از قلم : آیت اﷲ حسین مظاہری
مترجم سید ذالفقار علی زیدی
اس مادی ترقی کے دور میں جبکہ انسانی ، اخلاقی اور اسلامی اقدار روبہ زوال ہیں خدا اور انسان کے ربط کی بات کرنا، عوام الناس کو اس مقدس رشتے سے متعارف و روشناس کرنا اور پھر خد اپرستی کی طرفف عملاا مائل کرنا ۔۔۔ یہی وہ اہداف ہیں جن کی جانب جامعة الاطہر پبلیکیشنز پاکستان ۱۴۱۱ ہجری سے رواں دواں ہے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے ہماری یہ کوشش ہوگی کہ اسلام کے حقیقی نظریات ، معارف کے ادراک اور قارئین کے عملی، دینی اور روحانی ذوق کی تسکین کے لیے مستند تبلیغات جاری کرتے رہیں۔
اسلام کے محافظ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
یہ کتاب ( اسلام کے محافظ) آیت اﷲ حسین مظاہری کی تالیف ہے ۔ جس میں آپ نے حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کی سیرت مبارکہ کے بارے میں بطور خلاصہ اپنے مطالعہ کا نچوڑ بیان فرمایا ہے۔
مسلمان اسلام کی ان محافظین کی سیرت طیبہ سے آگاہی حاصل کر کے اپنی زندگی کو ان کے نقش قدم پر چلانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکتے ہیں۔ امید ہے یہ گرانقدر کتاب طالبان علم و معرفت کے لیے قیمتی سرمایہ ثابت ہوگی۔
( ناشر)
اس مقدمے میں تین بنیادی نکتوں کو بطور خلاصہ بیان کیا جائے گا۔ اـ افراد اہل بیت(ع) کا فضیلت میں برابر ہونا اور نبوت اور نبوت و امامت کی دلیل۔ ان میں سے بعض مقالات اسلامی جمہوری کے ریڈیو سے نشر ہوچکے ہیں ۔ اور مصنف سے ان کے بعض دوستوں نے یہ خواہش کی کہ ان مقالوں کو ایک کتاب کی شکل میں طبع کیا جائے لیکن عدیم الفرصتی کی وجہ سے مولف کو یہ موقع نہ ملا کہ دوستوں کے اس مطالبے کو پورا کرسکے ۔ یہاں تک کہ ماہ رمضان ۱۴۰۲ ہجری میں کچھ وقت ملا جس کی وجہ سے موجودہ صورت میں کتاب طبع ہوئی۔ نشر شدہ ان مقالات میں چند مفاہیم کا اضافہ ہوا ہے۔ امید ہے کہ حضرات اہل بیت کرام(ع) کی خوشنودی اور قارئین کی پسندیدگی کا موجب بنے گی۔
یہاں یہ بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس مجموعے میں خاصی بلکہ کئی ایک خامیاں ہیں ادبی اور فنی خامیاں بھی ہیں بحثوں کے مختصر ہونے کی خامی بھی ہے شاید مہارت کی خامی بھی ہو اور یہ بھی خامی ہوسکتی ہے کہ تفصیل کے بجائے اجمال سے کام لیا گیا ہے۔
مگر یہ کتاب صرف بیس دن سے کمتر مدت میں اور وہ بھی ماہ رمضان میں جبکہ انقلاب کے نشیب و فراز کا سامنا بھی تھا۔ ایک ایسا انقلاب جس نے بڑے معرکہ انجام دیئے۔ ایک ایسا انقلاب جس کے خلاف عالمی سپر طاقتوں نے ایکا کیا۔ اس طرح تمام کی نظریں
اس پر لگی ہوئیں ہیں۔ ایک ایسا انقلاب جس کے دائم و قائم رہنے کی فکر آئندہ اور موجودہ تمام نسلوں کو ہونی چاہیے۔
خلاصہ یہ کہ انقلاب اسلامی جو قسم قسم کے مسائل کے ساتھ نبرد آزما رہا ہے نے ہمیں اس قدر فرصت نہیں دی کہ ہم اس قسم کے امور کو زیادہ سے زیادہ وقت دے سکیں۔ لیکن “ ما لا یدرک کلہ لا یترک کلہ” ایک واضح کمی جو نظر آئے گی وہ یہ ہے کہ کتاب کی دقیق مطالب کا حوالہ موجود نہیں لیکن میں ذمہ داری لیتا ہوں کہ اس کتاب کی تمام اسناد سنی و شیعہ کی مستند کتابوں سے لی ہیں جن کی فہرست ہم نے کتاب کے آخر میں دی ہے۔
روایات سے جس چیز کا پتہ چلتا ہے اور مسلم ہے کہ حضرات اہل بیت علیہم السلام کے درمیان فضائل و کمالات کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ایک ہی نور کی شعائیں ہیں جو مختلف انوار میں بٹ گئی ہیں۔ “ کلہم نور واحد” تمام اہل بیت(ع) ایمان، تقوی، شجاعت، حلم، سخاوت، علم اور دوسرے تمام فضائل میں یکساں ہیں۔ “ اولنا محمد و اوسطنا محمد و آخرنا محمد” آپ اس کتاب میں جن کمالات اور فضائل کو پڑھیں گے وہ تمام اہل بیت(ع) کی صفات ہیں۔ یہ صرف زمانے اور حالات کا تقاضا تھا کہ ان میں بعض کمالات کا ظہور بعض سے ہوا۔ جیسے کہ حضرت علی علیہ السلام جو ہر وقت حضور اکرم (ص) کی خدمت میں رہتے تھے اور آپ کی زندگی میں ستر سے زائد جنگیں لڑی گئیں ان میں سے اکثر کے انتظامی امور کی ذمہ داری حضرت علی(ع) کےہاتھوں میں تھی لہذا آپ (ع) اس طرح “ اہل بیت(ع) کی شجاعت ” کے مظہر قرار پائے۔
اسی طرح حضرت ابی عبداﷲ امام حسین علیہ السلام کو خونین انقلاب بھی حالات کے تقاضے کے پیش نظر رونما ہوا آپ فداکاری ، محبت الہی اور راہ خدا میں جانبازی کا مظہر بن گئے۔ در اصل یوں کہنا چاہئے کہ آپ (ع) اہل بیت(ع) کی فداکاری ” کا مظہر ہیں۔
حضرات امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ بنی امیہ کی حکومت کا آخری اور بنی عباس کی حکومت کا ابتدائی تھا۔ جس نے ابھی استحکام حاصل نہیں کیا تھا۔ جس نے ابھی استحکام حاصل نہیں کیا تھا۔ لہذا یہ دونوں حضرات اہل بیت(ع) کے علم کا مظہر قرار پائے۔ اسی طرح تمام ائمہ علیہم السلام کے بارے میں کہا جاسکتا ہے ۔ لہذا اس کتاب میں کہیں اگر کوئی فضیلت اہل بیت(ع) میں سے کسی ایک کے لیے بتائی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہل بیت کرام(ع) کے دوسرے افراد اس فضیلت کے حامل نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہستی اس فضیلت کی مظہر جو تمام ائمہ میں موجود ہے۔
قرآن مجید حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا زندہ معجزہ ہے۔ اور کئی ایک پہلوؤں سے معجزہ ہے۔
“ا” قرآن ایک علمی کتاب ہے اور اس علمی کتاب کا لانے والا “امی” ہے جس نے الف ب بھی لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا ہے۔ قرآن “ کتاب ہدایت” اور “ کتاب تہذیب” جیسی تعبیرات کے ذریعے اپنی پہچان کرا دی ہے جب کہ حقیقت مٰیں تمام علوم اور فضائل کی حامل ہے۔ قرآن فلسفے کی کتاب نہیں لیکن اس میں فلسفی براہین و استدلال موجود ہے۔ اور کئی ایک ایسی آیات موجود ہیں جو فلسفی براہین کی حامل ہیں۔ قرآن فقہ کی کتاب نہیں لیکن معاشرتی ، سیاسی ، معاملاتی، عبادی اور جزائی قوانین کا حامل ہے۔ وہ بھی اس طرح موجود ہیں کہ اگر سارا عالم مل کر کوشش کرے کہ اس قسم کے قوانین وضع کرین تو یہ ان کے لیے ناممکن ہے۔
قرآن علوم فلکیات کی کتاب نہیں لیکن ستارہ شناسی کے نکات موجود ہیں جنہوں نے اس شعبے کے ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہوا ہے۔
قرآن فصاحت و بلاغت کی کتاب نہیں لیکن اپنی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے دنیا کے تمام فصحاء و بلغاء کو مبہوت کیا ہوا ہے۔ اس بنا پہ “ ولید بن مغیرہ” نے جو فصحائے
عرب مین سے ایک تھا قرآن کے بارے میں یوں کہا ہے۔
“ اس قرآن کی ایک خاص مٹھاس اور تازگی ہے اس کے شاخ پھلوں سے لدے ہوئے ہیں جڑیں مستحکم اور استوار ہیں تمام کلاموں سے برتر کلام ہے اس سے بلند کلام کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ ” قرآن طبیعات کی کتاب نہیں لیکن اس میں ہزار سے زائد آیات علم طبیعات کے مسائل کو پیش کرتی ہیں۔ اسی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن معجزہ ہے کیونکہ کہ یہ ایک علمی کتاب ہے جس سے مختلف علوم کےچشمے پھوٹتے ہیں اور اس کا لانے والا کون ہے؟ ایک ایسا شخص جس نے الف بے کو بھی پڑھنا لکھنا سیکھا نہیں تھا۔
“ب” قرآن کریم ۲۳ سال کے عرصے میں موقع و محل کی مناسبت سے مختلف شرائط کے تحت حضور اکرم (ص) پر نازل ہوتا رہا۔ معمول کے مطابق عام حالت میں ، غیر معمولی حالات میں ، صلح کے وقت ، جنگ کے وقت ، قوت و اقتدار کے وقت ، کمزوری کے وقت اور دیگر مختلف حالات میں نازل ہوتا رہا ۔ لیکن اس میں جو اہم بات ہے وہ اس کے آیات کا آپس میں ربط اور استحکام ہے جو پورے قرآن کی تمام آیات میں موجود ہے۔ ان میں وہ آیات بھی شامل ہیں جو مکہ کے کمر شکن حالات کے دوران نازل ہوئی ہیں اور وہ آیات بھی ہیں جومدینہ کے دولت و حکومت اور اقتدار کے زمانے میں نازل ہوئی ہیں۔ مگر ان تمام میں ایک ہم آہنگی موجود ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی ہم آہنگی پورے قرآن مجید میں پائی جاتی ہے۔ اور ایسا ہونا خود ایک عظیم معجزہ ہے۔
“ج” جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ قرآن مجید ۲۳ سال کے عرصے میں ایک ایسے شخص پر نازل ہوا جس نے الف بے تک بھی پڑھنا لکھنا نہیں سکھا تھا۔ اور اس کتاب کی جس خصوصیت نے فصحاء و بلغاء اور علماء کی توجہ اپنی جانب مبذول کی وہ اس کی ہم آہنگی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی کوئی اختلاف نہیں کوئی بھی ای آیت دوسری آیت کے برعکس نہیں۔ جیسا کہ بعرض لوگوں کے خیال میں کسی قدر نسخ موجود ہے لیکن ہمارے
عقیدے میں یہ بھی قرآن میں نہیں اگر قرآن کریم خداوند عالم کی طرف سے نہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس میں اختلاف موجود نہ ہوتا؟ قرآن خود اس عظیم معجزے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
“أَ فَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَ لَوْ كانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فيهِ اخْتِلافاً كَثيراً ” ( النساء : ۸۲)
“ کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر اور غور و فکر نہیں کرتے کہ اگر خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سارا اختلاف پاتے ”
یہ بحث بڑی طویل ہے کلام کے اختصار کی خاطر ہم اسے یہیں پر ختم کرتے ہیں۔ تاکہ طوالت سے بچ جائیں۔
خلاصہ یہ کہ قرآن ( اﷲ کا کلام ) مختلف پہلوؤں سے معجزہ ہے اور خداوند عالم نے اس کے مخالفوں کو مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے۔
(۱)کہہ دیجئے اگر تمام انسان اور جنات جمع ہو جائیں اور ایک دوسرے کی پشت پناہی کریں تو بھی قرآن کی سورتوں میں سے دس بلکہ ایک سورہ بھی پیش نہیں کرسکیں گے۔ ( سورہ اسراء، آیت۸۸)
(۲)اگر تمہیں اس قرآن کے خدا کی طرف سے ہونے میں شک ہے تو اس کی سورتیں کی جیسی ایک ہی سورہ بنا کر اور اﷲ کے سوا اپنے تمام گواہوں کو لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ اور اگر تم نہ کرو جبکہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جو کافرون کے لیے تیار کی گئی ہے۔ ( سورہ بقرہ، آیت ۲۳،۲۴)
قرآن فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے ایک علمی کتاب ہے مگر اسے لانے والا
ایک ایسا فرد ہے جو پڑھا لکھا نہیں اور اس کتاب میں کوئی اختلاف بھی نہیں اور اس میں ایک ہم آہنگی اور ربط پایا جاتا ہے۔ اور یہ کتاب خود مقابلے کی دعوت دیتی ہے۔ مقابلے کی یہ للکار کل بھی تھی آج بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
یہ آسمانی کتاب پیغمبر اکرم(ص) کو اپنے “ مبین” کی حیثیت سے متعارت کراتی ہے ۔ ( سورہ نحل، آیت ۴۴) میں ارشاد ہوا “ ہم نے ذکر کو تم پر نازل کیا تاکہ تم اسے لوگوں کو بیان کرو جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے۔”
بعض اوقات ابو بصیر(رح) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ قرآن میں امیرالمومنین علیہ السلام اور اہل بیت(ع) عظام کے نام موجود کیوں نہیں آپ فرماتے ہیں قرآن میں کلیات کا بیان ہوا ہے اور خداوند عالم نے ان کلیات کی تفسیر کو بیان کرنے کی ذمے داری حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم پر رکھی ہے ۔ قرآن میں نماز ، روزہ، حج ، ذکوة اور دوسرے مسائل کا بیان بھی کلی طور پر ہوا ہے۔ جبکہ ان کی تفصیلات نماز کتنی رکعت ہے اور کس طرح پڑھنی ہے کے بارے میں کچھ بھی نہیں فرمایا ہے۔ قرآن نے زکوة کو بارے میں حکم دیا ہے مگر کتنا زکوة ، کتنا نصاب اور کسے دیا جائے تفصیل سے نہیں بتایا۔
اب ان کلیات کی وضاحت کرنا حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر لازم ہے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا نام بھی اسی طرح “ کلی ” کے تحت مذکور ہوا ہے۔ قرآن میں حکم ہوا ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کریں۔ اور اولی الامر کا تعارف کرانا کہ کتنے ہیں ؟ اور کون ہیں؟ حضور اکرم (ص) کا کام ہے۔
اہل سنت اور اہل تشیع کی کتب میں بہت ساری روایات موجود ہیں کہ حضور اکرم(ص) نے اپنے اوصیاء کا تعین فرمایا۔ ہم بطور نمونہ ان میں سے صرف چند ایک کا ذکر کرتے ہیں۔
اس بارے میں شیعہ و سنی مکتب میں جو روایات مذکور ہوتی ہیں وہ مختلف اقسام پر مبنی ہیں۔ ان روایات کا ایک گروہ تو پوشیدہ طور سے یہ کہتا ہے کہ حضور نے فرمایا میرے بعد میرے خلفاء ۱۲ ہیں اور یہ سب کے سب بنی ہاشم کے خاندان سے ہیں۔
“ الائمة من بعدک اثنی عشر خليفة کلهم من بنی هاشم”
احمد بن حنبل علمائے اہل سنت میں سے ایک عظیم عالم ہیں وہ اپنی مسند میں اس روایت کو سولہ اسناد کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
روایات کا دوسرا گروہ ایسا ہے جن میں واضح طور سے بیان ہوا ہے کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا “ میرے بعد میرے اوصیاء بارہ ہیں جن کے پہلے علی(ع) ہیں ان کے بعد حسن(ع) ان کے بعد حسین(ع) اور ان کے بعد حسین(ع) کی اولاد میں سے نو افراد ہوں گے جن کا نواں قائم(عج) حق ہوگا اور دنیا جہاں کو عدل و اںصاف سے پر کے گا۔
روایات کا تیسرا گروہ وہ ہے جو تعداد میں زیادہ بھی ہے اور بڑی تفصیل اور صراحت کے ساتھ رسول اکرم(ص) کے خلفاء کو بیان کرتی ہیں۔ ہم یہاں پر ایسی روایات میں سے صرف چار روایات کو بیان کرتے ہیں۔
(۱)ایک یہودی شخص نے حضور اکرم (ص) کی خدمت میں آکر آپ کے جانشین کے بارے میں پوچھا اور کہا ہر پیغمبر(ص) کے وصی اور جانشین ہوتے ہیں یہ سن کر آپ (ص) نے فرمایا میرے وصی علی ابن ابی طالب(ع) ہیں اور ان کے بعد ان کے فرزند حسن(ع) ان کے بعد ان کے دوسرے فرزند حسین(ع) اور حسین (ع) کے نو فرزند یکے بعد دیگرے میرے وصی بنیں گے یہودی نے کہا۔ میرے لیے ان کے نام بتادیں۔ تو حضرت (ص) نے فرمایا جب حسین(ع) دنیا سے چلے جائیں گے تو ان کے بیٹے علی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے جعفر(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے موسی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع) ان کے بعد ان کے بیٹے علی (ع) ان کے بعد ان کے بیٹے حسن(ع) ان کے بعد ان فرزند حجت محمد مہدی(عج) پس یہی بارہ اوصیاء ہیں۔
(۲)رسول اکرم(ص) نے فرمایا جب میں معراج کے وقت آسمانوں پر گیا تو ساق عرش پر نور سے لکھا ہوا دیکھا:
“لا إله إلّا اللّه، محمّد رسول اللّه-----”
“ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد(ص) اﷲ کے رسول ہیں۔”
میں نے علی(ع) کے ذریعے اس کی تائید کی اور علی(ع) کے ذریعے اس کی مدد کی۔ اس کے بعد حسن(ع) و حسین(ع) ( لکھا ہوا) دیکھا اس کے بعد تین مرتبہ علی علی علی دیکھا اور دو مرتبہ محمد محمد لکھا ہوا دیکھا۔ اس کے بعد جعفر، موسی، حسن اور حجتہ کے بارہ نام نور سے لکھے ہوئے دیکھے۔
(۳)حضرت جابر بن عبداﷲ اںصاری فرماتے ہیں کہ جس وقت آیت “أَطيعُوا اللَّهَ وَ أَطيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُم” نازل ہوئی تو میں نے حضور اکرم (ص) سے پوچھا میں نے خدا اور رسول(ص) کو تو پہچان لیا مگر یہ اولی الامر کون ہیں جن کی اطاعت کو خدا اور رسول(ص) کےساتھ ملایا گیا ہے کون ہیں؟ یہ سن کر رسول اکرم(ص) نے فرمایا یہ میرے بعد میرے خلفاء ہیں۔ ان کے پہلے علی ابن ابی طالب(ع) ہیں ان کے بعد حسن(ع) ان کے بعد حسین(ع) ان کے بعد علی ابن الحسین(ع) ان کے بعد محمد بن علی(ع) جو توریت میں باقر (ع) کے نام سے معروف ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے جب ان سے ملاقات ہوجائے تو انہیں میری طرف سے سلام کہنا۔ حضرت جابر نے امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات بھی کی اور حضور اکرم(ص) کا سلام بھی پہنچایا۔۔۔ ان کے بعد جعفر بن محمد(ع) ان کے بعد موسی بن جعفر(ع) انکے بعد علی بن موسی (ع) ان کے بعد محمد بن علی(ع) ان کے بعد علی بن محمد(ع) ان کے بعد حسن بن علی(ع) اور ان کے بعد میرے ہم نام اور میرے ہم کنیت زمین پر حجتہ خدا اور عوام کے درمیان بقیتہ اﷲ محمد بن الحسن بن علی(ع)۔ یہ وہی ہیں جن کے ذریعے خداوند عالم دنیا میں توحید کا پرچم بلند کرے گا۔ اور مغرب و مشرق اس کے تابع کرے گا۔
(۴)امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے حضرت ام سلمہ(رض) کے گھر پر میں حضور اکرم(ص) کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت آیت تطہیر نازل ہوچکی تھی۔ حضور اکرم(ص) نے فرمایا
اے علی(ع) یہ آیت تم حسن(ع) و حسین(ع) اور تمہاری ذریت کے ائمہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا آپ(ص) کے بعد ائمہ کی تعداد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اے علی(ع) تم ہو، تمہارے بعد حسن(ع) و حسین(ع) ہیں۔ حسین(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) ہیں، علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع)، محمد (ع) کے بعد ان کے بیٹے جعفر(ع) اور جعفر(ع) کے بعد ان کے بیٹے موسی(ع) اور موسی(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے محمد(ع)، محمد(ع) کے بعد ان کے بیٹے علی(ع) اور علی(ع) کے بعد ان کے بیٹے حسن(ع) اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے حجتہ(عج) ہیں۔ یہ وہ اسماء ہیں جنہیں میں نے ساق عرش پر لکھا ہوا دیکھا اور خداوند عالم سے ان کے بارے میں پوچھا تو فرمایا اے محمد(ص) یہ ائمہ ہیں تیرے بعد کے جو پاک ہیں، معصوم ہیں اور ان کے دشمن قاتل نفرین ہیں۔
مختصر یہ کہ قرآن آسمانی کتاب اور رسول اکرم(ص) کا زندہ معجزہ ہے۔ اور آپ کی نبوت اسی کتاب کے ذریعے ثابت ہوجاتی ہے۔ اور آپ کے اوصیاء قرآن میں اولی الامر کہہ کر واجب الاطاعہ قرار دیئے گئے ہیں۔
اور خود رسول اکرم(ص) نے جو قرآن کا “ مبین” ہے یعنی بیان کرنے والا ہے “ اولی الامر” کے مصداق کو معین فرمایا ہے۔ اور بہت ساری روایات موجود ہیں جن میں حضور اکرم(ص) نے ان کی تعداد کو بارہ میں منحصر کیا ہے۔ اور سنی و شیعہ روایات میں سے زیادہ روایات میں ان کے ناموں کا ذکر کیا ہے۔ یہ دلیل ہے امامت کی جن کے پہلے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ہیں۔ سنی وشیعہ روایات کے مطابق غدیر خم کے مقام پر آپ کو امامت پر منصب کئے جانے کے بعد ہی دین اسلام کامل ہوا ہے اور آیت “ الیوم اکلت دینکم” نازل ہوئی۔ اور ان کے آخری حضرت قائم آل محمد ہیں جن کی خصوصیات و صفات کا بیان شیعہ وسنی روایات میں تین سو سے زیادہ روایات میں موجود ہے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ انہی کے ذریعے خدا روئے زمین کو عدل و اںصاف سے اسی
طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی۔
اگر ہم حضور اکرم(ص) کی نبوت پر قرآـن مجید جو ان کا زندہ معجزہ ہے کو دلیل قرار دیں تو بغیر کسی اعتراض کے تام اصطلاحات کلام و فلسفہ، وجود صانع اور وحدانیت اس کے تمام کمال صفات کو ثابت کرنا ہے۔
کیونکہ خود قرآن اس پر دلیل ہے کہ اس دنیا پر ایک حکیم مدبر، عالم اور قادر اور واجب الوجود ہستی حاکم ہے جس کا نام اﷲ ہے اور وہ ان تمام کمالات کا جامع ہے ۔ اسی طرح قرآن کریم سے معاد جسمانی بھی ثابت ہوجاتی ہے کیونکہ قرآن وہ زندہ معجزہ ہے جو تزکیہ نفس کے بعد دوسری تمام چیزوں سے معاد کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ اس عالم کے لیے ایک اور باطنی عالم موجود ہے ۔ اور وہ عالم بھی جسمانی ہے جہاں خداوند عالم ایک انسان کو اسی جسم و جسمانیت کے ساتھ اور اسی حقیقت کے ساتھ اس دنیا میں دوبارہ زندہ کرے گا۔
ارشاد ہوا ہے۔
قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے نفس لوامہ کی۔ انسان یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ ہم ان ہڈیوں کو دوبارہ زندہ نہیں کریں گے ایسا نہیں بلکہ ہم اس پر قدرت رکھتے ہیں کہ ہم اس کی انگلیوں کے پوروں کو بنا دیں ۔ ( سورہ قیامت آیت ۱)
اور انسان کو اس کی حقیقی شکل میں لوٹا دیں اس کے ساتھ اس دنیا میں لوتا دیں۔ اس طرح یہ جاودانی معجزہ نہ صرف نبوت و امامت کو ثابت کرتا ہے بلکہ تمام اصول دین کو پایہ ثبوت تک پہنچاتا ہے۔
حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
بسم اﷲ الرحمن الرحيم
آپ کا اسم گرامی محمد(ص) مشہور لقب احمد(ص) اور مصطفیٰ اور مشہور کنیت ابوالقاسم ہے۔ جمعہ کے دن صبح کے وقت عام الفیل کے سال سترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ وہی سال جس میں خداوند عالم نے ابابیل کے ذریعے اپنے گھر کی حفاظت کی اور ہاتھی والوں کو جو خانہ خدا کو ڈھانے کی غرض سے آئے تھے نابود کیا۔ آپ کی شہادت ۲۸ صفر ۱۱ہجری کو ایک یہودی عورت کے زہر دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔
۲۵ سال کی عمر میں آپ(ص) نے حضرت خدیجہ(ع) سے شادی کی۔ یہ وہی خاتون ہیں جن کا اسلام اور مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ حضور اکرم (ص) عام الفیل کے چالیسویں سال ۲۷ رجب المرجب کو مبعوث برسالت ہوئے۔ تیرہ سال تک مکہ میں کمر توڑ مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی۔ لیکن کفار قریش اسلام کی تبلیغ میں مانع ہوئے تو آپ (ص) نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہیں سے آپ نے اپنی رسالت کا پیغام دنیا میں پھیلایا۔ آپ (ص) کے والد حضرت عبداﷲ بن عبدالمطلب(ع) عرب کے سرداروں میں سے تھے۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق آپ(ص) کی عظمت و بزرگواری کے ہم پلہ بہت کم لوگ تھے۔ حضور اکرم(ص) کی ولادت سے پہلے ہی آپ(ص) کے والد ماجد نے شام کے سفر سے لوٹ کر مدینہ میں وفات پائی اور وہیں پر مدفون ہوئے۔ اس وجہ
سے حضور اکرم(ص) کی پرورش آپ(ص) کے دادا حضرت عبدالمطلب (ع) نے کی اور آپ کی رضاعت کے لیے دایہ مقرر کی جن کا نام حلیمہ سعدیہ(رض) تھا۔ ان خاتون کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور اکرم(ص) اپنی پرورش ان کے ہاتھوں ہونے پر فخر کرتے تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ(رض) نے چھ سال تک پرورش کرنے کے بعد آپ (ص) کو واپس آپ(ص) کی والدہ محترمہ(ع) کے پاس پہنچایا۔ اور حضور اکرم(ص) اپنی والدہ محترمہ(ع) کے ساتھ اپنے والد کی قبر کی زیارت کے لیے مدینہ چلے گئے مگر وہاں سے واپسی پر راستے میں حضرت آمنہ(ع) نے وفات پائی اور حضرت ام ایمن(ع) نے آپ (ص) کو آپ (ص) کے دادا حضرت عبدالمطلب (ع) تک پہنچایا۔ جب آپ(ص) کی عمر مبارک آٹھ سال کی تھی تو حضرت عبدالمطلب(ع) نے وفات پائی۔ اور ابوطالب(ع) جیسے چچا اور فاطمہ بنت اسد (ع) جیسی چچی نے ماں اور باپ بن کر آپ(ص) کی پرورش کی۔ اس وجہ سے آپ(ص) کو یتیمی کا احساس نہ ہوا مگر اس کے ملال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم نے اس نکتے کی طرف ارشاد فرمایا :
“أَ لَمْ يَجِدْكَ يَتيماً فَآوى وَ وَجَدَكَ ضَالاًّ فَهَدَى وَ وَجَدَكَ عَائلًا فَأَغْنى”
“ کیا تمہیں یتیم نہیں پایا کہ پناہ دیدی تمہیں راہ بھٹکتے دیکھا تو ہدایت دی تجھے گراں بوجھ سکے تلے پایا تو بے نیاز کردیا۔ ”
اس بنا پر رسول اکرم(ص) اگرچہ یتیم ، غریب اور محتاج تھے مگر اس کے اثرات آپ(ص) پر نہیں ملتے ہیں۔ کیونکہ خداوند عالم نے ابوطالب(ع) جیسی ہستی کے پاس آپ(ص) کو پناہ دی ۔ اور حضرت خدیجہ(ع) جیسی دولت مند خاتون کو شادی کے وقت جس نے یہ اعلان کیا کہ میری دولت آپ(ص) کی ہے اور میں خود آپ (ص) کی کنیز ہوں مالی ضروریات کی طرف سے خداوند عالم نے یوں بے نیاز کیا۔ آپ(ص) کی مادر گرامی حضرت آمنہ(ع) ایک عظیم خاتون تھیں۔ ان کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ حضور اکرم(ص) کی والدہ ہیں۔
حضور اکرم(ص) کی شرافت ، کرامت اور عالی صفات اور معجزات اس قدر زیادہ ہیں
جن کی تفصیل دوسری مفصل کتابوں میں موجود ہے۔ چونکہ ہمیں یہاں اختصار مطلوب ہے اس لیے صرف ایک معجزے کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں اور قرآن کریم نے آپ(ص) کی شان میں جو کہا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد اختصار کے ساتھ آپ(ص) کے القاب کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور آخر میں آپ(ص) کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں کچھ بحث کرتے ہیں۔
مورخین کا لکھنا ہے کہ آپ(ص) کی ولادت کے دن دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ طاق کسریٰ میں شگاف پڑا ۔ اور اس کے کنگرے گر پڑے ، دریائے ساوہ خشک ہوا۔ آتش کدنہ فارس جو کئی سالوں سے مسلسل جل رہا تھا بجھ گیا۔ اس دن دنیا کے تمام بادشاہ حیران و پریشان اور گونگے بن گئے تھے۔ تمام بت اوندھے منہ گرے تھے، اس دن ساحروں کا سحر بے اثر ہوگیا تھا۔ لا الہ الا اﷲ کا کلمہ گونج رہا تھا اور جب آپ(ص) دنیا میں آئے تو آپ(ص) کے وجود کی برکت سے عالم نور ہویا۔ جب آپ(ص) نے لا الہ الا اﷲکہا تو دنیا جہاں نے آپ(ص) کے ہمزبان ہو کرلا الہ الا اﷲ کہا۔ حضور اکرم (ص) کے بارے میں قرآن کریم یوں فرماتا ہے۔
“وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهيداً ”
“ اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط قرار دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر(ص) تم پر گواہ ہوں”
اس آیت کریمہ کے دو معنی ہیں اور یہ تعبیر ان دونوں معانی کی حامل ہے کہ امت اسلامی انسانیت کے معاشرے کے لیے نمونہ عمل ہے اور رسول اکرم(ص) امت مسلمہ کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ لیکن ان آیت کے ایک اور عمیق معنی بھی ہیں جسے ائمہ علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے اور شیعہ مفسرین خصوصا ہمارے استاد محترم علامہ طباطبائی نے ان روایات کی پیروی کرتے ہوئے مفصل بحث کی ہے اور وہ معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن امت اسلامی لوگوں کے
اعمال کی گواہ بننے والی ہے مگر یہ بات صریحی ہے کہ تمام امت والے اس کے لائق نہیں بلکہ یہ امر ائمہ معصومین علیہم السلام پر منحصر رہے گا۔ اہل بیت(ع) و شیعہ کی بے شمار ایسی روایات موجود ہیں جو اس دوسرے معنی پر دلالت کرتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو اس لیے خلق فرمایا کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال کے گواہ بنیں اور حضور اکرم(ص) ان کے اعمال کے گواہ بنیں۔ اس دنیا میں گواہ کو تمام شرفتوں کا حامل ہونا چاہیے تاکہ وہ قیامت کے دن گواہ قرار پاسکے۔ اور اگر دنیا میں اس نے یہ مسائل نہ دیکھے ہوں تو قیامت کے دن گواہ نہیں ہوسکتا۔ لہذا ائمہ علیہم السلام کے لیے عالم ہستی کے محیط میں موجود ہونا چاہیے تاکہ ان کے اعمال پر مطلع ہوسکیں اور گواہی دے سکیں یہ وہی واسطہ فیض ہے جسے اصطلاح میں “ ولایت تکوینی” کہا جاتا ہے اس صورت میں آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ائمہ علیہم السلام دنیا والوں کے لیے واسطہ فیض ہیں اور ان کے لیے حضور اکرم (ص) واسطہ فیض ہیں یہی معنی ہیں کہ حضور اکرم(ص) کو عقل کا نور مطلق یا “ اول ما خلق اﷲ ” کہا گیا ہے۔
اس بارے میں بڑی طویل بحث ہے مگر اس مختصر کتاب میں اس کی گنجائش موجود نہیں۔ ہم نے اپنی کتاب ” قرآن میں امامت و ولایت ” پر نسبتا مفصل بحث کی ہے۔ تفصیل کے خواہشمند اس کا مطالعہ کریں۔ جو کچھ کہا جاسکتا ہے یہ ہے کہ بہت ساری آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ طاہرین( علیہم السلام ) اس عالم کے لیے فیض کا واسطہ ہیں اور اس دنیا مین جو کچھ نعمت ملتی ہے جیسے کہ ظاہری نعمات مثلا عقل، سلامتی، رزق، تحفظ ، یا نعمات باطنی اور معنوی مثلا علم، قدرت ، اسلام، وغیرہ بھی ان حضرات کے وسیلے سے ہے۔ اور ان حضرات کا وجود جہاں ہستی میں “ احاطہ علی” کی حیثیت رکھتا ہے اور حضور اکرم(ص) کی ذات گرامی ائمہ طاہرین(ع) کے لیے واسطہ فیض
ہے اور ان حضرات کے جو نعمات ظاہری اور باطنی میسر ہیں وہ آںحضرت(ص) کے وجود با برکت کے ذریعے سے ہیں اور آپ(ص) کو وجود ان کے لیے “ احاطہ علی” قرار پاتا ہے۔
اور ائمہ علیہم السلام سے جو روایات “ کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اور رکھتے ہیں رسول اکرم(ص) کی طرف سے ہے اور رسول اکرم(ص) جو کچھ بھی رکھتے ہیں وہ خداوند عالم کی طرف سے ہے۔ ” کا مطلب بھی یہی ہے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بہت سارے القاب وارد ہوئے ہیں جن میں سے ہم کچھ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی تشریح کریں گے۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب احمد(ص) ہے۔ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انجیل میں بھی یہ لقب استعمال میں آیا ہے قرآن کہتا ہے :
“وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَد”
“حضرت عیسی(ع) نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول(ص) آئے گا جس کا لقب احمد(ص) ہوگا۔
احمد کے معنی تعریف کرنے والے کے ہیں۔ یعنی جو شکر اور حمد کا حق بجا لائے وہ احمد ہے۔
ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ کثرت عبادت کی وجہ سے مورد اعتراض قرار پاتے ہیں۔ تو فرماتے ہیں تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
۲:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب محمود(ص) ہے جیسا کہ قرآن میں آپ(ص) کا اسم مبارک محمد(ص) اور آپ(ص) کو محمود اور محمد(ص) کہا گیا ہے کیونکہ آپ(ص) کی تمام صفات قابل تعریف ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے :
“وَ إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظيمٍ ”
“ بے شک آپ(ص) اخلاق حسنہ کی عظیم منزلت پر فائز ہیں۔”تم کمال کی صفات کے انتہائی درجے پر فائز ہو۔
ابن عربی کہتا ہے۔ خداوند عالم کے ہزار نام ہیں ان سب میں سے بہترین نام محمد، محمود اور احمد ہیں ۔ محمد اسے کہا جاتا ہے جس میں صفات کمالیہ بدرجہ اتم موجود ہوں ۔ اور آپ(ص) سے قبل کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ نام عالم ملکوت سے ہی آپ(ص)
کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اور تمام آپ(ص) پر درود بھیجتے تھے۔
۳:۔ آپ(ص) کے عظیم القاب میں سے ایک لقب “ امی ” ہے یعنی جس نے لکھا پڑھا نہ ہو قرآن اس کی طرف یوں ارشاد کرتا ہے۔
“ وَ ما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَ لا تَخُطُّهُ بِيَمينِكَ إِذاً لاَرْتابَ الْمُبْطِلُونَ ”( سورہ،عنکبوت، ۴۸)
“رسالت سے قبل نہ تو آپ(ص) نے پڑھا اور نہ تو لکھا آپ(ص) لکھے پڑھے نہیں تھے اگر آپ(ص) پڑھے لکھے ہوتے تو ممکن ہے کہ خود غرض لوگ شکوک و شبہات پیدا کرتے۔ لیکن پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود قرآن جیسی کتاب لائے تو کسی کو شک و شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ یہ خود حضور اکرم(ص) کا ایک بڑا معجزہ ہے جس شخص کے بارے میں جانتے ہیں کہ پڑھا لکھا نہیں ہے اور ان پڑھ ہے ایک ایسی کتاب لے آیا کہ جو تمام علوم سے مملو ہے اور اپنے کو کتاب ہدایت قرار دیتی ہے۔ہدایت یعنی راستہ دکھانے اور مطلوب تک پہنچانے کے معنوں میں ہے یعنی انسان کو اپنے مطلوب اور مقصد تک پہنچاتی ہے اس میں بہت ساری ایسی آیات ہیں جو فلسفہ کی عمیق گہرائیوں پر مشتمل ہیں مگر بڑی سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ قرآن صرف فقہ کی کتاب نہیں مگر اس میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ انسانی معاشرے کا سر ان کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کسی کی کیا مجال جو قرآن کے برابر قوانین مرتب کرسکے۔ عبادی، معاشرتی ، سیاسی ، قوانین، قصاص کے قوانین ، قوت اجرائی کے قوانین وغیرہ۔ قرآن کہتا ہے۔
“قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهيراً ”(سورہ بنی اسرائیل : ۸۸ )
۴:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب کریم ہے اور یہ لقب بھی قرآن کریم میں مذکور ہے :
“إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَريمٍ ”(تکویر آیت ۱۹)
حضور اکرم(ص) مکہ مکرمہ میں اس قدر کفار کی اذیت سے دوچار تھے کہ وہ آپ(ص) پر پتھر برساتے تھے آپ(ص) بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے۔ حضرت ابو طالب(ع) اور حضرت خدیجہ(ع) آپ(ص) کو ڈھونڈ لاتے ۔ بارہا انہوں نے سنا کہ حضور اکرم(ص) فرماتے تھے کہ
“ اللهم اهد قومی فانهم لا يعلمون”
“ خداوند میری قوم کی ہدایت فرما۔ یہ لوگ نادان ہیں ”
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بارہ ہزار کے آراستہ لشکر کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے تو اپنے کسی ساتھی کو یہ کہتے ہوئے سنا۔“ الیوم یوم المطحمت۔” آج کا دن جنگ و بدلے کا دن ہے۔ آپ(ص) نے یہ سن کر امیرالمومنین(ع) کو اس کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کرا دیں کہ کہ “ الیوم یوم المرحمہ۔” یعنی آج رحمت ، کرامت اور معافی کا دن ہے۔
۵:۔ آپ (ص) کے القاب میں سے ایک رحمت ہے جو قرآن میں مذکور ہے۔
“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ ”
“ ہم نے تمہیں دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔”
اور آپ (ص) کی رحمت کی حدود قرآن میں یوں بیان کی گئی ہیں۔
“فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ عَلى آثارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَديثِ أَسَفاً ”
“ اے رسول(ص) تم تو شدت حزن سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے قریب ہے کہ ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلاک کرو۔” ( سورہ کہف آیت ۶)
اگر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غم و دکھ جھیلے ہیں راز و نیاز کیا ہے، صبر کیا ہے اور مشقت و تکلیف برداشت کی ہے۔
“لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ ”
“ ایک رسول(ص) تمہارے درمیان آیا ہے جو تم میں سے ہے تمہاری سرکشی اورہٹ دھرمی اس کے لیے بڑی گراں ہے تمہاری ہدایت کا خواہاں ہے مومنین پر مہربان اور رحمدل ہے۔” ( سورہ توبہ آیت ۱۲۸)
۶:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب متوکل ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ(ص) ہمیشہ ذات خداوند پر اعتماد رکھتے ہیں اور اپنی ذات پر نہیں بلکہ خدا پر اعتماد کرتے ہیں۔ آپ(ص) کی دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔
“ اللهم لا تکلنی الی نفسی طرفت عين ابدا”
“ خداوند پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لیے بھی مجھے میرے اپنے حوالے نہ کر۔”
کہتے ہیں کہ ایک دشمن نے ایک جنگ کے دوران آپ(ص) کو اکیلا پایا اور اپنی تلوار سونپ کر آگے بڑھا اور کہا اے محمد(ص۹ بتاؤ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپ(ص) نے کمال اطمینان کے ساتھ جواب دیا میرا خدا۔ آپ(ص) کا یہ کہنا تھا کہ اس دشمن کے بدن پر لرزہ طاری ہوا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی آپ(ص) نے بڑھ کر تلوار اٹھائی اور فرمایا مجھے تو میرے پروردگار نے بچایا اب تم بتاؤ تمہیں کون بچائے گا؟ اس نے جواب دیا آپ (ص) کی مہربانی اور رحمدلی۔ یہ سن کر آپ(ص) نے اسے معاف فرمایا ۔
آپ(ص) اکثر اوقات ایسے اہم امور انجام دیتے تھے کہ عمومی سوچ اور نظریئے کے مطابق ان امور میں کامیابی کم نظر آتی تھی مگر آپ(ص) سوائے خدا کے کسی پر اعتماد نہ کرتے تھے آپ(ص) خدا پر توکل کرتے تھے خوف خدا رکھتے تھے اس لیے سب کچھ رکھتے تھے۔
پیغمبر اکرم(ص) خدا پر اعتماد رکھتے تھے نہ کہ دنیا پر بلکہ آپ(ص) دنیا کو ایک کھوکھلی شے سمجھتے تھے آپ(ص) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا ۔ “ دنیا درخت کے سائے کی مانند ہے جس کے نیچے ایک مسافر تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتا ہے۔”
خلاصہ یہ کہ آپ(ص) توکل کے تمام معانی کے حامل تھے اپنے آپ پر نہیں بلکہ خدا پر توکل کرتے تھے آپ(ص) کو دوسروں پر نہیں بلکہ اپنے خدا پر اعتماد تھا۔
۷:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب امین ہے یہ لقب آپ(ص) کو قبائل عرب نے آپ(ص) کی بعثت سے بہت پہلے دیا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور اکرم(ص) اپنی بعثت سے پہلے ہی فوق العادت صفات کے حامل تھے آپ(ص) کی پاکدامنی ، سچائی، کمزوری کی دستگیری، اچھے آداب و رسوم کا لحاظ، معاشرتی اچھائیوں کا خیال خصوصا صفائی پاکیزگی اور امانت داری عربوں کے درمیان مشہور تھی۔
حضرت ابو طالب(ع) فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی آںحضور(ص) کو برہنہ نہیں دیکھا بلکہ یہاں تک کہ آپ(ص) کو رفع حاجت کے وقت کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ جس دن آپ(ص) کو اسلامی کی کھلم کھلا تبلیغ کا حکم ملا تو آپ(ص) نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دین سب سے پہلے آپ(ص) نے ان سے جو بات پوچھی یہ تھی کہ میں تمہارے درمیان کس قسم کا فرد ہوں سب نے یک زبان ہو کر کہا ہم نے آپ(ص) کو صادق اور امین مانتے ہیں اور جانتے ہیں۔
عبداﷲ بن جزعان ایک کمزور بوڑھا تھا اور اپنا گھر بنانے لگا تو حضور اکرم(ص) جن کی عمر اس وقت سات سال کی تھی بچوں کو لیکر آتے اور اس کے مکان بنانے میں مدد دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا گھر تیار ہوا تو اس کا نام “ دار النصرہ” پڑگیا اور کمزوروں کی مدد کے لیے مرکز قرار دیا گیا۔
آپ(ص) ہر وقت ادب کے ساتھ چلتے۔ ادب کے ساتھ بیٹھتے اور گفتگو بھی اسی انداز میں کرتے تھے۔ آپ(ص) ہر وقت متبسم رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ(ص) کو “ ضحوک ” کہا جاتا تھا آپ(ص) کا کلام فصیح اور شیرین ہوتا تھا۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے جہاں تک ہوسکے دوسروں کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آتے تھے۔ یہ تمام چیزیں مسلم تاریخی ثبوت ہیں۔
۸:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب “ عبداﷲ” ہے یہ لقب بھی قرآن مجید سے
ثابت ہے ارشاد ہوا
“سُبْحانَ الَّذي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ الْبَصيرُ ”( سورہ بنی اسرائیل آیت ۱)
“ پاک ومنزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرائی مسجد الحرام سے لیکر مسجد اقصی تک جس کے ارد گرد کوہم نے با برکت قرار دیا ہے تاکہ اپنی آیات اسے دکھائیں بے شک وہ سننے والا اور با بصیرت ہے۔”
یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ(ص) کا یہ لقب آپ(ص) کے تمام القاب سے بہترین لقب ہے اس وجہ سے تو تشہد میں رسالت کے ذکر سے پہلے عبدیت کا ذکر ہوا ہے بندگی کے اپنے مراتب ہیں اس کے تمام مراتب میں سے بلند مرتبہ لقائ اﷲ کا ہے جس کے بارے میں قرآن نے باربار تذکرہ کیا ہے یہ بہت بلند مرتبہ ہے ایک ایسا مرتبہ جہاں پہنچ کر انسان سوائے ذات الہی کے اور کہیں دل نہیں لگاتا اس منزل میں اﷲ کے علاوہ اور کسی سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے۔
“رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ”
“ یعنی : ان کی تجارت اور ان کی خرید و فروخت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتی۔”
ایک ایسا مرتبہ ہے جہاں انسان کا دل خدا کی محبت سے پر ہوتا ہے اس منزل میں انسان کے لیے کوئی غم و فکر نہیں۔ اس کا دل اطمینان سکون اور وقار سے پر ہوتا ہے۔
“ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ”
“ یعنی : دل اﷲ کے ذکر سے سکون حاصل کرتے ہیں۔” ان میں تڑپ خوف اور اضطراب نہیں ہوتا ہے۔
“أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ ”( سورہ یونس آیت ۶۲ )
“ لوگو! خبردار رہو اﷲ کے دوستوں کے لیے کوئی خوف و غم نہیں۔”
اور حضور اکرم(ص) عبدیت کے انتہائی اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے۔
آپ(ص) گناہوں سے پاک تھے اور دوسروں کے گناہوں کو دیکھ کر غمگین ہوتے تھے۔ عبادت میں لذت پاتے تھے۔ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ پائے مبارک سوج گئے تو خداوند عالم کی طرف سے سورہ طہ نازل ہوئی اور عبادت کی زیادہ مشقت اٹھانے سے منع کیا گیا۔
۹:۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب مصفطیٰ(ص) ہے آپ(ص) کا یہ لقب امت اسلامی کے لیے ایک عظیم فخر کا باعث ہے اور بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ مصطفیٰ کے معنی برگزیدہ کے ہیں اور خداوند عالم نے حضور اکرم(ص) کو تمام مخلوقات میں سے چنا ہے کیونکہ جہاں مہربانی و رحمدلی کا موقع ہے آپ(ص) ایسے رحمدل اور مہربان ہیں کہ کوئی مثل نہیں۔ جس وقت حاتم طائی کی بیٹی مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہوئی اور مدینہ پہنچی اور مسلمان ہوئی تو حضور اکرم(ص) نے امین لوگوں کے ہمراہ اسے اپنے بھائی عدی کے پاس بھیجا۔ عدی نے اپنی بہن کی زبانی حضور اکرم(ص) کے بارے میں سن کر ارداہ کیا کہ آپ(ص) کی خدمت میں پہنچے اور اسلام کو قریب سے دیکھ سکے۔ تاکہ بصیرت و معرفت کے ساتھ مسلمان ہوجائے۔ وہ کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور اکرم(ص) کے ساتھ چل رہے تھے کہ ایک بڑھیا نے آںحضرت(ص) کا راستہ روک لیا اور باتیں کرنے لگیں۔ حضور اکرم(ص) رک گئے اور کمال مہربانی کےساتھ اس کی باتیں سننے لگے اس عورت نے بہت زیادہ وقت لیا۔ مگر حضور اکرم(ص) نے اس کی بات نہیں کاٹی ۔ عدی کہتا ہے کہ آپ(ص) کی پیغامبری کی ایک دلیل تو میرے لیے ہی روشن ہوگئی۔ جب ہم آپ(ص) کےساتھ گھر پر پہنچے تو کسی قسم کی بکلفات موجود میں تھے۔گھر کا فرش گوسفند کے چمڑے کا تھا اور جو غذا کھانے کے لیے مہیا کی گئی وہ جو کی روٹی اور نمک تھی۔ یہ میرے لیے آپ(ص) کی نبوت کی دوسری دلیل بن گئی۔
جو شخص اقتدار رکھتا ہو، دولت رکھتا ہو، حیثیت رکھتا ہو، پیرو کاروں کی ایک
کثیر تعداد رکھتا ہو اور اس کے گھر کی حالت یوں ہو اور لوگوں کے ساتھ اس قدر انکساری برتا ہو تو وہ پیغمبر ہی ہوسکتا ہے۔ آخر کار آپ(ص) سے ایک معجزانہ کام دیکھ کر میں نے اسلام قبول کیا۔ آںحضرت(ص) نے مجھ سے فرمایا تمھارے دین اور عقیدے کے مطابق ٹیکس لینا حرام ہے پھر تم کیوں کر ٹیکس لیتے ہو۔ یہ سن کر مجھے آپ(ص) کی نبوت کا یقین ہوگیا۔ آپ(ص) اتنے نرم دل تھے کہ جب کسی بچے کو روتا سنتے تو فورا نماز ختم کر کے اسے اٹھالیتے اور جب کسی بچی کو دیکھتے کہ پیسے گم کردئیے ہیں تو اسے پیسے بھی دیتے اور اس کی سفارش کرنے اس کے مالک کے گھر تک جاتے۔
