رسول خدا غار حراء سے گھر تشریف لے گئے اور آپ نے نبوت کا اعلان کردیا، سب سے پھلے آپ کے چچا زاد بھائی حضرت علی (ع) اور عورتوں میں آپ کی زوجہ مطھرہ حضرت خدیجہ نے آپ کے پیغمبر ھونے کی تصدیق کی، اھل سنت میں کے اکثر و بیشتر مورخین بھی اس بات پر متفق ھیں۔
اس سلسلے میں چند روایات ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ پیغمبر اکرم (ص)
ھذا اوّل من آمن بی و صدقنی و صلیّٰ معی۔
علی پھلے شخص ھیں جس نے تصدیق کی اور میرے ساتھ نماز ادا کی۔
۲۔ پیغمبر اکرم (ص)
او لکم وارداً علی الحوض اوّلکم اسلاماً علی ابن ابی طالب۔
علی (ع) پھلے شخص ھیں جو سب سے پھلے حوض کوثر کے کنارے مجہ سے ملاقات کریں گے، اور سابق الاسلام ھیں۔
۳۔ حضرت علی (ع)
اللّٰھمّ انی اوّل من اناب و سمع و اجاب لم یسبقنی الا رسول اللہ (ص)
بار الھا! میں پھلا شخص ھوں جو دین کی طرف آیا اسے سنا اور قبول کیا پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی شخص نے نماز میں مجہ پر سبقت نھیں کی۔
دعوت کا آغاز
رسول اکرم غار حراء سے نکل کر جب گھر میں داخل ھوئے تو آپ نے بستر پر آرام فرمایا، ابھی اسلام کے مستقبل اور دین کے بارے میں سوچ ھی رھے تھے کہ سورہ مدثر نازل ھوئی اور رسول خدا کو اٹھ کھڑے ھونے اور ڈرانے پر مقرر کیا، چنانچہ اس طرح پیغمبر اکرم نے دعوت حق کا آغاز کیا اس دعوت کے تین مرحلے تھے:
الف: پوشیدہ دعوت
دعوتِ حق کے اس مرحلے کی مدت مورخین نے تین سے پانچ سال لکھی ھے مشرکین کی سازش سے محفوظ رھنے کے لئے رسول اکرم نے یہ فیصلہ کیا کہ عوام کی جانب توجہ دینے کے بجائے لوگوں کو فرداً فرداً دعوتِ حق کے لئے تیار کریں اور پوشیدہ طور پر باصلاحیت لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے سامنے دین الٰھی پیش کریں، چنانچہ آپ کی جد و جھد سے چند لوگ آئین توحید کی جانب آگئے مگر ان کی ھمیشہ یھی کوشش رھی کہ اپنے دین کو مشرکین سے پوشیدہ رکھیں اور فرائض عبادت کو لوگوں کی نظروں سے دور رہ کر انجام دیں۔
جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ھوا اور تیس تک پھونچ گئی تو رسول خدا(ص) نے ارقم کے گھر کو جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا تبلیغ اسلام اورپرستش خداوند تعالیٰ کا مرکز قرار دیا آپ اس گھر میں ایک ماہ تک تشریف فرما رھے اب مسلمانوں کی تعداد چالیس تک تھی۔
قریش کا رد عمل
اگر چہ قریش کو کم و بیش علم تھا کہ رسول خدا کی پوشیدہ طور پر دعوت دین حق جاری ھے لیکن انھیں اس تحریک کی گھرائی سے واقفیت نہ تھی اس لئے انھوں نے کسی رد عمل کا اظھار نہ کیا کیونکہ اس سے انھیں کسی خطرہ کا اندیشہ نھیں تھا، مگر اس کے ساتھ ھی وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول سے بھی بے خبر نہ تھے چنانچہ وہ ان واقعات کی کیفیت بھی ایک دوسرے سے بیان کردیتے تھے، رسول خدا نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور اس عرصے میں آپ نے (حزب اللہ) جماعت حق کی داغ بیل ڈال دی۔
