اہلبیت علیھم السلام کتاب و سنت کی روشنی میں

مختلف کتب
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

مؤلف : حجت الاسلام آقائے المحمدی الری الشہری 

اردو ترجمہ : قبلہ السید ذیشان حیدر جوادی صاحب

 

 

پیش لفظ

 

عرض تنظیم

عظمت اہلبیت (ع) عالم اسلام کا ایک مسلم مسئلہ ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ عالم اسلام کی اکثریت آج تک اہلبیت (ع) کی صحیح حیثیت اور ان کے واقعی مقام سے ناآشنا ہے  ورنہ نہ اس طرح کی مہمل اختلافات ہوتے جن میں بلاوجہ مسلمانوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور ان کی اجتماعی طاقت برباد ہورہی ہے اور نہ اس طرح کے بیجا سوالات اٹھتے کہ اہلبیت (ع) اور اصحاب میں افضل کون ہے؟  اور اہلبیت (ع) کا ماننا ضروری بھی ہے یا نہیں ؟

 یہ سارے سوالات عالم اسلام کی جہالت اور ناواقفیت کی علامت ہیں، ورنہ اہلبیت(ع) عظمت و جلالت کی اس منزل پر فائز ہیں جہاں انسان ان سے آشنا ہونے کے بعد کسی بھی قیمت پر ان سے الگ نہیں رہ سکتاہے، تاریخ کے جس دور میں بھی  اور جس موڑ پر بھی  کسی شخص نے ان کی معرفت حاصل کرلی ہے ان کا کلمہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکاہے۔

 حجر اسود سے لیکر سرزمین حل و حرم تک سب ان کی عظمت و جلالت سے باخبر ہیں اور اس کے معترف رہے ہیں، محروم و معرفت رہا ہے تو صرف نادان انسان جس نے سیاسی مفادات کے لئے دین و مذہب کو بھی قربان کردیا ہے اور عیش و عشرت کی خاطر ضمیر کے تقاضوں کو بھی پامال کردیا ہے۔

 

 

 اہلبیت (ع) کی عظمت و جلالت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ہر دور میں لکھا گیا ہے، لیکن اس طرح کا کام کبھی منظر عام پر نہیں آسکاہے جس طرح کا کام سرکار حجة الاسلام والمسلمین محمدی الری شہری نے انجام دیا ہے اور یہ آپ کا کمال توفیق ہے کہ قضاوت کے سب سے بڑے عہد ہ پر فائز ہونے کے باوجوداپنی مصروفیات سے اتنا وقت نکال لیا کہ ” میزان الحکمہ“ جیسی مفصل کتاب تیار کردی اور پھر اس تسلسل میں تعارف اہلبیت (ع) کے حوالہ سے زیر نظر کتاب کو مرتب کردیا۔

 اس کتاب میں عظمت اہلبیت (ع) سے متعلق ہزار سے زیادہ اقوال و ارشادات کا ذکر کیا گیا ہے اور نہایت ہی سلیقہ سے کیا گیا ہے کہ انسان زندگی کے جس شعبہ میں بھی ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہے نہایت آسانی سے حاصل کرسکتاہے اور اس معرفت کے درجہ پر فائز ہوسکتاہے جس کے بغیر سرکار دو عالم کے الفاظ میں انسان کی موت جاہلیت کی موت بن جاتی ہے۔

 کتاب کی تبویت و تصنیف بے مثال ولا جواب ہے اور اس سے مولف کے کمال فن کا بھی اندازہ کیا جاسکتاہے۔

 سیکڑوں کتابوں کا خلاصہ ایک کتاب میں جمع کردیا ہے اور بیشمار دریاؤں کو ایک کوزہ میں بند کردیا ہے۔

 کتاب واقعاً اس بات کی حقدار تھی کہ اردو دال طبقہ اس کے معلومات سے بے خبر نہ رہے لیکن افسوس کہ ”ماہریں ترجمہ“ کو نہ کتاب کی ہوا لگی اور نہ ان کے توفیقات نے ساتھ دیا اور یہ شرف بھی بالآخر سرکار علامہ جوادی دام ظلہ ہی کے حصہ میں آیا اور آپ نے ایام عزا کی بے پنا ہ مصروفیات کے باوجود جہاں امریکہ جیسے ملک میں ایک ایک دن میں متعدد مجالس سے خطاب کرنا ہوتاہے، امریکہ و یورپ کے قیام کے دوران ایام عزا میں اس کا ترجمہ مکمل کرلیا اور ملک واپس آنے سے پہلے اس کی فہرست بھی مکمل کرلی کہ ”بقول سرکار موصوف لندن سے واپسی پر جہاز سے اس وقت تک ایرپورٹ پر نہیں اترے جب تک کہ کتاب کی آخری سطر مکمل نہیں کرلی، اگر چہ سارے مسافر اترچکے تھے اور عملہ کا اصرار اترنے کے لئے جاری تھا، اس لئے کہ آپ نے فرمائش کرنے والوں سے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ انشاء اللہ یہ کام دوران سفر امریکہ و یورپ مکمل کردیا جائے گا۔

 

 

 بہر حال اب دو ماہ کی یہ کاوش آپ حضرات کے سامنے ہے۔ ادارہ اس کی اشاعت کے سلسلہ میں اپنے قدیم کرم فرما ڈاکٹر حسن رضوی (ڈیڑائٹ) کا شکر گذار ہے کہ انھوں نے گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی ایک کتاب کی اشاعت کا ذمہ لے لیا اور اپنے مخصوص تعاون سے اسے مرحلہ اشاعت تک پہنچا دیا جس کا ثواب جناب ریاض حسین مرحوم، محترمہ طیبہ خاتون اور جناب عشرت حسین مرحوم کے لئے ہدیہ کیا جارہاہے۔

 آخر میں ہماری دعا ہے کہ پروردگار علامہ جوادی( دام ظلہ) کے سایہ کو برقرار رکھے اور ہم کو ان کے ہدایات سے مستفید ہونے کی توفیق کرامت فرماتارہے۔

 ذاتی طور پر میں اپنے محترم بزرگ حضرت پیام اعظمی اور اپنے فعال ساتھی ضیغم زیدی کے بارے میں بھی دست بدعاہوں کہ اول الذکر کی رہنمائی اور ثانی الذکر کی دوڑ دھوپ ہی میرے لئے طباعت و اشاعت کے سارے مراحل کو آسان بنادیتی ہے۔

 

 والسلام

سید صفی حیدر  

 

 

حرف آغاز

دنیا کا کونسا باشعور مسلمان ہے جو لفظ اہلبیت(ع) یا اس کے مصادیق کی عظمت سے باخبر نہ ہو، قرآن مجید نے اس لفظ کو متعدد بار استعمال کیا ہے اور ہر مرتبہ کسی نہ کسی عظمت و جلالت کے اظہار ہی کے لئے استعمال کیا ہے۔

 جناب ابراہیم (ع) کے تذکرہ میں یہ لفظ آیاہے تو رحمت و برکت کا پیغام لے کر آیاہے اور جناب موسیٰ (ع) کے حالات کے ذیل میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے تو اسے محافظ حیات نبوت و رسالت کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔

 اس کے بعد یہ لفظ سرکاردو عالم کے مخصوص اہل خاندان کے بارے میں استعمال ہوا ہے جس کا مقصد اعلان تطہیر و طہارت ہے اس کے باوجود اس میں جملہ خصوصیات و امتیازات جمع کردیئے گئے ہیں۔ اہلبیت (ع) مرکز تطہیر و طہارت بھی ہیں اور محافظ حیات رسالت و نبوت بھی اہلبیت(ع) کی زندگی میں رحمت و برکت بھی ہے اور انہیں مالک کائنات نے مستحق صلوات بھی قرار دیا ہے۔

 عصمت و عظمت کا ہر عنوان لفظ اہلبیت (ع) کے اندر پایا جاتاہے اور پروردگار نے کسی بھی غلط اور ناقص انسان کو اس عظیم لقب سے نہیں نوازا ہے اور جب کسی انسان کے کردار پر تنقید کی ہے تو اسے اس کے گھر کا قرار دیا ہے  نہ اپنے بیت کا اہل قرار دیا ہے اور نہ پیغمبر کے اہلبیت (ع) میں شامل کیا ہے۔

 بیت کی عظمت خود اس بات کا اشارہ ہے کہ اہلبیت (ع) کن افراد کو ہونا چاہیئے اور انہیں کن فضائل و کمالات کا مالک ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے بعد بھی مالک کائنات نے آیت تطہیر کے ذریعہ ان کی عظمت و طہارت کا اعلان کردیا تا کہ ہر کس و ناکس کو اس بیت کے حدود میں قدم رکھنے کی ہمت نہ ہو اور ہر ایک کو یہ محسوس ہوجائے کہ اس میں قدم رکھنے کے لئے ہر طرح کے رجس سے دور رہنا پڑے گا اور گناہ و معصیت کے ساتھ شک و ریب کی کثافت سے بھی پاک و پاکیزہ رہنا پڑے گا اور اس کے بعد اس منزل طہارت پر رہنا ہوگا جسے حق طہارت سے تعبیر کیا جاتاہے اور جس سے بالاتر کسی منزل طہارت کا امکان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ لفظ تطہیر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے اور دوبارہ اس کے استعمال کی نوبت نہیں آئی ہے کہ نبوت کے اہلبیت (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے حق طہارت کی منزل پر فائز کیا جاسکے اور یہ ان کی بلندی کردار اور انفرادیت حیات کی بہترین علامت ہے

 

 

جس میں خدائے وحدہ لا شریک نے کسی کو بھی شریک نہیں بنایا ہے اور رسول اکرم نے بھی شرکت کی خواہش کرنے والوں کی خواہش کو صفات لفظیوں میں مسترد کردیا ہے اور گوشہ چادر کو بھی کھینچ لیا ہے، اگر چہ جناب ام سلمہ کو انجام بخیر ہونے کی سند بھی دیدی ہے لیکن ضمناً اس حقیقت کا بھی اعلان کردیا ہے کہ جب انجام بخیر ہونے کی سند بھی دیدی ہے لیکن ضمناً اس حقیقت کا بھی اعلان کردیا ہے کہ جب انجام بخیر رکھنے والی خاتون اس منزل طہارت میں قدم نہیں رکھ سکتی ہے تو دوسری کسی عورت یا دوسرے کسی مرد کا کیا امکان رہ جاتاہے۔

 یہ عالم اسلام کی بد ذوقی کی انتہا ء ہے کہ منزل تطہیر میں ان افراد کو بھی رکھنا چاہتے ہیں جن کا سابقہ عالم کفر سے رہ چکاہے اور جن کی زندگی کا ایک حصہ کفر کے عالم میں گذرچکاہے ، کیا ایسا کوئی انسان اس ارادہ الہی کا مقصود ہوسکتاہے جس میں ہر رجس کو دور رکھنا بھی شامل ہے اور کمالِ طہارت و عصمت بھی شامل ہے۔

 اہلبیت(ع) رسالت سے مراد صرف پنجتن پاک اور ان کی اولاد ہے جن کی عظمت عالم اسلام میں مسلم ہے اور ان کے عہدہ و منصب کا انکار کرنے والوں نے بھی ان کی عظمت و جلالت اور ان کی عصمت و طہارت کا انکار نہیں کیا ہے اور انھیں ہر دور میں خمسہ نجباء یا پنچتن پاک کے نام سے یاد کیا گیاہے اور اسی بنیاد پر بعض اہل نظر کا عقیدہ ہے کہ اہلبیت(ع) رسالت کے منصب کا انکار کرنے والا تو مسلمان رہ سکتاہے کہ یہ عالم اسلام کا ایک اختلافی مسئلہ بن گیا ہے لیکن ان کی عظمت و جلالت کا انکار کرنے والا مسلمان بھی نہیں رہ سکتاہے کہ یہ قرآن و حدیث کا مسلمہ ہے اور اس پر عالم اسلام کے تمام باشعور اور باضمیر افراد کا ہر دور میں اتفاق رہاہے۔

 

 

 اور یہ انداز فکر بھی معصومہ عالم جناب فاطمہ زہرا (ع) کی ایک مزید عظمت کا اشارہ ہے کہ باقی افراد ہیں تو جہتِ اختلاف موجود بھی ہے کہ وہ صاحبان منصب ہیں اور منصب کا انکار ممکن ہوسکتاہے، لیکن جناب فاطمہ(ع) کو مالک کائنات نے منصب و عہدہ سے بھی الگ رکھاہے اور اس طرح آپ سے اختلاف کرنے کے ہر راستہ کو بند کردیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مباہلہ میں رسالت کو گواہی کی ضرورت پیش آئی تو آپ کو مکمل حجاب کے ساتھ میدان میں لے آئی اور خلافت میں امامت کو ضرورت پڑی تو آپ کو فدک کا مدعی بناکر پیش کردیا گیا تا کہ آپ کے بیان کو مسترد کردینے والا اور آپ کی عصمت و طہارت کا انکار کرنے والا خود اپنے اسلام و ایمان کے بارے میں فیصلہ کرے۔

 اسلامی روایات میں عظمت اہلبیت(ع) کے حوالہ سے بے شمار اقوال و ارشادات پائے جاتے ہیں، لیکن ان کی حیثیت بڑی حد تک منتشر تھی اور اہلبیت(ع) کے مکمل کردار اور ہمہ جہت کمالات کا اندازہ کرنے والے کو متعدد کتابوں کے مطالعہ کی ضرورت پڑتی تھی۔

 خدا کا شکر ہے کہ سرکار حجة الاسلام والمسلمین محمدی الری شہری (دام ظلہ) کو یہ توفیق حاصل ہوئی اور انھوں نے اس سلسلہ کی ہزاروں احادیث و روایات اور اس موضوع سے متعلق سینکڑوں بیانات و اعترافات کو ایک مرکز پر جمع کردیا اور اب قرآن و سنت سے اہلبیت(ع) کی عظمت کے پہچاننے والے کو طویل مشقت کی کوئی ضرورت نہیں رہ گئی ہے، اور صرف ایک کتاب ہی اس ضرورت کو پورا کرسکتی ہے۔

 رب کریم سرکار موصوف کے توفیقات میں اضافہ فرمائے اور حقیر کو بھی ان خدمات کو اپنے ہمزبانوں کے سامنے پیش کرنے کی سعادت عطا فرماتارہے۔ و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین

 

جوادی

 13 / جمادی الاولیٰ 1418ء ھ روز وفات معصومہ عالم (ع)

 

 

مقدّمہ

ساری تعریف خدائے رب العالمین کے لئے اور صلوات و سلام اس کے بندہ منتخب حضرت محمد مصطفیٰ اور ان کی آل طاہرین (ع) اور ان کے نیک کردار اصحاب کرام کے لئے۔

 اما بعد، یہ کتاب جو آپ حضرات کے سامنے ہے، یہ سیکڑوں کتابوں اور ہزاروں حدیثوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے جسے ایک نئے انداز سے عالم حدیث اور دنیائے معارف اسلامیہ کے سامنے پیش کیا جارہاہے۔

 یہ کتاب در حقیقت برسہا برس کی تحقیق ، تلاش اور جستجو کا نتیجہ ہے جو ” میزان الحکمة“ سے الگ مستقل شکل میں پیش کی جارہی ہے، اس کے مآخذ کی فہرست پر اجمالی نظر ڈالنے والا بھی یہ اندازہ کرسکتاہے کہ اس کی تالیف میں کس قدر زحمت برداشت کی گئی ہے اور کتنی عرقریزی سے کام لیا گیا ہے۔

 ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ 366ء1 ہجری شمسی میں ” میزان الحکمة“ کی مقبولیت نے بھی یہ خیال پیدا کردیا تھا کہ اس انداز کی ایک جامع پیشکش عالم اسلام کے سامنے پیش کی جائے اور اس کام کے لئے مختلف فضلاء حوزہ علمیہ قم کی امداد سے 1374ء ھ میں ایک ” مؤسسہ دار الحدیث“ قائم بھی ہوگیا تھا جس کے ذریعہ اس مفصل کتاب کا ایک بڑا حصہ منظر عام پر آچکاہے اور امید ہے کہ فضل و کرم خداوندی سے بہت جلد یہ سلسلہ مکمل ہوجائے گا۔

 اس وقت چونکہ عالم اسلام کو اس جامع کتاب کے بہت سے موضوعات کی شدیدترین ضرورت ہے اور ان کی مستقل اشاعت ضروری ہے اس لئے ہم نے مناسب خیال کیا کہ تدریجی طور پر ان موضوعات کو مستقل کتابوں کی شکل میں بھی پیش کردیا جائے۔

 

 

 چنانچہ اس سلسلہ کی پہلی کتاب ” دارالحدیث“ کی طرف سے معرفت اہلبیت(ع) کے عنوان سے پیش کی جارہی ہے اور اس حقیر ہدیہ کو معصومہ عالم جناب فاطمہ(ع) کی بارگاہ میں پیش کیا جارہاہے تا کہ ان کی دعاؤں کی برکت سے یہ ہدیہ بارگاہ الہی میں قابل قبول ہوجائے اور بعد موت کے منازل اور آخرت کے مراحل کیلئے ذخیرہ بن جائے اور دنیا میں بھی اس کے اثرات اہلبیت(ع) کے تعارف اور امت اسلامیہ کے اتحاد کے سلسلہ میں ہماری توقعات سے زیادہ ہوں۔

 آخر کلام میں ہمارا فرض ہے کہ ان تمام عزیزوں کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے اس کتاب کی تالیف میں ہماری امداد کی ہے ، خصوصیت کے ساتھ فاضل عزیز السید رسول الموسوی  جنھوں نے اس میدان میں اپنی تمام کوششیں صرف کردی ہیں اور بیحد مشقت برداشت کی ہے۔

 رب کریم انھیں اہلبیت (ع) طاہرین علیہم السلام کی طرف سے دنیا و آخرت میں بہترین جزا عنایت فرمائے۔

 

محمدی الری شہری

 شعبان المظعم 1417ء ھ

 

 

 

 اِنَّمَا یُرِیدُ اللِ لِیُذهِبَ عَنکُمُ الرِّجسَ اَهلَ بَیتِ وَ یُطَهَّرَکُم تَطهِیرَا  (احزاب 23)

 

