مؤلف : جعفر فاضل
مترجم : محمد حسین بہشتی
ناشر: مؤسسئہ قائم آل محمد(عج)
مقدمہ :
فلو لا ابو طالب و ابنہ
لما مثل الدین شخصا و قاما
فذا ک لا بمکة اوی وحامی
و ھذا بیثرب حبس الحماما
اگر ابو طالب اور ان کے فرزند ارجمند نہ ہوتے
تو دین اسلام مجسم نہیں ہوتا ان دونوں نے اسلام کے واسطے قیام فرما یا .
ابو طالب ـنے مکہ میں پناہ دی اور حمایت فرمائی
اور علی ـنے مدینہ میں تا آخر ین نفس جنگ کی.
میان عاشق و معشوق رمزی است
چہ داند آن کہ اشتر می چراند
یا عَمّ !
رَبَّیتَ صغیراً ، و کَفَّلتَ ےَتِیماً ، و نَصَرتَ کَبِیرا
فجزَاک اللّٰہُ عَنِّی خیراً
اے چچا جان ! بچپن میں میری تربیت کی .
یتیمی میں میری کفالت کی اور بڑے ہونے کے بعد میری مدد و نصرت فرمائی. خدا میر ی طرف سے آپ کو جزا عنایت فرمائے .
( رسول اکرم ۖ)
ھر گز نمیرد آنکہ دلش زندہ شدبہ عشق
ثبت است در جرید ہ عالم دوام ما
مقدمہ
گفتار مترجم حضرت ابو طالب ـ کے بارے میں مسلسل عر ق ریزی اور انتہائی محنت سے جو مقالہ جناب فاضل ارجمند حجة الاسلام والمسلمین جعفر فاضل نے مدون کیاہے . وہ لائق صدا فتخار ہے اور جناب مبارک باد کے مستحق ہیں میرے لئے بھی مقام فخر ہے کہ قبلہ نے بندہ حقیر کو امر فرمایا کہ اس آرٹیکل کا اردو زبان میں ترجمہ کروں . لہذا میں نے ان کے احترام میں ان کی اس علمی کاوش کو من وعن اردو کا لباس پہنادیا ہے اس حوالہ سے میں ان کا نہایت شکر گزار ہوں کہ انہوں نے بندہ کو اس قا بل سمجھا . یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ مجھ جیسے حقیر کو ایسی توفیق نصیب ہوئی کہ جو نہ صرف اپنی دنیا اور آخرت کیلئے بہترین زاد راہ ہے بلکہ پوری انسانیت کیلئے راہ نجات ہے .
کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ پڑھے لکھے بلکہ بڑے بڑے علمی مدارج طے کرنے والے دانشور حضرات بھی مذہبی تعصب یا تاریخی غلط بیانیوں کی وجہ سے راہ مستقیم سے منحرف ہو جاتے ہیں اور گمراہ لوگوں کی ترجمانی کر ناشروع کر دیتے ہیں.
تاریخ اسلام تونہیں بلکہ تاریخ مسلمین میں چودہ سو صدیوں سے جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ ایک بالغ نظر شخص ،بابصیرت انسان اور مومن کیلئے انتہائی غم انگیز اور دردناک ہیں ان واقعات میں سے ایک حضرت ابو طالب ـ کی شخصیت کو پائمال کرنا اور جھٹلانا ہے .
بجائے اس کے کہ انکو علیہ السلام سے یاد کیا جائے ان کو کافر و مشرک ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں . بحر حال اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے کچھ عقلی اور نقلی گفتگو آپ لوگوں کی خدمت میں پیش خدمت ہے.
مناقب ابن شہر آشوب میں یہ روایت موجود ہے کہ جناب حضرت عبدالمطلب کی رحلت کا وقت قریب ہوا تو آپ نے جناب ابو طالب ـ کو بلایا جب وہ اپنے باپ کے سرہانے حاضر ہوئے تو جناب عبدالمطلب احتضار کے عالم میں تھے اور آنحضرت ۖ ان کے سینہ پر تھے اسی عالم میں انہوں نے جناب حضرت ابو طالب ـ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یا اباطالب انظر ان تکون حافظاً لھذا الوحید الذی لم یشم رائحة ابیہ ، ولم یذق شفقہ امہ. انظر یا اباطالب ان یکون من جسد ک بمنزلة کبدک
'' اے ابو طالب ـ دیکھو ! تم اس فرزند کی حفاظت کرنا ، جس نے اپنے باپ کی خوشبو نہیں سونگھی اور ماں کی شفقت و محبت کامزہ نہیں چکھا . دیکھو ! اسے اپنے کلیجہ کی طرح عزیز رکھنا ...''
اصول کافی، ج١،ص٤٤٨میں لکھتے ہیں کہ :
یا ابا طالب ان ادرکت ایامہ فاعلم انی کنت من البصر الناس والعلم الناس بہ فان اسطعت ان تتبعہ فافعل وانصرہ بلسانک و یدک و مالک فانہ واللّہ سیسودکم .
'' اے ابو طالب ـ ! اگر تم نے اس کا ( ( اس کی رسالت کا ) زمانہ درک کیا تو یہ جان لو کہ میں اس کے حالات کے بارے میں سب سے زیادہ واقف و آگاہ ہوں . اگر تم سے ہوسکے تو اس کی پیروی کرنا اور اپنی زبان ، ہاتھ اور مال کے ذریعے اس کی نصرت کرنا ، کیونکہ خدا کی قسم وہ تم پر سرداری و حکومت کرے گا . ''
جہاںتک پیغمبر اکرم ۖ کے اجداد کی الٰہی شخصیت اور خدا وند عزّ وجل پر ان کے ایمان و اعتقاد کے حوالے سے بہت سے شیعہ و سنی علماء کے عقیدہ کے مطابق حضرت عبدالمطلب و حضرت ابو طالب ـ مکہ شہر میں توحید کے عظیم مبلغ اور ہر قسم کے شرک و بت پرستی کے مخالف تھے ، اگرچہ بعض افراد کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ وہ اپنے عقیدہ کا اظہار کرنے میں تقیہ سے کام لیتے تھے اوربعض مصلحتوں کی بناء پر بت پرستی کے رسم و رواج میں شرکت کرتے تھے . وکان عبدالمطلب و ابو طالب من اعرف العلماء و اعلمھم بشان النبی ۖ و کان یکتمان ذلک عن الجھال واھل الکفر والضلال .
''جناب عبدالمطلب و ابو طالب ان علماء میں تھے جو شان پیغمبراکرم ۖ او ر ان کے حق سے سب سے زیادہ واقف تھے لیکن آنحضرت ۖسے متعلق اپنی معرفت کو نادانوں ،کافر وں اور گمراہوں سے چھپایا کرتے تھے . ''
شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اصبغ ابن نباتہ سے روایت کی ہے کہ میں نے حضر ت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب ـ سے سنا کہ آپ فرماتے تھے،خدا کی قسم ! نہ میرے باپ اور نہ میرے داداعبدالمطلب ،نہ ہاشم اورنہ عبدمناف کسی نے ہرگز بت پرستی نہیں کی . حضرت امیرالمؤمنین ـ سے لوگوں نے سوال کیا کہ کیا پھر وہ کس کی عبادت کرتے تھے ؟
تو آپ نے فرمایا: کانو ایصلون علی البیت علیٰ دین ابراھیم علیہ السلام متمسکین '' وہ حضرات ،دین حضرت ابرہیم ـ کے مطابق خانہ کعبہ کیطرف نماز پڑھتے اور ان ہی کے دن سے تمسک حاصل کرتے تھے . ''
یعقوبی اپنی تاریخ میں حضرت عبدالمطلب کے بارے میں رقمطراز ہیں:
ورفض عبادةالاصنام ، وحداللہ عزوجل موفق بالنذر وسن سننا نزل القرآن باکثرھا.
'' وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے بتوںکی پرستش سے گریز کیا ، خدا ئے عزّ وجل کی وحدانیت کو پہنچانا ،نذ ر کو پورا کیا اور ایسی سنتیں قائم کیں جن میںسے اکثر و بیشتر کو قرآن نے تسلیم کیا ہے . ''
بعد میں ان سنتوں کو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
فکانت قریش تقول عبدالمطلب ابراھیم الثانی .
