضر و ناظر جان کر قسم کھا کر کہتا ہوں اگر مجھے کوئی ایسا اہل سنت فرقہ مل جائے جو حضرت ابوبکر کی طرف منسوب مذہب کا پیرو ہوتو میں انہیں مبارک باد دوں گا۔ کیوں کہ حضرت ابوبکر کا شمار پیغمبر خدا(ص) کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی فرقہ ملے جو حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرف منسوب مذہب کی پیروی کرتا ہے تو میں انہیں مبارک باد پیش کروں گا۔ کیوں کہ یہ دونوں اصحاب رسول(ص) میں شمار ہوتے ہیں لیکن مجھے آج تک اہل سنت یا دیگر فرقوں میں کوئی ایسا گروہ نہیں ملا جو ان خلفاء یا کسی اور صحابی سے منسوب مذہب کی

 پیروی کرتا ہو۔ صرف ایک شیعہ فرقہ ہے جو علی بن ابی طالب(ع) سے منسوب مذہب کی پیروی کرتا ہے۔ یہ لوگ شیعہ امامیہ ہیں ان کے مقابل کوئی ابوحنفیہ کی تقلید کرتا ہے تو کوئی شافعی اور احمد بن حنبل کی یہ حضرات عظیم دانشور ہونے کے باجود صحابی نہیں ہیں۔ انہوں نے رسول اکرم(ص) کو ایک دن کے لیے بھی درک نہیں کیا اور نہ ان کے ہمنشین رہے ہیں۔ یہ حضرات تاریخ کے ایک عظیم فتنہ کے بعد معرض وجود میں آئے ہیں اور بلاشک و شبہ اس فتنہ سے متاثر ہوئے ہیں۔(۱)

ہم اگر علی بن ابی طالب(ع) کو تمام فضیلتوں سے الگ کر دیں تو ان کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ آپ سب سے پہلے مسلمان اور مومن تھے اور آپ نے اپنی ساری زندگی رسول خدا(ص) کی رقابت اور ان کے دین کی  خدمت میں گزار دی۔ میں آپ سے خدا کاواسطہ دے کر کہتا ہوں تعصب اور جذبات سے کنارہ کرتے ہوئے صرف اور صرف اپنی عقل کو حاکم بتائیں اور فقط خدا کی مرضی کو مدنظر رکھیں اس کے بعد اپنے ضمیر سے پوچھیں اور مجھے بتائیں کہ پیروی اور اتباع کا کون مستحق ہے؟ حاضرین میں سے سنکڑوں آواز بلند ہوئیں کہ علی(ع) پیروی اور اخباع کے زیادہ مستحق ہیں۔

اس کے بعد میں نے حاضرین کو رسول اکرم(ص) کی وہ حدیثیں سنائیں جو اہل سنت والجماعت کی معتبر ترین کتب ( صحاح و مسانید حدیث) میں منقول ہیں۔ یہ حدیثیں مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔(۲)

۲۔ علی(ع) حق کے ساتھ ہیں اور حق علی(ع) کے ساتھ ہے۔ جہاں علی(ع) ہوں گے، حق بھی ان کے ساتھ ہوگا۔(۳)

۳۔ جس کا میں مولا ہوں علی(ع) بھی اس کے مولا ہیں۔(۴)

۴۔ میری نسبت علی(ع) سے ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) سے تھی۔(۵)

۵۔ میرے بعد علی(ع) میری امت کے اختلافات کو حل کرنے والے ہوں گے۔

6۔ علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے اور یہ دونوں  ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کے میرے پاس حوض کوثر پر آجائیں۔(6)

اگر مسلمان ان حقائق کو سجھ لیں اور ان کی عقلیں صرف اور صرف حضرت علی(ع) کے صحابی پیغمبر(ص) ہونے کی وجہ سے ان کی پیروی کی دعوت دیں تو اس میں کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا کہ حقیقی اسلام وہی ہے جو شیعہ امامیہ کا دین ہے۔ انہی رافضیوں کا اسلام جنہوں نے علی(ع) کے علاوہ کسی اور کی پیروی کو رفض ( ناپسند) کیا ہے۔

آخر کار جلسہ میں بہت گفتگو اور بحث کے بعد جو کہ بڑے صبر و حوصلہ و آرام سے انجام پائی، حاضرین میں سے بہت سے لوگ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے مبارکباد دی اور خدا کا شکر ادا کیا۔ مجھ سے درخواست کی کہ اپنی کتابیں انہیں پیش کروں اور شیعوں کی کتابوں کے بارے میں انہیں معلومات فراہم کروں۔

اس گروہ میں ایک فرد اسی مسجد کے امام جماعت بھی تھے جب میں مصائب اہل بیت(ع) پڑھ رہا تھا تو وہ گریہ کررہے تھے۔ انہوں نے مصر سے ph .D کی ہے۔ وہ  محب اہل بیت(ع) ہیں انہوں نے مجھ سے کہا: مبارک ہو اے بھائی! مجھے یقین نہیں تھا کہ تم اتنی آسانی سے ہمیں مطمئن اور قانع کر لوگے مجھے بعض متعصبین سے جو تم سے جلتے ہیں خوف محسوس ہورہا تھا، لیکن خدا کی قسم تم نے اپنی سچی باتوں سے ان کے دل جیت لیے۔

راہ پیغمبر(ص) کو جاری رکھنے والے

اہل بیت(ع) سے ہماری مراد پیغمبر(ص) کی عترت میں بارہ امام علیہم السلام ہیں۔ ہم نے گزشتہ کتابوں میں اس سلسلے  میں جو گفتگو کی ہے۔ شیعوں اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

          میرے بعد ائمہ بارہ افراد ہوں گے اور یہ سب کےسب قریش سے ہوں گے۔(۷)

          آپ(ص) نے مزید فرمایا۔ یہ امر ( امامت) قریش ہی میں رہے گا خواہ قریش میں صرف دو ہی آدمی کیوں نہ بچے ہوں۔

اور چونکہ سبھی جانتے ہیںکہ خدا  نے آدم(ع) و نوح(ع) و ابراہیم(ع) و خاندان عمران کو دنیا کے تمام لوگوں میان منتخب کیا ہے۔ پس پیغمبر اکرم(ص) نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے ان تماملوگوںپر بنی ہاشم کو منتخب کیا ہے اور یہ لوگ تمام برگزیدہ افراد پر فضیلت رکھتے ہیں۔(۸)

صحیح مسلم کے باب فضائل میں (دیگر لوگوں پر فضیلت پیغمبر اکرم(ص)) کے باب میں آن حضرت(ص)  سے منقول ہے کہ

                   خدا نے کنانہ کو فرزندان اسماعیل(ع) سے منتخب کیا اور قریش کو کنانہ سے۔ اور بنی ہاشم کو قریش سے اور مجھے بنی ہاشم سے۔(۹)

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے بنی ہاشم کو تمام مخلوق پر فوقیت اور فضیلت دی ہے اور بنی ہاشم پر رسول اکرم(ص) کو فوقیت و فضیلت دی ہے۔ لہذا بنی ہاشم کا رتبہ آپ کے بعد ہے۔ اور رسول اکرم(ص) نے تمام بنی ہاشم میں علی(ع) اور ان کی

اولاد کو منتخب کیا اور خدا کے حکم سے انہیں اپنا جانشین بنایا ہے۔ جس طرح سے خود آپ(ص) پر درود و سلام بھیجنا واجب تھا، اسی طرح آپ نے علی(ع) اور اولاد علی(ع) پر درود و سلام بھیجنا واجب قرار دیا ہے۔ اس وجہ سے اکثر مفسرین نے علی(ع) و آل علی(ع) کو آیہ تطہیر کا مصداق بتایا ہے۔ صرف آیہ تطہیر ہی نہیں بلکہ آیت مودت، آیت ولایت اور آیت اصطفاء کا مصداق بھی اہل بیت(ع) ہی ہیں۔کتاب کے وارث، اہل ذکر، راسخون فی العلم اور سورہ ہل اتی سے مراد اہل بیت علیہم السلام ہی ہیں۔

رسول اکرم(ص) کی وہ حدیثیں جن کی صحت پر تمام علماء فریقین کو اتفاق ہے، بہت زیادہ ہیں ان حدیثوں میں رسول اکرم(ص) نے اہل بیت علیہم السلام کی فضیلتوں کو بیان کیا ہے اور انہیں ہدایت دینے والے رہبر بتایا ہے۔ چونکہ یہ حدیثیں بہت زیادہ ہیں لہذا ہم صرف دو حدیثوں کا ذکر کرتے ہیں۔

۱۔ مسلم نے اپنی صحیح میں باب فضائل علی ابن ابی طالب(ع) میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

          اے لوگو! میں بھی ایک بشر ہوں، ممکن ہے جلد ہی خدا کا بھیجا ہوا فرشتہ آجائے اور میں اس کی

دعوت پر لبیک کہہ دوں۔ آگاہ ہو جاؤ! میں تمہارے درمیان دور گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں

ایک کتاب خدا ہے  جس میں ہدایت اور نور ہے۔ کتاب خدا کو مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے میرے

اہل بیت(ع) ہیں تمہیں خدا کا واسطہ میرے اہل بیت(ع) کو بھلا نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ میرے

اہل بیت(ع) کو بھلا نہ دینا۔ تمہیں خدا کا واسطہ میرے اہل بیت(ع) کو یاد رکھنا۔(۱۰)( صحیح مسلم ج۴،

ص۱۸۷۳، ح۲۴۰۸)

۲۔ مسلم نے اپنی صحیح میں سعد بن ابی وقاص سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول خدا(ص) نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا :

                   ” اے علی(ع) تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہےجو ہارون(ع) کو موسی(ع) سے تھی۔

                   مگر یہ کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا۔“(۱۱)

ہم اختصار کی بنا پر ان ہی دو حدیثوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان حدیثوں سے واضح اور ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب(ع) عترت پیغمبر(ص) کے بزرگ تھے اور آپ ہی نے رسول خدا کی حفاظت کی اور ان کے راستہ کو جاری رکھا۔ رسول اکرم(ص) نے اسی بات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے:

                   میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں۔

کیا یہی حدیث کافی نہیں ہے اس بات پر کہ امت علی(ع) کے بغیر ” شہر پیغمبر“ میں داخل ںہیں ہوسکتی۔ ان دو بزرگوں پر خدا کا درود و سلام ہو خدا نے گھر میں صرف دروازہ سے داخل ہونے کا حکم دیا ہے۔

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت علی(ع) نے صرف رسول خدا(ص) سے علم حاصل کیا ہے آپ بچپن ہی سے رسول خدا(ص) کی تربیت میں رہے اور ہمیشہ رسول اکرم(ص) کے ساتھ رہتے تھے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے گزشتہ اور آیندہ کا علم آپ(ع) کو عطا کیا یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:

          ” جبرئیل نے مجھے کوئی ایسی چیز نہیں دی جو میں نے علی ابن ابی طالب(ع) کو نہ سکھائی ہو“۔

          اس بارے میں خود حضرت علی(ع) ارشاد فرماتے ہیں:

          ” اگر مسند قضاوت بچھا دی جائے تو میں اہل توریت کے لیے توریت سے اور اہل انجیل کے لیے

          ان کی انجیل سے اور اہل قرآن کے لیے قرآن سے فیصلہ کروں گا۔“(۱۲)

آپ(ع) مزید فرماتے ہیں : ” سلونی قبل ان تفقدونی“

” مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ میں تمہارے درمیان سے اٹھ جاؤں۔“(۱۳)

تاریخ اسلام میں تمام مسلمان اور اصحاب اس بات پر متفق ہیں کہ دین و دنیا کے سب سے بڑے عالم علی(ع) ہیں۔ آپ(ع) دنیا کے پارساترین اور زاہد ترین فرد تھے آپ(ع)  نے ہر طرح کی مصیبت اور سختیوں میں صبر کے اعلی ترین مدارج کا مظاہرہ کیا اور جنگوں میںآپ(ع) کی شجاعت کی برابری کون کرسکتا ہے؟

اسی طرح خطا کاروں کو معاف کرنے اور عفو و بخشش کا مظاہر کرنے میں بھی آپ(ع) کا ثانی نہیں ہے۔

ان مطالب کو کامل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ رسول اکرم(ص) اور اہل بیت(ع) کے درمیان رشتہ اور ربط کے بارے میں آپ کے ارشادات پر توجہ کی جائے۔

اسرار پیغمبران (اہل بیت(ع)) کے حوالہ کیا گیا ہے جو بھی ان کی پناہ میں آئے اس نے راہ حق اختیار کی ہے، ( وہ علم رسول(ص) کے مخزن ہیں اور ان کی شریعت کے احکام کو بیان کرتے ہیں۔ قرآن و سنت ان کے یہاں محفوظ ہیں، وہ پھیلے ہوئے پہاڑ کی طرحدین کے پاسبان ہیں۔ انہیں کے ذریعہ اس کی پشت مضبوط ہے اور اس کے پہلو کی کپکپی دور ہوئی ہے۔ ( نہیج البلاغہ/خطبہ۲)

خدا کی قسم ہمیں پیغاموں کے پہنچانے، وعدوں کو پورا کرنے، امر و نہی کو بیانکرنے کا پورا علم ہے اور ہم اہل بیت(ع) پر ہی علم و حکمت الہی کے دروازےکھلے ہیں۔ ( نہیج البلاغہ/خبطہ۱۲۰)

کہاں ہیں وہ لوگ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ دعوی کرتےہیں کہ ہو ”راسخون فی العلم“ہیں نہ کہ ہم۔خدانےاسکےعوض ہمیں بلندی دی اور انہیں پستی میں ڈال دیا۔ ہمیں عطا کیا اور انہیں محروم کیا۔ ہمیں اپنی عنایت کے دائرہمیں رکھا اور انہیں باہر کردیا۔ ہم ہی سے طلب ہدایت اور گمراہی کی تاریکیوں کو

 چھانٹنے کی خواہش کی جاسکتی ہے۔ بلا شبہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخبنی ہاشم کے کشت زار سے ابھرے ہیں۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ بنی ہاشمکے علاوہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۱۴۴)

بلا شبہ، آل محمد(ص) کی مثال آسمان کے ستاروں کے مانند ہے۔ اس لیے اگر ایک ستارہ غروب ہوتا ہے تو دوسرا ظاہر ہوجاتا ہے گویا تمہارے حق میں خدا نے خیرو وبرکت کو کمال کی حد تک پہنچایا ہے اور جو کچھ تم آزرو کرتے ہو( خدا نے ) تمہیں بخشا ہے۔ ( نہج البلاغہ/خبطہ۱۰۰)

اس امت میں کسی کو بھی آل محمد(ص) پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں وہ ان کے برابر نہیں ہوسکتے۔ وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں۔آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملنا ہے۔ حق ولایت کی خصوصیات انہی کے لیے ہیں انہی کے بارے میں پیغمبر(ص) کی وصیت اور انہی کے لیے نبی(ص) کی وراثت ہے۔ اب حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہوگیا۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۲)

اور ( میں اپنے نبی(ص) کے طریقے اور) شاہراہ حق پر گامزن ہوں اور اسے باطل کے راستوں سے جدا کرتا رہتا ہوں۔ اپنے نبی(ص) کے اہل بیت(ع) کو دیکھو! ان کی سیرت پر چلوں ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت فلاح سے باہر نہیں و فلاح سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہوجاؤ گے اور نہ( انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہوجاؤ

گے۔ (نہج البلاغہ/خبطہ۹۷)

وہ علم کے لیے باعث حیات اورجہالت کے لیے سبب مرگ ہیں۔ ان کا حلم ان کے علمکا، ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کو پتہ دیتی ہے۔ وہ نہ حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں وہ اسلام کے ستون اور بچاؤ کا ٹھکانہ ہیں۔ ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا او اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔ انہوں نے دین کو سمجھ کر اور حاصلکر کے اس پر عمل کیا ہے نہ یہ کہ صرف سنا اور لوگوں سے بیان کردیا ہو۔ یوں تو علمکے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہوکر اس کی نگہبانی کرنے والے کم ہیں۔(نہج البلاغہ/خطبہ۲۳۹)

ہاں! یہ نہج البلاغہ کے کچھ گوشے ہیں جنہیں میں نے امام علی(ع) کی زبان سے نقل کیاہے یہ کلام پیغمبر(ص) اور آل پیغمبر(ص)  کے درمیان حقیقی رابطہ کی شکل کو بیان کرتاہے نیز اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ صرف اہل بیت(ع) ہی مختلف زمانوں اور صدیوںمیں پوری بشریت کے اختلافِ فکر و ذوق کے باوجود، آںحضرت(ص) کی راہ پر چلانے والےاور ان کے دین کی تبلیغ کرنے والے ہیں۔

امام(ع)، مسلمانوں کے نزدیک عترت طاہرہ(ع) کی منزلت کی وضاحت پر ہی بس نہیں کرتےبلکہ فرماتے ہیںکہیہ خود عترت طاہرہ(ع) کے محور و سردار ہیں اور پھر اپنی اس اہم ذمہ­داری کی طرف اشارہ کرتے ہیںجسے خدا و رسول(ص)  نے آپ کے سپرد کیا ہے کہ آپ اسے لگوں کےدرمیان نبھائیں اور اسے ترک نہ کریں۔

آپ فرماتے ہیں :

تو تم کہاں جارہے ہو اورتمہیں کدھر موڑا جارہا ہے حالانکہ ہدایت کے جھنڈے اور بلند نشانات ظاہر و روشن ہیں اور حق کے مینار نصب ہیں

 اور تمہیں کہاں بہکایا جارہا ہے اور کیوںاِدھر اُدھر بھٹک رہے ہو جبکہ تمہارے نبی(ص) کی عترت تمہارے درمیان موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ ذکر خیر اور صدق گفتار سے ہم آہنگ ہیں لہذا انہیں بھی قرآن کے مانند محترم جانو! اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کےسرچشمہ ہدایت پر اترو۔

اے لوگو! خاتم النبیین کے اس ارشاد کو سنو کہ ( انہوں نے فرمایا) ہم میں سے جو مرجاتا ہے وہ مردہ نہیں ہے۔ اور ہم میں سے ( جو بظاہر مرکر) بوسیدہ ہوجاتا ہے وہ حقیقت میں بوسیدہ نہیں ہے۔ جو باتیں تم نہیں جانتے ان کے متعلق زبان سے کچھ نہ نکالو اس لیے کہ حق کا بیشتر حصہ انہیں چیزوں میں ہوتا ہے جن سے تم بیگانہ اور نا آشنا ہو۔ ( جس شخص کی تم پر حجت تمام ہو)  اور تمہاری کوئی حجت اس پر تمام نہ ہو۔ وہ میں ہوں۔ کیا میں نے تمہارے سامنے ثقل اکبر(قرآن) پر عمل نہیں کیا اور ثقل اصغر ( اہل بیت(ع)) کو تم میں نہیں رکھا ( چھوڑا) ۔ میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑا۔ حلال و حرام کی حدیں بتائیں اور اپنے عدل سے تمہیں عافیت کے جامے پہنائے۔ اور قول و عمل سے حسن سلوک کا فرش تمہارے لیے بچھا دیا اور تم سے ہمیشہ پاکیزہ اخلاق کے ساتھ پیش آیا۔جس چیز کی گہرائیوں تک نگاہ نہ پہنچ سکے اور فکر کی جولانیاں عاجز رہیں۔ اس میں اپنی رائے کو دخل نہ دو۔ ( نہج البلاغہ/۸۷)

محترم قارئین ! اگر امام علی(ع) کے کلام پر توجہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ وہ خود حدیث ثقلین کی تفسیر ہیں۔ وہی حدیث جسے اہل سنت حضرات نے رسول خدا(ص) سے نقل کیا کہ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت اگر ان دونوں سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔

پیغمبر(ص) نے تمہارے درمیان وہی چیزیںچھوڑی ہیںجو گزشتہ انبیاء اپنی امتوں کے درمیان چھوڑا کرتے تھے اس لیے کہ وہ لوگوں کو راہ روشن اور نشان محکم قائم کیے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔ پیغمبر(ص) نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے اس حالت میںکہ انہوں نے کتاب کے حلال و حرام واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ، رخص و عزائم، خاص و عام، عبر و امثال، مطلق ومقید، محکم و متشابہ کو واضح طور پر بیان کردیا۔ مجمل آیتوں کی تفسیر کردی اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔ اس میںکچھ آیتیں وہ ہیں جن کا جاننا واجب قرار دیا گیا ہے۔ اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے واقف نہ رہیں تو مضائقہ نہیں ہے۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا واجب ہونا ثابت ہے لیکن حدیث میں اس کو منسوخ کیا گیا ہے۔ کچھ مطالب ایسے ہیں جن کا وجوب سنت میں واجب ہے اور اس پرعمل نہ کرنے کی اجازت دی گئی  ہے۔اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آیندہ میں ان کا وجوب برطرف ہوجاتا ہے۔ قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہےکچھ کبیرہ ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کے لیے مغفرت کی توقعات پیدا کی گئی ہیںکچھ اعمال ایسے ہیں جن کاتھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ ( نہج البلاغہ/خطبہ۱)

دین سے لگاؤ ماضی و حال میں

ظاہر سی بات ہے کہ دین اسلام جسے پیغمبر اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لائے آخری دین و شریعت ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:

                   ”ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ “( احزاب/۴۰)

محمد(ص) تم میں سے کسی شخص کے  باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کےرسول اور آخری پیغمبر ہیں۔

جب حضرت محمد(ص) آخری پیغمبر اور آپ کی کتاب آخری کتاب ہے۔ تو پھر آپ کے بعد نہ کوئی پیغمبر ہے اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب الہی ہے۔ دین اسلام، دین خالص ہے جس میںتمام گزشتہ دین و آئین جذب ہوگئے ہیں۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

                   وہ ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق پر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب

                   کردے اور خدا شاہد و گواہ کے عنوان سے کافی ہے۔

لہذا رسول اکرم(ص) کی بعثت کےبعد سارے انسانوں پر واجب اور لازم ہے کہ گزشتہ ادیان جیسے یہودیت ، عیسائیت سے دست بردار ہوجائیں اور اسلام اختیار کر لیں۔ شریعت محمدی(ص) کی رو سے خدا کی عبادت کریں کیوںکہ خدا اس دین کے علاوہ کسی اور دین کو قبول نہیں کرے گا۔ قرآن میں ارشاد ہے۔

”جوخداکےدین کےعلاوہ کوئی اوردیناختیارکرےگااس کا دین ہرگزقبول نہیں کیاجائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں

میں سے ہوگا۔ ( آل عمران/۸۵)

اس آیت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہود و نصاری لاکھ دعویٰ کریں کہ ہماری شریعتیں صحیح ہیں اور ہم حضرت عیسیٰ و موسی علیہما السلام کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں در اصل رسول اکرم(ص) کی پیروی کرنی ہوگی۔ کسی یہودی و عیسائی کا اپنے دین پر باقی رہنے کا دعوی صحیح نہیں ہوسکتا کیوںکہ حضرت محمد(ص) تمام عالم بشریت کے لیے مبعوث فرمائے گئے ہیںاور آپ(ص) سارے عالم کے لیے رحمت ہیں اس بات کا یہ مطلب نہینکہ گزشتہ آسامنی شریعتیں بالکل بے اہمیت ہیں۔ خدا کے علم میں یہ بات تھی کہ اس کے بندوں نے شریعتوں کو تحریف کیا۔ اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق اس کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرڈالا۔ وہ گمراہ ہوگئے اور اپنے ساتھ دوسروںکو بھی گمراہ کیا۔ ایسے میں رسول اکرم(ص) کی بعثت سارے عالم کے لیے رحمت ہے  تاکہ سب حق کو حاصل کریں اور جنت کے مستحق ہوجائیں۔

لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ حق سے کتراتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات وگمراہی میں گرفتار ہیں۔ خدا ایسے افراد کے بارے میں فرماتا ہے:

اہل کتاب اور مشرکوں سے جو لوگ کافر تھے جب تک ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل نہ پہنچے وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہ تھے۔ خدا کی طرف سے رسول(ص) بھیجے گئے تاکہ انہیں پاک آسمانی کتابیں پڑھ کر سنائیںاس کتاب میں پر زور اور درست باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ اہل کتاب جب کہ ان کے پاس کھلی ہوئی دلیل آچکی تھی۔ ( بینہ/۱۰۴)

کسی یہودی یا عیسائی کے لیے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ محمد(ص) پر ایمان رکھتا ہوں لیکن اپنے دین پر باقی ہو ں جیسا کہ بہت سی عیسائی عرب راہبوں سے میں نے سنا ہے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ خدا کو یہ بات ہرگز قبول نہ ہوگی مگر یہ کہ وہ

رسول اکرم(ص) کی کامل طور سے پیروی کریں۔ اس بارے میں ارشاد خداوندی ہے :

          جو لوگ ہمارے پیغمبر امی(ص) کے قدم بقدم چلتے ہیں جس کی بشارت کو اپنے یہاں توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ نبی جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور پاک چیزیں ان پر حلال اور ناپاک او گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے۔ اور وہ سخت احکام او رنج و مشقت کا بوجھ  جو زنجیر کی  مانند ان کی گردن پر تھا ان سے ہٹا دیتا ہے۔ پس یاد رکھو جو لوگ اس نبی(ص) پر ایمان لائے، اس کی عزت کی اور اس کی مدد کی اور  اس نور ( قرآن) کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے تو یہی لوگ اپنی دلی مرادیں پائیں گے۔( اعراف/۱۵۷)

خدا کی یہ دعوت نہ صرف یہود و نصاری، بلکہ ساری انسانیت کو شامل ہے اس میں کسی طرح کا کوئی استثناء نہیں ہے۔

خدا ارشاد فرماتا ہے:

اے رسول(ص) تم کہہ دو کہ لوگو! میں تم سب کے پاس اس خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں جس کے پاس سارے آسمان و زمین کی بادشاہت (حکومت) ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے وہی مار ڈالتا ہے پس لوگو! خدا اور اس کے رسول، نبی آدم پر ایمان لاؤ،جو خود بھی خدا اور اس کی باتوں پر( دل) سے ایمان رکھتا ہے اور اسی کے قدم بقدم چلو تا کہ ہدایت پاؤ۔

قرآن صراحت کےساتھ اعلان کررہا ہے کہ صرف رسول اکرم(ص) کی نبوت کا معتقد ہونا کافی نہیں ہے بلکہ آپ کی تعلیمات پر عمل بھی ضروری ہے۔ اور پیغمبروں کو بھیجنے کی حکمت و مصلحت بھی یہی ہے۔ لہذا تاریخ ہمیں کہیں بھی یہ نہیں دکھاتی کہ دنیا کے کسی پیغمبر نے اپنی امت سے  یہ کہا ہو کہ مجھ سے پہلے جو

تمہارا دین تھا اس پر باقی رہو۔

ہاں اتنا ضرور ہے کہ پیغمبران(ع) خدا اپنے سے سابق پیغمبروں پر ایمان اور ان کی تصدیق کو لازم جانتے تھے تاکہ کوئی ان کی نبوت پر اعتراض اور خدشہ نہ کرسکے اور عوام جہالت کی بنا پر انہیں خدا نہ مان بیٹھیں۔ ارشاد خداوندی ہے:

                   پیغمبر(محمد (ص)) اور مومنین جو کچھ ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان لائے، سب کے سب خدا ، اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں یا نبیوں پر ایمان لائے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم خدا کے پیغمبروں میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور کہنے لگے: اے ہمارے پروردگار! ہم نے تیرا ارشاد سنا اور مان لیا۔ پروردگار! ہمیں تیری ہی مغفرت کی خواہش ہے اور تیری ہی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ (بقرہ/۲۸۵)

ان آیات سے یہواضحہوتا ہےکہاسلام،مومنبندوںکےلیےخدا کا آخری تحفہ ہے۔اور اس کے احکام و قوانین اہم اور ہر زمان و مکان سے سازگار ہیں۔ یہ قیامت تک کے لیے ہیں کیوںکہ رسول اکرم(ص) کے بعد کوئی نبی نہیںآئے گا اور نہ قرآن کے بعد کوئی کتاب آنے والی ہے۔ خدا اس سلسلہ میں ارشاد فرمارہا ہے:

          میں تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے دین کو اسلام کے عنوان سے پسند کر لیا۔ ( مائدہ/۳)

آج کا مسلمانوں کا ایک طبقہ اسلام اور دینی احکام کا پایند نہیں ہے۔ ان کا یہ دعوی ہے کہ اسلام کو عملی طور پر لاگو نہیں کیا جاسکتا اور عوام کی کثرت اسلامی احکام کو عملی طور پر اپنانے سے قاصر ہے۔ حتی کے بعض روشن خیال دانشور یہ کہتے  ہیں کہ زمان و مکان کے تقاضے کے مطابق اسلام میں رد و بدل ہونا چاہیئے اور

 تمام موارد میں اجتہاد ہونا چاہیئے۔

روشن خیال او تمدن ماب افرداممکن ہے بہت سے جوانوں کی گمراہیکا سبب بن جائیں کیوںکہ یہ افراد اسلامی دوستی کا بہت زیادہ دکھاوا کرتے ہیں اور یہ سمجھتے  ہیں کہ سب سے زیادہ انہیں اسلامی احکام کو لاگو کرنے کی فکر ہے۔ وہ مسلمانوں کی پسماندگی کی ویجہ یہی بتاتے ہیں کہ پندرہ صدیوں سے ان کےدین میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ آج زمانہ کتنا بدل چکا ہے جب دین آیا تھا تو آمد و رفت اور ٹرانسپورٹیشن کے ذرائع حیوانات ہوا کرتے  تھے اور آج کا زمانہ راٹوں کا زمانہ ہے جن کی رفتار آواز کی رفتاد سے سے بھی زیادہ ہے۔ آج کا زمانہ ٹیلی فون، فیکس اور کمپیوٹر کا زمانہ ہے آج چند سیکنڈ میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ لہذا ہم قرآن کو سی سطحی انداز سے نہیں لے سکتے۔ مثلا آج کل چور کا ہاتھ کاٹنا یا قاتل کا سر تلوار سے اڑانا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اس سلسلہ میں یہ لوگ عجیب و غریب فلسفہ پیش کرتے  ہیں۔

میں بھول نہیں سکتا کہ ایک روز یونیورسٹی کے ایک استاد جو روشن خیال بھی تھے سے گفتگو ہوئی۔ گفتگو کے درمیان ہم نے ان سے کہا: آنحضرت(ص) فرماتے ہیں  :

          علی(ع) کے جیسا جوان مرد اور ذوالفقار کے جیسی تلوار نہیں ہے۔

                                                                                      ( مناقب خوارزمی/۱۰۱)

وہ مجھ پر بہت انسے اور کہنے لگے ڈاکٹر! س طرح کی باتیں پھر نہ کہنا! یہ کلام رسول(ص) کےزمانہ میں معنی تھا۔ جب دشمن پر غالب آنے میں تلوار کا اہم کردار ہوا کرتا تھا اور یہ واحد ہتھیار تھا کہ جس پر بہادر رجز، شعر اور قصیدہ کہتے تھے۔ لیکن آج مشین گن کے زمانہ میں ہیں جس کے ایک سیکنڈ مین ۷۰ گولیاں نکلتی ہیں۔ آج جیٹ لڑاکا جہازوں کا زمانہ ہے جو چند سیکنڈوں میں ایک         بڑے شہر کو نابود کر دیتے ہیں۔ بلکہ ہم ایٹم بم اور جدید ہتھیاروں کے زمانہ میں

ہیں جو چند لمحوں میں ایک براعظم کو پوری طرح نابود کرسکتے ہیں۔ اور آپ ان سب سے بے خبر ہیں اور ابھی علی بن ابی طالب(ع) کی شجاعت و بہادری کی تعریف کررہے ہیں۔

ہم نے کہا: ہاں! البتہ جو باتیں آپ نے کہی ہیں یہ ان کی مخالف بھی نہیں ہے اور ہر  جگہ کے لیے ایک بات موجود ہے۔ کیا آپ نے خداواند عالم کا وہ کلام نہیں دیکھا جہاں پر اس نے مقابلہ کرنے والے اسلحوں کا جدا جدا تذکرہ کرنے کے بجائے سبھی کو ایک کلمہ میں بیان فرمایا ہے:

                  وَ أَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ“(انفال/6۰)

اور ان سے (مقابلہ) کے لیے جس قدر قوت اکٹھا کر سکتے ہو کرو۔

ہر شخص اپنے زمانہ کی زبان میں مصدر قوت کی تعریف کرتا ہے۔ چاہیئے سب کے لیے ایک ہی معنی ہاتھ آئے یعنی اسلحہ۔ چنانچہ پروردگار عالم فرماتا ہے:

”وَ أَنزَلْنَا الحَْدِيدَفِيهِبَأْسٌشَدِيدٌ“ (حدید/۲۵)

ہم نے لوہے کو پیدا کیا جس میں سختی، جنگ ( میں کام آنے کی صلاحیت) اور لوگوں کے لیے فوائد ہیں۔

لہذا تمام اسلحے چاہے وہ ابتدائی ہوں جیسے تلوار و نیزہ یا جدید ہوں جیسے بم، مشین گن، ٹینک۔۔۔۔ ان سبھی کو کلمہ ( باس شدید) اپنے اندر شامل کر لیتا ہے اور دوسری طرف تمام راحت و آرام کے وسائل مثلا گاڑیاں، ہوائی جہاز، کشتی، ٹیلی ویژن وغیرہ کلو ” منافع للنالس“ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ کتنا پاکیزہ ہے وہ پروردگار جس نے لوہے کو خلق کیا اور اسے لوگوں کے حوالہ کیا اور جو باتیں وہ نہیں جانتے تھے تعلیم فرمائیں۔

اس طرح قرآن تک سبھی کی دسترس ہے اور ہر نسل اپنی زبان میں اسے سمجھتی اور محسوس کرتی ہے اور آپ کا یہ کہنا کہ قرآن کو سطحی ادر ظاہری طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ اور چور کے ہاتھ کاٹنا یا قاتل کا سر قلم کرنا۔ ان سے اگر آپ کی

مراد یہ ہے کہ احکام الہی میں بشری تقاضوں کے تحت تبدیلی ہونی چاہیئے اور آپ کے خیال میں یہ احکام بندگان خدا کے لیے مناسب نہیں ہیں اور مہربانی و نرمی سے دور ہیں تو اس کلامکو قبول کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے کہ یہ سو فیصدی ہی کفر ہے۔

لیکن اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہمین ترقی کرنی چاہیے اور مجرموں کو سزا دینے اور پھانسی دینے کے وسائل کو جدید بنانا چاہئے تو یہ بحث کا مقام ہے کیوںکہ یہ چیزیں امور ثانوی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور اسلامی شریعت نے اس پر سختی نہیں کی ہے گرچہ قصاص میں حدود الہی کے اجرا کےسلسلہ میں سختی کی ہے۔ اور خداوند عالم نے فرمایا ہے:

                   اے مومنین ! تم پر قصاص واجب کیا گیا ہے۔اے عقل رکھنے والو! قصاص میں زندگی ہے

                    تاکہ تم تقوی کو اپنا شعار بنالو۔ ( بقرہ/۱۷۹۔۱۷۸)

اب یہ کہ چور کا ہاتھ تلوار سے یا چاپڑ سے یا پھر کسی جدید وسیلہ سے کاٹنا چاہئے اس کی بازگشت حاکم شرع یا مرجع تقلید کی طرف ہے کہ وہ اجتہاد کرے اور اپنا نظریہ دے۔

استاد محترم! اہم یہ ہے کہ الہی احکام کو یورپی حکومتوں کے ہاتھوں وضع کیے گئے احکام کے ساتھ تبدیلی نہ کریں۔ اور کیا خود پورپیوں نے مجرم کے لیے پھانسی کیسزاکو ختم نہیں کردیا ہے چاہے اس کا جرم کتنا بڑا کیوں  نہ ہو؟ اس طرح اس کام کے ذریعہ حکم خدا کو ترک کرتے ہوئے قصاص کو ختم کردیا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو امن و امان کا زندگی سے خاتمہ ہوجائے گا۔ مجرم فساد و تباہی پھیلائیں گے  اور انسانوں کو نابود کرڈالیں گے اور زندگی ایک ایسے جہنم میں تبدیل ہوجائے گی کہ اس میں کوئی خیر نہ ہوگا۔

استاد کہنے لگے : شرکا علاج شر سے نہیں جاسکتا اور اعداد وشمار سے پتہ

چلتا ہے کہ بہت سے موت کی سزا پانے والے بے گناہ تھے۔

میں نے کہا : معذرت چاہتا ہوں آپ کی باتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ خود کو پروردگار عالم سے زیادہ عقل و فہم رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ اور یہ بات غلط ہے۔ اور یہ کہ اکثر چاہیئے کہ اسلام صرف تہمت یا الزام کی بنیاد پر سزا نہیں دیتا بلکہ سزا کے لیے اقرار، اعتراف، گواہ و شاہد وغیرہ ضروری ہے۔ بہر حال ہماری گفتگو کسی نتیجہ پر نہ پہنچی اس لیے کہ ہر ایک اپنی بات پر جما ہوا تھا۔

کتنا بہتر ہوگا کہ ہم اپنی گفتگو آںحضرت(ص) کے متعلق حضرت امیرالمومنین(ع)  کے کلام سے تمام کردیں آپ فرماتے ہیں:

          اللہ نے اپنے رسول کو چمکتے ہوئے نور روشن دلیل کھلی ہوئی راہ شریعت اور ہدایت دینے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ۔ ان کا قوم و قبیلہ بہترین قوم و قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے۔ جس کی شاخیں سیدھی اور پھل جھکے ہوئے ہیں۔ ان کا مولد مکہ اور ہجرت کا مقام مدینہ ہےجہاں سے آپ کے نام کا بول بالا ہوا او آپ کا آوازہ ( چار سو) پھیلا۔ اللہ نے آپ کو مکمل دلیل شفا بخش نصیحت اور ( پہلی جہالتوں کی)  تلافی کرنے والا پیاغام دے کر بھیجا اور ان کے ذریعہ سے ( شریعت کی ) نامعلوم راہیں آشاکر کیں۔ اور غلط سلط بدعتوں کا قلع قمع کیا( قرآن و سنت میں) بیان کیے ہوئے احکام واضح کیے تو اب جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے تو اس کی بدبختی مسلم، اس کا شیرازہ درہم برہم اور اس کا منہ کے بک گرنا سخت و ( باگزیر) اور انجام طویل حزن اور مہلک عذاب ہے۔ ( نہج البلاغہ/عربی۱6۱۔اردو۱6۰)

ٹھیک یہی قرآن کریم کی عبارت ہے جو فرماتا ہے:

جو بھی اپنے لیے اسلام کے علاوہ اور کوئی دین اختیار کرے تو اس سے

ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوگا۔۔۔(آل عمران/۸۵)

میرے خیال میں اس بیان کے بعد اب اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ چاپلوسی کرتے ہوئے اپنے یہودی و مسیحی دوستوں سے کہیں کہ چونکہ ہم سبھی ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اس لیے ہم بھی حق پر ہیں اس لیے کہ جس خدا نے موسی(ع) و عیسی(ع) کو مبعوث فرمایا اسی خدا نے محمد(ص) کو بھی مبعوث فرمایا اور اگر ہم پیغمبروں کے بارے میں اختلاف رکھتے ہیں تو کیا ہوا، جس خدا نے ان کو مبعوث فرمایا اس میں تو اختلاف نہیں رکھتے ! جبکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

    ( اے رسول(ص)) تم ان سے پوچھو کہ کیا تم ہم سے خدا کےبارے میں جھگڑتے ہو حالانکہ ( وہی ) ہمارا بھی پروردگار ہے اور (وہی) تمہارا بھی پروردگار ہے۔ ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے عمل کے ذمہ دار ہو۔ اور ہم تو نرے کھرے اسی کے ہیں۔ کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم(ع)، اسماعیل(ع)، اسخق(ع) اور یعقوب(ع) سب کےسب یہودی یا نصرانی تھے( اے رسول(ص)) ان سے پوچھو تو کہ تم زیادہ واقف ہو یا خدا اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس خدا کی طرف سے گواہی موجود ہو( کہ وہ یہودی نہ تھے) اور پھر وہ چھپائے اور جو کچھ تمکرتے ہو خدا اس سے بے خبر نہیں ہے۔( بقرہ/۱۴۰۔۱۳۹)

کیا اسلام پر عمل مشکل ہے؟

یہ وہ دعوی ہے کہ جس کی کوئی بنیاد نہیں اور جو بھی اس طرح کا دعوی کرے وہ یا تو جاہل اور بے وقوف ہے  یا اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا ہے یا پھر اسلام کا دشمن ہے۔ اور لوگوں کو اس سے متنفر کرنا چاہتا ہے۔ اور اس کوشش میں ہےکہ لوگ اپنے دینی احکام سے دست بردار ہوجائیں۔

یا آخری صورت یہ ہے کہ وہ غلو کرنے والا دقیانوس ہے۔ جو ضدی فقہا کے علاوہ اور کسی کے نظریہ کو قبول نہیں کرتا جنہوں نے لوگوں پر خدا کی پرستش کو حرام کر ڈالا اور خود کو لوگوں کے لیے خدا کا جانشین مقرر کردیا ہے۔ لہذا یہ اپنی عقل یا اپنی مخصوص روایتوں کے تحت حلال وحرام کرتے ہیں اور فتوی دیتے ہیں!

اس کے متعلق جو جملہ سب سے پہلے کہنا چاہیئے آںحضرت(ص)  کا کلام ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

آسانی پیدا کرو اور لوگوں پر سختی نہ کرو۔ بشارت دو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔(۱۴)

خود پر بھی سختی بہ کرو تاکہ خداوند عالم تم پر سختی نہ کرے۔ جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔(۱۵)

اور اکثر اپنے اصحاب کے درمیان فرماتے تھے:

میں نہ تمھارے لیے بدبختی اور بیچارگی چاہتا ہوں اور نہ ہی ذلت و رسوائی۔ بلکہ مجھے تو خدا نے آسانی چاہنے والے معلم کی صورت مبعوث فرمایا ہے۔(۱6)

اور یہ مشہور ہے کہ آںحضرت(ص) جب وہ باتوںکے درمیان کوئی چیز اختیار کرنا چاہتے تو سب سے آسان کو اختیار فرماتے تھے۔

اور اسی طرح جیسا کہ بعض خیال کرتے ہیں کہ آنحضرت(ص) شارع نہیں تھے۔(۱۷) آنحضرت(ص) کی امر و نہی سوائے پروردگار عالم کی تبلیغ کے اور کچھ نہیں تھی۔ آںحضرت(ص) جو کچھ پروردگار عالم کا حکم ہوتا اسے بغیر کسی کمی یا زیادتی کے لوگوں تک پہنچا دیتے تھے۔ اور جو کچھ کہتے سوائے وحی الہی کے کچھ اور نہ ہوتا۔ اس لیے کہ وہ اپنی خواہش نفس کی بنیاد پر گفتگو نہ کرتے تھے بلکہ سب وحی ہوتی تھی۔

” وَ مَا يَنطِقُ عَنِ الهَْوَىإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَى“(نجم/۴-۳)

اب ہم قرآن سے استفتا کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام مشکل و دشوار ہے؟ قرآن کے شروع کے مطالعہ میں ہی ہم اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں کہ وہ مشقت و تکلیف کو اپنے بندوں سے ختم کرتا ہے اور ان کے لیے ہرگز حرج مرج نہیں چاہتا۔ وہ فرماتا ہے:

                   خدا نے تم کو منتخب کیا اور تمہارے لیے دین میں کسی قسم کی مشقت و تکلیف کو قرار نہیں دیا۔ ( حج/۷۸)

اور دوسری جگہ فرماتا ہے:

          خدا تمہارے لیے ہرگز سختی و مشکل نہیں چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے ہے تمہیں ( آلودگیوں سے) پاک رکھے اور تم پر اپنی نعمت (دین اسلام) کو تمام کرے تاکہ تم شکر گزار رہو۔(مائدہ/6)

اور ایک مقام پر فرماتا ہے:

خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ مشکل وسختی۔ (بقرہ/۸۵)

یہ آیات امت اسلامی سے مربوط ہیں جنہوں نے دین اسلام کو قبول کیا

ہے اور عبادات و معاملات میں اس کے احکام قوانین کو اختیار کیا ہے لیکن پروردگار رحمت سبھی کے شامل حال ہے چاہے وہ کسی بھی دین و آئین کا پیرو ہو۔ وہ سب ہی پر مہربان ہے اور اس نے کبھی بھی کسی کو مشقت میں نہیں رکھا۔

                   خداوند عالم انسان کی خلقت کے متعلق فرماتا ہے:

اس نے  اسے نطفہ کیا پھر راہ کو اس پر آسان کردیا۔ ( عبس/۱۹)

لہذا الہی راہ جسے انسان اپنی زندگی میں کوشش کے ساتھ طے کرتا ہے تاکہ اس کی طرف پلٹ سکے بہت ہی آسان راہ ہے اس میں ذرا بھی مشقت اور دشواری نہیں ہے۔

خداوند عالم نے اپنی کتاب میں چار جگہ انسان کو آسان باتوں کے لیے مکلف کیا ہے اور فرمایا ہے:

۱۔ خداوند عالم نے کسی کو بھی اس کی توانائی سے زیادہ حکم نہیں دیا ہے ( بقرہ/۲۸6)

۲۔ کسی کو بھی اس کی قوت  سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے۔( انعام/۱۵۲)

۳۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور اپنی توانائی کے مطابق نیک عمل انجام دیا۔ بے شک ہم کسی کو بھی اس کی قدرت سے زیادہ مکلف نہیں کرتے۔(اعراف/۴۲)

۴۔ اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف دیتے ہی نہیں اور ہمارے پاس تو لوگوں کے (اعمال کی) کتاب موجود ہے جو بالکل ٹھیک (حال) بتاتی ہے اور لوگوںکی ذرہ برابر حق تلفی نہیںکی جائے گی۔ ( مومنون/6۲)

ان آیات شریفہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ خداوند عالم نے کسی بھی شخص کو اس کی توانائی سے بڑھ کر تکلیف نہیں دی ہے اور یہ حضرت آدم(ع) کے زمانہ سے لے کر ابھی تک رہا ہے۔

اب اگر دین میں سختی پیدا ہوگئی ہے تو یہ لوگوں کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جنہوں نےشریعت کے اعلی مقاصد کو اپنی فہم کے مطابق تاویل کیا ہے یا پھر بعض بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے تھے۔ پھر اپنے کو مشقتوں میں مبتلا کرتے تھے اور تکلیف دیتے تھے تاکہ شاید خداوند عالم انہیں بخش دے اور ان کی مغفرت فرمائے۔ لہذا انہوں نے کچھ باتیں ایجاد کیں اور اپنے نفس پر سختی کی۔ خداوند عالم نے بھی ان کے لیے ان امور کو لازم و ضروری قرار دیا گرچہ آخر کار انہوں نے اسے پورا نہ کیا۔

اس کے متعلق خداوند عالم فرماتا ہے:

اور رہبانیت ( لذات سے کنارہ کشی) کی ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکالی تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ مگر ( ان لوگوں نے) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے ( خود ایجاد کر لیا) تو اس کو بھی جیسا بناہنا چاہیئے تھا نہ بناہ سکے۔( حدید/۲۷)

یہی وہ مقام ہے جہاں رسول خدا(ص) کا کلام نظر آتا ہے کہ :

اپنے آپ پر سختی نہ کرو تاکہ خدا بھی تم پ رسختی نہ کرے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔(۱۸)

اس منطق کو پیش نظر رکھنے کے بعد خداوند عالم کا کلام بھی سمجھ میں آتا ہے کہ جسے اس نے رسول اکرم(ص) کے متعلق فرمایا ہے:

( وہ نبی(ص)) جو انہیں اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک او پاکیزہ چیزیں ان پر حلال اور ناپاک اور گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے اور وہ ( سخت احکام کا) بوجھ جو ان کی گردنوں پر تھا اور وہ پھندے جو ان پر (پڑے ہوئے) تھے اسے ہٹا دیتا ہے۔ (اعراف/۱۵۷)

لہذا انہوں نے خود یہ قید و بند اپنے لیے تیار کر رکھی تھی۔ خدا نے ایسا نہ کیا

تھا۔

اس بحث سے ہم نتیجہ نکالتے ہیں کہ دین اسلام میں کسی قسم کی مشقت، سختی، مشکل اور قید وبند نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سہل اور آسان دین ہے جو بندوں کے لیے سوائے رحمت و مہربانی کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا دین ہےجس نے ہمیشہ انسانوں کی جسمانی اور روحانی کمزوری کا پاس رکھا ہے جیسا کہ خود فرماتا ہے:

                   خداوند عالم تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے بے شک انسان کمزور خلق ہوا ہے( نساء/۲۸)

                   اور تم پر یہ تمہارے پروردگار کی رحمت تخفیف کی وجہ سے ہے (بقرہ/۱۷۸)

           اس طرح آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اہل بیت(ع) کی شناخت کے مطابق اور عام مجتہدوں کے اجتہاد اور مشکل پرستوں کی مشقت سے قطع نظر اسلام کیسا سہل و آسان دین ہے کہ آج کا انسان بھی دیگر زمانوں کے انسانوں کی طرح بغیر کسی سختی اور مشکل کے اسلام کو اپنی دنیا وآخرت کےلیے منتخب کرسکتا ہے۔

کیا اسلام ترقی کو قبول کرتا ہے؟

بے شک! اسلام نہ صرف ترقی کا مخالف نہیں ہے بلکہ خود عین ترقی و تمدن ہے۔

اسلام وہ بلند معنی ومفہوم ہے جسے انسان نے بشریت کے آغاز سے ہی پالیا ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی آیات موجود ہیں جو علم اور حصول علم کا شوق دلاتی ہیں اور انسان سے چاہتی ہیں کہ زندگی کے اعلی مراحل تک پہنچنے کے لیے عقل و خرد سے کام لے چاہے اسے خلاء میں کیوں نہ پہنچنا ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اے گروہ جن و انسان اگر تم آسمان و زمین کی حدود سے آگے جاسکتے ہو تو جاؤ۔( رحمن/۳۳)(۱۹)

خداوند عالم نے ایک دوسری آیت میں انسان کو تمام مخلوقات پر برتر قرار دیا ہے اور اسے بتایا ہے کہ تمام کائنات اور مخلوقات اس کی خدمت پر کمر بستہ ہیں۔

فرماتا ہے:

خدا تو  وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے قابو میں کردیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور اس کے فضل (وکرم ) سے ( معاش کی) تلاش کرو اور شکر کرو اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو اپنے حکم سے تماہرے کام میں لگا دیا ہے  جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں ( قدرت خدا کی) بہت سی نشانیاں ہیں۔( جاثیہ/۱۲۔۱۳)

دوسری جگہ فرماتا ہے:

کیا تم لوگوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے انہیں تمہارا تابع کردیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ( خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں جھگرتے ہیں ( حالاںکہ) نہ ان کے پاس علم ہے نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روشن کتاب ہے)۔ (لقمان/۲۰)

وہ مسلمان جو اپنے خدا کی کتاب میں یہ پڑھتا ہے کہ جو کچھ آسمان میں افلاک، چاند، سورج، برج، کہکشائیں، ستارے، ہوا، بادل، برف و باران کا وجود ہے اور زمین پر  دریا، نہریں، پہاڑ، بیابان،جنگلات، درندے، حیوانات خزانے، معادن ، پتھر، جمادات و نباتات وغیرہ ہیں سبھی کچھ اس کے لیے مسخر کر دیئے گئے ہیں تو پھر وہ کیسے ہاتھ پر ہاتھ دھرے اہل مغرب کی ایجاد و پیشرفت کا منتظر رہتا ہے۔ اگر ایسا کرتا ہے تو اس نے اپنے فریضہ کو ترک کردیا ہے اور اپی وقعت کو گرا دیا ہے اور اسے زبردست گھاٹا ہوا ہے۔ اس لیے کہ جو قرآن خدا کی جانب سے نازل ہوا ہے اس میں ساری چیزیں موجود ہیں اور کسی قسم کی کمی اور نقص اس میں نظر نہیں آتا ۔

قرآن فرماتا ہے:

ہم نے کتاب میں کوئی بات فرو گذاشت نہیں کی ہے۔(انعام/۳۸)(۲۰)

رسول خدا(ص) نے بھی ( انسان) کو علم و دانش کے حاصل کے لیے تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے: ”گہوارہ سے قبر تک علم حاصل کرو۔“

صرف یہی نہیں بلکہ اسے سب سے بلند مقام کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:

” اگر انسان عرش سے آگے کا حوصلہ بھی رکھے تو وہاں بھی پہنچ سکتا ہے“

لہذا اسلام علم و دانش اور ترقی کے میدان میں بہت آگے گیا ہے اور اس میں کسی قسم کسیرکاوٹ کا قائل نہیں ہے۔ البتہ اگر اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ کہیں بات طولانینہ ہو جائے اور کتاب کے اصل مقصد سے خارج نہ ہوجائیں تو اس موضوع پر ایک مفصل بحث کرتا۔ محققوں کی ذمہ داری ہےکہ اس موضوع پر دوسری تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

یہ مطالب اس سوال کا جواب تھے جسے شروع میںی عرض کیا تھا۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ جب ترقی سے مراد فقط علمی، فقہی، تکنیکی اور صنعتی ترقی ہو جس نے یورپیوں، امریکیوں اور خصوصا جاپانیوں کی عقلوں اور ان کے گھروں کو چکا چوند کر رکھا ہے۔ اور مسلمان اس  سے بے خبر ہیں ان کے خیال میں یہ ساری قابل توجہ ایجادات اور علمی ترقی غیر مسلموں کے ہاتھوں ہوئی ہے اور اسلام ان کی پسماندگی کا باعث ہے!!! خصوصا کمیونزم پرست جو دین کو قوم کے لیے افیون سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے پاس انصاف ہوتا تو یہ سمجھ لیتے کہ دین اسلام نے ہی قوموں کو زندہ کیا ہے اور انسانی ترقی کو دائمی رفتار بخشی ہے۔ کیا یہی اسلام نہ تھا جس نے ایک باچیز قوم کو کہ جس کےپاس کچھ بھی نہ تھا اسے جزیرة العرب میں ہر چیز کا مالک بنا دیا۔ اور اس درجہ کہ یہی پسماندہ سرزمین ساری دنیا کے لیے علم، ترقی، پیشرفت اور مدنیت کا مقصد و مرکز  بن گئی۔ اور بعض یہ لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ” اسلام و عرب کا سورج یورپ پر چمکنے لگا“ اور یہ اقرار کیا کہ ان بدیہ نشین عربوں نے اسلام سے متمسک ہونے کے بعد بھلائی کے ہر میدانمیں ترقی کر لی  اور ہر طرح کے ایجاد میں پیش قدم ہوگئے۔(۲۱)

اگر ترقی سے مراد وہ ترقی ہے جسے اہل مغرب و امریکہ نے اپنے یہاں کھلی آزادی کا لباس پہنا رکھا ہے اور نوبت یہاں تک  پہنچ گئی ہے کہ ہم جنس

بازی اور برہنہ رہنے والوں کے لیے کلب کھول دیئے  گئے ہیں اور جانوروں اور کتوں کے لیے میراث معین کردی گئی ہے۔ ہر روز نئی چیز وجود یں آرہی ہے۔ اور وہ تمام ا اخلاقی برائیاں جس کی مغربی ٹیلی وژن سے تبلیغ ہوتی ہے تو بلاشبہ اسلام نے ایسی باتوں کو اپنے یہاں کوئی جگہ نہیں دی ہے اور نہ صرف یہی بلکہ پوری طاقت  کےساتھ اس پر حملہ آور ہوا ہے اور فساد و تباہی کے تمام مراکز کو ختم کرنے کے درپے ہے۔

یہاں ضروری ہے کہ ہم کچھ مسلمانوں کی بعض عجیب و غریب روش کی طرف بھی اشارہ کریں جو رسول خدا(ص) کی سنت سے تمسک کے مدعی ہیں اور خود کو (سلفی) کہتے ہیں مثلا ہم ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا کرتا یا اٹنگا عربی پیرہن پہنے ہوئے ہیں۔ داڑھی سینے تک لہرا رہی ہے۔ ہاتھ میں ایک عصا ہے، مسجد کے کنارے کھڑے ہیں، (اراک) لکڑی سے مسواک کررہے ہیں اور کبھی دائیں طرف کے دانت اور کبھی بائیں سمت کے دانت رگڑے جارہے ہیں۔ کبھی اس سے بکلتی رطوبت کو تھوک دیتے  ہیں تو کبھی نگل جاتے ہیں! اپنے سر کو باندھ رکھا ہے اور اگر کبھی انھیں اپنے گھر کھانے کی میز پر دعوت دیں تو مخالفت کریں گے۔ حتی کیہ چمچہ اور کانٹے سے کھانا کھانے کو تیار نہیں ہوں گے بلکہ ہاتھ سے نوش فرمائیں گے۔ انگلیوں کو برابر چاٹتے رہیں گے اور فرمائیں گے: میں رسول خدا(ص) کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں!!!

اور بعض تو دو چار قدم اور آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ انھوں نے لاؤڈ اسپیکر سے اذان ممنوع کردی ہے۔ اس لیے کہ یہ رسول(ص) کے زمانہ میں نہ تھا اور یہ بدعت ہے!!

اور بعض نے تو پسماندگی کو اس کے اوج پر پہنچا دیا ہے اور سوچ رہے ہیں کہ لوگوں کو ان باتوں کی جانب واپس لائیں لہذا جو بھی تیز آواز میں ہنستا ہے منع

کرتے ہیں، فورا اس پر بگڑ پڑتے ہیں اور ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں اور ہنسنے سےمنع کرتے ہیںاس لیے کہ آنحضرت(ص) فقط مسکراتے تھے۔ اور اگر انہوں نے سکی کو پیٹ کے بل لیٹا ہوا دیکھ لیا تو زور سے لات مارتے اور نیند سے اٹھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے شیطان سوتا ہے۔

میں نے ا میں سے ایک شخص کو دیھا کہ اپنی چھوٹی بچی کی پٹائی کررہا ہے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس کم سن بچی نے مہمانوں کو داہنے ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ سے شربت پیش کردیا تھا۔ اتنے مہمانوں کےسامنے اس بچی کی اہانت اور پٹائی کر کے ان کو یہ سمجھا رہے ہیں کہ سنت کی حفاظت کرنی چاہئے!!!

آخر یہ کیسی سنت ہے جس سے لوگ متنفر اور بد دل ہوجائیں خصوصا اس وقت جب اسلام اس شکل میں دشمنوں اورغریبوں کے سامنے پیش کیا جائے۔

بلاشبہ یہ لوگوںکو اسلام کی طرف راغب کرنے اور اسلام کا منور چہرہ پیش کرے اور اپنی طرف جذب کرنے کے بجائے ایسی ہی بری اور نازیبا حرکتوں سے متنفر کر دیتے ہیں کہ جن پر پھر کسی تبلیغ کا اثر نہیں ہوسکتا۔

ان کو یہ نہیں معلوم کہ رسول خدا(ص) نے اگر ان دنوں اراک کی شاخ کو مسواک کے بطور استعمال کیا اور اسے دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی کے لہیے کام میں لائے تو یہ اس لیے تھا کہ اس زمانہ مین آج کی طرح مختلف قسم کے برش اور ٹوتھ پیسٹ نہیں تھے اور یہ آنحضرت(ص) کی ترقی پسندی کی دلیل ہے کہ آںحضرت(ص) نے اس زمانہ میں دانتوں کی صفائی اور پاکیزگی پر اس درجہ توجہ دی۔ اور لوگوں کو اس کی ترٰغیب دلائی۔ لیکن یہ ان باتوں سے قانع نہیں ہوتے اور استدلال پیش  کرتے ہیں کہ اراک کی شاخ سارے برش اور ٹوتھ پیسٹ سے  بہتر ہے اس میں محصوص نمک ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اگر آپ ان سے اس ترقی ے متعلق بتائیں کہ یہ ٹوتھ پیسٹ دانت اور منہ کو اسٹرلائیز(sterilize) کردیتا ہے، صاف کرنے

 والا اور بہت ہی مفید ہے تو بھی وہ اس لکڑی کو بہتر سمجھیںگے۔ اور اس کو غیر طبعی ڈھنگ سے جیب میں رکھیں گے بلک کبھی کبھی تو آپ دیکھیں گے منہ کے خون کی وجہ سے اس کا رنگ لال ہوگیا ہے! مگر پھر بھی وہ رسول خدا(ص) کا قول دہراتے ملیں گے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

اگر مجھے اپنی امت کےلیے سختی کا خیال نہ ہوتا تو میں اپنی امت پر ہر واجب نماز سے پہلے مسواک کرنا واجب قررار دے دیتا۔

افسوس کہ یہ لوگ سنت پیغمبر(ص) کے متعلق سوائے سطحی اور ظاہری مسائل کے اور کچھ نہیں جانتے اور آنحضرت(ص) کے قول کے روحانی اور علمی گوشوں سے بالکل بے خبر ہیں۔

بہر حال یہ اندھی تقلید کی طرح ان باتوں اور حرکتوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہ نہ ہی فہم  و ادراک کی  بنیاد پر ہے اور نہ ہی غور و تحقیق سے اس کا کوئی ربط ہے۔ فقط جو باتیں اپنے پیشواؤوں اور اماموں سے سن لی ہیں اسی کی تکرار کرتے رہتے ہیں۔ اس میں بہت سے تو سطحی معلومات رکھتے ہیں اور شاید صدفی صد جاہل ہوں۔ لیکن اگر ان پر اعتراض کیجئے تو کہیں گے کہ رسول(ص) نے بھی علم حاصل نہ کیا تھا۔!!!