لیکن جب اسلام کی بات آتی ہے اور دیکھتے ہیں کہ یہودی سازش کررہے ہیں، عہد شکنی پر تلے ہیں اور جاسوسی کررہے ہیں تو یقین ہوا کہ ان کا وجود اسلام کی ترقی کے لیے مانع ہے تو ان میں سے سات سو کے قتل کا حکم دیتے ہیں۔ یہ ایسا انسان ہے جو مختلف ابعاد کا جامع ہے۔ عام دستور یہ ہے کہ اگر ایک انسان زہد و ریا اور اصطلاح فلسفی کے مطابق “ بلی الرجی” کی راہ اختیار کرچکا ہو۔ اس کے تعلقات لوگوں کے ساتھ بہتر نہیں رہ سکتے اور وہ نہ تو معاشرے میں اپنا مقام بنا سکتا ہے اور نہ تو دلوں پر حکومت کرسکتا ہے۔ یعنی مخلوق کے ساتھ اس کے روابط مضبوط نہیں ہوسکتے ہیں۔ پیغمبر اکرم(ص) کی ریاضت و مشقت کا پہلو بہت ہی مضبوط تھا یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بعثت سے قبل آپ(ص) غار حرا میں عبادت میں مشغول رہتے تھے اور آپ(ص) عبدیت کی انتہائی بلندی پر فائز تھے لیکن اس کے ساتھ مخلوق کے ساتھ تعلقات کے پہلو میں بھی بہت آگے تھے یہاں تک کہ قرآن کریم نے فرمایا :
“فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَليظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ”( آلعمران : ۱۵۹)
“ خداوند عالم کی طرف سے شامل حال رحمت کی بناء پر تم لوگوں کے ساتھ مدارات کرتے ہو اور نرمی سے پیش آتے ہو اگر تمہاری باتین اور کردار سخت اور
درشت ہوتا تو لوگ تمہارے پاس سے متفرق ہوجاتے ہی۔”
اے محمد(ص) آپ(ص) خوش گفتار ، خوش کردار ہیں اپنے سلوک اور زبان سے لوگوں کو اپنے سے دور نہیں کرتے بلکہ اپنے عمل اور زبان سے اپنے گرد لوگوں کو جمع کرتے ہیں دل کے بڑے نرم ہو سخت دل نہیں ہو ۔ یعنی رسول اکرم(ص) کا صحیح اتباع یہ ہے کہ ان دونوں پہلوؤں پر انسان خاص مقام حاصل کرے۔
مختصر یہ کہ حضور اکرم(ص) تمام صفات کمالیہ کے حامل تھے باوجود اس کے بہت سی صفات کمالیہ یکجا کرنا آسان نہیں۔ عالم تھے ، عارف تھے، عاشق تھے، دشمنوں پر سخت تھے، دوستوں پر مہربان تھے، بہادر تھے، ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے، عاقل تھے، آخرت کو ترجیح زیادہ دیتے تھے دنیا کو بھی جانتے تھے ، زاہد تھے، ثابت قدم تھے اور فعال تھے۔
اگر چہ حضور اکرم(ص) کے بے شمار القاب ہیں مگر ہم اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفا کرتے ہیں اس طرح آپ(ص) کی صفات کمالیہ بھی بہت زیادہ ہیں۔
بلغ العلی بکماله کشف الدجی بجماله
حسنت جميع خصاله صلو عليه و آله
آپ(ص) کے کمال کا پہلو اس حد تک پہنچا کہ آپ کے جمال کی برکتوں سے ساری تاریکیاں دور ہوگئیں ۔ آپ(ص) کے تمام خصائل نیک ہیں۔ بحث کےآخر میں آپ(ص) کے خاتم النبیین (ص) ہونے کے بارے میں مختصر گفتگو کریں گے۔ آپ(ص) کے القاب میں سے ایک لقب خاتم النبیین ہے لفظ خاتم کے “ ت” پر زبر پڑھیں یا زیر دونوں صورتوں میں معنی پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ دونون میں اختتام کے معنی موجود ہیں عربی میں خاتم “ت” پر زبر کےساتھ انگوٹھی کو کہا جاتا ہے جس سے مہر لگایا جاتا ہے اور جب کوئی خط لکھا جاتا تھا تو اس کے آخر میں دستخط کی جگہ مہر لگایا جاتا ہے۔ انگوٹھی کے مہر کی
جگہ آخری جگہ ہوتی تھی اور اس کے بعد خط ختم ہوجاتا ہے۔ پیغمبراکرم(ص) کے خاتم ہونے کا عقیدہ اسلام کی ضروریات میں سے ہے جو بھی مسلمان ہے وہ جانتا ہے ہے کہ حضور اکرم(ص) خاتم الانبیاء(ص) ہیں اور آپ(ص) کے بعد قیامت تک کوئی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔
حلال محمد حلال الی يوم القيامه و حرامه حرام الی يوم القيمه
قرآن کریم نے متعدد آیات میں یہ واضح کیا ہے کہ حضور اکرم(ص) ہر زمانے ، ہر جگہ اور ہر کسی کے لیے نبی ہیں۔
“وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ”
“ ہم تمہیں نہیں بھیجا مگر یہ کہ سارے جہانوں کے انسانوں کے لیے رحمت۔
“ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجالِكُمْ وَ لكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَ خاتَمَ النَّبِيِّينَ ” (الاحزاب آیت ۴۰ )
“ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اﷲ کے رسول(ص) اور خاتم الانبیاء ہیں۔”
قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ساری موجود ہیں اور اس طرح حضور اکرم (ص) کے خاتم الانبیاء ہونے کے بارے میں بہت ساری روایات بھی موجود ہیں۔ ان روایات میں سے ایک روایت “ روایت منزلت ” ہے جو سنی اور شیعہ تمام کے نزدیک مسلمہ ہے اور غایت المرام کے مصنف نے اسے ۱۷۰ اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ جن مٰیں سے ایک سند اہل سنت کے ہاں یوں ہے کہ حضور اکرم(ص) نے فرمایا :
“أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي”
“ تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے کہ موسی (ع) کے ساتھ ہارون(ع) کی تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”
خاتم ہونے کا راز دو چیزون میں ڈھونڈا جاسکتا ہے۔
۱:۔ اسلام انسانوں کی فطرت کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔
“فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنيفاً فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها لا تَبْديلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ” (الروم، ۳۰ )
“ اپنے رخ کودین حنیف کی طرف متوجہ کرو جو انسانوں کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ اﷲ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں یہ پائیدار دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں۔”
۲:۔ دین اسلام تمام پہلوؤں کا جامع ہے اور یہ قدرت رکھتا ہے کہ ہر جگہ ، ہر زمانے میں ہر حالت میں معاشرے کے سامنے جوابدہ ہوسکے۔ اسلام اس بات کا دعویدار ہے کہ انسانی معاشرے میں دینی اعتبار سے جس چیز کی ضرورت تھی اسے بیان کیا ہے۔
“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ ”
“ کتاب جسے ہم نے تم پر نازل کیا ہے تمام چیزوں کا بیان کرنے والی ہے۔”
“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً ” (المائدة : ۳ )
“ آج کے دن ( غدیر خم کےدن ) ہم نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔”
اس کے علاوہ بہت ساری روایات صراحت کے ساتھ اس دعوی کو بیانگ دہل کہتی ہیں اور ائمہ معصومین علیہم السلام سے اس ضمن میں روایات بھی وارد ہوتی ہیں۔
“ ما من شئ يطلبونه الا وهو فی القرآن فمن اراد الک فليسئلنی عنه”
“ کوئی چیز ایسی نہیں جس کی تمہیں ضرورت پڑے مگر یہ کہ وہ قرآن میں موجود ہے بس جو ایسا چاہپتا ہے اس بارے میں مجھ سے پوچھے۔”
جب حقیقت ایسی ہے تو کسی دوسرے دین کا آنا دبے فائدہ اور لغو قرار پاتا ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی دوسرے دین کا اس وقت
ضروری ہوجانا جب موجودہ دین معاشرہ کی ضروریات کو پورا نہ کرسکے اور ایک خاص زمانے کے لیے ہو جب کہ ایسی محدودیت اسلام میں نہیں اور اس کی سب سے بڑی دلیل اسلام کا قانون مرجعت ہے۔ اسلام کے کسی حکم کے بارےے میں اگر آپ ایک “ مرجع” کے پاس پہنچیں اور تو یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے سوالات کا جواب دینے سے عاجز آجائے۔
۳:۔ پہلے والے دین میں کسی قسم کی تحریف یا تبدیلی واقع ہو جائے، جیسا کہ یہودیت اور عیسایت کے بارے میں خود ان کا اپنا اقرار ہے جب کہ اسلام میں یہ نقص موجود نہیں ہے اور خداوند عالم نے اس بات کی ذمہ داری لے لی ہے کہ اسلام اس قسم کی تحریفات سے محفوظ رہے گا۔ قرآن کے بارے میں ہے۔
“لا يَأْتيهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزيلٌ مِنْ حَكيمٍ حَميدٍ ” (فصلت : ۴۲ )
“ اس میں باطل کے داخل ہونے کا امکان ہی نہیں چاہے سامنے یا پیچھے سے اور یہ حکمت والے قابل تعریف کا نازل کیا ہوا ہے جس نے تمام اشیاء کو حکومت کے ساتھ پسندیدہ صفات کے ساتھ خلق فرمایا ہے۔”
۴:۔ اس پہلے والے دین کی ضرورت رہی۔ مثلا اگر کوئی ایسا دین جو کسی خاص زمانے کے لیے بھیجا گیا ہو۔ جس نے اس خاص زمانے کی معنویات اور اقدار کو زیادہ سے زیادہ نظر رکھا ہوا اور جب وہ مطلوبہ ہدف پورا ہوا تو اس کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ اسلام کے بارے میں اس قسم کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اسلام انسان کے ساتھ سو فیصد مطابقت رکھتا ہے۔ اسلام نے جس طرح انسان کی معنویات کا خیال رکھا ہے اس طرح کی مادیت سے غافل نہیں رہا۔ بلکہ اسے بھی اہمیت دی ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے۔
“وَ ابْتَغِ فيما آتاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَ لا تَنْسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنْيا ” ( سورہ القصص : آیت ۷۷ )
“ جو کچھ اﷲ تعالی نے تمہیں دیا ہے اس کے ذریعے آخرت کے طلب گار رہو اور اپنی دنیا کے حصے کو فراموش مت کرو یعنی اسے بھی حاصل کرو۔”
اسلام ایسے کامل قانون کا حامل ہے کہ تمام ممکنہ مسائل کا سامنا کرسکتا ہے اور ایسے احکام پیش کرتا ہے کہ قیامت تک کے زمانے کے لیے اجراء ہوسکتے ہیں۔ خداوند عالم کی طرف سے انبیاء(ع) اس لیے آتے تھے کہ اﷲ کا قانون اس کے بندوں کو پہنچائیں ایسے پیغمبروں کو علم کلام کی اصطلاح میں اولو العزم کہا جاتا ہے اور اب قرآن کے نازل ہونے کے بعد ان کی ضرورت نہیں رہی بلکہ قرآن نے خود ان کی جگہ لے لی ہے تو اب ایسے پیغمبروں کا آنا بے فائدہ ہے۔
اور بعض انبیاء صرف تبلیغ اور قوانین کے اجراء کے لیے آتے ہیں جب کہ اسلام نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے حکم کے ذریعے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے علمائے کرام ہی کو “ نظارت ملی” کا حق دیتا ہے اور بڑی اہمیت دیتا ہے بلکہ ان انبیاء کے برابر قرار دیا ہے۔“ علماء امتی بمنزلة انبياء بنی اسرائيل” حضور اکرم(ص) نے فرمایا۔ “ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں۔” نیز نبوت کے خاتمے کے بعد امامت اور اس کے بعد ولایت فقیہ کی بناء پر رسولوں کے نہ آنے کی تلافی ہوگئی اور مذکورہ صورتوں کے باوجود انبیاء کا آنا بے معنی ہو جاتا ہے۔
حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام عام الفیل کے تیس سال بعد جمعہ کے دن رجب کی تیرہ تاریخ کو اﷲ کے گھر ( کعبہ) میں پیدا ہوئے اور ہجرت کے چالیس سال بعد ۱۹ رمضان کو فجر کے وقت حالت نماز میں ابن ملجم کی تلوار سے اﷲ کے گھر(مسجد) میں زخمی ہوئے اور اسی مہینے کی اکیس تاریخ کو شہادت پائی۔ آپ کی عمر مبارک ۶۳ سال تھی۔ بعثت سے قبل دس سال اور بعثت کے بعد ۲۳ سال حضور اکرم کےساتھ اور حضور اکرم(ص) کی رحلت کے بعد تیس سال گزارے۔ علی (ع) کی زندگی اسلام اور انسانیت کے لیے ایک با برکت زندگی تھی۔ اگر آپ نہ ہوتے تو تاریخ یوں نہ ہوتی ۔ تاریخ کا درخشان دور امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کے ایام ہیں۔
حضرت امیرالمومنین(ع) کے بارے میں بات کرنا کوئی آسان کام نہیں اس لیے ہم یہاں آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اختصار کے ساتھ تذکرہ کریں گے۔
علی(علیہ السلام) کون ہیں؟
واقعتا اس سوال کا جواب کیا ہے؟ اگر ہم اس کے جواب کا ناممکن نہ کہیں تو مشکل ضرور کہنا پڑے گا۔ اہل سنت کےایک بہت بڑے عالم جاحظ کا کہنا ہے کہ “ علی(ع) کے بارے میں بات کرنا ممکن نہیں۔ اگر علی(ع) کا ذکر کر کے کہا جائے کہ حق ادا ہوا تو یہ غلو ہے۔ اگر ذکر کر کے علی(ع) کا حق ادا نہ کیا جائے تو یہ ان پر ظلم ہے۔”
ایک اور بزرگ اہل سنت عالم “ خلیل نموی” کہتے ہیں کہ میں اس ہستی کے بارے میں کیا کہوں کہ دوست دشمن سب نے ان کے فضائل چھپائے۔ دوستوں نے
خوف کے مارے اور دشمنوں نے حسد کے مارے ۔ باوجود اس کے دنیا علی(ع) کے فضائل سے پر ہوگئی ۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں اس قسم کے کلمات شیعہ مفکرین سے بہت منقول ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوگا کہ کہ ہم امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل کے بارے میں قرآن کی زبان میں بات کریں۔
“ وَ لَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزيزٌ حَكيمٌ” (لقمان آیت ۲۷ )
“ تحقیق اگر روئے زمین کے درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں بلکہ سات مرتبہ سمندر سیاہی میں بدل جائیں تو بھی خداوند کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔”
شیعہ نظرئے اور روایات کے مطابق ان کلمات کا معدن امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔ ناحیہ مقدس کی دعا جو حضرت محمد بن عثمان سمری کے ذریعے پہنچی ہے اور رجب کے مہینے کی ہر تاریخ کو پڑھنے کا حکم ہے اس میں ہم پڑھتے ہیں۔ “فجعلتهم معادن کلها ” تک “ یعنی تو نے انہیں اپنے کلمات کا معدن قرار دیا ہے۔” کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
قلم ہوں شاخ اشجار جہاں کاغذ فلک گر ہو سیاہی چشمہ حیواں ہو، دریا ہو، سمندر ہو
جہاں کاتب دعائے مصطفیٰ (ص) تائید داور ہو نو سندوں کو لکھنے کی بھی مہلت تابہ محشر ہو
یہ سب ہوں ذہن عالی سے بلند ہر ایک نخور ہو ثنا جد(ص) کی تیرے اے مہدی(ع) دین پھر بھی کمتر ہو
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی نسبی فضیلت یوں ہے کہ حضرت ابو طالب(ع) جیسا باپ ہے جو حضور اکرم(ص) کا بہترین مددگار اور اسلام کی نصرت و مدد میں سب سے بڑھ کر تھے آپ کی والدہ گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد(ع) تھیں جو رسول اکرم(ص) کے لیے تمام معنوں میں ماں تھیں آپ وہی خاتون ہیں کہ جس وقت مسجد الحرام میں آپ کو درد زہ ہوا تو خدا کی پناہ چاہی تو دیوار کعبہ شق ہوئی اور آپ بلا جھجھک فورا خانہ کعبہ کے اندر چلی گئی۔ تین دن تک خدا کے گھر میں عالم ملکوت کی مہمان رہیں اور چوتھے دن چاند کے ٹکڑے جیسے بچے کو لے کر باہر آئیں اور فرمانے لگیں “ یہ آواز آئی ہے کہ اس بچے کا نام خداوند عالم کے نام سے مشتق ہے لہذا اس کا نام علی رکھو” اور یہ فضیلت ابھی تک کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔
اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی خصوصیت حسب کے اعتبار سے یوں ہیں۔
آپ کے ایمان کی منزل
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے ایمان اور شہود کی منزل کا ادراک نہیں کیا جاسکتا آپ کے ایمان کی منزل کو سمجھنے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ حضرت عمر نے اپنی موت کے وقت چھ افراد کو بلاکر ان میں سے ہر ایک پر کوئی نقص بتایا مگر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے فرمایا “ اے علی(ع) اگر تیرے ایمان کو موازنہ زمین و آسمان کے باسیوں کے ایمان کے ساتھ کیا جائے گا تو تیرا ایمان ان کے ایمان سے برتر ہوگا” یہ جملہ وہی ہے جسے رسول اکرم(ص) سے متعدد بار سنا جاچکا تھا۔
آپ کا علم
خداوند عالم نے قرآن میں آپ کے علم کی توصیف یوں فرمائی ہے۔
“ وَ يَقُولُ الَّذينَ كَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ كَفى بِاللَّهِ شَهيداً بَيْني وَ بَيْنَكُمْ وَ مَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْكِتابِ ” ( سورہ الرعد آیت ۴۳ )
ترجمہ:۔ “ کافر کہتے ہیں کہ تم پیامبر نہیں ہو تم ان کے جواب میں کہو میری رسالت کی گواہی کے لیے میرے اور تمہارے درمیان خداوند عالم اور وہ شخص کافی ہے جس کے پاس کتاب کا پورا علم ہے۔”
اگر ہم اس آیت شریفہ کو سورہ نمل کی آیت ۴۰ کے ساتھ موازنہ کریں تو آپ کے علم کی منزلت واضح تر ہوتی ہے۔
“ قالَ الَّذي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الْكِتابِ أَنَا آتيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ”( سورہ النمل آیت ۴۰ )
“ جس کسی کے پاس قرآن کو تھوڑا سا علم تھا اس نے کہا پلک چھپکنے سے پہلے اسے (تخت بلقیس ) حاضر کروں گا۔”
آپ نہج البلاغہ میں اپنے علم کو یوں بیان کرتے ہیں۔
«سلوني قبل أن تفقدوني والله لو شئت أن اخبر كلّ رجل بمخرجه و مولجه و جميع شأنه لفعلت”
“ قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ مجھ سے جو چاہو پوچھو خدا کی قسم اگر چاہوں تو ہر شخص کے لیے اس کی پیدائش سے لر کر موت تک اور اس کی زندگی کے تمام پہلوؤں کی خبر دے سکتا ہوں۔”
“سلونی قبل ان تفقدونی والذی نفسی بيده ما سالونی بشئ بينکم و بين الساعه الا ان انباکم به ”
“ جو چاہو مجھ سے پوچھو قبل اس کے کہ مجھے نہ پاؤ خدا کی قسم آج سے لے کر قیامت تک کی کوئی چیز ایسی نہیں کہ اگر اس کے متعلق مجھ سے پوچھو تو جواب نہ دوں ۔”
امیرالمومنین (ع) کا تقویٰ
حضرت عمر بن الخطاب نے اپنی موت کے وقت چھ افراد کو خلافت کے لیے منتخب کیا عبدالرحمن بن عوف، عثمان، طلحہ، زبیر، سعد بن وقاص، اور امیرالمومنین علیہ السلام ۔ یہ لوگ ایک کمرے میں جمع ہوگئے عبدالرحمان بن عوف نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں آپ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں مگر ان تین شرائط کے ساتھ کہ اﷲ کی کتاب ، رسول(ص) کی سنت اور شیخین کے طریقے کی پیروی کریں۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا میں اسی صورت میں خلیفہ بن سکتا ہوں کہ صرف یہ شرط رکھی جائے کہ اﷲ کی کتاب، رسول(ص) کی سنت اور اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کروں۔ اس صورت حال کا چند بار اعادہ ہوا یہاں تک کہ حضرت عثمان نے ان شرائط کے ساتھ خلافت قبول کی اور سیاسی اعتبار سے یہ صورت حال بڑی عجیب ہے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام چاہتے تو ان شرائط کے ساتھ اسی وقت خلافت کو قبول کر لیتے اور بعد میں مصلحت نہ سمجھے تو ان شرائط کو ںظر انداز کر لیتے لیکن حضرت عثمان نے ان شرائط کے ساتھ قبول کیا۔ مگر علی(ع۹ کے لیے ان کا تقویٰ مانع ہوا ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں۔
“وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَ شَعِيرَةٍ لَمَا فَعَلْتُهُ”
“ خدا کی قسم اگر ساتوں اقالیم مجھے اس لیے دیئے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے “جو ” کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں کبھی بھی ایسا نہیں کروں گا۔”
امیرالمومنین علیہ السلام سے کہا گیا کہ معاویہ نے ہمارے پیسوں سے لوگوں کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے آپ ایسا کیوں نہیں کرتے۔ فرمایا ۔ “ کیا تم مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ ظلم و گناہ کا ارتکاب کرتے ہوئے میں منصب حاصل کروں؟” اس دن جب آپ نے خلافت قبول کی اپنے ایک شعلہ بیان خطاب میں فرمایا “ بیت المال کی رقم اس کے حقداروں کو ملنی چاہیے اور اسلامی مساوات کا خیال رکھا جائے” مگر
چند دنوں بعد ہی پریشانیاں اور شور و غوغا بلند ہوا۔
ایک رات لوگوں کی ایک جماعت جس میں طلحہ اور زبیر بھی شامل تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے گفتگو کرنی چاہئی تو آپ نے شمع گل کی اور فرمایا چونکہ شمع بیت المال کی ہے اور ہماری گفتگو امور مسلمین سے متعلق نہیں بلکہ نجی قسم کی ہے لہذا ذاتی امور مٰیں بیت المال کی شمع جلانا درست نہیں ۔ انجام کار جنگ جمل اور اس کے بعد جنگ صفین کے مقدمات سامنے آئے اور اس کے بعد خوارج کے ساتھ جنگ کا میدان گرم ہوا۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک ایسی شخصیت ہیں جو اس بات پر راضی نہیں تھے کہ حسن بن علی(ع) بیت المال سے دوسرے مسلمانوں کے حصہ کینے سے پہلے اپنا حصہ لے لیں اور نہ ہی اس پر راضی کہ حضرت زینب کبری(ع) گلو بند کو عاریتا استعمال کر سکیں۔ یہ آپ کے فضائل کے سمندر میں سے ایک قطرہ کی صورت ہے۔
امیرالمومنین علیہ السلام کی عبادات
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی اسلام اور مسلمانوں کی تقویت کے لیے وقف تھی آپ نے زمین کے بیس سے زیادہ قطعات آباد کر کے محتاجوں میں تقسیم کیے۔ اسلام کے لیے امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اور فداکاریاں بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں۔ جو چیز قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ آپ ان جنگوں اور کاموں میں ہر وقت خداوند عالم سے رابطہ رکھتے تھے۔ ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ آپ گڑ گڑاتے ہوئے کہتے ہیں۔ “ ہائے زاد راہ کی کمی اور سفر کی وحشت اور دوری”۔ حضرت ابن عباس(ع) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو میدان میں دیکھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائے ہیں مجھے پتہ چلا کہ آپ صبح ہونے کے انتظار میں ہیں تاکہ فجر کی نماز ادا کریں۔ ایک دفعہ جنگ کے میدان میں آپ کو ایک ٹوٹے ہوئے کوزے
میں پانی پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا میں تلوار اس لیے چلاتا ہوں کہ خدا کا حکم بجا لاؤں لہذا میں قانون الہی کو پامال نہیں کرسکتا یوں میں ٹوٹے ہوئے کوزے میں پانی نہیں پیوں گا۔
لیلہ الہریر جو صفین کے جنگ کی سخت ترین رات تھی حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا سجادہ بچھایا گیا آپ نماز کےلیے کھڑے ہوئے اور آپ کی تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ آپ کی صاحبزادی فرماتی ہیں کہ انیسویں کی رات جو آپ کے شہید ہونے کی رات تھی۔ میرے پدر بزرگوار افطار سے لے کر صبح تک مشغول عبادت تھے کبھی باہر آتے اور آسمان کی طرف نگاہیں بلند کر کے فرماتے تھے۔
“الَّذينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَ قُعُوداً وَ عَلى جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ في خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلاً سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ ”( آلعمران آیت ۱۹۱ )
“ اور جس وقت آپ کے سر اقدس پر ضرب لگی فتو سب سے اولین جو بات کی تھی وہ یہ تھی حسن (ع) نماز کا وقت گزر رہا ہے ۔ نماز کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ( ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں)
آپ(ع) کی سیاست
اگر سیاست سے مراد ہر ذریعے سے اپنے مقصد اور اقتدار تک پہنچنا مراد ہے تو امیرالمومنین(ع) اس سے پاک و مبرا ہیں اور یہ وہی سیاست ہے جسے آپ(ع) نے تقوی کے خلاف قرار دیا ہے۔ جب کہ آپ نے فرمایا ۔ “ لو لا التقی لکنت ادهی العرب” اگر تقوی کا لحاظ نہ ہوتا تو میں عرب کا چالاک ترین فرد تھا۔”
اور اگر سیاست سے مراد حسن تدبر اور امور مملکت کی دیکھ بھال ہے تو امیرالمومنین علیہ السلام سب سے بڑے سیاست داں ہیں۔ ۹۴ ممالک سے علماء اور
دانشور اور سیاست دان جمع ہوئے اوع دو سال کے غور و فکر کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا منشور تیار کیا۔ بعض بزرگوں نے اس دستور کو حضرت علی(ع) کے مالک اشتر کو دیے ہوئے دستور سے موازنہ کیا اور یہ ماننے پر مجبور ہوئے کہ علی(ع) کا یہ منشور اقوام متحدہ کے اس منشور سے ممکنہ اور زیادہ عالمانہ ہے۔ یہ بات بھی مد نظر رہے کہ آپ نے یہ دستور نامہ مالک اشتر کے لیے ان کے مصر روانہ ہوتے وقت ہنگامی طور پر لکھا تھا۔
اسی دستور کی مانند ایک اور دستور بھی ہے جسے آپ نے محمد بن ابی بکر کے لیے لکھا تھا اور جس وقت محمد بن ابی بکر شہید ہوئے تو یہ دستور معاویہ کے ہاتھ لگا۔ انہیں اس قدر پسند آیا کہ اسے محفوظ کرنے کا حکم دیا۔
آپ(ع) کی شجاعت
اگر شجاعت سے مراد دشمن پر غلبہ حاصل کرنا قرار دیں تو امیرالمومنین علیہ السلام بہادر ترین فرد ہیں اورحدیث قدسی لاسیف الا ذوالفقار آپ کی شان میں ہی وارد ہوا ہے۔
اور اگر شجاعت کو نفس پر قابو پانے کے معنی میں لیں تو بھی امیرالمومنین علیہ السلام بہادر ترین فرد ہیں۔ ہمارے کلام کی تائید میں آپ کا کلام نہج البلاغہ میں یوں ہے کہ آپ نے اپنے گورنروں کو یوں فرمان جاری کیا“ اپنے قلموں کو باریک کرو اور سطور کے درمیان فاصلہ نہ رکھو زیادہ سے زیادہ لکھنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اپنے مطلب کا خلاصہ بیان کرو تاکہ مسلمانوں کے اموال کو نقصان نہ پہنچے۔”
اور اگر شجاعت سے مراد مصیبتوں میں صبر کرنا اور زمانے کے اتار چرھاؤ کے مقابلے میں ثابت قدمی اختیار کرنا ہے تو علی(ع) سے بڑھ کر بہادر اور مظلوم بھی کوئی نہیں ملے گا۔ آپ(ع) نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں ۔ “ فی العين قذی و فی الحلق شجی”
“ رسول اکرم(ص) کی زندگی کے بعد تیس سال اس طرح صبر کیا جیسے آنکھ میں کاںٹا اور گلے میں ہڈی پھنسی ہو۔”
آپ(ع) کا زہد
اسلام کے مطابق زہد یہ ہے کہ انسان خدا کے علاوہ کسی چیز یا کسی شخص سے دل نہ لگائے۔ حافظ شیرازی نے زہد کی تعریف یوں کی ہے۔
غلام ہمت آنم کہ زیر چرخ کبود زہرچہ رنگ تعلق پذیرد آزاد است
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام دنیا کے زاہد ترین فرد ہیں اور اس پر معاویہ کا ایک جملہ گواہ ہے ایک دفعہ ایک دنیا پرست منافق معاویہ کے پاس آکر کہنے لگا میں ایک بلند مرتبہ ہستی ( یعنی علی(ع)) کوچھوڑ کر آپ کے پاس آرہا ہوں تو معاویہ نے جواب دیا کہ تیرے منہ میں خاک تم یہ بات کس کے بارے میں کہہ رہے ہو علی (ع) وہی ہستی ہیں کہ جس کے پاس اگر ایک ڈھیر سونے کا اور ایک بھوسے کا ہو تو وہ پہلے سونے کا ڈھیر اﷲ کی راہ میں خرچ کریں گے اور اس کے بعد بھوسے کا ڈھیر خرچ کریں گے۔
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی میں دنیاوی زرق برق کا کوئی نام و نشان موجود نہیں تھا۔ آپ(ع) نے عثمان بن حنیف کو لکھا“ میں نے سنا ہے کہ تم نے ایک ایسی دعوت میں شرکت کی جہاں کوئی فقیر نہیں تھا۔ اور تم نے وہاں مرغن غذاؤں سے لطف اٹھایا میں علی(ع) ہوں کہ میں نے دو کپڑوں اور دو روٹیوں میں زندگی گزاری ۔ ظاہر ہے کہ تم ایسا نہیں کرسکتے لیکن تمہیں چاہیے کہ علی(ع) کی اس کی پرہیزگاری اور تقوی میں مدد کرو۔”
آپ(ع) کی عدالت
جارج جرواق مسیحی اپنے ایک بلیغ کلام میں کہتے ہیں کہ“ قتل فی محرابه لعدالته” علی(ع) اپنی عدالت کی وجہ سے محراب عبادت میں قتل ہوئے۔”
علی(ع) مجسم عدالت ہیں جس وقت انہیں معلوم ہوتا ہے ان کا گورنر ابن عباس قرض لیتا ہے اور اپنے مقام و منصب سے سوء استفادہ کرتا ہے اور قرض کو وقت پر ادا نہیں کرتا تو اسے سخت الفاظ میں خط لکھتے ہیں۔ اس خط میں لکھتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرا گورنر اپنے مقام و منصب سے سوء استفادہ کرے اور اپنے قرضے کو مقررہ وقت میں ادا کرنے میں تاخیر کرے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بیت المال کے درہم و دینار حضرت علی(ع) کے پاس لے جارہا تھا راستے میں دیکھا کہ حضرت علی(ع) کی تلوار فروخت کی جارہی ہے میں نے جاکر حضرت (ع) سے وجہ پوچھی تو فرمایا مجھے ایک پاجامہ بنانے کی ضرورت تھی لہذا تلوار فروخت کر کے اس کی رقم سے پاجامہ سلواؤں گا۔
آپ(ع) کی سخاوت
قرآن کریم میں متعدد آیات جیسے ، آیت ولایت، آیت اطعام، آیت ایثار، حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ ہم یہاں پر ایک تاریخی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آپ کا غلام روایت کرتا ہے کہ ایک دفعہ امیرالمومنین علیہ السلام ایک نہر کھود رہے تھے جب اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے کھدائی سے ابلنے والے پانی سے ہاتھ دھوئے اور اس دوران میں نے ایک کدو پکایا تھا۔ آپ نے بڑے وقار کے ساتھ اسے تناول فرمایا اور کہنے لگے“ خدا کی لعنت ہو اس شخص پر جسے اس کا پیٹ جہنم میں لے جائے۔” دوپہر کو یہ غذا کھانے کے بعد آپ دوبارہ نہر کھودنے میں مشغول ہوئے۔ کدال ایک پتھر پر لگی اور پانی بڑے زور سے بہنے لگا یہاں تک کہ مزید کھدائی کی گنجائش نہیں رہی تو آپ باہر آئے آپ کی
اولاد میں سے بھی بعض موجود تھے انھوں نے جب پانی دیکھا تو بڑی خوشیاں منائیں۔ جب آپ(ع) نے یہ محسوس کیا تو فرمایا ۔ “میرے بچو! اس باغ اور اس نہر کی وجہ سے خوشحال نہ ہونا۔ اور ساتھ ہی آپ نے قلم ودوات لانے کا حکم فرمایا ۔ حکم کی تعمیل ہوئی تو آپ نے نہر اور باغ دونوں فقراء کے لیے وقف کردیا۔
آپ(ع) کا در گزر
عفو کے اسلامی اور حقیقی معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے ذاتی حق سے دستبردار ہوجائے مگر اس طرح دشمن کو گستاخی کرنے کا موقع نہ ملے۔ اس قسم کا عفو و درگزر حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا اولین مقصد رہا ہے۔ ابن ملجم کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی نصیحتیں قابل انکار نہیں ہیں اور اس طرح عورت کی کہاںی جو مشک کاندھے پر لیے امیرالمومنین (ع) کا گالیاں دے رہی تھی۔ آپ نے سن کر اس کی دلجوئی کی۔ اسی طرح معاویہ کی فوج نے پانی کے گھاٹ پر قبضہ کرنے کے بعد علی(ع) کے لشکر کے لیے پانی بند کیا۔ لیکن جب حضرت امیرالمومنین (ع) کی فوجوں نے پانی کے گھاٹ پر دوبارہ قبضہ کیا تو معاویہ کے لشکر کے لیے پانی واگزار کردیا۔
جارج جرداق کا کہنا ہے کہ علی (ع) رحم کرنے والے ہیں اور جو رحم طلب کرتے ہیں انہیں معاف کرتے ہیں چاہیے وہ شخص عمرو بن عاص ہی کیوں نہ ہو جس نے جنگ کے دوران لباس کو اوپر اٹھا کر اپنے آپ کو ننگا کیا تھا۔
آپ(ع) کی انکساری
ایک دفعہ حضرت امیرالمومنین(ع) انبار سے گزر رہے تھے وہاں کے لوگوں نے ساسانیوں کے رواج کے مطابق جو اپنے بادشاہوں کے آنے پر پہلے راستے پر عطر پاشی کرتے تھے اور بعد میں بادشاہوں کے آگے آگے دوڑتے تھے۔آپ(ع) کے سامنے
بھی دوڑنے لگے تو فرمایا ہم تم سب اﷲ کے بندے ہیں اور ایسا کرنا تمہارے لیے ذلت کا باعث ہے انسان کو چاہیے کہ صرف خداوند عالم کے حضور خاکساری برتے۔
امیرالمومنین علیہ السلام غذا ، خوراک ، لباس ، گھر اور دیگر ضروریات میں تمام لوگوں سے زیادہ سادگی اختیار کرتے تھے۔ آپ(ع) اکثر فرماتے تھے۔
“أَ أَقْنَعُ مِنْ نَفْسِي بِأَنْ يُقَالَ هَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ لَا أُشَارِكُهُمْ فِي مَكَارِهِ الدَّهْرِ”
“ کیا میں صرف اسی پر اکتفا کروں کہ لوگ امیرالمومنین (ع) کہیں اور میں ان کے مصائب میں شریک نہ ہوں۔”
امیرالمومنین (ع) جیسے مرد آزاد کے بارے میں اس پہلو سے بحث جائز نہیں۔ لیکن نہج البلاغہ میں جیسے اشارہ ہوا ہے۔ جس میں آپ نے اپنے خداندان والوں سے فرمایا ہے کہ اگر میں چاہوں تو اپنے لئے بہترین غذا اور لباس مہیا کرسکتا ہوں لیکن۔
“هَيْهَاتَ أَنْ يَغْلِبَنِي هَوَايَ وَ لَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوْ بِالْيَمَامَةِ مَنْ لَا طَمَعَ لَهُ فِي الْقُرْصِوَ لَا عَهْدَ لَهُ بِالشِّبَعِ”
“ یہ بہت بعید ہے کہ میرا نفس مجھ پر غالب آئے کیونکہ یہ ممکن ہے کہ دور حجاز یا یمن کوئی ایسا شخص ہو جو بھوکا ہو یا پیٹ بھر کر طعام نہ کھایا ہو۔”
جارج جرادق نے کیا ہی خوب کہا ہے دنیا کے تمام سمندروں ، تالابوں کے پانی، جھیلوں کے پانی ،اوقیانوس کے پانی میں طوفان آسکتا ہے مگر جہاں طوفان نہیں آسکتا تو وہ علی (ع) کے وجود کا سمندر ہے۔ کوئی شخص اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں طوفان و ہلچل پیدا کرسکے۔ واقعا ایسا ہی ہے۔
کیا اچھا کھانے کی فطری خواہش علی(ع) میں ہلچل مچاسکتی ہے؟ حالانکہ یہ ایک ایسی فطری خواہش ہے جو افراد کو اپنی اولاد تک کو کھا جانے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی وہ جبلت ہے جسے فرائڈ کے شاگردوں نے دوسری تمام خواہشات کے سرچشمہ قرار دیا ہے ۔ بر خلاف فرائڈ کے کہ اس نے جنسی خواہش کو سرچشمہ سمجھا ہے مگر شاگردوں
نے رد کر کے کہا دوسری تمام جبلی خواہشات اس کھانے کی جبلت کی وجہ سے ہیں۔
حمزہ کہتا ہے ایک دفعہ شام کے وقت معاویہ کےہاں تھا اور اس نے اپنا مخصوص ڈنر میرے سامنے رکھا مگر غصے کی وجہ سے لقمہ میرے منہ میں اٹک گیا میں نے پوچھا معاویہ یہ غذا کیا ہے؟ اس نے کہا یہ ایک خاص غذا ہے جو گندم کے نشاستہ ، حیوانات کے مغز اور بادام کے روغن وغیرہ سے تیار کی گیا ہے۔ یہ سن کر میں نے کہا ایک رات دار الامارہ میں علی(ع) کی خدمت میں تھا افطار میں میرے لیے ایک روٹی اور تھوڑا سا دودھ تھا اور امیرالمومنین (ع) کی غذا جو کی خشک روٹی تھی جسے پانی میں بھگو کر کھا رہے تھے اور یہ روٹی بھی ایسے فصل کی تھی جسے آپ(ع) نے اپنے ہاتھوں سے کاشت کر کے حاصل کیا تھا اور جس وقت کنیز نے آکر دسترخوان اٹھانا چاہا تو میں نے کہا کہ اب امیرالمومنین(ع) ضعیف ہوچکے ہیں ان کی غذا میں خیال رکھیں۔ کیونکہ ان کا زیادہ کا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سن کر خادمہ رونے لگی اور کہا امیرالمومنین (ع) اس بات پر راضی نہیں کہ ان کی روٹی میں تھوڑا سا زیتون کا تیل ملائیں تاکہ روٹی نرم ہوجائے۔ یہ سن کر امیرالمومنین(ع) نے فرمایا حمزہ! مسلمانوں کے حاکم کے چاہئے کہ وہ غذا، لباس، اور مکان کی حیثیت سے تمام سے کمتر ہو تاکہ قیامت کے دن اس سے کم سے کم حساب لیا جائے۔ یہ سن کر معاویہ رونے لگے اور کہا۔
“ ایک ایسے شخص کا نام درمیان میں آیا جس کے فضائل اور مناقب سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔”
اسی طرح اقتدار پرستی کی خواہش بھی دوسری خواہشات سے بڑھ کر ہے اور اقتدار کا طلب گار شخص اپنی تمام دوسری خواہشات کو اس پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اپنی ذات سے محبت کے بعد ایک عام انسان کے لیے جاہ طلبی کی جبلت ایک اہمیت رکھتی ہے کیا جاہ طلبی کی خواہش بھی علی(ع) میں ہلچل مچاسکی؟
ابن عباس کہتے ہیں کہ جنگ جمل میں چند سرکردہ لوگ آئے تاکہ میں انہیں علی(ع) کے پاس لے جاؤں میں آپ کے خیمے میں پہنچا تو آپ اپنی جوتی کی مرمت کررہے تھے میں نے اعتراض کیا تو آپ نے جوتا میرے سامنے پھینک کر کہا “ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں علی(ع) کی جان ہے یہ حکومت و اقتدار علی(ع) کے نزدیک اس جوتی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے کسی کا حق دلادوں یا اس اقتدار کے ذریعے کسی باطل کو مٹادوں۔”
طلحہ اور زبیر بہت اصرار کر کے بصرہ اور مصر کی گورنری حاصل کر کے آپ کا شکریہ ادا کرنے لگے تو آپ نے ان دونوں کا تقرر نامہ پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا میں تمہارے کندھوں پر اتنا عظیم بوجھ رکھ رہا ہوں مگر تم میرا شکریہ ادا کر رہے ہو۔
معلوم ہوتا ہے کہ تم سوء استفادہ کا ارادہ رکھتے ہو۔
عمرو بن عاص ، عمر بن سعد، معاویہ، طلحہ اور زبیر وغیرہ سب اسی جاہ طلبی کی خواہش میں غرق ہوگئے لیکن امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اس دنیا اور اس کی حکومت کو ایک ٹڈی کے منہ میں پتہ یا پرانی جوتیوں سے کم قیمت یا بکری کی چھینک سے بے وقعت بتا دیا ہے۔
صعصعہ کہتا ہے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شخصیت آپ کی اس ہیبت کے باوجود ہمارے درمیان آپ ہماری طرح ہی رہتے تھے جہاں ہم کہتے بیٹھ جاتے ، جوکچھ کہتے اسے سنتے تھے اور جہاں کہیں آپ کو بلاتے تو آپ آجاتے تھے۔
حضور اکرم(ص) نے آپ کو اگر گرانقدر اور دین کا پشت پناہ قرار دیا ہے تو بالکل بجا فرمایا ہے۔ روایت ثقلین جسے شیعہ و سنی سب نے نقل کیا ہے سب کے نزدیک مسلم ہے۔ صاحب طبقات الانوار اہل سنت کی کتب سے پانچ سو دو کتابوں سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے قرآن اور عترت کو دو گرانقدر چیزیں قرار دی ہیں۔
“ إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.”
“ بے شک میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں۔”
“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْء”( النحل : ۸۹ )
“ ہم نے تم پر جو کتاب نازل کی ہے وہ ہر چیز کا بیان کرنے والی ہے اور فتنوں کے زمانے میں ان کی طرف رجوع کرنے کا حکم ہوا ۔”
“إِذَا الْتَبَسَتْ عَلَيْكُمُ الْأُمُورُ كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ”
“ جب رات کی تاریکیوں کی طرح فتنے تمہاری طرف بڑھیں تو قرآن کا سہارا لو۔”
اور عترت کو قرآن کے ساتھ قرار دیا اور اس کے اکمال کو عترت کے ذریعے قرار دیا ہے۔
“ ِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتي وَ رَضيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ ديناً”
“ آج کے دن تمہارے دین کو کامل کیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا ”
بحث کے آخر میں عمرو عاص، یزید اور معاویہ کے اشعار یہاں درج کرتے ہیں معاویہ نے کہا ہے۔
خير البريه بعد احمد حيدر والناس ارضی والوصی سماء
حضرت احمد(ص) کے بعد بہترین مردم حیدر(ع) ہے دوسرے لوگ زمین اور وصی آسمان کی مانند ہے۔
عمرو عاص نے کہا ہے۔
کمليحه شهدت لها ضرا تها فاالحسن ماشهدت به الصنراء
اس حسین عورت کی طرح جس کے حسن وجمال کا اعتراف اس کی سوتن کرے۔ فضیلت یہ ہی کافی ہے کہ اس کی سوتن اس کا اقرار کرتی ہے۔
ومناقب شهد العدو لفضلها والفضل ما شهدت به الاعداء
اس میں فضیلت و مناقب وہی ہے جس کی گواہی دشمن بھی دیں۔
جارج جرداق اپنی کتاب “ ندائے عدالت انسانی” میں کسی مسیحی کے اشعار نقل کرتا ہے ۔ ان اشعار میں وہ مسیحی کہتا ہے کہ اگر کوئی مجھ پر اعتراض کرے کہ تم نے علی(ع) کی تعریف کی ہے لہذا پوپ کی مدح بھی کرو تو میں جواب میں کہوں گا میں تو فضیلت و شرف کا دلدادہ ہوں اور میں نے علی(ع) کو فضیلت کا شرچشمہ پایا لہذا ان کی تعریف کی ہے۔
(ام الائمہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اﷲ علیہا )
آپ کا نام نامی فاطمہ(س) ہے اور آپ کے مشہور القاب آٹھ ہیں، صدیقہ ، راضیہ، مرضیہ، زہرا، بتول، عذرا، مبارکہ اور طاہرہ بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ذکیہ اور محدثہ بھی ان معظمہ کے القاب ہیں اور آپ کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے۔
آپ (س) کی عمر مبارک تقریبا ۱۸ سال ہے ۲۰ جمادی الثانی بعثت کے پانچویں سال پیدا ہوئیں اور ہجرت کے گیارہویں سال تین جمادی الثانی کو ثقیفہ بن ساعدہ کے کرتا دھرتا لوگوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔
حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی شخصیت کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں اس لیے جو کچھ بیان ہوگا آپ کی فضیلت کے سمندر میں سے ایک قطرہ لینے کے مترادف ہوگا۔
اسلامی شخصیت کا ادراک دو طریقوں سے ہوتا ہے ایک تو حسب ونسب کے ذریعے اور دوسرے ذاتی فضائل کی بنیاد پر۔ لیکن اسلام نے نسب کے اعتبار سے جس شخصیت کو قبول کیا ہے وہ مختلف عوامل کی تاثیر کے تحت ہے۔ قانون وراثت ، شرعی احکام کے تحت ، غذا و ماحول کا اثر میاں بیوی کی تاثیر ، اولاد صالح وغیرہ کسی شخصیت میں اپنا نقش ثبت کرتے ہیں۔
حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا قانون وراثت کی روسے رسول اکرم(ص) جیسا باپ جو
انسانی کمالات کے تمام مراتب کو طے کرچکا ہے ۔ آپ (ص) کےجمال سے دنیا کی تمام تاریکیاں منور ہوچکی ہیں اور آپ(ص) کی صفات کے بارے میں انتہائی بات یہ کہی جاسکتی ہے۔
بلغ العلی بکماله کشف الدجی بجماله
حسنت جميع خصاله صلو عليه و آله
اور آپ(س) کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ الکبری(ع) ہیں۔ وہی خاتون ، اسلام جن کا مرہون منت ہے، مسلمانوں کی وہی مان جس نے تین سال تک جب مسلمان شعب ابی طالب(ع) میں محصور تھے تو ان کے اخراجات کا بندوبست کیا اور اپنے تمام اموال صرف کئے وہی ماں جس نے مکہ کے کمر شکن مصائب کا مقابلہ کیا اور رسول اکرم(ص) کے شانہ بشانہ اسلام کی مدد کی اور مدد و ںصرت کی اس راہ میں جسم اطہر پر پتھر بھی لگے۔ طعنے بھی سنے مگر جس قدر مصائب بڑھتے گئے اس معظمہ نے صبر و استقامت کا نمونہ بن کر برداشت کیا۔
اور غذا کی تاثیر کے تحت دیکھیں تو پتہ چلتا ہے مورخوں نے لکھا ہے کہ جس وقت خداوند عالم نے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کو تخلیق کا ارادہ فرمایا تو رسول اکرم(ص) کو حکم ملا کہ چالیس روز تک غار حرا میں عبادت کریں اور حضرت خدیجہ سلام علیہا لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے گھر میں عبادت میں مشغول ہوئیں اور حضور اکرم (ص) غار حرا میں اس مدت کے بعد حضور اکرم (ص) کو حکم ملا کہ گھر واپس لوٹیں۔ عالم ملکوت سے ان کے لیے غذا لائی گئی جس کے بعد زہرا(س) کو نور حضرت خدیجہ(ع) کو منتقل ہوا۔ ماحول کے اثرات کی روسے علاوہ اس کے کہ حضرت زہرا(ع) کو ایک فداکار
خاتون کی گود نصیب تھی جو ثابت قدمی میں ایک نمونہ تھیں ساتھ ہی حضور اکرم(ص) جیسے باپ کی تربیت میں پروان چڑھیں۔ آپ جس ماحول میں زندگی گزار رہی تھیں وہ تلاطم سے پر تھا مکہ معظمہ اپنی تمام مصیبتوں اور ناگوار حادثوں کےساتھ آپ کی پرورش کا ماحول تھا۔ آپ نے شعب ابی طالب میں جس طرح زندگی گزاری اس کی تعریف میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے معاویہ کو یوں کہا۔ “تم لوگوں نے ہمیں تین سال تک سورج کے نیچے قید میں رکھا ۔ وہ بھی اس طرح کہ ہمارے بچے بھوک اور پیاس سے مرگئے ، ہمارے بڑوں کی جلدیں اکھڑ گئیں تھیں او بچوں اور عورتوں کے گریہ و فریاد کی آواز سنی جاتی تھیں۔”
واضح رہے کہ جو بچہ ایسے ماحول اور معاشرے میں پل رہا ہو اور اس کی پرورش کرنے والی رسول اکرم(ص) جیسی ہستی ہوتو اس کے صبر و استقامت اور وسعت صدر (قلب ) زیادہ سے زیادہ ہی ہوگی۔
ناز پروردہ تنعم نہ برد راہ بہ دوست عاشقی شیوہ رندان بلاکش باشد
حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا بیوی، ہم نشین رفیق اور اولاد کی حیثیت سے فوق العادت ہستی ہیں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب (ع) جیسا شوہر جس کی شان مں قرآن کی تین سو سے زیادہ آیات موجود ہیں اور تاریخ نے اسلام کو انہی کی ذات کے مرہون منت سمجھا ہے۔
ایک ایسا شوہر ہے کہ خود اہلسنت کے اقرار کے مطابق مختلف مواقع میں حضرت عمر نے ۷۲ سے زیادہ مرتبہ لو لا علی لهک العمر کہا ۔ خداوند عالم نے آپ کو حسن(ع) حسین(ع) اور زینب(س) و ام کلثوم(س) جیسی اولاد عطا کی جو اگر نہ ہوتے تو اسلام ہی نہ ہوتا۔ حضرت امام حسین(ع) کے کہنے کے مطابق “ و علی الاسلام السلام” اولاد کے اعتبار
سے حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا “ ام الائمہ” ہیں اور حضرت قائم آل محمد(ص) ہمارے عالم خلقت کے نچوڑ میں ایک ودیعت کئے ہوئے سربستہ راز ہیں۔
اور انسانی فضائل کی روسے اس ہستی کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ جس کے بارے میں پیغمبر اکرم(ص) نے متعدد دفعہ فرمایا “ إنّ اللّه اصطفيك و طهّرك و اصطفيك على نساء العالمين.”