کچھ آیت تطہیر سے متعلق

یہ آیت کریمہ سرکار دو عالم (ع) کے آخر دور حیات میں اس دقت نازل ہوئی ہے جب آپ جناب ام سلمہ کے گھر میں تھے اور اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع)و حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے ایک خیبری چادر اوڑھادی اور بارگاہ احدیت میں عرض کی، خدایا یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں، تو ام سلمہ نے گذارش کی کہ حضو ر میری جگہ کہاں ہے؟ فرمایا تم منزل خیر پر ہو  یا  تمہارا انجام بخیر ہے۔

 دوسری روایت کے مطابق ام سلمہ نے عرض کی کہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں؟

 تو فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

 ایک دوسری روایت کی بناپر ام سلمہ نے گوشہ چادراٹھاکر داخل ہونا چاہا تو حضور نے اسے کھینچ لیا اور فرمایا کہ تم خیر پر ہو۔

 مسلمان محدثین اورمورخین نے اس تاریخی عظیم الشان واقع کو اپنی کتابوں میں محفوظ کیا ہے اور بقول علامہ طباطبائی طاب ثراہ اس سلسلہ کی احادیث ستر سے زیادہ ہیں، جن میں سے اہلسنت کی حدیثیں شیعوں کی حدیثوں کے مقابلہ میں اکثریت میں ہیں ان حضرات نے حضرت ام سلمہ ، عائشہ ، ابوسعید خدری، واثلہ بن الاسقع، ابوالحمراء ، ابن عباس، ثوبان ( غلام پیغمبرِ اکرم) عبداللہ بن جعفر، حسن بن علی (ع) سے تقریباً چالیس طریقوں سے نقل کی ہے جبکہ شیعہ حضرات نے امام علی (ع) ، امام سجاد (ع) ، امام باقر (ع) ، امام صادق (ع) ، امام رضا (ع) ، ام سلمہ ، ابوذر، ابولیلیٰ ، ابواسود دئلی ، عمر ابن میمون اور دی اور سعد بن ابی وقاص سے تیس سے کچھ زیادہ طریقوں سے نقل کیا ہے۔ ( المیزان فی تفسیر القرآن 16 / 311)

 

 

 مؤلف، عنقریب آپ دیکھیں گے کہ ان تمام احادیث کو فریقین نے امام علی (ع) ، امام حسن (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، حضرت ام سلمہ ، عائشہ، ابوسعید خدری ابولیلیٰ انصاری، جابر بن عبداللہ انصاری، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے اور اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ اہلسنت(ع) نے امام حسین (ع) ابوبرندہ، ابوالحمراء، انس بن مالک ، براء بن عازب، ثوبان ، زینب بنت ابی سلمہ ، صبیح، عبداللہ بن جعفر، عمر بن ابی سلمہ اور واثلہ بن الامسقع سے نقل کیا ہے جس طرح کہ اہل تشیع سے امام باقر (ع) امام صادق (ع)، امام رضا (ع)سے نقل کیا ہے اور ان روایات کو بھی نقل کیا ہے جن سے اہلبیت (ع) کے مفہوم کی وضاحت ہوجاتی ہے چاہے آیت تطہیر کے نزول کا ذکر ہو۔

 مختصر یہ ہے کہ یہ واقعہ سند کے اعتبار سے یقینی ہے اور دلالت کے اعتبار سے بالکل واضح بالخصوص اسلام نے اہلبیت(ع) کے موارد کی تعیین بھی کردی ہے کہ اب اس میں کسی طرح کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے اور نہ عنوان اہلبیت (ع) میں کوئی زوجہ داخل ہوسکتی ہے اور نہ اسے مشکوک بنایا جاسکتاہے۔

 اس واقعہ کے بعد سرکار دو عالم (ع) مسلسل مختلف مواقع اور مناسبات پر لفظ اہلبیت (ع) کو انھیں قرابتداروں کے لئے استعمال کرتے رہے جن کا کوئی خاص دخل ہدایت امت میں تھا اور اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں نظر آئیں گی۔

 اس کے علاوہ سورہ احزاب کی آیت 33 کا مضمون بھی ان تمام روایات کی تائید کرتاہے جو شان نزول کے بارے میں وارد ہوئی ہیں اور ان سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ اہلبیت (ع) کے مصداق کے بارے میں شک و شبہہ کسی طرح کی علمی قدر و قیمت کے مالک نہیں ہے۔

 

 

 

رمز عظمت مسلمین

زیر نظر کتاب میں اہلبیت (ع) کی معرفت، ان کے خصائص و امتیازات، ان کے علوم وحقوق اور ان کی محبت و عداوت سے متعلق جن احادیث کا ذکر کیا گیاہے ان سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ رسول اکرم نے انتہائی واضح اور بلیغ انداز سے اپنے بعض قرابتدار حضرات کو امت کا سیاسی ،علمی اور اخلاقی قائد بنادیا ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ حقیقی اسلام سے وابستہ رہنے اور ہر طرح کے انحراف و ضلال سے بچنے کے لئے انھیں اہلبیت (ع) سے وابستہ رہیں تا کہ واقعی توحید کی حکومت قائم کی جاسکے اور اپنی عزت و عظمت کو حاصل کیا جاسکے کہ اس عظیم منزل و منزلت تک پہنچنا قرآن و اہلبیت (ع) سے تمسک کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

 واضح رہے کہ آیت تطہیر کے اہلبیت (ع) کی شان میں نازل ہونے اور اس سلسلہ میں اٹھائے جانے والے والے شکوک و شبہات کی تفصیل جناب سید جعفر مرتضیٰ عاملی کی کتاب ” اہل البیت (ع) کی آیہ تطہیر“ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے کہ انھوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث درج کردی ہے۔

 

 

غالیوں سے برائت

واضح رہے کہ حقیقی شیعہ کسی دور میں بھی اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو کا شکار نہیں رہے ہیں اور انھوں نے ہر دور میں غالیوں سے برائت اور بیزاری کا اعلان کیا ہے۔

 اہلبیت (ع) علیہم السلام کی تقدیس و تمجید اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں ان کا عمل تمامتر آیات قرآنی اور معتبر احادیث کی بنیاد پر رہاہے جس کے بارے میں ایک مستقل باب اس کتاب میں بھی درج کیا گیاہے۔

 

 

داستان مصائب اہلبیت (ع)

عالم اسلام کا سب سے زیادہ المناک باب یہ ہے کہ قرآن مجید کے ارشادات اور سرکار دو عالم (ع) کے مسلسل تاکیدات کے باوجود اہلبیت علیہم السلام ہر دور میں ایسے ظلم و ستم کا نشانہ رہے ہیں جن کے بیان سے زبان عاجز اور جن کے تحریر کرنے سے قلم درماندہ ہیں  بلکہ بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر سرکار دو عالم نے انھیں اذیت دینے کا حکم دیا ہوتا تو امت اس سے زیادہ ظلم نہیں کرسکتی تھی اور مختصر منظوم میں یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر غم و الم ، رنج و اندوہ کو مجسم کردیا جائے تو اہلبیت علیہم السلام کی زندگی کا مرقع دیکھا جاسکتاہے۔

 یہ مصائب اس قابل ہیں کہ ان پر خون کے انسو بہائے جائیں اور اگر ان کی مکمل وضاحت کردی جائے تو صاف طور پر واضح ہوجائے گا کہ قرآن مجید کو نظر انداز کردینے کا نتیجہ اور مسلمانوں کے انحطاط کا سبب اور راز کیا ہے۔

 اور حقیقت امریہ ہے کہ یہ داستان مصائب اہلبیت (ع) کی داستان نہیں ہے بلکہ ترک قرآن کی داستان ہے اور دستور اسلامی کو نظر انداز کردینے کی حکایت ہے۔

 

امت اسلامیہ کی بیدارمغزی

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دور حاضر میں امت اسلامیہ کے تمام گذشتہ ادوار سے زیادہ بڑھتے ہوئے اسلامی شعور اور اسلامی انقلاب کے زیر اثر اسلامیات سے بڑھتی ہوئی دلچسپی نے وہ موقع فراہم کردیا ہے کہ امت علوم اہلبیت علیہم السلام کے چشموں سے سیراب ہو اور مسلمان کتاب و سنت اور تمسک بالثقلین کے زیر سایہ اپنے کلمہ کو متحد بنالیں۔

 قرآن و اہلبیت (ع) کے نظر انداز کرنے کی داستان تمام ہو اور امت رنج و الم، غم و اندوہ کے بجائے سکون و اطمینان کی طرف قدم آگے بڑھائے جس کے لئے زیر نظر کتاب ایک پہلا قدم ہے، اس کے بعد باقی ذمہ داری امت اسلامیہ اور اسلامیہ اور اس کے علماء و زعماء کرام پر ہے!۔

 

 

حکومت اہلبیت (ع)  

 

بشارات حکومت اہلبیت (ع)

” ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ان بندوں پر احسان کریں جنھیں اس زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے اورانھیں قائد و امام بناکر زمین کا وارث بنادیں“ ۔( سورہ قصص آیت 5)۔

 ” اس پروردگار نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب بنادے چاہے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیون نہ ہو“ ( سورہ صف آیت 9)۔

 ” پروردگار نے تم میں سے ایمان و کردار والوں سے وعدہ کیاہے کہ انھیں روئے زمین پر اسی طرح اپنا جانشین بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنادے گا جسے ان کیلئے پسندیدہ قرار دیاہے اور ان کے خوف کو امن میں تبدیل کردے گا اور یہ سب ہماری عبادت کریں گے اور کسی شے کو ہمارا شریک نہ قرار دیں گے اور اگر کوطی شخص اس کے بعد بھی انکار کرے تو اس کا شمار فاسقین میں ہوگا“۔( سورہ نور نمبر 55)۔

 

 

 1169۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک برپا نہ ہوگی جب تک میرے اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص حاکم نہ ہوجائے جس کا نام میرا نام ہوگا ۔( مسندابن حنبل 2 ص 10 / 3571 از عبداللہ بن مسعود)۔

 1170۔ رسول اکرم ! یہ دنیا اس وقت تک فنانہ ہوگی جب تک عرب کا حاکم میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص نہ ہوجائے جس کا نام میرا نام ہوگا ۔( سنن ترمذی 4 ص 505 / 2230 ، سنن ابی داؤد 3 ص 107 / 4282 ، مسند ابن حنبل 2 ص 11 / 3573 ، المعجم الکبیر 10 ص 131 /10208 ، الملاحم والفتن نمبر 148 ، بشارة المصطفیٰ ص 281)۔

 1171۔ ابولیلیٰ ! رسول اکرم نے علی (ع) سے فرمایا کہ تم میرے ساتھ جنّت میں ہوگے اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں میں ، تم ، حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) ہوں گے۔

 یا علی (ع) ! ان کینوں سے ہوشیار رہنا جو لوگوں کے دلوں میں چھپے ہوئے ہیں اور ان کا اظہار میری موت کے بعد ہوگا، یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی بھی لعنت ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی بھی لعنت ہے۔

 یہ کہہ کر آپ نے گریہ فرمایا  اور فرمایا کہ جبریل نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ لوگ علی (ع) پر ظلم کریں گے اور یہ سلسلہ ظلم قیام قائم (ع) تک جاری رہیگا اس کے بعد ان کا کلمہ بلند ہوگا اور لوگ ان کی محبت پر جمع ہوجائیں گے اور دشمن بہت کم رہ جائیں گے اور انھیں برا سمجھنے والے ذلیل ہوجائیں گے اور ان کی مدح کرنے والوں کی کثرت ہوگی اور یہ سب اس وقت ہوگا جب زمانہ کے حالات بالکل بدل جائیں گے، بندگان خدا کمزور ہوجائیں گے لوگ راحت و آرام سے مایوس ہوجائیں گے اور پھر ہمارا قائم مہدی قیام کرے گا ایک ایسی قوم کے ساتھ جن کے ذریعہ پروردگار حق کو غالب بنادے گا ، باطل کی آگ کوان کی تلوار کے پانی سے بجھادے گا اور لوگ رغبت یا خوف سے بہر حال ان کا اتباع کرنے لگیں گے۔

 

 

 اس کے بعد فرمایا، ایہا الناس ! کشائش حال کی خوشخبری مبارک ہو کہ اللہ کا وعدہ بہر حال سچاہے، وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتاہے اور اس کا فیصلہ رد نہیں ہوسکتاہے، وہ حکیم بھی ہے اور خبیر بھی ہے اور خدا کی فتح بہت جلد آنے والی ہے۔

 خدایا یہ سب میرے اہل ہیں ، ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا، خدایا ان کی حفاظت و رعایت فرمانا اور تو ان کا ہوجانا اور ان کی مدد کرنا، انھیں عزت دینا اورذلت سے دوچار نہ ہونے دینا اور مجھے انھیں کے ذریعہ باقی رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر ہے۔ (ینابیع المودہ 3 ص 279 / 72 ، مناقب خوارزمی 62 / 31 ، امالی طوسی (ر) 351 / 726)۔

 1172۔ رسول اکرم ! لوگو مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو، میری امت کی مثال اس بارش کے جیسی ہے جس کے بار ے میں نہیں معلوم ہے کہ اس کی ابتدا زیادہ بہتر ہے یا انتہا۔

 میری امت کی مثال اس باغ جیسی ہے جس سے اس سال ایک جما عت کو سیر کیا جائے اور دوسرے سال دوسری جماعت کو سیر کیا جائے اور شائد آخر میں وہ جماعت ہو جو وسعت میں سمندر، طول میں عمیق تر اور محبت میں حسین تر اہواور بھلا وہ امت کس طرح تباہ ہوسکتی ہے جس کی ابتدا میں میں ہوں اور میرے بعد بارہ صاحبان بخت اور ارباب عقل ہوں اور مسیح عیسی بن مریم بھی ہوں ، ہاں ان کے درمیان وہ افراد ہلاک ہوجائیں گے جو ہرح و مرج کی پیداوار ہوں گے کہ نہ وہ مجھ سے ہوں گے اور نہ میں ان سے ہوں گا۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1/52 / 18 ، خصال 476 / 39 ، کمال الدین 269 / 14 روایت حسین بن زید، کفایتہ الاثر ص 231 ، روایت یحییٰ بن جعدہ بن ہبیرہ ، العمدة 432 / 906 روایت مسعدہ عن الصادق (ع))۔

 1173۔ حذیفہ ! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اس امت کے لئے باعث افسوس ہے کہ اس کے حکام جابر و ظالم ہوں گے اور لوگوں کو قتل کریں گے ، اطاعت گذاروں کو خوفزدہ کریں گے علاوہ اس کے کہ کوئی انھیں کی اطاعت کا اظہار کردے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ مومن متقی بھی زبان سے ان کے ساتھ دے گا اور آل سے دور بھاگے گا ، اس کے بعد جب پروردگار چاہے گا کہ اسلام کو دوبارہ عزت عنایت کرے تو تمام جابروں کی کمر توڑ دے گا کہ وہ جو بھی چاہے کرسکتاہے اور کسی بھی امت کو تباہی کے بعد اس کی اصلاح کرسکتاہے۔

 

 

 اس کے بعد فرمایا ۔ حذیفہ ! اگر اس دنیا میں صرف ایک دن باقی رہ جائے گا تو پروردگار اس دن کو طول د ے گا یہاں تک کہ میرے اہلبیت (ع) میں سے وہ شخص حاکم ہو جس کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہو اور وہ اسلام کو غالب بنادے کہ خدا اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتاہے اور وہ بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔( عقد الدرر ص 62 ، کشف الغمہ 3 ص 262 ، حلیة الابرار 2 ص 704 ، ینابیع المودہ 3 ص 298 / 10)۔

 1174۔ رسول اکرم ! قیامت اس وقت تک بر پا نہ ہوگی جب تک ہمارا قائم حق کے ساتھ قیام نہ کرے اور یہ اس وقت ہوگا جب خدا اسے اجازت دے دے گا اس کے بعد جو اس کا اتباع کرے گا نجات پائے گا اور جو اس سے الگ ہوجائے گا وہ ہلاک ہوجائے گا ، بندگان خدا، اللہ کو یاد رکھنا اور اس کی بارگاہ میں پہنچ جانا، چاہے برف پر چلنا پڑے کہ وہ خدائے عزوجل کا اور میرا جانشین ہوگا۔( عیون اخبار الرضا (ع) ص 59 / 230 ، دلائل الامامة ص 452 / 428 روایت حسن بن عبداللہ بن محمد الرازی ، کفایتہ الاثر ص 106 روایت ابوامامہ)۔

 1175۔ سلمان ! جب رسول اکرم پر مرض کا غلبہ ہوا تو آپ نے فرمایا کہ تم لوگ باہر جاؤ میں گھر والوں کے ساتھ تخلیہ چاہتاہوں، سب لوگ باہر نکل گئے ، میں نے بھی جانا چاہا تو فرمایا کہ تم میرے اہلبیت(ع) میں ہو۔

 اس کے بعد حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا ، دیکھو میری عترت اور میرے اہلبیت(ع) کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا کہ دنیا نہ پہلے کسی کے لئے باقی رہی ہے، نہ بعد میں رہے گی اور نہ ہمارے لئے رہنے والی ہے۔

 

 

 اس کے بعد علی (ع) سے فرمایا کہ سب سے اچھی حکومت حق کی حکومت ہے اور دیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت ہے اوردیکھو تم لوگ ان لوگوں کے بعد حکومت کرو گے ایک دن کے بدلے دو دن، ایک مہینہ کے بدلے دو مہینے اور ایک سال کے بدلے دو سال، (مناقب امیر المومنین (ع) کوفی 2 ص 171 / 250)۔

 1176۔ امام علی (ع)! آل محمد ہی کے ذریعہ حق اپنے مرکز پر واپس آنے والا ہے اور باطل اپنی جگہ سے زائل ہونے والا ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ 239)۔

 1177۔ امام علی (ع) ! میں بار بار حملہ کرنے والا اور صاحب حکومت حق ہوں ، میرے پاس عصا بھی ہے اور مہر بھی ہے، میں وہ زمین پر چلنے والا ہوں جو لوگوں سے روز محشر کلام کروں گا۔( کافی 1 ص 198 / 3 روایت ابوالصامت الحلوانی عن الباقر (ع))۔

