مولف : فدا حسین حلیمی
مقدمہ
جیساکہ کہا جاتا ہے (فإنّ السؤال مفتاح لأبواب الكمالات و شفاء لأسقام الجهالات (1)سوال ترقی کی کنجی اور جہالت کی بیماریوں کے لیے شفا ہے چونکہ انسان فطری طور پر ایک ایسا موجود ہے کہ جسکی سرشت میں جستجو اور پوچ گھچ رکھی گئی ہے اور اسی راہ سے ہی جھل ونادانی کے پردے انسان کے آنکھوں کے سامنے سے ہٹ جاتے ہیں اور علم ومعرفت کے دروازے کھل جاتے ہیں ؛ اور کمال کی منازل طے کر جاتے ہیں ۔ دنیا میں بہت سارے علوم اور اہم نظریات ایک چھوٹے سوال سے شروع ہوے ہیں اور آہستہ آ ہستہ یہی ایک چھوٹا سا سوال رشد کرتا ہوا ایک مکمل علم اور نظریہ کی شکل اختیار کر چکا ہے ۔
اور چونکہ مھدویت اور مصلح اعظم ؛ منجی عالم بشریت جو کہ آخری زمانہ میں ظاہر ہو کر ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا میں عدل وانصاف قائم کرئے گا اور ہر قسم کے ظلم وستم اور بربریت کا خاتمہ کرئے گا یہ ایک ایسا عالمی طرز فکر اور نظریہ ہے جس پر دنیا کے الھی ادیان والے اربوں افراد بھر پور عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ دیگر غیر دینی اور فلسفی مکابت فکر بھی اس نظریہ کا قائل ہیں علاوہ بر این یہ ایک ایسا نظر یہ ہے جسکا انسان کے حال اور مستقبل کے ساتھ مکمل مرتبط ہے' اسیلے علماء اسلام نے حضرت حجت کی ولات سے پہلے ہی اس موضوع پر اہل بیت اطہار کی فرمائشات پر مشتمل جامع تالیفات تحریر کی ہیں یوں تو تاریخ اسلام میں آپکی شخصیت کے اُپرسب سے زیادہ مضامین' تالیفات ' اور تحقیقات لکھے گئیں ہیںکہ جنکی تعدار کئی ہزارتک پہونچتی ہے ۔
--------------
(1):- شرح الکافی-الاصول و الروضة (للمولی صالح المازندرانی) / ج2 / ص : 6
اسکے باوجود اگر چہ خاندان نبوّت کا ہر فرد مظلوم ہیں کسی کو زہرا جفا سے تو کسی کو نوک نیرہ سے شھید کردیا گیا لیکن امام زمانہ ان سب سے زیادہ مظلوم اور غیریب ہیں چونکہ آپ زندہ ہیں اور لوگوں کے درمیان زندگی کرتے ہیں لیکن لوگ آپ کو پہچانتے نہیں ' ساری دنیا آپ کی برکت سے آباد ہے لیکن انکے ساتھ غیروں جیسا سلوک رکھتا ہے' جن وانس انکی طفیل سے رزق کھاتے ہیں لیکن انکے مقام ومنزلت کی کوئی پروا نہیں کرتا ۔
اس حالت ایک مؤمن کے لیے اس طرح نالہ وفغان کرنا چاہے : یا بن فاطمہ الکبری بابی انت وامّی لک الوقاء والحمی :اے فاطمہ کبری کا فرزند مھدی آپ پر قربان ہو میرے ماں باپ اور میری جان آپکے لیے فدا ہے :عزیز علیّ َ ان ابکیک ویخذلک الوری : مجھ پر گراں ہے کہ میں آپ کیلے روؤں اور لوگ آپکو چھوڑے رہیں ۔ عزیز علیّ َ ان یجریَ علیک دونھم ما جری فھل من معینٍ فاطیل معہ العویل والبکاء ھل من جزوعٍ فاساعد جزعہ اذا خلا گراں ہے مجھ پر کہ لوگوں کی طرف سے آپ پر گزرے جو گزرے کیا کوئی یاتھی ہے جسکے ساتھ مل کر آپ کے لیے گریہ وزاری کروں کیا کوئی بے تاب ہے کہ تنھائی میں اسکے ہمراہ نالہ وفریاد کروں ۔
خلاصہ یہ کہ ایک طرف امام مھدی عجل ﷲ فرحہ الشریف حتی کہ اپنے چاہنے والے دوستوں کے محفلوں میں بھی بے کس و تنہا ہیں؛ دن رات گزر جاتی ہے لیکن یک لمحے کے لیے ا نکو یاد کرنے کی زحمت نہیں کرتا ' زندگی ختم ہوتی ہے لیکن انکی معرفت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا جبکہ وہ دن رات ہمارے ساتھ ہیں اور ہمیں ایک لحظے کے لیے بھی فراموش نہیں کرتے اور ہمیں ہر گٹھن مراحل میں اکیلا نہیں چھوڑتے : انا غیر مہملین لمراعاتکم و لا ناسین لذکرکم(1): ہم نے تمھارے بارے کبھی کوتا ہی نہیں کی اور نہ ہی تمھیں ایک لحظے کے لیے اکیلا چھوڑے
--------------
(1):- بحار الانوار (ط - بیروت) / ج53 / 175 ص : 150
تو دوسری جانب استعماری طاقتیں اور دشمن انسانیت اپنی نام ونہاد اور انسانی اقدار سے متصادم تہذیب وثقافت کو بچانے اور لوگوں کی ذہنوں کو نظریہ مھدویت اور حضرت امام زمانہ ارواحنا لہ الفدا ء کی ارمانی عدل جھانی حکومت سے دوررکھنے کے خام خیال کے تحت شب وروز بڑے پیمانے پر شبہ افکنی میں مصروف ہیں ۔
تو اس گریہ کنان حالت کو سامنے رکھتے ہوے اس چھٹی سی کتابچے میں حتی الامکان مستدل انداز میں حضرت مھدی کے متعلق اہم تریں شبہات اور سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے امید ہے مولی کے صدقے میں یہ ناچیز کا وش نسل جدید کے لیے مفید ثابت ہو جاے اور پروردگار عالم اس بندہ عاصی کو عفو درگزر فرماے ۔ آمین !
مہدویت اور امام مہدی
سوال نمبر 1: مہدویت کیا ہے اور کہاں سے شروع ہوئی ہے ؟
جواب : مہدویت سے مراد مصلح اعظم ؛ منجی عالم بشریت ؛ سلالہ پاک ختم نبوّت (ص)؛ فرزند صدیقہ کبری ؛ قائم آل محمدؐ حضرت مھدی موعود کا آخری زمانہ میں حتمی طور پر ظہور کرنے اور تمام بشریت کو ظلم وجور سے نجات دلا کر پورے زمین کو عدل وانصاف سے بھر دینے پر عقیدہ رکھنا اور انکے ظھور کی انتظار میں زندگی بسر کرنا ہے۔اور یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جسکے تمام اسلامی فکری اور فقہی مذاہب پابند ہیں اور قرآنی آیات اور متواتر آحادیث کی روشنی میں مہدویت پر عقیدہ رکھنے کو ضروریات اسلام میں سے سمجھا جاتا ہے اور اس عقیدے کے انکار کرنے والے کو منکر اسلام اور کافر جاننا جاتا ہے ۔
اسی طرح مھدویت پر عقیدہ اسلام اور آسمانی ادیان کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ جس طرح بعض مشہور غربی مفکریں اور فلاسفر جیسے برٹرینڈراسل ؛ اینشٹائن ؛ برنادڑشو ؛ ولیام لوکااریسون؛ کانت اور دیگر افراد کے کہنے کی مطابق حتی کہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی آخری زمانہ میں ایک مصلح اعظم قیام کر کے عالم بشریت کو نجات دلانے اور زمین پر عدل وانصاف پھیلا کر تمام انسانوں کے لیے ایک سعادت مند زندگی کا زمینہ فراہم کرنے پر عقیدہ رکھتے ہیں (1)
لیکن دین مبین اسلام نے اس آفاقی اور فطری نظرے کی تائید کرنے کے ساتھ ساتھ اسکی اہمیت ؛ ضرورت اور حتمی طور پر تحقق پانے پر زور دیا ہے اور اس عقیدے کی تفصیلات اور جز ئیات تک بتا دی ہے ۔لہذا یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس عقیدے کا اصل منشاء انسانی فطرت ہے چنانچہ تمام امتوں نے اس عقیدے کو اپنے زندگی میں تجربہ کیا ہے ۔
--------------
(1):- اسد اللہ ہاشمی : ظہور مہدی از نگاہ اسلام ومذاہب وملل جھان : ص 413 ۔415 ؛چھاپ اول ؛ ناشر؛ مسجد جمکران؛ 1380 ہ ش ۔
سوال نمبر 2: عقیدہ مھدویت اور امام مہدی کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟
جواب: پہلے بھی اشارہ ہوا کہ کوئی بھی اسلامی مذاہب امام مہدی کے وجود کی ضرورت کوانکار نہیں کرتا لیکن مکتب آھلبیتؑ کے مانے والے اور دوسرے اسلامی فرقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ اہل سنت برادران کا عقیدہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک مھدی نامی شخص نسل پیغمبر اکرم (ص) اور فاطمہ زہرا ؑ کی اولاد میں پیدا ہوگا اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح طلم وجور سے بھر چکی ہوگی لیکن وہ شخص کون ہوگا اب تک نہیں معلوم۔ جسے عام اصطلاح میں مہدویت نوعی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
لیکن مکتب اہل بیتؑ کے مانے والوں کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی ایک معین شخص کا نام ہے جو پیدا ہوچکے ہیں اور پیغمبر اکرم(ص) کے ارشاد کے مطابق وہ شخص فرزند حضرت حسن العسکری ابن ھادی النقی ابن تقی الجوادؑ ابن علی الرضاءؑ ابن موسی الکاظم ؑ ابن جعفر الصادق ؑابن محمد الباقرؑ ابن علی ؑابن حسینؑ ابن علی ابن ابی طالب فرزند فاطمہ زہرا ؑ بنت محمد(ص) بن عبداللہ ہے اور اب تک پردہ غیبت میں زندہ ہیں۔جسے عام اصطلاح میں مہدویت شخصی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
لہذا آخری زمانہ میں امام مہدی منتظر قائم آل محمد ؐکے ظہور کا حتمی اور ناقابل تغیر ہونا تمام مسلمانون کا مشترکہ عقیدہ اور ضروریات اسلام میں شمار ہوتا ہے لیکن شیعون اور دیگر مذاہب کے درمیان اختلاف صرف مصداق کے معین ہونے میں ہے ۔
سوال نمبر 3: کیا اہل سنت علماء امام مہدی کے متعلق احادیث کے صحیح اورمتواتر ہونے کا قائل ہیں ؟
جواب :جی ہاں ہر دور میں بڑے بڑے علماء ؛ محدثیں اور حفاظ نے امام مہدی کے متعلق احادیث کی صحیح اور متواتر ہونے کا اعتراف کیا ہے ہم چند اہم شخصیات کو انکے بیانات کے ہمراہ یہاں تذکرہ کرتے ہیں ۔
1:امام الحافظ ابوالحسن الآبری السنجری متوفی363 ہجری اپنی کتاب مناقب شافعی میں لکھتے ہیں:قد تواترت الاخبار واستفاضت بکثرة رواتها عن المصطفی(ص) بخروجه وانه من اهل بیته وانه یملا الارض عدلاً (1)امام مھدی ؑسے متعلق مروی روایتیں اپنے راویوں کی کثرت کی بنا پر تواتر اور شہرت عام کے درجہ پر پہنچ گئی ہیں کہ وہ اہل بیت رسول(ص) سے ہونگے اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے (2)
2: ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباریمیں لکھتے ہیں :روایتی درجہ تواتر کو پہنچ گئی ہیں کہ امام مہدیاسامت سے ہیں اور حضرت عیسی آسمان سے اتریں گئے اور انکے پیچھے نماز پڑیں گئے (3)
3:شیخ ناصر الدین البانی اس بارے میں کہتا ہے : انّ عقیدة خروج المهدی ثابته متواترة عنه یجب الایمان بها(4)
--------------
(1):- ابن حجر ہیثمی: الصواعق المحرقہ :ج 2 ؛ص 480
(2):- حافظ آبری کے اس قول کو ابن قیم نے؛المنار المنیف اور سفارینی نے؛ لوائح الانوار البہیہ اور مراعی بن یوسف للکرمی کی کتاب فوئد الفکر کے حوالے سے اور ابن حجر ھثمی مکی نے؛الصواعق المحرقہ ج 2 ص 480 میں نقل کیا ہے ۔
(3):- ابن حجر عسقلانی : فتح الباری ؛ ج 7 ؛ ص 169
(4):- مجلہ التمدن الاسلامی ؛ شمارہ نمبر 22 ؛ ص 643 ؛ چھاپ دمشق ۔
4 : شیخ محمد البرنجی المدنی متوفی 1103ہجری اپنی کتاب ؛ الاشراط الساعۃ میں لکھتے ہیں : محقق طور پر معلوم ہے کہ مھدی سے متعلق احادیث کہ آخری زمانہ میں انکا ظہور اور وہ آنحضرت ؐ کی نسل اور فاطمہ زہراء ؑ کی اولاد میں سے ہونگے تواتر معنوی کی حد ک پہنچی ہوئی ہے لہذا انکے انکار کی کوئی وجہ اور بنیاد ہیں ہے (1)
امام مھدی کے ظہور پر عقیدہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو حضور (ص) سے متواتر احادیث کے ذریعے سے ثابت ہے جس پر ایمان رکھنا واجب ہے ۔
5 : محمد نواب صدیق خان قونجی ہندی اپنی کتاب ؛ الازاعۃ میں لکھتے ہیں : امام مھدی کے متعلق احادیث مختلف روایتوں کے ساتھ بہت زیادہ ہیں جو حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں (2) پھر اسی کتاب کے کسی اور صفحے میں لکھتے ہیں : اس بات میں ادنیشک نہیں ہےکہ آخری زمانہ میں امام مھدی ظہور کریں گے کیونکہ اس بارے میں احادیث متواتر ہیں اور سلف سے خلف تک جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے (3)
6: اسی طرح مسلک دیوبند کے مستند عالم شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی نے جو کتابچہ عربی میں امام مہدی کے متعلق صحیح احادیث کی جمع آوری کی ہیں اس میں فرماتے ہیں : ان احادیث کو جمع کرنے کا ایک غرض یہ بھی ہے کہ بعض مصنفین کے کلام سے لوگ دھوکہ نہ کھاجائیں جنہیں علم حدیث سے لگاو نہیں ہے جیسے علامہ ابن خلدون وغیرہ یہ حضرات اگر چہ فن تاریخ میں معتمد ومستند ہیں ؛ لیکن علم حدیث میں ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے (4)
--------------
(1):-محمد البرنجی المدنی ؛ الاشارد لالشراط الساعۃ ؛ ص 112 ۔
(2):-محمد نواب صدیق خان قونجی ہندی: الازاعۃ لما کان ویکون بین یدی الساعہ :ص53 ۔
(3):-محمد نواب صدیق خان قونجی ہندی: الازاعۃ لما کان ویکون بین یدی الساعہ :ص126 ۔
(4):-سیّد افتخار حسین نقوی :عصر ظہور کا اردو ترجمہ ؛ ص 25 ۔ 31 ناشر؛ادارہ منہاج الصالحین ؛ چھاپ اول2002 ۔
7 : وہابی مسلک کے اہم دینی مرکز ؛رابطة العالم الاسلامی ؛ نے اہل کینیا کے رہنے والے کسی سائل کے جواب میں جوبیانیہ دیا ہے وہ آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں :و هوآخر الخلفاء الراشدین الاثنی عشر الّذین اخبر عنهم النبىّ (ص) فی الصحاح ؛واحادیث المهدی واردة عن الکثیر من الصحابه یرفعونها الی رسول الله (ص) وقدنصّ علی انّ احادیث المهدی انها متواترة جمع من الاعلام قدیما ً وحدیثاِونصّ الحفّاظ والمحدّثون علی انّ احادیث فیها الصحیح والحسن ومجموعها متواتر مقطوع بتواتره وصحته ؛وانّ الاعتقاد بخروج المهدی واجب وانه من عقائد اهل السنه والجماعه ولا ینکرها الاّ جا هل بالسنه ؛ والمبدع فی العقیدة (1) امام مھدی ان 12 خلفاے راشدیں میں سے آخری ہیں جنکے بارے میں نبی اکرم(ص) نے خبر دی ہے جس طرح کتب صحاح میں آیا ہے ؛ اور امام مھدی سے متعلق احادیث کو 20 سے اوپر اکابر صحابہ اور دیگر اصحاب رسول نے رسول اللہ (ص) سے نقل کیا ہے ۔اسی طرح سلف اور خلف کے بعض بڑے بڑے بزرگوں نے اپنے تالیفات میں ان احادیث کے متواتر ہونے کا اقرار کیا ہے ۔۔۔
اسی طرح علم حدیث کے ماہرین ؛حفاظ ؛ محدثین امام مھدی سے متعلق احادیث کے بارےمیں فرماتے ہیں اگر چہ بعض احادیث ضعیف اور بعض دیگر حسن ہیں لیکن مجموعی طور پر درجہ تواتر تک پہنچی ہیں انکے صحیح اور متواتر ہونے میں کو شک نہیں ہے ۔اور امام مھدی کا ظہور پر اعتقاد رکھنا واجب ہے اور یہ اہل سنت جماعت کی عقائدی مسائل میں شامل ہے جسکا کوئی انکار نہیں کرتا سوائے سنت رسول (ص) سے جاہل اور عقیدے میں بدعت گزار شخص کے۔
پس معلوم ہوتا ہے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء اور محدثیں نہ صرف ان احادیث کے متواتر ہونے کاقائل ہیں بلکہ پوری امت اسلامیہ کے اس عقیدہ پر متفق ہونے کو کہا ہے ۔
--------------
(1):- گنجی شافعی : البیان : چھاپ پنجم ؛ناشر؛موسسہ نشر اسلامی قم 1415ھ ق اس کتاب کے آخر میں اس فتوے کو مکمل طور پر نقل کیا گیا ہے ۔
سوال نمبر 4: کیا مہدویت پر اسلام کے علاوہ دوسرے دینی اور مادی ادیان اور مکاتب فکر بھی عقیدہ رکھتے ہیں کیا دلیل ہے ؟
جواب : علمی تحقیقات کے مطابق یہ بات ماننا پڑتا ہے مہدویت اور آخری زمانہ میں منجی اور مصلح اعظم کے ظہور کرنے کا انتظار اور موجودہ حالت سے عالم بشریت کو نجات دلانا اسلام اور آسمانی مکاتب فکر کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ غیر آسمانی اور مادی وفلسفی مکاتب فکر بھی اس نظریۃ پر عقیدۃ رکہتے ہیں لیکن ہم انہی؟ن دو گروہوں میں تقسم کرتے ہیں ۔
پہلا گروہ : ان مکاتب فکر کا ہےجو حقیقت میں فلسفی اور مادیّ توجھات کے حامل ہیں اور انھیں علمی اصطلاح میں غیر دینی اور مادی مکاتب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ راسل کہتا ہے : آخری زمانے میں منجی کا انتظار اور اسکا آخری زمانہ میں ظہور کرنا عالم بشریت کو نجات دینا یہ آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی تمام عالم بشریت کو نجات دلانے والے اور عدل وانصاف پھلانے والے کے ظھور کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں:
1: ھندو اور مہدویت پرعقیدہ
1 : ھندوں کی مقدس کتاب اونیشاد :
ھندو مذہب کی مقدس کتاب اونیشاد میں آیا ہے : یہ ویشینو (مظہر دھم ) کا مظہر عصر آہنی میں سفید گوڑے پر سوار ہو کر ننگے شمشیر ہاتھ میں لیے ظہور کریں گے اور تمام ظالموں کو ہلاک کریں گے اور خلقت پھر سےدوبارہ اپنی اصلی حالت میں پلٹا دیں گے اور وہ زمانہ دنیا کا آخری زمانہ ہو گا (1)
--------------
(1):- محمد دادا شکوہ :ترجمہ اوپانیشا : ج 2 ص 637 ۔
2: ھندوں کی کتاب باسک :
اس کتاب میں آیا ہے : دنیا کے آخری زمانہ میں ایک عادل بادشاہ ظہور کرے گا اور وہ تمام انسانوں ؛ ملائکہ اور جنّوں سب کا آقا اور رہنما ہو گا حق اسکے ساتھ ہوگا اور زمین ؛ دریا ؛ پہاڑ سب اپنے اپنے خزانوں کو اُگل دے گا اسے افضل اس روئے زمین پر نہ کوئی گزرا ہے اور نہ کوئی آے گا اور وہ زمین سے آسمان سے غیبی خبر دے گا (1)
ان عبارات میں منجی کی جو خصوصیات۔ مثال کے طور پر۔1: آخری زمانہ میں ظہور کرنا ۔2:ظالموں اور اشرار سے زمیں کو پاک کرنا ۔3: ظلم وجور کی بساط جمع کرکے اسکی جگہ عدل و انصاف کوفروغ دینا ۔4: زمیں وآسمان اپنی مخفی خزانوں کو اُگل دینا ۔ 6:غیب سے خبر دینا 7: زمین کا آباد ہونا ۔اسی طرح اور بعض دیگر خصوصیات بھی مثلا ً ۔ ناموس آخرالزمان (یعنی پیغمبر اعظم (ص) ) کا بیٹا ہونا ۔ رہنما ؛ استوا (قائم ) جسکے القاب میں سے ہونا ۔ پیشن (علی ابن ابی طالب ؑ )کے اولاد میں سے ہونا(2)۔ وارد ہوئی ہیں یہ وہی خصوصیات اور صفات ہیں جو امام مھدی ؑ کے بارے میں ہماری دینی نصوص میں آئی ہیں ۔
2: زرادشت اور مہدویت پر عقیدہ
مکتب زرادشت کی دینی کتابوں میں مہدویت کے بارے میں بہت ساری گفتگو ہوئی ہے اور مختلف مقامات پر منجی عالم کے ظہور کرنے کی بشارت دی ہے یہاں تک انکے بعض کتابوں میں پیغمبر اعظم(ص) کی خاتم نبی ہونے اور انکے فرزند امام مہدی کے ہاتھوں انکے لائے ہوے دین کا پورے ادیان پر غالب آنے اور مؤمنین کے ایک گروہ کا آخری زمانہ میں رجعت کرنے کی خبر دی ہے۔
--------------
(1):- بشارات عھدین ص 246 اور لمعات النوار فی کیفیۃ الظہور: ج 1 ص 19 ۔ .3.