پس ایسے افراد پر تو اس زمانہ میںفخر و مباہات کرنی چاہئے جو قول میں بھی اور شکل و انداز میں بھیآنحضرت(ص) کے پیرو ہیں!!!

ایک مرتبہ مسجد عمر بن خطاب(پیرس) میں نے ان سے بحث کی اور کہا: کیا آپ واقعا سنتپیغمبر(ص) سے متمسک ہیں اور جو بھی نیا ہے  اسے بدعت سمجھتے ہیں اور معتقد ہیں کہ جو چیز نئی ہیں وہی سب سے بدتر ہیں۔ اس لیے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت و گمراہی کا انجام دوزخ ہے؟

انہوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔ تو میں نے کہا پھر آپ کارپٹ پر کیوں نماز پڑھتے ہیں؟ جبکہ یہ مصنوعی اور جدید طرز پر بنا ہوا فرش یہ مغربی ممالک

 میں بنا ہے معلوم نہیں اسے کس مواد سے بنایا گیا ہے؟ جو چیز قطعی ہے وہ یہ کہ آنحضرت(ص) نے ہرگز کارپٹ کے اوپر نماز ادا نہیں فرمائی۔ اور اصلا اسے انہوں نے دیکھا تک نہیں۔

ان میں سے بعض کہنے لگے ہم مغربی ملکوں میں رہتے ہیں ہمارا حکم مضطر ( مجبور) کا ہے لہذا فقہ میں یہ بات آئی ہے کہ ضرورت حرام چیزوں کو جائز کردیتی ہے۔

میں نے کہا یہ کون سی ضرورت ہے آپ اس فرش کو اٹھا دیں اور زمین پر نماز پڑھیں کیوںکہ آںحضرت(ص) نے زمین پر نماز ادا کی ہے یا پھر کم از کم سجدہ کی جگہ پر پتھر رکھ لیں؟

امام جماعت نے مذاق اڑانے کے انداز میں ہماری طرف رخ کیا اور کہا:

تم جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئے میں سمجھ گیا کہ تم شیعہ ہو۔ کیوںکہ تم نے سجدہ کی جگہ پر کاغذ رکھا تھا ہم نے کہا : اس میں کوئی حرج ہے؟ کیا آپ جس صحیح سنت کا نعرہ لگاتے ہیں اس سے ہمیں مطمئن کرسکتے ہیں؟

اس نے کہا : مجھے بحث کرنے کو وہ بھی خاص کر شیعوں سے منع کیا گیا ہے۔ اور ہم تمہاری ایک بھی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمارے لیے ہمارا دین اور تمہارے لیے تمارا دین کافی ہے۔

یہ وہ سرگزشت تھی جس کا تذکرہ مناسب معلوم ہوا اور اس سے مسلمان اور روشن فکر حضرات کو اندازہ ہوگا کہ سنت پیغمبر کبھی بھی علمی ترقی اور ٹیکنالوجی کی مخالف نہیں رہی ہے اور اسے ہرگز حرام قرار نہیں دیا گیا ہے۔

مرد ہو یا عورت اس پر ہرگز مناسب لباس پہننا حرام قرار نہیں دیا گیا، بس یہ ضروری ہے کہ بدن ڈھکنا چاہئے اور توہین کا باعث نہ ہونا چاہئے۔ اور عورتوں

کو پردہ کی رعایت کرنی چاہئے۔ چونکہ آنحضرت(ص) نے فرمایا ہے:

پروردگار عالم تمہارے لباس، حالت، شکل و صورت اور تمہارے اموال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ صرف تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ ( صحیح مسلم ج۴، ص۱۹۸۷/ح۲۵6۴)

چنانچہ سنت پیغمبر(ص) ہرگز ڈائننگ ٹیبل اور چمچہ، کانٹے کی مخالف نہیں ہے۔ بلکہ اہم یہ ہے کہانسان کھانے پینے میں ادب کا پاس رکھے اس طرح کہ ساتھ بیٹھنے والے یہ خیال نہ کریں کہ حیوانوں کی طرح شکار پر ٹوٹا پڑ رہا ہے اور کھانے پینے میں اس کے داڑھی اور بال شریک نہ ہوں۔

سنت پیغمبر(ص) ٹوتھ پیسٹ اور برش سے دانت منہ کی صفائی کی مخالف نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس بات کی مخالف ہے کہ انسان اپنے بدن کو پاک صاف رکھے، بدن کے زائد بالوں کو دور کرے، خوشبو لگائے اور خود کو معطر کرے تاکہ لوگ اس سے متنفر نہ ہوں نیز جیب میں ایک صاف رومال رکھے۔ لیکن وہ لوگ جو سنت کی پیروی کا جھوٹا دعوی کرتے ہیںاور ان کےبدن کی بدبو خصوصا گرمی میں حمام نہ جانے کی حکایت کرتی ہے راہ چلتے ہوئے ہاتھ کو آب دہن سے لودہ کرتے ہیں۔ناک کی کثافت لوگوں کا خیال کئے بغیر جہاں چاہتے ہیں چھینک دیتے ہیں ہاتھ کو دامن سے صاف کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ خدا کی قسم سنت پیغمبر(ص) سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سنت پیغمبر(ص) ہرگز ممانعت نہیں کرتی کہ مسلمانوں تک اذان کی آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ اسپیکر، مائیکرو فون، ٹیپ ریکارڈر کا استعمال نہ کیا جائے حتی کہ اس بات کی بھی ممانعت نہیںکرتی کہ مسجد میں ویڈیو کا استعمال کیا جائے۔ اور اوقات نماز کے علاوہ اس پر اسلامی فلم یا دینی سبق دیکھا اور سنا جائے۔

سنت پیغمبر(ص) مسلمان عورتوں کے سینٹری نیپکن(Sanitary Napkin) کے استعمال کی ممانعت نہیں کرتی اور اگر وہ مباح کاموں کے لیے ڈرائیونگ کرتی

 ہیں اور بازار جاکر دکانوں سے اپنی ضرورت کا سامان خریدتی ہیں تو سنت پیغمبر(ص) اسے حرام نہیں سمجھتی۔ صرف شرعی پردہ کا  خیال رکھیں۔ اپنے دامن کو حرام سے بچائیں، نامحرم کو نہ دیکھیں جیسا کہ خود پروردگار عالم کا حکم ہے۔ مختصر یہ کہ سنت نبوی(ص) ترقی کی مخالف نہیں ہے لیکن اس وقت تک جب کہ یہ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہوا سے بیماریوں سے محفوظ رکھے اور سعادت بخشے۔

اے رسول(ص) ان سے پوچھو تو کہ جو زینت کے سازو سامان اور کھانے پینے کی صاف ستھیر چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں؟ ( اعراف/۳۲)

ہاں ! اسلام نے ان تمام چیزوں کو حرام کیا ہے جو گندگی ، کثافت و نجاست میں شمار ہوتی ہیں اور ان تمام چیزوں کا مخالف ہے جن سے آدمی فطرتا نفرت کرتا ہوجیسے بدبو، گندے ناخن و بال، نجاست وکثافت کے عالم میں رہنا۔ چونکہ خداوند عالم جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے۔ لہذا آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ہر بندہ مومن حتی کہ کافر بھی جب گھر سے باہر نکلتا ہے تو صورت ولباس کو مرتب کرتا ہے، خوشبو لگاتا ہے۔ حتی کہ آپ کو کوئی گھر ایسا نہ ملے گا کہ اس میں آئینہ نہ ہو۔ توجب مرد حضرات زینت و آرائش کی فکر میں ہیں تو پھر عورتوں کو کیوں اس سے منع کیا جائے۔ اس شرط کے ساتھ کہ وہ اسلام کے معین حدود سے خارج نہ ہوجائیں اور نا محرم مردوں کے سامنے بن سنور کر نکلنے نہ لگیں۔

” الناس اعداء ما جهلوا“ (۲۲)

جس چیز کو لوگ نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں۔

مجھے یاد ہے ایام جوانی میں مجھے روز چہار شنبہ سرمہ لگانا بہت پسند تھا اور بہت سی احادیث کی کتابیں موجود ہیں جو روایت کرتی ہیں کہ آںحضرت(ص) آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے اور اس کی تشویق فرماتے تھے لیکن اس کے برخلاف جب بھی میں سرمہ لگاتا تو عورت و مرد مجھے عجیب نظر سے دیکھتے اور ایک دوسرے کو

سیاسی مشکلات، تمدن کا نتیجہ

جس وقت رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو حبشہ ہجرت کرنے کا حکم دیا اور ان سے فرمایا : حبشہ کی سمت روانہ ہوجاؤ اس لیے کہ وہاں کا بادشاہ ایسا ہے کہ اس کے یہاں کسی پر بھی ظلم و ستم نہیں ہوتا۔ ( الکامل فی التاریخ/ج۲/ص۷۴)

کیا آںحضرت(ص) نے ان اصحاب کو پاسپورٹ دیا؟ یا حبشہ سے ان لوگوں کے لیے ویزے کی درخواست کی؟ یا پیسہ تبدیل کروایا؟ نہیں!

نہ یہ مسائل اس زمانہ میں تھے اور نہ ہی اس طرح کی بات سامنے آئی۔ اللہ کی زمین وسیع تھی جب بھی انسان پر اس کا وطن دشوار ہوجاتا، مرکب پر سوار ہوتا اور خدا کی طویل و عریض زمین پر کہیں کے لیے بھی نکل پڑتا۔ اور مناسب جگہ ٹھہرجاتا۔ نہ کسی قسم کا محاسبہ ہوتا نہ سیکیورٹی چیکنگ ہوتی نہ کسٹم کا مسئلہ پیش آتا نہ ٹیکس اور میڈیکل سرٹیفکیٹ کی ضرورت پڑتی اور نہ گدھے اور خچر کے لیے شہنشاہی گواہی کی ضرورت پیش آتی تھی کہ کہیں چرایا ہوا نہ ہو یا کوئی ٹیکس ادا کئے بغیر چل دیا ہو۔

کیا یہ تمدن یا کثرت جمعیت بہتر ہوگا، جس نے زمین کو مختلف ملکوں اور حکومتوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور ہر حکومت اپنے ملک کی زبان میں بولتی ہے اور ہر ملک کا الگ پرچمہے۔ زمینی اور دریائی حدیں ہیں۔ جن پر چوکس نگہبان تعینات ہیں تاکہ ہر کس و ناکس گھس نہ آئے۔ جب قوموں کی تعداد بڑھی طمع میں شدت آئی اس طرح کہ ہر ایک دوسرے کا استحصال کرنے اور دہانے کی فکر میں پڑ گیا۔ انقلاب، بغاوتیں، جرائم بکثرت ہوگئے۔ تو ترقی یافتہ سماج قومیتوں کو الگ

کرنے لگے ، ولادت و وفات کی گواہی اور شناختی کارڈ بنائے گئے، پاسپورٹ بھی بن گیا، سرحدیں بن گئیں، اب ہر شخص میں طاقت نہ تھی کہ بغیر اجازت اور ویزا دوسرے کی سرحد میں داخل ہو سکے خلاصہ یہ کہ ہر جگہ اور ہر حکومت کا ایک جدا گانہ قانون بن گیا۔

میں بھی بہت سے جوان مسلمانوں کی طرح اپنے ملک کی اذیت و آزار اور سیاسی مشکلات کے بعد دوسرے ملکوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگیا لیکن میرے لیے سارے دروازے بند نظر آئے خصوصا عربی اور اسلامی ممالک میں۔

میں کتاب خدا کی اس آیت کو پڑھنے کے بعد کسی درجہ حیران ہوجاتا ہوں، فرماتا ہے:

بے شک جن لوگوں کی قبض روح فرشتوں نے اس وقت قبض کی ہے کہ ( دارالحرب میں پڑے) اپنی جانوں پر ظلم کررہے تھے تو فرشتے قبض روح کے بعد حیرت سے کہتے ہیں تم کس ( حالت غفلت میں تھے) تو وہ ( معذرت کے لہجے میں ) کہتے ہیں ہم تو روئے زمین پر بے کس تھے تو فرشتے کہتے ہیں کہ خدا کی لمبی، چوڑی زمین میں اتنی بھی گنجائش نہ تھی کہ تم( کہیں) ہجرت کرکے چلے جاتے !! پس ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے اور  وہ بڑا، برا ٹھکانا ہے۔(نساء/۹۷)

میں اپنے آپ سے کہتا ہوں سچ ہے پوری دنیا کی زمین سب کی سب خدا کی ملکیت ہے اس میں کسی قسم کا شک نہیں لیکن بعض خدا کے بندوں نے اس پر قبضہ کیا اور آپس میں تقسیم کر لیا اور دوسروں کا فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دی۔ اگر غیر مسلم مثلا فرانسیسی، جرمن، انگریز، امریکن عذر کریں تو ٹھیک۔ لیکن مسلمان ملکوں کے پاس کیا بہانہ اور عذر ہے اور اگر عرب و اسلامی ممالک کے پاس کوئی بہانہ ہے بھی تو حاکم مکہ و مدینہ کے پاس کیا بہانہ رہ جاتا ہے جو مسلمانوں کو

اجازت نہیں دیتے کہ وہ آسانی سے آسکیں۔ ان سے حج و عمرہ کے لیے ٹیکس لیتے ہیں اور کس مشکل سے ویزا دیتے ہیں۔

سچ مچ حیرت ہوتی ہے جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں بے شک جو لوگ کافر ہو بیٹھے اور خدا  کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ) سے جسے ہم نے سب لوگوں کےلیے عبادت گاہ بنایا ہے( اور) اس میں شہری اور دیہاتی سب کا حق برابر ہے لوگوں کو روکتے ہٰں۔ (حج/۲۵)

پس اگر خدا نے مسجد الحرام کو سبھی کے لیے مرکز امن قرار دیا ہے چاہے وہ وہاں ساکن ہوں یا باہر سے آئیں پھر اس ملک کی حکومت کس طرح بعض کو آنے کی اجازت دیتی ہے اور بعض کو نہیں دیتی۔ اب تو ہمیں اپنے اسلام و قرآن کی طرف پلٹنا چاہیئے اور اپنے امور میں تبدیلی لانا چاہئیے۔

ایک طویل مدت گذر گئی اور میںاس فکر و خیال میں سرگرداں تھا حتی کہ اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے عرض کیا کرتا تھا کہ پروردگار تو کہتا ہے اور تیرا قول حق ہے:

کیا خدا کی زمین وسیع نہیں کہ تم اس میں ہجرت کرو۔(نساء/۹۷)

اور تیرا ہی قول ہے کہ :( لوگوں کو مناسک حج ادا کرنے کے لیے بلاؤ تاکہ لوگ سوار اور پیادہ ہر طرف سے اکھٹا ہوجائیں)۔ ( حج/۲۷)

بےشک تیری زمین جو وسیع و عریض ہے لیکن اس پر دوسروں کا قبضہ ہے اور یہ گھر تو تیرا ہے لیکن دوسرے اس کے مالک بن بیٹھے ہیں اور وہاں آنے سے روکتے ہیں خدایا کیا کیا جائے؟

ایک روز قرآن کے متعلق نہج البلاغہ میں امیر المومنین(ع) کے کلام کا مطالعہ کررہا تھا کہ مجھے ایک ایسا جملہ نظر آیا جسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا اور جس چیز کی تلاش تھی وہ مل گئی اس نے یہ معما حل کردیا اور میری حیران فکر کو سکون بخشا۔

حضرت امیرالمومنین(ع) قرآن مجید کے متعلق نہج البلاغہ کے سب سے پہلے خطبہ میں فرماتے ہیں:

” کچھ آیات و احکام ہیں جو اپنے وقت  پر واجب ہیں لیکن مستقبل میں ان کا وجوب نہیں رہتا۔“

حضرت(ع) کے اس کلام سے میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ وہ آیات ہیں جن پرعمل آںحضرت(ع) کے زمانہ میں ممکن تھا۔ لیکن مستقبل میں ستمگروں اور کافروں کے قبضہ کی وجہ سے غیر ممکن ہوجائے گا۔

لہذا اگر کوئی روز قیامت اپنے خدا سے کہے :

پروردگار ! میں تیری زمین پر کمزور و لاچار تھا تو وہ خداوند عالم جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ہے اسے پتہ ہے کہ وہ ایسے ہی زمانہ میں تھا تو وہ اس سے یہ نہ فرمائے گا کہ تیری جگہ دوزخ ہے اور نہ بہت ہی بری جگہ ہے۔

اور اگر کوئی اس وقت اپنے رب سے کہے کہ :

پروردگارا ! مجھے تیرے گھر آنے سے روک دیا گیا۔ میں تیرا حج نہ کرسکا۔ تو اسے یہ جواب ملے گا : میں نے بھی تجھ سے کہا تھا اگر تم میں حج کرنے کی استطاعت و قدرت ہوتو کرنا پس تمہارا عذر معقول ہے اور جس شخص نے تم کو آنے سے روکا وہ ذمہ دار ہے اور اسی کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔

اے امیر المومنین(ع) ! آپ پر سلام ہو۔ جس روز آپ نے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں اور جس روز آپ نے اس دنیا سے وفات پائی اور جس روز بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوں گے۔(28)

نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکنا

اس نئے تمدن نے سامراج کےدرمیان جن سیاسی مشکلات کوجنم دیا ان  میں سے ایک خود بینی بھی ہے۔ یعنی ہر آدمی صرف اپنی فکر میں ہو اور دوسرون کا ذرا بھی خیال نہ کرے۔ خود سلامت رہے، دوسرے جہنم میں جائیں! یہ بدترین صورت حال ہے جس مٰںآج کا انسانی سماج گرفتار ہے وہ بھی اس طرح کہ امت کے مفادات تو خطرہ میں وہں اور انجام نا معلوم ہو لیکن نہ کوئی آواز اٹھائے اور نہ آگے قدم بڑھائے۔ ایسی صورت میں بہادری، مردانگی، ایثار، جہاد، ظالموں کے مقابلہ میں استقامت جیسے عظیم اقدار نابود ہوجائیں گے۔ دین کا رنگ پھیکا اور ضمیر کی موت واقع ہوجائے گی۔

جیسا کہ ہم نے پہلے قرآن سے استدالال پیش کیا، بعض احادیث کے ذریعہ بھ اسی طرح استدالال پیش کرںگے۔ رسول خدا(ص) کا قول جس پر سبھی کا اتفاق ہے سے ساتھ ملکر پڑھتے ہیں۔ آںحضرت(ص) فرماتے ہیں:

”تم کو چاہئے کہ لوگوں کو بیکی کی طرف دعوت دو اور برائی سے روکو نہیں تو خدا تم میں سب سے برے کو تم پر مسلط کردے گا پھر تمہارے اچھے لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعا مستجاب نہ ہوگی۔“

نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا امت کی زندگی کے لیے ایک لازمی امر ہے اسی لئے ائمہ(ع) نے اسے دین کے ارکان میں شمار کیا ہے۔ یہی وہ ہے کہ معاصر اسلامی گروہ جو نعرہ سب سے پہلے بلند کرتے ہیں وہ امربالمعروف اورنہی ازمنکرکا نعرہ ہے۔ لیکن ترقی یافتہ سماج شدت سے اس نعرہ کے مخالف ہیں اور

 اس کے مقابلہ کے لیے انہوں نے مختلف تنظیمیں بنا رکھی رہیں۔ جیسے  انسانی حقوق کی تنظیم، خواتین کے حقوق کی تنظیم اور جمعیت تحفظ حیوانات و غیرہ۔۔۔ لہذا اگر خودحکومت اس اہم امر ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کو اپنے ذمہ نہ لے تو یہ محال ہے کہ لوگوں کی جماعت اسے انجام دے سکے متفرق افراد کا تو شمار ہی نہیں۔

آج آپ خود بہت سی برائیوں کےشاہد ہیں لیکن انکی مخالفت کرنےکی قوت نہیں رکھتے یہاں تک کہ اگر نہی از منکر کریں تو ممکن ہے مد مقابل چاہے لڑکی ہو یا لڑکا آپ کے خلاف کورٹ میں مقدمہ درج کرسکتا ہے پھر بڑے اچھے انداز آپ سے کہا جائے گا اس سے تمہیں کیا سروکار ! بے جا مداخلت نہ کرو! اور اگر آپ نے کہا میں امر بالمعروف اور نہی از منکر کررہا ہوں تو آپ کو جواب ملے گا یہ حق تم کو کس نے دیا اور کس طرح تمہیں حاصل ہے؟

خود مجھے اس کا تلخ تجربہ ہے جیسا کہ بعض دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہ صورتحال پیش آئی ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں تلخی، ناچاری اور افسردگی کا مزا مجھے اب بھی محسوس ہوتا ہے اور دو باتوں کے درمیان اب بھی سرگرداں ہوں۔

اولاً ۔ میرا عقیدہ مجھے اپنے شرعی فرائض کی ادائیگی کےلئے آگے بڑھاتا ہے اور اگر خاموشی اختیار کروں تو جواب دہ ہونا پڑےگا۔

ثانیاً ۔ جس فضا میں زندگ گزار رہا ہوں اس نےمجھ سے اس حق کو زبردستی چھین رکھا ہے اور مجھے خائف کررہی ہے کہمیں پھر اس فریضہ کو انجام نہ دوں میں گورنر کی گفتگو نہیں بھول سکتاایک روز اس نے کہا تھا کیا تم خدا کے رسول(ص) ہو؟ اور خدا نے تمہیں نئے دین کے ساتھ مبعوث کیا ہے کہ لوگوں کی اصلاح کرو؟ میں نے اسے جواب دیا  ہرگز نہیں !

اس نے کہا : اچھا پھر جاؤ خود کو اور اپنے گھر والوں کو دیکھو اور ہمیں اپنے

شر سے نجات دو! ہم لوگوں کی سلامتی اور ان کےامن و امان کے ذمہ دار ہیں اور اگر ہر برے غیرے کو امر و نہی کی اجازت دے دیں تو ملک ہرج ومرج کا شکار ہوجائے گا۔

میں بھی اپنی جگہ چپ بیٹھ رہا اگر چہ اندر سے اپنے فریضہ کا احساس کرتا تھا اور کرنے نہ کرنے کے درمیان سالوں کذر گئے یہاں تک کہ رسول گرامی(ص) کی حدیث نظروں سے گذری جس میں آپ(ص)  فرماتے ہیں۔

” تم میں سے جو بھی کسی برائی کو دیکھے تو اسے خود اپنے ہاتھ سے ختم کرے اور اگر قادر نہ ہو تو زبان سے اور اگر اس کا بھی امکان نہ ہوتو اپنے قلب سے اور یہ ایمان کا نہایت ہی ضعیف مرحلہ ہے۔“

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں:

” خدا نے ہم سے پہلے کسی ایسے نبی کو مبعوث نہیں فرمایا جس کے حواری و اصحاب نہ رہے ہوں وہ اس کی سنت پر عمل رتے تھے اور اس کے حکم کی اطاعت کرتے تھے۔ ان کے بعد دوسرا گروہ ان کا جانشین بنتا گیا لیکن یہ جو کہتے اس پر عمل نہ کرتے تھے اور جو کرتے اس کا انہیں حکم نہ ہوتا تھا لہذا جو بھی ایسوں سے اپنے ہاتھ اور اپنی قوت سے ان سے مقابلہ اور جہاد کرے مومن ہے اور جو اپنی زبان سے ان کا مقابلہ کرے مومن ہے۔ اسی طرح جو اپنے قلب سے ان کا مقابلہ کرے وہ بھی مومن ہے اور اس کےبعد تو پھر رائی کے ایک دانہ ے برابر بھی ایمان باقی نہیں بچتا۔“

میں نے پروردگار عالم کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہماری قوت سے زیادہ ہمیں تکلیف نہیں دی ہے۔ بے شک آںحضرت(ص) کی یہ حدیث کتاب خدا کی تفسیر کرتی ہے۔ چون کہ ماضی، حال اور مستقبل کا علم خدا کے پاس ہے لہذا اسے معلوم تھا کہ ایک زمانہ مسلمان پر ایسا آئے گا کہ وہ امر بالمعروف اور نہی از منکر کی قوت

 نہ رکھتے ہوںگے۔ اسی کے پیش نظر اس نے حکم کو آسان رکھا۔ اور ان کی قوت سے زیادہ ان سے طلب نہ کیا آحضرت(ص) نے نہی از منکر کے مراحل کو تدریجا بیان فرمایا ہے اور یہ اسلامی سماج میں تبدیلی اور قوت کے ضعف میں بدلجانے کے اوپر دلیل ہے اسی طرح حالات کے بدلنے کی صورت میں حکم شرعی میں تبدیلی کے اوپر بھی دلیل ہے۔

تو جس کے پاس قوت ہے اسے طاقت سے برائیوں کا مقابلہ کرنا چاہئے لیکن جس کے پاس قوت نہیں ہے لیکن زبان سے منکرات کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے چاہئے کہ زبان سے ان کا مقابلہ کرے۔لیکن اگر یہ معلوم ہو کہ اس کے کہنے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا یا اس کی وجہ سے دردسر اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی تو اس صورت میں منہ سے کوئی بات کہے بغیر صرف قلبی مخالفت کافی ہے۔پس کس درجہ بے نیاز ہے وہ رب جس نے لوگوں کو ان کی قوت سے زیادہ تکلیف نہیں دی ہے۔ اور بے شمار درود ہو اس نبی(ص)  رحمت پر جو مومنین پر خود ان سے زیادہ مہربان تھا اسی طرح ان کی پاک و طاہر آل(ع) پر بھی درود و سلام ہو۔(32)

مہذب انسان، آسان شریعت

بلاشبہ جو آسمانی ادیان خداوند عالم کی جانب سے نازل ہوئے ہیں ان کا مقصد سب سے پہلے: انسان میں پروردگار عالم کی معرفت پیدا کرنا تھااور اس کو بت پرستی،شرک اور مختلف طرح کی گمراہی سے نجات دینا تھا۔

دوسرے : اس کی سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرنا تھا اور یہ مقاصد دو بنیادی چیزوں سے عبارت ہیں:

۱۔ ایمان

۲۔ عمل

اورجب کبھی ایمان و عمل کہا جائے تو اس سے مراد صحیح ایمان اور عمل صالح ہے۔ لہذا ہر ایمان و عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے اس لیے کہ ممکن ہے انسان مختلف عقائد پر ایمان رکھے لیکن اسلام سے اس کا ذرہ برابر بھی ربط نہ ہو اور ممکن ہےکہعقائد اسے آباؤ اجداد سے ورثہ میں ہاتھ لگے ہوں اور بالفرض صحیح ہوں تو بھی ممکن ہے اس میں تغیر و تبدیلی پیدا ہوگئی ہو۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

اور جب ان سے کہا گیا کہ جو قرآن خدا نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ تو کہنے لگے ہم تو اس کتاب توریت پر ایمان لائے ہوئے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی گے اور اس کے بعد آئی ہے نہیں مانتے حالاںکہ وہ ( قرآن) حق ہے اور اس کتاب (توریت) کی جو ان کے پاس ہےتصدیق بھی کرتا ہے۔( بقرہ/۹۱)

بعض اوقات انسان کسی کام کو یہ سمجھ کر انجام دیتا ہے کہ اس میں بشریت کے لیے فائدہ ہے جب کہ اس کے کاموں سے سوائے نقصان و ضرر کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

خداوند عالم فرماتا ہے۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ملک میں فساد نہ کرتے پھرو تو کہتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرتے ہیں خبردار ہوجاؤ ! بیشک یہ لوگ فسادی ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ ( بقرہ /۱۱/۱۲)

یا ممکن ہے انسان نیک کام کرے جو بشریت کے لیے بہت مفید اور فائدہ مند ہو لیکن اس نے اسے خدا کے لیے انجام نہ دیا ہو بلکہ اس کا مقصد صرف دکھاوا او ریاکاری ہو تو اس طرح کا عمل سراب اور دھوکہ ہے کہ دور سے پیاسے اس کی طرف پانی سمجھ کر آئیں لیکن جب نزدیک پہنچیں تو کچھ نہ پائیں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اور ان لوگوں نے دنیا میں جو کچھ نیک کام کئےہیںہمانکیطرفتوجہکریںگے( کہوہفاسداورغیرخالصاعمالہیں) گویا اڑتی ہوئی خاک بنا ( کر برباد کر) دیں گے۔( فرقان/۲۳)

اگر دین انسان کے لیے راہنمائی ہے جس کے ذریعہ وہ ہدایت پائے اور ترقی کرے اس لیے کہ ابتدائے خلقت سے انسان جہاں بھی تھا  وہاں دین موجود تھا اور یہ بات موجودہ تحقیقات اور آثار قدیمہ کی شناخت کرنے والوں کے ذریعہ بھی مسلم ہوچکی ہے کہ ابتدا میں رہنے والے انسان بہت سی چیزوں سے ناواقف تھے اور بہت عرصے کے بعد انھیںاس کا علم ہوا لیکن انکے یہاں پہلے سے ہیہ عبادت گاہ نظر آتی ہے اور اسی مطلب کی طرف پروردگار عالم کا قول اشارہ کرتا ہے۔

لوگوں کی عبادت کے واسطے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا وہ یقینا

یہی(کعبہ) ہے جو کہ مکہ میں بڑی خیر وبرکت والا ہے اور سارے جہاں کے لوگوںکے لیے رہنما ہے۔( آل عمران /۹6)

پس یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ تمدن آسمانی ادیان کا نچوڑ ہے اور اس اصل کی رو سے  جو اسلام محمد  بن عبداللہ(ص) پ رنزال ہوا نہایت ہی ترقی یافتہ تمدن ہے جس پر انسانیت سبقت حاصل نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس سے آگے بڑھ سکتی ہے بلکہ ہمیشہ اس سے ایک زینہ نیچے ہی رہے گی۔ اور اس سے وابستہ رہے گی۔

بیشک ی قرآن متمدن انسان میں حیرت انگیز تبدلیکل کا باعث ہوا ہے جو مدتوں جبے دینی اور اعلی معنوی قدروں کے نہ ہنے کی وجہ سے کفر والحاد کی مصیبت کو تحمل کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان اپنی شخصیت ڈھونڈتا رہا اور یہ  چیز اسے عقیدہ کی آگو۳ش میں تدریجا نظر آگئی۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

تو ( اے رسول(ص)!) تم باطل سے کترا کر اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو وہی دین جو فطرت الہی ہے اور لوگ اسی پر خلق کئے گئے ہیں اور خلقت خدا کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی مضبوط اور سب سے استوار دین ہے لیکن بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے ( آل عمران/۳۰)

ہاں! آج ہم چاہےروشن فکروں کے درمیان ہوں یا ان کے عالوہ کسی بھی گروہ میں ہر میدان میں عظیم اسلامی بیداری کے شاہد ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ رنگ و نسل میں اختلاف کے باوجود قوموں میں مکمل تغیر اور تبدیلی آرہی ہے۔

ملحد بے دین اقوام جو انسانی حقوق کی تھیوری کے قائل ہیں ان میں ہم مطلق آزادی کا اعلان سن رہے ہیں اور ان میں عجیب تضاد دیکھتے ہیں۔ مثلا وہ ڈرائیونگ کے وقت شراب نوشی کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔ جب کہ ان کے دین میں

شراب حرام نہیں ہے خود ان کے بقول حضرت مسیح( نعوذ باللہ من ذالک) نے ان کے لیے شراب بنائی ہے۔ اور اس ممنوعیت کی وجہ وہ ایکسیڈنٹ ہیںجو شراب نوشی کی وجہ سے ہوتے ہیں ۔ صرف فرانس میں ڈرائیونگ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بیس ہزار لوگ اپنی جان گنوادیتے ہیں۔

اگر ہم ان ترقی یافتہ ممالک کے ترقی یافتہ تمدنوں کا مطالعہ کریں اور ان کا اسلامی تمدن کے ساتھ موازنہ کریں تو ایک بہت بڑے فاصلہ اور اختلاف کا مشاہدہ کریں گے۔ ایسا فاصلہ جو زمین و آسمان کے برابر ہے۔ تو کافی ہے کہ امیر المومنین(ع) کے اس خط پر ایک نگاہ ڈالیں جسے آپ نے مالک اشتر نخعی کو بصرہ کا گورنر بنانے کے بعد انھیں تحریر فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی ہر میدان میں ترقی کا اندازہ کرسکیں۔

ایک محقق جب اس عہد نامہ کو دیکھتا ہے تو ان تحریروں کو درمیان بشری تمدن کے اس اعلی مفہوم کو پالیتا ہے جہاں تک ابھی بیسویں صدی کا تمدن نہیں پہچ سکا ہے۔

اس عہد نامہ میں تمام طرح کے اجتماعی، معاشی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کے ساتھ معنوی، عبادی، اخلاقی مسائل اور بشری روح و طبائع کی ترتیب کو بھی فرو گذاشت نہیں کیا گیا ہے۔

مجھے افسوس ہوتا ہے کہ بیشتر مسلمانوں نے نہج البلاغہ کو فراموش کردیا ہے جب کہ یہ کتاب بہت ہی گرانقدر اور عرفانی خزانوں اور علمی حقائق سے پر ہے۔ لیکن مسلمان مغربی کتابوں اور ھیوری کی طرف تیزی سے بھاگتے ہیںاس امید پر کہ اس جھوٹے مغربی تمدن پر گامزن ہوسکیں۔ وہی تمدن جس نےسوائے نکبت، بد بختی اور مصیبت کےکچھ اور غریب سماجوں اور قوموں کے حوالہ نہ کیا۔

اگر ان میں سے کسی ایک سے کہیں کہ : اسلام اور اسلامی شخصیات میں

 انسان و انسانیت کے لیے ہر طرح کےبہتر نمونے موجود ہیں تو آپ کو جواب دیں گے۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو مسلمان پسماندہ نہ ہوتے؟ وہ پیچھے رہ گئے اور دوسرے آگے بڑھ گئے اور متمدن ہوگئے!؟

یہ اور ان کی طرح کے لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ افسوس ! اسلام صرف ایک تھیوری کی صورت میں باقی بچا ہے جس پر عمل نہیں کیا جاتا اور بیشتر شخصیات جو اس پر عمل کرانا چاہتی تھیں ان جپر حملہ کیا گای، شہر بدر کیا گیا، قتل کردیا گیا ی اپھر منبروں سے ان پر لعنت و سب وشتم کیا گیا، شہر بدر کیا گیا ، قتل کردیا گیا، ان کی کتابیں ، ان کے آثار بوسیدہ و ناشاختہ رہ گئے ان پر تہمتیں لگائی گئیں، ان کے خلاف پروپگنڈہ کیا گیا۔

حالانکہ امریکہ، جرمنی اور انگلینڈ میں مغربی دانشوروں نے سب سے زیاہ اسلام سے فائدہ اٹھایا ہے اور مسلمان اس بات سے بے خبر ہیں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

ان کے بعد کچھ ناخلف ان کے جانشین بن بیٹھے۔ جنہوں نے نمازیں کھوئیں اور نفسانی خواہش کے اسیر بن گئے۔ عنقریب یہ لوگ (اپنی) گمراہی ( کے خمیازے) بھگتیں گے۔ ( مریم/۵۹)

ایک روز ان میں سے ایک مجھ سے کہنے لگا۔ اگر اسلام شخصیات سے تمہاری مراد اہل بیت(ع) کے بارہ امام(ع) ہیں جیسا کہ کتب میں آیا ہے۔ اور شیعوں نے ان کی امامت کو قبول کیا ہے ان کی پیروی کرتے ہیں اور امور دنیا میں بھی ان ہی کی تقلید کرتے ہیں تو پھر کیوں شیعوں نے بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح ترقی نہ کی اور کسی ایجاد اختراع میں آگے نہ رہے۔

میں نے اسے جواب دیا: شیعہ اثناعشری جو ، ان بارہ اماموں پر ایمان لائے وہ اس درجہ کم تھے کہ جیسے پورے سیاہ لباس میں ایک نقطہ کے برابر سفیدی ہو اور انھیں ہمیشہ قتل کا خوف لاحق رہتا اس لیے کہ صدیوں تک ان کا خون مباح

رہا ہے اور ان کی ناموس کی بے حرمتی کیجاتی رہی ہے۔ اور وہ بدترین روحانی اور جسمانی شکنجوں اور سخت تکالیف میں مبتلا رہے ہیں۔

بلاشبہ اگر کوئی اس طرح کی زندگی گزارے تو ہرگز ترقی نہیں کر سکتا ۔ اس لیے کہ وہ تو ہمہ وقت پریشانی اور تکالیف سے دوچار رہے اور ہر آن قتل کردیے جانے کے منتظر رہے۔

اور یہ بھی کسی سے پوشدیدہ نہیں کہ انسان بھوکا اور فقیر ہوتو ہر چیز سے پہلے اس کی فکر روزی، روٹی حاصل کرنے میں مشغول ہوگی۔ جس سے وہ اپنی حیات کو برقرار! رکھ سکے۔ لہذا اس صورت میں کیا ہوگا جب اس کی روزی منقطع ہوجائے  اور خود وہ اور اس کا کنبہ ایک لقمہ روٹی کے لیے محتاج ہوجائیں؟

لیکن اگر انسان کے لیے سہولتیں فراہم ہوں اور مناسب آسائش زندگی مہیا ہوتو اس کی فکر پرواز کرے گی لہذا آپ دیکھیں گے کہ حکومتیں علماء اور دانشوروں کے لیے ایک خاص اہمیت کی قائل ہیں، ان کے لیے مکمل آسائش کے وسائل مہیا کرتی ہیں۔ اور اس راہ میں کافی پیسہ خرچ کرتی ہیں۔ نیز اس کے لیے جفٹ مخصوص کر دیتی ہیں۔ ان کے لیے آزمائش گاہیں، لیباریڑیاں اور مشینری فراہم کرتی ہیں تاکہ وہ با آسانی تجربہ و تحقیق کرسکیں اس کے علاوہ ان کے لیے مختلف کتب خانے فراہم کیے جاتے ہیں اور انکشافات اور جدید مقالوں کا ترجمہ کر کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ پھر یہ کیوں کر ایجاد نہ کریں؟

لیکن شیعہ اس فقر ، تنگ دستی اور قتل و اذیت کے باوجود علم و دانش کے ہر  میدا ن مین پیش قدم رہے ہیں کیوں؟ اس لیے کہ یہ مکتب اہل بیت(ع) کے پروردہ ہیں۔ اس مکتب کے جس میں مختلف علوم کے ماہرین فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ امام  جعفر صادق(ع) نے فقہ و تفسیر کی تدریس کے ساتھ ساتھ میتھ میٹکس، فیزکس، کیمسڑی، علم ہیئت کے علاوہ اور بہت سے دیگر علوم

 اپنے شاگردوں کو تعلیم فرمائے۔ جب کی اہمیت کا اندازہ جدید دور اور صعنتی انقلاب کے بعد ہوا۔

اس جگہ میں ان مغربی دانشوروں اور مستشرقین کے اس سیمنار کا ذکر کروں گا جو ۱۹6۸ءمیں فرانس کی ( اسٹراسبرگ) یونیورسٹی میں امام جعفر صادق(ع) اور ان کے علمی دور کی تحقیق میں شیعہ اثناعشری کی علمی اور تمدنی تاریخ کے موضوع سے منایا گیا۔ جس مین امریگا، انگلیکنڈ ، جرمنی ، فرانس ، بیلجیم، سوئیزر لینڈ اور اٹلی کے بیس سے زیادہ اہم دانشوروں اور سیائینسدانوں نے شرکت کی تھی۔

انھوں نے امام جعفر صادق(ع) اور ان کے شاگرد جابر بن حیان کے متعلق سے گفتگو کی اور بتایا کہ جابر بن حیان نے اپنے استاد کے درس علم فلسفہ، طب اور کیمسٹری پر ایک ہزار پانچ سو سے زائد رسالے تحریر کئے۔ اور ابن الندیم نے اپنی فہرست میں اور ابن خلکان نے اپنی کتاب ( احوال الامام الصادق(ع)) میں ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان دانشوروں نے اس پر اجماع کیا کہ جابر بن حیان نے مختلف علمی نظریات پیش کئے ہیں۔ اور کیمکل مواد کے علاوہ دیگر ترکیبات جو بم بنانے اور دوسرے امور میں کام آتی ہیں ایجاد کئے اسی طرح اس  پر بھی اجماع کیا کہ کیمسٹری کے اسرار و رموز کو جابر بن حیان نے کشف کیا ہے اور وہ اس بات پر بھی قادر تھے کہ معمولی دھانوں کی کانوں کو سونے، چاندی کی کانوں میں بدل دیں اور اس کےمتعلق خود کہتے تھے: میرے استاد جعفر بن محمد(ع) نے مجھے علم و دانش کا ایسا باب تعلیم فرمایا ہے کہ میں چاہوں تو پوری زمین کو خالص سونے میں تبدیل کردوں۔

ڈاکٹر محمد یحی ہاشمی جو ہمارے زمانے کے دانشور ہیں انھوں نے بھی ایک کتاب بنام ( الامام صادق ملہم الکیمیاء) تحریر کی وہ اس میں کہتے ہیں: جس چیز سے ہمیں سب سے زیادہ تعجب ہوتا ہے وہ جابر بن حیان کا وہ دعوی

ہے یعنی یہ راز کہ دھاتوں کو تبدیل کرنااور اجسام کے بدلنا ی ہر کام میں دخیل ہے اور اگر آج ہم غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ریڈیو ایکٹیو(Radio Active) کے مادہ کی کھوج جس سے ایٹم کا تجزیہ ہوتا ہے اور جو مادہ کی ماہیت میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے اور اس کا نتیجہ فقط ایٹمی بم کی ایجاد نہیں ہے بلکہ وہ ایسی جدید توانائیوں کی ایجاد کا منبع بھی ہے جن کا ابھی تک انسانی فکر نے احاطہ نہیں کیا ہے۔

ان سب سے قطع نظر شیعہ تمام علوم میں پیش قدم ہیں۔ جبکہ دیگر تمام مسلمانوں نے صرف فقہ، تفسیر اور اخلاق پر تکیہ کر رکھا تھا۔ اگر چہ ان موضوعات میں بھی شیعوں نے اہم مقام حاصل کیا ہے اور ان کا اولین موجد شیعوں میں سے ہی تھا اور تاریخ نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔ اور جو اس موضوع پر مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں وہ ( شیعہ و فنون الاسلام) اور مقدمہ ( اصل الشیعہ و اصولہا) کا مطالعہ کریں۔ انھیں یقین ہوجائے گا کہ شیعہ ان ائمہ(ع) کے زیر قیادت تمام علوم معارف میں دیگر جماعتوں کی بہ نسبت پیش قدم رہے ہیں ان ہی اماموں نے اسرار علوم کا شگافتہ کیا ہے اور صحیح معنی میں علم و دانش کی طرف دعوت دینے والے یہی تھے۔

حضرت امیرالمومین(ع)  فرماتے ہیں :

” بلکہ میں اس علم میں ڈوب گیا جو تم پر پوشیدہ اور پنہاں ہے اور اگر چاہوں تو اسے ظاہر و آشکار کردوں( لیکن) تم اس سے اس درجہ مضطرب اور لرزہ بر اندام ہوجاؤگے جیسے کسی گہرے کنویں میں رس۔“ ( نہج البلاغہ/خطبہ۵)

شیعہ ! چند سطروں میں

اواخر کے چند برسوں میں خصوصا ایران کے اسلامی انقلاب کی  کامیابی کےبعد شیعوں کے متعلق کافی بحث چھڑ گئی ہے اور اس وقت مغربی پروپیگنڈہ اور عالمی ذرائع ابلاغ نے خصوصا ایرانی شیعوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے، ان کو کبھی خدا نے دیوانے اور کبھی قاتل و دہشت گرد کہتے ہیں اور یہی صفات لبنانی شیعوں کے لیے بھی بیان کرتے ہیں اس لیے کہ انھوں نے بیروت میں امریکی اور غربی منابع پر حملہ کر کے اسے ختم کر ڈالا تھا۔ اسی طرح ان صفات سے دنیا کےتمام شیعوں کو نواز دیا گیا اور اسے سے بھی بالاتر دنیا میں جتنی اسلامی تحریکیں تھیں انھیں بھی یہ القاب دیدیئے گئے، گرچہ ان میں اکثریت سنیوں کی ہے اور شیعوں سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ اوع اسلام دشمنوں کے ان جھوٹے خیالی پروپگنڈوں کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لیے کہ ممکن ہے ہر دشمن، دوست بن جائے لیکن زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب بعض مسلمان شیعوں کے متعلق اس طرح کی بات کرتے ہیں اور بلا دلیل و برہان ، بغیر کسی تحقیق و جستجو کےدوسروں کی کہی ہوئی باتیں دہراتے ہیں۔

اگر چہ ہم نے اپنی کتاب ( الشیعہ ہم اہل السنہ) ( شیعہ ہی اہل سنت ہیں) میں شیعوں کی حقیقی تعریف پیش کی ہے۔ لیکن  یہاں بھی شیعوں کے متعلق خدا اور رسول(ص) کے ارشادات کا ایک گوشہ پیش کررہے ہیں۔ پھر ہم موافق و مخالف علماء اور دانشوروں کی باتوں کو سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوں گے۔

شیعہ ! قرآن کریم کی روشنی میں

خداوند عالم فرماتا ہے :

إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة

( سورہ البینہ/۷)

جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے وہی سب سے بہتر ہیں۔

جلال الدین سیوطی ( عظیم اہل سنت عالم) اپنی معروف تفسیر ( الدر المنثور فی تفسیر الماثور) می اس آیت کی تفسیر یوں تحریر کرتے ہیں:

ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ کیا خدا کے نزدیک فرشتوں کے مقام منزلت پر تعجب کرتے ہو؟ اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، بہ تحقیق روز قیامت خدا کے نزدیک بندہ مومن کا مقام فرشتوں سے کہیں بالاتر ہوگا اور اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو:

            إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة

حضرت عائشہ کہتی ہیں :

میں نے حضرت رسول خدا(ص) سے سوال کیا: خدا کےنزدیک سب سے با منزلت کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا : اے عائشہ کیا تم اس آیت کو نہیں پڑھتیں :

إِنَّ الَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِ أُوْلَئكَ هُمْ خَيرُْالْبرَِيَّة

جابر ابن عبداللہ کہتے ہیں :

ہم رسول خدا(ص) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی(ع) وارد ہوئے تو رسول خدا(ص)  نے فرمایا : جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس کی قسم یہ اور اس کےشیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔ اور اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی

إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَ هُمْ خَيرُْالْبرَِيَّة

اس کے بعد جب بھی اصحاب رسول(ص)، علی(ع) کو آتے دیکھتے تو کہتے خير البرية آئے۔

ابو سعید کہتے ہیں :

علی(ع) (خير البرية) اور لوگوں میں سب سے بہتر ہیں۔

ابن عباس کہتے ہیں :

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا : بے شک روز قیامت تم اور تمہارے شیعہ خداسے راضی اور خدا تم سے  خوشنود ہے۔

حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:

رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمایا : کیا تم نے خدا کے اس کلام کو نہیں سنا کہ وہ فرماتا ہے :

إِنَّالَّذِينَءَامَنُواْوَعَمِلُواْالصَّالِحَاتِأُوْلَئكَهُمْخَيرُْالْبرَِيَّة

( اس سے مراد) تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔۔۔ ہمارا وعدہ حوض کوثر ہے اس جگہ ساری امتیں حساب وکتاب کے لیے آئیں گی اور تم اور تمہارے شیعہ خوبصورت اور عزت کے ساتھ وارد ہوں گے۔

جن اہل سنت علماء نے اس تفسیر کو بیان کیا ہے وہ بکثرت ہیں بطور مثال

 جلاالدین سیوطی کے عالوہ طبری نےاپنی تفسیر میں حاکم حسکانی نے شواہد التنزیل میں، شوکانی نے فتحالقدیر میں، آلوسی نے روح المعانی میں، مناوی نے کنوز الحقائق میں اسے بیان کیا ہے اس طرح خوارزمی نے مناقب میں، ابن صباغ مالکی نے فصول المہمہ میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں، شبلنجی نے نور الابصار میں، ابن الجوزی نے تذکرة الخواص میں، قندوزی حنفی نے ینابیع المودة میں، ہیثمی نے  مجمع الزوائد میں، متقی ہندی نے کنز العمال میں اور ابن حجر مکی نے صواعق المحرقہ میں بھی یہی تفسیر بیان کی ہے۔

اس محکم اور معقول دلیل کے بعد کوئی سبب نہیں کہ تحقیق کرنے والے ان بعض تاریخ نگاروں کی بات پر قانع اور مبمئن ہوجائیں جو معتقد ہیں کہ تشیع کی پیدائش امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد ہوئی ہے۔

شیعہ آنحضرت(ص) کے اقوال میں

رسول خدا(ص) نے شیعوں کے متعلق بارہا گفتگو کی ہے اور ہر مرتبہ ثابت کیا ہے کہ حضرت علی(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے ہی کامیاب ہیں چون کہ انھوں نے حق کی پیروی کی ہے اور حق کی مدد کی ہے، باطل سے دور رہے ہیں اور اسے ذلیل کیا ہے۔

اسی طرح آںحضرت(ص)  نےتصدیق کی ہے کہ علی(ع)  کے شیعہ ہمارے شیعہ ہیں ہم اس جگہ اس حدیث پر تکیہ کرتے ہیں جسے ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں نقل کیا ہے۔ اور دیگر علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے علی(ع) سے فرمایا:

” کیا تم خوش نہیں ہو کہ حسن(ع) و حسین(ع) کے ہمراہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوگے۔اورہماری ذریت ہمارے پیچھے اور ہماری عورتیں ہماری ذریت کے پیچھے اور ہمارے شیعہ ہمارے داہنے اور بائیں ہوں گے۔“

آںحضرت(ص) نے کئی مرتبہ علی(ع) اور ان کےشیعوں کو یاد کیا اور فرمایا :

اس رب کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ (علی(ع)) اور ان کے شیعہ روز قیامت کامیاب ہیں۔

اور یہ فبری بات ہے کہ آںحضرت(ص)  حق کی پیروی کرنے والوں کو یاد کریں اور ان کی صفات بیان کریں کہ وہ ہر زمانہ میں پہچانے جاسکیں تا کہ مسلمان پوشیدہ حقیقت سے پردہ اٹھاسکیںاور نزدیک ترین راستے سے ہدایت پاسکیں۔

آںحضرت(ص) کے ہی پیہم تذکرہ کے پیش نظر بزرگ اصحاب کے ایک گروہ

نے وفات رسول(ص) کے بعد علی(ع) کی پیروی کی اور بنام شیعہ مشہور ہوگئے ۔ ان میں حضرت سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، حذیفہ بن یمان، مقداد بن اسود سہر فہرست ہیں حتی کی فقط شیعہ ان کا لقب بن گیا۔ جیسا کہ ڈاکٹر مصطفی شیمی اپنی کتاب ( الصلة بين التصوف و التشيع) اور ابو حاتم اپنی کتاب ( الزينة) میں رقم طراز ہیں۔

ابوحاتم کہتے ہیں :

اسلام میں جس مذہب کا سب سے کم نام ہوا وہ شیعہ ہے اور یہ اصحاب کے ایک گروہ کا لقب بھی تھا جیسے سلمان فارسی، ابوذر غفاری، عمار یاسر، مقداد بن اسود وغیرہ۔۔۔

اس طرح مستشرقین کا یہ شبہ غلط ثابت ہوجاتا ہے  جس کی پیروی بعض مسلمان محقیقن نے بھی کی کہ تشیع کا وجود  میں آنا ایک سیاسی مسئلہ تھا جسے امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد کے سیاسی حالات نے پیدا کیا تھا۔

اسی طرح ان دشمنوں کی نادانی بھی کھل جاتی ہے جو تشیع کو ایرانیوں سے وابستہ کرتے ہیں۔

اس لیے کہ اس سے ان کا جہل و تعصب ظاہر ہو جاتا ہے۔

پھر یہ محققین امام علی(ع) کی زندگی میں ان کے اصحاب کے تشیع کی کس طرح تفسیر کرتے ہیں؟ اور یہ کس طرح بیان کرتے ہیں کہ آغاز اسلام اور جنگ جمل و صفین میں کوفہ شیعوں کا مرکز تھا؟

یہ خود غرض دشمن کس طرح بیان کرتے ہیں کہ عربی اور افریقی ممالک میں شیعہ حکومتیں موجود تھیں۔ جیسے شمالی افریقہ میں مراکش، تیونس، مشرق میں مصر و حلب جب کہ اس وقت ایران تشیع سے آشنا تھی نہ تھا۔ اس لیے مراکش میں اوریسیوں کی حکومت دوسری ہجری میں تھی اور تیونس میں فاطمیوں کی حکومت تیسری ہجری کے خاتمہ پر تھی اسی طرح تیسری ہجری کے اواسط میں فاطمیوں کی

 مصر پر حکومت تھی ۔ اور حلب(شام) اور عراق میں شیعہ حمدانیوں کی حکومت ؟؟؟؟ہجری میں تھی جب کہ ایران میں صفویوں کی حکومت دسویں ہجری میں قائم ہوئی؟؟؟؟؟ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تشیع کے آغاز کو ایرانیوں سے وابستہ سمجھیں۔

ہم نے اپنی کتاب ( پھر میں ہدایت پاگیا) میں ذکر کیا ہے کہ اکثریت اہل سنت علماء اور ائمہ ایرانی تھے۔ اور یہ کہ شیعہ نہ تھے بلکہ شیعوں اور تشیع کی نسبت شدید تعصب کا اظہار کرتے تھے بس یہی جان لینا کافی ہے کہ اہل سنت کے سب سے بڑے مفسر زمخشری ہیں اور وہ ایرانی ہیں اور ان کے سب سے بڑے محدث بخاری و مسلم بھی ایرانی ہیں اور ابوحنیفہ جنھیں اہل سنت امام اعظم کہتے ہیں یہ بھی ایرانی ہیں ان کا نحوی امام سیبویہ ایرانی ہے۔ امام المتکلمین واصل بن ؟؟ ایرانی ہے۔ امام لغت، فیروز آبادی ( صاحب قاموس المحیط) ایرانی ہے۔ فخر رازی ، ابن سینا، ابن رشد سبھی تو ایرانی ہیں اور یہ سب کے سب اہل سنت کے علماء اور پیشوا سمجھتے جاتے ہیں۔

اے کاش ! اس روز، تمام مسلمان شیعہ ہوجاتے !