 1178۔ امام علی (ع) ! نرید ان نمّن علی الذین استضعفوا  کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار سامنے لائے گا، اور اس کے ذریعہ انھیں عزت اور دشمنوں کو ذلت نصب فرمائے گا۔( الغیبتہ الطوسی (ر) ص 184 / 143 روایت محمد بن الحسین )۔

 1179۔ امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) نے فرمایا ہے کہ یہ دنیا بیزاری کے بعد ہم پر ویسے ہی مہربان ہوگی جیسے کاٹنے والی اونٹنی اپنے بچہ پر مہربان ہوتی ہے اور اس کے ذیل میں آپ نے آیت ” نرید ان نمنّ“ کی تلاوت فرمائی ہے ۔( خصائص الائمہ ذیل میں آپ نے آیت ”نرید ان نمنّ“ کی تلاوت فرمائی ہے۔( خصائص الائمہ ص 70 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 407 ، شواہد التنزیل 1ص 556 / 590 روایات ربیعہ بن ناجذ، نہج البلاغہ حکمت نمبر 209 ، تفسیر فرات کوفی 314 / 420)۔

 

 

 1180۔ امام علی (ع)! ” نرید ان نمن“ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آل محمد ہیں جن کے مہدی کو پروردگار مشقتوں کے بعد اقتدار دے گا اور وہ آل محمد کی عزت اور دشمنوں کی ذلت کا سامان فراہم کرے گا، ( الغیبتہ الطوسی (ر) 184 / 143 روایت محمد بن الحسین بن علی )۔

 نوٹ! یہ روایت بعینہ نمبر1178 میں بیان ہوچکی ہے، اس مقام پر مولف محترم سے اعداد و شمار میں اشتباہ ہوگیا ہے، جوادی

 1181۔ محمد بن سیرین ! میں نے بصرہ کے متعدد شیوخ سے یہ بات سنی ہے کہ حضرت علی (ع) بن ابی طالب (ع) جنگ جمل کے بعد بیمار ہوگئے اور جمعہ کا دن آگیا تو آپ نے اپنے فرزند حسن (ع) سے کہا کہ تم جاکر نماز جمعہ پڑھادو۔

 وہ مسجد میں آئے اور منبر پر جاکر حمد و ثنائے پروردگار اور شہادت و صلوات کے بعد فرمایا۔

 ایہا الناس ! پروردگار نے ہمیں نبوت کے ساتھ منتخب کیا ہے اور تمام مخلوقات میں مصطفیٰ قرار دیاہے، ہمارے گھر میں کتاب اور وحی نازل کی ہے اور خدا گواہ ہے کہ جو شخص بھی ہمارے حق میں ذرا کمی کرے گا پروردگار اس کی دنیا و آخرت دونوں کم کردے گا اور ہمارے سر پر جو حکومت چاہے قائم ہوجائے، آخر کا ہماری ہی حکومت ہوگی ” اور یہ بات تمھیں ایک عرصہ کے بعد معلوم ہوجائے گی “ ۔ سورہ ص آیت 88)۔

 اس کے بعد نماز پڑھائی اور اس واقعہ کی خبر حضرت علی (ع) تک پہنچا دی گئی ، نماز کے بعد جب حضرت حسن (ع) باپ کے پاس پہنچے تو حضرت دیکھ کر بیساختہ رونے لگے اور فرزند کو کلیجہ سے لگار کر پیشانی کا بوسہ دیا، فرمایا ” یہ ایک ذریت ہے جس میں ایک کا سلسلہ ایک سے ملا ہواہے اور پروردگار بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔“ آل عمران آیت 34 ( امالی طوسی (ر) 82 /121 / 104 / 159 ، بشارة المصطفیٰ ص 263 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 11)۔

 

 

 1182۔ امام حسن (ع) نے سفیان ابی لیلیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا سفیان مبارک ہو، یہ دنیا نیک و بد سب کیلئے یونہی رہے گی یہاں تک کہ پروردگار آل محمد کے امام برحق کو منظر عام پر لے آئے۔( شرح نہح البلاغہ معتزلی 16 / 45 روایت سفیان بن ابی لیلیٰ ، مقاتل الطالبیین ص 76 ، الملاحم والفتن ص 99)۔

 1183۔ امام حسن (ع) نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ پروردگار نے جب بھی کسی نبی کو بھیجا ہے تو اس کے لئے نقیب ، قبلہ اور گھر کا بھی انتخاب کیا ہے، قسم ہے اس ذات کی جس نے حضرت محمد کو نبی برحق بنایاہے، جو شخص بھی ہم اہلبیت (ع) کے حق میں کمی کرے گا خدا اس کے اعمال میں کمی کردے گا اور ہم پر جو بھی حکومت گذرجائے، آخر کا رِ حکومت ہماری ہی ہوگی اور یہ بات تھوڑے عرصہ کے بعد معلوم ہوجائے گی ۔ (مروج الذہب 3 ص 9 ، نثر الدر 1 ص 328)۔

 1184۔ امام باقر (ع) ! میں نے کتاب علی (ع) میں دیکھاہے کہ ” ان الارض الله ( سورہ اعراف آیت 128 ) سے مراد ہیں اور میرے اہلبیت(ع) ہیں کہ پروردگار نے ہمیں اس زمین کا وارث بنایاہے اور ہمیں وہ متقی ہیں جن کے لئے انجام کار ہے، یہ ساری زمین ہمارے لئے ہے لہذا جو بھی کسی زمین کو زندہ کرے گا اس کا فرض ہے کہ اسے آباد رکھے اور اس کا خراج امام اہلبیت (ع) کو ادا کرتا رہے اور باقی خود استعمال کرے لیکن اگر زمین کو بیکار چھوڑ دیا اسے خراب کردیا اور دوسرے مسلمان نے لے کرآباد کرلیا اور زندہ کرلیا تو وہ چھوڑ دینے والے سے زیادہ صاحبِ اختیار ہے اور اسے امام اہلبیت (ع) کو اس کا خراج ادا کرنا پڑے گا اور باقی اس کے لئے حلال رہے گی یہاں تک کہ ہمارے قائم کا ظہور ہوجائے اور وہ تلوار اٹھاکر ساری زمینوں پر قبضہ کرلے اور انھیں اغیار کے قبضہ سے نکال لے تو صرف جس قدر زمین ہمارے شیعوں کے قبضہ میں ہوگی اسے انھیں دیدیا جائے گا اور باقی امام کے قبضہ میں ہوگی۔( کافی 1 ص 407 /1 روایت ابوخالد کابلی)۔

 

 

 1185۔ ابوبکر الحضرمی ! جب حضرت ابوجعفر باقر (ع) کو شام سے عبدالملک بن ہشام کے پاس لایا گیا اور دروازہ پر لاکر روک دیا گیا تو ہشام نے درباریوں سے کہا کہ جب تم لوگ دیکھو کہ میں محمد (ع) بن علی (ع) کو برا بھلا کہہ رہاہوں تو سب کے سب انھیں برا بھلا کہنا اور اس کے بعد آپ کو دربار میں طلب کیا گیا ، آپ نے داخل ہوکر تما م لوگوں کو سلام کیا اور بیٹھ گئے، ہشام کو یہ بات سخت ناگوار گذری کہ نہ حاکم کو خصوصی سلام کیا اور نہ بیٹھنے کی اجازت طلب کی چنانچہ اس نے سرزنش شروع کردی اور کہا کہ تم لوگ ہمیشہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرتے ہو اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے کر جہالت اور نادانی کی بناپر امام بننا چاہتے ہو؟

 یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا تو درباریوں نے وہی کام شروع کردیا، جب سب خاموش ہوئے تو حضرت نے فرمایا کہ لوگو! تم کدھر جارہے ہو اور تمھیں کہاں گمراہ کیا جارہاہے، ہمارے ہی اول کے ذریعہ تمھیں ہدایت دی گئی ہے اور ہمارے ہی آخر پر تمھارا خاتمہ ہونے والا ہے ، اگر تمھارے پاس دنیا کی حکومت ہے تو آخری اقتدا ر ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے جس کے بعد کوئی ملک نہیں ہے کہ عاقبت صرف صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( کافی 1 ص 471 /5)۔

 1186۔ امام باقر (ع) ! یاد رکھو کہ بنئ امیہ کے واسطے بھی ایک ملک ہے جسے کوئی روک نہیں سکتاہے اور اہل حق کو بھی ایک دولت ہے جسے پروردگار ہم اہلبیت(ع) میں سے جسے چاہے گا عطا کردے گا لہذا جو اس وقت تک باقی رہ گیا ، وہ بلندترین منزل پر ہوگا اور اگر اس سے پہلے مرگیا تو خدا اسی میں خیر قرار دے گا ۔ (الغیبتہ النعمانی ص 195 / 2 ، روایت ابوالجارود )۔

 1187۔ امام باقر (ع) ! ” قل جاء الحق و زہق الباطل کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو باطل کا اقتدار ختم ہوجائے گا۔ ( کافی 8 ص 287 / 432 روایت ابوحمزہ)۔

 

 

 1188۔ امام صادق (ع)! ہمارے بھی دن ہیں اور ہماری بھی حکومت ہے خدا جب چاہے گا اسے بھی لے آئے گا ۔( امالی مفید 28 / 9 روایت حبیب بن نزار بن حیان)۔

 1189۔ امام صادق (ع)! بلاؤں کا آغاز ہم سے ہوگا پھر تمھاری نوبت آئے گی اور اسی طرح سہولتوں کی ابتدا ہم سے ہوگی پھر تمھیں وسیلہ بنایا جائے گا اور قسم ہے ذات پروردگار کی کہ پروردگار تمھارے ذریعہ ویسے ہی انتقام لے گا جیسے پتھر کے ذریعہ سزا دی ہے۔( امالی مفید 301 / 2 ، امالی طوسی (ر) 74 / 109 روایت سفیان بن ابراہیم الغادمی القاضی )۔

 1190۔ امام صادق (ع) ! میرے والد بزرگوار سے دریافت کیا گیا کہ قاتلوا لامشرکین کافةً توبہ نمبر 36 اور ” حتی لا تکون فتنه“ ۔ سورہ انفال 39 کا مفہوم کیا ہے؟

 تو فرمایا کہ اس کی ایک تاویل ہے جس کا وقت ابھی نہیں آیاہے اور جب ہمارے قائم کا قیام ہوگا تو جو زندہ رہے گا وہ اس تاویل کو دیکھ لے گا جب دین پیغمبر وہاں تک پہنچ جائے گا جہاں تک رات کی رسائی ہوگی اور اس کے بعد روئے زمین پر کوئی مشرک نہ رہ جائے گا۔ (تفسیر عیاشی 2 ص 56 / 48 روایت زرارہ ، مجمع البیان روایت زرارہ 4 ص 83 ، ینابیع المودة 3 ص 239 / 13)۔

 1191۔ امام صادق (ع) نے ” وعد الله الذین امنوا منکم و عملوا الصالحات سورہ نور آیت 55 کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت قائم اور ان کے اصحاب کے بارے میں ہے۔( الغیبتہ للنعمانی 240 / 35 از ابوبصیر، تاویل الآیات الظاہرہ ص 365 ، ینابیع المودہ 3 ص 345 / 32 ، از امام باقر (ع))۔

 1192۔ دعائے ندبہ آل محمد کے بارے میں پروردگار کا فیصلہ اسی طرح جاری ہوا ہے جسمیں بہترین ثواب کی امیدیں ہیں اور زمین اللہ کی ہے جسے چاہتاہے اس کا وارث بنادیتاہے اور انجام کا بہر حال متقین کے لئے ہے اور ہمارا پروردگار پاک و پاکیزہ ہے اور اس کا وعدہ سچا اور برحق ہے اور وہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرسکتاہے کہ وہ صاحب عزت و غلبہ بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔( بحار الانوار 102 / 106 از مصباح الزائر از محمد بن علی بن ابی قرہ از کتاب محمد بن الحسین بن سفیان البزوفری)۔

 

 

تمہید حکومت اہلبیت (ع)

 1193۔ رسول اکرم ! کچھ لوگ مشرق سے برآمد ہوں گے جو مہدی کے لئے زمین ہموار کریں گے۔(سنن ابن ماجہ 2 ص1368 / 4088 ، المعجم الاوسط 1 ص 94 / 285 ، مجمع الزوائد 7 ص 617 / 12414 ، عقق الدرر ص 125 ، کشف الغمہ 3 ص 267 روایت عبداللہ بن الحارث بن جزوالزبیدی)۔

 1194۔ عبداللہ ! ہم لوگ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنئ ہاشم کے کچھ نوجوان آگئے، آپ نے انھیں دیکھا تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے میں نے عرض کیا کہ حضور آپ کے چہرہ پر افسردگی کے آثار دیکھ رہاہوں ؟ فرمایا ہم اہلبیت (ع) وہ ہیں جن کے پروردگار نے آخرت کو دنیا پر مقدم رکھاہے اور میرے اہلبیت (ع) عنقریب میرے بعد بلاء ، آوارہ وطنی اور دربدری کی مصیبت میں مبتلا ہوں گے یہاں تک کہ ایک قوم سیاہ پرچم لئے مشرق سے قیام کرے گی اور وہ لوگ خیر کا مطالبہ کریں گے لیکن انھیں نہ دیا جائے گا تو قتال کریں گے اور کامیاب ہوں گے اور مطلوبہ اشیاء مل جائیں گے مگر خود قبول نہ کریں گے بلکہ میرے اہلبیت(ع) میں سے ایک شخص کے حوالہ کردیں گے جو زمین کو عدل و انصاف سے ویسے ہی بھر دے گا جیسے ظلم و جور سے بھری ہوگی ، دیکھو تم سے جو بھی اس وقت تک باقی رہ جائے اس کا فرض ہے کہ ان تک پہنچ جائے چاہے برف پر چل کر جانا پڑے ۔( سنن ابن ماجہ 2 ص 1366 / 4082 ، الملاحم والفتن ص 47 ، المصنف ابن ابی شیبہ 8 ص 697 / 74 ، دلائل الامامہ ص 242 / 414 ، مناقب کوفی 2 ص 110 / 599 روایت عبداللہ بن مسعود، کشف الغمہ 3 ص 262 روایت عبداللہ بن عمر، مستدرک حاکم 1 ص 511 / 8434 ، العدد القویہ 91 / 157 ، ذخائر العقبئٰ ص 17)۔

 1195۔ رسول اکرم ! مشرق کی طرف سے سیاہ پرچم والے آئیں گے جن میں دل لوہے کی چٹانوں جیسے مضبوط ہوں گے لہذا جو ان کے بارے میں سن لے اس کا فرض ہے کہ ان سے ملحق ہوجائے چاہے برف کے اوپر چل کر جائے۔ ( عقد الدرر ص 129 روایت ثوبان)۔

 

 

 1196۔ امام باقر ! میں ایک قوم کو دیکھ رہاہوں جو مشرق سے برآمد ہوئی ہے اور حق طلب کررہی ہے لیکن اسے نہیں جارہاہے اور پھر بار بار ایسا ہی ہورہاہے یہاں تک کہ وہ لوگ کاندھے پر تلوار اٹھالیں گے اور پھر جو چاہیں گے سب مل جائے گا لیکن اسے قبول نہ کریں گے بلکہ تمھارے صاحب کے حوالہ کردیں گے اور ان کے مقتولین شہداء کے درجہ میں ہوں گے، اگر میں اس وقت تک باقی رہتا تواپنی جان کو بھی صاحب الامر کے لئے باقی رکھتا ۔( الغیبتہ النعمانی ص 273 / 50 روایت ابوخالد)۔

 1197۔ امام علی (ع)! اے طالقان ! اللہ کے تیرے یہاں خزانہ ہیں جو سونے چاندی کے نہیں ہیں بلکہ ان صاحبان ایمان کے ہیں جو مکمل معرفت رکھنے والے ہوں گے اور آخر زمانہ میں مہدی کے انصار میں ہوں گے۔ ( الفتوح 2 ص 320 ، کفایة الطالب ص 491 روایت اعثم کوفی ینابیع المودہ 3 ص 298 / 12)۔

 1198۔ امام حسن (ع)! رسول اکرم نے اہلبیت (ع) پر وارد ہونے والی بلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے بعد خدا مشرق سے ایک پرچم بھیجے گا اور جو اس کی مدد کرے گا خدا اس کی مدد کرے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا خدا اسے چھوڑ دے گا یہاں تک کہ وہ لوگ اس شخص تک پہنچ جائیں جس کا نام میرا نام ہوگا اور سارے امور حکومت اس کے حوالہ کردیں اور اللہ اس کی تائید اور نصرت کردے ۔( عقد الدرر 1 ص 130 ، الملاحم و الفتن ص 49 روایت علاء بن عتبہ )۔

 1199۔ محمد بن الحنفیہ ! ہم حضرت علی (ع) کی خدمت میں حاضر تھے جب ایک شخص نے مہدی (ع) کے بارے میں سوال کرلیا تو آپ نے فرمایا افسوس اس کے بعد اپنے ہاتھ سے سات گر ہیں باندھیں اور پھر فرمایا کہ وہ آخر زمانے میں خروج کرے گا جب حال یہ ہوگا کہ اگر کوئی شخص خدا کا نام لے گا تو قتل کردیا جائے گا۔ پھر خدا اس کے پاس ایک قوم کو جمع کردے گا جو ابر کے ٹکڑوں کی طرح جمع ہوجائیں گے اور ان کے دلوں میں محبت ہوگی کوئی دوسرے سے گھبرائے گا نہیں اور وہ کسی کے آنے سے خوش بھی نہیں ہوں گے، ان کی تعداد اصحاب بدر جیسی ہوگی ، نہ اولین ان سے آگے جاسکتے ہیں اور نہ بعد والے انھیں پاسکتے ہیں، اصحاب طالوت کے عدد کے برابر، جنھوں نے نہر کو پار کرلیا تھا ۔( مستدرک حاکم 4 ص 597 / 8659 ، عقد الدرر 1 ص 131)۔

 

 