'' یہاں تک کہ قریش نے حضرت عبدالمطلب کو ابرہیم ثانی کہتے تھے . ''
اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب مکہ میںخشک سال آئی ،قریش قحط میں مبتلاہوئے تو حضرت عبدالمطلب کی دعا سے بارش برسنے کا ذکر تفصیل سے موجود ہ ہے .
مرحوم کلینی رحمة اللہ علیہ نے اصول کافی میںاپنی سند سے زرارہ کے ذریعہ حضرت امام جعفر صادق ـ سے یہ روایت نقل کی ہے : آپ نے فرمایا : یحش عبدالمطلب یوم القیامة امة واحدة علیہ سیما ء الانبیاء وھیبة الملوک .
'' قیامت کے دن حضرت عبدالمطلب تنہا ایک امت کی شکل میں محشور کئے جائیں گے اور ان کی شان یہ ہوگی کہ ان کا چہرہ پیغمبروں جیسا اور ہیبت بادشاہوں جیسی ہوگی .
اسد الغابہ میں حضرت ابو طالب ـ کے بارے میں چند قول نقل ہوئے ہیں:
پہلا قول یہ ہے کہ جب حضرت عبدالمطلب کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے پنے بیٹو ں کو جمع کرکے حضرت پیغمبر اکرم ۖ کے سلسلہ میں ان سے سفارش کی ،اس کے ساتھ ہی عبدالمطلب نے اپنے دو بیٹوں زبیر اور ابوطالب کو آنحضرت ۖ کی کفالت اور سرپرستی کے بارے میں قرعہ ڈالا . قرعہ حضرت ابو طالب ـ کے نام نکلا .
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ انتخاب خود حضرت عبدالمطلب نے کیا اور حضرت ابو طالب ـ کو آنحضرت ۖ کے تمام کی کفالت و سرپرستی کیلئے انتخاب کیا . کیونکہ ابو طالب ـ،آنحضرت ۖ کے تمام چچائوں میں ان سب سے زیادہ مہربان تھے .
تیسرا قول یہ ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے اس بارے میں براہ راست حضرت ابوطالب کو وصیت کی اور حضرت محمد ۖ کو ان کی کفالت اور سرپرستی میںدے دیا.
چوتھا قول یہ ہے کہ پہلے زبیر نے آنحضرت ۖ کی کفالت و سرپرستی کی اور جب وہ وفات پاگئے تو آنحضرت ۖ کی کفالت حضرت ابو طالب ـ نے اپنے ذمہ لی .
ابن شہر آشوب ، مناقب میں لکھتے ہیں :
حضرت رسول اکرم ۖ عبدالمطلب کے زیر سایہ زندگی بسر کررہے تھے . یہاں تک کہ جب ان عمر سو سال ہوئی اور آنحضرت ۖ آٹھ برس کے ہوئے تو عبدالمطلب اپنے بیٹو ں کو جمع کیا اور ان سے کہا : محمد ۖ یتیم ہے ،اس کی سرپرستی کرو ، وہ صاحب ِ ضرورت ہے اسے بے نیاز کرو اس کے بارے میں میری وصیت و سفارش پر توجہ دو. ابولہب نے کہا : کیا میں اس کام کو انجام دوں گا ؟
حضرت عبدالمطلب نے اس سے کہا : اپنا شر اس سے دور رکھو !
عباس نے اظہار خیال کیا: میں اس کام کو اپنے ذمہ لے لوں گا .
حضرت عبدالمطلب نے کہا : تم غصہ ور آدمی ہو ، ڈرتا ہوں کہ تم اسے اذیت دو گے.
ابوطالب نے کہا : میں ا س حکم پر عمل کروں گا اور ان کی کفالت اپنے ذمہ لیتاہوں .
حضرت عبدالمطلب نے کہا : ہاں ! تم ان کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لو .
اس کے بعد حضرت محمد ۖ کی طرف رخ کرکے کہا :
یا محمد اطع لہ . '' اے محمد ۖ اس کی اطاعت کرو . ''
حضرت محمد ۖ نے فرمایا:
یا ابہ لا تحزن فان لی ربا ً لایضیفی . '' اے پدر بزرگوار غمزدہ نہ ہو ں ، یقینا میرا ایک پر وردگار ہے جو مجھے تباہ نہیں ہونے دے گا . '' ا س کے بعد حضرت ابو طالب ـ نے آپ ۖ کو اپنی آغوش میں لے لیا اور آپ ۖ کی حمایت کی .
ایک مقام پر حضرت ابو طالب ـ اپنے باپ حضرت عبدالمطلب سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں : یاابہ لا تصنی بمحمد فانہ ابنی و ابن اخی . '' اے پدر محترم : آپ محمد ۖ کے بارے میں مجھ سے وصیت نہ کریں کیونکہ وہ میرا بیٹا اور میرے بھائی کا فرزند ہے . ''
اس روایت کے ساتھ ہی ابن شہرآشوب یہ بھی نقل کرتے ہیں:
جب حضرت عبدالمطلب نے وفات پائی تو حضرت ابو طالب ـ ، آنحضرت ۖ کو پہنانے اور کھلانے میں خود پر اور اپنے گھر والوں کو مقدم رکھتے تھے .
اور ابن حجر عسقلانی نے کتاب '' الاصابہ '' میں اس بارے میں لکھتے ہیں :
حضرت ابو طالب ابن عبدالمطلب ـ ،جن کی کنیت مشہور ہوگئی ہے ،مشہور روایت کی بناء پر ان کا نام عبد مناف ہے اوربعض نے ان کا نام '' عمران '' لکھا ہے . نیز حاکم نے لکھا ہے زیادہ تر مؤرخین کا عقیدہ یہی ہے کہ ان کی کنیت ہی ان کا نام ہے .
یہاں تک کہ حضرت پیغمبر اکرم ۖ کی بابرکت عمر کے واقعات و حادثات سے بھرئے ہوئے آٹھ برسوںکا ذکر کر چکے ہیں .
آنحضرت ۖ اب جناب حضرت ابو طالب ـ کے گھر میںداخل ہوچکے ہیں اورمہربان چچا کی آغوش اپنے بھائی حضرت عبداللہ ـ کے عظیم المرتبت بیٹے کی پر ورش اور تر بیت کیلئے آمادہ ہے .
تاریخ اسلام کی مختصر سے مختصر معلومات رکھنے والے سے بھی یہ حقیقت پوشید ہ نہیں ہے کہ اس بزرگ شخص یعنی ابو طالب نے کس قدر ایثار و فد اکاری اورکتنے اخلاص و محبت سے یہ سنگین الہٰی و اجتماعی فریضہ اپنی عمر کی آخری سانس تک انجا م دیا ہے . جس کا سلسلہ تنتالیس(٤٣) برسوں تک پھیلا ہو اہے اس ذریعہ سے آپ روز قیامت تک دنیا بھر کے تمام مسلمانوں پر کتنابڑاحق رکھتے ہیں .
فجزاہ اللہ عن الاسلام و عن المسلمین خیرالجزاء
لطف عالی متعالی
محمد حسین بہشتی حوزہ علمیہ مشہد مقد س
تقریظ سر چشمہ ایمان
تقریظ لاکھوں درود و سلام ہوں کائنات کی عظیم مخلوق حضرت محمد بن عبداللہ ۖ اور ان کے پاک خاندان خصوصاً حضرت حجةابن الحسن مھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہہ الشریف کی ذات گرامی پر .
نور ِ تابا ں ،ستارہ درخشاں ،فضیلت و عظمت کے آسمان یعنی حضرت المؤمنین علی ابن ابی طالب ـ کی ذات مقدس جو ہمیشہ سے جن و بشر کی ہدایت کے سامان فراہم کرتی رہی ہے .