(2):- کرمانی : علائم الظہورص 17 ۔ 20۔
جاما سب اپنی کتاب (جاماسب نامہ )میں لکھتا ہے عربی پیغمبر ؐجو کہ آخری پیغمبر ہونگے مکہ کے سنگلاخ خوشک چٹانوں کے درمیان مبعوث ہونگے سادگی کی یہ حالت ہوگی وہ شتر سوار ہونگے جس طرح اسکی قوم شترسواری کے لیے استفادہ کرتی ہے ؛اپنے غلاموں کے ساتھ ملکر ایک دستخوان پر کھانا تناول کریں گے کبھی غلاموں کو سواری کے طور پر استفادہ نہیں کریں گے ۔پیچھے اسی طرح دیکھ سکھیں گے جس طرح آگے کو دیکھ سکھتے ہیں انکا لایا ہوا دین پورے ادیان کی نسبت بہترین اور کامل ترین دین ہوگا اور کتاب دوسرے تمام کتابوں کو منسوخ کرگی اسکی حکومت حکومت عجم کو نابوت کرئے گی اور دین مجوس کو ختم ؛ آتشکدوں کو خاموش اور خراب کریں گے اس پیغمبر کی بیٹی خورشید عالم اور سیدہ نساء انکا نام ہوگا جسکا فرزند اس پیغمبر کا آخری جانشین مکہ میں قیام کرے گا اور پوری دنیا پر قیامت تک حکومت کرے گا ۔۔۔اور وہ وقت دنیا کا آخری زمانہ ہو گا ۔(1)
اسی طرح بعض مادی اور الحادی افکار کے حامل افراد نے بھی اس عقیدے کا ایک عالمی نظریہ ہو نےاور اسلام کے ساتھ مختص نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے :
جیسا کہ راسل کہتا ہے : آخری زمانے میں منجی کا انتظار اور اسکا آخری زمانہ میں ظہور کرنا عالم بشریت کو نجات دینا یہ آسمانی ادیان سے مخصوص نہیں ہے بلکہ غیر دینی اور مادی مکاتب فکر بھی تمام عالم بشریت کو نجات دلانے والے اور عدل وانصاف پھلانے والے کے ظھور کے انتظار میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
دوسرا گروہ : ان مکاتب فکر کا ہے جنہیں عام اصطلاح میں آسمانی ادیان سے تعبیر کیا جاتا ہے مثال کےطور پر:
--------------
(1):- لمارت الانوار : ج 1 ؛ ص 23۔۔25 ۔
1:عہد عتیق اور عقیدہ مہدویت
کتاب مقدس عھد عتیق (توریت ) میں بہت ساری نصوص اسیے ہیں جو عقیدۃ مہدویت پر پوری طرح روشنی ڈالتی ہیں اور آخری زمانہ میں مسیحا یا منجی بشریت کی آمد اور اس کائنات کو عدل و انصاف سے بھر دینے اور بشریت کو ظلم وجور سے نجات دینے کی بشارت دی ہے (1)چناچہ تورات میں ہم مطالعہ کرتے ہیں :اشرار اور ظالمون کے وجود سے کبھی نا امید نہ ہو اس لیۓ کہ ظالموں کی نسل زمین سے مٹادی جاۓگا،اور عدل الہی کا انتظار کرنے والے زمین کا وارث بنین گۓ جو افراد جن پر خدا نے لعنت کی ہے ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گا اور صالح افراد وہ ہونگے جو زمیں کے وارث بن چکے ہونگۓ اور تاریخ کے اختتام تک زمین پر زندگی بسر کریں گے (2)اسی طرح اشعیا نے ایک آرام اور تسلی بخش مسیحا کی قوم یہود کے درمیان اس کی پیشنگوئیوں میں سے ایک کی تصور کشی کی گئی ہے وہ ایک آرزومندانہ اور عادلانہ حکومت کو پھیلا دے گا اور زمانہ میں کائنات معرفت الہی سے پر ہو جائے گی جیسے پانی دریا کو ڈھانپ لیتا ہے "(3) اسی لیے امریکا کا مسیحی شہرت یافہ مؤلف اپنی کتاب قاموس المقدس میں یہودیوں کی مہدویت پر عقیدے کے متعلق یوںلکھتا ہے : یھودی نسل در نسل عہد قدیم تورات - کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی پر مشقت طویل تاریخ میں ہر قسم کی ذلتوں؛ اذیتوں؛ رسوایوں اورشکنجوں کو صرف اس اُمید کے ساتھ تحمل کیا کہ ایک دن مسیحا منجی یہودیت ۔ آینگے اور انہیں ذلت وخورای و رنج و مصیبت کے گرداب سے نجات دلائیں گے ، اور انھیں پورے کائنات کا حاکم بنایں گے (4)لیکن اس انتظار سوزان کے بعد جب جناب مسیح اس دنیا میں آۓ تو انھون نے ان میں کچھ وہ صفتیں نہیں پایے جنکے مسیحا میں ہونا ضروری سمجھتے تھے چنانچہ انھوں انکی مخالفت شروع کی یہان تک انکو سولی پر چڑایا اور قتل کیا۔
--------------
(1):- اسد اللہ ہاشمی : ظہور مہدی از نگاہ اسلام ومذاہب وملل جھان : ص 413 ۔415 ؛چھاپ اول ؛ ناشر؛ مسجد جمکران؛ 1380 ہ ش ۔
(2):- کتاب مقدس: سفر مزامیر داود، نمبر ۳۷
(3):- اشعیا ؛ 11 : 10 صفنیاء ؛ 3 ؛ 9 ۔
(4):- قاموس مقدس : مسٹر ہاکس ، ص۸۰۶
2:عہد جدید اور عقیدہ مہدویت
انجیل یوحنا میں حضرت عیسیؑ مسیح کا قول نقل ہوا ہے ”اور عنقریب جنگون اور اسکی افواہون کو سنیں تو کبھی ایسا نہ ہو کہ اسکی وجہ سے بے صبری کا اظہار کریں،اس لیے کہ اسکے علاوہ کو اور چارہ نہیں ہے، لیکن وہ دن وقت تاریخ کا اختتامی زمانہ نہیں ہے (1)
اسی طرح یوحنّا اپنے مکاشفہ بیان کرتے ہوے کہتا ہے : اچانک آسمان کے دروازے کھولے گے ایک سفید گھوڑے کو دیکھا جسکے سواری کا نام امین اور حق تھا وہ عدل کے ساتھ قضاوت اور جنگ کرے گا اور سورج کے دروازے پر ایک فرشتے کو دیکھا جو تمام مرغابیوں کو بلا رہا تھا آجاو پروردگار عالم کے اس عظیم مہمانی میں شرکت کرو تاکہ بادشاہوں ؛ ظالموں اور انکے فوجی کمانڈروں کے گوشت کھایا جائے ۔ (2)
لیکن انجیل کے مفسریں ان آیات کے متعلق لکھتے ہیں : جس شخص کے بارے میں یہ خبر دی گئی ہے وہ ابھی وجود میں نہیں آیا ہے بلکہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اکثر خصویات اس مسیحا کے عہدین میں ذکر ہوئی ہیں وہ حضرت مسیح پر صدیق نہیں آتی بلکہ امام مہدی پر صدق آتی ہے چنانچہ اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے قاموس المقدس کا مؤلف کہتا ہے :انجیل میں منجی عالم بشریت کو فرزند انسان کے نام سے ۸۰ جگہون پر پکارا ہے ان میں سے صفر ۳۰ مورد حضرت مسیح پر صدق آتا ہے باقی ۵۰ مورد ان پر صدق نہیں آتا بلکہ یہاں ایک ایسے مصلح اور منجی جہانی کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے جو آخری زمانہ میں ظھور کریں گے-(3)
--------------
(1):- کتاب مقدس :یوحنا اصحاح ۲۴ نمبر ۶
(2):- کتاب مقدس :یوحنا اصحاح ۲۴ بابب نمبر 19 ؛11 ۔
(3):- قاموس مقدس :ص ۲۱۹ :وہ آجاے گا ،والی کتاب سے نقل کیا ہے ،ص ۳۳
سوال نمبر 5: کیا اہل سنت علماء میں سے کوئی امام مہدی کے امام حسن العسکری ؑ کے بیٹا ہونے اور انکی ولادت کے قائل ہیں ؟
جواب : اگر چہ اہل سنت کے اکثر علما ء کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدی سلالہ پاک نبی اعظم (ص) فرزند فاطمہؑ اور امام حسین کے نسل سے ہونگے اور آخری زمانہ میں پیدا ہونگے لیکن ان میں سے بعض علماء جن میں بڑے بڑے محققیں ؛ مورخیں اور حفاظ بھی شامل ہیں انھوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے اور صریح الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ امام مہدی ؑ وہی شخص ہیں جو 255 ہجری قمری کو امام حسن العسکری کے بیت السرا میں دنیا میں آے ہیں جسکے بارے میں شیعہ انکے بارہویں امام ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں یہ اسلیے کہ امام مھدی کے متعلق مجموعہ احادیث جسے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء نے نقل کیا سوائے اس شخص کے کسی اور پر صدق نہیں آتی ہیں انھی علماء اور مؤرخین میں سے بعض کا قول مختصر انداز میں ہم یہاں نقل کرتے ہیں ۔
1: ابن ابی ثلج بغدادی متوفی 326 ہجری ۔
ابن ابی ثلج بغدادی امام عصر کے نوّاب خاصّہ کے ہم عصر ابوالحسن دار القطنی کے استاد؛ امام حسن العسکری کے اولاد کا تذکرہ کرتے ہوے لکھتا ہے : ۔۔۔ جب محمد بن حسن الحجہ ؑ ( امام مھدی ؑ ) دنیا میں آے تو امام حسن العسکری نے اپنی گفتگو کے ضمن میں فرما یا : ظالم دشمنوں نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا تاکہ اس نومولود کا خاتمہ ہو جاے لیکن انھوں نے قدردت خدا کو دیکھ لیا اور اسکا نام مومّل رکھا ۔۔۔۔ اورامام حسن العسکری ؑ کی بہن حکیمہ خاتون وہ شخص ہے جس نے حضرت حجت کی ولات کا واقعہ نقل کیا ہے(1)
--------------
(1):- موالید الائمہ : ص 9 ۔ 10 ۔
2: علی ابن حسین مسعودی ؛ متوفی 346 ہجری۔
جناب مسعودی اپنی مشہور تاریخی کتاب مروج الذھب میں لکھتا ہے :ابو محمد حسن ؑ بن علی ؑ ۔۔۔۔۔۔بن حسین ؑ بن علی ؑ بن ابی طالب نے 29 سالہ عمر میں سنہ 260 ہجری کو وفات پائی اور آپ شیعوں کا بارورہوین امام ؛ حضرت مہدی کا والد گرامی تھے (1)
اسی طرح اپنی زندگی کی آخری کتاب ( التنبیہ والاشراف ) میں لکھتا ہے :شیعوں کا باروین اما جسکے ظہور کے انتظار میں ہیں وہ محمد بن حسن العسکری ۔۔۔۔۔ ابن علی ابن ابی طالب ہیں ۔ (2)
3: احمد بن حسین بیھقی شافعی متوفی 458 ہجری ۔
جناب بیھقی اپنی کتاب( شعب الایمان )میں لکھتا ہے :لوگ امام مہدی کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں ؛ ایک گروہ اس بارے میں تردد کا شکار ہے اور اسکا علم خدا پر چھوڑتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ مھدی پیغمبر خدا کی اکلوتی بیٹی حضرت زہرا کی نسل سے ہیں اور پرودگار عالم اپنے دین کی نصرت کے لیے اسے پیدا کرے گا اور وہ قیام کریں گے ۔
جبکہ دوسرا گروہ کا کہنا ہے مہدی موعود 255 ہجری 15 شعبان معظم کو جمعہ کے دن دنیا میں آے ہیں اور وہی امام حجت ؛ قائم ؛منتظر محمد بن الحسن العسکری ؑ ہیں شہر سامرا میں غائب ہوے ہیں آیند ظہور کریں گے اور جھان کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دیں گے جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔۔۔ انکے طول عمر کے متعلق بھی کوئی عقلی مانع موجود نہیں ہے جس طرح حضرت عیسی اور خضر دونتوں زندہ ہیں اور یہ شیعہ امامیہ اور اہل کشف والوں کا عقیدہ ہے (3)
--------------
(1):- مسعودی : مروج الذہب :ج 4 ص 112۔
(2):- مسعودی: التنبیہ والاشراف : ص 198 ۔ ۔ 199 ۔
(3):- المہدی المنتظر :ج 1 ص 182 اور کشف الاستار : ص 98 ۔
4: فخر الدین رازی متوفی 606 ہجری ۔
علامہ فخر رازیاپنی کتاب (الفرق ) میں شیعہ مختلف فرقوں کا تذکرہ کرتے ہوے لکھتا ہے : تیرویں قسم منتظریں کی ہے جو کہتے ہیں امامت امام حسن العسکری کے بعد انکے فرزند کی ہے جو ابھی غیبت میں ہیں اور ایک دن ظہور کریں گے ہمارے زمانے میں شیعہ امامیہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں(1)
5 : محی الدین عربی متوفی 638 ہجری ۔
عالم اسلام کے مشہور عارف محی الدین عربی امام مہدی ؑ بارے میں لکھتا ہے : مھدی ؑ رسول اکرم (ص) کی عترت فاطمہ کے نسل سے ہیں انکا جد امام حسین ؑ اور والد گرامی امام حسن العسکری ؑ بن امام علی نقی ۔۔۔۔۔۔۔۔امام علی ؑ بن ابی طالب ہیں (2)
6: شیخ عبد الرحمن صوفی ۔
شیخ عبد الرحمن صوفی ؛ صوفی مسلک کے مشہور شیوخ میں ہیں امام مہدی کے بارے میں اپنی کتب (مرآت الاسرار ) میں لکھتا ہے : وہ دین ودولت کے آفتاب وہ تمام امتوں اور حکومتوں کو راہ دیکھانے والا وہ قائم مقام پاک احمدی وہ امام برحق ابولاقاسم محمد بن حسن اہلبیت عصمت کے امامت کی بارویں کڑی 255 ہجری 15 شعبان جمعہ کی رات کو سِر من ری کے مقام پر دنیا میں آے جب انکے والد مکرم امام حسن العسکری اس دنیا سے رخصت ہوے اس وقت انکی عمر 5 سال کی تھی ۔۔۔حشرت محی الدین عربی نے (فتوحات) میں ؛مولانا عبد الرحمان جامی نے (شواہد النبوّہ ) میں ؛سعد الدین حموی نے اپنی کتاب میں انکے حالات ؛کمالات ؛ غیبت اور ولادت کے بارے میں مفصل بحث کی ہے(3)
--------------
(1):- فخر الدین رازی : الفرق ص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(2):- عبد الرحمن صوفی: کشف الاستار: ص 49 ۔۔۔50 ۔
(3): عبد الرحمن صوفی: کشف الاستار :ص 49 ۔ ااورالمہدی الموعود المنتظر :ج 1 ص 205 ۔
7: کمال الدین محمد بن طلحہ شافعی متوفی 650 ہجری ۔
اہل سنت کے مشہور عالم اور نامور فقیہ اپنی کتاب (مطالب السؤول) میں امام حجتؑ کے بارے میں لکھتا ہے : ابو محمد حسن عسکری 231 ہجری میں دنیا میں آے انکی سب سے بڑی منقبت اور خصوصیت جسے پرودگار عالم نےانکے ساتھ مختص کیا وہ یہ تھی کہ امام مہدی ؑ انکے نسل سے اور انکے فرزند ہیں (1)
8: حافظ محمد بن یوسف گنجی شافعی متوفی 658 ہجری ۔
جناب گنجی شافعی اپنی کتاب (کفایہ الطالب )میں لکھتا ہے : ابو محمد حسن العسکری ؑ سامراء کے مقام پر اپنے گھر کے اندر مدفون ہوے انکا ایک بیٹا تھا وہ امام منتظر ہیں ہم اپنی اس کتاب کا اختتام انکے نام پرکریں گے اور انکے متعلق بحث کریں گے(2)
9: شمس الدین محمد ذہبی متوفی 748 ہجری ۔
ذہبی اپنی کتاب(دول الاسلام ) میں لکھتا ہے : حسن بن علی بن ---اثنا عشریہ کے اماموں میں ایک ہیں 260 ہجری میں وفات پائی اور آپ منتظر محمد بن حسن کے والد ہیں ۔(3) اسی طرح تاریخ الاسلام میں لکھتا ہے : محمد بن حسن العسکری ابو القاسم علوی حسینی شیعوں کا آخری امام ہیں اور انکا عقیدہ ہے آپ امام مہدی اور احبالزمان ہیں(4)اسی طرح دوسرے بہت سارے علماء جیسے : قاض جواد ساباطی حنفی متوفی 1250 ہجری(5): شمس الدین بن طولوں دمشقی متوفی 953 ہجری(6): شیخ عبد اللہ شبراوی شافعی متوفی 1172 (7): شبلنجی مصری (8) : قندوزی (9)اور بھی بہت سارے اہل سنت علما ء نے امام مہدی ؑ کی ولادت کا اعتراف اور فرزند امام حسن عسکری ہونے کا تصدیق کیا ہے ۔
---------------
(1):- ابن طلحہ شافعی: مطالب الؤول فی مناقب آل رسول: ص 309 311 (2):- گنجی شافعی: کفایۃ الطالب: ص 458 (3):- ذہبی: تاریخ الاسلام: ج 19 ص 113 حوادثنمبر 51-60 ہجری (4):- ذہبی: تاریخ الاسلام: ج 19 ص 113 حوادثنمبر 51 60 ہجری ۔ (5):- عبد الرحمن صوفی:کشف الاستار: ص 49 ۔50(6) ابن طولوں دمشقی:الائمہ الاثنی عشر ص 117 (7):- شبراوی:الاتحاف بحب الاشراف ص 179 (8):-شبلنجی: نور الابصار:ص 185 چھاپ دار الفکر 1399 ہ ق (9):- قندوزی:ینابیع المودۃ:ج 3 ص 206
سوال نمبر 6 :کیا قرآن کریم میں مھدویت اور امام مھدی ؑ کے متعلق کوئی صریح گفتگو ہوئی ؟
جواب : قرآن کریم ہر دور اور ہر نسل کے لئے پیغمبر اکرم (ص)کا تا ابد زندہ معجزہ ہے جس میں انسانیت؛ اسلام اور مسلمانوں کی زندگی اور متقبل کے متعلق گفتگو ہوئی ہے چنانچہ امام مہدی کا نام گرامی کسی مصلحت کی بنا پر صریح الفاظ کے ساتھ قرآن کریم میں نہیں آیا ہے لیکن انکی ؛ انکے یاران کی صفات اور انکی آفاقی حکومت کی خصوصیات قرآن کریم میں وارد ہوئی ہے جس کی معرفت کے بعد ایک بیدار اور آگاہ شخص حقیقی مہدی ؑ اور جھوٹے مہدویت کے دعوا کرنے والوں میں تشخیص دے سکتا ہے مزید یہ کہ علماء اسلام اور مفسریں کرام نے احادیث اور ارشادات اہل بیت اطہار ؑ کی روشنی میں سو{ 1000 }سے اُپر قرانی آیات کو نظریہ مہدویت اور امام مھدی ؑ کے متعلق جانتے ہیں اور مجموعی طور پر ان آیات کی تفسیر اور تاویل میں 5000 سو سے اوپر احادیث رسول اکرم(ص) اور ائمہ طاہریں سے نقل کی ہے تاہم یہاں چند قرآنی آیات کے ساتھ بعض روایات نقل کرتے ہیں ۔
1 : وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ (1)اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔امام مخمد باقر سے روایت ہے کہ اس آیت میں بندگاں صالح سے مراد حضرت امام مہدی اور انکے یاران ہیں (2)
--------------
(1):- انبیاء : 105 ۔
(2):- قندوذی: ینابیع المودۃ :ص 425 ۔ اور طبرسی : مجمع البیان : ج 7 ص 66 ۔
2: وَ نُریدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَ نَجْعَلَهُمُ الْوارِثینَ & (1)
اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں۔امیر المؤمنین فرماتے ہیں : جو لوگ زمین پر مظلوم واقع ہوے ہیں وہ خاندان پیغمبر ہیں سختیاں جھلنے کے بعد پروردگار عالم انکے مہدیؑ کو مبعوث کرے گا تاکہ انھیں عزت اور انکے دشمنوں کو ذلیل وخوار کیا جائے ۔(2)اسی علامہ قندوزی کسی روایت کے ضمن نقل کرتا ہے : ابو محمد حسی العسکری اپنے بیٹے مہدی کی ولادت کے ساتویں دین اسے کہا اے میرے چھوٹا بیٹا بولنا شروع کرو اس وقت امام مہدی نے شھادتیں کوزبان پر جاری کیا اور اپنے آبا واجداد پر ایک کر کے درود بیجھا پھر اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ونرید ان نمنّ --- (3)
3 : هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی وَ دِینِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون *(4) وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہو ۔ عبایہ ربعی روایت کرتا ہے امیرالمؤمنین نے اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا : خدا کی قسم مھدی ؑ کے ظہور کے بعد زمین کا کوئی تکڑا ایسا نہیں رہے گا مگر جہاں سے صبح وشام کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا بلند نہ ہو ۔ اسی طرح ابن عباس اسی آیت کی تفسیر میں کہتا ہے اس دن کوئی یہود ؛ نصاری اور دیگر ادیان کے مانے والے باقی نہیں رہے گا مگر یہ کہ دین حنیف اسلام سے مشرف ہوگا
--------------
(1):- قصص: 5 ۔
(2):- طوسی: الغیبہ :ص 113 ۔اور قندوزی : ینابیع المودۃ : ص 496 ۔
(3):- قندوزی : ینابیع المودۃ: ص 302 ؛ باب نمبر 79 ۔
(4):- توبہ: 33 ۔
یہاں تک بھیڑ ؛ بھیڑیا ؛شیر ؛ انسان ۔۔۔سب امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کریں گے اور یہ ہے اس آیہ شریفہ کی تفسیر اور یہ اس وقت کی بات ہے جب قائم آل محمد(ص) قیام کریں گے۔ (1) یہ آیہ مبارکہ قرآن مجید میں تین جگوں پر آئی ہے اور سورہ فتح کی آیت نمبر 28 کی ذیل میں حافظ ابو عبد اللہ گنجی اور علامہ شبلنجی دونوں نے سعید بن جبیر سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا اس آیت سے مھدی موعود ؑ ؛ فرزند فاطمہؑ مراد ہیں (2)
4: وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كاَنَ زَهُوقًا* اور کہہ دیجئے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا، باطل کو تو یقینا مٹنا ہی تھا۔ امام محمد باقر فرماتے ہیں جب امام زمان ؑ ظہور کریں گے تو تمام باطل حکومتیں مٹ جائے گی (3) اس آیہ مبارکہ میں دو نکتے کی طرف توجہ بہت ہی ضروری ہے : ایک یہ کہ اس آیت پروردگار عالم نے تمام باطل کے مٹ جانے کا وعدہ دیا ہے جبکہ تاریخ گواہ ہے یہ وعدہ ابھی تک تحقق نہیں پایا ۔ دوسری یہ کہ امام مہدی کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے جب آپ ظہور کریں گے تو تمام باطل حکومتیں مٹ جائے گی اور یہ خود امام غائب کے وجودپر بہتریں دلیل ہے ۔
5: الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِیمُونَ الصَّلَوةَ وَ ممَِّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُون *(4) جو لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔آٹھویں ہجری کے مشہہور سنی عالم اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتا ہے : المراد بالغیب المهدی المنتظر الذی وعد اللّه فی القرآن. وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْأَرْضِ [النور: 55]
---------------
(1):- مجلسی : بحار الانوار : ج51 ص 61 ۔
(2):- گنجی شافعی : البیان : باب نمبر 25 اور شبلنجی : نور الابصار ص 186۔
(3):- کلینی: کافی : ج 8 ص 287 اذا قام القائم ۔
(4):- بقرۃ :3 ۔
و ورد فی الخبر «لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّه ذلك الیوم حتی یخرج رجل من أمتی یواطیء اسمه اسمی و كنیته كنیتی یملأ الأرض قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما»(1) غیب سے مراد امام مہدی منتظر ہیں جس کے بارے میں پروردگار عالم نے سورہ نور کی 55 آیت میں قطعی وعدہ دیا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) سے بھی روایت ہے اگر دنیا کی عمر سے ایک دن بھی باقی رہ جاے تو پروردگار عالم اس دن کو اتنا طول دے گا یہاں تک میری امت سے ایک شخص ظہور کرے گا جسکا نام میرے نام جسکی کنیت میری کنیت پر ہو گی اور وہ زمیں کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔ (2)
اسی طرح پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں : الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِسے مراد وہ افراد ہیں جو امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرتے ہیں : قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.(3) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں....- یہ بعض قرآنی آیات اور احادیث اہل بیت اطہارؑ جس میں نظریہ مہدویت اور امام مہدی کے متعلق اصولی اور کلی گفتگو ہوئی ہے ۔
--------------
(1):- اس حدیث کو ؛ ابو داود نے اپنی کتاب المہدی باب 1 میں . ابن ماجہ :نے اپنی کتاب الفتن باب 34 میں ؛اور امام احمد نے مسندہ؛ 1 / 99؛ 3/ 28 میں۔نقل کیا ہے ۔
(2):- نیشابوری نظام الدین حسن بن محمد: غرائب القرآن و رغائب الفرقان: ج1، ص: 144 ؛ ناشر؛ دار الکتب العلمیہ؛ چھاپ: 1416 ق: بیروت
(3):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳
سوال نمبر 7 : امام مہدی ؑ کا پیغمبر اکرم(ص) کے وصی اور خلیفہ ہونے پر کیا دلیل ہے ؟