عید غدیر نہایتہیباعظمتاورعظیم عیدوں میں شمار ہوتی ہے۔

دنیا کے مشرق و مغرب میں مسلمان دو عیدوں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ پہلی عید، عید  فطر جہے جو ماہ مبارک رمضان کے بعد آتی ہے اور دوسری عید، عید الاضحیٰ ہے جو اعمال  حج کے بعد آتی ہے۔

بسلمانوں نے شروع سے لیکر اب تک ان دونوں عیدون کو محفوظ رکھا ہے اور اس موقع پر تمام عالم میں جشن مناتے ہیں تیسری بڑی عید، جسے عید ” غدیر“ کہتے ہیں یہ وہی دن ہے جب دین کامل ہوا اور خدا کی نعمت مسلمانوں پر تمام ہوئی  لیکن افسوس کہ اس میں انھوں نے اختلاف کیا۔

محققین تاریخ کو اس کا اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی علت وفات رسول(ص) کے بعد سقیفہ بنانے والوں کی سیاسی سرگرمیاں تھیں ، انھوں نے خدا اور رسول (ص) کی جانب ںصوص کے مقابل اجتہاد کیا اور اپنی ذاتی رائے پر مسلمانوں سے زبردستی عمل کرایا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں امیر المومنین علی(ع) کو ایک طرف کر دیا گیا، گرچہ ںصوص کے مطابق وہ واقعی خلیفہ تھے اور ان کی جگہ پر وہ خلیفہ بنا جسے قریش نے نفسانی خواہشات کی بنیاد پر چنا تھا۔ وفات حضرت رسول(ص)  کے بعد یہ سب

 سے تلخ واقعہ ہے جو مسلمانوں کے درمیان پیش آیا اور جس نے انھیں مصیبت سے دوچار کیا اور حق و باطل، جاہلیت و اسلام  کے درمیان پیکار کی ابتدا کا باعث بنا۔

بے شک یہ آیت کریمہ جس میں خدا فرماتا ہے:

محمد(ص) سوائے رسول کے کچھ نہیں ہیں ان سے پہلے بھی رسول بھیجے گئے پس اگر (محمد(ص)) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں تو کیا تم الٹے پاؤں ( اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے۔ ( آل عمران/۱۴۴)

اس کا عید غدیر سے براہ راست رابطہ ہے۔

رسول خدا(ص) نے عید غدیر کا جشن منایا جس وقت پروردگار عالم نے آنحضرت(ص) کو حکم دیا کہ اپنے بعد علی(ع) کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنادیں اور امت پر اچھی طرح واضح کردیں۔ چنانچہ حاضریں غدیر کی جب علی(ع) کے ہاتھوں پر بیعت ہوچکی اور آںحضرت(ص) نے بھی مبارک باد دے دی اور جبرئیل امین یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔

”الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتمَْمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتىِ وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْاسْلَامَ دِينًا“ ( مائدہ/ ۳)

آج ہم نے تمہارے دین کو کمال کی منزل پر پہنچادیا تم پر اپنی نعمتیں تما کردیں اور دین اسلام کو تمہارے لیے بہترین دین و آئین قرار دیا تو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا :

اللہ اکبر! اس خدا کا شکر جس نے میرے دین کو کامل کیا اور مجھ پر نعمتیں تمام کیں اور میرے بھائی اور چچا کے بیٹے کی ولایت سے راضی ہوا۔

چنانچہ مبارک باد کے لیے اسی روز ایک خیمہ ںصب کیا گیا اور حاضرین میں عورتوں اور مردوں میں کوئی نہ بچا جس نے علی(ع) کو ان کی ولایت پر مبارکباد نہ دی ہو۔

لیکن ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے اس الہی عید کے عظیم جشن کے ٹھیک دو ماہ بعد امت اپنی بیعت سے پلٹ گئی۔ اور اس عید اور صاحب عید کو بھلا بیٹھی اور ایسے کو اپنے لیے منتخب کر لیا جو خدا کو منظور نہ تھا۔ اور بہانہ کے لیے کبھی بزرگی اور کم سنی کو پیش کرتے  تو کبھی کہتے بنی ہاشم کو نبوت جیسا عظیم شرف حاصل ہے لہذا یہ مناسب نہیں ہے کہ خلافت بھی انہیں کے درمیان رہے۔ اور کبھی یہ بہانہ کرتے کہ قریش ہرگز اس شخص کو اپنا امیر نہیں بناسکتے جس نے ان کے بہادروں کو قتل کیا ہے اور ان کے باحیثیت افراد کو موت گھاٹ اتارا ہے اور ان کی ناک مٹی میں رگڑ دی ہے۔

ہاں! فرزند ابوطالب(ع) کا کوئی گناہ نہیں، اگر ہے تو بس یہی کہ اس نے خدا کی رضا وخوشنودی کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادی، اور نصرت دین کی خاطر ہر چیز کو قربان کردیا وہ دین جو اس کے بھائی اور چچا کے بیٹے کا لایا ہوا تھا لہذا اسے کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں، وہ اپنے ارادہ وعزم کا مال دنیا سے معاملہ نہیں کر سکتا۔

میں ہرگز امام علی(ع) کے فضائل و مناقب کو شمار نہیں کرسکتا اور نہ ہی ان کی خصوصیات اور امتیازات اکی وضاحت کرسکتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا پہلے ہی سے علم ہے کہ اگر سمندر میرے پروردگار کے کلمات کے لیے روشنائی ہوں اور اشجار قلم ہوں تو سمندر سوکھ جائیگا لیکن میرے پروردگار کے کلمات تمام نہ ہوں گے۔

اس عظیم شخصیت کی شرافت اور فخر و مباہات کےلیے یہی کافی ہے کیہ خدا نے اپنے دین کو ان کی ولایت و امامت سے کامل کیا ہے اور اپنی نعمت کو ان کی خلافت پر تمام کیا اورجن مسلمانوں نے ان کی خلافت کو دل و جان سے قبول کیا ان سے خدا خوشنود ہوا۔

آپ ک عزت و فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ رسول خدا(ص) نے آپ(ع) کو امام المتقین، مسلمانوں کا سید و سردار، مومنین کے لیے امیر اور دین و ایمان کا محور و مرکز قرار دیا ہے۔

میں ہرگز اس بات کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ عید غدیر کی صحت اور اس کی سچائی پر برہان و دلیل پیش کروں۔ اس لیے کہ پوری امت اسلامیہ اس واقعہ کی صحت و سچائی پر ایمان رکھتی ہے اور اسے نقل کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ صرف شیعہ اس روز جشن مناتے ہیں اور اہل سنت اپنی خواہش کے مطابق اس کی تاویل کرتے ہیں۔

ہم جشن منانے والوں کی گفتگو سے بھی آگاہ ہوئے ، اور تاویل کرنے والوں کی باتوں سے بھی اور ولایت قبول کرنے والوں کے عقیدہ کا بھی مطالعہ کیا۔ انھوں نے واضح نص  کے ذریعہ یہ سمجھا کہ امامت اصول دین کی ایک اصل ہے۔ اور ان کے مخالف گروہ کے عقیدہ پر بھی ہم نے بحث کی اور معلوم ہوا کہ انھوں نے نصوص کی تاویل یوں کی ہے : یہ محمد(ص) کی اپنے داماد اور چچا زاد بھائی کے متعلق سوائے ایک رائے اور نظر کے کچھ اور نہ تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس طرح علی(ع) کی نسبت ان کے دشمنوں کے دل نرم ہوجائیں۔

ہم ان کے پیروؤں کے مطمح نظر سے واقف ہوئے کہ جو فقیر اور نادار افراد تھے۔ چنانچہ مخالفین اور دشمنوں کی حالت کا بھی اندازہ ہوا جو کہ ثروت مندوں اور مستکبروں کا ایک بڑا گروہ تھا اور ان کی مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ انھوں نے اہل بیت رسول(ص) کی حرمت کے ساتھ بھی ہتک کی اور صرف سیدة الاوصیاء حضرت علی(ع) پر حملہ کرنے پر اکتفا نہ کی بلکہ سیدة النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا(س) کی بھی اہانت کی اور خاندان نبوت کے خلاف شدید جنگ کا آغاز کردیا جو ناکثین، قاسطین اور مارقین کی جنگ کی صورت میں تمام ہوئی۔

آخر کار امام کو محراب نماز میں شہید کیا اور شکر کا سجدہ بجا لائے۔ان مخالفین نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ آپ کےدونوں فرزند جو جوانان جنت کےسردار ہیں ان کو بھی شہید کردیا۔ امام حسن(ع) کو زہر کے ذریعہ امام حسین(ع) کو ان کے روشن ستاروں کےساتھ کربلا میں قتل کرڈالا۔

اس مقام پر سمجھ میں آجاتا ہے کہ عید غدیر اس امت کےلیے امتحان تھی لیکن افسوس یہ متفرق ہوگئی اور اختلاف سے دوچار ہوئی اور اس طرح ٹکڑوں میں بٹ گئی جیسے یہود نصاری نے اختلاف کیا تھا، رسول اسلام(ص) نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔

یہ بھی ہم پر واضح ہو گیا کہ امامت جو اصول دین  کی ایک اصل کنارے چھوڑ دی گئی اور اس سے نفرت کی جانے لگی۔ اور اس کے اہل افراد سوائے صبر وشکیبائی کے کچھ نہیں کرسکتے تھے اور اس کی جگہ بغیر سوچے سمجھنے اسی جھوٹی امارت کھڑی کردی کہ جس کے شر کو مسلمانوں کے سر سے سوائے خدا کے کوئی اور ختم نہیں کرسکتا ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آزاد کئے جانے والے ( طلقاء) اور مفسدوں نے بھی اس کی ہوس کر لی۔ اور جس کشتی نجات کو آںحضرت(ص) نے درست کیا تھا اور چلنےکے یے تیار کردیا تھا اس پر کچھ مخلص بندوں کے سوا کوئی سوار نہ ہوا اور تمام مسلمان دنیا کی محبت و ریاست کی خواہش میں ڈوب گئے اور جو ائمہ ہدایت اور راہنما تھے ان کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔ اس طرح وہ ایسے خود پسدند راہ و مذہب کے پیرو بن گئے  جس پر کتاب خدا اور سنت رسول(ص) سے قیامت تک کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔

یہ تھا عید غدیر اور صاحب غدیر کی سر گذشت کا خلاصہ اور غدیر کے بعد جو سازش کی گئی اسے بھی وضاحت سے بیان کرنے کی  ضرورت نہیں ہے۔ جو لوگ مزید تحقیق کرنا چاہتے ہیں وہ میری دوسری کتاب (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) کا

مطالعہ فرمائیں۔

فی الحال چاہے ہم سنی ہوں یا شیعہ یہ جاننا ضروری ہے کہ ہم بھی تاریخ کی قربانی ہیں بلکہ ایک ایسی سازش کی قربانی جس کا نقشہ دوسروں نے تیار کیا اور اس کی داغ بیل ڈالی بلا شبہ ہم بھی طبیعت کے مطابق پیدا ہوئے، ہمارے شیعہ یا سنی ہونے کا سبب اور ہدایت و گمراہی کا باعث ہمارے والدین ہیں، ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جس گمراہی و اںحراف کو چودہ(۱۴) صدیاں بیت چکی ہوں اس کا کچھ برسوں میں ختم ہونا ممکن نہیں ہے اور جو بھی یہ خیال کرتا ہے اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ معصوم ائمہ(ع) نے امام علی(ع) سے لیکر امام حسن عسکری(ع) تک اپنی پوری توانائی کے ذریعہ امت میں اتحاد پیدا کرنے اور سیدھے راستہ کی ہدایت کی کوشش کی اور اس راہ میں اپنی جان قربان کی اور اپنے نونہالوں کو بھی فدا کردیا تاکہدین محمد(ص) قائم رہے لیکن زیادہ تر لوگوں نے کفران نعمت کیا اور ان سے منہ موڑ کر حق کو پامال کردیا۔

اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوناچاہئے کہ اصلاح کرنے والوں اور سچے مومنین سبھی کی کوششیں ناکام ہوئیں اور مسلمانوں کے اتحاد کی تمنا، جہل و نادانی اور اندھے تعصب کے پتھر سے ٹکرا کر رہ گئی۔ قومیتوں کے پہاڑ ، گوناگون نسلیں، اور مختلف حخومتیں، ان کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے پس پشت ہمارے دشمن بھی ہیں جن کی محبت و دوستی کو ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ وہ رسول(ص) کی رسالت کے زمانہ سے لے محبت تک پوری قوت کے ساتھ ہمیشہ اس کی کوشش میں رہے ہیں کہ نور خدا کو خاموش کردیں۔

اور ان کے پیچھے بھی کچھ اورموقع پرست لوگ ہیں جو سوائے اپنے فائدہ کے اور کچھ نہیں سوچتے بلاشبہ مسلمانوں کا اتحادان کے منافع کے لیے بڑا خطرہ

 ہے لہذا ان کی ہمیشہ یہی کشش رہتی ہے کہ لوگوں میں تفرقہ ڈال کر انھیں ہانٹ دیں۔

ان کے علاوہ ابلیس ملعون بھی تو بیکار نہیں بیٹھا ہے وہی تو ہے جس نے خداوند عالم سے کہا تھا:

میں یقینا تیرے بندوں کے راہ راست اور صراط مستقیم سے گمراہ اور منحرف کردوں گا۔ ( اعراف/۱6)

یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ وقت کافی گذر چکا ہے چودہ صدیاں بیت گئیں اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔ حیران و پریشان ہیں۔ ہماری عقلوں پر دنیا کی زینت و ہوس نے غلبہ کررکھا ہے اور ہماری فکروں کو لاعلاج بیماریوں نے گھیر رکھا ہے۔ لیکن دوسری طرف ہمارے دشمن علم اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مسلسل ترقی کررہے ہیں اور ہم سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں، ہمارا خون بہا رہے ہیں ، ہماری دولت لوٹ رہے ہیں اور ہمیں ذلت و رسوائی کی طرف کھینچ رہے ہیں ۔ ان کا دعوا یہ ہے کہ ہم ( مسلمان) پسماندہ ہیں۔ ہمیں متمدن بنانا چاہئے۔ ہم وحشی جانور ہیں جسے رام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے لیے سارے راستے بند کر ڈالے گئے اور ہماری سانسوں کو بھی مقید کر دیا گیا، حتی کہ اگر ہم میں سے کسی کو چھینک بھی آجائے تو اس کا بھی ہزار طرح سے حساب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا مصدر جو کہ زکام یا نزلہ ہے اسے مشخص کرو ایسا نہ ہوکہ انھیں بھی لگ جائے اور وہ بیمار ہوجائیں اور علاج مشکل ہوجائے۔

یہ سب اس لیے ہے کہ جب باتوں کا اسلام نے حکم دیا تھا انھوں نے اس پر عمل کیا اور اسے سیکھ لیا لیکن ہم نے خدا کے بہت سے احکام کو چھوڑ دیا اور ان پر توجہ نہ دی۔ اس سے زیادہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے اس لیے کہ عقل مندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔

ہاں آج ہم نیند سے اٹھ بیٹھے ہیں لیکن کیسا جاگنا ! ہم نے اتحاد کے نغمہ پر

 تالیاں بجانا اور ناچنا شروع کردیا ہے اور ہم میں سے ہر ایک اس بات کا معتقد ہے کہ ہم ہی اتحاد کے علمبردار ہیں اور یہ سمجھ لیا کہ چند کانفرنسوں یا چند نعروں کے ذریعہ امت میں اتحاد پیدا کیا جاسکتا ہے۔

میں نے جس روز اس دنیا میں آنکھ لھولی اسی روز لفظ اتحاد میرے کانوں سے ٹکرایا اور مدرسہ کے پہلے دن سب سے پہلے اتحاد کی نظم پڑھی لہذا اس کےمعنی میری رگ دپئے میں رچ بس گئے تھے۔ اور جیسے جیسے میں جوان ہوتا جاتا تھا اتحاد کا خواب دیکھتا تھا لیکن آج ہماری عمر پچاس سال سے زیادہ ہوگئی اور اتحاد کی کوئی تصویر اور خیال تک نظر نہیں آیا۔

مسلمانوں کی یکجہتی و اتحاد سے نامیدی و مایوسی کے بعد میں نے اسی اتحاد پر اطمینان کرلیا تھا جو دو پڑوسی ملک مصر اور شام کے درمیان پیدا ہوا تھا۔ لیکن جس صبح میںاس اتحاد پر خوشحال ہوا اسی شب اس پر رویا بھی۔ البتہ دونوں قومیں ساتھ ہیں اور سوائے حکومتی قوانین کی کوئی بھی چیز ان کو ایک دوسرے سے جدا نہ کرے گی۔ اور اسی روز ہماری سمجھ میں آیا کہ قوموں کی سرنوشت کچھ گئے چنے افراد کے ہاتھوں میں ہوا کرتی ہے۔ اور وہ جس طرح چاہتے ہیں نچاتے ہیں۔ لہذا تم دیکھو گے کہ وہی جو کل تک ایک دوسرے کے گلے ملتے تھے اور ایک دوسرے کی پیشانی چومتے تھے آج ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور جنگ میں مصروف ہیں۔

جب دشمنوں کے پاس اس درجہ قدرت و نفوذ ہے کہ وہ ان قوموں کے اتحاد کو اختلاف میںبدل سکتے ہیں جو سینکڑوں سال سے متحد تھیں، اور ان کے اندر بخش و تناؤ پیدا کرسکتے ہیں جب کہ یہ قومیں با قدرت اور متحد تھیں پھروہ ان

اسلامی قوموںکو ہرگز نہ چھوڑین گے۔جو سینکڑوں سال سے اختلاف و پراکنگی کا شکار ہیں اور اب متحڈ ہونے کی فکر میں ہیں یہ اتحاد ان کےمنافع کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ گرچہ یہ قومیں فقر،پسماندگی اور ڈھیروں قرضوں کےنیچے دبی ہوئی ہیں۔

خیر اگر ہم فرض لرلیںکہ اتحاد بھی پیدا ہوگیا تو ہم اس فقیری وجہالت کے ساتھ کیا کرسکتے ہیںاور اگر ہم استعمار کرنے والوں کو ترک کرنے اور چوروں کے ہاتھ کاٹنے کی فکر میں ہیں تو ہمیں چاہئے کہ اس طاقت سے بہرہ ور ہوں جو ستمگروں کی جڑ کاٹ دے اور مفسدوں کو نیست و نابود کرسکے لیکن یہ بھی کیسے ممکن ہے ہم تو مسلسل انھی سے ہتھیار خریدے جارہے ہیںجس کا استعمال ملت اسلامیہ کے زحمت کش فرزندوں اور مسلمانوں کی نابودی کی خاطر ہوتا ہے۔

اگر ہم ایک روز آگے بڑھیں تو وہ ساتھ سال آگے بڑھ جاتے ہیں اور اگر ان سے مقابلے کےلیے کوئی ایک قوت پیدا کریں تو وہ اس طرح کی ستر(۷۰) قوتین ہماری نابودی چاہیں تو انھیں ہمارے مقابلہ میں کوئی خاص زحمت و مشکل نہ ہوگی اس لیے کہ وہ ہمارے دیگر مسلمان اور عرب بھائیوں کو چڑھائیں گے اور ہمیں آپس میں ہی لڑا کر ایک دوسرے کو خان بہانے میں لگا دیں گے اور خود دور سے تماشا دیکھیں گے اور تالی بجائیں گے۔

خلیج فارس کی جنگ ہمارے کانوں اور ہماری آنکھوں سے زیادہ دور نہیں۔ کل ہی تو تھا کہ اس جنگ میںکفار کےصرف کچھ فوجی قتل ہوئے لیکن دوری طرف لاکھوں مسلمان زندہ در گور ہوگئے۔ اور جو شخص  یہ دعوی کرتا تھا کہ میں اسرائیل کو جلا کر راکھ کردوں گا اور بعض نادانوں کو اس کا یقین بھی ہوگیا تھا اورجس نے خود اپنے عوام کو کیمیکل ہتھیاروں کے ذریعہ نانود کرنا شروع کردیا اور

 ان کے خائن و ظالم فوجیوں سے مسجد اور مقامات مقدسہ بھی محفوظ نہ رہ سکے وہ کفار کے مقابل۔ بزدلوں اور ڈرپوکوں کی طرح پیچھے ہٹ گیا اور میدان خالی چھوڑ گیا۔ اسلامی جمہوری ایران اور اس کے دلاور مردوں نے پوری طاقت و توانائی، جدوجہود اور اپنے فرزندوں کے خون کی سنگین قیمت ادا کر کے اور مشرق و مغرب کی دشمنی، بین الاقوامی ناکہ بندی مول لے کر مسلمانوں کےھ اتحاد کے لیے قیام کیا۔ اور بالآخر اس کے رہبر اور بانی ( آپ پر خدا کی رحمت ہو) نے دنیا سے رحلت فرمائی جبکہ آپ کی جانب سے اسلامی اتحاد کی دعوت پر مسلمانوں کے لبیک نہ کہنے پ رآپ کو افسوس تھا۔ اسی طرح جیسے آپ کے جد امام المتقین کی رنج ملا تھا یہ امام خمینی کے جاودانی اقوال کا ایک حصہ ہے آپ نے فرمایا:

(اگر مسلمانوں کا ہر فرد مل کر تھوک دے تو اسرائیل ڈوب جائے گا۔)

پھر مسلمان جب تھوکنے تک سے بخل کرے ٹو اس سے جان و مال کی قربانی کی امید کہاں رکھی جاسکتی ہے لہذا ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان میں ےس بہت سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کررہے ہیں۔ لہذا یہ حماقت ہوگی کہ کوئی ان سے اسلامی اتحاد کی امید رکھے۔

کیا آپ بھول گئے ہر روز ۵۰ ہزار فلسطینی، اسرائیلی رحم و کرم کے منتظر رہتے ہیں اور ہر روز صبح سوریرے ذلت و رسوائی کے سایہ میںکام پر جاتے ہیںتاکہ اپنےاور اپنے بچوں کےلیے روٹی فراہم کرسکیں۔ اور اگر کسی روز اسرائیل ان پر اپنے دروازے بند کردے تو وہ بھوک سے مرجائیں گے جیسا کہ اخیرا ہوا بھی یہی ہے۔

پھر وہ مسلمان بھائی کہاں ہیں جنھیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے؟ اور اپنی رحمت کے ذریعہ انھیں بے نیاز کیا ہے۔ یہاں تک کہ ایک شاہزادہ کےپاس اتنی دولت ہے کہ وہ ان بیچاروں سے کئی گنا زیادہ لوگوں کو مستغنی کر سکتا ہے جو

 اسرائیل سے نہیں لڑتے اور اس کو اپن اولی نعمت اور روزی دینے والا سمجھتے ہیں۔

خدا کا درود و سلام ہو امام علی(ع) پر آپ فرماتے ہیں

” نزدیک ہے کہ فقر، کفر پر تمام ہوا گر فقر کوئی شخص ہوتا تو میں اسے قتل کر ڈالتا۔“

یہ سچ ہے کہ اتحاد میںطاقت ہے لیکن اتحاد کے ہر عنصر میں طاقت ہونی چاہئے اور اگر تمام عناصر بیمار اور کمزور ہوں تو ان کا اتحاد سوائے مرض و شدت اور بدبختی کے کچھ اور نہ ہوگا۔ وہ کس طرح اتحاد کے لیے تیار ہوگا جو بیماری و بھوک میں مبتلا ہے؟

کن کن باتوں کے متعلق آپ سے  گفتگو  کروں؟ ان جوانوں کے متعلق جن کے پاس مقابلہ کے لیے پتھر کے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں ہے اور پتھر بھی ٹوٹ چکے ہیں اس لیے کہ اس وقت بعض لوگ ایسے پتھر کی تلاش مین ہیں جنھیں باندھ کر بھوک سے کچھ نجات حاصل کریں ۔ اور عالم یہ ہے کہ اگر ایک اسرائیلی فوجی کسی ایک بچے کے پتھر  مارنے کی وجہ سے زخمی ہوجائے تو دسیوں بچوں اور نوجوانوں کو مشین گن اور بم کے ذریعہ حملہ کر کے ختم کر ڈالتے ہیں۔

پس عرب ممالک کہاں ہیں جو دسیوں سال سے فلسطین کی آزادی کا وعدہ دوہرا رہے ہیں؟

اور وہ اسلامی ممالک کہاں ہیں جو اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس کے زیر سایہ جمع ہوئے ہیں اور بیت المقدس کی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں؟ کیا آپ نے ان ممالک میں سے کسی ایک کو دیکھا جسے نے ان جہاد کرنے والے بچوں کی معنوی یا مادی مدد کی ہوجن کے پاس سوائے پتھر کے کوئی ہتھیار نہیں۔ لیکن ہم اس بات  کے شاہد ہیں کہ ان ہی ممالک نے خلیج فارس کی جنگ میں پناہ گاہوں سےکس طرح ہتھیار نکالے اور اربوں ڈالر خرچ کیا اور شور مچایا کہ عراق کو نابود

کردیں گے۔ لیکن درحقیقت انھوں نے سازش کی تھی کہ عراق کے شیعی انقلاب کچل دیں۔اس وقت عراقی اور اسرائیلی حکومت اور دوسری کٹر حکومتیں اپنی جگہ قائم ہیں لیکن شیعہ زندہ درگور ہوگئے۔ اور جو زندہ بچے وہ بیابانوں میں پناہ گزین ہوئے ہیں۔ لاکھوں بیچارے عراقی، سعودی کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اور وہابیت کی ذلت و رسوائی اور اہانت کے زیر سایہ بہ زندگی بسر کررہے ہیں۔

مجھے افغانستان کےمسلمانوں کے انجام کے متعلق بھی کہ لینےدیجیے اور دلی بھڑاس نکال لینے دیجئے کہ خدا نے ان پر رحم کیا اور انھیں کفار پر کامیابی بخشی لیکن بعد میں یہ خود ایک دوسرے کی جان کے درپئے ہوگئے۔ گھروں کو ویران کرنے لگے، عورتوں اور بچوں کو قتل کر ڈالا اور یہ سارے مظالم کفار کے ہتھکنڈوں کے ذریعہ انجام دیئے گئے اور اس وقت بھی جارہی ہیں۔

رکیئے ! ہم آپ کو یو گوسلا ویہ ( بوسینا) کے مسلمانوں کے متعلق بتاتے ہیں۔ کافر قوتوں نے ان پر حملہ کیا اور مشرقی یورب سے ان کی مکمل صفائی کے در پے ہوگئیں۔

مجھے ہندوستان کے مسلمانون کی حالت پر بھی گریہ  کر لینے دیجیئے کہ میں نے اپنی آںکھوں سے دیکھاکہ ان کی ناموس کی کس طرح بے حرمتی کی جاتی ہے۔۔۔ اور کس طرح ان پر حملہ کیا جاتاہے۔ حتی کہ بعض مسلمان عورتیں حیوانوں کی طرح بازاروں میںخریدی اور بیچی جاتی ہیں۔!

اتھیوپیا، سومالیا، سوڈان او افریقی مسلمانوں کے متعلق ہم کیا کہیں روزانہ ہزاروں مسلمان بھوک سے مررہے ہیں جب کہ مغربی کتے اور بلیاں لذیذ کھانوں سے سیر ہیں!!

مسلمانوں کی آبرو پامال ہورہی ہے اور پیروں تلے روندی جارہی ہے جب کہ جانوروں کے حقوق کو دفاع کرنے والی تنظیمیں گھاس  کی طرح اگ رہی

ہیں۔

بہت ہوچکا ہے جھوٹ!

بہت ہوچکا ہے فریب!

بہت ہوچکا ہے نفاق!

بہت ہوچکا ہے دورنگی!

اگر ایک وطن کے جوانوں میں پراگندگی اس طرح پائی جاتی ہو تو پھر تمام مسلمانوں کے اتحاد کے خواہاں ہم کیسے ہوسکتے ہیں؟ بات زیادہ ہے اور کام کم!

۱۹۴۸ء اسے لے کر خلیج فارس کی جنگ تک، ایک مختصر نگاہ ہی کافی ہے۔ ہمیں صاف نطر آجائے گا کہ ہمیشہ کامیابی کفار کی رہی ہے اور مسلمانوں کو ناکامی، شکست، نقصان اور ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پس اے عقلمندو! خدا کے غضب سے ہوشیار رہو!

کیا یہ کل ہی کی بات نہیں ہے جب  ہم کہتے تھے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پیدا نہ کریں گے اور جو کچھ زور اور طاقت کی بنیاد پر لیا گیا اسے روز اور  باقت کی بنیاد پر واپس لیں گے۔ پھر آج کیوں ہم فقیروں کی طرح ان کے پیچھے پھر رہے ہیں اور ان سے گڑ گڑا کر التجا کر رہے ہیں کہ ہم سے زبردستی چھینی ہوئی زمین کا کچھ حصہ ہمیں واپس کردو، اور اس میں واسطہ اس کے نزدیکی دوست امریکا کو بناتے ہیں؟!

ہمارے دل تھک گئے اور ہماری عقلیں خبط ہوگئیںاورہمارےقلوبپراگندہہوچکےہیں۔نہابہمتمہارے اتحاد کا یقین کریں گے اور نہ ہی اس کامیابی کا جو تمہارے ذریعہ حاصل ہو! اور کیا یہ معقول بھی ہے کہ خلیج کے بادشاہ و امراء اور دیگر مسلمان بادشاہ سلاطین فقیروں، کمزوروں، بے کسوں اور ناداروں کے ساتھ اتحاد کریں؟!

ہاں ! ان کا اتحاد صرف کلمہ شہادتیں کہنے میں ہے وہ بھی صرف زبان سے۔ حتی کہ انکی نماز،روزہ،  زکوة، حج بھی زبان سے آگے نہیں بڑھتے پھر مشکل کیا ہے؟ بس خطیب نماز جمعہ نے آواز لگا دی کہ اے لوگو! ہمارا خدا ایک ہے، ہمارا رسول(ص) ایک ہے، ہمارا قبلہ ایک ہے، پس مسلمانوں  تم میں اتحاد ہونا چاہئے۔۔۔۔ ! کتنا آسان ہے یہ نعرہ بلند کرنا کہ ( نہ شیعہ نہ سنی بس اسلامی اتحاد)لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کا ٹھیک ٹھیک حساب کرنا چاہئے اور بغیر و دھوکے کے حقیقت سے روبرو ہونا چاہئے۔

ادھر چند برسوں سے ایک نیا نطریہ پیش کیا جانے لگا ہے اور ایک نئی بات کہی جارہی ہے جو گویا ائمہ معصوم(ع) اور بزرگوں کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔ کہتے ہیں کہ : ان احادیث کو بیان نہ کرنا چاہئے جس میں تاریخ کا تذکرہ ہے اسلیے کہ اس سے بعض مسلمانوں کے جذبات بھڑکتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھے اور کہنے لگے ہیں کہ شیعہ و سنی میں سواے فروغ دین کے اور کوئی اختلاف ہی نہیں ہے اور نہ بھی  ایسا ہی اختلاف ہے جیسا سنی فقہوں میں آپس میں اختلاف ہے اس طرح انھوں نے امامت جو اصول دین کی ایک اصل ہے اس سے ہاتھ اٹھالیا ۔

جو نتیجہ اس جدید صورت حال سے حاصل ہوا یہ تھا کہ ہمارے دماغ آزاد ہونے کے بعد خشک ہوگئے اور انھیں اب بحث کرکے حق تک پہنچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اور اس کے بعد ہمیں  ایک ساتھ رہنا چاہئے دشمن کے سامنے ایک ہوکر کھڑے ہونا چاہئے۔ گویا اس بات سے غافل ہیں کہ ہمارا دشمن خود ہمارے اندر ہے اس نے ہمارے گھروں کو اپنا مسکن بنالیا ہے اور خود ہمارے زیر سایہ پرورش پا رہا ہے۔

تعجب تو اس بات پر ہے کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے مارکس اور لینن

کے متعلق بحث کریں تو خوش ہوتے ہیں اور ان ان کے سینے پھیل جاتے ہیں۔ اور آپ کو روشن خیال کہنے لگتے ہیں۔ لیکن اگر ابوالحسن، علی(ع) اور ائمہ معصومین(ع) کے پاک فرزندوں کے نام لیں تو یکا یک دل تنگ اور افسردہ ہوجاتے ہیں کہ تم نے خلفاءئے راشدین کی توہین کی ہے اور اس سے بھی عجیب و مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اگر دلیل و برہان کے ذریعہ ان زیر کردیا اور ان کے لیے سوائے تسلیم کے کوئی راہ نہ چھوڑی تو فورا اسلامی اتحاد کا نعرہ لگائیں گے اور آپ پر الزام لگائیں کہ آپ مسلمانوں میں اختلاف و افتراق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

کیا اس پر لعنت بھیجنا  چاہئے جو کتاب  خدا، سنت رسول(ص) ، اور ثقلین کی طرف رجوع کرنے کی بنیاد پر عقیدہ میں اتحاد پیدا کرنا چاہتا ہے اور کیا اس پر مسلمانوں میں اختلاف و افتراق ڈالنے کا الزام لگایا جاسکتا ہے؟

بعض علماء حق کو جانتے ہیں لیکن اسے پوشیدہ کرتے ہیں اور اگر ان سے سوال وجواب کریں تو اس خوف کی  بنیاد پر جواب نہ دیں گے کہ کہیں اسلامی اتحاد کے مخالف قرار نہ دے دیئے جائیں۔

لیکن میرا  خیال تو یہ ہے کہ حق تک پہنچے کے لیے صحیح بحث میں کوئی ایسا خطرہ نہیں ہوتا جو اسلامی اتحاد کو نقصان پہنچائے۔ اس لیے کہ جذبات و احساسات کو بھڑکانے سے بڑھ کر تو اور کچھ نہیں ہوسکتا اور یہ صورت بھی بحث کے آخر میں حق کے واضح ہوجانے کے بعد آتی ہے۔

لیکن وہ خطرہ کہ جس سے بڑا خطرہ کوئی اور نہیں ہوسکتا یہ ہے کہ ہم منہ پ رلگام لگا دیں اور لوگوں کو بحث و جستجو سے روک دیں اپنی عقلوں کو معطل کردیں اور حق تک پہنچنے سے روک دیں۔ صرف اس لیے کہ اتحاد کے خواہاں ہیں! یہ وہی کام ہوگا جو عراق کی بعث پارٹی نے سنی و شیعہ میں تفرقہ ڈالنے کے لیے کیا تھا پس اس سلسلہ میں ہر گفتگو منع ہے تاکہ اہل سنت حضرات بات کی حقیقت کو نہ پہنچ

سکیں۔

اور یہ بھی وہی کام ہے جسے سب سے پہلے خلفائے راشدین نے انجام دیا اور لوگوں کو نیزہ کی نوک پر رسول اسلام(ص) کی احادیث نقل کرنے سے روکا لہذا حقیقت بہت سے مسلمانوں پر پوشیدہ ہوگئی۔ انھوں نے عید غدیر کو نہ پہچانا۔ انھیں نہیں معلوم کہ عید غدیر کیا ہے؟ وہ نہیں جانتے کہ اس روز کیا ہوا؟

چنانچہ یہود و نصاری نے ان پر ملامت کی اور کہا اگر آیت

” اليوم اکلمت لکم دينکم“

ہمارے متعلق نازل ہوئی ہوتی تو اس روز ہم سبھی عید مناتے اور اس میں ایک آدمی ھی اختلاف نہ کرتا ۔ اور صحابہ کے پاس اس کا کوئی  جواب نہ تھا۔

اور ایک گروہ پیدا ہوا ہے جو امیر المومنین(ع) کے کلام سے استدالال کرتا ہے کہ حضرت نے فرمایا:

”جب تک مسلمانوں کے امور ٹھیک ہیں میں بھی خاموش رہوں گا، رہنے دو صرف مجھ پر ستم ہوتا رہے۔“ ( نہج البلاغہ/ خ۷۴)

لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ خود حضرت نے غدیر کے واقعہ کو زندہ کیا جب کہ لوگوں نے اسے مکمل طور پر بھلا دیا تھا۔ اور تیس افراد جو اس واقعہ کے شاہد تھے ان کو گواہ بنایا اور جن لوگوں نے ان کو چھپایا ان پر نفرین کی۔ اسی طرح ان کے دونوں فرزندوں نے بھی حج کے موقع  پر زائرین خانہ خدا کے سامنے اس اہم تاریخی واقعہ کو بیان کیا اور جشن منایا۔ کیا امیرالمومنین(ع) نے نہیں فرمایا :

”نفرین نہ کرو اور ناسزا بھی نہ کہو لیکن یہ یاد دلاؤ کہ انھوں نے کیا، کیا، کیا؟ تاکہ حجت مکمل ہوجائے اور استدلال پوری طرح واضح وروشن ہو جائے۔“ ( بحار الانوار ج۳۲، ص۳۹۹)

لہذا ہمیں امیرالمومنین(ع) کی اقتدا کرنی چاہئے اور ان کی پیروی کرنی چاہئے نہ کہ صرف تسلیم ہوجانے کا تذکرہ کریں جیسا کہ بنی اسرائیل کہتے تھے کہ:

”ہم آسمانی کتاب کی بعض آیتوں کو تو قبول کریں گے لیکن بعض کو قبول نہ کریں گے۔( نساء/۱۵۰)

لہذا جو نہج البلاغہ کو دلیل بنا کر ہم پر اعتراض کرنا چاہتے ہیں انھیں پوری کتاب اور جوکچھ اس میں ہے سب کچھ قبول کرنا چاہئے۔ نہ کہ صرف کچھ جملے جو ان کی نفسانی خواہشات کے ساتھ سازگار ہوں اسے دلیل بناکر اعتراض کریں۔

مثلا نہج البلاغہ میں جس جگہ بھی کسی مجہول شخص کی تعریف ہوئی ہے فورا کہنے لگتے ہیں کہ حضرت(ع) کا یہ کلام حضرت فاروق کے متعلق ہے اور آپ نے ان کی تعریف ومدح کی ہے!

لیکن انھیں سے جب کہیئے کہ ( خطبہ شقشقیہ) جس میں امام(ع) نے خلفاء پر شدید اعتراض کیا ہے اس کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟ تو کہیں گے یہ شریف رضی کا جھوٹ ہے جس کا حضرت علی(ع) سے کوئی ربط نہیں! البتہ یہ حضرت علی(ع) کو دوست رکھتے ہیں اور اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ آن جناب(ع) نے خلفاء کی اطاعت میں کوتاہی نہیں کی! یہ ان کے لیے دعا بھی کرتے ہیں۔ لیکن انھیں یہ یاد نہیں کہ علی(ع) نفس رسول(ص)ہیں اور قلب علی(ع) قلب محمد(ص) ہے۔ پروردگار عالم نے ان سے رجس وکثافت کو دور کیا ہے اور انھیںطاہر و مطہر قرار دیا ہے انھوں نے یہ بھلا دیا ہے کہ علی(ع) اصل کے عین مطابق ایک نسخہ ہیں۔ وہی اصل جسے پروردگار عالم نے خلق عظیم سے تعبیر کیا ہے اور اس کی توصیف کی ہے اور اسی طرح اہل بیت(ع) کے قلوب حسد و جلن سے خالی ہیں اور ان کے یہاں بغض و کینہ کا گذر نہیں ہے ۔ لہذا یہ رسول(ص) تھے اور وہ رسول (ص) کے وصی و با الفاظ دیگر محمد(ص) نذیر و بشیر تھے تو علی(ع) ہادی اور راستہ دکھانے والے، محمد(ص) نے تنزیل پر جنگ کی تو علی(ع) نے تاویل و تفسیر پر جنگ کی۔

یہی سبب تھا کہ اللہ نے علی(ع) کو چنا اور اپنی امامت کے لیے علی(ع) کو منتخب کیا

ایسی امامت جس پر اپنے دین کو مکمل کیا اور نعمت کو تما کر دیا اور اس عظیم ہستی کے اکرام و احترام کےلیے تاج پوشی امامت کے دن کو عید اکبر قرار دیا۔

ہاں! علی(ع) نے صبر و خیر خواہی کے ساتھ ایک روز بھی اپنےحق سکوت اختیار نہ کیا۔ خود آپ لوگ اپنی صحیح میں تحریر فرماتے ہیں ۔ علی(ع) چھ ماہ تک بیعت کے لیے تیار  نہ ہوئے اور اس مدت میں واضح اور روشن دلیلوں کےساتھ ( غاصبین حقوق) پر احتجاج کرتے رہے اور اپنے حق کا دفاع کرتے رہے۔

یہاں تک کہ حضرت عمر سے کہا:

” ایسا دودھ دو ہو کہ اس کا آدھا تمہارا ہو۔ آج اس کے لیے زیادہ محنت کرو تا کہ وہ خلافت کل تمہارے حوالے کردے۔“( الامامہ والسیاست، ج ۱، ص۱۸، انساب الاشراف،ج ۱، ص۵۸۷)

خود آپ لوگوں نے روایت کی ہے کہ وہ اپنی زوجہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کے ساتھ باہر جاتے اور انصار سے ملاقات کرتے لیکن وہ معذرت کے ساتھ کہتے :

” اے رسول خدا(ص) کی نور چشم اگر آپ کے شوہر اور (آنحضرت(ص)) کے چچا زاد بھائی ہمارے پاس پہلے آتے ( اور ہم سے مدد چاہتے) تو ہم سوائے ان کےکسی اور کو خلافت کےلیے منتخب نہ کرتے“۔

اور ان کے جواب میں حضرت امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں :

کیا یہ صحیح ہوتا کہ میں رسول خدا(ص) کے جسم کو بلا غسل و کفن چھوڑ دیتا اور ( سقیفہ چلا جاتا) اور خلافت کے مسئلہ میں لوگوں سے جھگڑا کرتا؟

اور جناب فاطمہ(س) فرماتی ہیں :

” ابوالحسن(ع) نے جو کچھ کیا وہ ان کا فریضہ تھا لیکن جو کچھ ان لوگوں نے کیا اس کا حساب انھیں خدا کے یہاں دینا ہوگا۔“( الامامہ والسیاست، ج ۱، ص ۱۹، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج6،ص۱۳)

وہ علی(ع) ہی تو تھے جنھوں نے دل سوز آہ و نالہ کے ہاتھ اپنی زوجہ کو رات کے وقت سپردخاک کیا اور رسول خدا(ص) کو مخاطب کر کے فرمایا:

” اے خدا کے رسول(ص) آپ پر سلام ہو اور آپ کی بیٹی پر بھی جو آپ کی کے بغل میں محو آرام ہیں۔ وہ آپ کو بتائیں گی کہ آپ کی امت نے کس طرح ہمارے خلاف شورش کی اور ہمارے حق کو غصب کیا۔ اے رسول(ص) خدا آپ ان ( فاطمہ(س)) سے کچھ نہ پوچھئے ان کی حالت دیکھئے، “( آپ خود سمجھ جائیں گے کہ ان پر کیا گذری ہے۔) نہج البلاغہ۔ خ، ۲۰۵)

وہ علی(ع) ہی تو تھے جنھوں نےخلافت کے لیے دو خلیفہ ( حضرت ابوبکر و حضرت عمر) کی سنت کو قبول کرنے کی شرط سے انکار کردیا اور قبول نہ کیا۔ یہ سب کیا ان لوگوں اور ان کی حرکتوں سےحضرت(ع) کی رضامندی کی دلیل ہے؟!

وہ علی(ع) ہی تو تھے جنھوں نے خلافت سے انکار کردیا اورجب ان کو مجبور کیا گیا تو بھی قبول نہ کیا یہاں تک کہ ۳۰ آدمیوں نے غدیر کے واقعہ کی گواہی دی اور اعتراف کیا کہ علی(ع) رسول خدا(ص) کی جانب سے تمام مسلمانوں کےلیے خلیفہ معین ہوئے تھے اور آنحضرت(ص)  نےفرمایا تھا:

”جس کے مولا علی(ع) نہیں ہیں وہ مسلمان نہیں ہوسکتا“

اس طرح علی(ع) نے غدیر کی واقعہ  کی یاد اس وقت تازہ کی جب اسے پوری طرح فراموشی کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ لیکن افسوس کہ اس کے باوجود بہت سے مسلمان اس واقعہ سے بے خبر ہیں۔ اور اس واقعہ پر یقین نہیں کرتے۔ علی(ع) کا یہ کردار صرف اس بنیاد پر تھا کہ امام علی(ع) کی شجاعت اس بات کی اجازت نہیں دیتی  کہ حق کے اوپر خاموشی اختیار کی جائے۔

میں ان لوگوں سے عرض کرتا ہوں کہ امام علی(ع) کی شجاعت رسول خدا(ص) کی شجاعت سے بڑھ کر نہیں ہے، علی(ع) فرماتے ہیں:

” جب بھی آتش جنگ کے شعلے بھڑک اٹھتے اور لڑائی شدت اختیار کر لیتی میں رسول خدا(ص) کی پناہ میں آجاتا تھا“۔ ( نہج البلاغہ)

لیکن اس کے باوجود آںحضرت(ص) نے اپنے حق کےمتعلق سکوت اختیار کیا اور مشرکین کے سامنے اسلام کی مصلحت کے لیے نرمی  اختیار کی اور ان کی شرطوں کو قبول کیا حتی اصحاب نے آںحضرت(ص) پر ذلت قبول کرنے کا الزام لگایا۔ اور ایک شخص نے تو یہاں تک کہا:

” کیا واقعا تم رسول خدا(ص) ہو؟

 ( مسند احمد ج۴، ص۳۳۰، صحیح بخاری، ج۳، ص۲۰6)

امام حسن(ع) نے مسلمانوں کے خون کے حفاظت کے لیے جس وقت معاویہ سے صلح کی تو اس وقت آپ پر بھی یہی تہمت لگائی  گئی اور ( یا مذل المومنین) ( اے مومنین کو ذلیل کرنے والے) کہا گیا۔

لہذا عید غدیر حق و باطل کےدرمیان ایک مرکز ہے۔ عید غدیر نے دین کے کمال کو نمایاںکیا عید غدیر نے شورش  کرنے والوں کے خلاف خدا کے غضب کو ظاہر کیا، عید غدیر نے خدا کی اس امامت کو ظاہر کیا جسے اس نے اپنے برگزیدہ بندوں میں قرار دیا تھا۔

عید غدیر نے اس غصب کی ہوئی خلافت کو واضح کیا جسے رہا ہونے والوں ( طلقاء) اور مفسدوں نے لباس کی طرح پہن لیا تھا۔

میں جب بھی شہید سعید آیت اللہ باقر الصدر کی بات کو یاد کرتا ہوں تو ایک لحظہ بھی تردید نہیں کرتا کہ اہل بیت(ع) کے حق سے دنیا کو روشناس کرانا چاہیے۔ وہ اپنے قریبوں سے ملاقات کے وقت فرماتے تھے:

جس وقت تیجانی کا خط مجھے ملا انھوں نے مجھے خوشخبری دی کہ ہمارے بھائیوں نے اس خطے میں پہلی مرتبہ عید غدیر کا جشن منایا ہے تو میں نے گریہ کیا اور خداکا شکر ادا کیا کہ انھوں نے اس خطے میں شیعیت کا بیج

 بودیا۔

حاضرین نے اس وقت یہ سمجھا کہ آیت اللہ شہید کا گریہ خوشحالی کی وجہ سے ہے اس لیے کہ مومنین کے ایک گروہ نے ہدایت پائی۔ لیکن برسوں بعد میری سمجھ میں آیا کہ آنجناب کا گریہ اس ظلم و ستم کی وجہ سے تھا جو امیر المومنین(ع) اور عترت پاک علیہم السلام  پر روا رکھا گیا۔ اس لیے کہ ان پر ظلم، اسلام اور تمام مسلمین پر ظلم ہے۔ گویا آیت اللہ شہید اس پر رو رہے ہیں کہ اکثر مسلمان عید غدیر سے ناواقف ہیں اور ان کے کانوں تک یہ بات نہیں پہنچی ہے اور وہ خداوند عالم کے نزدیک اس کی قدر و قیمت کے متعلق لاعلم ہیں۔

عید غدیر کے متعلق اس مختصر بحث کے بعد ضروری ہے کہ اس پر میں اپنی رائے بیان کروں، البتہ یہ خود میری رائے نہیں ہے بلکہ خود کتاب و سنت کا اتباع ہے، ورنہ ہماری اورلوگوں کی رائے کتاب و سنت کی رائے کےبعد گمراہی کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے۔

میرا خیال یہ ہے کہ اتحاد اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک ایک محکم اور معقول اساس نہ ہو! اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب لوگ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں۔  اس لیے کہ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں : اگر( مسلمانوں نے) دین میں اختلاف کیا تو ابلیس کے گروہ کا حصہ بن جائیں گے۔اور رسول خدا(ص)ہی اتحاد کی بنیادوں کو واضح کیا اور فرمایا :

” میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں اگر ان دونوں سے تمسک کرو گے تو میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (وہ دو چیزیں) کتاب خدا اورمیری عترت ، میرے اہل بیت(ع) ہیں اور اس لطف کرنے والے اور خبر رکھنے والے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ جائیں“۔

پس جو بھی ان دونوں سے تمسک کرے گا وہ ایسے اتحاد کا خواہاں ہے جس کو خدا اور رسول(ص) چاہتے ہیں اور اگر کوئٰ اس سے دوری اختیار کرے تو وہ دانستہ یا نہ دانستہ طور پرلوگوں کو تفرقہ کی دعوت دینے والا ہے۔ حتی کہ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ اتحاد و توحید کا رہبر ہے، تو سمجھ لو کہ ایسے شخص کو دعوی غلط اور باطل ہے۔ ہاں! صرف اس صورت میں صحت کا امکان ہے جب وہ ( ثقلین) کی طرف واپس آجائے۔

شاید وہ بات جو اہل سنت حضرات میں سے کسی عالم نے مجھ سے کہی اتحاد کی دعوت کرنے والوں کی صدق نیت پر دلالت کرتی ہے، وہی کہ جن کی آل محمد(ص) علیہم السلام سے محبت و دوستی میں کسی بھی مسلمان کو شک نہیں ہے۔

اس عالم نے مجھ سے کہا :

ہم ہرگز سے اتحاد نہ کریں گے۔ ہاں ! مگر اس وقت کہ جب تمہاری آیت اور معجزہ ظاہر ہوجائے۔ہم نے کہا : کیسی آیت؟ جواب دیا: مہدی(عج) وہی جن کے متعلق تم دعوی کرتے ہو کہ زندہ ہیں اور لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اگر وہ آجائیں تو ہم تم سے اتحاد کریں گے اور تمہارے عقیدے کا یقین کریںگے۔

یہ ایک دردناک نتیجہ ہے لیکن بہر حال ایک ایسا حق ہے کہ جس سے راہ فرار نہیں۔ کیونکہ حقیقت بھی یہی ہے یہ امت ہرگز متحد نہ ہوگی مگر اس وقت جب حضرت مہدی(عج) ظہور فرمائیں۔ اور اگر ہم یہ خیال کریں کہ ظہور امام(عج) کے وقت اکثر اہل سنت، اہلبیت(ع) کی طرف آجائیں گے تو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ امت کے درمیان ہمیشہ کچھ ایسے افراد ہوں گے جو تا دم مرگ دشمنی اور انکار کرتے ہیں گے۔ یہ حضرت مہدی(عج) کے اجداد اور ان کے شیعوں کے دشمنوں کےساتھ رہیں گے۔ اور جو ظلم ان مقدس ہستیوں پر ہوئے ہیں یہ اس پر خاموش رہیں گے۔ یا ان کے قاتلوں کےساتھ ہم آواز ہوجائیں گے۔ اور جو کچھ  انھیں ورثہ میں ملا

ہے، اس کی پیروی کرتے رہیں گے۔ ابن عمر کے مانند جو یزید کےخلاف امام حسین(ع) بن علی(ع) کے انقلاب اور ان کی تحریک پر معترض رہتے تھے۔ ( البدایہ والنہایہ ج۸، ص۱6۳)

جس وقت اہل مدینہ نے یزید کی بیعت سے انکار کردیا تو یہ ان سے جدا ہوگئے اور اپنے بچوں اور گھر والوں کو حکم دیا کہ یزید کی بیعت پر باقی رہیں اور اہل مدینہ کی پیروی کریں۔ ( البدایہ والنہایہ، ج ۸، ص۲۱۸)

گویا ان کے دین کی بقا و سلامتی یزید حجاج، صدام جیسے ظالم حاکموں کی نسبت جہاد ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) میں نہیں ہے بلکہ ان کے لیے اہم یہ ہے کہ اطاعت حاکم میں ذرہ برابر فرق نہیں آنا چاہیے اور جماعت مسلمین سے کٹنا نہیں چاہئے۔ خواہ ایسے ظالم حکومت کرتے ہیں۔

اور آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعودی دربار کا مفتی ( بن باز) یہ اعلان کرتا ہے کہ شیعوں کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا جائز نہیں ہے اس لیے کہ یہ مفسد اور مشرک ہیں اور ان کے یہاں شادی بھی نہیں کی جاسکتی لیکن یہی مفتی ( بن باز) غیر ملکی اور غیر مسلم فوجوں کا سعودی عرب میں استقبال کرتا ہے اور انھیں خیر مقدم کہتا ہے۔ اورامریکی فوجی عورتوں کے دربار میں نہانے اور (سن باتھ) کرنے کی برہنہ تصویروں پر کوئی رد عمل پیش نہیں کرتا۔ بلکہ اسلامی ملک میں ان کی پوری آزادی کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی مفتی اسرائیل کے ساتھ صلح کو کار خیر کہتا ہے۔

والیان آل سعود کی اطاعت کا نتیجہ یہی تو ہے!!

پھر ہم کس طرح امام مہدی(عج) کا آمد کے منتظر نہ رہیں۔ اور کیونکر آپ کے ظہور میں تعجیل کی خدا سے دعا نہ کریں کہ آپ آکر  عدل کو عام کریں اور زمین سے ظلم و ستم کو مٹا ڈالیں۔

اس بحث کے آخر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ جمہوری اسلامی ایران کی بنیاد

رکھنے والے امام خمینی(رح) کے خط کا ایک حصہ یاد دلاؤں  اور اس کے ذریعہ ان لوگوں کے راستے بند کروں جو اتحاد کی خاطر سنی و شیعہ کی بحث کی حرمت کے قائل اور مدعی ہیں۔

اس بزرگ ہستی نے اپنی وصیت کا آغاز حدیث ثقلین سے کیا اور حدیث کی شرح و تفسیر کے بعد اس طرح فرمایا :

” یہ مسلم ہے کہ رسول اکرم(ص) کی ان دو امانتوں پر سرکشوں کی جانب سے جو ظلم ہوا ہے وہ صرف امت مسلمہ پر نہیں بلکہ بشریت پر ہے جسے قلم بیان کرنے سے عاجز ہے اور اس نکتہ کو ذکر ضروری ہے کہ حدیث ثقلین تمام مسلمانوں کے درمیان تواتر کے ساتھ موجود ہے اور اسے اہ سنت کی صحاح ستہ سے لے کر دوسری کتابوں نے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ مختلف جگہوں پر پیغمبر اسلام(ص) سے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ یہ حدیث شریف تمام بشریت اور خصوصا مسلمانوں کے تمام فرقوں پر قطعی  حجت ہے۔ اور تمام مسلمان جن پر حجت تمام ہوگئی ہے۔ جوابدہی کے لیے تیار ہوجائیں۔ جاہل عوام کےلیے عذر ہوسکتا ہے لیکن علماء مذاہب کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔

اس کے بعد امام خمینی ان سازشوں کے مختلف حصوں کو بیان کرتے ہیں۔ جن کے ذریعہ قرآن و عترت کو نشانہ بنایا گیا اور سرکشوں نے قرآن کی دشمن حکومتیں قائم  کرنے کا وسیلہ بنایا۔ گرچہ رسول خدا(ص) کی ” انی تارک فيکم الثقلين“کی آواز گونچتی رہی اور کانوں تک برابر پہنچتی رہی۔ لیکن مختلف بہاںوں اور پہلے ہی سے تیارسازشوں سے انھوں نے کوشش کی کہ قرآن کے حقیقی مفسرین، اس کے حقائق سے آگاہ افراد اور رسول اکرم(ص) سے مکمل قرآن حاصل کرنے والوں کو راہ سے ہٹا دیں۔

 

اور پھر امام خمینی فرماتے ہیں:

ہمیں اس بات پر فخر ہے اور سرتا پا قرآن و اسلام کی پابند عزیز ملت بھی افتخار کرتی ہے کہ وہ ایسے مذہب کی پیرو ہے۔ جو ان حقائق قرآنی کو جو صرف مسلمانوں کے اتحاد ہی نہیں بلکہ پوری بشریت کا دم بھرتا ہے۔۔۔نجات دینا چاہتا ہے۔

ہمیں افتخار ہے کہ ہم ایسے دین کے پیرو ہیں جس کی بنیاد حکم خدا سے رسولص(ص) نے ڈالی اور امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) ، جیسا بندہ جو تمام قیدوں سے آزاد تھے بشر کو ہر طرح کی غلامی اور اسیری سے نجات دلانے کے لیے مامور کئے گئے۔

ہمیں فخر ہے کہ قرآن مجید کے بعد نہج البلاغہ معنوی اور مادی زندگی کےلیے سب سے بڑا دستور العمل اور بشر کی رہائی کے لیے عالی ترین کتاب ہے اور اس کے معنوی و حکومتی احکام ہماری نجات کا سب سے بڑا راستہ ہیں ہمارے معصوم اماموں کا سرمایہ ہے۔

ہمین فخر ہے کہ معصوم ائمہ، علی بن ابی طالب(ع) سے لہے کر بشریت کے نجات دہندہ حضرت مہدی(عج) صاحب الزمان( آپ پر ہزاروں درود و سلام) جو خداوند قادر کی قدرت سے زندہ اور امور کے نگراں ہیں ہمارے امام ہیں۔

اور پھر اپنی واصیت کے آخر میں فرماتے ہیں :

میں پوری عجز و انکسار کے ساتھ پوری ملت اسلامیہ سے چاہتا ہوں کہ وہ ائمہ اطہار(ع) کی پیروری کریں۔ اور حق و مذہب کےدشمن خناسوں کی بات پر کان نہ دھریں اور یہ جان لیں کہ گمرہی کا ایک قدم مذہب،احکام اسلامی اور حکومت عدل الہی کے سقوط کا مقدمہ ہے۔ من جملہ نماز جمعہ اور جماعت سے غفلت نہ کریں۔ اور ائمہ اطہار(ع) کے مراسم عزاداری خصوصا مظلوموں کے سردار سید الشہداء، حضرت ابی عبداللہ الحسین(ع) ( آپ کی شجاعانہ روح پر خدا، انبیاء، ملائکہ اور صلحاء کی بے

شمار صلوات) کی عزاداری میں کوتاہی نہ کریں۔ اور یہ جان لیں کہ ااسلام کیتاریخ کی اس بے مثال روداد کی تکریم و تجلیل اور اہل بیت(ع) کے اوپر ستم کرنے والوں پ رلعنت و نفرین سے متعلق ائمہ اطہار(ع) کا جو حکم ہے یہ ابد تک کی تاریخ میں ظالم و ستمگر حکام کےسروں پر تمامملتوں کے سور ماؤں  کی آواز ہے۔ اور یہ جان لو کہ بنی امیہ ( لعنہ اللہ علیہم)  کے ظلم پر لعنت و نفرین کی آواز( اگر چہ ان کی نسل ختم ہوئی اور وہ جہنم واصل ہوگئے) دینا کےتمام ستمگروں کے خلاف ظلم شکن آواز ہے۔

اور ضروری ہے کہ اپنے نوحہ، اشعار، مرثیہ، مدح، جو ائمہ اطہار(ع) کی شان میں پڑھتے ہیں اس  میں ہر عصرہ و ہر زمانہ کے ستمگروں کے ستم و ظلم کو رسوا کن انداز میں نظم کیا جائے۔ یہ زمانہ اسلام کی مظلومیت کا زمانہ ہے پس امریکہ اور روس اور ان کے حاشیہ نشینوں من جملہ آل سعود، حرم الہی کے خائن( ان پر خدا، رسول(ص) اور ملائکہ کی لعنت ہو) انکا  رسوا کن اندزا میں تذکرہ ہو اور ان پر لعنت ونفرین ہو۔ اور ہم سبھی کو معلوم ہونا چاہئے کہ جو چیز مسلمانوں کے اتحاد کا باعث ہے  یہی سیاسی مراسم  عزا ہیں اور یہی مسلمانوں خصوصا شیعوں کی ملت و اتحاد کے محافظ ہیں۔

اور ایک نکتہ جس کی یاد آوری ضروری ہے یہ ہے کہ میری یہ سیاسی و الہی وصیت ملت ایران سے مخصوص نہیں بلکہ یہ وصیت دنیا کی تمام اسلامی ملتوں اور ہر مذہب و قوم کے مظلوموں کے لیے ہے۔

اے میرے بھائیو! یہ امت کے رہبر کی وصیت ہے جو ظالموں کے ظلم و ستم کو یاد کرنے کے ساتھ ان پر لعنت و نفرین کو واجب قرار دیتا ہے۔ پس اگر کوئی ادعا کرتا ہے کہ امام(رح) نے اسے حرام جانا ہے تو اس کا دعوی باطل ہے جس کی کسی بھی عقلی ونقلی دلیل سے توجیہ نہیں کی جاسکتی۔

آخر میں تمام مسلمانوں کے لیے اعلان کرتا ہوں کہ اگر وہ واقعی اتحاد کے قائل ہیں تو کشتی نجات پر سوار ہوجائیں۔

اسی لیے حضرت ںوح(ع) نے خدا کے حکم سے ایک چھوٹی کشتی بنائی جو صرف حقیقی مومنوں کے لیے گنجائش رکھتی تھی۔

پیغمبر اسلام(ص) نے بھی خدا کے حکم سے ایک کشتی بنائی جو تمام امتوں کے لیے گنجائش رکھتی ہے اور تمام مومنین  اس پر سوار ہوسکتے ہیں۔

اہل بیت(ع) صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ خدا نے انھیں تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے منتخب فرمایا ہے۔

خدا ہمیں  اسلام و مسلمین کی خدمت کی توفیق دے  نیز امیرالمومنین(ع) اور ان کے معصوم فرزندوں کی ولایت کا دم بھرنے والوں میں قرار دے۔

”وآخر دعوانا ان الحمد اللہرب العالمين والصلوة والسلام علی اشرف المرسلين سيدنا ومولانا محمد وآلہالطيبين الطاہرين“

ہدایت کے لئے جدو جہد

خداوند عالم قرآن میں فرماتاہے :

البتہ اس شخص کے لیے میری مغفرت اور بخشش زیادہ ہے جو توبہ کرے مجھ پر ایمان لائے اور نیک بن جائے۔( طہ/۸۲)

یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ توبہ، ایمان اور نیک عمل خدا کی خوشنودی و مغفرت کےلیے کافی نہیں بلکہ ہدایت بھی ساتھ ہونی چاہئے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

خدواند عالم کسی کی مغفرت نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ توبہ کرے، ایمان لائے، نیک بن جائے ، اور ہم اہل بیت(ع) کی ولایت سے ہدایت پائے۔ بحار الانوار/ج۲۷/ص۱۷6/ح۲۲)

اس بنا پر ہدایت تکوینی اور ہدایت تشریعی دو مترادف خط ہیں اور ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ تکوینی ہدایت اللہ کی جانب سے ایک احسان ہے جو اس نے اپنی تمام مخلوقات پر کیا ہے اور تمام بندوں کے شامل حال ہے۔ وہ خود قرآن میں فرماتاہے :

قسم ہے جان کی اور جس نے اسے درست کیا اور پھر اسے اس کے اچھے، رے کی تمیز سمجھا دی۔(شمس/۷)

دوسری جگہ فرماتا ہے:

اور ہم نے اسے (یعنی انسان کو) راہ دکھادی اب چاہے وہ شکر گزار ہو یا سرکش بن جائے۔ (انسان/۳)

لیکن تشریعی ہدایت سے مراد وہ تلاش و کوشش ہے جو خود انسان انجام دیتا ہے اور بحث و تجربہ کے بعد عقلی دلائل کی بنیاد پر حق و باطل میں تشخیص دے لیتا  ہے اور اس سیدھی راہ کو اختیار کر لیتا ہے جس سے دور تھا۔ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے :

ان بندوں کو بشارت دو جو باتوں کو سنتے ہیں اور سب میں اچھی بات کو اختیار کر لیے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی اور یہی عقل مند ہیں۔( زمر/۱۷،۱۸)

مذکورہآیاتکامفہومیہہےکہجوبندہسوچتا ہے باتوں پر کان دھرتا ہے، تمام آراء نظروں میں سے بہترین کو اختیار کر کے حق کی پیروی کرتا ہے وہ خود اپنے اختیار سے اصل ہدایت تکوینی کی طرف پلٹ آیا ہے اور اس بات کا مستحق بنا ہے کہ خدا اسے عقل مند کہے۔

ہدایت تکوینی اور ہدایت تشریعی کی تفسیر کےلیے سب سے بڑی مثال وہ واقعات ہیں جو امت مسلمہ کے درمیان رونما ہوئے اور ہورہے ہیں۔ وہ امت جس کی خدا نے ہدایت فرمائی اسے تاریکی سے روشنی میں لایا اور سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی تاکہ وہ اس پر گامزن ہو۔ اور جب اس نے دین کو کامل کردیا ان پر اپنی نعمت تمام کردی، ان کے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا، تو انھیں ایک روشن اور وسیع آئین کی ہدایت فرمائی۔ لیکن یہی امت رسول اسلام(ص) کے بعد بٹ گئی اس میں مختلف گروہ، فرقے اور مذہب وجود میں آگئے۔ جبکہ یہ بہترین امت تھی۔

سب سے پہلے اختلاف اور جدا جدا ہونے کا سبب صحابہ ہیں۔ ایک مختصر گروہ جو مشعل رسالت کو اٹھائے ہوئے تھا تاکہ اس سے آنے والی نسلوں تک منتقل کرے۔ لیکن رسول(ص) کے بعد اس گروہ کے افراد نہ صرف متفرق ہوگئے بلکہ آپس میں لڑے، ایک دوسرے کا خون بہایا، ایک نے دوسرے کو کافر قرار دیا اور

 علیحدہ ہوگئے۔ ان کے بعد تابعین تھے۔ انھوں نے مشکل کو اور بڑھا دیا۔ انھوں نے نئے افکار کر دین خدا میں داخل کرکے اختلاف کے دائرہ کو مزید وسیع کردیا۔ لہذا مختلف گروہ، اقوام اور مذاہب وجود میں آگئے۔ اور مسلمان ایک ایسے انسان میں تبدیل ہوگیا جو تاریکی میں سرگردان ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ حق کہاں ملے گا۔ اس لیے کہ ہر فرقہ قرآن و سنت اور راہ رسول(ص) کی پیروی کا دعوا کرتا ہے۔

اگر جذبات اور نری اندھی تقلید سے آزاد ہوں، تعصب کو پس پشت ڈال دیں اور بصیرت کی نگاہ سے حالات پ رنظر ڈالیں تو خود سے یہ سوال کریں گے کہ ان تمام فرقوں کے درمیان اہل بیت(ع) کا کیا مقام ہے؟ اور خصوصا اس وقت جب ہمیں اہل بیت(ع) کے متعلق رسول(ص) کے احادیث بھی دکھائی دیں کہ جن میں آنحضرت(ص) نے امت کو تمام دینی و دنیاوی مسائل میں اہل بیت(ع) کی طرف رجوع کرنےکی تاکید فرمائی۔ تاکہ انکی ہدایت کی ضمانت ہوجائے اور وہ انھیں گناہ سےمحفوظ رکھیں۔ایسی حدیثیں بہت ہیں اور تمام مذاہب کے درمیان صحیح اور تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں جیسے رسول خدا(ص)  کا یہ قول :

”میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ رہا ہوں، کتاب خدا اور اپنی عترت ( اہل بیت (ع)) جب تک ان دونوںسے متمسک رہوگے، میرے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ تمہیں خدا کا واسطہ ہمارے اہل بیت(ع) کو بھولنا مت( آپ(ص) نے یہ قول تین مرتبہ دہرایا۔“

