مقدمہ
نھج البلاغہ علوم و معارف کا وہ سرمایہ ہے کہ جس کی عظمت و اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے اور ہر زمانہ کے علماء و ادباء نے اس کی عظمت و بلندی کا اعتراف کیا ہے ۔ نھج البلاغہ صرف ادبی شاہکار ہی نہیں بلکہ و اخلاق کا سرچشمہ اور ایمان و حقائق کے معارف کا خزینہ ہے یہ وہ کتاب ہے جس میں وحی الہی کی خوشبو اور کلام نبوی کی شمیم کو محسوس کیا جاسکتا ہے یہ کتاب وحی الہی کے انقطاع کے بعد یقین و اطمنان کے لحاظ سے علم و حکمت کی جیتی جاگتی تصویر ہے جس میں حکمت آمیز و پند و نصیحت کے گوہر شاھوار موجود ہیں جو تعلیم و تزکیہ میں ہم دوش قرآن ہے جس پر عمل پیرائی دین و دنیا کی سعادت ہے ۔ نھج البلاغہ میں مندرجہ ذیل خطبات و مکتوبات میں دوچار خطبوں اور ایک آدھہ خط کے علاوہ تمام تحریریں اس دور کی ہیں کہ جب آپ ظاہری خلافت پر قابض ہوئے جبکہ اقتدار و حکومت کے لالچی افراد اور شورش پسندوں نے خون عثمان کو ھوا دیکر آپ کو لڑائیوں میں الجھائے رکھنا ہی اپنا مقصد سمجھ رکھا تھا مگر شیعوں کی جنھکار اور گھمسان لڑائیوں میں بھی آپ حکمت آمیز اشارے اور ذھنی انتشار کے ہجوم میں ہدایت و تربیت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔
نھج البلاغہ میں معانی و بیان کی مناسبتیں تشبیہ و استعارہ کی لطافتیں فلسفہ و حکمت کے حقائق اور الہیات کے دقیق مسائل فصاحت و بلاغت کا نقطہ ارتقاء طرزادا کی لطافتیں و جامع دستور حکومت مختصر جملے اور ضرب المثلیں اخلاقی شائستگی خود اعتمادی کلام کی قوت و لطافت ہر اہل ذوق و فن کو اپنی طرف کھیچتے ہوئے کون ادیب فی البلدی ایسے خطبات دے سکتا ہے کون عارف مختصر حکمت آمیز کلمات کو بیان کرسکتا ہے کون حاکم ہے جو سیاست و مدیریت کے عمیق پہلوں کو بیان کرسکے علامہ سید رضی (رح) کا دنیائے علم و ادب پر بڑا احسان ہے کہ ان جواہر ریزوں کو بڑی کدوکاوش و تحقیق و جستحو سے جمع کیا اور اس کا نام نھج البلاغہ رکھا ۔
اس کتاب میں ۲۳۹ خطبات اور ۷۹ مکتوبات و ۴۸٠ حکمت آمیز کلمات قصار ہیں سید رضی (رح ) نے مندرجات نھج البلاغہ کے اسناد و مدارک کو اس لئے ذکر نہیں کیا کہ اس زمانے میں یہ مندرجات اس قدر مشہور و معروف تھے کہ اس کے مصادر کے ذکر کا احساس ہی نہ تھا اگر چہ چند قرن کے بعد بہت سے منابع متعصب وعناد پرست افراد کے ہاتھوں نذر آتش ہوگئے لذا بہت سے متجر علم و دانش نے مصادر نھج البلاغہ کو جمع کیا ۔
انگیزہ تالیف