بے شک خداوند عالم نے تمہیں منتخب کیا اور تمہیں پاکیزہ کیا اور تمام جہانوں کی عورتوں سے برگزیدہ قرار دیا۔”
اگر حضرت زہرا(س) کی شان میں سورہ کوثر کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تو بھی آپ کی عظمت کو سمجھنے کے لیے کافی ہوتا کہ آپ تمام جہان والوں کی نسبت خدا کے حضور برتری اور فضیلت کی حامل ہیں۔
“بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انحَْر إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْترَُ”
“ بے شک ہم نے تمہیں کوثر عطا کی پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو بے شک تمہارا دشمن ہی دم کٹا ہوگا۔”
حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ایمان کے اعتبار سے راضیہ اور مرضیہ ہیں۔
“يَأَيَّتهَُا النَّفْسُ الْمُطْمَئنَّةُ ارْجِعِى إِلىَ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّة فَادْخُلىِ فىِ عِبَادِى وَ ادْخُلىِ جَنَّتى”
“ اے نفس مطمینہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جا اس حالت میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہے پس تو میرے بندوں میں شامل ہوجا اور میری بہشت میں داخل ہوجا۔”
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام کے القاب اور کنیتیں بے سبب نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک راز کی حامل ہیں اگر آپ زہرا(س) ،
صدیقہ، ذکیہ، طاہرہ، محدثہ القاب کی اسم با مسمی نہ ہو تو یہ بڑی بے معنی بات ہوگی۔ اگر جبرئیل(ع) نہ آتے اس مطمینہ کے ساتھ بات نہ کرتے باوجود اس کے آپ کو محدثہ کہا جائے گا۔ تو یہ جھوٹ ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی محدثہ ہو اور اس کا ایمان شہود کی منزل تک نہ پہنچا ہو۔
علمی اعتبار سے آپ صحیفہ کی حامل ہیں
روایات کے مطابق کچھ کتابیں حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے پاس ہیں جن میں سے ایک صحف فاطمہ(س) ہے اسی کتاب پر ائمہ علیہم السلام نے فخر کیا ہے اور کہا ہے کہ علم ما کان وما یکون وما ہو کائن۔ اس میں موجود ہے یعنی جو کچھ ہوا ہو، جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اس کا علم اس میں موجود ہے اور یہ صحیفہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کا لکھایا ہوا ہے اور حضرت امیرالمومنین (ع) کے دست مبارک کا لکھا ہوا ہے۔
حضرت زہرا(س) کا زہد
جس دن حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا علی(ع) کے گھر میں بیاہ کر آئیں تو امیر المومنین علیہ السلام نے “ش” ایک قسم کی گھاس کا فرش بجھایا ہوا تھا اور حضرت رسول اکرم(ص) نے آپ کو جو جہیز دیا تھا اس تمام کی قیمت ۶۳ درہم تھی اور وہ جہیزیہ تھا۔ عباء، مقنعہ، پیراہن ، چٹائی، پردہ، لحاف ، کٹورہ ، پیالہ ، دستی چکی ، پانی کا مشکیزہ، گوسفند کا چمڑا ، تکیہ
حضور اکرم(ص) سے جب جہیز کے سامان کو دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا“ خداوند! اس جہیز میں برکت عطا فرما جس میں سے اکثر مٹی کا بنا ہوا ہے۔”
حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا نے اپنے شوہر کے گھر کی طرف جاتے ہوئے وہ پیراہن ایک مسکین کو دیدیا اور اپنے پرانے پیراہن میں ہی شوہر کے گھر پہنچ گئیں۔ دوسرے دن حضرت پیغمبر اکرم(ص) بیٹی سے ملنے کے لیے آئے تو یہ تحفہ بیٹی کے لیے لے آئے تھے۔
“ علی فاطمه خدمته ما دون الباب و علی علی خدمته ما خلفه”گھر کے اندر کے کام فاطمہ(س) کے سرد ہیں اور گھر کے باہر کا کام علی(ع) کے ذمے ہیں۔” اس تحفے کو جناب زہرا سلام اﷲ علیہا نے بخوشی قبول کیا بلکہ بے حد خوشی کا اظہار کیا اور کہا “ ما يعلم الا الله ما داخلنی من السرور ” خداوند عالم کے علاوہ اور کوئی نہیں جان سکتا کہ اس تقسیم سے میں کس قدر خوش ہوئی ہوں۔”
حضرت زہرا(س) کی عبادت
روایات میں وارد ہے کہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا اس قدر عبادت کرتیں اور قیام میں رہتی تھیں کہ آپ کے پاؤں سوجھ جاتے تھے ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے تھے کہ میری والدہ گرامی رات کے ابتدائی حصے سے صبح تک عبادت میں مشغول رہتی تھیں اور جب بھی آپ نماز سے فارغ ہوتی تھیں تو ہمسایوں کے لیے دعا کرتی تھیں اور جب ہم آپ سے پوچھتے تھے کہ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتی تھیں بیٹے “ الجار ثم الدار” بیٹے پہلے ہمسائے پھر گھر۔ حضرت زہرا(س) کی تسبیح کی بے حد فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ “ میری داماد حضرت زہرا(س) کی تسبیح میرے نزدیک ایک ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔”
کہتے ہیں کہ گھر کے کاموں میں حضرت زہرا(س) کی مدد کے لیے ایک خادم کی ضرورت تھی اور اس وقت کا رواج بھی تھا کہ خادم یا خادمہ گھر میں رکھے جاتے تھے جس
وقت حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا حضور اکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو قبل اس کے کہ حضرت فاطمہ (س) کچھ عرض کرتیں رسول اکرم(ص) نے فرمایا “ میری جان زہرا(س) کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ میں تمہیں ایک ایسی چیز سکھادوں جو دنیا و ما فیہا سے بہتر ہو اور ساتھ ہی آپ نے مشہور تسبیح جسے “ تسبیح فاطمہ” کہتے ہیں آپ کو سکھا دی۔ یہ تسبیح سیکھ کر حضرت زہرا(س) خوشی خوشی گھر آئیں اور حضرت علی (ع) سے فرمایا “ اپنے پدر بزرگوار سے دعا سیکھ کر میں نے دنیا کی بھلائی کا حصہ حاصل کیا ہے۔”
آپ کی سخاوت اور ایثار
تمام مفسرین شیعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک دفعہ حضرت زہرا(س) اور آپ کے گھر والوں نے روزہ رکھا اور افطار کا وقت قریب ہوا تھا کہ ایک فقیر نے آکر آواز دی تمام گھر والوں نے اپنی اپنی روٹی اس کے حوالے کردی اور پانی سے روزہ افطار کر کے سوگئے دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا جب افطار کا وقت قریب آیا تو ایک یتیم نے آکر سوال کیا حضرت فاطمہ(س) آپ کے شوہر اور آپ کے بچوں نے نیز آپ کی خادمہ نے بھی اپنی روٹی اٹھا کر یتیم کے حوالے کی اور اس دن بھی تمام گھر والے پانی سے افطار کر کے سوگئے تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا عین افطار کے وقت ایک قیدی آیا تو سب نے اپنا اپنا کھانا اے دے دیا عین اسی وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
“وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلىَ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَ يَتِيمًا وَ أَسِيرًا إِنمََّا نُطْعِمُكمُْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكمُْ جَزَاءً وَ لَا شُكُورًا”
“ یہ لوگ اﷲ کی محبت میں مسکین ، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو صرف اور صرف اﷲکی خوشنودی کی خاطر کھلاتے ہیں اور تم سے کوئی بدلہ اور شکریہ نہیں چاہتے ہیں۔”
بحث کے آخر میں ہم آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت زہرا(س) کے القاب کے بارے میں بہت ساری تاویلیں کی ہیں کہ ان تمام کا ذکر
یہاں ممکن نہیں بلکہ ان کے خلاصے کو طور پر ہم صرف آپ کے نام اور کنیت کے بارے میں تھوڑی سی بحث کرتے ہیں۔
حضرت زہرا(س) کی کنیت “ ام ابیہا ” ہے اور یہی کنیت جو آپ کے لیے باعث افتخار ہے خود حضور اکرم(ص)نے دی ہے۔ “ام ابیہا ” کے معنی “ اپنے باپ کی ماں” ہیں اس کنیت کے مختلف معانی ہیں لیکن بہترین معانی یہ ہیں جو رسول اکرم(ص)نے اس کنیت کو دیئے ہیں یعنی ” زہرا(س) دنیا کی علت غائی ہیں۔” ایسی بعض روایات و احادیث بھی منقول ہیں کہ حضرت زہرا(س) دنیا جہان کی علت غائی ہیں اور اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ عالم ہستی کے فیض کا واسطہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا ہیں تو یہ بھی بے دلیل نہیں اور حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س) کیوں کہا گیا ہے اس کے بھی اسرار ہیں اور روایات اس راز کو یوں بیان کرتی ہیں۔
سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ مِنَ الشَّرِّ
۱ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ آپ برائی سے جدا اور الگ ہیں یہ جملہ حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی عصمت پر دلیل ہے کیوںکہ آپ کا معصومہ ہونا ثابت ہے اور آیت تطہیر آپ ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
“إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً”
“ اے اہل بیت رسول(ص) خداوند عالم کا ارادہ ہے کہ تم اہل بیت کو ہر قسم کے رجس سے ایسا پاک رکھے جیسا کہ پاک رکھنے کا حق ہے۔”
إِنَّهَا سُمِّيَتْ فَاطِمَةَ لِأَنَّهَا فُطِمَتْ عَنِ الطَّمْثِ.
۲ـ حضرت فاطمہ(س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ عورتوں کی ماہانہ عادت سے پاک تھیں یہ آپ کی ظاہری طہارت کی طرف اشارہ ہے روایات سے ثابت ہے کہ آپ طاہرہ اور مطہرہ تھیں۔ طاہرہ یعنی ظاہری نجاسات سے پاک اور مطہرہ معنوی نجاسات سے پاک ۔
سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ لِأَنَّها فُطِمت عَنْ الْخَلْقَ
۳ـ فاطمہ (س) کو فاطمہ(س) اس لیے کہا گیا کہ آپ مخلوق سے جدا تھیں یہ تفسیر آپ کے عرفان کی منزل کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کے دل میں سوائے خدا کے اور کسی کا تصور نہیں تھا اور ہر وقت آپ کا دل مشغول عبادت حق تھا۔
سُمِّيَتْ فَاطِمَةَ لِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ کنه مَعْرِفَتِهَا.
۴ـ آپ کو فاطمہ اس لیے کہا گیا کہ لوگ آپ کی معرفت سے قاصر ہیں یہ تفسیر آپ کے اسی مرتبہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ کو رسول اکرم(ص) نے “ ام ابیہا” کہا ہے۔
سُمِّيَتْ فَاطِمَة فَاطِمَة لِأَنَّهَا فُطِمَتْ شِيعَتُهَا عن النَّارِ
۵ـ آپ کو فاطمہ نام اس لیے دیا گیا کہ قیامت کے دن اپنے شیعوں کو جہنم کی آگ سے نجات دلا دیں گی۔ یہ اشارہ آپ کی شفاعت کے حق کی طرف ہے۔
سُمِّيَتْ فَاطِمَةَ فاطِمَة لِأَنَّ أَعْدَاؤهَا فطِمُوا عَنْ حُبِّهَا
6ـ آپ کو فاطمہ(س) ا سلیے کہا گیا کہ آپ کے دشمن کو آپ کی محبت سے الگ کیا گیا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جس کے پاس محبت اہل بیت(ع) کی سعادت نہٰیں ہوگی اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔
اس فاطمہ(س) کی توصیف کیسے کی جاسکتی ہے کہ جب حضرت زہرا(س) حضور اکرم(ص) کے ہاں جاتیں یا حضور اکرم (ص) حضرت زہرا(س) کے ہاں آتی تو آپ کے ہاتھ اور چہرے کے بوسے لیتے آپ کا استقبال کرتے اور اپنی جگہ بٹھاتے اور فرماتے تھے کہ “ مجھے فاطمہ(ع) سے جنت کی خوشبو آتی ہے۔”
لیکن یہی زہرا(ع) اس قدر متواضع تھیں کہ جب امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ گھر میں کوئی مہمان آرہے ہیں تو فرماتی ہیں یہ گھر آپ کا ہے اور میں آپ کی کنیز ہوں۔ باوجود اس کے کہ آپ ان لوگوں سے سخت بیزار تھیں لیکن آپ کے شوہر نے
اجازت چاہی تو اجازت دی۔ ایک دفعہ ایک عورت آتی ہے اور ایک مسئلہ شرعی پوچھتی ہے مسئلہ پوچھ کر چلی گئی لیکن بھول کی بیماری میں مبتلا ہونے کہ وجہ سے کئی دفعہ یہاں تک دس بار واپس آئی تو آپ نے ہر بار اسے مسئلے کا جواب بتا دیا جب وہ عورت معذرت کرتی ہے تو آپ فرماتی ہیں۔ “ تمہارے ہر بار سوال کرنے سے خداوند عالم مجھے جزا دے رہا ہے تم بار بار پوچھنے کی معذرت مت کرو۔”
جس وقت حضرت زہرا(س) کو ان کے پدر بزرگوار نے خادمہ کی حیثیت سے فضہ دیا تو اپنے پدر گرامی کے حکم کے مطابق گھر کے کاموں کو تقسیم کیا۔ اس طرح ایک دن حضرت فضہ اور ایک دن آپ(ع) کام کرتی تھیں۔
یہ بات نہیں بھولنی چاہئے اور خصوصا خواتین یاد رکھیں کہ تمام اہل بیت(ع) ہماری زندگی کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ قرآن بھی یہی حکم دیتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ پیغمبر اکرم(ص) اور ان کے خاندان کو نمونہ عمل قرار دیں۔
“لَقَدْ كانَ لَكُمْ في رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَ الْيَوْمَ الْآخِرَ ” ( سورہ الاحزاب آیت 21 )
“ بے شک رسول اﷲ(ص) ان لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہیں جو اﷲ اور روز جزا پر امید رکھتے ہیں۔”
اگر ہمیں دو جہاںوں کی سعادت مطلوب ہے تو چاہئے کہ رسول اکرم(ص) اور ان کے اہل بیت(ع) کی پیروی کریں۔ مسلمان خواتین اسی وقت سعادت حاصل کرسکتی ہیں جب وہ عفت ، ایثار، جان نثاری، شوہر داری، خانہ داری اور اولاد کی تربیت مٰیں حضرت زہرا سلام اﷲ علیہا کی پیروی اختیار کریں۔
صاحب وسائل شیعہ نے وسائل کے جلد دوم میں ایک واقعہ لکھا ہے جو حضرت زہرا(س) کے بارے میں ہے لہذا خصوصا خواتین کو اس پر توجہ دینی چاہئے۔ ایک دفعہ
حضرت فضہ نے جناب زہرا(س) کو مغموم پایا اور وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا مجھے یہ فکر ہے جب میرا جنازہ ٹھایا جائے گا تو میرے بدن کا حجم نامحرم لوگوں کو نظر آئے گا۔ فضہ کہتے ہیں یہ سن کر میں نے ایک عماری کا نقشہ کھینچا اور کہا کہ عجم میں لوگوں کی یہ رسم ہے کہ معزز لوگوں کو اس میں رکھ کر لے جاتے ہیں۔ یہ سن کر آپ بہت خوش ہوئی اور تاکید کے ساتھ وصیت کی کہ ان کے جنازے کے عماری میں رکھ کر اٹھایا جائے ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ بھی وصیت کی تھی کہ رات کے وقت تجہیز و تکفین و تدفین کی جائے۔
زوجہ علی(ع) کی بنت رسالت ہیں فاطمہ(س) اتری ہے جن کے گھر میں امامت ہیں فاطمہ(س)
کاظم نہ پوچھ رتبہ سردار مومنات گر ہیں اذان رسول (ص) اقامت ہیں فاطمہ (س)
سید کاظم عباس زیدی
آپ کا نام نامی حسن(ع) ہے اور یہ نام آپ کےلیے پروردگار عالم کی طرف سے عنایت ہوا۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس وقت امام حسن(ع) دنیا میں آئے تو حضور اکرم(ص) کے پاس خداوند عالم کی طرف سے جبرائیل امین(ع) نازل ہوئے اور کہا کہ چونکہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (ع) کی نسبت آپ کے ساتھ ایسی ہے جیسے ہارون کو موسی(ع) کے ساتھ تھی۔ اس لیے علی(ع) کے بیٹے کا نام ہارون(ع) کے بیٹے کے نام پر رکھو جس کا نام حسن(ع) تھا۔ لہذا تم بھی اپنے اس نواسے کا نام حسن رکھو۔
“ روایت منزلت ” علمائے اسلام کے نزدیک ایک مشہور حدیث ہے اہلسنت و شیعہ کے متعدد ذرائع نے یہ حدیث رسول اکرم(ص) سے روایت کی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے متعدد بار فرمایا “ يا علی أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا إنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي” اے علی(ع) تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون (ع) کو موسی(ع) سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں۔ ” یعنی جس طرح موسی(ع) کی غیر حاضری میں وہ موسی(ع) کے خلیفہ تھے اسی طرح میری غیر موجودگی میں تم میرے خلیفہ ہو صرف یہ فرق ہے کہ موسی(ع) کے بعد نبوت کا سلسلہ تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
آپ کی مشہور کنیت ابو محمد (ع) اور مشہور لقب مجتبیٰ(ع) اور سبط اکبر ہیں آپ نے ۴۷ سال کی عمر پائی۔ آپ کی ولادت ۳ ہجری ۱۵ رمضان المبارک کو ہوئی تھی۔ سات سال آپ نے اپنے نانا کے زیر سایہ گزارے اور ۳۰ سال اپنے والد گرامی کے ساتھ گزارے اور آپ کی مدت امامت دس سال ہے۔ آپ ہر پہلو سے “حسن(ع)”
تھے رسول اکرم(ص) جیسا نانا، والدہ گارمی حضرت زہرا(ع)مرضیہ، والد گرامی علی ابن ابی طالب(ع)۔
اگر ہم بچے کی تربیت میں موثر عامل کے تمام قوانین جیسے قانون وراثت وغیرہ کا مطالعہ کریں گے تو مان باپ کے اثرات کا انکار نہیں کرسکتے۔ آپ کے نانا اتنی عبادت کرتے تھے کہ کثرت قیام سے پاؤں میں ورم آجاتا تھا۔ اور خداوند عالم کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی۔ “طه مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْءَانَ لِتَشْقَى”“ ہمارے رسول(ص) ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مشقت میں پڑو۔” اسی ہستی کے زیر تربیت رہ کر نواسہ پلا بڑھا جس نے بیس سے زیادہ حج پا پیادہ کئے اور بعض سفروں میں آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے۔
ان کے والد گرامی حضرت امیرالمومنین علی(ع) رات کی تاریکی میں مصلے بچھاتے اور امام حسن (ع) کی تکبیروں اور خوف الہی سے گریہ و زاری کرنے کی آوازیں سنتے تھے تو اس فرزند کی تربیت اس انداز میں ہوئی کہ وضو کرتے وقت کانپ اٹھتے تھے اور مسجد میں داخل ہوتے وقت روتے ہوئے کہتے تھے
“إِلَهِي ضَيْفُكَ بِبَابِكَ يَا مُحْسِنُ قَدْ أَتَاكَ الْمُسِيءُ فَتَجَاوَزْ عَنْ قَبِيحِ مَا عِنْدِي بِجَمِيلِ مَا عِنْدَكَ يَا كَرِيمُ.”
“اے میرے معبود! تیرا مہمان دروازے پر ہے اے نیکی کرنے والے ! تیرے حضور گناہ گار پہنچا اپنی خوبی کے وسیلے اس کی برائیوں کو معاف فرما۔”
جس باپ نے تیس تک اسلام کے مصالح کی خاطر صبر کیا اور ایسے زندگی گزاری جیسے آنکھ میں خار اور گلے میں ہڈی انکی ہوتو اس کے بیٹے نے دس سال تک مصالح اسلام کی خاطر صبر کیا اور معاویہ کے ساتھ صلح کی اور والدہ گرامی زہرا(ع) مرضیہ تھیں جو اپنا متعلقین کا کھانا پہلے فقیر کو خیرات میں دیتی ہیں اس کے بعد اپنا کھانا دوبارہ پکاتی ہیں تو ایک یتیم کی آواز سن کر غذا اس کے حوالے کرتی ہیں اور
اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے لگتی ہیں جب کھانا تیار ہوتا ہے تو ایک اسیر کی آواز سن کر کھانا اس کے حوالے کرتی ہیں۔ اور خود کو اور گھر والوں کو روزہ افطار کرنے کے لیے کچھ نہیں رہتا ہے تو پانی سے افطار کرتے ہیں۔
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
“وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً”
“ یہ لوگ اپنی غذا کو جس کی خود انہیں بھی ضرورت ہے مسکین یتیم اور اسیر کو دے دیتے ہیں۔”اسی ایثار کو ان کا فرزند حسن(ع) میں پاتا ہے۔
ایک دن ایک سائل کے حضور آکر اپنے فقر کی شکایت کرنے لگا اور اس مضمون کے دو شعر کہے کہ۔
میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جسے بیچ کر اپنی ضرورت پوری کروں میری حالت اس کی گواہ ہے صرف اس وقت میری آبرو محفوظ ہے میں نے ہر چند چاہا کہ نہ بیچوں مگر آج آپ کو خریدار پایا میری آبرو کو خرید کر مجھے فقر سے نجات دیں۔ یہ سن کر آپ نے اخراجات کے ذمے دار سے فرمایا آج جو کچھ تمہارے سامنے موجود ہے اسے دے دو لہذا اس نے بارہ ہزار درہم جو موجود تھے۔ اس کے حوالے کئے اور اور اس روز گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہ تھا۔ آپ نے دو شعر جواب میں یوں لکھ کر دیئے۔
“ تم نے جلدی میں ہم سے جلدی میں ہم سے کچھ چاہا جو کچھ موجود تھا دیا مگر یہ بہت کم تھا اسے لے لو اور اپنی آبرو کی حفاظت کرو گویا ہمیں دیکھا نہ ہو اور نہ ہمیں کچھ فروخت کیا ہو۔” آپ کی مادر گرامی اس منزلت کی تھیں کہ راتوں کو صبح تک نماز میں مشغول رہتیں ہیں اور ہر نماز کے بعد دوسروں کے لئے دعا کرتی رہتیں ہیں۔ آپ کے فرزند حسن(ع) آپ سے پوچھتے ہیں“ اماں آپ ہمارے لیے دعا کیوں نہیں کرتیں
صرف دوسروں کے لیے دعا کریتیں ہیں۔” اس عظیم ماں نے جواب دیا “يَا بُنَيَّ الْجَارَ ثُمَ الدَّارَ.” بیٹے دعا میں ہمارا ہمسایہ ہم پر مقدم ہوتا ہے” زہرا(ع) جیسی ماں حسن(ع) کی پرورش کرنے والی تھیں یہ روایت آپ سے مروی ہے۔
“إِنَّ رَجُلًا أَتَى الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ ع فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي أَعِنِّي عَلَى قَضَاءِ حَاجَةٍ فَانْتَعَلَ وَ قَامَ مَعَهُ فَمَرَّ عَلَى الْحُسَيْنِ ص وَ هُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فَقَالَ لَهُ أَيْنَ كُنْتَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ تَسْتَعِينُهُ عَلَى حَاجَتِكَ قَالَ قَدْ فَعَلْتُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي فَذُكِرَ أَنَّهُ مُعْتَكِفٌ فَقَالَ لَهُ أَمَا إِنَّهُ لَوْ أَعَانَكَ كَانَ خَيْراً لَهُ مِنِ اعْتِكَافِهِ شَهْراً.”
“ ایک شخص کو کوئی ضرورت پیش آئی تو اس نے آپ کو وسیلہ بنایا آپ اس کی خاطر چلے گئے۔ راستے میں دیکھا کہ حضرت امام حسین(ع) نماز پڑھ رہے ہیں آپ نے اس مرد سے پوچھا کہ تم نے حسین(ع) سے اس بارے میں رابطہ کیوں نہیں کیا اس شخص نے جواب دیا کہ امام حسین(ع) اس وقت مسجد میں اعتکاف میں تھے۔ آپ نے فرمایا اگر وہ تمہاری ضرورت پوری کرتے تو ایک مہینے کے اعتکاف سے بہتر تھا۔
حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام نسب کے اعتبار سے تمام لوگوں کے سردار تھے حسب اور دیگر فضائل انسانی کے بارے میں آپ سے ہی سنتے ہیں۔
جس وقت امیرالمومنین علیہ السلام نے شہادت پائی تو آپ (ع) نے فرمایا “ ہم اہل بیت حزب اﷲ ہیں جس کی زیادہ دفعہ معرفت کرادی گئی ہے“فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغالِبُونَ” بے شک حزب اﷲ ، اﷲ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔” ( سورہ مائدہ آیت ۵۶ ) ہم عترت رسول(ص) ہیں کہ حضور اکرم (ص) نے حدیث ثقلین کی رو سے ہمیں قرآن کے ہم پلہ اور اسلام کا ستون قرار دیا ہے۔
“إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ”
“ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گی مگر یہ
کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں”
ہم ہی قرآن کی تنزیل و تاویل کے عالم ہیں ہمیں قرآن میں معصوم اور مطہر کے نام سے پکارا گیا ہے۔
“ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً”
“ ہر ایک کو ہماری اطاعت کرنی چاہئے کیونکہ قرآن میں ان کو یہ حکم دیا گیا ہے۔
حضرت امام حسن(ع) کا صلح کرنا
حضرت امام حسن علیہ السلام کے اقدامات میں سے مسلمانوں اور اسلام کے لئے مفید اقدام معاویہ کے ساتھ صلح کرنا ہے آپ کا یہ اقدام ان لوگوں کے نزدیک جو اسلام اور تاریخ سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتے ہیں مورد شک قرار پاتا ہے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے معاویہ کے ساتھ صلح کیوں کی اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی طرح قیام کیوں نہیں کیا۔
جو بات سب سے پہلے ذہن میں رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسین(ع) کا قیام حضرت امام حسن(ع) کے صلح کے بیس سال بعد واقع ہوا ہے امام حسین علیہ السلام دس سال تک حضرت امام حسن علیہ السلام کےساتھ رہے اور حضرت امام حسن علیہ السلام کے بعد دس سال امام کا مںصب بھی تھا، اختیار بھی تھا لیکن ان دس سالوں میں قیام نہیں کیا۔ امامت کے ان دس سالوں کے بعد آپ نے قیام کیا۔ کیا امام حسین(ع) کے اس تاخیر پر کسی کو اعتراض ہے؟ قطعی نہیں! اگر اس منزل پر کوئی اعتراض ہے تو صرف امام حسن علیہ السلام پر نہیں بلکہ دونوں اماموں پر ہو جاتا ہے یہ بات خود اس کی دلیل ہے کہ قیام کرنا اور تحریک چلانے کے لیے موقع و محل درکار ہے اور ان بیس سالوں میں اس قسم کا کوئی موقع و محل موجود نہیں تھا۔ خلاصہ یہ کہ امیر معاویہ موجودہ اصطلاح میں ایک ماہر سیاستدان تھا۔ اور ہر ممکن ذریعے سے اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جھوٹ ، فریب ، ظلم و قتل و غارت گری، پارٹی بازی ،
یا رشوت دے کر جو بھی ذریعہ اختیار کرنا پڑے اختیار کرتا تھا۔ اور ان ہی ذرائع کے وجہ سے اس کی حکومت قائم رہی جس کا ذکر تمام سنی و شیعہ کتب تاریخ میں موجود ہے۔ امیر معاویہ نے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کی طرف سے تیس سال حکومت کی۔ ابن ابی الحدید کے کہنے کے مطابق حضرت عمر اپنے گورنروں کے ساتھ غیر معمولی حد تک سخت گیر تھے یعنی جب ابوہریرہ کےبارے میں سنا کہ دس ہزار درہم اس کے ذاتی جمع ہیں تو انہیں فورا اپنے دربارمیں بلایا اور کوڑے مارے یہاں تک کہ اس پیٹھ پر زخم پڑ گئے۔ اسے عہدے سے معزول کرنے کے علاوہ اس کا مال بھی ضبط کیا۔ جب خالد بن ولید کے بارے میں سنا کہ اشعث بن قیس کو دس ہزار درہم ہدیہ دیا ہے تو حکم دیا اسے حمص میں ہی جہاں کے وہ گورنر تھے اس کے عمامے سے گلے میں باندھ کر ذلیل کر کے مسجد میں لے جایا جائے اور اس کے بعد اسے معزول کیا جائے۔ ایسا ہی کچھ ابو موسی اشعری، قدامہ بن نطعون اور حارث بن وہب کے ساتھ ہوا مگر معاویہ کے معاملے میں آپ بھی خاموش رہے اور دیکھتے رہے کہ عالی شان محل ہے خود وہ اور اس کے احباب ریشم کا لباس پہننے ہیں۔ ، کفار کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اسراف میں تو مشہور ہوئے نوبت یہاں تک پہنچی کہ بدھ کے دن جمعہ کی نماز پڑھا کر اپنے وفاداروں کو آزمادیا گیا۔ امیر شام ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے رسول(ص) کے صحابہ کو اپنے گرد جمع کیا ابو ہریرہ ، ابو موسی اشعری جیسے لوگوں کو جعلی حدیثیں گڑھنے کے لیے خریدا ہوا تھا عمر ابن عاص جیسے شخص کو خریدا ہوا تھا جس نے نیزے پر قرآن کو بلند کیا۔ ثالث کی پیشکش اور ابو موسی کا فریب دینا تو تاریخ میں مسلم ہے معاویہ فوجی انتظام کا ماہر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) کا ایک آدمی ایک دفعہ شام چلا گیا معاویہ نے کہا کہ جاکر ان کی اونٹی کو چرائے ایسا ہی کیا گیا لیکن تلاش کے بعد جب اس شخص نے اونٹنی کو کسی کے پاس
دیکھ کر دعویٰ دائر کیا تو مدعا علیہ نے چالیس گواہ پیش کئے یہ اونٹ اسی کا ہے جب کہ مدعی کا دعوی اونٹنی پر تھا۔ گواہی کے مطابق اونٹنی کو اونٹ قرار دے کر مدعا علیہ کو دیا گیا مگر معاویہ نے مدعی کو بلا کر ایک اونٹنی اور بہت رقم دے کر کہا میری طرف سے جا کر علی ابن ابی طالب(ع) کو کہو کہ ان گواہوں جیسے لاکھوں افراد کو تمہارے ساتھ جنگ پر بھیجوں گا جو اونٹ اور اونٹنی میں فرق نہیں جانتے ۔”
حضرت امام حسن(ع) کے حامی
جن لوگوں نے حضرت امام حسن(ع) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، ایسے لوگ تھے جنہوں نے جنگ جمل، صفین اور نہروان وغیرہ میں شرکت کی تھی تھکے ہوئے اور نا امید تھے ایسے افراد تھے جن کے درمیان خوارج اور ان کے طرف دار ان کی صفوں میں گھسے ہوئے تھے انہوں نے حضرت امام حسن(ع) کی بیعت اس لئے کی ہوئی تھی کہ اگر معاویہ پر امام فتح پائیں تو یہ آپ (ع) کو ہٹا کر خود حکومت کریں لیکن ان کے درمیان اہلیت رکھنے والے افراد بہت کم تھے لہذا معاویہ رقم عہدوں اور انعام کا لالچ دے کر بڑے بڑے سرداروں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا اور یہ سردار راتوں رات معاویہ کی صفوں میں چلےگئے اور لشکر بغیرسرداروں کے رہ گیا اگر ایسے وقت میں امام حسن(ع) صلح نہ کرتے تو بڑی خونریزی کے بعد معاویہ امام(ع) کو آپ کے حامیوں کے ہاتھ قتل کراتا اور شام میں سوگ کی مجلس قائم کرتا۔
حضرت امام حسن(ع) کی صلح
امیرالمومنین (ع) کا ثالثی قبول کرنا اور حضرت امام حسن(ع) حضرت امام حسین(ع) کا قیام تینوں کی بنیاد اور سرچشمہ ایک ہے۔ حسن(ع) نے صلح کی اور حسین(ع) نے صبر کیا اس حد تک کہ معاویہ اس کا اقتدار اور اس کے حامیوں کا وجود مٹ گیا، حضرت امام حسین(ع) کے فرمان کے
کے مطابق جب معاویہ مر گیا تو عوام کا دل بنی امیہ کے بغض اور اہل بیت(ع) کی محبت سے بھر چکا تھا۔ معاویہ کے مرتے ہی اس کی سیاست بھی ختم ہوئی اور حکومت ایک عیاش احمق اور مغرور شخص کے ہاتھوں میں آئی وہ بد بخت اس منزل پر پہنچا ہوا تھا کہ کمال قساوت قلبی کے ساتھ حسین(ع) کو شہید کیا ان کے اہل بیت(ع) کو شہروں میں پھرایا حسین(ع) کے قتل کی خوشی میں ایک محفل منعقد کی اور اپنے ان اشعار کو سنایا۔ گویا اس طرح لوگوں کے ہاتھ میں چراغ دیکر کہتا ہو کہ بنی امیہ کے ظلم وجور کو اچھی طرح دیکھو ان کے اسلام کو پہچانو اس کے کفر آمیز اشعار یہ ہے۔
لَيْتَ أَشْيَاخِي بِبَدْرٍ شَهِدُوا جَزَعَ الْخَزْرَجِ مِنْ وَقْعِ الْأَسَلِ
لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ
لعبت هاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحي نزل
قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ
بنی ہاشم نے ایک ڈھونگ رچایا ہوا تھا نہ تو ان پر کوئی وحی آئی اور نہ کوئی نبوت ملی تھی ہم نے اپنے بدر کے کشتگان کا بدلہ لیا ور برابری کی کاش اس وقت میرے بدر کے بزرگ زندہ ہوتے تو دیکھ لیتے کہ ہم نے ان کا بدلہ کس طرح لیا۔
اس مجلس میں علی(ع) کے لہجے میں بولنے والی زینب(ع) بھی موجود تھیں۔ جو کچھ انہیں کہنا چاہئے تھا کہا۔ جامع مسجد میں امام سجاد(ع) کو منبر پر جانے کی اجازت ملی جنہوں نے بنی امیہ کو رسوا کردیا۔
یزید نے اپنی حکومت کے دوسرے سال“ جنگ حرہ” کا آغاز کیا اور مدینہ کے عوام کا قتل عام کیا۔ اور خانہ خدا کو آگ لگا دی اور معاویہ کے مرتے ہی امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اسلام کی بقاء آپ(ع) کے اسی قیام کی مرہون منت ہے۔ لیکن یہ فراموش نہ کیا جائے کہ امام حسن(ع) کی صلح اور صبر دونوں امام کے قیام کے لئے میدان فراہم کرنا تھا۔ حسین(ع) کا قیام مکمل طور پر حسن(ع) کی صلح سے مربوط ہے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے شاید اس مرحلے کے لئے فرمایا تھا کہ حسن(ع) و حسین(ع) چاہے بیٹھے ہوئے ہوں یا قیام کریں دونوں حالتوں میں امام واجب الاطاعت ہیں۔ یعنی اگر قیام کریں تو ان کی پیروی کریں۔ اور اگر قیام نہ کریں تو بھی ان کی پیروی کریں۔
اپنی وفات کے وقت حضرت امام حسن علیہ السلام نے جنادہ کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ جنادہ کہتا ہے کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر میں نے کسی نصیحت کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا ۔ “ اے جنادہ موت کے آنے سے پہلے ہر وقت موت کے لیے تیار رہو، موت کے سفر، اپنی قبر اور قیامت کے لیے زادہ راہ تیار کرو۔ جنادہ! دنیا کے لیے اس قدر کوشش کرو جیسے تم نے ہمیشہ یہاں رہنا ہے اور آخرت کے لیے تیاری اس طرح کر جیسے کل ہی تم نے مرنا ہے۔ اگر قوم و قبیلہ کے بغیر عزت اور اقتدار کے بغیر ہیبت چاہتے ہو تو معصیت الہی کے ذلیل لباس کو اتار پھینکو اور اﷲ کی اطاعت کے معزز لباس کو پہنو۔”
آپ کانام نامی حسین(ع) ہے اس نام کو پرودگار عالم نے آپ کے لیے پسند فرمایا۔ آپ کی مشہور کنیت “ ابو عبداﷲ” ہے۔ آپ کے مشہور القاب سید الشہداء اور “ المظلوم” اور “ الشہید” ہیں۔ آپ کی مدت عمر تقریبا ۵۶ سال ہے۔ آپ نے ۴ ہجری کو شعبان کی تیسری تاریخ میں ولادت پائی اور ۶۱ہجری میں دس محرم الحرام کو یزیدی لشکر کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔ جب آپ کی عمر مبارک چھ سال کی تھی تو آپ کے نانا حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے رحلت پائی اور زندگی کے تیس سال اپنے پدر بزرگوار حضرت علی (ع) کے زیر سایہ گزارے اور والد ماجد کی شہادت کے بعد دس سال تک اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن علیہ السلام کی معیت میں زندگی گزاری اس کے بعد آپ کی امامت کی مدت بھی دس سال ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام ان فضائل کے علاوہ جو حسب و نسب کے اعتبار سے تمام اہل بیت(ع) کو حاصل ہیں کچھ امتیازی فضائل کے بھی حامل ہیں۔ سب سے پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ آپ کے صلب سے ہی ائمہ معصومین(ع) کا سلسلہ جاری رہا۔ اس بارے حضور اکرم(ص) سے احادیث موجود ہیں۔ جو اس امیتاز کی تصریح کرتی ہیں۔ حضرت سلمان فارسی(رض) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت امام حسین (ع) حضور اکرم(ص) کی گود میں ہیں آپ (ص) نے انہیں پیار کرتے ہوئے فرمایا ۔
“ أَنْتَ السَّيِّدُ ابْنُ السَّيِّدِ أَبُو السَّادَةِ أَنْتَ الْإِمَامُ ابْنُ الْإِمَامِ أَبُو الْأَئِمَّةِ الْحُجة أَبُو الْحُجَجِ تِسْعَةً مِنْ صُلْبِكَ وَ تَاسِعُهُمْ قَائِمُهُمْ.”
“ تم سرداروں کے سردار ہو اور سرداروں کے باپ ہو تم امام(ع) کے فرزند ہو اور خود بھی امام(ع) ہو بلکہ اماموں کے باپ ہو تم حجت خدا ہو اور خدائی حجتوں کے باپ ہو اور نو حجت تمہارےصلب سے ہی ہوں گے جس میں سے نواں “ قائم آل محمد(ص)” ہوگا۔
دوسرا امتیاز
یہ ہے کہ آپ کی شہادت کی وجہ سے اسلام کو ہمیشہ کی زندگی ملی اور اسلام کا دوام آپ کی شہادت کا مرہون منت ہے۔ تاریخ میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اگر امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور آپ کے اہل بیت(ع) اسیر نہ ہوئے ہوتے تو آج اسلام کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا ۔ اسی وجہ سے حضور اکرم(ص) نے فرمایا تھا۔ حسين منی و انا من الحسين” “ حسین (ع) مجھ سے ہیں اور میں حسین(ع) سے ہوں” اور حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسی امتیاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جب آپ سے بیعت طلب کی گئی تو فرمایا “ لو بايعت يزيد فعلی الاسلام السلام” اگر میں یزید کی بیعت کروں تو اسلام پر فاتحہ پڑھی جانی چاہئیے یعنی اس کا نام نشان مٹ جائے گا۔
اس قسم کے بیانات خود رسول اکرم(ص) اور ائمہ طاہرین(ع) کے ارشادات میں بھی موجود ہیں۔
تیسرا امتیاز
حضرت امام حسین (ع) کا یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت جاگزین ہے جیسے کہ رسول اکرم (ص) نے فرمایا ۔“ إِنَّ لِلْحُسَيْنِ حَرَارَةً فِي قُلُوبِ الْناس لَا تَبْرُدُ أَبَداً” بے شک دلوں میں حسین(ع) کی محبت کے شعلے بھڑک رہے ہیں جو کبھی بجھنے والے نہیں۔ ”
چوتھا امتیاز
حضرت ابو عبداﷲ کا یہ ہے کہ خداوند عالم نے آپ کی تربت میں شفا رکھی ہے اور آپ کے ھرم مطہر میں دعا کی قبولیت متواتر اور قطعی روایات سے ثابت ہے۔
پانچواں امتیاز
آپ کے عظیم امتیازات میں سے ہے کہ آپ نے عشق و محبت ، فداکاری ، جان نثاری اور اﷲ کی راہ میں قربانی کے مفاہیم کو عملی طور پر معنی بخشے۔
“اللَّهُمَّ أَنْتَ ثِقَتِي فِي كُلِّ كُرْبَةٍ وَ أَنْتَ رَجَائِيفِي كُلِّ شِدَّةٍ وَ أَنْتَ لِي فِي كُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِي ثِقَةٌ وَ عُدَّةٌ كَمْ مِنْ كَرْبٍ يَضْعُفُ عَنْهُ الْفُؤَادُ وَ تَقِلُّ فِيهِ الْحِيلَةُ وَ يَخْذُلُ عَنْهُ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ يَشْمَتُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَعْنِينِي فِيهِ الْأُمُورُ أَنْزَلْتُهُ بِكَ وَ شَكَوْتُهُ إِلَيْكَ رَاغِباً فِيهِ عَمَّنْ سِوَاكَ فَفَرَّجْتَهُ وَ كَشَفْتَهُ وَ كَفَيْتَنِيهِ فَأَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ نِعْمَةٍ وَ صَاحِبُ كُلِّ حَاجَةٍ وَ مُنْتَهَى كُلِّ رَغْبَة”
“ میرے پروردگار تو میرے ہر رنج و غم میں میری پناہ گاہ ہے اور مایوسی کے وقت تو ہی امید ہے اور جو کچھ بھی میرے لئے پیش آتا ہے اس میں میرا مددگار اور میری پناہ ہے۔ کتنے سارے غم ایسے ہیں جو دلوں کو کمزور کرتے ہیں راہ چارہ کو مسدود کرتے ہیں۔ دوستوں کو غمگین اور دشمنوں کو خوشحال کرتے ہیں سب تیرے سامنے پیش کرتا ہوں اور ان کی شکایت بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں صرف اس لیے کہ میں تیری طرف ہی رغبت رکھتا ہوں اور تیرے غیر کی طرف نہیں ۔تو نے وہ غم بر طرف کردیئے تو تمام نعمتوں اور خوبیوں کا مالک ہے اور آرزؤں کی منتہا تیری ہی ذات ہے۔”
آپ نے اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میں قربان کیا مال ، جان ، عیال ، دوست و احباب ، اولاد ، یہاں تک کہ شیرخوار بچوں کو بھی قربان کیا اور صحرائے کربلا میں اپنے قتل ہونے کی جگہ یوں فرماتے ہیں۔
تركت الخلق طريّا في هواكا و أيتمت العيال لكى أراكا
و لو قطّعتنى في الحبّ إربا لما حنّ الفؤاد إلى سواكا
“ میرے پروردگار ! تیری راہ میں ، میں نے تمام مخلوق سے رشتہ توڑا ہے تجھ سے ملاقات کرنے کے لیے میں نے اپنے تمام متعلقین سے آنکھیں چرالیں ہیں۔ میرے پروردگار اگر تیری راہ میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاؤں تو بھی ہرگز تیرے غیرے کی طرف مائل نہیں ہوں گا۔”
یہ سیرالی اﷲ پر ایمان کی حقیقت ہے۔ اﷲ پر یقین و عرفان کی حقیقت بندگی اور فنا فی اﷲ کی حقیقت ، یہی تقوی اور ماسوی اﷲ سے نہ موڑنے کی حقیقت ہے اپنے امام حسین علیہ السلام کا قیام بھی ایسا ہی تھا۔ آپ کے خطبات سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت اسلام کو شدید خطرہ لاحق تھا جس دن آپ نے مدینہ سے کوچ کیا یوں فرمایا۔
“إِنِّي لَمْ أَخْرُجْ بَطِراً وَ لَا أَشِراً وَ لَا مُفْسِداً وَ لَا ظَالِماً وَ إِنَّمَا خَرَجْتُ أَطْلُبُ الصَّلَاحَ فِي أُمَّةِ جَدِّي”
“ میں نے قیام اس لئے نہیں کیا کہ میں اﷲ کی زمین پر فساد پھیلاؤں یا ظلم کروں بلکہ میرا قیام اس لئے ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں اور اپنے نانا اور پدر بزرگوار کی سیرت پر چلوں اور اپنے نانا کی امت میں جو مفاسد رواج پاگئے ہیں ان کی اصلاح کروں۔” کربلا معلیٰ میں پہنچ کر جب کہ تمام صحابہ شہادت کے لیے تیار اور کمر بستہ تھے آپ نے یوں خطاب فرمایا۔
“ألا ترون أنّ الحقّ لا يعمل به، و أنّ الباطل لا ينتهى عنه، ليرغب المؤمن في لقاء اللَّه محقّا، فإنّي لا أرى الموت إلّا سعادة، و لا الحياة مع الظّالمين إلّا برما ”
“ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اور باطل سے نہیں روکا جارہا ہے ایسے حالات میں تو مومن موت کی تمنا ہی کرسکتا ہے بے شک اس طرح مرنے کو میں سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمون کے ساتھ زندہ رہتا سوائے بد بختی کے اوپر کچھ نہیں۔”
امام علیہ السلام کے اس طرح کے ارشادات بہت سارے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت اسلام شدید خطرے سے دوچار فضا اور وقت کا تقاضا بھی قیام وتحریک کا تھا۔ اس لئے کہنا پڑتا ہے کہ یزید کے خلاف آپ کا قیام کرنا ایک الہی فریضہ تھا۔
حضرت امام حسین (ع) کے قیام کے اسباب پر تحقیق کرنے کے لئے تو ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر بطور اجمال آپ کے قیام کے اسباب پر روشنی ڈالتے نفس اور دشمن پر غلبہ پانے کی حقیقت اور شجاعت کی حقیقت بھی وہی ہے جسے حسین(ع) نے سکھایا اور زمانے کی گردشوں میں گم نہ ہونے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ جوانمردی اور مردانگی کی حقیقت، سخاوت کی حقیقت ، رحمدل اور مہربانی کے معنی، خدا، اس کے دین اور اس کی مخلوق کے سامنے انکساری برتنے کا درس حسین(ع) نے دیا۔ حکم کا مفہوم سکھایا ۔ اور فصاحت و بلاغت کے معنی اپنے کرداد اور گفتار سے سمجھا دیئے۔ یہی سیاست کی حقیقت ہے اور عدالت کا مفہوم ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ کی حقیقت ہے۔ خلاصہ یہ کہ تمام انسانی فضائل کی حقیقت عملا یکجا کر کے بتادی۔ اس لئے تو حضور اکرم(ص) کا ارشاد “: إنّ الحسين مصباح الهدى و سفينة النجاة” حسین(ع) ہدایت کا چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔” کا مطلب معلوم ہوجاتا ہے۔ اور اگر حضور اکرم(ص)
نے یہ فرمایا ہے کہ
“ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى أَحَبِ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَى أَهْلِ السَّمَاءِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى الْحُسَيْنِ”
“ جو کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ آسمان و زمین کے پسندیدہ تر شخص کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ حسین(ع) کو دیکھے۔ ” تو بھی اس کا مطلب یہی ہے۔
آپ نے فرمایا “من لحق بي استشهد و من تخلّف عنّى لم يبلغ الفتح ابدا”
“ جو کوئی میرا ساتھ دیدے اور میرے ساتھ آئے گا تو شہادت پائے گا جو روگر دانی کرتے ہوئے اس خونین قیام میں شرکت نہیں کرے گا تو کبھی بھی نجات نہیں پاسکے گا۔” “ شب ترویہ” میں آپ کے خطبے میں ہم پڑھتے ہیں آپ(ع) نے فرمایا۔
“مَنْ كَانَ بَاذِلًا فِينَا مُهْجَتَهُ، فَلْيَرْحَلْ معنا غدا فَإِنِّا رَاحِلون غداً، إِنْ شَاءَ اللَّهُ.”