( صحیح مسلم ج۴، ص۱۸۷۳۔ ذخائر العظمی ، ۱6)

وہ محقق جو آج امت کے درمیان اہل بیت(ع) کی حیثیت کےبارے میں تحقیق کرتا ہے اسے تمام مسلمانوں کے درمیان اہل بیت(ع) کےمتعلق سوائے احترام کے کچھ اور نہیں ملتا۔ لیکن اہل بیت(ع) کے متعلق رسول خدا(ص) کی وصیت صرف احترام و تعظیم میں منحصر نہیں ہے۔ بلکہ آپ(ص) نے حکم فرمایا ہے کہ لوگ اپنے امور میں اہل بیت(ع) کی پیروی اور تقلید کریں اور انھیں کی طرف رجوع کریں۔ آپ(ص)

 نے یہاں تک فرمایا :

ان پر سبقت نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے۔ اور ان کو چھوڑ کر، پیچھے نہ رہ جانا، اس میں بھی ہلاکت ہے۔ انہیں سکھانے نہ لگنا وہ تم سےزیادہ عقل رکھتے ہیں۔

 (معجم الکبیر ج۵، ص۱۸6)

لہذا اگر ایسا ہے تو ہم صرف ایک گروہ کو پاتے ہیں جس نے رسول(ص) کی وصیت پر عمل کیا اور امیر المومنین، علی بن ابیطالب(ع) کے زمانہ سے اب تک اہل بیت(ع) کی راہ پر قائم ہے۔ اس گروہ کو  شیعیان علی کہا گیا۔ اور دھیرے دھیرے لفظ شیعہ ان تمام لوگوں کے لیے استعمال ہونے لگا اور ائمہ طاہرین(ع) کی ولایت اور رہبری کوقبول کرتے ہیں۔

لیکن اگر تاریخ کے اوراق کو پلٹیں تو پتہ چلے گا کہ اہل بیت(ع) اور ان کے شیعوں پر ظلم و ستم ہی ہوتا رہا ہے انھیں زندگی کے میدا ن سے دور کردیا گیا اور وہ اسلام کے اوائل کی تین صدیوں میں مسلمانوں پر حکومت کرنے والے حکام اور امراء کے  ظلم و ستم کا شکار رہے۔ یہ ظالم حکمران امت کو اہل بیت(ع) کی واقعی قیادت سے محروم رکھنے میں کامیاب رہے۔ اسی طرح انکی سدھی راہ روشن سے بھی دور رکھا اور وہ محبت و احترام جو اہل بیت(ع) کی نسبت امت پایا جاتاتھا اسے ختم کردیا۔ گرچہ حکمرانوں نے منبروں سے لعنت و نفرین میں فروگذاشت نہ کی اور کسی دشنام کو باقی نہ چھوڑا، لیکن اس غیر معمولی فشار کے باوجود یہ حکمران مومنین کے دلوں سے اہل بیت(ع) رسول(ص) کی مودت و الفت کا نکال نہ سکے۔

اسی طرح آج اکثر مسلمانوں کے درمیان جو تناقض و تضاد موجود ہے اس کا معنی ومفہوم سمجھ میں آجاتا ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر مسلمان اہل بیت(ع) کو دوست رکھتے ہیں، علم و فضیلت اور انسانی و اخلاقی تکامل کے لحاظ سے ان کی برتری کے قائل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پیروی دوسروں کی کرتے ہیں۔ اور

 اپنے شرعی احکام میں دوسروں کی طرف رجوع کرتےہیں۔ یعنی ان لوگوں کی طرف کہ جنہوں نے نہ پیغمبر اکرم(ص) کو پہچانا، نہ ہی آںحضرت(ص) کے زمانہ میں موجود تھے۔ بلکہ وہ تو اس عظیم فتہ(کربلا) کے بعد پیدا ہوئے جس نےدین کی نشانیوں کو بدل ڈالا اور صالحین کا خاتمہ کردیا۔اہل بیت(ع) اور ان کی پیروی کرنے والے شیعہ گویا اسلامی سماج سے دور کردیئے گئے۔

یہی سبب تھا کہ ائمہ اہل بیت(ع) سے اکثر مسلمان نا آشنا رہ گئے۔ اور اگر ان سے پوچھا جائے کہ اہل بیت(ع) کون لوگ ہیں؟ تو کہتے ہیں : رسول(ص) کی بیویاں!! لیکن ظاہر ہے کہ پیغمبر(ص)  نے امت کو اہل بیت(ع) کی پیروی کا حکم دیان ہے جس سے مراد بیویاں نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد بارہ امام(ع) ہیں جن کے متعلق صریحا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :

میرے بعد بارہ خلیفہ ہیں جوسب کے سب قریش سے ہیں۔

                                                          (صحیح مسلم، ج۳، ص۱۴۵۲)

محققین اچھی طرح جانتے ہیں کہ اہل بیت(ع) نے ہمیشہ پوری کوشش کی کہ لوگ ان سے آشنا ہوجائیں اور ان کے پاس آئیں۔لیکن افسوس کہ :

عوام دنیا کے غلام ہیں اور ان کا دین سوائے زبانی لقلقہ کے کچھ نہیں۔ تا کہ اس طرح ان کی زندگی چلتی رہے اور اگر کسن دن انھیں آزمایا گیا تو دیندار بہت کم ہوں گے۔( از اقوال امام حسین(ع))

یہی وجہ تھی کہ امام صادق(ع) یہ آیت پڑھا کرتے تھے:

میں اس کے لیے مغفرت کرنے والا ہوں جو توبہ کرے۔ ایمان لائے۔ عمل صالح انجام دے۔ اور پھر ہدایت پائے(سورہ طہ/ ۸۲

پھر فرماتے ہیں :

ہم اہل بیت(ع) کی ولایت سے ہدایت پائے۔

آیت کریمہ سے بھی کچھ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ جن مسلمانوں کے

 دلوں میں عقیدہ مستحکم ہوگیا، وہ خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان لائے۔ اپنے گناہوں سے توبہ کی۔ اچھے اعمال انجام دئے۔ اور برے عمل سے دور رہے۔ لیکن سرف اتنا کای نہیں ہے اور صرف ان ہی چیزوں کے ذریعہ خدا کی مغفرت کے مستحق نہیں بن سکتے۔ مگر یہ کہ انہوں نے رسول اکرم(ص) کےجانشین ائمہ ہدی(ع)  کی پیروی بھی کی ہو۔ صرف یہ ائمہ(ع) ہیں جو امت کو قرآنی مقاصد اور سنت رسول(ص) کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ اور اسی صورت میں امت کے ایمان و اعمال ، واجبات الہی سے بغیر کسی تاویل ونقص کے مطابقت کرسکتے ہیں۔

مگر جب کتاب الہی کی تاویل کرلی گئی اور حدیث نبوی میں تحریف ہونے لگی تو ہر فرقہ نے اپنی تاویل کے مطابق کتاب خدا سے استدلال کرناشروع کردیا جو احادیث خود اس کےنزدیک صحیح تھیں انھیں بطور دلیل پیش کیا۔ اس طرح اختلافات پیدا ہوئے۔ سرگردانی وجود میں آئی اور شک و تردید میں اضافہ ہوا۔

لہذا اگر کوئی مسلمان اس ہنگامہ میں حق کو پہچاننا چاہے اور گمراہی سے دور ہو کر آخرت کی نجات کا خواہاں اور بہشت و نعمت الہی تک پہنچنا چاہے تو اس کے لئے کشتی نجات پر سوار ہونے اور اہل بیت(ع) کی طرف پلٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہی امت کے امام ہیں۔ خداوند عالم کسی بھی بندے کے اعمال کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ عمل ان کے ذریعہ ہو۔ اور کوئی بھی رجحان اہل بیت(ع) کے بغیر قبول نہیں ہے۔

اس کو خود رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے، امت کو حکم دیا ہے اور اس کا ابلاغ خدا کے حکم پر کیا ہے۔ اور اگر پیغمبر(ص) کے بعد اصحاب کے اختلاف پر نظر ڈالیں تو پتہ چکے گا کہ انھوں نے مسئلہ خلافت پر اختلاف کیا اور دیگر تمام اختلافات اسی کے بعد وجود میں آئے۔ بلاشبہ یہ سب خلافت کی خاطر تھے اس لیے کہ جس کے پاس

 قیادت کی صلاحیت نہ ہو وہ امت کی رہبری ہاتھ میں لے لے اور نچلی سطح والا خلافت رسول(ص) غصب کر لے تو یقینا امت کو گمراہی کی طرف لے جائے گا۔۔ اس لیے کہ جہالت و خواہش نفس کی بنیاد پر عمل کریگا۔

( نہ کہ علم و فہم کی بنیاد پر)۔

اور آج جب کہ خلافت کا کہیں پتہ نہیں ہے تو کیا مسلمان فکری بالیدگی پالیں گے؟ رسول(ص) کی وصیت پر عمل پیرا ہوجائیں گے؟ قرآن و عترت رسول(ص) سے متمسک ہوجائیں گے؟ تا کہ ان کے درمیان دوبارہ صلح و صفائی، بھائی چارگی اور محبت پلٹ آئے اور امت کے درمیان اتحاد و پائیداری پیدا ہوجائے؟ یہ ہے ایک مہربان دوسر ور دل سوز بھائی کی فریاد و۔۔۔!!!

گذشتہ بحث سے ہمیں پتہ چلا کہ ہدایت ایسی عظیم نعمت ہے جو خداوند عالم نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے اور اہل بیت(ع) کی ولایت کی طرف رجوع اور ان کی پیروی گناہ گار نبدوں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے جو خدواند عالم کی بخشش کی باعث ہے۔ اب ہم کس طرح جہاد کریں کہ اس راہ پر گامزن رہ سکیں؟

اسلام میں دو جہاد ہیں، دشمن سے جہاد جسے جہاد اصغر کہتے ہیں اور دوسرا نفس سے جہاد جسے جہاد اکبر کہا جاتا ہے۔ جس کی ہمارے نزدیک زیادہ اہمیت ہے وہ جہاد اکبر ہے  یہجہاد خود انسان اور نفس امارہ سے متعلق ہے اس کے ذریعہ عقیدہ کی گمراہی سے نجات ملتی ہے۔

کبھی انسان اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے اور کبھی دوسروں سے جہاد کرتا ہے۔ نفس سے جہاد یعنی کار خیر میں استمرار، نیک لوگوں کی ہمراہی اور اہل بیت(ع) کے حکم کے مطابق عبادات و معاملات کو بجالاتا ہے۔ لیکن غیر کے ساتھ جہا د یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف حکمت و نصیحت کے ساتھ تبلیغ و دعوت دیناہے۔

یہ جہاد کبھی گفتار کے ذریعہ ہے اور کبھی قلم کے ذریعہ ہے لیکن خدا کے نزدیک قلم کا جہاد تلوار کے جہاد سے اولی ہے رسول خدا(ص) فرماتے ہیں :

خدا کے نزدیک عالموں اور دانشوروں کے قلم کی روشنائی شہداء کے خون سے افضل ہے(کشف الخفا، ج۲، ص۲6۲۔ الاسرار المرفوعہ، ص۲۰۷، ح۸۱۷۔

اس لیے کہ علماء کی تحریر مسائل حق کو بیان اور ان کی وضاحت کرتی ہے۔ یہ بلاشبہ لوگوں کو حجت کامل اور واضح دلیل کے ساتھ سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور خدا کے نزدیک یہ عمل قطعا شہداء کے خون سے برتر ہے۔ اگرچہ شہداء کا خون بھی نہایت مقدس ہے۔

لہذا علماء اور دانشوروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقیقی اسلام کی تبلیغ کے لیے کوشاں رہیں۔ ائمہ اہل بیت(ع) سے لوگوں کو آشنا کریں اس راہ میں مال اور وقت قربان کرنے میں گریز نہ کریں۔ ممکن ہے کفر و الحاد اور تباہی کے مراکز کی بے حساب مال سے پشت پناہی کی جارہی ہو لیکن دولت مند مسلمان خدا کی راہ میں سوائے مختصر خیرات کے اور کچھ نہ دیتے ہوں۔

ہم خود اس بات کے شاہد ہیں کہ کفار لوگوں کو بھوک سے نجات دینے کے بہانے صومالیہ پہنچ گئے لیکن ہمارے مسلمان بھائی اس سے غافل ہیں۔

اور اس بات کے بھی شاید تھے کہ مسیحی گروپوں نے افریقہ کے مشرق و مغرب، سوڈان، مصر، انڈونیشیا اور دیگر اسلامی ملکوں میں مختصر کھانے کی اشیاء اور دوائیں خیرات کیں اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کر کے دھیرے دھیرے مسیحیت کی طرف لےجاتے رہے۔ لیکن مسلمانوں کا وہ گروہ جس کے پاس کثرت سے مال ہے اور اللہ نے انہیں اپنی یہ نعمت اس لیےبخشی ہے کہ اس کے دوسرے بندوں کو بھی اس سے کچھ نفع پہنچے لیکن آپ انہیں ۲۰ مرتبہ حج سے مشرف ہوتے دیکھتے ہیں اور سال کافی پیسہ خرچ کر ڈالتے

ہیں۔ گوانہیں کے پڑوس میں بھووں کی تعداد بڑھتی رہتی ہے جو بھوک شدت سے بد حواس ہوتے ہیں اور ان کے پاس بدن ڈھانکنے  کے لیے لباس بھی نہیں ہوتا۔ کیا رسول خدا(ص) نے نہیں فرمایا : تم میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک وہ ہے جو خدا کے بندوں کی زیادہ مدد کرتا ہے۔ ( بحار ، ج۷۷، ص۱۵۲، ح۱۱۰)۔

پھر کیا ہوگیا ہے کہ بعض حضرات کئی کئی مرتبہ خانہ خدا حج کے لیے جاتے ہیں جب کہ ان کے ہی خاندان میں مجبور و بے سہارا لوگ موجود ہیں اور وہ ان کی ضرورت کو بر طرف نہیں کرتے، ان پر رحم نہیں کھاتے؟

اس سے بھی بڑھ کر وہ اسراف ہے جسے مسلمان سگریٹ پر کر کرتے ہیں۔ مسلمان جو پیسہ سگریٹ نوشی میں خرچ کرتے ہں اگر ہم اس کا مختصر جائزہ لیں تو اس کی شرح ہمیں مبہوت کردے گی۔ بطور مثال اگر مسلمانوں کی تعداد ایک ملیارڈ سے زیادہ ہو اور ہر پانچواں مسلمان سگریٹ پیتا ہو۔ تو (۲۰۰) دو سو ملین سگریٹ پینے والے ہر روز (۲۰۰) دو سو ملین ڈالر سگریٹ نوشی میں خرچ کرتے ہیں اور ایک ماہ میں 6۰ارب ڈالر خرچ کر ڈالتے ہیں اور پورے سال میں کم از کم ۷۲۰ ارب ڈالر اس لیے خرچ کر ڈالتے ہیں بمشکل علاج ہونے والی بیماری مفت خرید سکیں!!

اے مسلمانوں ! بیدار ہو۔ اور اس قدر اپنا مال فالتو خرچ نہ کرو۔ اگر ہم ان پیسوں کو ۱۰ سال جمع کریں تو ہمارے پاس ۷۲۰۰ ارب ڈالر جمع ہوجائے گا جو بلاشبہ دنیا کے مشرق و مغرب کے تمام فقیر مسلمانوں کو دولت مند بنادے گا۔کیا اسے آپ بے اہمیت سمجھتے ہیں جبکہ یہ خدا کے نزدیک عظیم ہے۔

بحث کے آخر میں اپنے شیعہ بھائی جو اہل بیت(ع) کے پیرو ہیں ان کے لیے کچھ یاد دہانی ضروری سمجھتا ہو۔

۱ـاپنے اہل سنت بھائیوں کے ساتھ گفتگو و بحث میں مجادلہ کی بہترین

 روش اختیار کریں اور فحش، گالی اور ایسی باتوں سے گریز کریں جس سے وہ آزردہ ہوں اور وہ دور ہو جائیں اس لیے کہ خود امیر المومین(ع) نے فرمایا ہے :

”تم گالی دینے والے نہ بنو، نفرین نہ کرو لیکن کہو ان کا رویہ ایسا اور ویسا تھا تاکہ تمہاری دلیل اور واضح ہوجائے۔ ( بخاری، ج۳۲، ص۳۹۹)

۲ـ اپنی عورتوں اور اپنے معاملات میں ایسی باتوں سے پرہیز کریں رسول(ص) اور ائمہ اطہار(ع) کے زمانہ میں رائج نہ تھے ممکن ہے ہم ان کے ذریعہ لوگوں کے مذہب کا گرویدہ کرنے کے بجاے انہیں اپنے دین اور اہل بیت(ع) سے دور کریں۔

امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:

” تم ہمارے لیے اپنے اعمال سے تبلیغ کرو نہ کہ زبان سے۔ایسا کام کرو کہ لوگ ہماری طرف آئیں نہ کہ ہم سے دور اور متنفر ہوجائیں۔“ (بحار، ج۸۵، ص۱۳6)

۳ـاپنی گفتگو و تقریر میں علمی باتوں کو اہمیت دینے کی کوشش کریں اور صحاح ستہ سے استدلال کرتے ہوئے بحث کریں۔ ان ضعیف حدیثوں کر ترک کردیں جو احساسات کو بھڑکاتی ہیں اور عقل سے ٹکراؤ رکھتی ہیں۔

۴ـ پوری طاقت کے ساتھ استقامت اور تقوی کو شعار بنائیں اس لیے کہ خود ائمہ(ع) نے بھی یہی کیا ہے اور صرف اس قول پر تکیہ نہ کریں کہ حضرت علی(ع) اپنے دوستوں اور پیروؤں کی شفاعت کردیں گے کیونکہ خود حضرت علی(ع) فرماتے ہیں:

” ایمان آرزور سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ ایمان وہ ہے جو دلوں میں مستحکم ہوتا ہے اور اقوال و اعمال اس کی تصدیق کرتے ہیں۔( یعنی انسان کے قول و فعل میں مطابقت ہوتی ہے)۔“ ( بحار، ج6۹، ص۷۲)

۵ـ ائمہ اطہار(ع) کی نصیحتوں اور موعظوں سے فائدہ اٹھائیں جو ہمارے لیے

 ایک بڑا سرمایہ ہیں۔ صرف نہج البلاغہ میں سینکڑوں بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ اب وہ موقع آچکا ہے یہ م جہل و نادانی کے غبار کو دور کردیں اور امت کو تہذیب کے بلند ترین درجات تک لے جائیں۔

پس اگر شیعوں کے امام شہر علم کےباب ہیں تو ان کے پیروؤں کو چاہئے کہ دوسروں سے زیادہ علوم میں ترقی کریں سب پر سبقت لے جائیں۔

شیعوں اور اہل بیت(ع) کے پیروؤں کو چاہئے کہ اپنی صفوں کو مضبوط بنائیں۔ سیاسی پارٹیوں سسے دور ہوں اور ایک مرجعیت کے لیے کوشش کریں اور اس کی اطاعت کریں اور پھر تمام مسلمانوں کے اتحاد کی کوشش کریں۔

اگر شیعہ میری ان باتوں پر عمل کریں جنہیں میں نے کتاب خدا، سنت رسول(ص) اور مکتب اہل بیت(ع) سے نکال کر پیش کیا ہے تو بلا شبہ ان کے درمیان صلح و آشتی برقرار رہے گی۔ اگر اپنے درمیان سے جہل، باطل عقیدتوں اور نقائص کو دور کردیں تو یقینا خداوند عالم ہم پر احسان کرے گا اور ہماری تہی دستی اور ذلت و رسوائی کو بے نیازی اور عزت میں تبدیل کردے گا اور ہمارے امام زمانہ(عج) کو ظاہر کردے گا تاکہ وہ زمین کو عدل و اںصاف سے بھر دیں  جب کہ وہ ظلم وستم سے بھری ہوئی ہوگی۔

           «وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمين»

شیعہ ہی اہل سنت ہیں لیکن ۔۔۔۔

اب جب کہ ہمیں یہ معلو م ہوگیا کہ امامیہ شیعہ ہی در حقیقت اہل سنت پیغمبر(ص) ہیں اور یہ حقیقت ہر ا س شخص پر واضح ہے جو عقیدہ اور عمل میں احکام اسلام کا خیال رکھتا ہے اس میں کسی شک کی گنجایش نہیں ہے لیکن اہلسنت والجماعت کے وہ مخلاف افرد ( جن کے وجود میںآنے کی علت سے ہم گزشتہ بحث میں باخبر ہوئے) شیعوں کے بعض عقائد واعمال پر تنقید کرتے ہیں اور شبہات پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے دین میں شک پیدا کرسکیں۔اور کبھی خیالی داستانوں کو گڑھ کر ان کی آبرو ریزی کی کوشش کرتے ہیں اور شیعوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ سننے یا پڑھنے والا ان کی نسبت بدگمان ہوجائے اور ان سے نفرت کرنے لگے۔ اور پھر اس کی نظر میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہ رہ جائے۔

وہ جن خرافات کو شیعوں کی طرف منسوب کرتے ہیں ان میں سے بطور مثال ایک یہ ہے۔

وہ شیعوں کو اس بات کا معتقد سمجھتے ہیں کہ جبرئیل نے امانت الہی میں خیانت کی اور نبوت علی(ع) کے بجائے محمد(ص) کے سپرد کردی! ( نعوذ باللہ)۔

یا پھر یہ بے ربط مطلب کہ عبداللہ بن سبا مذہب تشیع کا بانی ہے یا شیعوں کے پاس قرآن کے علاوہ ایک دوسرا قرآن ہے جو ” مصحف فاطمہ“ کے نام سے معروف ہے۔ یا ہر شب سامرا کے دروازے پر ایک گھوڑا تیار کر کے مہدی(عج) کے منتظر رہتےہیں کہیں کہ آپ آئیں اور اس گھوڑے پر سوار ہوں۔ یا کہتے ہیں کہ شیعہ قبر کی پرستش کرتے ہیں۔ اور ائمہ کو خدا کی طرح سمجھتے ہیں یا پتھر پر

 سجدہ کرتے ہیں یا زنا کو جائز سمجھتے ہیں یا پھر ایسے ہی دوسرے جھوٹ کہ تھوڑی سی بحث و تحقیق کے بعد ان کی قلعی کھل جاتی ہے۔

لیکن موجودہ زمانہ میں اہل سنت کے بعض اعتراضات علمی بحث میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور حقیقت تک پہنچنے کے لیے ایک بند کی طرح رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔

ان لوگوں نے ان شبہات کو نہ کسی ( شیعہ) کتاب میں پڑھا ہے نہ ہی کسی حدیث بیانکرنے ولاے مقرر سے سنا ہے لیکن قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے خود انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

یہ مطلب بہت ہی اہم اور حساسیت پیدا کرنے والا ہے اور شاید محققین پر منفی اثر ڈالے اور انہیں حقیقت تک پہنچنے سے روک دے ۔ جیسا کہ مں نے قارئین سے وعدہ کیا ہے کہ غیر جانبداری سے کام کروں گا اور حق گوئی سے دریغ نہ کروں گا اور نفسانی خواہش کی وجہ سے کسی مذہب کی نسبت جذبات سے کام نہ لونگا اور رسول(ص) کے اس قول پر عمل کروں گا کہ : حق کہو چاہے وہ تمہارے خلاف ہی ہو۔( کنز العمال، ج۳، ص۳۵۹)

اور چونکہ خداوند عالم حق بات کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتا لہذا اس موضوع پر ضروری ہے کہ میں صراحت کے ساتھ عرض کرنے کو اپنا وطیرہ بنالوں۔ جیسے ہم شیعوں میں نیک و صالح افراد پر درود بھیجتے ہیں اور ان کی تعریف کرتے ہیں ویسے ہی ان شیعوں کی غلطیوں کو بیان کرتے ہیں اور ںصیحیت کرتے ہیں جو گمراہی کاشکار ہوئے اور غلط راستہ پر چلے اور اس مسئلہ میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے اور سوائے رضائے خدا کی کچھ نہیں چاہتے۔

ضروری ہے کہ ان چیزوں کے درمیان فرق قائم کریں جو دین اسلام کی طرف سے ہم تک پہنچی ہیں اور جو اندھی تقلید، عادت اور غلط اجتہاد کے ذریعہ ہم

تک آئی ہیں۔ جیسا کہ میں نے بعض اصحاب کی بدعت گذاری پر صراحت کے ساتھ تنقید کی اسی طرح ضروریہے کہ بعض شیعوں پر بھی تنقید کروں اور ان کے اشتباہات پر سکوت اختیار نہ کروں۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ اصحاب کی بدعت اور جدت دین کا جزو بن گئی اور اس احکام خدا اور رسول(ص) کو بدل ڈالا۔ لیکن بعض شیعوں کے اشتباہات کا کوئی اثر نہ ہوا نہ ہی کسی حکم خدا میں تغیر کا سبب بنا اور نہ ہی کوئی اس کے وجوب کا قائل ہوا لیکن بہر حال اس پر تنقید ضروری ہے۔

قارئین محترم! جن اہم مسائل کی وجہ سے شیعوں پر تنقید ہوتی ہے انہیں ہم بیان کریں گے۔ کیوں کہ شاید خود آپ بھی ان مسائل کی وجہ سے تکلیف میں ہوں اور ان کا آپ کے پاس ایسا جواب نہ ہو جس کو آپ مد مقابل سے بحث میں پیش کرسکیں اور خود بھی مطمئن ہوسکیں۔

یہ جدتیں بھی بدعتیں ہیں جو دین تشیع میں داخل ہوگئیں۔ اہل بیت(ع) تمام بدعتوں کے مخالف ہیں چاہے انھیں رنگین لباس ہی پہنا دیا جائے اور ( بدعت حسنہ) کہا جائے۔۔۔

یہ بزرگ ہستیاں ( ان پر خدا کی رحمت ہو) ہمیشہ اس بات کی تاکید کرتی تھیں کہ وہ کوئی بات کہتے اور کوئی عمل بجا نہیں لاتے مگر وہ قول و عمل رسول(ص) ہوتا ہے۔

لہذاائمہ(ع) کے بعد مذہب میں جو کچھ آیا بدعت ہے، فاسد دوا کا نقصان پہنچانا ہے نہ کہ خوشخبری و بشارت بلکہ کام بھی مشکل کردیتا ہے اس لیے کہ ان کی وجہ سے روشن فکر جوان مذہب امامیہ کو تنقید کی نظر سے دیکھتے  ہیں اور اس کی صحت و نقص میں مشکل سے دوچار ہوتے ہیں۔ بعض بدعتیں جن پر اہل سنت معترض ہیں بہ عنوان مثال یہ ہیں:

روز عاشورا افراط سے کام لینا نیز زنجیر ار قمع کے ذریعہ خون بہانا۔اور جذبات کو بے مہار چھوڑ دینا۔

نماز کے وقت بے نظمی۔ نمازیوں کی نسبت بے احترامی کا اظہار کرنا۔

مسجد میں سگریٹ پینا۔

نماز جمعہ ترک کرنا اور ۔۔۔۔

کل یوم عاشورا کل ارض کربلا

اے کاش ! لوگ اس کلام کی حقیقت کو سمجھ لیتے اور جس سرزمین پرپہنچتے اور جو دن بھی دیکھتے اس اسلامی حق کو ادا کرتے جس کے لیے امام حسین(ع) نے اپنی شہادت دی اور اگر ایسا کرتے تو بلاشبہ دنیا میں مسلمانوں کی حالت بالکل بدلی ہوئی ہوتی۔ اور غلام ہونے کے بجائے آقا ہوتے لکن افسوس کہ بہت سے لوگوں نے امام حسین(ع)  کی شہادت اور ان کے انقلاب کو صرف سال کے چند دنوں میں فقط رونے رلانے، زنجیر و قمع و شبیہ وغیرہ میں منحصر سمجھ لیا ہے کہ چند دن اس واقعہ کی یاد تازہ کی جائے اور باقی سال میں تمام  چیز فراموش کردی جائے۔

بہت سے اہل سنت شیعوں کے ان اعمال پر تنقید کرتے ہیں اور افسوس یہ کہ بعض عربی و مغربی پروپگنڈہ ایجنسیاں اس زمانہ میں ایام عاشورا میں ایران کے شیعوں کو اس طرح پیش کرتی ہیں گویا وہ ایسے درندے ہیں جو شدت و بربریت میں ایسے ہیں جو بس لوگوں کو خون بہانا جانتے ہیں۔ اگر چہ زنجیر و قمع ہندوستان و پاکستان میں شدت سے ہوتی لیکن اغیار کے ریڈیو ٹیلیویژن صرف ایرانی شیعوں پر اپنے کیمرہ کو مرکوز کئے ہوئے ہیں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق تحقیق کرنے والا ہر انسان اس کے اسباب سے بخوبی آگاہ ہے۔

یہ پروپگنڈہ ایجنسیاں آخر تہران کی نماز جمعہ کو منعکس کیوں نہیں کرتیں جس میں بیس لاکھ سے زیادہ نمازی شرکت کرتے ہیں؟ یہ ایجنسیاں ایران میں شب جمعہ منعقد ہونے والی دعائے کمیل کا منظر کیوں نہیں پیش کرتیں جن میں

سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے اور عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے شب کی تاریکی اور سکوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر اپنے پروردگار سے رو رو کر گناہوں کی بخشش کے لیے دعائیں کرتے ہیں؟

کیوں صرف مراسم پر ہی توجہ دیتے ہیں اور چند قمع لگانے والوں پ رہی زیادہ نگاہ رکھتے ہی۔ حق یہ ہے کہ بعض شیعہ ان اعمال کو انجام دیتے ہیںجن کا اصل دین سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ بعض افراد کے جذبات کا اظہار تھا جو بلا تحقیق مرور ایام سے وراثت میں منتقل ہوگیا اور رائج ہوگیا یہاں تک کہ بعض عوام یہ خیال کرتے ہیں کہ قمع و زنجیر سے خون بہانا خدا سے قرب حاصل کرنےکا ذریعہ ہے اور بعض تو اس سے آگےبڑھکریہبھیکہتےہیں کہ جو شخص یہ اعمال انجام نہدے وہ امام حسین(ع) کو دوست نہیں رکھتا!!

میں جب بھی ان امور پر غور کرتا ہوں اگر چہ حقیقی شیعہ ہوں تو اس منظر سے مطمئن نہیں ہو پاتا جو ایک عام انسان کو متنفر اور بد دل کردیتاہے۔ آخر اس کے کیا معنی ہیں کہ ایک نیم برہنہ انسان تلوار لے کر حسین(ع) حسین(ع) کرتا ہوا اپنے ہاتھ سے خود کو مارےاور اپنے خون میں نہائے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان اعمال اور مراسم عزاداری کے تھوڑی دیر بعد بجائے  اس کے کہ غمزدہ نظر آئیں ہنستے کھیلتے مٹھائیاں اور پھل کھانے نظر آتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بعض افراد ( بلکہ زیادہ تر افراد) کو دین سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ لہذا میں نے خود کئی موقعوں پر براہ راست ان پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ تمہارا عمل اندھی تقلید سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔

ہاں! یہ کچھ سمجھ شیعوں کا عمل ہے لیکن بہر حال امام حسین(ع) سے محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے جیسا کہ یہ لوگ سوچتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک شخص نے ایک عالم دین سے کہا تھا: میں نے حضرت عباس(ع) کی عزاداری کے

لیے کھانا تیار کیا اور اس دوران ایک منٹ کے لیے بھی جوتو نہیں اتارا تو اس عالم نے اس سے پوچھا کہ اس دوران تم نے وضو کیسے کیا اور نماز کیسے پڑھی؟ اس نے سرے سے عالم کی بات پر توجہ نہیں دی کیوں کہ وہ معتقد تھا کہ مجھے حضرت عباس(ع) سے اس کی جزا مل جائے گی۔

بہر حال میں یاد دہانی کراتا ہوں کہ یہ تمام امور وہ ہیں جن کو استعمار ہی نے رائج کیا اور ان کا پروپگنڈہ کرتا رہتا ہے۔ خوش قسمتی سے یہ بات ہم شیعوں کے یہاں کم ہوتی جارہی ہے۔ خدا بخشے حضرت آیة اللہ شہید سید باقر الصدر(رح) کو کہ جب میں نے ان سے (شیعہ ہونے سے پہلے) ان اعمال کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا تھا۔

”یہ عوام کے اعمال ہیں تم ہم میں سے کسی بھی عالم کو انھیں انجام دیتے نہ دیکھو گے بلکہ علماء ہمیشہ اس سے لوگوں کو روکتے ہیں۔“

سب سے بڑھ کر رسول(ص) خدا کا کردار ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔ کیوں کہ جب ان کے حامی و مددگار چچا حضرت ابوطالب(ع) دنیا سے اٹھے تو آپ بہت غمزدہ ہوئے۔ آپ کی عزیز زوجہ وفات پائی، آپ کے چچا حضرت حمزہ شہید ہوئے اور آپ نے شہادت کے بعد ان کا پارہ پارہ جگر دیکھا۔ حضرت اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر روئے اور جب جبرئیل(ع) نے حضرت امام حسین(ع) کی شہادت کی خبر آپ کو دی تو بہت روئے اسی طرح اپنے بھائی علی(ع) پر آیندہ آنے ہونے والی مصیبت پر روئے۔

حضرت رسول خدا(ص) بہت روتے تھے بلکہ مسلمانوں کو حکم دیتےتھے کہ اگر رو نہ سکو تو خود کو غمزدہ بناؤ اور ان آنکھوں سے پناہ مانگتے تھے جن سے آنسو نہ جاری ہوں، لیکن اس بات سے روکتے تھے کہ غم میں کوئی بے قابو ہو جائے چہ جائے کہ قمع اور تیغ سے خود کو زخمی کرے اور بدن سے خون جاری کرے۔

ہمارے پہلے امام حضرت علی(ع) نے حضرت رسول خدا(ص) کی  وفات کا داغ اٹھایا

اور اس عظیم مصیبت کے کچھ ہی عرصہ بعد اپنی مہربان زوجہ حضرت فاطمہ زہرا(س) کے غم میں مبتلا ہوئے اگرچہ آپ کے جسم نحیف میں ان دونوں عظیم مصیبتوں کو برداشت کرنے کی توانائی نہ تھی۔ لیکن آپ نے ہرگز ایسے کام نہ کئے جسے آج عوام الناس عزاداری میں کرتے ہیں۔

اسی طرح امام حسن(ع) نے اپنے نانا حضرت رسول خدا(ص) اور اپنی مادر گرامی کی وفات کے بعد حضرت علی(ع) جیسے مہربان باپ کو جو پیغمبر اسلام(ص) کے بعد بہترین شخص تھے محراب عبادت میں ابن ملجم ملعون کی ضربت کھاتے دیکھا لیکن ایسے اعمال انجام نہ دیئے۔

امام زین العابدین(ع) نے بھی عزا میں ایسے اعمال انجام نہ دیئے جب کہ انھوں نے کربلا کا درد ناک واقعہ اپنی نگاہوں سے دیکھا کہ کس طرح ان کے پدر بزرگوار اور ان کےچچا اور بھائی قتل کر ڈالے گئے اور اس کے بعد ان پر ایسے مصائب پڑے کہ اگر پہاڑوں پر پڑتے تو لرزجاتے۔ اور سرے سے یہ تاریخ نے لکھا ہی نہیں ہے کہ کسی بھی امام نے ایسے اعمال انجام دیئے ہوں یا اپنے اصحاب کو ان کا حکم دیا ہو۔ ہاں جو باتیں ملتی ہیں وہ یہ ہیں کہ نوحہ و مرثیہ پڑھنے والے اشعار پڑھیں اور اس پر ائمہ(ع) خود بھی روتے تھے اور لوگوں کو بھی اہل بیت(ع) کے غم میں رونے کا حکم دیتے تھے اور یہ ایک مستحب عمل ہے اگر چہ واجب نہ ہو۔

میں نے خود مختلف موقعوں پر دنیا کے مختلف علاقوں میں عاشورا اور عزاداری کے مراسم میں شرکت کی ہے اور کبھی یہ نہیں دیکھا کہ شیعہ علما اس طرح سے عزاداری کرتے ہوں۔ گویا اہل علم ان کاموں کو پسند نہیں کرتے اور انھیں ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔

پس ہمیں اہل بیت(ع) کے کردار اور ان کی معرفت سے آگاہی کےبعد عوام الناس کی پیروی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں ہر سال عاشورائے حسینی(ع) کی یاد منانا

چاہئے اور ان کے مصائب بیان کر کے گریہ و بکا اور فریاد کرنی چاہئے۔ حق تو یہ ہے کہ دل بھی زبان سے ہم آہنگ ہو اور آنکھوں کے ساتھ گریہ کرے۔ تمام اعضاء و جوارح روئیں اور خدا کی بارگاہ میں خضوع و خشوع کے ساتھ یہ عہد کریں کہ ہم بھی امام حسین(ع) کی راہ پر جو در حقیقت رسول خدا(ص) اور اہل بیت(ع) کی راہ ہے، گامزن ہوںگے۔

اسی طرح عاشورا اپنی عزا، غم واندوہ، گریہ و زاری، اپنی یاد عظیم اقدار کی شکل میں نمونہ عمل بن کر اپنی پاکیزہ شکل میں مخلص شیعوں اور پیغمبر(ص) نیز ائمہ معصومین(ع) کی پیروی کرنے والوں کےلیے باقی رہے گا۔ لیکن افسوس عوام الناس کے اعمال کو ان لوگوں کی طرف سے ہوا دی جاتی ہے جو شیعوں کے عقائد کو برا ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور انھیں اہل بیت(ع) سے دور کر کے ان کی تکفیر کرنا چاہتے ہیں۔

بارالہا! تیری بے شمار حمد اور شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے ہمیں شیعوں اور آگاہ انسانوں میں قرار دیا کہ جو بحث و تحقیق کے ذریعہ راہ حق کی طرف آئے اور عوام اور ناواقف شیعوں میں قرار نہ پائے۔ قارئین کرام پر لازمی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی سنت جو ائمہ اہلبیت(ع) کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے اسے اپنے نمونہ عمل قرار دیں۔

اس کا ذکر بھی ضروری ہےکہ بہت سے علماء مثلا آیت اللہ امینی مرحوم اور آج کل رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ علی خامنہ­ای اور حضرت آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ نے قمع لگانے کو ناجائز قرار دیا ہے اور جنھوں نے جائز بھی جانا ہے اس پر دو شرطیں لگائی ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے انسان کو ضرر اور نقصان نہ ہو اور دوسرے اس سے مذہب کی توہین نہ ہوتی ہو۔

گذشتہ علماء میں سے بزرگ فرماتے تھے کہ جو تلوار شیعہ ماضی میں

 اپنے دشمنوں پر بلند کرتے تھے آج خود اپنے سروں پر مار رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ انگریز عزاداری کے دستوں کو بڑی مقدار میں تلواریں اپنی طرف سے تقسیم کرتے تھے! اگر چہ یہ قمع زنی ہندوستان سے یہاں آئی تھی لیکن انھوں نے کربلا میں بھی اسے رائج کردیا اور رفتہ رفتہ یہ عزاداری کا جزو شمار ہونے لگی۔ لیکن الحمد للہ آج مسلمانوں کے افکار میں وسعت اور علماء کے فتوؤں کے ذریعہ قمع زنی کم ہونے لگی ہے۔ اور اسلامی جمہوریہ ایران میں ۹۷ فیصد ختم ہوگئی ہے اسی طرح عراق اور لبنان میں بھی اس میں بہت کمی آئی ہے۔ بہر حال یہ ناواقف اور سادہ لوح افراد کی روش ہے کہ امام حسین(ع) کے قضیہ کو علماء و مراجع دین کے فتوؤں سے بالاتر جانتے ہیں۔ اور اس اہم ترین قضیہ یعنی عزائے حسین(ع) کو اپنی مرضی کے مطابق من مانے ڈھنگ سے انجام دیتے ہیں اور ایسے نہیں کرتے جیسے ائمہ، اہل بیت(ع) اور علماء مراجع چاہتے اور بتاتے ہیں۔

شیعہ اور نماز

اہل سنت جوانوں کا شیعوں پر ایک اعتراض یہ ہے کہ شیعہ اقامہ نماز کو نہ اہمیت دیتے ہیں نہ خشوع رکھتے ہیں۔ مثلا کسی کانفرنس یا کسی مناسبت کے وقت جب وہ شیعہ بھائیوں کے  ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بعض شیعہ نماز گزار نماز جماعت میں صف کی ترتیب اور ایک دوسرے کے بغل میں کھڑے ہونے کے خاص نظم پر توجہ نہیں دیتے۔

اکثر دیھا گیا ہے کہ ابھی صف اول کامل نہیں ہوئی لیکن امام جماعت کے پیچھے بغیر نظم و ترتیب کے دوسری صفیں بن جاتی ہیں اور کچھ شیعہ نماز گزار نماز جماعت کے وقت مسجد میں داخل یا اس سے باہر نکل رہے ہوتے ہیں۔ نماز گزاروں کے درمیان راہ چلتے ہیں اور نماز گزار اور قبلہ کےدرمیان حائل ہوتے ہیں اس سے برادران اہل سنت کی نماز باطل ہوجاتی ہے۔

حق یہ ہے کہ اہل سنت حضرات کی نماز جماعت شیعوں سے زیادہ منظم ہوتی ہے۔ اگر آپ ان کے ساتھ نماز ادا کریں تو آپ  کو اندازہ ہوگا امام جماعت نماز شروع کرنے سے پہلے لوگوں کو دیکھتا اور ان سے منظم کرنے کے لیے کہتا ہے( استووا رحمکم اللہ) نمازیوں سے کہتا ہے اپنے درمیان فاصلہ نہ رکھیں اور سب ایک دوسرے کے بغل میں کھڑے ہوں اور ایک صف بنائیں۔ آپ نمازیوں کو دیکھیں گے کہ ایک دوسرے سے ملکر کھڑے ہوتے ہیں اور خالی جگہ پر کرنے میں سبقت کرتے ہیں۔

یقینا یہ کام صحیح اور اچھا ہے لیکن افسوس اگر آپ اہل سنت حضرات کی

مسجدوں کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہو نقش و نگار پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ان کے علماء بہت نصیحت کرتے ہیں۔ لیکن وہ طہارت و پاکیزگی اور نجاست سے دوری پر کوئی خاص توجہ اور اہمیت نہیں دیتے۔ یہ ان کے مذاہب خاص کر حنبلیوں میں جائز ہے۔ مثلا مردوں کا سونا پہننا، ان کے غیر دیندار افراد  میں اس کثرت سے نظر آتا ہے کہ میں سمجنھے لگا ان کے مذاہب نے جائز قرار دیا ہے اور سونا پہن کر نماز پڑھنا صحیح ہے۔

جبکہ تمام اہل سنت فرقوں نے مردوں کے لیے سونا قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں صفوں کو پر کرو تا کہ تمہارے درمیان شیطان داخل نہ ہو لیکن افسوس کہ یہ ہر اچھے اور برے کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں ممکن ہے کہ صف اول میں کوئی کافر حاکم ( جو بظاہر مسلمان ہے) اپنے ساتھیوں کے ساتھ صف اول میں موجود ہو جو کہ کسی کمی بیشی کے خود شیطان ہے!!

لیکن شیعہ مسجدوں کو خدا کا گھر سمجھتے ہیں اور اسے مسلمانوں کو مورچہ سمجھنے پیسہ سے بنی ہوتی ہیں نہ کہ حکومت کے پیسہ سے۔ اس کے علاوہ مسجد کی پاکیزگی وطہارت پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں اور ایک لحظہ بھی اسے نجس نہیں رہنے دیتے۔ بہر حال مسجد کے احکام زیادہ ہیں جنھیں علماء برابر بیان کیا کرتے ہیں۔

فی الوقت ایران، لبنان، شام میں شیعہ مسجدوں کی حالت بہت بہتر اور منظم ہوگئی ہے۔

کیا ہم اس بات پر مامور نہیں ہیں کہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں؟ پھر کیوں صرف نظم کا خیال نہ رکھنے اور صفوں کے درمیان چلنے پر اس درجہ سختی سے کام لیتے ہیں۔ حتی کہ انہی سختیوں کی وجہ سے بعض اہل سنت نوجوان ہماری مسجدوں میں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

ہمارے لیے یہ بات کہیں زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ نوجوان مسجدوں میں آئیں اور وہاں تربیت پائیں۔ یہ نہ چاہیے کہ جیسے ہی کوئی ( نماز میں سامنے آئے) اور صفوں کے درمیان راہ چلے۔ چلانا شروع کردیں اور اسے مسجد سے باہر کردیں۔ بلکہ اس کے ساتھ اسلامی اخلاق سے پیش آنا چاہئے اور صحرائی اور جنگل رویہ کےبجائے اسلامی رویہ اختیار کرنا چاہئے۔

بہر حال اہل سنت حضرات اس بات کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ نماز کے وقت کوئی صفوں کے درمیان راہ نہ چلے اس لیے کہ وہ اپنی روایات کے مطابق معتقد ہیں کہ اگر نماز گزار کے سامنے کوئی راہ چلے تو اس کی نماز ٹوٹ جاتی ہے۔

اور ان کی بعض روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی نماز گزار کے سامنے سے گذرے تو  وہ شیطان ہے اسے بھگانا چاہیے!!

دوسروں طرفف شیعہ ان مسائل پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، میں نے بہت سے علماء مراجع کے پیچھے مختلف ممالک میں نماز پڑھی ہے۔ لیکن کہیں پر نہیں دیکھا کہ امام جماعت لوگوں سے مخاطب ہو اور کہے صفوں کے درمیان راہ چلنے سے منع کرتے نہیں دیکھا۔

البتہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ مذہب اہل بیت(ع) میں نماز گزار کے سامنے راہ چلنے یا کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور عقلی نقلی لحاظ سے بھی یہی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ مبطلات نماز شیعہ اور شیعہ اور اہل سنت کے یہاں واضح ہیں۔ اور ان میں کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ نمازی کے سامنے راہ چلنے سے اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔

بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ سے یوں بیان کیا گیا :

نماز قطع نہیں ہوتی مگر کتا، گدھا یا عورت کے نماز گزار اور قبلہ کے

درمیان حائل ہوجانے سے حضرت عائشہ بہت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں : ہمیں کتوں اور گدھوں سے تشبیہ دیتے ہو خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ رسول خدا(ص) نماز پڑھ رہے تھے اور میں تخت پر آنحضرت(ص) اور قبلہ کے درمیان حائل تھی۔

(بخاری، ج ۱، ص۱۳۷، کتاب الصلوة باب من قال لا یقطع الصلوة شئی)

اب اہل سنت حضرات کے لیے مذکورہ روایت قانع کنندہ دلیل اور قوی برہان ہے کہ نماز اور قبلہ کے درمیان فاصلہ ڈالنے سے نماز باطل ہوتی۔ لیکن ہر جائز عمل پسندیدہ نہیں ہوتا؟ اگر مسلمان احتیاط کرے اور نمازیوں کی گردنوں پر پاؤں رکھنے سے پرہیز کرے اور اپنے قدموں سے ان کی اہانت  نہ کرے کیونکہ اس وقت وہ اپنے رب کی بارگاہ میں سر بسجود ہوتے ہیں تو یہ ایک مستحب اور پسندیدہ عمل ہے اور اخلاقی تربیت کے لحاظ سے سبھی کے یہاں قابل قبول ہے اور اسلام بھی اسے صحیح سمجھتا ہے۔ در اصل اس عمل میں نمازیوں کا احترام پوشیدہ ہے۔بہر پل انسان کے لیے یہ امر تکلیف دہ ہے کہ وہ خشوع و خضوع میں مشغول ہو اور اپنے رب سے مناجات کررہا اور کوئی سامنے سے گزر کر اس حالت کو ختم کر دے۔

کیا رسول خدا(ص)  نے راستہ میں بیٹھنے سے منع نہیںکیا ہے؟ س یے کہ اس سے راستہ چلنے والوں کو مشکل ہوتی ہے اور خصوصا عورتوں کو اس وقت یقینا تکلیف ہوتی ہے جب راستہ کے دونوں طرف مرد بیٹھے ہوں۔

اس وقت جب کہ حق کی بات سامنے آگئی ہے اور ہم نے اپنی بحثوں میں اسی پر تکیہ ہے اور قرآن کریم نے بھی یہی درس دیا ہے کہ : خدا حق کہنے میں شرم محسوس نہیں کرتا۔لہذا حق یہ ہے کہ اس مسئلہ میں شیعہ حضرات کو برادران اہل سنت سے استفادہ کرنا چاہیے وہ اس اخلاقی تربیت کو ان سے حاصل کریں

 اور جب نماز گزار اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہو، یا رکوع و سجدہ کر رہا ہوتو اس کے لیے خاص احترام وتقدس کے قائل ہوں۔

ہم نے اس بات کو اہل تشیع کے بزرگوں اور رہبروں کے سامنے رکھا انھوں نے اس بابت کوتاہی کا اعتراف کیا۔ لیکن ان میں سے ایک نے ہم پر اعتراض کیا کہ یہ مسائل سطحی اور بے ارزش ہیں اور اصل تو نماز ہے۔

ہم نے کہا : اس درجہ بھی سطحی نہیں ہیں اس لیے کہ یہ ایک طرح کا نظم و ضبط ہے جس میں ہیبت ووقار پایا جاتا ہے اور یہ دوسروں کو احترام پر آمادہ کرتاہے۔ ہمارا دین نظم و ترتیب کا دین ہے جو ہرج و مرج  کوپسند نہیں کرتا اور نظم و ترتیب کو دوست رکھتا ہے۔ کیا خداوند عالم نے نہیں فرمایا:

اور (مسلمانو!) تم تمام نمازوں کی اور (خصوصا) بیچ والی نماز کی پابندی کرو اور خضوع و خشوع کے ساتھ خدا کے سامنے نماز کےلیے کھڑے ہوجاؤ۔( بقرہ/۲۳۸)

اور کیا یہ نہیں فرمایا ہے کہ:

خدا ان لوگوں سے الفت رکھتا ہے جو اس کی راہ میں اس طرح صف باندھ کے لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں۔(صف/۴)

شاید نماز جماعت کے متعلق تاریخ شیعہ کی مشکلات نے ان کے یہاں اس طرح کی لاپرواہی کو جنم دیا ہے۔ چونکہ ان پر بڑا سخت دور گزرا ہے اور ان کے لیے بہت مشکل تھا کہ اہل سنت کی امامت مین نماز اداکریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل سنت جب نماز کے احکام کو بخوبی بجالانا چاہتے تو ان کی ایک عادت یہ بھی ہوگئی تھی کہ نماز کے دوران امام علی(ع) اور اہل بیت(ع) کو دشنام دیتے اور لعنت کرتے تھے۔ اور دوسری طرف شیعہ نماز جماعت علیحدہ طور پر قائم نہیں کرسکتے تھے اس لیے کہ فورا ہی ان پر رافضی ہونے کا الزام لگتا تھا اور قتل کردیئے جاتے لہذا اکثر و بیشتر تقیہ کی حالت میں اہل سنت حضرات کے ساتھ نماز پڑھتے اور فورا

گھر واپس آکر بہت سی نمازوں کو اعادہ کرتے تھے۔

یہاں ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اہل بیت(ع) اور ان کے شیعوں کے مخالف اس وجہ سے ( اہل سنت والجماعت)  کے نام سے معروف ہوئے کہ اکثر مسلمان ان کی پیروی کرتے تھے۔ اور ان کے ساتھ ہی کی طرح نماز ادا کرتے تھے اور ان کی جماعت می حاضر ہوتے تھے۔ لیکن شیعہ اپنے اماموں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے اور ان کی تعداد اس وجہ کم ہوتی جیسے پورے سیاہ لباس میں ایک سفید نقطہ ہو۔ یوں وہ ایک الگ فرقہ شمار کئے جاتے تھے۔

ایک خاص اسلامی فرقہ کے عنوان سے معروف ہونے اور اہل بیت(ع) کی فقہ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بعد، اہل بیت(ع) کی جانب سے وارد نصوص کی رو سے شیعہ صرف عادل، زاہد اور عالم امام جماعت کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے اور ہیں لیکن اس کے برعکس اہل سنت کے یہاں ہر مومن اور فاسق کے پیچھے نماز صحیح ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب شیعہ کسی مسجد میں جاتے ہیں جس کے امام کے بارے میں  انھیں کچھ معلوم نہیں ہوتا تو وہ مسجد کے ایک گوشہ میں فردی نماز پڑھتے ہیں اس لیے کہ امام کے بارے میں اطمینان نہیں ہوتا لیکن اہل سنت ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے  وہ ہر مومن و فاجر  کے پیچھے نماز کو جائز سمجھتے ہیں۔

کیا عبداللہ بن عمر نے یزید بن معاویہ ، حجاج بن یوسف ثقفی حتی مجدة خارجی کے پیچھے نماز نہیں پڑھی؟ جب کہ یہ سب کے سب علانیہ فسق و فساد کرنے والے تھے۔

اور اگر شیعہ اس موضوع میں افراط سے کام لیتے ہیں اور ہر کس وناکس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اور ان دسیوں نماز گزاروں پر تکیہ نہیں کرتے جو نماز جماعت میں مشغول ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ وہ دین میں احتیاط سے کام لیتے

ہیں اور اپنی نماز کو بطور احسن انجام دینا چاہتے ہیں تاکہ مورد رضائے الہی قرار پائے۔ گویا ایک شیعہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر نامعلوم امام کے پیچھے نماز پڑھی جائے تو شرعی لحاظ سے مقبول نہیں ہے۔ اور گویا خداوند عالم نے اسے دینی امور میں غور و جستجو کے لیے  مجبور کیا ہے۔

مذکورہ مسائل اور امور کے علاوہ جہاں تک مجھے یاد ہے جمہوری اسلامی ایران کے ذمہ داروں میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ میری اور میرے دوستوں کے آرزو تھی کہ حکومت من جملہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن ان  کے ہاتھوں میں آئیں، لیکن جب اسلامی انقلاب کو کامیابی نصیب ہوئی تو ہمیں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

شیعہ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا انھیں زبردستی سامنے نہیں آنے دیا گیا۔ لہذا ان کے فتوے بہت ہی احتیاط کے ساتھ ہوتے ہیں مثلا مقدمات نماز جسیے طہارت وضو اور غسل کو بہت اہمیت دیتے ہیں  یہاں تک کہ آپ کو کوئی مسجد ایسی نہ ملے گی جس میں طہارت، قرائت اور رکعات نماز کے متعلق وسواس رکھنے والے موجود نہ ہوں!