حضرت علی ـ جو مصداق اتم السابقون السابقون اولئک ھم المقربون ہیں اور تمام جہت سے چاہیوہ اسلام لانے کا مرحلہ ہو یا اسلام کی راہ میں اپنے خون کے آخری قطرہ کو نچھاور رنے کامقام ہو سب سے بڑھ چڑھ کر ہے .
آپ میزان حق و باطل ہیں . حضرت رسول اکرم ۖ نے کتنے دلکش اور خوبصورت انداز میں فرمایا:علی ـ حق کے ساتھ اور حق علی ـ کے ساتھ ہے . اس بناء پر حضرت امیرالمؤمنین ـہر قسم کے نقص وعیب سے پاک و پاکیزہ ہیں .
لیکن ایک گروہ بہت سی وجوہات اور مختلف علتوں کی بناء پر اس وجود نازنین سے ہمیشہ دشمنی کرتے رہے ہیں اور اپنی دشمنی و عداوت کو مختلف طور طریقوں سے ظاہر کرتے رہے ہیں من جملہ :
١۔ حضرت امیرالمؤمنین ـ کی فضیلت او رمقام کو چھپانے کی ناکام کوشش.
٢۔ دوسروں کو آپ ـ پر فوقیت اور برتری دینا.
٣۔ آپ ـ کے مخالفین کے فضائل تراشنا.
٤۔ آپ ـ کو سب و شتم کرنا (البتہ ان لوگوں کی تعداد بہت رہی ہے )
٥۔ آپ ـ کے کردار اور گفتار پر اعتراض کرنا .
٦۔ آپ ـ کی حکومت و خلافت کو غصب کرنا .
٧۔ خاندان وحی کو اذیت و آزار دینا .
اس کے علاوہ اس مسئلہ کو زیادہ اچھالنا کہ حضرت امیرالمؤمنین ـ کے والد گرامی مشرک تھے . گویا یہ چاہتے ہیں کہ حضرت علی ـ کو مشرک زادہ ثابت کریں . ( نعوذباللہ )
کئی سالوں سے مخالفین اس تہمت پر خاص تاکید کرتے رہے ہیں . اسی وجہ سے میں نے یہ فیصلہ کیاکہ ایک مختصر کتاب اس ضمن میں یعنی ایمان ابوطالب ـ کے بارے میں تحریر کروں تاکہ سب کے اوپر واضح اور روشن ہوجائے ک نہ فقط آپ ـ صاحب ایمان نہیں بلکہ آپ کا ایمان تمام جن وانس کے ایمان سے قوی تر اور برتر ہے .
یہ کتاب دو زبان فارسی اور انگلش میں ایران کے اندر چھپی اور نشر ہوچکی ہے . اوریہ فیصلہ ہواہے کہ اردو زبان میں ترجمہ ہو کر زیادہ سے زیادہ مورد استفادہ قرار دیا جائے .
اس کتاب کا ترجمہ کرنے والے محقق گرامی حجة الاسلام والمسلمین جناب شیخ محمد حسین بہشتی صاحب جن کا سابقہ تالیف اور ترجمہ اردوزبان میں زیادہ رہاہے . امید وار ہوں کہ خداوند عالم اس سعی پیہم کو آپ کیلئے ذخیرئہ آخرت قرار دے اور حضرت امیرالمؤمنین ـ کے خاص توجہات کے حامل ہوں .
جعفرفاضل
مشہد مقدس ایران
سرچشمہ ایمان سر چشمہ ایمان
سرچشمہ ایمان ستائیس (٢٧)رجب یوم وفات حضرت ابو طالبـ ہے .سید بطحاء حضرت ابوطالب ـ ہجرت سے دس (١٠) سال پہلے اس دنیا سے رحلت فرما گئے تھے . اس وقت آپ کی عمر اکیاسی ( ٨١) سال تھی . چونکہ جعلی روایت کے ذریعے آپ کی شان میں گستاخی کی گئی ہے اور آپ کو مشرک کہا گیا ہے لہذا مناسب سمجھا کہ کہ حقیقت حال سے آگاہ ہونے کیلئے کچھ تحقیق کی جائے .
'' صاحب وقایع الایام ،جلد١،ص ٢٨٩میں لکھتے ہیں :
سیوطی کہتے ہیں : '' جس من گھڑت حدیث کے ذریعے حضرت ابو طالب ـ کی شان میں جسارت کی گئی ہے وہ معاویہ ابن ابو سفیان کی حکومت اور اس کے بعد کے زمانے کی ہے جو بنی امیہ کو خوش کرنے کیلئے ایک روای مغیرہ بن شعبہ نے گھڑی تھی . یہ شخص بنی ہاشم سے دشمنی کے بارے میں بہت مشہور تھا . ''
البتہ اس قسم کی کی نسبتوں اور تہمتوں سے وجود ِ مقدس حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب ـکی ذات ِ اقدس کی توہین اور ان کی شخصیت کو داغدار کرنے کیلئے ایک ناکام کوشش تھی ، جو اہل تحقیق سے پوشیدہ نہیں ہے .
اس مقالہ میں ہمارا ہدف حضرت ابو طالب ـکے ایمان اور ان کے اخلاص کو ثابت کرناہے . حضرت ابو طالب ـ کے بارے میں بہت ساری باتیں موجود ہیں لیکن جس موضوع اور مطلب بارے میںہم نے بحث کرنی ہے وہ درج ذیل ہیں .
-١ حضرت رسول اکرم ۖ کی کفالت کیلئے حضرت ابو طالب ـ کا انتخاب اورانہیں حضرت ابو طالب ـکے سپرد کرنے کے اسباب کیاہیں . جبکہ آپ خود فقر اور تنگدستی میں گرفتار تھے . پس حضرت رسول اکرم ۖ کی حفاظت وکفالت نہایت ہی اہمیت کا حامل مسئلہ ہے .
-٢ کفالت کو نہایت ہی احسن اور مکمل طور سے انجام دینا، حضرت رسول اکرم ۖ کی جان کی حفاظت کرنا اور اسلام کا تسلسل ، حضرت ابو طالب ـ کا مرہون منت ہے .
- ٣ عربستان میں حضرت ابو طالب ـکی شخصیت ، مقام و مرتبہ اور آپ کاحسب و نسب روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے .
-٤ آپ کے ایمان کی پختگی اصحاب کہف کے ایمان کی مانند خلق ِ خدا پر روشن و منور ہے .
-٥ دین کی بقاء اور اسلام کے تسلسل میں حضرت ابو طالب ـکا بڑا کردار شامل ہے .
- ٦ حضرت ابو طالب ـکے ایمان پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے .
-٧ خاندانِ وحی کی جانب سے حضرت ابو طالب ـ کے ایمان پر دلیل و برھان موجودہے .
- ٨ چھ معصوم ہستیوں حضرت رسول اکرم ۖ ، حضرت امیرالمؤمنین علی ـ، حضرت امام سجاد ـ ، حضرت امام محمدباقر ـ ، حضرت امام جعفر صادق ـ اورحضرت امام رضا ـ کے فرامین ہیں کہ حضرت ابو طالب ـ کا ایمان تمام جن و انس کے ایمان پر افضل و برتر ہے .
- ٩ حضرت ابو طالب ـکاخداکے ساتھ رابطہ اور ان کا مستجاب الدعوة ہونا ثابت ہے .
-١٠ حضرت ابو طالب ـکے ایمان پر قرائن اور شواہد موجود ہیں.
-١١ حضرت ابو طالب ـکا ایمان کتب اہل سنت سے ثابت ہونا .
-١٢ حضرت ابو طالب ـکے ایمان کے بارے میں علماء امامیہ کا اتفاق اوراجماع ہے .
-١٣ حضرت رسول اکرم ۖ کی رسالت اورامیرالمؤمنین علی ـکی امامت پر حضرت ابو طالب ـ کا اعتقاد اور ایمان .
-١٤ حضرت ختم مرتبت پیغمبر اکرم ۖ کی حفاظت کے حوالہ سے حضرت ابو طالب ـ کے اجر رسالت کی عظمت اور تمام مسلمانوں کے اعمالِ خیر میں ان کی شرکت .