جواب : امام مہدی کے اس وصی پیغمبر اعظم(ص) اور اس روئے زمین پر خلیفۃ اللہ ہونا تقریباَ مسلمات اسلام میں سے شمار ہوتا ہے اور جو شخص مہدویت اور امام مہدی پر عقیدہ رکھتے ہیں انکے امام اور پیغمبر اکرم(ص) کی عترت طاہرہ ہے وصی ہونے پر عقیدہ رکھتا ہے اور اس بارے میں پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومیںؑ سے سینکڑوں احادیث فریقین کی قابل اعتماد حدیثی اور دیگر کتابوں میں نقل ہوئی ہیں ؛ ہم یہاں اختصار کی بنا پر دو تین حدیث نقل کرتے ہیں ۔
حدیث نمبر 1 :
امیر المؤمنین علی اور عبد اللہ ابن مسعوددونوں سے مشہور روایت ہے جس میں آنحضرت (ص) فرماتے ہیں :لو لم یبق من الدنیا إلا یوم واحد لطول اللّه ذلك الیوم حتی یخرج رجل من أمتی یواطیء اسمه اسمی و كنیته كنیتی یملأ الأرض قسطا و عدلا كما ملئت جورا و ظلما (1) اگر دنیا کی عمر سے ایک دن بھی باقی رہ جائے تو پروردگار عالم اس دن کو اتنا طول دے گا یہاں تک میری امت سے ایک شخص ظہور کرے گا جسکا نام میرے نام ؛ جسکی کنیت میری کنیت پر ہو گی اور وہ زمیں کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم وجور سے بھر چکا ہو گا ۔
حدیث نمبر 2 :
کسی اور حدیث میں آپ فرماتے ہیں ۔مہدی موعود میری عترت اور فاطمہ کے اولاد سے ہونگے (2)
--------------
(1):- ابوداوود: سنن :ج 2 ص 207 اور ترمذی : سنن :ج 4 ص 505 باب نمبر 52 اور حموی جوینی : فوائد السمطین :ج 2 ص 325 اور اسی طرح ابو داود نے اپنی کتاب المہدی باب 1 میں . ابن ماجہ :نے الفتن باب 34 میں ؛اور امام احمد نے مسندہ؛ 1 / 99؛ 3/ 28 میں۔ اورنیشابوری نے غرائب القرآن ج1، ص: 144 میں اور جناب شیخ صدوق نے کمال الدین ص 287 میں نقل کیا ہے ۔
(2):- ابن صبّاغ مالکی :فصول المھمہ ص 294 ۔
عصر غیبت
سوال نمبر8: غیبت امام عصر کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہاں سے شروع ہوئی ؟
جواب : غیبت مادہ غاب سے ہے حس کا معنی (نگاہوں سے مخفی ہونا ہے ) نہ کہ حاضر نہ ہونا جیساکہ عام طور پر لفظ غیبت کے سننے سے اسی غلط معنی کا تصور ذہن میں أتا ہے لہذا امام غائب کے متعلق گفتگو اس امام حاضر کے متعلق ہوگی جو لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں لوگوں کی نظر وں سے مخفی ہیں یعنی لوگ عام حالت میں انہیں نہیں دیکھ پاتے جبکہ أپ لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں اور ان ہی کے درمیاں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ چنانچہ امیر المؤمنین علی _ امام زمانہ کی حالت غیبت کی طرف اشارةکرتے ہوے فرماتے ہیں : صَاحِبَ هَذَا الْأَمْرِ يَتَرَدَّدُ بَيْنَهُمْ وَ يَمْشِی فِی أَسْوَاقِهِمْ وَ يَطَأُ فُرُشَهُم …. وَ لَا يَعْرِفُونَهُ حَتَّی يَأْذَنَ اللَّهُ لَهُ أَنْ يُعَرِّفَهُمْ نَفْسَهُ (1)قسم ہے خداوند عالم کی حجت خدا لوگوں کے درمیاں ہوتی ہے راستوں میں گلیوں میں چلتی پھر تی ہیں لوگوں کے گھروں میں آتی جاتی ہے ؛زمین پر مشرق سے مغرب کو آمد ورفت کرتی ہے لوگوں کی باتوں کوسنتی ہے اور ان پر سلام بھجتی ہے وہ دیکھتی ہے لیکن انکو دیکھا نہیں جاسکتا ایک معیّن وقت تک کہ جب خدا کا وعدہ پورا نہیں ہو جاتا ـ
اسی لیے معصومیں نے انکی وجود مقدس کو اس سورج سے تشبیہ دی ہے جو بادل کے پیچھے چپھے ہو ے ہے یہ غیبت کا ایک معنی ہے جوبعض رواریات میں آئی ہے لیکن بعض دیگر روایات میں امام زمانہ کی غیبت کا ایک اور معنی بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ أپ لوگوں کے درمیاں زندگی بسر کرتے ہیں اور لوگوں کو دیکھائی دیتے ہیں لیکن أپ کو پہچانتے نہیں ہیں یعنی أپ غائب نہیں ہیں بلکہ نقص لوگوں میں ہے ان میں یہ قابلیت نہیں کہ وہ انھیں دیدار کریں
--------------
(1):- الغیبہ ج3 /ص 164 : کمال الدین /ج2/ باب 33 /ح 46/ ص 28
امام صادق فرماتے ہیں : وَ أَمَّا سُنَّةُ يُوسُفَ فَإِنَّ إِخْوَتَهُ كَانُوا يُبَايِعُونَهُ وَ يُخَاطِبُونَهُ وَ لَا يَعْرِفُونَه:اس صاحب امر میں انبیاء کی سنن پائی جاتی ہیں ۔۔۔حضرت یوسف کی سنت ان میں مخفی ہونا ہے اللہ تعالی انکے اور لوگوں کے درمیان ایک حجاب قرار دے گا کہ لوگ ان کو دیکھیں گے لیکن پہچانیں گے نہیں ـ اسی طرح امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشرف کا حالت غیبت میں زندگی گزارنا ایک ایسا واقعہ نہیں ہے جو پہلی بار صرف امام مہدی کے لیے واقع ہوا ہو بلکہ قرأن کریم اور روایات میں ایسے موارد بیاں ہوے ہیں جہاں معجزانہ انداز میں لوگ ایک قابل دید مخلوق کو مشاہدة نہ کر سکتے چنانچہ سورہ یس میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے : *وَ جَعَلْنَا مِن بَینِْ أَيْدِیهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُون(1)* اورہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کی ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کی ہے اور ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ دیکھ نہیں پاتے : اسی أیت کے ذیل میں عبداللہ بن مسعود نقل کرتا ہے قریش والے أنحضرت (ص) کے گھر کے دروازے پر جمع ہوےآپ گھر سے باہر تشریف لے أئیں اور انکے سروں پر خاک پھر دیے لیکن وہ لوگ أپکو نہیں دیکھ پاے (2) بلکہ بہت سی روایات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ ایک سنت الہی ہے جو متعدد انبیاء کی زندگی میں واقع ہوئی ہے اور بہت سے انبیا کی زندگی کا حصہ مخفی اور غیبت میں بسر ہوا ہے جیسے حضرت ادریس ؛ نوح ؛ صالح ؛ ابراہیم ؛ یوسف ؛ موسی؛ شعیب ؛ الیاس ؛ سلیمان؛ دنیال ؛ عیسی ؛ وغیرہ (3) اور یہ چیز خداوند عالم کی مصلحت اور حکمت کی بنا پر ہوتی ہے ـ
--------------
(1):- یس 79
(2):- مجمع البیان ج8 ص 16 4
(3):- رجوع کریں علی اصغر رضوانی : امامت اورغیبت مترجم فروز حیدر ص /186 طبع 2008 بحار الانوار (ط - بیروت) ؛ ج52 ؛
اسی وجہ سے امام مہدی کی غیبت کی روایتوں میں غیبت کو انبیاء کی سنت کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور امام مہدی کی زندگی میں انبیاء کی سنت کا جاری ہونا غیبت کی دلیلوں میں شمار کیا گیا ہے ۔ چنانچہ امام صادق فرماتے ہیں : قَالَ إِنَّ لِلْقَائِمِ ع مِنَّا غَيْبَةً يَطُولُ أَمَدُهَا فَقُلْتُ لَهُ وَ لِمَ ذَاكَ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَبَی إِلَّا أَنْ يُجْرِيَ فِیهِ سُنَنَ الْأَنْبِيَاءِ ع فِی غَيْبَاتِهِمْ (1) بے شک ہمارے قائم امام مہدی غیبت اختیار کریں گے جس کی مدت طولانی ہوگی راوی کہتا ہے اے فرزندے رسول (ص) اس غیبت کی وجہ کیا ہے ؟ امام نے فرمایا خداوند عالم کا ارادہ یہ ہے کہ انبیاء کی غیبت کی سنت أپ میں ظاہر ہو ۔
سوال نمبر 9 : فلسفہ غیبت کیا ہے ؟
جواب : اس سوال کے جواب دینے سے پہلے اس حقیقت کی طرف متوجہ رہنا انتہائی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح امیر المؤمنین فرماتے ہیں:مَا أَعْظَمَ اللَّهُمَّ مَا نَرَی مِنْ خَلْقِكَ وَ مَا أَصْغَرَ عَظِیمَهُ فِی جَنْبِ مَا غَابَ عَنَّا مِنْ قُدْرَتِكَ(2)پاک وپاکیزہ ہے تو ؛تیری وہ مخلوق کتنی عظیم ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور اس کی عظمت کتنی چھوٹی ہے تیری اس قدرت کے مقابلے میں جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے ۔ لہذا کسی کی مجال کی بات نہیں کہ وہ اس عظیم کائنات کی کسی بھی مخلوق کی خلقت کا رازمعلوم نہ ہونے پر اسکے وجو د کے بارے میں اعتراض شروع کردے یا اس کے وجود سے انکار کردے مثال کے طور پر آج کے ترقی یافتہ دور میں کڑوڑں کی تعداد میں کہکشانیں کشف ہوئے ہیں تو کیا حق بنتا ہے کہ مزید اور کہکشانوں کا اس فضامیں موجود ہونے سے انکار کرے ؟
ہرگز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے سے قریب تریں چیزوں کی حقیقت کو جانے سے قاصر ہے کیونکہ اسکی روح سے زیادہ کوئی اور چیزاسکے نفسانی غرائض اسکی فطری امور جیسے عشق ؛ذوق ؛ لذت ؛ محبت ۔۔۔۔ان تمام فطری امور کی حقیقت ہمارے سامنے مجھول ہیں لیکن ہم کبھی بھی ان چیزوں کو انکار نہیں کرسکتے ہیں ۔
-------------
(1):- بحار /ج52 /ص 90
(2):- عیون الحکم و المواعظ (للیثی) / 483 / الفصل الثالث \ص : 475
اس تمہیدی گفتگو کے بعد یہ عرض کرتا ہوں کہ ایک طرف غیبت امام عصر اسلامی نقطہ نگاہ سے مسلمات اسلام میں سے شمار ہوتا ہے اور اہل بیت اطہار نےوقتاَ فوقتاَ ہر دور میں اس خدائی حتمی فیصلے کی خبر دے چکے ہیں ،تو دوسری طرف جب ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کائنات کے چھوٹے سے چھوٹا ذرات سے لے کر بڑے سے بڑا کام حکمت اور مصلحت کے بغیر انجام نہیں پاتا چاہیے ہم ان مصلحتوں کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں نیز کائنات کا ہر چہوٹے سے چھوٹا واقعہ خداوند عالم کی تدبیر اور اسی کی ارادہ سے انجام پاتا ہے جن میں سے اہم تریں واقعہ امام مھدی کی غیبت کا واقعہ ہے لھذا آپکی غیبت کا مئلہ بھی حکمت اور مصلحت کے مطابق واقع ہوئی ہے اگر چہ ہم اسکے فلسفہ اور راز سے أشنا نہ بھی ہو اور اگر ہم اس حادثے کی حکمت اور راز سے أشنا نہ ہونے پایے تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس حتمی واقعے کے جو کہ قطعا َ واقع ہوا ہے متعلق شک وتردید کا شکار ہو جائیں یا اسے سرے سے ہی انکار کرنے لگے جبکہ اھل بیت ا طہار نےمتعدد روایات میں أپکی غیبت کے متعلق شک کرنے والوں کی تردید کرتے ہوے سخت مذمت کر چکے ہیں ۔چنانچہ امام صادق فرماتے ہیں : شک صاحت العصر کے لیے ایک ایسی غیبت ہے جس میں ہر اھل باطل شک وتردید کا شکار ہو جائے گا غیبت کی وجہ ایک ایسا امر ہے جس کو تمھارے سامنے بیاں کرنے کی اجازت نہیں ،غیبت اسرار الھی میں سے ایک راز ہے لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ خداوند عالم صاحب حکمت ہے اور ہ یہ قبول کرتے ہیں کہ اسکے کاموں میں حکمت ہوتی ہے اگر چہ ہمیں ان کاموں کی وجوہات کا علم نہ بھی ہو (1) تاہم اھل بیت اطہار ہماری اطمینان قلبی کے خاطر امام مھدی کی غیبت کے کچھ اسرار اور حکمت بیاں کیے ہیں ان میں سے بعض ہم یہاں مختصرا ً ذکر کرتے ہیں :
--------------
(1):- کمال الدین /ج1/ص204/باب44 مذید معلومات کے لیے مراحعہ کریں منتخب الاثر /صافی گلپائی گانی باب/28 /فصل 2
الف :عوام کی تادیب وتنبیہ
جب ایک امت اپنے نبی اور امام کہ جسکا وجود اقدس بقاء اور ہدایت کے لیے ضروری ہے اسکی قدر نہ کرے اور اسکے حقوق اور فرائض انجام نہ دے بلکہ اسکے احکام کی نافرمانی کرے اور انھیں ختم کرنے کی درپے ہو جاے اور ھدایت تکوینی اور فطری کا راستہ اپنے اپر بند کردے تو پھر سنت الھی یہ ہے کہ پروردگار عالم انکے اوپر ہدایت تشریعی کا راستہ بھ بند کردیتا ہے اور انکے درمیان سے ھادی برحق ولی عصر کو اٹھا لیتا ہے تاکہ امت اس حقیقی رہبر کی قدرو قیمت کو درک کر سکھیں اور اسکی برکت کوسمجھ سکہیں ۔جسکی مثال ہم قرأن مجید اور روایات معصومیں میں امم سابقہ کے متعلق دیکھ سکتے ہیں : چنانچہ اما محمد باقر اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں :جب پروردگار عالم کسی قوم میں ہمارے وجود اور ہماری ہم نشینی سے خوش نہ ہو تو پھر ہیں ان سے اٹھا لیتا ہے إِنَّ اللَّهَ إِذَا كَرِهَ لَنَا جِوَارَ قَوْمٍ نَزَعَنَا مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِهِم(1)
ب: لوگوں کا امتحان
اس کائنات پر محیط سنن الھی میں سے ایک ناقابل تغیر سنت پروردگار عالم کا لوگوں سے امتحان لینا ہے یہ ایک ایسا راستہ ہے جس حتمی طور پر سب کو گزرنا ہے ۔خداوندمتعال اپنے بندوں کو مختلف طریقوں سے أزماتا ہے تاکہ راہ حق میں ان کی پابت قدم رہنا معلوم ہو جاے اور انکی شخصیت ؛صبر ؛ایمان استقامت اور فرمان الھی کے سامنے درجہ تسلیم کو پہچان سکھے ۔اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مھدی کی غیبت سب سے اہم امتحان الھی ہے جیسا کہ جناب جابر انصاری پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرتے ہیں أپ (ص) نے فرمایا :
--------------
(1):- ابن بابویہ، ، علل الشرائع ؛ ج1 ؛ ص244 - قم، چاپ: اول، 1385ش / 1966م
ذلک الذی یغیب عن شیعته واولیاء ه وہ اپنے پیروکاورں اور چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہو جاے گا اور اس شخص کے علاوہ اسکی امامت کا کوئی قائل نہ رہ جاے جسکے دل کا خدا وند عالم نے ایمان کے لیے امتحان لے رکھا ہے ۔کسی اور رایت میں ابن عباس أنحضرت(ص) سے یوں نقل کرتا ہے أپنے فرمایا :....... وَ الَّذِی بَعَثَنِی بِالْحَقِّ بَشِیراً إِنَّ الثَّابِتِینَ عَلَی الْقَوْلِ بِهِ فِی زَمَانِ غَيْبَتِهِ لَأَعَزُّ مِنَ الْكِبْرِیتِ الْأَحْمَرِ فَقَامَ إِلَيْهِ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لِلْقَائِمِ مِنْ وُلْدِكَ غَيْبَةٌ قَالَ إِی وَ رَبِّی وَ لِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَ يَمْحَقَ الْكافِرِینَ يَا جَابِرُ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ مَطْوِيٌّ عَنْ عِبَادِ اللَّهِ فَإِيَّاكَ وَ الشَّكَ فِیهِ فَإِنَّ الشَّكَ فِی أَمْرِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ كُفْرٌ.(1) ان کی غیبت کے زمانے میں ان کی امامت کے عقیدے پر ثابت قدم رہنے والے سرخ سونے سے بھی زیادہ نایاب ہونگے یہ سن کر جناب جابر کھڑے ہو گے اور عرض کیا یا رسول ﷲ (ص) أپ کی اولاد میں سے قائم کے لیے غیبت ہے؟ فرمایا (ص) ہاں میرے پروردگار کی قسم ایسی غیبت جو ایماں کو خالص کردے اور کفار کو محو کر دے اے جابر ! یہ خدا کے امور میں سے ایک امر اور خدا کے رازوں میں سے ایک ایسا راز ہے جو بندوں کے اوپر پوشیدہ ہے لہذا اسمیں شک کرنے سے آرے رہنا کیونکہ خداوند عالم کے کاموں میں شک کرنا یقیناً کفرہے ـاسی طرح امام موسی کاظم سے بھی روایت ہے أپنے فرمایا : جب میرا پانچواں فرزند غائب ہو گا تو تم لوگ اپنے دین کی حفاظت کرنا تاکہ کو ئی تمہیں دین سے خارج نہ ک پاے کیونکہ اس امر کے صاحب یعنی امام مھدی کے لیے غیبت ہو گی جس میں اسکے بعض ماننے والے اپنے غقیدے سے بھر جائیں گے اور یہ غیبت ایک امتحان ہے جس کے ذریعے خدا اپنے بندوں کا امتحان لے گا (2) اس حقیقت کوبیان کرتے ہوے متعدد روایات معصومیں سے وارد ہوے ہیں واضح رہے امتحان کی شدت کے بارے میں بہت ساری حدیثیں اھل بیت اطہار سے بہت سی احدیث نقل ہوئے ہیں(3)
--------------
(1):-. کمال الدین و تمام النعمة / ج1 / 288 / 25 باب ص : 286
(2):- غبتل طوسی /فصل 5 /ح 284 : ص 234
(3):- ملاحظہ کریں صافی کی کتاب /ںوید امن وامان /ص140
ج : امام کی جان کی حفاظت :
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر انبیاء کرام کے انکی جان کی حفاظت اور قتل کے خوف سے انکو انکی قوم سے مخفی رکہنے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے تاکہ ایک مناسب موقع پر اپنی رسالت اور ذمہ داری کو ادا کر سکیں جیسا کہ حضرت موسی کے بارے میں انکی والدہ گرامی کووحی ہوئی : وَ أَوْحَيْنا إِلی أُمِّ مُوسی أَنْ أَرْضِعیهِ فَإِذا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقیهِ فِی الْيَمِّ وَ لا تَخافی وَ لا تَحْزَنی إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَ جاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلینَ* (1) اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں اور بالکل خوف اور رنج نہ کریں، ہم انہیں آپ کی طرف پلٹانے والے اور انہیں پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں اسیطرح پیغمبر اکرم (ص)مکہ معظمہ سے نکل کر ایک غار میں مخفی ہو گئے البتہ یہ سب خداوند عالم کے حکم اور ارادہ سے ہوتا تھا ۔حضرت مھدی کی غیبت کے بارے میں بھی متعدد روایات یہی وجہ بتاتی ہے جیسا کہ امام صادق سے روایت ہے روای کہتا ہے امام نے فرمایا : امام منتظر قیام کرنے سے پہلے ایک مدت غیبت میں رہیں گئے میں نے عرض کیا کس لیے ؟ فرمایا اسلیے کہ انہیں جان کا خطرہ ہے (2)اس حقیقت کو ہم تاریخ کی أ ئینے میں بھی دیکھ سکتے ہیں چونکہ بنی عباس کے حکمرا ن بخوبی جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کے خاندان میں امیر المؤمنین اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہاکی نسل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جسکے ہاتھوں ظالموں اور جابروں کی حکومت کا خاتمہ ہو جاے گا ۔ اور وہ بچہ امام حسن العسکری کا فرزند ہو گا لھذا انھوں نے أپ کو شھید کرنے کی قصد سے امام حسن العسکری کو عرصہ دراز تک فوجی چھاو نی میں نظر بند رکھا تھا اور باقاعدہ طور سے پھرا لگا کر رکھا تھا لیکن پروردگار عالم نے جس طرح جنا ب موسی کو فرعون کے ہاتھوں سے بچا لیا اسی طرح حجت خدا امام حجت کو بنی عباس کے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں سے بچا لیا ۔
--------------
(1):- القصص .7
(2):- کمال الدین .ج 2. ح 7
د : فاسق اور فاجر حکمرانوں سے آزادی
روایا ت کے مطابق آپکی شخصیت ایک ایسی شخصیت ہو گی جو مظہر تام اسماء الھی (الغالب؛العادل ؛الحاکم )ہونگے نہ ہی أپکے گردن پر کسی ظالم اور ستمگر حاکم کی بیعت ہے اور نہ ہی جب أپ ظھور کریں گے تو سواے ذات پروردگار کے اور کسی کے سامنے جکیں گے ۔أپ وہ عظیم مصلح ہونگے جو عالمی نظام عدل کی قیام کے لیے زمینہ فراہم نہیں ہوتی اس وقت تک أپ غیبت میں رہیں گے تاکہ آپکے گردن میں کسی کی بیعت نہ ہو اور خداکے علاوہ کسی کی حکومت کو قبول نہ کیا ہو ۔ چنانچہ امام صادق فرماتے ہیں : صاحب ہذا الامر تغیب ولادتہ عن ھذا ۔۔۔۔۔۔ حضرت صاحب الامر کی ولادت کو لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھیں گے تاکہ جب ظھور کریں تو انکی گردن میں کسی بیعت نہ ہو اور پروردگار عالم انکی امر کو ایک رات میں اصلاح کرے گا (1) اسی طرح خود امام زمانہ اپنے نائب دوئم محمد بن عثمان کے سوالات کے جواب میں جس میں انھوں نے غیبت کی حکمت کے بارے میں سوال کیا تھا تو أپ نے فرمایا : إنّه لم یكن أحد من آبائی إلّا و قد وقعت فی عنقه بیعة لطاغیة زمانه، و إنّی أخرج حین أخرج و لا بیعة لأحد من الطواغیت فی عنقی،(2)میر ے تمام أباو اجداد مجبور تھے کہ اپنے زمانے کی طاغوتیوں کی بیعت میں رہے لیکن میں ایک اسی حالت میں قیام کروں گا جبکہ میرے گردن پر کسی ظالم اور ستمگر کی بیعت نہ ہو گی۔
روایات معصومیں مین غیبت کے دیگر اساب اور حکمت بیاں ہوئی ہیں لیکن ہم یہاں اختصار کی بنا پر انھی چند امور کے ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے لیکن دوبارہ تاکیداً عرض کروں گا کہ غیبت امام زمانہ ایک خدائی راز ہے جس کی اصلی فلسفہ اور راز امام زمانہ کے ظھور کے بعد ہی واضح ہوگا ۔
--------------
(1):- بحار /ج/ص 96
(2):- الزام الناصب / ج1 / 391 / الص : 387
سوال نمبر10: اگر حضرت مھدی امام عصر اور حجت خدا ہیں تو امام اور ہادی کو چاہیے لوگوں کے درمیاں رہیں تاکہ لوگ انکی امامت کی سایے میں ہدایت حاصل کرسکے لیکن جو امام مخفیانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو ایسیے امام اور ہادی کے ہونے سے نہ ہونا بہتر نہیں ہے ؟
جوا ب : یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی معاشرہ سنکڑوں سال سے حجت خدا کی ظھور کے فیض اور انکی ہدایت سے محروم ہے اور بشر اس آسمانی رہبر کے حضور میں مشرف ہونے سے قاصر ہے تو یہاں پر بسا اوقات مجھ جیسے ضعیف الایمان لوگوں کے اذھان میں اسیے سوالات پیدا ہوتے ہیں بلکہ ایسے سوالات اور شبہات دین ومذہب کے دشمن عناصر سوچھے سمجھے سازش کے تحت لوگوں کے ایمان کو سست کرنے کے خاطر ایجاد کرتا ہے ۔لیکن حقیقت میں ایسے سوالات اور شبہات ان کے اذھان میں حجت خدا کے مقام کی صحیح پہچان اور شناخت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ،جبکہ امام معصوم کے مقدس وجود کے اثرات اور فوائد انکے ظہوراور ہدایت ظاہری تک محدود نہیں بلکہ ھدیت ظاہری انکے بابرکت وجود کے اثرات میں سے ایک چھوتا سا اثر ہے انکے وجود مقد س کے ایک اور فائدہ مخلوقات کو تباہی ہے بچانا ہے ، خدا کی اپنے بندوں کی اوپر حجت تمام ہونا ہے ،تمام موجودات پر خدا کے فیض کا واسطہ بھی ہے ۔ ہم یہاں انکے وجود اقدس کے چند فوائد بطور اختصار فھرست وار بیان کرتے ہیں ۔
1 : امام واسطہ فیض ہوتا ہے
دینی تعلیمات کی روشنی میں عقلی اور نقلی دلائل سے استفادہ ہوتا ہے کہ حجت خدا کائنات کے تمام مخلوقات اور خدا کے درمیان واسطہ فیض ہوتا ہے( جسکے بارے مین تفصیلی گفتگو بعد مین ہوگئی) نظام کائنات میں محور اور مرکز کی حیثیت رکھتا ہے لھذا ھر دور میں حجت خدا کا رؤے زمیں پر تا صبح قیامت باقی رہنا ضروری ہے ورنہ انسان ،جنّات ،ملائکہ ، حیوانات اور جمادات کا نام نشان تک مٹ کر رہ جاے گا ۔ اور یہ مطلب مختلف احادیث جنہین شیعہ سنی دونوں علماء نے اہل بیت اطہار سے نقل کیا ہے
