حضرت علی علیہ السلام تمام صحابہ سے افضل ہیں:
ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام تمام صحابہ سے افضل تھے اور پیغمبر اسلام کے بعدپوری امت میں ان کو اولویت حاصل تھی لیکن ان سب کے باوجود، ہم ان کے بارے میں ہرطرح کے غلو کو حرام مانتے ہیں ہمارا عقیدہ ہے کہ جو حضرت علی علیہ السلام کی خدائی یااس سے مشابہ کسی دوسری چیزکے قائل ہیں وہ کافر اوراسلام سے خارج ہیں ہم ان کے عقیدے سے بیزارہیں ،افسوس کی بات ہے کہ ان کانام شیعوں کے نام کے ساتھ لیاجاتاہے جس سے بہت سی غلط فہمیاں پیداہوگئی ہیں جب کہ شیعہ امامیہ علماء نے اپنی کتابوں میں اس گروہوں کواسلام سے خارج قراردیاہے۔ اصاب عقل وتاریخ کی عدالت میں: ہماراعقیدہ ہے کہ پیغمبراسلام کے بہت سے اصحاب جانثار،عظیم مرتبہ اورمحترم تھے قرآن کریم کی آیتوں اورروایتوں میں ان کی فضیلتوں کاذکرآج بھی موجود ہے ۔ لیکن اس کامطلب یہ نہیںہے کہ پیغمبراسلام کے تمام ساتھیوں کومعصوم مان کران کے تمام اعمال کو صحیح تسلیم کرلیاجائے،کیونکہ قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں (جیسے سورہ برائت کی آیت ،سورہ نوراورسورہ منافقین کی آیتوں میں) منافقوں کے بارے میں باتیں ہوئی ہیں اوریہ منافق ظاہراپیغمبراسلام کے اصحاب شمارہوتے تھے لیکن قرآن کریم نے ان کی بہت مزمت کی ہے کچھ اصحاب ایسے بھی تھے جنہوں نے پیغمبراسلام کے بعدمسلمانوںکے درمیان جنگ کی آگ بھڑکائی،اپنے وقت کے امام اورخلیفہ سے اپنی بیعت کوتوڑااورہزاروں مسلمانوں کاخون بہایا کیاان سب کے ہوتے ہوئے بھی،ہم سب صحابہ کوہرطرح سے پاک وصاف مان سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ،جنگ کرنے والے دونوں گروہوں کوکس طرح پاک ماناجا سکتاہے (مثلاجنگ جمل وجنگ صفین کے دونوں گروہوں کوپاک نہیں ماناجاسکتا) کیونکہ دونوںکوپاک وصاف سمجھاناتضادہے اوریہ ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے وہ لوگ جواس کی توجیہ اجتہادکوموضوع بناتے ہیں اوراس پرتکیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں گروہوں میں سے ایک حق پرتھا اوردوسراباطل پر،مگرچونکہ دونوں نے اپنے اپنے اجتہادسے کام لیا، لہذااللہ کے نزدیک دونوں معذورہی نہیں بلکہ ثواب کے بھی حقدارہیں ہم اس قول قبول نہیں کرتے۔ اجتہادکوبہانہ بناکر،نہ پیغمبراسلام کے جانشین سے بیعت توڑی جاسکتی ہے،نہ جنگ کی آگ بھڑکائی جاسکتی ہے اورنہ بے گناہوں کاخون بہایاجاسکتاہے اگران تمام خون ریزیوں کی توجیہ اجتہادکے ذریعہ کی جاسکتی ہے توپھرکونسا کام بچتاہے جس کی توجیہ نہ ہوسکتی ہو؟ ہم واضح طورپرکہہ سکتے ہیں کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ دنیاکے تمام انسان یہاں تک کہ پیغمبراسلام کے اصحاب بھی اپنے اعمال کی وجہ سے اچھے یابرے ہیں۔ قرآن کریم کی کسوٹی ”ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم “ (۲)ان پربھی صادق آتی ہے یعنی تم میں اللہ کے نزدیک وہ محترم ہیں جوتقوی میں زیادہ ہیں ……………………………………………………… ۱۔ یہ رسالہ ۲۴/شوال ۱۳۹۶ہجری کورابط العلماء اسلامی کی طرف سے ”ادارت مجتمع الفقہ اسلامی“ کے مدیرمحمدالمنتصرالکتانی کے دستخط کے ساتھ چھپا۔ ۲۔ سورہ حجرات آیت ۱۳۔ لہذاہمیں اصحاب کامقام ان کے اعمال کے مطابق طے کرناچاہئے ۔