میں نے عالم جوان میں خصائص الائمہ تالیف کی جو آئمہ اطہار (ع) کی نورانی زندگی اور قیمتی ارشادات پر مشتمل تھی یہ کتاب چند فصلوں پر مشتمل تھی اور آخری فصل میں چند مختصر کلمات کو رقم طراز کیا جسے بہت سے دوستوں نے پسند کیا اور ان کلمات کے بے نظیر نکات سے محو حیرت ہوگئے ان لوگوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ ایسی کتاب تالیف کریں جو مولائے کائنات علی ابن ابی طالب (ع) کے ارشادات و کلمات پر مشتمل ہو میں جانتا تھا اس میں بڑی کدو کاوش کی ضرورت ہے اور میں نے اس کام کو اس لئے شروع کیا کہ آنحضرت کے تمام فضائل و مناقب کے علاوہ آپ کی فن سخنوری و خطابت کو لوگوں کے سامنے آشکار کروں کیوں کہ یہی ذات وہ نقطہ کمال ہے جو فصاحت و بلاغت و خطابت کے کے تاجدار ہیں (۱)
اس وقت بڑے بڑے علماء و ادباء و خطباء و محدثین اہل سنت موجود تھے اور بغداد ہی جم غفیر تھا ۔
نھج البلاغہ بعض متعصبین کی نگاہ میں :
علامہ سید رضی کے بعد تقریبا دو ڈھائی سو برس تک نھج البلاغہ کے خلاف کوئی آواز اٹھتے ہوئے نظر نہیں آئی ہے بلکہ متعدد اہل سنت نے اس کی شرحیں لکھی ہیں جیسے ابوالحسن علی ابن ابی القاسم بیھقی متوفی ۵۶۵ ھ امام فخرا الدین متوفی ۶٠۶ ابن ابی الحدید معتزلی متوفی ۶۵۵ و علامہ سعد الدین تفتازانی وغیرہ ۔ ۔ ۔ انھیں شرحوں کے نتیجہ میں عوام نھج البلاغہ سے آشنا ہوئی ہے اور یہ بات قابل لحاظ ہے کہ نھج البلاغہ کے بارے میں تعصبی آواز نھج البلاغہ کے مرکز تالیف یعنی بغداد یا عراق کے کسی شھر سے بلند نہ ہوئی بلکہ مغربی مملکت جہاں بنی امیہ کی سلطنت تھی وہاں ابن خلکان مغربی کی زبان سے یہ آواز بلند ہوئی کہ( قدامت اختلف الناس فی کتاب نھج البلاغہ المجموعة من کلام علی ابن ابی طالب ھل ھو جمعہ اواخوہ سید رضی و قیل انہ لیس من کلام علی ابن ابی طالب و انما الذی جمعہ و نسبہ الیہ ھو الذی و ضعہ واللہ اعلم )
ابن خلکان متوفی ۶۸۱ ھ سید مرتضی کے حالات میں لکھتا ہے لوگوں نے اس سلسلے میں اختلاف کیا ہے کہ نھج البلاغہ جو علی ابن ابی طالب (ع) کے کلام کا مجموعہ ہے اس کا جامع کون ہے آیا اسے سید مرتضی نے جمع کیا یا ان کے بھائی سید رضی نے اور قول قیل ہے کہ یہ علی ابن ابی طالب (ع) کا کلام نہیں ہے بلکہ جنھیں اس کا جامع سجمھا جاتا ہے وہی اس کے مصنف ہیں واللہ اعلم :
ڈوبتےکو تنکے کا سہارا کافی ہوتا ہے لذا ابن خلکان سے بڑھ چڑھ کر دیگر متعصب افراد کو یہ ہمت پیدا ہوئی کہ بغیر کسی قیل و قال کے نھج البلاغہ کے کلام امیر المومین (ع) ہونے کا انکار کرنے لگے جیسے سید مرتضی کے حالات میں ذھبی متوفی ۷۴۸ ھ لکھا تن طالع کتابہ نھج البلاغہ جزم با انہ مکذوب علی امیرالمومین فقیہ السب الصریح بل حط علی السدین ابی بکر و عمر :
اگر کوئی کتاب نھج البلاغہ کا مطالع کرے تو اسے یقین ہو جائے گا کہ یہ کلام امیر المومنین (ع) کا نہیں ہے کیونکہ اس میں کھلم کھلا اظہار بیزاری اور شخین کی تنقیص ہے