“ جو کوئی ہمارے ساتھ خون دینا چاہتا ہے ہمارے ساتھ کل چلے انشاء اﷲ ہمیں کل روانہ ہونا ہے۔”
آپ کے ان ارشادات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اسلام کو خطرہ لاحق ہو اور تحریک چلانا اسلام کے لئے فائدہ مند ہو، چاہے قیام و تحریک کی صورت میں شہادت کا یقین بھی ہو تو ہر ایک کا فریضہ قرار پاتا ہے کہ قیام کرے اور حضرت اس دوسری موج کے لئے اور دائمی موج کی ضرورت ہے تاکہ یہ دوسری زندہ اور متحرک رہے اور یہ تیسری موج عزاداری ، نوحہ سرائی، گریہ، سینہ زنی اور زیارت حسین(ع) کی موج ہوسکتی ہے۔ علاوہ اس کے کہ عزاداری انسان میں فداکاری ، ایثار و قربانی اور شہادت کی روش اور شہید پروری کا جذبہ ابھارتی ہے۔ اور اگر رہبر اعلیٰ قابلیتوں کا مالک ہو تو ان مجالس سے کافی حد تک لوگوں کے انسانی جذبے کو ابھار سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عمومی تعلیمات کا فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ تہذیب نفس کے مرحلے خصوصا صبر، استقامت ، شجاعت اور پستی قبول نہ کرنے کا
جذبہ اس کے براہ راست اثرات ہیں۔
ایسی مجالس کا ایک اور پہلو اسلام کے عظیم قوانین میں سے دو عظیم قوانین کا احیاء کرنا ہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔
حسین(ع) پر روانا مجالس عزاء کا انعقاد ، ماتمی دستوں کی تشکیل ، نزدیک یا دور سے زیارت کرنا، پانی کی سبیلوں کی تعمیر اور امام بارگاہوں کی تعمیر کرنا، ولایت کے مکتب کو زندہ رکھنا ہے۔ خون حسین(ع) کو زندہ رکھنا ہے، انقلاب کی روح کو زندہ رکھنا ہے تاکہ انجام کار آخری رہبر حضرت بقیہ اﷲ عجل اﷲ تعالی فرجہ کے ذریعے عالمی انقلاب کا سامان فراہم ہوسکے۔ اگرچہ عزاداری کے برپا کرنے کا ثواب، زیارت کا ثواب، مجالس کے انعقاد پر ثواب مستحق ہے مگر ان سب کی اصل اور بنیاد اس لیے ہے کہ اس قسم ی مجالس کامیابی کا رمز اور شیعت کی بقاء ، مکتب ولایت کو زندہ رکھنے اور انجام کار لوگوں کو حسین(ع) کے پرچم تلے لے آنا ہے اور تمام کوحسین(ع) اور اس کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہے۔ بقول جوش۔
انسان کو بیدار تو ہونے لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین(ع)
ہوئے ہم چند اسباب کا تذکرہ مناسب سمجھتے ہیں۔
ثقیفہ بنی ساعدہ کی کار روائی کے بعد “ حسبنا کتاب اﷲ ” کے نعرے نے زور پکڑا اور رسول اکرم(ص) کی احادیث کی جمع آوری پر پابندی لگ گئی یہاں تک کہ حضرت ابوبکر نے حضور اکرم(ص) کی پانچ سو احادیث جمع کی تھیں انہیں عوام کے سامنے لاکر جلادیا اب اگر تائید قرآن سے حاصل کی جاتی تو ثقیفہ کی کار روائی ملغی ہوجاتی لہذا کہا گیا۔
“ نهينا عن التّعمّق والتکال فی القرآن”
ہمیں قرآن میں غور و فکر اور دقت
کرنے کی زحمت سے منع کیا گیا ہے اس خیال و فکر کو ترویج دی گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ فکر اور روش امت کو کس قدرفکر ، کامل اور بے ہمت بنائے گی۔ اس کے علاوہ ایک اور مصیبت طبقاتی گروہوں کی صورت میں ظاہر ہوتی جس کے بارے میں امیرالمومنین (ع) خطبہ شققیہ میں فرماتے ہیں۔
“و قام معه بنو أبيه يخضمون مال اللّه خضم الإبل نبتة الربيع”
“ بنی امیہ نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا اور مسلمانوں کے بیت المال کو اس طرح ختم کیا جس طرح بہار کے سبزے کو اونٹ ختم کرتے ہیں۔ ” اس کے ساتھ ایک اور مصیبت جعلی روایات و احادیث کی بھر مار کی صورت میں شروع ہوئی۔ علماء نما درباری افراد اس طریقے سے اسلام کے ستونوں کو ڈھانے کی کوشش کرنے لگے۔ ان تمام روایات میں سے ایک روایت نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں ایک روایت یوں گھڑی گئی۔
“اذا نزلت سوره انجم فقراها رسول اﷲ للمشرکين فاذا قرا افرايتم اللات ولعزی ومنات الثالثه الاخری القی الشيطان فی فمه و قال تلک القرانيق العلی شفاعتهن لترجی فالمشرکون سروا بذالک فسجد رسول اﷲ و سجد المشرکون معه”
ترجمہ :۔“ جس وقت سورہ نجم نازل ہوئی تو حضور اکرم (ص) نے مشرکوں کو سنایا لیکن جب آیت افرايتم اللات ولعزی پڑھنے لگے تو شیطان نے آپ کے منہ سے یہ جملے بھی کہلوا دئے کہ وہ عالی شیر، بت، قیامت کے دن تینوں شفاعت کریں گے یہ سن کر مشرک بڑے خوش ہوئے اور جب حضور (ص) نے سجدہ کیا تو مشرکوں نے بھی خوش ہو کر سجدہ کیا۔”
بدیہی ہے کہ اس قسم کی روایات اسلام قرآن اور پیغمبر(ص) کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتیں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایک رعب اور خوف مسلط رہا خصوصا
معاویہ کے دور کہ ادھر کسی نے آہ کھینچی اور قتل ہوا ان تمام عوامل اور اسباب نے ایک ایسا موقع فراہم کیا کہ یزید ایک شخص عوام پرحاکم ہوتے ہوئے منبر سےیہ کہدے کہ
لعبت هاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحي نزل
قَدْ قَتَلْنَا الْقَرْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ
“ تو کوئی وحی آئی اور نہ خبر آئی بلکہ بنی ہاشم نے حکومت حاصل کرنے کا ڈھونگ رچایا تھا۔” تو کیا ایسے حالات کے پیش نظر امام حسین(ع) کے لئے وظیفہ شرعی نہ بنتا تھا کہ ایسے شخص کے خلاف قیام کریں۔
بہر حال حضرات ائمہ طاہرین علیہم السلام نے حضرت ابو عبداﷲ کی زیارت اور عزاداری کے بارے میں بہت سفارش کی ہے اور اس کے عظیم ثواب گنائے ہیں ایسی روایات میں سے ایک ہم وسائل الشیعہ میں سے نقل کرتے ہیں۔ اور اس کے بعد تھوڑی سی ترضیح بھی کرتے ہیں
“عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لِفُضَيْلٍ تَجْلِسُونَ وَ تُحَدِّثُونَ قَالَ نَعَمْ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ إِنَّ تِلْكَ الْمَجَالِسَ أُحِبُّهَا فَأَحْيُوا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ مَنْ ذَكَرَنَا أَوْ ذُكِرْنَا عِنْدَهُ فَخَرَجَ مِنْ عَيْنِهِ مِثْلُ جَنَاحِ الذُّبَابِ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ لَوْ كَانَتْ أَكْثَرَ مِنْ زَبَدِ الْبَحْرِ.”
“ فضیل بن یسار حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن آپ(ع) نے فرمایا کیا تم مجلس عزا برپا کر کے ہمارے مصائب کو یاد کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں۔ فرمایا خدا کی رحمت ہو ان لوگوں پر جو ولایت کو زندہ کرتے ہیں اے فضیل جو کوئی ہمارا تذکرہ کرتا ہے یا جس کے سامنے ہمارا تذکرہ ہوتا ہے اور گریہ کرتا ہے اتنے آنسو نکلیں کہ مکھی کے پر کو بگھونے کے بقدر ہوں تو بھی خداوند عالم اس کے گناہوں کے بخش دے گا۔ چاہے اس کے گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر
کیوں نہ ہوں۔”
حضرت ابا عبداﷲ (ع) کا قیام کوئی فوجی قیام نہیں تھا بلکہ ایک عاطفی اور تبلیغی تھا حسین علیہ السلام صرف یزید اور اس کے ایجنٹون کو ہٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ یزیدیت کے ساتھ بنی امیہ اور بنی مروان کی شخصیت کو نابود کرنا چاہتے تھے ۔ چاہتے تھے کہ عوام کو ان کے خلاف بیدار کریں۔ اور عوام کو حکومت کے خلاف بھڑکائے اور اس سے متنفر کریں۔ اسی لئے آپ مدینہ سے مخفی طور پر چلے گئے۔ جس وقت لوگ حج کے لیے گروہ در گروہ ہو کر مکہ آرہے تھے تو آپ مکہ سے بھی نکل گئے اور عاشورے کے دن بعض اوقات اسلحہ کے بغیر ہی میدان جنگ میں جاتے ہیں اور بڑی مہربانی کے لہجے میں تبلیغ کا کام انجام دیتے ہیں۔ ان کے انسانی جذبات کو ابھارتے ہیں کبھی قرآن لے کر جاتے ہیں اور انہیں قرآن کی قسم دیتے ہیں۔ کبھی اپنے شیرخوار بچے کو ان کے سامنے لے جاتے ہیں جنہیں انہوں نے آپ کے ہاتھوں پر شہید کیا ۔ انجام کار آپ نے کربلا میں کچھ ایسی لہریں پیدا کیں کہ عاشورا کی عصر کے وقت دشمن کی فوجوں میں ہلچل مچ گئی اور حسین(ع) شہید ہوگئے ہلچل کی اس موج کے ساتھ اہل بیت(ع) کی اسیری کی دوسری موج نے بھی حرکت کی۔ اہل بیت(ع) کے اسیروں نے کوفہ و شام کے بازاروں میں تقریروں کے ذریعے انقلاب کی موجیں پیدا کیں بلکہ تمام اسلامی ممالک میں بنی امیہ کی حکومت کے خلاف نفرت کا سیلاب امڈا پڑا ۔ حسین(ع) کی شہادت سے ۲۰ سال قبل کوئی ایک بھی انقلاب واقع نہیں ہوا تھا۔ مگر آپ کی شہادت کے ۲۰ سال بعد بیس سے زیادہ انقلاب رونما ہوئے۔ واقعہ کربلا کے دو سال بعد بنی امیہ کی حکومت چھن گئی اور بیسویں سال بنی مروان کی حکومت عباسیوں کے ہاتھوں ختم ہوئی۔
آپ کا اسم مبارک علی(ع) مشہور لقب زین العابدین (ع) اور سجاد(ع) ہے آپ کی مشہور کنیت ابو محمد(ع) اورابو الحسن(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک بھی آپ کے پدر گرامی کی طرح ستاون سال ہے۔ آپ نے پندرہ جمادی الاول ۳۸ ہجری کو امیر المومنین (ع) کی شہادت سے دو سال قبل ولادت پائی۔ تیئس سال تک پدر بزرگوار کے زیر سایہ زندگی گزاری۔ آپ کے مدت امامت ۳۴ سال ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کے والد بزرگوار امام حسین(ع) تھے اور والدہ ماجدہ ایران بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں جیسے خداوند عالم نے معجزانہ طور پر حضرت امام حسین(ع) تک پہنچایا تھا۔ اس معظمہ کی شرافت یہ ہے کہ نو ائمہ کرام(ع) کی والدہ ماجدہ ہیں۔ جیسے کہ حضرت امام حسین(ع) نو ائمہ (ع) کے والد ماجد ہیں۔ اور انسانی فضائل کے اعتبار سے امام زین العابدین علیہ السلام اگرچہ تمام اہل بیت کرام(ع) کے ساتھ تمام فضائل میں برابر کے شامل ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں رکھتے ۔ لیکن آپ خصوصیت کے ساتھ اپنے افکار کو و کردار میں اپنے دادا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے مکمل مشابہت رکھتے تھے۔
امام سجاد علیہ السلام کے ایمان کی منزل
امیرالمومنین علیہ السلام دعائے صباح میں فرماتے ہیں۔
“يا من دلّ على ذاته بذاته”
“ اے وہ جو خود اپنی ہستی کے وجود کی دلیل ہے۔”
حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں۔
“بِكَ عَرَّفْتَک وَ دَلَلْتَنِي عَلَيْكَ و دعوتنی اليک و لولا انت لم ادر ما انت”
“ تیرے ذریعے ہی تجھے پہچانا تو نے میری اپنی طرف رہنمائی کی اور دعوت دی اگر آپ نہ ہوتے تو میں آپ کو نہ پہچان سکتا ۔”
آپ کی دعاؤں میں ایسے کلمات ملتے ہیں جو انسان کو ایمان کی بلندی تک پہچاتے ہیں یہ ایسی منزل ہے جسے“ ایمان شہودی” کہا جاسکتا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں۔
“کو کشف لی الغطاء مازددت يقينا”
“ اگر میرے لئے آفاق کے سارے ہٹادیئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔”
آپ(ع) کا علم
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا “ جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھو خدا کی قسم میں قیامت تک ہونے والے تمام واقعات کو جانتا ہوں۔” حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں فرماتے ہیں۔ “ اگر مجھے لوگوں کے بارے میں غلو کرنے کا خوف نہ ہوتا تو قیامت تک ہونے والے تمام واقعات بتا دیتا۔”
آپ کا تقوی
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا۔
“وَ اللَّهِ لَوْ أُعْطِيتُ الْأَقَالِيمَ السَّبْعَةَ بِمَا تَحْتَ أَفْلَاكِهَا عَلَى أَنْ أَعْصِيَ اللَّهَ فِي نَمْلَةٍ أَسْلُبُهَا جُلْبَشَعِيرَةٍ مَا فَعَلْتُهُ”
“ خدا کی قسم اگر مجھے ساتوں اقالیم اور جو کچھ ان کے آسمانوں کے نیچے ہے دیا جائے کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے “ جو” کا جھلکا چھین کر اس پر ظلم کروں تو میں ہرگز ایسا نہیں کروں گا۔”
حضرت امام سجاد علیہ السلام یوں ارشاد فرماتے ہیں۔
؟؟؟؟ الا له و انت تطهر حبه هذا لعمری فی الفعال بديع
لو کنت تطهير حبه اطقه ان الحب لمن يحب مطيع
“ خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے تم اس کی محبت کا دعوی کرتے ہو۔ میری جان کی قسم یہ بڑی عجیب بات ہے اگر تم واقعی خدا سے محبت کرتے ہو تو اس کی اطاعت کرو کیونکہ محبت کرنے والا ہمیشہ محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔”
ان اشعار میں امام فرماتے ہیں کہ میں چونکہ اﷲ سے محبت کرتا ہوں اس لیے اس کی نافرمانی مجھ سے محال ہے۔
آپ(ع) کی عبادت
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کیہا گا ہے کہ آپ دن کو فقراء کے لئے باغات اور نہریں بنانے میں مشغول رہتے اور ساری راتیں جاگ کر عبادت الہی میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت سجاد(ع) بھی اس طرح فقراء کی قربت میں مشغول تھے۔ کتنے سارے باغات اور نہریں آپ نے فقراء کے لئے بنائیں آپ کی عبادت اور سجدوں کی کثرت کی یہ حالت تھی کہ آپ کو زین العابدین(ع) اور سجاد(ع) کا لقب ملا۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ قیامت کے دن کہا جائے گا زین العابدین(ع) کہاں ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ میرا فرزند جواب دیتا ہے اور سامنے آجاتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے پدر بزرگوار کو دیکھا کثرت سے عبادت کی وجہ سے آپ کے پاؤں سوجھ گئے ہیں۔ چہرے کا رنگ زرد پڑگیا ہے اور گال زخمی ہیں اور سجدہ کی جگہ پیشانی پر زخم ہوگیا ہے۔
آپ کی مہربانی و سخاوت
تاریخ میں مرقوم ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے کارناموں میں سے ایک یہ تھا کہ آپ مخفی طور پر راتوں کو فقراء میں کھانا ، کپڑے ، لکڑی اور دوسری ضروریات تقسیم کرتے تھے ۔جب کہ ان فقراء کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون ان کی ضروریات کو فراہم کرتا ہے اور مورخین حضرت امام سجاد(ع) کے بارے میں بھی ایسا ہی لکھتے ہیں۔
راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام جعفر صادق(ع) کے حضور میں تھے کہ حضرت امام علی ابن ابی طالب(ع) کے مناقب کے بارے میں بات ہوئی تو کہا گیا کہ کسی کو یہ قدرت نہیں کہ آپ جیسا کام کرسکے اور حضرت علی بن الحسین(ع) کے علاوہ اور کوئی ایسے کاموں میں ان کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا۔ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے اور راتوں کو کبھی کبھی ہزار رکعت نماز پڑھتے تھے۔ اہل سنت کی روایات میں ہے جب آپ کی شہادت ہوئی تو پتہ چلا کہ آپ سینکڑوں خاندان کی کفالت کرتے تھے۔
آپ کا زہد
جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک کامل زاہد تھے اور سوائے
خداوند عالم کے کسی مال یا شخص کے ساتھ وابستگی نہیں تھی یہی صورت حال امام سجاد علیہ السلام کی بھی تھی آپ اپنے اصحا ب سے فرمایا کرتے تھے۔
“ اصحاب اخوانی عليکم بدار الاخره ولا اوصيکم بدار الدنيا فانکم عليها و بها متمسکون اما بلغکم ان عيسی عليه السلام قال الحواريون الدنيا تنظره فاعبرواها و قال من بينی علی موج البحر دارا تلکم الذر الدنیا ولا تتخذوها قرارا”
“ میرے ساتھیو! میرے بھائیو! تم آخرت کی فکر میں لگے رہو میں تمہیں دنیا کے بارے میں تاکید نہیں کرتا کیونکہ تم اس پر فریفتہ ہو اور اس سے چمٹے ہوئے ہو۔ کیا تم نے حضرت عیسی(ع) کو نہیں سنا کہ انہوں نے اپنے حواریوں سے کہا کہ دنیا ایک پل کی مانند ہے اس سے گزر جاؤ یہ آباد کئے جانے کے قابل نہیں۔ کیا کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے جو دریا کی موجوں کے اوپر اپنا گھر بنائے ، یہ دنیا دریا کی ایک موج ہے اس سے دل نہیں لگانا چاہئے اور نہ اسے اپنے قرار کی جگہ سمجھنا چاہئے۔”
آپ کی شجاعت
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شجاعت زبان زد خاص و عام ہے۔ اس طرح اگر امام سجاد (ع) کی تقریریں جو آپ نے ابن زیاد اور یزید کے درباروں میں کیں خصوصا آپ کا وہ خطبہ جسے آپ نے شام کی مسجد میں دیا۔ پڑھتے ہیں تو آپ (ع) کی عظمت ہم پر واضح ہوجاتی ہے امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنی بہادری کے جوہر میدان جنگ میں عمرو بن عبدود اور مرحب جیسے سور ماؤں کے مقابلے میں دکھائے اور آپ کے فرزند گرامی امام سجاد(ع) نے ابن زیاد ، یزید کے درباروں اور شام کی مسجد میں اپنی بہادری کی جوہر دکھائے۔
آپ کی سیاست
تمام شیعہ وسنی مورخین کے مطابق حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ، اسلام کے محافظ
تھے۔ آپ کی رائے فوق العادہ حد تک فائدہ بخش تھی۔ جب ہی تو حضرت عمر نے ستر سے زیادہ مواقع پر کہا لو لا علی لهلک العمر۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام ۳۵سال تک اسلام کے محافظ رہے آپ کی رائے پر سب اعتماد کرتے ۔ بہت سارے مواقع میں آپ کی رائے سے مدینہ والوں اور بہت سارے شیعوں کو تحفظ ملا اور مروان و عبدالملک جیسے افراد سے نجات ملی۔
آپ کا حلم ( بردباری)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے فرمایا ایک دفعہ میں ایک جاہل کے قریب سے گزرا تو اس نے مجھے گالیاں دیں جسے میں نے ان سنی کردی اور آگے بڑھ گیا۔ اسی طرح ایک فرمان حضرت امام سجاد(ع) کا ہے آپ نے فرمایا کہ ایک آدمی کے قریب سے گزرا تو اس نے مجھے گالیاں دیں میں نے کہا اگر تم سچ کہتے ہو تو خداوند عالم مجھے معاف کرے اور اگر تم جھوٹ کہتے ہو تو مجھے بخش دے۔
آپ کی تواضع
آپ اکثر فقراء کےساتھ نشست و برخاست رکھتے، ان کےساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے، ان کے ساتھ ہر طرح کی دلجوئی اور مہربانی کرتے، ان کے لیے پشت بنتے ، ان کے کام کرتے، ان کی خوب پذیرائی کرتے اور ان کے بارے میں دوسروں سے سفارش کرتے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ حضرت امام سجاد(ع) کو یہ بات پسند تھی کہ فقر و مسکین اور یتیم زیادہ سے زیادہ آپ کے ساتھ دسترخوان پر ہوں۔ آپ ان کے ساتھ بیٹھتے ان کے لیے غذا تیار کرتے بلکہ نوالے ان کے منہ میں ڈالتے تھے۔
آپ(ع) کی فصاحت و بلاغت
فصاحت سے مراد خوبصورت باتیں کرنا اور مجاز و کنایہ لطائف اور مثالوں کا بر محل استعمال کرنا۔
جب کہ بلاغت کا مطلب ہے خوبصورت بات کہنا بر محل اور بجا طور پر بات کرنا، غیر ضروری طویل کلام سے پرہیز کرنا۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت تو مسلم ہے آپ کے کلام نہج البلاغہ کے بارے میں تو یہاں تک کہا گیا کہ “دون كلام الخالق و فوق كلام المخلوق.” خالق کے کلام کے بعد اور مخلوق کے کلام سے اوپر ہے۔”
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے دنیا والوں کے لئے صحیفہ کاملہ دے دیا۔ جو ایک ایسا صحیفہ ہے کہ اس جیسا نہ پہلے آیا ہے نہ آئندہ آئے گا۔ ایک ایسا صحیفہ جس میں دعاؤں کے ضمن میں اسلامی معارف، اسلامی سیاست، اسلامی اخلاق، اسلامی معاشرت، شیعیت کی حقانیت، اہل بیت(ع) کی حقانیت، ظلم اور ظالمون پر تنقید ، حق و حقیقت کی طرف دعوت، جو مجموعی طور پر اسلامی معارف کے ایک خزانےسے آگاہ کرتا ہے۔
یہ وہی صحیفہ ہے جسے دیکھ کر ایک شخص جو فصاحت و بلاغت کا دعوی کرتا تھا اس نے کہا کہ میں نے اس کے مقابل ایک اور صحیفہ تیار کروں گا مگر جب اسے پڑھا اور اس کی مثل لکھنے کی کوشش کی تو شدت عجز کی لپیٹ میں آکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
آپ کا جہاد
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اسلام کے عظیم مجاہد تھے ا ور اسلام کو کفار و مشرکین سے نجات دلائی۔ لیکن آپ کے فرزند سید سجاد(ع) اگرچہ کربلا میں شہید نہیں
ہوئے۔ مگر آپ کا وجود ، آپ کی بقاء کا قید ہونا اسلام کے باقی رہنے کا عامل بنا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام ایک درخت کی مانند ہے جسے کربلا میں اگایا گیا جس کی حفاظت و آبیاری کا کام حضرت سید سجاد(ع) اور جناب زینب سلام اﷲ علیہا کے ہاتھوں انجام پایا۔ اسیری کے دوران آپ کا تدبیر، مدینہ میں آپ کا گریہ و نوحہ خوانی اور ۳۵ سال کی مدت تک مصائب حسین(ع) کا ذکر کرنا ایک قسم کا فوق العادہ جہاد تھا۔ جس کے بڑے دور رس نتائج نکلے اگر سیاسی تاریخ کا تجزیہ کریں تو یہ بات روشن ہوجاتی ہے۔
آپ کا عفو در گزر کا جذبہ
تاریخ میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ابن ملجم کا خاص خیال رکھا یہاں تک کہ دودھ آپ کے لئے لایا گیا تھا اس مٰیں سے نصف خود پیا اور نصف اسے دے دیا۔ اور اس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی بے حد سفارش فرمائی۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ مدینہ کے گورنر نے ظلم و ستم کر کے آپ کا دل خون کردیا تھا۔ لیکن جب عبدالملک بن مروان کی طرف سے معزول ہوا اور یہ حکم اس کے بارے میں دیا گیا کہ اسے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا جائے اور لوگ آکر اس کی توہین کریں۔ یہ اطلاع پا کر آپ نے اپنے اصحاب کو بلا کر حکم دیا کہ خبردار ایسی حرکت کوئی بھی نہ کرے اور خود آپ اس کے پاس چلے گئے۔ اس کی دل جوئی کی ، ڈھارس دی اور عبدالملک بن مروان کے پاس اس کی سفارش کی جس کی وجہ سے اسے نجات ملی جب کہ اس کا کہنا یہ تھا کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ علی بن الحسین(ع) کی طرف سے تھا کیونکہ میں نے اس خاندان پر بڑا ظلم و ستم کیا تھا۔
آپ کی شخصیت و ہیبت
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ بہت متواضع تھے اور ہر کوئی آپ کی شخصیت کو مانتا تھا اسی طرح آپ کے فرزند حضرت سجاد علیہ السلام کی بھی شخصیت ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے ۔ ہشام بن عبدالملک حج کے لیے آیا ہوا تھا لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے حجر اسود کو بوسہ نہ دے سکا۔ لہذا ایک کونے پر اس کے لئے ایک فرش بچھایا گیا جہاں وہ بیٹھ گیا اس دوران حضرت امام سجاد علیہ السلام طواف کے لئے پہنچے جب آپ حجر اسود کے پاس پہنچے تو تمام لوگ ہٹ گئے اور آپ کے لیے جگہ چھوڑ دی۔ آپ نے کئی دفعہ حجر اسود کو بوسہ دیا۔ ہشام کے مصاحبوں میں سے کسی نے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے جس کا لوگ اتنا احترام کرتے ہیں ہشام نے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے کہا پتہ نہیں وہاں پر فرزدق بھی موجود تھے۔ انہوں نے فی البدیہ آپ کی شان میں ایک قصیدہ پڑھا جو مناقب شہر آشوب میں موجود ہے اس کے چند بند یہاں لکھے ہیں۔
هَذَا الَّذِي تَعْرِفُ الْبَطْحَاءُ وَطْأَتَهُ وَ الْبَيْتُ يَعْرِفُهُ وَ الْحِلُّ وَ الْحَرَمُ
مَا قَالَ لَا قَطُّ إِلَّا فِي تَشَهُّدِهِ لَوْ لَا التَّشَهُّدُ كَانَتْ لَاؤُهُ نَعَمْ
يُغْضِي حَيَاءً وَ يُغْضَى مِنْ مَهَابَتِهِ فَمَا يُكَلِّمُ إِلَّا حِينَ يَبْتَسِمُ
مِنْ مَعْشَرٍ حُبُّهُمْ دِينٌ وَ بُغْضُهُمْ كُفْرٌ وَ قُرْبُهُمْ مَنْجًى وَ مُعْتَصَمٌ
مُقَدَّمٌ بَعْدَ ذِكْرِ اللَّهِ ذِكْرُهُمْ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَ مَخْتُومٌ بِهِ الْكَلِمُ
ترجمہ ؛۔ “ یہ وہ شخص ہے جسے حجاز، خانہ خدا ، حل و حرم سب جانتے ہیں اس کے کلام میں نہیں کا لفظ موجود نہیں سوائے تشہد کے کہ اگر تشہد نہ ہوتا اس کا لا بھی نعم ہوتا ۔”
لوگوں سے میل جول کے وقت شدت حیاء سے ںطریں جھکائے رہتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلال دیکھ کر نظریں جھکا دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ اس وقت بات کی جاسکتی ہے کہ وہ تبسم فرمادیں۔ قیامت کے دن ان کی محبت دین اور ان کے ساتھ بغض کفر ہوگا۔ ان کے ساتھ قریب و نزدیکی انسانوں کے لیے نجات کا باعث ہوگی۔
نماز میں اﷲ کے نام کے بعد ان کی یاد اور ان کا نام ہر چیز سے مقدم ہے یعنی نماز کے اقامہ میں اﷲ کے نام کے بعد اہل بیت (ع) کا نام ہے اور نماز کا آخری جز تشہد میں بھی ان کا ذکر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فرزدوق ان اشعار کے کہنے کی وجہ سے بخشا گیا ہے اور جامی علیہ الرحمہ کے کہنے کو مطابق ان اشعار کے وجہ سے تمام اہل عالم کو بخشا جائے تو بھی گنجائش ہے۔
امام سجاد(ع) کی زندگی
ہمیں معلوم ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی شورشوں سے پر تھی یہاں تک کہ آپ نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا کہ “ میں نے مصائب میں اس طرح صبر کیا جیسے کوئی اس طرح صبر کرے کہ اس گلے میں ہڈی پھنسی ہو اور آنکھ میں کانٹا چھپا ہو۔” لیکن جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی اس سے زیادہ شورشوں میں گزری ہے۔ آپ نے جنگ صفین کے پر آشوب دور میں معاویہ نے اپنے ظلم و ستم
کا آغاز کیا ہوا تھا۔ معاویہ کو شیعوں کے گروہ در گروہ افراد کو قتل کرتے دیکھا معاویہ کو علی(ع) پر سب وشتم کرتے ہوئے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں اس رسم کو رواج دیتے ہوئے دیکھا، کربلا کے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، اسیر ہوئے، اسیری کا ہر دن ان کے لیے ایک نئی موت کی مانند تھا۔
یزید کے درباروں کو دیکھا جب کہ اہل حرم (ع) آپ کے پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ واقعہ حرہ کے چشم دید گواہ ہیں اور یہ تمام مسلمانوں کے لیے باعث ننگ و عار ہے۔
یزید نے حکومت کے دوسرے سال پانچ ہزار کا لشکر مدینہ بھیجا اور قتل عام کا حکم دیا اور تین دن تک مدینہ کو اپنے لشکر والوں کے لیے حلال قرار دیا۔
آپ نے عبداﷲ بن زبیر کے فتنے کو بھی دیکھا جس نے محمد بن حنفیہ سمیت تمام بنی ہاشم کو شعب ابی طالب (ع) میں جمع کیا تھا کہ ان سب کو جلا ڈالے مگر اس لمحے دشمن پہنچ گیا اور موقع نہ ملا۔
آپ نے مروان بن حاکم کو بھی دیکھا تھا جس کا گورنر حجاج بن یوسف ثقفی تھا۔ اس کے اندان کو بھی دیکھا جو بیابان میں تھا اور اس میں بیک وقت پچاس ہزار افراد قید تھے۔ دمسری نے حیواة الحیوان میں لکھا ہے کہ ان کے لیے چوبیس گھنٹے میں صرف دو روٹیاں ملتی تھیں جن میں بیشتر جلی ہوتی تھیں۔
آپ(ع) محبت اہل بیت(ع) کے جرم میں لاکھوں قتل ہونے والوں کے شاہد ہیں۔ آپ نے ستاون سال کی عمر پائی اور آپ کے لیے ہر نیا دن ایک قتل گاہ کی حیثیت کا حامل تھا۔
“ والسلام عليه يوم ولد ويوم تشهد و يوم يبعث حيا”
آپ کا نام نامی محمد (ع) اور مشہور لقب باقر(ع) ہے۔ روایات کے مطابق خود حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے آپ نے آپ کو یہ لقب دیا تھا آپ کی کنیت ابو جعفر(ع) ہے اور آپ کی عمر مبارک اپنے جد بزرگوار کی طرح ۵۷ سال تھی۔ یکم رجب ۵۷ ہجری قمری کو ولادت پائی۔ ۱۱۴ ہجری قمری میں ہشام بن عبدالملک کے حکم سے ابراہیم بن ولید کے ہاتھوں شہید ہوئے سبب شہادت زہر تھا۔ جب کربلا کا واقعہ رونما ہوا تو آپ تین سال کے تھے اور آپ کربلا میں موجود تھے واقعہ کربلا کے بعد ۳۴ سال اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ رہے اور آپ کی مدت امامت انیس(۱۹) سال ہے۔
تمام ائمہ معصومین علیہم السلام کے درمیان حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دو امتیازات کے حامل ہیں ایک تو یہ کہ آپ کے دادا حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے نانا حضرت امام حسن علیہ السلام ہیں۔ اسی بناء پر آپ کے بارے میں کہا گیا۔
“عَلَوِيٌ مِنْ عَلَوِيَّيْنِ وَ فَاطِمِيٌّ مِنْ فَاطِمِيَّيْنِ هَاشِمِيٌّ مِنْ هَاشِمِيَّيْنِ”
“ دو علویوں میں سے ایک علوی دو فاطمیوں میں سے ایک فاطمی، دو ہاشمی میں سے ایک فاطمی۔”
بہر حال آپ کی یہ نسبت ایک فوق العادہ امتیاز ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت حسن علیہم السلام بڑی عالم اور مقدس خاتون تھیں۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میری دادی ایک ایسی صدیقہ تھیں کہ حضرت امام حسن علیہ السلام
کی اولاد میں سے کوئی ان کی مانند نہیں تھا۔ آپ کا ایک معجزہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ ایک دیوار کے نیچے تھیں کہ اچانک دیورا گرنے لگی آپ نے فرمایا مت گر بحق محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کہ خدا نےتمہیں گرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔ گرتی ہوئی دیوار رک گئی یہاں تک آپ وہاں سے ہٹ گئیں۔
دوسرا امتیاز آپ کا یہ ہے کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام تشیع کے ثقافتی انقلاب کے بانی شمار ہوتے ہیں اگر چہ تشیع کے معارف کی نشر اشاعت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہاتھوں ہوئی لیکن اس کی بنیاد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے رکھی تھی۔
آپ کے زمانے میں بنی امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوئی اور لوگ ان سے نفرت کرتے تھے حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسی ہستی کا وجود جو بنی امیہ کے سراسر ضرر اور صاحبان ایمان کے لیے فائدے کا سبب بنی، موجود تھی جس کی وجہ سے اسلامی ممالک میں ایک شدید اختلاف پایا جاتا تھا۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی انیس سالہ امامت کے دور میں (۵) خلفاء بنی امیہ کے بدل گئے یعنی ولید بن عبدالملک ، سلمان بن عبدالملک ، عمر بن عبدالعزیز ، یزید بن عبدالملک ، ہشام بن عبدالملک۔ لہذا اس طرح سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو ایک مناسب موقع نصیب ہوا کہ ایک علمی انقلاب کی بنیاد رکھیں۔ بڑے بڑے علماء اور بزرگ لوگ اطراف عالم سے آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور اسلام کے لطیف معارف کا حصول کر کے نشر کرنے لگے اسی بناء پر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو باقر(ع) کا لقب دیا تھا۔ “ لسان العرب” میں باقر کی توجیح یوں کی گئی ہے۔ “لأنّه بقر العلم و عرف أصله و استنبط فرعه وتوسيع فيه و التبقّر التوسّع في العلم”
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو یہ لقب ملا کیونکہ انہوں نے علم کا شگافتہ کیا اور اسلامی علوم و معارف اور ان کے فروعات کا ادراک کر کے ان کی بنیاد رکھی اور اسے وسعت بخشی اور تبقر کے معنی وسعت دینے کے ہیں۔
علمائے عامہ و خاصہ نقل کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے جابر بن عبداﷲ انصاری سے فرمایا۔
“يَا جَابِرُ يُوشِكُ أَنْ تَبْقَى حَتَّى تَلْقَى وَلَداً لِي مِنَ الْحُسَيْنِ يُقَالُ لَهُ مُحَمَّدٌ يَبْقُرُ عِلْمَ النَّبِيِّينَ بَقْراً فَإِذَا لَقِيتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ.”
“ اے جابر عنقریب تو میرے بیٹے حسین(ع) کی اولاد میں سے ایک کے ساتھ ملاقات کرو گے جس کا نام ہوگا جو علوم انبیاء کو شگافتہ کرے گا جب تمہاری ملاقات انکے ساتھ ہوجائے تو میری طرف سے انہیں سالام کہنا۔”
جس وقت حضرت جابر بن عبداﷲ اںصاری نے آپ سے ملاقات کر کے حضور اکرم(ص) کا سلام پہنچایا تو آپ نے جابر سے فرمایا اے جابر اپنی وصیت تیار رکھ چند دن کے اندر تم نے مرنا ہے جابر نے روتے ہوئے عرض کیا مولا(ع) آپ یہ کس بنا پر فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ اے جابر خدا کی قسم پروردگار عالم نے گزشتہ اور آئندہ کا علم یہاں تک کہ قیامت تک کا علم ہمیں عنایت فرمایا ہے۔ آپ کو باقر(ع) اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ آپ نے اسلامی معارف کو وسعت دے کر ان کی بنیادیں قائم کی ہیں۔
شیخ مفید کتاب الارشاد میں فرماتے ہیں ایسے افراد جو رسول اﷲ(ص) کے اصحاب میں سے تھے جیسے جابر بن عبداﷲ اںصاری اور تابعین میں سے بزرگ علماء اور فقہا اور دیگر جیسے جابر جعفی ، کیسان سختیانی، امین مبارک، زہری، اوزاعی، ابوحنیفہ، مالک، شافعی، زیاد بن منذر وغیرہ اور ان کے علاوہ مصنفین جیسے طبری ، بلازری، سلامی، خطیب، ابی داؤد، اسکافی فروزی، اصفہانی، بسیط اور نقاش و غیرہ بھی
حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں۔ یہ تمام اہل سنت کے علماء میں سے ہیں۔ ان میں سے بعض سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کسب فیض کیا ہے اور ال سنت کے بہت سارے علماء یہ اقرار کرتے ہیں کہ آپ(ع) اپنے زمانے کے عظیم عالم تھے۔ یہاں تک کہ حکم بن عتیبہ نے جو علمائے اہل سنت کےایک عظیم عالم ہیں آیت “ ان ذالک للمتوسمين” کی تفسیر میں کہا ہے کہ خدا کی قسم محمد باقر(ع) متوسمین میں سے ہیں۔ علمائے عامہ میں سے ایک عبداﷲ بن عطا کہتا ہے۔
“ما رأيت العلماء عند أحد أصغر علما منهم عند أبي جعفر عليه السلام، لقد رأيت الحكمبن عتيبة عنده كأنّه متعلّم.”
“ میں نے علماء کو اس قدر کم علم کسی کے نزدیک نہیں پایا جس قدر علماء حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے سامنے کم علم قرار پاتے تھے۔ میں نے حکم بن عتبہ کو آپ کے سامنے ایک متعلم ہی پایا۔”
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے خواص اصحاب اور وہ افراد جو آپ سے روایت نقل کرتے ہیں ان کی تعداد ہزاروں سے زیادہ ہے ان میں ہی بعض فوق العادہ ہستیاں بھی موجود ہیں جو فخر شیعہ کہلانے کے حق دار ہیں۔
اجماع شیعہ سے مراد صحابہ رسول اکرم(ص) اور ان کے تابعین جو اصحاب کے شاگرد تھے۔ یہ چھ افراد ہیں زرارہ معروف الخربوز، ابو بصیر، فضیل بن یسار، محمد بن مسلم، یزید بن معاویہ کہ ان میں سے ایک یعنی محمد بن مسلم نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے تیس ہزار روایتیں نقل کی ہیں اور میں کہتا ہوں کہ یہ روایات اسرار کا ایک خزانہ ہیں کسی نا اہل کو نہیں کہنا چاہئے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام دوسرے ائمہ علیہم السلام کو حاصل اختیارات
کے علاوہ دو امتیاز رکھتے ہیں اور خود آپ کی زبان مبارک نے بھی بعض ایسے امتیازات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مناقب ابن شہر آشوب میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا۔
“نَحْنُ جَنْبُ اللَّهِ وَ نَحْنُ حَبْلُ اللَّهِ وَ نَحْنُ مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ نَحْنُ الَّذِينَ بِنَا يَفْتَحُ اللَّهُ وَ بِنَا يَخْتِمُ اللَّهُ نَحْنُ أَئِمَّةُ الْهُدَى وَ مَصَابِيحُ الدُّجَى وَ نَحْنُ الْهُدَى وَ نَحْنُ الْعَلَمُ الْمَرْفُوعُ لِأَهْلِ الدُّنْيَا وَ نَحْنُ السَّابِقُونَ وَ نَحْنُ الْآخِرُونَ مَنْ تَمَسَّكَ بِنَا لَحِقَ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنَّا غَرِقَ نَحْنُ قَادَةُ غُرٍّ مُحَجَّلِينَ وَ نَحْنُ حَرَمُ اللَّهُ وَ نَحْنُ لَلطَّرِيقُ وَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ نَحْنُ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ نَحْنُ الْمِنْهَاجُ وَ نَحْنُ مَعْدِنُ النُّبُوَّةِ وَ نَحْنُ مَوْضِعُ الرِّسَالَةِ وَ نَحْنُ أُصُولُ الدِّينِ وَ إِلَيْنَا تَخْتَلِفُ الْمَلَائِكَةُ وَ نَحْنُ السِّرَاجُ لِمَنِ اسْتَضَاءَ بِنَا وَ نَحْنُ السَّبِيلُ لِمَنِ اقْتَدَى بِنَا وَ نَحْنُ الْهُدَاةُ إِلَى الْجَنَّةِ وَ نَحْنُ عُرَى الْإِسْلَامِ وَ نَحْنُ الْجُسُورُ وَ نَحْنُ الْقَنَاطِرُ مَنْ مَضَى عَلَيْنَا سَبَقَ وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنَّا مُحِقَ وَ نَحْنُ السَّنَامُ الْأَعْظَمُ وَ نَحْنُ مِنَ الَّذِينَ بِنَا يَصْرِفُ اللَّهُ عَنْكُمُ الْعَذَابَ مَنْأَبْصَرَ بِنَا وَ عَرَفَنَا وَ عَرَفَ حَقَّنَا وَ أَخَذَ بِأَمْرِنَا فَهُوَ مِنَّا.”