 1200۔ عفان البصری راوی ہیں کہ امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ تمھیں معلوم ہے کہ قم کانام قم کیوں ہے؟ میں نے عرض کی خدا ، رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں ! فرمایا اس کا نام قم اس لئے ہے کہ یہاں والے قائم آل محمد کے ساتھ قیام کریں گے اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قائم کی مدد کریں گے( بحار الانوار 60 ص 218 / 38 نقل از کتاب تاریخ قم )۔ 1201۔ امام صادق (ع) ۔ قم کی خاک مقدس ہے اور اس کے باشندے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں، کوئی ظالم اس سرزمین کا ارادہ نہیں کرے گا مگر یہ کہ خدا فوراً اسے سزا دے گا جب تک کہ خود وہاں والے خیانت نہ کریں گے ورنہ اگر ایسا کریں گے تو خدا ان پر ظالم حکام کو مسلط کر دے گا۔

 اہل قم ہمارے قائم کے انصار ہیں اور ہمارے حق کے طلبگار ، یہ کہہ کر آپ نے آسمان کی طرف رخ کیا اور دعا کی خدایا، انھیں ہر فتنہ سے محفوظ رکھنا اور ہر ہلاکت سے نجات دینا ۔( بحار الانوار 60 ص 218 / 49)۔

 1202۔ امام صادق (ع) ۔ عنقریب کوفہ اہل ایمان سے خالی ہوجائے گا اور علم اس میں مخفی ہوجائے گا جس طرح کہ سانپ اپنے سوراخ میں چھپ جاتاہے اور پھر علم ایک قم نامی شہر میں ظاہر ہوگا جو علم و فضل کا معدن ہوگا اور پھر زمین پر کوئی دینی اعتبار سے مستضعف اور کمزور نہ رہ جائے گا، یہاں تک کہ پردہ دار خواتین بھی صاحب علم و فضل ہوجائیں گی اور یہ سب ہمارے قائم کے ظہور کے قریب ہوگا جب تک خدا قم اور اہل قم کو حجت کا قائم مقام قرار دیدے گا کہ ایسا نہ ہوتا تو زمین اہل زمین کو لے کر دھنس جاتی اور زمین میں کوئی حجت خدا نہ رہ جاتی، پھر تم سے تمام مشرق و مغرب تک علم کا سلسلہ پہنچے گا اور اللہ کی حجت مخلوقات پر تمام ہوجائے گی اور کوئی شخص ایسا باقی نہ رہ جائیگا جس تک علم اور دین نہ پہنچ جائے اور اس کے بعد قائم کا قیام ہوگا۔ ( بحار الانورا 60 ص 213 / 23 نقل از تاریخ قم )۔

 

 

 1203۔ امام صادق (ع) ! پروردگار نے کوفہ کے ذریعہ تمام شہروں پر حجت تمام کی اور مومنین کے ذریعہ تمام غیر مومنین پر اور پھر قم کے ذریعہ تمام شہروں پر اور اہل قم کے ذریعہ تمام اہل مشرق و مغرب کے جن و انس پر ، خدا قم اور اہل قم کو کمزور نہ رہنے دے گا بلکہ انھیں توفیق دے گا اور ایک زمانہ آئے گا جب قم اور اہل قم تمام مخلوقات کے لئے حجت بن جائیں گے اور یہ سلسلہ ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ظہور تک رہے گا کہ اگر ایسا نہ ہوگا تو زمین اہل سمیت دھنس جاتی ، ملائکہ قم اور اہل قم سے بلاؤں کو دفع کرتے ہیں اور کوئی ظالم اسکی برائی کا ارادہ نہیں کرتاہے کہ پروردگار اس کی کمر توڑ دیتاہے۔( بحار الانوار 60 ص 212 / 22)۔

 1204۔ امام صادق (ع) ” آیت شریفہ ” بعثنا علیکم عباد النا“سورہ اسراء آیت 5 کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ یہ ایک قوم ہے جسے پروردگار خروج قائم سے پہلے پیدا کرے گا اور یہ آل محمد کے ہر خون کا بدلہ لے لیں گے ۔( کافی 8 ص 206 / 250 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 272 روایت عبداللہ بن القاسم البطل، تفسیر عیاشی 2 ص 281 / 20 روایت صالح بن سہل)۔ 1205۔ امام کاظم (ع)! اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی دعوت دے گا اور اس کے ساتھ ایک قوم لوہے کی چٹانوں کی طرح جمع ہوجائے گی جسے تیز و تند آندھیاں بھی نہ ہلاسکیں گی ، یہ لوگ جنگ سے خستہ حال نہ ہوں گے اور بزدلی کا بھی اظہار نہ کریں گے بلکہ خدا پر بھروسہ کریں گے اور انجام کا ر بہر حال صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( بحار الانوار 60ص 216 /37 نقل از تاریخ قم روایت ایوب بن یحییٰ الجندل)۔

 

 

 

آخری حکومت

 1206۔ امام باقر (ع)! ہماری حکومت آخری حکومت ہوگی اور دنیا کاکوئی خاندان نہ ہوگا جو ہم سے پہلے حکومت نہ کرچکا ہو اور ہماری حکومت اس لئے آخری ہوگی کہ کوئی شخص یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں موقع ملتا تو ہم بھی یہی طریقہ اختیار کرتے اور اس نکتہ کی طرف پرودگار نے اشارہ کیا ہے کہ عاقبت صاحبان تقویٰ کے لئے ہے۔( الغیبتة الطوسی (ر) 472 / 493 روایت کسیان بن کلیب ، روضة الواعظین ص 291)۔

 1207۔ امام صادق (ع)! ہر قوم کی ایک حکومت ہے جس کا وہ انتظار کررہی ہے لیکن ہماری حکومت بالکل آخر زمانہ میں ظاہر ہوگی ۔ (امالی صدوق (ر) 396 / 3 ، روضة الواعظین ص 234)۔

 1208۔ امام صادق (ع) ! یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا یہاں تک کہ کوئی صنف باقی نہ رہ جائے جس نے حکومت نہ کرلی ہو اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ رہ جائے کہ اگر ہمیں حکومت مل جاتی تو ہم انصاف سے کام لیتے ، اس کے بعد ہمارا قائم حق و عدل کے ساتھ قیام کرے گا۔(الغیبتہ النعمانی ص 274 / 53 روایت ہشام بن سالم )۔

 

 

 

انتظار حکومت

 1209۔ اسماعیل الجعفی ! ایک شخص امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے پاس ایک صحیفہ تھا جس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ یہ مخاصم کا صحیفہ ہے جس میں اس دین کے بارے میں سوال کیا گیا ہے جس میں عمل قبول ہوجاتاہے اس نے کہا خدا آپ پر رحمت نازل کرے میں بھی یہی چاہتا تھا؟

 فرمایا لا اله الا الله وحده لاشریک له و ان محمداً عبده و رسوله کی شہادت اور تمام احکام الہیہ اور ہم اہلبیت(ع) کی ولایت کا اقرار اور ہمارے دشمنوں سے برائت اور ہمارے احکام کے آگے سر تسلیم خم کردینا اور احتیاط و تواضع اور ہمارے قائم کا انتظار یہی وہ دین ہے جس کے ذریعہ سے اعمال قبول ہوتے ہیں اور یہ انتظار اس لئے ضروری ہے کہ ہماری بھی ایک حکومت ہے اور پروردگار جب چاہے گا اسے منظر عام پر لے آئے گا۔( کافی 2 ص 22 / 13 ، امالی طوسی (ر) 179 / 299)۔

 1210۔ امام علی (ع)! ہمارے امر کا انتظار کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے کوئی راہ خدا میں اپنے خون میں لوٹ رہاہو۔( خصال 625 / 10 ، کمال الدین 645 / 6 روایت محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تحف العقول ص 115)۔

 1211۔ زید بن صوحان نے امیرالمومنین (ع) سے دریافت کیا کہ سب سے زیادہ محبوب پروردگار کونسا عمل ہے؟ فرمایا انتظار کشائش حال۔ ( الفقیہ 4 / 383 / 5833 روایت عبداللہ بن بکر المرادی)۔

 1212۔ اما م باقر (ع)! تم میں جو شخص اس امر کی معرفت رکھتاہے اور اس کا انتظار کررہاہے اور اس میں خیر سمجھتاہے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے راہ خدا میں قائم آل محمد کے ساتھ تلوار لے کر جہاد کررہاہو۔(مجمع البیان 9 ص 359 روایت حارث بن المغیرہ ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 640)۔

 

 

 1213۔ امام باقر (ع)! تمھارے مضبوط کو چاہئے کہ کمزور کو طاقتور بنائے اور تمھارے غنی کا فرض ہے کہ فقیر پر توجہ دے اور خبردار ہمارے راز کو فا ش نہ کرنا اور ہمارے امر کا اظہار نہ کرنا اور جب ہماری طرف سے کوئی حدیث آئے تو اگر کتاب خدا میں ایک یا دو شاہد مل جائیں تو اسے قبول کرلینا ورنہ توقف کرنا اور اسے ہماری طرف پلٹا دینا تا کہ ہم اس کی وضاحت کرسکیں اور یاد رکھو کہ اس امر کا ا نتظار کرنے والا نماز گذار اور روزہ دار کا ثواب رکھتاہے اور جو ہمارے قائم کا ادراک کرلے اور ان کے ساتھ خروج کرکے ہمارے دشمن کو قتل کردے اسے بیس شہیدوں کا اجر ملے گا اور جو ہمارے قائم کے ساتھ قتل ہوجائے گا اسے 25 شہیدوں کے اجر سے نوازا جائے گا ۔ (کافی 2 ص 222/ 4 روایت عبداللہ بن بکیر ، امالی طوسی (ر) 232 / 410 ، بشارة المصطفیٰ ص 113 روایت جابر )۔

 1214۔ امام باقر (ع)! اگر کوئی شخص ہمارے امر کے انتظار میں مرجائے تو اس کا کوئی نقصان نہیں ہے جبکہ اس نے امام مہدی (ع) کے خیمہ اور آپ کے لشکر کے ساتھ موت نہیں پائی ہے۔( کافی 1 ص 372 / 6 روایت ہاشم )۔

 1215۔ امام صادق (ع)! جو ہمارے امر کا منتظر ہے اور اس را ہ میں اذیت و خوف کو برداشت کررہاہے وہ کل ہمارے زمرہ میں ہوگا۔( کافی 8 ص 37 / 7 روایت حمران )۔ 1216۔ امام صادق (ع) ! ہمارے بارھویں کا انتظار کرنے والا رسول اکرم کے سامنے تلوار لے کر جہاد کرنے والے کے جیسا ہے جبکہ وہ رسول اکرم سے دفاع بھی کررہاہو۔( کمال الدین 335/ 5 ، الغیبتہ النعمانی 91 / 21 ، اعلام الوریٰ ص 404 روایت ابراہیم کوفی)۔

 1217۔ امام صادق (ع)! جو اس امر کے انتظار میں مرجائے وہ ویسا ہی ہے جیسے قائم کے ساتھ ان کے خیمہ میں رہاہو بلکہ ایسا ہے جیسے رسول اکرم کے سامنے تلوار لے کر جہاد کیاہو۔( کمال الدین 338 / 11 روایت مفضل بن عمر)۔

 

 

 1218۔ امام صادق (ع) ! جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کا شمال حضرت قائم (ع) کے اصحاب میں ہو اس کا فرض ہے کہ انتظار کرے اور تقویٰ اور حسن اخلاق کے ساتھ عمل کرے کہ اس حالت میں اگر مر بھی جائے اور قائم کا قیام اس کے بعد ہو تو اس کو وہی اجر ملے گا جو حضرت کے ساتھ رہنے والوں کا ہوگا لہذا تیاری کرو اور انتظار کرو تمھیں مبارک ہو اے وہ گروہ جس پر خدا نے رحم کیا ہے۔( الغیبتہ للنعمانی 200 / 16 روایت ابوبصیر)۔

 1219۔ امام جواد (ع) ! خدایا اپنے اولیاء کو اقتدار دلوادے ان ظالموں کے ہاتھ سے جنھوں نے میرے مال کو اپنا مال بنالیا ہے اور تیرے بندوں کو اپنا غلام بنالیاہے تیری زمین کے عالم کو گونگے، اندھے، تاریک ، اندھیرے میں چھوڑدیاہے جہاں آنکھ کھلی ہوئی ہے لیکن دل اندھے ہوگئے ہیں اور ان کے لئے تیرے سامنے کوئی حجت نہیں ہے، خدایا تو نے انھیں اپنے عذاب سے ڈرایا، اپنی سزا سے آگاہ کیا، اطاعت گذاروں سے نیکی کا وعدہ کیا ، برائیوں پر ڈرایا دھمکایا تو ایک گروہ ایمان لے آیا، خدایا اب اپنے صاحبان ایمان کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما کہ وہ سب ظاہل ہوگئے ہیں اور حق کی دعوت دے رہے ہیں اور امام منتظر قائم بالقسط کا اتباع کررہے ہیں ۔( نہج البلاغہ)۔

 1220۔ امام ہادی (ع)! زیارت جامعہ ، میں خدا کو اور آپ حضرات کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں آپ کی واپس کا ایمان رکھتاہوں، آپ کی رجعت کی تصدیق کرتا ہوں اور آپ کے امر کا انتظار کررہاہوں اور آپ کے حکومت کی آس لگائے بیٹھاہوں۔( تہذیب 6 ص 98 / 177)۔

 

 

 

دعاء حکومت

 1221۔ امام زین العابدین (ع)! پروردگار ! اہلبیت (ع) پیغمبر کے پاکیزہ کردار افراد پر رحمت نازل فرما جنھیں تو نے اپنے امر کے لئے منتخب کیا ہے۔ اور اپنے علم کا مخزن ، اپنے دین کا محافظ ، اپنی زمین میں اپنا خلیفہ اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دیاہے، انھیں اپنے ارادہ سے ہر رجس سے پاکیزہ بنایاہے اور اپنی ہستی کا وسیلہ اور اپنی جنت کا راستہ قرار دیاہے۔

 خدایا اپنے ولی کو اپنی نعمتوں کے شکریہ کی توفیق کرامت فرما اور ہمیں بھی ایسی ہی توفیق دے، انھیں اپنی طرف سے سلطنت و نصرت عطا فرما اور بآسانی فتح مبین عطا فرما، اپنے محکم رکن کے ذریعہ ان کی امداد فرما، ان کی کمر کو مضبوط اور ان کے بازو کو قوی بنا، اپنی نگاہوں سے ان کی نگرانی اور اپنی حفاظت سے ان کی حمایت فرما، اپنے ملائکہ سے ان کی نصرت اور اپنے غالب لشکر سے امداد فرما، ان کے ذریعہ کتاب و حد و شریعت و سنن رسول کو قائم فرما اور جن آثار دین کو ظالمین نے مردہ بنادیاہے انھیں زندہ بنادے، اپنے راستہ سے ظلم کی کثافت کو دور کردے اور اپنے طریق سے نقصانات کو جدا کردے راہ حق سے منحرف لوگوں کو زائل کردے اور کجی کے طلبگاروں کو محو کردے، ان کے مزاج کو چاہنے والوں کے لئے نرم کردے اور ہاتھوں کو دشمنوں پر غلبہ عنایت فرما ہمیں ان کی رافت ، رحمت ، مہربانی اور محبت عطا فرما اور ان کا اطاعت گذار اور خدمت شعار بنادے کہ ہم ان کی رضا کی سعی کریں، ان کی امداد اور ان سے دفاع کے لئے ان کے گرد رہیں اور اس عمل کے ذریعہ تیرا اور تیرے رسول کا قرب حاصل کرسکیں۔ (صحیفہ سجادیہ دعاء نمبر 47 ص 190 ۔191 ، اقبال الاعمال 2 ص 91)۔

 1222۔ امام باقر (ع) ! نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ کی تعلیم دیتے ہوئے، پروردگار ! ہم تجھ سے باعزت حکومت کے طلبگار ہیں جس کے ذریعہ اسلام اور اہل اسلام کو عزت نصیب ہو اور نفاق و اہل نفاق ذلیل ہوں، ہمیں اپنی اطاعت کا داعی اور اپنے راستہ کے قائدین میں قرار دیدے اور اسی حکومت کے ذریعہ دنیا و آخرت کی کرامت عطا فرما۔( کافی 3 ص 424 / 6 روایت محمد بن مسلم)۔

 

 

 1223۔ امام صادق (ع)! خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور امام مسلمین پر رحمت نازل فرما اورانھیں سامنے ، پیچھے، داہنے، بائیں ، اوپر ، نیچے ہر طرف سے محفوظ رکھ انھیں آسان فتح عنایت فرما اور باعزت نصرت عطا فرما، ان کے لئے سلطنت و نصرت قرار دیدے ، خدایا آل محمد کے سکون و آرام میں عجلت فرما اور جن و انس میں ان کے دشمنوں کو ہلاک کردے۔ ( مصباح المتہجد ص 392 ، جمال الاسبوع ص 293)۔

 1224۔ امام کاظم (ع)! سجدہ شکر کا ذکر کرتے ہوئے۔

 خدایا میں واسطہ دیتاہوں اس وعدہ کا جو تو نے اپنے اولیاء سے کیا ہے کہ انھیں اپنے اور ان کے دشمنوں پر فتح عنایت فرمائے گا کہ محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور آل محمد کے محافظین دین پر رحمت نازل فرما ۔ خدایا میں ہر تنگی کے بعد سہولت کا طلب گار ہوں ۔( کافی 3 ص 225 / 17 روایت عبداللہ بن جندب)۔

 1225۔ امام رضا (ع) ! امام زمانہ (ع) کے حق میں دعا کی تعلیم دیتے ہوئے۔

 خدایا اپنے ولی ، خلیفہ، مخلوقات پر اپنی حجت، اپنے حکم کے ساتھ بولنے والے اور اپنے مقاصد کی تعبیر کرنے والی زبان، اپنے اذن سے دیکھنے والی آنکھ ، اپنے بندوں پر اپنے شاہد، سردارمجاہد، اپنی پناہ میں رہنے والے اور اپنی عبادت کرنے والے سے دفاع فرما، اسے تمام مخلوقات کے شر سے اپنی پناہ میں رکھنا اور سامنے، پیچھے، داہنے، بائیں، اوپر نیچے سے اس کی ایسی حفاظت فرما جس کے بعد بربادی کا اندیشہ نہ رہے اور اس کے ذریعہ اپنے رسول اور اس کے آباء و اجداد کا تحفظ فرما جو سب تیرے امام اور تیرے دین کے ستون تھے، اسے اپنی امانت میں قرار دیدے جہاں بربادی نہیں اور اپنے ہمسایہ میں قرار دیدے جہاں تباہی نہیں اور اپنی پناہ میں قرار دیدے جہاں ذلت نہیں اور اپنی امان میں لے لے جہاں رسوائی کا خطرہ نہیں، اپنے زیر سایہ قرار دیدے جہاں کسی اذیت کا امکان نہیں، اپنی غالب نصرت کے ذریعہ اس کی امداد فرما اور اپنے قوی لشکر کے ذریعہ اس کی تائید فرما، اپنی قوت سے اسے قوی بنادے اور اپنے ملائکہ کو اس کے ساتھ کردے، اس کے دوستوں سے محبت فرما اور اس کے دشمنوں سے دشمنی کر، اسے اپنی محفوظ زرہ پہنادے اور ملائکہ کے حلقہ میں رکھ دے۔