اوران کے بارے میں منطقی طورپرفیصلہ لیناچاہئے لہذاہمیں کہناچاہئے کہ جوپیغمبراسلام کے زمانے میں مخلص تھے اوران کے بعدبھی اسلام کی حفاظت کی کوششیں کی اورقرآن کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کووفاکرتے رہے،انہیں اچھامانتے ہوئے ان کااحترام کرناچاہئے۔ جولوگ پیغمبراکرم کے زمانے میں منافقوں کی صف میں تھے اورہمیشہ ایسے کام انجام دیتے تھے جس سے پیغمبراسلام کادل رنجیدہ ہوتاتھا یاجنہوں نے پیغمبراسلام کے بعد اپنے راستے کوبدل دیااوراپنے کاموں سے اسلام اورمسلمانوں کونقصان پہنچایا،ایسے لوگوں سے محبت نہ کی جائے۔ قرآن کریم فرماتاہے کہ ”لاتجدواقومایومنون باللہ والیوم الآخریعہدن من عہداللہ ورسولہ ولوکانواآباؤہم اوابناہم اواخوانہم اوعشیرتہم اولئک کتب فی قلوبہم الایمان“(۱)۔ یعنی تمہیں کوئی ایسی قوم نہیں ملے گی جواللہ اورآخرت پرایمان لے آنے کے بعد اللہ اوراس کے رسول کی نافرمانی کرنے والوں سے محبت کرتی ہو،چاہے وہ (نافرمانی کرنے والے) ان کے باپ ،دادا،بیٹے،بھائی یاخاندان والے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیاہے۔ ہاں! ہماراعقیدہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے پیغمبراسلام کوان کی زندگی میں یاشہادت کے بعد اذیتیں پہنچائیں ہیں،قابل تعریف نہیں ہیں۔ لیکن یہ ہرگزنہیں بھولناچاہئے کہ پیغمبراسلام کے کچھ اصحاب نے اسلام کی ترقی کے لئے بہت بڑی بڑی قربانیاں بھی دی ہیں اوروہ اللہ کی طرف سے تعریف کے حقدارہیں اسی طرح پیغمبراسلام کے بعد،قیامت تک دنیامیں پیداہونے والے انسان،اگرپیغمبراسلام کے سچے صحابی کی راہ پرچلے،تووہ بھی قابل تعریف ہیں۔ قرآن کریم فرماتاہے کہ السابقون الاولون من المہاجرین والانصاروالذین اتبعوا ہم باحسان رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ (۲) یعنی مہاجرین وانصارمیں سبقت کرنے والوں سے اورنیکیوں میں ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ راضی ہوگیااوروہ اللہ سے راضی ہیں۔ یہ پیغمبراسلام کے اصحاب کے بارے میں،ہماراعقیدہ کانچوڑہے۔ آئمہ اہلبیت (ع) کاعلم ،پیغمبرکاعلم ہے: متواترروایتوں کی بناپرپیغمبراسلام نے ہمیں قرآن واہل بیت علیہم السلام کے بارے میں حکم دیاہے کہ ان دونوں کے دامن سے وابستہ رہناتاکہ ہدایت پررہواس بناء پرہم آئمہ اہل بیت علیہم السلام کومعصوم مانتے ہیں اوران کے تمام اعمال،حدیث اورتقریر(یعنی ان کے سامنے کوئی عمل انجام دیاگیاہواورانہوں نے اس سے منع نہ کیاہو) ہمارے لئے سندوحجت ہے قرآن کریم اورپیغمبراسلام کی سیرت کے بعدان کاعمل،قول اورتقریرفقہ کاایک منبع ہے۔ بہت سی معتبرروایتوں میں ملتاہے کہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے فرمایاہے کہ ہم جوکچھ بیان کرتے ہیں،سب کچھ پیغمبراسلام کابیان کیاہواہے،جو ہمارے باپ داداوں کے ذریعہ سے ہم تک پہنچاہے جب ہم اس نکتہ پرتوجہ کرتے ہیں،تواس سے یہ بات ظاہرہوجاتی ہے کہ انت کی روایتیں پیغمبراسلام کی ہی روایتیں ہیں ہم سب کومعلوم ہے کہ اگرپیغمبراسلام کی روایتیں مورداعتماداورثقہ انسان کے ذریعہ نقل ہوں توتمام علماء اسلام کے نزدیک قابل قبول ہیں۔ حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نے جابرسے فرمایاہے کہ ”یاجابرانالوکنانحدثکم برایناوہوانالکنامن الہالکین ولکن نحدثکم باحادیثا…………(۳) ……………………………………………………………………… ۱۔ سورہ مجادلہ آیت ۲۲۔ ۲۔سورہ توبہ آیت۱۰۰۔ ۳۔ جامعہ احادیث الشیعہ جلد۱ص۱۸ازمقدمات حدیث۱۱۶۔ یعنی اے جابر! اگرہم اپنی مرضی سے ہوائے نفس کے طورپرکوئی حدیث تم سے بیان کریں توہلاک ہونے والوں میں سے ہوجائیں گے لیکن ہم تم سے وہی حدیثیں بیان کرتے ہیں جوہم نے پیغمبراسلام سے خزانے کی طرح جمع کیاہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام کی ایک حدیث میں ملتاہے کہ کسی نے آپ سے سوال کیاجب آپ نے اس کے سوال کاجواب دیا،تواس نے آپ سے اپنے نظریے کوبدلنے کے لئے کہااورآپ سے بحث کرنے لگاامام علیہ السلام نے اس سے فرمایاکہ ان باتوں کوچھوڑ ”ماعجبتک فیہ من شئی فھوعن رسول اللہ“۔ یعنی میں نے جوتجھے جواب دیاہے ،اس میں بحث کی گنجائش نہیں ہے،کیونکہ یہ رسول اللہ کابیان فرمایاہواہے(۱)۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس حدیث کی کافی،تہذیب،استبصاراورمن لایحضرہ الفقیہ جیسی معتبرکتابیں موجودہیں،لیکن ان کتابوں کے معتبرہونے کامطلب یہ نہیں ہے کہ جوروایتیں ان میں موجودہیں ان میں راویوں کے لئے ہمارے پاس علم رجال کی کتابیں موجودہیں ان میں روایوں کے تمام حالات وسلسلہ سندبیان کئے گئے ہیں ہماری نظرمیںوہی روایتیں قابل قبول ہیں جس کی سندمیں تمام راوی قابل اعتمادوثقہ ہوں اس بناپراگرکوئی روایت ان کتابوں میں بھی ہواوراس میں یہ شرط نہ پائی جاتی ہو،تووہ ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایسابھی ممکن ہے کہ کسی روایت کاسلسلہ سندصحیح ہو،لیکن ہمارے بزرگ عالموں اورفقہیوں نے شروع سے ہی اس کونظراندازکرتے ہوئے اس سے پرہیزکیاہو،(شایداس میں کچھ اورکمزوریاں دیکھی ہو) توہم ایسی روایتوں کو”معرض عنہا“ کہتے ہیں اورایسی روایتوں کاہمارے یہاں کوئی اعتبارنہیں ہے۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جولوگ ہمارے عقیدوں کوصرف ان کتابوں میں موجودکسی روایت یاروایتوں کاسہارالے کرسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اس بات کی تحقیق کیے بناکہ اس روایت کی سندصحیح ہے یاغلط ،توان کایہ طریقہ کارغلط ہے۔ دوسرے لفظوں میں،اسلا م کے کچھ مشہورفرقوں میں کچھ ایسی کتابیں پائی جاتی ہیںجن کوصحیح کے نام سے جاناجاتاہے ان کتابوں کولکھنے والوں نے ان میں بیان روایتوں کے صحیح ہونے کی ضمانت لی ہے اوردوسرے لوگ بھی ان کوصحیح سمجھتے ہیں لیکن ہمارے یہاں معتبرکتابوں کامطلب یہ ہرگزنہیں ہے،بلکہ یہ وہ کتابیں ہیں جن کے لکھنے والے مورداعتمادافرادتھے ان کتابوں میں بیان کی گئی روایت کاصحیح ہونا،علم رجال کی کتابوں میں مذکورراویوں کے حالات کی تحقیق پرمنحصرہیں۔ اس بیان سے ہمارے عقائدکے بارے میں اٹھنے والے بہت سے سوالوں کے جواب خودمل گئے ہوں گے کیونکہ اس طرح کی غفلت برتنے کی وجہ سے ہمارے عقائدکومشخص کرنے میں بہت سی غلطیاں کی جاتی ہیں۔ بہرحال قرآن کریم کی آیتوں اورپیغمبراسلام کی روایتوں کے بعد،آئمہ معصومین علیہم السلام کی حدیث،ہماری نظرمیں معتبرہیں اس شرط کے ساتھ کی ان احادیث کااماموں سے صادرہونا،معتبرطریقوں سے ثابت ہو۔ ……………………………………… ۱۔ اصول کافی ج۱ص ۵۸حدیث۱۲۱۔
Comments powered by CComment