انسےاستفادہ ہوتا ہےجیسا کہ پیغمبر اکرم فرمات ہین: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص النُّجُومُ أَمَانٌ لِأَهْلِ السَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومُ ذَهَبَ أَهْلُ السَّمَاءِ وَ أَهْلُ بَيْتِی أَمَانٌ لِأَهْلِ الْأَرْضِ فَإِذَا ذَهَبَ أَهْلُ بَيْتِی ذَهَبَ أَهْلُ الْأَرْضِ.(1)ستارے اہل آسمان کے لیے باعث نجات ہین چنانچہ اگر ستارے چلے جائے تو آسمان والے بہی ختم ہو جائین گے اسی طرح میرےاہل بیت زمین والون کے لیے ذریعہ نجات ہین چنانچہ اگر میرے اہل بیت زمین چہور دے تو اہل زمین بہی ختم ہو جائین گئے
نیز متقی ھندی اپنی سند مالک بن انس سے نقل کرتا ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا : لن یزال هذا الدین قائماً الی اثنی عشر من قریش ،فاذا هلکو ماجت الرض (2) یہ دین قائم دائم رہے گا یہاں تک قریش میں بارہ افراد لوگوں کے درمیان امامت اور خلافت کریں گے اور جب یہ سب ختم ہو جائیں گے تو زمین بھی اپنے اھل کے ساتھ ختم ہو جاے گی ـ اسی طرح امام علی ابن حسین فرماتے ہین : وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا (3) ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین """""
ان روایات سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ زمیں اور اھل زمیں کے وجود کی بقا حجت خدا کے وجود کے ساتھ مربوط ہے اور انھی کی وجہ سے باقی ہے ۔ اسی طرح زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے : اے خداے قادر کی حجتیں ، خدانے آپسے آغاز وانجام کیا ہے وہ آپ کے ذریعے بارش برساتا ہے آپ کے ذریعے آسماں کو روکے ہوے ہے تاکہ زمین پر نہ آگرے مگر اسکے حکم سے ، وہ آپ کے ذریعے غم دور کرتا ہے اور سختی ہٹاتا ہے ۔
--------------
(1):- ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ - تہران، چاپ: دوم، 1395ق.
(2):- محمد تقی ہندی کنز العمال /اس حدیث کو بخاری نے بھی نقل کال ہے
(3):- کمال الدین و تمام النعمة / ج1 / 207 / 21 ص : 201
معصومیں علیھم السلام کے ان جمالت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام عصر زمان غیبت میں بھی تمام مخلوقات کے لیے سر چسمہ حیات ہیں اور تمام برکات الھی انہی کے واسطے مخلوقات تک پہنچتی ہے اسی لیے خود پیغمبر اکرم نے انکے وجود مقدس کو غیبت کی حالت میں اس سورج سے تشبیہ دی ہے جو بادل کے پیچھے چھوپا ہوا ہے لیکن اسکے وجود سے مخلوقا ت زمیں مسلسل استفادہ لے رہا ہوتا ہے ۔ جیسا کہ جابر الانصاری پیغمبر گرامی اسلام (ص)سے نقل کرتے ہیں : فقلت: یا رسول اللّه هل لشیعته انتفاع به فی غیبته؟ فقال صلّی اللّه علیه و آله: إی و الذی بعثنی بالحقّ إنّهم یستضیئون بنوره و ینتفعون بولایته فی غیبته كانتفاع الناس بالشمس و إن علاها السحاب (1) اس ذات کی قسم جس نے مجہے نبوت پر مبعوث کیا ہے وہ لوگ انکے نورانی وجود سے منور اور انکی ولایت سے زمان غیبت مین ایسے ہی استفادہ کریں گے جس طرح لوگ بادل کے پیچہے چہوپے ہوےسورج سے استفادہ کرتے ہین ـ
2 : زمین کبھی حجت خداسے خالی نہیں ہوتی
متعدد روایات کے مطابق جسے شیعہ سنی دونوں طرفیں کے علماء نے نقل کیا ہے زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی خواہ وہ لوگوں کے درمیاں ظاہر ہو یا خوف کی وجہ سے پوشیدہ ہو :امیر المؤمنین فرماتے ہیں : بَلَی لَا تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ قَائِمٍ لِلَّهِ بِحُجَّةٍ إِمَّا ظَاهِراً مَشْهُوراً وَ إِمَّا خَائِفاً مَغْمُوراً لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللَّهِ وَ بَيِّنَاتُهُ خدا کی قسم زمین کبھ حجت خدا جو خدا کے لیے قیام کرے سے خالی نہیں ہو سکتی چاہیے وہ ظاہراً اور أشکار ہو یا خائف ومخفی تاکہ خدا کی حجتیں اور براہیں تمام نہ ہو نے پائیں (2)اسی طرح متعدد روایات مین ائمہ اطہار فرماتے ہیں:
--------------
(1):- الزام الناصب / ج1 / 385 / ص : 380" قندوزی حنفی ینابیع المودة /ج3/ص 17
(2):- نہج البلاغہ خ 147
سَأَلْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا ع فَقُلْتُ أَ تَخْلُو الْأَرْضُ مِنْ حُجَّةٍ فَقَالَ لَوْ خَلَتْ مِنْ حُجَّةٍ طَرْفَةَ عَيْنٍ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا(1) قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع يَمْضِی الْإِمَامُ وَ لَيْسَ لَهُ عَقِبٌ قَالَ لَا يَكُونُ ذَلِكَ قُلْتُ فَيَكُونُ مَا ذَا قَالَ لَا يَكُونُ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَغْضَبَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَی خَلْقِهِ فَيُعَاجِلَهُم(2)أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ أَنْ يَكُونَ فِیهَا حُجَّةٌ عَالِمٌ إِنَّ الْأَرْضَ لَا يُصْلِحُهَا إِلَّا ذَلِكَ وَ لَا يُصْلِحُ النَّاسَ إِلَّا ذَلِكَ.(3) اگر زمین ایک لحظے کے لیے امام زمان سے (جو کہ حجت خدا ہے )خالی رہ جاے تو برباد ہو جاے گی ۔
3 : امام زمانہ کی غیبت ظاہری کی ذمہ دار ہم خود ہیں
اگر آج امت محمدی اس الھی رہبر کے حضور کے فیض سے محروم ہیں تو اسکے ذمہ دار امام نہیں بلکہ خود عوام ہیں جو أپ کی رہبری قبول کرنے پر أمادہ نہیں ہیں اور مخالفت پر کمر بستہ ہیں جیسا کہ أ پ کے أباء واجداد طاہرین کی اطاعت کے بجائے مخالفت کی گئی اگر لوگ اطاعت پر أمادہ ہوتے تو امام ظاہر ہی رہتے چنانچہ اس بارے میں خود امام زمانہ فرماتے ہیں وَ لَوْ أَنَّ أَشْيَاعَنَا وَفَّقَهُمْ اللَّهُ لِطَاعَتِهِ عَلَی اجْتِمَاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِی الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ عَلَيْهِمْ لَمَا تَأَخَّرَ عَنْهُمُ الْيُمْنُ بِلِقَائِنَا وَ لَتَعَجَّلَتْ لَهُمُ السَّعَادَةُ بِمُشَاهَدَتِنَا عَلَی حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِهَا مِنْهُمْ بِنَا فَمَا يَحْبِسُنَا عَنْهُمْ إِلَّا مَا يَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نَكْرَهُهُ وَ لَا نُؤْثِرُهُ مِنْهُمْ (4)
--------------
(1):- ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ - تہران، چاپ: دوم، 1395ق.
(2):- ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ - تہران، چاپ: دوم، 1395ق.
(3):- ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، 2جلد، اسلامیہ - تہران، چاپ: دوم، 1395ق.
(4):- الاحتجاج علی اہل اللجاج (للطبرسی) / ج2 / 499 / ص : 479
لھذا اگر لوگ اس عظیم نعمت سے بہرہ مند نہ ہوں اور أفتاب بدایت کی شعاعوں کی راہ میں رکاوٹ بن جائیں تو اسے امام کے وجود پر اعتراض نہیں ہو سکتا جیسا کہ اگر لوگ دوسری نعمتوں سے استفادہ نہ کریں اور ان نعمتوں کے فوائد ہی ظاہر نہ ہونے دیں یا اسے غلط استعمال کریں تو اس رویہ کے باعث ان نعمتوں کی خلقت پر اعتراض نہیں ہو سکتا کہ انھیں کیوں خلق کیا گیا؟
کسی کو یہ حق نہیں ملتا کہ یہ کہے کہ جب لوگ ان نعمتوں سے درست استفادہ نہیں کررہے تو ان نعمتوں کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے بلکہ لوگوں کی توبیخ کرنا چاہے کہ کیوں ان نعمتوں سے صحیح استفادہ نہیں کررہے اور ان مین یہ صلاحیت پیدا کرنی چاہے تاکہ ان نعمتوں سے بر پور استفادہ کرسکے ۔
سوال نمبر11: بعض روایات میں امام زمانہ عجل ﷲ فرجہ کو عصر غیبت میں خورشید پنہان سے تشبیہ دی ہے اس تشبیہ کے کیا راز ہو سکتی ہے ؟
جواب : یہ حدیث شریف کوخود پیغمبر اکرم (ص) اور امام زمانہ دونوں سے نقل ہوا ہے آپ فرمات.ہین : ، و إنّی أخرج حین أخرج و لا بیعة لأحد من الطواغیت فی عنقی، و أمّا وجه الانتفاع بی فی غیبتی فكالانتفاع بالشمس إذا غيّبها عن الأبصار السحاب، یقینا ً اس حدیث شریف میں بہت سے نکات پاے جاتے ہیں ۔لیکن ہم یہاں ان نکات میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
ا : جس طرح سورج نظام شمسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور دوسرے تمام سیارے اسی کے گرد حرکت کرتے ہیں ، سورج اگر چہ دیکھنے میں بادلوں کیے پیچھے چھپا ہو تا ہے لیکن کائنات کا ہر جنبندہ اسکے وجود سے مستفید ہوتا رہتا ہے اگر فرضا ً سورج ایک لحظے کے لیے صفحہ ہستی سے ناپدید ہو جاے تو تمام جاندار مخلوق منجمد ہو کر بے جان ہو جاے۔ اسی طرح امام عصر کا وجود گرامی بھی کائنات کے نظام میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔ چنانچہ دعا عدلیہ میں ہم پڑتے ہیں
: ببقائه بقیت الدینا و بیمنه رزق الوری و بوجوده ثببت الارض و السماء (1)اسی ہستی کے وجود سے دنیا باقی ہے اور اسی کی برکت سے کائنات کے ہر موجود کو روزی ملتی ہے اور اسی کے وجود کی خاطر زمین اور أسمان مستحکم باقی ہیں ۔
2 سورج ایک لمحہ کے لیے بھی نور افشانی سے دریغ نہیں کرتا اور ہر چیز سورج سے جتنا رابطہ رکھتی ہے سورج کے نور سے اسی قدر فیضیاب ہوتی ہے ۔چنانچہ حضرت ولی عصر کا وجود بھی تمام مادّی اور معنوی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے واسطہ ہے ۔ کمالات کے اس سرچسمہ سے جس شخص کا جتنا رابطہ استوار ہے وہ اتنا ہی اس سے فیضیاب ہوتا ہے ۔چنانچہ آپ شیخ مفید کے ایک خط میں اس طرح خطاب فرماتے ہیں : إنّا غیر مهملین لمراعاتكم، و لا ناسین لذكركم، و لو لا ذلك لنزل بكم اللأواء و اصطلمكم الأعداء(2)۔ہم نے ہر گز تم کو اپنے حال پر نہیں چھوڑا ہے اور ہرگز تمھیں نہیں بھولے۔اگر ہماری توجہ نہ ہوتی تو تم پر بہت سی سختیاں اور بلائیں نازل ہوتیں اور دشمن تم کو نیست ونابود کر دیتے ۔
سوال نمبر 12 : یہ کسے ممکن ہے کہ ایک انسان ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے ؟
جواب : حضرت حجت کی زندگی سے مربوط بحثوں میں سے ایک بحث آپ کی طولانی عمر کے بارے میں ہے بعض لوگوں کے ذھوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے ایک انساں ہزار سال سے ذیادہ زندگی کرے جبکہ عام طور انساں کی عمر 80 سے 150 سال کی ہوتی ہے؟ اور اس شبہ کی وجہ بھی انسان کی متوسط عمر 70 سے100 سا ل کے درمیاں ہونا ہے ۔ ورنہ عقلی اور سائنسی اعتبار سے انسان کس عمر کے طولا نی ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے بلکہ سائنسی اعتبار سے طول عمر کے لیے کی جانے والی انسانی کوشیشں نتیجہ خیز ہین اور اس میں کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔
---------------
(1):- مفاتیح الجنان ،دعای عدلیہ
(2):- مفید، محمد بن محمد،، 1جلد، ص8- قم، چاپ: اول، 1413 ق
اوردنیا کے سائنسداں حضرات أج تک انسان کی طبیعی عمر کے لئے کوئی حتمی سرحد معین نہیں کرسکے ہیں (1)خاص طور پر ایک مسلمان فرد جو قرأنی حقائق پر عقیدہ رکھتا ہے اسے کے لیے یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ قرأن مجید نے طولانی عمر کے مالک افراد کے ایسیے نمونے بیان کیے ہیں جو سیکڑون سال سے اب بھی زندہ ہے ۔ چنانچہ حضرت عیسی کے بارے میں ارشاد باری ہوتا ہے وَ مَا قَتَلُوهُ يَقِینَا*بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَ كاَنَ اللَّهُ عَزِیزًا حَكِیمًا *(2)اور انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔لہذا تمام مسلمانون کاعقیدہ ہے کہ نہ صرف حضرت عیسی بلکہ جناب خصر ؛ جناب الیاس؛ جناب ادریس سب اب بھی زندہ ہیں اور حضرت عیسی أخری زمانہ میں امام عصر کے ظھور کے بعد زمین پر تشریف لائیں گئے اور حضرت ولی عصر کی اقتداء میں ںماز ادا کریں گے انکی نصرت کریں گے ۔ لہذا ابو خاتم سجستانی اپنی کتاب ( المعمرون ) میں مستند تاریخی حوالے سے سینکڑوں افراد کو ان کے عمر کے ساتھ بیاں کیے ہیں ان میں سے حضرت أدم کی 912 سال ؛ حضرت نوح کی2500سال ؛ بیاں کیے ہیں ۔لیکن حضرت حجت کی طولانی عمرکے متعلق ہم سینکڑوں احادیث رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا عقیدہ ہے جسے ہم فلسفہ غیبت کے موضوع میں بیان کر چکے ہیں کہ انکی غیبت عمر میں طولانی قدرت خدا اور ارادہ خاص پروردگار سے انجام پایا ہے اور قدرت خدا لامحدود ہے اس میں کسی شک وشبہ کی گنجأش نہیں ہے ۔ پروردگار عالم جب ارادہ کرے تو کسی کو قیامت تک زندہ رکھ سکتا ہے جیسا کہ شیطان ھزاروں سال سے اب بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا خود پروردگار عالم قرآن مجید میں حضرت یونس کے متعلق بیان فرماتا ہے : فَلَوْ لَا أَنَّهُ كاَنَ مِنَ الْمُسَبِّحِینَ * لَلَبِثَ فىِ بَطْنِهِ إِلىَ يَوْمِ يُبْعَثُون *(3) اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے، 144۔ تو قیامت تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہ جاتے
---------------
(1):- اس بارے میں مزید معلومات کے لئے مراجعہ کریں نوید امن وامان ص 261
(2):- نساء :175
(3):- صافات :144 (اور خوشی کی بات یہ ہے أج مڈگاسکرکے ساحلی علاقے میں 400 ملین سال کی ایک مچھلی ملی ہے ۔ ( روزنامہ کیہان ش 4413؛ 22؛1343ہ ق نقل از محور کا ئنات ص 112)
سوال نمبر 13 : غیبت کبری کی دور میں جب حجت خدا غیب کی پردے میں ہیں تو ہماری کیا کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
جواب : اس موضوع کےمتعلق قرآنی آیات اور روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ عضر غیبت میں لوگون کے گردن پر بہت ہی سنگین اور بڑی زمہ داری ہے اور جب تک ان زمہ داریوں اور وظائف پر عمل نہ کریں حقیقی اور سچے مسلمان شمار نہیں ہوتا
لہذا واقعی اور سچے مسلمان بنے کے لیۓ ان زمہ داریوں کو اچھی طرح جاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہےـ
ہم یہاں چند اہم زمہ دّاریوں کو اختصار کے ساتھ ذکر کرتے ہیں تاکہ تشنئہ معرفت حضرات کے لیےان وظائف اور زمداریوں کو جاننے میں آسانی ہو جائے
1: امام حجہ کی معرفت اور شناخت :
ایک مؤمن مسلمان جو امام کے وجود کو ضروری سمجتا ہےاسکی سب اہم ذمہ داری اور پہلا وظیفہ ہر دور کے امام کی معرفت اور انکی شناخت ہے ،چونکہ فریقیں کے نزدیک یہ ثابت ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے امام زمانہ کی معرفت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے لہذا ہر مسلم فرد کی شرعی اور عقلی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کرلے چنانچہ اس بارے پیغمبر اکرم سے مشہور اور متواتر حدیث ہے جسے شیعہ سنی سب نے نقل کیا ہے آپؐ نےفرمایا: من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیة (1)جو شخص اپنے امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مر جاۓ وہ جاہلیت کی موت مراہے ” یعنی جب تک امام زمانہ کو نہ پہچانے کہ وہ کون ہیں وہ شخص حقیقی مسلمان نہیں ہے اور وہ ایمان کی دائرے میں نہیں مرتا ۔
--------------
(1):- تفتازانی: شرح مقاصد: ج 2 ص 275-
جبکہ اسلامی تعلیمات کے روشنی میں تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جس ہستی کے آمد کے ہم سب منتظر ہیں وہ ایسی شخصیت ہیں جن کو پروردگار عالم نے اسی دن کے لیے ذخیرہ کیا ہے ، اس روۓ زمین پر امام زمانہ اور حجت خدا ہونگے اور انکی بابرکت وجود کے ذریعےسے مقصد بعثت انبیا ء کامل اورخلقت کا نتیجہ حاصل ہو گا لیکن خصوصیت کے ساتھ مکتب تشیّیع کے نزدیک وہ ذات ابھی بھی ہمارے درمیان زندگی کر رہی ہے اگر چہ الہی مصلحت کی بنا پر انکی شخصیت کی زیارت سے ہم سب محروم ہیں ، آپ پردہ غیب سے ہماری مسلسل سرپرستی کررہے ہیں ،انھیں کے وسیلہ سے اﷲ تعالی لوگوں کو رزق فراہم کرتا ہے اور زمین وآسمان اپنی جگہ ثابت وبرقرار ہیں آپ خدا اور مخلوق کے درمیا ن واسطہ فیض ہیں تمام انبیاء واوصیاءؑ کے علوم اور اوصاف حمیدہ کے وارث ہیں اورآپ ہی کی ذات کو اﷲ تعالی کی ارادہ و اجازت سے نفوس پر تصرف کرنے کا حق حاصل ہے اور حق وحقیقت کی طرف ہدایت کرتی ہے ۔
اگر آج مسلم سوسائٹی معیشتی ؛ اجتماعی اور ثقافتی لحاظ سے اضطراب ؛تنزّل اور خفقان کا شکار ہے ،تو یہ سب آنحضرتؑ سے غفلت ؛ بے توجہی اور انکی معرفت حاصل کرنے میں کوتاہی کے وجہ سے ہے ،اور فطری طور پر جب انسان کسی موضوع کو کما حقہ نہ پہچانتا ہو اسکے بارے میں وہ اپنے وظیفے کو دلی لگاو سے انجام نہیں دے سکتا لھذا ایک حقیقی منتظر کی ظہور سے پہلے سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری حضرت حجت اما م منتظر کی معرفت اور شناخت ہے اوریہی سعادت و نجات کا باعث اور اسے دوری دنیوی نقصان اور خسران ابدی کا باعث ہے لہذا صادق آل محمد فرماتے ہیں : يَقُولُ اعْرِفِ الْعَلَامَةَ فَإِذَا عَرَفْتَهُ لَمْ يَضُرَّكَ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ عَرَفَ إِمَامَهُ كَانَ كَمَنْ كَانَ فِی فُسْطَاطِ الْمُنْتَظَرِ ع(1)تم اپنے امام کو پہچانیں جسکے تم منتظر ہے کیونکہ جب تم انکو پہچانیں گے تو پھر وہ ظھور کرۓ یا نہ کرۓ تمھیں کچھ نقصان نہیں ہو گا یعنی تم نے اپنے ذمہ داری انجام دیا اور حقیقی منتظرین میں سے ہو گۓ
-------------
(1):- مجلسی : مرآۃ العقول :ج۴ ص ۱۸۶ – اور اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ -
اب انکے ظہور سے پہلے اگر تم اس دنیا فوت کر جاۓ تو یہی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان کہ وہ ظہور کرۓ یا نہ کرۓ ، لیکن یہ اسکے لیۓ نقصان ہے جو اپنے امام کی معرفت نہ رکھتا ہے -
اسی طرح فضیل بن یسار نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے: يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِیتَتُهُ مِیتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِی فُسْطَاطهِ ” (1)آپ فرما تے ہیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکہ وہ اپنے امام کو نہیں پہچانتا ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے ،اور وہ شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکہ وہ اپنے امام زمانہ کی صحیح معرفت رکھتا ہو تو امام زمانہ کے ظہور میں تاخیر اسے نقصان نہیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکہ اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا و ہ اپنے امام کے ہمراہ جہاد میں انکے خیمے میں ہے -”
اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے ہیں : ولا یکون الإیمان صحیحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من یؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالی ”إلاّ من شهد بالحق وهم یعلمون(2)“ فلم یوجب لهم صحة ما یشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ینفع ایمان من آمن بالمهدی القآئم علیه السلام حتی یكون عارفاً بشأنه فی حال غیبته (3)”کسی مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اس کے بارے میں پوری شناخت نہیں رکھتا ہوں “جس طرح خدا وند متعال کا ارشاد ہے الاّ من شہد بالحق وہم یعلموں مگر ان افراد کے جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواہی دیں پس حق پر گواہی دینے والوں کی گواہی قبول نہیں ہو گی مگر یہ کہ وہ علم رکھتا ہو ۔اسی طرح مہدی قائم عجل اللہ پر ایمان رکھنے والوں کا ایمان انھیں فائدہ نہیں دے گا
--------------
(1):- کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲
(2):- زخرف :۸۶ -
(3):- صدوق :کمال الدین اتمام النعمة :ج 1 ص 19
(یعنی انکے ظہور اور قیام پر اجمالی ایمان اور انکے ظہور کا انتظار انھیں فائدہ نہیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران انکے متعلق اور انکی شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا ہو ۔
اور اما م زمانہ کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری ہے ان میں سے بعض اہم موارد یہاں ذکر کرتے ہیں کہ ان امور کو جانے بغیر کسی امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نہیں ہو سکتی
ا: آپ کائنات کی پہلی مخلوق ہیں
صحیح روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ ا ورسول اکرم(ص) اور دیگر بارہ معصومینؑ کے پاکیزہ انوار کو اﷲ تعالی نے کائنات کی تمام مخلوقات سے پہلے خلق فرمایا ہے چناچہ نبی اکرم (ص) اس بارے آنحضرت میں فرماتا ہے
لما اسری بی الی السماء ........ (1) جس رات مجھے آسمان کی سیر لے جایا گیا تو عرش پر میری نظر پڑی کہ وہاں لکھا ہوا تھا “لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ أیده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نہیں ہے محمؐد اسکے رسول ہیں اور علی ؑکے زریعے ہم نے انکی تایئد کی ہے ،اور میں نے عرش پر علی ؑوفاطمہؑ اور باقی گیارہ معصومینؑ کے مقدس انوار کو دیکھا جنکے درمیان حضرت حجتؑ کا نور کوکب درّی کی مانند درخشان اور چمک رہا تھا میں نے عرض کیا پروردگار یہ کس کا نور ہے ، اور وہ کن کے انوار ہیں ؟ آواز آئی یہ تیرے فرزندان ائمہ معصومینؑ کے انوار ہیں اور یہ نور حجت خدا ؑ کا نور ہے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی ۔