بہر حال ہمارا یہ خیال ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت امور میں میانہ روی کا نام ہے خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے:

اور اسی طرح ہم نے تم کو میانہ، و امت قرار دیا۔(بقرہ/۱۴۳)

سب سے اچھا کام امور میں میانہ روی ہے۔ نہ افراط ہو اور نہ تفریط ہو۔(سنن بیہقی، ج۳، ص۲۷۳)

پس اہل سنت جو سہل انگاری میں مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور ہر مومن اور فاجر کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں افراط ہے۔

اور دوسری طرف شیعوں کے سخت شرائط کہ وہ صرف اس امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز سمجھتے ہیں جو ہر جہت سے عادل ہو یہ بھی افراط ہے۔

اہل بیت(ع) کا اسلام، فاسق و فاجر امام کو قبول نہین کرتا ۔ امام جماعت کے شرائط میں اتنا کافی سمجھتا ہے کہ وہ علی الاعلان فسق وفجور کا مرتکب نہ ہوتا ہو۔ امام کے عادل ہونے کےلیے اتنی شرط کافی ہے۔

آںحضرت(ص) ہمیشہ اپنے اصحاب سے سفارش کرتے تھے کہ سختی نہ کرو نرمی سےکام لو۔ لوگوں کو خوشخبری دو اور متنفر نہ کرو۔( کنزالعمال، ج۳، ص۳۵)

آنحضرت(ص) نے مزید فرمایا:

اپنے ساتھ سختی نہ برتو تاکہ خدا بھی تمہارے ساتھ سختی نہ کرے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔

پس دین اسلام نرمی اور آسانی کا دین ہے البتہ ہمارا مقصد احکام شرع میں اںحطاط و سہل انگاری ہرگز نہیں ہے۔ میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں۔ بلکہ مین خود ان مذاہب سے متنفر ہوں جو اپنی آراء و نظریات کے مطابق عمل کرتے ہیں اور الہی کو اپنی نفسانی خواہش کی بنیاد پر کم و زیادہ  کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان ساری سختیوں  اور شدت کو دینی اخلاص کے بجائے بشری اجتہادات کے نتیجہ میں دیکھیں تو یقینا متاثر ہوں گے۔آپ خود قرآن مجید میں خداوند عالم کا قول پڑھتے ہیں :

اور بلاشبہ خدا نے تمہارے لیے دین میں سختی قرار نہیں دی۔ ( حج/۷۸)

اور دوسری جگہ پڑھتے ہیں :

( خدا تمہارے لیے راحت و آسانی چاہتا ہے نہ کہ شدت و سختی۔ (بقرہ/۱۸۵)

لہذا جبہم سختی برتنے والوں اور وسواسیوں کو دیکھتے ہیں تو دین ایک ایسا ڈراؤنا خواب نظر آتا ہے جو انسان کی طاقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں شیطان کا دل میں راہ پانا ممکن ہوجاتا ہے۔ اور شکوک و شبہات گھر کر لیتے ہیں۔ بے شک بدترین بیماری یہی ہے کہ مسلمان شخص وسوسہ کا شکار

 ہوجائے۔ اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی، کب اور کیسے نماز پڑھی اور شیطان بھی اس کے ساتھ تماشا کرے اور اس کے دل کو وسوسہ سے بھر دے۔ اور ممکن ہے اس کا یہ وسوسہ عبادات سے معاملات تک پہنچ جائے اور اس کی زندگی نہ صرف اس کے یے قابل تحمل نہ ہو بلکہ اس سے وابستہ لوگوں کےلیے بھی باعث مشکل ہو جائے۔

خداوند عالم ہمیں اور آپ کو اس سے امان میں رکھے۔

ہمارے فقہاء بھی ایسے شخص کو مریض سمجھتے ہیں اور شدت کے ساتھ اسے وسوسہ سے روکتے ہیں۔

شیعہ اور نماز جمعہ

اہل سنت حضرات جن اہم باتوں کے متعلق شیعوں پر تنقید کرتے یں ان میں سے ایک نماز جمعہ کو اہمیت نہ دینا ہے، البتہ بعض  افراط سے کام لیتے ہوئے نماز جمعہ کو اہمیت نہ دینے پر شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل میں رسول خدا(ص) کی حدیث نقل کرتے ہیں: آںحضرت(ص) نے فرمایا:

جو بھی تین ہفتہ نماز جمعہ میں شرکت نہ کرے وہ اسلام سے بیزار ہے۔

یا یہ کہ : حضرت سے سوال کیا گیا جو نماز کو ترک کرتا ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ آںحضرت(ص)  نے فرمایا: وہ دوزخ میں ہے۔(الموطا، ج ۱، ص۱۱۱)

لیکن شیعوں کے درمیان اختلاف ہے کہ حضرت امام مہدی(عج) کی غیبت کے زمانے میں نماز جمعہ واجب ہے یا نہیں؟ فقہاء دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں، ایک  گروہ ہر زمانے میں نماز جمعہ کے وجوب کا قائل ہے تو دوسرا معتقد ہےکہ نماز جمعہ صرف اس صورت واجب ہے جب اس کے شرائط فراہم ہوں اور ان شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ عادل حاکم نماز جمعہ برقرار کرے۔

یہاں پر یہ کہنا ضروری ہوگا کہ جناب خالصی حرم امام موسی کاظم(ع) (کاظمین بغداد) میں نماز جمعہ پڑھاتے تھے۔ اور مجھے شیعہ ہونے کے پہلے سے ہی اچھے لگتے تھے چنانچہ میں کبھی کبھی نجف یا کربلا سے نماز جمعہ میں شرکت کی غرض سے بغداد جاتا تھا اور جناب خالصی کی شجاعت پر تعجب کرتا تھا کہ آپ نماز جمعہ کو واجب نہ جاننے والوں کی تنقید کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے اور نہایت ہی اچھے ڈھنگ سے نماز ادا کرتے تھے اور وہ زمانہ 1968ء کا تھا میں دیکھتا تھا

کہ لوگ کثرت سے آپ کے ساتھ نماز جمعہ میں سرکت کرتے تھے۔

اور دوسری طرف ان لوگوں پر تعجب ہوتا تھا جو آپ کے نماز جمعہ بر قرار کرنے پر تنقید کرتے تھے۔ میں خود سے کہتا تھا کہ یہ کس طرح ایک مجتہد پر تنقید کرتے ہیں اور صرف اس بات پر کہ آپ نماز جمعہ قائم کرتے ہیں، جب کہ خداوند عالم نے قرآن میں فرماتا ہے:

«يَأَيهَُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا نُودِىَ لِلصَّلَوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْاْ إِلىَ‏ ذِكْرِ اللَّهِ » ( سورہ جمعہ آیت ۹)

اے مومنو جس وقت نماز جمعہ کا اعلان ہو تیزی کے ساتھ یاد خدا کے لیے دوڑ پڑو۔۔۔۔

میں ان دونوں اجتہاد ( وجوب نماز جمعہ اور عدم وجوب نماز جمعہ) کے درمیان سرگرداں تھا، یہاں تک کہ ایرانی اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور اسلامی جمہور قائم ہوئی اور وہاں پہلے ہی روز سے نماز جمعہ قائم ہوگئی، اسلامی جمہوریہ نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کو جامہ عمل پہنانے کےلیے پوری کوشش کی اور یہی وہ وجہ تھی جہاں میں نے شیخ خالصی کی قدر کو سمجھا اور یقین ہوگیا کہ آپ مخلص فرد ہیں اور امید رکھتا ہوں کہ ایک روز آپ سے ملوں اور آپ کاہم نشین ہوں۔

بہر حال شیعہ ویسے ہی اب بھی نماز جمعہ پڑھنے اور ترک کرنے والوں میں منقسم ہیں اور امام مہدی(عج) کے ظہور کے منتظر ہیں۔

اور میری خواہش و قلبی آرزو ہے کہ نماز جمعہ شیعوں کے ہر ریہات اور شہروں میں قائم ہوجائے اس لیے کہ اس میں بہت زیادہ اجرو ثواب ہے۔ جس کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا، ہم نے جن سرزمینوں کے زیارت کی ہے اپنی اکثر تقریروں میں وہاں کے شیعوں کے درمیان کہا ہے کہ وہ ضرور اسلامی جمہوریہ ایران اور عظیم رہبر امام خمینی(رح) کی پیروی کریں اور مسلمانوں کی تالیف قلوب اور دنیا کے شیعہ اور سنی مسلمانوں کےدرمیان الفت و محبت برقرار کرنے کے لیے نماز

جمعہ قائم کریں، اور اس کام کو ضرور انجام دیں اور اس خدا سےدعا کرتا ہوں کہ مجھے اپنے ذکر وشکر کی قوت بخشے اور بطور احسن اپنی عبادت و پرستش کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور ہمارے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک کرے تاکہ اس کی نعمت کے زیر سایہ ہم ایک دوسرے کے بھائی ہوجائیں۔اور کیوں نہ ہو وہ سننے والا اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔

مسجدوں میں سگریٹ پینا

شیعہ حضرات پر اہل سنت کا ایک دوسرا اعتراض مسجد میں سگریٹ پینا ہے، وہ کہتے ہیں یہ برا عمل ہے اور شیطان کے اعمال میں سے ہے۔

اور حق تو یہ ہے کہ شیعوں کی مسجد میں معمولا یہ عمل نظر بھی آتا ہے۔ مجھے یاد ہے پہلی مرتبہ جب مین نجف اشرف میں مشرف ہوا تھا تو یہ صورت حال ںظر آئی جسے دیکھ کر مجھے یہ تعجب ہوا۔ اسی وقت میں نے کچھ علماء کے ساتھ بحث کی لیکن ان کے جواب سے قانع نہ ہوا۔

بعض نے کہا سگریٹ پینا حرام نہیں ہے۔ حتی کہ مکروہ بھی نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ اس کے اوپر آںحضرت(ص) اور ائمہ اطہار(ع) کی جانب سے کوئی نص موجود نہیں ہے اور رہا قیاس تو وہ ہمارے یہاں باطل ہے، اور کچھ نے کہا ہم مسجد میں سگریٹ نہیں پیتے بلکہ صرف امام بارگاہوں اور نشست گاہوں میں پیتے ہیں اور امام بارگاہوں اور مسجد میں فرق ہے۔

پہلی توجیہ کے بارے میں ہم ان سے کہیں گے کہ یہ صحیح نہیں کہ جس کی حرمت سے متعلق نص موجود نہ ہو وہ حلال اور جائز ہے اس لیے کہ بعض نصوص عام ہیں اور تمام خبائث و محرمات کو اپنے اندر شامل کر لیتی ہیں، جیسے خداوند عالم کا ارشاد :

اے پیغمبر کہہ دو: ہمارے پروردگار نے ہی طرح کے رے عاعمال چاہے ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کو حرام قرار دیا ہے۔ (اعراف، آیت ۳۳)

یا رسول خدا (ص)کا فرمان:

مست کرنے والی تمام چیزیں حرام ہیں۔ ( صحیح بخاری، ج۵، ص۲۰۵)

یا یہ:

ضرر اٹھانا اور ضرر پہنچانا اسلام میں نہیں ہے۔ ( سنن ابن ماجہ، ج۲، ص۴۸)

لیکن بعض نصوص خاص ہیں اور کسی ایک امر کی حرمت سے متعلق ہیں جیسے خدا کا یہ ارشاد :

زنا کے نزدیک نہ ہو۔(سورہ اسراء، آیت، ۲۳)

قتل نہ کرو۔ ( سورہ اسراء، آیت، ۳۳)

سود نہ کھاؤ۔( سورہ آل عمران، آیت ۳۰)

یا آںحضرت(ص) کا فرمان:

جو بھی فریب دے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (صحیح مسلم، ج۱، ص۹۹)

جو بھی ہم پر جھوٹ باندھے اسے چاہئے کہ اپنی جگہ جہنم میں تلاش کرے۔( صحیح بخاری، ج۱، ص۳۸)

لہذا اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ سگریٹ ائمہ اطہار(ع) اور آںحضرت(ص) کے زمانے میں نہیں تھا اس لیے اس سے متعلق خدا اور اس کے رسول(ص) و ائمہ (ع) کی جانب سے کوئی صریح حکم نہیں ملتا، جیسے بہت سے محرمات اب بھی ہیں اور ان کو ںصوص عام اپنے اندر شامل کئے ہوئے ہیں جیسے لاٹری، یا دوسرے کھیل جو بغیر زحمت کے، پیسے سے کھیلے جاتے ہیں یا اس قسم کے دیگر مسائل۔

اسراف نہ کرو اس لیے کہاسرف کرنے ولے شیاین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا منکر ہے۔( اسراء ، آیت 26)

اور رسول خدا(ص)  نے فرمایا ہے:

اسراف یہ ہے کہ ایک درہم اس چیز میں صرف کرو جس میں ذرا بھی تمہارے لیے فائدہ نہ ہو۔

اس سے بڑھ کر اور کیا نقصان ہوگا کہ انسان اپنے مال کو ان نقصان دہ چیزوں میں صرف کرے جو  اس کی صحت کےلیے خطرناک ہوں اور اس کی زندگی کو ہلاکت میں ڈال دیں؟

حتی ( لاضرر ولا ضرار) والا قاعدہ بھی سگریٹ نوشی کو اپنے اندر شامل کئے ہوئے ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر اور کیا ضرر ہوگا کہ موجودہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ ہر سگریٹ پینے والے کے لیے کینسر اور تنگی نفس کا خطرہ لاحق ہے۔ جو نکوٹین سگریٹ میں موجود ہے وہ منشیات کا ایک جزو ہے۔ جس سے سگریٹ نوش کرنے والے کو رہائی ممکن نہیں مگر یہ کہ اس کا مستقل علاج کیا جائے۔

اسی طرح ترقی یافتہ ممالک کے ماہرین سماجیات  نے سگریٹ نوشی کے خطرہ کو محسوس کرلیا ہے۔ لہذا سگریٹ نوشی کو عام جگہوں، حکومتی مراکز حتی کہ ہوائی جہاز، ٹرین اور بسوں میں منع کردیا ہے۔

اور ادھر انگینڈ اور فرانس نے میٹرو میں بھی سگریٹ نوشی کو ممنوع کر دیا ہے س لیے کہ ماڈرن میڈیکل سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ سگریٹ نوشی سے صرف اسی شخص کو خطرہ لاحق نہیں ہے۔ بلکہ اس کے اطراف کو بھی بیماری لاحق ہوسکتی ہے۔ لہذا ذمہ داروں نے اسے عمومی مراکز میں بالکل ممنوع قرار دیدیا ہے اور سگریٹ پینے والوں کو مجبور کر دیا ہے کہ دھواں نکلنے کے لیے لوگوں سے دور ہوجائیں، اور یہ صرف دوسروں کے احترام کے لیے نہیں بلکہ ان کی سلامتی و حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے۔

اور جو رسول خدا(ص) نے فرمایا : ( لاضرر ولا ضرار ) نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ دوسروں کو پہنچاؤ، ( آںحضرت(ص) کا یہ فرمان) صرف سگریٹ پینے والوں کے

 اطرافیوں کو شامل نہیں کرتا بلکہ خود اس کے لیے سگریٹ نوشی کو حرام قرار دیتا ہے اس لیے کہ حضور(ص) کے اس فرمان کے مطابق مسلمان شخص پر جس طرح دوسروں کو نقصان پہنچانا حرام ہے ویسے ہی خود کو بھی نقصان پہنچانا حرام ہے۔

آپ نہیں دیکھتے کہ اسلام نے خود کشی کو حرام قرار دیا ہے اور اس کو گناہ کبیرہ شمار کیا ہے، پس انسنا خود اپنے بدن کے متعلق بھی آزاد نہیں ہے کہ جو چاہے کرے اور اس لیے کہ انسان کا بدن خدا کی ملکیت ہے نہ کہ خود اس کی ملکیت لہذا وہ کام نہیں کرنا چاہئے جو خدا کی ناراضی کا باعث ہو۔

اگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے ڈرائیونگ کے وقت شرابنوشی کو ممنوع قرار دیا ہے تو اس کا عامل مہلک اور خطرناک ایکسیڈنٹ ہے۔ اور اسی طرح سگریٹ نوشی کو جو عمومی مراکز میں ممنوع قرار دیا ہے تو اس کی وجہ سگریٹ پینے والوں کے ذریعہ لوگوں کی تکلیف ہے، لیکن یہ صرف قاعدہ (لاضرار) دوسروں کو نقصان نہ پہنچاؤ پر عمل کرتے ہیں۔

لیکن قاعدہ (لاضرر) خود بھی نقصان نہ اٹھاؤ کو کنارے چھوڑ دیتے ہیں اور اس خیال سےکہ انسان اپنے جسم کے متعلق آزاد ہے، صرف اس شرط کے ساتھ کہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ اپنی نسبت جو چاہے کرسکتا ہے  لیکن اسلام انسان کی مطلق آزادی کا اعتراف نہیں کرتا اور انسان کو اپنے آپ کو نقصان  پہنچانے کے لیے آزاد نہیں چھوڑتا۔

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

اپنے ہاتھوں خود کو ہالکت میں نہ ڈالو۔( بقرہ، 195)

رسول خدا(ص) فرماتے ہیں:

(لا ضرر ولاضرار) نہ خود نقصان اٹھاؤ نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ)

بہر حال اگر قبول کریں کہ مسلمان سگریٹ پینے کا حق رکھتے ہیں اس لیے کہ

اس کے متعلق کوئی نص موجود نہیں ہے تو قطعا اس چیز کی اجازت نہ دینی چاہئے کہ مسجد، نماز و عبادت سے مخصوص مراکز اور مسلمانوں کے مجمع کے درمیان سگریٹ نوشی کریں بلکہ ان کو چاہئے کہ دوسروں کے احترام کی رعایت کریں۔

لیکن ان کا دوسرا جواب ہے جو کہتے ہیں کہ مسجد میں سگریٹ نوشی ممنوع ہے لیکن امام بارگاہوں میں کوئی حرج نہیں۔ ان لوگوں کے لیے جو نہیں جانتے بیان کرتا ہوں ، امام بارگاہیں وہ مراکز ہیں جنہیں شیعوں نے بناکر امام حسین(ع) کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ان مراکز میں ائمہ اطہار(ع) کی ولادت و شہادت، عاشورا، غدیر و غیرہ کی مناسبت سے مجلس و ماتم اور جشن مناتے ہیں عموما یہ امام بارگاہیں قیمتی قالین سے مزین ہوتے ہیں ان میں محراب نماز بھی ہوتی ہے۔ ( اگر چہ مسجد نہیں ہے) پس اگر کوئی شیعہ کہے کہ امام بارگاہ میں سگریٹ پینا جائز ہے۔ چونکہ مسجد نہیں تو اولا: اس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مسجد میں سگریٹ نوشی درست نہیں ہے۔

ثانیا :امام بارگاہیں چاہے اس میں مجلس عزا ہو یا محفل مسرت، وہ نشستیں ہیں جو خدا کے نام اور رسول(ص) و آل رسول(ص) پر صلوات سے پر ہیں، لہذا کیا شائستہ ہے کہ جس جگہ خدا اور رسول(ص) و ائمہ اطہار(ع) کا تذکرہ ہو اور فرشتے اپنے پروں کا سایہ کریں اور مومنین کے لیے استغفار کریں اس جگہ کو سگریٹ کی کثیف اور گندی بو ( جو ملائکہ کی کیا بات خود انسان کےلیے مضر ہے) سے آلودہ کیاجائے؟

میں تو تعجب کرتا ہوں کہ بعض شیعہ مراجع شطرنج بازی کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن سگریٹ نوشی کو جائز سمجھتے ہیں، اور دونوں کے درمیان کس درجہ فرق ہے میں اس حالت سے سخت متاثر تھا، اور اکثر اس مطلب کو بعض علماء سے کہتا بھی تھا لیکن ان میں اس بات کی جرات نہیں دیکھتا تھا کہ وہ اس کو منع یا حرام کرسکیں، ( نہ شیعوں کے درمیان اور نہ اہل سنت کے درمیان)

مجھے یاد ہے کہ مرحوم شہید صدر کبھی سگریٹ نہیں پیتے تھے، اور جس وقت میں نے سگریٹ نوشی کے متعلق سوال یا تو انھوں نے فرمایا:” میں خود سگریٹ نہیں پیتا اور ہر مسلمان کو نصیحت کرتا ہوں کہ سگریٹ نہ پیئے۔“ لیکن خود انھوں بھی صراحت کے ساتھ حرام نہ کیا، بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرجع نے سگریٹ کو ابتدا سے پینے والوں پر حرام قرار دیا ہے۔ لیکن جو پیتے رہتے ہیں ان کے لیے مکروہ جانا ہے، البتہ بعض اس کو حرام قرار دیتے ہیں لیکن اس کی تصریح اس خوف سے نہیں کرتے کہ عوام ان پر قیاس کا اتہام لگائیں گے۔

ہم کہتے ہیں کہ یہ مراجع کی ذمہ داری ہے کہ اس کے متعلق صراحت سے اپنی رائے بیان کریں اور کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کریں، اس کو حرام کرنا ان کی ذمہ داری ہے چاہے اجتہاد کے ذریعہ، چونکہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ایک واضح اسراف ہے خود نقصان اٹھانا اور دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے۔

اور بالفرض اگر دھواں نگلنے کے متعلق واضح نص موجود نہ ہو اور خداوند عالم کا قول«لا تبذر تبذيرا» بھی اسے اپنے اندر شامل نہ کرے تو بھی علما و مراجع کے لیے مواقع فراہم ہیں کہ اس میں اجتہاد کریں اور اس کے ذریعہ انسان کے لیے کثرت سے نقصان وہلاکت کے باعث اس کو حرام قرار دیں۔

لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ بعض مشکلات اور عوام کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے ساکت ہوجائیں، یا سگریٹ نوشی کرنے والوں کے رد عمل سے گھبراتے ہوں اور اس کی کراہت کا بھی اعلان نہ کریں، ان توجیہ کرنے والوں میں سے ایک مجھے قائل کرنا چاہتا تھا کہ سگریٹ بڑے فواید کا حامل ہے۔ خدا کی قسم یہ بڑا خطرناک کام ہے اور بڑے ہی وحشت ناک گوشے رکھتا ہے۔ وہ شخص بعض جوانوں کو سگریٹ نوشی کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی بھی کررہا تھا۔

اور یہ اس وقت ہے جب عالم کفر میں چیئری ٹیبل فاونڈیشن(charitable Foundations) اور اجتماعی ادارے سگریٹ اور سگریٹ پینے والوں کے برخلاف تبلیغات پر کثیر رقوم صرف کررہے ہیں، اور سگریٹ کے فوائد پر پروپگنڈے کو ممنوع کرتےہوئے اس کی کمپنیوں پر فریضہ عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے سگریٹ کے اوپر لفظ ”خود کشی“ ضرور لکھیں، تاکہ لوگوں کو اس سے تنفر کرسکیں۔

لیکن افسوس کہ اسلامی و مذہبی سماج میں سگریٹ بڑی قبولیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے حتی کہ عورتیں بھی محافل میں سگریٹ کا پیکٹ لے جانے سے پرہیز نہیں کرتیں۔

یقینا بچہ جب آنکھ کھولے اور اپنے ماں باپ کے منہ میں سکگریٹ دیکھے تو مرجع دینی کی تقلید کرنے سے پہلے ان کی تقلید کرے گا، اور اگر سگریٹ کی مستی کے ساتھ بڑا ہوا اورسگریٹ کا عادی بن گیا تو بہت مشکل ہے کہ اس کو بڑے ہونے کے بعد سگریٹ پینے سے روکا جاسکے، اور خصوصا اس وقت جب اس نے ابا جان کو مسجدوں اور عبادت گاہوں میں سگریٹ نوشی کرتے ہوئے دیکھا ہو۔

مسلمانوں کو نہیں معلوم کہ اس سگریٹ کی وجہ سے وہ کس سنگین مالی اور اقتصادی نقصان کے متحمل ہوتے ہیں۔ اگر معلوم ہوتا تو قطعا متاثر ہوتے، صرف ایک معمولی حساب کے ذریعہ اس بڑے خطرہ سے پردہ اٹھایا جاسکتا ہے، اس سگریٹ پینے والا حساب کریں تو (۲۰۰) ملین سگریٹ پینے والے ہوں گے اور اگر فرض کریں کہ ہر روز ایک ڈالر سگریٹ پر صرف ہوتا ہے( جبکہ یہ ایک پیکٹ سگریٹ کی سب سے کم قیمت ہے) اس حساب میں وہ لوگ جو روزانہ دو یا تین پیکٹ سگریٹ پی جاتے ہیں شامل نہیں ہیں۔

رہے وہ لوگ جو قیمتی سگریٹ پیتے ہیں ان کو اس حساب میں شامل نہیں کیا گیا ہے تو نتیجہ اس طرح ہوگا (۲۰۰) ملین سگریٹ کو ایک ڈالر میں ضرب دیں۔ روزانہ (۲۰۰) ملین ڈالر ہوگا، اور اگر اس روزانہ کی شرح (۳66) روز یعنی ایک سال کی مدت سے ضرب دیں تو (۷۳۰۰۰) ارب ڈالر ہوں گے، یعنی مسلمان سب سے کم حساب کرنے کی صورت میں (۷۳۰۰۰) ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں، اور اس سے مہلک بیماریاں خریدتے ہیں۔

اگر اس کے ساتھ سگریٹ کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری جیسی کینسر، دمہ، سانس پھولنا، برون کائیٹسBronchitis (حلق کی سوجنا) مسوڑھے اور دانت کی خرابی وغیرہ کے علاج پر خرچ ہونے والی کثیر رقم کو حساب کیا جائے تو بلاشبہ ایک ایسی شرح حاصل ہوگی جس کو عقل باور نہیں کرسکتیں، اگر مسلمان دس سال اس مال کو جمع کریں تو اس سرزمین پر ایک جنت تعمیر کرسکتے ہیں۔ اور ایک بھی مسلمان فقیر نظر نہ آئے گا۔

اور پہھر انھیں کوئی ضرورت نہ ہوگی کہ وہ اپنا ہاتھ کفار کے سامنے پھیلائیں، اور یقینا فقر و فاقہ، بیماری، و پسماندگی کاخاتمہ کرسکتے ہیں، یہ پیش رفت کے لیے جدید ٹیکنالوجی خرید سکتے ہیں اور دوسروں پر سبقت حاصل کرسکتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ جو چیز سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں رکھتی گرچہ اس کی حرمت پر نص موجود نہ ہو پھر بھی خود حرام قرار دیں اس لیے کہ یہ دین پاکی کا حکم دیتا ہے اور انھیں پلیدی سے روکتا ہے، خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

ان پر پاک و پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا ہے نجس اور پلید چیزوں کو حرام کیا ہے۔(اعراف/۱۵۷)

اگر رسول خدا(ص) اپنے اصحاب کو جمعہ کے دن لہسن کھانے سے روکتے تھے تاکہ اس کی مہک سے لوگوں کو تکلیف نہ پہنچے جب کہ لہسن بہت سے

طبی فائدے ہیں ، اور لہسن کی بو کو سگریٹ کے ساتھ قیاس نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ لہسن کھانے والے کے منہ سے کوئی ایسا دھواں نہیں نکلتا تھا جو فضا کو آلودہ کرے جیسا کہ سگریٹ پینے میں ہوتا ہے مگر رسول خدا(ص)  نے قاعدہ ( لا ضرر) دوسروں کو نقصان نہ پہنچاؤ کے تحت اس سے منع فرمایا تو کیا رسول(ص) کی نہی میں عقلمندوں  کے لیے عبرت موجود نہیں ہے؟

اس کے علاوہ جو بھی لہسن کھاتا  ہے اسے کچھ فائدہ بھی ہوتا ہے،لیکن جمعہ کےدن کھانا مکروہ ہے اس لیے کہ اس سے دوسروں کو تکلیف ہوگی، اور پھر لہسن کھانے میں مد مقابل کو صرف اس کی بو سے تکلیف ہوگی اور کسی قسم کے مرض کا خطرہ نہ ہوگا لیکن سگریٹ کےساتھ ایسا نہیں ہے۔ یہ دوسروں کو مریض کرکے قطعا نقصان پہنچاتا ہے۔

اور اگر مجتہدین تاش اور شطرنج کھیلنے کو حرام قرار دیتےہیں چاہے اس میں ہار جیت کا معلاملہ نہ ہو، غنا، موسیقی، اور دیگر لہو لعب کے افعال کو حرام قرار دیتے ہیں کہ جس کے متعلق شاید نص صریح موجود نہ ہو لیکن کیوں اس امر کو حرام قرار نہیں دیتے جو مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے اور ان کو بیمار کرتا ہے اور اگر شیعہ سگریٹ پینے پر اصرار کریں تو کم از کم جو سگریٹ نہیں پیتے ہیں ان کا احترام کریں۔

خصوصا عبادت گاہوں، مساجد اور نماز خانوں کا احترام و خیال کریں جیسے کہ اہل سنت کرتے ہیں، آپ خود اس کا امتحان کرسکتے ہیں اگر آپ کے ہاتھ میں سگریٹ ہو اور کسی اہل سنت کی مسجد میں داخل ہوں تو فورا منع کریں گے اور آپ کو سگریٹ پینے سے روکیں گے اور شاید آپ کو اذیت بھی پہنچائیں۔

میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ سگریٹ نوشی بہت بری چیز ہے اور حتما خدا و رسول(ص) اس سے متنفر ہیں، چونکہ عقل و فطرت اس سے متنفر ہے اور

شاید یہ اس فبات کا باعث ہو کہ بعض اہل سنت جب شیعی مراکز میں داخل ہوں تو اس سےمتنفر ہوجائیں، چونکہ اس برے ظاہر کے علاوہ شیعہ کےمتعلق نہ انھوں نے کچھ جانا ہے اور نہ سمجھا ہے۔ لہذا اس بات کو پیش نظر رکتھے ہوئے کہتا ہوں کہ امام جعفر صادق(ع) کا وہ قول کس درجہ دل پذیر ہے کہ اپنے شیعوں سے فرماتے ہیں:

اپنے اعمال کے ذریعہ لوگوں کو ہماری طرف دعوت دو نہ کہ گفتار کہ ذریعہ، ہمارے لیے زینت کا سبب بنو نہ کہ باعث نفرت۔ ( بحار الانوار، ج ۸۵، ص۱۳6)

اور ممکن ہے کہ کچھ افعال دیکھنے والے کو ایسا متنفر کردیں کہ اس کے بعد وہ کوئی بات بھی سننے کو تیار نہ ہو، بہر حال اس کے متعلق جو کچھ بھی شیعوں کو کہا جائے وہ اہل سنت پر بھی صادق آتا ہے۔

اس بحث کے خاتمہ پر عرض کرتا ہوں کہ اصلاح کرنی چاہئے اور حق کی طرف بازگشت فضیلت ہے اور کوئی یہ خیال نہ کرے کہ اگر غلط  کام پر صدیاں گزر جائیں تو اس کی اصلاح نہیں کی جاسکتی ، البتہ اس کے لیے کوشش ضروری ہے اور جذبہ ہونا چاہئے تاکہ خداوند عالم کی مدد سے اس مہلک بیماری سے ہمیں نجات حاصل ہو۔ چاہے طولانی مدت ہی درکار ہو۔

ختم بحث

یہ ہیں امامیہ شیعہ مذہب پر ہونے والے اہم اعتراض اور تنقیدیں۔ لہذا بہتر ہوگا کہ ہر شخص جو حقیقت کا متلاشی ہے اس پر تحقیق کرے اور کسی بھی ملامت کرنے والے سے نہ ڈرے اور حق کہے۔ چاہے وہ بہت ہی تلخ اور اس کے حق میں نقصان دہ کیوں نہ ہو۔

آج کے روشن فکر و سمجھدار جوان ان زہریلے اور جھوٹے پروپگنڈوں پر یقین نہیں رکھتے جنہیں پروپگنڈہ کرنے والے ادارے تشیع کے خلاف ہر طرف پھیلاتے رہتے ہیں اور شیعوں کو شدت پسند، دہشت گرد گروہ یا خدا کے دیوانے کہتے ہیں۔

روشن خیال افراد ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے لیکن ممکن ہے کہ بعض مسائل، جو شیعہ محافل میں پیش آتے رہتے ہیں ان سے متاثر ہوں یا بعض مطالب شیعہ کتابوں میں پڑھیں اور حیرت زدہ ہوں اور اس کے لیے انھیں تفسیر و توضیح کی ضرورت ہو۔

بعض اشتباہات کچھ شیعہ عوام کے ذریعہ عمل میں آئے کہ جو نہ دین میں سے تھے اور نہ ان ضرورتوں میں سے جو محرمات کو جائز کردیتی ہیں لیکن ان کے ذریعہ ایسا نقصان پہنچا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑگیا۔ ان کے متعلق ہم نے ان کی جگہ پر توضیح کی ہے۔

گذشتہ بحثوں میں محکم و شایستہ استدلال جسے ہم نے اپنی کتابوں میں پیش کیا اور مسلمانوں کے درمیان نشر کیا اس میں ثابت کیا کہ امامیہ شیعہ تمام

(قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌاللَّهُ الصَّمَدُلَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَدْوَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدُ)

                                                                                      (سورہ اخلاص/۱ـ۴)

(اے پیغمبر کہہ دیجئے اللہ ایک ہے وہ سب سے بے نیاز ہے ( اور سبھی اس کے نیاز مند ہیں) نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ ہی اسے کسی نے جنا اور نہ اس کا کوئی ہم پلہ ہے۔)

اس حقیقت کی طرف رسول(ص) خدا اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

خدا کی قسم میں ہرگز انہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے۔ بلکہ اس بات پر خائف ہوں کہ دنیا ( خلافت) کے لیے جھگڑا کرو۔

اور یہ امت محمد(ص) کے مشرک نہ ہونے پر واضح و روشن دلیل ہے اسی طرح اس بات پر بھی دلیل ہے کہ امت محمد(ص) آپ کے بعد دنیا اور قدرت و اقتدار طلبی کے متعلق نزاع کرے گی اور اپنے ماضی کی طرف پلٹ جائے گی اور وہ حکم دے گی جس کو خدا نے نازل نہیں کیا اور یہ وہی چیز ہے جو ظلم، تباہی اور حتی کہ کفر کا باعث ہوگی لیکن ہرگز شرک کا باعث نہ ہوگی اور خداوند عالم نے بھی اس حقیقت کا اعلان قرآن کریم میں کیا ہے:

جو اس چیز کی بنیاد پر حکم نہ کرے جسے خدا نے نازل کیا ہے تو وہ کافر ہے۔(مائدہ/۴۴)

جو بھی اس چیز کی بنیاد پر حکم نہ کرے جسے خدا نے نازل کیا ہے تو ایسے لوگ ستمگر ہیں۔(مائدہ/۴۵)

جو بھی اس چیز کی بنیاد پر حکم نہ کرے جسے خدا نے نازل فرمایا ہے تو ایسے لوگ فاسق و بدکار ہیں۔ (مائدہ/۴۷)

اور یہ وہی مصیبت ہے جو رسول خدا(ص) کے بعد سے آج تک امت اسلامی کے درمیان موجود ہے، اس لیے کہ وہ قوانین و دستور جو خود بشر کے ہاتھوں بنے تھے اور ذاتی اجتہاد سے وضع کئے گئے تھے اس کو شریعت میں داخل کردیا گیا اور

 اس طرح احکام خدا میں تبدیلی کردی گئیں لیکن اس کی باوجود خدا ان کو مشرک نہیں کہا بلکہ ظالم، فاسق اور کافر سمجھتا ہے۔

یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اسلامی اور عرب ممالک کے روساء اور بادشاہ کبھی وہ حکم دیتے ہیں جو کتاب خدا کے برخلاف ہوتا ہے۔ لیکن ہم انھیں ہرگز مشرک نہیں کہتے۔ اس لیے کہ وہ خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اگر یہود نصاری خدا کے لیے فرزند کے قائل نہ ہوں تو انھیں موحد سمجھیں گے اور انھیں کافر نہیں کہیں گے۔

خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

اور جب خود یہودیوں کے پاس توریت موجود ہے اور اس میں حکم خدا موجود ہے تو پھر تمہارے پاس فیصلے کرانے کیوں آتے ہیں اور پھر اس کے بعد تمہارے فیصلہ سے پھر جاتے ہیں یہ لوگ با ایمان نہیں ہیں۔ ( مائدہ/۴۳)

جو کچھ خدانے نازل کیا ہے اس کے مطابق اہل انجیل کو حکم کرنا چاہئے اور جو بھی خدا کی نازل کردہ کتاب کے مطابق حکم نہ کرے وہ فاسق و بدکار ہے۔

بات واضح ہے اور مزید توضیح کی ضرورت نہیں ہے۔

۲ـ وہابیت کے رنگ و نسل و شہرت کے لحاظ سے مسلمانوں کے مختلف مقدس مقامات پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مکہ مکرمہ جس میں خانہ خدا ہے اور ہر سال مسلمان فریضہ حج کی ادائگی کے لیے وہاں آتے ہیں یہ اسلام کا رکن شمار کیاجاتا ہے اور مسلمان خانہ خدا کے طواف، مشعر میں وقوف،  صفا و مروہ کی سعی، عرفات میں قیام، کی نے انتہا آرزو رکھتے ہیں کہ کم از کم عمر میں ایک مرتبہ اس کی زیارت کرسکیں۔

مدینہ منورہ جہاں مسجد النبی(ص) ہے اور قبر نبی(ص)  بھی اسی مسجد میں ہے آنحضرت(ص)

کے آثار، مثلا: محراب، آپ کا منبر، اور آپ کی تربت مطہر بھی موجود ہے۔

اسی طرح بقیع بھی مدینہ میں ہے جس میں صحابہ اور آنحضرت(ص) کی بیویوں کی قبریں ہیں اور اہل بیت(ع) کی بھی قبریں ہیں۔ اسکے علاوہ دیگر مقدس مقامات جیسے شہداء کے مقبرے،کوہ احد، اہم مسجدیں جیسے مسجد قبلتین، مسجد قبا بھی مدینہ منورہ میں ہیں۔

وہابیوں نے ان جگہوں پر مادی ومعنوی ہر لحاظ سے قبضہ کر رکھا ہے اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ کبھی ترغیب دے کر اور کبھی دھمکا کر اپنے مذہب کی ترویج کرتے ہیں خصوصا حج کے موسم میں جب دنیا بھر سے لاکھوں حاجی اکٹھا ہوتے ہیں تو مختلف جلسہ اور کانفرنسیں منعقد کرتے ہیں۔ اور وہابیت کے زر خرید افراد جماعتوں، گروہوں، کے درمیان براہ راست وہابیت کی تبلیغ کرتے ہیں اس کے علاوہ تمام طاقتور تبلیغاتی وسائل مثلا ریڈیو، ٹیلی ویژن، ان کی خدمت میں ہیں جو حاجیوں پر اچھا خاصہ اثر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے بحث و مناظرہ گفتتگو سے کنارہ کش ہوکر صرف خداوند عالم کی عبادت کرتے ہیں۔

۳ـتیل کی فروخت کے ذریعہ عظیم سرمایہ آتا ہے اور حج و عمرہ میں بلا وقفہ اقتصادی نفع ہوتا رہتا ہے۔ ان سب سے وہابیت کے ارتقاء میں مدد ہوتی ہے تاکہ وہ ساری دنیا میں پھیل جائیں اور بالخصوص ائمہ جماعت و مساجد کے درمیان کثرت سے پیسہ تقیسم کرتے ہیں تاکہ ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کریں حتی کہ تمام عربی ممالک کے پایہ تختوں میں بے شمار مسجدیں تعمیر کی ہیں جن میں بلا استثناء وہابیت کی تبلیغ ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ مدارس، کالج، یونیورسٹیاں، کثرت سے بنائی گئی ہیں جن میں وہابی مبلغین فارغ التحصیل ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں پھیل جاتے ہیں اور شب و روز لوگوں کو اپنے جدید ہذہب کی طرف دعوت دینے میں لگے رہتے

 ہیں۔

اسی طرح بے شمار پریس اور پبلیکیشن تیار کئے گئے ہیں اور سینکڑوں اخبار، میگزین، ( ہفتہ وار اور ماہوار) جرائد کا پیسہ سے پیٹ بھرتے ہیں،اور ان سے اپنے مذہب کی خدمت لیتے ہیں۔ کروڑوں ڈالرزر خرید قلم کاروں پر خرچ کرتے ہیں تاکہ اپنے مذہب کی حسب منشا تائید اور مخالفین کی تکفیر پر تحریر و تالیف کرائیں۔

اسی طرح کروڑوں جلد قرآن و کتاب جو  ان کے مذہب کی تائید میں ہے۔ بطور ہدیہ تمام دنیا میں تقیسم کرتے ہیں: اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ خلیجی جنگ کے بعد ان کی نسبت لوگوں کی نفرت کے پیش نظر زایئرین خانہ خدا کے درمیان ماہ رمضان میں دودھ اور خرما اور واپسی کے وقت ایئر پورٹ  پر آب زمزم کی بوتلیں بطور ہدیہ دینے لگے ہیں۔ جس پر لکھا ہوتا ہے۔( خادم الحرمین کا ہدیہ) جب کہ پہلے حاجیوں کو جہاز میں آب زمزم لے جانے سے روکتے تھے۔

۴ـبین الاقوامی روابط جو وہابیت کو امریکا سے دوستی کی بنیاد پر حاصل ہیں اس نقطہ کے پیش نظر کہ امریکا تمام عرب ممالک بلکہ روسی بلاک کے ٹوٹنے کے بعد تمام دنیا پر بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطہ رکھتا ہے۔

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ مشرقی وسطی میں امریکی منافع خصوصا ایران میں شہنشاہیت کی تباہی اور اسلامی جمہوریہ کا قیام اور پھر اس منطقہ میں امریکی منافع کو لاحق خطرہ کی مخالفت وہابیت ہی کے ذریعہ ہوتی ہے۔

اہل فہم حضرات سے یہ بات چھپی نہیں ہے کہ وہابیت امریکا کی داہنی آنکھ ہے۔ جیسے اسرائیل بائیں آنکھ ہے۔ لیکن امریکا جو چاہتا ہے وہابیت سے لیتا ہے اور اسرائیل کے حوالہ کردیتا ہے۔ کیونکہ امریکا تخت شہنشاہی کی حفاظت میں بڑی محنت کرتا ہے اور وہابی حکومت کی بقا اور اس کے مخالفین کو کچلنے کے لیے

سی آئی اے کی بڑی قوت صرف کرتا ہے اور اسرائیل کو جو چاہتا ہے دیتا ہے۔

اس لیے کہ اسرائیل امریکا کے صدر جمہوریہ کی کامیابی کا ضامن ہے اور امریکا حتی کہ یورپ میں بھی کامیابی کی ضمانت یہودی ووٹ ہیں۔

یہ ایک دوسری بحث ہے جس کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔ لیکن جو چیز اس وقت ہمارے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ وہابیت کا امریکا سے براہ راست ربط ہے اسی لیے دنیا کے تمام عربی اور اسلامی ممالک میں وہابیت بڑی ہیبت کی مالک ہے، مثلا جن عربی و اسلامی ممالک میں نماز کے بعد مسجدوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں وہ اس لیے ہےکہ انھیں خوف ہوتا ہے کہ تخریب کار وہاں اپنے افکار کو پھیلائیں گے۔ لیکن وہیں وہابیت کی تبلیغ کے لیے مسجدوں کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ جس درجہ چاہیں اپنے افکار کی ترویج و تبلیخ کریں۔

وہابیت کو مشروعیت اس وقت حاصل ہوئی جب اس نے اپنے زیر سایہ ممالک کی بڑی مقدار میں مدد کی اور ان کے اقتصادی پرجیکٹوں کو مکمل کیا۔ پھر یہ فقیر و نیاز مند ممالک وہابیت کی شرائط کو کیوں قبول نہ کریں کہ وہابیت خود تو اپنی نشرو اشاعت کرتی ہے لیکن جو کتابیں، میگزینیں وہابیت کی حقیقت بیانی کرتی ہیں ان کو بند کردیں۔

حتی کہ یہ بات خود فرانس میں جو کہ خود کو طاقتور حکومت سمجھتا ہے عمل میں آئی جب کہ فرانس خود انسانی حقوق و آزادی کا داعی ہے اور سلمان رشدی اور اس کی کتاب کا دفاع کرتا ہے لیکن کتاب ( تاریخ آل سعود) کو منع کرتا ہے۔ اور عمومی کتاب خانوں سے اٹھا لیتا ہے کیوں۔۔۔؟

اس لیے کہ اس کتاب نے وہابیت کو رسوا کر دیا اور جس وقت آپ علت تلاش کریں گے تو کہا جائے گا سعودیہ نے ۱۹۸۴ء میں فرانس کو ایک یقینی

اقتصادی زوال سے نجات دی تھی اور ستر کروڑ یا شاید اس سے زیادہ کی رقم بخش دی تھی۔

اس کے بعد سے صرف پیرس میں سینکروں مسجدیں وجود میں آگئیں۔ جن میں وہابیت کی ترویج ہوتی ہے۔ جبکہ مرکز اہل بیت(ع) کو بند کر دیا گیا اس لیے کہ یہ دہشت گردی اور تخریب کاری کا مرکز ہے! چنانچہ جو بھی مکتب اہل بیت(ع) کی طرف میلان رکھتا ہو فرانسیسی پولیس اس کا تعاقب کرتی ہے۔ لیکن وہابیت اور اس کے پیرو پوری  آزادی کی ساتھ پرورش پارہے ہیں۔

ان کے متعلق یہ مختصر وضاحت بھی لیکن پس پردہ کیا کیا پوشیدہ ہے؟ اس کے خطرات سے تو بس خدا آگاہ ہے۔لہذا میں پھر تکرار کرتا ہوں کہ مسلمان اب تک وہابیت سے بدتر کسی اور مصیبت سے دو چار نہیں ہوئے۔

خوارج اور وہابیت میں اتحاد

خوارج ( حاکمیت صرف کے لیے ہے) کے ذریعہ شبہ پیدا کرتے تھے اور اس وقت وہابیت ( عبادت صرف خدا کے لیے ہے) کے ذریعہ شبہ پیدا کر رہی ہے۔البتہ یہ دونوں دعوتیں اگر بدوں قرینہ اور بغیر کسی تعلق کے ہوں تو اس میں کسی اعتراض کی گنجائش نہیں ہےلیکن اس کو ایک سیاسی شبہ یا دوسروں کے عقائد کی مخالفت کے لیے استعمال کرتے ہیں لہذا یہ ایک جعلی اور باطل دعوت ہو جاتی ہے چاہے اس نے حق کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔

خوارج کی دعوت روز اول ہی دفن کردی گئی اس لیے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) نے اس کو رسوا کردیا اور ان کے جھوٹ کی حقیقت کو عیاں کر دیا۔

اور پھر امام(ع) اپنی پوری قوت کے ساتھ تیار ہوئے اور ان سے ایسی جنگ کی جس کی مثال پہلے نظر نہیں آتی، اپنے بھائی اور چچا کے بیٹے حضرت رسول خدا(ص) کی وصیت پر عمل کیا اور خوارج کو ان کی دعوت کے ساتھ قیامت تک کے لیے واصل جہنم کر دیا۔

لیکن افسوس کہ وہابیت کی دعوت کو قوت حاصل ہوگئی اور اس نے ہر جگہ پھیل کر جڑ پکڑلی۔ اس لیے کہ شروع میں اسے انگلینڈ، امریکا، اور یورپ کی حمایت حاصل تھی اور اس کی وجہ ملت کے سیاسی تجزیہ نگار اور روشن خیال افراد جانتےہیں۔ خاص کر اس وقت جب یورپ عموما اور امریکا خصوصا اسلام سے جنگ میں مصروف ہے اور اسلام کو اپنے مصالح اور منافع کے لیے واحد خطرہ محسوس کرتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے رکھا ہے اور متحد ہوگئے ہیں تاکہ اسی طرح وہ بے وقفہ اس کوشش میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ جنگ کریں اور اس کو پوری قوت اور ہر طرح کے پروپگنڈہ کے وسائل کے ذریعہ نیست ونابود کر ڈالیں۔

حتیٰ کہ ان کے بعض سربراہوں نے تاکید کی ہے کہ تمام خطرناک ہتھیارو اسلحے قوت کے مظہر صدام کے ہاتھوں میں دے دیں کہ اسلامی ایران کو نابود کر ڈالے، لیکن جس وقت ان کا نقشہ ناکام ہوگیا اور خود عراقی مجاہدین عراق کے اندر اور باہر قوی ہوگئے، انہیں فکر ہوئی کہ عراقی (جس میں دو تہائی سے زیادہ شیعہ ہیں) میں بھی امام خمینی(رح) کا تجربہ کہیں دہرانہ جائے اور ایرانی انقلاب کے ساتھ عراقی انقلاب متحد نہ ہوجائے اور یہی وہ مقام تھا جہاں انھوں نے یہ گھناؤنا کھیل کھیلا۔ چنانچہ کویت کے قبضہ اور جنگ خلیج فارس کا ڈرامہ رچایا گیا اور اس کا مقصد صدام کی نابودی نہ تھا جیسا کہ وہ مدعی ہیں بلکہ ان کا مقصد عراقی عوام کی نابودی تھا جو کہ ستر(۷۰) فی صد شیعہ ہیں اور ہوا بھی یہی کیوں کہ کویت کی حالت پہلے سے بہتر ہوگئی اور صدامی حکومت پہلے کی بہ نسبت اور قوی ہوگئی۔ لیکن عراقی مظلوم عوام کی زندگی ایسی تباہ ہوئی کہ وہ ایک ٹکڑے روٹی کےلیے اثاثہ زندگی حتی کہ اپنا لباس تک بیچنے کے لیے تیار ہیں۔

اور یہی وہ مقام تھا جہاں وہابیت نے شیعوں پر غلبہ حاصل کیا خصوصا اس وقت جب سعودی کیمپوں میں شیعوں کو نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ جگہ دی گئی۔ تاکہ مسلسل ٹارچر، اذیت ، آزار اور اہانت کر مزہ چکھتے رہیں۔

پرورگار عالم کا قول ملاحظہ ہو:

تم سے یہود و نصاری راضی نہ ہوں گے مگر یہ کہ تم ان کی پیروی کرو اور ان کے تابع بن جاؤ۔(بقرہ/۱۲۰)

اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہودی و عیسائی جن کی اکثریت امریکا اور

 یورپی ممالک میں ہے، وہ وہابیت سے محبت اور اظہار دوستی کرتے ہیں اور وہابیت سے راضی ہیں کیوں کہ وہابیت نے بھی ان سے اپنی دوستی ثابت کردی ہے۔ لیکن یہ یہودی و عیسائی عراق، لبنان، ایران حتی کہ ایران کے شیعوں پر برافروختہ ہیں اور انہوں نے تمام پروپگنڈہ کرنے والے اداروں کو شیعوں کو برا دکھانے، ان کی توہین کرنے اور ان پر قدامت پرستی، شدت پسندی اور تعصب۔۔۔۔۔و ۔۔۔۔ و۔۔۔ جیسی تہمتیں لگانے کے لیے خرید رکھا ہے۔

اور یہ سارے تبلیغاتی وسائل جو وہابیت کی جانب سے خوراک پاتے ہیں مسلمانوں سے شیعوں کو متنفر کرنے، ان کے درمیان عقائد میں شکوک و اختلاف پیدا کرنے اور بعض منفی رفتار جو کچھ جاہل و نادان عوام کے ذریعہ خاص مراسم میں سامنے آتی ہیں ان کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح بزرگ مراجع پر کھلم کھلا طعن کرنے اور ان کی عدالت میں شبہ پیدا کرنے کے ساتھ یہ تہمت کہ ” مراجع اموال مسلمین کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں تاکہ ان کی اولادیں احمقوں کی طرح اڑائیں“ لگانے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ اسی طرح بعض شیعہ تنظیموں کو خریدنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ جو گمراہی اور راستہ بھٹک جانے کا علم بلند کریں۔

خدا کی قسم ایسا زمانہ نہیں گزرا جو شیعوں کے لیے اس سے زیادہ خطرناک ہو اور مخلص و دل سوز شیعوں کو چاہئے کہ امور کو گہری نگاہ سے دیکھیں اس لیے کہ یقینی خطرہ در پیش ہے البتہ ان کا صبر و اخلاص، خیر و نیکی کا سبب ہے۔ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

خدا اور اس کے رسول(ص) کی اطاعت کرو اور اختلاف و تنازع نہ کرو کہ ( اختلاف کی وجہ سے ) کمزور ہوجاؤ گے اور تمہاری ہمت اکھڑ جائے گی اور اسی طرح صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔(انفال/۴6)

جیسا کہ گزر چکا ہے کہ خوارج نے ” حاکمیت صرف خدا کے لیے ہے“ کی بنیاد پر شبہ پیدا کیا تھا اور وہابیت مقولہ ” بندگی صرف خدا کے لیے ہے“ پر قائم ہے۔ گرچہ یہ دونوں مقولے ایک دوسرے سے کافی مشابہ ہیں لیکن مقولہ وہابیت، مقولہ خوارج سے کہیں زیادہ قوی ہے۔

حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے پہلے حضرات عمر و ابوبکر نے حکومت کی تھی اور ان قوانین کے ساتھ حکومت کی جو مجموعا نصوص قرآن و سنت کے مخالف تھے لیکن کسی نے ان کی مخالفت نہ کی یا کم از کم تاریخ نے کسی قابل ذکر مخالفت کا ذکر نہیں کیا لوگوں نے بھی خلفاء کے قوانین کو قبول کرلیا اور ان کی عادت ڈالی اور اس کو خداوند عالم کا حکم سمجھنے لگے اور ان سے جس درجہ ممکن ہو اس کی عجیب و غریب تاویل بھی کر ڈالی اس لحاظ سے خوارج نے مسلمانوں کے دلوں پر کوئی خاص اثر ںہیں ڈالا کیوں کہ وہ سقیفہ بنی ساعدہ کی تھیوری کے قائل تھے۔ جو عوام کو حاکم کے انتخاب میں آزاد قرار دیتی ہے اور خدا کے انتخاب پر کوئی ایمان نہیں رکھتی۔

اور پھر سقیفہ بنی ساعدہ کی تائید میں آیتیں بھی بیان کرتے جن کو آیات شوری کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ آیت ملاحظہ ہو

أَطِيعُواْ اللَّهَ وَ أَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَ أُوْلىِ الْأَمْرِ مِنكمُ‏ْ)(نساء/۵۹)

سے خدا، رسول اور اولی الامر بشر کے ہاتھوں منتخب حاکم کی اطاعت کو واجب سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعہ استدلال پیش کرتے ہیں ۔ اور بھی بہت  سی حدیثیں نبی(ص) کی  زبانی نقل کرتے ہیں جو حاکم کی اطاعت کے وجوب کو ثابت کرتی ہیں۔

لہذا مقولہ خوارج اور ان کی جانب سے پیدا کیا جانےوالا شبہ اگر خود حضرت امیر(ع) اسے رسوا نہ کرتے تو بھی مسلمانوں کے نظریہ کے لحاظ سے فنا ہو جاتا

 چونکہ یہ مقولہ ان کے لیے نیا تھا اور ان کی حکومت کےمفہوم کےساتھ سازگار نہ تھا لہذا اس کی تائید نہ ہوئی خصوصا حکومت کی ہوس رکھنے والے امویوں اور عباسیوں کی طرف سے بھی جن کی تعداد اچھی خاصی ہے۔

لیکن وہابیت کا شبہ جو مقولہ ” بندگی صرف خدا کے لیے“ ہے کون مسلمان ہے جو اس کو قبول نہیں کرتا یا اس کے وجوب کا معتقد نہ ہو گویا وہابیت ہمیشہ اس آیت کو ورد کرتی ہے۔

اور انھیں کوئی حکم نہیں دیا گیا سوائے پروردگار کی عبادت کے خلوص کے ساتھ اس کو پکاریں اور اس کے دین پر ایمان لائیں نماز پابندی سے ادا کریں، زکواة نکالیں اور سچ اور پائیدار دین یہی ہے۔( بینہ/۵)

وہابیت نے کوتاہ فکری کے زمانہ میں بعض جاہلوں کی عادات واطوار کو اپنا نشانہ بنایا اس زمانہ میں شعبدہ بازی وحیلہ گری زیادہ ہوگئی اور یہ دھوکہ باز استعمار سے خوراک پاتے تھے لہذا وہابیوں نے اس کو مسلمانوں کی تکفیر اور ان کو مشرک قرار دینے کے لیے قطعی دلیل قرار دیا اور ان کے قتل کو مباح جانا اور مسلسل خونریز جنگوں کے ذریعہ مقامات امن ( مکہ و مدینہ) پر مسلط ہوگئے۔

جن دلیلوں پر وہابیت تکیہ کرتی ہے اگر ہم ان پر ایک نظر ڈالیں مثلا خدا کا یہ قول جس میں فرماتا ہے:

مسجدیں خدا کے لیے ہیں لہذا خدا کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ ( سورہ جن/۱۸)

تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان کی اس گفتار میں خوارج سے شباہت موجود ہے جو کہتے تھے کہ حاکمیت صرف خدا کے لیے ہے اور خدا فرماتاہے۔

ان کا سوائے خدا کے کوئی یارو مددگار نہیں اور کوئی بھی اس کے حکم میں شریک نہیں۔ (کہف/۲6)

مذکورہ آیت حکم میں کسی اور کی شرکت کی نفی کرتی ہے لیکن اس کے

بر خلاف بے شمار دوسری آیتیں موجود ہیں جن میں انسان کو حاکمیت کا حق بخش دیا ہے۔ ان میں سے بعض کا تذکرہ اور پھر ان کی تفسیر ہم نے پیش کی کہ ان آیات کے درمیان کوئی تناقض نہیں ہے اس لیے تشریعی حاکمیت خدا کے لیے ہے اور کوئی بھی اس میں شریک نہیں ہوسکتا۔ چاہے پیغمبر ہی  کیوں نہ ہو۔

خداوند عالم اس کے متعلق فرماتا ہے:

اور اگر وہ (پیغمبر) ہماری بہ نسبت کوئی جھوٹ بات کہتے تو ہم ان کی گردن اڑا دیتے اور تم میں سے ہمیں کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ (حاقہ/۴۴،۴۷)

لیکن اجرائے حاکمیت کو خداوند عالم نے ان انبیاء وائمہ کے لیے قرار دیا ہے۔جب کو خود اس نے منتخبکیا ہے اور اس تفسیر کے بعد آیتوں کے معنی میں اختلاف نہیں رہتا اسی طرح وہ آیت

”جو خدا کے ہمراہ کسی اور سے متوسل ہونے و روکتی ہے“

کے مقابل ایسی آیتیں موجود ہیں جو انسان کو بارگاہ الہی میں اس کے انبیاء و اولیاء سے توسل کا حق دیتی ہیں۔

لیکن ان دونوں آیتوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ پہلی آیت میں موجود بندگی و عبادت ہے جو خدا کےسوا اور کسی کے لیے جائز نہیں ہے لیکن دوسری آیتیں بیان کرتی ہیں کہ خداوند عالم نے اپنے انبیاء واولیاء کو وسیلہ قرار دیاہے۔

وہابیت اور وہابیت سے متاثر تمام مسلمانوں کے لیے اس مشکل مسئلہ کی وضاحت کی خاطر بہتر ہوگا اس گفتگو کو ملاحظہ فرمائیں جو میرے اور ایک وہابی کے درمیان ہوئی یقینا آپ سب کے لیے مفید ہوگی جسے میں بغیر کسی کمی زیادتی کے پیش کر رہا ہوں۔

۱۹۷۳ء کی بات ہے  میں اسلام میں عورتوں کے حقوق کے عنوان سے

 ایک مقالہ لکھنے میں مصروف تھا۔ اسی دوران بعض رسالوں کے مطالعہ کے درمیان مجھے پتہ چلا کہ جزائز (کومور) میں مسلمان عورت مرد پر برتری رکھتی ہے۔ (یعنی عورت راج، شاہی ہے) عورت ہی گھر بناتی ہے اس کے تمام وسائل مہیا کرتی ہے اور شادی کے بعد مرد کو رخصت کر کے اپنے گھر لاتی ہے اور اگر چاہے تو خود مرد کو طلاق دیتی ہے اور اپنے گھر سے باہر نکال دیتی ہے۔ یہاں تک کہ بازار میں بھی عورت کام کرتی ہے لیکن شوہر کا کام صرف دریاسے مچھلی شکار کرنا، کھیتوں میں کام کرنا، یا پھر اشیاء لا کے عورت کے حوالہ کرنے تک ہے تاکہ عورت اسے درست کر کے خرید و فروخت انجام دے۔ خلاصہ مرد راج، شاہی کے بجائے عورت راج، شاہی ہے۔

چنانچہ میں ایک پر مشقت سفر کر کے اس دیار میں پہنچا مجھے پتہ تھا کہ فرانس نے تین جزیروں کے خود مختار ہونے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ لیکن ایک جزیرہ کو روک رکھا ہے جزائر(کومور) عرب ممالک تنظیم کے رکن ہیں اور اس تنظیم کے تعاون سے بہرہ مند ہیں جس نے تیونس اور دوسرے ملکوں کے اساتذہ کی ایک تعلیمی کمیٹی بھیجی ہے۔ جو ان بچوں کو عربی سکھائے جو زیادہ تر عرب اور یمنی الاصل ہیں اور انھیں حضارمہ کہتے ہیں ان کے درمیان پیغمبر کی نسل سے سادات موجود ہیں۔ جو فرانسیسی  اور مقامی زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی گفتگو کرتے ہیں اور سوائے شافعی مذہب کے اور کسی مذہب کو نہیں جانتے۔

ایئرپورٹ پر میری ملاقات ایک تیونسی استاد سے ہوئی جس سے میں بیس سال پہلے جوانوں کے ایک مرکز میں آشنا ہوا تھا۔ اسے میں پہچان گیا اور اس نے بھی مجھے پہچان لیا۔ اس نے اپنے گھر آنے کے لیے مجھے دعوت دی۔ اس کی بیوی بچے تیونس گئے ہوئے تھے اور وہ خود تنہا تھا میں نے بھی قبول کرلیا اور اس کے گھر چلا گیا۔

اس قیام کے درمیان میں قاضی القضات اور جناب مفتی صاحب سے آشنا ہوا اور ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر گفتگو کی ان لوگوں نے بھی مجھ جپر اعتماد کیا چونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ میں اہل بیت(ع) کا پیرو ہوں اس لیے میرے دوست بن گئے۔ اور وہابی علماء کی شکایت  کرنےلگے جو بڑی کثرت سے پیسہ اورکتاب لے کر آتے ہیں اور بہت سے جوانوں کو اپنی صف میں شامل کر لیا ہے اور کہنے لگے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو اولادیں کل تک والدین کا احترام کرتی تھیں اور ان کے ہاتھ اور پیشانی کا بوسہ دیتی تھیں اب وہ ان پر برافروختہ ہوگئی ہیں اور یہادب جو کئی نسلوں سے انھیں ورثہ میں ملا تھا ترک کر بیٹھے ہیں۔ جب کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا ہے:

جو بچوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے اور علماء کے حق کو نہ پہچانے وہ مجھ سے نہیں ہے۔

                                                          (مسند احمد، ج ۲، ص۲۰۷، المجم الکبیر، ج۱۱، ص۴۴۹)

اور عرب شاعر نے کہا ہے:

معلم کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اسکے احترام کا خیال رکھو اس لیے کہ معلم کا مقام پیغمبر کے مرتبہ سے قریب ہے۔

لیکن وہابی علماء علماے شر ہیں جس وقت ( وہابی) ہمارے پاس آئے تو ان کا ہدف یہ تھا کہ تمام اچھی عادتوں اور نیک آداب ( کہ جن کی ہم نے تربیت  پائی ہے) سے جنگ کریں گذشتہ وقتوں میں جب کوئی شخص شادی کرتا تھا اور صاحب فرزند ہوتا تھا تو اپنے باپ کے سرو صورت کا بوسہ دیتا تھا اور اس سے اپنے فرزند کے یے دعا کی درخواست کرتا تھا اور اس کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا تھا۔

لیکن آج ہماری اولادیں ہم سے لڑتی ہیں اور ہم پر شرک کی تہمت لگاتی ہیںاس لیے کہ کسی کا بھی ہاتھ چومنا اور خم ہوکر احترام کرنے کا مطلب غیر خدا

کے سامنے سجدہ کرنا ہے اور یہ شرک محض اور حرام ہے۔ خلاصہ جب سے یہ آئے ہیں باپ بیٹے کے درمیان نفرت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

            (لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم)

اس ملک کے ایک مفتی نے کہا کہ میں جزیرہ ( مورونی) میں ایک جدید مسجد کا افتتاح  کرنے جارہا ہوں آپ بھی چلیے۔ میں اور قاضی القضات جن کا نام عبدالقادر گیلانی تھا مفتی صاحب کے وہاں گئے۔ جس وقت مہمانوں سے بھری مسجد میں پہنچے تو مفتی نے ہمارا لوگوں سے تعارف کرایا اور کہا کہ اس مناسبت سے کوئی گفتگو کیجیے میں نے قبول کیا اور عزت افزائی کا شکریہ ادا کیا۔

اپنی تقریر میں اہل بیت(ع) سے محبت مودت خدا کے نزدیک ان کا عظیم مقامج، ان کے متعلق رسول(ص) کی گفتار کہ ان کی دوستی ایمان ہے اور ان سے دشمنی نفاق ہے پر تکیہ کرتے ہوئے ان کے دیگر فضائل و مناقب لوگوں کے لیے بیان کئے ان ذوات نے اسلام و مسلمین کے لیے جو عظیم خدمت کی ہے کے متعلق گفتگو کی اور اپنی تقریر کے اختتام پر اہل بیت(ع) کے علم و دانش کے متعلق گفتگو کی کہ اس کائنات میں مشرق و مغرب کے تمام علماے اسلام نے ان ( اہل بیت(ع)) سے استفادہ کیا ہے اور اگر یہ اہل بیت(ع) نہ ہوتے تو ہرگز عوام اپنے دینی مسائل کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔

جناب مفتی صاحب نے علماء میں سے ایک صاحب کو اپنے پاس بلایا جو میری باتوں کو ان کے لیے ترجمہ کررہے تھے پروگرام کے اختتام پر لوگ میرے پاس آئے اور مجھے چومنے لگے وہ میرے لیے سلامتی اور میرے والدین کے لیے رحمت کی دعا کررہے تھے۔

علمائے وہابیت میں سے ایک جو اپنی سلفی داڑھی اور سعودی لباس سے

نمایاں تھا۔ میرے پاس آیا اور کہنے لگا: اے شیخ خدا سے خوف کھا ہم بھی اہل بیت(ع) کو دوست رکھتے ہیں لیکن تو نےان کی محبت اور بزرگی بیان کرنے میں غلو کیا ہے اور افراط سے کام لیا ہے۔

میں نے کہا : میں خدا سے چاہتا ہوں کہ مجھے اسی محبت پر دنیا سے اٹھائے۔

 اس نے کہا: آپ ہمارے مہمان ہیں۔

اس سے نجات پانے کے لیے میں نے کہا: میں مفتی صاحب کا مہمان ہوں۔

اس نے کہا: کل ملاقات ہوگی۔

میں نے کہا : کل تونسی اساتذہ کے یہاں مہمان ہوں۔

اس نے کہا : وہ سب ہمارے دوست ہیں اور وہیں ایک دوسرے سے ملاقات کریں گے۔

وہابی عالم سے گفتگو

میرے تونسی دوست نےمجھے بتایا کہ اس کا سعودی دوست (یعنی وہی وہابی) کل آئے گا اور آپ سے علمی بحث و گفتگو کرے گا۔ اسی لیے میں نے اساتذہ کے ایک گروہ کو دعوت دی ہے کہ اس بحث میں شرکت کریں اور سبھی مستفید ہوں۔ ما حضر کا بھی انتظام کیاہے چونکہ یہ چھٹی کا دن ہے اور ایسی مجلس کے ہم بہت زیادہ مشتاق ہیں۔

اس نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں آپاسپرغلبہ پائیں اور ہمیں سر بلند کریں اس لیے کہ وہ کسی کو مجال سخن نہیں دیتا مقررہ وقت پر سارے اساتذہ اس وہابی عالم کے ساتھ گھر پر تشریف لائے وہ سات آدمی تھے اور صاحب خانہ اور مجھے ملا کر نو(۹) آدمی ہوگئے تھے۔

کھا کھانے کے بعد بحث شروع ہوئی۔ موضوع بحث خدا اور بندہ کے بیچ وساطت اور توسل تھا۔ میں قائل تھا کہ خدا تک رسائی میں اس کے انبیاء اولیاء اور اس کے صالح بندوں کی وساطت و وسیلہ صحیح ہے اور ممکن ہےکہ بہت سے گناہ اور دنیاوی مشغولیتیں انسان کی دعا کو اوپر نہ جانے دیں۔ پس ان کو جو اولیاء خدا اور اس کے دوست ہیں شفیع اور وسیلہ بنانے سے انسان کی دعا مستجاب ہوجائے گی۔

اس نے کہا : یہ شرک ہے اور خدا ہرگز اس کو نہیں بخشے گا جو اس کے لیے شریک قرار دے۔

میں نے کہا: یہ بات شرک ہے تو اس پر آپ کی دلیل کیا ہے؟

اس نے کہا : خداوندعالم فرماتا ہے:

بے شک مسجدیں خدا کے لیے ہیں پس کسی اور کو اس کے ساتھ دعا میں شامل نہ کرو۔(جن/۱۸)

یہ آیت غیر خدا سے دعا کرنے پر صراحت رکھتی ہے۔ اور جو بھی غیر خدا سے دعا کرے اس نے اسے خدا کا شریک بنایا کہ وہ نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جب کہ نفع یا نقصان پہنچانے والا صرف پروردگار ہے۔

حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کی بات کی تعریف کی اور اس کی تائید کرنا چاہی۔ لیکن صاحب خانہ نے اس کہا چپ رہو! میں نے تم لوگوں کو جدال و مقابلہ کےلیے دعوت نہیں دی ہے۔ بلکہ اس لیے بلایا ہے کہ ان دو دانشوروں کی باتوں کو سنو۔ اسی تیونسی (مجھ) کو ایک مدت سے پہچانتا ہوں۔ لیکن مجھے بھی اچانک پتہ چلا کہ وہ شیعہ اور اہل بیت(ع) کا پیرو ہے اور اس سعودی دوست کو بھی سب پہچانتے ہیں اور اس کا عقیدہ بھی سب پر واضح ہے۔ لہذا بہتر ہے ان دونوں کی باتوں کو غور سے سنیں اور جب ان کے استدلال تمام ہوجائیں تو دوسروں کےلیے بحث کا میدان کھلا ہوگا۔

اس پیاری روش کا ہم نے شکریہ ادا کیا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: میں آپ سے اس مسئلہ میں متفق ہوں کہ خدا ہی نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی نقصان یا نفع پہنچانے والا نہیں ہے۔ اور مسلمانوں میں اس بابت آپ کا کوئی مخالف نہیں ہے۔ لیکن ہمارا اختلاف توسل سے متعلق ہے۔ مثلا اگر کوئی رسول خدا(ص) کو وسیلہ بناتا ہے تو اسے اچھی طرح علم ہے کہ محمد(ص) خدا سے ہٹ کر، نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، ہاں خدا کے نزدیک ان کی دعا مستجاب ہے۔ پس اگر خدا سے پیغمبر(ص)  عرض کریں کہ پروردگار اپنے اس بندہ پر رحم کر، اس سے در گذر فرما۔ اور بےنیاز کردے۔ تو خدا بھی ان کی دعا کو مستجاب کرتا ہے اور اس باب میں بہت سی صحیح روایتیں موجود ہیں۔ مثلا یہ کہ آپ کا ایک صحابی نابینا

 تھا آپ کے پاس آیا اور آپ سے عرض کی کہ : خدا سے دعا کریں کہ وہ اس کی بینائی واپس کردے۔

رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا:

وضو کرو اور دو رکعت نماز پرھو اور خدا سے دعا کرو،” پروردگار! میں تجھے تیرے حبیب محمد(ص) کا واسطہ دیتا ہوں اور انھیں وسیلہ بنا کر تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری بینائی واپس کردے۔“ (تاریخ کبیر، ج6،ص۲۰۹،ح۲۱۹۲)

پس اس کو بینائی واپس مل گئی۔

اسی طرح ثعلبہ، فقیر و نادار صحابی آںحضرت(ص) کے پاس آیا اور آپ سے درخواست کی کہ خدا سے دعا کریں کہ وہ مجھے بے نیزا کردے اس لیے کہ میں صدقہ اور خیرات دینا اور صالح بننا پسند کرتا ہوں۔ آنحضرت(ص) نے بھی خدا سے دعا کی اور خدا نے دعا مستجاب فرمائی۔ ثعلبہ ثروت مند ہوگیا اور اس کی ثروت اتنی زیادہ ہوگئی کہ اس کے پاس مسجد آنے کےلیے بھی وقت نہ تھا۔اور وہ زکواة بھی  ادا نہیں کرتا تھا۔

(الاصابہ، ج۱، ص۱۹۸)۔

 اس کا قصہ مشہور ہے اور سبھی جانتے ہیں۔

ایک روز آںحضرت(ص) اپنے اصحاب کے درمیان بہشت کی تعریف و توصیف فرمارہےتھے۔ عکاشہ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور عرض کی۔

”اے رسول خدا(ص) دعا کیجئے ، خدا ہمیں ساکنان بہشت میں قرار دے۔“

رسول خدا(ص) نے فرمایا :

” پروردگار! اسے ان میں سے قرار دے۔“

ایک دوسرے صاحب اٹھے اور انھوں نے بھی یہی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا :

عکاشہ نے تم پر سبقت لی (مسند احمد، ج ۱، ص۴۵۴)

ان تینوں روایتوں میں واضح دلیل موجود ہے کہ آںحضرت(ص) نے خود کو خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ قرار دیا۔

میں قرآن سے استدلال کررہا ہوں، اور یہ ہمارے لیے حدیث پڑھ رہے ہیں! ضعیف حدیثیں جن کی کوئی اہمیت نہیں!