اس تعصبی انداز پر تعجب ہے کہ پہلے اسے سید مرتضی کا کارنامہ قرار دیتا ہے اور پھر یکسرہ یقینی حالت میں اظہار کرتا ہے کہ امیر المومنین (ع) کی طرف اس کتاب و کلام کی نسبت جھوٹی ہے اور ساتھ ہی ساتھ دلیل بھی دیتا ہے کہ اسمیں کوئی ایسی عینک مل گئی جو ان سے پہلے کسی کے پاس نہ تھی کا علمی دنیا میں دوسرداروں کی تنقیص کی وجہ سے یقینی نسبت کو جھوٹ کہنے کی قیمت ہے یہ تو بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے قرآن کے نازل ہونے کے بعد مشرکین کا ایک طبقہ الہی ہونے کا اس لئے انکار کرے کہ اس میں اللہ کی مذمت و تنقیص ہے ۔
کاش حقیقت کو حقیقت کے اعتبار سے دیکھتے نہ کہ جذبات کے لحاظ سے مگر ان کا طرہ امتیاز ہی یہ ہے کہ وہ ہر قانون شریعت کو جذبات کے تحت دیکھتے ہیں ۔
مناظرہ کے میدان کا سب سے آسان ہتھیار بن گیا کہ جب نھج البلاغہ کا کوئی کلام بطور دلیل پیش ہو تو اس کا یہ کہکر انکار کر دیا جائے کہ یہ امیر المومنین کا کلام نہیں ہے ۔
انھیں کی پیروی کرتے ہوئے علامہ یا فعی متوفی ۷۶۸ ھ و ابن العمار متوفی ۸٠۸ ابن حجر عقلان متوفی ۸۵۲ ھ نے بغیر کسی تحقیق کے یہ کہہ ڈالا کہ یہ کتاب سید رضی کی تصنیف ہے یا سید مرتضی کی ہے ۔
علامہ سید ذیشان حیدر جوادی نے اپنی مترجمہ نھج البلاغہ کے مقدمہ میں تقریبا اکسٹھ ایسی کتابوں کے حوالے دیئے ہیں کہ جو خطبات وفرامین امیر المومنین (ع) کے حوالے سے سید رضی کی ولادت سے سالہا سال پہلے لکھی گئی ہیں اس موقع پر وہ تحریر کرتے ہیں کیا اس کا بھی امکان ہے کہ انسان دنیا میں آنے سے پہلے اپنے کلمات مولفین کے اذہان تک منتقل کردے ایسا ہوسکتا ہے تو یہ سید رضی کے معجزات میں شمار ہوگا جس کا اسلامی دنیا میں کوئی امکان نہیں پایا جاتا ہے ۔
ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ بعض ہوس پرستوں کا یہ گمان ہے کہ نجھ البلاغہ کا عمدہ حصہ بعض شیعوں کا گڑھا ہوا کلام ہے اور بہت سے لوگ اس کے بعض حصوں کو سید رضی اور بعض دوسرے افراد کی طرف سے گڑھا ہوا تصور کرتے ہیں لیکن یہ لوگ اس قدر متعصب ہیں کہ تعصب کی وجہ سے ان کے دل کی آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں اور وہ سیدھے راستہ سے منحرف ہوگئے ہیں اور قلت معرفت و میزان کلان سے نہ آشنا ہونے کی وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوگئے ہیں (۲)
سید رضی نے اپنی کتاب المجازات النبویة کے ان صفحوں ص۳۸۷ ۔ ص ۲۴۷ ۔ ص ۱۹۵ ۔ ص ۳۶ ۔ ص ۳۵ ۔ پر وضاحت کی ہے کہ نھج البلاغہ کو میں نے جمع کیا ہے اسی طرح اپنی کتاب حقایق التاویل ص ۲۸۷ ۔ پر اور خصائص الائمہ کے دیباچہ میں بھی اسی مطلب کو تحریر کیا ہے ۔ اور اہل سنت کے مصنف مزاج و حقیقت شناس علماء و ادباء و حفاظ نے نھج البلاغہ کے مندرجات کو کلام امیرالمومنین مانتے رہے ہیں اور اس کا اظہار کرتے رہے ہیں اور شرحیں و مصادر نھج البلاغہ بھی رقمطراز کی ہیں ۔