“ اس خطبہ شریفہ سے آیات قرآنی اور قطعی روایات احادیث موجود ہیں۔ ہم خداوند عالم کے “ جنب ” ہیں اور جنب کے معانی پہلو کے ہیں اور عرب“ وجہ” یعنی چہرے سے مراد ارادہ ذات لیتے ہیں اور ہاتھ سے مراد قدرت مراد لیتے ہیں اس طرح جنب کہہ کر قرب الہی مراد لیتے ہیں چونکہ بیت (ع) عظام تقرب الہی کے انتہائی درجے پر فائز ہوتے ہیں لہذا انہی کو جنب اﷲ کہا گیا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یہ ارشاد در اصل سورہ زمر کے آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں ارشاد ہوا-“ان تقول نفسی يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ” یعنی توبہ کرو قبل اس کے کہ کہو اے وائے ہو میرے نفس پر کہ “ جنب اﷲ” کے بارے میں
تفریط سے کام لیا۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں گے کہ اے وائے ہم نے اہل بیت(ع) کے ساتھ کوئی سروکار نہیں رکھا اور ان سے منہ موڑ لیا۔ امام خطبے میں فرماتے ہیں کہ ہم حبل اﷲ ہیں قرآن کریم کی آیت ۱۰۳ آل عمران کی طرف اشارہ ہے، ارشاد ہوا۔
“وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا”
“یعنی اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ کا شکار مت ہوجاؤ”
ہم اﷲ کے بندوں پر اس کی طرف سے رحمت ہیں۔ یہ اشارہ سورہ اعراف کی آیت ۱۵۶ کی طرف سے ارشاد ہوا “ورحمتی وسعت کل شی” میری رحمت تمام چیزوں پر چھائی ہوئی ہے۔”
اور روایات میں وارد ہوا کہ رحمت واسعہ سے مراد در حقیقت اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ ہم ہی ہیں جو خلقت کی ابتداء سے لے کر انتہا تک ہمارے ذریعے تخلیق فرمائی۔” یہ جملہ زیارات میں بھی وارد ہے اور قرآن کی آیت ۱۴۳ سورہ بقرہ کی طرف اشارہ ہے ، ارشاد ہوا۔
“ وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً”
یعنی “ ہم نے اہل بیت (ع) کو مکمل ایمان بنا کر پیدا کیا تاکہ لوگوں پر گواہ قرار پاؤ اور رسول اکرم (ص) تم گواہ قرار پائیں گے۔”
بہت ساری روایات موجود ہیں کہ یہ گواہی (شہادت ) فیض کا ذریعہ ہے ہم ایسے امام (ع) ہیں جو رہنما ہیں اور لوگوں کے لیے درخشان چراغوں کی مانند ، علم کا علم بلند کئے ہوئے ہیں ہم ہی سابقین اور اخرین ہیں۔ یعنی “ ہم ہی اول ہیں اور ہم ہی آخر ہیں۔” یہاں بھی واسطہ فیض ہونے کی طرف اشارہ ہے جو کوئی ہمارے ماں پناہ لیتا ہے نجاتف پاتا ہے اور جو ہم سے رد گردانی کرتا ہے غرق ہوجاتا ہے۔
یہ جملہ اشارہ ہے اس حدیث کی طرف جس میں حضور اکرم(ع) نے فرمایا۔ “ میرے اہل بیت(ع) کی مثال نوح(ع) کی کشتی کی جیسی ہے جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جو روگردانی کرے گا غرق ہو جائے گا۔ ہم قیامت کے دن کے کامیاب ہونے والوں کے رہبر ہیں ہم ہی اﷲ کا حرم ہیں کہ لوگوں کے درمیان ہمارا احترام محفوظ ہے۔ ہم تمام راہ مستقیم ہیں۔” یہ اشارہ آیت “ اهدنا الصراط المستقم-” کی طرف ہے۔
“ ہم نے بندوں پر خدا کی نعمتیں ہیں۔ ” یہ جملہ اشارہ ہے سورہ ںحل کی آیت ۱۱۲ کی طرف جس میں ارشاد ہوتا ہے۔
“وَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً- يَأْتِيها رِزْقُها رَغَداً مِنْ كُلِّ مَكانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ- فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَ الْخَوْفِ بِما كانُوا يَصْنَعُونَ”
“ یعنی خداوند عالم نے مثال بیان کی اس گاؤں کی جو سکون و اطمینان میں تھا اور ان پر بارش کی طرح نعمتیں برستیں تھیں مگر انہوں نے خداوند عالم کی تعلیمات کا انکار کیا پس خداوند عالم نے انہیں خوف اور بھوک کا لباس پہنا دیا جو کچھ وہ کرتے تھے اس کی پاداش میں تھا۔
ہم ہی حق اور حقیقت کا راستہ ہیں اور ہم ہی نبوت کا معدن ہیں جوکچھ پیغمبراکرم(ص) کے پاس تھا ہمارے پاس ہے رسالت ہمارے ہی گھر میں اتری “اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَهُ” ہم اسلام کی بنیادیں ہیں اور اﷲ کےفرشتے ہمارے ہی گھروں میں اترتے ہیں جو بھی چاہے ہم اس کے لیے راستے کا چراغ ہیں ہم ہی اسلام کے عروة الوثقی ہیں۔” یہ جملہ اشارہ ہے سورہ بقرہ کی آیت ۲۵۶ کی طرف جس میں ارشاد ہوا ہے
“وَ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقىلاَ انْفِصامَ لَها”
یعنی “ جو شخص خدا پر
ایمان لایا اس نے ایک ایسی محکم دستاویز حاصل کی جو ٹوٹنے والی نہیں جو کوئی حق تک پہنچنا چاہتا ہے گمراہی سے نجات پانا چاہتا ہے اور بہشت کی رسائی چاہتا ہے۔ تو اسے چاہیے کہ ہمیں سجھے جو ہم سے آگے بڑھے گا روگردانی کرے گا نابود ہوجائے گا۔ ہم اسلام کے عظیم محافظ ہیں ہمارے ہی ذریعے اﷲ تم سے عذاب کو دور کرتا ہے جو کوئی ہمیں پہچان لے اور ہمارے حق کی معروفت حاصل کرے اور ہمارے احکامات کو اپنے اوپر نافذ کرے تو وہ ہم میں سے ہے وہی نجات پائے گا۔”
معلوم ہونا چاہیے کہ اس خطبے میں بہت سارے اشارات و کنایات اور بہت سارے لطیف نکتے پوشیدہ ہیں اور امام(ع) کے اس ایک خطبے کی شرح میں کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ اپنے اس خطبے میں امام(ع) نے اہل بیت(ع) عظام کے امتیازات کے علاوہ جو دو امتیاز کے خود حامل ہیں ان کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے ہم نے مختصر طور پر انہی کے بارے میں تذکرہ پہلے کیا ہے مورخین نے ایک راہب کےساتھ آپ کے سوال وجواب کے بارے میں میں چند مطالب لکھے ہیں ہم ان کا خلاصہ یہاں لکھتے ہیں۔
ہشام بن حکم نے آپ کو شام میں بلا بھیجا آپ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو ہمراہ لے کر شام کی طرف چلے۔ راستے میں ایک راہب سے ملاقات ہوئی جس کے گرد اس کے عقیدت مندوں نے حلقہ گھیرا ہوا تھا کہ راہب انہیں نصیحت کرے حضرت امام باقر علیہ السلام بھی ان مٰیں شامل ہوگئے آپ کی ہیبت و وجلال اور نورانیت نے راہب کو متاثر کیا انہوں نے آپ(ع) سے احوال پرسی کی اور چند سوالات بھی پوچھے اگرچہ راہب کے سوالات بڑے عامیانہ ہیں اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے مرتبہ علمی کے شایان نہیں لیکن ان سوالات میں بھی ایک نادانی تھی جوابات پاکر اور سوالات کے مرحلے میں اپنی جہالت سے خبردار ہو کر راہب اور
ان کے پیرو کاروں نے اسلام قبول کیا۔
راہب کے سوالات اور آپ(ع) کے جوابات یوں ہیں۔
س : وہ لمحات کون سے ہیں جو نہ تو دن میں شامل ہیں اور نہ رات میں؟
ج : طلوع فجر اور طلوع شمس کے درمیان کے لمحات جو بہشت کے لمحات میں ہیں جن میں ایک شخص اپنی آخرت کو آباد کرسکتا ہے اور دونوں جہانوں کی سعادت حاصل کر سکتا ہے۔
س : کہتے ہیں کہ اہل بہشت کو رفع حاجت کی ضرورت نہیں ہوگی دنیا میں اس کی مثال دیں؟
ج : اس کی مثال ماں کے پیٹ میں طفل کی ہے۔
س : کہا جاتا ہے کہ بہشت کی نعمات ختم نہ ہونے والی ہیں دنیا میں اس کی مثال کیا ہے؟
ج : فرمایا اس کی مثال علم کی ہے علم سے جس قدر فائدہ اٹھایا جائے اس میں اضافہ ہوتا ہے اور علم ختم نہیں ہوتا۔
س : وہ دو بھائی جو ایک ساتھ پیدا ہوئے اور ایک ساتھ مرگئے لیکن ایک کی عمر پچاس سال اور ایک کی عمر ایک سو پچاس سال تھی کون تھے؟
ج : آپ نے فرمایا وہ دو بھائی حضرت عزیر اور عزیز تھے۔ قرآن ان کی خبر دیتا ہے ان میں سے عزیر نے قیامت کے دن مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے پر شک کیا تو خداوند عالم نے سو سال کے لئے اس کی روح قبض کی اس کےبعد اسے فائدہ کیا اس طرح ایک ساتھ پیدا ہوتے ہوئے اور ایک ساتھ مرتے وقت دونوں کی عمروں میں سے سال کا فرق تھا۔ راہب نے آپ کے حکیمانہ جوابات کو سن کر اپنے پیروکاروں کے ساتھ اسلام قبول کیا۔ ائمہ طاہرین(ع) کی حقیقی شان تاریخ میں واضح نہیں ہوسکی ہے
پھر بھی ابن حجر جیسے متعصب اور تنگ نظر شخص نے بھی حضرت محمد باقر علیہ السلام کے بارے میں یوں لکھا ہے۔
“ هو باقر العلم و جامعه و شاهر علمه و رافعه صفا قلبه و زكى علمه و عمله و طهرت نفسه و شرفت خلقه و عمرت أوقاته بطاعة اللّه و له من الرسوخ في مقامات العارفين ما يكلّ عنه ألسنة الواصفين و له كلمات كثيرة في السلوك و المعارف لا تحتملها هذه العجالة.”
“ آپ تو علم کے شگافتہ کرنے والے اور وسعت دینے والے ہیں علم کو نمایاں کرنے والے اور علم کو بلندی عطا کرنے والے ہیں۔ ان کا دل پاک ہے ان کا علم تزکیہ شدہ ہے اور عمل بھی اس طرح پاکیزہ ہے آپ طاہر مطہر ہیں حسن خلق رکھتے ہیں ان کی زندگی اﷲ کی اطاعت میں صرف ہوئی۔ علم و عرفان کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہیں جس کے بارے بیان کرنا ممکن نہیں صاحب جنات الخلود جو شیعہ ہیں وہ کہتے ہیں “ آپ اکثر اوقات عبادت الہی میں مصروف ہوتے تھے خوف خدا سے گریہ کرتے رہتے بڑے منکسر المزاج تھے۔ اپنے کھیتوں میں جاتے اور کام کرتے جو کچھ بھی حاصل ہوتا خدا کی راہ میں خرچ کرتے، تمام لوگوں میں زیادہ سخی تھے ۔ تمام علماء آپ کے پاس آکر علم حاصل کرتے ان کا علم آپ کے مقابلے میں اس طرح تھا جیسے سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو۔ آپ کی زبان سے حکمت کے چشمے ابلتے تھے اور آپ کی جلالت کے سامنے ہر جلالت ماب چھوٹا نظر آتا تھا۔”
بحث کے آخر میں ہم کا ایک معجزہ ذکر کرتے ہیں۔ کلینی علیہ الرحمتہ نے کافی میں ابوبصیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور کہا کہ آپ رسول اکرم (ص) کے وارث ہیں اور جو کچھ پیغمبر اکرم (ص) جانتے تھے آپ بھی جانتے ہیں فرمایا ہاں۔ میں نے کہا تو کیا آپ مردہ کو
زندہ کرتے ہیں ، مادر زاد اندھے کو شفاء دے سکتے ہیں اور کیا جذام کے مریض کو شفاء دے سکتے ہیں جیسے کہ قرآن میں حضرت یحی(ع) کے بارے میں ذکر ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا خدا کی اجازت سے یہ بھی رکھتے ہیں اس کے بعد فرمایا۔ میرے پاس آؤ میں قریب گیا تو آپ نے میری آنکھوں پر اپنا ہاتھ پھیرا میری بینائی لوٹ آئی مجھے سے پوچھا کیا تم چاہتے ہو کہ بینائی کی حالت پر قائم رہو۔ مگر قیامت کے دن دوسرے لوگوں کی طرح حساب و کتاب اور آخرت کی دوسری مشقتوں کو برداشت کرو۔ یا نابینائی اختیار کر کے آخرت میں بغیر کسی حساب کے جنت میں چلے جاؤ ابوبصیر کہتا ہے کہ میں نے نا بینائی اختیار کی۔
حضرت امام صادق علیہ السلام
آپ کا اسم مبارک جعفر(ع) اور مشہور کنیت ابی عبداﷲ اور آپ کا لقب صادق ہے آپ کی عمر مبارک پینسٹھ سال تھی۔ مشہور یہ ہے کہ آپ ۷ ربیع الاول ۸۳ ہجری کو جو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا روز ولادت بھی ہے، پیدا ہوئے اور ۱۴۸ہجری ۲۵ شوال المکرم کو منصور دوانقی کے حکم سے زہر کے ذریعے شہید ہوئے آپ کی مدت امامت ۳۴ سال تھی۔
حضرت صادق علیہ السلام نے ان چونتیس سالوں میں شیعیت کو زندہ کیا تشیع کے لیے آپ کی خدمات اس قدر زیادہ ہیں کہ شیعہ مذہب کو مذہب جعفری کہا جانے لگا۔ یہ آپ کے لیے ایک اہم امتیاز ہے کہ مذہب شیعہ کی اکثر روایات آپ سے منقول ہیں۔
مرحوم محقق علیہ الرحمہ نے “ معتبر” میں کہا ہے کہ مختلف اسلامی فنون میں حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے اس قدر روایات منقول ہیں کہ عقل حیران ہے۔”
شیعہ و سنی بزرگ علماء اقرار کرتے ہیں کہ چار ہزار افراد نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے “ کشی” کہتا ہے کہ ابان بن تغلب نے حضرت جعفر صادق علیہ السلام سے تیس ہزار روایات نقل کی ہیں۔
“نجاشی” کہتا ہے کہ “ وشا” نے کہا ہے کہ میں نے نو سو افراد کو مسجد نبوی میں
دیکھا اور وہ تمام کہہ رہے تھے ۔ حدثنی جعفر بن محمد الصادق۔ “ مجھ سے بیان کیا حضرت جعفر صادق (علیہ السلام)نے۔”
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا عہد بنی امیہ کی حکومت کے آخری اور بنی عباس کو حکومت کے ابتدائی ایام کا تھا اور ان دونوں حکومتوں کو مکمل طور پر قدرت و قوت حاصل نہیں تھی۔ بنی امیہ روبہ زوال تھے اور بنی عباس اچھی طرح اقتدار سے چھا نہ سکے تھے۔ لہذا آپ کو موقع ملا اور معارف اسلامی کو عالم اسلام میں درس و تدریس کے ذریعے پھیلا سکے اور اسلامی علوم کے ہزارون دانشمندوں کی ترییب فرمائی۔ فقہ میں آپ کے شاگردوں میں جمیل بن دراج، عبداﷲ بن مسکان، عبداﷲ بکیر، حماد بن عیسی، حماد بن عثمان، ابان بن عثمان، جیسے عظیم فقہا کو اسلام کے لیے ہدیہ پیش کیا۔ یہ اصحاب اجماع تھے۔ یعنی علماء امامیہ ان کی روایات کو بغیر کسی چھان بین کے بے چون و چرا قبول کرتے ہیں علم کلام میں آپ کے شاگردوں کی فہرست میں ہشام بن حکم اور مغفل جیسے عظیم نام شامل ہیں اور علم تفسیر میں ابی حمزہ ثمالی جیسے مفسر کی ترتیب فرمائی۔ یہ سب کچھ آپ کے ۳۴ سالہ دور میں ہوا اور مذہب تشیع نے رونق پائی۔ لیکن مںصور دوانیقی کے عہد میں آپ پر کچھ پابندیاں لگ گئیں اور مختلف بہانوں سے آپ کےساتھ ملاقات اور آپ سے تعلیم حاصل کرنے پر پابندیاں لگا دی گئیں۔
صرف اس پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ آپ کے مقابل میں چند افراد بنا کر کھڑے کئے گئے۔ فقہ میں ابو حنیفہ اور قتادہ وغیرہ کو، ثفیان ثوری کو عرفان اور ابن ابی العوجا کو عقائد میں پیش کیا گیا لیکن ایسے لوگوں کی طاقت کہاں تھی جو آپ کے مقابل میں جم سکتے۔
منقول ہے کہ ایک دفعہ منصور دوانیقی نے ایک محفل منعقد کی اور مجلس میں
آپ کی توہین کے علاوہ عملی طور پر دباؤ ڈالنے کے لیے چالیس مشکل ترین مسئلے قتادہ کے ذریعے تیار کئے کہ اس محفل میں امام صادق(ع) سے پوچھے جائیں۔
لیکن جس وقت امام (ع) اس محفل میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین محفل غیر ارادی طور پر اٹھ کھڑے ہوئے اور غیر معمولی احترام کے ساتھ آپ کا استقبال کیا۔ آپ کی ہیبت و جلالت سے سارا مجمع مبہوت ہوگیا اور مکمل طور پر سناٹا چھا گیا یہاں تک کہ خود امام علیہ السلام نے خاموشی کو توڑا اور قتادہ سے پوچھا کیا کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟ قتادہ نے مودب ہو کر کہا یا ابن رسول اﷲ کیا پنیر کھانا جائز ہے آپ(ع) نے تبسم فرمایا اور پوچھا کیا تمہارے سوالات اس طرح کے ہیں؟ قتادہ نے کہا۔ نہیں خدا کی قسم میں نے چالیس مشکل سوالات ترتیب دیے تھے لیکن آپ کی ہیبت و جلالت نے سب کچھ بھلا دیا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا تم جانتے ہو کہ کس کے سامنے بیٹھے ہو یہ وہی ہے جس کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا ہے۔
“فىِ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَ الاَْصَالرِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تجَِرَةٌ وَ لَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ الله”
“ ( اس کے نور کے طرف ہدایت پانے والے) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں اﷲ نے بلند کرنے اور اپنے نام کا ذکر کرنے کی اجازت دی ہے ان میں ایسے لوگ صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اﷲ کی یاد سے غافل نہیں کردیتی ہے۔” ( سورہ نور آیت ۳۶۔۳۷)
یہ سن کر قتادہ نے کہا یا بن رسول اﷲ یہ گھر اینٹ اور گارے کے بنے ہوئے نہیں بلکہ یہ گھر آپ حضرات (ع) کے اجسام مطہر ہیں۔ ابن ابی العوجا کے بارے میں یہ مثال دی جاسکتی ہے کہ جس طرح حضرت امیرالمومنین(ع) کے پاس مالک اشتر تھے جو دشمنوں کی صفوں میں گھس کر انہیں پائمال کرتے تھے تو حضرت صادق آل محمد(ع) کے
پاس ہشام بن حکم تھے جس کے سامنے ابن ابی العوجا شیر کے پنجوں میں گرفتار ایک لومڑی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں کی دشمنان ، آل محمد(ع) کے ساتھ بہت سارے مناظرے تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔
جب بنی عباس نے یہ جان لیا کہ ان کے چوری چھپے حربے کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتے تو انہوں نے آپ کو شدید دباؤ میں رکھا آپ کے دروس کو ختم کیا اور آپ کو اپنے گھر میں نظر بند رکھا یہاں تک کہ راوی کہتا ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو دیکھا۔ “ الباب عليه خلق والستر مرخی” یعنی دروازہ بند تھا اور اس پر پردہ بھی ڈالا ہوا تھا اور کسی کو آپ سے ملاقات کی اجازت نہیں تھی یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو زہر سے شہید کردیا گیا۔
آپ کے فضائل
آپ کے فضائل بیان کی حدود سے باہر ہیں ایک مشہور جملہ اہلسنت کے امام مالک بن انس کا ہے انہوں نے فرمایا “ جعفر بن محمد(ع) سے بہتر فرد نہ تو آنکھ نے دیکھا نہ کان نے سنا اور نہ دل میں خیال آیا” اور امام ابو حنیفہ سے یہ جملہ مشہور ہے کہ آپ نے کہا۔“ مارايت افقه من جعفر بن محمد۔” یعنی میں نے جعفر بن محمد(ع) سے بڑھ کر کسی کو فقیہہ پایا۔ آپ(ع) کی اپنی زبان سے بھی سنتے ہیں ۔ ضریس کہتا ہے کہ حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے آیت “ كُلُّ شَيْءٍ هالِكٌ إِلاَّ وَجْهَه”( اﷲ کے چہرے کے سوا ہر چیز نے فنا ہونا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ۔ عن وجہ اﷲ الذی یوتی اﷲ منہ۔ “ ہم نے ہی اﷲ کا وہ چہرہ ہیں جس کے ذریعہ اس کی پہچان ہوتی ہے۔ ” یعنی امام (ع) نے فرمایا کہ آپ(ع) ذات حق کے لیے آئینہ ہیں۔
آپ(ع) کے ایمان کی منزل
ہم یہاں پر امام صادق علیہ السلام کے اخبار غیبی کے خبر دینے کے چند واقعات بیان کرتے ہیں جس سے آپ کے ایمان و شہور پر خود بخود دلالت ہوتی ہے۔
۱ ـ محمد بن عبداﷲ کہتا ہے کہ ایک شیعہ راوی عبدالحمید زندان میں تھا میں عرفہ کے دن مکہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اور انہوں نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی اس کے فورا بعد ہی فرمایا“ آپ کا دوست قید سے آزاد ہوا” جب میں نے مکے سے واپس آکر عبدالحمید سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ عبدالحمید کو اسی گھڑی رہائی ملی تھی جس وقت آپ(ع) نے ان کی رہائی کے لیے دعا مانگی تھی۔
۲ ـ ؟؟؟ کہتا ہے کہ ایک دفعہ امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کے لیے مدینہ چلاگیا وہاں کچھ عرصہ رہا اور ایک مکان کرائے پر لے رکھا تھا۔ کچھ دنوں بعد مالک مکان کی ایک کنیز کی طرف مجھے رغبت ہوئی ایک دن موقع پا کر اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ اسی دن میں امام(ع) کی خدمت میں پہنچا تو امام(ع) نے فرمایا آج تم کہاں تھے؟ میں نے جھوٹ بولا اور کہا صبح کو میں مسجد میں گیا ہوا تھا یہ سن کر آپ نے فرمایا اما تعلم ان ہذا لا ینال الا بالور “ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ولایت کے مقام تک تقوی کے بغیر نہیں پہنچا جاسکتا ۔”
۳ ـ ابی بصیر کہتا ہے کہ ایک دن میں جنب تھا لیکن دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں جارہا ہے تو میں بھی اسی حالت میں چلا گیا مجھےدیکھ کر آپ نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے گھروں میں جنب کی حالت میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔
۴ ـ شعرانی کہتا ہے ایک دفعہ منصور دوانقی اپنے چند افراد کو انعامات دے رہا تھا میں بھی گھر کے دروازے میں کھڑا تھا اتنے میں امام صادق علیہ السلام تشریف لائے میں آپ(ع) کے سامنے گیا اور عرض کیا کہ منصور سے مجھے بھی کوئی انعام دلوا دیں آپ جب واپس آئے تو میرے لیے بھی کچھ لے آئے تھے ۔ مجھے دے دیا اور فرمایا ۔ “إِنَّ الْحَسَنَ مِنْ كُلِّ أَحَدٍ حَسَنٌ وَ إِنَّهُ مِنْكَ أَحْسَنُ لِمَكَانِكَ مِنَّا.” “ اچھا کام جس سے بھی سرزد ہوا اچھا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت اچھا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے اور برا کام جس کسی سے بھی سرزد ہو جائے برا ہے اور تم سے سرزد ہونا بہت برا ہے کیونکہ تمہاری نسبت ہم سے ہے۔”
شقرانی کہتا ہے کہ امام(ع) کا یہ فرمان میری ایک بری حرکت کی طرف اشارہ تھا کیونکہ میں کبھی کبھار مخفی طور پر شراب پیتا تھا۔
آپ(ع) کا علم
آپ(ع) کے علم کی منزلت کو سمجھنے کےلیے آپ کی زبان سے ہی سنتے ہیں۔
۱ ـ علاء بن سبابہ کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں اس سے آگاہ ہوں جو کچھ زمین اور آسمان میں ہے اور جو کچھ جنت اور جہنم میں ہے اس سے بھی آگاہ ہوں میں گذشتہ اور آئندہ یہاں تک کہ قیامت تک کے واقعات سے آگاہ ہوں اس کے بعد آپ نے فرمایا اس علم کو میں قرآن سے جانتا ہوں اور قرآن پر مجھے اس طرح عبور حاصل ہے جسے ہاتھ کی ہتھیلی پر عبور حاصل ہوتا ہے ۔ اور خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا کہ قرآن تمام چیزوں کا بیان کرنے والا ہے۔
۲ ـ بکیر بن اعین کہتا ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا میں ان تمام
چیزوں سے آگاہ ہوں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہے اور اسے بھی جانتا ہوں جو دنیا و آخرت میں ہے۔ یہ کہہ کر آپ(ع) نے دیکھا کہ کچھ پیچیدگی پیدا ہونے لگی ہے تو آپ(ع) نے فرمایا اے بکیر میں نے یہ علم قرآن سے حاصل کیا ہے کیونکہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے۔“وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ”( سورہ نحل آیت ۸۹)
“ ہم نے تم پر قرآن نازل کیا ہے جو ہر چیز کو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔”
۳ ـ صفوان بن عیسی کہتا ہے کہ حضرت صادق آل محمد(ع) نے فرمایا میں اولین و آخرین کا علم رکھتا ہوں اور جوکچھ بھی ماں باپ کے رحم و صلب میں ہے اسے بھی جانتا ہوں۔
آپ (ع) کا صبر
جس وقت آپ کے بڑے صاحبزادے اسماعیل وفات پاگئے تو آپ نے تعزیت کے لیے آنے والے افراد کا بڑا خندہ پیشانی کےساتھ استقبال کیا اور بعض لوگ یہ حالت دیکھ کر تعجب کرنے لگے اور اس بارے میں انہوں نے آپ سے پوچھا بھی تو آپ نے فرمایا اﷲ کا حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئے۔ ایک اور مصیبت میں آپ نے فرمایا ہم اہل بیت (ع) مصیبت کے وارد ہونے سے پہلے اپنی فعالیتوں کو انجام دیتے ہیں اور جب مصیبت واقع ہوتی ہے تو تقدیر الہی کو تسلیم کرتے ہوئے راضی رہتے ہیں۔
آپ(ع) کا حلم
منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے غلام کو کسی کام سے بھیجا غلام نے دیر کیا
تو آپ خود اس کام کے لیے چلے گئے تو راستے میں غلام کو دیکھا جو سویا ہوا تھا آپ نے اسے پتوں سے ہوا کی وہ بیدار ہوا تو فرمایا اچھا یہ ہوتا کہ رات کو سوتے اور دن کو کام کرتے۔
آپ(ع) کا عفو
ایک دفعہ کسی نے آپ کو یہ خبر پہنچا دی کہ آپ کا چچا زاد بھائی عوام کے سامنے آپ کو ناسزا کہتا پھرتا ہے یہ سن کر آپ اٹھے اور دو رکعت نماز ادا کی اور نماز کے بعد کمال رقت کے ساتھ دعا مانگی خداوندا! میں نے اسے اپنا حق معاف کیا تو اکرم الاکرمین ہے اسے کے کردار کی پاداش میں گرفتار نہ فرما۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ قطع رحم کے مواخذے کی شدت اور سرعت کی طرف متوجہ تھے لہذا اس کے لیے معاف کرنے اور دعا کرنے میں جلدی کی۔
آپ(ع) کی سخاوت
ہشام بن سالم کہتا ہے حضرت امام صادق علیہ السلام کا دستور تھا کہ جس وقت رات کا ایک حصہ گزر جاتا تھا تو ایک تھیلے میں بھر کر اشیاء لے کر نکلتے اور مدینہ کے محتاجوں میں تقسیم کرتے تھے اور محتاجوں کو آپ کی خبر تک نہ ہوتی تھی جب آپ کی شہادت واقع ہوئی تب لوگوں کو پتہ چلا کہ کون ان کی مدد کرتا تھا۔
منثعمی کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک دفعہ دینار کی ایک تھیلی دی اور کسی آدمی کو دینے کے لیے کہا اور تاکید کی کہ میں آپ کا نام نہ لوں میں نے وہ تھیلی اس شخص کو دی مگر وہ شخص گلہ کر رہا تھا کہ امام صادق علیہ السلام قدرت رکھنے کے باوجود میرا خیال نہیں رکھتے ہیں۔
آپ(ع) کی عبادت
ابان بن تغلب کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو رکوع و سجود میں ستر دفعہ تسبیح پڑھتے ہوئے سنا۔
خراج راوندی میں ہے کہ راوی کہتا ہے “ میں نے امام صادق علیہ السلام کو مسجد نبوی میں دیکھا ہے نماز میں مشغول ہیں اور تین سو مرتبہ سبحان ربی العظیم و بحمدہ کہا۔
مالک بن انس کہتا ہے کہ میں نے علم و تقوی میں جعفر بن محمد(ع) سے بڑھ کر اور کسی کو نہیں پایا۔ جب بھی میں نے آپ کو دیکھا آپ یا تو ذکر میں مشغول تھے یا روزے میں تھے۔ یا نماز میں مشغول تھے وہ خدا کے نیک بندوں میں سے تھے بہت بڑے زاہد تھے ہر وقت خوف لاحق رہتا تھا اور مسجد میں شدت خشوع سے گریہ کرتے تھے ۔ میں ایک سال مکہ میں آپ(ع) کے ساتھ تھا جب تلبیہ کہنے کا وقت آیا تو شدت رقت سے تلبیہ نہ کہہ سکے، فرماتے تھے کہ اگر میں کہدوں لبیک اور وہ لا لبیک کہے تو کیا کروں؟
مفضل ایک عظیم شیعہ عالم ہیں کہ کتاب توحید مغفل کے نام سے موجود ہے جس میں خالق اور اس کی صفات کا ذکر ہے۔ مغفل امام(ع) کے بارے میں کہتا ہے کہ “ ایک دفعہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا اور قریب ہی ابن ابی العوجا اور اس کے مرید بیٹھے ہوئے کفر آمیز کلمات کہہ رہے تھے مجھ رہا نہ گیا میں ان پر برس پڑا یہ دیکھ کر ابن ابی العوجا نے کہا اے شخص اگر تو جعفر صادق(ع) کے پیروکاروں میں سے ہے تو ان کا طریقہ ایسا نہیں ہے ہم ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں ، بحث کرتے، دلیل دیتے تو وہ صبر و سکون کے ساتھ پوری توجہ سے سنتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا جواب بھی سوچ لیا ہے اس کے بعد وہ ہماری ایک ایک دلیل کو رد کرتے ہیں۔
آخر میں ہم خود ابی بصیر کا واقعہ ذکر کرتے ہیں جو بجائے خود ایک معجزہ ہے۔
ابوبصیر کہتا ہے کہ ایک نہایت ہی گناہ گار شخص ہمارا ہمسایہ تھا ہم ہر چند ایسے نصیحت کرتے تھے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ہم اس سے بڑے تنگ تھے ایک دفعہ جب میں مدینہ جانے کی تیاری کررہا تھا تو میرے پاس وہ شخص آیا اور کہا اے ابا بصیر میں گناہوں میں مبتلا ایک شخص ہوں جنہیں ترک کرنا میرے بس میں نہیں مجھے اپنے آپ پر قیاس مت کرو تم نے شیطان سے نجات پائی ہے میری حالت حضرت امام صادق (ع) کے گوش گزار کرو کہ میری کچھ فکر کریں۔ ابو بصیر کہتا ہے میں نے اس واقعہ کا تذکرہ مدینہ پہنچ کر امام کی خدمت میں کیا یہ سن کر آپ(ع) نے فرمایا اے میرا سلام کہنا ساتھ ہی یہ بھی کہنا کہ اگر گناہ ترک کروگے تو میں بہشت کی ضمانت دیتا ہوں جب میں واپس آیا تو وہ شخص مجھ سے ملنے آیا میں نے اسے امام صادق علیہ السلام کا سلام اور پیغام پہنچا دیا وہ شخص یہ سن کر پلٹ گیا اور توبہ کی ایک عرصے کے بعد میں جب اس دیکھنے گیا تو جانکنی کی حالت میں پایا جب میں نزدیک گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور کہا امام صادق علیہ السلام نے اپنے وعدے کو پورا فرمایا۔ وہ شخص مرگیا ایک سال بعد میں امام ( ع) کی خدمت میں مدینے گیا تو امام صادق علیہ السلام ے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنے وعدے کو پورا کیا۔
ایک اور ایسا ہی واقعہ ابو بصیر بیان کرتے ہیں جو یوں ہے کہ ایک دفعہ میں بنی امیہ کی حکومت کے ایک کارندے کو امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں لے گیا تاکہ آپ کے ہاتھوں میں توبہ کرے آپ نے اس شخص کو دیکھ کر گلہ کرتے ہوئےفرمایا اگر لوگ بنی امیہ کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو ہمارا حق غصب نہیں کرسکتے تھے اس کے بعد فرمایا کہ میں جو کچھ کہوں گا اس پر عمل کرو گے اس شخص نے کچھ لمحے سکوت اختیار کر کے بعد میں قبول کیا کہ جو کچھ آپ فرمائیں گے انجام دے گا
آپ نے فرمایا تمام اموال صدقے میں دے دو تو میں تمہارے لیے بہشت کی ضمانت دیتا ہوں۔
ابو بصیر کہتا ہے کہ چند دنوں کے بعد اس شخص نے اپنی بیٹی کے ذریعے مجھے بلا بھیجا میں اس کے پاس گیا تو دیکھا کہ جو کچھ اموال اس کے پاس تھا صدقہ میں دیا ہے یہاں تک کہ اس کے جسم پر کرتا بھی نہیں ہے۔ میں نے اس کے لیے ایک کرتے کا بندوبست کیا چند دن بعد جب وہ احتضار کی حالت میں تھا میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا ابو بصیر امام صادق علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کیا اور جب میں امام(ع) کی خدمت میں پہنچا ابھی بیٹھا بھی نہیں تھا کہ امام (ع) نے فرمایا ابو بصیر ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔
یہ امام صادق علیہ السلام کے فضائل کے سمندروں میں سے ایک قطرہ تھا جو بیان ہوا اور اگر ہم امام صادق علیہ السلام کے بارے میں کچھ کہہ سکتے ہیں تو صرف اس قدر جیسا کہ آپ نے خود فرمایا ہے۔
جھنی کہتا ہے کہ ایک دفعہ ہم مدینے میں اہل بیت(ع) کے فضائل کے بارے میں بات کررہے تھے گفتگو کے دوران ربوبیت کا شبہ پیدا ہونے لگا لہذا ہم نے امام صادق علیہ السلام سے ملاقات کی اور عرض مدعا کیا تو آپ نے پوچھا یہ بے ہودہ خیال تمہیں کیسے آیا؟ ہم تو وہ لوگ ہیں جن کا ایک پروردگار ہے جو ہمیشہ ہمارا محافظ ہے ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں تم ہمارے بارے میں جو چاہو کہو مگر اس شرط کے ساتھ کہ ہمیں خداوند متعال کی مخلوق جانو۔
یہ جملہ اکثر ائمہ طاہرین علیہم السلام نے ادا فرمایا ہے لہذا ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام ممکن الوجود ہیں، مخلوق بندے ہیں، اور محض احتیاج ہیں اور خود سے کوئی استقلال نہیں رکھتے جب کہ استقلال وجوب وجود، ربوبیت اور خلق و بے نیازی پروردگار عالم کی ذات سے مخصوص ہے لیکن یہ حضرات صرف واسطہ فیض
عالم ہیں صفات الہی کے مظہر ہیں اﷲ کے سوا ہر چیز کا علم رکھتے ہیں اور تمام صفات کمال سے آراستہ ہیں بقول امیرالمومنین علیہ السلام ۔“ ہمیں خدا نہ کہو باقی جو کچھ چاہو ہمارے بارے میں کہو۔”
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
آپ کا نام نامی موسیٰ اور مشہور لقب کاظم ، عبد صالح اور باب الحوائج ہیں، آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن ہے۔ آپ کی عمر مبارک تقریبا ۵۴ سال تھی۔ ۷ صفر ۱۲۸ ہجری کو آپ نے ولادت پائی۔ اور ۲۵ رجب سال ۱۸۶ہجری کو ہارون رشید کے حکم سے سندی بن شاہک کے ہاتھوں زہر خورانی کی وجہ سے شہادت پائی۔ آپ کی مدت امامت آپ کے والد بزرگوار کی طرح ۳۴ سال ہے۔ اس پوری مدت میں یا تو آپ زندان میں تھے یا جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔
آپ عوام میں مکمل نفوذ رکھتے تھے اور ہر وقت دشمن کے ساتھ مقابلہ پر رہے اور دشمن بھی غیر معمولی حد تک آپ سے ڈرتے تھے۔ دشمن کے آخری وقت میں یہ چاہتا تھا کہ بالکل خاموشی کے ساتھ کسی کو پتہ کرائے بغیر آپ کی تدفین کرے۔ مگر خدا کو یہ منظور نہیں تھا۔ لہذا بڑے اہتمام کے ساتھ آپ(ع) کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی شہادت کے وقت بہت سارے علماء، فضلاء اور چیدہ چیدہ لوگوں کو جمع کیا گیا تاکہ یہ لوگ گواہی دیں کہ آپ اپنی طبعی موت مرے ہیں۔ لیکن آپ کی باتوں نے ان کے جھوٹ کا فاش کردیا۔
حضرت موسی ابن جعفر علیہ السلام کے القاب بھی دوسرے اہل بیت(ع) کی طرح بے مقصد نہیں بلکہ ان کے تمام القاب عالم ملکوت سے ہی معین کئے گئے تھے۔ لہذا ہم
آپ کے صرف القاب کی مختصر تشریح پر اکتفا کرتے ہیں۔
آپ کے القاب میں سے ایک لقب کاظم ہے آپ اپنے صبر و حلم میں بے مثال تھے۔ اور عظیم سے عظیم مصیبتیں آپ کے پائے استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکیں۔ آپ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں۔
“ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ أَهْلِ بَيْتِهِ وَ صَلِّ عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ وَصِيِّ الْأَبْرَارِ وَ إِمَامِ الْأَخْيَارِ وَ عَيْبَةِ الْأَنْوَارِ وَ وَارِثِ السَّكِينَةِ وَ الْوَقَارِ وَ الْحِكَمِ وَ الْآثَارِ”
“ بار الہ درود نازل فرما حضرت محمد (ص) اور ان کے پاکیزہ آل پر اور درود نازل فرما وصی ابرار حضرت موسی بن جعفر(ع) پر جو نیکوں کے جانشین ، مومنوں کے امام، صفات الہی کے مظہر، وقار وسکون کے وارث ، جس نے مصائب میں صبر و استقامت کا ساتھ دیا جو اہل بیت (ع) کے حکمت اور علم کے وارث ہیں۔”
مختصر یہ کہ آپ کاظم ہیں، صابر ہیں، حلیم ہیں، فراخ دل ہیں ، قسم قسم کے طوفان اور اتار چڑھاؤ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہنے والے ہیں اور دشمن اپنی تمام طاقت و اقتدار کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ کرسکا۔
ہارون رشید نے اپنی تمام تر مساعی ختم کیں کہ موسی کاظم علیہ السلام آپ کے سامنے عجز و انکسار اختیار کریں۔ لیکن اسی خواہش کے ساتھ قبر میں پہنچا جو کبھی پوری نہ ہوسکی۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے مجھے زندان میں حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ مجھے معلوم ہے آپ بے گناہ ہیں۔ لیکن میری اور آپ کی بھلائی اسی میں ہے کہ آپ زندان میں رہیں۔ لہذا جو بھی غذا آپ چاہیں حکم فرما دیں تاکہ تیار کی جائے ربیع کہتا ہے کہ میں اس پیغام کے ساتھ آپ کے پاس زندان میں پہنچا تو دیکھا کہ آپ نماز میں مشغول ہیں۔ ہر چند میں نے کوشش کی کہ آپ کےساتھ بات
کروں اور پیغام پہنچا دوں مگر آپ کے مسلسل نماز میں مشغول ہونے کی وجہ سے بہت دیر بعد اتنا موقع ملا کہ آپ نے یہ پیغام سن کر جواب میں فرمایا۔“ لا حاضر لی مال فينضعنی و لم اخلق سولا” اس کے بعد پھر نماز میں مشغول ہوئے۔ یعنی آپ نے فرمایا “ میرا کوئی مال نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھاؤں اور سوال کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہوں۔” یعنی ہم اہل بیت(ع) کسی سے سوال نہیں کرتے۔ ہم اپنے پیروکاروں کو یہ تعلیم دیتے ہیں کہ بے جا سوال مت کریں۔ یعنی پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔ ربیع کہتا ہے کہ ہارون نے ایک اور دفعہ مجھے آپ(ع) کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ میں آپ(ع) سے کہوں کہ آپ(ع) اپنے جرم کا اقرار کریں تو آپ کو زندان سے رہائی مل جائے گی۔ آپ (ع) صرف میرے سامنے اقرار کریں۔ میرے اور آپ کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں ہوگا۔ چونکہ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک آپ اپنے جرم کا اقرار نہیں کریں گے رہائی نہیں دوں گا۔ آپ نے جواب میں فرمایا “ میری طرف سے ہارون کو کہدو کہ میری تکلیف اور تمہاری راحت و خوشی کے دن مسلسل گزر رہے ہیں اور گزرنے والے ہیں میرے اور تمہارے درمیان حاکم خداوند عالم ہے اب بہت کم دن رہ گئے ہیں۔” ربیع کہتا ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کو جواب سن کر ہارون کی پیشانی پر پل پڑگئے اور کئی دنوں تک ان کا موڈ آف رہا۔
آپ کے مشہور ترین القاب میں سے ایک عہد صالح ہے ہم آپ کی زیارت میں کہتے ہیں۔“ الصَلاة عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ كَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ بِالسَّهَرِ إِلَى السَّحَرِ بِمُوَاصَلَةِ الِاسْتِغْفَارِ حَلِيفِ السَّجْدَةِ الطَّوِيلَةِ وَ الدُّمُوعِ الْغَزِيرَةِ وَ الْمُنَاجَاةِ الْكَثِيرَةِ وَ الضَّرَاعَاتِ الْمُتَّصِلَةِ الْجَمِيلَةِ”
“ موسی بن جعفر پر ہمارا سلام ہو جو رات سے لے کر صبح صادق تک استغفار طویل سجدہ ، گریہ و زاری اور اپنے رب کے حضور مناجات میں
گزارنے والے ہیں۔”
راوی کہتا ہے کہ آپ(ع) جب بغداد میں جلا وطن تھے تو ہارون نے مجھے بھیجا میں نے بغداد پہنچ کر آپ کو تلاش کیا تو بہت دور ایک جھونپڑی میں آپ کو پایا جو خرما کے پتوں اور جھال سے بنائی گئی تھی۔ آپ وہاں تشریف فرما تھے اور ایک غلام آپ کے سامنے ہاتھ میں قینچی لیے آپ کے عضائے سجدہ کے گھٹوں کو کاٹ رہا تھا۔ آپ اس قدر طویل سجدہ کرتے تھے کہ آپ کے اعضائے سجدہ میں گھٹے پڑے ہوتے تھے۔ زندان میں آپ جو دعائیں پڑھت تھے ان میں سے ایک کے الفاظ ہیں۔
“ میرے معبود! میں تیری عبادت کے لیے ایک خلوت کی جگہ مانگتا تھا۔ تیرا شکر کہ تو نے وہ جگہ میرے لیے عنایت فرمائی۔”
آپ (ع) کا ایک لقب عالم بھی ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی تقریبا ساری عمر زندان یا جلا وطنی میں گزری۔ اسلام ادر انسانیت کے دشمنوں نے عوام کو موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے باوجود حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اپنے بہترین لائق شاگرد اور فقیہ کے درجے کے حامل افراد کی تربیت کی اور مسلمانوں کو ہدیہ پیش کیا۔ شیخ طوسی علیہ الرحمتہ نے اپنے رجال میں بہت سارے افراد جیسے، یونس بن عبدالرحمان ، صفوان بن یحی ، محمد بن ابی عمیر ، عبداﷲ بن مغیرہ ، حسن بن محبوب، احمد بن ابی نصرہ وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔
جو بڑے پائے کے فقہاء تھے علی بن یقطین جس نے تشیع کی بہت خدمت کی ہے آپ ہی کہ صحابہ میں سے تھے۔ آپ نے ہی علی بن کو ظالم حکومت کی ملازمت اختیار کرنے کو کہا تھا۔ علی بن یقطین ہارون رشید کا وزیر تھا۔ مگر امام موسی کاظم علیہ السلام ان کی ترتیت کررہے تھے۔ جس طرح آپ ان کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ اسی طرح ان کے تحفظ کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے تھے۔ یہاں پر ان کے چند ایک واقعات
کا ذکر کرتے ہیں۔
۱ ـ ایک دفعہ ابراہیم جمال جو آپ کے اچھے پیروکاروں میں سے تھے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی زیارت کی غرض سے بغداد آئے اور چاہا کہ علی بن یقطین سے ملتے ہوئے امام (ع) کے پاس جاتے ۔ لیکن علی بن یقطین اتنے مصروف تھے کہ ابراہیم جمال ان کے ساتھ ملاقات کئے بغیر مدینہ روانہ ہوئے اور جب مدینہ میں امام (ع) کے حضور پہنچے تو امام نے علی بن یقطین کے بارے میں پوچھا تو ابراہیم جمال نے اپنا واقعہ اور ملاقات نہ ہونے کا ذکر کیا۔ اسی سال علی بن یقطین بھی مدینہ پہچے چاہا کہ امام کی خدمت میں حاظر ہوجائیں مگر امام نے انہیں اجازت نہ دی اور دوسرے اور تیسرے دن بھی امام نے ملاقات کی اجازت نہیں دی۔ علی بن یقطین بڑے آزردہ ہوئے۔ اور گریہ کرنے لگے کہ مجھ سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے؟ آخر کار امام (ع) نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ جب تک ابراہیم جمال کو راضی نہ کرا دو ہم تم سے راضی نہیں۔ یہ سن کر علی بن یقطین مدینہ گئے اور ابراہیم جمال سے معافی مانگی اور معاف کرنے کی نشانی کے طور پر ابراہیم جمال کے پاؤں اپنے چہرے پر زبردستی رکھوادئے اور اس کے نشانات کی حفاظت کر کے امام کے حضور پہنچے اور امام نے یہ دیکھ کر فرمایا اب ہم تم سے راضی ہیں۔
امام (ع) کا یہ حکم کرنا علی بن یقطین کی تہذیب نفس کے لیے ایک خاص لطف پر مبنی تھا۔
۲ ـ ایک دفعہ ہارون رشید نے ایک قیمتی کپڑا علی بن یقطین کو انعام کے طور پر دے دیا۔ علی بن یقطین نے وہ کپڑا حضرت امام موسی کاظم علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھیجا تو آپ نے کپڑا واپس کرتے ہوئے کہلا بھیجا کہ وہ کپڑے کو حفاظت سے رکھے اور اسے خوشبو سے معطر کر کے رکھے۔ کچھ عرصے کے بعد چغل خوروں نے ہارون کے پاس
چغلی کھائی کہ علی بن یقطین نے وہ کپڑا امام موسی کاظم علیہ السلام کو بھیجا ہے۔ ہارون نے انہیں طلب کر کے پوچھا کہ جو لباس میں نے انعام کے طور پر دیا تھا اسے کیوں نہیں پہنے ہو؟ انہوں نے جواب دیا چونکہ آپ کا انعام دیا ہوا ہے لہذا اسے معطر کر کے حفاظت سے اٹھا رکھا ہے۔ ساتھ ہی غلام کو بھیج کر وہ کپڑا منگوا لیا۔ ہارون نے جب یہ صورت حال دیکھی تو قسم کھائی کہ آئندہ علی بن یقطین کے بارے میں کسی کی کوئی بات نہیں سنے گا۔