میں نے کہا : قرآن کریم فرماتا ہے:

اے مومنو! تقوی الہی اختیار کرو۔ اور خدا سے تقرب کےلیے وسیلہ تلاش کرو۔(مائدہ/۳۵)

اس نے کہا: وسیلہ وہی عمل صالح ہے۔

میں نے کہا : عمل صالح سے متعلق محکم آیتیں زیادہ ہیں اور ان میں خداوند عالم فرماتاہے:

« الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ »

وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح بجا لائے۔( بقرہ، ۲۵)

لیکن اس آیت  میں فرماتا ہے:

« وَ ابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ»اس کے  تقرب کے لیے وسیلہ ڈھونڈ لو۔

اور دوسری آیت میں فرماتا ہے:

« يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلى‏ رَبِّهِمُ الْوَسيلَةَ » وہ خود اپنے پروردگار تک رسائی کے لیے وسیلہ کی تلاش میں ہیں۔(بنی اسرائیل/۵۷)

ان آیات سے پتی چلتا ہے ک خدا تک رسائی کے لیے وسیلہ پر بحث تقوی اور عمل صالح کے ہمراہ ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ وہ فرماتا ہے:

«   يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ »پس ایمان و تقوی کو وسیلہ پر تقدم حاصل ہے۔ ( مائدہ/۳۵)

اس نے کہا : اکثر علماء نے وسیلہ کو عمل صالح سے تفسیر کیا ہے۔

میں نے کہا : علماء کے سخن اور ان کی تفسیر سے دست بردار ہوجائیے اور یہ بتائیے کہ اگر قرآن کے ذریعہ وسیلہ کو آپ کے لیے ثابت کردیا تو کیا قبول کریں گے؟

اس نے کہا: محال ہے مگر کوئی دوسرا قرآن ہوکہ جس سے ہم بے خبر ہیں۔

میں نے کہا: میں آپ کے اشارہ کو پوری طرح سمجھ رہا ہوں۔ خدا آپ کو  معاف کرے۔ اور میں آپ کے لیے اسی قرآن سے ثابت کروں گا کہ جسے ہم سبھی جانتے ہیں۔ پھر میں نے آیت کی تلاوت کی :

(یعقوب کے فرزندوں نے ) کہا: اے ہمارے بابا جان ! آپ اپنے رب سے ہمارے گناہوں کے لیے مغفرت کی دعا کیجئیے ہم غلطی پر تھے۔

(حضرت یعقوب نے) کہا: میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے مغفرت طلب کروں گا وہ تو بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔ (یوسف/۹۷ـ۹۸)

حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں سے یہ کیوں نہیں کہا کہ تم لوگ خود خدا سے طلب مغفرت کرو اور مجھے اپنے اور اپنے خالق کے درمیان واسطہ نہ بناؤ۔ بلکہ اس کے برعکس اس واسطہ کی تائید کی اور فرمایا : میں اپنے پروردگار سے تمہارے لیے مغفرت طلب کروں گا اور خود کو اپنے بیٹوں اور خدا کے درمیان وسیلہ قرار دیا۔

وہابی عالم بری طرح گھبرا گیا چونکہ اسے معلوم تھا کہ ان آیات میں ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اور وہ اس کی تاویل نہیں کرسکتا۔ تو کہنے لگا ہمیں یعقوب(ع) سے کیا واسطہ وہ بنی اسرائیل کے نبی تھےاور ان کی شریعت اسلام کے آنے کے بعد تمام ہوگئی۔

میں نے کہا: کیا میں شریعت اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمد بن عبداللہ

صلی اللہ علیہ و آلہ سے دلیل لاؤں؟

اس نے کہا: ہم سننے کو تیار ہیں۔ میں قرآن کی تلاوت کی :

« وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللَّهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا» (نساء/6۴)

اور (اے رسول(ص) ) جب لوگوں نے نافرمانی کر کے اپنی جانوں پر ظلم (گناہ ) کیا اور اس کےعد انہوں نے توبہ کی اور خدا سے معافی مانگی اور اے رسول(ص) تم سے بھی درخواست کی کہ ان کے گناہوں کی بخشش کےلیے خدا سے دعا کرو تو بلاشبہ وہ لوگ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔

خداوند عالم انھیں یہ حکم کیوں دے رہا ہے کہ رسول خدا(ص) کے پاس آئیں اور آںحضرت(ص)  کے حضور میں استغفار کریں۔ اور پھر آںحضرت(ص)  ان کے لیے طلب مغفرت کریں؟ یہ واضح دلیل ہے کہ آںحضرت(ص)  ان کے اور خدا کے درمیان وسیلہ ہیں اور خداوند عالم انھیں معاف نہ کریگا مگر صرف آنحضرت(ص) کے وسیلہ سے۔

حاضرین نے کہا اس سے بڑھ کر کوئی دلیل نہیں ہے۔

وہابی جو کہ بری طرح گھبرایا ہوا تھا اور اپنی شکست کو قطعی سمجھ رہا تھا کہنے لگا: یہ بات صحیح ہے لیکن اس وقت آںحضرت(ص)  زندہ تھے مگر اب تو ان کو مرے ہوئے چودہ صدیاں بیت چکی ہیں!!

میں نے حیرت سے کہا: آپ کیسے کہتے ہیں وہ مردہ ہیں؟ رسول خدا(ص) زندہ ہیں اور ہرگز نہیں مرسکتے۔

میری بات پر وہ ہنسا اور مذاق اڑانے کے انداز میں کہنے لگا۔ قرآن نے یہی کہا ہے:

تم مرجاؤ گے اور وہ بھی مرجائیں گے۔( زمر/۳۰)

میں نے کہا : قرآن یہ بھی تو کہتاہے:

جو راہ خدا میں قتل ہوتے ہیں انھیں مردہ مت سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس سے رزق پاتے ہیں۔( آل عمران/۱6۹)

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے:

جو راہ خدا میں قتل ہوتے ہیں انھیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے۔ ( بقرہ/ ۱۵۴)

کہنے لگا : یہ آیات ان شہدا کے بارے میں ہے جو راہ خدا میں قتل ہوتے ہیں اس کا محمد(ص) سے کیا ربط؟!

میں نےکہا: «سبحانالله ولا حول ولاقوة الا بالله »

آپ پیغمبر(ص) جو کہ حبیب خدا ہیں ان کے مرتبہ کو شہدا سے بھی کم سجمھتے ہیں؟ اور ان کی منزلت کو اس طرح کم کرتے ہیں؟ شاید آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ احمد بن حنبل تو شہید مرے اور زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے پاس روزی پارہے ہیں لیکن محمد(ص)  دوسرے مردوں کی طرح ہیں؟!

اس نےکہا: یہ وہی چیز ہے جسے قرآن بیان فرماتاہے۔

میں نے کہا: خدا کا شکر کہ اس نے آپ لوگوں کی اصلیت ہم پر واضح کردی اور خود آپ کی زبان سے آپ کی حقیقت سے ہم آشنا ہوئے۔ ہاں آپ لوگوں نے پوری کوشش کی کہ رسول خدا(ص) کے آثار کو مٹا ڈالیں یہاں تک کہ ان کی قبر کو بھی مٹانا چاہتے تھے اور جس گھر میں آںحضرت(ص) پیدا ہوئے تھے اسے بھی مسمار کردیا۔

اتنے میں صاحب خانہ نے مداخلت کی اور مجھ سے کہا: مہربانی کر کے قرآن و سنت کے دائرہ سے باہر نہ ہوئیے اور ہمارے درمیان طے بھی یہی تھا۔

میں نے معذرت چاہی اور کہا: اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے حیات پیغمبر(ص) کے وقت ان کے وسیلہ کا اقرار کرلیا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد منکر ہیں۔ حاضرین نے کہا تو آپ حیات پیغمبر(ص) کے وقت وسیلہ کے جواز کےمعترف ہیں؟

اس نے کہا: ہاں۔ آںحضرت(ص) کی حیات کے زمانہ میں جائز تھی۔ لیکن وفات کے بعد نہیں۔

ہم نےکہا: الحمد اللہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہابیت نے وسیلہ کا اعتراف کیا ہے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

میں نے کہا: اجازت دیجئے تو اب میں یہ بھی کہتا ہوں کہ وفات پیغمبر(ص) کے بعد بھی وسیلہ جائز ہے۔

وہابی نےکہا: قرآن سے دلیل پیش کرو۔

میں نے کہا: آپ تو محال کی فرمایش کررہے ہیں۔ اس لیے کہ وفات پیغمبر(ص) کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ لہذا احادیث کی کتابوں سے استدلال پیش کروں گا۔

اس نے کہا : ہم حدیث قبول نہیں کرتے۔ مگر یہ کہ صحیح ہو اور جو کچھ شیعہ نقل کرتے ہیں اس کی کوئی قیمت نہیں۔

میں نے کہا: کیا آپ صحیح بخاری کو قبول کرتے ہیں؟ وہی کتاب جو آپ کے یہاں قرآن کے بعد سب سے معتبر کتاب ہے۔

وہ تعجب سے کہنے لگا: کیا بخاری وسیلہ کو جائز سمجھتے ہیں؟

ہم نے کہا: ہاں! لیکن افسوس کہ آپ لوگ خود اپنی کتب صحاح نہیں پڑھتے اور خود اپنے نظریوں سے تعصب برتتے ہیں۔ بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے کہ جب بھی قحط پڑتا، حضرت عمر بن خطاب، عباس بن عبدالمطلب کے پاس آتے اور آپ سے طلب باران کے لیے کہتے اور خود بھی کہتے: پروردگارا ہم آںحضرت(ص)

 کے زمانہ میں آںحضرت(ص) کو وسیلہ قرار دے کر تجھ سے طلب کرتے تھے اور تو بھی ہم پر بارش نازل کرتا تھا۔ آج رسول(ص) کے چچا کے وسیلہ بناتا ہوں پس ہم پر بارش نازل کر۔ راوی کہتا ہے کہ پس خدا ان پر بارش نازل کرتا تھا۔

                             (صحیح بخاری، ج۵، ص۲۵، کتاب بدء الخلق۔ باب مناقب جعفر بن ابی طالب)۔

پھر ہم نے کہا: یہ ہیں عمر بن خطاب ! جو کہ آپ کے درمیان سب سے بزرگ و برتر صحابی رسول(ص) ہیں اور ان کے عقیدہ و ایمان کے متعلق کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کرتے اس لیے کہ خود آپ کہتے ہیں:

اگر آںحضرت(ص) کے بعد کوئی پیغمبر ہوتا وہ عمر بن خطاب تھے اور آپ اس وقت دو باتوں کےدرمیان مجبور ہیں کہ کسی ایک کو قبول کریں۔ یا یہ کہ وسیلہ و توسل دین اسلام کا اہم جزو ہے اور حضرت عمر بن خطاب کا رسول اور رسول(ص)  کے چچا سے توسل کرنا صحیح تھا یا پھر یہ کہئے کہ حضرت عمر مشرک ہیں۔ اس لیے کہ عباس بن عبدا لمطلب کو اپن اوسیلہ بنایا جب کہ عبس نہ پیغمبر  ہیں نہ امام حتی کہ اہل بیت(ص) میں بھی داخل نہیں ہیں۔ جن سے خدا نے ہر قسم کی پلیدی و کثافت کو دور کیا  اس کے علاوہ وہ آپ کے یہاں بخاری امام المحدثین  ہیں اور انھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی صحت کا اقرار کیا ہے۔ اور یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ  جب بھی قحط پڑتا تھا وہ حضرت عباس  سے متوسل پس خدا ان پر بارش نازل کرتا تھا۔ یعنی خداوند عالم ان کی دعا کو مستجاب کرتا تھا۔ پس بخاری اور صحابہ میں وہ محدثین جنھوں نے اس روایت کو نقل کیا ہے سبھی اہلسنت والجماعت ہیں یہ سب مشرک  ہیں؟

وہابی نےکہا: اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ تیرے برخلاف دلیل ہے نہ کہ تیرے حق میں۔

میں نے کہا : کس طرح؟

کہنےلگا : اس لیے کہ حضرت عمر نے رسول(ص) سے توسل نہ کیا اس لیے کہ وہ مرچکے تھے بلکہ عباس کو وسیلہ بنایا اور وہ زندہ تھے۔

میں نے کہا: میں عمر بن خطاب کے قول و عمل کے لیے کسی قدر وقیمت کا قائل نہیں ہوں۔ اور ہرگز اسے اپنے لیے دلیل نہیں بناتا لیکن اس روایت کو پیش کیا تاکہ موضوع بحث پر استدالال  کروں۔ البتہ میں پوچھتا ہوں کہ کیوں عمر بن خطاب نے قحط کے زمانے میں علی بن ابی طالب(ع) سے توسل نہ کیا۔ جن کی منزلت رسول(ص) کے نزدیک ایسی تھی جیسی ہارون(ع) کی موسی(ع) کے نزدیک اور مسلمانوں میں کسی نے نہیں کہا کہ عباس بن عبدالمطلب علی(ع) سے افضل ہیں۔ لیکن یہ ایک دوسرا موضوع ہے جس کی بحث کی گنجائش یہاں نہیں ہے۔ صرف اس پر اکتفاء کرتا ہوں کہ آپ کہتے ہیں کہ زندوں سے توسل جائز ہے۔ اور یہی ہمارے لیے بڑی کامیابی ہے خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے ہماری دلیل کو قاطع قرار دیا اور آپ کی دلیل کو باطل کیا اور جب ایسا ہے تو میں آپ لوگوں کے حضور میں توسل کرتا ہوں۔

اس وقت میں بیٹھا تھا فورا اٹھا اور رو بہ قبلہ ہوکر کہنے لگا: پروردگار میں تجھ سے دعا گو ہوں اور تجھ سے تیرے صالح و نیک بندے امام خمینی(رح) کو وسیلہ قرار دے کر قربت چاہتا ہوں۔

اچانک وہابی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور تعجب و غصے کے ساتھ اعوذ باللہ! اعوذ باللہ! کہتا ہوا تیزی سے باہر چلا گیا۔

حاضرین نے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیسا بد بخت آدمی تھا کس درجہ ہم سے بحث کرتا تھا اور ہم پر تنقید کرتا تھا اور ہم خیال کرتے تھے ذی علم آدمی ہے لیکن پتہ چلا کوڑی کا بھی نہیں ہے۔

ان میں سے ایک نے کہا«انالله وانا الیه راجعون»پروردگار! تیری

طرف پلٹا ہوں اور تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور ہم سے کہنے لگا۔ اس کی بات کس درجہ ہم پر اثر کرتی تھی۔ حتی کہ آج بھی میں نے اس کی بات کو پسند کیا تھا کہ توسل خدا کی نسبت شرک ہے اور اگر میں اس جلسہ میں حاضر نہ ہوتا تو اسی گمراہی پر باقی رہتا۔ ( خدا کا شکر)

اے رسول(ص) کہہ دیجئے حق آیا  اور باطل گیا بے شک باطل مٹ جانے والا ہے۔ (اسراء/۸۱)

وہابیت پر رسول خدا(ص) کی رد

اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ قرآن نے خدا اور بندہ کے درمیان وساطت و وسیلہ کا اقرار کیا ہے اور اسے حرام نہیں سمجھا ہے اور نہ ہی رسول خدا(ص) نے اسے ممنوع قرار دیا ہے بلکہ اسے مباح و مستحب سمجھا ہے۔ قرآن نے پیغمبر(ص) کے قول و فعل کو ہمارے لیے حجت او اسوہ قرار دیا ہے تاکہ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس کی پیروی کریں اور ترقی پائیں۔

خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

 اور بے شک عمل رسول(ص) تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ ( احزاب/۲۱)

اس طرح ہم اقوال و افعال رسول خدا(ص) کے ذریعہ استدلال کریں گے ۔ اور اس استدلال میں نہ تو شیعہ کتابوں کی طرف رجوع کریں گے اور نہ ہی کتب اہل سنت کی طرف رجوع کریں گے بلکہ صرف اور صرف صحیح بخاری کی روایتوں پر تکیہ کریں گے تاکہ وہابیت پر رد مضبوط اور قوی ہو۔ جس کے بعد اگر وہ با انصاف ہیں تو بات نہیں کرسکتے۔ ورنہ بلاشبہ ان کی دشمنی اور اندھا تعصب انھیں لوگوں کے درمیان خود ہی رسوا اور خوار کردے گا۔

اب جب کہ ہم کتاب وسنت کےذریعہ توسل کے جواز اور اس کی شرعی حیثیت کو ثابت کرچکے ہیں تو ایک دوسرے مسئلہ پر بحث کرتے ہیں جو وہابیت کی نظر میں بہت ہی برا اور ممنوع ہے۔ اور وہ شفا اور حاجتوں کے پوری ہونے کی غرض سے متبرک چیزوں کو چومنا اور مس کرنا ہے۔

اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حجاج بیت اللہ کو آںحضرت(ص) کی ضریح پ رہاتھ پھیرنے اور بوسہ دینے پر مارا جاتا ہے اور مشرک کا الزام لگایا جاتا ہے۔

موئے مبارک رسول خدا(ص) کا احترام

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحابہ کاعمل وہابیوں کےلیے حجت ہے اس لے کہ وہابی تمام صحابہ کی عدالت کے معتقد ہیںِ بلکہ ان کا دعوی تو یہ ہے کہ وہ صحابہ کے آثار کی پیروی و اتباع کرتے ہیں اور خود کو سلفی کہتے ہیں۔ یعنی وہ سلف صالح کی پیروی کرتے ہں اور تمام صحابہ کو صالح اور نیک سمجھتے ہیں۔

بخاری نے اپنی  صحیح میں مالک بن اسماعیل سے اور انھوں نے اسرائیل سے اور انھوں نے نےعاصم سے اور انھوں نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبیدہ سے کہا: رسول خدا(ص) کے موئے مبارک ہمارے پاس ہیں جو انس سے یا انس کے خاندان کےذریعہ ہم تک پہنچے ہیں،( عبیدہ نے ) کہا:

اگر آںحضرت(ص) کا ایک بال بھی ہمارے پاس ہو تو دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ ( صحیح بخاری، ج ۱،ص۴۵۔ کتاب الوضوء)

اس طرح بخاری نے محمد بن عبدالرحیم سےنقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سعید بن سلیمان نے اور انھوں نے عقاد سے اور انھوں نے ابن عون سے اور انھوں نے ابن سیرین سے اور انھوں نے انس سے نقل کیا ہے کہ (جس وقت رسول خدا(ص)  نے اپنے سر کے بال بنوائے تو ابوطلحہ سب سے پہلے شخص تھے جنھوں نے آںحضرت(ص) کے کچھ بال اٹھالئے)۔ (صحیح بخاری، ج۱، ص۵۴، کتاب الوضوء)

پس اگر انس بن مالک ، رسول خدا(ص) کے صحابی، آںحضرت(ص)  کے موئے مبارک کو اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور اس کو بطور ہدیہ اپنے دوستوں اور رشتہ

داروں کو پیش کرتے ہیں اور اگر وہ صحابی کہتا ہے کہ اگر نبی(ص) کا ایک بال میرے پاس ہوتو میرے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے تو خدا کی قسم یہ اس بات پر ایک واضح دلیل ہے کہ اصحاب رسول(ص) آںحضرت(ص)  کی چیزوں سے برکت حاصل کرتے تھے۔ اور یہ وہابیت کے اوپر رد ہے۔ جو رسول خدا(ص) کے آثار سے برکت حاصل کرنے کی وجہ سے حاجیوں اور خانہ خدا کے زائروں کو کوڑے مارتے ہیں اور ان کی اہانت کرتے ہیں۔

میں نے اپنی کتاب ( پھر میں ہدایت پاگیا) میں اس دلچسپ  واقعہ کو نقل کیا ہے کہ جس وقت ایک شیعہ عالم دین ( علی شرف الدین) نے سعودی بادشاہ کو ایک قرآن ہدیہ میں دیا تو بادشاہ نے قرآن کی جلد کو چوما اور تعظیم کےلیے اپنے چہرہ پر رکھا۔

اس پر شیعہ عالم دین بولے: قرآن کی جلد کو کیوں چومتے ہو اور اسے کیوں بوسہ دیتے ہو؟

بادشاہ نے کہا: کیا آپ نے نہیں کہا کہ اس میں قرآن ہے؟

شیعہ عالم نے کہا: قرآن اس کے اندر ہے اور تم نے تو قرآن کو بوسہ نہیں دیا؟

بادشاہ نےکہا: قرآن کی جلد کو بوسہ دینے سے ہماری مراد وہی قرآن ہے جو جلد کے اندر ہے۔

تو اس شیعہ عالم نے کہا: ہم لوگ جب نبی(ص) کی ضریح کی جالیوں کو بوسہ دیتے ہیں تو ہم جانتے ہیں کہ یہ لوہا ہے اور نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن ہمارا مقصد ان جالیوں کے اندر قبر رسول(ص) ہے۔

بعد وفات آںحضرت(ص) کے آثار کا احترام

میں نے اس موضوع پر اہل سنت کی کتابوں میں بیس سے زیادہ روایتیں دیکھی ہیں۔ جن میں آثار رسول(ص) کو تمام صحابہ اور بالخصوص خلفاء نے متبرک قرار دیا ہے۔ لیکن چونکہ میں ںے وعدہ کیا ہے کہ بخاری کی صرف ایک یا دو روایت پر اکتفا کروں گا۔ اور خود بخاری کے اس کی روایات میں دقت سے کام لیا ہے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں رسول (ص) کی زرہ، آپ کے عصاء آپ کے تلوار، آپ کے گلاس، آپ کی انگوٹھی اور آپ کے بعد خلفا جن چیزوں سے استفادہ کرتے تھے، اسی طرح آنحضرت(ص) کے موئے مبارک، نعلین اور ظروف اور آپ کی وفات کے بعد اصحاب نے آپ کی جن چیزوں کو متبرک قرار دیا ہے، اس ذیل میں پورا ایک باب ان سے مخصوص قرار دیا ہے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں زبیر سے نقل کیا ہے کہ ہم نے روز بدر عبیدہ بن سعید بن عاص سے ملاقات کی۔ اس نے آہنی لباس پہن کر بلاتے تھے۔ اس نے کہا:

میں ابو ذات کرش ہوں میں نے بھی اس پر حملہ کیا اور ہاتھ کی چھڑی جس کے آخر میں تیز لوہا لگا ہوا تھا اس کی آنکھ میں دے ماری اور اسے قتل کر ڈالا۔

ہشام کہتے ہیں:

زبیر کا بیان ہےکہ میں نے اسے اپنے پیروں تلے لاکر دبایا اور پوری

قوت سے اس چھڑی کو باہر کھینچا۔ اسکے دونوں کنارے ٹیڑھے ہوگئے تھے۔ عروہ نے کہا میں نے اسے آںحضرت(ص) سے مانگا، پس آںحضرت(ص) نے اسے دے دیا۔ اور جس وقت آںحضرت(ص) نے وفات فرمائی تو حضرت ابوبکر نے اسے مانگ لیا اورجس وقت حضرت ابوبکر دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت عمر نے طلب کر لیا ان کے مرنےکے بعد حضرت عثمان نے مانگا اور انھیں دے دی گئی۔ لیکن حضرت عثمان کے قتل کے بعد خاندان علی(ع) کے پاس آگئی۔ پھر عبداللہ بن زبیر نے مانگا اور انھیں دے دی گئی اور انھیں کے پاس تھی یہاں تک کہ وہ بھی قتل کردیئے گئے۔

ایک ضروری وضاحت

اس روایت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ خود رسول خدا(ص) نےزبیر کے اس عصا کا احترام کیا جس سے زبیر جنگ میں طاقتور دشمنوں کو قتل کیا کرتے تھے، ابو عبیدہ بن سعید بن عاص، جس نے زرہ پہن رکھی تھی تاکہ تلوار اور نیزہ سے محفوظ رہے اور سوائے آنکھوں کے کوئی حصہ دکھائی نہ دیتا تھا لیکن زبیر نے عصاکے ذریعہ اس کی آنکھ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور پھر پوری قوت لگا کر اسے باہر نکالا۔

سچ یہ تو بڑاعجیب و غریب عصا ہے۔ کہیں عصائے حضرت موسی(ع) کی نسل سے تو نہیں ہے۔ جس کو موسی(ع) نے دریائے نیل پر مارا تھا اور اسی کے مارنے سے بارہ چشمے بھی پھوٹ پڑے تھے۔ سبحان اللہ!

پھر تو تعجب کی  جگہ نہیں کہ پیغمبر(ص) اس کو زبیر سے مانگیں تاکہ اس سے تبرک حاصل کریں یا پھر وہ چاہتے تھے اس احترام کے جواز کو سمجھائیں اور یہی احتمال قوی ہے۔ خصوصا اس وقت جب کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ آںحضرت(ص)  کے بعد تمام خلفاء نے وہ عصا طلب کیا اور ان کی عمر کے آخری لمحہ تک ان کے ساتھ رہا۔ اور بالاخرہ عبداللہ بن زبیر کو واپس مل گیا۔ اور وہ اس کے زیادہ مستحق تھے کیونکہ وہ ان

کے باپ کے میراث شمار ہوتا تھا۔

بہر حال قرآن مجید میں ایسے بہت سے اشارے موجود ہیں جو انبیاء و مرسلین اور ان سے مربوط اشیاء کے احترام سے متعلق ہیں۔

قرآن مجید میں آیا ہے کہ:

موسی(ع) نے سامری سے کہا: تو نے یہ کیسا فتنہ پھیلا دیا؟

سامری نے کہا: میں نے حق کے رسول(حضرت جبرائیل(ع)) کے قدم کے کچھ اثرات دیکھے۔ جسے دوسروں نے نہیں دیکھا لہذا میں نے اسے اٹھا کر گوسالہ میں ڈال دیا اور مجھے اس پر میری نفسانی خواہش نے آمادہ کیا۔ (طہ/۹۵ـ۹6)

جس چیز کو دوسروں نے نہیں دیکھا اور سامری نے دیکھا، شاید اسی وجہ سے اس نے فرشتہ کے قدم کے بچے ہوئے آثار سے معجزہ پیش کر دیا۔ لہذا اس نے جبرائیل کے قدموں کی مٹی اٹھالی اور اس کو گوسالہ میں ڈال کر بنی اسرائیل کو گوسالہ کی عبادت کی طرف پلٹانا چاہا اور اس داستان میں تاکید ہوئی ہے کہ اس کی بعض کرامتوں اور معجزات سے جس کی بنی اسرائیل پیروی کرتے تھے مغرور ہوگئے تھے۔

قرآن مجید میں انبیاء کے آثار سے  تبرک و شفا حاصل کرنے کے مزید اشارے موجود ہیں چنانچہ سورہ یوسف میں ملتا ہے کہ :

حضرت یوسف(ع) نے کہا:

میرا کرتا اپنے ساتھ لے جاؤ اور میرے باپ کے چہرہ پر ڈال دینا تاکہ وہ پھر بینا ہوجائیں اور جس وقت بشیر نے آکر کرتے کو باپ کے چہرہ پر ڈالا تو اچانک والد بزرگوار ( حضرت یعقوب(ع)) کی آنکھوں کی روشنی واپس آگئی۔ اور وہ ان سے کہنے لگے۔ کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اپنے رب کی جانب سے وہ چیز جانتا ہوں جسے تم

نہیں جانتے۔ (یوسف/۹۳ـ۹6)

ان آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت یعقوب(ع) نے اپنی بینائی کھودی تھی اور حضرت یوسف(ع) نے بشیر سے جس طرح اور جو کہا وہی ہوا۔

گرچہ ہم اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت یعقوب(ع) کی بینائی کو خداوند عالم یوسف(ع) کے کرتے  کے بغیر بھی پلٹا سکتا تھا اور وہ معبود اس بات پر قادر تھا کہ حضرت موسی(ع) کے عصا مارے بغیر پتھروں سے چشمہ جاری کر سکتا تھا۔ اور اسی طرح اس بات پر بھی قادر تھا کہ وہ گائے (کہ جس کو ذبح کرنے کا بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا) کے بعض حصوں کو مردہ پر ڈالے  بغیر مردہ کو زندہ کردے۔

لیکن خداوند عالم نے ان تمام کاموں کے لیے وسیلہ قرار دیا تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ خدا کی خلقت کےدرمیان وسیلہ و واسطہ اس کی سنت ہے اور ہرگز شرک نہیں ہےجیسا کہ وہابیت مدعی ہے۔

یہ ہماری کتاب ہے جو تم سے حق کہتی ہے اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو اسے ہم لکھتے ہیں پس جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے ان کو پروردگار عالم اپنی رحمت میں شامل کرلے گا۔ اور یہ واضح کامیابی ہے۔ لیکن جو کافر ہوگئے۔ تو کیا ہماری آیات تمہارے لیے تلاوت نہ کی جاتی تھیں پھرکیوں گناہ کیا؟ اور متکبر ہوگئے( بلاشبہ) تم ظلم کرنے والا گروہ بن گئے۔ ( جاثیہ/ ۳۱ـ۲۹)

پیغمبر(ص) تبرک اور احترام کو جائز سمجھتے ہیں!

بعض منکرین کا یہ کہنا کہ متبرک چیزوں سے برکت حاصل کرنا بدعت ہے اور اس کے موجد بعض اصحاب یا تابعین ہیں۔ اس مقولہ کا فریب نہ کھانا چاہئے۔ اس لیے کہ یا تو وہ حقائق سے نا بلد ہیں یا پھر نئے مذہب وہابیت کی وجہ سے تعصب کرتے ہیں۔

مذہب وہابیت خود بدعت سے اور کیا ہی بڑی بدعت ہے! یہ کیسا مذہب ہے جو ایک جھوٹے اور باطل شبہ کی بنیاد پر مسلمانوں پر شرک کی تہمت لگاتا ہے؟

رسول خدا(ص) نے اپنے اصحاب کو متعدد مقامات پر برکت حاصل کرنے کو جائز قرار دیا ہے اور اس کی موافقت فرمائی ہے بلکہ اسے تو مستحب جانا ہے۔ لہذا صحابہ آںحضرت(ص) کے بعد ان کی چیزوں سے تبرک حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔

بخاری نے اپنی صحیح میں آدم سے نقل کیا ہے کہ شعبہ نے کہا کہ حکم نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے سنا ابو جحیفہ نے کہا:

ایک گرم دن میں  ظہر کے وقت رسول خدا(ص) ہمارے پاس تشریف لائے، پانی لایا گیا کہ حضرت(ص) وضو فرمائیں، آںحضرت(ص) نے وضو کیا، آںحضرت(ص) کے وضو کرنے کے بعد بہت سے لوگوں نے اس پانی کو لیا اور اپنے سر اور چہرے پر ملا۔

پیغمبر(ص) نے ظہر کی نماز دو رکعت اور عصر کی نماز دو رکعت پڑھی جب کہ آںحضرت(ص) کے سامنے عصا رکھا ہوا تھا، ابوموسی کہتے ہیں: پیغمبر(ص) نے

پانی مانگا۔ اور آپ(ص) کے لیے ایک برتن میں پانی لایا گیا، آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ منہ اس سے دھویا اور آب دہن اس برتن میں ڈال دیا اور پھر ان دونوں سے فرمایا : اس پانی کو پیو اور اپنے سینے اور چہرے پر ملو۔

بخاری نے اپنی صحیح میں ایک دوسری حدیث پیش کی ہے جو اس سے کہیں واضح ہے۔ اس بحث کے خاتمہ پر اس کا بیان کرنا بھی برا نہ ہوگ۔

بخاری کہتے ہیں:

ابو موسی کا بیان ہے کہ جعرانہ( مکہ اور مدینہ کے درمیان ) میں آںحضرت(ص) کے پاس تھا بلال بھی ساتھ تھے ایک بدو عرب آںحضرتص(ص) کے پاس آیا، اس بدو عرب نےکہا: آپ(ص)  نے ہم سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے اسے پورا کریں گے؟

حضرت(ص) نے فرمایا: ہاں تمہیں بشارت ہو۔

بدو عرب نے کہا: بہت بشارت بشارت لگا رکھی ہے۔ پیغمبر(ص) ابو موسی اور بلال کے پاس غصہ کی حالت میں وارد ہوئے اور کہا اس نے بشارت کو رد کردیا ہے پس تم اس  بشارت کو لے لو۔

انھوں نے کہا: ہم نے قبول کیا۔ پھر آںحضرت(ص) نے ایک ظروف میں پانی مانگا اور پھر اس سے اپنے ہاتھ اور منہ دھویا اور اس پانی میں آب دہن ڈال دیا اور فرمایا اسے پی جاؤ اور اسے سینہ اور چہرے پر مل لو تمہیں بشارت ہو۔

انھوں نے پانی کے اس برتن کو لیا اور وہی کیا جس کا آپ(ص) نے حکم فرمایا تھا۔

حضرت ام سلمہ نے پردہ کے پیچھے سے فرمایا کہ تھوڑا سا اپنی ماں کے لیے بھی چھوڑ دینا۔ تو انھوں نے تھوڑا سا پانی ام سلمہ کے لیے الگ کردیا۔ ( صحیح بخاری،ج ۵، ص۱۹۹ ، کتاب مغازی باب غزوہ

طائف ماہ شوال)

یہ روایات نہ صرف تبرک حاصل کرنے پر پیغمبر(ص) کے اعتراف و اقرار کو ثابت کرتی ہیں بلکہ ان سے پتہ چلتا ہے کہ آںحضرت(ص) جس پانی سے اپنا ہاتھ منہ وھوتے ہیں اور اس میں آب دہن ملاتے ہیں اسی کو اپنے اصحاب کو پینے اور سینہ اور چہرے پر ملنے کا حکم فرماتے ہیں اور انھیں بشارت دیتے ہیں کہ اس پانی کی برکت سے انھیں خیر کثیر حاصل ہوگا اور نہ صرف اصحاب بلکہ ام سلمہ(رض) جو آںحضرت(ص) کی بیوی ہیں وہ خود اس پانی سے تھوڑا سا الگ کرنے کو کہتی ہیں جو رسول(ص) کے ذریعہ متبرک ہوا ہے۔

ان واضح حقائق کے مقابل وہابیت کا کیا جواب ہے؟ یا پھر ان کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے؟

محمد(ص) در شہوار

ایک مرتبہ پھر امام بوصیری کے حضور میں احترام سے کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے اشعار کے سامنے سر تعظیم خم کرتے ہیں۔ اور ہر ایک کے لیے یہ اعلان کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) جوہر مخلوقات ہیں۔ آںحضرت(ص)  کے ساتھ کسی اور کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ وہ تمام اولاد آدم(ع) کےسید و سردار اور تمام انبیاء و مرسلین اور برگزیدہ بندوں کے آقا ہیں۔

آپ (ص) کی بشری صفات کے متعلق جو بھی اور جتنا بھی کہا جائے لیکن آپ کو خداوند عالم نے ہر طرح کی آلودگی وپلیدی سے پاک رکھا ہے۔ اور حدیث بیان کرنے والے آںحضرت(ص) کی ایسی خصوصیات بیان کرتے ہیں جو کسی اور میں دیکھی نہ گئیں اس کی مثالیں زیادہ ہیں، من جملہ ملاحظہ ہوں۔

کبھی بھی آںحضرت(ص) کے اوپر مکھی نہیں بیٹھی تھی اور بادل کا ایک ٹکڑا آںحضرت(ص) پر سایہ کئے رہتا۔ زمین آپ(ص) کے بدن کی فاضل چیزوں کو نگل لیتی اور آپ کے بدن سے مشک کی خوشبو ہوا میں پھیلی رہتی تھی۔

میں جب بھی اس طرح کی روایات کو پڑھتا ہوں اور ان کی صحت و درستگی پر ایمان بھی رکھتا ہوں تو ان میں کچھ ایسی چیزیں میری سمجھ آتی ہیں جنھیں دوسرے نہیں سمجھ سکتے۔لہذا میں ہرگز اسے غلط نہیں سمجھتا اگر کوئی رسول(ص) کے ہاتھ منہ کے دھونے کے بعد بچے ہوئے پانی کو پئیے۔ اس لیے کہ وہ بشر تو ہیں لیکن ان کی طرح کوئی بشر نہیں بلکہ آپ ایک درخشاں یاقوت ہیں۔

جب ہم میں سے کسی کو بھی اچھا نہ لگے کہ کسی کے ہاتھ منہ دھونے کے بعد

بچے ہوئے پانی کو پیئے تو پھر اگر اس نے اس میں کلی بھی کہ ہوتو بھلا کیسے پی سکتے ہیں؟ اس لیے ان جراثیم اور کثافت و گندگی اور امراض کے خوف کے علاوہ طبعی طور پر انسان ایسے پانی سے نفرت کرتا ہے اور خصوصا اس وقت جب اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب  ہوتے دیکھے!

اگر ہمارا ایمان نہ ہوتا کہ رسول خدا(ص) ہرطرح کی کثافت و پلیدی،  جراثیم اور بری بو سے مبرا ہیں اور آپ کا بدن طاہر و مطہر ہے تو اس طرح کی روایات کو قبول نہ کرتے۔ اور اگر رسول(ص) کے بعض مخلص اصحاب کا ان حقائق پر ایمان نہ ہوتا تو اس پانی کو زیادہ سے زیادہ پینے پر سبقت نہ کرتے یہاں تک کہ ان کے درمیان نزاع اور کشمکش پیدا ہوجاتی۔ بلکہ یہ مخلص صحابہ حقائق رسول(ص) سے متعلق ایسی چیزیں جانتے تھے جن سے دوسرے نا واقف تھے۔ لہذا وہ نہ صرف وضو کا پانی یا لعاب دہن پڑا ہوا پانی پیتے تھے۔ بلکہ کچھ ایسے کام بھی کرتے تھے جس کو انسانی طبیعت بمشکل تحمل کرسکتی ہے!

ہم اس جگہ تذکرہ کریںگے کہ وہ کیا کرتے تھے!

بخاری اپنی صحیح میں ایک طویل روایت پیش کی ہے جس کا مورد نظر حصہ پیش خدمت ہے:

پھر عروہ کی آنکھیں اصحاب رسول(ص) پر جمی ہوئی تھیں وہ کہتا ہے: ہم نے نہیں دیکھا کہ رسول(ص) ناک سے نکلی ہوئی رطوبت کو پھینک پاتے، بلکہ اسے کوئی نہ کوئی صحابی لے لیتا اور اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا، اور اگر آنحضرت(ص)  وضو فرماتے تو اس کے بچے ہوئے پانی سے شفا حاصل کرتے۔

اسی طرح بخاری نے عروہ اور مسورومروان سے نقل کیا ہےکہ:

رسول خدا(ص) اپنی ناک سے خارج شدہ رطوبت کو نہیں پھینک پاتے تھے بلکہ اسے کوئی نہ کوئی صحابی لے لیتا اور اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا تھا۔

یہ گرامی قدر اصحاب رسول(ص) جن پر خدا کا درود و سلام ہو۔ یہ جانتے تھے کہ اس سے رسول خدا(ص) راضی ہیں اور اس عمل پر آںحضرت(ص) کا سکوت ان کے اقرار اور اعتراف کا ثبوت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اصحاب آںحضرت(ص) سے بہت سی کرامات دیکھتے تھے، مثلا : عافیت، سلامتی، خیرو برکت، بیماریوں سے شفا، درد سے چھٹکارا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آںحضرت(ص) کے لعاب دہن اور ناک سے نکلی ہوئی رطوبت کو اپنے چہرہ اور بدن پر نہ ملتے۔

اس مطلب پر مزید تائید کےلیے بخاری سے ایک اور روایت ملاحظہ ہو:

رسول خدا(ص) ایک گرم دن میں ظہر کے وقت بطحاء کی طرف گئے اور نماز ظہر دو رکعت پڑھی، جبکہ آپ کے سامنے عصا رکھا ہوا تھا۔

عون، ابی جحیفہ سے مزید نقل کرتے ہیں کہ آپ(ص) کے پیچھے بھی لوگ چل رہے تھے، پس لوگ آگے بڑھے،رسول(ص) کے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے چہرہ پرملنے لگے۔ اس کا بیان ہے کہ میں نے بھی آںحضرت(ص) کے ہاتھوں کو پکڑا او اپنے چہرہ پر رکھ لیا۔ اس کو برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار پایا۔        (بخاری، ج ۴، ص ۲۲۹، کتاب بدء الخلق باب صفتہ النبی(ص)۔

نبی(ص) کے ذریعہ خدا سے شفا طلب کرنا

اس میں کوئی شک نہیں کہ آںحضرت(ص) ہاتھ سے مس کر کے یا اپنے وضو کے پانی اور آب دہن کے ذریعہ بیماری کا علاج کرتے تھے اور بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔

مسلم اور بخاری نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے کہ سہل بن سعید نے کہا: ہم نے سنا کہ آںحضرت(ص) نے روز خیبر فرمایا:

کل میں علم اس مرد کے حوالہ کروں گا جس کو خدا کامیابی عطا کرے گا، وہ خدا اور رسول(ص) کو دوست رکھتا ہوگا۔ اور خدا اور رسول(ص) اسے دوست رکھتے ہوں گے۔ تمام شب لوگ اس فکر میں تھے کہ کل علم کس کے حوالہ کیا جائے گا۔ اور جب دوسرا دن آیا تو ہر شخص کا دل چاہتا تھا کہ وہ خود وہی شخص ہو۔

حضرت(ص) نے فرمایا:

علی(ع) کہاں ہیں؟ بتایا گیا : علی(ع) آشوب چشم میں مبتلا ہیں۔ تو آںحضرت(ص) نے اپنے لعاب دہن علی(ع) کی آنکھ پر مل دیا اور ان کے لیے دعا فرمائی اور انھیں ایسی شفا مل گئی، گویا انھیں مرض ہوا ہی نہ تھا، پس علم آپ کے حوالہ کیا۔

حضرت علی(ع) نے عرض کی:

آیا میں ان کے ساتھ جنگ کروں کہ وہ ہماری طرح ہوجائیں؟

آںحضرت(ص) نے فرمایا:

جلدی کرو تاکہ ان کی حد میں داخل  ہوجاؤ اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دو اور جو کچھ ان پر واجب ہے اس سے انھیں باخبر کردو۔

اسی طرح بخاری سے نقل کیا ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ سائب بن یزید کا بیان ہے کہ:

میری خالہ مجھے رسول(ص) کے پاس لے گئی اور کہا: اے خدا کے رسول(ص) میرا بھانجا زمین پر گرپڑا ہے۔ پس رسول(ص) نے میرے سر پر اپنے ہاتھوں کو ملا اور میرے لیے دعا کی پھر وضو فرمایا اور میں نے آپ کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو پیا۔

بخاری نے جابر سے بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

پیغمبر(ص) ہماری عیادت کے لیے آئے جبکہ میں بخار کی شدت سے بے ہوش تھا۔ پس آںحضرت(ص) نے وضو کیا اور وضو کے بچے پانی کو مجھ پر چھڑکا، میں ہوش میں آگیا۔

رسول خدا(ص)، اللہ کے نزدیک ایسے مرتبہ و مقام کے مالک ہیں کہ آب دہن کے ذریعہ اندھوں کو بینائی عطا کرتے ہیں اور آب وضو کے ذریعہ مرگی سے بے ہوش مریض کو ہوش میں لاتے ہیں اور شفا بخشتے ہیں ۔ اور صحابہ آپ کی ناک کی رطوبت کو لیتے ہیں اور شفا کی غرض سے اپنے چہرے اور بدن پر ملتے ہیں اور روایت میں تو یہاں تک آیا ہےکہ حذیفہ بن یمان کے پاس ایک تھیلی تھی جس کے ذریعہ بیماروں کا علاج کرتے تھے اور کوئی ایسا مریض نہ تھا جس پر وہ تھیلی رکھی جائے اور اسے شفا نہ حاصل ہو۔ یہ خبر کافی مشہور ہوئی اس کی اطلاع آںحضرت(ص) کو بھی ملی آپ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا؟

اے حذیفہ ! کیا تم آشوب گرہو؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں بلکہ یا رسول اللہ(ص)  آپ کا پیر ایک پتھر پر نقش ہوگیا تھا، میں نے اسے اٹھا کر اس کپڑے کی تھیلی میں رکھ لیا اور اس بیماروں کا علاج کرتا ہوں۔

پیغمبر(ص) نے فرمایا : اگر کسی پتھر پر بھی اعتقاد پیدا کر لو تو تمہارے لیے مفید ہوگا۔

ان روایتوں کے نقل کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ کرتب دکھانے والے ، شعبدہ بازوں، دجالوں اور دھوکہ بازوں پر ایمان لایا جائے اور علم طب وحکمت سے ایمان کو کم کردیا جائے ، اس لیے کہ خود آںحضرت(ص) فرماتے ہیں کہ:

اپنے لیے ایک طبیب (ڈاکٹر) تلاش کرو، خدا نے مرض کو خلق کیا تو اس کا علاج بھی خلق کیا ہے۔

ان روایات کا معنی اور مطلب یہ نہیں کہ مسلمان صرف دعا، حرز، قرآن اور برکت کے ذریعہ بیماری سے شفا حاصل کرنے پر اکتفا کریں، بلکہ ہماری غرضیہ ہے کہ وہابیت کے اوپر حجت کامل ہوجائے جو ان تمام امور کا انکار کرتے ہیں اور جو بھی اس کا معتقد ہو اس  کو مشرک سمجھتے ہیں۔ رسول گرامی(ص) سے توسل و تبرک حاصل کرنے میں صحابہ کا اقدام معقول ہے۔ کیونکہ انھوں نے آںحضرت(ص) کے ساتھ معاشرت کی اور معجزات کے علاوہ بشر کی قوت سے بالاتر امور کا مشاہدہ کیا جس نے ان کے نفوس کو آرزؤں سے بھر دیا۔

بیشک سیرت و تاریخ کے مصنفین اور جو لوگ معجزات کو اہمیت دیتے ہیں انھوں نے رسول خدا(ص) کے لیے وہی کچھ تحریر کیا ہے جسے انبیاء کے متعلق کتاب خدا نےثبت کیا ہے، مثلا بیماروں کو شفا، اندھے ہوجانے والوں اور پیدایش اندھوں کو بینائی دینا، مردوں کو زندہ کرنا، آسمان سے خوان بہشتی منگانا، جانوروں سے ہم کلام ہونا وغیرہ وغیرہ۔

ہم یہاں بخاری کی ایک یا دو روایت پر اکتفاء کریں گے۔ اور محققین سے کہیں گے کہ وہ خود اس کے متعلق علماء کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔

قتادہ، انس سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا:

رسول خدا(ص) ایک بے آب و گیاہ صحرا میں تھے آپ(ص) کے لیے ایک برتن

لایا گیا آپ(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں رکھا، اچانک انگلیوں کے درمیان سے پانی ابلنے لگا پوری قوم نے اس پانی سے وضو کیا، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس سے پوچھا ، تم لوگ کتنے آدمی تھے انھوں نے جواب دیا: تقریبا ۳۰۰ آدمی تھے۔

جابر بن عبداللہ کہتے ہیں:

روز حدیبیہ لوگ پیاسے ہوئے پانی کا ایک برتن آںحضرت(ص) کی بغل میں تھا۔ آںحضرت(ص) نے وضو کیا لوگ گھبرائی ہوئی حالت میں آںحضرت(ص) کے پاس آئے، آںحضرت(ص) نے فرمایا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ بولے: وضو کرنے یا پینے کے لیے بس یہی پانی ہے۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ پانی میں رکھا اچانک آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی ایسے ابلنے لگا جیسے چشمہ ابلتا ہے۔ پس ہم نے اس  میں سے پیا اور وضو کیا۔ہم نے پوچھا کتنے لوگ تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ڈیڑھ ہزار لوگ تھے لیکن ایک لاکھ لوگ بھی ہوتے تو بھی پانی کافی تھا۔

علقمہ عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ :

ہم رسول خدا(ص) کے ساتھ ہم سفر تھے۔ پانی کم ہوگیا، آںحضرت(ص) نے فرمایا : تھوڑا سا پانی لاؤ، ایک برتن میں پیش کیا گیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آںحضرت(ص) نے اپنا ہاتھ اس میں ڈال دیا، اور فرمایا پاک و مبارک پانی کی طرف دوڑ پڑو یہ خدا کی برکت ہے، ہم نے پانی کو دیکھا جو انگلیوں کے درمیان سے ابل رہا تھا۔

وہابیت کی تاریخی حیثیت

اگر ہم اپنی تاریخ کی طرف نگاہ اٹھائیں اور اس کے درد ناک اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو ان میں سے بعض واقعات ہمیں ٹھہرنے پر مجبور کردیں گے۔ تاکہ ہمیں سمجھا سکیں کہ یہ وہابیت جسے ہم نے اس قرآن میں پہچانا ہے۔ اسکی بھی تاریخی حیثیت ہے جو کبھی ظاہر تو کبھی پوشیدہ رہی ہے۔ کبھی جرات کر کے ظاہر ہوئی اور کبھی تقیہ و خوف سےپوشیدہ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسلام پر ایسے دن آپڑے اور استعمار نے اس نئی فکر کو تقویت بخشی، اس کا مقصد اور ہدف یہ ہے کہ وہ ہالہ یا دائرہ جو آںحضرت(ص) کے گرد ہے اور آپ کا وہ احترام و اکرام جو مسلمان کرتے ہیں ختم اور بے اثر ہوجائے۔ استعمار کو پتہ ہےکہ مسلمان دو چیزوں کو مقدس سمجھتے ہیں۔ قرآن اور سنت پیغمبر(ص) اور یہ دونوں شریعت اسلام کے بنیادی مصدر ہیں جو ان کے حملہ کا نشانہ قرار پائے ہیں۔

اور یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ کتاب خدا میں کسی باطل کے نفوذ کی گنجائش نہیں اور خداوند عالم اس کی حفاظت کا خود ضامن ہے لیکن سنت رسول(ص) میں جعل و تحریف کی جاسکتی ہے اور آںحضرت(ص) کی وفات کے پہلے روز سے ہی سنت میں اختلاف پید ہوگیا۔

لیکن انھیں معلوم ہے کہ علمائے امت نےسنت کی حفاظت کی غرض سے جس کی صحت ثابت ہوچکی ہے اسے اکھٹا کرلیا ہے اور اس کے لیے قوانین بنائے ہیں۔ جو اس کو زیادتی  و کمی سے روکتے ہیں۔

اس کے پیش نظر انھوں نے ایک شیطانی چال چلی تاکہ اس کے ذریعہ جو

چیزیں مسلمانوں کےدرمیان خوشحالی و نشاط کا باعظ ہیں نابود کر ڈالیں۔ چنانچہ جب مسلمان روحانی اور معنوی امور سے جدا ہوں گے تو الحادی مادیت سےنزدیک ہو جائیں گے۔ اور دھیرے دھیرے سیلاب کے اوپر پیدا ہونے والے جھاگ کی طرح ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران انھیں ایک ایسے مسلمان شخص کی تلاش ہوئی جو ریاست طلب اور دنیا پرست ہو۔ انہوں نے محمد بن عبدالوھاب کو اس  کےلیے سب سے موزوں پایا۔ اس کے اندر اپنی روح پھونک  دی اور اس کو قانع کردیا کہ وہ اپنے زمانہ کا واحد دانشور ہے۔ اور ایسی ذہانت و ہوش کا مالک ہے کہ جو خلفائے راشدین کے پاس بھی نہ تھی۔ اور خلفائ کے اجتہاد کو کتاب و سنت جیسے صریح نصوص کا مخالف بتایا، خصوصا آںحضرت(ص) کی زندگی میں حضرت عمر کا آپ(ص) کی مخالفت کرنا۔اور محمد بن عبدالوہاب کو مطمئن کردیا  کہ محمد(ص) بشر ہیں، معصوم نہیں ہیں، مختلف مقامات پر ان سے بھول چوک ہوئی ہے۔ اورلوگوں نے ان کے اشتباہ کی اصلاح کی ہے اور یہ شخصیت کی کمزوری کی دلیل ہے۔

پھر اس میں جزیرة العرب پر تسلط اور اس پر حکومت کی طمع پیدا کی اس کے بعد اس میں تمام عرب دنیا اور اس کےبعد پورے عالم اسلام پر حکومت کی امید بندھائی۔

وہابیت انھیں مفاہیم پر استوار ہے اور ہمیشہ اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ رسول(ص) کو بی حقیقت اور ان کی اہمیت کو کم کردے۔ جیسا کہ ان کے علماء صراحت کے ساتھ کہتے ہیں وہ شخص مرگیا۔ ـنعوذ باللہ) اور ان کے بزرگ ( محمد بن عبدالوہاب نے کہا) محمد (ص) بوسیدہ مردار ہیں۔ (نعوذ باللہ) جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، یہ میرا عصا ان سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور نقصان بھی!

اسی سے ملتی جلتی عبارت حجاج بن یوسف کے زمانہ میں بھی کہی جاتی تھی۔

اسی نے کہا:

ان کے سروں پر خاک! یہ لوگ ایک بوسیدہ مردار کے گرد طواف کرتے ہیں، اگر یہ عبدالملک بن مروان کے محل کےگرد طواف کرتے تو ان کےلیے بہتر ہوتا!

در حقیقت جس چیز نے حجاج او بنی امیہ جیسے ظالموں کو آںحضرت(ص) کے عظیم مقام کی اہانت کی جرات بخشی تھی وہ عمر بن خطاب کا قول تھا جسے اس نے آںحضرت(ص) کے حضور میں کہا تھا:

یہ شخص ہذیان بک رہا ہے ہمارے لیے صرف کتاب خدا کافی ہے!