ان تمام موضوعات پر بحث کرنے کیلئے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے . بہر حال ہم قارئین کی آسانی کیلئے اس ضمن میں ان تمام عناوین پر مختصر مگر مفید گفتگو کریں گے تاکہ مطلب کا رخ روشن اور واضح ہو سکے .
حضرت عبدالمطلب ـ کی متعدد بیویاں تھیں ان میں سے ایک فاطمہ بنت عمرو بن عائذ ہے جن سے حضرت عبداللہ ، رسو ل اکرم ۖ کے والد بزرگوار ،حضرت ابوطالب ـحضرت امیرالمؤمنین علی ـ کے والد گرامی اور زبیر و عبدالکعبہ پید اہوئے . حضرت عبدالمطلب ـکی دوسری بیویوںسے مثلاً حضرت عباس وحارث متولد ہوئے .چنانچہ عباس کی نسل سے( بنی عباس کا سلسلہ نسب چلا) جوکہ حضرت عبداللہ ـ کے بھائی تھے .
ماں باپ دونوں کے حوالہ سے یعنی دونوں ایک ہی ماں باپ سے متولد ہوئے ہیں . '' بنا بر این حضرت عباس ، پیغمبر اکرم ۖ کے چچا ہوئے صرف باپ کے حوالے سے . لیکن حضرت ابوطالب ـ ، پیغمبر اکرم ۖ کے چچا ہوئے ماں باپ دونوں کے حوالہ سے . اس بات کی اہمیت اس حدتک ہے کہ اس پر زبردست قسم کے اعتقادی ثمرات مرتب ہوئے ہیں.
ہارون الرشید جو بنی عباس سے تھا حضرت امام موسیٰ بن جعفر ـ سے سوال کرتا ہے کہ آپ کیوں اپنے آپ کو حکومت کاحق دار سمجھتے ہیں جبکہ جس طرح حضرت ابوطالب ـ ، پیغمبر اکرم ۖ کے چچا ہوتے ہیں اسی طرح حضرت عباس بھی پیغمبر اکرم ۖ کے چچا تھے ؟
آپ کو کس بنا پر بنی عباس پر فضیلت حاصل ہے ؟
اور آپ یہ اعتقاد کیوںرکھتے ہیں کہ حکومت و خلافت بنی عباس تک نہیں پہنچنی چاہیے اوریہ حق صرف حضرت علی ـ اور ان کے فرزندوں کو پہنچتاہے ؟
حضرت امام موسیٰ کاظم ـ ،ہارون رشید کے جواب میں فرماتے ہیں :
جناب عباس کا پیغمبر اکرم ۖ کا چچا ہونا درست ہے لیکن عبداللہ وعباس صرف باپ کے حوالے سے بھائی تھے لیکن ہمارے جد امجد حضرت ابوطالب ـ
حضرت عبد اللہ ـ کی ماں کی طرف سے بھی بھائی تھے ،لہذا پیغمبر اکرم ۖ سے ہماری قرابت زیادہ ہے .
حضرت عبد المطلب ـ کی عام الفیل کے آٹھ سال بعد دنیا سے رحلت ہوئی . آپ پیغمبر اکرم ۖ کی کفالت کے ذمہ دار تھے . آپ نے اپنی وفات کے موقعہ پر حضرت ابو طالب ـ کو وصیت کی کہ اپنے بھتیجے محمد ۖ کی کفالت کی ذمہ داری اور سرپرستی کو قبول کریں .
حضرت ابوطالب ـنے بھی خوشی سے اس ذمہ داری کو قبول فرمایا. اس میں شک نہیں ہے کہ حضرت ابوطالب ـنے وصیت پہنچان اور معرفت کی بنیاد پر قبول فرمائی تھی . کیونکہ حضر ت عبدالمطلب نے اپنے بیٹوں حارث ، عباس ،زبیراور دوسرے بھائیوں کی موجودگی کے باوجود اس ذمہ داری کو صرف اور صرف حضرت ابوطالب ـکے سپر د کیا . حالانکہ حضرت عبدالمطلب ـ ، جناب حضرت ابوطالب ـکی معاشی تنگدستی کی صورتِ حال سے اچھی طرح آگاہ تھے .
صاحب ِ تاریخ طبری اس ضمن میں یوں تحریر کرتے ہیں:
'' جب حضرت عبدالمطلب کی رحلت کا وقت قریب ہو ا تو آپ نے جناب حضرت ابوطالب ـکو وصیت فرمائی کہ وہ پیغمبر اکرم ۖ کی وکالت و کفالت کو قبول کریں. ''
صاحب کتاب '' تاریخ طبر ی '' نے اس بات کی وجہ کچھ اس طرح بیان کی ہے :
چونکہ حضرت ابوطالب ـجناب عبداللہ ـ کے سگے بھائی تھے . اس وجہ سے حضرت عبدالمطلب نے رسول اکرم ۖ کی کفالت و کالت آپ کے سپر د کی تھی . لیکن یہ نظریہ کچھ بے توجھی اور شاید اندھے تعصب کی بناء پر ہو کیونکہ اگر یہ کام صرف اور صرف سگے بھائی ہونے کی بنا ء پر کیا گیا تھاتو پھر ان کے اور بھی سگے بھائی مثلا ً عباس ، زبیراور حارث وغیرہ بھی تھے .
پھر یہ ذمہ داری ان میں سے کسی کے کاندھے پر کیوں نہیں ڈالی گئی .البتہ یہ بات ماننے کو دل نہیں چاہتا ہے کہ ثروت منداور مالدار افراد کی موجودگی میں ایک غریب اور فقیر شخص ، پیغمبر اکرم ۖ کی وکالت و کفالت اور سرپرستی کو قبول کرے . مگر یہ کہ اس میں کوئی اور فضلیت و برتری موجود ہو .
حضرت ابوطالب ـ کی لیاقت اور شایستگی حضرت عبدالمطلب پر واضح و آشکار تھی اس وجہ سے انہوں نے اس عظیم ذمہ د اری کیلئے حضرت ابو طالب ـ کا انتخاب عمل میں لائے اس حوالہ سے قابل توجہ بات یہ حضرت عبدالمطلب جانتے تھے کہ حضرت محمد ۖ خدا کے رسول ہیں اور یہ حقیقت جناب حضرت ابوطالب ـ کے گوش گزار بھی فرمائی اوران سے وعدہ لیا کہ پیغمبر اکرم ۖ کی حفاظت کے واسطے اپنے ایمان کو مخفی رکھیں اور حضرت ابوطالب ـ نے بھی ایسا ہی کیا یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جب تک حضرت ابوطالب ـزندہ رہے کسی کو جرات تک نہ ہوئی کہ وہ پیغمبر اکرم ۖ کو کوئی اذیت و آزار کرے .
ابن ابی الحدید اس ضمن میں شعر لکھتے ہیں کہ جس کا مطلب یہ ہے :
'' اگر ابو طالب ـ اور ان کا بیٹا نہ ہوتے تو دین اس قدر مستحکم نہ ہوتا . جناب حضرت ابوطالب ـنے مکہ میںپیغمبر اکرم ۖ کی کھل کر حمایت کی اور ان کے بیٹے علی ـنے مدینہ میں پیغمبر اکرم ۖ کا بے دریغ دفاع کیا . ''
مذکورہ مطالب سے واضح ہوتاہے :
ض-١ حضرت ابوطالب ـ کا ایمان ، پیغمبراکرم ۖ پر راسخ تھا.
ض-٢ حضرت ابوطالب ـ بہترین طریقے سے پیغمبر اکرم ۖ کی حفاظت اور سرپرستی کی .