 

 

 اس کے ذریعہ انتشار کو دور کردے، شگاف کو پر کردے، ظلم کو موت دیدے، عدل کو غالب بنادے، اس کے طول بقاء سے زمین کو موت دیدے، عدل کو غالب بنادے، اس کے طول بقاء سے زمین کو زینت دیدے اور اپنی نصرت سے اس کی تائید فرما ، اپنے رعب سے اس کی امداد فرما، اس کے مددگاروں کو قوی بنادے، اس سے الگ رہنے والوں کو رسوا کردے، جو دشمنی کرے اسے تباہ کردے اور جو خیانت کرے اسے برباد کردے، اس کے ذریعہ کا فروجابر حکام، ان کے ستون و ارکان سب کو قتل کردے اور گمراہوں کی کمر توڑ دے جو بدعت ایجاد کرنے والے، سنت کو مردہ بنادینے والے اور باطل کو تقویت دینے والے ہیں، اس کے ہاتھوں جابروں کو ذلیل، کافروں اور ملحدوں کو تباہ و برباد کردے وہ شرق و غرب میں ہوں یا برو بحر میں یا صحرا و بیابان میں ، یہاں تک کہ نہ ان کا کوئی باشندہ رہ جانے اور نہ ان کے کہیں آثار باقی رہ جائیں۔

 خدایا ان ظالموں سے اپنے شہروں کو پاک کردے اور اپنے نیک بندوں کو انتقام عطا فرما، مومنین کو عزت دے اور مرسلین کی سنت کو زندہ بنادے انبیاء کے بوسیدہ ہوجانے والے احکام کی تجدید فرما اور دین کے جو احکام محو ہوگئے ہیں یا بدل دیئے گئے ہیں انھیں تازہ بنادے تا کہ اس کے ہاتھوں دیں تازہ و زندہ خالص اور صریح ہوکر سامنے آئے نہ کسی طرح کی کجی ہو اور نہ بدعت اور اس کے عدل سے ظلم کی تاریکیوں میں روشنی پیدا ہوجائے اور کفر کی آگ بجھ جائے اور حق و عدل کے عقدے کھل جائیں کہ وہ تیرا ایسا بندہ ہے جسے تو نے اپنے بندوں میں مصطفی قرار دیاہے، گناہوں سے محفوظ اور عیب سے بری رکھاہے اور ہر رجس اور گندگی سے پاک و سالم قرار دیاہے۔

 

 

 خدایا ہم اس کے لئے روز قیامت گواہی دیں گے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے اور کسی برائی کا ارتکاب نہیں کیا ہے، کسی اطاعت کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور کسی حرمت کو برباد نہیں کیاہے، کسی فریضہ کو بدلا نہیں ہے اور کسی شریعت میں تغیر نہیں پیدا کیاہے، وہ ہدایت یافتہ ، ہادی ، طاہر ، متقی ، پاکیزہ، پسندیدہ اور طیب و طاہر انسان ہے۔

 خدایا اسے اس کی ذات، اس کے اہل و اولاد، ذریت و امت اور تمام رعایا میں خنکی چشم، سرور نفس عنایت فرما، تمام مملکتوں کو جمع کردے قریب ہوں یا دور ، عزیز ہوں یا ذلیل، تا کہ اس کا حکم ہر حکم پر جاری ہوجائے اور اس کا حق ہر باطل پر غالب آجائے۔

 خدایا ہمیں اس کے ہاتھوں ہدایت کے راستہ اور دین کی شاہراہ اعظم اور اس کی معتدل راہوں پر چلادے جہاں ہر غالی پلٹ کر آتاہے اور ہر پیچھے رہ جانے والا اس سے ملحق ہوجاتاہے، ہمیں اس کی اطاعت کی وقت اور اس کی پیروی کا ثبات عطا فرما، اس کی متابعت کا کرم فرما اور اس کے گروہ میں شامل کردے جو اس کے امر سے قیام کرنے والے۔ اس کے ساتھ صبر کرنے والے اور اس کی رضا کے مخلص طلب گار ہیں ٹا کہ ہمیں روز قیامت اس کے انصار و اعوان اور اس کی حکومت کے ارکان میں محشور کرے۔

 خدایا ہمارے لئے اس مرتبہ کو ہر شک و شبہ سے خالص اور ہر ریاء و سمعہ سے پاکیزہ قرار دیدے تا کہ ہم تیرے غیر پر اعتماد نہ کریں اور تیری رضا کے علاوہ کسی شے کے طلبگار نہ ہوں، ان کی منزل میں ساکن ہوں اور انکے ساتھ جنت میں داخل ہوں ۔

 ہمیں ہر طرح کی کسلمندی ، کاہلی ، سستی سے پناہ دے اور ان لوگوں میں قرار دیدے جن سے دین کا کام لیا جاتاہے اور اپنے ولی کی نصرت کا انتظام کیا جاتاہے اور ہماری جگہ پر ہمارے غیر کو نہ رکھ دینا کہ یہ کام تیرے لئے آسان ہے اور ہمارے لئے بہت سخت ہے۔

 

 

 خدایا اپنے اولیاء عہد اور اس کے بعد کے پیشواؤں پر بھی رحمت نازل فرما اور انھیں ان کی امیدوں تک پہنچا دینا، انھیں طول عمر عطافرما اور ان کی امداد فرما، جو امر ان کے حوالہ کیا ہے اسے مکمل کردے اور ان کے ستونوں کو ثابت بنادے، ہمیں ان کے اعوان اور ان کے دین کے انصار میں قرار دے دے کہ وہ سب تیرے کلمات کے معدن، تیرے علم کے مخزن تیری توحید کے ارکان اور تیرے دین کے ستون اور تیرے اولیاء امر ہیں۔

 بندوں میں تیرے خالص بندے اور مخلوقات میں تیرے منتخب اولیاء اور تیرے اولیاء کی اولاد اور اولاد پیغمبر کے منتخب افراد ہیں، میرا سلام پیغمبر پر اور ان کی تمام اولاد پر اور صلوات و برکات و رحمت ۔

 ( مصباح المتہجد ص 409 ، مصباح کفعمی ص 548 ، جمائل الاسبوع ص 307 روایات یونس بن عبدالرحمان)۔

 1226۔ امام ہادی (ع) زیارت امام مہدی (ع) میں فرماتے ہیں، پروردگار جس طرح تو نے اپنے پیغمبر پر ایمان لانے اور ان کی دعوت کی تصدیق کرنے کی توفیق دی اور یہ احسان کیا کہ میں ان کی اطاعت کروں اور ان کی ملت کا اتباع کروں اور پھر ان کی معرفت اور ان کی ذریت کے ائمہ کی معرفت کی ہدایت دی اور ان کی معرفت سے ایمان کو کامل بنایا اور ان کی ولایت کے طفیل اعمال کو قبول کیا اور ان پر صلوات کو وسیلہ عبادت قرار دیدیا اور دعا کی کلی اور قبولیت کا سبب بنادیا، اب ان سب پر رحمت نازل فرما اور ان کے طفیل مجھے اپنی بارگاہ میں دنیا و آخرت میں سرخرو فرما اور بندہ مقرب بنادے

 خدایا ان کے وعدہ کو پورا فرما، ان کے قائم کی تلوارسے زمین کی تطہیر فرما، اس کے ذریعہ اپنے معطل حدود اور تبدیل شدہ احکام کے قیام کا انتظار فرما، مردہ دلوں کو زندہ کردے اور متفرق خواہشات کو یکجا بنادے راہ حق سے ظلم کی کثافت کو دور کردے تا کہ اس کے ہاتھوں پرحق بہترین صورت میں جلوہ نما ہوا ور باطل و اہل باطل ہلاک ہوجائیں اور حق کی کوئی بات باطل کے خوف سے پوشیدہ نہ رہ جائے ۔( بحار 102 ص 182 از مصباح الزائر)۔

 

 

 1227۔ امام عسکری (ع) ، ولی امر امام (ع) منتظر پر صلوات کی تعلیم دیتے ہوئے۔

 خدایا اپنے ولی ، فرزند اولیاء پر رحمت نازل فرما جن کی اطاعت تو نے فرض کی ہے اور ان کا حق لازم قرار دیاہے اور ان سے رجس کو دور کرکے انھیں طیب و طاہر قرار دیاہے۔

 خدایا اس کے ذریعہ اپنے دین کو غلبہ عطا فرما، اپنے اور اس کے دوستوں، شیعوں اور مددگاروں کی امداد فرما اور ہمیں انھیں میں سے قرار دیدے، خدایا اسے ہر باغی، طاغی اور شریر کے شر سے اپنی پناہ میں رکھنا اور سامنے، پیچھے ، داہنے بائیں ہر طرف سے محفوظ رہنا، اسے ہر برائی کی پہنچ سے دور رکھنا اور اس کے ذریعہ رسول اور آل رسول کی حفاظت فرمانا ، اس کے وسیلہ سے عدل کو ظاہر فرما، اپنی مدد سے اس کی تائید فرما، اس کے ناصروں کی امداد فرما، اس سے الگ ہوجانے والوں کو بے سہارا بنادے اس کے ذریعہ کا فر جابروں کی کمر توڑ دے اور کفار و منافقین و ملحدوں کو فنا کردے چاہے مشرق میں ہوں یا مغرب میں ، بر میں ہوں یا بحر میں، زمین کو عدل سے معمور کردے اور اپنے دین کو غلبہ عنایت فرما، ہمیں ان کے انصار و اعوان، اتباع و شیعیان میں سے قرار دیدے اور آل محمد کے سلسلہ میں وہ سب دکھلا دے جس کی انھیں خواہش ہے اور دشمنوں کے بارے میں وہ سب دکھلا دے جس سے وہ لوگ ڈر رہے ہیں، خدایا آمین، ( مصباح المتہجد ص 405 ، جمال الاسبوع ص 300 روایت ابومحمد عبداللہ بن محمد العابد)۔

 1228۔ ابوعلی ابن ہمام، کا بیان ہے کہ حضرت کے نائب خاص شیخ عمری نے اس دعا کو ملاء کرایاہے اور اس کے پڑھنے کی تاکید کی ہے، جو دور غیبت امام قائم کی بہترین دعا ہے۔

 خدایا مجھے اپنی ذات کی معرفت عطا فرما کہ اپنی معرفت نہ دے گا تو میں رسول کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنے رسول کی معرفت عطا فرما کہ اگر ان کی معرفت نہ دے گا تو میں تیری حجت کو بھی نہ پہچان سکوں گا اور پھر اپنی حجت کی معرفت بھی عطا فرما کہ اگر اسے نہ پہچان سکا تو دین سے بہک جاؤ گا۔

 

 

 خدایا مجھے جاہلیت کی موت نہ دینا اور نہ ہدایت کے بعد میرے دل کو منحرف ہونے دینا۔

 خدایا جس طرح تو نے ان لوگوں کی ہدایت دی جن کی اطاعت کو واجب قرار دیاہے اور جو تیرے رسول کے بعد تیرے اولیاء امر ہیں اور میں نے تیرے تمام اولیاء امیر المومنین (ع) ، حسن (ع) ، حسین (ع) ، علی (ع) ، محمد ، جعفر (ع) ، موسیٰ (ع) ، علی (ع) ، محمد (ع) ، علی (ع) ، حسن (ع) حجت قائم مہدی (عج) سے محبت اختیار کی ہے۔

 خدایا اب حضرت قائم (ع) کے ظہور میں تعجیل فرما، اپنی مدد سے ان کی تائید فرما، ان کے مددگاروں کی امداد فرما، ان سے الگ رہنے والوں کو ذلیل فرما، ان سے عداوت کرنے والوں کو تباہ و برباد کردے، حق کا اظہار فرما، باطل کو مردہ بنادے، بندگان مومنین کو ذلت سے نجات دیدے شہروں کو زندگی عطا فرمادے، کفر کے جباروں کو تہ تیغ کردے، ضلالت کے سر براہوں کی کمر توڑدے، جابروں اور کافروں کو ذلیل کردے، منافقوں عہد شکنوں اور شرق و غرب کے ملحدوں، مخالفوں کو ہلاک و برباد کردے چاہے وہ خشکی میں ہوں یا دریاؤں میں، بیابانوں میں ہوں یا پہاڑوں پر ۔ تا کہ ان کی کوئی آبادی نہ رہ جائے اور ان کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے، زمین کو ان کے وجود سے پاک کردے اور اپنے بندوں کے دلوں کو سکون عطا فرما، جو دین مٹ گیا ہے اس کی تجدید فرما اور جو احکام بدل دیے گئے ہیں ان کی اصلاح فرما، جو سنت بدل گئی ہے اسے ٹھیک کردے تا کہ دین دوبارہ اس کے ہاتھوں ترو تازہ ہوکر سامنے آئے نہ کوئی کجی ہو نہ بدعت نہ انحراف کفر کی آگ بجھ جائے اور ضلالت کا شعلہ خاموش ہوجائے کہ وہ تیرا وہ بندہ ہے کہ جسے تو نے اپنا بنایاہے، اور اسے دین کی نصرت کے لئے منتخب کیا ہے اور اپنے علم سے چنا ہے اور گناہوں سے محفوظ رکھاہے اور عیوب سے پاک رکھاہے، غیب کا علم دیا ہے اور نعمتوں سے نوازاہے، رجس سے دور رکھاہے اور پاک و پاکیزہ بنایاہے۔

 خدایا ہم اس بات کے فریادی ہیں کہ تیرے نبی جاچکے ہیں، تیرا ولی بھی پردہ غیب میں ہے، زمانہ مخالف ہوگیاہے ، فتنے سر اٹھارہے ہیں، دشمنوں نے ہجوم کر رکھاہے اور ان کی کثرت ہے اور اپنی قلت ہے۔

 

 

 خدایا ان حالات کی اصلاح فرما فوری فتح کے ذریعہ، اور اپنی نصرت کے ذریعہ، اور امام عادل کے ظہور کے ذریعہ، خدائے برحق اس دعا کو قبول کرلے۔

 خدایا اپنے ولی کے ذریعہ قرآن کو زندہ کردے اور اس کے نور سرمدی کی زیارت کرادے جس میں کوئی ظلمت نہیں ہے، مردہ دلوں کو زندہ بنادے اور سینوں کی اصلاح کردے، خواہشات کو ایک نقطہ پر جمع کردے معطل حدوداور متروک احکام کو قائم کرادے تا کہ ہر حق منظر پر آجائے اور ہر عدل چمک اٹھے، خدایا ہمیں ان کے مددگاروں اور حکومت کو تقویت دینے والوں میں قرار دیدے کہ ہم ان کے احکام پر عمل کریں، اور ان کے عمل سے راضی رہیں، ان کے احکام کے لئے سراپا تسلیم رہیں اور پھر تقیہ کی کوئی ضرورت نہ رہ جائے۔

 خدایا تو ہی برائیوں کو دور کرنے والا ، مضطر افراد کی دعاؤں کا قبول کرنے والا اور کرب و رنج سے نجات دینے والا ہے لہذا اپنے ولی کے ہر رنج و غم کو دور کردے اور اسے حسب وعدہ زمین میں اپنا جانشین بنادے۔

 خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان کے طفیل دنیا و آخرت میں کامیابی اور تقرب عنایت فرما ۔( کمال الدین 512 / 43 ، مصباح المتہجد ص 411 ، جمال الاسبوع ص 315)۔

 1229۔ دعائے افتتاح۔ خدایا ہم ایسی باعزت حکومت کے خواہشمند ہیں جس سے اسلام و اہل اسلام کو عزت اور نفاق و اہل نفاق کو ذلت نصیب ہو ہمیں اپنی اطاعت کے داعیوں اور اپنے راستہ کے قائدوں میں قرار دیدے اور پھر دنیا و آخرت کی کرامت عطا فرما۔

 

 

 خدایا جو حق ہم نے پہچان لیا ہے اسے اٹھانے کی طاقت دے اور جسے نہیں پہچان سکے ہیں اس تک پہنچا دے۔

 خدایا اس کے ذریعہ ہماری پراگندگی کو جمع کردے، ہمارے درمیان شگاف کو پڑ کردے، ہمارے انتشار کو جمع کردے ۔ہماری قلت کو کثرت اور ہماری ذلت کو عزت میں تبدیل کردے، ہماری غربت کو دولت میں بدل دے اور ہمارے قرض کو ادا کردے، ہمارے فقر کا علاج فرما اورہماری حاجتوں کو پورا فرما۔

 ہماری زحمت کو آسان کردے اور ہمارے چہروں کو نورانی بنادے، ہمیں قید سے رہائی عطا فرما اور ہمارے مطالب کو پورا فرما، ہمارے وعدوں کو مکمل فرما اور ہماری دعاؤں کو قبول کرلے، ہمیں تمام امیدیں عطا فرما اور ہماری خواہش سے زیادہ عطا فرما۔

 اے بہترین مسئول اور وسیع ترین عطا کرنے والے ، ہمارے دلوں کو سکون عطا فرما اور ہمارے رنج و غم کا علاج فرما، جہاں جہاں حق کے بارے میں اختلاف ہے ہمیں ہدایت فرما کہ تو جسے چاہے صراط مستقیم کی ہدایت دے سکتاہے، اپنے اور ہمارے دشمنوں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما اور اے خدائے برحق ! ہماری اس دعا کو قبول کرلے۔

 خدایا ہماری فریاد یہ ہے کہ تیرے نبی جاچکے، تیر اولی غیب میں ہے، دشمنوں کی کثرت ہے، فتنوں کی شدت ہے ، زمانہ کا ہجوم ہے، اب تو محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور ان حالات میں ہماری فوری فتح کے ذریعہ امداد فرما تا کہ رنج و غم دور ہوجائیں، باعزت امداد دے اور حکومت حق کو ظاہر فرما، رحمت کی کرامت عطا فرما اور عافیت کا لباس عنایت فرما دے اپنی رحمت کے سہارے اے بہترین رحمت دینے والے۔( اقبال الاعمال 1ص 142 روایت محمد بن ابی قرّہ)۔

 واضح رہے کہ یہ دعا امام زمانہ عج کی طرف سے ہے جسے نائب دوم محمد بن عثمان بن سعید العمری کے بھتیجہ نے ان کی کتاب سے نقل کیاہے اور یہ ماہ رمضان کی شبوں میں پڑھی جاتی ہے۔!