اس باب میں وہابیت جو کچھ چاہتی ہے زور و زبردستی لوگوں کے اذہان میں داخل کرتی ہے اس لیے کہ اس کا کہنا ہے کہ محمد(ص) کا کردار ختم ہوا اور ان سے سوائے تاریخ کے کچھ نہیں بچا ہے اور جو بھی ان سے توسل اختیار کرے گویا اس نے ان کی پرستش کی ہے اور خدا کی خدائی میں انہیں شریک بنایا ہے۔

اور یہ کوئی تازہ فکر نہیں ہے بلکہ یہ تاریخی حیثیت رکھتی ہے جیسا کہ خود حضرت ابوبکر نے اعتراف کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ اعلان کیا۔ اور چیلنج کر کے کہا:

اے لوگو! جو بھی محمد(ص) کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے محمد(ص) مرچکے ہیں اور جو بھی خدا کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ خدا زندہ ہے اور ہرگز نہ مرے گا۔

اس بیان کی وجہ اور علت کیا تھی؟ جب کہ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں میں کوئی بھی آںحضرت(ص) کی پرستش نہیں کرتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حضرت ابوبکر یہ سمجھتے تھے کہ واقعا بعض مسلمان آںحضرت(ص) کی پرستش کرتے ہیں۔ اگر ایسا تھا پھر آںحضرت(ص) کیوں خاموش رہے اور ان کو منع نہیں کیا؟ بلکہ ان کو کیوں قتل نہ کر ڈالا؟

بہر حال میں ذاتی طور پر یہی عقیدہ رکھتا ہوں کہ ہو بھی وہی عقیدہ رکھتے تھے جو آج وہابیت کے یہاں وجود میں آیا ہے۔ یعنی وہ آںحضرت(ص) کا احترام و اکرام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اور بلاشبہ اس پر جل بھن جاتے تھے۔ اور جس وقت دیکھتے لوگ پیغمبر(ص) کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو اپنے اوپر ملنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔ اور اس سے متبرک ہوتے ہیں اور آںحضرت(ص) واہل بیت(ص) کی محبت مودت کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کرتے ہیں اور خدا سے نزدیک ہوتے ہیں تو لوگوں کے اس عمل سے قریش میں برعکس اثر ہوتا۔ لہذا وہ آںحضرت(ص) کی ذات سے دشمنی رکھتے تھے۔ گرچہ وہ کسی اشتباہ کے مرتکب نہ ہوتے تھے۔

آخر کار قریش کے لیڈر، معاویہ بن ابو سفیان  نے اپنے اس باطنی کینہ سے پردہ اٹھا دیا اور جس وقت مغیرہ نے اس سےکہا:

اے امیرالمؤمنین کتنا اچھا ہوتا کہ تم ہاشم میں اپنے عزیزوں پر لطف و کرم کرتے۔ خدا کی قسم ان کے پاس کوئی چیز نہیں بچی ہے جس سے آپ ڈریں آپ کا یہ عمل آپ کے حق میں نفع بخش ہوگا۔

معاویہ نے کہا:

برادر بنی تمیم(ابوبکر) نے حکومت کی لیکن جیسے ہی اس دنیا سے گئے نام ختم ہوگیا۔ البتہ کوئی کبھی یاد کرلیتا ہے۔ برادر عدی(عمر) نے حکومت کی اور دس سال خود خواہی اور قدرت کی بنیاد پر لوگوں پر سلط رہے۔ لیکن جس وقت دنیا سے گئے ان کا نام بھی ان کےساتھ ختم ہوگیا، مگر یہ کوئٰ کہے حضرت عمر! اور حضرت عثمان نے بھی حکومت کی اور جو کچھ چاہا کیا لیکن جیسے ہی دنیا سے سدھارے ان کا نام بھی دینا سے رخصت ہوگیا۔ کسی کا نام بھی نہیں بچا سوائے ابن ابی بکر کشبہ(مراد رسول خدا(ص) ہیں) کے ، کسی اور کا نام نہیں بچا ہے اور ہر روز دن پانچ مرتبہ یاد کیا جاتا

ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں۔(اشہد ان محمد رسول اللہ) یہ کون سی یاد ہے جو باقی رہ جانا چاہتی ہے۔ تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، خدا کی قسم اس کے نام کو دفن کردوں گا اور مٹی میں ملا دوں گا۔

یہ وہی وہابیت ہے جس کا کل بہترین شکلی اور فصیح ترین عبارتوں میں نقشہ تیار کیا گیا اور آج کل اس کو عملی شکل دے رہے ہیں۔

(وہ چاہتے ہیں اپنے منہ سے نور خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا اسے پورا کر کے رہے گا چاہے کافروں کو اچھا نہ لگے۔(صف/۸)

وہابیت اور زیارت قبور کی تحریم

اس وقت کی رائج بدعتوں میں ایک بدعت عورتوں پر قبر کی زیارت کو حرام قرار دینا ہے۔ مسلمان عورت جب خانہ خدا کی زیارت اور حج کے لیے جاتی ہے تو اسے بقیع اور شہداء احد اور دیگر قبور کی زیارت کی اجازت نہیں ملتی۔

وہابیت نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور اس کے پاس اس کو حرام قرار دینے میں سوائے تعصب کے کوئی اور دلیل نہیں ہے۔

مسلم اپنی صحیح میں باب جنائز کے اندر نقل کرتے ہیں کہ:

حضرت عائشہ نے رسول خدا(ص) سے  پوچھا۔ عورت اگر قبروں کی زیارت کے لیے نکلے تو کیا کہے۔

حضرت نے ان سے فرمایا:

کہے: اے قوم جو آرام سے اپنے گھروں میں سوئی ہے تم پر سلام ہو تم ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم بھی جب خدا نے چاہا تم سے ملحق ہو جائیں گے۔ خداواند عالم گذرے ہوئے اور جو بعد میں ؟؟؟ ہیں ان کی مغفرت فرمائے۔

اسی طرح بخاری نے اپنی صحیح میں انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ: آںحضرت(ص) ایک عورت کے قریب سے گذرے جو ایک قبر کے پاس بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ(ص) نے فرمایا: تقواے الہی اختیار کر اور صابر رہ۔ اس عورت نے کہا: مجھ سے دور ہوجاؤ۔ تم میری مصیبت میں نہ گرفتار ہو اور نہ ہی اسے جانتے ہو۔ اس عورت سے کہا گیا کہ یہ رسول(ص)

تھے۔ وہ عورت رسول(ص) کے گھر آئی اور عرض کیا: میں نے آپ کو نہ پہچانا مجھے معاف فرمائیے۔ آںحضرت(ص) نے فرمایا: اولین صدمہ اور مصیبت کے لیے صبر ہے۔

اس سلسلے میں حدیثیں بکثرت موجود ہیں اہل سنت کی کتب صحاح اور شیعوں کی کتابیں اس سے مالامال ہیں لیکن وہابیت اس کا انکار کرتی ہے اور اس کے لیے کس قدر قیمت ی قائل نہیں اور جس وقت ان میں سے بعض لوگوں پر میں نے اعتراض کیا اور احادیث کے ذریعہ استدلال کیا تو وہ کہنے لگے یہ روایتیں منسوخ ہوچکی ہیں۔

میں نے کہا بلکہ اس کے برعکس ! تحریم منسوخ ہےاس لیے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

میں پہلے تم کو قبروں کو زیارت سے روکتا تھا لیکن اس وقت کہتا ہوں کہ زیارت کرو کیوںکہ یہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔

جواب ملا: یہ حدیث مردوں کے لیے مخصوص ہے عورتیں اس سے خارج ہیں،

میں نے کہا : تاریخ میں ثابت ہوا ہے اور محققین اہلسنت نے بھی اسے بیان کیا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا ہر روز اپنے بابا کی قبر کی زیارت کو جایا کرتی تھیں، اور فرماتی تھی:

میرے بابا! مجھ پر وہ مصیبتیں نازل ہوئیں جو اگر دنوں پر پڑتیں تو شب تاریک میں بدل جاتے۔

یہ بھی مشہور ہےکہ حضرت علی(ع) نے ان کے لیے ایک گھر بنایا تھا جس کا نام بیت الحزن تھا اور وہ اپنا زیادہ تر وقت بقیع میں گزارتی تھی۔

اس نے کہا: اگر فرض کر لیں کہ یہ حدیث درست ہے تو یہ فاطمہ(س) سے مخصوص ہے۔

اسے کہتے ہیں ( اندھا تعصب!) ورنہ مسلمان کیوں کر قصور کر سکتا ہے کہ خدا اور اس کا رسول(ص) عورت کو اس بات سے روکیں کہ وہ اپنے والدین، بھائی، اولاد اور شوہر کی قبروں پر جائے اور ان کے لیے طلب رحمت و مغفرت کرے اور ان کی قبروں پر اشک رحمت چھڑکے اور خود بھی موت کو یاد کرے جس طرح مرد یاد کرتا ہے۔

عورت کی نسبت اس کھلے ہوئے ظلم پر خدا اور اس کا رسول(ص) راضی نہ ہوں گے اور کوئی بھی عقل مند اسے قبول نہ کرے گا

بڑی غلطی پر ان کا سختی سے محاسبہ کرتے ہیں۔

اور کبھی ایک بھول یا معمولی غلطی پر پٹائی کرتے ہیں اور ان پر درجہ سختی کرتے ہیں کہ وہ تھک جاتے اور دین سے متنفر ہوجاتے ہیں جبکہ وہ ابھی سن بلوغ تک بھی نہیں پہنچے ہوتے، یہ وہ چیز ہے جسے ہم نے خود دیکھا ہے۔ شایدخود آپ نے بھی اپنے عزیزوں میں ایسے بچوں کو دیکھا ہو جو سختی کی بنیاد پر نماز پڑھتے ہیں۔

اور جس وقت ماں باپ کی پکڑ کمزور پڑتی ہے تو اس زنجیر کو توڑ کر نکل جاتے ہیں اور نماز کو بالکل ترک کر دیتے ہیں۔

میں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے عزیزوں میں کچھ والدین کو اس بات پر راضی کروں کہ نماز نہ  پڑھنے پر بچوں کی پٹائی نہ کیا کریں اور ان کو زبردستی نماز پڑھنے پر مجبور نہ کیا کریں بلکہ محبت و مہربانی اور نرمی کے ساتھ پیش آئیں تاکہ نماز ان کی نظر میں محبوب بنے نہ کہ ڈراؤنا خواب۔

لیکن  میں جب اس بات کو کہتا تو وہ کہتے کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا:

سات یا دس سال (روایت میں اختلاف ہے) کے بعد نماز کے لیے بچوں کی پٹائی کرو۔ اس طرح خواہ جوانوں نے عیسائی مبلغوں کی پیروی نہ کی ہو لیکن نماز کو ضائع کردیا اور اپنے دین کو چھوڑ دیا۔ جب کہ انھیں کھیلوں اور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کو چھوڑنا چاہیے تھا جو ذکر خدا سے روک دیتے ہیں۔

مکتب اہل بیت(ع) میں مشکل کا حل

جو ابھی اسلامی تربیت کے لیے مکتب اہل بیت(ع) کی پیروی کرتا ہے اسے ایسی راہ حل ملتی ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لیے قرار دیا ہے جو  ان کے لیے دین کو آسان کردے اور احکام کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا سکے۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

خدا نے تمہارے لیے دین میں مشقت قرار نہیں دی ہے۔(حج/۷۸)

خدا تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے نہ کہ زحمت ومشکل۔ ( بقرہ/۱۸۵)

خدا ہر شخص پر اس کی قوت کے مطابق فرائض معین کرتا ہے۔(بقرہ/۲۸6)

رفع حرج

رفع حرج یعنی سختی اور دباؤ کو ختم کرنا اور یہ اسلام کا ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہرج و مرج کو ختم کردیا گیا اور ہر زحمت ممنوع ہے لیکن اگر واقعیت یہی ہے تو پھر یہ ساری سختیاں جو فقہی کتابوں میں موجود ہیں وہ کس لیے ہیں؟

اگر مسلمان (اہل سنت حضرات) کے بعض ابواب وضو اور غسل کر پڑھے تو اسے احساس ہوگا کہ آسانی کس حد تک مشکل میں تبدیل ہوچکی  ہے اور انسان پر اسکی طاقت سے زیادہ فرائض عائد کئے گئے ہیں مثلا تحریر ہے کہ اگر غسل کے بعد غسل کرنے والے ہاتھ اس کے عضو تناسل سے لگ جائے تو اسکا غسل باطل ہے اور اسے بھر سے غسل کرنا پڑیگا۔

مکتب اہل بیت(ع) میں، اہل بیت(ع)  نے اپنے جد حضرت رسول خدا(ص) سے روایت نقل کی ہے کہ وضو و غسل (یعنی دوبارہ دھونا) اور دو مسح ہے( یعنی چہرہ اور ہاتھ کو دھونا اور سرو پا کا مسح ہے۔)

یہ ہے وضو

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ نماز سے پہلے وضو کریں خداوند عالم فرماتا ہے:

اے رسول(ص) ! اگر نماز کے لیے اٹھو تو چہرہ کے بعد ہاتھوں کو کہنی تک دھوؤ۔ اور اپنے سرو پیرکا ابھرے ہوئے حصہ تک مسح کرو۔(مائدہ/6)

لہذا وضو چہرہ اور ہاتھوں کے دھونے اور سر وپا کا مسح کرنے کا نام ہےجیسا کہ ہم دیکھتے ہیں یہ بہت ہی آسان ہے اس میں کوئی زحمت بھی نہیں ہے۔ مسلمان مقیم ہو یا مسافر ائرپورٹ پر ہو یا ٹرین میں یا پھر گھر میں اس وضو سے اس کے لیے کوئی مشکل نہ ہوگی۔ پائپ کھولے چہرہ اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دھولے اور تل کو بند کردے۔ اورپھر سرو پا کا ہاتھ کی بچی ہوئی رطوبت سے مسح کرے۔ حتی اگر وہ چاہے تو نماز ادا کرنے کی جگہ تک جوتے کو نہ اتارے(اگر نماز ادا کرنے کی جگہ نزدیک ہو) تو وہاں جوتا اتارے اور پھر پاؤں پر مسح کرے۔

لیکن اہل سنت فقہ کے مطابق وضو بہت ہی سخت ہے کلائیوں تک دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھونا۔ تین مرتبہ کلی، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا، تین مرتبہ چہرہ دھونا، تین مرتبہ داہنے ہاتھ کو دھونا ، تین مرتبہ بائیں ہاتھ کو دھونا، پورے سر، اور کان کا مسح، تین مرتبہ داہنے پیر کا دھونا اور تین مرتبہ بائیں پیر کا دھونا۔

ایسا وضو اور خصوصا جوانوں کے لیے سفر کی حالت میں اور خاص کر ٹھنڈک میں جب کہ پیروں کو دھونا ہو اور پھر موزہ پہننے کےلیے پیروں کو خشک کرنا اس میں ان کےلیے کس درجہ زحمت  ہے۔

لیکن مکتب اہل بیت(ع) میں نص کے مقابل اجتہاد اور ذاتی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور قرآن و سنت رسول(ص) کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ جو وضو اس مکتب میں ہے اسی کو قرآن نے بھی مسلمانوں پر واجب کیا ہے۔ اور رسول خدا(ص) و ائمہ اطہار(ع) اسی طرح وضو کرتے تھے۔

خدا رحمت کرے عبداللہ بن عباس پر آپ ہمیشہ تکرار کرتے  رہتے کہ :

کتاب خدا میں سوائے دو دھونے  اور دو مسح کے ہمیں اور کچھ نہیں ملتا لیکن تم لوگ تو صرف سنت حجاج کی پیروی کرنا چاہتے ہو۔ ( مصنف عبدالرزاق،ج ۱، ص۳۸)

لہذا آج مسلمانوں پر اور خاص کر سمجھدار جوانوں پر واجب ہے کہ آسانی اور سہولت کی طرف پلٹ آئیں اور لوگوں کو دین کی طرف رغبت اور شوق دلائیں، جناب رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کس قدر تاکید فرمائی ہےکہ اس قاعدہ پر عمل کریں۔

لوگوں سہولت سے کام لو، مشکل پیدا نہ کرو اور لوگوں کو متنفر نہ کرو۔

خود اپنے آپ پر سختی نہ کرو تا کہ خدا بھی تم سے سختی سے کام نہ کے جیسا کہ اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ کیا۔

یہ تجربہ معمولا کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔ کتنے ایسے جوان تھے جو وضو کی وجہ سے نماز سے گریز کرتے تھے۔ یا نماز کو تیمم سے پڑھتے تھے ۔ اس ڈر سے کہ کہیں پانی ان کے پاؤں کے لیے مضر نہ ہو۔

لیکن اہل بیت(ع) کی روش کے مطابق وضو انھیں سکون حاصل ہوا اور وہ مطمئن ہوگئے۔

یہ ہے نماز

مکتب اہل بیت(ع) میں نماز پانچ وقت پڑھنے کے بجائے تین وقت پڑھتے ہیں۔ یعنی نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب عشاء یکے بعد دیگری  پڑھتے ہیں۔ اور ایک وقت نماز صبح کے لیے نماز و عصر کےلیے اور ایک وقت نماز مغرب و عشاء کے لیے معین کر رکھا ہے۔

ہم نے اپنی کتاب ( سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں ایک باب قرآن کریم اور سنت پاک کی روشنی میں ان تین وقتوں کی شرعی حیثیت سے مخصوص کیا ہے۔ہم طالب کو طول دینا نہیں چاہتے اور جس بات کا تذکرہ پہلے کیا ہے اس کی تکرار نہیں کرنا چاہتے ہمارے محقق احباب اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

لیکن اس جگہ ان تین وقتوں میں نمازوں کو قرار دینے کی الہی حکمت سے متعلق توضیح دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی تذکرہ کیا ہے۔ سماج کا ین چوتھائی حصہ نوکری پیشہ ہے۔ یہ یا تو نماز نہیں پڑھتا ہے یا اگر پڑھتا ہے تو کسالت اور سستی کے ساتھ پڑھتا ہے اور پھر پڑھنے میں مشقت اور سختی محسوس کرتا ہے۔

اس لیے کہ انھیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شرعا کام میں کمی نہیں کرسکتے۔ اور جس وقت میں کام کی تنخواہ لیتے ہیں اس میں نماز نہیں پڑھ سکتے۔ البتہ ہم ان لوگوں سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتے جو مسجد میں پکار پکار کر کہتے ہیں نماز کے وقت کام چھوڑ دو چاہے اس کی وجہ سے تمہیں کام سے نکال دیا جائے اس لے کہ روزی کا دینے والا خدا ہے نہ کہ کارخانہ کا مالک اور منیجر!!!

تعجب تو اس وقت ہوتا ہے جب یہی نظریہ رکھنے والے افراد خود اسی موضوع میں متضاد نظر آتے ہیں۔ ہم نے انھیں میں سے ایک شخص کو دیکھا وہ حضرت عمر بن خطاب کی تعریف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا حضرت عمر مسجد میں وارد ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو لوگوں کے آنے سے پہلے نماز پڑھ رہا تھا۔ دوسری مرتبہ آئے دیکھا وہی شخص نماز پڑھ رہا ہے۔ اور جب تیسری مرتبہ دیکھا تو کہا کون تمہاری روزانہ کی زندگی کا خرچ دیتا ہے۔ اس نےکہا میرا بھائی مجھے کھانا کھلا تا ہے اور لباس پہناتا ہے جناب عمر نے اس سے کہا مسجد سے باہر نکل جاؤ اس لیے تیرا بھائی تجھ سے بہتر ہے۔ آسمان سے تو سیم و زر نہیں برستا۔

میں اس کو کنارے لے گیا اور اس سےکہا کہ کیا تم نے ایک ماہ پہلے یہ نہ کہا تھا کہ خدا اپنے بندوں کو روزی دیتا ہے۔ تمہارے اوپر ضروری ہے کہ نماز کے وقت کام چھوڑ دو۔ اس نے بزرگانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ( ہر سخن جائی دارد) میری پہلی بات قرآن سے تھی اور دوسری بات حضرت عمر فاروق کے حوالہ سے تھی اور یہ دونوں باتیں حق ہیں میں نے اس سے کہا خدا تجھے جزائے خیر دے میں نے بڑا استفادہ کیا۔

ہم پھر دو نمازوں کو ایک وقت میں انجام دینے میں الہی حکمت کی طرف پلٹتے ہیں۔ کہ خداوند عالم زمین و زمان کا خالق ہے اور ماضی ، حال اور مستقبل سے آگاہ ہے۔ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کئے ہے۔

خدا کو علم تھا کہ ایک زمانہ میں لوگوں کی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی اور ان کی آزادی کم اور وقت محدود ہوگا۔ اور چونکہ حضرت محمد (ص)خاتم الانبیاء ہیں اور آپ کی شریعت قیامت تک باقی ہے اور حکمت الہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔ کہ بندوں کےلیے آسانی پیدا کی جائے اور عسر وحرج کو ختم کیا جائے لہذا اپنے

رسول(ص) سے فرمایا: نماز ظہر و عصر، مغرب و وعشاء کو ایک ساتھ ادا کریں اور یہی روش امت کو تعلیم فرمائیں۔ تاکہ ان پر سے حرج اور سختی ختم ہوجائے۔

پیغمبر(ص) نے اس حکم پر عمل کیا اور کئی مرتبہ مدینہ منورہ میں اسی روش پر نماز ادا کی اور جس وقت آپ سے سوال کیا گیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

میں اپنی امت پر سختی نہیں چاہتا۔

صحیح بخاری میں آیا ہے کہ ابن عباس نے کہا:

رسول خدا (ص) نے مدینہ میں سات رکعتی اور آٹھ رکعتی نماز پڑھی، یعنی ظہر و عصر اور اسی طرح مغرب و عشاء۔

یہ ہے حکمت الہی اور یہ ہے رسول خدا (ص) کی نماز، جسے آںحضرت(ص) نے پروردگار کے حکم کی بنیاد پر انجام دیا۔ تاکہ امت کے لیے فشار و سختی کا باعث نہ ہوں۔

ہم کیوں اس روش کو چھوڑ دیتے ہیں جبکہ یہ سہل اور آسان ہے اور ملازم، کاریگر، طالب علم اور فوجی سبھی کے لیے سازگار اور ممکن ہے اور کوئی کام ایسا نہیں جو ان وقتوں سے بڑھ کر ہو۔ اس طرح اب کسی مسلمان کےلیے کوئی بہانہ نہیں۔

یہ بات دنیا میں معروف ہے کہ ڈیوٹی کا وقت  آٹھ گھنٹے ہوتا ہے ۔ اور دو حصوں میں کام ہوتا ہے صبح ۸ بجے سے لے کر ۱۲ بجے تک اور بیچ میں دو گھنٹہ استراحت پھر ۲ بجے سے لےکر شام کے 6بجے تک۔ اس صورت میں مسلمان نماز ظہر و عصر کو آرام کے وقت میں کام پر دوبارہ جانے سے پہلے انجام دے سکتا ہے۔ اس طرح اس نے نماز ظہر و عصر کو اس کے صحیح وقت پر انجام دیا ہے چنانچہ نہایت آرام سے کام پر آسکتا ہے۔

لیکن اگر کام سارے دن کا ہو جیسے معدنیات یا اس سے مشابہ جگہوں پر کام تو (قانون کار) ۷ گھنٹے مسلسل کام کو تجویز کرتا ہے۔ اور آدھا گھنٹہ آرام کے

لیے دیتا ہے اس قسم کی کمپنیاں کام کو تین شفٹوں میں معین کرتی ہیں۔

۱ـایک گروہ صبح ۷ بجے سے ۲ بجے تک کام کرتا ہے۔

۲ـدوسرا گروہ ۲ بجے (بعد از ظہر) سے رات کے ۹ بجے تک کام کرتا ہے۔

۳ـ اور تیسرا گروہ ۹بجے رات سے ۴بجے صبح تک کام کرتا ہے۔

نماز کے لیے اس حکمت الہی کے تحت یہ سارے گروہ بغیر کسی زحمت کے اپنے وقت پر نماز ادا کرسکتے ہیں۔

اور کوئی بھی عذر نہیں کرسکتا کہ اس کے پاس نماز ادا کرنےکا وقت نہیں ہےیا یہ کہ نماز وقت جارہا ہے اور وہ نماز ادا نہیں کرسکتا۔

اس طرح ہم نماز ادا کرنے میں قرآن و سنت کی پیروی کریں گے۔

اس لیے کہ حکم یہی ہےکہ مومنین نماز کو اس کے وقت پر انجام دیں۔ اسی کے ساتھ ہم اپنی اور دوسروں کی سختی و مشقت کو بھی دور کرسکتے ہیں۔

شاید بہت سے جوان جنہوں نے اپنی نماز کو ترک کردیا ہے پھر سے نماز کی آغوش میں پلٹ آئیں۔ اگر انھیں یہ پتہ چل جائے کہ خدا نے اسی امر کی تشریح کی  ہے اور رسول خدا(ص) اور آپ کے اہل بیت(ع) نے ایسے ہی انجام دیا ہے

اگر یہ اہل بیت(ع) کے دستور پر عمل کرے تو اسے ۲۰۰۰ ہزار دینار ادا کرنا ہوں گے۔لہذا اگر مذہب اہل سنت کے مطابق ادا کرے تو اس کے پاس ۹۷۵۰ دینار بچتے ہیں اور اگر مذہب اہل بیت(ع) کے مطابق ادا کرے تو اس کے پاس صرف آٹھ ہزار(۸۰۰۰) دینار بچتے ہیں۔

اس مفروضہ کی بنیاد پر اہل سنت فقیر مسلمان کو پورے سال میں صرف ۲۵۰ دینار حاصل ہوتاہے اور اہل بیت (ع) کے پیرو فقیر مسلمان کوایک سال ۲۰۰۰ دینار حاصل ہوگا۔ اور ان  دونو ں رقوم کے درمیان کافی فرق ہے۔

نیز اہل سنت فقیر اور دولت مند مسلمان، کا باہم موازنہ کریں تو اس طرح ہوگا ۹۷۵۰ کے مقابلے میں ۲۵۰ دینار اور یہ بہت بڑا فرق ہے۔ یعنی چالیسواں حصہ۔ با الفاظ دیگر اگر دولت مند کے پاس چالیس روٹی ہوگی تو فقیر کے پاس صرف ایک رٹی ہوگی۔ لیکن اگر اہل بیت(ع) کے پیرو فقیر و ثروت مند میں موازنہ کریں تو اس طرح ہوگا۔

۸۰۰۰ کے مقابل ۲۰۰۰ دینار اور یہ نسبت معقول ہے یعنی چار کے مقابل ایک ہے یعنی اگر دولت مند کے پاس چار روٹی ہوگی تو فقیر کے پاس ایک روٹی۔

دوسرے لفظوں میں اہل سنت فقیر کا ایک حصہ ہے اور اہل سنت  دولت مند کے ۳۹ حصے اور یہ فرق بہت زیادہ ہے خداوند عالم نے اس سے ہوشیار کرتے ہوئے فرمایا ہے:

یہاں تک کہ تمام غنائم امیروں کے ہاتھ میں نہ آجائیں اور صرف انھیں کے ہاتھوں میں رد و بدل ہوتے رہیں۔(حشر/۷)

اور اسی طرح ہے بھی اس لیے کہ قوم کے غنی اور دولت مند افراد جو صرف ۲۰ فیصد ہیں ۹۵ فیصد دولت اور سرمایہ پر قابض ہیں۔ جب کہ  باقی قوم صرف ۵ فیصد کی مالک ہے۔ لیکن اہل بیت(ع) کا پیرو ہر چار حصہ کے مقابل ایک حصہ کا

مالک ہے یہ فرق گرچہ زیادہ ہے لیکن اس قدر واضح نہیں ے اور اس صورت میں دولت مند افراد ۷۵ فیصد پر قابض ہوں گے اور باقی ۲۵ فیصد دولت دوسرے تمام لوگوں کے ہاتھ میں ہوگی۔

ان تمام حساب وکتاب کے باوجود اسلام نے لوگوں کو مستحبی صدقہ دینے کی بھی کافی ترغیب فرمائی ہے بلکہ دوسری زکات کے بھی صرف دولت مندوں پر واجب قرار دیا ہے۔ مثلا زکات فطرہ ، قربانیاں ، کفارے، نذریں ، اسی طرح اسلام نے حاکم شرع کو حق دیا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے مال میں تصرف کرے اور اگر ضروری ہو تو ان  سے لے اور فقراء کے درمیان تقسیم کرے یا بیت المال کے حوالہ کردے۔

جو واقعیت سامنے ہے وہ کچھ اور ہے۔ اور خدا نے جس چیز کا قرآن میں حکم دیا ہے اور رسول خدا(ص) نیز آپ کے اہل بیت(ع) نے جس پر عمل کیا ہے وہ کچھ اور ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی ملتوں میں طاقت، دولت مندوں کے ہاتھ میں ہے اور طاقت والوں اور دولت مندوں کی تعدداد بھی کم ہے جب کہ وہ ہر چیز کے مالک ہیں۔ لیکن فقراء کی تعداد بہت زیادہ ہے جب کہ ان ے پاس کچھ نہیں ہے۔

کمیونسٹوں نے بھی عالم اسلام میں رائج اسی کمزوری کو پکڑ لیا اور آسانی کے ساتھ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں روشن فکر طلباء کو اپنی طرف جذب کر لیا اور انھیں قوم کے ہر فرد کے درمیان دولت کی مساوی تقسیم کا نظریہ بطور تحفہ پیش کردیا۔

اسی طرح بہت سے مسلمان نوجوان کمیونسٹ ہوگئے اور اس تھیوری کو اپنے لیے منتخب کر لیا اور دین کو خیر باد کہہ دیا۔ عقائد ترک کردئے اور اپنے آباؤ و اجداد سے نفرت کرنے لگے۔ اسلام نے کمیونزم سے بدتر خطرہ نہیں دیکھا اس لیے کہ وہ

اندر ہی  اندر اپنے ہی روشن خیال فرزندوں کے ہاتھوں ویران ہوگیا۔ کیوں کہ جب ایسے لوگ حکومت میں آئے تو انھوں نے اسلام سے جنگ کی اور اپنی قوم پر خاطر خواہ اثر ڈالا۔

اگر آج ہم کمیونزم کی لعنت میں گرفتار ہوگئے تو ہمیں چاہئے گذشتہ مسلمانوں کے سرزنش کریں کہ جنھوں نے احکام خدا میں تحریف کی یہاں تک کہ فقیر زیادہ ہوگیا اورجہل و پسماندگی تاریکی، تعصب، اور نادانی کا ان پر راج ہو گیا۔

           (لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔)

موقت شادی (متعہ) کی اہمیت

سب سے خطرناک سماجی مشکل جو انسانی سماج کو تباہ کررہی ہے وہ جنسی مشکل ہے۔ جنسی شہوت، جیسا کہ سبھی جانتے ہیں بشری زندگی کی بقاء کے لیے اساس ہے اور خداوند عالم نے انسان، حیوان اور نبات سب کو نرو مادہ کی صورت میں پیدا کیا ہے:

خداوند عالم فرماتا ہے:

ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم متوجہ ہوجاؤ۔ ( ذارایات/۴۹)

اور خداوند عالم نے تمہارے لیے بیویاں قرار دیں اور تمہاری بیویوں سے بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں پیداکئے۔(نحل/۷۲)

زندگی کی بقاء کے لیے ضروری ہے نرو مادہ باہم ملاپ کریں اور یہ خلق خدا کے درمیان اس کی سنت ہے۔

شادی اور نسل کو آگے بڑھانے کےلیے اللہ نے مرد و عورت میں جنسی خواہش پیدا کی ہے تاکہ ان میں سے ہر ایک مد مقابل سے جنسی رابط پیدا کرنے کے لیے میلان رکھے۔ اور ہر ایک کی جنسی خواہش پوری ہو اور اس کےنتیجہ میں اسپرم اور اوم بار آور ہوں۔ اور ایک بچہ وجود میں آئے۔ وہ بھی رشد نمو کرے، بڑا ہو اور اسی طرح وہ بھی حیات بشری کو آگے بڑھائے۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے:

وہی ہے جس نے آب(نطفہ) سے آدمی کو خلق کیا اور ان کے درمیان

رشتہ ناطہ برقرار کیا اور تمہارا پروردگار ہر چیز پر قادر ہے۔(فرقان/۵۴)

اسلامی شریعت نے اس جنسی غریزہ کےلیے قید و شرط اور ایک خاص حد معین کی ے جس کی  ہر شخص پابندی نہیں کرتا۔ لہذا اگر خاندان و نسل اور انسانی شرف کی حفاظت کی غرض سے شرعی شادی کے بغیر جنسی رابطہ برقرار کیا جائے تو حرام ہے۔

لیکن مغربی سماج میں جوان ونوجوان بغیر کسی قید وشرط کے نہایت آسانی کے ساتھ جنسی عمل انجام دیتے ہیں اور نہ صرف اس کو برا نہیں سمجھتے بلکہ ایک طبیعی امر سمجھتے ہیں اور اس پر ان کی خوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ وہ اس عمل میں اس درجہ آگے بڑھ چکے ہیں کہ حیوانات کی طرح بلکہ حیوانات سے بھی برے اور قبیح ڈھنگ سے زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اگر کوئی مرد شادی کرے اور بیوی کو باکرہ پائے تو اسے تعجب ہوتا ہے اور وہ اس کو ایک غیر معمولی بات سمجھتا ہے۔

لیکن مسلمانوں کے ہاں مطلب بالکل مختلف ہے زن و مرد کا ایک جگہ جمع ہونا منعہے۔ مگر خاص خاص مواقع پر حجاب اسلامی کے ساتھ ممکن ہے یعنی عورت کو چہرہ اور کلائیوں تک ہاتھ کے سوا کوئی حصہ کھلا نہ ہو۔

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اولاد کی تربیت ہے خصوصالڑکیاں اس طرح پرورش کیجاتی ہیںکہ وہ پردہ اور حیا وشرم کی پابند ہوں۔ بکارت یا کنوارا پن عفت و شرافت کا معیار ہے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی شوہر کے  گھر جاتی ہے۔ لیکن جنسی عمل کے متعلق کچھ نہیں جانتی اسی طرح مرد بھی نا واقف ہوتا ہے۔

البتہ یہ مطلب اس اسلامی سماج میں جہاں احکام شریعت پر عمل ہوتا ہے صادق آتا ہے۔ یا یوں کہوں تو بہتر ہوگا اسلامی آئیڈیل سماج میں ہوتا ہے جو آج کے زمانہ میں سوائے ایک خواب کے کچھ اور نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس پر عمل اگر

 محال نہ ہو تو دشوار ضرور ہے۔

بہر حال جوان چاہے لڑکا ہو یا لڑکی جسمانی اورجنسی رشد و کمال کے وقت اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ حتی کہ ممکن ہے گھر والوں کی شدید نگرانی کی صورت میں ہم جنس پرستی کا شکار ہوجائے  جو خطرناک امراض کا باعث ہونے کے علاوہ خاندان اور بالاخر سماج کی ویرانی کا اصلی عامل ہوگا۔

بہر حال مغربی معاشرہ میں جنسی عمل کو انجام دینے میں، افراط سے کام لیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس نے حیوانی شکل اختیار کرلی ہے۔ اور عورت و مرد کو حق حاصل ہے کہ وہ جس طرح اور جس کے ساتھ بھی آتش شہوت کو ٹھنڈا کرنا چاہیں کریں، حتی کہ شادی شدہ ہی کیوں نہ ہوں! اور دوسری طرف اسلامی اور عربی معاشرہ میں تفریط سے کام لیا گیا ہے۔یہاں تک کہ اسلامی معاشرہ نفسانی مشکلات کا شکار ہوگیا اور عورت مرد کے درمیان شرعی رابطہ بھی مشکل ہوگیا۔ اور اس سے بھی بالاتر اسلامی مذاہب کے فقہاء نے (سد باب الذرایع) کے عنوان کے تحت زنا کے مراکز کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاکہ خود ان کے خیال میں لا ابالی جوان پاکدامن مسلمان عورتوں اور با عفت لڑکیوں پر حملہ نہ کریں۔ لیکن اس نے نہ صرف مشکل کو حل نہیں کیا بلکہ سماج کھلی ہوئی بے راہ روی اور فساد کی طرف بڑھ گیا ہے۔

اسلامی سماج میں عورت کی مظلومیت

عورت آج بھی اسلامی اور عربی سماج میں مظلوم ہے۔

شاید مسلمانوں کو ابھی تک نہ معلوم ہو کہ عورت بھی جسم، روح، فکر، قلب، شعور اور جذبات رکھتی ہے اور کسی ایسے شرف اور عزت کا مرو مدعی نہیں ہوسکتا جو عورت کے پاس نہ ہو۔

خداوند عالم نے قرآن میں عورت ومرد کے درمیان مساوات قرار دی ہے اور فرماتا ہے:

اے انسانوں! ہم نے تمہیں مرد و عورت کی شکل میں خلق کیا اور تمہیں قوم اور قبیلوں میں قرار دیا تاکہ پہچانے جاؤ(لیکن جان لو) کہ خدا کے نزدیک تم میں سب سے محترم پرہیز گار شخص ہے۔(حجرات/۱۳)

دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

پس ان کے خدا نے ان کی دعا کو مستجاب کیا ( اور فرمایا) میں تم سے مرد ہو یا زن کسی کے بھی عمل کو ضائع نہ کروں گا۔ لوگوں میں بعض، بعض، پر فضیلت رکھتے ہیں۔(آل عمران/۱۹۵)

ہاں ہم انکار نہیں کرتے کہ خداوند عالم نے مرد کو عورت پر ایک درجہ فوقیت دی ہے اور وہ بھی خاندان کی ذمہ داری اور دوام کی خاطر اور اس کا فضیلت سے کوئی ربط نہیں ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے:

عورت و مرد کے ایک دوسرے پر جائز حقوق ہیں لیکن مرد عورتوں پر

ایک درجہ برتری رکھتے ہیں اور خداوند عالم حکیم و قادر ہے۔(بقرہ/۲۲۸)

خداوند عالم کی حکمت اس بات کی متقاضی ہے کہ عورت و مرد حقوق اور واجبات میں مساوی ہوں۔ چنانچہ یہ اس کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ ذمہ داری سنبھالنا مردوں کے حوالہ کرے اس لیے کہ اس نے مرد کے اندر اس کی قوت پیدا کی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے ۔ خوف و وحشت کے حالات میں مرد، عورت کے لیے پناہ گاہ ہے۔ اور اسی مرتبہ نے مرد پر جہاد کو واجب قرار دیا ہے۔ جب کہ عورتوں پر جنگ وجہاد واجب نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ کبھی خدا نے عورت کی حفاظت اور نگہبانی  کے لیے بھی جہاد کر مرد پر لازم و واجب قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:

تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ راہ خدا میں، ناچار مردوں، عورتوں اور بچوں کے حق میں جہاد نہیں کرتے۔( نساء/۷۵)

یہ وہ چیز ہے جو ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوتی ہے اور اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ خداوندعالم نے مردوں کو عورتوں پر برتری دی ہو۔ چنانچہ ممکن ہے کہ ایک مرد لاکھوں، عورتوں سے بہتر ہو اور یہ بھی ممکن ہے روز قیامت خدا کے نزدیک ایک عورت لاکھوں مردوں سے بہتر ہو۔

اور اس کے بعد ہمارے لیے رسول خدا(ص) کا اسوہ حسنہ ہے۔ جنھوں نے عورتوں کے ساتھ وہ نیک برتاؤ کیا کہ جس کی نظیر دنیا نے نہیں دیکھی ۔ آنحضرت(ص) نے اپنی تمام عمر میں کسی بھی زوجہ کی پٹائی نہ کی گرچہ ان میں بعض سے خوش نہ تھے۔ اور ہمیشہ عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کو احسان کرنے کی تاکید کرتے رہے۔

ان باتوں کے باوجود مسلمانوں میں آج بھی جاہلیت کا وہ جذبہ باقی ہے۔

آپ آج کل سنتے ہوں گے کہ فلاں شخص نے اپنی بیوی کو صرف اس لیے

طلاق دے دی کہ اس نے لڑکا نہیں پیدا کیا۔ اور آج قرآن  کے صرف اس نعرہ کر مرد زیادہ بلند کرتے ہیں (واضربوہن) ان کی پٹائی کرو۔ یا یہ کہ عورت فتنہ ہے! یہ شیطان ہے! ذلت و رسوائی کا سبب ہے!

عورت کو ہم مسلمانوں کےدرمیان آج بھی پسماندہ رکھاگیا ہے۔ اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تعلیم حاصل کرے اور بعض اجازت نہیں دیتے کہ باپ کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے یہاں تک کہ شوہر کے گھر یا پھرقبر کی طرف جائے۔ اور بعض جھوٹی یا ضعیف حدیثیں جوانوں اور روشن خیال افراد کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ آںحضرت(ص) نے فرمایا: عورت کے لیے بہترین چیز یہ ہےنہ کوئی مرد اسے دیکھے اور نہ وہکسی مرد کو دیکھے۔

یہ کون سی آئیڈیالوجی ہے جو قرآن کی سراسر مخالف ہے۔ اس لیے کہ قرآن نے عورت کو آزادی دی ہے اور اسے بھی مردوں کی طرح حقوق بخشے ہیں وگرنہ کیا معنی تھا کہ خداوند عالم فرماتاہے:

اے رسول(ص) مومنین سے کہہ دیجئے کہ اپنی آنکھوں کو نامحرموں سے بچائیں اور اپنے دامن کو (حرام) سے محفوظ رکھیں اور یہ ان کے لیے بہتر اور زیادہ پسندیدہ ہے۔

اور جو کچھ وہ کرتے ہیں خداوند عالم اس سے آگاہ اور واقف ہے اور مومنہ عورتوں کے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نامحرموں سے بچائیں اور اپنے دامن کو محفوظ رکھیں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود بخود ظاہر ہو جاتا ہو۔(نور/۳۰ـ۳۱)

اور یہ عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے کی آزادی پر سب سے بڑی دلیل ہے۔ ( اس سے مراد عورت کا اصل باہر نکلنا ہے نہ کہ شوہر کی اجازت کے بغیر کہ یہ ناجائز ہے) اور اگر ان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ گھر سے باہر اپنی نگاہوں کو نامحرموں سے بچائیں اور دامن عفت کو محفوظ رکھیں تو مردوں کا بھی یہی فریضہ ہے۔

لیکن افسوس اسلامی سماجمیں آج بھی جاہل عربی فکر نظر آتی ہے۔ اور قرآن نے مسلمانوں کے لیے جس مرتبہ کا اقرار کیا تھا انھوں  نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور سارے حقوق اپنے لیے مخصوص کر لیے۔ عورتوں کو حتی کہ ان کے شرعی حقوق سے بھی محروم کردیا۔ اور ان کےلیے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا۔

میں مبالغہ سے کام نہیں لیتا اگر کہوں کہ ہماری پسماندگی کا سبب وہ ظلم ہے جسے ہم نے اپنی عورتوں پر روا رکھا ہے اور ان پر تمام دروازے بند کردئے ہیں یعنی نہ ثقافت ، نہ تعلیم، نہ ارتباط۔ نہ باہر جانا، نہ آزادی، نہ انھیں اختیار ہے کہ وہ اپنا شریک زندگی کا خود انتخاب کریں۔ زیادہ دور کی بات نہیں ہماری عورتیں شادی تو کرتی تھیں لیکن انھیں انتخاب و اختیار کا حق حاصل نہ تھا اور پھر اختیار ہوتا بھی تو کس طرح وہ کسی کو پہچانتی ہی نہ تھیں۔

اسی طرح عورت کو شب زفاف یہ پتہ چلتا کہ اسے ایسا شوہر نصیب ہوا ہے جو اس کے باپ کا ہم عمر ہے اور وہ مجبورا اس کے آگے سر تسلیم خم کردیتی ہے۔ ساتھ ہی اپنی بدقسمتی پر گریہ و غصہ کرتی اور اس کے جواب میں اس سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے تمہارے لیے چاہا ہے۔ لہذا سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں ہے! اور وہ بھی دودھ دینے والی  گائے کی طرح بچہ دینے، دودھ پلانے اور ان کی تربیت کرنے میں مشغول ہوجاتی ہے۔کیوںکہ اس کے شوہر کو زیادہ بچے اچھے لگتے ہیں۔

زیادہ عرصہ نہیں گذرتا کہ میاں بیوی کے درمیان شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے ۔ کیوںکہ شوہر اس سے عمر میں کافی بڑا ہوتا ہے اور اس کی شرعی ضرورت کو پورا کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ غالبا شوہر بھی اسے ترک کردیتا ہے۔ اور خواہشات کے طوفان کے مقابل اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ اور اس اندیشہ کے پیش نظر کہ اس کی خوبصورت اور جوان بیوی پر کسی کی نظر نہ پڑے اس کے گھر سے باہر نکلنے پر مکمل

پابندی لگا دیتا ہے تاکہ نہ وہ کسی کو دیکھے اور نہ ہی اسے کوئی دیکھے۔

لیکن بہر حال ہمیشہ یہ صورت باقی نہیں رہتی اور جنسی خواہش اس عورت پر غالب آتی ہے اور پہلی فرصت جو اس کے ہاتھ لگتی ہے( خواہ رد عمل کے عنوان سے ہی کیوں نہ ہو) غیر مرد کے ساتھ ناجائز عمل کی مرتکب ہوتی ہے۔ بلکہ ممکن ہے شادی شدہ عورتیں عاشق و محبوب رکھتی ہوں۔ اسی طرح شادی شدہ مرد بھی غیر عورتوں کے ساتھ ناجائز روابط رکھتے ہوں اور حرام راہ سے بے گناہ بچے پیدا ہوں۔ اور سماج کو مشکلات اور فساد و تباہی میں مبتلا کردیں اور اس طرح عظیم انسانی اقدار پامال ہوجاتے ہیں اور اسلامی سماج کی فضیلت فنا ہو جاتی ہے۔ خیانت بڑھنے لگتی ہے، زنا، فحاشی، رذیلت، بدبختی، بربادی، فضیلت و اعلی اقدار کی جگہ لے لیتی ہیں۔

افسوس  یہ وہی چیز ہے جو ہمارے سماج میں پیدا ہوگئی ہے ہمیں اس دردناک حقیقت پر توجہ دینی چاہئے اور شتر مرغ کی طرح اپنی گردن کو ریت میں چھپانے اور آنکھوں کو بند رکھنے سے گریز کرنا چاہئے۔

میں جس روز سے اسلام کو پہچانا ہے اور سمجھا کہ بہترین شریعت یہی ہے، اسی روز سے عورتوں کی آزادی کے لیے فریاد کررہا ہوں۔اورتمام کانفرنسوں، نشستوں اور تحریروں میں عورتوں کی ترقی کا خواہاں رہا ہوں اور وہ اس لیے کہ انسانی سماج کا آدھے سے زیادہ حصہ عورتوں پر مشتمل ہے۔ لہذا اگر آدھا سماج مفلوج ہوجائے گا اور معاشرہ کا آدھا حصہ اپنے فریضہ کو انجام دینے سے قاصر ہوگا تو نابود ہوجائےگا۔ کیوںکہ جس بدن کا ہاتھ اور پیر مفلوج اور ناکارہ ہوجائے وہ تباہ ہوجاتا ہے۔

عورتوں پر معاشرہ کا ظلم یہ ہے کہ ہم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ ہم کس طرح مردوں کی جنسی خواہش کو پورا کرسکتے ہیں۔ اور (سد باب الذرائع) کے

عنوان سے فحاشی  کے عمومی مراکز مروں کی شہوت رانی کےلیےکھول دیئے گئے ہیں۔ اور بجائے اسکے اس کو قیبح اور برا سمجھیں، ایسی جگہوں پر جانے کو ایک مردانگی کی دلیل قرار دیتے ہیں۔

 بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے دوستوں کے درمیان ایسی جگہ پر آمد و رفت پر فخر ومباحات کرتے ہیں۔ ان بیچاری عورتوں سے ہم بستر ہوتے ہیں اور جس وقت گھر پلٹتے ہیں اور اپنی بہنوں کو کھڑکی سے لوگوں پر نگاہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے سروں پر قیامت مچادیتے ہیں اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے مردانہ لات و بکے سے ان کی ہڈی پسلی برابر کردیتے ہیں۔

یہ کیسے فقیہ ہیں جن کو ان مردوں کی جنسی خواہش کی تکمیل کی تو فکر ہوتی ہے لیکن انہوں نے ان عورتوں کی خواہش کی تکمیل کو نظر انداز کردیا؟ یہ کیوں اںصاف نہیں کرتے۔

میں عورتوں کے لیے ہرگز مغربی طرز کی آزادی کا خواہاں نہیں ہوں۔ مغرب تو فاسد و ملحد ہے اور کسی بھی انسانی و اخلاقی اقدار کا قائل نہیں بلکہ مطلق آزادی کا معتقد ہے!

لیکن میں معتقد ہوں کہ خدا اور رسول(ص) نے عورت کے لیے جو حدود معین کی ہیں یعنی حجاب، عفت، حرام سے نگاہوںکو بچانا اور دامن کو محفوظ رکھنا، باپ کے گھر میں جو حقوق بھائی کو حاصل ہیں، وہی بہن کو حاصل ہیں، اسی طرح گھر میں جو حقوق شوہر کو حاصل ہیں وہی بیوی کو بھی حاصل ہیں، اور اگر ہم اسکے قائل ہوگئے تو گویا ہم نے خود کو اور سماج کو پسماندگی سے نجات دیدی۔

لیکن (اہل سنت فقہاء) اگر صرف مردوں کا خیال کریں اور انھیں عورتوں کے انتخاب میں تو آزاد رکھیں اور عورتوں کا  کوئی خیال  نہ رکھیں تو یہ کھلی ہوئی بے انصافی ہے۔

اس وقت یہ دیکھنا ہے کہ کیا اسلام نے بھی یہی رویہ برتا ہے؟ کیا اسلام نےجن چیزوں کو مردوں کے لیے مباح جانا ہے اسے عورتوں کے لیے حرام قرار دیا ہے؟

جنسی مسائل کے متعلق رسول اسلام(ص) کے کثرت سے ارشادات موجود ہیں اس مشکل کے حل بھی بیان فرمائے ہیں جس  کے ذریعہ اسلامی سماج کو فساد فحاشی سے محفوظ کی اجاسکتا ہے آںحضرت(ص) نے فرمایا:

اے جوانوں ! جو بھی شادی کرسکتا ہے اسے شادی کر لینی چاہئے اس لیے کہ حرام سے دامن اور نگاہوں کو بچانے کے لیے (یہی) بہتر ہے  اور جو شادی نہیں کرسکتا اسے روزہ رکھنا چاہئے۔ (صحیح بخاری،ج۷، ص۳، کتاب النکاح۔)

یہ ان جوانوں کے لیے راہ حل ہے جو شادی کرسکتے ہیں۔ پس جو بھی شادی کرے چاہئے وہ مرد ہو یا عورت اس نے اپنے جنسی غریزہ کو محفوظ کر لیا اور شادی دونوں کے لیے راہ حل ہے۔ لیکن جو جوان شادی نہیں کرسکتے ان کی مشکل ویسے ہی اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ اور جب آںحضرت(ص) کے زمانہ میں ایسے جوان موجود تھے جو شادی کے لیے مالی امکان نہ رکھتے تھے جب کہ اس زمانہ میں شادی خرچ کے بغیر اور سادہ ہوا کرتی تھی، تو پھر آج کے جوان کے لیے کیا کہیں؟

آج شادی بہت مشکل ہے اس لیے کہ :

جوان چاہے لڑکا ہو یا لڑکی کم از کم ۲۵ سال تک تحصیل علم میں مشغول رہتا ہے اس کے بعد اسے کسی کام کی تلاش ہوتی ہے جس کےذریعہ وہ اپنی زندگی کے اخراجات پورے کرسکے۔ پھر اس کے بعد ایک گھر کو آمادہ اور تیار کرنا ہوتا ہے جس میں زمانہ کے لحاظ سے پورے وسائل موجود ہوں، پس کم از کم پانچ سال مسلسل تلاش و کوشش کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ شادی کرسکیں اس صورت میں شادی کے لیے جو سن ہوگا وہ ۳۰ سال ہے۔ پس وہ جوان مرد یا عورت جو ۱۵ اور بارہ

سال سے ہی شادی کے لحاظ سے جنسی غریزہ کی قدرت رکھتے ہیں لیکن ۳۰ سال تک شادی نہیں کرسکتے اس طولانی مدت میں کیا کریں؟ اگر یہ کہیں کہ وہ اس مدت میں راہب ہوگئے اور زہد سے کام لیا اور اصلا جنسی غریزہ کی فکر میں نہ تھے تو ہم نے اپنے آپ سے جھوٹ بولا۔ اس لیے کہ وہ بشر ہیں فرشتے نہیں ہیں۔ اور خاص کر اس زمانہ میں کہ جب زن و مرد کا ملنا جلنا بشری زندگی کی ضرورت بن چکا ہے۔ اس لیے کہ یونیورسٹیوں میں دونوں ہی ایک جگہ پڑھتے ہیں۔ کم سنی سے قطع نظر کہ وہاں بھی خلط ملط ہیں پھر کیا ہوگا؟

اس کا نتیجہ طالب علم بھی جانتا ہے، استاد بھی جانتا ہے اور اہل خانہ بھی!

راہ حل، موقت شادی(متعہ)

جیسا کہ ہم نے دو نمازوں کے یکے بعد دیگرے پڑھنے کے بیان میں عرض کیا تھا کہ خداوند عالم بشر کا خالق ہے اور وہی  انسان کا پالنے والا ہے، اور مہربانی و عطوفت کے تقاضے کی بنیاد پر چاہتا ہے کہ اس کےبندے آسانی اور آسائش کے ساتھ زندگی گزاریں اور انھیں مصلحتوں اور فائدہ کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے:

«أَ لَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الخْبِير»

کیا اس جہاں کا خالق نہیں جانتا جب کہ وہ خلقت کے تمام اسرار سے آگاہ ہے۔ ( ملک/۱۴)

لہذا عقل کیسے تصور کرسکتی ہے کہ خدا انسان کو مجبور بنائے اس میں شدید جنسی خواہش پیداکرے اور اس کے بعد اسے خواہش کی تکمیل کے جرم میںسنگسار کرے  یا کوڑے لگائے جانے کاحکم دے۔

کیا اس بات کا امکان ہے کہ ہم اس طرح کے احکام کو بیان کرنے کے بعد لوگوں کو اسلام کی طرف بلا سکیں؟ اور لوگوں سے کہہ سکیں  کہ خدا لطف کرنے والا اور مہربان ہے؟ یا خدا اپنے بندوں کے لیے آسانی چاہتا ہے؟ یا خدا ہر شخص کو اس کی قوت کے مطابق فرائض سپرد کرتا ہے؟ یا دین میں ہمارے لیے مشکل و مشقت قرار نہیں دی گئی؟ جب کہ ایسی بڑی مشکل کے لیے کوئی راہ حل پیش نہ کی گئی ہو؟

قبل اس کے کہ ہم دوسروں کو اس حقیقت کا قائل کریں کہ کیا ہم خود قائل

ہوگئے ہیں؟ نہیں ! اور ہزار بار نہیں! اس لیے کہ ممکن ہے جنسی عمل زور و زبردستی کے  ساتھ نہ ہو بلکہ زن و مرد کے مابین عشق و محبت بھی ہو اور ان میں مکمل موافقت اور رضامندی بھی پائی جاتی ہو چنانچہ اس صوررت میں کسی کو نقصان بھی ہوگا اس  لیے کہ وہ احتیاط سے کام لیں گے کہ حمل و ولادت کا مسئلہ پیش نہ آئے۔ پس ایسا شخص کیوں قتل کیا جائے جبکہ اس نے ایک عورت کی جنسی خواہش کو پورا کیا ہے جو شادی نہیں کرسکتی ہے اور اس کی حیاء عفت کو زنا و فحاشی گری سے باز رکھا ہے۔ اور خصوصا اس وقت جب کہ ہم عورتوں پر اپنے سماج کے ظلم و ستم کا اعتراف کرتے ہیں۔

لہذا اس میں شک نہیں کہ جس خدا نے مسافر اور مریض کو ماہ رمضان روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے یا مسافر کو اس بات کی اجازت ہے کہ نماز کو قصر یا بعض اوقات بیٹھ کر یا لیٹ کر یا مسلمان کو اس کی اجازت ہے کہ پانی نہ ملنے پر نماز کے لیے تیمم کرے اور زمین مطہر سجدہ گاہ قرار دیا ہے۔ یا اسی خدا نے اجازت دی ہے کہ مسلمان جان، مال، ناموس کی حفاظت کے لیے کفر کا اظہار بھی کر سکتا ہے یا اسی نے اجزت فرمائی ہے کہ ماہ رمضان کی شبوں میں مسلمان اپنی زوجہ سے ہم بستر ہو۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ عورت و مرد دونوں کے لیے مشکل ہے کہ ایک ماہ تک صحبت نہ کریں۔

لہذا اس نے فرمایا:

تمہارے لیے جائز اور حلال ہے کہ ماہ رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے مباشرت کرو۔ وہ تمہارا لباس اور تم ان کے لباس ہو۔خداوند عالم کو علم ہے کہ تم (اس کام میں ) نافرمانی کر کے اپنے نفس کو گناہوں میں ڈھکیل دیتے ہو۔ لہذا اس نے (ماہ رمضان کی شبوں) میں حرمت کے حکم سے درگزر کی اور تمہارے گناہ بخش دیئے پس اب تم اپنی زوجہ کے ساتھ ماہ رمضان کی شبوں میں ( حلال طور پر) مباشرت

کرسکتے ہو۔ 

      (بقرہ/۱۸۷)

پس جب ایسا ہے تو جس خدا نے اس جنسی خواہش کو خود خلق فرمایا اور اس کے ہیجان و انقلاب سے اچھی طرح واقف ہونے کے ساتھ سماج کی ویرانی میں اس کے خطرناک نتائج کے متعلق دوسروں سے زیادہ واقف ہے تو کیا خود اس نے سکوت اختیار کر رکھا ہے؟

اگر خدا نے عورت کے مرد کے لیے اور مرد کو عورت کے لیے خلق کیا ہے تاکہ ذہنی اطمینان اور روحی سکون حاصل ہو!

اگر خدا نے عورت و مرد کو مٹی سے خلق کیا اور اان کی ایک دوسرے کا ہمسر بنایاہے تاکہ قلبی سکون حاصل ہو!