نھج البلاغہ علماء اھل سنت کی نگاہ میں :
۱) علامہ البو حامد عبد الحمید ابن ھبة اللہ معروف بہ ابن الحدید مدائنی بغدادی متوفی ۶۵۵ نے نھج البلاغہ کی مبسوط شرح لکھی ہے وہ حضرت امیرکے فضائل ذاتیہ میں فصاحت کے ذیل میں لکھتے ہیں ۔
(اما الفصاحة فھو امام الفصحاء و سید البلغاء و عن کلامہ قیل دون الخالق و فوق کلام المخلوق و عنہ تعلم الناس الخطابة و الکتابة )
آپ کی فصاحت فحاء کے امام اور بلغاء کے سردار آپ ہی کے کلام کے لئے کہا گیا ہے کہ خالق کے کلام سے نیچا اور کلام مخلوق سے بالا ہے اور آپ ہی دنیائے علم نے خطابت وکتابت سیکھی ہے ۔
۲) علامہ سعد الدین تفتازانی متوفی سنہ ۷۹۱ ھ شرح مقاصد میں لکھتے ہیں و اذا فصھھم لسانا علی ما یشھد بہ کتاب نھج البلاغہ : امیرالمومنین (ع) سب سے زیادہ فصیح اللسان تھے جس کی گواھی کتاب نھج البلاغہ کی صورت میں موجود ہے ۔
۳) علامہ علاء الدین قوشجی متوفی ۸۷۵ ھ شرح التجرید میں قول محقق طوسی افصحھم لسان کی شرح میں لکھتے ہیں علی مایشھد بہ کتاب نھج البلاغہ وقال البلغاء ان کلامہ دون کلام الخالق و فوق کلام المخلوق افصح اللسان پر کتاب نھج البلاغہ گواہ ہے اور بلغاء کا کہنا ہے کہ آنحضرت کا کلام خالق کے کلام سے نیچا اور کلام مخلوق سے بالا ہے ۔
۴) محمد بن علی طباطبا معروف بہ ابن طقطقی اپنی کتاب تاریخ الفخری فی الادب السلطانیہ والدول الاسلامیہ مطبوعہ مصر ص ۹ پر لکھتے ہیں عدل ناس الی نھج البلاغہ من کلام امیر المومنین علی ابن ابی طالب فانہ الکتاب الذی یتعلم منہ و الموعظ و الخطب و التوحید و الشجاعة و الفرھد و علوالھمة و ادنی فوائد الفصاحة و البلاغة : )
بہت سے لوگوں نے نھج البلاغہ کی طرف توجہ کی جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب (ع) کے کلام پر مشتمل ہے اسی کتاب سے حکم و مواعظ توحید و شجاعت و زھد بلند ہمتی کا درس حاصل کیا جاسکتا ہے اور اس کتاب کا سب سے مختصر فائدہ فصاحة و بلاغت ہے :
۵) ابن ابی الحدید کہتا ہے کہ اگر عرب کے تمام فصحاء کو جمع کیا جائے اور کلمات امام کو باالخصوص خطبہ نمبر ۲۲۱ کی تلاوت کی جائے تو بہتر یہ ہے کہ سب اس کلام کے سامنے سجدہ ریز ہو جس طرح آیات سجدہ قرآنی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں (۳)
۶) عبد الحمید یحیی جو فن خطابت و کتابت میں عربوں کے درمیان ضرب المثل تھا اس سے پوچھا گیا کہ فصاحت و بلاغت کے اس مرتبہ تک کے پہونچنے تو اس نے جواب دیا حفظ کلام الاصطع ) اصلع یعنی جس کے سر کے اگلے حصے کا بال چھڑ گیا ہو ۔