--------------
(1):- سید ہاشم بحرینی :مدینة المعاجز ص ۱۵۳ -
اسی طرح امیر المومنین فرماتے ہیں رسول خدا (ص)نے مجھ سے فرمایا : لما عرج بی إلی السماء....... فقلت یا رب و من أوصیائی فنودیت یا محمد أن أوصیاءك المكتوبون علی ساق العرش فنظرت و أنا بین یدی ربی إلی ساق العرش فرأیت اثنی عشر نورا فی كل نور سطر أخضر مكتوب علیه اسم كل وصی من أوصیائی أولهم علی بن أبی طالب و آخرهم مهدی أمتی (1) “جب مجھے آسمان کی سیر پر لے جایا گیا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون ہیں میرےاوصیا ، ندا آئی یا محمد(ص) تمھارے اوصیا کے نام ساق عرش پر لکھے گیے ہے میں نے عرش کی طرف نظر کی تو گیارہ انوار ایسیے دیکھا ہر نورمیں ایک سبز لکیر ہے جس پر میرے ہر ایک وصی کے اسم گرامی لکھاگیا ہے سب سے پہلے علی ابن ابی طالبؑ کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کا مہدیؑ کا نام تھا -
ب :آ پؑ خالق ومخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہیں
بعض روایات کے روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امام زمانہ واسطہ فیض وبرکت ہیں ۔جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا (ص) سے نقل کرتے ہیں : قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكری عبادة و ذكر علی عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذی بعثنی بالنبوة و جعلنی خیر البریة إن وصیی لأفضل الأوصیاء و إنه لحجة الله علی عباده و خلیفته علی خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدی بهم یحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم یمسك السماء أن تقع علی الأرض إلا بإذنه و بهم یمسك الجبال أن تمید بهم و بهم یسقی خلقه الغیث و بهم یخرج النبات أولئك أولیاء الله حقا و خلفائی صدقا عدتهم عدة الشهور و هی اثنا عشر شهرا.....(2)
--------------
(1):- صدوق : کمالالدین ج : 1 ص : 25۶
(2):- شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22
آنحضرت(ص) نے فرمایا :اﷲکا ذکر اور میرا ذکر عبادت ہے ،اور علیؑ کا ذکر اور انکے فرزندان ائمہؑ کا ذکر بھی عبادت ہے ، قسم اس ذات کی جس نے مجھے نبوّت پر مبعوث کیا ہے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالبؑ اور انکے فرزندان ائمہ ھداء ؑ ہونگے انھیں کے واسطے ض اﷲ تعالی اہل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا اور انھیں کی برکت سے آسمان ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کی خاطر پہاڑوں کو بکھر جانے نہیں دے گا اور انھین کے طفیل سے اپنی مخلوقات کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزہ نکالے گا ،وہی لوگ ہیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ہیں ...... نیز امام علی ابن حسین فرماتے ہین : وَ بِنَا يُمْسِكُ الْأَرْضَ أَنْ تَمِیدَ بِأَهْلِهَا وَ بِنَا يُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَ تُنْشَرُ الرَّحْمَةُ وَ تَخْرُجُ بَرَكَاتُ الْأَرْضِ وَ لَوْ لَا مَا فِی الْأَرْضِ مِنَّا لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا (1) ہمارے ذریعہ سے زمین اپنی اہل کے ہمراہ پابرجا ہے اور ہمارے ذریعہ سے آسمان بارش برساتا ہے اور اسکی رحمتین پہیل جاتی ہین اور زمین سے برکات نکل آتی ہین اسی طرح دعاے عدلیہ کا فقرہ ہے جس میں آیا ہے :“ثم الحجة الخلف القائم المنتظر المهدی المرجی .....ببقائه بقیت الدّنیا وبیمنه رُزق الوری وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه یملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواہی دیتا ہوں انکے فرزند حجت خدا وجانشین واما م ؛ قائم منتظر مہدی عجل اللہ فرجہ جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابستہ ہے انکے وجود سے دنیا باقی ہے اور انکی برکت سے مخلوق روزی پارہی ہے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قائم ہیں اور انھیں کے زریعے خدا زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب کہ وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہو گی
پس ان روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دور میں امام زمانہ خالق ومخلوق کے درمیاں واسطہ فیض ہیں اور انکے واسطے سےزمیں وآسمان اپنی جگہ ثابت اور حرکت میں ہیں اور انکے واسطے سے تمام مخلوقات تک رزق پہنچتی ہے ۔
--------------
(1):- کمال الدین و تمام النعمة / ج1 / 207 / 21 ص : 201
ج: آپؑ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نہیں ہے
امام حسین سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچھا گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّی یجب طاعته” (1) ہرزمانہ میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد ہے جنکی اطاعت کو لوگوں پر واجب کیا ہے -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما یعرف اللّہ عزوجل ویعبدہ من عرف اللّہ وعرف امامہ منّا اہل البیت“ ؛صرف وہ شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور اسکی عبادت کر سکتا ہے جس نے اﷲ اور ہم اہل بیت ؑمیں سے اپنے اما م کو پہچان لیا ہو یا اہل بیت اطہار ؑکی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا ہے (یعنی خدا کے انکار ) اگر چہ وہ شخص کلمہ گو ہی کیوں نہ ہو -جیسا کہ چھٹے امام سے روایت ہے آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (2) جس نے ہماری معرفت حاصل کرلی وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے -اسی طرح بعض روایت میں آیا ہے کہ امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم ہدایت ہے لہذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نہیں ہے -
د: آپ تمام انبیاء ؑکے کمالات کا مظھر ہیں
متعدد روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجہ الشریف کی شخصیت جامع ترین شخصیت ہے اور آپ میں تمام انیباء کےکمالات پائے جاتے ہیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسہ تمام گذشتہ انبیاء کے کمالات کی حامل تھی سلمان فارسی نے آنحضرت(ص) سے روایت نقل کہ ہے آپ فرماتے ہیں :
--------------
(1):- مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -
(2):- کلینی: کافی،ج 1 ، 181 -
عَنْ سَلْمَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص الْأَئِمَّةُ بَعْدِی اثْنَا عَشَرَ عَدَدَ شُهُورِ الْحَوْلِ وَ مِنَّا مَهْدِيُّ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَهُ هَيْبَةُ مُوسَی وَ بَهَاءُ عِیسَی وَ حُكْمُ دَاوُدَ وَ صَبْرُ أَيُّوبَ.(1) میرے بعد بارہ امام سال کے بارہ مہینوں کے برابر امام ہونگے اوراس امت کا مہدیؑ بھی ہم سے ہی ہوگا جس میں موسی کی ہیبت ،عیسی کی عزت وبہاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب موجود ہو گا
اسی طرح چھٹے اما م فرماتے ہیں : إنّ قائمنا اهل البیت علیهم السلام اذا قام لبس ثیاب علی وسار بسیرة علی علیه السلام (2) ہمارے قائم جب قیام کریں گۓ تو اپنے جد علی علیہ السلا م کے لباس زیب تن کریں گۓ اور انکی سیرت پر چلین گے
کسی اور روایت میں امام رضا (ص) انکی مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے ہیں : للإمام علامات یكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقی الناس و أشجع الناس و أسخی الناس و أعبد الناس .... (3) “ حضرت ولی عصر لوگوں میں سب سے زیادۃ دانا ؛حلیم ، بردبار اور پرہیزگار ہونگے وہ تمام انسانوں سے زیادہ بخشش کرنے والا؛ عابد اور عبادت گزار ہونگے .... ”
ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمہ کی اُمیدوں کو زند ہ کریں گے
قرآن مجید نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا ہے کہ پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیجھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحہ ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یہ کہ سماج سے ظلم وتربریت کی ریشہ کنی کرکے اسکی جگہ عدل و پاکدامنی کو رواج دینا تھا -لیکن ہم دیکھتے ہیں اب تک روۓ زمین پر یہ مقصد تحقق نہیں پایا ہے
--------------
(1):- کلینی :کافی ،ج1 ،ص 181 -
(2):- صافی گلپائی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ - علی بن محمد خزاز قمی: کفایةالاثر ص : 4
(3):- مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ -
جبکہ تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور ہدف حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء ؑکے مبارک ہاتھوں سے انکے آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے زریعے کفر وشرک کا ریشہ خشک ہو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس تاریک دورکا خاتمہ ہو کر عدل وتوحید کا سنہری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا - چناچہ سورہ توبہ کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل میں تمام شیعہ مفسرین نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ آیہ مبارکہ یہ ہے : يُرِیدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے پھونک مارکر بجھا دیں حالانکہ خدا اس کے علاوہ کچھ ماننے کے لۓ تیار نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو تمام کردے چاہیے کافروں کو یہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ لگے- هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی وَ دِینِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول(ص) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاہیے مشرکین کو کتنا ہی نا گوار کیوں نہ ہو ۔
ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، کہ آپکی شخصیت تنہا وہ ذات ہیں جو انبیاء وائمہ ؑکی کوششوں کو نتیجہ خیز بنائیں گی اور تمام آسمانی رہبرون کی اُمیدوں کو تحقق بخشیں گے اسی طرح پیغمبر اعظم (ص)انکے وجود اقدس کی برکت سے مؤمنین کے تشفی قلوب اور دلی تمناوں کے(جو کہ حقیقت میں تمام انبیاء اور ائمہ علیہ السلام کی بھی دلی آرزو تھی) پورا ہونے وآپکے علمی مقام و آپکے آنحضرت (ص)کے ساتھ نسبت اور آپ سے دشمنی رکھنے والوں اور تکلیف پہنچانے والوں کی سوء عاقبت بیان کو کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ قال رسول الله ص الأئمة بعدی اثنا عشر ثم قال كلهم من قریش ثم یخرج قائمنا فیشفی صدور قوم مؤمنین إلا أنهم أعلم منكم فلا تعلموهم ألا إنهم عترتی من لحمی و دمی ما بال أقوام یؤذونی فیهم لا أنالهم الله شفاعتی (1)
--------------
(1):- محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437
رسول ﷲ(ص) نے فرمایا : میرے بعد بارہ امام ہونگے ؛ پھر فرمایا سب کے سب قریش سے ہونگے پھر ہمارے قائم ظہور کریں گے جسے مؤمنین کے دلوں کو تشفی ملے گی ؛ لیکن یاد رکھنا وہ (یعنی بارہ امام )تم سے بہتر اور زیادہ علم رکھتے ہیں ؛کبھی انھیں سمجھانے کی کوشش نہ کرنا ! خبر دار !وہ لوگ میری عترت ؛میرے گوشت اور خون سے ہیں کیا حال گا ان قوموں کا جومجھے اذیت دے ان کے حق میں خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے ۔
اسی لیے روایت میں آیا ہے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ(ص) کی اطاعت اور معرفت ہے اور انکے ظہور کا انکار نبی اکرم(ص) کی رسالت کے انکار کرنے کا برابر ہے اگر چہ وہ شخص مسلمان ہو نے کی بنا پر انکی نبوّت کا اعتراف ہی کیوں نہ کرے ،چنانچہ آپ(ص) فرماتے ہیں : قال رسول الله ص القائم من ولدی اسمه اسمی و كنیته كنیتی و شمائله شمائلی و سنته سنتی یقیم الناس علی ملتی و شریعتی یدعوهم إلی كتاب الله ربی من أطاعه أطاعنی و من عصاه عصانی و من أنكر غیبته فقد أنكرنی و من كذبه فقد كذبنی و من صدقه فقد صدقنی إلی الله أشكو المكذبین لی فی أمره و الجاحدین لقولی فی شأنه و المضلین لأمتی عن طریقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ:.(1) قائم میرا فرزند ہے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشمائل میری شکل وشمائل جیسی ہوں گی اور انکی سنت میری سنت پر ہوگی لوگوں کو میرے دین اورمیری شریعت پر پلٹا دیں گے انھیں میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گے جو انکی اطاعت کرے اس نے میری اطاعت کی ہے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اس نے میری نافرمانی کی ہے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اس نے مجھے انکار کیا ہے اور جو انھیں جھٹلائے اس نے مجھے جھٹلایا ہے اور جس نے انکی امامت اور غیبت کی تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی ہے....
--------------
(1):- علی بن محمد خزاز:کفایةالاثر ص : 45
اس جیسے بہت سارے روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انکی معرفت اور اطاعت نہ صرف رسالت مآب(ص) کی معرفت اور اطاعت ہے اور انکا انکار نہ صرف آنحضرت (ص)کی رسالت کا انکار ہے بلکہ وعدہ الھی کا انکار ہے ،ُمقصد خلقت بشر یت جو کہ عبادت کاملہ کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا ہے اس مقصد کا انکار ہے
اور دوران غیبت میں ہمارا معاملہ دو مطلب سے خارج نہیں ہے یا یہ کہ ہم کلی طور پر امام زمانہ سے بے گانہ اور اجنبی ہو جائین تو اس صورت میں کل قیامت کے دن میں ہمیں اپنی حسرت کی انگلی مہنہ میں لیتے یہ کہنا ہو گا (یا حسرتا !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش ہم نےاس بارے میں کوتا ہی نہ کیا ہو تا ! ،یا تھوڑی بہت معرفت اور آشنائی امام کی اپنی اندر پیدا کریں ۔
اورامام زمانہ کی یہ معرفت جسے ہم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی ہے ، لہذا ایک مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمہ داری اپنے وقت کی امام اور حجت خدا کی معرفت اور پہچان ہے کہ جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظہ بھی اپنی جگہ ثابت نہیں رہ سکتی ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“ (1) اور بھی بہت سی روایات ہر زمانے میں امام زمانہ کے موجود ہونےکی ضرورت پر دلالت کرتی ہیں
۲: امام مہدی ؑ کی محبت
معرفت کا لازمہ محبت ہے یہ اس معنی میں کہ جب تک انسان کسی چیز کے بارے میں مکمل شناخت نہیں رکھتا اور اسکی خصوصیات کے بارے میں صحیح علم نہیں رکھتا اور اسکی عظمت وفضائل اسکے مقام و منزلت سے بے خبر ہو اس وقت اسکے ساتھ اپنے لگاو کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسکے اپنے دلی رابطہ اور علاقہ پیداکر سکتا ہے لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی چیزکی عظمت ؛ خصوصیات ؛ فضائل اور حقیقت سے واقف ہو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتی ہے ،اور اسکی طرف توجہ بڑھتی چلی جاتی ہے
--------------
(1):- صدوق : کمالالدین ج : 2 ص : 4۱۱-: اعلامالوری 425 -
اور دلی رابطہ روز بروز اوردن بہ دن بڑھتا اور مظبوط ہوتا جاتا ہے -اور خدا ورسول (ص)اور ائمہ اطہار ؑ کی محبت وہ شمع ہے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک و منور کر دیتا ہے ، اور انسانوں کو گناہوں ؛برائیوں سے نجات دیتا ہے کیونکہ معرفت محبت کا ستوں ہے اور محبت گناہوں سے بچنے کا عظیم ذریعہ اورتہذیب وتزکیہ نفس کی شاہراہ ہے لہذا وایات معصومین میں زمانہ غیبت کے دوران امام عصر ارواحنا لہ الفدء کی محبت پر خاص توجہ دینے پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے چناچہ رسول اکرم(ص) فرماتے ہیں :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا : اےمحمدؐ ! زمین پر کس کو اپنی امت پر اپنا جانشین بناکے آیاہے ؟ جبکہ خالق کائنات خود بہتر جانتے تھے ،میں نے کہا پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب کو ........ اچانک میں نے علی ابی طالب .......اور حجت قائم کو ایک درخشان ستارے کی مانند انکے درمیان دیکھا عرض کیا پروردگارا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ تمھارے بعد ائمہؑ ہیں اور یہ قائم ہے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیری دشمنون سے انتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکہ میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہوں
پس اگر چہ تمام معصومین کی محبت واجب ہے لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت حجت کی محبت خاص اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہے اسیلۓ آٹھویں امام ؑ اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا :قال لی أخی رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان یلقی اللّه وقد كمل ایمانه وحسی اسلامه فلیتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر ..(1) ”مجھ میرے بھای رسول خدل (ص)نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالی سے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوہاں ہے تو اسے چاہے کہ حضرت حجت صاحب الزمان کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ لہذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمہ داری امام عصر ارواحنا لہ فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھانا ہے اور ہمیشہ انکی طرف متوجہ رہنا ہے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں ہوۓ ہیں ،ہم یہاں پر چند اہم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے ہیں ۔
--------------
(1):- کافی :ج1 ،ص179 اور الغیبة ،نعمانی ص 141 اور کفایة الاثر ص 162 -
الف: امام مہدی ؑکی اطاعت اور تجدید بیعت
امام زمانہ ہ کی محبت کے من جملہ مظاہر اور اثار میں سے ایک ؛ حضرتؑ کی اطاعت پر ثابت قدم رہنا اور انکی بیعت کی ہمیشہ تجدید کرنا ہے ، اور یہ جا ننا چاہیے کہ امام اور رہبر اسکے ہر چھوٹے بڑے کاموں سےمطلع اوراسکے رفتار وگفتار کو دیکھتے ہیں،اسکے اچھے اور نیک کاموں کود یکھ کر انکے دل میں سرور آجاتاہے جبکہ اسکے برے اور ناشائستہ کاموں کو دیکھ کر انکو دکھ ہو تاہے ،اور دل غم وغصے سے بھر جاتا ہے اور یہ بھی معلوم ہونا چاہے کہ انکی رضا خدا او رسول(ص) کی رضا ہے اور انکی کسی پر ناراضگی خدا و رسول(ص) کی ناراضگی ہے ،اور میرا ہر نیک عمل ہر اچھی گفتار اور ہر مثبت قدم اطاعت کی راہ میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذہب اور اہل ایمان کی نسبت میرا احساس مسؤلیت؛ انکے ظہور میں تعجیل کا سبب بنے گا ۔ اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ اما م زمانہ ؑ کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت اور انکے لاۓ ہوۓ دین کی مکمل پیروی سے حاصل ہوتا ہے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نہ ہومحبت ومودت معنی ہی نہیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں ہو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھنا بہت ہی دور کی بات ہے چناچہ عربی ضرت المثل مشہور ہے (وانت عاصیُ ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ)یہ ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا اظہار کرتے ہو جبکہ جو جسے محبت کرتا ہے ہمیشہ اسی کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔
اسیلۓ صادق آل محمد د فرماتے ہیں : مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِیئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ (1)
--------------
(1):- الصراطالمستقیم ج : 2 ص : 14۹
جو شخص چاہتا ہے ،کہ امام زمانہ کے اصحاب میں سے ہو جائیں تو اسے چاہۓ کہ انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپناۓ اسی طرح آپ سے ہی دعاۓعہد کے یہ فقرات نقل ہوۓ ہیں :“اللہم انّی اُجدد لہ فی صبیحة یوم ہذا وما عشت فی ایامی ....... “ خدایا ! میں تجدید (عہد ) کرتا ہوں ہے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زندہ رہوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں ہے میں اس بیعت سے نہ پلٹوں گا اور ہمشہ تک اس پر ثابت قدم ہوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں میں سے قرار دۓ .....