۳ ـ علی بن یقطین اپنے معمولی کے مطابق اپنے وظائف شرعی پر عمل کررہے تھے۔ ایک دن انہیں امام موسی کاظم علیہ السلام کی طرف سے ایک خط ملا جس میں یہ ہدایت تھی کہ اپنے معروف طریقے کے برخلاف وضو کے طریقے پر عمل کرے۔ خط ملتے ہی اس نے عمل شروع کیا۔ چند دن تک یہ سلسلہ جاری رہا اسی دوران بدخواہوں نے ہارون کے کان میں یہ بات ڈال دی کہ علی بن یقطین شیعہ ہیں۔ ہارون نے صدیق کے لیے چھپ کر ان کا وضو کرنا دیکھا تو علی بن یقطین کو اپنے طریقے پر وضو کرتے پایا اور چغلی کرنے والوں کی سرزنش کی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد امام(ع) کی طرف سے دوسرا خط جس میں اپنے طریقے کے مطابق وضو کرنے کا حکم تھا۔
حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اپنے اصحاب ، اجماع ، شاگردوں کے علاوہ دوسرے ایسے افراد کی بھی تربیت کی جنہوں نے مذہب شیعہ کی غیر معمولی خدمت کی ہے جیسے کہ علی بن یقطین۔
اگر ہم حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کےعلم کے بارے میں بات کرنا چاہیں تو آپ کے لیے زیارات میں پایا جانے والا یہ لفظ آپ کے علم پر کما حقہ دلالت کرنے کے لیے موجود ہے اور وہ لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے عیبہ کے معنی تجوری کے ہیں جس میں گرانقدر قیمتی جواہرات کو محفوظ رکھا جاتا ہے۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام
انوار الہی کی تجوری قرار پاتے ہیں۔ قدرت خدا کی تجوری ، خدا کی وسیع رحمتوں کی تجوری، صفات حقہ کی تجوری، ہم جس قدر بھی آپ کے علم کے بارے میں بات کریں گے وہ ناکافی ہے۔ آپ کے علم کے اظہار کے لیے صحیح اور مناسب تر لفظ “ عیبتہ الانوار” ہے۔ آپ کا ایک لقب باب الحوائج ہے۔ محمد بن طلحہ شافعی آپ کے بارے میں کہتا ہے۔
“ انه الامام جليل القدر عظيم الشان کثير التهجد المواظب علی الطاعات المشهور بالکرامات مسهر الليل بالسجدته والقيام و متم اليوم بالصيام والصدقه والخيرات المسمی بالکاظم لعفوه و احسانه بمن اسائه والمسمی بالعبد الصالح لکثيره عبوديته والمشهور باب الحوائج اذ کل من يتوسل اليه اصاب حاجته کراماته تحار منها العقول”
“ بتحقیق آپ (ع) جلیل القدر ، عظیم الشان پیشوا ہیں۔ راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور اﷲ کے اطاعت گزار ہیں۔ اپنی کرامات میں مشہور راتوں کو طویل سجدے اور قیام کرنے والے ہیں اور دنوں کو روزے رکھنے والے ہیں، ضرورتمندوں کی مدد کرنے والے ہیں۔ ان بزرگ کا لقب کاظم (ع) ہے ۔ جو آپ کے ساتھ برا کرتے ہیں آپ انہیں معاف کرتے ہوئے ان کےساتھ نیکی کرتے ہیں۔ آپ کا لقب عبدصالح بھی ہے کثرت عبادت اور بندگی کی وجہ سے یہ لقب پڑ گیا۔ باب الحوائج بھی آپ کا لقب ہے جو بھی آپ کا وسیلہ اختیار کرتا ہے اس کی حاجت پوری ہوتی ہے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی کرامات اتنی زیادہ ہیں کہ انسانی عقل متحیر ہوتی ہے۔”
خطیب خوارزمی کہتا ہے کہ مجھے جب کبھی بھی کوئی غم والم در پیش ہوا میں حضرت
موسی بن جعفر (ع) کے روضے پر گیا اور میرا غم بھی دور ہوا۔ تاریخی تجربات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام باب الحوائج ہیں۔ منقول ہے کہ خلفاء میں کسی ایک کو دل کی بیماری لاحق ہوئی۔ ہر چند دوا تجویز کی گئی مگر افاقہ نہٰیں ہوا ۔ اس کے خاص حکیم نے جو نصرانی تھا کہا تمہارے اس درد کی کوئی دوا نہیں تو کسی اﷲ والے کو تلاش کرو اور اس کے ذریعے دعا کراؤ۔ خلیفہ نے کہا کہ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کو بلایا جائے آپ(ع) نے آکر دعا فرمائی تو وہ بالکل تندرست ہوئے۔ اس کے شفا پانے کے بعد آپ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے کیا پڑھا تھا کہ فورا صحت یاب ہوا۔ آپ (ع) نے فرمایا ،میں نے صرف اتنا کہا تھا۔ “ اللہم کما اریتہ ذل معصیتہ فارہ عن طاعتی” خداوندا جس طرح تو نے اسے نافرمانی کی ذلت سے آگاہ کیا اسی طرح میری اطاعت کی عزت بھی اسے دکھا۔” آپ دیکھیں کیا ہی بلیغ اور لطیف کلام کس طرح کا تعمیری اور تہدیدی کلام ہے۔
شیخ طوسی اپنے رجال میں حماد سے نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “ ایک دفعہ مٰیں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے حق میں دعا فرمائیں کہ خداوند عالم مجھے اچھا گھر ، اچھی بیوی اور نیک اولاد دے اور پچاس حج کرنے کی توفیق دے۔ آپ نے دعا فرمائی تھوڑی مدت نہیں گزری تھی کہ خداوند عالم نے مجھے سب کچھ دیا۔” یہ شخص ہر سال حج کرنے جاتا تھا۔ ایک دفعہ حج پر گیا تھا۔ احرام کےموقع پر غسل کرنے پانی میں اترا اور وہی غرق ہوکر مرا اس طرح آخری سال حج بجا نہ لاسکا۔ تاریخ میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام سےمتعلق اسی قسم کے واقعات بہت ملتے ہیں۔
آپ(ع) کی شہادت کا سبب
حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ (ع)
دوسروں کی خواہشات کی بھینٹ چڑھ گئے یعنی یحی برمکی کے حسد، ہارون کی جاہ طلبی اور علی بن اسماعیل کی زر پرستی جو آپ کا بھتیجا بھی تھا۔ ابن اشعث ہارون کے بیٹے امین کی تربیت پر مامور تھا ہارون کے نزدیک بہت مقرب تھا۔ یحی برمکی کو یہ خوف تھا کہ باد شاہت ہارون کے بعد اس کے بیٹے امین کو ملے گی اور ابن اشعث اس کی جگہ سنبھالے گا۔ لہذا حسد کے مارے اس نے حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام اور ابن اشعث کے خلاف ہارون کے کان بھرنے شروع کئے۔ مامون وسوسے میں مبتلا ہوا اور حضرت موسی بن جعفر(ع) کے بارے میں تحقیق کرانی چاہی اور اس مقصد کے لیے آپ کے بھتیجے علی بن اسماعیل کو بلا بھیجا۔ حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام نے اسے جانے کو منع کیا اور خطرات سے آگاہ کیا مگر وہ گیا اور ہارون سے پہلے یحی برمکی سے ملاقات کی اور ہارون کے پاس جاکر کہا ایک مملکت میں دو بادشاہ نہیں ہوسکتے۔ یہ سن کر ہارون نے حکم دیا کہ انہیں دو لاکھ درہم دیئے جائیں۔ حکم کی تعمیل مگر ایک درد اٹھا اور علی بن اسماعیل وہی پر مرگیا۔ یعنی رقم دیکھ کر ہی مرگیا۔ ہارون نے حضرت موسی بن جعفر (ع) کو گرفتار کر کے زندان میں رکھا اور کچھ عرصے کے بعد شہید کیا۔ اور بہت ہی کم مدت میں برمکی خاندان بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ سورہ یونس میں ارشاد ہوا۔“ لوگو ! تمہارا ظلم تم پر ہی لوٹ کر آتا ہے اس کے بعد تمہاری بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو ہم اس کی خبر تمہیں دیں گے۔”
آپ کا نام نامی علی(ع) کنیت ابوالحسن ثانی اور مشہور لقب رضا(ع) ہے۔ آپ کی عمر مبارک ۵۵ سال تھی۔ ۱۱ ذی العقعدہ ۱۴۸ ہجری کو ولادت پائی اور ۲۰۳ ہجری میں صفر کی آخری تاریخ کو وفات پائی ۔ سبب شہادت مامون کا زہر دینا تھا۔
مدت امامت بیس سال ہے۔ سترہ سال مدینہ میں عوام کے پشت پناہ علماء کے استاد اور مروج دین رہے اور آخری تین سال آپ کو مجبورا طوس پہنچایا گیا اور یہاں بھی آپ نے جہاں تک ممکن تھا دین کی حفاظت فرمائی انجام کار کار مامون ہاتھوں شہید ہوئے۔
اسلامی کتب تاریخ کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آپ کلمات الہی کے معدن ، انوار الہی کے صندوق اور الہی علوم کے خزینہ دار تھے۔ مامون کے دربار میں دوسرے مذاہب والوں کے ساتھ آپ کے مباحث اور مناظرے آپ کی علمی شخصیت کو نمایاں کرتے ہیں جس کا اعتراف مامون اکثر یہ کہہ کر کرتا تھا ۔ “ میں نے روئے زمین پر اس شخص سے بڑھ کر کسی کو عالم نہیں دیکھا۔” فرید وجدی اپنے دائرة المعارف میں لفظ رضا کے ذیل میں لکھتا ہے “ مامون نے اپنے دربار میں ۳۳ ہزار لائق فاضل افراد کو جمع کیا ہوا تھا ۔ ایک دفعہ ان سے رائے لی اور پوچھا کہ میرے ولی عہد بننے کے لیےکون سب سے زیادہ اور مناسب ہے اور ان تمام
۳۳ ہزار علماء فضلا نے اتفاق سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا نام لیا۔”
آپ کی عبادت
آپ کی عبادت کو سمجھنے کے لیے امام کا یہ فرمان سننا ہی کافی ہے کہ جس وقت آپ نے مشہور شاعر دعبل خزاعی کو عبا مرحمت فرمایا تو کہا “ اے دعبل اس عبا اس کی قدر جانو کہ اس عبا میں ہزار راتیں اور ہر رات ہزارر رکعت نمازیں پڑھی جاچکی ہیں۔” وہ لوگ جو جو آپ کو مدینہ سے طوس تک لائے تھے، تمام نے متفقہ طور پر آپ کی شب بیداری ، دعا و ندبہ تہجد کی پابندی اور اپنے رب کے حضور گریہ و زاری کا ذکر کیا ہے۔
آپ کی انکساری
ابراہیم بن عباس جو مدینہ سے طوس تک آپ کے ہمرکاب تھا، کہتا ہے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی کسی پر ظلم کیا ہو، کسی کی بات کاٹ لی ہو، کسی کی حاجت پوری نہ کی ہو، پاؤں پھیلا کر بیٹھے ہوں، کسی کی موجود گی میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوں، آپ کسی کے ساتھ تندی کے ساتھ نہیں بولتے تھے۔”
آپ کی سخاوت
ایک واقعہ کا ذکر کلینی علیہ الرحمہ نے کیا ہے اس بارے میں ہم اسی واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔ راوی کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ لوگوں کا ایک بڑا گروہ آپ کی خدمت میں موجود تھا، کہ ایک مسافر آیا اور کہا، مولا! میں آپ (ع) اور کے آباء کرام کا دوستدار ہوں میں نے اپنے راستے کا خرچ حج کے دوران کھودیا ہے اس سفر میں بغیر زاد راہ کے رہ گیا ہوں مہربانی کر کے سفر کے آخراجات کے لیے کچھ عنایت
فرما دیجئے جسے میں خراسان پہنچ کر آپ کی طرف سے صدقہ کروں گا۔ کیونکہ وہاں میری رہایش ہے۔ آپ اپنے کمرے میں تشریف لے گئے اور دو سو دینار لاکر دروازے کے اوپر سے ہاتھ میں تھما دیئے اور فرمایا صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں اور اسے چلے جانے کو کہا وہ شخص چلا گیا۔ تو حاضرین نے پوچھا کہ رقم دروازے کے اوپر سے تھما دی اور اس کے چلے جانے کی خواہش کی اور اسے نہ دیکھنا چاہا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ فرمایا میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ اس کے چہرے پر سوال کی ذلت دیکھوں کیا تم نے نہیں سنا کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ہے کہ چھپا کر دیا ہوا صدقہ ستر حج کے برابر ہے۔ آشکار گناہ رسوائی کا باعث ہے اور پوشیدہ گناہ بخش دیا جائے گا۔
یہ آںحضرت (ع) کے فضائل کے ایک جھلک ہے جسے ذکر کیا گیا۔ آپ کے فضائل حمیدہ ہارون رشید کی موت کے بعد اسلامی ممالک میں شورش برپا تھی اور ایک بحران کی حالت تھی۔ جس وقت ہارون نے اپنے بھائی کو نیست و نابود کیا اور اسلامی سلطنت کی زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تو یہ مناسب جانا کہ مختلف اسلامی علاقوں کے معزز افراد کو جمع کر کے ان کے ذریعے ہی ان شورشوں کا قلع قع کرے۔ لہذا اس نے ۳۳ ہزار افراد کو مختلف ممالک سے بلاکر دار الخلافہ میں جمع کیا اور انہیں اپنا مشیر بنایا اسی دوران حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا اور اس طرح اسلامی ممالک میں شورشوں پر قابو پایا۔ لیکن جب ہنگامے ختم ہوگئے اور مملکت میں امن و سکون قائم ہوگیا تو ان مشیروں میں سے اکثر ہارون غیظ کا نشانہ بنے۔ کچھ تو زندان میں محبوس ہوئے اور باقی قابل اعتنا نہ رہے اور بعض قتل کردئے گئے۔ قتل کئے جانے والوں کی فہرست میں حضرات امام رضا علیہ السلام کا نام بھی ہے۔ اس کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے چند نکات بیان کرتے ہیں۔
۱ ـ خود حضرت امام رضا علیہ السلام نے متعدد مواقع پر یہ اظہار فرمایا ہے کہ آپ کا خراسان کا سفر اور ہارون کی حکومت میں موجود ہونا آپ پر ایک مسلط شدہ امر تھا مدینہ سے کوچھ کرتے وقت مجلس عزاء کا پربا کرنا، اپنے جد بزرگوار کی قبر سے رخصت ہوتے وقت گریہ و زاری کرنا، مامون کے آدمی پہنچنے سے قبل ہی بیت اﷲ سے رخصت ہونا اور بار بار ولی عہدی کو قبول نہ کرنا، مگر مجبور کرنے پر قبول کرنا لیکن اس میں بھی یہ شرائط رکھنا کہ امور مملکت میں دخل نہیں دیں گے۔ وغیرہ تمام اقدامات اس بات کے گواہ ہیں کہ ولی عہدی آپ پر مسلط کی گئی تھی۔ اور آپ(ع) نے خوشی سے اسے قبول نہیں کیا تھا۔
۲ ـ حضرت امام رضا علیہ السلام مامون سے ملاقات کے بعد ہر وقت غیر معمولی طور پر غمگین رہتے تھے۔ جب بھی آپ نماز جمعہ سے لوٹتے تو موت کی تمنا کرتے تھے۔
۳ ـ شاید اکیلے میں آپ کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہو، یا ان کے منافقانہ سلوک سے آپ دل برداشتہ ہوں؟ یا اور کوئی دوسری وجہ ہو۔ وجہ معلوم نہیں مگر یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچی ہوئی تھی کہ آپ غیر معمولی طور پر غمگین رہتے تھے۔
۴ ـ حضرت امام رضا علیہ السلام کا مرو میں آنا اسلام کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا چونکہ اس زمانے میں طوس دوسرے لوگوں کے لیے علم کا مرکز تھا اگر حضرت امام رضا علیہ السلام طوس میں نہ ہوتے تو ان کے اعتراضات کوئی بھی حل نہیں کرسکتا تھا اور اگر یہ اعتراضات اور شبہات حل نہ ہوتے تو اسلام کےلیے شدید خطرہ تھا۔
۵ـ حضرت امام رضا علیہ السلام راستے میں نیشاپور میں پہنچے اور نیشاپور میں
شیعوں کی تعداد غیر معمولی تھی۔ لوگوں کا ایک جم غفیر آپ کے استقبال کے لیے آیا اور اپنی عقیدت کی بناء پر امام علیہ السلام سے کوئی حدیث نہیں چاہی ۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ حجت خدا ان کے لیے اس حساس موقع پر ایک بہترین تحفہ دے دیں آپ چند لمحے خاموش رہے اور جب لوگوں کا اشتیاق بڑھا تو آپ نے فرمایا۔
“ حدّثني أبي موسى الكاظم، عن أبيه جعفر الصادق، عن أبيه محمّد الباقر، عن أبيه عليّ زين العابدين، عن أبيه الحسين الشّهيد بكربلا، عن أبيه عليّ بن أبي طالب كرّم اللّه وجهه و رضوان اللّه عليهم، أنّه قال: حدّثني حبيبي و قرّة عيني رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم قال: حدّثني جبرئيل عن ربّ العزّة سبحانه و تعالى يقول: كلمة لا إله إلّا اللّه حصني فمن قالها دخل حصني و من دخل حصني أمن من عذابي”
ترجمہ : “ میرے پدر بزرگوار حضرت امام موسی کاظم (ع) نے اپنے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق(ع) سے انہوں نے اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر(ع) سے ، انہوں نے اپنے پدر گرامی حضرت امام زین العابدین(ع) سے ، انہوں نے اپنے پدر گرامی حضرت امام حسین سید الشہدا سے ، انہوں نے اپنے پدر بزرگوار حضرت علی ابن ابی طالب(ع) سے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم (ص) نے مجھ سے فرمایا کہ جبرائیل (ع) نے مجھ سے کہا کہ میں نے خداوند عالم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کلمہ “لا إله إلّا اللّه” میرا قلعہ ہے جس کسی نے لا إله إلّا اللّه کہا وہ میرے قلعے میں داخل ہوا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہا۔”
اس کے بعد آپ کی سواری روانہ ہوئی پھر آپ نے ہودج سے سر مبارک باہر نکالا اور فرمایا بشرطها و شروطها و انا من شروطها۔ کلمہ لا الہ الا اﷲ کہنا سعادت کا موجب ہے مگر اس کے لیے کچھ بنیادی شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط میں ہوں ( یعنی اقرار ولایت)
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کےبارے میں چند کلمات لکھے جائیں کلمہ لا الہ الا اﷲ کا اقرار کرنا اور اس پر عمل کرنا موجب سعادت ہے۔ لا الہ الا اﷲ در حقیقت وہی قرآن ہے، وہی کتاب ہے، جو انسانی معاشرے کے لیے سعادت کا باعث ہے لیکن قرآن کے مطابق قرآن ولایت کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
خداوند عالم نے جس وقت حضرت علی (ع) کو ولایت کے عہدے پر منسوب فرمایا تو آیت اکمال کو نازل فرمایا۔
“الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً”
“ آج کے دن ہم نے تمہارے لیے دین کو مکمل کیا اور تم پر اپنی نعمتیں تمام کیں۔ اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسندیدہ قرار دیا۔”
اور آیت اکمال سے پہلے یعنی علی علیہ السلام کو منسوب بہ ولایت کرنے سے پہلے “ آیت بلغ” نازل فرمائی۔
“ يا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَهُ”
“ اے رسول(ص) جو کچھ تم پر نازل کیا ہے اسے تبلیغ کے ذریعے پہنچاؤ اگر تم نے اس کا پر چار نہیں کیا تو گویا رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔”
حضرت امام رضا علیہ السلام نے شرطہا و شروطہا کہہ کر انہی آیات ، یعنی آیت اکمال اور آیت بلغ کی یاد دہانی فرمائی ہے اور فرماتے ہیں کہ کلمہ لا الہ الا اﷲ کی بنیاد ولایت ہے۔
جس چیز کی طرف ہمیں زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا چاہیے وہ ولایت کی حقیقت اور معنی ہیں۔ لغت کے اعتبار سے ولایت کے متعدد معنی ہیں۔ منجملہ ان معنوں میں سے ایک معنی دوستی کے بھی ہیں۔ یعنی تمام لوگوں کو چاہئے کہ اہل بیت علیہم السلام کو دوست رکھیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی دوستی اور محبت ایک عظیم نعمت ہے اور ان کے ساتھ بغض و دشمنی رکھنا ایک عظیم نقصان اور رسوائی کا باعث ہے تمام شیعہ و سنی محدثین نے
روایت نقل کی ہے کہ حضور اکرم (ص) نے فرمایا ۔
“ أَلَا مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ شَهِيداً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مَغْفُوراً لَهُ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ تَائِباً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ مُؤْمِناً مُسْتَكْمِلَ الْإِيمَانِ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ كَافِراً أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ يَشَمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ”
“ ترجمہ : “ خبردار رہو جو محمد(ص) و آل(ع) محمد(ص) کی محبت کے ساتھ مرے گا، وہ شہید مرے گا خبردار رہو جو کوئی محمد (ص) و آل (ع) محمد(ص) کی محبت کی محبت مرے گا وہ بخشا جائے گا، جو محمد و آل محمد(ص) کی محبت میں مرے گا وہ تائب ہو کر مرے گا۔ جو محمد و آل محمد(ص) کی محبت کے ساتھ مرے مومن مرے گا اور ایمان کی تکمیل چاہنے کی راہ میں مرے گا۔ جو اہل بیت علیہم السلام کی دشمنی کے ساتھ مرے گا وہ کافر مرے گا۔ یاد رکھو! جو محمد و آل محمد (ص) کی دشمنی میں مرے گا اس کے دماغ تک بہشت کی خوشبو نہیں پہنچے گی۔”
ولایت کے ان معانوں میں سے ایک معنی سرپرستی کے بھی ہیں یعنی جس کسی دل میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سرپرستی ہو وہ ولایت رکھتا ہے جس نے اپنے نفس کو صفات زذیلہ سے پاک کیا وہ ولایت رکھتا ہے۔ جس کسی کے دل کا سر پرست اندرونی و بیرونی طاغوت، اندرونی اور بیرونی شیطان ، آرزوئیں ، خواہشات اور بیجا تمنائیں ہوں اور جسے کسی کی خواہشات، تمنائیں اور اس کا ذاتی نظریہ، اہل بیت علیہم السلام کے نظریے سے اولیت رکھتا ہے، اس کا دل بے ولایت ہے بلکہ اس کا دل اہل بیت علیہم السلام کی محبت سے خالی ہے اس لیے تو حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں۔ “ اتباع کے بغیر ولایت و محبت بے معنی ہے۔”
یعنی اگر ایک شخص خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے محبت و ولایت کا دعویدار رہے تو اس کا ایسا کرنا بیجا ہے اور ایسا شخص تو زمانے کا ایک نمونہ قرار پائے گا۔ ولایت
اہل بیت علیہم السلام یعنی ولایت الہی کو جاری و ساری دینے کا نام ہے۔
“اللَّهُ وَلِيُ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ وَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِياؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُماتِ أُولئِكَ أَصْحابُ النَّارِ هُمْ فِيها خالِدُونَ”
“ خدا مومنوں کا سرپرست ہے جو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔کفر و ضلالت کی گمراہی ، خواہشات نفسانی کی گمراہی ، شیطانوں کی گمراہی اور پست و رذیل صفات کی گمراہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اور کافروں کا سرپرست طاغوت ہے جو انہیں روشنی سے نکال کر تاریکی کی طرف لے جاتا ہے اندرونی اور بیرونی طاغوت پست صفات کا طاغوت اور ان کا انجام ہمیشہ کے لیے آگ ہے۔”
حضرت امام رضا علیہ السلام نے جس روایت کو بیان فرمایا ہے اس کا مطلب ہی یہی ہے کہ جس دل میں لا الہ الا اﷲ داخل ہوا اس دل کا سرپرست اﷲ ہے۔ اب اس کا عقیدہ ، اس کا نظریہ اور اس کا عمل ، اس کا اظہار کرتا ہے کہ دنیا میں سوائے اﷲ کے اور کوئی تاثیر نہیں اور اس کا دوام ولایت کی سرپرستی ہے جو اﷲ کا ایک مضبوط قلعہ ہے۔
اس لیے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس ایک جملے میں تمام ایمان ، تمام قرآن ، تمام سعادتوں اور تمام سنتوں کو بیان فرمایا ہے۔
اس روایت کا ایک ملتا جلتا بیان جو کہ رسول اکرم(ص) سے روایت کیا گیا ہے جس وقت حضور اکرم (ص) کا اعلانیہ تبلیغ کا حکم ملا “وَ أَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ” کا حکم ملا تو حضور اکرم(ص) نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا اور دعوت دی۔ ان کو جمع کر کے فرمایا۔
“قولوا لا إله الّا اللَّه تفلحوا”
اگر تم لوگ کلمہ لا الہ الا اﷲ کہو گے تو فلاح پاؤ گے۔ اور یاد رکھو تم میں سے سب سے پہلے جو کلمہ لا الہ الا اﷲ کہے گا وہی میرا وصی اور جانشین ہوگا۔”
اور تم سب سے پہلے جواب دینے والے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام تھے۔
حضور اکرم(ص) نے کئی مرتبہ بات کا تکرار کیا ۔ مگر سوائے حضرت علی علیہ السلام کے اور کسی نے جواب نہیں دیا تو حضور اکرم(ص) نے فرمایا میرے بعد علی (ع) میرا وصی اور میرا جانشین ہوگا۔ حضور اکرم (ص) کا یہ ارشاد امام رضا علیہ السلام کے ارشاد کی تائید کرتا ہے۔
مضمون کے آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے مرو آتے وقت دعبل خزاعی نے جو اشعار کہے تھے اسے لکھا جائے۔ قصیدہ تو بہت بڑا ہے اور اس قصیدے کوصاحب کشف الغمہ نے اپنی مذکورہ کتاب میں مکمل درج کیا ہے ۔ اس کے چند اشعار ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں دعبل آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے اشعار سناتے ہوئے یہاں تک پہنچا ۔
أفاطم لو خلت الحسين مجدّلا و قد مات عطشانا بشطّ فرات
“ اے کاش فاطمہ(س) تم کربلا میں ہوتیں تو دیکھتیں کہ حسین (ع) نے دریائے فرات کے کنارے کس طرح پیاس کی حالت میں شہادت پائی۔”
اس کے بعد بغداد میں حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کی قبر کے ذکر تک پہنچا تو کہا۔
و قبر ببغداد لنفس زكية تضمنها الرحمن في الغرفات
“ اے فاطمہ(س) قبر سے باہر اور اس قبر پر گریہ کر جو بغداد میں ہے جسے نورانی رحمت نے گھیر رکھا ہے۔” یہ سن کر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا۔ دعبل میں نے بھی ایک شعر کہا ہے اسے اس شعر کے بعد لکھ لینا اور وہ شعر یہ ہے۔
و قبر بطوس يا لها من مصيبة ألحت على الأحشاء بالزفرات
إلى الحشر حتّى يبعث اللّه قائما يفرّج عنّا الهمّ و الكربات
“ گریہ کرو اس قبر جو طوس میں ہے اس کے دل کو غموں نے چور چور کیا ہوا ہے اس کا یہ غم والم قیامت تک باقی رہنا ہے بلکہ قیام آل محمد(ص) تک باقی رہنا ہے جنہوں نے آکر اہل بیت (ع) کے تمام غموں کو دور کرنا ہے۔ دعبل کہنے لگا یا بن رسول اﷲ میں تو طوس میں آپ اہل بیت (ع) میں سے کسی کی قبر نہیں دیکھی ہے۔ حضرت نے فرمایا وہ قبر میری ہے کچھ مدت کے بعد میں طوس میں دفن کیا جاؤں گا جو کوئی بھی میری زیارت کرے گا وہ بہشت میں میرے ساتھ ہوگا اور وہ بخشا جا چکا ہوگا۔ دعبل نے آگے کلام جاری رکھا اور کہا۔
خروج امام لا محالة خارج يقوم على اسم اللّه و البركات
يميز فينا كل حقّ و باطل و يجزي على النعماء و النقمات
“ امام(ع) کا خروج یقینا واقع ہونے والا ہے جو اﷲ کا نام کے کر اس کی برکتوں کے ساتھ قیام کرے گا ہمارے بارے میں حق و باطل کا فرق معلوم ہوجائے گا نیکوں کو جزاء اور بروں کو سزا ملے گی۔” جب دعبل یہاں تک پہنچا تو امام کھڑے ہوئے اور سرجھکا کر احتراما ہاتھ سر پر رکھا اور فرمایا دعبل اس امام کو جانتے ہو دعبل نے کہا کہ ہاں یہ امام(ع) اہل بیت (ع) میں سے ہوگا۔ اس کے ہاتھوں ہی اسلام کا پرچم روئے زمین پر گاڑھ دیا جائے گا اور سارے عالم میں اسلامی عدالت کا دور دورہ ہوگا نیز فرمایا دعبل میرے بعد میرا بیٹا محمد(ع) اس کے بعد اس کا فرزند علی(ع) ان کے بعد ان کا فرزند حسن(ع) اور حسن(ع) کے بعد اس کا بیٹا حجت خدا ہوگا۔ جو غیبت میں چلا جائے گا
اور اس کا ظہور کا انتظار کیا جائے گا۔ جس کے ظہور کا وقت کسی کو معلوم نہیں۔ اس کے بعد آپ نے دعبل کو اپنی عبا اور سو دینار عطا فرمائے۔ جب دعبل قم میں آئے تو اس کا ہر دینار سو دینار میں خریدا گیا اور یہ پیش کش کی گئی کہ اس عبا کو ہزار دینار میں خریدیں۔ مگر اس نے نہیں دیا۔ لیکن جب وہ قم سے باہر نکلے تو قم کے بعض لوگوں نے وہ عبا ان سے چھین لی۔
ختتام پر حضرت معصومہ قم علیہا السلام کا مختصر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ خداوند عالم کے ہاں جن کا بہت بلند مقام ہے۔ آپ ایک ایسی خاتون ہیں جو امام (ع) کی بیٹی ہیں، امام(ع) کی بہن ہیں اور امام(ع) کی پھوپھی ہیں۔ وہی خاتون جس کے فیض قدم سے ہر زمانے میں حوزہ علمیہ کی برکتیں جاری ہیں آپ وہی خاتون ہیں جن کے بارے میں حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا “ جو کوئی حضرت معصومہ(ع) کی زیارت کرے گا اس پر بہشت واجب ہوجاتی ہے۔”آپ کی ولادت ۱۸۳ہجری میں ہوئی چونکہ آپ کے برادر بزرگوار ( حضرت امام رضا علیہ السلام) مرو لے جائے گئے تو آپ نے اپنے بھائی سے ملاقات کی خاطر مدینہ سے مرو کی طرف سفر کیا۔ قم پہنچ کر آپ بیمار ہوگئیں اور ۲۰۱ ہجری میں وفات پاگئیں۔ اس طرح اس معظمہ کی عمر مبارک اٹھارہ سال ہوتی ہے۔ آپ کے روضے میں حضرت جواد علیہ السلام کے پوتے اور چند بیٹیاں بھی مدفون ہیں اس طرح ائمہ طاہرین علیہم السلام کے اصحاب اور عرفا کی ایک بہت بڑی تعداد مدفون ہیں۔
آپ کا نام نامی محمد(ع) ہے۔ مشہور کنیت ابو جعفر ثانی اور ابن الرضا (ع) ہے آپ کے مشہور القاب جواد اور تقی ہیں۔
آپ کی عمر مبارک پچیس سال ہے اور حضرت زہرا سلام اﷲعلیہا کے بعد اہل بیت علیہم السلام میں اس قدر کم عمرکسی اور معصوم کی نہیں۔ آپ کی ولادت ۱۰ رجب ۱۹۵ ہجری کو جمعہ کی رات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ اور آپ کی شہادت مامون الرشید کے بھائی معتصم عباسی کے حکم سے مامون کی بیٹی ام الفضل کے ذریعہ جو آپ کی بیوی تھیں۔ ۳۰ ذی القعدہ کو واقع ہوئی۔ آپ کی امامت کی مدت ۱۷ سال ہے جس وقت آپ کی عمر آٹھ سال کی تھی کہ آپ کے پدر بزرگوار کی شہادت واقع ہوئی اور آپ نےمنصب امامت سنبھالا۔
مامون حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد بغداد آیا اور وہی اپنی حکومت کا دار الخلافہ بنایا جب اس نے سنا کہ اسلامی ملکوں کے علماء نے مدینہ جاکر آپ کی امامت کو قبول کیا ہے تو اسے خوف لاحق ہوا اور حضرت جواد علیہ السلام کو بغداد بلا کر بڑی تعظیم و تکریم کی اور اپنی بیٹی ام الفضل کا نکاح آپ سے کر دیا۔
ایک مدت کے بعد ام الفضل کےساتھ آپ زیارت بیت اﷲ کی غرض سے حجاز چلے گئے۔ اعمال حج کی بجا آوری کے بعد مدینہ لوٹ آئے اور جب تک مامون زندہ تھے ۔
مدینے میں رہے۔ مامون کے مرنے کے بعد ان کے بھائی معتصم نے منصب خلافت سنبھالا چونکہ لوگ والہانہ طور پر حضرت جواد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور دن بدن آپ کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا جس سے معتصم گھبرانے لگا اور آپ کو بغداد بلا بھیجا اور تھوڑی مدت کے اندر آپ کو شہید کردیا گیا۔
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمر مبارک اگرچہ بہت ہی مختصر تھی، اور اکثر عمر جلا وطنی میں گزر گئی لیکن اس کے باوجود آپ کی عمر مبارک ایک با برکت عمر تھی۔ یعقوب کلینی نے کافی میں حضرت امام رضا علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ۔
“ هَذَا الْمَوْلُودُ الَّذِي لَمْ يُولَدْ مَوْلُودٌ أَعْظَمُ بَرَكَته مِنْهُ”
“ اس بچے سے بڑھ کر اور کوئی با برکت بچہ پیدا نہیں ہوا ہے۔”
تمام اہل بیت عظام علیہم السلام کی طرح بھی نمایاں امتیازات کے حامل ہیں۔ آپ میدان علم کے ایک ایسے شہسوار تھے جن کا ثانی کوئی نہیں تھا۔ تاریخ میں مرقوم ہے کہ جیسے ہی حضرت امام رضا علیہ السلام نے شہادت پائی علماء و فضلاء کا ایک گروہ مدینہ منورہ میں آپ کی خدمت میں پہنچا اور چند ہی دنوں میں تیس ہزار مسئلے پوچھے آپ (ع) نے بلا تامل ان کا جواب دیا۔
جب آپ (ع) کو مامون عباسی نے بغداد بلا بھیجا اور اپنی بیٹی ام الفضل کا نکاح آپ سے کرنا چاہا تو اس کے خاندان میں ہلچل مچی اور بڑے اعتراضات ہونے لگے۔ مامون نے ان اعتراضات کو خاموش کرنے کے لیے ایک پر شکوہ مجلس ترتیب دی اور اس جلسے میں بڑے بڑے علماء اور فضلاء کو دعوت دی۔ اس زمانے کے ایک بہت بڑے عالم اور قاضی یحی بن اکثم اس بھرے دربار میں آپ سے پوچھتا ہے اگر کوئی ایسا شکص جو احرام کی حالت میں ہے کسی شکار کو قتل کرے تو کیا حکم ہے؟ آپ نے فورا ہی اس مسئلے کی ایسی شقیں بیان فرمائیں کہ یحی بن اکثم کے ساتھ تمام حاضرین
مبہوت ہو کر رہ گئے آپ نے فرمایا ۔ “ وہ شکار اس نے حرم میں یا حرم کے باہر مارا؟ ۔ حکم کو جانتا تھا یا بے خبر تھا؟ غلطی سے مارا یا جان بوجھ کر مارا؟ وہ احرام والا آزاد تھا یا غلام ؟ بالغ تھا یانابالغ تھا؟ پہلی دفعہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کیا تھا؟ یہ شکار پرندوں میں سے تھا یا نہیں؟ چھوٹا تھا یا بڑا؟ رات کے وقت قتل کیا تھا یا دن کو؟ حج کے لیے احرام پہنا تھا یا عمرے کے لیے؟ مامون نے دیکھا کہ مجمع پر سکوت طاری ہوگیا ہے تمام حاضرین خصوصا یحی بن اکثم شرمندہ اور مبہوت ہوچکے ہیں تو حضرت جواد علیہ السلام سے کہا نکاح پڑھیں آپ نے خطبہ نکاح پڑھا نکاح کے بعد مامون نے آپ سے یحی بن اکثم کے پوچھے ہوئے سوال کے تمام شقوں کے بارے میں پوچھا تو آپ نے تمام شقون کے تفصیلی جوابات دیے اور آخر میں یحی بن اکثم کوفی سے آپ نے ایک سوال پوچھا ہوسکتا ہے کہ مجلس عقد عروسی تھی شاید تفریح طبع کے لیے پوچھا ہو آپ نے اس سے پوچھا۔
“ وہ کون سی عورت ہے جو صبح کے وقت ایک مرد پر حرام تھی۔ دن چڑھا تو اس پر حلال ہوئی، ظہر کے وقت حرام ہوئی اور عصر کے وقت حلال ہوئی، مغرب کے وقت حرام ہوئی اور رات کے آخری حصے میں حلال ہوئی اور طلوع فجر سے پہلے حرام ہوئی۔ اور طلوع فجر کے بعد حلال ہوئی ہے۔ یحی بن اکثم نے کہا مجھے معلوم نہیں آپ ہی بتادیں تاکہ لوگوں کو بھی معلوم ہوجائے۔ آپ نے فرمایا ۔
وہ ایک کنیز ہے جو اول صبح میں نامحرم تھی جب دن چڑھا تو اس شخص نے خرید لیا اس پر حلال ہوئی۔ ظہر کے وقت اسے آزاد کیا اس پر حرام ہوئی عصر کے وقت نکاح کر لیا حلال ہوئی۔ مغرب کے وقت ظہار کیا اس پر حرام ہوئی اور نصف رات میں ظہار کا کفارہ دیا حلال ہوئی، رات کے آخر میں اسے طلاق دیا حرام ہوئی اور
طلوع فجر کے بعد رجوع کیا حلال ہوئی اگرچہ ایسے سوالات اور ان کے جوابات حضرت جواد علیہ السلام کے شایان شان نہیں معلوم ہوتے لیکن جب آپ کے لڑکپن پر اعتراض کیا تو جواب دیا اور شادی کے موقع کی مناسبت سے ایسا ہی سوال کر کے لا جواب ہونے پر مجبور کیا اور بھری محفل میں احسنت احسنت کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ مامون کہنے لگا حضرت جواد علیہ السلام اگر چہ کم سن ہیں لیکن آل محمد(ص) کے چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں ہے اپنی بات خود منوا سکتے ہیں ۔ تیسرا مسئلہ چور کا تھا جو معتصم کے زمانے میں پیش آیا۔
جس وقت حضرت جواد علیہ السلام کو دوسری بار بغداد لایا گیا یا یوں کہا جائے کہ جب آپ کو شہید کرنے کے لیے بغداد لایا گیا اور وقت کے انتظار میں تھے مگر معتصم آپ کا احترام بجالایا تھا۔ ایک دن بڑے لوگوں کی محفل تھی امراء وزاراء اور علماء کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ایک چور لایا گیا جس نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ابن ابی داؤد جو اس زمانے کے عظیم علماء میں سے تھا اور قاضی وقت تھا انہوں نے آیت تیمم پر تکیہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ کلائی سے اس چور کا ہاتھ کاٹا جائے جب کہ دوسرے علماء نے آیت وضو پر تکیہ کرتے ہوئے کہنی سے کاٹنے کا حکم دیا۔ یہ سن کر معتصم نے حضرت جواد علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے انگلیوں کی جڑوں سے کاٹنے کا حکم دیا اور دلیل کے طور پر آیت “ المساجد للہ” پیش کی یعنی “ سجدہ کی جگہیں اﷲ کے لیے ہیں” اور جو جگہیں اﷲ کے لیے ہیں انہیں نہیں کاٹا جاسکتا ۔ تمام مجلس سے صدائے تحسین بلند ہوئی اور آپ(ع) کےفتوی پر عمل ہوا۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حضرت جواد علیہ السلام نے حکم خدا کو بیان فرمایا ہے اور مجلس کے عمومی اذہان میں بات بٹھانے کے لیے آیت شریفہ سے استدلال کیا ہے وگرنہ فقہی اعتبار سے آیت شریفہ کو دلیل میں لانا نامکمل ہے اور
ائمہ علیہم السلام کی فقہ میں متعدد مواقع میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ سجدوں کے جگہوں کو بھی قطع کیا جائے جیسے محارب کہ قرآن کی رو سے جس کے ایک ہاتھ اور پاؤں کو کاٹا جائے گا یا قتل کیا جائے گا یا جلا وطن ہوگا۔
خلاصہ یہ کہ حضرت جواد علیہ السلام نے خدا کا حکم بیان فرمایا ہے چونکہ یہ لوگ دلیل طلب کردیتے ہیں تو آپ (ع) ان کے درمیان یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ میں قرآن کا بیان کرنے والا ہوں اور اﷲ کی ذات کے علاوہ ہر چیز کا علم رکھتا ہوں ۔ اور احکام الہی کو جانتا ہوں ۔ لہذا ان کو یقین دلانے کےلیے امام علیہ السلام نے آیت کریمہ کو دلیل کےطور پر پیش کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ جو حکم آپ نے اس مجلس میں بیان فرمایا ہے۔ تقیہ سے خالی نہیں تھا۔
ابن ابی داؤد کہتا ہے یہ جلسہ مجھ پر اس قدر گراں گزرا کہ میں نے خداوند عالم سے موت کی تمنا کی۔ پھر بھی مجھ سے صبر نہیں ہوسکا کہ اپنے حسد کو ظاہر نہ کروں چند دنوں کے بعد میں معتصم کے پاس گیا اور کہا مجھے معلوم ہے کہ میں جہنمی تو ہو رہا ہوں مگر سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ خلیفہ کو نصیحت کروں۔ یہ شخص جس کے فتوی پر آپ نے حکم جاری کیا اور ہمارے فتوے کو پائمال کیا ہے لوگ اس کو خلیفہ سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت کرنا خلافت کو ان کے حوالہ کرنا ہے ۔ ابن ابی داؤد کہتا ہے کہ یہ سن کر خلیفہ متبنہ ہوا اور اس کی حالت متغیر ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ امام جواد علیہ السلام کے قتل کئے جانے کی ایک وجہ یہی چغلی تھی۔
اگر حسد ایک انسان میں داخل ہو اور ایک عالم اپنی نفس کی صلاح نہ کرسکے اور اگر ایک پست خصلت کسی انسان کو قابو کر لے اور اسے اپنے دام میں لائے تو جانتے ہوئے جہنم میں جا رہا ہے جسے کہ قرآن کریم کا فرمان ہے۔ “ کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا خدا بنایا ہوا ہے۔”
انسان اگر تہذیب نفس حاصل نہ کرے تو ابن ابی داؤد بنتا ہے جس کی مثالیں تاریخ میں بے شمار ہیں۔ مختصر یہ کہ یہ علمی شجاعت امام جواد علیہ السلام کا خاصہ ہے۔ اس کی مثال تمام ائمہ (ع) میں نہیں ملتی لیکن جیسا کہ گزر چکے بعض مسائل حضرت امام جواد علیہ السلام کی شان کے لائق نہیں۔ آپ(ع) کے مقام علمی کو خود آپ (ع) سے سنتے ہیں۔
مشارق الانوار میں مذکور ہے جس وقت حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے شہادت پائی تو حضرت جواد علیہ السلام نے مسجد نبوی میں آکر یوں خطبہ دیا۔
“أنا محمد بن علي الرضا أنا الجواد، أنا العالم بأنساب الناس في الأصلاب، أنا أعلم بسرائركم و ظواهركم، و ما أنتم صائرون إليه، علم منحنا به من قبل خلق الخلق أجمعين، و بعد فناء السّماوات و الأرضين، و لو لا تظاهر أهل الباطل و دولة أهل الضلال، و وثوب أهل الشك، لقلت قولا يعجب منه الأوّلون و الآخرون، ثم وضع يده الشريفة على فيه و قال: يا محمد اصمت كما صمت آباؤك من قبل”
“ میں محمد بن علی الجواد(ع) ہوں میں لوگوں کے انساب کا جاننے والا ہوں جو دنیا میں آئے ہوں یا نہ آئے ہوں۔ میں تم سے زیادہ تمہارے ظاہر اور باطن کو بہتر جاننے والا ہوں۔ ہم یہ علم خلقت عالم سے بہت پہلے سے رکھتے ہیں اور عالم ہستی کے فنا ہونے کے بعد بھی اس کے حامل رہیں گے۔ اگر اہل باطل کی حکومت اور گمراہوں کی ان کے ساتھ ہمنوائی اور جاہل عوام کے شکوک کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ایسی چیزیں بیان کرتا کہ لوگ تعجب کرتے۔ اس کے بعد امام جواد علیہ السلام نے اپنا پاتھ زبان پر رکھ کر فرمایا خاموش ہوجاؤ جیسے کہ تیرے آباء نے خاموشی اختیار کی ہے۔”
آخر میں ہم حضرت جواد علیہ السلام کی روایات میں سے چند روایات بیان کرتے ہیں جو ہمارے لیے نصیحت کا باعث ہیں۔
“و قال جواد الائمه عليه السلام: الثقة باللّه ثمن لكلّ غال، و سلّم إلى كلّ عال”
“ حضرت جواد علیہ السلام نے فرمایا اﷲ پر اعتماد ہر قیمتی چیز کی قیمت اور ہر بلندی کے لیے سیڑھی ہے۔”
“قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: كَيْفَ يَضِيعُ مَنِ اللَّهُ كَافِلُهُ؟ وَ كَيْفَ يَنْجُو مَنِ اللَّهُ طَالِبُهُ؟ وَ مَنِ انْقَطَعَ إِلَى [غَيْرِ] اللَّهِ وَكَلَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ، وَ مَنْ عَمِلَ عَلَى غَيْرِ عِلْمٍ [مَا] أَفْسَدَ أَكْثَرُ مِمَّا يُصْلِحُ.”
“ وہ شخص کیسے ضائع ہوگا جس کی کفالت خدا کر رہا ہو۔ وہ شخص کیسے بچ سکتا ہے جسے خدا ڈھونڈ رہا ہو اور جو خدا کے غیر پر اعتماد کرے گا خدا اسے اسی کے حوالے کرے گا۔ جو شخص جانے بغیر کسی کام میں ہاتھ ڈالے گا وہ درست کرنے سے زیادہ تباہ کرے گا۔ یہ روایات جن کی مثال اہل بیت علیہم السلام کی روایات میں زیادہ ملتی ہیں۔ ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ہر حالت میں ہم پر اعتماد رکھیں سب سے کٹ کر خدا سے تعلق جوڑیں یہی دونوں جہانوں کی سعادت کا باعث ہے خدا سے کٹ کر دوسروں کی طرف نظریں جمانے سے حیرانی پریشانی اور پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
جو چیز ایک انسان کو خوف پریشانی اور اضطراب سے نجات دلاسکتی ہے صرف اور صرف خدا کی ذات پر اعتماد کرنا ہے اور جو چیز دکھ اور پریشانی کا سبب بنتی ہے خوف و اضطراب کو بڑھاتی ہے وہ دوسروں سے امید رکھتا ہے خداوند عالم نے قرآن کریم میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
“وَ مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً وَ يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً”
ترجمہ :۔ “ جو شخص تقوی کو پیشہ بنائے گا اﷲ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی
راستہ پیدا کرے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ جو اﷲ پر توکل کرےگا پس وہ اس کے لیے کافی ہے اﷲ اپنا کام پورا کرکے رہتا ہے ہر چیز کےلیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔( سورہ طلاق آیت ۲، ۳)
یہ آیت کریمہ ہمیں بتاتی ہے کہ جو شخص خدا پر توکل کرے، خدا پر اعتماد کرے تو یہ اس کے لیے سعادت کا باعث ہوا ور خداوند عالم اس کا حامی و ناصر ہوگا۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ فقط خدا پر اعتماد ہی ہمارا چارہ ساز ہے، ہر قیمتی چیز کی قیمت ہے اور ہر بلندی کے لیے سیڑھی ہے۔ “ الثقة باللّه ثمن لكلّ غال، و سلّم إلى كلّ عال” خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
“مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِياءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتاً وَ إِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ.”