ب: عزیز و اقرباء
دعوت کا یہ مرحلہ اس آیہٴ مبارکہ کے نزول کے ساتھ شروع ھوا:
و اٴنذِر عشیرتک الاقربین۔
اپنے رشتہ داروں کو عذاب الٰھی سے ڈرائیے
پیغمبر اکرم نے حضرت علی (ع) کو اس کام پر مقرر کیا کہ آپ (ع) کھانے کا انتظام کریں اور آنحضرت کے عزیز و اقارب کو کھانے پر بلائیں تاکہ ان تک خداوند تعالیٰ کا پیغام پھونچا دیں۔
تقریباً چالیس یا پینتالیس آدمی آپ کے دسترخوان پر جمع ھوئے، رسول خدا چاھتے تھے کہ لوگوں سے گفتگو کریں مگر ابولھب نے غیر متعلقہ باتیں شروع کرکے اور آپ پر سحر و جادوگری کا الزام لگا کر محفل کو ایسا درھم برھم کیا کہ اس میں اصل مسئلہ کو پیش نہ کیا جاسکا۔
اگلے روز آپ نے دوبارہ لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا جب لوگ کھانے سے فارغ ھوگئے تو رسول خدا اپنی جگہ سے اٹھے اور تقریر کے دوران فرمایا:
اے عبد المطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے عرب میں ایک بھی ایسا جوان نظر نھیں آتا کہ وہ اس سے بھتر چیز لے کر آیا ھو جو میں اپنی قوم کے لئے لے کر آیا ھوں، میں تمھارے لئے دنیا اور آخرت کی خیر (بھلائی) لے کر آیا ھوں، خداوند تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ھے کہ میں تمھیں اس کی طرف دعوت دوں، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ تمھارے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین بن سکے۔
فاٴیکم یوازرنی علی ھذا الامر علی ان یکون اخی و وصیی و خلیفتی؟
رسول خدا نے تین مرتبہ اپنی بات دھرائی اور ھر مرتبہ حضرت علی (ع) ھی نے اٹھ کر اعلان کیا کہ میں آپ کی مدد و پشتیبانی کروں گا، اس پر رسول خدا نے فرمایا:
انّا ھذا اخی و وصیی و خلیفتی فیکم فاسمعوا لہ اطیعوا
یہ ۔علی۔ تمھارے درمیان میرے بھائی، وصی اور خلیفہ ھیں ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔
اس مجلس میں رسول خدا نے جو تقریر کی اس سے مسئلہٴ امامت کی اھمیت واضح ھوجاتی ھے اور یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ اصل (نبوت) کو (امامت) سے جدا نھیں کیا جاسکتا۔
عزیز و اقارب کو ھی کیوں پھلے دعوت حق دی گئی؟
مندرجہ بالا سوال کے جواب میں کھا جاسکتا ھے کہ دعوت عمومی سے قبل عقل و دانش کی رو سے عزیز و اقارب کوھی دعوت دی جانی چاھئے کیونکہ امر واقعی یہ ھے کہ رسول خدا کا یہ اقدام انتھائی حساس مرحلے اور خطرناک حالات میں دعوت حق کی بنیادوں کو استوار کرنے کا بھترین ذریعہ تھا۔
کیونکہ:
۱۔ عزیز و اقارب کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرکے ھی پیغمبر اکرم (ص) دشمنان اسلام کے خلاف طاقتور دفاعی محاذ قائم کرسکتے تھے، اس کا کم از کم اتنا فائدہ تو تھا ھی کہ اگر ان کے دل آپ کے دین کی طرف متوجہ نہ بھی ھوئے تو بھی وہ رشتہ داری اور قرابت کی بناپر آنحضرت کے تحفظ و دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ھوں گے۔