بلکہ متعدد روایات سےیہ معلوم ہوتا ہے ، کہ اہل بیت اطہارؑ کی نسبت جو عہد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا ہے، وہ چھاردہ معصومینؑ کی اطاعت حمایت اور ان سے محبت کا وعدہ ہے
چنانچہ خود امام زمانہؑ نے جناب شیخ مفید کو لکھے ہوۓ نامے میں فرماتے ہیں :“ و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم (1) “اگر ہمارے شیعہ اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارے احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتے : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوتی ،اور ہمیں شیعوں سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کی کردار نے پوشیدہ کر رکھّا ہے جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ کافی ہے ۔
--------------
(1):- مجلسی بحار انوار ،ج52 ،ص 140 -
پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت ؛اطاعت؛ حمایت اورمحبت ہے ۔
اور جو چیز امام زمانہ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے ماننے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور کے شرائط میں سے ایک اہم شرط ہے ۔
اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امیر المومنین فرماتے ہیں : “إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سیعمی خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علی انفسهم (1) جان لو زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگوں کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجہ سے انھیں انکی زیارت سے محروم کر دۓ گا -
پس ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت ہے اوریہی شرط ظہور اور محبت کی شاہراہ ہے کہ جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نہیں ہوتی ۔
ب: امام مہدی کی یاد
امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں پیدا کرنے اور اسے رشد دینے کے لیۓ ضروری ہے کہ ہمیشہ آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طرف متوجہ رہیں یعنی بہت زیادہ توحہ کرنا چاہیے اور یقینی طور پر یہ اثر رکھتا ہے ،کیونکہ مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح ایک چیز کی طرف متوجہ رکھے تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اس چیز کے ساتھ رابطہ برقرارنہ ہو ۔
--------------
(1):- طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 -
اسی طرح اگر آپ نے اما م زمانہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا تو خود یہ کثرت توجہ ؛روحی کشش ایجاد کر دیتی ہے البتہ استعداد اورظرفیت کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ توجہ اپنا اثر خود بخود چھوڑتاہے اور روایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے ہے ،کہ یہ توجہ اور یاد لا محالہ متوجہ اور متوجہ الیہ کے درمیان رابطہ پیدا کر دیتی ہے اور وقت گزر نے کے ساتھ یہ رابطہ شدت اختیار کرجاتا ہے اور پہلے سے زیادہ مؤثر ہوتا جاتا ہے اور ہمیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاہیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھوں میں دو وقت صبح اوررات کے وقت اپنے دل کو حضرت بقیۃ اﷲ اعظم ارواحنا لہالفداءکی طرف متوجہ کریں چنانچہ معصومینؑ نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عہدپڑھنے دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑھنے کا حکم دیا ہے السلام علیك فی الیل اذا یغشی والنهار اذا تجلی ” سلام ہو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا اُجالا پھیل جاۓ(1) اور امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :جو شخص اس عہد نامہ کو چالیس صبح پڑھے گا وہ حضرت قائم علیہ السلام کے مددگاروں میں سے شمار ہو گا اور اگر وہ شخص انکے طہور سے پہلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام ؑکی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے ہر کلمہ کے عوض میں ہزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور ہزارگناہ محوکرے گا (2) اسی طرح ہر روز جمعہ کو امام زمانہ کی تجدید بیعت کرنا مستحب ہے تاہم آسمانی فرشتے بھی جمعہ کے دن بیت المعمور پرجمع ہوتے ہیں اور ائمہ معصومین ؑکے تجدید بیعت کرتےہیں-
اور امام مہدی ؑکے ساتھ اس روحی اور دلی توجہ کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے کےلیۓکچھ طریقہ کاربھی ہمیں بتاۓ ہیں ہم ان میں سے بعض موارد یہاں ذکر کرتے ہیں -
--------------
(1):- نعمانی :الغیبة ،باب 10 ،ص 141 -
(2):- پیام اما زمانہ :ص ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانہ کے متعلق تقریر کا ایک حصہ -
1 :امام مہدی ؑکی نیابت میں صدقہ دینااور نماز پڑھنا
امام زمانہ کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زندہ رکھنے اور اپنی دلی توجہ کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بہت ہی اہم ذریعہ انکی نیابت میں صدقہ دینا اور نماز پڑھنا بلکہ ہر نیک کام جس میں خدا کی رضا ہو انجام دینا ہے-ہماری ان سے دلبستگی وتوجہ اور انکی اطاعت وپیروی ایسی ہونی چاہیے جس طرح خدا و رسول ؐاور خود امام زمانہؑ اور انکے اجداد طاہرینؑ ہم سے چاہتے ہیں ہم جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقہ دین تو آنجناب کی حاجتوں کو اپنے حاجتوں پر مقدم اور انکی نیابت میں صدقہ دینے کو اپنے اوپر اور اپنے عزیزوں کے اوپر صدقہ دینے پر مقدم کرنا چاہے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پہلے انکے سلامتی اور تعجیل ظہور کے لیے دعا کرنی چاہیے،اسی طرح ہر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا ہے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکہ آنحضرت بھی ہماری طرف توجہ کرۓ اور ہم پر احسان کرۓ (1) اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ سرور کائنات(ص) فرماتے ہیں : “کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنی ذات سے زیادہ مجھ سے اور اپنی خاندان سے زیادہ میری خاندان کو نہیں چاہتا ہو ، اسی طرح اسکے نزدیک اپنی عترت سے زیادہ میری عترت اور اپنی ذات سے زیادہ میری ذات عزیزتر نہ ہو - اسی طرح متعدد روایات میں ائمہ معصومینؑ کو صلہ دینے کے بارے میں آیا ہے ،کہ ایک درہم امام کو صلہ میں دینا دوملین درہم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر ہے ؛ یا کسی اور روایت میں.آیا ہے ایک درہم جو اپنے امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پہاڑی سے بھی سنگین ہے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ (2) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے؛ زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقہ دینے کی تاکید کیا گیا ہے ۔ یقینا ان کاموں کا ایک اہم مقصد اورہدف اما م زمانہ کی یاد کو ہر وقت اپنے دل ودماغ میں زندہ رکھنا اوران سے اپنی قلبی و روحی توجہ کو تقویت دینا اور ان کی محبت میں اضافۃ کرنا ہے ، دوسری عبارت میں یہ کہ ایک حقیقی منتظر کی خصوصیت یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نہ دۓ ۔
--------------
(1):- مجلسی :ج ۱۰۲ ،ص ۱۱۱ –مصباح الزائر ص ۲۳۵ -
(2):- کشف المحجہ : فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ -
2: انکے فراق کی داغ میں ہمیشہ غمگین رہنا .
بعض معصومین ؑبھی امام زمانہؑ کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے ہوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے ہاں تک اما م زمانہ کی فراق میں مہموم وغمگین ہونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہے جیسا کہ امیر المؤمنین اپنے حقیقی چاہنے والوں کی اوصاف اور نشانیا ں یوں بیاں فرماتے ہیں
“ومن الدلائل ان يُری من شوقه مثل السقیم وفی الفؤاد غلائلٌ
ومن الدلآئل ان یری من اُنسه مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ
ومن الدلآئل ضحكه بین الوری والقلب مخزون كقلب الثاكل "
انکی نشانیوں، میں سے ایک یہ ہے کہ شدت شوق کی وجہ سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل درد سے پھٹ رہا ہو گا ۔
انکی دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ کہ ہر وہ چیزجو انہیں محبوب سے دور کر دیتی ہے اس سے بھاگ جاتے ہونگے ۔
اور تیسری نشانی یہ ہے کہ دیکھنے میں خندان نظر آئیں گۓ جبکہ انکا دل اس شخص کی طرح محزون ومغموم ہو گا جسکا جوان بیٹا اس دنیا سے فوت کرگیا ہو ۔
لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصرؑ کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر تی ہیں انکو یاد کرتے ہوۓ آنسو بہانا گریہ وزاری کرنے کی بہت ساری فضیلت بیاں ہوئی ہے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے چنانچہ چھٹے امام اس بارے میں فرماتے ہیں : إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِیهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِیبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِیناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّی يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِینَ (1) ”
--------------
(1):- کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ – اور،ج ۱ ص ۵۳۸ -
اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام ؑسالوں سال پردہ غیب میں ہونگے اور تم لوگ سخت امتحان کا شکار ہوگا یہاں تک انکے بارے میں کہا جاے گا کہ وہ فوت کر گیا ہے یا انھیں قتل کیا گیا ہے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں ہونگے.......
کسی دوسرے حدیث میں جسے جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی ہے ،کہتے ہیں : قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَ الْمُفَضَّلُ بْنُ عُمَرَ وَ أَبُو بَصِیرٍ وَ أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ عَلَی مَوْلَانَا أَبِی عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع فَرَأَيْنَاهُ جَالِساً عَلَی التُّرَابِ وَ عَلَيْهِ مِسْحٌ خَيْبَرِيٌّ مُطَوَّقٌ بِلَا جَيْبٍ مُقَصَّرُ الْكُمَّيْنِ وَ هُوَ يَبْكِی بُكَاءَ الْوَالِهِ الثَّكْلَی ذَاتَ الْكَبِدِ الْحَرَّی قَدْ نَالَ الْحُزْنُ مِنْ وَجْنَتَيْهِ وَ شَاعَ التَّغَيُّرُ فِی عَارِضَيْهِ وَ أَبْلَی الدُّمُوعُ مَحْجِرَيْهِ وَ هُوَ يَقُولُ سَيِّدِی غَيْبَتُكَ نَفَتْ رُقَادِی وَ ضَيَّقَتْ عَلَيَّ مِهَادِی وَ أَسَرَتْ مِنِّی رَاحَةَ فُؤَادِی (1) ایک دن میں؛ مفضل بن عمیر ؛ابو بصیر اور ابان بن تغلب ہم سب مولا امام صادق کی خدمت میں شرفیاب ہوۓ تو آپکو اس حالت میں دیکھا کہ آپ فرش کو جمع کرکے خاک پر تشریف فرما ہیں ، جُبہ خیبری زیب تن کیۓ ہوۓ ہیں -جو عام طور پر مصیبت زدہ لوگ پہنتے ہیں -،چہرہ مبارک پر حزن واندوہ کی آثار نمایاں ہیں اور اس شخص کی مانندبے تابی سے گریہ کر رہے ہیں کہ جس کا جوان بیٹا فوت کر چکا ہو ،آنکھوں سے آنسوں جاری ہے ،اور زبان پر فرما رہے ہیں اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے آنکھوں سے ننید اُڑا لی ہے اور مجھ سے چین چھین لی ہے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتہا کر دی ہے .......روایت بہت ہی طولانی ہے اور بہت ہی ظریف نکات بھی موجود ہیں جو چاہتے ہیں تو مراجعہ کریں
پس ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ بھی امام زمان علیہ السلام کی غیبت سے نگران اور انکے شوق دیدار میں بے تاب وگریاں تھے۔
--------------
(1):- کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶ باب غیبت - ---- کمالالدین ج : 2 ص 35: بحارالانوار ج : 51 ص : 219
۳ : علوم ومعارف اہل بیتؑ کو رواج دینا
علوم ومعارف اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت اور ترویج؛حقیقت میں اہل بیت اطہار ؑکے امر کی احیا کرنے کے مصادیق میں سے ہے جس کے بہت تاکید کیا گیا ہے“اور منتظرین کی ایک اہم ذمہ داریوں میں سے بھی ہےجس طرح روایت میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے آپ فرماتے ہیں:تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِی زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِیثِنَا وَ أَحَادِیثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَی بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِیمٌ ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکہ تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زندہ اورہماری احادیث کی یاد آوری ہوتی ہے،اور ہماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمہربان ہونے کا سبب بنتی ہیں پس تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پرعمل کیا تو تم کامیاب ہو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہلاک ہو جاؤ گۓ ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا ”(1)اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبہ حرّانی نے چھٹے امام ؑسے نقل کیا ہے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے ہیں:وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم یخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم(2)اور ایک گروہ وہ ہے جو ہمیں دوست رکھتا ہے،ہمارے کلام کی حفاظت کرتا ہے،ہمارے امرکی اطاعت کرتا ہے اور ہماری سیرت اور فعل کی مخالفت نہیں کرتا ہے، وہ ہم سے ہے اور ہم ان سے ہیں عصر غیبت میں امام زمانہ کی بہترین خدمت جس کی امام صادق علیہ السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پہنچانا ہے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت ہے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود فرماتا ہے وَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِیز٭ (3)بے شک اﷲ اسکی مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور ہر چیز پر غلبہ رکھنے والاہے
--------------
(1):- وسائلالشیعة ج : 16 ص : 34۶ بحارالانوار ج : 71 ص : 35۸
(2):- تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -
(3):- سورہ حج ۴۰ -
۴:فقیہ اہل بیت ؑکی اطاعت اور پیروی
امام زمانہ ؑکی غیبت سے یہ ہرگز مراد نہیں کہ پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا ہو یا انکی ہدایت ورہبری کا کچھ انتظام نہیں کیا ہو ؟،یہ اسلئے کہ اگر چہ حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی ہیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار اہل بصیرت پر مخفی نہیں ہے (بنفسی انت من مغیب ٍِ لم یخل منّا ، بنفسی انت من نازح ِ ما نزح عنّا ) (1) “ قربان ہوجاوں آپ پر پردہ غیبت میں ہیں لیکن ہمارے درمیاں ہے ،فدا ہو جاوں آپ پر ہماری آنکھوں سے مخفی ہیں لیکن ہم سے جدا نہیں ہے ”
اسیلئے معصومؑ فرماتے ہیں :وإن غاب عن الناس شخصه فی حال هدنة لم یغب عنهم مثبوت علمه (2) ”اگر چہ غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کی نظروں سے مخفی ہونگی (3) لیکن انکے علمی آثار اہل بصیرت پر عیان ہوں گے ۔ یعنی اسکا مطلب یہ ہے کہ خود امام لوگوں کے حالات سے آگاہ ہین اور جو علوم علماء اور فقہاء کے نزدیک احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود ہیں اوہ بہی انکے ہی آثار ہین- لوگ اگر چہ انکے نورانی چہرے کی زیارت سے محروم ہیں اور مستقیم انکی اطاعت نہیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ؛ ولی فقیہ اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر سکتے ہیں ،کہ جنکی اطاعت کا خود معصومین علیہم السلام نے حکم دیا ہے “ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَی هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (4). اور فقہامیں سے وہ فقیہہ جو اپنے دین کا پابند ہو، نفس پر کنڑول رکھتا ہو ، نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار ہو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب عوام پر واجب ہے ۔
--------------
(1):- دعای ندبہ کا ایک فقرہ -
(2):- صافی گلپائی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ -
(3):- البتہ واضح رہے یہ غیبت کےپہلی معنی کی بنیاد پر ہے
(4):- مجلسی :بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائلالشیعة ج : 27 ص : 13
یا خود امام زمانہ علیہ الصلاۃ والسلام اس بارے فرماتے ہیں : أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِیهَا إِلَی رُوَاةِ حَدِیثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِی عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم (1)اور درپیش مسائل میں ہمارے احادیث کے جاننے والے (فقہاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت ہوں اسی طرح وہ تمھارے اوپر میری جانب سے حجت ہیں یعنی اگر حجت خدا غیبت میں ہیں تو لوگوں کوبغیر حجت کے رہا نہیں کیا گیا ہے ،بلکہ فقہاء ان پر حجت ہیں انکی پیروی خدا اورسولؐ کی پیروی ہے ۔
فَإِنِّی قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَی اللَّهِ وَ هُوَ عَلَی حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه. ”(2)اور ہم نے انھیں تمھارے اوپر حاکم بنایا ہے ،پس وہ(فقیہ )جو حکم دیتا ہے وہ ہمارے حکم سے دیتا ہے جو ان سے قبول نہ کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی کہ ہے ،اور ہمیں رد کیا ہے اور جو ہمیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا ہے جو حقیقت میں خدا سے شرک لانے کی حد میں ہے یعنی انکی نافرمانی ہمارے نافرمانی ہے اورہماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک ہے اور اھل بیتؑ نے اپنے مانے والے شیعوں کو ابلیس اور اسکے کارندوں کی شر سے بچا کر رکھنے اور انکے ععقیدتی و ایمانی حدود کی نگہبانی کو علماء ،فقہاء کی سب سے بڑی ذمہ داری بتائی ہے اور فرمایا ہے : علماء شیعتنا مرابطون فی الثغر الذی یلی إبلیس و عفاریته یمنعونهم عن الخروج علی ضعفاء شیعتنا و عن أن یتسلط علیهم إبلیس و شیعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شیعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه یدفع عن أدیان محبینا و ذلك یدفع عن أبدانهم ”(3)ہمارے شیعوں کے علماء ان حدود کے محافظ اور نگہبان ہیں کہ جن حدود سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل ہوتے ہیں اوریہ علماء ہمارے کمزور شیعوں پر شیطان کے غلبہ آنے اور انھیں بے ایمانی کی طرف سوق دینے سے بچاتے ہیں ،
--------------
(1):- """" """"ج 53 ،ص 181 - الغیبةللطوسی ص : ۲۹۱
(2):- کلینی :اصول الکافی ج : 1 ص :۶۷ - تہذیبالاحکام ج : 6 ص : 21۸
(3):- الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ، الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵ : عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ .
آگاہ رہو جو شخص ہمارے شیعوں میں سے اس ذمہ داری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنوں سے جنگ کرنے والے مجاہدین سے ہزار ہزار بار زیادہ ہے چونکہ علماء ہمارے مانے والے محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے ہیں جبکہ مجاہد ین انکے بدن اور جسم کی دفاع کرتے ہیں” اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا کہاں ہے ہیں ایتام آل محمد کی کفالت کرنے والے جو انکی غیبت کے دوران انکی کفالت کرتے تھے ( يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ(ص) النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم (1)
پس ائمہ اطہار ؑکے ان نورانی کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ عصر غیبت میں فقہا ء ؛ علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انکے نزدیک کیا حیثیت ہے اور انکا کہنا نہ مانا انکے حق میں جفا اور امام کے نزدیک انکے مقام کا خیال نہ رکھنا اس شخص کو کس مقام میں لا کر کھڑا کردیتا ہے اگر چہ افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ ہمارے معاشرے میں ہم میں سے بعض خوستہ یا ناخواستہ دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی زد میں آکر امام زمانہ کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے اور گستاخی کرنے کی جرئت کرتے ہیں جبکہ شیطان اور پیروان شیطان اپنی تمام تر طاقتوں سمیٹ یہ کوشش کررہیں ہیں کہ انھی پڑوپکنڈوں اور افواہوں کے ذریعے مجھ جیسے کمزور مؤمنین کو علماء سے فقہاء سے دور کیا جاۓ تاکہ انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان ہو جاۓ ، اور ہم خود بھی جانتے ہیں کہ جو لوگ علماء اور ولایت فقیہ سے کٹ جاتے ہیں حقیقت میں وہ دین اور صراط مستقیم سے کٹ جاتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں-نعوذ باﷲ من ذلک - خدا ہمیں بچا کے رکھے -
پس ان روایات سےمعلوم ہوتا ہے عصر غیبت میں منتظریں کی ایک اور اہم ذمہ داری علماء ،فقہاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کہنا اور انکے نقش قدم پر چلنا ہے ۔جو کہ حقیقت میں خط ولایت کے ساتھ متمسک رہنا اور صراط مستقیم پر چلنا ہے - خدایا ہمیں ہر دور میں اپنی حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما - آمین !ثم آمین!