“ جو لوگ غیر خدا پر بھروسہ کرتے ہیں ان کی مثال اس مکڑی جیسی ہے جو اپنے لیے جالان بن کر گھر بناتی ہے۔ تم جان لو تمام گھروں میں سے مکڑی کا گھر کمزور اور بے بنیاد ہے۔” ( عنکبوت آیت ۴۱)
انسان اسی وقت عزت کا مالک ہے، قائم ہے اور خدا کی عنایتوں کا مستحق ہے جب وہ غیر خدا سے کوئی امید نہ رکھے صرف اسی پر بھروسہ کرے و گرنہ زمانے کے حادثات اس کے مقاصد اور امیدوں تک کو نابود کردیں گے۔ اسی لیے تو امام (ع) نے فرمایا ۔
“ عزّ المؤمن غناه عن الناس من انقطع غير الله وکله الله اليه ”
اباصلت ہروی کا کہنا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد میں مامون عباسی کے غضب کا نشانہ بن گیا اور قید میں ڈال دیا گیا۔ کیونکہ میں نے مامون ، اس کے گورنروں اور حکومت کے سرکردہ لوگوں پر امید لگائی تھی۔ لہذا ایک سال
تک زنجیروں میں جکڑا رہا ایک رات تمام سے اپنی امیدیں قطع کر کے خداوند عالم کے حضور اہل بیت علیہم السلام کا واسطہ دیتے ہوئے دعا کی اور خلوص دل سے اس کے ساتھ پیوستہ ہوگیا۔ اچانک میں نے قید خانے میں جواد الائمہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو دیکھا۔ جب آپ پر نظر پڑی تو میں رویا اور شکوہ کرنے لگا کہ میری فریاد کو کیوں نہیں پہنچے فرمایا اباصلت تم نے ہمیں کب بلایا جو نہیں آئے؟
اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ کر نگہبانوں کے درمیان سے لے کر باہر نکالا اور فرمایا “ جاؤ اﷲ کا نام لے کر آئندہ تم کسی کے ہاتھ نہیں لگو گے۔”
یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ دنیاوی امور میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا توسل بیمایوں ، مشکلات ، تنگیوں ، وغیرہ میں بہت زیادہ موثر ہے یہاں تک کہ اہل سنت بھی آپ کے روضہ مطہرہ میں آکر آپ کے وسیلے سے دعائیں مانگتے ہیں۔
آپ کا نام نامی علی (ع) مشہور کنیت ابو الحسن ثالث اور ابن لرضا(ع) ہے اور آپ کے مشہور القاب نقی(ع) اور ہادی ہیں۔ آپ کی عمر مبارک چالیس سال تھی ۔ آپ نے دو رجب ۲۱۴ ہجری میں ولادت پائی اور ۳ رجب المرجب ۲۵۴ ہجری کو معتز عباسی کے ہاتھوں زہر سے شہید ہوئے۔ آپ کی مدت امامت ۳۳ سال ہے ۔ جب آپ سات سال کے تھے حضرت جواد علیہ السلام نے شہادت پائی اور آپ نے منصب امامت سنبھالا۔
۱۳ سال تک مدینے میں رہے اس کے بعد متوکل عباسی کے حکم سے مجبورا آپ کو بغداد لے جایا گیا جہاں ۲۰ برس تک رہے اور یہاں ہی آپ کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔
یہ مدت آپ نے قید خانے میں بیڑیوں کے ساتھ عام قید خانے اور بعض دفعہ آزاد رہ کر گزارے۔ اس وقت بھی آپ کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ اس طرح آپ نے میں بیس سال کا عرصہ بنی عباس کے ظلم و ستم کےتحت گزارا ۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جس حاکم کے زمانے میں زندگی گزاری اے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں بنی عباس کا ظالم ترین خلیفہ کہا ہے۔ متوکل صرف یہ نہیں کہ آپ کو قید میں رکھتا ہے بلکہ زندان کے ساتھ ہی قبر بھی تیار رکھتا ہے اور تاریک زندان
میں آپ کو رکھتا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے حضرت ابا عبداﷲ کی قبر مطہرہ پر پانی بہایا اور ہل چلایا تاکہ نشان قبر مٹادے اور جو کوئی آپ کے قبر کی زیارت کے لیے جاتا تھا۔ تو اس کےساتھ ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالتا تھا۔ واقعا متوکل عباسی ، بنی امیہ کے خلفاء میں سے شقی ترین خلیفہ تھا۔ حضرت ہادی علیہ السلام دیکھتے تھے اور سوائے صبر کے اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔
کئی مرتبہ متوکل نے حکم دیا کہ رات کے وقت آپ کے دولت خانہ پر چھاپہ مارا جائے حکم کی تعمیل ہوئی اور کئی دفعہ گھر کا سارا لوٹ کر لے گئے۔ ایک عجیب واقعہ اسی سے مربوط یہ ہے کہ جب ایک دفعہ متوکل کے آدمیوں نے گھر پر چھاپہ مارا تو رقم کی ایک تھیلی برآمد ہوئی جس پر متوکل کی ماں کے نام کی مہر لگی ہوئی تھی۔ بعد میں جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ ایک دفعہ متوکل بیمار ہوا تھا تو اس کی ماں نے نذر مانی تھی جسے حضرت ہادی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا دیا گیا تھا۔
متوکل آپ کی کرامات اور معجزات کو دیکھتا تھا۔ لیکن متنبہ نہ ہوسکا۔ یہاں تک کہ آپ کی توہین کا مرتکب ہو کر اسی کے سبب مرگیا۔
جس وقت متوکل نے فتح بن خاتون کو اپنی وزارت پر مقرر کیا تو حکم دیا کہ تمام امراء و شرفا اس کے اور فتح بن خاتون کے ہمرکاب ہو کر پیادہ چلیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ہادی علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ اس گرم ہوا میں میں پیادہ چل رہے ہیں۔ میں نے آپ سے عرض کیا ان لوگوں کو چاہئے تھا کہ آپ کو ایسا حکم نہیں دیتے؟ آپ نے فرمایا ۔ “ انہوں نے یہ حکم صرف میری توہین کی خاطر دیا ہے لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ کہ میں بھی ناقہ صالح (ع) سے کمتر نہیں ہوں۔ ” راوی کہتا ہے کہ جب میں نے اس کا ذکر کسی بزرگ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ متوکل تین دن سے زیادہ نہیں رہے گا۔ کیونکہ خداوند عالم نے صالح (ع) کو قوم کے بارے میں فرمایا
ہے جب انہوں نے ناقہ کے پاؤں کاٹ ڈالے تو تین دن سے زیادہ نہ رہ سکے۔
تین دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ متوکل بیٹا چند غلاموں کے ساتھ متوکل کے پاس داخل ہوا فتح بن خاتون کے ساتھ ہی اسے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
آپ کے فضائل
نسب کے اعتبار سے حضرت جواد علیہ السلام جیسا باپ اہل بیت علیہم السلام جیسا خاندان اور والدہ گرامی ایسی کہ جن کے بارے میں حضرت (ع) خودیوں فرماتے ہیں۔
“ میری والدہ گرامی میرے حقوق کی عارف ہیں اہل بہشت میں سے ہیں کیونکہ جو کوئی امام(ع) کے حقوق کی معرفت رکھے اور اسے پہچان لے تو شیطان اس میں نفوذ نہیں کرسکتا بلکہ ایسا شخص اﷲ کی حفاظت میں ہے صدیقین کی مائیں صدیقہ ہی ہوتی ہیں۔”
فضائل و حسب کے اعتبار سے آپ کی حیثیت جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ ایک دفعہ یحی بن اکثم نے حضرت ہادی علیہ السلام سے آیت “وَ لَوْ أَنَّ ما فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلامٌ- وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ- ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ” کی تفسیر پوچھی اور کہا اس آیت میں کلمات اﷲ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا “وَ نَحْنُ كَلِمَاتُ اللَّهِ الَّتِي لَا تُدْرَكُ فَضَائِلُنَا وَ تسقصی” “ ہم ہی وہ کلمات ہیں جس کے فضائل نہ شمار کئے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ختم ہونے والے ہیں۔”
کتاب فضل را آب بحر کافی نیست کہ ترکنی سرانگشت و صفحہ شماری
نوفلی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام ہادی علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خداوند عالم کا اسم اعظم ۷۳ حروف پر مشتمل ہے اور ان ۷۳ حروف میں سے ایک حرف کا
علم آصف بن برخیا کو تھا جو پلک جھپکنے میں یمن سے بلقیس کا تخت شام لے آیا۔ ہم ان ۷۳ حروف میں سے ۷۲ کا علم رکھتے ہیں اور ایک حرف کا علم ذخیرہ خداوندی میں ہم سے پوشیدہ ہے۔”
حضرت امام ہادی علیہ السلام کے معجزات اور کرامات بے حد ہیں جنہیں مورخین نے تحریر کیا ہے۔ ہم یہاں ان میں سے صرف ایک معجزے کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک عورت جس کا نام زینب کبری تھا، نے دعوی کیا کہ میں ہی زینب بنت علی (ع) ہوں۔ اسے متوکل کے سامنے لایا گیا۔ متوکل نے حضرت ہادی علیہ السلام کو بلایا کہ اس عورت کو جواب دیں۔ حضرت ہادی علیہ السلام نے اس عورت سے فرمایا جھوٹ کہتی ہے اگر یہ سچ کہتی ہے تو چاہئے کہ درندے اس کا گوشت نہیں کھائیں گے۔ کیونکہ فاطمہ سلام اﷲ علیہا کا گوشت درندوں پر حرام ہے۔ متوکل تو بہانے کی تلاش میں تھا کہ کس طرح آپ(ع) کو راستے سے ہٹائے لہذا فورا حکم دیا اگر ایسا ہے تو آپ خود درندوں کے درمیان چلے جائیں ۔ جب آپ ان درندوں کے درمیان گئے تو سب نے آپ کا طواف کرنا شروع کیا او آپ کے سامنے عاجزی کرنے لگے ۔ جب آپ شیروں کے درمیان سے صحیح و سلامت نکلے تو اس عورت نے اپنے جھوٹ کا اقرار کیا۔ مگر متوکل نے اسے شیروں کے درمیان پھینکنے کا حکم دیا لیکن متوکل کی ماں کی مداخلت پر اسے معافی ملی۔
حضرت ہادی علیہ السلام سے مروی روایات
آپ (ع) سے مروی احادیث و روایات کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کے ذریعے آپ نے تہذیب نفس اور تعمیر ذات کا درس دیا ہے۔ آپ سے مروی ایک روایت، آپ نے فرمایا۔
“ من يتقی اﷲ يتقی و من يطع اﷲ يطاع”
“ جو تقوی اختیار کرتا ہے اس سے لوگ ڈرتے ہیں اور جو اﷲ کی اطاعت کرتے ہیں ان کی اطاعت کی جاتی ہے۔”
یہ ایک جملہ ہے جو تجربات سے ثابت ہے اس کے علاوہ قرآن و احادیث بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ خداوند عالم کا ارشاد ہے۔
“ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُدًّا”
“ بے شک جو لوگ ایمان لاتے اور عمل صالح بجا لاتے ہیں عنقریب خداوند عالم لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دے گا۔ لوگوں کے دلوں پر حکومت کریں گے سب ان کے اطاعت گزار بنیں گے۔”
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔“ جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان امور کی اصلاح کرے گا خداوند عالم اس کی دنیا اور آخرت کی اصلاح کرے گا۔” اس طرح حضرت امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ “ جو شخص یہ چاہے کہ قبیلے کے بغیر عزت ملے اور بغیر اقتدار کے ہیبت ملے تو اسے چاہئے کہ نافرمانی کی ذلت سے نکل کر اﷲ کی اطاعت کی عزت میں داخل ہو جائے۔”
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے ۔ “ جو کوئی خدا سے ڈرے ہر چیز اس سے ڈرے گی اور جو کوئی خدا سے نہیں ڈرے گا وہ ہر چیز سے ڈرے گا۔”
مورخین نے خود حضرت ہادی علیہ السلام سے چند مطالب نقل کیے ہیں جو آپ(ع) کے ارشاد کی تائید کرتے ہیں ان میں سے چند ایک ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں۔
۱ ـ ایک دفعہ ایک مومن آپ کی خدمت میں گھبرایا ہوا حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ متوکل کے سرکردہ آدمیوں میں سے کسی ایک نے ایک نگینہ دیا تھا کہ اس کی انگوٹھی تیار کروں مگر یہ نگینہ میرے ہاتھوں سے ٹوٹ گیا ہے اب مجھے اپنی زندگی کی خیر معلوم نہیں ہوتی آپ نے فرمایا خدا کوئی راہ پیدا کرے گا۔
دوسرے دن اس شخص نے دیکھا کہ اس آدمی کی طرف سے اسے پیغام ملا کہ بیویوں میں جھگڑا ہوا ہے اگر ہوسکے تو اس نگینے کو کاٹ کر دو انگوٹھیاں بنائیں اس مومن نے ایک بھاری معاوضہ وصول کر کے ٹوٹے ہوئے نگینوں سے دو انگوٹھیاں بنائیں۔ حضرت ہادی علیہ السلام کا فرمان ہے “ و من یطع اﷲ یطاع ” یعنی خدا، رسول(ص) اور امام (ع)سے رابطہ اور اہل بیت (ع) کو وسیلہ قرار دینے سے تمام مشکل امور حل ہوجاتے ہیں۔
منصوری شیعہ تھا اور متوکل عباسی کے دور میں ایک خاص اعزاز کا حامل تھا مگر اپنے تشیع کی وجہ سے متوکل نے انہیں دھتکار دیا۔ منصوری کہتا ہے کہ فقر و ہلاکت مجھ پر چھا گئی تو میں نے حضرت امام ہادی علیہ السلام کے پاس شکایت کی اور کہا کہ میں اپنے شیعہ کی وجہ سے اس حال تک پہنچا ہوں۔ حضرت امام ہادی علیہ السلام نے فرمایا انشاء اﷲ خدا اصلاح کرے گا۔
میں واپس گھر آیا رات چھا گئی تو متوکل نے چند افراد میرے پیچھے بھیجے میں چلا گیا دیکھا کہ فتح بن خاقان راستے میں میرا انتظار کر رہا ہے اس نے کہا کہ متوکل نے میرے بارےمیں تاکیدی طور پر حکم جاری کیا ہے۔ ہم متوکل کے پاس پہنچے تو وہ میرے انتظار میں تھا۔ مجھے دیکھا تو معذرت کی میرا اعزاز مجھے واپس دیا اور کافی کچھ مال و متاع سے نوازا ۔ اس کے بعد میں حضرت ہادی علیہ السلام کے خدمت میں پہنچا اورکہا کیا آپ نے متوکل کے پاس میری سفارش کی تھی؟ فرمایا خدا جانتا ہے کہ سوائے اس کے میرا کوئی ملجا نہیں۔ اپنی مصیبتوں اور ضرورتوں کے وقت اس کے علاوہ کسی کے پاس نہیں جاتا۔ اس لیے اس رب العزت نے بھی ہمیں یہ اعزاز دیا ہے کہ جب مانگتے ہیں، دیتا ہے اگر کوئی شخص اس کی اطاعت کرے اور نافرمانی سے بچا رہے اور اہل بیت علیہم السلام کو اپنا شفیع قرار دے تو خداوند عالم سختیوں اور مصیبتوں میں اس کی فریاد کو
پہنچتا ہے اور اسے محروم نہیں کرتاہے۔
۳ ـ متوکل کا یہ دستور تھا کہ جب بھی حضرت امام علی نقی علیہ السلام تشریف لاتے تو غیر معمولی طور پر آپ کا احترام کرتا تھا ۔ بلکہ اپنے تمام درباریوں کو حکم دیا ہوا تھا کہ آپ کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں۔ یہاں تک کہ چغلخوروں اور حاسدوں نے متوکل سے کہا اس طرح آپ اپنی خلافت ان کے حوالے کررہے ہیں۔ لہذا متوکل نے اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ کوئی بھی آپ کا احترام نہ کرے۔ اتنے میں حضرت ہادی علیہ السلام داخل ہوئے سب نے اٹھ کر تعظیم بجالاتے ہوئے آپ کا استقبال کیا۔ جب حضرت (ع) چلے گئے تو سب ایک دوسرے سے پوچھنے لگے یہ کیا ہوا؟ تم نے اٹھ کر اس کا استقبال کیوں کیا؟
۴ ـ معتز کا کاتب کہتا ہے میں ایک دفعہ متوکل کے ہاں گیا تو وہ غصے میں بھرا ہوا تھا اس نے اپنے چند ترک غلاموں کو حکم دیا کہ حضرت امام ہادی علیہ السلام کو حاضر کریں۔ اور وہ مسلسل بڑ بڑا رہا تھا کہ آج اسے قتل کروں گا۔ اسے جلا ڈالوں گا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ حضرت امام ہادی علیہ السلام کمال و وقار اور بزرگی کے ساتھ تشریف لائے۔ جو نہی متوکل کی نظریں آپ کے چہرے پر پڑیں۔ کھڑا ہوا اور عاجزی کےساتھ آگے بڑھ کر استقبال کیا اور یا ابن رسول اﷲ ، یا بن عم، یا ابو الحسن(ع) کہتے ہوئے آپ کے چہرے کے بوسے لینے لگا اپنے برابر بٹھا کر پوچھنے لگا کہ رات کے وقت کہاں سے تشریف لا رہے ہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا تم ہی نے تومجھے بلایا ہے۔ متوکل نے کہا جھوٹ کہا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے حکم کیا کہ آپ (ع) کو احترام کے ساتھ آپ کے گھر پہنچا دوں میں نے ایسا ہی کیا۔
۵ـ امام ہادی علیہ السلام کے وکلا میں سے ایک علی بن جحفہ کہتا ہے کہ متوکل نے مجھے قید کر دیا مجھے کہا گیا کہ تمہیں موت کی سزا ملنے والی ہے ۔ یہ سن کر میں نے
حضرت امام ہادی علیہ السلام کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میں صرف اس جرم میں کہ آپ (ع) کا دوست ہوں اور وکیل ہوں موت کا سامنا کر رہا ہوں۔ مجھ پر لطف و مہربانی کریں۔ امام (ع) نے فرمایا میں شب جمعہ تمہارے حق میں دعا کروں گا۔ خدا کا کرنا جمعہ کی صبح متوکل کو تپ نے آلیا اس قدر سخت تھا کہ اپنے آپ سے مایوس ہوا اور حکم دیا علی بن جحفہ کے ساتھ تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ حضرت امام ہادی علیہ السلام کے بہت زیادہ صحابہ تھے۔ جن میں سے بعض تو فخر شیعہ تھے انہی میں سے ایک حضرت عبدالعظیم تھے جو “ رے” میں مدفون ہیں۔ آپ عظیم راویوں میں سے ایک ہیں اور حضرت امام ہادی علیہ السلام آپ کی بڑی عزت کرتے تھے۔ یہ وہی شخص ہے کہ جس نے اپنے اعتقاد کو مندرجہ ذیل صورت میں حضرت امام ہادی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ “ خدا ایک ہے اس کے لیے کوئی شباہت قرار نہیں دی جاسکتی ۔ وہ جسم نہیں بلکہ جسم کا خالق ہے۔ تمام چیزوں کو اس نے خلق کیا ہے۔ وہ ہی ان کا مالک ہے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اﷲ کے آخری رسول (ص) ہیں ان کے بعد کسی نبی نے آنا نہٰیں ہے۔ ان کا لایا ہوا دین آخری دین ہے۔ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وصی ہیں اور امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد “ حسن(ع)، حسین(ع)، علی بن حسین(ع)، جعفر بن محمد(ع)، موسی بن جعفر(ع)، علی بن موسی(ع)، محمد بن علی (ع)، علی بن محمد(ع)، حسن بن علی(ع)، اور حجتہ ابن الحسن(ع) جو کافی عرصہ غیبت اختیار کرنے کے بعد ظاہر ہوکر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ” عبدالعظیم نےکہا میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ کا دوست خدا کا دوست اور آپ کا دشمن خدا کا دشمن ہے۔ آپ کی اطاعت، خدا کی اطاعت اور آپ کی مخالفت ، خدا کی مخالفت ہے۔ معراج ، قبر، سوال و جواب، جنت ، جہنم ، صراط اور میزان پر اعتقاد رکھتا ہوں یہ تمام برحق ہیں اور مجھے یقین ہے کہ قیامت آنے والی ہے۔ اس طرح واجبات الہی نماز، روزہ ، زکوة،
حج ، جہاد، امربالمعروف نہی عن المنکر وغیرہ کا اقرار کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت ہادی علیہ السلام نے فرمایا “ اے ابو القاسم یہی خدا کا پسندیدہ دین ہے خدا تمہیں اس پر ثابت قدم رکھے۔”
جس چیز کا اقرار حضرت عبدالعظیم نے کیا ہے اس پر اس کے اصول اور فروع پر ہمیں اعتقاد رکھنا چاہئے۔ لیکن صرف اعتقاد رکھنا ہی نجات کے لیے کافی نہیں بلکہ وہی عقیدہ نجات کا باعث ہے جو عمل کے ساتھ ملا ہوا ہو۔ اس لیے حضرت ہادی علیہ السلام نے یوں فرمایا ہے۔ “ چونکہ تم میری عیادت کےلیے آئے ہو اس لیے تمہارا حق مجھ پر ہوا۔ لہذا اس حق کو ادا کرنے کے لیے ایک روایت بیان کرتا ہوں جیسے میرے پدر بزرگوار سے میں نے سنا ہے انہوں نے اپنے آبائے طاہرین (ع) سے انہوں نے امیرالمومنین علیہ السلام سے سنا انہوں نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم(ص) نےفرمایا۔
“الْإِيمَانَ مَا وقدته فِي الْقلوبِ وَ صَدَّقَتهُ الْأَعْمَالُ”
“ ایمان وہ ہے جو دل میں قائم ہو جائے اور اعمال و گفتار اور کردار اس کی تصدیق کریں۔”
لہذا قرآن کریم اور اہل بیت علیہم السلام سے مروی روایات میں مذکور ہے کہ ایسے افراد جو احکام اسلامی پر عمل نہٰیں کرتے ہیں ان سے ایمان سلب ہوجاتا ہے۔ ارشاد ہوا ہے۔
"أَ رَأَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّين فَذلِكَ الَّذِي يَدُعُّ الْيَتِيمَ وَ لا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُونَ الَّذِينَ هُمْ يُراؤُنَ وَ يَمْنَعُونَ الْماعُونَ.”
“ کیا تم نے اس شخص کو دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے یہ وہی شخص ہے جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے خرابی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں میں سہل انگاری برتتے ہیں اور ریا کاری کرتے ہیں
اور دوسروں کی ضروریات پوری نہیں کرتے ہیں۔”
ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ایسے چار گروہوں کا ذکر ہے جس سے ایمان سلب ہوچکا ہے کیونکہ عمل کے بغیر صرف اعتقاد کی کوئی قیمت نہیں۔ اس طرح عمل اعتقاد کے بغیر بھی ایک مشقت کے علاوہ کچھ نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ حضرت ہادی علیہ السلام کے متوجہ کئے ہوئے اس نکتے پر غور و فکر کریں۔
“ اعتقاد کبھی تو علم و دلیل کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جیسے کہ علماء اور لکھنے پرھنے والے لوگ جن کا اعتقاد دلایل و برہان کے تحت ہوتا ہے ۔ یا اکثر عوام کا عقیدہ جو تقلید کے تحت ہوتا ہے ۔ اگر چہ اس قسم کے اعتقادات بھی اچھے ہوتے ہیں لیکن صرف اس معنی میں وہ مسلمانوں کے زمرہ میں شامل ہونے کا فائدہ دیتے ہیں لیکن عام طور پر قابو کرنے کی قوت کے حامل نہیں ہوتے۔ وہ ایمان جو انسان کو نجات دے سکتا ہے اور اسے ہلاکتوں سے نجات دے سکتا ہے جو اس کے دل میں رچ بس جائے۔ حضرت امام ہادی علیہ السلام کے مطابق ۔ “الْإِيمَانَ مَا وقدته فِي الْقلوبِ وَ صَدَّقَتهُ الْأَعْمَالُ” “ یہ ایمان دلیل و برہان سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ خاص الہی عنایت ہے۔ ” خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہمیں اس قسم کے ایمان کی طرف ہدایت کرے اور خداوند عالم کی ہدایت ہماری صلاحیت سے مشروط ہے۔ ایمان قلبی عمل کے ذریعے دلوں میں پیدا ہوتا ہے واجبات کے ادا کرنے اور محرمات کے ترک کرنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ قرآن کریم نے متعدد آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔
“قَدْ جاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَ كِتابٌ مُبِينٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَ يَهْدِيهِمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ”
“ بے شک خداوند عالم کی طرف سے نور اور آشکارا کتاب بھیجی جو اس کی پیروی کرے اسے اﷲ کی طرف ، اس کی سلامتی راہ کی طرف اور اس کی جنت کی طرف ہدایت کرتی ہے۔ اور نور اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے اور سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے۔”
ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ ارشاد ہوا ہے کہ خدا کی یہ خاص عنایت متقین سے مخصوص ہے۔ اس خاص عنایت کو ایصال الی المطلوب ” کہتے ہیں جو بشر کو سعادت سے ہمکنار کرتی ہے۔ وگرنہ صرف راستے کا پتہ بنانا کفایت نہیں کرتا جو نفس پر کنڑول کرنے کی توانائی نہیں رکھتا ۔ ہم خداوند عالم سے ایسے ہی ایمان کی دعا کرتے ہیں اور حضرت ہادی علیہ السلام کا واسطہ دیتے ہیں کہ ہمیں ایسی ہدایت سے نوازے جو ایصال الی المطلوب کا درجہ رکھتی ہو۔
( آمین )
آپ کا اسم گرامی حسن(ع)، مشہور کنیت ابا محمد(ع) ، ابن الرضا(ع) اور آپ کا مشہور ترین لقب عسکری(ع) ہے۔ آپ کی ولادت باسعادت ۸ ربیع الثانی ۲۳۲ ہجری میں ہوئی آپ کی شہادت ۸ربیع الاول ۲۶۰ ہجری میں معتمد عباسی کے زہر دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔ آپ کی عمر مبارک ۲۸ سال ہے اور مدت امامت چھ سال ہے۔
یہ بات بڑے افسوس کی ہے کہ آپ نے اپنی ساری عمر یا تو زندان میں گزاری یا جلاوطنی میں۔ دو سال کی عمر تھی کہ حضرت امام ہادی علی نقی علیہ السلام کے ساتھ جلا وطن ہوئے۔ اور آپ کے ساتھ ۲۰ سال تک زندان میں رہے یا جلا وطن رہے۔ والد گرامی کی شہادت کے بعد چھ سال تک یا تو زندان میں رہے یا جلا وطنی کے عالم میں یا نظر بندی میں ہوتے تھے۔ لہذا آپ کے پیرو کار آپ (ع) تک رسائی نہیں پاتے تھے۔ اور مجبور تھے کہ آپ سے راستے میں ہی سوالات پوچھیں۔
راوی کہتا ہے ایک دفعہ میں چاہتا تھا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے یہ مسئلہ پوچھوں کہ حرام سے آئے ہوئے پسینے میں نماز ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ چونکہ آپ نظر بند تھے لہذا آپ تک پہنچنا ممکن نہیں تھا ایک دن کسی نے مجھے بتایا کہ آپ(ع) کو خلیفہ نے آج طلب کیا ہے لہذا تم راستے میں انتظار کرو جب امام (ع) وہاں سے گزریں تو مسئلہ پوچھیں۔ راوی کہتا ہے کہ میں راستے میں بیٹھا۔ چونکہ آپ کو لانے
میں دیر کی گئی تو راستے میں ہی گلی کی کنارے میں بیٹھ گیا۔ چونکہ تھکا ہوا تھا آنکھ لگ گئی دیکھ ایک شخص مجھے شانے سے پکڑ کر ہلا رہا تھا۔ آنکھ کھول کر دیکھا تو امام (ع) ایک خچر پر سوار تھے مجھے سے فرمایا لا تصل فیہ “ اس میں تم نماز مت پڑھو” چونکہ آپ زیر حراست تھے اس سے زیادہ میں بات نہیں کرسکا۔
آپ کے معجزات کی کوئی کمی نہیں مورخین نے آپ کے بہت سارے معجزات نقل کئے ہیں۔ ان میں سے ایک معجزہ ابی الادیان کا ہے جسے صدوق علیہ الرحمتہ نے نقل فرمایا ہے۔ ابی الادیان کہتا ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے بلایا اور چند خطوط کے جوابات دیئے کہ مدائین لے جاؤں ساتھ ہی فرمایا جب پندرہ روز کے بعد واپس آؤ گے تو میں شہید ہو چکا ہوں گا۔ میں نے پوچھا یا بن رسول اﷲ (ص) آپ کا وصی کون ہوگا؟ فرمایا جو میرے جنازے پر نماز پڑھائے۔ میں عرض کیا اور کوئی نشانی بھی بتا دیں فرمایا جو تم سے خطوط کے جوابات لےلے اور تھیلیوں میں رقم کی تعداد بتائے؟ آپ کی ہیبت مانع ہوئی کہ اس سے زیادہ سوالات کروں۔ میں مدائن روانہ ہوا اور پندرہ دنوں کے بعد پہنچا تو آپ نے شہادت پائی تھی۔ ایک قبر کے کنارے آپ کو غسل دیا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد آپ کے بھائی جعفر سے کہا گیا کہ جنازہ تیار ہے آکر نماز پڑھائیں۔ “ ابوالادیان ” کہتا ہے کہ مجھے معلوم تھا کہ جعفر فاسق جاہل ہے اور امامت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا اور اس وجہ سے میں مبہوت ہوگیا کہ امام(ع) کا جنازہ جعفر پڑھائیں گے۔ لیکن اسی دوران میں نے ایک نوجوان کو دیکھا جس کا چہرہ چاند کی طرح دمکتا تھا پہنچ کر اس نے اپنے چچا کو ہٹایا اور جنازے پر نماز پڑھی یہ دیکھ کر سب لوگ حیران ہوگئے اور جعفر تو مبہوت ہو کر رہ گئے۔ اس نوجوان نے نماز کے بعد میری طرف رخ کر کے کہا خطوط کے جواب دے دو۔ اتنے میں قم سے چند لوگ آئے اورکہا حضرت امام حسن عسکری(ع) کا وصی کون ہے؟
جعفر نے اپنے آپ کو پیش کیا انہوں نے کہا ہمارے پاس کچھ رقم ہے اور خطوط ہیں تمہیں یہ بتانا ہوگا کہ تھیلوں میں کتنی رقم ہے اور خطوط کن کن لوگوں کی طرف سے ہیں۔ کیونکہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا طریقہ بھی یہی تھا۔ جعفر حیران ہو کر کہنے لگا تعجب ہے لوگوں پر کہ مجھ سے غیب کی خبریں چاہتے ہیں ۔ اسی دوران گھر کے اندر سے ایک خاتون نکلیں اور خطوط لکھنے والوں کے نام تھیلیوں میں رقم کی موجود مقدار و غیرہ حضرت بقیہ اﷲ کی طرف سے بتا کر رقم لے کر گھر کے اندر چلی گئیں۔ اسی واقعہ کی بناء پر خلیفہ اور اس کے کارندوں کو حساس ہونا پڑا۔
انہوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو ساری زندگی اپنے کنٹرول میں رکھا کر وہ ہستی دنیا میں ہی نہ آسکے جس کا وعدہ خدا نے کیا تھا مگر وہ اس بات کو بھلا بیٹھے تھے کہ فرعون کی ہر ممکن رکاوٹوں کے باوجود خداوند عالم نے موسی علیہ السلام کو فرعون کے ہی گھر میں بھیجا تاکہ اسی کے ہاتھوں میں پلے بڑھے۔ سب سے بڑی افسوسناک بات یہ ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے چند ایک خلفاء کا زمانہ دیکھا۔ مگر ان تمام کی طرف سے مصائب ہی پہنچے۔ معتصم، واثق، متوکل، مستنصر، معتز، مھتدی اور معتمد تمام کا زمانہ پایا۔ آپ کی مدت امامت چھ سالوں میں تین خلفاء کا زمانہ تھا یعنی معتز، مہتدی اور معتمد کا زمانہ۔ ان تمام نے آپ کی کرامات دیکھا مگر نہ صرف یہ کہ آپ کی امامت کو نہیں مانا بلکہ آپ کو اذیت و آزار پہنچائی حضرت علیہ السلام ان چھ سالوں کے دوران یا تو زندان میں تھے یا نظر بند تھے اس وجہ سے مورخین لکھتے ہیں کہ حضرت ہادی نقی علیہ السلام اور خصوصا امام حسن عسکری علیہ السلام زیادہ سے زیادہ لوگوں سے مخفی رہنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ایسا نہیں ہے آپ(ع) مخفی نہیں رہتے بلکہ زندان بان کو اپنے قواعد پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ معتمد کا زندان بان کہتا ہے۔
“ چونکہ مجھے حکم ہوا تھا کہ آپ کے ساتھ سخت رویہ اختیار کروں اس لیے میں
نے دو ایسے افراد کی خدمات حاصل کیں جو اپنی قساوت قلبی اور پست فطرت ہونے میں مشہور تھے مگر بہت ہی تھوڑے دنوں میں وہ دونوں نمازی ، بلکہ اہل تہجد بن گئے اور بڑے سکون و وقار کے مالک بنے جب میں نے ان دونوں سے پوچھا کہ حسن بن علی علیہما السلام پر سختی کیوں نہیں کرتے؟ تو انہوں نے جواب دیا ان کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں جو شخص ہمیشہ خداوند عالم کی عبادت میں مشغول رہتا ہو۔ دنوں میں روزے رکھتا ہے اور راتوں کو جاگ کر عبادت کرتا ہے، باتیں بہت کم کرتا ہے اور بڑا با وقار ہے ان کی ہیبت ایسی ہے کہ جس وقت ان کی نگاہ ہم پر پڑتی ہے تو ہمارے بدن میں رعشہ طاری ہوتا ہے تو کیا اس سب کے باوجود معتمدوں۔ معتزوں اور متوکلوں نے نصیحت حاصل کی؟نہیں بلکہ انہوں نے اذیتیں پہنچا پہنچا کر آپ علیہ السلام کو شہید کیا۔
انسان اگر پست اخلاق کا حامل ہوجائے تو حیوانات سے بھی بدتر ہوتا ہے بلکہ درندوں میں سب سے بڑا درندہ بن جاتا ہے۔ خداوند عالم نے سورہ الشمس میں گیارہ قسمیں کھانے کے بعد فرمایا ہے
“قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها وَ قَدْ خابَ مَنْ دَسَّاها”
“ بے شک اس نے فلاح پائی جس نے تزکیہ نفس کیا اور بتحقیق اس نے نقصان اٹھایا جس نے اپنے آپ کو نفس کی خواہشات میں غرق کیا۔”
اس سورہ میں اس تاکید کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے حضرت صالح علیہ السلام پیغمبر کی قوم کی تاریخ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے آپ سے معجزہ طلب کیا تو ایک اونٹنی اپنے بچے کے ساتھ پہاڑی سے برآمد ہوئی آپ کی قوم والوں نے یہ صرف یہ کہ آپ پر ایمان نہ لائے بلکہ اس اونٹنی کو قتل کر کے اپنے آپ کو عذاب الہی کا مستحق ٹھہرایا۔ صالح علیہ السلام کو قوم، بنی امیہ اور بنی عباس جیسوں کی دنیا میں کمی نہیں ہمیں اس پر تعجب نہیں کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زیارت میں پڑھتے ہیں۔
“وَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ الَّذِي طُرِحَ لِلسِّبَاعِ فَخَلَّصْتَهُ مِنْ مَرَابِضِهَا وَ امْتُحِنَ بِالدَّوَابِّ الصِّعَابِ فَذَلَّلْتَ لَهُ مَرَاكِبَهَا”
“ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام وہی امام تو ہیں جنہیں درندوں کے سامنے ڈالا دیا گیا تو ، تو نے ہی انہیں ان کے پنجوں سےنجات دی اور تو نے ہی بپھری ہوئی سواریوں کو ان کے لیے رام کیا۔”
زیارت کے یہ دونوں جملے دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ جو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے لیے پیش آئے تھے۔
۱ـ جیل میں ایک دفعہ آپ کو درندہ شیر کے سامنے ڈال دیا گیا جیلر کو یقین تھا کہ درندے آپ کو کا بوٹی کریں گے مگر یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ آپ ایک طرف نماز پڑھ رہے تھے اور شیر سر جھکائے آپ کے گرد طواف کر رہے تھے۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ خلیفہ عباسی کے پاس ایک خچر تھا جو کسی بھی بڑے سے بڑے ماہر سوار کے لیے بھی رام نہ ہوتا تھا۔ ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام خلیفہ وقت کے پاس تھے کہ اس نے کہا میرے پاس ایک خچر ہے جسے نہیں سدھایا جاسکا ہے آپ سے التماس ہے کہ آپ اسے رام کریں۔ در اصل اس طرح خلیفہ آپ(ع) کو خود اپنے ہاتھوں ختم کرانا چاہتا تھا۔ جب خچر حاضر کیا گیا تو آپ(ع) نے اس پر دست ولایت پھیرا اور بے دریغ اس پر سوار ہو گئے اور اس وحشی خچر نے حضرت (ع) کی کمال اطمینان کے ساتھ اطاعت کی۔ یہ دیکھ کر خلیفہ نے وہ خچر آپ کو ہدیہ کیا۔ وحشی خچر، شیر درندہ، خونخوار بھیڑیا اور کتے تو “ ولایت” کے سامنے مطیع ہیں مگر یہ سرکش انسان متوکل ، مستعین، معتز، اور متعمد صرف یہ نہیں کہ مطیع نہیں بلکہ ولایت کو قتل کرنے والے ہیں۔ وہ تمام خلیفہ ، خلیفہ کا بیٹا وزیر، سپہ سالار، تمام حضرت عسکری علیہ السلام کی شخصیت اور ہیبت کا اقرار کرتے ہیں۔ مگر یہ تمام حضرت (ع) کو جلاوطن کرنے، قید کرنے، اذیت پہنچانے اور توہین کرنے میں متفق ہیں۔
احمد بن عبداﷲ خاقان جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ناصبی تھا وہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں کہتا ہے۔ حضرت عسکری علیہ السلام عالم و عابد اور پرہیزگار
شخص تھے۔ وقار و سکون کے حامل اور حیاء و شرافت کے حامل تھے۔ تمام خلفاء اور وزارء کے دلوں میں آپ کی ہیبت چھائی ہوئی تھی۔ لہذا ان کے ہاں آپ کی بڑی قدر ومنزلت تھی۔ ایک دفعہ میں اپنے والد کے پاس بیٹھا ہوا تھا جہاں خلیفہ کے وزیر اور دوسرے کارکن بھی موجود تھے کہ میرے والد کو خبر دی گئی کہ ابن الرضا علیہ السلام آگئے میرے والد نے ان کا استقبال کیا۔ اور بڑھ کر ان کے ہاتھ چوم لیے۔ انہیں اپنی جگہ پر بٹھایا اور ایک ادنی غلام کے طرح ان کے سامنے مودب ہو کر بیٹھ گئے۔ جب یہ بزرگوار چلے گئے تو میں نے اپنے پدر گرامی سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون تھے؟ میرے والد نے کہا اس دنیا میں خلافت کا حقدار ان کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔ یہ ایک عالم، زاہد اور انسانی کمال کی صفات سے متصف ایک شخص ہے اور ایک کامل انسان کہا جاسکتا ہے اور ان کے پدر گرامی بھی ان ہی صفات کے حامل تھے۔ دشمنوں سے اس قسم کی اعتراضات کی مثالیں عام ہیں۔ لیکن صرف الفاظ کی حد تک ،جس کا کوئی قائد نہیں۔
آپ(ع) کے فضائل جن کے دشمن بھی معترف ہیں۔ اپنے اور بیگانے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں اور آپ کا جلال و ہیبت ہے ۔ اگرچہ تاریخ مذکور ہے کہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام ایک خاص جلال کے مالک تھے جیسا کہ فرذق نے حضرت امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ “ کثرت حیا سے آپ سرجھکائے رہتے ہیں مگر لوگ آپ (ع) کی ہیبت کی وجہ سے آپ کی طرف نظر نہٰیں اٹھاسکتے اور لوگ اسی وقت آپ(ع) کے ساتھ کلام کرنے کی جرات کرتے ہیں جب آپ(ع) مسکرا رہے ہوں۔”
اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے بارے میں اسی سے ملتا جلتا واقعہ گزرا۔ لیکن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ایک خاص غیر معمولی ہبیت اور
جلال کے مالک تھے۔ اور تمام خلفاء ان کے وزراء اور تمام کارکنوں کے دل پر آپ کی ہیبت چھائی ہوئی تھی۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام الہی ہیبت وجلال کے مظہر تھے۔ اہل بیت علیہم السلام کی بیبت و جلال کا نمونہ تھے۔ اسلام کے جلال کے مصداق تھے اور ایک انسان کامل کی ہیبت کا نمونہ تھے۔ آپ (ع) تمام لوگوں کے لیے نمونہ عمل تھے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ہم اپنا رابطہ خداوند عالم کے ساتھ قائم رکھیں گے تو خدائی جلال و ہیبت کے مالک ہوسکتے ہیں۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بارے میں کہا گیا ہے جس وقت آپ کے پدر گرامی نے وفات پائی تو اس وقت خلیفہ کے تمام درباری خلیفہ زادے ، ولی عہد اور بڑے سرکردہ لوگ بنی ہاشم کے بزرگ اور شیعہ زعماء اور بنی عباس کے چیدہ چیدہ لوگ موجود تھے کہ آسمان ولایت کے ماہتاب حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام پریشان حال آگئے آپ کو آتا دیکھ کر سب لوگ بے اختیار اٹھ کھڑے ہوئے جب آپ (ع) بیٹھ گئے تو سب آپ (ع) کے سامنے مودب بیٹھ گئے۔ اور بالکل سناٹا چھا گیا۔ جبکہ آپ(ع) کے آنے سے پہلے شور وغل برپا تھا۔ محض آپ(ع) کے آنے سے خاموشی چھا گئی یہاں تک کہ جنازہ تیار ہوا اور جنازے کے ساتھ سب چلے گئے۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت
مورخین نے لکھا ہے کہ معتمد عباسی نے آپ کو زہر دیا اور اپنے چند قریبی افراد خواص کو آپ(ع) کے دولت خانے میں مقرر کیا تاکہ راز افشا نہ ہونے پائے ان کے اس خوف سے ہی اندازہ ہوتا ہے ک عوام کے اندر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی کیا حیثیت تھی۔
جب آپ(ع) کی شہادت ہوئی تو سامرہ میں ایک قیامت برپا ہوئی۔ خلیفہ وقت سے
لے کر ایک عام آدمی تک سب جنازے میں شریک ہوئے۔ نماز کے وقت ابو عیسی جو دربار کا قاضی تھا آگے بڑھا اور بنی ہاشم کے تمام بزرگوں، امیروں ، وزیروں ، ججوں اور اشراف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام قضائے الہی سے فوت ہوئے ہیں۔ گویا اس طرح وہ آپ کے قتل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے تھے۔ اسی طرح کا سلوک خلافت کے ساتھ کرچکے تھے۔ ایک جملہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے اس کا مصداق ہے۔ امام(ع) نے فرمایا۔ “ اگر ان کے گرد لوگوں کا ہجوم جمع نہ ہوتا تو بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم اور استحصال حکمرانی نہ تو کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرسکتے۔ اور نہ تو اہل بیت علیہم السلام کے حقوق کو غصب کرسکتے۔”
آپ کا غلام کہتا ہے ۲۶۰ ہجری ۸ ربیع الثانی جمعہ کے دن صبح اذان کے وقت آپ نے شہادت پائی اس میں میرے اور حضرت بقیة اﷲ کی والدہ محترمہ کےسوا اور کوئی موجود نہیں تھا آپ نے اپنے صاحبزادے کو بلایا اور حکم فرمایا کہ وضو کراؤ انہوں نے ایک تولیہ ان کے دامن پر پھیلا دیا اور آپ کو وضو کرایا تب آپ(ع) نےصبح کی نماز ادا کی اور اس دنیا سے عالم قدس کی طرف کوچ فرما گئے۔
“و سلام عليه يوم ولد ويوم التشهد و يوم يبعث حيّا” حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام ے بعض خاص صحابہ بھی تھے جو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بالکل قریب تھے اور حضرت بقیة اﷲ ارواحنا لہ الفدء کے وکلا بھی آپ (ع) کے خاص صحابہ میں سے تھے۔ آپ کے صحابہ میں سے اسحاق اشعری قمی ہے۔ جو آپ (ع) کے وکلا میں سے ایک تھا۔ قم میں مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام انہی کے ہاتھوں امام (ع) کے حکم سے تعمیر ہوئی ہے۔ یہ ہستی اس قدر مرتبہ کی حامل ہے کہ سعد بن عبداﷲ جو بزرگان شیعہ میں سے ہیں کہتے ہیں۔ “ احمد بن اسحاق نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک کفن مانگا
آپ(ع) نے فرمایا تمہیں ملے گا۔ جب ہم امام (ع) سے رخصت ہوئے تو کرمانشاہ کے قریب پہنچ کر انہیں تب لاحق ہوا۔ رات کے آخری پہر انہوں نے کہا کہ ہم انہیں تنہا چھوڑ دیں اور جب صبح کو ہم نے آپ کے غلام سے ملاقات کی تو انہوں نے تعزیت کی اور کہا کہ ہم احمد کے غسل و کفن سے فارغ ہوئے ہیں۔ آئیے اور آکر انہیں دفن کریں۔ چونکہ یہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے نزدیک بڑا تقرب رکھتے تھے اور خدا کے ہاں بھی انکا بڑا مرتبہ تھا۔ ہمارے درمیان سے غائب ہوئے۔
آپ (ع) کے ارشادات
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کےبہت سے ارشادات ہیں جن میں سے صرف چند ایک کے ذکر پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔ امید ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے باعث سعادت ہوں گے۔
“اتَّقُوا اللَّهَ وَ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا لَنَا شَيْناً اجلبُولنَا کل الموده وَ ادْفَعُوا عَنَّا كُلَّ قَبِيحٍ”
“ اﷲ سے تقوی اختیار کرو اور ہم اہل بیت علیہم السلام کے لیے زینت کا باعث بنو اور ہمارے لیے ننگ و عار کا باعث مت بنو۔ لوگوں کی محبت و مودت کو ہماری طرف متوجہ کرو اور ہر برائی اور قباحت کو ہم سے دور کرو۔”
ان جیسے کلمات دوسرے ائمہ کرام علیہم السلام سے بھی مروی ہیں جیسے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا۔
“و كونوا دعاة إلى الاسلام بغير ألسنتكم”
“ لوگوں کو اﷲ کی طرف اپنے اعمال کے ذریعے دعوت دو۔”
“خَصْلَتَانِ لَيْسَ فَوْقَهُمَا شَيْءٌ الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَ نَفْعُ الْإِخْوَانِ.”
“ دو صفتین ایسی ہیں کہ جس سے اوپر اور کوئی خوبی نہیں خداوند عالم پر ایمان
رکھنا اور دوسرے مومن بھائیوں کو فائدہ پہنچانا۔”
واقعا اگر ایک انسان ان دو صفات کا حامل ہو تو گویا اس کے پاس تمام خوبیاں ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے خدا سے محکم رابطہ پیدا کرے اور ایمان کا حامل ہو یعنی اس کا ایمان اسے معاصی سے دور رکھے اور اچھائیوں کی طرف رغبت دلا دے اور اﷲ کے بندوں کے ساتھ بھی رابطہ محکم ہو اور اس کی زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت کرنا ہو، دوسروں کی خدمت کر کے لذت ملتی ہو۔ تو ایسے شخص نے دونوں جہاںوں کی سعادت اپنے لیے حاصل کی ہے۔
“مَا أَقْبَحَ بِالْمُؤْمِنِ أَنْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ.”
“ ایک مومن کے لیے کتنا ہی باعث ننگ ہے کہ ایسی خواہشات کے پیچھے پڑے جو اسے ذلیل کریں۔”
“مَنْ كَانَ الْوَرَعُ سَجِيَّتَهُ، وَ الْإِفْضَالُ جَنِيَّتَهُ، انْتَصَرَ مِنْ أَعْدَائِهِ بِحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ، وَ تَحَصَّنَ بِالذِّكْرِ الْجَمِيلِ مِنْ وُصُولِ نَقْصٍ إِلَيْهِ.”
