حضرت علی (ع) کی ولادت

امام علی علیہ السلام
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

شھر مکہ کے اس تاریخ ساز عھد میں جو اھم واقعات رونما ھوئے ان میں سے ایک حضرت علی (ع) کی کعبہ میں ولادت باسعادت تھی، مورخین نے لکھا ھے کہ حضرت علی (ع) کی پیدائش واقعہٴ عام الفیل کے تیس سال بعد ھوئی، خانہ کعبہ میں امیر المومنین حضرت علی (ع) کی پیدائش و تولد آپ کے عظیم و ممتاز فضائل میں سے ایک ھے اس فضیلت کا نہ صرف شیعہ دانشوروں نے ذکر کیا ھے بلکہ اھل سنت کے محدثین و مورخین بھی اس کے معترف ھیں۔

 

پیغمبر اکرم (ص) کے دامن میں تربیت

 

حضرت علی (ع) نے بچپن اور شیر خوارگی کا زمانہ اپنے مھربان اور پاکدامن والدین حضرت ابوطالب و حضرت فاطمہ کی آغوش اور اس گھر میں بسر کیا جھاں نور رسالت اور آفتاب نبوت تاباں تھا، حضرت ابوطالب کے اس نونھال پر حضرت محمد (ص) کی شروع سے ھی خاص توجہ و عنایت تھی اسی لئے آپ نے حضرت علی (ع) کے ساتھ محبت و مھربانی کے سلوک اور تربیت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔

 

رسول خدا نے اسی پر ھی اکتفا نہ کی بلکہ حضرت علی (ع) نے اپنی عمر کی چہ بھاریں دیکھ لیں تو آپ انھیں اپنے گھر میں لے آئے اور بذات خود ان (ع) کی تربیت فرمانے لگے۔

 

حضرت علی (ع) سے بے پناہ شفقت کی وجہ سے آپ انھیں اپنے سے ھرگز جدا نھیں کرتے تھے چنانچہ جب کبھی آپ عبادت کے لئے مکہ سے باھر غار حرا میں تشریف لے جاتے تو حضرت علی (ع) آپ کے ساتھ ھوتے تھے۔

 

رسول اکرم کے زیر سایہ حضرت علی (ع) کی جو تربیت ھوئی اس کی اھمیت و قدر و قیمت کے بارے میں خود حضرت علی (ع) فرماتے ھیں:

 

و لقد علمتم موضعی من رسول اللہ بالقرابتہ القریبة و المنزلة الخصیصة وضعنی فی حجرہ و اٴنا ولد یضمنی الیٰ صدرہ و یکنفنی فی فراشہ و یمسنی جسدہ و یشمنی عرفہ و کان یمضغ النبی ثم یلقینی۔۔۔ ۔۔ ۔۔ و لقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل اثر امہ یرفع کانی کل یوم اخلاقہ علماً و یامرنی بالاقتداء بہ۔

 

یہ تو سب ھی جانتے ھو کہ رسول خدا کو مجہ سے کیسی قربت تھی اور آپ کی نظروں میں میری کیا قدر و قیمت تھی اس وقت جب میں بچہ تھا آپ مجھے اپنی گود میں جگہ دیتے اور سینے سے لگاتے مجھے اپنے بستر پر اپنی جگہ لٹاتے میں آپ سے بغل گیر ھوتا اور آپ کے جسم مبارک کی عطر آگیں بو میرے مشام کو معطر کردیتی، آپ نوالے چباکر میرے منہ میں رکھتے، میں پیغمبر اکرم کے نقش قدم پر اس طرح چلتا جیسے شیر خوار بچہ اپنی ماں کی پیروی کرتا ھے، آپ ھر روز اخلاق کا پرچم میرے سامنے لھراتے اور حکم فرماتے کہ میں بھی آپ کی پیروی کروں۔

 

معبود حقیقی سے انس و محبت

 