--------------
(1):- الصراطالمستقیم ج : 3 ص۵
۵: برادران ایمانی کے ساتھ ہمدردی اور معاونت
ائمہ معصومینؐ کے ارشادات کے مطابق ہر دور کے امام کو اپنے ماننے والے مؤمنین پر ایک مہربان اور فداکار باپ کی حیثیت حاصل ہے ، اور تمام مؤ منین کو انکے فرزندی کا شرف حاصل ہے اور یہی وجہ ہے امام زمانہ عجل اﷲ فرجہ کے دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا ہے ، يُنَادِی مُنَادِی رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِینَ هُمْ أَئِمَّتُهُم (1) اورکسی مؤمن بھائی کے ساتھ احسان وہمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانہ کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں ہمدردی سے پیش آنے اسی طرح کسی مؤمن بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتنائی سے پیش آنے کو امام زمانہؑ پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی سے پیش آنے کے برابر شمار کیا گیا ہے ۔
لہذا منتظرین کی ایک اور بہت ہی اہم ذمہ داری عصر غیبت میں ہر ممکنہ راستوں سے برادران ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریوں کو حل کرنے اور انکی ضروریات پورا کرنے کے لیے جد وجہد کرنا ہے - چنانچہ اسی اجتماعی ذمہ داری کی اہمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا و رسول اور انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت کو بیان کرتے ہوۓ جناب شیخ صدوق نے سورہ عصر کے تفسیر میں امام صادق سے نقل کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں : (والعصر انّ الإنسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانہ ہے اور(إنّ الإنسان لفی خسر) سے مراد ہمارے دشمن ہیں اور (إلاّ الذین آمنوا )سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنہون نے ہماری آیات کے زریعے ایمان لائیں ہونگے - اور ( وعملوا الصالحات )یعنی برادران دینی کے ساتھ ہمدردی اورتعاون کرتے ہیں (وتواصوا بالحق )یعنی امامت اور (وتواصوا بالصبر )
--------------
(1):- مستدرک الوساةل :ج 17 ص 318
زمانہ فترت یعنی وہی غیبت کا زمانہ ہے (جس میں امام غائیب پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس راہ مین پیش آنے والی مشکلات پر صبر کرتے ہیں ) (1) یعنی اس سورہ مبارکہ میں نجات یافتہ مؤمنین سے مراد وہ مؤمنین ہیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسماندہ ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےہم دم اور فریاد رس رہے ہیں ۔
اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق اور امام کاظم دونوں سے روایت ہے فرماتے ہیں : ُ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَی زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا (2) “جو شخص ہم اہل بیت سے تعاون کرنے یا صلہ کرنے سے معذور ہو اسے چاہیے ہمارے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرے تو اسے ہمارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا ہو گا،اسی طرح اگر ہماری زیارت سے محروم ہیں تو ہمارے دوستوں اوراللہ کے صالح بندوں کی زیارت کریں تو خدا اسے ہماری زیارت کرنے کا ثواب عطا کرے گا
چنانچہ اما م موسی کاظم سے روایت ہے فرماتے ہیں : مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِی حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَی سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَی قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَ کی ولایت خدا کی ولایت سے متصل ہے )لیکن اگر اسے رد کر لے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار يْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِی قَبْرِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا (3)“کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نہ کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ خدا کی طرف سے رحمت ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر دے تو اسے ہماری ولایت کے ساتھ متصل کیا ہے اور بے شک اسے خدا کی ولایت حاصل ہوئی ہے (چونکہ اہل بیت اطہارؑ کی ولایت خدا کی ولایت کا ایک حصّہ ہے لہذا جو اہل بیت ؑؑ اطہار کی ولایت کے دائرے میں داخل ہو جائے وہ خدا کی ولایت میں آگیا ہے )
--------------
(1):- صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -
(2):- طوسی ،تہذیب ج ۶ ،ص۱۰۴ –اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ -
(3):- کلینی: اصول الکافی ج : 2 ص :۶ 19
لیکن اگر اسے رد کر دے جبکہ وہ اس شخص کی حاجت پورا کرنے کی توانائی رکھتا ہو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں آگ سے بنائے ہوئے ایک سانپ کو اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈنستا رہے گا چاہیے اسے خدا معاف کرے یا نہ کرے اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نہ کرے تو اسکی حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو جاۓ گی-
اسی طرح متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نہ رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نہ آنا اور اسکے ساتھ تعاون نہ کرنا ائمہ علیہم السلام کے ساتھ تعاون نہ کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کےبرابر جانا گیا ہے چنانچہ ابو ہارو ن نے چھٹے امام سے نقل کیا ہے کہتا ہے : قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَی إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِی فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِی قَدْرَ مِیلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِینَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ”(1) ایک دفعہ امام صادق نے کچھ لوگ جوآپ کے پاس بیٹھے ہوۓ تھے او رانکے ساتھ میں بھی تھا ،ان سےکہا تمھیں کیا ہو گیا ہے ہماری حرمت کا خیال نہیں رکھتے ہو ،تو اہل خراسان کا رہنے والا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کی بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا ہاں انھی میں سے ایک تم بھی ہو جو ہمارے لاج نہیں رکھتے ،اس شخص نے دوبار ا کہا میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ آپکی لاج نہ رکھوں ،فرمایا چپ ہو جاؤ کم بخت کیا تم نے اس شخص کی آواز نہیں سنی تھی اس وقت جب ہم جعفہ کے نزدیک تھے اور وہ تم سے کہ رہا تھا کہ مجھے صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا کہ قسم میں بہت ہی تھکا ہوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر بھی اسکی طرف نہیں دیکھا اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی ہے اور کوئی شخص کسی مومن کی استخفاف کرے اسنے ہمارے بے اعتنائی کہ ہے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی ہے ۔
--------------
(1):- کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -
اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر سے نقل کرتے ہیں : و نحن جماعة بعد ما قضینا نسكنا، فودعناه و قلنا له أوصنا یا ابن رسول الله. فقال لیعن قویكم ضعیفكم، و لیعطف غنیكم علی فقیركم، و لینصح الرجل أخاه كنصیحته لنفسه.... ، و إذا كنتم كما أوصیناكم، لم تعدوا إلی غیره، فمات منكم میت قبل أن یخرج قائمنا كان شهیدا، و من أدرك منكم قائمنا فقتل معه كان له أجر شهیدین، و من قتل بین یدیه عدوا لنا كان له أجر عشرین شهیدا. (1) “کہ ہم نے مناسک حج اکٹھے بجھا لا نے کے بعد جب امام سے الگ ہونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول ہمارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی ہے قدرت ومقام رکھتا ہے اسکی ذمہ داری ہے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار ہے فقیروں اور بے کسوں پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اوراپنے مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواہی سے پیش آے جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواہ ہے .....اور اگر تم نے ہماری نصیحت پر عمل کیا تو غیروں میں سے شمار نہیں ہوگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپہلے مر جاۓ تووہ شہید کی موت مرا ہے ،اور جو اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرے تو اسے دو شہید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ ہوتے ہوے ہمارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیس ۲۰ شہید کا اجر دیا جاۓگا- پس ان روایات سے بخوبی یہ واضح ہوتا ہے کہ منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمہ داری ہے اور اس اجتماعی ذمہ داری کی کیا اہمیت ہے کہ جس کا خیال رکھنا ہم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضہ ہے -
۶: خود سازی اور دیگر سازی
منتظرین کی ایک اور اہم ذمہ داری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی اور ہم نوع کی تربیت بھی ہے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اہم دینی وظیفہ ہونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین انسانی خدمات میں سے بھی شمار ہوتا ہے
--------------
(1):- امالی طوسی ،ص ۲۳۲ –اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ -
اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر ؑاور انکے جان بہ کف آصحاب تاریخ انسانیت کے پرہیز گار ؛متقی اور صالح ترین افراد ہونگے چنانچہ انکے توصیف میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے : وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون٭ (1) اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔
اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر ؑکے آصحاب وہ لوگ ہونگے جنھیں خدا ورسولؐ اور ائمہ معصومینؑ کی صحیح معرفت حاصل ہوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق؛ نیک کردار کے مالک ؛عملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؛ دستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومینؑ کے سامنے سر تسلم خم ہونگے ۔
چنانچہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام نھج البلاغہ میں انکے توصیف میں فرماتے ہیں : وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِیهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِیحُ الْهُدَی وَ أَعْلَامُ السُّرَی لَيْسُوا بِالْمَسَايِیحِ وَ لَا الْمَذَايِیعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه. “(2)اخری زمانہ وہ زمانہ ایسا ہو گا جس میں صرف وہ مؤمن نجات پاسکے گا کہ جو گمنام اور بے شر ہو گا مجمع اسے نہ پہچانے اور غائب ہو جاۓ تو کوئی اسکی تلاش نہ کرۓ یہی لوگ ہدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ نشانیان منزل ہوں گۓ نہ ادھر ادُھر لگاتے پھرین گۓ اور نہ لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریں گے ؛ ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا
--------------
(1):- انبیاء :۱۰۵ -
(2):- نہج البلاغہ ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمہ سید ذیشان حیدر جوادی -
اسی طرح صادق آل محمد سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : “جو شخص چاہتا ہے کہ حضرت قائم ؑکے اصحاب میں سے ہوں اسے چاہئے انتظار کرنے کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وہ اس حالت میں انکے قیام سے پہلے مر جاۓ اور بعد میں ہمارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا ہو. (1)اور خود معصومینؑ کے فرمان کے مطابق مبغوض ترین فرد وہ شخص ہے جو مؤمن اور امام زمانہ کے منتظر ہونے کا دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انکے دیے ہوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ چنانچہ اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے ہوۓ امام ذین العابدین فرماتے ہیں : لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَی وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَی اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِی بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِی بِأَعْمَالِهِ.”(2) کسی کو عربی اور قریشی ہونے کی بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نہیں ہے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نہیں ہے الا یہ کہ تقوای اختیار کرے اور کوئی عمل نہیں ہے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نہیں ہے سواۓ تفقہ کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ ہے ) پس ہو شار رہو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وہ ہے جو ہماری ملت اور مذہب پر ہو لیکن عمل میں ہماری پیروی واقتدا ء نہ کرے۔ اسی طرح امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّی يَكُونَ لِجَمِیعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِیداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ (3)”ہم کسی کو مومن نہیں جانتے جب تک وہ ہماری مکمل پیروی نہ کرۓ اور یہ جان لو ہماری پیروی پرہیز کاری اور تقوای اختیار کرنے میں ہے ،پس اپنے آپکو زہد و تقوای کے ذریعے زینت دو تاکہ خدا تمھیں غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوای کے ذریعے ہمارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکہ خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-
--------------
(1):- غیبۃ نعمانی :ص ۱۰۶
(2):- کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ -
(3):- کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ -
پس ان روایات اور دوسری متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم نے ان مقدس ہستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا ہے تو وہ ذوات بھی ہم سےیہ توقع رکھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہم عمل وکردار میں انکے نقش قدم پر چلیں اسی لیے معصومینؑ فرماتے ہیں :کہ تم ہمارے لئے زینت کا باعث بن جاؤ ننگ وعار کی باعث مت بنو (1)
۷: شبہات اور بدعتوں کا مقابلہ
زمان غیبت میں ہم سب کی خصوصاً علماءاور بیدار طبقے کہ ایک اہم فرائض معاشرے میں خود غرض یا سادہ لوح دوستوں کے ہاتھوں مختلف قسم کےبدعتوں اور ان شبھات کا مقابلہ کرنا ہے جو امام زمان ہ کی غیبت کی وجہ سے انکے بارے میں وجود میں آئی ہیں چنانچہ امام صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں : إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِی فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِیهِمْ وَ الْوَقِیعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِی الْفَسَادِ فِی الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِی الْآخِرَةِ ”(2)میرے بعد اہل تریدد (یعنی جو ائمہ کی ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظہار کرے)اور اہل بدعت (یعنی دین میں نئی چیز ایجاد کرنے والا جسکا دین سے کوئی ربط نہ ہو)کو دیکھیں تو ان لوگوں سے اپنی برائت و بیزاری کا اظہار کرو ،اور اس طرح انکے خلاف پروپکنڈہ کرو کہ آیند ہ کوئی اسلام میں اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نہ کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور ہو جائیں اور انکی بدعتوں کو نہ اپنائیں اگر ایسا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنہ دیا جاۓ گا اور تمھارے درجات کو بلند کر ے گا ۔
اسی طرح بعض شبھات دشمنوں نے خود امام زمانہؑ کے بارے میں لوگوں کے حضرت مہدی پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا ہے جیسا کہ آج کل نٹ پر ۱۰ ہزارسے زیادہ شبھات انکے متعلق دیا گیا ہے؛ تو علماء کی ذمہ داری ہے کہ ان شبھات کا مقابلہ کریں
--------------
(1):-کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ -
(2):- کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴
اور بطوراحسن جواب دیں اور لوگوں کو امام زمانہ ہ کے مقدس وجود کی طرف جذب ہونے کا زمینہ فراہم کریں لہذا ہماری اس اہم زمہ داری اور عصر غیبت میں رونما ہونے والے شبھات کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ امام صادق فرماتے ہیں :..... فإیاكم و الشك و الارتیاب و انفوا عن أنفسكم الشكوك و قد حذرتكم فاحذروا أسأل الله توفیقكم و إرشادكم (1) خبردار شک وریب سے پرہیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظہور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باہر نکال دو میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا ہے لہذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رہو (چونکہ اس امر میں شک صراط مستقیم میں شک کے برابر ہے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور ہدایت کی دعا کروں گا-
اسی طرح رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں :......... یا جابر إن هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوی عن عباد الله فإیاك و الشك فیه فإن الشك فی أمر الله عز و جل كفر (2) اے جابر ..... انکی غیبت اورظہور میں شک کرنا خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر ہے -
اورہم سب جانتے ہیں کی آج کا دور ایسا دور ہے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبہات اور غلط پروپکنڈوں کے ذریعے لوگوں کو عقیدہ انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانہ ؑکے مقدس نام پر مؤمنین کے انکی نسبت صادقانہ عقیدے سے سؤء استفادہ کرنے اور مختلف قسم کی دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے ہوۓ ہیں لہذا علماو اور ذمہ دار افراد کی ذمہ داری ان دونوں حدود پر دشمن کے مقابلہ کرنا ہے
--------------
(1):- الغیبةللنعمانی ص 150 ،ح ۸ -
(2):- صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ -
۸:بے صبری سے پرہیزکرنا
اس میں کوئی شک نہیں کہ عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے ہجوم لانے کا زمانہ ہے اور مومنین سے مختلف قسم کی سختیوں اور گرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکہ اس طرح نیک وبد ؛صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز ہو جاۓ اور یہ ایک سنت الہی ہے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نہیں بلکہ گزشتہ امتوں سے لیا گیا ہے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا ۔ چناچہ اسی سنت الھی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے : ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنینَ عَلی ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّی يَمیزَ الْخَبیثَ مِنَ الطَّيِّبِ.....٭ ”(1) اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص ہے نہیں رکھا جاۓ گا ،یہاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا ہو جاۓ ۔ اسی طرح سورہ عنکبوت کی آیت نمبر۲ میں فرماتا ہے : أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذینَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذینَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبینَ (2)“کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے کہ وہ یہ کہے کہ ہم ایمان لے آۓ ہیں اور انکا امتحان نہیں ہو گا ٭ بشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اﷲ تو بہر حال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں ”
--------------
(1):- سورہ آل عمران :۱۷۹ -
(2):- سورہ عنکبوت :۲ -۳ -
اورناطق قرآن علی ابن ابی طالبؑ اسی بارے میں فرماتے ہیں :..... ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِی ذلِكَ لَآیاتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِین(1) لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نہیں کرتا لیکن کبھی یہ ضمانت نہیں دیا ہے کہ تم سے امتحا ن بھی نہیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا ہے ،یوں فرماتا ہے “ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان ہیں اور ہم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے ہیں ”-
اور انھیں نشانیوں کی طرف اشارہ کرتے ہو ۓ اما م صادق فرماتے ہیں :ہمارے قائم کے ظھور سے پہلے مومنین کے لئے خدا کی جانب سے کچھ نشانیاں ہیں ،عرض ہوا یا ابن رسول اﷲ وہ نشانیاں کیا ہیں ؟ فرمایا وہ نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر ہوئی ہیں اور اس آیت کی تلاوت کی “وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرینَ٭ “(2)اور یقیناً ہم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر(ص) آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پہلے مومنین سے سلاطین جور سے ترس ،منگائی ،گرانی کی وجہ سے بھوک ؛گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و ناگہانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یہ ہے اس آیت کی تاویل جسکی تاویل (وَ ما يَعْلَمُ تَأْویلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب (3) سواۓ خدا اور راسخین فی علم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔
--------------
(1):- نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۳ اردو ترجمہ سید ذیشان حیدر -
(2):- بقرہ :۱۵۵ -
(3):- آل عمران :۷ -
اور امام زمانہؑ کے طول غیبت کے دوران مختلف قسم کےسختیوں ا ورمصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیںَّ: قَالَ(ص) طُوبَی لِلصَّابِرِینَ فِی غَيْبَتِهِ طُوبَی لِلْمُقِیمِینَ عَلَی مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِی كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ...(1) خوش ہیں وہ لوگ جو اس کی غیبت کے زمانہ میں صبر سے کام لیں خوش ہیں وہ لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رہیں،ان ہی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ،اور وہ لوگ غیب پر ایمان رکھتے ہیں.اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجہ سے پیش آنے والی مصیبتوں واذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا ہے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم ہونے کا حکم دیا ہے جیسا کہ شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے حضرت نے فرمایا :
كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ (2) ظہور کے وقت تعین کرنے والے ہلاکت میں ہوں گے لیکن قضاوقدر الہی کے سامنے تسلیم ہونے والے نجات پائیں گے
۹: جوانوں کی مخصوص ذمہ داری
اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اہمیت اور مخصوص مقام حاصل ہے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور ہمیشہ اچھی نگاہوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا ہے جس طرح رسول اکرم (ص)کا فرمان ہے :اوصیكم بالشباب خیراً فإنّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثنی بالحق بشیراً و»نذیراً فحالفنی الشباب وخالفنی الشیوخ .تمھیں وصیت کرتا ہوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل ہوتے ہیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بھیجا تو یہ جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکہ عمر رسیدہ افراد نے میری مخالفت کی ۔
--------------
(1):- مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ -
(2):- الکافی ج : 1 ص : 368
پس کلام رسول پاک (ص) سےہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جوانوں کو بری نگاہوں سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ انکے بارے میں نیک سوچ رکھنا چاہیے اور تاریخ اسلام اس بات پر زندہ گواہ ہے کہ جب نبی اکرم(ص) نے ذوالعشیرمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پہلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پہلے آنحضرت(ص) کی دعوت پر لبیک کہا وہ علی ابن ابی طالب ۱۰ سالہ نوجوان تھے جبکہ بزرگان قریش آخری دم تک آپ کے مخالفت کرتے رہیں ۔
جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یہی کافی ہے کہ خود امام زمانہؑ ظہور کریں گے تو آپ جواں ہونگے جیسا کہ امیر مومنین فرماتے ہے-مہدیؐؑ قریش کے خاندان کا ایک دلیر ؛ شجاع اور تیز ہوش جوان ہونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظہور کریں گے - اسی طرح امام زمانہ ؑکا خاص سفیر نفس زکیہ جنہیں رکن مقام کے درمیان شہید کیا جاۓ گا ایک جوان ہو ں گئے ـ اما م صادق اس بارے میں فرماتے ہیں :امام زمانہ کے ظہورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب ہونگے تاکہ امام ؑکے پیغام کو اہل مکہ تک پہنچا ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکہ کے حکمران اسے رکن و مقام کے درمیان شھید کریں گے (1) اسی طرح مختلف روایا ت میں آیا ہے کہ امام عصر کے ۳۱۳ اصحاب میں سے بہت ہی کم افراد کے سب جوان ہونگے -چناچہ امیر مومنین فرماتے ہیں - امام مہدی ؑکے اصحاب سارے جوان ہونگے ان میں کوئی بھوڑے نہیں ہونگے سواۓ آنکھ میں سرمہ اور کھانےمیں نمک کی برابرکے : أصحاب المهدی شباب لا كهول فیهم إلا مثل كحل العین و الملح فی الزاد و أقل الزاد الملح (2) اور کتنا ہی کم ہو تا ہے کھانے میں نمک کی مقدار ۔
--------------
(1):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۶۴ -
(2):- طوسی الغیبہ ،ص ۴۷۶ اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -
اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اما م زمانہؑ کے غیبی ندا پر سب سے پہلے لبیک کہنےوالے اکثر جوان ہی ہونگے امامؑ صادق فرماتے ہیں: امام ؑکے ظہور کرنے کے بعد جب انکا آسمانی ندا انکے کانوں تک پہنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کہیں گے کہ اپنے اپنے چھتوں پر آرام کررہے ہونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریں گے اور صبح ہوتے ہوتے اپنے امامؑ کی زیارت سے شرف یاب ہونگے - (1)
سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟
جواب : کثرت روایات اور مستند تاریخی حوالے یہ یہ بات ثابت ہے کہ غیبت صغری میں حضرت مھدی کے نائبین خاص کے ذریعہ آپکے مانے والے آپ سے رابطہ برقرار کیے ہوے تھے او ر ان میں سے بعض افراد امام کے حضور میں شرف یاب بھی ہوئے ہین ۔لیکن غیبت کبری میں یہ رابطہ ختم ہو گیا ہے اور امام عصر سے عام طور پر ملاقات کرنا عادتا ً ناممکن ہے چو نکہ بنا اور وظیفہ آپکے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہنا ہے لیکن اسکے باوجود عقلاً اور شرعاً دونو ں اعتبار سے آپکی دیدار سے مشرف ہونے میں کوئی مانع نہیں ہے جسکے تقریباً تمام علماء متقدمیں اور متاخریں سب متفق ہیں ۔جیسا کہ شیخ طوسی قدس سرہ فرماتے ہیں : ہم ممکن سمجھتے ہیں کہ بہت سے اولیا اور انکی امامت کے ماننے والے حضرات انکی خدمت میں پہونچیں اور انکی ہستی سے استفادہ کریں (2) اسی طرح سیّد ابن طاووس علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : امام کی زیارت کے راستے ہر اس شخص کے لیے کھلا ہوا ہے جسے خدا اپنے بے انتہا احسان اور انکی زیارت عنایت فرمائے(3) : اور تاریخ میں بھی انتہائی باوقا ر افراد اور عظیم الشان علماء کی امام زمانہ سے ملاقات کے واقعات نقل ہوئے ہیں (4)
--------------
(1):- نعمانی الغیبہ :ص ۳۱۶ ،باب ۲۰ ح ۱۱-
(2):- کلمات المحقیقن :ص 533
(3):- الطرائف : ص 185
(4):- دیکھئے:جنة الماویٰ،اور نجم الثاقب،محدث نوری
یہاں ضروری ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ملاقات کے بارے میں بحث کے حوالے سے درج ذیل نکات پر توجہ دی جائے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام کی ملاقات کبھی ایسے لوگوںکی نصرت اور مدد کے لئے ہوتی ہے کہ جو پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور تنہائی و بے کسی کا احساس کرتے ہیں۔ مثلاً جیسے کوئی حج کے سفر میں راستہ بھٹک گیا اور امام علیہ السلام یا ان کے اصحاب میں سے کسی صحابی نے اسے سرگردانی سے نجات دی اور امام علیہ السلام سے اکثر ملاقاتیں اسی طرح کی ہوئی ہیں۔
لیکن بعض ملاقاتیں عام حالات میں بھی ہوئی ہیں اور ملاقات کرنے والے اپنے مخصوص روحانی مقام کی وجہ سے امام علیہ السلام کی ملاقات سے شرفیاب ہوئے ہیں۔لہٰذا مذکورہ نکتے کے مد نظر توجہ رہے کہ ہر کسی سے امام علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غیبت کبریٰ کے زمانہ میں خصوصاً آج کل بعض لوگ امام زمانہ علیہ السلام کی ملاقات کا دعویٰ کرکے اپنی دُکان چمکا کرشہرت اور دولت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے لوگوں کو گمراہی اور عقیدہ و عمل میں انحراف کی طرف لے جاتے ہیں، بعض دعاؤں کے پڑھنے اور بعض ایسے اعمال انجام دینے کی دعوت دیتے ہیں کہ ان میں سے بہت سے اذکار اور اعمال کی کوئی اصل اور بنیاد بھی نہیں ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کے دیدار کا وعدہ دے کر ایسی محفلوں میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں جن کے طور طریقے دین یا امام زمان علیہ السلام کے لئے قابل قبول نہیں اوریوں وہ لوگ امام غائب کی ملاقات کو سب کے لئے ایک آسان کام قرار دیتے ہیں، جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام علیہ السلام خداوندعالم کے ارادہ کے مطابق مکمل طور پر غیبت میں ہیں اور صرف ایسے گنتی کے چند افراد ہی کی امام علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے جن کی نجات فقط لطف الٰہی کے اس مظہر یعنی اما م عصر کی براہ راست عنایت پرمنحصر ہوتی ہے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام کی ملاقات صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب امام زمانہ علیہ السلام کی نظر میں کوئی مصلحت اس ملاقات میں ہو،
لہٰذا اگرکسی عاشق امام علیہ السلام کو اس کے تمام تر اشتیاق ورغبت اور بھرپور کوشش کے باوجودبھی امام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے تو اس کوما یوسی اور ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہئے اورملاقات نہ ہونے کو امام علیہ السلام کے لطف و کرم کے نہ ہونے کی علامت قرار نہیں دینا چاہئے، جیسا کہ جو افراد امام علیہ السلام کی ملاقات سے فیض یاب ہوئے ہیں ان کی ملاقات کو ان کے تقویٰ اور فضیلت کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ اگرچہ امام زمانہ علیہ السلام کے جمالِ پر نور کی زیارت اور دلوں کے اس محبوب سے گفتگو اور کلام کرنا واقعاً ایک بڑی سعادت ہے لیکن آئمہ علیہم السلام خصوصاً امام عصر علیہ السلام اپنے شیعوں سے یہ نہیں چاہتے کہ ان سے ملاقات کی کوشش میں رہیں اور اپنے اس مقصود تک پہنچنے کے لئے چِلّہ کاٹیں، یا جنگلوں میں مارے مارے پھریں؛ بلکہ آئمہ معصومین علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے کہ ہمارے شیعوں کو ہمیشہ اپنے امام کو یاد رکھنا چاہئے اور ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا چاہئے اور آپ کی رضایت حاصل کرنے کے لئے اپنی رفتار و کردار کی اصلاح کی کو شش کرنا چاہئے اورآپ کے عظیم مقاصد کے حصول کے راستے پر قدم بڑھانا چاہئے تاکہ جلد از جلدبشریت کی اس آخری امید کے ظہور کا راستہ ہموار ہوجائے اور کائنات ان کے وجود سے براہ راست فیضیاب ہو۔خود امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں:''اَکثِرُْوا الدعَاء َ بِتَعجِیلِ الفرجِ، فانَّ ذَلکَ فَرَجُکُم'' (1)
--------------
(1):- کمال الدین،ج2،باب45،ح4،ص239. اس مطلب کو محور کائنات جناب سیفی کی کتاب سے لیا گیا ہے ۔
سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟ اور اسکا صحیح معنی بیان کیجہے ؟
ج : انتظار کا صحیح مفہوم :
لغت کے اعتبارسے انتظار ایک نفسیاتی حالت جو آئندہ اور مستقبل کے لیۓ امیدوار ہونا ہے لیکن اسلامی تعلیمات میں انتظار نہ صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عقیدہ ہے عقیدہ حق وعدالت کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار ہونے اور مدینہ فاضلہ یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں لانے بلاآخر عدل الہی اور دین الہی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ہاتھوں جلوہ گرہونے کا ۔
انتظار نظریہ ہے نظریہ آخری زمانہ میں منجی موعود کا ظہور کرنے اور عالم بشریت کو موجودہ حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے ہاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا ہے ۔انتظار عمل اور حرکت ہے ایسا عمل جو جس میں نفس کہ تزکیہ ہو، فردی اور اجتماعی اصلاح ہو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی ہو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پہلو اور زاویوں سے ہو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ زمینہ فراہم کرۓ اور اس دور کے ساتھ ہم آہنگ اور وہم سوہوں یہ ہے حقیقت انتظار اسی لیے اہل بیت اطہارعلیم السلام نے واضح الفاظ مین نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے کہ انتظار صرف نفسیاتی حالت کا نام نہیں بلکہ عمل ہے اور وہ بھی بہتریں عمل ہے جیسا کہ فریقین کی جانب سے منقول ہے رسول خدا (ص) نے فرمایا افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ (1) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظہور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل ہے ۔ یاکسی اور مقام پر آپ یوں فرماتے ہیں -انتظار الفرج عبادة افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل (2)- فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت ہیں میری امت کے اعمال میں سب کے بہتر عمل اﷲ کی طرف سے فرج وکشائش کا انتظار ہے
--------------
(1):- کمال الدین: ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -
(2):- کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -
اور اسی مضمون میں ائمہ معصومینؑ سے بھی بے شمار روایتیں نقل ہوئی ہیں جیسا کہ امیر المؤمنیں علی فرماتے ہیں ۔ انتظروا الفرج ولا تیأسو من روح اللّه ،فإنّ أحب الأعما الی اللّه عزّوجل انتظار الفرج الآخذ بأمرنا معنا غداً فی حظیر القدس ،والمنتظر لأمرنا كالمتشحط بدمه فی سبیل اللّه (1) آسائش اور رہائی کا انتظار کرو خدا کی رحمتوں سے کبھی مایوس نہ ہوجاؤ اسلئے کہ پروردگا ر عالم کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل انتظار فرج ہے اور ہماری ولایت کو مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں ہمارے ساتھ ہوگا اور ہماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو اﷲ کے راہ میں اپنے خون سے غلطان ہو
د: انتظار کا غلط مفہوم اور اسکا منفی نتائیج .