 

 

اہلبیت (ع) کے بارے میں غلو  

 

غلو پر تنبیہ

 1230۔ امام علی (ع)! خبردار ہمارے بارے میں غلو نہ کرنا، یہ کہو کہ ہم بندہ ہیں اور خدا ہمارا رب ہے، اس کے بعد جو چاہو ہماری فضیلت بیان کرو، (خصال 614 /10 روایت ابوبصیر و محمدبن مسلم عن الصادق (ع) ، غرر الحکم نمبر 2740 ، تحف العقول 104 ، نوادر الاخبار ص 137)۔

 1231۔ اما م حسین (ع)! ہم سے اسلام کی محبت میں محبت رکھو کہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ خبردار میرے حق سے زیادہ میری تعریف نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے رسول بنانے سے پہلے بندہ بنایاہے۔( المعجم الکبیر 3 ص 128 / 2889 روایت یحییٰ بن سعید)۔

 1232۔ امام صادق (ع)! جس نے ہمیں نبی قرار دیا اس پر خدا کی لعنت ہے اور جس نے اس مسئلہ میں شک کیا اس پر بھی خدا کی لعنت ہے۔( رجال کشی (ر) 2 ص 590 / 540 روایت حسن وشاء)۔

 1233۔ امام صادق (ع)! ان غالیوں میں بعض ایسے جھوٹے ہیں کہ شیطان کو بھی ان کے جھوٹ کی ضرورت ہے۔( رجال کشی (ر) 2 ص 587 / 536 روایت ہشام بن سالم )۔

 1234 ۔ مفضل بن عمر ! میں اور قاسم شریکی اور نجم بن حطیم اور صالح بن سہل مدینہ میں تھے اور ہم نے ربوبیت کے مسئلہ میں بحث کی تو ایک نے دوسرے سے کہا کہ اس بحث کا فائدہ کیا ہے، ہم سب امام سے قریب ہیں اور زمانہ بھی تقیہ کا نہیں ہے، چلو، چل کر انھیں سے فیصلہ کرالیں۔

 

 

 

 چنانچہ جیسے ہی وہاں پہنچے حضرت بغیر رداء اور نعلین کے باہر نکل آئے اور عالم یہ تھا کہ غصہ سے سرکے سارے بال کھڑے تھے۔

 فرمایا ، ہرگز نہیں ۔

 ہرگز نہیں، اے مفضل ، اے قاسم، اے نجم، ہم خدا کے محترم بندے ہیں جو کسی بات میں اس پر سبقت نہیں کرتے ہیں اور ہمیشہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔( کافی 8 ص 231 / 303)۔

 1235۔ امام صادق (ع)! غالیوں کی مذمت کرتے ہوئے۔

 خدا کی قسم، ہم صرف اس کے بندہ ہیں جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور منتخب کیا ہے، ہمارے اختیار میں نہ کوئی نفع ہے اور نہ نقصان، مالک اگر رحمت کرے تو یہ اس کی رحمت ہے اور اگر عذاب کرے تو یہ بندوں کا عمل ہے، خدا کی قسم ہماری خدا پر کوئی حجت نہیں ہے اور نہ ہمارے پاس کوئی پروانہ برائت ہے، ہمیں موت بھی آتی ہے، ہم دفن بھی ہوتے ہیں ہم قبر سے دوبارہ نکالے بھی جائیں گے، ہمیں عرصہ محشر میں کھڑا کرکے ہم سے حساب بھی لیا جائے گا ۔( رجال کشی 2 ص 49 / 403 روایت عبدالرحمان بن کثیر )۔

 1236۔ صالح بن سہل، میں امام صادق (ع) کے بارے میں ان کے رب ہونے کا قائل تھا تو ایک دن حضرت کے پاس حاضر ہوا تو دیکھتے ہی فرمایا صالح ! خدا کی قسم ہم بندہ مخلوق ہیں اور ہمارا ایک رب ہے جس کی ہم عبادت کرتے ہیں اور نہ کریں تو وہ ہم پر عذاب بھی کرسکتاہے ۔( رجال کشی 2 ص 632 / 632، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 219)۔

 

 

 

 1237۔ اسماعیل بن عبدالعزیز ! امام صادق (ع) نے فرمایا کہ اسماعیل وضو کیلئے پانی رکھو میں نے رکھدیا تو حضرت وضو کے لئے داخل ہوئے ، میں سوچنے لگا کہ میں تو ان کے بارے میں یہ خیالات رکھتاہوں اور یہ وضو کررہے ہیں۔

 اتنے میں حضرت نکل آئے اور فرمایا اسماعیل ! طاقت سے اونچی عمارت نہ بناؤ کہ گر پڑے، ہمیں مخلوق قراردو، اس کے بعد جو چاہو کہو۔( بصائر الدرجات 236 / 5 ، الخرائج والجرائح 2 ص 735 / 45 ، الثاقب نی المناقب 452 / 330 ، کشف الغمہ 2 ص 403)۔

 1238۔ کامل التمار ! میں ایک دن امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ آپ نے فرمایا، کامل ! ہمارا ایک رب قرار دو جس کی طرف ہماری بازگشت ہے، اس کے بعد جو چاہو بیان کرو۔

 میں نے کہا کہ آپ کا بھی رب قرار دیں جو آپ کا مرجح ہو اور اس کے بعد چاہیں کہیں تو بچا کیا ؟

 یہ سن کر آپ سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آخر کیا کہنا چاہتے ہو، خدا کی قسم ہمارے علم میں سے ایک الف سے زیادہ تم تک نہیں پہنچاہے۔(مختصر بصائر الدرجات ص 59 ، بصائر الدرجات 507 / 8)۔

 1239۔ امام صادق (ع) ! خبردار غالی کے پیچھے نماز نہ پڑھنا چاہے وہ تمھاری جیسی بات کرتاہو اور مجہول الحال کے یپچھے اور کھلم کھلا فاسق کے پیچھے چاہے میانہ روہی کیوں نہ ہو ۔( تہذیب 3 ص 31 / 109 روایت خلف بن حماد ، الفقیہ 1 ص 379 / 1110)۔

 

 

 1240 ۔ امام صادق (ع) !اپنے نوجوانوں کے بارے میں غالیوں سے ہوشیار رہنا یہ انھیں برباد نہ کرنے پائیں کہ غالی بدترین خلق خدا ہیں، جو خدا کی عظمت کو گھٹاتے ہیں اور بندوں کو خدا بناتے ہیں، خدا کی قسم ، غالی یہود ونصاریٰ اور مجوس و مشرکین سے بھی بدتر ہیں ۔( امالی طوسی (ر) 650/ 1349 روایت فضل بن یسار)۔

 1241۔ امام رضا (ع)! ہم آل محمد و ہ نقطہ اعتدال ہیں جسے غالی پانہیں سکتاہے اور پیچھے رہنے والا اس سے آگے جا نہیں سکتاہے۔( کافی 1 ص 101 / 3 روایت ابراہیم بن محمد النخزار و محمد بن الحسین )۔

 

 

غالیوں سے برات

 1242۔ امام علی (ع)! خدایا میں غالیوں سے بری اوربیزار ہوں جس طرح کہ عیسیٰ (ع) بن مریم نصاریٰ سے بیزار تھے۔

 خدایا انھیں بے سہارا کردے اور ان میں سے کسی ایک کی بھی مدد نہ کرنا (امالی طوسی (ر) 650 / 1350 روایت اصبغ بن نباتہ، مناقب ابن شہر آشوب ! ص 263)۔

 1243۔ امام علی (ع)۔ خبردار ہمارے بارے میں بندگی کی حد سے تجاوز نہ کرنا، اس کے بعد ہمارے بارے میں جو چاہو کہہ سکتے ہو کہ تم ہماری حد تک نہیں پہنچ سکتے ہو اور ہوشیار رہو کہ ہمارے بارے میں اس طرح غلو نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے غلو کیا کہ میں غلو کرنے والوں سے بری اور بیزار ہوں۔(احتجاج 2 ص 453 / 314 ، تفسیر عسکری 50 / 24)۔

 

 

 1244۔ زین العابدین (ع)! یہودیوں نے عزیر سے محبت کی اور جو چاہا کہہ دیا تو نہ ان کا عزیز سے کوئی تعلق رہا اور نہ عزیر کا ان سے کوئی تعلق رہا، یہی حال محبت عیسیٰ میں نصاریٰ کا ہوا ، ہم بھی اسی راستہ پر چل رہے ہیں، ہمارے چاہنے والوں میں بھی ایک قوم پیدا ہوگی جو ہمارے بارے میں یہودیوں اور عیسائیوں جیسی بات کہے گی تو نہ ان کا ہم سے کوئی تعلق ہوگا اور نہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہوگا ۔( رجال کشی (ر) 1 ص 336 / 191 روایت ابوخالد کابلی)۔

 1245 ۔ الہروی ! میں نے امام (ع) رضا سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! یہ آخر لوگ آپ کی طرف سے کیا نقل کررہے ہیں؟

 فرمایا کیا کہہ رہے ہیں؟

 عرض کی کہ لوگ کہہ رہے ہیں آپ حضرات لوگوں کو اپنا بندہ تصور کررہے ہیں ! آپ نے فرمایا کہ خدایا، اے آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے اور حاضر و غائب کے جاننے والے ! تو گواہ ہے کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی اور نہ میرے آباء و اجداد نے کہی ہے ، تجھے معلوم ہے کہ اس امت کے مظالم ہم پر کس قدر زیادہ ہیں یہ ظلم بھی انھیں میں سے ایک ہے۔

 اس کے بعد میری طرف رخ کرکے فرمایا، عبدلاسلام ! اگر سارے بندے ہمارے ہی بندے اور غلام ہیں تو ہم انھیں کس کے ہاتھ فروخت کریں گے ؟ میں نے عرض کیا کہ آپ نے سچ فرمایا۔

 اس کے بعد فرمایا کہ خدا نے جو ہمیں حق ولایت دیاہے کیا تم اس کے منکر ہو؟

 میں نے عرض کیا کہ معاذ اللہ ۔ میں یقیناً آپ کی ولایت کا اقرار کرنے والاہوں۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 184 / 6)۔

 گویا ظالموں نے اس حق ولایت الہیہ کی غلط توجیہہ کرکے اس کا مطلب یہ نکال لیا اور اسے اہلبیت (ع) کو بدنام کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ جوادی

 

 

 1246۔ الحسن بن الجہم ! میں ایک دن مامون کے دربار میں حاضر ہوا تو حضرت علی بن موسی الرضا (ع) بھی موجود تھے اور بہت سے فقہاء ور علماء علم کلام بھی موجود تھے، ان میں سے بعض افراد نے مختلف سوالات کئے اور مامون نے کہا کہ یا اباالحسن ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ ایک قوم آپ کے بارے میں غلو کرتی ہے اور حد سے آگے نکل جاتی ہے۔

 آپ نے فرمایا کہ میرے والد بزرگوار حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) نے اپنے والد جعفر (ع) بن محمد (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد محمد (ع) بن علی (ع)سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن الحسین (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد حسین بن علی (ع) سے اور انھوں نے اپنے والد علی (ع) بن ابی طالب (ع) سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ خبردار مجھے میرے حق سے اونچا نہ کرنا کہ پروردگار نے مجھے نبی بنانے سے پہلے بندہ بنایاہے اور اس کا ارشاد ہے ” کسی بشر کی یہ مجال نہیں ہے کہ خدا اسے کتاب و حکمت و نبوت عطا کرے اور وہ بندوں سے یہ کہہ دے کہ خدا کو چھوڑ کر میری بندگی کرو، ان سب کا یپغام یہ ہوتاہے کہ اللہ والے نبو کہ تم کتاب کی تعلیم دیتے ہو اور اسے پڑھتے ہو اور وہ یہ حکم بھی نہیں دے سکتاہے کہ ملائکہ یا انبیاء کو ارباب قرار دیدو، کیا وہ مسلمانوں کو کفر کا حکم دے سکتاہے۔( آل عمران آیت 79 ، 80)۔

 اور حضرت علی (ع) نے فرمایاہے کہ میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور اس میں میرا کوئی قصور نہ ہوگا، حد سے آگے نکل جانے والا دوست اور حد سے گرا دینے والا دشمن اور میں خدا کی بارگاہ میں غلو کرنے والوں سے ویسے ہی برات کرتاہوں جس طرح عیسٰی نے نصاریٰ سے برائت کی تھی۔

 

 

 جب پروردگار نے فرمایا کہ ” عیسیٰ (ع)! کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیاہے کہ خدا کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو اور انھوں نے عرض کی کہ خدایا تو خدائے بے نیاز ہے اور میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں کوئی خلاف حق بات کہوں، اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے خود ہی معلوم ہے کہ تو میرے دل کے راز بھی جانتاہے اور میں تیرے علم کو نہیں جانتاہوں، تو تمام غیب کا جاننے والا ہے، میں نے ان سے وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے اور میں ان کا نگراں تھا جب تک ان کے درمیان رہا، اس کے بعد جب تو نے میری مدت عمل پوری کردی تو اب تو ان کا نگراں ہے اور ہر شے کا شاہد اور نگراں ہے“۔ (مائدہ نمبر 116 ، 117)۔

 اور پھر مالک نے خود اعلان کیاہے کہ مسیح بن مریم صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہیں اور یہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے۔( مائدہ نمبر 75)۔ ” مسیح بندہ خدا ہونے سے انکار نہیں کرسکتے ہیں اور نہ ملائکہ مقربین اس بات کا انکار کرسکتے ہیں۔( نساء 172)۔

 لہذا جو بھی انبیاء کے بارے میں ربوبیت کا ادعا کرے گا یا ائمہ کو رب یا نبی قرار دے گا یا غیر امام کو امام قرار دے گا ہم اس سے بری اور بیزار رہیں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔(عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 200 / 1)۔

 1247۔ امام رضا (ع) مقام دعا میں ! خدایا میں ہر طاقت و قوت کے ادعاء سے بری ہوں اور طاقت و قوت تیرے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے میں ان تمام لوگوں سے بھی بری ہوں جو ہمارے حق سے زیادہ دعویٰ کرتے ہیں اور ان سے بھی بری ہوں جو وہ کہتے ہیں جو ہم نے اپنے بارے میں نہیں کیاہے۔

 

 

 خدایا خلق و امر تیرے لئے ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

 خدایا ! تو ہمارا بھی خالق ہے اور ہمارے آباء و اجداد کا بھی خالق ہے۔

 خدایا ربوبیت کے لئے تیرے علاوہ کوئی سزاوار نہیں ہے اور الوہیت تیرے علاوہ کسی کے لئے سزاوار نہیں ہے۔

 خدایا ان نصاریٰ پر لعنت فرما جنھوں نے تیری عظمت کو گھٹا دیا اور ایسے ہی تمام عقیدہ والوں پر لعنت فرما۔

 خدایا ہم تیرے بندے اورتیرے بندوں کی اولاد ہیں، تیرے بغیر اپنے واسطے نفع، نقصان، موت و حیات اور حشر و نشر کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے ہیں ۔

 خدایا ! جس نے یہ خیال کیا کہ ہم ارباب ہیں ہم ان سے بیزار ہیں اور جس نے یہ کہا کہ تخلیق ہمارے ہاتھ میں ہے یا رزق کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے ہم اس سے بھی بیزار ہیں جس طرح عیسیٰ (ع) نصاریٰ سے بیزار تھے۔

 خدایا ہم نے انھیں ان خیالات کی دعوت نہیں دی ہے لہذا ان کے مہملات کا ہم سے مواخذہ نہ کرنا اور ہمیں معاف کردینا ۔

 خدایا زمین پر ان کافروں کی آبادیوں کو باقی نہ رکھنا کہ اگر یہ رہ گئے تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی اولاد بھی فاجر اور کافر ہوگی۔( الاعتقادات ، صدوق (ر) ص 99)۔

 

 

 

غالیوں کا کفر

 1248۔ رسول اکرم ! میری امت کے دو گروہ ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمارے اہلبیت(ع) سے جنگ کرنے والے اور دین میں غلو کرکے حد سے باہر نکل جانے والے۔( الفقیہ 3 ص 408 / 2425)۔

 1249۔ امام صادق (ع)! کم سے کم وہ بات جو انسان کو ایمان سے باہر نکال دیتی ہے یہ ہے کہ کسی غالی کے پاس بیٹھ کر اس کی بات سنے اور پھر تصدیق کردے۔

 میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد ماجد کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایاہے کہ میری امت کے دو گروہوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے غالی اور قدریہ ۔( خصال 72 / 109 روایت سالم)۔

 

 غالی:

 وہ لوگ جو کسی بھی ہستی کو اس کی حد سے آگے بڑھادیتے ہیں اور بندہ کے بارے میں خالق و رازق ہونے کا عقیدہ پیدا کرلیتے ہیں۔

 

 

 قدریہ

 جو لوگ کہ خیر و شر سب کا ذمہ دار خدا کو قرار دیتے ہیں یا بقولے تقدیر الہی کے سرے سے منکر ہیں۔

 

 تشبیہ

 جو لوگ خالق کو مخلوق کی شبیہ اور اس کے صفات کو مخلوقات کے صفات جیسا قرار دیتے ہیں انھیں مشبہ کہا جاتاہے۔

 

 تفویض

 کائنات کے تمام اختیارات کو بندہ کے حوالہ کرکے خدا کو معطل کردینا۔

 1250۔ امام (ع) صادق نے مفضل سے ابوالخطاب کے اصحاب اور دیگر غالیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، مفضل ! خبردار ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور مصافحہ و تعلقات نہ رکھنا ۔( رجال کشی (ر) 2 ص 586 / 525)۔