۲۔ رسول اللہ نے کوتاھیوں ور اپنی ذات میں تنظیمی قوت کا خوب اندازہ لگایا اور یہ جان لیا تھا کہ وہ کون سی طاقتیں ھیں جو آپ کی مخالفت کریں گی اور آپ سے برسر پیکار ھوں گی۔
ج: عام دعوتِ حق
رسول خدا نے اس آیت فاصدع بما توٴمر و اعرض عن المشرکین انّا کفیناک۔ جس کا آپ کو علم دیا جارھا ھے اسے کھلم کھلا بیان کرو اور مشرکین کی پروا نہ کرو تمھارا مذاق اڑانے والوں کے لئے ھم کافی ھیں۔
آپ کو اس کام پر مقرر کیا گیا کہ سب کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں، چنانچہ اس مقصد کی خاطر آپ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور اس جم غفیر کے سامنے جو اس وقت وھاں موجود تھا آپ نے اس تمھید کے ساتھ تقریر شروع کی کھ:
اگر میں یہ کھوں کہ اس پھاڑ کے پیچھے تمھاری گھات میں دشمن بیٹھا ھوا ھے اور تمھارے لئے اس کا وجود سخت خطرے کا باعث ھے تو کیا تم میری بات کا یقین کروگے؟
سب نے یک زبان ھوکر کھا کہ ھاں ھم آپ کی بات کا یقین کریں گے کیونکہ ھم نے آپ کی زبان سے اب تک کوئی جھوٹی بات نھیں سنی ھے اس کے بعد آپ نے فرمایا:
فانی نذیر لکم بین یدی عذاب شدید۔
(اب جب کہ تم میری راست گوئی کی تصدیق کردی ھے تو میں تمھیں بھت ھی سخت عذاب سے آگاہ و باخبر کر رھا ھوں)
رسول خدا کی یہ بات سن کر ابولھب بول اٹھا اور کھنے لگا:
وائے تیرے حال پر کیا تونے یھی بات کھنے کے لئے ھمیں یھاں جمع کیا تھا؟
خداوند تعالیٰ نے اس گستاخ کی تنبیہ اور اس کے چھرے سے کینہ توزی کی نقاب کو دور کرنے کے لئے سورۂ ابولھب نازل فرمایا:
تبت یدا ابی لھب و تب ما اغنیٰ عنہ مالہ و ما کسب سیصلیٰ ناراً ذات لھب و امراتہ حمالة الحطب فی جیدھا حبل من مسد۔
ابولھب کے ھاتہ ٹوٹ جائیں نہ اس کا مال اس کے کام آیاا ور نہ کمایا ھوا عنقریب اسے آگ میں ڈالا جائے گا اور اس کی بیوی لکڑی ڈھونے والی کو جس کے گلے میں بندھی ھوئی رسی ھے۔
قریش کا رد عمل
پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت کی خبر جیسے ھی مکہ کی فضا میں گونجی ویسے ھی قریش کے اعتراضات شروع ھوگئے، چنانچہ جب انھیں یہ محسوس ھوا کہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا ھے اور ان کے خس و خاشاک جیسے دینی عقائد اور مادی مفاد کے لئے خطرہ ھے تو انھوں نے آپ کے پیش کردہ آسمانی دین و آئین کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی ھم یھاں ان کی بعض وحشیانہ حرکات کا ذکر کر رھے ھیں:
الف: مذاکرہ