اس ضمیر فروش نے مولا کا نام اس لئے نہیں لیا کہ مروان بن محمد آخری اموی خلیفہ کے دربار کا کاتب تھا ۔
۷) حافظ متوفی ۲۵۵ ھ کہتا ہے علی کرم اللہ وجھہ رسول خدا (ص) کے بعد سب سے زیادہ فصیح و دانشمند و زاھد تھے امور شریعت و حق میں سختگیر اور پیامبر (ص) کے بعد بطور مطلق خطبائے عرب کے امام جانے جاتے تھے ۔ (۴)
۸) علامہ احمد بن منصور کا زردنی اپنی کتاب مفتاح الفتوح میں امیر المومنین (ع) کے حالات میں لکھتے ہیں ( ومن تامل فی کلامہ و کتبہ و خطبہ و رسالاتہ علم لا یوازی علم احمد و فضائل لا تشاکل فضائل احد بعد رسول اللہ و من جملتھا کتاب نھج البلاغہ ) جو بھی امیر المومنین (ع) علی ابن ابی طالب کے کلام و خطوط و خطبوں و رسالوں پر غور و فکر کرے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ رسول اسلام (ص) کے بعد کوئی بھی علم و فضائل علی ابن ابی طالب (ع) کے برابر نہیں ہے ۔ اور انھیں میں سے کتاب نھج البلاغہ ہے ۔
۹) مفتی دیار مصر یہ علامہ شیخ محمد عبدہ متوفی ۱۳۳۲ ھ اپنی شرح کے مقدمہ میں کہتے ہیں کہ نھج البلاغہ کے اثناء مطالعہ مجھے ایسا تصور ہورہا تھا کہ جیسے لڑائیاں چھڑی ہوئی ہیں نبرد آزمائیاں ہورہی ہیں بلاغت کا زور ہے اور فصاحت پوری طاقت سے حملہ ور ہے تو ھمات شکست کھارہے شکوک و شبھات پیچھے ہٹ رہے ہیں خطابت کے لشکر صف بستہ ہیں طاقت لسان کی فوجیں شمشیر زن اور نیزہ بازی میں مصروف ہیں وسوسوں کا خون بہایا جارہا ہے تو ھمات کی لاشیں گررہی ہیں اور یکدفہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بس حق غالب آگیا اور باطل ہار گیا تصورات باطل کا زور ختم ہوگیا اور اس فتح و نصرت کا سہرا اسد اللہ غالب علی ابن ابی طالب (ع) کے سر ہے ۔ (نقل از مقدمہ نھج البلاغہ مفتی جعفر صاحب اردو )
۱٠) حجتة الاسلام آقای مروی نے حجة الاسلام والمسلمین خطیب توانا آقای فلسفی کی سالگرد و رحلت پہ ایک واقعہ بیان کیا جسے آیة اللہ جواد مغنیہ نے اپنی کسی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ ہر سال شب غدیر ملک لبنان میں شیعہ و سنی مل کر ایک محفل منعقد کرتے تھے اور مشہور و معروف خطیبوں میں ایک خطیب کو دعوت دیتے تھے ایک سال مصر کے بہت مشہور خطیب امیر شکیب کو دعوت دی ناظم محفل نے جب برنامہ کا اعلان کرنا شروع کیا تو خطیب کا اعلان اس طرح کیا ( ألاتسمعون کلمتہ من الامیر شکیب انھی سمی الامیر لأنہ شبیہ بالامیر بیانا ) اے لوگوں ابھی امیر شکیب رونق افروز منبر ہونگے اور سنوار انھیں امیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ امیر المومنین کے بیان سے شباھت