تاریخ یعقوبی میں ہے کہ :
'' پیغمبر اکرم ۖ نے بیس (٢٠) سال کی عمر میں دو افراد کو خواب میں دیکھا کہ جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے یہ وہی ہے جو تمہارے سپرد کی گئی ہے . حضرت محمد ۖ نے خواب اپنے چچا کے سامنے نقل کیا، وہ مکہ میں یہود ونصاریٰ کے علماء کے پاس گئے اور ان کے سامنے یہ خواب بیان کیا تو ان لوگوں نے کہا یہ شخص ایک پاک مطہر روح کا مالک ہے اور عنقریب قیام کریگا . اوردوسری علامتیںجو ا ن کی کتابوں میں آئی ہیں ان کی بنا ء پر آپ ۖ کو رسول آخر الزمان کہا گیا ہے . یہود و نصاریٰ کے علماء نے اس خواب سے جو کچھ سمجھا وہ حضرت ابو طالب ـ کے سامنے بیا ن کیا اس سے سب پر واضح ہو گیا اور سب سمجھ گئے کہ حضرت محمد بن عبداللہ ۖ خدا کے رسول ہونگے . ''
یہ سمجھ سے باہر ہے کہ یہود و نصاریٰ کے علماء تو حضرت رسو ل اکرم ۖ کی شخصیت سے آگاہ ہوجائیں لیکن حضرت ابوطالب ـ ہمیشہ حضرت رسول اکرم ۖ کے ساتھ رہنے کے باوجود اس فیض سے محروم رہ جائیں.
اسی تاریخ یعقوبی میں ہے کہ یہود و نصاریٰ کے علماء نے حضرت ابوطالب ـ سے کہا :
'' یہ تمہارا بھتیجا خدا کا پیغمبر ہے اس کی حفاظت کریں اور اس پر ایمان لائیں اور اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھیں یہ سب تمہاری ذمہ داریوں میں سے ہے . ''
تاریخ یعقوبی میں حضرت ابو طالب ـ کا وہ خطاب بھی درج ہے جو آپ نے پیغمبراکرم ۖ کی شادی کے مو قع پر کیاتھا اوریہ حضرت ابوطالب ـ کے ایمان پربہترین شاہد ہے حضرت ابوطالب ـ نے فرمایا:
'' قریش میں سے کوئی بھی میرے بھتیجے کی شان ومنزلت کو نہیں پہنچ سکتا بلکہ کوئی بھی انسان ا ن کے مقام و مرتبہ کا حامل نہیں ہے ( لایقاس بہ احد )
یہ با لکل وہی تعبیر ہے جو حضرت امام جعفر صادق ـ نے آئمہ طاہرین ٪ کے بارے میں فرمائی . ( لا یقاس بنا بشر ) .
ان علامات سے پتہ چلتاہے کہ حضرت ابو طالب ـ کو رسول اکرم ۖ کے بارے میں مکمل معرفت تھی .
پیغمبر اکرم ۖ تقریبا ً آٹھ یادس سال کے تھے کہ حضرت ابوطالب ـ آپ ۖ کو بعض لوگوں کی مخالفت کے باوجود بڑی حفاظت کیساتھ شام کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ لے گئے اور فرمایا : '' میں ہرگز اس بچے کو اپنے سے دور نہیں کروں گا . ''
تاریخ طبری میں ذکر ہوا ہے کہ :
بحیرہ راہب بہت بوڑھا ہوچکا تھا وہ تورات اور انجیل کا بہت بڑا عالم تھا . نبی آخرا لزمان کی نشانیا ں خوب جانتا تھا . وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت رسول اکرم ۖ مکہ ہی سے ظہور کریںگے . لہذا کوئی بھی کارواں ادھر سے گزرتا تو وہ آخری رسول ۖ کے مبعوث ہونے کے بارے میں ضرور پوچھ گچھ اور سوال کرتا تھا . یہاں تک کہ حضرت ابو طالب ـ کا کارواں وہاں پہنچا . وہاںایک درخت تھا جو سالھا سال سے خشک تھا ،اس کا رواں کی برکت سے سرسبز ہوگیا . اور پھل دینے لگا . بحیرہ راہب نے دیکھا کہ اس کارواں کے اوپر بادل کاایک ٹکڑا سایہ کئے ہوئے ساتھ ساتھ آرہاہے وہ اپنے آپ سے کہنے لگا کہ یہ دوسری نشانی ہے . بحیرہ راہب نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کو اس کارواں میں پالیا .
حضرت محمد ۖ کے دو ش مبارک پر مہر نبوت کودیکھ کر ایمان لایا . واضح سی بات ہے کہ یہ ماجرا اورنشانیا ں کارواں والوں سے مخفی نہیں تھیں .
بڑے افسوس کی بات ہے کہ تاریخ طبری کے مؤلف نے لکھا ہے :
'' حضرت رسول اکرم ۖ نے ابو طالب سے درخواست کی کہ وہ ایمان لے آئیں . لیکن حضرت ابو طالبـ نے فرمایا : میں اپنے دین سے جد ا ہونا نہیں چاہتا اورنہ ہی اپنے باپ کے دین کو چھوڑ سکتاہو ں . ''
لیکن اگریہ ماجرا صحیح طور پر نقل ہو اہوتو یہ خودایمان حضرت ابوطالب ـ پر ایک دلیل ہے کیونکہ حضرت ابوطالب ـ اور ان کے والدین سب دین ابراہیم پرقائم تھے اور اس قسم کی باتیں ازباب تقیہ ہو اکرتی ہیں . اور ہم نے یہ جانتے ہیں کہ جناب عبد المطلب نے حضرت ابوطالب ـ سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے ایمان کو مخفی رکھیں اور حضرت ابوطالب ـ نے پیغمبر اکرم ۖ کی حفاظت کے واسطے ایسا ہی کیا .
ایک شخص نے امیرالمؤمنین ـ سے کہا : افسو س ہے کہ آپ کے والد مشرک تھے . آپ نے فرمایا :یہ کیسے ممکن ہے کہ بیٹا '' قسیم النار والجنة '' بہشت اور جہنم کو تقسیم کرنے والاہو اور باپ آگ میں ہو؟
واضح سی بات ہے حضرت علی ـ کامقصد یہ نہیں ہے کہ میں بہشت اور جہنم کا تقسیم کرنے والاہوں لیکن میں باپ شفاعت کرکے بہشت میں لے جائوں گا کیا یہ بات قرآن میں نہیں آئی ہے ؟کہ شفاعت کرنے والے شافعین سے مشرکین کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، بلکہ حضرت علی ـکامقصد یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ باپ مشرک ہو اور کے ہاں مجھ جیسی شخصیت کامالک بیٹا پید اہوسکتاہے ؟
اس کے علاوہ حضرت امیرالمؤمنین علی ـ نے بارھاایمان ابوطالب ـکے بارے میں وضاحت فرمائی ہے جبکہ امیرالمؤمنین علی ـ کی شخصیت تمام مسلمان فرقوں کیلئے قابل قبول اور قابل اعتماد ہے ایسے میں کسی کو حضرت علی ـکے والد گرامی کے ایمان پر ہرگز شک نہیں کرنا چاہیے .
سبط ابن جوزی نے حضرت علی ـ کے اشعار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :
ابا طالب عصمت المستجیری
وغیث المحول ونو ر الظلم
جناب ابو طالب ـ پناہ لینے والوںکی پناہ گاہ تھے.
وہ ہر فریادی کے فریاد رس اورتاریکی میں نور تھے .
حضرت امام علی ـ کا مقصد یہ تھا کہ میرے والد محترم اس تاریکی کفرو شرک میں نو ر ایمان کے حامل تھے.
اس بارے میں حضرت امام محمد باقر ـ فرماتے ہیں :
اگر تمام خلائق ( جن و انس ) کے ایمان کو ایک طرف رکھیں او ر دوسر ی طرف ہمارے جد امجد حضرت ابو طالب ـکے ایمان کو رکھیں تو ہمارے جد ِ امجد کا ایمان سنگین اور بھاری ہو جائیگا .
حضرت امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں :
حضرت ابو طالب ـ کے دو اجر ہیں . ایک اجر ان کے ایمان کا اور دوسرا اجر ایمان مخفی رکھنے کا ، جیساکہ اصحاب کہف نے اپنے ایمان کو مخفی رکھا .
ایک شخص نے حضرت امام رضا ـ سے حضرت ابو طالب ـکے ایمان کے بارے میں سوال کیاتو آپ نے فر مایا: اگر ابو طالب ـ کے ایمان پر اعتقادنہ رکھو تو آخر کار تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا .
ایک شخص نے حضرت علی ـسے سوا ل کیا تو آپ نے فرمایا : خدا کی قسم ! میرے پدر بزرگوار حضرت ابو طالب ـمیرے جد امجد حضر ت عبدالمطلب و ہاشم و عبدالمناف نے ہرگز ایک لحظہ کیلئے بھی بت پر ستی نہیں کی ہے . ایک شخص نے پوچھا وہ اسلام سے پہلے کس چیز کی پرستش کرتے تھے ؟
حضرت ـ نے فرمایا : وہ لوگ خفیہ طور پر قبلہ کی طرف نماز پڑھتے تھے اور دین حنیف ابراہیم ـ پر تھے کہ رسول اکرم ۖ سے اس سلسلہ کو مکمل فرمایا.
فریقین ( شیعہ و سنی ) کے درمیان ایک اتفاقی مسئلہ ہے کہ اگر کوئی مشرک و کافر عورت مسلمان ہوجائے اور شوہر کفرکے اوپر باقی رہے تو اس عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر سے الگ ( جدا ) ہوجائے کیونکہ عقد ازدواج باطل ہوجاتاہے .
لہذا جب رسول خدا ۖ کی بیٹی زینب مسلمان ہو گئی اور اس کا شوہر زیدبن العاص کفر پر باقی رہ تو رسول اکرم ۖ نے حکم دیا کہ وہ اپنے شوہر سے جد ا ہوجائے .
حضرت امام زین العابدین ـ نے اس تاریخی واقعہ سے استد لال کرتے ہوئے فرمایا: ان لوگوں کے اوپر تعجب ہے جو حضرت ابو طالب ـکی طرف کفر و شرک کی نسبت دیتے ہیں جبکہ رسول خدا ۖ اس بات پر مامور تھے کہ جو عورت مسلمان ہوجائے اسے حکم دیں کہ وہ اپنے مشرک شوہر سے جد ا ہوجائے .
اسی بناء پر اگر حضرت ابوطالب ـ کافر تھے تو حضرت رسول خدا ۖ کو چاہیے تھا کہ وہ جناب فاطمہ بنت اسد کو حضرت ابو طالب ـسے جدا کرتے ؟ کیونکہ فاطمہ بنت اسد ہمارے جد امجد امیرالمؤمنین علی ـ کی مادر گرامی ہیں آپ سب سے پہلے اسلام لانے والی خواتین میں سے ہیں . لیکن پیغمبر اکرم ۖنے کبھی بھی فاطمہ بنت اسد کو حضرت ابو طالب ـ سے جد ا ہونے کا حکم نہیں دیا . یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابو طالب ـباایمان شخص تھے . لیکن انہوں نے کسی مصلحت کی بنیاد ہر اپنے ایمان کو مخفی رکھا تھا.
ابن الحدید نے مایہ ناز کتاب '' شرح نہج البلاغہ '' میں حضرت امام سجاد ـ کے اسی استدلال کو ایمان ابوطالب ـ کے بارے میں ذکر کیا ہے . حضرت امام محمد باقر ـ بھی حضرت ابو طالب ـ کے ایمان پر استدلا ل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
حضرت امیرالمؤمنین علی ـ ہر سال اپنے والد محترم کی نیابت میں حج کیلئے جاتے تھے . اگر حضرت ابو طالب ـ مشرک ہوتے تو حج مشرک کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اس کے علاوہ حضرت امیرالمؤمنین علی ـ اپنے وصیت نامہ میں بھی وصیت کی کہ ہر سال اپنے والد کی نیابت میں حج کو جائیں .
حضرت پیغمبر اکرم ۖ نے حضرت ابو طالب ـکیلئے رحمت اورمغفرت کی دعافرمائی اور ان کی تشیع جنازہ میں گریہ و زاری بھی کی . اس بنیاد پر کہ رسول اکرم ۖ معصوم ہیں آپ ۖ کی دوستی خدا کی دوستی کی بنیاد پر ہے لہذا جس کسی کو بھی پیغمبر اکرم ۖ دوست رکھیں وہ خدا کا محبوب ہوا کرتاہے .
پیغمبراکرم ۖ نے جناب عقیل سے فرمایا : میں تمہیں دووجہ سے دوست رکھتاہوں ، ایک یہ کہ تم میرے رشتہ دار ہو اور دوسری وجہ یہ کہ جناب حضرت ابو طالب ـ تم کو بہت چاہتے تھے .
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ۖ کسی مشرک پر رحمت نہیں بھیجتے کیونکہ ہر موحد کیلئے ضروری ہے کہ وہ صرف مؤمن سے دوستی رکھے اورمشرک و کافر سے دشمنی رکھے اور اس سے بیزار رہے یہ تصور کہ حضرت ابو طالب ـعمر کے آخر میں ایمان لائے تھے کہ کسی سند کے بغیر اورعقلی ونقلی شواہد کے مخالف ہے .
زیارت ناموں او ر بعض دعائوں میں اہل بیت ٪ سے یوں خطاب ہے .
اشھد انک کنت نورا ً فی الاصلاب الشامخہ والارحام المطھرة.
اے ہمارے مولا ! ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ کا نور عظیم صلبوں اور مطہر و منزہ رحموں میں موجود تھا .صحیح سند کے بنیاد پر ہمار ا اعتقاد ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کے تمام اجداد اور والدین ہر قسم کے شرک ، بت پرستی اورگناہوں سے پاک انسان تھے اور ان کی پیشانی خدا کے علاوہ کسی چیز کے سامنے نہیں جھکی ہے ایک جھوٹی اورجعلی روایت کے بناء پر بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کے والد گرامی حضرت عبداللہ ـ اور حضرت علی ـ کے والد گرامی حضرت ابو طالب ـکی جگہ شرک کی بناء پر آگ میں ہیں .
اہل سنت کی اہم ترین کتاب '' کتاب صحیح مسلم '' میں کچھ اس طرح نقل ہوا ہے :
انس نے کہا : ایک شخص نے پیغمبر اکرم ۖ سے پوچھا : کیا میراباپ آگ میں ہے ؟ حضرت ۖ نے فرمایا:جی ہاں !
چونکہ کفر کی حالت میں دنیا سے چلے گئے تھے اس وجہ سے وہ آگ میں ہیں . پھر پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرے والد بھی آگ میںہیں .
سنن ابن ماجہ و ابن دائود میں بھی روایات نقل ہوئی ہیں :
ابو ہریرہ نے کہا : پیغمبر اکرم ۖ نے اپنی ماں کی قبرکی زیارت کی اورگریہ کیا ،جولوگ وہاںپر موجود تھے وہ بھی رئوے ، اس نے خد اوند عالم سے اجازت لی تاکہ میں اپنی ماںکیلئے طلب مغفر ت کروں لیکن مجھے اس طرح کی اجازت نہیںدی گئی . لیکن خدا وند سے چاہا کہ ماں کی قبر کی زیارت کروں تو خدا وند مجھے اجازت دے دی .
آخر میں پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: '' تم لوگ بھی قبروں کی زیارت کرو کیونکہ قبروں کی زیارت موت کی یاد دلاتی ہے . ''
اب یہ سوال باقی رہ جاتاہے کہ اس قسم کا اصرار جو اہل بیت ٪ کے آبائو اجداد کومخدوش کرنے کے بارے میں کیا جاتا ہے اس کا مقصد کیا ہے ؟ اس قسم کی فکر ، ہدف اورمقصد کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں ؟
اس قسم کی مہم باتوں کو کسی اور موقعہ کیلئے چھوڑتے ہیں .
رسول اکرم ۖ نے حضرت عبدالمطلب کے بارے میں امیرالمؤمنین علی ـ سے فرمایا : انہوں نے کسی بت کی پرستش نہیں کی اورنہ ہی ایسے حیوان کا گوشت کھایا ہے جو بت کے نام پر ذبح کیا گیا ہو . اور انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنے جد امجد حضرت ابراہیم ـ کے دین اور آئین کی پیروی کرتے ہیں .