“ جو شخص پر ہیز گاری کو پیشہ بنائے کرم و سخاوت جس کا زیور ہو دشمن بھی اس کی مدد کرتا ہے اس کی تعریف کرتا ہے اور برائی کے ساتھ اسے یاد نہیں کرتا ۔ گویا آپ فرماتے ہیں کہ تقوی اور سخاوت ایک بنیادی اثر کے حامل ہیں یعنی کہ دشمن نہ جانتے ہوئے بھی اس کی تعریف کرتا ہے اور اس کی برائی بیان کرنے سے پر ہیز کرتا ہے۔”
“مَنْ رَكِبَ ظَهْرَ الْبَاطِلِ نَزَلَ بِهِ دَارَ النَّدَامَةِ. ”
“ جو کوئی باطل کی سواری اختیار کرے گا اس کی سواری اسے پشیمانی کے گھر میں اتارے گی۔”
حضرت امام مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف
حضرت صاحب العصر والزمان(عج) کے بارے میں یہ بحث ایک مقدمہ اور چھ فصول پر مشتمل ہے مقدمہ تین مطالب پر مبنی ہے۔ آپ(عج) کے فضائل ، امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کا واقعہ خرق عادت ہے، آپ کے وجود مقدس کا ثبوت اور فصول میں سے پہلی فصل ولادت سے غیبت کبری تک، ۲۔ غیبت کے فوائد۔ ۳۔ طول عمر ظہور کیفیت۔ ۴۔ آپ کی حکومت کا طریق کار۔ ۵۔ ظہور کا انتظار اور انتظار کے معنی۔
مقدمہ
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ
“ وَ الْعَصْرِ إِنَ الْإِنْسانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ وَ تَواصَوْا بِالْحَقِ وَ تَواصَوْا بِالصَّبْرِ”
اس مسئلے پر اختلاف ہے کہ پروردگار عالم نے “ والعصر” کے جملے سے کیا مراد لیا ہے۔ اور یہ عصر ( زمانہ) جس کی رب العالمین نے قسم کھائی ہے کون سا ہے؟ اور کیا ہے؟ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد نماز عصر ہے۔ کیونکہ نماز کو اسلام میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور خاص طور سے نماز عصر جو نماز وسطیٰ بھی کہلاتی ہے ۔ قرآن کریم میں اسے بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں اسی مطلب کی تائید میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔
بعض دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد رسول اﷲ(ص) کا زمانہ ہے۔
وہ اس طرح کہ ہر بڑی ہستی کے ساتھ ایک دن منسوب ہے تو رسول اکرم(ص) کا بھی ایک زمانہ اور اس کا بھی ایک دن تھا۔ وہی دن حضور اکرم (ص) کا دن ہے جس دن دختر کشی کی رسم حجاز کی سرزمین سے ختم کی وہی دن پیغمبر اکرم(ص) کا دن ہے ۔ ایک ایسا دن جو رحمت و مہربانی کا دن ہے وہی دن جس میں لطف و کرم اور مہربانی نے ظلم شقاوت اور قساوت قلبی کی جگہ لے لی۔ اسی دن بتوں کی جگہ اﷲ اکبر کی تسبیح بلند ہونے لگیں اور شرک کی جگہ توحید نے لے لی۔ اور جس دن خانہ خدا میں بت توڑے جارہے تھے تو وہ رسول اﷲ (ص) کا دن تھا۔
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ عصر سے مراد حضرت بقیة اﷲ مراد ہیں کیونکہ آپ بھی رسول اکرم(ص) کی مانند دنوں کے مالک ہیں۔ عدالت کے پر چار کا دن، دنیا سے ظلم کو دور کرنے کا دن ، روئے زمین پر توحید کا پرچم بلند کرنے کا دن، کمزوروں کو طاقت دینے کا دن، استحصالی طاقتوں ، ملحدوں اور مشرکوں کی سرکوبی کرنے کا دن، اور دنیا میں قوانین اسلامی کے برپا کرنے کا دن۔
ایک اور قول بھی ہے اور وہ یہ کہ عصر سے مراد نچوڑنے کا دن کیونکہ عصر کے معنی نچوڑنے کے ہیں اور تمام سعادتیں دباؤ کے تلے پوشیدہ ہیں بلکہ اسی کے مرہون منت ہیں۔ اگر موجود موجد کہلاتا ہے تو صبر کے مرہون منت ہے اور اگر کوئی عالم عالم بنتا ہے تو اسی فطرت کے تحت بنتا ہے۔ اگر حضور اکرم (ص) نے بھی دنیا میں اسلام کا پرچم بلند کیا ہے بے پناہ مصائب اور آلام کو جھیل کر۔ اور اگر انسان بھی نقصان سے نجات پاتا ہے تو قبول ایمان ، عمل صالح ،حق کی وصیت اور صبر مصیبت کی بناء پر۔ لیکن ہمیں اس سے بھی برتر اور بلند معانی جو نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ دنیا کا نچوڑ عالم خلقت ہے اور عالم خلقت کا نچوڑ حضرت بقیة اﷲ ارواحنا لہ الفداء کا وجود مقدس ہے۔ کیونکہ آپ (عج) نبیوں کا ودیعت کیا ہوا سربستہ راز ہیں۔ جیسے کہ دعاؤں اور
زیارات کی عبارتوں سے ظاہر ہے۔
ہم حضرت مہدی ارواحنا لہ الفداء کے فضائل کے بیان میں اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں۔ جو کچھ بیان ہوا ۔ اس کی روشنی میں آپ کی ذات اقدس آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری کے مصداق ہے۔ شاید اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا ہے۔ “ معراج کی رات میں نے بارہ انوار کی ساق عرش پر دیکھا ان میں سے بارہواں نور ان کے درمیان اس طرح تھا جیسے ستارون کے درمیان چاند دمکتا ہو۔
۲ـ حضرت مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف کا وجود مبارک ایک معجزے سے کم نہیں اس قسم کے خارق عادت و صفات دینا میں بہت ملتے ہیں ہمیں حضرت مہدی علیہ السلام کے واقعے کو ایک عام واقعہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جس کی توجیہ و تفسیر کی جاسکے۔ قرآن کریم بھی خارق عادت واقعات بہت بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ ہم حضرت بقیة اﷲ کے وجود کو صرف اس لیے قبول کرتے ہیں کہ قرآن میں اس قسم کے واقعات ملتے ہیں اور اس واقعے کو بھی ان پر قیاس کیا جائے تو یہ کچھ بعید نہیں۔ قرآن کریم حضرت عیسی علیہ السلام کے واقعے کو نقل کرتا ہے کہ آپ نے گہوارے میں لوگوں سے یوں کہا۔
“ بے شک میں اﷲ کا بندوں ہوں اﷲ نے مجھے کتاب وی مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے مبارک قرار دیا مجھے زندگی بھر نماز قائم کرنے اور زکوة ادا کرنے کی وصیت کی اور یہ کہ اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کروں۔ مجھے ظالم اور بد بخت خلق نہیں کیا۔ درود ہو مجھ پر اس دن جب پیدا ہو جاؤں، اس دن جب مرجاؤں اور اس دن جب دوبارہ زندہ ہو کر مبعوث کیا جاؤں۔”
اگر ہم حضرت مہدی عجل اﷲ فرجہ الشریف کے معاملے میں بھی یہ کہہ دیں کہ انہوں نے پیدا ہوتے ہی قرآن پڑھا، حالت طفلی میں بھی امام علیہ السلام تھے تو دل تنگ کرنے والی بات نہیں کی جب کہ
ہم جانتے ہیں کہ اس کی مثالیں عالم خلقت میں بہت زیادہ موجود ہیں۔
قرآن کریم حضرت یونس علیہ السلام کے قصے کو نقل کرتا ہے اور آخر میں آپ کے بارےمیں فرماتا ہے۔
“فَلَوْ لا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ”
“ اگر وہ تسبیح کرنے والوں سے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے۔” یعنی حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتے ۔ جب قرآن یہ کہتا ہے تو ہمیں امام زمانہ عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف کی ہزار سال ، دو ہزار سال یا اس سے زیادہ عمر پانے پر تعجب نہیں کرنا چاہئے۔
رب العالمین جو یونس (ع) کو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھ سکتا ہے اگر اپنے ولی کو دنیا میں اپنے تحفظ میں زندہ رکھے تو وہ اس پر قادر ہے۔ قرآن ہاتھی والوں کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے آخر مٰیں کہتا ہے“فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَأْكُولٍ” ابابیل نے ہاتھی والوں کو کھائے جانے والے بھوسے کی مانند کردیا تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ حضرت بقیة اﷲ فرجہ الشریف بھی غیبی امداد کے ذریعے ہی دنیا جہاں پر غلبہ حاصل کرسکیں گے۔
۳۔ اسلام میں حضرت مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف کے واقعے سے بڑھ کر مشہور واقعہ شاید ہی کوئی ہو۔ صدر اسلام میں بھی حضرت مہدی (عج) کا واقعہ واضح، غیر معمولی اور حتمی واقع رہا ہے۔ علامہ مجلسی بحار الانوار کے تیرہویں جلد میں پچاس سے زیادہ آیات کو حضرت مہدی (عج) کی شان میں ثابت کرتے ہیں۔ شیعہ اور سنی روایوں نے دس ہزار سے زیادہ احادیث حضرت مہدی (عج) کے بارے میں روایت کی ہیں۔ پیغمبر اکرم (ص) اور تمام ائمہ کرام علیہم السلام نے حضرت مہدی(عج) کی صفت یوں بیان فرمائی ہے۔
“به يملا اللّه الأرض قسطا و عدلا بعد ما ملئت ظلما و جورا”
“ ان کے ذریعے
خدا وند عالم روئے زمین کو اسی طرح عدل و اںصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے پر ہوگی۔”
یہ روایت قطعی اور متواتر ہے کیونکہ تین سو سے زیادہ روایات میں یہ جملہ موجود ہے وہ افراد جو غیبت سے پہلے اور بعد میں آپ تک پہنچے ہیں ان کی تعداد کچھ کم نہیں اور یہ کوئی معمولی لوگ بھی نہیں تھے اگر ان کا انکار ہوسکتا ہے تو پھر اسلام کے وجود کا انکار کرنا بھی آسان ہے کہ نہ تو کوئی پیغمبر آیا اور نہ کوئی دین اسلام لے کر آیا۔
کوئی بھی مسلمان چاہے سنی ہو یا شیعہ ہو، کو اس بات سے انکار نہیں ہے کہ حضرت مہدی(عج) کے واقعے کی خبر سرکار خاتم الانبیاء (ص) نے دی ہے ۔ اور آپ ہی تمام روئے زمین پر اسلام کے پرچم کو بلند کریں گے۔ اور سارے عالم کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
اگر کسی نے انکار کیا ہے تو صرف ابن خلدون ہے جس نے اپنی تاریخ کے مقدمے میں اس کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے بھی اپنی تاریخ میں اس کا اعتراف کیا ہے صرف مقدمے میں انکار کیا ہے جس کے سیاسی اسباب ہیں کیونکہ انہوں نے فاطمیین کے مقابل میں انکار کیا ہے جنہوں نے مہدویت کا دعوی کیا تھا۔
پہلی فصل ولادت سے غیبت کبری تک
آپ (عج) کی ولادت جمعہ کی رات اذان فجر کے قریب بتاریخ ۱۵ شعبان ۲۵۵ ہجری کو ہوئی۔ ۲۵۵ کا عدد حروف ابجد کی رو سے لفظ “ نور” کے برابر ہے آپ کی والدہ گرامی کا نام نرگس تھا۔ جو روم کے بادشاہ کی بیٹی تھیں۔ جسے تقدیر کے ہاتھوں نے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک پہنچایا تھا۔
حکیمہ خاتون حضرت جواد علیہ السلام کی دختر امام حسن عسکری کی پھوپھی فرماتی ہیں کہ شعبان کی چودہ تاریخ کو میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ہاں تھی ۔ حضرت نے مجھ
سے فرمایا آج رات آپ ہمارے یہاں ٹھہریں خدا ہمیں ایک فرزند سے نوازے گا۔ چونکہ میں نے نرگس میں حمل کے کوئی آثات نہیں پائے اس لیے تعجب کیا۔ مگر رات وہی گزاری رات کے آخری پہر نرگس کے ساتھ ہی اٹھ کر نماز شب ادا کی۔ فجر کے نزدیک میرے دل میں خیال آیا حضرت (ع) نے جو کچھ فرمایا تھا اس کا کیا ہوا؟ اتنے میں آپ(ع) نے دوسرے کمرے سے آواز دی پھوپھی اماں ! خدا وعدہ قریب ہوا چاہتا ہے۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضرت نرجس میں درد زہ کے آثار ظاہر ہونے لگے میں نے انہیں سہارا دیا اور ایک ماہ پارہ دنیا میں آیا اور سجدے میں گر کر انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھا کر شہادتیں پڑھا اور ائمہ کرام علیہم السلام کے اسماء کا ورد کرنے لگا۔ نیز فرمایا “ اے خدا میرا وعدہ پورا فرما اور جو کام میرے ذمے کیا ہے اسے کمال تک پہونچا۔ جو کچھ فرمایا ہے اسے ثابت فرما اور میرے ہی ہاتھوں دنیا کو عدل و انصاف سے پر فرما۔”
میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں ہاتھ پر لکھا ہوا تھا۔
“جاءَ الْحَقُ وَ زَهَقَ الْباطِلُ إِنَّ الْباطِلَ كانَ زَهُوقاً.”
“ حق آیا اور باطل مٹ گیا بیشک باطل مٹنے کی چیز ہے۔”
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا “ میرا نور نظر مجھے دے دو” میں نے بچے کو آپ (ع) کی خدمت میں پہنچایا آپ نے ہاتھ میں لے کر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
“وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ. وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَ نُرِيَ فِرْعَوْنَ وَ هامانَ وَ جُنُودَهُما مِنْهُمْ ما كانُوا يَحْذَرُونَ”
“ ہمارا ارادہ یہی ہے کہ ہم روئے زمین میں کمزوروں پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور انہویں روئے زمین کا وارث قرار دیں فرعون و ہامان اور ان کے لشکر والوں کو وہی دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے ہیں۔”
گویا اس آیت شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ خداوند عالم کا دستور یہ رہا ہے کہ فرعون اور فرعون صفت لوگ مظلوم عوام کے ہاتھوں نابود ہوتے ہیں اور نابود ہوں گے اور آخر کار کمزوروں کے تابع ہوجائیں گے اور ظالم اپنے ٹھکانوں میں پہنچیں گے ہمیں اس تاریخی واقعے کو بعید ازعقل نہیں سمجھنا چاہئے اس کی جڑیں قرآن میں مضبوطی کےساتھ جمی ہوئی ہیں۔
جیسا کہ مقدمہ میں ذکر ہوا کہ حضرت بقیہ اﷲ پانچ سال تک اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ رہے اور اس دوران جس قدر بھی ممکن تھا آپ کی معرفت کرادی۔
محمد بن معاویہ ۔ محمد بن ایوب اور محمد بن عثمان جو عظیم شیعہ علماء میں سے ہیں۔ نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ہم سے آپ کا تعارف کرا دیا ہم چالیس افراد تھے اور فرمایا ۔“هذا إمامكم بعدي فلا تتفرقوا” میرے بعد یہ تمہارا امام(ع) ہے اس کی اطاعت کرو اور تفرقہ کا شکار مت ہوجاؤ کہ اس میں ہلاکت ہے۔” سعد بن عبداﷲ ایک عظیم شیعہ عالم ہیں کہتے ہیں کہ میں نے چالیس مشکل مسئلے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں لکھے اور آپ کے وکیل احمد بن اسحاق کے پاس لے گیا کہ امام(ع) کی خدمت میں پہنچا دے اور جواب لے آئے احمد بن اسحاق نے کہا تم خود میرےساتھ آؤ دونوں امام(ع) کی خدمت میں جائیں گے۔ ہم دونوں امام(ع) کے حضور پہونچے تو دیکھا کہ حضرت بقیة اﷲ بھی وہاں موجود تھے۔ وجوہ شرعی کے ایک سو ساٹھ تھیلے وہاں رکھے ہوئے تھے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا بیٹے ان تھیلوں میں سے حلال اور حرام ، اچھے اور برے کو الگ کرو آپ نے تشریف لا کر ان تھیلوں میں سے ہر ایک کے مالک کا نام بتایا اور ہر تھیلے میں موجود رقم کی تعداد کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ کون سا مال حلال کا ہے اور کون سا حرام اور اس کے بعد میرے تمام سوالات کے جواب میرے پوچھنے سے پہلے ہی دے دیئے۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کا منصب حضرت بقیة اﷲ کو ملا۔ اور آپ دشمنوں سے لاحق خوف کی بنا پر غیبت اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن اپنی غیبت کے ابتدائی ۷۴ سالوں میں شیعوں کے خاص علماء سے ملاقات کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ملاقات کا یہ سلسلہ یا تو حضوری تھا، یا خط و کتابت کے ذریعے تھا۔ یا آپ کے وکیلوں کے ذریعے تھا۔
ان ۷۴ سالوں کےدوران آپ(ع) کی طرف سے چار افراد وکالت کے منصب پر فائز تھے آپ کی اکثر امور ان کے ذریعے ہی بجالاتے تھے یہ چار افراد ، عثمان بن سعید، محمد بن عثمان، حسین بن روح اور محمد بن سمری ہیں۔ یہ چاروں افراد ائمہ علیہم السلام کے ہاں معتمد اور شیعوں کے برگزیدہ علماء میں سے ہیں۔
۷۴ سال کے بعد ایک خط امام (ع) کی طرف سے حضرت محمد بن سمری کو آیا جس میں آپ(ع) نے فرمایا تھا“ چند دن ے اندر تم کو مرنا ہے نیابت خاصہ کا دور ختم ہوا اور اس کے بعد غیبت کبری کا زمانہ شروع ہوگا۔ ۷۴ سال کے عرصے کو غیبت صغری کہتے ہیں چونکہ امت اسلامی کی حکومت معطل نہیں ہونی چاہئے۔ لہذا حکومت کی باگ ڈور مجتہد جامع الشرائط کے سپرد کی ہے اور ایک توقیع میں جو آپ نے حجة الاسلام یعقوب کلینی کو لکھا تھا جسے شیخ اور سید دونوں نے کتب اربعہ میں نقل کیا ہے اس میں ایسا لکھا ہوا ہے۔
“وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ”
“ نئے پیش آنے والے واقعات میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو کیونکہ میں اﷲ کی طرف سے حجت ہوں اور وہ ہماری طرف سے تم پر حجت ہیں۔”
اس روایت کی مانند ایک اور روایت حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی مروی ہے۔ کہ جب امام معصوم (ع) موجود نہ ہو تو حکومت اسلامی کو مجتہد جامع الشرائط کے حوالے کیا ہے۔
ولایت فقیہہ کی بحث ایک تفصیلی اور نہایت اہم بحث ہے۔جس پر ہم نے “ اقتصادی نظاموں کا موازنہ ” نامی کتاب میں گفتگو کی ہے۔
در اصل غیبت ایک الہی راز ہے جب ائمہ معصومین علیہم السلام سے غیبت کے بارےمیں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ غٰیبت خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ غیبت کا واقعہ حضرت موسی علیہ السلام اور خضر(ع) کے واقعے جیسا ہے اور موسی علیہ السلام کے لیے تربیت دیئے گئے درس کے مکمل ہونے کے بعد حضرت خضر علیہ السلام کے کاموں کا راز معلوم ہوسکا۔ اسی طرح غیبت کا راز بھی حضرت مہدی (عج) کے ظہور کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔ اس لیے ہم غیبت کے راز پر بحث نہیں کرتے۔ البتہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت بقیہ اﷲ عالم ہستی پر نگہبان، موکل اور محافظ ہیں جیسے کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
“وَ قُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَ رَسُولُهُ وَ الْمُؤْمِنُونَ”
“ کہہ دیجئے تم جو چاہو عمل بجا لاؤ اﷲ رسول(ص) اور مومنین اسے عنقریب دیکھیں گے۔”
حضرت مہدی علیہ السلام کی طرف سے ایک اور توقیع جو شیخ مفید علیہ الرحمہ کو بھیجی گئی تھی اس میں یوں ارشاد فرمایا ہے۔
“انّا غير مهملين لمراعاتكم و لا ناسين لذكركم، و لولا ذلك لنزل بكم اللّأواء و اصطلمكم الاعداء”
“ بتحقیق ہم نے تمہاری رعایت رکھنے سے ہاتھ نہیں اٹھایا ہے اور نہ تو
تمہاری یاد کو بھولے ہیں اگر ایسا ہوتا تو دشمن تمہیں نابود کر چکا ہوتا۔”
آپ(عج) کی ذات اقدس عالم ہستی کے لیے فیض کا سبب ہے اور ائمہ کرام علیہم السلام کا عالم ہستی کے لیے فیض کا باعث ہونا ثابت ہے یہ روایات حضور اکرم(ص) ، امام جعفر صادق(ع)، اور حضرت بقیہ اﷲ سے مروی ہیں۔ اب سوال کیا جاتا ہے کہ ایک غائب امام(ع) کا فائدہ عالم ہستی کے لیے کیا ہے ؟ آپ جواب میں فرماتے ہیں غائب امام (ع) اس سورج کی مانند ہےجو بادلوں میں چھپا ہوا ہو۔ جس طرح بادلوں میں چھپے ہوئے سورج کے فائدے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح غائب امام (ع) کے فائدے سے بھی انکار نہیں کیا کرسکتے۔
اس قسم کی روایت کی وضاحت میں کہا جا سکتا ہے کہ دینا کی تمام اشیاء میں ایٹم سے لے کہکشان تک سب کے لیے ایک مرکز اور محور ضروری ہے۔ پروردگار عالم نے ایٹم کے ہر دانہ کےلیے ایک مرکز اور محور قرار دیا ہے اور اس ایٹم کی زندگی اور بقا کو اس کے اس محور میں رکھا ہے۔اور ایٹم کے مرکز کی زندگی اور بقاء کا دار و مدار اﷲ کی ذات ہے۔ ایٹم سے لے کر کہکشان تک کے نظام میں یہ قاعدہ و قانون موجود ہے اگر ایسا ہے تو استقراء کا قانوں یہ کہتا ہے کہ اگر اس دنیا کا ایک ایک جز محور اور مرکز رکھتا ہے تو سارے جہاں کا ایک محور اورمرکز بھی ہونا چاہئے۔ تاکہ دنیا اس سے وابستہ ہو اور وہ ذات مقدس الہی سے وابستہ ہو۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت بقیہة اﷲ امام مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ شریف دنیا جہاں کے لیے محور و مرکز ہیں کہ دنیا ان سے وابستہ ہے اور وہ ساری دنیا عالم کےساتھ ذات الہی سے وابستہ ہیں۔
قدم سے مہدی (عج) دین کے زمین قائم ہے پانی پر قرار کشتی دنیا کے لنگر ایسے ہوتے ہیں۔
یہ معنی ان ہی روایات کے ہیں جن کمیں کہا گیا کہ امام زمان (عج) کی مثال بادلوں میں چھپے ہوئے سورج کی مانند ہے۔ ہم اگر چہ ابھی آفتاب امامت کے علم و فصل سے محروم ہیں۔ لیکن ہمارا وجود زمین و آسمان بلکہ سارے جہاں ہستی کا وجود ان سے وابستہ ہے۔ آپ کی زیارت میں ہم پڑھتے ہیں۔
“و بيمنه رزق الورى و بوجوه ثبتت الارض و السماء”
“ آپ کے وجود مقدس کے واسطے سے عالم ہستی کو فیض پہنچتا ہے اور اسی کے دم سے زمین و آسمان قائم ہیں۔
بہت زیادہ روایات میں آپ کے وصف میں یوں بیان ہوا ہے۔
“لو لا الحجّة لساخت الارض بأهلها”
“ اگر حجت خدا نہ ہوتے تو زمین اپنے باسیوں کے ساتھ غرق ہو کر نابود ہوجاتی۔”
زیارت جامعہ کبیرہ میں یوں مذکور ہے۔
“بكم فتح اللَّه و بكم يحتم و بكم ينزل الغيث و بكم يُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إلا بإذنه و بكم ينفس الهم و بكم يكشف الضر”
“ عالم ہستی کے وجود کی ابتداء سے لے کر انتہا تک تمہارے ذریعے سے ہی رحمت کی بارش برستی ہے۔ زمین و آسمان تمہارے دم سے قائم ہیں۔ اور پریشانیاں اور غم و الم آپ لوگوں کی برکت سے ہی دور ہوتے ہیں۔”
ان فوائد سے گزر کر آگے بڑھیں تو فکری اور سیاسی بلوغت کے لیے زمانہ غیبت ہی میدان فراہم کرتا ہے اگر غیبت نہ ہو ظہور کس بات کا ۔ اس نکتے کی وضاحت انشاء اﷲ بعد میں کی جائے گی۔
طول عمر
بیالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ موت اور زندگی دو عارضی چیزیں ہیں اور انہیں
دنیا سےاٹھایا جاسکتا ہے انہوں نے اپنےتجربوں سے اسے ثابت بھی کیا ہے انہوں نے یہ تجربے بعض قسم کی گھاس اور مختلف حیوانات پر کئے ہیں۔
چودہ دنوں تک قائم رہنے والی ایک گھاس کی عمر بڑھا کر چھ سال تک پہنچائی گئی ہے۔
اس طرح بعض حیوانات کی عمر بڑھا کر نو گنا کردی گئی ہے۔ گندم کا ایک دانہ جسے مصر میں دریافت کیا گیا ہے اس کی عمر چار ہزار سال کی ہے۔ اس کی کاشت کی گئی ہے اور وہ اس وقت سبز ہوچکا ہے۔ چونکہ وہ خوشے میں تھا لہذا اپنی عمر اتنی زیادہ کرسکا ہے۔ تناسب کا قانون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگر حفاظت کی جائے تو کسی بھی حیوان کی عمر نو گنا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح انسان جس کی طبعی عمر سو سال ہے اسے کئی ہزار سال تک بڑھا سکتے ہیں۔ اور یہ نکتہ بھی قرآن کریم سےہی حاصل ہوتا ہے قرآن میں حضرت عزیر پیغمبر کے بارے میں ارشاد ہوا ہے۔
“أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلى قَرْيَةٍ وَ هِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها قالَ أَنَّى يُحْيِي هذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِها فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قالَ كَمْ لَبِثْتَ قالَ لَبِثْتُ يَوْماً أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عامٍ فَانْظُرْ إِلى طَعامِكَ وَ شَرابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَ انْظُرْ إِلى حِمارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَ انْظُرْ إِلَى الْعِظامِ كَيْفَ نُنْشِزُها ثُمَّ نَكْسُوها لَحْماً فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ”
“ یا اس شخص کی طرح ( یعنی حضرت عزیر(ع)) جو ایک بستی میں سے گزرا تو دیکھا کہ بستی ( کے تمام گھر) اپنی چھتوں پر اوندھے گرے پڑے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ آبادی جو ہلاک ہوچکی ہے اسے اﷲ کس طرح زندہ کرے گا۔ بس خداوند عالم نے اسے موت دی اور وہ سو سال تک پڑا رہا پھر اسے مبعوث کیا اور پوچھا بتاؤ تم کتنی مدت پڑے رہے انہوں نے جواب دیا ایک یا چند گھنٹے۔ فرمایا نہیں بلکہ تم سو سال
پڑے رہے ہو۔ اب ذرہ اپنے کھانے پینے کو دیکھو میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی ساتھ ہی اپنے گدھے کو بھی دیکھو کہ اس کا ڈھانچہ تک بوسیدہ ہوچکا ہے اور ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے ڈھانچے کو کس طرح اٹھا کر گوشت و پوست چڑھاتے ہیں۔ اس طرح جب حقیقت ان پر نمایاں ہوگئی تو انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔”
ان آیات کریمہ سے جو استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ غذا اور پانی کی فطری عمر جو سورج کےتلے صرف ایک دن کی عمر پاسکتے ہیں خداوند عالم کی حفاظت کے زیر اثر سو سال تک محفوظ رہ سکے ۔اس کی مد نظر رکھتے ہوئے قانوں تناسب کی رو سے انسان کی عمر لاکھوں سال تک پڑھ سکتی ہے۔ یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہم اس کے مطالب یہاں پر صرف ذہن انسانی کو موضوع کے قریب لانےکے لیے بیان کرتے اور ہم صرف انہی پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں اور جس چیز پر ہم بھروسہ کرتے ہیں وہی ہے جسے مقدمے میں بیان کیا ہے۔
حضرت یونس (ع) بغیر خدا کی اجازت لیے اپنی قوم سے نکل کر گئے اور ایسا کرنا ایک پیغمبر کےلیے مناسب نہیں تھا۔ اسی بناء پر وہ مچھلی کےپیٹ میں قید ہوگئے۔ اور سات دن رات وہیں رہے۔ مچھلی کے پیٹ میں انہیں اپنی خطا کا احساس ہوا تو قرآن کے مطابق انہوں نے “أَنْ لا إِلهَ إِلَّا أَنْتَ- سُبْحانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ” کا ورد جاری رکھا یہاں تک کہ سات دنوں کے بعد انہیں اس قید خانے سے نجات ملی۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر یونس (ع) نے توبہ نہ کی ہوتی تو قیامت تک یہیں پر رہتا۔
“فَلَوْ لا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ”(صافات آیت 143)
“ وہ پروردگار جو اپنے پیغمبر کو مچھلی کے پیٹ میں سات دن رات تک بلکہ قیامت تک حفاظت سے رکھ سکتا ہے تو یہ بھی قدرت رکھتا ہے کہ اپنے ولی اپنے ودیعت کئے ہوئے راز کو اس دنیا میں رکھ کر حفاظت کرسکتا ہے۔” (صافات آیت ۱۴۳)
ایک اور نکتہ جو قرآن کریم سے مستفاہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک انسان کی طبعی عمر ہزار سال سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ قرآن حضرت نوح(ع) کے بارےمیں کہتا ہے۔
“ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً”
“ نوح (ع) نے اپنی قوم کےدرمیان ساڑٕھے نو سوسال گزارے۔” ( عنکبوت آیت ۱۶)
اور روایات میں ہے کہ آپ نے دو ہزار چار سو سال کی عمر پائی تھی۔ اور ساڑھے نو سو سال ان کی رسالت کی مدت ہے۔
خلاصہ یہ کہ حضرت بقیہ اﷲ کی عمر ایک طبعی معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک “ خارق عادت” چیز ہے جس کی مثالیں دنیا میں بہت ساری ہیں۔ دوسرے امام حضر امام حسن مجتبی علیہ السلا اسی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
“يُطِيلُ اللَّهُ عُمُرَهُ فِي غَيْبَتِهِ ثُمَّ يُظْهِرُهُ بِقُدْرَتِهِ فِي صُورَةِ شَابٍّ دُونَ أَرْبَعِينَ سَنَةًذَلِكَ لِيُعْلَمَ أَنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ”
“ خدا اس کی عمر طویل کرے گا۔ اس کے بعد اپنی قدرت سے اسے ظاہر فرمائے گا۔ سارے عالم میں اسے غلبہ عطا کرے گا۔ چالیس سال سے کم عمر کا جوان ہوگا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ بے شک خداوند عالم ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔”
ظہور کی کیفیت اور طریق کار
جو کچھ روایات اور آیات سے استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام
کا انقلاب تددیجی انقلاب نہیں بلکہ دفعی ہے۔ ہم روایات میں پڑھتے ہین کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا انقلاب ایک ہی رات میں اختتام کو پہنچے گا۔ بعض روایات میں چھ دن کا ذکر ہے۔ یعنی ایک دن میں فتخ اور مکمل کنڑول چھ دن میں حاصل ہوگا۔
وراثت کا لفظ جو حضرت مہدی علیہ السلام کے بارےمیں میں استعمال ہوا ہے شاید اس میں یہی نکتہ پوشیدہ ہے جو مثال کے طور پر ۔
۱- وَ نُرِيدُ أَنْ نَمُنَ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثِينَ
۲- وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُون
۳- أَنَ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُها مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
۴- وَ أَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كانُوا يُسْتَضْعَفُونَ- مَشارِقَ الْأَرْضِ وَ مَغارِبَهَا الَّتِي بارَكْنا فِيها
مندرجہ بالا چاروں آیات میں جو حضرت بقیہ اﷲ سے مربوط ہیں لفظ ارث استعمال ہوا ہے شاید اس میں یہ نکتہ مضمر ہو جیسا کہ وراثت اچانک اور مشقت برادشت کئے بغیر منتقل ہوتی ہے۔ اس طرح دنیا میں حضرت بقیہ اﷲ کی رہبری میں مومنین کا تسلط قائم ہوجائے گا۔
ان آیات میں ایک اور نکتہ مبھی ہے جسے بھولنا نہیں چاہیے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا تسلط دنیا میں خدا کی خواہش کےعین مطابق ہے۔ جیسا کہ دوسری بعض آیات میں بھی مذکور ہے کہ خدا کا ارادہ واقع ہونے والا ہے۔
یہ بات مسلم ہے کہ یہ اچانک برپا ہونے والے انقلاب کے لیے میدان فراہم ہونا ضروری ہے اور اس کی طلب اور میدان فراہم کرنا عوام کے ہاتھوں میں ہے اور یہ عوام ہی ہیں جو اس انقلاب کی صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں ۔ روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ظالمون کے عوام پر ظلم زیادہ کرنے کی وجہ سے عوام میں خود
استعداد پیدا ہوتی ہے۔ جب استحصال طاقتیں عوام پر بے انتہا مظالم کریں گے۔
مولف کی رائے۔
اور دنیا ان کے ظلم سے پر ہوجائے گی۔ ظالمون سے نفرت اور عداوت مطلقہ کو قبول کرنے کی استعداد عوام میں پیدا ہوجائے گی اور جس وقت یہ مستعد مادہ دھما کہ خیز حد کو پہنچے گا تو عدالت مطلقہ سارے جہاں پر چھا جائے گی۔ بہت ساری روایات ، تقریبا تین سو سے زیادہ روایات موجود ہیں جو اس نکتے کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ روایات کہتی ہیں کہ جس وقت ساری دنیا میں ظلم وجور کا ددر دورہ ہوگا تو حضرت بقیہ اﷲ تشریف لائیں گے اور اسے اسی طرح انصاف عدالت سے بھر دیں گے جیسے کہ ظلم سے بھر چکی ہوگی۔
“و به يملا اللّه الأرض قسطا و عدلا بعد ما ملئت ظلما و جورا” گویا ان روایات کا مفہوم یوں ہے۔
آپ کم جو تشنگی آور بدست بابجوشد آیت از بالا و پست
یہاں یہ نکتہ مد نظر رکھاجائے کہ ان آیات و روایات سے یہ بتانا مقصود نہیں کہ عوام ظالم اور مجرم بن جائیں گے اور حضرت بقیہ اﷲ آئیں گے تو عادل اور مومن بن جائین گے۔ علمی اعتبار سے یہ روایات حقیقی واقعہ نہیں بلکہ فطری اور طبعی واقعات کی روش پر ہیں۔ یہ روایات بیان کرتی ہیں کہ دنیا کے لوگ یعنی عوام اپنے ظالم حکمرانوں کے ظلم سے تنگ آئیںگے اور ظالم حکومتیں ظلم کی انتہا کریں گی تو عوام میں عدالت مطلقہ قبول کرنے کی صلاحیت خود بخود پیدا ہو جائے گی۔ اور عین اس وقت حق و عدالت اور فضیلت کی حکومت عوام پر حکم فرما ہوگی۔ اور عوام اپنی خواہش میلان اور رغبت کی بناء پر اسے قبول کریں گے۔
میدان اور شرائط کا فراہم ہونا ایک عالمی انقلاب کے برپا ہونے کی بنیادی شرط ہے تمام انبیاء علیہم السلام اسی انقلاب کے لیے آئے ہیں اور جو کچھ اس انقلاب کے لیے وہ کرسکتے تھے کام کیا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔
“لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَ أَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَ مَنافِعُ لِلنَّاسِ”
“ بے شک ہم نے تمام ابنیاء (ع) کو معجزات کےساتھ بھیجا ان کے ساتھ کتاب اور میزان کو اتارا تاکہ لوگ عدل و انصاف کے ساتھ بھیجا قیام کریں اور ہم نے لوہا بھی نازل کیا (اسلحہ) تاکہ انکار کرنے والے اسے قبول کریں اس میں شدید سختی اور لوگوں کےلیے بے پناہ فائدے بھی موجود ہیں۔”
لیکن لوگوں میں ایک عالمی انقلاب کو برداشت کرنے کا میالان موجود نہیں تھا لہذا اس انقلاب سےبہرہ مند نہیں ہوسکے اور یہ عالمی انقلاب خداوند عالم کا طریقہ رہا ہے جس نے برپا ہونا ہے۔
“أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ”
“ وہ وہی ہے جس نے اپنے رسولوں کو بھیجا ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ تاکہ یہ تمام ذہنوں پر غلبہ حاصل کرے۔ چاہے مشرکوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔”( سورہ واقعہ آیت۷۳)
جس چیز پر ہمیں توجہ دینی چاہیے وہ غلبہ کی کیفیت ہے ۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ غلبہ دو چیزوں کے ذریعہ سے ہے یہ سواری کیا ہے؟ اور کس طرح کہکشاؤں سے گزرے گی؟ اس کی رفتار جوبرق کی رفتار سےبہت زیادہ ہے کس طرح حاصل ہوگی؟ اس کا کچھ علم نہیں۔ البتہ جو ہم جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت آصف بن برخیا
جو کتاب کا تھوڑا سا علم رکھتے تھے۔ پلک جپکنے میں بلقیس کا تخت یمن سے شام خاضر کرسکے یعنی بجلی کی رفتار سے بھی پہلے حاضر کرسکے۔ تو جو ہستی پوری کتاب کا علم رکھتی ہے وہ آن واحد میں سارے جہاں کی سیر کرسکتی ہے۔ ساتوں آسمانوں تک رسائی حاصل کرسکتی ہے اسی طرح وہ ہستی ایک رات میں سارے عالم پر غٰلبہ حاصل کرسکے گی۔
امام زمانہ (عج) کی حکومت کا طریقہ
روایات و احادیث بلکہ آیات شریفہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی اروحنا لہ الفدا کی حکومت ایک با برکت اور مہربانی و فضیلت سے پر حکومت ہوگی۔ اور سو فیصد ایسی حکومت ہوگی جو انسانیت کےلیے مطلوب ہے۔ جب دنیا میں آپ کا تسلط قائم ہوجائے گا تو ساری دنیا میں حقیقت اور فضیلت پھیل جاے گی اور ہر قسم کی کمی اور نقص ختم ہوجائے گا۔ قرآن کے مطابق حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت یوں ہوگی۔
“وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ- لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِكَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ- وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضى لَهُمْ- وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً ”
“ خداوند عالم نےتم میں سے صاحبان ایمان اور شائستہ اعمال بجالانے والے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین پر ( اپنا) خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو اپنا خلیفہ بنایا ہے۔ ان کے لیے ان کی دین کو مضبوط کرے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور اس کے بعد ان کی خوف کی حالت کو امن سے بدل دے گا۔” ( سورہ نور آیت ۵۵)
یہ خدا وعدہ ہے جو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ یہ خدا کا وعدہ ہے حضرت امام مہدی علیہ السلام اور آپ کے حامیوں کے لیے خدا ک وعدہ شیعیان آل محمد(ص) کےساتھ خڈا کا وعدہ مومنین کےلیے خدا کا وعدہ ان نیک لوگوں کےساتھ جو اس کا انتظار کر رہے ہیں۔
جو کچھ آیات اور روایات سے“ حضرت مہدی علیہ السلام کی حکومت کی کیفیت کے بارے میں پتہ چلتا ہے اس میں سے بعض یہ ہیں باطل پر حق کا غلبہ، سارے عالم میں اسلام کا غلبہ، عدالت و فضیلت اور امن امان کا دن ، برکتوں اور نعمتوں کے ظہور کا دن، سب کےلیے علم کے ظہور کا دن، عقل کے ظہور کا دن، تہذیب نفس کا ظہور کا دن، انفرادی اور اجتماعی احتجاج کےختم ہونے کا دن، گناہوں اور فحشا کے ختم ہونے کا دن، آخر کار کمزوروں کے ظالموں پر غلبہ پانے کا دن، جس چیز کا بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ سینکڑوں سے زیادہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکومت قیامت تک جاری رہے گی اور حضرت بقیہ اﷲ کے بعد آپ کے آبائے کرام (ع) دنیا میں آئیں گے اور عالمی حکومت کی ذمہ داری سنبھالیں گے اور بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی حکومت بہت طویل ہوگی۔
کلام اہل شیعہ میں اس بحث کو “ رجعت” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ ایک لمبی چوڑی بحث ہے خلاصہ یہ کہ حضرت امام مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ شریف کی حکومت کے بعد اس دنیا میں اہل بیت علیہم السلام کی حکومت قائم ہوگی۔ شیعوں کے عقیدے کے مطابق یہ ایک قطعی اور مسلم چیز ہے۔
انتظار ظہور
ایک ایسا موضوع جو آیات اور روایات کی بناء پر قائم ہے جو بڑی اہمیت اور راز کا حامل ہے۔ ظہور منتظر کے انتظار کا موضوع ہے۔ ہماری روایات کے مطابق قرآن کریم کی آیت “انتظروا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ.” تم انتظار کرو میں بھی انتظار کرنے والوں میں ہوں۔”اور آیت “وَ ارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ” نظر رکھو ہم بھی نظریں گاڑے بیٹھے ہیں۔” دونوں آیات انتظار مہدی ارواحنا لہ الفداء پر تاویل کی گئی ہیں۔
ہماری احادیث میں “ انتظار فرج” کو بہترین اعمال مین شمار کیا گیا ہے۔ ظہور حجت کا انتظار کرنے والا اور مجاہد فی سبیل اﷲ اس شخص کی مانند ہیں جو اﷲ کے دین کی خاطر خاک و خون میں لوٹا ہو۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ اسلام کا ارشاد ہے ۔
“الْمُنْتَظِرُ لِأَمْرِنَا كَالْمُتَشَحِّطِ بِدَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ”
“ ہماری حکومت کا انتظار کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ اﷲ کی راہ میں خاک و خون میں لوٹا ہو۔”
سماجی علوم اور علم نفسیات کے نقطہ نظر کے مطابق بھی ظہور حجت کا انتظار ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سماجی علوم کے ایک ماہر نے کہا ہے کہ اگر شیعہ باقی رہ سکے تو انجام کار پوری دنیا پر حکومت کریں گے۔ یہ اسی ظہور حجت کے انتظار پر دلالت ہے۔
اور شیعوں کی تاریخ کا ایک اجمالی مطالعہ کریں تو اس قول کی تائید ہو جاتی ہے۔
ثقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی کے بعد شیعہ کی ابتدائ ۱۱۴ عظیم صحابہ جیسے سلمان فارسی ابوذر غفاری، ام سلمہ، فضہ، اور مالک بن نوسیرہ، وغیرہ جیسے افراد سے ہوئی۔
ان میں اضافہ ہوتا چلا گیا اسی دن سے آج تک اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مالک بن نوسیرہ کا واقعہ تاریخ اسلامی میں ایک ننگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو تاریخ اسلامی کے ابتداء میں ہی واقع ہوا ہے کچھ عرصے کے بعد کربلا کا واقعہ رونما ہوا اور واقعہ کربلا کے بعد ۲۰ سال کے عرصے میں ۲۰ سے زیادہ انقلاب رونما ہوا اور اسی ابتدائی دور سے لے کر آج تک شیعوں نے قربانیان دی ہیں۔ کبھی انفرادی قربانیاں دی اور کبھی اجتماعی اس طرح کبھی انفرادی طور پر قیدی ہوتے اور کبھی اجتماعی طور پر ۔ شیعوں نے ہی حجاج بن یوسف ثقفی اور دوسرے اس جیسے ظالموں کے صحراؤں کے درمیان تنگ و تاریک زندانوں میں قید با مشقت گزاری ہے۔
ہرگز وہ اور پارٹی جو اس طرح کے مصائب کا شکار ہوئے تو ختم ہوگئے مگر جب شیعوں کے ساتھ یہ ظلم ہوا بجائے ختم ہونے کے انہوں نے یہ نعرہ اپنایا۔ “ ہم اپنے ہاتھوں سے اسلام کا پرچم بلند رکھیں گے اور ساری دنیا میں عدالت و اںصاف کا پرچم بلند کریں گے۔” جب شیعوں کو بنی عباس کے تاریک زندانوں اور بنی امیہ کے مخفی عقوبت خانوں سے واسطہ پڑا تو انہی زندانوں میں انہوں نے یہ نعرہ بلند کیا “ ہم ظالموں کو نابود کریں گے۔” اس بناء پر ظہور حجت کے انتظار کا ایک خاص مقام ہے۔
ظہور حجت کے انتظار کے یہ معنی نہیں جو ہمارے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے۔ ظہور حجت کے انتظار سے مراد اس عالمی انقلاب کے لیے آمادہ رہنا اور تیاری کرنا ہے۔ مثال کےطور پر اگر آپ نے کبھی صبح کے آٹھ بجے کسی سے ملاقات کا وقت دیا ہے اور اگر وہ شخص آنے میں دیر کردے اور آپ صبح آٹھ بجے سے پہلے ہی اس سے ملاقات کے لیے آمادہ تھے تو کہہ سکتے ہیں کہ میں آپ کا انتظار کررہا تھا۔ لیکن آپ سوئے ہوئے تھے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں انتظار کر رہا تھا۔
ظہور حجت کے انتظار کی اہمیت انہی معنوں میں ہے جو معنی قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔ قرآن ظہور حجت کے انتظار کے یوں معنی بیان کرتا ہے۔
۱- وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ- لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ
۲- أَنَ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُها مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
۳- وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ
ترجمہ :۔ ۱۔ “ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ تم میں سے ان لوگوں کےساتھ جو ایمان لائیں اور نیک اعمال بجالائیں بے شک انہیں روئے زمین پر خلیفہ بنایا جائے گا۔”
۲۔ “ بے شک زمین اﷲ کی ہے جو اپنے بندوں کو اس کا وارث بنائے گا اور عاقبت تو پرہیزگاروں کے لیے ہے۔”
۳۔ “ ہم نے قرآن کے علاوہ زبور میں بھی یہ لکھا تھا کہ میرے نیک اور صالح بندے روئے زمین کے وارث بنیں گے۔”
ان آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ کی زمین پر جو اس کا خلیفہ قرار پائیں گے وہ نیک اور پرہیزگار بندے ہوںگے۔ برخلاف اس کے کہ اگر کوئی ایسا شخص جو شیطان کا بندہ ہو، اپنی خواہشات کا غلام ہو، اور پست صفات کا حامل ہو، فاسق و فاجر ہو، اور ظالم ہو تو ان آیات کا مصداق نہیں قرار پاسکتا ۔ چاہیے وہ یہ کہتا ہے کہ میں ظہور حجت کا انتظار کر رہا ہوں۔ تو بھی وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔
بحث کے آخر میں یہ بتا دیںا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیعوں کےلیے نزدیک ظہور حجت کے انتظار کے کچھ فرائض ہیں جن کی ادائگی ضروری ہے ان وظائف میں سے ایک اپنے امام(ع) کے جلد ظہور کی دعا مانگنا ہے، اپنی مشکلات میں ان کے توسل سے دہائی (دعا) مانگی جائے۔ کیونکہ زمانہ غیبت میں بھی آپ فریاد رس ہیں۔
تین مطالب جن کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ہم یہاں تحریر کرتے ہیں۔
۱- خواندن این دعا: اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي
۲- نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي
۳- رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي يَا اللَّهُ يَا رَحْمَانُ يَا رَحِيمُ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ
“ خداوند مجھے اپنی معرفت عطا کر کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنی معرفت نہیں دی تو میں تیرے رسول(ص) کی معرفت حاصل نہیں، کرسکوں گا۔ بار الہا مجھے اپنے رسول(ص) کی معرفت عطا کر کیونکہ اگر تو نے مجھے اپنے رسول(ص) کی معرفت سے نہیں نوازا تو میں تیرے حجت کو نہیں پہچان سکوں گا۔ بار الہا مجھے اپنے حجت کی معرفت عطا کر کیونکہ اگر تونے مجھے اپنی حجت کی معرفت سے نہیں نوازا تو مٰیں اپنے دین سے بٹھک جاؤں گا۔”
( اور یہ دعا بھی پڑھی جائے) “ اے اﷲ ، اے رحیم، اے رحمان، اے دلوں کو پلٹانے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔”
امام زمانہ (عج) سے متعلق اس دعا کو ہمیشہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔
“ اللهم كن لوليِّك الحُجَّةِ بن الحسن، صلواتُكَ عليه و على آبائهِ، في هذه السّاعة و في كلِّ ساعةٍ، وليّاً و حافظاً، و قائداً و ناصراً، و دليلًا و عيناً، حتى تسكنه أرضك طوعاً، و تُمتّعَهُ فيها طويلًا،”
“ بار الہا اپنے ولی حضرت حجتہ بن الحسن صلوة اﷲ علیہ کو اس لمحے کے لیے سرپرست ، حاکم ، رہبر، مددگار قرار دے تاکہ اطاعت کی وجہ سے تیری زمین میں اطمینان و سکون ہو اور بہت دیر تک ان سے بہرہ مند فرما۔”
۳۔ حضرت حجتہ (ع) کی زیارت کو ہمیشہ پڑھا جائے تمام زیارتوں میں سے جامع ترین
زیارت “ جامعہ کبیرہ ” ہے جو خود مولا(ع) سے مروی ہے ۔ ان کے پیروکاروں کو چاہیے کہ ہر روز صبح کے وقت آپ کے روضہ محترم میں ادب کے ساتھ پڑھیں۔
علامہ مجلسی نے اس زیارت کی شرح کے ذیل کتاب “ من لایحضرہ الفقیہ ” میں کہا ہے۔ “ جس وقت میں نجف اشرف میں وارد ہوا تو اس ارادے سے کہ حضرت علی علیہ السلام کے روضے میں حاضر ہونے کی اہلیت اپنے اندر پیدا کروں چند دن عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے کا قصد کیا۔ دنوں کو تو روزے رکھتا اور راتوں کو رواق میں عبادت میں مشغول ہوتا تھا۔ ایک دفعہ مکاشفہ کی حالت میں حضرت بقیہة اﷲ ارواحنا لہ الفداء کو اپنے پدر بزرگوار کے روضے میں دیکھا جب میں نے وہاں دیکھا تو آپ وہاں موجود تھے میں ادب و احترام کرتے ہوئے دور ہی کھڑا زیارت جامعہ پڑھنے لگا۔ مجھے آگے بڑھنے کا حکم فرمایا مگر آپ کی عظمت و جلالت سے مرعوب ہو کر میں آگے نہیں جاسکتا تھا آخر کا ر کسی طرح میں آگے بڑھا تو مجھ پر نظر رحمت کرتے ہوئے فرمایا “ نعم الزیارة” کیا ہی اچھی زیارت ہے۔ ” میں نے حضرت امام ہادی علیہ السلام کے روضے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کیا آپ کے جد بزرگوار سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا “ ہاں میرے جد بزرگوار سے ہی منقول ہے۔” اسی بناء پر علامہ مجلسی دوم نے اس زیارت کے بارے میں فرمایا ہے۔
“ میری نظروں میں متن اور سند کے اعتبار سے صحیح ترین زیارت، زیارت جامعہ ہے۔”
Comments powered by CComment