رکھتے ہیں اس اعلان کو سنتے ہی غضب شکیب ( من ھذا التشبیہ ) اس تشبیہ کو سنتے ہی امیر شکیب کی پیشانی پر بل پڑگئے اور جب منبر پر پہونچے تو بغیر بسم اللہ کہے یہ جملے کہے جب سے میں پیدا ہوا ہوں مجھے کسی نے اتنا شرمندہ نہ کیا جتنا آج اور یہ کہ واللہ ان کل ما فی الارض عد اللہ و الرسول لا یشبہ غبار الذی علی حافر فرس علی ابن ابی طالب خدا کی قسم اس کائنات ہست و بود کی تمام اشیاء کو امیر المومنین کے سوار کی ٹاپوں تلے ذات سے بھی تشبیہ نہیں دے سکتے ۔
المختصر یہ ہے کہ نھج البلاغہ پر انگلی اٹھانے والے انگشت بے شمار ہیں اور عظمت نھج البلاغہ کے معترفین کی تعداد بہت زیادہ ہیں ۔
نھج البلاغہ کی عظمت غیر مسلموں کی نگاہ میں :
۱) علامہ مرحوم سید ھبة الدین شھرستانی اپنی کتاب موھو نھج البلاغہ میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے مسیحی دانشور امین نحلة سے درخواست کی کہ حضرت علی کے کلمات میں چند کلمات کو چنیں اور انھیں کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو اس میں مسیحی دانشمند نے اس طرح جواب دیا کہ مجھے مجھ سے درخواست کی ہے کہ عرب کی بلیغ ترین شخصیت کے کلمات میں چند کلمات کو منتخب کروں تا کہ تم اسے چاپ کرو فضلا مجھے ایسی کتابوں کا علم نہیں ہے جو اس تقاضے کو پورا کرسکیں ۔ سوائے چند گنی چنی کتابوں کے کہ ان میں سے ایک نھج البلاغہ ہے مین خوشی کے مارے پھولا نہ سمایا اور اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو میں سمجھ ہی نہیں پارہاتھا کہ کس طرح ان کلمات میں سے سو کلمات کا انتخاب کروں اور یہ کلام بلا تشبیہ گویا یوں ہے کہ ایک یاقوت کے دانے کو دوسرے دانے کے ساتھ مقایسہ کرتا ہوا چن لو آخر اس کام کو میں نے انجام دیا اور تمہیں یقین نہ آئے گا کہ کس مشقت و سختی کے ساتھ بلاغت کی اس کان سے ایک ایک کلمہ نکالنے میں کامیاب ہوا ہوں تو مجھ سے یہ سو کلمات لے اور یہ یاد رکھ کہ یہ سو کلمات نور بلاغت کا مرکز اور شگوفہ فصاحت کے غنچے ہیں ۔
دوسری جگہ استاد امین نحلہ کہتے ہیں کہ جو بھی اپنے نفس کی بیماری کا علاج کرنا چاہتا ہے اسے چاہیئے کہ نھج البلاغہ میں امیر المومنین (ع) کے کلمات سے علاج کرے اور اسی کتاب کے سایہ میں زندگی گذارے ۔ (۵)
۲) اسی طرح مرحوم شہرستانی کتاب تنزیہ التنزیہ میں رقمطراز ہیں کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے انگریزی استاد مستعد گرینکوی ایک دن دیگر دانشمند افراد کے ساتھ ہم مجلس تھے ان سے اعجاز قرآن کے متعلق سوال کیا گیا تو اس طرح جواب دہ ہوئے کہ قرآن ایک چھوٹا بھائی جس کا نام نھج البلاغہ ہے آیا ممکن ہے کہ کوئی اس کی مثال لے آئے پھر جاکر اس کے بڑے بھائی قرآنی کے متعلق سوال اور اس کی مثال لائے جانے کے امکان پر بحث کی ضرورت محسوس ہونا چاہیئے اسی وجہ نھج البلاغہ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ مخلوق کے کلام سے بلند و بالا اور خالق کے کلام سے نیچے ۔ ( الفضل ما شھدت بہ الاعداء ) در حقیقت فضیلت تو وہ ہے کہ جس کی گواہی دشمن دے مگر افسوس صد افسوس کہ مسلمانوں نے نھج البلاغہ کی قدرنہ کی صرف شرحیں لکھی گئی جس طرح قرآن کی تفسیر با لرای سے اپنے ضمیر کو سکون دیتے رہے ہیں اسی طرح نھج البلاغہ بھی شرحوں سے اپنے خوابیدہ ضمیر کو مزید خواب خرگوش میں مبتلا کرتے رہے ہیں چونکہ یہ کتاب صرف ادبی شاھکار ہی نہیں بلکہ اسلامی دائرہ المعارف ہے جس میں راہ سعادت پہ گامزن ہونے کے لئے تمام دستورات بنحو احسن موجود ہیں :
نھج البلاغہ کی خصوصتیں :
۱) مولائے کائنات حضرت علی السلام کی عظیم و بلند شخصیت نھج البلاغہ کے لئے سبب جاودانگی ہے آنحضرت نے اپنے کلام ان تمام صفات کو پر دیا جو لوگوں کو جذب کرسکتی تھی ہر عدالت و آزاد خواہ آپ کے کلام اور آپ کا عاشق نظر آتا ہے اور خاتم المرسلین کے بعد میدان فضیلت کے شہوارکا نام علی اسی وجہ سے ان کا بیان بھی بے بدیل و بے نظیر ہے ۔
۲)فصاحت و بلاغت : خطابت پیام الہی کی تبلیغ کا ایک مٶثر و روشن طریقہ ہے کہ جس سے پیامبران الہی نے استعفادہ کیا ہے اور خود قرآن مجید بھی احسن شیوہ بیانی سے مزین ہے مولائے کائنات نے بھی اپنے بیان کو شیوہ ادبی و زیور فصاحت و بلاغت سے مزین جس کی وجہ سے مخاطبین و سامعین کو تھکاوٹ محسوس نہیں ہوسکتی نھج البلاغہ سھل ممتنع کی مالک ہے ابن ابی الحدید معتزلی شرح نھج البلاغہ ج ۶ ص ۱۴۵ پر رقمطراز ہیں کہ فصاحت کو دیکھو کیسے اس نے اپنی بھار علی کے حوالے کردی ہے اور خود زیان علی کی تابع بن گئی ہے اور الفاظ کے نظم کو دیکھو کہ کس طرح یکہ بعد دیگرے علی کرم اللہ وجھہ کے اختیار میں ہیں جیسے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ آیا کتاب سیاست ہے یا کتاب ھدایت آیا یہ کتاب فلسفی ہے یا تاریخی بلکہ مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نھج البلاغہ رشد وھدایت و سعادت اخروی و دنیوی کے تمام رموز کو رکھتی ہے شاعر و خطیب فصیح و بلیغ افراد کے علاوہ فقھاء و متکلمین و مفسرین و فلاسفہ و جامعہ شناس و اعلاء اخلاق و دیگر دانشمند حضرات نھج البلاغہ سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں ۔
زمان تالیف سے دور حاضر تک اس کی ضیاپاشیاں :