 1251۔ امام صادق (ع)! خدا مغیرہ بن سعید پر لعنت کرے کہ وہ میرے والد پر بہتان باندھتا تھا، خدا نے اسے لوہے کا مزہ چھکادیا، خدا ان تمام افراد پر لعنت کرے جو ہمارے بارے میں وہ کہیں جو ہم خود نہیں کہتے ہیں اور خدا ان افراد پر لعنت کرے جو ہمیں اس اللہ کی بندگی سے الگ کردیں جس نے ہماری تخلیق کی ہے اور جس کی بارگاہ میں ہم کو واپس جاناہے اور جس کے قبضہ قدرت میں ہماری پیشانیاں ہیں۔( رجال کشی (ر) 2 ص 590 / 542 روایت ابن مسکان)۔

 1252۔ ہاشم جعفری ! میں نے امام رضا (ع) سے غالیوں اور تفویض والوں کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ غالی کافر ہیں اور تفویض کرنے والے مشرک ہیں جو ان کے ساتھ بیٹھتا ہے یا کھاتا پیتاہے یا تعلقات رکھتاہے یا شادی بیاہ کا رشتہ کرتاہے یا انھیں پناہ دیتاہے یا ان کے پاس امانت رکھتاہے یا ان کی بات کی تصدیق کرتاہے یا ایک لفظ سے ان کی مدد کرتاہے وہ ولایت خدا ولایت رسول اور ولایت اہلبیت (ع) سے خارج ہے۔ ( عیون اخبار الرضا 2 ص 203 / 4)۔

 

 

 1253۔ حسین بن خالد امام رضا (ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص تشبیہ اور جبر کا عقیدہ رکھتاہے وہ کافر و مشرک ہے اور ہم دنیا و آخرت میں اس سے بیزار ہیں ابن خالد ! ہماری طرف سے تشبیہ اور جبر کے بارے میں غالیوں نے بہت سی روایتیں تیار کی ہیں اور ان کے ذریعہ عظمت پروردگار کو گھٹایا ہے لہذا جو ان سے محبت کرے وہ ہمارا دشمن ہے اور جو ان سے دشمنی رکھے وہی ہمارا دوست ہے، جو ان کا موالی ہے وہ ہمارا عدو ہے اور جو ان کا عدو ہے وہی ہمارا موالی ہے جس نے ان سے تعلق رکھا اس نے ہم سے قطع تعلق کیا اور جس نے ان سے قطع تعلق کیا اس نے ہم سے تعلق پیدا کیا ۔

 جس نے ان سے بدسلوکی کی اس نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کیا اور جس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اس نے ہمارے ساتھ برا سلوک کیا ، جس نے ان کا احترام کیا اس نے ہماری توہین کی اور جس نے ان کی توہین کی اس نے ہمارا احترام کیا ، جس نے انھیں قبول کرلیا اس نے ہمیں رد کردیا اور جس نے انھیں رد کردیا اس نے ہمیں قبول کرلیا، جس نے ان کے ساتھ احسان کیا اس نے ہمارے ساتھ برائی کی اور جس نے ان کے ساتھ برائی کی اس نے ہمارے ساتھااحسان کیا ، جس نے ان کی تصدیق کی اس نے ہماری تکذیب کی اور جس نے ان کی تکذیب کی اس نے ہماری تصدیق کی ، جس نے انھیں عطا کیا اس نے ہمیں محروم کیا اور جس نے انھیں محروم کیا اس نے ہمیں عطا کیا ۔

 فرزند خالد ! جو ہمارا شیعہ ہوگا وہ ہرگز انھیں اپنا دوست اور مددگار نہ بنائے گا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 143 / 45 ، التوحید ص 364 ، الاحتجاج 2 ص 400)۔

 

 

غالیوں کی ہلاکت

 1254۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوں گے، حد سے زیادہ تعریف کرنے والا اور بیہود ہ افترا پردازی کرنے والا۔( السنتہ لابن ابی عاصم 475 / 1005)۔

 1255۔ امام علی (ع)! میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوجائیں گے، افراط کرنے والا غالی اور دشمنی رکھنے والا کینہ پرور، (فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 571 / 964 روایت ابن مریم ، نہج البلاغہ حکمت نمبر 117 ، خصائص الائمہ ص 124 ، شرح نہج البلاغہ معتزلی 20 ص 220)۔

 1256۔ امام علی (ع) عنقریب میرے بارے میں دو گروہ ہلاک ہوجائیں گے، افراط کرنے والا دوست جسے محبت غیر حق تک کھینچ لے جائے گی اور گھٹانے والا دشمن جسے بغض ناحق خیالات تک لے جائے گا، میرے بارے میں بہترین افراد اعتدال والے ہیں لہذا تم سب اسی راستہ کو اختیار کرو۔ ( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 127)۔

 1257۔ رسول اکرم ! یا علی (ع) ! تمھارے اندر ایک عیسیٰ (ع) بن مریم کی مشابہت بھی ہے کہ انھیں قوم نے دوست رکھا تو دوستی میں اس قدر افراط سے کام لیا کہ بالآخر ہلاک ہوگئے اور ایک قوم نے دشمنی میں اس قدر زیادتی کی کہ وہ بھی ہلاک ہوگئے، ایک قوم حد اعتدال میں رہی اور اس نے نجات حاصل کرلی ، ( امالی طوسی (ر) ص 345 روایت عبید اللہ بن علی ، تفسیر فرات ص 404 کشف الغمہ 1 ص 321)۔

 1258۔ امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم نے فرمایا کہ تم میں ایک عیسیٰ (ع) کی مثال بھی پائی جاتی ہے کہ یہودیوں نے ان سے دشمنی کی تو ان کی ماں کے بارے میں بکواس شروع کردی اور نصاریٰ نے محبت کی تو انھیں وہاں پہنچا دیا جو ان کی جگہ نہیں تھی۔

 

 

 دیکھو میرے بارے میں دو طرح کے لوگ ہلاک ہوں گے، حد سے زیادہ محبت کرنے والا جو میری وہ تعریف کرے گاجو مجھ میں نہیں ہے اور مجھ سے دشمنی کرنے والا جسے عداوت الزام تراشی پر آمادہ کردے گی ۔( مسند ابن حنبل 1 ص 336 / 1376 ، صواعق محرقہ ص 123 ، مسند ابویعلیٰ 1 ص 274 / 530 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 237 / 742 ، امالی طوسی (ر) 256 / 462 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 63 / 263 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 560۔

 

غلو کی جعلی روایات

 1259۔ ابراہیم بن ابی محمود ! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کیا کہ فرزند رسول ! ہمارے پاس امیر المومنین (ع) کے فضائل اور آپ کے فضائل میں بہت سے روایات میں جنھیں مخالفین نے بیان کیا ہے اور آپ حضرات نے نہیں بیان کیاہے کیا ہم ان پر اعتماد کرلیں؟

 فرمایا ابن ابی محمود، مجھے میرے پدر بزرگوار نے اپنے والد اور اپنے جد کے حوالہ سے بتایا ہے کہ رسول اکرم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کی بات پر اعتماد کیا گویا اس کا بندہ ہوگیا، اب اگر متکلم اللہ کی طرف سے بول رہاہے تو یہ اللہ کا بندہ ہوگا اوراگر ابلیس کی بات کہہ رہاہے تو یہ ابلیس کا بندہ ہوگا۔

 اس کے بعد فرمایا، ابن ابی محمود! ہمارے مخالفین نے ہمارے فضائل میں بہت روایات وضع کی ہیں اور انھیں تین قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک حصہ غلو کاہے، دوسرے میں ہمارے امر کی توہین ہے اور تیسرے میں ہمارے دشمنوں کی برائیوں کی صراحت ہے۔

 لوگ جب غلو کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے شیعوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہماری ربوبیت کے قائل ہیں اور جب تقصیر کی روایات سنتے ہیں تو ہمارے بارے میں یہی عقیدہ قائم کرلیتے ہیں اورجب ہمارے دشمنوں کی نام بنام برائی سنتے ہیں تو ہمیں نام بنام گالیاں دیتے ہیں جبکہ پروردگار نے خود فرمایا ہے کہ غیر خدا کی عبادت کرنے والوں کے معبودوں کو برا نہ کہو ورنہ وہ عداوت میں بلاکسی علم کے خدا کو بھی برا کہیں گے۔

 

 

 ابن ابی محمود! جب لوگ داہنے بائیں جارہے ہوں تو جو ہمارے راستہ پر رہے گا ہم اس کے ساتھ رہیں گے اور جو ہم سے الگ ہوجائیگا ہم اس سے الگ ہوجائیں گے، کم سے کم وہ بات جس سے انسان ایمان سے خارج ہوجاتاہے یہ ہے کہ ذرہ کو گٹھلی کہہ دے اور اسی کو دین بنالے اور اس کے مخالف سے برات کا اعلان کردے۔

 ابن ابی محمو د! جو کچھ میں نے کہا ہے اسے یاد رکھنا کہ اسی میں نے دنیا و آخرت کا سارا خیر جمع کردیاہے۔(عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 304 / 63، بشارة المصطفیٰ ص 221)۔

 

 

کون اہلبیت (ع) سے ہے اور کون نہیں ہے؟  

 

اہلبیت (ع) والوں کے صفات

” جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا“ ( سورہ ابراہیم آیت 36)۔

 1260۔ رسول اکرم ۔ ہر متقی انسان میرے وابستگان میں شمار ہوتاہے۔ (الفردوس 1 ص 418 / 1691 روایت انس بن مالک)

 1261۔ انس ! رسول اکرم سے دریافت کیا گیا کہ آل محمد سے کون افراد مراد ہیں؟

 فرمایا ہر متقی اور پرہیزگار۔

 پروردگار نے فرمایا ہے کہ اس کے اولیاء صرف متقین ہیں۔( المعجم الاوسط 3 ص 338 / 2332)۔

 1262۔ ابوعبیدہ امام باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو ہم سے محبت کرے وہ ہم اہلبیت(ع) سے ہے تو میں نے عرض کی میں آپ پر قربان میں بھی آپ سے ہوں؟

 فرمایا بیشک کیا تم نے حضرت ابراہیم (ع) کا قول نہیں سناہے کہ جو میرا اتباع کرے وہ مجھ سے ہے۔( تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 32)۔

 1263۔ امام صادق (ع)! جو تم میں سے تقویٰ اختیار کرے اور نیک کردار ہوجائے وہ ہم اہلبیت سے ہے ۔ راوی نے عرض کی کہ آپ سے فرزند رسول ؟

 

 

 فرمایا بیشک ہم سے ، کیا تم نے پروردگار کا ارشاد نہیں سناہے کہ ” جو ان سے محبت کرے گا وہ ان سے ہوگا“ ( مائدہ 51)۔

 اور حضرت ابراہیم (ع) نے کہا ہے کہ جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا، ( دعائم الاسلام 1 ص 62 ، تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 33 روایت محمد الحلبئ)۔

 1264 ۔ حسن بن موسیٰ الوشاء البغدادی، میں خراسان میں امام رضا (ع) کی مجلس میں حاضر تھا اور زید بن موسیٰ بھی موجود تھے جو مجلس میں موجود ایک جماعت پر فحر کررہے تھے کہ ہم ایسے ہیں اور ایسے ہیں اور حضرت دوسری قوم سے گفتگو کررہے تھے، آپ نے زید کی بات سنی تو فوراً متوجہ ہوگئے۔

 فرمایا ۔ زید ! تمھیں کوفہ کے بقالوں کی تعریف نے مغرور بنادیا ہے، دیکھو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنی عصمت کا تحفظ کیا تو خدا نے ان کی ذریت پرجہنم کو حرام کردیا لیکن یہ شرف صرف حسن (ع) و حسین (ع) اور بطن فاطمہ (ع) سے پیدا ہونے والوں کے لئے ہے۔

 ورنہ اگر موسیٰ بن جعفر (ع) خدا کی اطاعت میں دن میں روزہ رکھیں رات میں نمازیں پڑھیں اور تم اس کی معصیت کرو اور اس کے بعد دونوں روز قیامت حاضر ہوں اور تم ان سے زیادہ نگاہ پروردگار میں عزیز ہوجاؤ، یہ ناممکن ہے ، کیا تمھیں نہیں معلوم کہ امام زین العابدین (ع) فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے نیک کردار کے لئے دہرا اجر ہے اور بدکردار کے لئے دہرا عذاب ہے۔

 حسن وشاء کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت نے میری طرف رخ کرکے فرمایا۔

 حسن ! تم اس آیت کو کس طرح پڑھتے ہو؟

 ” پروردگار نے کہا کہ اے نوح (ع) یہ تمھارے اہل سے نہیں ہے، یہ عمل غیر صالح ہے۔( ہود نمبر 46)۔

 

 

 تو میں نے عرض کی کہ بعض لوگ پڑھتے ہیں ” عمل غیر صالح “ اور بعض لوگ پڑھتے ہیں ” عمل غیر صالح“ اور اس طرح فرزند نوح ماننے انکار کرتے ہیں۔

 آپ نے فرمایا کہ ہرگز نہیں ۔

 وہ نوح (ع) کا بیٹا تھا لیکن جب خدا کی معصیت کی تو خدا نے فرزندی سے خارج کردیا۔

 یہی حال ہمارے چاہنے والوں کا ہے کہ جو خدا کی اطاعت نہ کرے گا وہ ہم سے نہ ہوگا اور تم اگر ہماری اطاعت کروگے تو ہم اہلبیت(ع) میں شمار ہوجاؤگے۔(معانی الاخبار 106 /1 ، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 232 / 1)۔

 

بیگانوں کے اوصاف

 1265۔ رسول اکرم ! جو شخص ہنسی خوشی ذلت کا اقرار کرلے وہ ہم اہلبیت (ع) سے نہیں ہے۔( تحف العقول ص 58)۔

 1266۔ رسول اکرم ! جو ہمارے بزرگ کا احترام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے فضل کی معرفت نہ رکھتاہو وہ ہم اہلبیت(ع) سے نہیں ہے( جامع الاحادیث قمی ص 112 روایت طلحہ بن زید ، الجعفریات ص 183 ، امالی مفید 18 / 6 روایت ابوالقاسم محمد بن علی ابن الحنفیہ ، کافی 2 ص 165 / 2 روایت احمد بن محمد)۔

 1267۔ رسول اکرم ! جو بزرگ کا احترام نہ کرے اور چھوٹے پر رحم نہ کرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( مسند ابن حنبل 1ص554 /2329 روایت ابن عباس)۔

 

 

 1268۔ رسول اکرم ! ایہا الناس ۔ ہم اہلبیت(ع) وہ ہیں جنھیں پروردگار نے ان امور سے محفوظ رکھاہے کہ ہم نہ فتنہ کرتے ہیں اور نہ فتنہ میں مبتلا ہوتے ہیں ، نہ جھوٹ بولتے ہیں، نہ کہانت کرتے ہیں، نہ جادو کرتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں نہ بدعت کرتے ہیں نہ شک و ریب میں مبتلا ہوتے ہیں، نہ حق سے روکتے ہیں نہ نفاق کرتے ہیں لہذا اگر کسی میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں تو اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور خدا بھی اس سے بیزار ہے اور ہم بھی بیزار ہیں اور جس سے خدا بیزار ہوجائے اسے جہنم میں داخل کردے گا جو بدترین منزل ہے۔ (تفسیر فرات کوفی 307 / 412 روایت عبداللہ بن عباس)۔

 1269۔ رسول اکرم ! جس کی اذیت سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ رہے وہ ہم سے نہیں ہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 24 / 2 روایت ابراہیم بن ابی محمود عن الرضا (ع) ، عوالی اللئالی 1 ص 259 / 33)۔

 1270۔ رسول اکرم ! جو ہم کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ہے۔( مسند ابن حنبل 5 ص 544 16489 روایت ابی بردہ بن ینار۔ سنن ابن ماجہ 2 ص 49 / 2224، مستدرک حاکم 11 ص 2153 ، کافی 5 ص 160 / 1 تہذیب 7 ص 12 / 48 روایت ہشام بن سالم عن الصادق (ع) )

 1271۔ رسول اکرم ! جو کسی مسلمان کو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ہے۔( الفقیہ 3 ص 273 / 3986 ، عیون اخبار الرضا 2 ص 29/ 26 ، مسند زید ص 489 ، فقہ الرضا (ع) ص 369)۔

 1272۔ رسول اکرم ! جو امانت میں خیانت کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 5 ص 133/7 روایت سکونی عن الصادق (ع) )۔

 

 

 1273۔ امام صادق (ع)! یاد رکھو کہ جو ہمسایہ کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 2 ص 668 / 11 ،روایت ابی الربیع الشامی)۔

 1274۔ امام صادق (ع)! جو نماز شب نہ پڑھے وہ ہم سے نہیں ہے۔( المقنع ص 131 المقنعہ ص 119 ، روضة الواعظین ص 321)۔

 1275۔ امام صادق (ع)! اگر شہر میں ایک لاکھ آدمی ہیں اور کوئی ایک بھی اس سے زیادہ متقی ہے تو وہ ہم سے نہیں ہے۔( کافی 2 ص78 / 10 روایت علی بن ابی زید)۔

 1276۔ امام صادق (ع) ! وہ ہم سے نہیں ہے جو دنیا کو آخرت کے لئے چھوڑ دے یا آخرت کو دنیا کے لئے چھوڑ دے۔( الفقیہ3 ص 156 / 3568 ، فقہ الرضا (ع) ص 337)۔

 1277۔ امام صادق (ع) ! جو زبان سے ہمارے موافق ہو اور اعمال و آثار میں ہمارے خلاف ہو وہ ہم سے نہیں ہے۔( مشکوة الانوار ص 70 ، مستطرفات السرائر 147 / 21 روایت محمد بن عمر بن حنظلہ)۔

 1278۔ ابوالربیع شامی ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو گھر اصحاب سے چھلک رہا تھا جہاں شام ، خراسان اور دیگر علاقوں کے افراد موجود تھے کہ مجھے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملی، ایک مرتبہ حضرت ٹیک لگاکر بیٹھے اور فرمایا کہ اے شیعہ آل محمد ! یاد رکھو کہ وہ ہم سے نہیں ہے جو غصہ میں نفس پر قابو نہ پاسکے اور ساتھی کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کرے، حسن اخلاق اور حسن رفاقت اور حسن مزاج کا مظاہرہ نہ کرے۔