تو اس کا مطلب ہے خداوند عالم نے اس خواہش کی تکمیل کے لیے جائز راہ حل بھی معین کی ہے تاکہ دونوں (مرد وعورت) محبت وعشق کے ساتھ ایک پر سکون زندگی گذاریں۔

مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ خدائے رحم نے اپنے بندوں (عورت ومرد) کو اپنے لطف، رحم اور کرم کا مورد قرار دیا ہے اور انھیں موقت شادی(متعہ) کی اجازت فرمائی ہے۔ اور یہ الہی رحمت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اس لیے کہ اصحاب اپنی ان تمام پارسائی و تقوی کے باوجود جنسی غریزہ کے شدید ہیجان پر صبر و تحمل نہ کرسکے اور آںحضرت(ص) سے شکایت کی اور آںحضرت(ص) سے خود کو نامرد بنانے کے اجازت طلب کی۔

بخاری نے اپنی صحیح میں قیس بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا: ہم ایک غزوہ میں آںحضرت(ص)  کے ہمراہ تھے لیکن ہماری بیویاں ساتھ نہ تھیں۔ ہم نے آںحضرت(ص) سے عرض کیا،کیا آپ ہمیں اجازت دیتے

ہیں کہ ہم خود کو خصی بنالیں اور اپنی مردانگی ختم کر ڈالیں؟

تو آںحضرت(ص) نے ہم کو سختی سے منع کیا اور پھر عورتوں سے موقت شادی (متعہ) کی ہمیں اجازت عطا فرمائی اور یہ آیت تلاوت فرمائی:

اے ایمان والوں جن پاک و پاکیزہ چیزوں کو خدا نے تمہارے لیے حلال کیا ہے اسے اپنے پر حرام نہ کرو۔(مائدہ/۸۷)

اللہ اکبر! خدا کا شکر ! خداوند عالم نے اپنے بندوں پر کس درجہ لطف و کرم کیا ہے اور ان  پر کس قدر مہربان ہے۔ جو بند وں کو خود کو نامرد بنانے سے منع کرتا ہے اور اجازت دیتا ہے کہ عورتوں سے متعہ کریں۔ اور انھیں متعہ کر حرام کرنے سے منع کرتا ہے اس لیے کہ یہ ان طیبات میں سے جس کو خدا نےان پر حلال کیا ہے۔

یہ بندوں پر خداوند عالم کی مہربانی کی دلیل ہے کہ وہ خود کو نقصان نہ پہنچائیں اور خود کو نامرد نہ بنائیں کہ یہ حرام فعل ہے۔

اس بنا پر جنسی عمل آدمی کی فطرت کا حصہ ہے اور اس کو باقی رکھنا چاہئے اور بہتر طریقہ سے انجام دینا چاہئے۔ نہ یہ کہ اپنے آپ پر زبردستی کر کے اسے گھونٹ دیا جائے جو کہ جسمانی اور نفسانی امراض کے وجود میں آنے کا باعث ہوگا۔

البتہ یہ سارے مسائل انھیں حدود کے اندر انجام پانے چاہئیں جن کو خدا نے متعین کیا ہے اور پیغمبر(ص) نے اس کے متعلق بیان کیا ہے۔

اور اب ہم ان سے کہتے ہیں کہ اس دعوے کو کوئی بھی عقل سلیم قبول نہ کرے گی۔ اس لیے یہ اجازت خداوند عالم کی جانب سے عطا ہوئی ہے جو مسلمان مرد و عورت کی جنسی خواہش کی مشکل کو حل کرتی ہے۔ کیا یہ مشکل حل ہوگئی ہے کہ اس اجازت کا خاتمہ ہوجائے؟ یا پھر رسول(ص) کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ خدا نے جس چیز کو حلال کیا ہے اسے حرام کردیں؟ یا پھر ممکن ہے اسلامی شریعت

میں اجازت دی گئی ہو اور ایک حلال کا حکم دیا گیا ہو پھر خدا اسے حرام کردے؟

نہیں ! خدا کی قسم ایسا نہیں ہے! خدا کی رحمت ہو امیرالمومین حضرت علی علیہ السلام پر کہ آپ نے فرمایا:

متعہ ایک رحمت ہے جس کے ذریعہ خداوند عالم نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا: اور اگر حضرت عمر اسےمنع نہ کرتے تو سوائے بدبخت و روسیاہ انسانوں کے کوئی زنا نہ کرتا۔

فی الحال ہمارا مقصد اس کی حلیت کو ثابت کرنا نہیں ہے اس لیے کہ ہم نے اپنی کتاب (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں اسے ثابت کیا ہے۔ ہم تو صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اہل بیت(ع) نے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں شایان تحسین، خدمات پیش کی ہیں۔ اور دین کو اس کے  قیمتی مفہوم کے ساتھ محفوظ رکھاہے تا کہ ہر زمانہ میں وہ اپنا سر اونچا رکھے اور ترقی کے ساتھ ہم آہنگ رہے۔

بہر حال مسلمانوں کو ایسی روش نہیں مل سکتی جو انھیں ہدایت و روشنی کی طرف لے جائے اور اہل بیت(ع) کے طرز و روش سے بہتر ہو۔ وہ مکتب کہ جو زمانہ کےساتھ چل رہا ہو اور ہر تمدن و ترقی سے متمدن ہو سوائے مکتب اہل بیت(ع) کے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ مکتب ہے جس کی بنیاد قرآن اور پیغمبر(ص) کی پاک سنت پر رکھی گئی ہے۔

آیا جو شخص دین حق کی راہ دکھاتا ہے زیادہ حقدار ہے کہ اس کے (حکم کی) پیروی کی جائے یا وہ شخص جو ( دوسروں کی ہدایت تو درکنار) خود ہی جب تک دوسرا اسے راہ نہ دکھائے، راہ نہیں دیکھ پاتا۔ تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کیسے حکم لگاتے ہو۔(یونس/۳۵)

موقت شادی(متعہ) کے فائدے

موقت شادی بندگان خدا یعنی مردوں اور عورتوں کے لیے رحمت ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی ہم نے عرض کیا ہے کہ مرد مطلق آزادی کے مالک ہیں اور عمومی مراکز( جس کی قانونی طور پر حمایت بھی ہوتی ہے) میں اپنی خواہش کی تکمیل بھی کرسکتے  ہیں حتی کہ چار عورتوں کو اپنے دائمی عقد میں لاسکتے ہیں اور پھر ان کے لیے موقت شادی کا مکان ہر جگہ اور ہر وقت ہے۔ لہذا میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ موقت شادی جس کی خدا نے اجازت فرمائی ہے اسلیے ہی کہ عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر ہوجائیں۔ اس لیے کہ یہ شادی اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ عورت بھی ایک یا دو اس سے زیادہ شوہر اختیار کرے البتہ عدت اور دیگر شرطیں جو کہ فقہاے مراجع کے توضیح المسائل میں موجود ہیں ان کو  پورا کرنے  کے بعد۔ اس جگہ پر عورت و مرد کے درمیان فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ مرد ایک وقت میں چار عورتیں رکھ سکتا ہے لیکن عورت ایک سے زیادہ شوہر نہیں کرسکتی۔ اس لیے کہ رحم میں دو مردوں کے مادہ منویہ کے مخلوط ہونے کا امکان ہے اور اس صورت میں اگر حمل قرار پائے تو بچہ کے باپ کی تعیین نہیں ہوسکتی لیکن مرد کے لیے یہ مشکل نہیں ہے چاہے اس کے پاس بیس عورتیں ہوں۔

اور یہ بندوں کے درمیان خدا کی سنت ہے کہ اس کو ہم حیوانات کے درمیان بھی مشاہدہ کرتےہیں،

خداوند عالم فرماتا ہے:

کوئی زمین پر چلنے پھرنے والا(حیوان) یا اپنے دنوں پروں سے

اڑنے والا پرندہ نہیں ہے مگر یہ کہ ان کی تمہاری طرح جماعتیں ہیں۔ (انعام/۳۸)

ایک روز ایک صاحب مجھ سے کہنے لگے اگر ایسا ہے تو یائسہ عورت(جسے حیض آنا بند ہو چکا ہو) جو قطعا حاملہ ہیں ہوتی، ایک وقت میں دو شوہر سے شادی کرسکتی ہے کیونکہ جو علت مانع تھی وہ ختم ہوچکی ہے۔

ہم نے کہا: ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلامی احکام علت پر موقوف نہیں ہیں جو علت ساقط ہونے سے ختم ہوجائیں! اگر ہم کہیں کہ شراب اس وجہ سے حرام ہے کہ وہ مست کردیتی ہے چنانچہ خداوند عالم فرماتا ہے:

مستی کی حالت میں نماز کے نزدیک نہ ہو تا کہ جو کچھ کہتے ہو اس پر متوجہ ہوجاؤ۔(نساء/۴۳)

تو اگر کوئی ایک یا دو کلاس شراب پیئے اور اس کی عقل پر اثر نہ ہوتو کیا شراب کی حرمت کا حکم ختم ہوگیا: نہیں! میرے عزیز دوست! زیادہ ہو یا کم نشہ آور تو نشہ آور ہے جب یہ زیادہ حرام ہے تو کم بھی حرام ہے۔

یا  مثلا ہم کہیں کہ سور کا گوشت اس لیے حرام ہے کہ وہ نجاست و کثافت ہے۔ تو کیا وہ اسٹرلایئز کرنے سے حلال ہوجائے گا؟ اور پھر خداوند عالم کے احکام صرف ایک علت میں مختصر نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ممکن ہے ہر چیز کےلیے متعدد علتیں ہوں اور انھیں سوائے خدا کے اور کوئی نہ جانتا ہو۔

لہذا احکام الہی کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاہیے اور ان کی پوری پوری اطاعت کرنا چاہئے اس لیے کہ اس نے جو بھی حکم دیا ہے اس میں سوائے بندوں کی بھلائی اور کامیابی کے کچھ نہیں ہے:

کیا یہ لوگ تم سے بھی زمانہ جاہلیت کے سے حکم کی تمنا رکھتے ہیں حالاںکہ یقین رکھنے والوں کے لیے حکم خدا سے بہتر کون ہوگا۔(مائدہ/۵۰)

یہ حکم خدا ہے جو وہ تمہارے درمیان صادر کرتا ہے اور خدا بڑا واقف کار و حکیم ہے۔(ممتحنہ/۱۰)

اس بنا پر مومنین کو چاہئے کہ آنکھ کان بند کر کے خدا کے حکم کی اطاعت کریں اور اسے دل وجان سے قبول کریں۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ہے اور نہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول(ص) کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام (کے کرنے نہ کرنے) کا اختیار ہو اور ( یاد رہے کہ) جس شخص نے خدا اور اس کے رسول(ص) کی نافرمانی کی وہ یقینا کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہوچکا ہے۔(احزاب/۳6)

مومنین ومومنات کے اوپر فرض ہے کہ متعہ کے متعلق حکم خدا کو قبول کریں اور خدا کی اس بڑی رحمت پر شکر کریں خصوصا عورت کہ اس وقتی شادی میں خدا نے تمام حقوق اس کے ہاتھ میں قرار دیئے ہیں اور مرد کو سوائے قبول یا انکار کے کوئی حق نہیں دیا ہے۔

دائمی شادی میں ہم بستری کا حق مرد کے ہاتھ میں ہے اور اگر شوہر نے عورت سے ہم بستر ہونا چاہا تو عورت کو انکار کرنے کا حق نہیں ہے حتی کہ وہ شرعا مستحبی روزہ بھی اس کی اجازت کے بغیر نہیں رکھ سکتی۔

خداوند عالم فرماتا ہے:

تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس جس وقت تم چاہو ان سے مباشرت کرسکتے ہو۔(بقرہ/۲۲۳)

اسی طرح طلاق کا حق مرد کو دیا ہے۔

اے رسول، مسلمانوں سے کہہ دیجئے) کہ جب تم اپنی بیویاں کو طلاق دو تو ان کی عدت (پاکی) کے وقت طلاق دو۔( طلاق/۱)

اسی طرح عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرنے کا حق مرد کو دیا ہے اور فرمایا ہے:

اوراگر ان کے شوہر میل جول کرنا چاہیں تو وہ مدت (مذکورہ) میں ان کے واپس بلا لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔(بقرہ/۲۲۸)

طلاق (رجعی جس کے بعد رجوع کیا جاسکتا ہے) دو ہی مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو شریعت کے موافق روک ہی لینا چاہئے یا حسن سلوک سے (تیسری دفعہ) بالکل رخصت۔ ( بقرہ/۲۲۹)

دوسری جگہ فرمایا :

اور عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو  دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو۔ (نساء/۳)

لیکن وقتی شادی (متعہ) میں ساری چیزیں عورت کے ہاتھ میں ہیں، اس میں وہ طے کرتی ہے حتی خطبہ نکاح وہی پڑھتی ہے اور کہتی ہے: میں اپنے آپ کو تمہاری زوجیت میں قرار دیتی ہوں، معین مہر اور معین وقت کے لیے۔ ( نیز وہ دیگر شرطوں کو اضافہ بھی کرسکتی ہے اور اس کے جواب میں مرد کو کہنا ہے ک میں قبول کرتا ہوں یا رد کرتا ہوں۔ پس عورت ہی اس شادی کی تاریخ معین کرتی ہے اور وہی طلاق کی مدت کو بغیر کسی قید و شرط کے بیان کرتی ہے۔

اور اس وقت عورت جو شرط چاہے کرسکتی ہے مثلا یہ شرط کرے کہ اس شادی کی تمام مدت میں تم مجھ سے الگ نہیں رہ سکتے یا یہ کہ ہنی مون مکہ مکرمہ میں منائیں گے۔

اہم یہ ہے کہ اس شادی میں عورت جو چاہے شرط کرسکتی ہے خداوند عالم فرماتا ہے:

جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو تو انھیں جو مہر معین کیا ہے دے دو اور

مہر کے مقرر ہونے کے بعد اگر کم و بیش پر راضی ہوجاؤ تو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں ہے اور جان لو کہ خدا ہر چیز سے واقف اور حکیم ہے۔ (نساء/۲۴)

عورت کی شرافت کے لیے یہی بس ہے کہ نکاح متعہ خود اس کی جانب سے ہے اور اس کے ولی امر سے اس کا کوئی ربط نہیں ، با الفاظ دیگر عورت خود مرد سے عقد کرتی ہے اور اس سے شادی کرتی ہے۔

لیکن افسوس مسلمان اس ازدواج کو صرف تنقید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے بہت تھوڑے سے منفی پہلو پر تو نگاہ رکھتے ہیں لیکن اس کے بہت سے مثبت پہلو کو نہیں دیکھتے ۔

حقیقت یہ ہےکہ ہر کام کے مثبت اور منفی پہلو ہیں اور چونکہ یہ ازدواج حضرت عمر بن خطاب کے زمانہ سے کھل کر سامنے نہ آسکا اس لیے عمل کی منزل مٰیں نہ آیا یہی وجہ ہے کہ بعض اسے زنا سمجھتے ہیں اور اسے تعجب و نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہےکہ متعہ در اصل ایک برا کام ہے ہرگز نہیں ! افسوسف کہ لوگ اسے نہیں سمجھتے اورعمل نہیں کرتے۔

بطور مثال دو نمازوں کے یکے بعد دیگرے پڑھنا یا خمس دینا پیر کا مسح، جبکہ یہ تینوں چیزیں قرآن میں ہیں اور رسول(ص) نے ان پر عمل کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اس سے بے خبر ہیں اور تعجب کرتے ہیں اس لیے کہوہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اس سے آشنا نہ تھے اور انھیں پہلے سے اس کی واقفیت بھی نہ تھی۔

تعجب تو اس بات پر ہے۔ کہ زنا پر اس درجہ حیرت نہیں کرتے جتنا متعہ پر کرتے ہیں حتی کہ ایک برے کردار والی لڑکی نے ایک جوان سے زنا کرنے کو کہا تو اس جوان نے زنا سے گریز کرتے ہوئے کہا آؤ اس کےبجائے متعہ کرلیں تو عورت نے قبول نہ کیا اس لیے کہ وہ اس قسم کی شادی سے واقف نہ تھی۔

تحصیل صرف ساتھ بیٹھنے، دوستی، یا پھرہم بستر ہوئے بغیر لذت اٹھانے کی غرض سے وقتی شادی کرلیں تو پھر اس کے بعد اگر چاہیں تو دائمی نکاح بھی کرسکتے ہیں اس صورت میں وقتی  شادی (متعہ) ان دونوں کو ایک دوسرے سے آشنا ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ اور راستے کی تمام رکاوٹوں کو ختم کردے گی۔

اس طرح یہ عقد ان کے لیے راحت و آسائش کے اسباب فراہم کردے گا، وہ آسانی کے ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گے۔ اور اس صورت میں ان کا ضمیر بھی مطمئن ہوگاا نیز انھیں خدا کی رضایت بھی حاصل رہے گی اور وہ دیگر طالب علموں کے اعتراض سے بھی محفوظ ہوجائیں گے۔

لیکن افسوس یونیورسٹی کی طالبہ ایک ہاتھ سے دوسرے کے ہاتھ منتقل ہوتی رہے۔ اور اس کے پرس میں دسیوں عشقیہ خط موجود ہوں یا دیگر رسوائی کی چیزیں۔ یا پھر جوان لڑکے، لڑکیوں کے مقدر سے کھیلتے رہیں اور سب کو آلودہ کرتے رہیں اور ان کے مستقبل کو کھلونا بنالیں اور ان کے جذبات کے ساتھ ان کے گھر والوں کے جذبات کا بھی مذاق اڑائیں۔ وہ بس اتنا سوچتے ہیں کہ یہ لڑکی دوران تحصیل علم ان کی دوست تھی اور اس کا زمانہ ختم ہوتے ہی وہ اپنی راہ جائے گی اور یہ اپنی راہ۔ خواہ اس کی طرف دسیوں انگلیاں اٹھیں یا اسے دسیوں حل نہ ہونے والی نفسیاتی مشکلات کے ساتھ گھر روانہ کردیں اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں !!

اور یہ بھی ممکن ہے کہ جھوٹے وعدے بھی ہوں، خیانتیں بھی ہوں جس کا نتیجہ سماج کے اندر سوائے کینہ، کدورت اور انتقام کی راہ کھلنے  کے اور کچھ نہ ہوگا۔ لہذا اس طرح کا رابطہ معقول نہیں ہے!

۲ـ وہ مسافر جو بیوی کے بغیر طویل مدت تک سفر میں رہتا ہے، اگر صبر کرسکتا ہے تو کرنا چاہئے وگرنہ اسے وقتی شادی(متعہ) کرنا چاہئے جو کہ اس کے لیے

صبر و قرار کا باعث ہوگا۔ اور بلا شبہ بیوی اس بات کی اجازت دے گی اس لیے کہ وہ اپنے شوہر کو اچھی طرح پہچانتی ہے اس کا شوہر ہر روز طوائف اور بازاری عورتوں کے پیچھے جائے جو اس سے پیسہ بھی لیں اور خطرناک امراض بھی اسے منتقل کریں اس سے اس کے لیے کہیں بہتر ہوگا کہ اس کا شوہر شریف و پاکدامن عورت  سے عقد کر لے جو اس کی شرافت کو محفوظ بھی رکھے گی۔ وقتی شادی کے شرائط میں یہ بھی ہے کہ عورت عدت کےمکمل ہونے سے پہلے دوسری شادی نہیں کرسکتی یعنی( دو حیض یا دو ماہ تک اسے دوسرا شوہر اختیار کرنے کا حق نہیں ہے) لہذا یہ عقد سوائے طہارت، پاکدامنی اور شرافت کے اور کچھ نہیں ہے۔

۳ـ یہ عقد ان لڑکیوں کی مشکل کو بھی حل کرتا ہے جو شادی کے سن کو تو پہنچ چکی ہیں لیکن انھوں نے شادی نہیں کی ہے انھیں اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ حلال راستے سے اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کریں۔

۴ـ  یہ عقد بیوہ عورتوں کی بھی مشکل کو حل کردیتا ہے کہ جو اپنے بچوں یا پھر دیگر اسباب کی بنیاد پر دائمی عقد نہیں کرسکتیں۔

۵ـ ہمارے عربی اسلامی سماج میں اکثر یہ اتفاق ہوا ہے کہ ایک خوبصورت بیوہ عورت ایسے جوان پر عاشق ہوتی ہے جو اس کے لڑکے کی عمر کا ہے اور افسوس! یہ جوان بھی اس کے ذریعہ جنسی مسائل سے واقف ہوتا ہے۔ ممکن ہے وہ حرام صورت میں ایک ساتھ رہتے اور ہم بستر ہوتے ہوں، وقتی شادی (متعہ) ان کی اس معاشرت و مباشرت کو حلال کردیتی ہے اور ان کی آبرو کو محفوظ رکھتی ہے۔

6ـ وہ عورت جو سفر کرنے سے ڈرتی ہے یا بعض ممالک صرف اس صورت میں اپنے یہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں جب ساتھ میں کوئی محرم ہو۔ تو یہ عورتیں صرف سفر کی غرض سے وقتی عقد(متعہ) کرسکتی ہے اور یہ عقد بغیر کسی جنسی اختلاط کے ایک مصلحت کےلیے ہوسکتا ہے۔

۷ـ وہ شخص جس  نےکسی عورت کو گھر کے کاموں میں بیوی کی مدد کرنے کے لیے رکھا ہے اسلام اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اسے ہاتھ لگائے یا بے پردہ اس کے روبرو ہو۔ اس لیے کہ شاید بے پردگی اسے کام سے  روک دے لیکن یہ شخص اپنے چھوٹے بچہ سے اس کو وقتی عقد کر کے اسے اپنے لیے محرم بنا سکتا ہے اور پھر بے پردگی کی مشکل نہ ہوگی۔

۸ـ اگر کوئی لڑکی جو درس و بحث یا زبان وغیرہ سیکھنے کی غرض سے کسی نامحرم جوان کے ساتھ تنہائی کے لیے مجبور ہے تو اسلام اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ دو نامحرم ایسی جگہ  ہوں جہاں کوئی اور نہ ہو۔

روایت میں ہے کہ کوئی بھی مرد عورت ایسے نہیں جو ایک ساتھ تنہائی میں ہوں اور ان میں شیطان تیسرا نہ بنا ہو۔

وقتی عقد(متعہ) اس مشکل کو حل کردیتا ہے حتی کہ اسے اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ وہ حجاب کو اتار دے۔اہم یہ ہے کہ عورت جو چاہے شرط کرسکتی ہے۔

دیگر مختلف موارد موجود ہیں کہ ان میں متعہ واقعا لوگوں کے لیے ایک رحمت ہے جس کی وجہ سے لوگ حرام سے محفوظ رہتے ہیں اور اسلامی سماج بھی ہر جہت  سے پاک و پاکیزہ رہتا ہے نیز جسمانی ونفسیاتی امراض بھی دور رہتے ہیں۔ اور اس کے ذریعہ نسلوں کی عزت و آبرو محفوظ رہتی ہے۔

اے رسول(ص) کہہ دیجئے خداوند عالم برے اور فحش کاموں کا حکم نہیں دیتا تو کیا جس کے بارے میں تم نہیں جانتے خدا پر (جھوٹ) باندھتے ہو۔ (اعراف/۲۸)

خدا نیکی، عدل اور اپنوں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے اور فحاشی، ظلم اور سرکشی سے روکتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پاؤ۔ (نحل/۹۰)

حضرت مہدی(عج)

عام طور پر مسلمان ماضی و حال دونوں میں ایک نجات دینے  والے کے آنے کے معتقد ہیں جو انھیں ان کی عزت و شوکت اور ان کی عظمت کو پلٹا دے اور جب چیزوں کو ظالموں نے تباہ کردیا ہے ان کی اصلاح کردے۔ وہ دین کی نشانیوں کو امت کے لیے پھر سے ظاہر کرے گا۔ اور یہ نجات دینے والا مصلح، حضرت مہدی منتظر(سلام اللہ علیہ) ہیں کن کےمتعلق ان کے جد رسول اکرم(ص) نے بشارت دی ہے اور فرمایا ہے:

اور دنیا کا وجود صرف ایک روزہ کے لیے رہ جائے تو بھی خدا اسے اس درجہ طولانی کردے گا کہ اس میں حضرت مہدی(عج) جو میری اولاد میں سے ہیں انھیں ظاہر کرے۔ ان کا نام میرے نام پر ہے وہ زمین کو عدل و اںصاف سے بھر دیں گے جبکہ وہ ظلم و ستم سے بھر چکی ہوگی۔

بشریت کا یہ نجات دہندہ جو انبیاء کی راہ کو آگے بڑھائے گا اور اسے کمال کی منزل پر پہنچائے گا تاکہ نور خدا اس کے ہاتھوں پوری طرح پھیل جائے،اس کا انتظار تینوں مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کررہے ہیں اور بہت سی روایات جو مورد تائید ہیں اس کے متعلق بیان کرتی ہیں۔ اور یہ جو ہم معتقد ہیں کہ شریعت محمدی(ص) آخری شریعت اور آخری آئین ہے آںحضرت(ص) کی ہی نسل سے اور بارہ اماموں کی آخری فرد ہیں اور حضرت عیسی(ع) ان کی عظمت کی خاطر ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

یہاں ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم حضرت مہدی(عج) کے متعلق تاریخی اور احادیث نبوی کی روشنی میں بحث کریں اس لیے کہ اس کے متعلق ہم نے اپنی کتاب (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) میں بحث کی ہے۔ اسی طرح آپ کے متعلق دیگر بہت  سے کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔

ہم یہاں صرف عقائد اور احکام میں اہل بیت(ع) کے نظریات بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے نظریات جو موجودہ زمانہ کی ترقی اور حالات کے ساتھ سازگار ہیں۔

مادی مسائل و مشکلات نے کسی حد تک یہودیوں، عیسائیوں، اور مسلمانوں کے آنکھ کان بند کردیئے ہیں اور ان کو دین سے دور کردیا ہے گویا وہ اپنی زندگی میں الحادی، مادی اور غیر جانبدار نظریات میں گرفتار ہیں۔ ان کا معنوی اور روحی عقیدہ کمزور پڑگیا ہے لہذا ایسی راہ حل کی تلاش میں تھے اور انھیں یہ راہ صرف آسمانی بشارتوں میں نظر آئی۔

اسے کے علاوہ وہ خونی جنگیں جنھوں نے بشریت کو ناتواں اور کمزور بنادیا ہے خصوصا وہ افراد جو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بھوک  سے موت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں لیکن ظالم ذرا بھی باز نہیں آتے بلکہ ان کی حرکتوں میں مزید تیزی آجاتی ہے وہ اور زیادہ تباہی اور ویرانی پھیلانے والے جدید ہتھیار تیار کرتے ہیں اور قوموں کو ثقافتی ، معاشی اور تکنیکی مراحل میں اپنا غلام بناتے جارہے ہیں۔

اگر آرزو نہ ہوتی اور مستقبل کے بہتر ہونے کی امید نہ ہوتی کہ جس میں کہ جس میں اسے عدالت و امن و امان و شرف حاصل ہوگا تو نہ اس دنیا اور نہ اس کی زندگی میں کوئی لذت ہوتی اور نہ ہی کوئی مفہوم ہوتا۔

اور اگر مسلمانوں کا خداوند عالم پر ایمان نہ ہوتا کہ اس نے اپنے دین کی

مدد کا وعدہ کیا ہے تاکہ اسے دیگر ادیان پ رفوقیت حاصل ہوتا  نا امیدی اور مایوسی لوگوں پر چھاجاتی اور وہ گھاٹا اٹھانے والوں میں ہوتے۔ لیکن یہ ایمان ہے جو نشاط، زندہ دلی، اچھے کل کی آرزو اور زندگی سے محبت کو انسان میں باقی رکھتا ہے ۔ اور ان کو مشکلات و پریشانی میں شدت کے بعد اس کے خاتمہ کے لیے  ظہور کے انتطار پر آمادہ رکھتا ہے۔

یہی حضرت مہدی(عج) ہیں جو مسلماںوں اور انسانیت کی آرزو ہیں۔

ان کے اوپر ایمان رکھنے پر دوسروں کو ہرگز مذاق نہیں اڑانا چاہیے خداوند عالم فرماتا ہے:

اے پیغمبر(ص)! میرے ایمان دار بندوں سے کہہ دیجئے جنہوں نے ( گناہ کر کے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں) تم لوگ خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہونا، بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور اپنے اسی پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اسی کے فرمانبردار بن جاؤ اس وقت سے قبل کہ تم پر عذاب آ نازل ہو اور پھر تمہاری مدد نہ کی جاسکے اور جو اچھی باتیں تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہیں ان پر چلو اس کے قبل کہ تم پر یکبارگی عذاب نازل ہو اور تم کو اس کی کوئی خبر بھی نہ ہو ( کہیں ایسا نہ ہو) کہ ( تم میں سے) کوئی شخص کہنے لگے کہ:

ہائے! افسوس میری اس کوتاہی پرجو میں نے خدا ( کی بارگاہ) کا تقرب حاصل کرنے میں کی اور میں تو بس ان باتوں پر ہنستا ہی رہتا تھا۔(زمر /۵۳ـ۵6)

اہل بیت (ع) کی کتاب

(پھر میں ہدایت پاگیا)

اہل بیت(ع)، صاحب کرامت ہیں اور اس وقت بھی ان کی کرامات جاری و ساری ہیں اور مختلف جگہوں پر ہم شیعوں کو اہل بیت(ع) کی کرامات بیان کرتے ہوئے سنتے ہیں، ایسی کرامات جن کے وہ خود شاہد و ناظر رہے ہیں۔ اور پھر ایسا کیوں نہ ہو یہ ہدایت کرنے والے ائمہ(ع) ، خدا کے علامتیں اور تاریکی کے چراغ ہیں۔ اگرچہ حضرت عمر بن خطاب نے اپنے زمانہ میں ان کی قدر و منزلت کو نہ پہچانا لیکن ہمیں یہ بتایا کہ یہ خدا کے نزدیک عظیم شان و مرتبہ کے حامل ہیں۔ اس لیے کہ خود  اںھوں نے رسول(ص) کے چچا جناب عباس(رض) سے توسل کیا۔ جب کہ عباس ان میں سے نہیں ہیں جن سے اللہ نے ہر نجاست و پلیدی کو دور کیاہو۔ اور پاک و طاہر قرار دیا ہو اور نہ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر درود بھیجنا خدا نے اسی طرح واجب کیا ہے جیسے رسول(ص) پر واجب کیا ہے۔ نہ ہی ان میں سے ہیں جن کی محبت و مودت کو خدا نے مسلمانوں پر واجب اور فرض قرار دیا ہے۔ وہ ان میں سے بھی نہیں ہیں کہ خدا نے انھیں علم کتاب عطا کیا ہے۔ اور قرآن میں ان پر سلام کیا ہے۔ اور فرمایا ہو ( سلام علی ال یسین) وہ ان ائمہ میں بھی نہیں جن کی پیروی رسول(ص) نے اپنی امت پر واجب قرار دی ہے۔ اور نہ ہی علم رسول(ص) کے وارث ہیں۔

لیکن اس کے باوجود خدا نے حضرت عمر بن خطاب کی دعا کو مستجاب کیا

کیونکہ انھوں نے رسول(ص) کے چچا کو وسیلہ بنایا تھا۔ اور اگر انھوں نے علی، فاطمہ، حسن، حسین،علیہم السلام سے توسل کیا ہوتا تو خدا آسمان و زمین سے اپنی نعمت ان پر نازل کرتا۔ اور وہ اپنے قدموں کے نیچے اور سر کے اوپر کثرت سے خدا کی نعمتیں دیکھتے اور استفادہ کرتے۔

اہم یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے ہمارے لیے ایک اہم چیز کشف کی اور وہ یہ کہ رسول(ص) کے اقرباء ، کرامات کے مالک ہیں جو صاحبان عقل سے پوشیدہ نہیں ہے اور اگر یہ خدا سے کوئی چیز طلب کریں تو یقینا خدا ان کی دعا مستجاب کرے گا، اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب نے دیکھا کہ مسلمانوں  کو قحط اور بھوک جیسے خطرات لاحق ہیں تو انہوں نے رسول خدا(ص)  کے اقرباء کی پناہ لی۔ اور اس وقت پروردگار عالم کی اجازت سے رسول(ص) کے اقرباء کے احترام میں بارش ہوگئی۔

ان روشن حقائق کے بعد، وہابیت بھلا کیسے انکار کرسکتی ہے اور وہ مسلمان جو خود کو حق کی شناخت سے دور کر لیتے ہیں کہاں ہیں؟

ان باتوں کے اوپر مجھے ایک قصہ یا د آتا ہے کہ مرحمو شیخ جلول جزائری جو، تیونس میں زیتونہ کے علماء میں شمار کئے جاتے تھے، خداوند عالم نے ان پر احسان کی اور میرے ذریعہ راہ ہدایت دکھائی۔ انھوں میں اپنی آخری کتاب تحریر فرمائی اور اس میں غدیر کا واقعہ،  امیرالمومنین(ع) کی بیعت اور اہل بیت(ع) کے فضائل تحریر میں لائے ہیں۔

انھوں نے مجھے ایک واقعہ بتایا :

گذشتہ زمانہ میں، تیونس کا ( دار الحکومت) سخت قحط میں گرفتار ہوا اور نزدیک تھا کہ لوگ ہلاک ہو جائیں، گرچہ کئی مرتبہ نماز استسقاء پڑھی گئی لیکن زمین ویسے ہی خشک پڑی رہی اور آسمان سے کوئی قطرہ نہ ٹپکا۔ لوگ اپنی فریاد لے کر ایک خدا پرست شخص بنام شیخ ابراہیم ریاحی کے

پاس آئے اور ان سے دعا کرنے کو کہا، کہ شاید ان کی دعا مستجاب ہو جائے۔

انھوں نے ان سے کہا :

اشراف (۹۰) میں سے (یعنی سادات بنی فاطمہ(س)) ۱۰۰ افراد کو اکٹھا کرو اور میرے پاس لاؤ تاکہ ان کے ساتھ نماز استسقاء پڑھیں۔ اشراف میں سے ۱۰۰ آدمی آئے اور انہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی۔ ابھی ان کی نماز تمام بھی نہ ہوئٰ تھی اور شدید گرمی پڑ رہی تھی لیکن ایسی تیز بارش آئی کہ گویا بادل پھٹ پڑا ہو۔ اور تین روز تک مسلسل بارش ہوتی رہی اور تمام درے پانی سے بھر گئے۔ یہ بھی اہل بیت(ع) کی کرامت ہے جو زماں و مکاں کی پابند نہیں ہے۔

بحمد اللہ میں نے اہل بیت(ع) کے مذہب کی ہدایت پانے کے بعد جو سب سے پہلی کتاب تحریر کی وہ (پھر میں ہدایت پاگیا) ہے مجھے اندازہ نہ تھا کہ وہ اس درجہ مشہور ہوگی اور لوگوں میں مقبول ہوگی۔

لہذا اس مناسبت سے بہتر ہوگا کہ ایک بہترین نکتہ کا تذکرہ کروں جسے میرے گرانقدر دانشور عزیز تھائی ڈاکٹر اسعد علی صاحب نے بیان کیا اور ہمیں متوجہ فرمایا :

جب میں ان سے ملاقات کی غرض سے (مزہ) (شام) گیا تو ان سے مختلف باتیں ہوئیں۔ ان کے کچھ دوست اور مرید بھی اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے انھوں نے ایک ایسی بات کہی جس سے میرا دل شاد ہوگیا۔ کہنے لگے ہم نے تمہاری کتاب (پھر میں ہدایت پاگیا) کو پڑھا اور اس کتاب کے راز کو سمجھ گیا۔

میں نے تعجب سے کہا :

کیسا راز؟

انھوں نے کہا: جس وقت پہلی مرتبہ تم امام موسی کاظم(ع) کی زیارت کو گئے

اور ان کے یہاں وارد ہوئے اور کہا:

خدایا اگر یہ صالح لوگوں میں سے ہیں تو ان پر رحم کر۔ انھوں نے بھی خدا کے حکم پر عمل کیا کہ وہ فرماتا ہے : پس اگر کسی نے تم پر درود بھیجا اور تمہیں سلام کیا تو تم بھی اس کے سلام کا جواب دو  یا پھر اس کے سلام سے بہتر جواب دو۔(نساء/۸6)

جب تم نے کہا خدایا ان پر رحم کر تو انھوں نے تمہیں اس سے بہتر جواب دیا اور خدا سے تمہاری ہدایت چاہی۔ اور کہا: (اللہم اہدہ) خداوند عالم نے بھی ان کی دعا کو مستجاب کیا اور تمہاری ہدایت فرمائی اور پھر تم نے یہ کتاب لکھی تمہاری کتاب کی کامیابی کا یہی راز ہے۔

یہ حقیقت ہے جس پر مجھے یقین ہے اور میرے دل میں راسخ ہوچکی ہے مجھے اس بات پر یقین ہے کہ اہل بیت علیہم السلام میری کتاب کی کامیابی کا راز ہیں جس میں کسی شک کی گنجایش نہیں ہے اور اس لیے کہ جس کو بھی  دیکھا وہ اس کتاب کے متعلق خوشی اور تعجب کا اظہار کرتا نظر آیا۔ یہ کتاب بیس بار سے بھی زیادہ چھپ چکی ہے۔ اور ستر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہے اور اس روئے زمین پر ہزاروں مسلمان، خصوصا افریقا جہاں پہلے شیعہ نہ تھا اور وہ مسلمان جو کوئی مذہب نہیں رکھتے اور اپنی فطرت کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں انھوں نے بھی اس کتاب کے ذریعہ ہدایت پائی ہے۔ اور اہل بیت(ع) سے متمسک ہوئے ہیں۔

ہے، پھر انٹیلی جنس کے افسر سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا: یہ شخص اپنے ساتھ ۳ ہزار کتاب لایا جو کفر سے بھری ہے اور دس کڑور کی رقم لایا ہے تاکہ لوگوں کے درمیان تقسیم کرے اور ان کو انقلاب اور سر کشی کے لیے بھڑکائے!

میں نے سخت لہجہ میں جواب دیا :

۱ـ میری کتاب کفر نہیں ہے اور انقلاب کی دعوت نہیں دیتی اگر ایسا ہوتا تو اس کا ایک نسخہ صدر جمہوریہ کو بطور ہدیہ نہ بھیجتا اور اصلا تیونس نہ آتا۔

۲ـ اگر تین ہزار نسخہ اپنے ساتھ لان چاہتا تو مجھے ٹرک کی ضرورت ہوتی جس پر اسے لادسکتا تھا۔ اور آپ نے اس گاڑی کو دیکھا ہے اور اس وقت آپ کے قبضہ میں ہے آپ خود اس میں بھرئیے اور دیکھئے اس میں کتنی جگہ ہے!

۳ـ آپ کہتے ہیں کہ میں نے دس کڑور کی خطیر رقم لوگوں میں تقسیم کی ہے اگر سچ کہتے ہیں تو ایک آدمی کو لائیے جو کہے میں نے اسے ایک پیسہ بھی دیا ہے۔

اور پھر میں چوری سے نہیں آیا ہوں بلکہ قانونی ڈھنگ سے آیا ہوں اور دیگر لوگوں کی طرح میری مکمل تلاشی لی گئی ہے۔ اگر دس کڑور میرے پاس ہوتا تو اتنی آسانی سے نہیں چھوڑتے اور مجھ سے جواز مانگتے آپ خود ان مسائل کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔

اسے لگا کہ میری باتیں صحیح ہیں، تو اس نے سوال کیا: تم کتنی جلد کتابیں لائے ہو۔

میں نے کہا: ۲۰۰جلد۔

اس نے کہا : تم نے جن ۲۰۰ لوگوں کوکتابیں ہدیہ کی ہیں ان کے نام بتاؤ۔

میں نے کہا : یہ ممکن نہیں ہے! ایسا نہیں کہ میں بتانا نہیں چاہتا بلکہ ان کے

 نام سے واقف نہیں ہوں۔ ان میں بہت سے میرے پرانے شاگرد ہیں کہ ۱۰ سال سے زائد عرصہ سے انھیں دیکھا نہیں ہے اور صرف قیافہ اور چہرہ سے انھیں پہچانتا ہوں نہ کہ نام سے۔

خلاصہ یہ کہ رائے ومشورہ کے بعد انہوں نے یہ طے کیا کہ آج شب مجھے رہا کردیں پھر کل صبح میں ان کے پاس آجاؤں، میں ان کے پاس دوسرے روز صبح اول وقت پہنچ گیا۔ مجھے ایک گاڑی پر سوار کیا گیا اور میرے ساتھ دو نگہبان بھی کردئیے کہ میں اطراف کے دیہاتوں میں جاؤں اور جہاں تک جانتا ہوں کتابیں لوگوں سے واپس لے لوں۔

راستے میں مجھے پتہ چلا کہ دونوں نگہبان بھی ہدایت پانے والوں میں سے ہیں۔ ان میں سے ایک نےکہا: استاد! آپ مجھے فراموش کردیا اور بھول گئے؟ میں آپ کا شاگرد ہوں۔ ۱۹۷۰ء کے بعد سے میں مدرسہ ( شیخ المعلمین) میں تھا۔ خدا کی قسم کل رات  مجھے نیند نہ آئی کیونکہ میں نے آپ کی کتاب مرکز سے حاصل کی تھی اور پوری پڑھ کر ڈالی اور اس وقت میں آپ کی طرح ہوں۔ ( یعنی شیعہ ہوں)

دوسرے نے کہا: میں بھی دور روز قبل آپ کی کتاب کا مطالعہ کیا اسے میرے ایک دوست نے مجھے دیا تھا۔ یقین جانئے میرے لیے اس کتاب نے بہت سی باتوں کو واضح کردیا وہ مشکلات جو میرے ذہن میں تھیں ان کو قائل کرنے والا جواب میرے پاس نہ تھا وہ آپ کی کتاب میں مل گیا پس میں بھی شیعہ ہوں۔

اس عجیب اتفاق پر میں ہنسا اور پورے راستہ میں ذرا بھی ٹھکاوٹ محسوس نہ ہوئی۔

لیکن جہاں تک ممکن تھا تین روز میں مختلف علاقوں سے کتابیں اکٹھا کر

لیں اور حکم کے مطابق جس کے پاس بھی کتاب ملی اسے پولیس اسٹیشن بلایا گیا۔

گورنر صاحب سے میں نے ملاقات کی۔ ایک مختصر گفتگو کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا: مجھے تم سے بہت ڈرا دیا گیا تھا اور تمہارے متعلق کہہ رہے تھے کہ یہ ایک کٹر شیعہ ہے جسے خمینی(قدس سرہ) کی طرف سے مدد حاصل ہے اور وہ بہنوں سے شادی کو جائز سمجھتا ہے!

میں مسکرایا اور بولا: اب مجھے یاد آیا شیر خوارگی کی وہ داستان جو اسی کتاب میں تحریر ہے۔ وہ بھی مسکرائے اور میز کی دراز سے کتاب کو باہر نکالا اور کہا: تم نے جو کچھ کہا وہ صحیح ہے لیکن میں تمہیں اس بات پر سرزنش کرتا ہوں کہ تم نے ایک نسخہ ہمیں کیوں نہ ہدیہ کیا؟

اگر تم اور پہلے جب (قفصہ) میں وارد ہوئے تھے کتاب مجھے دیتے تو ان مشکلات کا سامنا نہ ہوتا۔لیکن افسوس کہ بات اب ہماری قدرت سے نکل چکی ہے اور عدالت کی ہاتھوں میں ہے اور اب آخری فیصلہ انھیں کا ہوگا۔

اس کے بعد تم ہمارے پاس آؤ تاکہ تمہارا پاسپورٹ تمہارے حوالہ کردیں تاکہ سلامتی کے ساتھ سفر کرسکو۔

ان کی باتوں سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ان کے نزدیک ہماری بے گناہی ثابت ہوگئی اور وہ اس پروپگنڈوں کو سمجھ گئے اور اسی طرح یہ بھی معلوم ہوگیا کہ میری کتاب پیرس سے رئیس جمہوریہ کے پاس آئی ہے تو اس قضیہ کو عدالت کے حوالہ کردیا تاکہ صرف کتاب کے متعلق بحث کریں کہ آیا یہ کتاب دین اور نظام کے لیے خطرہ ہے یا نہیں؟

میں عدالت روانہ ہوا جبکہ ہدایت پانے والے ساتھیوں نے کہا کہ جن لوگوں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی  انھوں نے آپ کے متعلق سوائے بھلائی کے اور کچھ نہیں کہا۔

جو سوالات ان سے کئے گئے یہ ہیں:

۱ـ”تیجانی سے تمہارا کیا رابطہ ہے؟“

ـ ” وہ میرے دوست یا استاد ہیں۔“

۲ـ ”کیا تمہیں پیسہ بھی دیا ہے؟“

ـ ” ہمیں انھوں نے ایک پیسہ بھی نہیں دیا۔“

۳ـ ” کیا تم سے پیسہ مانگا؟“

ـ ” نہیں، مجھ سے کوئی پیسہ نہیں مانگا۔“

میں نے عدالت میں قاضی صاحب سے ملاقات کرنا چاہی۔ اجازت کے بعد ان کے پاس پہنچا، دیکھا میری  کتاب ان کی میز پر ہے۔

میں نے کہا : جناب عالی! اس کتاب کا مصنف ہوں اور صرف ایک ہفتہ کے لیے تیونس آیا تھا لیکن اس وقت ایک ماہ سے زیادہ ہے کہ میں کسی گناہ کے بغیر معطل ہوں میرے اعصاب پریشان ہیں اس لیے کہ میرے بیوی بچے اکیلے پیرس میں پڑے ہوئے ہیں!

وہ میری بات کو کاٹ کر کہنے لگے: میں پوری کتاب پڑھوں گا پھر حکم دوں گا، ابھی صرف تیسرا حصہ پڑھا ہے اور انشاء اللہ آج رات مکمل کرلوں گا پھر کل حکم دوں گا۔

میں نے کہا جناب عالی میں جلدی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا۔

انہوں نے کہا: کل بعد از ظہر آجاؤ۔

میں واپس آگیا۔ اور مقررہ وقت پر وہاں پہنچا اور دیکھا جج صاحب دروازہ پر کھڑے ہیں انھوں نے مجھے گلے سے لگا لیا اور خاص احترام کے ساتھ کہا: جناب ڈاکٹر صاحب! اس کتاب میں جو کچھ ہے اس کی میں تصدیق کرتا ہوں اور ان سب پر میرا ایمان ہے۔

الف) جغرافیہ اور سیاحت میں: رازی، ابو عبیدہ بکری، غروی، ادریسی، ابن جبیر اور ابن بطوطہ تھے۔

ب) علم ہیئت اور نجوم : طلیطلہ، قرطبہ، بغداد، دمشق، سمرقند اور فارس میں بڑے علمی رصد خانے تھے۔

ج) ہندسہ میں : گوستالوبون کہتا ہے : یورپ نے فن معماری عربوں سے حاصل کیا لہذا بعض فرانسیسی گرجا گھروں میں سنگ کاری کے اندر عربی خطوط کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔

و) ریاضی میں : سدیر یورپی مستشرق کہتا ہے: علم ریاضی پر عربوں کی خاص عنایت تھی اس میدان میں وہ واقعا ہمارے استاد ہیں۔ لونار والبیزی نے ( الجبرا) سے متعلق ۱۲۰۰ رسالے لکھے اور یہ سب کچھ اس نے عربوں سے حاصل کیا حتی کہ وہ اپنی کتاب (تاریخ عرب) میں لکھتا ہے : صفر جس نے ریاضی کی سب سے بڑی مشکل کو حل کیا وہ اندلس سے یورپ لایا گیا۔

ھ) فیزکس میں : ابن میثم اس علم کے استاد شمار ہوتے ہیں۔

و) کیمسٹری، صنعت، زراعت اور علم طب وغیرہ میں مسلمان ہی پیش پیش تھے اس کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ان کی طرف رجوع کریں۔ یہی کافی ہے کہ آج بھی مغربی یونیورسٹیوں میں بوعلی سینا کی کتاب(شفا) پڑھائی جارہی ہے۔

۲۲ـ نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر۴۳۷۔

۲۳ـ صحیح مسلم، ج۴، ص۱۹۸۷۔

۲۴ـ مسند احمد، ج۱، ص۲۲۷۔

۲۵ـ سورہ حج۔ آیت ۸۷۔

۲6ـ صحیح بخاری، ج۱، ص۲۷/ج۸،ص۳6۔

۲۷ـ مسند احمد ، ج۵، ص۳۳۳۔

۲۸ـ اگر صہیونیوں نے فلسطین پر قبضہ کر رکھا ہے تو بہت سے اسلامی ممالک پر اقوام متحدہ کے فرمانبرداروں اور کارندوں کا قبضہ ہے۔ من جملہ ان میں حجاز ہے۔ میں عراق سے اردن اور اردن سے حج کے لیے روانہ ہوا اور سات گھنٹے تک جدہ ایئرپورٹ پر معطل رہا، وہیں پر اندازہ ہوا کہ حاجیوں کے ساتھ کس قسم کا معاملہ ہورہا ہے۔ حجاج فریاد  بلند کررہے تھے۔ لیکن اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ ایئرپورٹ کے کارندے بدترین اور سخت ترین وریہ حجاج کے ساتھ برت رہے تھے۔ گویا کہنا چاہ رہے تھے کہ ہم بے نیاز ہیں اور ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے،جاؤ اور خیموں میں پڑے رہو، وہی خیمے جنھیں در اصل پورے امکانات کے ساتھ بلڈنگ کی صورت میں ہونا چاہیئے  تھا۔ اور حجاج کے آرام و آسائش کے اسباب مہیا ہونے چاہیے تھے جو کہ خود حاجیوں کے پیسے سے تیار کئے گئے ہوں۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہ پیسہ اور پیٹرول کا ایک بڑا حصہ امریکا روانہ ہوجاتا ہے تاکہ امریکی قوم اور صہیوںی اس سے فائدہ اٹھائیں اور ان کے آرام و آسائش میں فرق نہ پڑے پائے۔ اور فرانس کے سکہ (فرانک) کو قوت ملتی رہے۔

۲۹ـ مسند احمد، ج۵، ص۳۹۱، السنن الکبری، ج۱۰، ص۹۳۔

۳۰ـ صحیح مسلم، ج ۱، ص6۹،ح۷۸۔

۳۱ـ صحیح مسلم، ج ۱، ص6۹،ح۸۰۔

۳۲ـ کتنا دردناک ہے کہ مغرب میں تو سننے والے کان موجود ہیں لیکن اسلامی ملکوں میں دور دور تک ان کا پتا نہیں ہے۔

۳۳ـ نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر۵6،کیطرفرجوعکریں۔

۳۴ـ نووی کی ( ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمين) انور رفاعی کی

( الانسان العربی والحضارة) ڈاکٹر مصطفی سباعی کی ( روائع حضارتنا) اور محمد کرو علی کی( الاسلام و الحضارة العربية) اور بھی دیگر کتب موجود ہیں۔

۳۵ـ کتاب ( امام الصادق (ع) کما عرفہ علماء الغرب) ترجمہ ڈاکٹر نور الدین آل علی۔

۳6ـڈاکٹر ہاشمی کی ( الامام الصادق ملہم الکيمياء)ص۱۵6۔

۳۷ـ سورہ بینہ، آیت ۷۔

۳۸ـ مناقب خورزمی، ص6۲۔

۳۹ـ الدر المنثور ، ج۸، ص۵۸۹/تذکرةالخواص،ص۱۸۔

۴۰ـ گذشتہ حوالہ۔

۴۱ـ الدر المنثور، ج۸، ص۵۸۹/تذکرةالخواص،ص۱۸۔

۴۲ـ  ابن حجر کی الصواعق المحرقہ، ص۱6۱۔

۴۳ـ مناقب خوارزمی حنفی، ص6۲۔

۴۴ـ اور ہم شیعہ بھی ایسے ہی ہیں۔ لہذا جب ان سے کہتے ہیں کہ علی(ع) شہر علم کے باب ہیں تو فورا چیخ کر کہتے ہیں شہر علم کے کئی دروازے ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم حضرت کی شجاعت کا تذکرہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں آپ نے اسلام کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار  ادا کیا تو واویلا کرتے ہوئے شور مچائیں گے کہ تم تاریخ کو بلائے طاق رکھنا چاہتے ہو۔

اور ان تمام اسلامی فتوحات کو فراموش کرنا چاہتے ہو!

اور یہ باتیں اس صورت میں ہیں جب گفتگو ٹھنڈے انداز میں ہورہی ہو۔ لیکن شیعوں کے حق میں ظلم و ستم کے یہ پوری طرح موافق ہیں۔ جناب فاطمہ زہرا(س) کا گھر جلانا، امام حسین(ع) کے قتل کا فتوی علویوں (اولاد رسول(ص)) کا قتل، حلب

اور جامعہ الازہر کو سنی بن دینا، سادات اور اولاد رسول(ص) کا قتل عام، اور حج کے موسم میں سینکڑوں ایرانی زائرین خانہ خدا کا قتل، اسلامی جہمہوری ایران کے ساتھ جنگ، عراق کے مشہور علماء مثلا آیت اللہ سید محسن حکیم کے فرزندوں کا قتل، عظیم مفکر آیت اللہ سید باقر الصدر قدس سرہ کا قتل۔

ہم تو ان کو ایک مثبت گفتگو کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ حق اور اہل حق پہچانے جائیں لیکن وہ ہم کو چپ رہنے اور سکوت کا حکم دیتے ہیں ان سے ہمیں جو کچھ ملا وہ ہمارا قتل، ظالموں اور ستم گروں کے ساتھ تعاون، ظالم و جابر حکام و امراء کے دفاع کے سوا اور کیا تھا؟

۴۵ـ یہ بن نظمی صرف شیعوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہم بہت سی جگہوں پر دیکھتے ہیں کہ اہل سنت کے مختلف فرقے مساجد۔ ( بالخصوص مسجد النبی(ص) اور مسجد الحرام میں) اس مئلہ پر توجہ نہیں دیتے۔

۴6ـ جب حضرت امام خمینی(رح) پیرس میں تھے ایک روز نماز جماعت کی اہمیت اور صف کے متعلق لوگوں سے گفتگو کررہے تھے ان کےمن جملہ فرمودات جو میں بھول نہیں سکتا یہ ہے:

جب ہم بورسا(ترکیہ) شہر بدر کئےگئے تھے تو کبھی کبھی نماز جمعہ میں شرکت کرتے تھے اور میں اس نظم و صف بندی میں لذت محسوس کرتا تھا۔ اور کتنا دلچسپ تھا کہ امام کے تکبیر کہنے کے ساتھ ہی ایک لحظہ میں سب لوگ منظم صف کے ساتھ تکبیر کہتے تھے اور پوری نماز کے دوران اور اس کے بعد سوائے سانس لینے کی آواز کے کوئی اور آواز نہ آتی تھی۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ کیوں ہم شیعوں کے درمیان ایسی کیفیت نہیں پائی جاتی۔

۴۷ـ لیکن توجہ رکھنی چاہیئے کہ جو گناہ گار علی الاعلان گناہ نہیں کرتا اس کی بھی اقتداء نہیں کی جاسکتی۔

۴۸ـ گذشتہ اور عصر حاضر کے بعض علما بھی نماز جمعہ کو واجب جانتے ہیں اور اسے قائم کرتے ہیں مثلا آیت اللہ العظمی اراکی(رح) نے پچاس سال سے پہلے شہر قم نماز جمعہ قائم کی جبکہ اسی زمانہ میں بعض علماء نماز جمعہ قائم نہیں کرتے تھے۔(مترجم)

۴۹ـ سگریٹ نوشی کی مذمت بہتر اور پسندیدہ ہے لیکن مراجع کے لیے فریضہ معین کرنا ایک طرح کی افراط ہے جس سے خود جناب مصنف کو گریز کرنا چاہئیے علماء اپنے فرائض کو بہتر سمجھتے ہیں، البتہ جناب مصنف کی یاد دہانی بجا ہے اور اگر علماء اسے صریحا حرام نہیں کرتے تو بہتر ہے کہ اس سے اپنی نفرت کا قطعی اظہار فرمائیں اس لیے کہ اس کا نقصان کسی سے چھپا نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ حکماء اور ڈاکٹر سبھی اس کے نقصان پر متفق نہیں ہیں ورنہ اگر کوئی چیز انسان کے لیے قطعا مضر ہو تو بہت سے علماء کے فتوے کے مطابق حرام ہے، بہر حال اس مسئلہ میں زیادہ غور کرنا چاہئے اس لیے کہ مراجع کے نظریات لوگوں کے اظہار نظر سے کہیں بالا ہیں۔ گرچہ ممکن ہے کہ علماء ایک کلی نظریہ دیں اور اس کے جزئیات یا موضوع کی تطبیق میں خاموش رہیں۔(مترجم)

۵۰) صحیح مسلم، ج۲ ، ص6۵۴، ( باب الشفاعہ) مرحوم سید محسن امین اس روایت پر حاشیہ لگاتےہوئے فرماتے ہیں : (حتما یہ چالیس آدمی نجدی) (وہابی) عربوں میں سے ہونے چاہئیں تاکہ ان کی شفاعت قبول ہو۔

۵۱ـ صحیح مسلم، ج۲، ص6۵۴۔

۵۲ـ طبرانی نے معجم الصغیر/ج۲،ص۸۲،پراسکوروایتکیاہےبیہقینےاسناد صحیح اور معتبر دلائل کے ساتھ اپنی کتاب دلائل النبوہ کی جلد ۵، ص۴۸۹ پر تذکرہ کیا ہے اور دیگر احادیث میں آیا ہے کہ آدم(ع) نوح(ع) نے خدا کو آل عبا( پنجتن پاک(ع)) کی قسم دی اور انھیں وسیلہ بنایا۔

۵۳ـ صحیح بخاری، ج۸ ، ص۱۱۲، کتاب المرقاق، باب الحوض۔

۵۴ـ سورہ مائدہ، آیت ۴۷۔

۵۵ـ سورہ مائدہ، آیت ۴۳۔

۵6ـ سورہ مائدہ، آیت ۴۷۔

۵۷ـ پہلے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت رسول اکرم(ص) خدا کے اذن سے تشریع کا حق رکھتے ہیں۔

۵۸ـ صحیح بخاری، ج۴، ص۱۰۰، باب دعا النبی(ص) الی الاسلام والنبوة۔

۵۹ـ صحیح بخاری، ج۵، ص۱۰۴، کتاب المغازی باب الشہود الملائکہ۔

6۰ـسورہبقرہکیآیتنمبر۷۲اور۷۳کیطرفاشارہہے۔

6۱ـصحیحبخاری،ج۱،ص۵۹،کتابالوضوءباباستعمالفضلوضوء۔

6۲ـصحیحبخاری،ج۳،ص۲۵۴،کتاب ( الشروطبابالشروطفی الجہاد و المصاحبہ مع اہل الحروب)

6۳ـصحیح بخاری، ج۱، ص۷۰، کتاب الوضوء باب البزاق والمخاط،۔

6۴ـصحیح بخاری، ج۴، ص ۷۳، کتاب الجہاد والسیر / صحیح مسلم، ج۴، ص۱۸۷۲،ح۲۴۰6۔

6۵ـظاہرایہاںپرمرگیمقصودہے۔

66ـصحیحبخاری،ج۱،ص۹6۔

6۷ـ صحیح بخاری، ج۴، ص۲۳۳، کتاب ( بدء الخلق باب علامات النبوہ فی الاسلام)

6۸ـ صحیح بخاری، ج۲، ص۲۳۴، کتاب ( بدء الخلق باب علامات النبوہ فی الاسلام)

6۹ـصحیحبخاری،ج۴،ص۲۳۵،کتاببدءالخلق۔

۷۰ـ تاریخ طبری ، ج۳، ص۱۹۳، صحیح مسلم، ج۳، ص۱۹۵۹۔

۷۱ـ صحیح بخاری، ج6، ص۱۷۔

۷۲ـ اس گفتگو کو ابن ابی الحدید معتزلی نے ( جلد ۵، ص ۱۳۰) پر نقل کیا ہے اور اسی طرح کتاب ( النصائح الکافیہ لمن یتولی معاویہ) ص۱۲۳ میں ابن اثیر و طبری سے نقل ہوا ہے۔

۷۳ـ صحیح مسلم، ج۲، ص66۹،حدیثنمبر۱۰۳۔

۷۴ـ صحیح بخاری، ج۲، ص۹۹، باب زیارت القبور، کتاب الجنائز۔

۷۵ـ تاریخ الخمیس ، ج۲، ص۱۷۳۔

۷6ـبحارالانوار،ج۴۳،ص۱۷۷۔

۷۷ـ صحیح بخاری، ج۱ ، ص۲۷۔

۷۸ـ صحیح مسلم، ج۲، ص۱۱۰۵، سنن ابو دواؤد، ج۴، ص۲۷6،حدیث۴۹۰۴۔

۷۹ـ البتہ مکتب اہل بیت(ع) میں بھی مکلف بیماری کے خوف کے تحت وضو کی جگہ پر تیمم کرسکتا ہے۔ جیسا کہ امام صادق(ع) سے روایت ہوئی ہے ( التراب احد الطہورین) مٹی پاک کرنے والی چیزوں میں سے ہے۔

۸۰ـ صحیح مسلم، ج۱، ص۴۹۰، حدیث ۷۰۸، کتاب الصلوة باب الجمع بین الصلاتین۔

۸۱ـ صحیح بخاری، ج۱، ص۱۴۳، کتاب مواقیت الصلاة۔

۸۲ـ اس معنی میں کہ ہر ایک کے لیے اس کی ضرورت کے مطابق حق قرار دیا ہے ( بنیاد معارف اسلامی)۔

۸۳۔ کتب تاریخ نے نقل کیا ہے کہ عورتیں آںحضرت(ص) کی مجلس میں حاضر ہوا کرتی تھیں اور ان میں سے بعض نے آںحضرت(ص) سے یہ بھی عرض کیا کہ یا رسول اللہ(ص)! ہمارے لیے ایک شوہر کا انتخاب فرمائیے۔

روایت ہے کہ عورتیں آںحضرت(ص) کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: ہم آپ کے وجود سے مستفید ہونا چاہتے ہیں لیکن مردوں کی وجہ سے محروم رہتے ہیں۔ آںحضرت(ص) نے ان کے لیے ایک وقت معین فرمایا کہ فلاں وقت فلاں شخص کے گھر حاضر ہوں اور خود آںحضرت(ص)  اس مقررہ وقت میں وہاں تشریف لے جاتے اور ان سے گفتگو کرتے۔ اسی طرح بیان ہوا ہے کہ آںحضرت(ص) نے بعض عورتوں کو کام کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ من جملہ ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی بیوی جو شوہر اور بچوں کی خاطر کام کرنے پر مجبور تھیں، آںحضرت(ص) نے فرمایا: تیرے لیے اجر وثواب ہے۔ تو ہمیشہ ان پر انفاق کرتی ہے پس انفاق کرتی رہ۔

۸۴ـ اس کے متعلق خداوند عالم فرماتا ہے: (وَ مِنْ ءَايَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَوَ مِنْ ءَايَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكمُ مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُواْ إِلَيْهَا وَ جَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَ رَحْمَةً  إِنَّ فىِ ذَالِكَ لاََيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (روم/۲۱۔۲۰)۔ اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہےکہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکا یک تم آدمی بن کر زمین پر چلنے پھرنے لگے۔ اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے واسطے تمہاری جنس کی بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے ساتھ رہ کر چین کرو اور تم لوگوں کے درمیان پیارو الفت پیدا کردی اس میں شک نہیں ہے کہ اس میں غور کرنے والوں کےلیے (قدرت خدا کی ) یقینی بہت سی نشانیاں ہیں۔

۸۵ـ اور یہ روایت صحیح بخاری کی جلد 6صفحہ66۔کتاب تفسیرالقرآن باب قولہ (یا ایها الذین آمنوا لا تحرموا طیبات ما احل الله لکم)کےبیان میں ملاحظہ ہوسکتی ہے۔

۸6ـشرح معانی الآثار،ج۳،ص۲6،تفسیرطبری،ج۵،ص۹۔اورمزیدتفصیل کے

لیے مؤلف محترم کی کتاب ( سچوںکےساتھ ہوجاؤ) کامطالعہ کریں۔نیزاسکےمتعلق دیگرکتب بھی موجودہیں منجملہ ( نصوسالمھمہ) ( شرف الدین) ( مسائل فقہیہ) ( شرف الدین) ( البیان) ( الخوئی) ( الغدیر) ( امینی) ( المتعہ فی لاسلام) ( سید حسن مکی) ( الزواج الموقت) ( سید محمد تقی حکیم) ( الزواج الموقت فی الاسلام) (سید جعفر مرتضی)۔

۸۷ـ البتہ وقتی شادی (متعہ) کی صورت میں۔

۸۸ـ کتاب الجمع بن الصحاح الستہ، باب علامات الساعہ اور کتاب عقائد الاسلامیہ از سید سابق اور مسند احمد ابن حنبل ، ج۱، ص ۳۷6ـ۳۷۷۔ ۴۳۰، مصنف ابن ابی شیبہ ، ج۱۵، ص۱۹۸، ح ۱۹۴۹۴۔

۸۹ـ اس سلسلہ میں بنیاد معارف اسلامی نے عربی زبان میں بے نظیر دائرہ المعارف ۴۲۰ مصادر کے حوالہ سے چھپایا ہے جس میں سنی و شیعہ دونوں ہی مصادر شامل ہیں اور پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔

۹۰ـ اشراف تیونس میں آل رسول (ص) کو کہتے ہیں جو اولاد حضرت زہرا(س) اور حضرت علی(ع) سے ہوں۔

۹۱ـ اس کتاب کا فارسی ترجمہ( آنگاہ ہدایت شدم) بنیاد معارف اسلامی کی جانب سے ابھی تک ۱۹ مرتبہ کافی تعداد میں چھپ چکا ہے اسی طرح اردو زبان میں مختلف مرتبہ چھپ چکا ہے۔ ( مترجم)

Comments powered by CComment