امین قریش نے اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال ان سختیوں اور محرومیوں کے باوجود، جو ھمیشہ دامن گیر رھیں، نھایت صداقت، شرافت، نجابت، کردار کی درستی اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے آپ نے اس عرصے میں خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش نھیں کی، عبادت اور معرفت خداوندی کو ھر چیز پر ترجیح دی چنانچہ یھی وجہ تھی کہ آپ ھر سال کچھ عرصہ جبل نور اور ”غار حرا“ میں تنھا رہ کر عبادت خداوندی میں گزارتے تھے۔

 

جناب امیر المومنین حضرت علی (ع) اس سلسلے میں فرماتے ھیں:

 

و لقد کان مجاور فی کل سنة بحراء فاٴراہ و لایراہ غیری۔

 

رسول خدا ھر سال کچھ عرصے کے لئے غار حراء میں قیام فرماتے اس وقت میں ھی انھیں دیکھتا میرے علاوہ انھیں کوئی نھیں دیکھتا تھا۔

 

پیغمبر اکرم (ص) کے آباء و اجداد سب ھی موحد تھے اور سب ان آلودگیوں سے محفوظ تھے جن میں پوری قوم ڈوبی ھوئی تھی۔

 

اس بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ھیں:

 

شیعہ امامیہ کا اس بات پر اتفاق ھے کہ رسول خدا کے والدین، آباء و اجداد مسلمان ھی نھیں بلکہ سب ھی صدیقین تھے، وہ یا تو نبی مرسل تھے یا معصوم اوصیاء ، ان میں سے بعض تقیہ کی وجہ سے یا مذھبی مصلحتوں کی بناء پر اپنے دین اسلام کا اظھار نھیں کرتے تھے۔

 

رسول اکرم کا ارشاد ھے: لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الیٰ ارحام التطھیرات۔

 

میں مسلسل پاک مردوں کے صلب سے پاک عورتوں کے رحم میں منتقل ھوتا رھا۔

 

مکہ میں اسلام کی تبلیغ اور قریش کا رد عمل

 

نزول وحی

 

خداوند تعالیٰ کی عبادت و پرستش کرتے ھوئے رسول اکرم کو چالیس سال گزر چکے تھے ایک مرتبہ آپ غار حراء میں معبود حقیقی سے راز و نیاز میں مشغول تھے اس وقت اچانک حضرت جبرئیل امین آپ کے پاس آئے اور رسالت کی خوشخبری دیتے ھوئے انھوں نے وہ پھلی آیت جو خداوند تعالیٰ کی جانب سے نازل کی گئی تھی:

 

اقراٴ باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقراٴ و ربک الاکرم الذی علم بالقلم۔ علّم الانسانَ ما لم یعلم۔

 

اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو کہ جس نے انسان کو جمے ھوئے خون سے پیدا کیا ھے پڑھو کہ تمھارا پروردگار بڑا کریم ھے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ھے اور انسان کو سب کچھ سکھا دیا ھے جو وہ نھیں جانتا تھا۔

 

رسول اعظم نے جب یہ آیت مبارکہ سنی اور خداوند تعالیٰ کی جانب سے پیغمبری کی خوشخبری ملی نیز آپ نے مقام کبریائی کی عظمت و شان کا مشاھدہ کیا تو اس نعمت عظمیٰ کو حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے وجود مبارک میں مسرت و شادمانی محسوس کی چنانچہ آپ غار سے باھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ کے گھر کی جانب روانہ ھو گئے۔

 

راستے میں جتنی پھاڑیاں اور چٹانیں تھیں وہ سب قدرت حق سے گویا ھو گئی تھیں اور پیغمبر خدا کے ساتھ باادب و احترام پیش آرھی تھیں اور ”السلام علیک یا نبی اللہ''کھہ کر آپ سے مخاطب ھو رھی تھیں۔شیعہ محدثین اور مورخین کے نظریئے کی رو سے واقعہ (عام الفیل) کے چالیس سال گزر جانے کے بعد رسول پر ۲۷/رجب کو پھلی وحی نازل ھوئی۔

 

Comments powered by CComment