پیغمبر اکرم ۖ نے فر مایا : میں اورعلی ایک ہی نور سے ہیں اور ہمیشہ ساتھ ساتھ ہیں ہمار انور ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل ہوتا رہا . پس اس نور کے دو حصے ہوگئے ، ایک حصہ حضرت عبداللہ ـ کے صلب میں قرار پایا اوردوسرا حصہ حضرت ابو طالب ـ کے صلب میں قرار پایا . بعد میں میں حضرت آمنہ کے بطن مبارک سے متولد ہوا ور علی فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے دنیا میں آئے .
ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:
اشھد انک کنت نورا فی الاصلاب الشامخہ والارحام المطھرہ لم تنجسک الجاھلےة بانجاسھا.
ہم شھادت دیتے ہیں کہ آپ عظیم لوگوں کے بلند و مرتبہ صلب اور پاک ومطہر مائوں کے رحم میں تھے جاہلیت کی نجاست نے آپ کو ہر گز چھوا تک نہیں ہے.
اس میں کوئی شک نہیںکہ اگر اہل بیت ٪ میں سے کسی کے باپ یا ماں مشرک ہو تے ، کیونکہ قرآن مجید نے مشرکین کے نجس ہونے کا اعلان کیا ہے تو یہ نجاستیں وراثت کی بنیاد پرآنے والی نسلوں میںمنتقل ہوتی رہتیں اگر ایسا ہو تو پھر آیہ تطہیر کیلئے کوئی جگہ باقی نہیںرہتی. لہذا اگر کوئی مسلمان ، اہل بیت ٪ میں سے کسی کے باپ یا ماں کو مشرک جان لے تو گویا اس نے دانستہ یا نادانستہ طور پر آیہ تطہیر کو رد کر دیا ہے اور جس نے آیہ تطہیر کو رد کر لیا اس کا حکم معین و مشخص ہے .
حافظ گنجی شافعی لکھتے ہیں :
حضرت امیرالمؤمنین علی ـکعبہ میں فاطمہ بنت اسد سے متولد ہوئے. حضرت ابو طالب ـاور جناب فاطمہ بنت اسد نے کوہ ابو قیس کی بلند ی پر جاکر خدا وند عالم کی بارگاہ میںاس مولود کعبہ کا نام مشخص ومعین کرنے کیلئے یوں التماس کی.
اے پروردگار عالم ! جو رات کی تاریکی میں نور کی عظیم ہستی ہے اور اس چمکتے ہوئے آفتاب کا مالک ہے ، اپنے عظیم علم مکنون اورپوشید ہ رازوں سے ہمیں بتائیں کہ اس بچے کا نام کیا رکھا جائے .
یا رب ھذالقصب دجی
والقمر المبتلج المضی
بین لنا من امر ک الخفی
ما ذاتری فی امر ھنا الصبی
ایسے میں آسمان سے ایک لوح نازل ہوئی اس پر یہ شعر کندہ تھا:
حصصتما بالولدالزکی
والطاھر المنتخب الرضی
واسمہ من قاصرالعلی
علی اشتق من العلی
اس لوح کو حضرت ابو طالب ـ نے محفوظ کیا اورکعبہ کی دیوار پر لٹکادیا . بنی ہاشم اس لوح پر افتخار کیا کرتے تھے .
حجاج کے زمانے تک یہ لوح موجود رہی اس کے بعد گم ہو گئی .
بعض کا کہنا ہے کہ ایک آواز حضرت ابو طالب ـ کے کانوں تک آئی . اے ابو طالب ! اے فاطمہ بنت اسد !
میں نے یہ اعجاز اور افتخار صرف تم کو دیا ہے کہ حضرت علی ـ جیسا عظیم فرزند تمہیں عنایت کیا اور یہ عظیم فرزند میںنے اپنی خوشی اور رضایت کی بنیاد پر تمہیں عطا کیا ہے یہ ایسا فرزند ہے جو پاک ، زکی ، طاہر ، رضی اور منتخب شدہ ہے.
(زکی (یعنی برگزیدہ )
(طیب طاہر ،پارسا ، ( طاہر یعنی پاک و پاکیزہ )
( رضی ( یعنی دوست دار ، راضی ،خوشی ، مرضی )
(منتخب ( یعنی برگزیدہ ، بزر گوار ، عظیم شخصیت )
خداوندمتعال نے فرمایا: کہ میں بلند مرتبہ ہوں لہذا اس مولود کا نام اپنے اسم سے مشتق کیا ہے اور اس نام علی رکھا ہے. حضرت ابو طالب ـ نے اس واقعے کے بعد دس اونٹ قربان کئے اور خدا وند عالم کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لائے.
اس واقعہ سے بہ خوبی استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ :
جناب حضرت ابو طالب ـ موحد تھے لہذا وہ خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے نہ کہ بتوں کے سامنے جھکے .
مقام ابو طالب ـ اس حد تک بلند تھا کہ خدا وند عالم نے ان کے سوال کاجواب دیا .
حضرت ابو طالب ـ خد اکو سجدہ کیا نہ کہ بت کو .
حضرت ابو طالب ـ کیلئے عظیم ترین افتخار اورفخر یہ ہے کہ آپ کا علی جیسا فرزند ہے .
کلمہ '' متنخب '' سے حضرت ابو طالب ـ سمجھ گئے کہ وہ ایک ایسے فرزند کے باپ ہیں جو منصب امامت کیلئے منتخب ہو چکا ہے .
کلمہ '' طاہر منتخب اور رضی'' سے استفادہ کرتے ہوئے حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کی عصمت و طہارت ثابت ہوتی ہے .
ان واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابو طالب ـ کی معرفت بہت ہی بلند تھی ، لہذا اپنے اشعار میں کہا :
( اے آفتاب و ماہتاب کے ہستی
(اے صاحب علم و مکنون
( اے زمین و آسمان کے مالک
جس طرح خدا وند عالم نے حضرت موسیٰ ـ سے کلام کیا تھا اسی طرح حضرت ابو طالب ـ سے بھی کلام کیا .
حضرت ابو طالب ـ صاحب مستجاب الدعوة تھے .
انصاف سے دیکھا جائے تو ان واقعات سے کافی حد تک حضر ت ابو طالب ـ کا موحد ہونا ثابت ہو جاتا ہے . یہاں تک کہ ایمان حضرت ابو طالب ـخود اہل سنت کے منابع سے بھی ثابت ہوتا ہے لیکن بعض نے اس بات سے استفادہ کرتے ہوہے کہ وحی فقط پیغمبر سے مختص ہے اس واقعہ میں شک کیا ہے . حالانکہ کلمہ وحی اس نبی اوررسول سے مختص کیا گیا جو صاحب ِ دین اور صاحب ِ شریعت ہو . جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں اور تلاوت کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کلمہ وحی شہد کی مکھی اور حضرت موسیٰ ـ کی مادر گرامی کیلئے بھی استعمال ہوا ہے . لہذا اگر کلمہ وحی حضرت ابو طالب ـ کیلئے استعمال ہو ا ہے تو پر یشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے .
( حضرت موسیٰ ـ کی ماں پیغمبر نہیں تھی . قرآن کہتا ہے : '' وا و حینا الی ام موسیٰ ''
(حضرت عیسیٰ ـ کی مادر گرامی بھی پیغمبر نہیں تھی. لیکن ارشاد باری تعالیٰ ہو رہا ہے : '' فنا دینا ھا من تحتھا ان لاتحزنی ''
خدا وند رب العزت نے حضرت ابو طالب ـ کو دس ( ١٠ ) فرزندعنایت کئے . حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کے سوا ء کسی فرزند کانام رکھنے کیلئے خدا سے در خواست نہیں کی یہ امر خود ایک انوکھی بات ہے .
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ حضرت ابو طالب ـ پہلے ہی سے جانتے تھے کہ علی ـ کے جائے ولادت کعبہ میں ہے اور اس کا نام بھی صرف خد ا ہی کو رکھناہے . حضرت ابو طالب ـ کے ایک شعر کا مصرعہ یہ ہے '' بین لغا من امرک الخفی '' ہمارے لئے اپنے مخفی امور کو ظاہر کر .