مشرکین قریش کی شروع میں تو یھی کوشش رھی کہ وہ حضرت ابوطالب اور بنی ھاشم کے مقابلہ میں نہ آئیں بلکہ انھیں مجبور کریں کہ وہ پیغمبر اکرم (ص) کی حمایت و پشت پناھی سے دست بردار ھوجائیں تاکہ وہ آسانی سے رسول اکرم کے مشن کو ناکام بناسکیں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے انھوں نے پھلے تو یہ کوشش کی کہ حضرت ابوطالب کو یہ کھنے پر مجبور کردیں کہ ان کے بھتیجے کی تحریک نہ صرف ان (مشرکین قریش) کے لئے ضرر رساں ھے بلکہ قوم و برادری میں انھیں جو عزت و حیثیت حاصل ھے اس کے لئے بھی خطرہ پیدا ھوگیا ھے۔
مشرکین قریش نے عمار بن ولید بن مغیرہ ایسے خوبرو، تنومند اور وجیہ و جمیل جوان شاعر کو حضرت ابوطالب کی فرزندی میں دینے کی کوشش کی تاکہ پیغمبر اکرم (ص) کی حمایت سے دست بردار ھوجائیں ور آپ کو ان کے حوالے کردیں۔
حضرت ابوطالب نے ان کی ھر بات کا نفی میںجواب دیا ور اس کام کے لئے کسی بھی شرط پر آمادہ نہ ھوئے کہ رسول خدا کی حمایت سے دست بردار ھوجائیں۔
ب: لالچ
سرداران قریش کو جب پھلے ھی مرحلے میں شکست و ناکامی ھوئی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ چراغ نبوت کو خاموش کرنے کے لئے داعی حق کو مال و دولت کی لالچ دی جائے، چنانچہ اس مقصد کے تحت پھلے وہ حضرت ابوطالب کے پاس پھونچے اور یہ شکوہ و شکایت کرتے ھوئے کہ ان کے بھتیجے (حضرت محمد) نے ان کے دےوتاوٴں کے خلاف جو رویہ اختیار کیا ھے وہ بھت ھی نازیبا ھے، لھٰذا اگر حضرت محمد (ص) ھمارے دیوتاوٴں سے دستکش ھوجائیں تو ھم انھیں دولت سے مالا مال کردیں گے، ان کی اس پیشکش کے بارے میں رسول خدا (ص) نے جواب دیا:
خداوند متعال نے مجھے دنیا اور زراندوزی کے لئے انتخاب نھیں فرمایا ھے بلکہ مجھے اس لئے منتخب کیا ھے کہ لوگوں کو اس کی جانب آنے کی دعوت دوں اور اس مقصد کی طرف ان کی رھبری کروں۔
یہ بات آپ نے دوسری جگہ ان الفاظ میں فرمائی ھے:
چچا جان! خدا کی قسم اگر وہ سورج کو میرے داھنے ھاتہ اور چاند کو بائیں ھاتہ میں رکہ دیں تو بھی میں نبوت سے دست بردار ھونے والا نھیں، اس خدائی تحریک کو فروغ دینے کے لئے میں جان کی بازی تو لگا سکتا ھوں مگر اس سے دستکش ھونے کے لئے تیار نھیں ھوں۔ (۳)
سرداران قریش نے اگلے مرحلے پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ براہ راست پیغمبر اکرم (ص) سے گفتگو کریں گے، چنانچہ اس مقصد کے تحت انھوں نے اپنا نمائندہ آپ کی خدمت میں روانہ کیا، اور آپ کو اپنے مجمع میں آنے کی دعوت دی، جب رسول خدا ان لوگوں میں پھونچ گئے تو کفار قریش نے آپ کے رویّہ کی شکایت کرتے ھوئے کھا کہ اگر آپ کو مال و دولت کی تمنا ھے تو ھم اتنا مال و متاع دینے کے لئے تیار ھیں کہ آپ دولتمندوں میں سب سے زیادہ مالدار ھوجائیں، اگر آپ کو جاہ و امارت کی خواھش ھے تو ھم آپ کو اپنا امیر و سردار بنانے کے لئے تیار ھیں، اور ایسے مطیع و فرمانبردار بن کر رھیں گے کہ آپ کی اجازت کے بغیر معمولی سا بھی کام نہ کریں گے اور اگر آپ کے دل میں حکومت اور سلطنت کی آرزو ھے تو ھم آپ کو اپنا حکمراں و فرمانروا تسلیم کرنے کے لئے آمادہ ھیں۔
Comments powered by CComment