 اے شیعہ آل محمد ! جہاں تک ممکن ہو خدا سے ڈرو، اس کے بعد ہر قوت و طاقت اللہ ہی کے سہارے ہے۔( کافی 2 ص637 / 2 ، الفقیہ 2 ص 274 /2423 ، المحاسن 2 ص 102 / 270 ، تحف العقول ص 380 ، مستطرفات السرائر 61/ 33)۔

 

 

 1279۔ امام صادق (ع)! پروردگار عالم نے تم پر ہماری محبت اور موالات واجب قرار دی ہے اور ہماری اطاعت کو فرض قرار دیا ہے لہذا جو ہم سے ہے اسے ہماری اقتدا کرنی چاہیئے اور ہماری شان ورع و تقویٰ، سعی عمل، ہر شخص کی امانت کی واپسی ، صلہ رحم، مہمان نوازی، درگذر ہے اور جو ہماری اقتدا نہ کرے وہ ہم سے نہیں ہے۔(اختصاص ص 241)۔

 1280۔ امام کاظم (ع)! وہ ہم سے نہیں ہے جو روزانہ اپنے نفس کا حساب نہ کرے کہ اگر عمل اچھا کیاہے تو خدا سے اضافہ کی دعا کرے اور اگر برا کیا ہے تو استغفار اور توبہ کرے۔( کافی 2 ص 453 / 2 ، روایت ابراہیم بن عمریمانی، تحف العقول ص 396 ، اختصاص ص 26 ، 243 ، مشکٰوة الانوار 70 / 247 ، الزہد للحسین بن سعید ص 76 / 203۔

 1281۔ امام رضا (ع) ! جو ہم سے قطع تعلق رکھے یا تعلقات رکھنے والے سے قطع تعلق کرلے یا ہماری مذمت کرنے والے کی تعریف کرے یا مخالف کا احترام کرے وہ ہم سے نہیں ہے اور ہم بھی اس سے نہیں ہیں۔( صفات الشیعہ 85 / 10 روایت ابن فضال)۔

 1282۔ الہروی! میں نے امام رضا (ع) سے عرض کی کہ فرزند رسول ! ذرا جنت و جہنم کے بارے میں فرمائیے کہ کیا ان کی تخلیق ہوچکی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ بیشک ! رسول اکرم شب معراج جنت میں جاچکے ہے اور جہنم کو دیکھ چکے ہیں۔

 میں نے عرض کی کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دونوں علم خدا میں ہیں لیکن ان کی تخلیق نہیں ہوئی ہے ، فرمایا یہ لوگ ہم سے نہیں ہیں اور نہ ہم ان سے ہیں جس نے جنت و جہنم کی خلقت کا انکار کیا اس نے رسول اکرم کو جھٹلایا اور ہماری تکذیب کی اور اس کا ہماری ولایت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کا ٹھکانا ہمیشہ کے لئے جہنم ہے جس کے بارے میں پروردگار نے فرمایاہے کہ ” یہ وہ جہنم ہے جس کو مجرمین جھٹلارہے تھے اب اس کے اور کھولتے پانی کے درمیان چکر لگارہے ہیں۔( رحمان 43 ، 44 (توحید 18/21 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 116 / 3 ، احتجاج 2 ص 381 / 286)۔

 

 

 

اہلبیت(ع) والوں کی ایک جماعت

 

 1۔ ابوذر

 1283۔ رسول اکرم ! ابوذر ۔ تم ہم اہلبیت (ع) سے ہو۔( امالی طوسی (ر) 525 / 1162 ، مکارم الاخلاق 2 ص 363 / 2661 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 51 روایت ابوذر)۔

 

 2 ۔ ابوعبیدہ

 1284۔ ابوالحسن ! ابوعبیدہ کی زوجہ ان کے انتقال کے بعد امام صادق (ع) کی خدمت میں آئی اور کہا کہ میں اس لئے رورہی ہوں کہ انھوں نے غربت میں انتقال کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ غریب نہیں تھے، وہ ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں۔( مستطرفات السرائر 40 /4)۔

 

 3۔ راہب بلیخ

 1285۔ حبہ عرنی ! جب حضرت علی (ع) بلیخ نامی جگہ پر فرات کے کنارہ اترے تو ایک راہب صومعہ سے نکل آیا اور اس نے کہا کہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو آباء و اجداد سے وراثت میں ملی ہے اور اسے اصحاب عیسیٰ بن مریم نے لکھاہے، میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتاہوں ،فرمایا وہ کہاں ہے لاؤ، اس نے کہا اس کا مفہوم یہ ہے۔

 

 

 بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اس خدا کا فیصلہ ہے جواس نے کتاب میں لکھ دیا ہے کہ وہ مکہ والوں میں ایک رسول بھیجنے والا ہے جو انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا، اللہ کا راستہ دکھائے گا اور نہ بداخلاق ہوگا اور نہ تند مزاج اور نہ بازاروں میں چکر لگانے والا ہوگا، وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گا بلکہ عفو و درگذر سے کام لے گا، اس کی امت میں وہ حمد کرنے والے ہوں گے جو ہر بلندی پر شکر پروردگار کریں گے اور ہر صعود و نزول پر حمد خدا کریں گے، ان کی زبانیں تہلیل و تکبیر کے لئے ہموار ہوں گی۔

 خدا اسے تمام دشمنوں کے مقابلہ میں امداد دے گا اور جب اس کا انتقال ہوگا تو امت میں اختلاف پیدا ہوگا، اس کے بعد پھر اجتماع ہوگا اور ایک مدت تک باقی رہے گا، اس کے بعد ایک شخص کنارہ فرات سے گذرے گا جو نیکیوں کا حکم دینے والا اور برائیوں سے روکنے والا ہوگا، حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے گا ، دنیا اس کی نظر میں تیز و تند ہواؤں میں راکھ سے زیادہ بے قیمت ہوگی اور موت اس کے لئے پیاس میں پانی پینے سے بھی زیادہ آسان ہوگی، اندر خوف خدا رکھتا ہوگا اور باہر پروردگار کا مخلص بندہ ہوگا خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوگا۔

 اس شہر کے لوگوں میں سے جو اس نبی کے دور تک باقی رہے گا اور اس پر ایمان لے آئے اس کے لئے جنت اور رضائے خدا ہوگی اور جو اس بندہ نیک کوپالے اس کا فرض ہے کہ اس کی امداد کرے کہ اس کے ساتھ قتل شہادت ہے اور اب میں آپ کے ساتھ رہوں گا اور ہرگز جدا نہ ہوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہر غم میں شرکت کرلوں۔

 یہ سن کر حضرت علی (ع) رو دیے اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے نظر انداز نہیں کیا ہے اور تمام نیک بندوں کی کتابوں میں میرا ذکر کیا ہے۔

 راہب یہ سن کر بے حد متاثر ہوا اور مستقل امیر المومنین (ع) کے ساتھ رہنے لگا یہاں تک کہ صفین میں شہید ہوگیا تو جب لوگوں نے مقتولین کو دفن کرنا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ راہب کو تلاش کرو۔ اور جب مل گیا تو آپ نے نماز جنازہ ادا کرکے دفن کردیا اور فرمایا کہ یہ ہم اہلبیت (ع) سے ہے اور اس کے بعد بار بار اس کے لئے استغفار فرمایا۔ (مناقب خوارزمی ص 242 ، وقعة صفین ص 147)۔

 

 

 4۔ سعد الخیر (ر)

 1286۔ابوحمزہ ! سعد بن عبدالملک جو عبدالعزیز بن مروان کی اولاد میں تھے اور امام باقر (ع) ! انھیں سعد الخیر کے نام سے یاد کرتے تھے، ایک دن امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعورتوں کی طرح گریہ کرنا شروع کردیا۔

 حضرت نے فرمایا کہ سعد ! اس رونے کا سبب کیا ہے؟

 عرض کی ۔ کس طرح نہ روؤں جبکہ میرا شمار قرآن مجید میں شجرہ ملعونہ میں کیا گیا ہے۔

 فرمایا کہ تم اس میں سے نہیں ہو، تم اموی ہو لیکن ہم اہلبیت (ع) میں ہو۔

 کیا تم نے قرآن مجید میں جناب ابراہیم (ع) کا یہ قول نہیں سناہے۔

 ” جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا“ (اختصاص ص 85)۔

 

 5 ۔ سلمان (ر)

 1287 ۔رسول اکرم نے حضرت علی (ع) سے فرمایا کہ سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں اور مخلص ہیں لہذا انھیں اپنے لئے اختیار کرلو۔( مسند ابویعلی ٰ 6 ص 177 / 6739 روایت سعد الاسکاف عن الباقر (ع) ، الفردوس 2 ص 337/ 3532)۔

 1288۔ ابن شہر آشوب ! لوگ خندق کھود رہے تھے اور گنگنارہے تھے، صرف سلمان (ر) اپنی دھن میں لگے ہوئے تھے اور زبان سے معذور تھے کہ رسول اکرم نے دعا فرمائی ۔

 خدایا سلمان (ر) کی زبان کی گروہ کھول دے چاہے دو شعر ہی کیوں نہ ہوں چنانچہ سلمان (ر) نے یہ اشعار شروع کردیے۔

 میرے پاس زبان عربی نہیں ہے کہ میں شعر کہوں، میں تو پروردگار جو پسندیدہ اور تمام فخر کا حامل ہے۔

 

 

 اپنے دشمن کے مقابلہ میں اور نبی طاہر کے دشمن کے مقابلہ میں، وہ پیغمبر جو پسندیدہ اور تمام فخر کا حامل ہے۔

 تا کہ جنت میں قصر حاصل کرسکوں اور ان حوروں کے ساتھ رہوں جو چاند کی طرح روشن چہرہ ہوں۔

 مسلمانوں میں یہ سن کر شور مچ گیا اور سب نے سلمان کو اپنے قبیلہ میں شامل کرنا چاہا تو رسول اکرم نے فرمایا کہ سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں ۔( مناقب 1 ص 85)۔

 1289 ۔ رسول اکرم ۔ سلمان (ر) ! تم ہم اہلبیت (ع) سے ہو اور اللہ نے تمھیں اول و آخر کا علم عنایت فرمایاہے اور کتاب اول و آخر کو بھی عطا فرمایا ہے۔( تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 203 روایت زید بن ابی اوفیٰ)۔

 1290۔ امام علی (ع)! سلمان (ر) نے اوّل و آخر کا سارا علم حاصل کرلیاہے اور وہ سمندر ہے جس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوسکتاہے اور وہ ہم اہلبیت(ع) سے ہیں ۔( تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 201 روایت ابوالبختری ، امالی صدوق (ر) ص 209 /8 روایت مسیب بن نجیہ، اختصاص ص11 ، رجال کشی (ر) 1 ص 52 / 25 روایت زرار، الطرائف 119 / 183 روایت ربیعہ السعدی، الدرجات الرفیعہ ص 209 روایت ابوالبختری)۔

 1291۔ ابن الکواء ! یا امیر المومنین (ع) ! ذرا سلمان (ر) فارسی کے بارے میں فرمائیے؟ فرمایا کیا کہنا، مبارک ہو، سلمان (ر) ہم اہلبیت (ع) سے ہیں، اور تم میں لقمان حکیم جیسا اور کون ہے، سلمان (ر) کو اول و آخر سب کا علم ہے۔( احتجاج 1 ص 616 / 139 روایت اصبغ بن نباتہ، الغارات 1 ص 177 روایت ابوعمرو الکندی، تہذیب تاریخ دمشق 6 ص 204)۔

 1292 ۔ امام باقر (ع) ! ابوذر سلمان (ر) کے پاس آئے اور وہ پتیلی میں کچھ پکارہے تھے، دونوں محو گفتگو تھے کہ اچانک پتیلی الٹ گئی اور ایک قطرہ سالن نہیں گرا، سلمان (ر) نے اسے سیدھا کردیا ، ابوذر (ر) کو بے حد تعجب ہوا ، دوبارہ پھر ایسا ہی ہوا تو ابوذر دہشت زدہ ہوکر سلمان (ر) کے پاس سے نکلے اور اسی سوچ میں تھے کہ اچانک امیر المومنین (ع) سے ملاقات ہوگئی ۔

 

 

 فرمایا ابوذر (ر) ! سلمان (ر) کے پاس سے کیوں چلے آئے اور یہ چہرہ پر دہشت کیسی ہے!

 ابوذر (ر) نے سارا واقعہ بیان کیا ۔

 فرمایا ابوذر ! اگر سلمان (ر) اپنے تمام معلم کا اظہار کردیں تو تم ان کے قاتل کے لئے دعائے رحمت کروگے اور ان کی کرامت کو برداشت نہ کرسکوگے۔

 دیکھو! سلمان (ر) اس زمین پر خدا کا دروازہ ہیں، جو انھیں پہچان لے وہ مومن ہے اور جو انکار کردے وہ کافر ہے ۔ سلمان (ر) ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں ( رجال کشی 1 ص 59 / 33 روایت جابر)۔

 1293۔ حسن بن صہیب امام باقر (ع) کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت کے سامنے سلمان (ر) فارسی کا ذکر آیا تو فرمایا خبردار انھیں سلمان (ر) فارسی مت کہو، سلمان (ر) محمد ی کہو کہ وہ ہم اہلبیت(ع) میں سے ہیں ۔( رجال کشی 1 ص 54 / 26 ، 71 / 42 روایت محمد بن حکیم، روضة الواعظین ص 310)۔

 

 6 ۔ عمر بن یزید

 1294۔ عمر بن یزید ! امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابن یزید ! خدا کی قسم تم ہم اہلبیت (ع) سے ہو، میں نے عرض کیا ، میں آپ پر قربان ، آل محمد سے؟ فرمایا بیشک انھیں کے نفس سے؟

 عرض کیا کہ انھیں کے نفس سے؟ فرمایا بیشک انھیں کے نفس سے ! کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی ہے” یقیناً ابراہیم سے قریب تر ان کے پیرو تھے اور پھر یہ پیغمبر اور صاحبان ایمان ہیں اور اللہ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے“ آل عمران نمبر 68۔

 اور پھر یہ ارشاد الہی ” جس نے میرا ا تباع کیا وہ مجھ سے ہے اور جس نے نافرمانی کی تو بیشک خدا غفور رحیم ہے۔ ابراہیم آیت 36 (امالی طوسی (ر) 45 / 53 ، بشارة المصطفیٰ ص 68)۔

 

 

 7 ۔ عیسیٰ بن عبداللہ قمی

 1295۔ یونس ! میں مدینہ میں تھا تو ایک کوچہ میں امام صادق (ع) کا سامنا ہوگیا، فرمایا یونس ! جاؤ دیکھو دروازہ پر ہم اہلبیت (ع) میں سے ایک شخص کھڑا ہے میں دروازہ پر آیا تو دیکھا کہ عیسیٰ بن عبداللہ بیٹھے ہیں، میں نے دریافت کیا کہ آپ کون ہیں۔

 فرمایا میں قم کا ایک مسافر ہوں

 ابھی چند لمحہ گذرے تھے کہ حضرت تشریف لے آئے اور گھر میں مع سواری کے داخل ہوگئے۔

 پھر مجھے دیکھ کر فرمایا کہ دونوں آدمی اندر آو اور پھر فرمایا یونس ! شائد تمھیں میری بات عجیب دکھائی دی ہے۔

 دیکھو عیسیٰ بن عبداللہ ہم اہلبیت (ع) سے ہیں ۔

 میں نے عرض کی میری جان قربان یقیناً مجھے تعجب ہوا ہے کہ عیسیٰ بن عبداللہ تو قم کے رہنے والے ہیں ۔ یہ آپ کے اہلبیت (ع) میں کس طرح ہوگئے۔

 فرمایا یونس ! عیسیٰ بن عبداللہ ہم میں سے ہیں زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ۔( امالی مفید 140 /6 ، اختصاص ص 68 ، رجا ل کشی 2 ص 624/ 607)۔

 1296 ۔ یونس بن یعقوب ! عیسیٰ بن عبداللہ امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر جب چلے گئے تو آپ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ انھیں دوبارہ بلاؤ۔

 اس نے بلایا اور جب آگئے تو آپ نے انھیں کچھ وصیتیں فرمائیں اور پھر فرمایا، عیسیٰ بن عبداللہ ! میں نے اس لئے نصیحت کی ہے کہ قرآن مجید نے اہل کو نماز کا حکم دینے کا حکم دیاہے اور تم ہمارے اہلبیت (ع) میں ہو۔

 دیکھو جب آفتاب یہاں سے یہاں تک عصر کے ہنگام پہنچ جائے، تو چھ رکعت نماز ادا کرنا اور یہ کہہ کر رخصت کردیا اور پیشانی کا بوسہ بھی دیا ، ( اختصاص ص 195 ، رجال کشی 2 ص 625 / 610)۔

 

 

 8 ۔ فضیل بن یسار

 1297 ۔ امام صادق (ع) ! خدا فضیل بن یسار پر رحمت نازل کرے کہ وہ اہلبیت (ع) سے تھے ۔( الفقیہ 4 ص 441 ، رجال کشی 2 ص 473 / 381 روایت ربعی بن عبداللہ فضیل بن یسار کے غسل دینے والے کے حوالہ سے!۔

 

 9 ۔ یونس بن یعقوب

 1298۔ یونس بن یعقوب! مجھ سے امام صادق (ع) یا امام رضا (ع) نے کوئی مخفی بات بیان کی اور پھر فرمایا کہ تم ہمارے نزدیک متہم نہیں ہو، تم ایک شخص ہو جو ہم اہلبیت (ع) سے ہو، خدا تمھیں رسول اکرم اور اہلبیت (ع) کے ساتھ محشور کرے اور خدا انش ایسا کرنے والا ہے۔( رجال کشی 2 ص 685 / 724)۔

 

 والحمدلله ربا لعالمین

 28 ۔ ربیع الاول 1418ء ھ

 صبح 5 بجے گلف ایر واپسی از لندن

 

 

……………………………………………………………………………..

 

Comments powered by CComment