یہ اس واقعہ کے حوالے سے ایک لطیف اشارہ ہے .
روایات کے مطابق حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کا نام شروع خلقت میں ہی خداوندعالم نے رکھا تھا اور یہ بات پہناں اورمخفی رکھی تھی . یہاں تک کہ حضرت امیرالمؤمنین علی ـ کی ولادت ہوئی اور اس کو سب پر آشکار کردیا .
حلےة الاولیاء میںلکھتے ہیں : پیغمبراکرم ۖ نے فر مایا:
مکتوب علی ساق العرش لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ و محمد عبدی و رسولی و اید تہ بعلی بن ابی طالب .
عرش کے ساق پر لکھاگیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی خد ا نہیں ہے . وہ یکتاہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، محمد ۖ میرا بندہ اورمیرا رسول ہے ان کی علی بن ابی طالب ـ نے مدد کی .
طبری نے اپنی تفسیر میں اور ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت علی ـ کے حالات زندگی میں اور کفاےة الطالب باب ٦٢ میں محمد بن یوسف گنجی شافعی نے اس حدیث کونقل کیا ہے .
خصایص کبری اور تفسیر درالمنثور میں آیاہے کہ رسول خدا ۖ نے شب معراج میں اس عبارت کو اسی صورت میںدیکھا ہے .
خطیب خوارزمی مناقب میں لکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا: مکتوب علی باب الجنة علی اخو رسول اللہ .
'' بہشت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے کہ علی ، رسول خدا ۖ کے بھائی ہیں . ''
اب تو مشخص ہو گیا کہ سید البطحا ء حضرت ابو طالب ـ اولیاء الہیٰ میں سے تھے . اور محکم و مضبوط ایمان کے مالک تھے . جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں:
ایک راہب تھا بنام شرم بن رعیت جوکہ ١٩٠ سال عبادت کرتا رہا لیکن اس نے خد اسے کوئی حاجت طلب نہیں کی تھی . ایک دن وہ خدا کی بارگاہ میں دعاکرتاہے کہ خدا یا ! مجھے کسی ولی خدا سے ملاقات اور اس کادیدار کر ادے . اس کی دعا قبول ہوئی .
خداوند رب العزت نے حضرت ابو طالب ـ کو اس کے پاس بھیج دیا اس راہب نے جناب ابو طالب ـ کو بشار ت دی کہ خدا وند عالم آپ کو ایک بیٹا عنایت کرے گا جو ولی خدا ہے اور اس کا نام علی ـ ہے . جب انہیںدیکھیں تو میرا سلام عرض کرنا اور ان سے کہنا کہ مشرم راہب ، خدا کی وحدانیت اور آپ کی ولایت اور آپ کے امیرالمؤمنین ہونے کی شھادت دیتاہے .
اہل بیت ٪ کا حضرت ابو طالب ـ کے ایمان پر اجماع ہے .
ابن اثیر جزری شافعی اس بارے میں لکھتے ہیں : اہل بیت ٪ کا جناب حضرت ابو طالب ـکے ایمان پر اجماع تھا اور اجماع اہل بیت ٪کے نزدیک حجت ہے . پیغمبر اکرم ۖ حضرت ابو طالب ـ کو بہت چاہتے تھے اور فرماتے تھے . یہ بزرگوار قیامت کے دن شفاعت کی اجازت دریافت کریں گے .
جب حضرت ابو طالب ـ کی رحلت کی خبر حضرت علی ـ نے حضرت رسول اکرم ۖ کو دی تو آنحضرت ۖ بہت غمگین اور محزون ہوئے اور فرمایا : یا علی جائیں اور ان کو غسل و کفن اور حنوط کریںجب دفن کیلئے تیار و آمادہ کرلیں تو مجھے خبر دیں . جب رسول خد ا ۖ کی نگاہ مبارک اپنے چچا ابو طالب ـ کی نعش پر پڑی تو آپ ۖ رو پڑے اورفرمایا : اے میرے چچا ! آپ نے مجھ پر صلہ رحم اور مہربانی فرمائی .اے میرے چچا ! آپ نے بچپن میں میری پر ورش اور کفالت کی اوربڑا ہونے کے بعد میر ی حمایت اور نصرت فرمائی .
اس کے بعد پیغمبر اکرم ۖ نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
''خدا کی قسم ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ میرے چچا ابو طالب کو اذنِ شفاعت دے گا. جس پر تمام جن و انس تعجب کریں . ''
حضرت ابو طالب ـ کی رحلت پر حضرت جبرئیل ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اے پیغمبر اکرم ۖ گرامی ! آپ کے یاور اورحامی دنیا سے رحلت کرگئے . پس آپ ۖ مکہ سے ہجرت کر جائیں.
حضرت ابو طالب ـ کے بارے میں ہمیں چاہیے کہ کوئی بڑے قدم اٹھائیں کہ بعض روایات کے مطابق آپ حضرت ابراہیم ـ کے وصیوں اور ولیوں میں سے تھے .
علامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جناب ابو طالب ـ اسلام اورپیغمبر اکرم ۖ پر پختہ ایمان رکھتے ہیں انہوں نے ہرگز کسی بت کے پوجا نہیں کی بلکہ آپ حضرت ابراہیم کے اوصیاء میں سے تھے.
مرحوم شیخ صدوق رحمة اللہ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں : حدیث شریف میں آیا ہے کہ جناب عبدالمطلب خدا کی حجت اور ابو طالب ـ ان کے وصی اور جانشین تھے . روایت کے مطابق انبیاء ٪ کی امانتیں مثلا ً عصا ء حضرت موسیٰ ـ، حضرت سلیمان ـکی انگشتری جناب عبدالمطلب کے ذریعے حضرت ابوطالب ـتک پہنچی اور انہوں نے وہ امانتیں حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی ۖ کے سپرد کیں .
منابع و مآخذ سر چشمہ ایمان
منابع و مآخذ ١۔ منتخب التواریخ ،ص ٤٣
٢۔ بحارالانوار ، جلد ١٩ ،ص ٢٤
٣ ۔ منتخب التواریخ ،ص ٨٠
٤۔ تاریخ طبری ، جلد ٢ ص ٢٧٢
٥۔ شرح ابن ابی حدید ، جلد ١٤، ص ٨٥
٦ ۔ تاریخ یعقوبی ،جلد ٢ ، ص ١٤
٧۔ تاریخ طبری ، جلد ٢، ص ٢٧٧
٨۔ تاریخ طبری ، جلد ٢ ،ص ٣١٣
٩۔ کمال الدین صدوق ،ص ١٠٤
١٠ ۔ شرح نہج البلاغہ ،ص ٣١٢
١١۔ وقایع الایام ، جلد ١ ، ص ٣٠٣
١٢ ۔ تاریخ الخمیس ، جلد ١ ،ص ١٦٢
١٣۔ استیعاب ، جلد ٢ ،ص ٥٠٢
١٤۔ سیرہ حلبی
١٥۔ خطیب بغدادی ، جلد ١٣ ،ص ١٦
١٦ ۔ صحیح مسلم ، جلد ١ ،کتاب ایمان
١٧۔ سنن ابن ماجہ و ابن دائود ، ص ١٩٥
١٨ ۔ صحیح مسلم ، جلد ٣
١٩ ۔ سنن دائود ، ص ١٩٥
٢٠۔ کفاےة الطالب ،ص ٢٦٠
٢١۔ خصایض کبری ،ص ١٠
٢٢ ۔ مناقب ،جلد ٢ ،ص ١٩٢ ، ١٩٣،١٩٧
٢٣ ۔ روضة الواعظین ،جلد ١ ،ص ٧٨
٢٤۔ منتخب التواریخ ، ص ١١٣، ١١٤
٢٥۔ شرح ابن ابی الحدید ، جلد ١٤ ،ص ٦٦ ، ٨٥
٢٦۔ بحارالانوار ، جلد ١٩ ، ٦٩
Comments powered by CComment