نھج البلاغہ اخلاقی تعلیمات کا سر چشمہ ہے اس کے ایک ایک فقرے میں قرآن کی روح اور اسلام کی صحیح تعلیم مضمر ہے جب تک معلم اسلام کے حکمت آمیز کلمات کے آئینہ میں اسلام کے خدو خال کو پہچاننے کی کوشش نہ کی جائے گی اس وقت تک اسلام کے بلند معیار اخلاق سے بیگانہ رہیں گے لذا اس مکرو فریب کی دنیا میں ضروری ہے کہ ماقالہ المرتضی المرتضی کی روشنی میں اسلام کے خدو خال کو پہچنوایا جائے یہ کلام علوی وہ معجزہ قولی کہ جس سے ہر زمانے میں مختلف مکتب خیال کے افراد استعفادہ کرتے رہے ہیں جس طرح قرآن پیامبر اسلام معجزہ قولی ہے اسی طرح نھج البلاغہ وصی پیامبر کا معجزہ قولی ہے اس معجزہ کے سدامنے سبھی عاجز و ناتواں نظر آتے رہے ہیں آنحضرت (ع) کے کلام کی نورانیت اتنی ہی زیادہ کہ ہر مکتب خیال کے علماء و فضلاء نے زمان تالیف سے لیکر آج تک اس کے مطالب و حقائق کو بقدر امکان واضح کرنے کے لئے شرحیں لکھی ہیں علامہ بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعہ ج ۱۴ ۔ ص ۱۱۳ ۔ پر حدودا نھج البلاغہ کی سو شرحوں کا تذکرہ کیا ہے ۔
علامہ امینی نے اپنی عظیم کتاب الغدیر ج ۴ ص ۱۸۶ پر نھج البلاغہ کی ۸۱ شرحوں کا تذکرہ کیا ہے سید عبد الزہراء خطیب نے مصادر نھج البلاغہ ج ۱ ص ۲۴۷ پر نھج البلاغہ کی ۱۴۳ شرحوں کا تذکرہ فرمایا آیة اللہ رضا استادی نے کتابنامہ نھج البلاغہ میں ۳۷٠ شرحوں و ترجموں کو لکھا ہے اتنی شرحیں و ترجمے و تعلیقات و مستدرکات اسی کتاب نھج البلاغہ سے ہی قلمبند ہوئے ہیں تبیین معارف میں شیوہ نھج البلاغہ مثل قرآن ہے ۔ نھج البلاغہ خود اپنی ضیا پاشی ہی کی وجہ سے ہر دانشمند کے لئے ایک ارزشمن کتاب ہے اور تحریف و اسرائیات بھی محفوظ ہیں چونکہ نھج البلاغہ کی علمی و ادبی اہمیت اور اس کے حقایق آگیں مضامین و اخلاق مواعظ کا وزن نا قابل انکار ہے اور فقہا و علماء اسلام کی مسلسل نظارت و تفسیر سے یہ کتاب محفوظ ہے کسی بھی کتاب کے باقی رہنے کے اسباب و علل پائے جاتے ہیں اور جس قدر اسباب و علل قوی ہونگے کتاب کی ارزش و قیمت بھی زیادہ ہوگی اور نسبت و نابودی سے بھی محفوظ رہے گی :
چند اسباب حسب ذیل ہیں :
۱) راویاں نھج البلاغہ کی کثرت
۲) حفاظ کی کثرت
۳) نھج البلاغہ کی کثرت نسخہ برداری
۴) راویوں کا تسلسل
۵) سید رضی سے پہلے دانشمندان شیعوں کی جمع آوری
۶) آثار علوی کے تحفظ میں علماء شیعہ کی ایثار گری
: انھیں اسباب و علل کی وجہ سے یہ اثر علوی محفوظ و مصون ہے انشاء اللہ تا ظہور یوسف زھراء (س) یہ کتاب چمکتی و دمکتی رہے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) حالات سید رضی : مٶلف سید محمد مھدی جعفری ص ۶۲ و ۶۳ ۔
(۲) ابن ابی الحدید ج ۱ ۔ ص ۵۴۳ ۔
(۳) بھج الصباغة ج ۱ ۔ ص ۳۲ ۔
(۴) البیان و التبیین ج ۱ ۔
(۵) عبد الزھراء ۔ مصادر نھج البلاغہ ج ۱ ص ۹۱ و ۹۲ ۔
Comments powered by CComment