ممکن ہے بسا اوقات نظریہ انتظار کو اپنے درست اور اصلی مفہہوم میں نہ سمجھنےبلکہ کج فہمی کے شکار ہونے اور اسے غلط معنی اور مفہوم مراد لینے کی وجہ سے یہی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگری کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے -
اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو سینکڑوں؛ ہزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروہوں تنظیموں کی شکل میں نظر آئیں گے جنہون نے عقیدہ انتظار کو الٹا سمجھنے اور اسے غلط مفہوم مراد لینے کی وجہ سے نہ صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعہ بنایا بلکہ الٹا یہی انتظار انکےمفلوج ہونے جمود کے شکار ہونے اور اپنے علاوہ سکاج کو بھی فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیہ )نامی تنظیم جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح پر لوگوں کو فساد اور گناہوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یہ شعار تھا کہ ہم معاشرے میں جتنا بھی ہو سکھے گناہوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے
--------------
(1):- بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -
اتنا ہی امام زمانہ کی ظہور میں تعجیل کا زمینہ فراہم ہو گا اور امام جلدی ظہور کریں گے ہم یہاں پر ان گروہوں میں سے ایک دو کی طرف اشارہ کرتے ہیں تاکہ مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شدہ گروہوں کو پہچاننے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت ہو جاے ۔
پہلاگروہ ـ :1
لوگوں کے ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری صرف اور صرف حضرت حجت کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا ہے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں انکا خیال ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو ؛ ہمیں کوئی ربط نہیں امام زمان ہ خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھیک کریں گے،اسے پہلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم ہو گا اور لا محالہ دین و شریعت کے خلا ف ہو گا لہذا اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیںامام خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کی عظیم ہستی)ا نکے رد میں فرماتے ہیں : (کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹہ کر امام زمانہ کے ظہور کے لیے خدا کی درگاہ میں دعا کرنے میں دیکھتا ہے اور تکلیف اور ذمداری سمجھتے ہیں ہم سے کوئی ربط نہیں دنیا میں ملتوں پر کیا گزرے ،خود امام ظہور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یہ ان لوگوں کی منطق ہے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے ،اسلام انکو قبول نہیں کرتا بلکہ ہماری ذمہ داری ہے کہ انکی آمد کے لیے زمینہ فراہم کر یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظہور کریں گے (1) اگر ہماری بس میں ہوتا تو پوری دنیا سے ظلم وجور کو مٹا دیتے ہماری شرعی ذمہ داری تھی لیکن یہ ہماری بس سے باہر ہے ،اور حقیقت یہ ہے کہ حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے ہاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمہ داری کو انجام نہ دے (2)
--------------
(1):- مجلہ مہدی موعود : شمارہ نمبر ۱،ص ۱۶ -
(2):- مجلہ مہدی موعود : شمارہ نمبر ۱،ص۱۴ -
بلکہ دوران غیبت میں چونکہ احکام حکومتی اسلام جاری وساری ہیں کسی قسم کی ہرج و مرج قابل قبول نہیں ہے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا ہماری ذمہ داری ہے جسکا عقل حکم کرتی ہے ،تاکہ کل اگر ہم پر حملہ کرے یا ناموس مسلمین پر ہجوم لانے کی صورت میں دفاع کر سکے اور انھویں روک سکے ہم ان سے یہ سوال کرتے ہیں ،کہ کیا پیغمبر اکرم (ص)نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال طاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وہ قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا ؟ کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کا عقیدہ اور اسکا اظہار کرنا اسلام کے منسوخ ہو جانے پر عقیدہ رکھنے اور اسے اظہار کرنے سے زیادہ بدتر ہے ، کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود اور باڈروں کا دفاع کرنا واجب نہیں ہے یا مالیات ،جزیہ ،خمس وزکواۃ اور ٹیکس نہیں لینا چاہیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات؛ قصاص سب کی چھٹی ہے (1)
دوسرا اور بدترین گروہ
اس گروہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف سماج سے ظلم وستم کو ختم کرنا اور گناہوں سے پاک کرنا ہماری ذمہ داری ہے بلکہ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو گناہوں کی طرف دعوت دیں اور جتنا بھی ہو سکے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑاھنے کی کوشش کریں تاکہ امام زمانہ کی ظہور کے لیے زمینہ فراہم ہو جاۓ ،اس گروہ میں بعض خود غرض افراد بھی ہوتے ہیں جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے ہیں اور بعض ایسے سادہ لوح افراد بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے غلط افکار کی زد میں آکر منحرف ہوچکے ہوتے ہیں ۔انکے رد میں رہبر کبیر امام خمینی فرماتے ہیں :یہ جو کہتے ہیں ضروریات اسلام کے خلاف ہے ،یہ کہ ہم خود بھی گناہ انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناہوں کو پھلائے تاکہ حضرت حجت جلدی ظہور کرے ،....حضرت حجت ظہور کریں گے تو کس لیے ظہور کریں گے ؟ اس لیے ظہور کریں گے کہ دنیا میں عدالت پھیلانے کے لیے ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشہ کن کرنے کے لیے ظہور کریں گے ،
--------------
(1):- مجلہ مہدی موعود : شمارہ نمبر ۱،ص۱۵ -
لیکن ہم قرآنی آیات کے خلاف امر بالمعروف اور نہی از منکر بجا لانے کی بجائے گناہوں کو پھیلانے کی فکر میں رہیں تاکہ حضرت جلدی ظہور کریں ،کیا آنحضرت جب ظہور کریں گے تو یہی کام انجام دینگے ؟ ابھی دنیا ظلم وجور سے بھرا ہوا ہے ...اگر ظلم وجور کو روک سکتے ہیں تو ہماری ذمہ داری اور تکلیف ہے اسکی روک تھام کریں ؛ اور ضرورت اسلام اور قران نے ہماری ذمہ داری ڈال دی ہے کی ہم قیام کرے اورہر کام انجام دے (1) یقیناً اس قسم کا انتظار جس میں ایک قسم کی حدود و قوانین اور اسلامی مقررات کا تعطیل ہونا لازم آتا ہو اور منتظرین کو گناہوں کی طرف دعوت دے ایسے انتظار خود امام زمانہؑ کے ارشاد کے مطابق ظہور کی راہ میں سب سے بڑا مانع اور سد راہ ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں : و لو أن أشیاعنا وفقهم الله لطاعته علی اجتماع من القلوب فی الوفاء بالعهد علیهم لما تأخر عنهم الیمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا علی حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما یحبسنا عنهم إلا ما یتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكیل و صلاته علی سیدنا البشیر النذیر محمد و آله الطاهرین و سلم (2) “اگر ہمارے شیعہ اﷲ تعالی انھیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد ہو کر ہمارے ساتھ باندھے گۓ عہد وپیمان کو وفا کرتے تو ہمارا احسان اور ہماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے ہرگز مؤخر نہ ہوتا : اور بہت جلد کامل معرفت اور سچی پہچان کے ساتھ ہمارے دیدار کی سعادت انکو نصیب ہوگی ،اور ہمیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروہ کے کردار نے پوشیدہ کر رکھّا ہے جو کردار ہمیں پسند نہیں اور ہم ان سے اس کردار کی توقع نہیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم ہمارا بہترین مددگار ہے اور وہی ہمارے لیۓ کافی ہے پس حصرت حجت علیہ السلام کے اس کلام سے یہ بات ےاضح ہو جاتی ہے کہ اہل بیت اطہار ؑکے چاہنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عہد وپیمان لیا ہے ،وہ انکی ولایت واطاعت ہے اور جو چیز امام زمانہؑ کی زیارت سے محروم ہونے اور انکے ظہور میں تاخیر کا سبب بنی ہے وہ انکے مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آمادہ نہ ہونا ہے ،اور یہی اطاعت اور حمایت ظہور کے شرائط میں سے ایک اہم شرط بھی ہے
--------------
(1):- مجلہ مہدی موعود : شمارہ نمبر ۱،ص۱۵ -
(2):- الاحتجاج ج : 2 ص : 499
عصر ظہور
سوال نمبر 16: کیا امام زمانہ حضرت مہدی منجی عالم بشریت کے ظہور پر شیعہ سنی سب متفقہ عقیدہ رکھتے ہیں ؟
جواب : یملأ الارض قسطا و عدلا كما ملئت جورا (1)اس انتہائی مشہور ومعروف حدیث کے مطابق ۔جسے بے شمار راویوں نے نقل کیا ہے ۔جب دنیا سخت ترین اضطراب اور بے چینی میں مبتلا ہوگئی ہر طرح ظلم وتشدد کے شغلے بھرک رہے ہوں گے ؛انسانی معاشرے میں امن وامان نا پید ہو چکی ہو گئی ہر طرح فاسقون فاجروں اور کافروں کا راج اور انکی حکومت ہو گی انسانی اقدار دم توڑ چکی ہوں گئی اور انکی جگہ اخلاقی اور اجتماعی برائیوں کا دور دورہ ہو گا کمزور او چھوٹے ممالک اور اقوام کی حمایت و حفاظت کے نام پروجود میں آنے والے ادارے انکے خلاف انکے ہی نسل کشی و غارت گری کے لیئے استعمال ہونگے خلاصہ یہ کہ جب ہر طرح کی خباثت ؛ فحشا وفساد اور منکرات کا رواج ہو گا تو وہ عظیم الشان مصلح عالم روئے زمین پر حق وعدالت کی حکومت کا پر چم لہرائے گا اور چھوٹے بڑے قصبوں ؛ شہروں ؛سے لے کر دور ودراز دیہاتوں تک دنیا کے ہر کونہ کونہ نور اسلام سے جلوہ فگن ہو گا ؛ ذاتی اعراض اور منافع سے پاک الھی قوانیں کی حکمرانی ہو گی اور انسانی اقدار پھر سے معاشرہ میں زندہ ہو گی اور کائنا ت کا خاتمہ جب تک مھدی موعد موجود ظہور نہ کرے اور ظلم جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر نہ دئے نہیں ہوگئی ۔
چنانچہ آخری دور میں مصلح عالم حضرت مھدی موعود کے ظہور کے بارے میں اصحاب تابیعیں تابعیں کے پیروں سے لے کرآج تک کوئی اختلاف نہیں ہے اسیلیے اس اجماع مسلمیں کا اعتراف مہدویت کے منکر ابن خلدوں نے اپنی مقدمہ تاریخ میں بھی کیاہے
--------------
(1):- مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی-ج6 ؛ ص235، المکتبة الاسلامیة - تہران، چاپ: اول، 1382 ق. نقلا عن سنن ابن ابی داود . ترمذی
۔ ابن خلدوں کہتا ہے :واعلم انّ المشهور بین الکافة من آهل الاسلام علی ممرّ الاعصار انه لابّد فی آخری الذمان من ظهور رجلٍ من اهل البیت یؤید الدین ویظهر العدل ویتبعه المسلمون ویستولی علی الممالک الاسلامیة ویسّمی بالمهدی (1) جان لو !ہر دور میں یہ بات تمام مسلمانوں کے درمیاں مشہور رہی ہے کہ آخری زمانہ میں حتمی طور پر اھل بیت اطہار کی نسل سے ایک شخص ظہور کرئے گا جو دین کی نصرت اور عد ل و انصاف کو ظاہر کرئے گا تمام مسلمانوں اسکی پیروی کریں گے اور وہ تمام اسلامی ممالک کاحکمران ہو گا اور اسکا نام مھدی ہو گا ۔
اسی طرح علامہ مروی قرن 3 کے مشہور اہل سنت عالم اپنی کتاب سوائک الذھب میں یوں تحریرفرماتے ہیں :الذّی اتفق علیه العلماء انّ المهدی هو القائم فی آخر الوقت وانه یملاء الارض عدلاًوالاحادیث فیه کثیرة ُ(2) اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ حضرت مھدی ہی آخری زمانہ میں قیام فرمائیں گے اور زمین کو عدلو انصاف سے بھر دیں گئے جبکہ انکے وجود اور انکے ظھور سے متعلق روایات بہت ذیادہ ہیں ۔ اسیلے اہل سنت کے بڑے بڑے علماء نے تیس سے زیادہ کتابیں اسی موضوع کے متعلق لکھی ہے ۔(3)
سوال نمبر 17: حضرت امام مھدی کے ظہور کی نشانیاں اور شرائط کیا ہیں ؟
جواب : حضرت امام مھدی کے ظہور کی کچھ نشانیاں اور شرائط ہیں جن کو ظہور کے اسباب اور علامات ظہور کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے ۔ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اسباب کا مہیا ہونا ظہور میں واقعی طور بر اثر رکھتا ہے اس طرح کہ ان اسباب کے ہموار ہونے سے امام کا ظہور ہو جائے گا اور ان کے بغیر ظہور نہیں ہو سکتا ۔
--------------
(1):- مقدمہ ابن خلدوں ص 367
(2):- سوائک الذھب ص 28
(3):- رجوع کریں نوید امن امان ؛ صافی گلپائی گانی ص 78
لیکن جہاں تک علامات اور نشانیوں کا تعلق ہے تو وہ ظہور میں کوئی اثر نہیں رکھتیں بلکہ صرف ظہور کی نشانیاں ہیں جن کے ذریعہ ظہور کے زمانہ یا ظہور کے قریب ہونے کو پہچانا جا سکتا ہے ۔ پس شرائط اور اسباب کا مہیا ہونا نشانیوں سے ذیادہ اہمیت رکھتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ نشانیوں کو تلاش کرنے سے پہلے امام زمانہ کے ظہور کی شرائط پر توجہ دیں اورہر ایک اپنی اپنی قدرت کے مطابق ان شرائط کے مہیا کرنے میں سہیم بنائے تاہم ہم یہاں امام زمانہ کے ظہور کے کچھ اہم اسباب اور عالمات بیان کرتے ہیں ۔
ظہور کی شرائط اور اسباب
اس کا ئنات میں پروردگار عالم کی سنتوں میں ایک سنت(إن اللّه سبحانه یجری الأمور علی ما یقتضیه لا علی ما ترتضیه (1) ہر چیز کا جب تک اپنی اسباب اور شرائط مہیا نہیں ہوتی وجود میں نہیں آتی مثال کے طور پر اگر کسی زمین میں کوئی سا بیج دال دے تو وہ دانہ اس وقت نکل آے گا جب اس کے لیے مناسب آب وہوا اور مٹی مل جاے اسی بنا پر معاشر ے کی اصلاح کے لیے یا معاشرے میں انقلاب لانے کے لیے بھی زمینہ فراہم ہونا اور اسکے لیے اسباب مہیا ہو بھی ضروری ہے لہذا حضرت مھدی کا عالمی انقلاب اور قیام میں بھی کو معجزہ درکار نہیں ہے بلکہ جب تک اسباب اور شرائط پوری نہ ہو جائیں اس وقت تک واقع نہیں ہو گا ۔ اسیلے اما محمد باقر سے کسی شخص نے کہا لوگ کہتے ہیں جب امام مہدی کا ظہور ہو گا تو تمام امور ان کی مرضی کے مطابق خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے ۔امام نے فرمایا : ہرگز ایسا نہیں ہے قسم ہے اس ذات کی جس نے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ؛ اگر یہ طے ہوتا کہ کسی کے کام خود بخود ہو جایا کری تو پھر ایسا تو رسول اکرم (ص) کے لیے ہوا چاہئے تھا (2) اور امام زمانہ کے عالمی مشن اور نظام کے قیام تین عنصر کی ضرورت ہیں جو کہ ہر انقلاب اور نظام کے قیام اور استحکام کے لیے ضروری ہے ۔
--------------
(1):- غرر الحکم و درر الکلم / 222 / 56 ..... ص : 222
(2):- غیبت نعمانی ؛ باب 2 ح 15
1۔ شائستہ قیادت
ہر انقلاب اور قیام میں رہبر اور قائد کی ضرورت سب سے پہلی ضرورت شمار کی جاتی ہے اور انقلاب جس قدر وسیع اور بلند مقصد کا حامل ہوتا ہے اس انقلاب کا رہبر اور قائد بھی ان اغراض و مقاصد کے لحاظ سے عظیم و بلند مر تبہ ہو نا ضروری ہے ۔ حضرت مھدی جو انبیاء اور اولیا کے وارث ہیں اس عظیم الشان انقلاب کے رہبر کے عنوان سے حاضر اور زندہ ہیں صرف آپ ہی اسیے رہبر ہیں جو عالم غیب سے رابط کی وجہ سے کائنات اور اسکی اشیاء کے باہمی روابط سے مکمل طور پرآگاہی رکھتے ہیں اور اپنے زمانے کے سب سے بابصیرت اور علم لدنی کے مالک ہیں ۔جیسا کہ پیغمبر اکرم (ص)سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں:آگاہ رہو کہ مہدی تمام علوم کے وارث ہیں تمام علوم پر احاطہ رکھتے ہیں ۔(1)
2۔کامل قانوں اور دستور
دوسرا عنصر انتہائی ضروری ہے وہ ہے قانوں ایک ایسا قانون کہ جس میں تمام معاشرتی ضروریات کا خیال رکھا گیا ہو اور وہ قانون ایک عادلانہ نظام حکومت کے تحت تمام انفرادی اور اجتماعی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا ہو اور معاشرے کی ترقی کی سمت کا رخ اسکی منزل مقصود کی طرف موڑدے ۔ اور وہ قانون اور دستور بھی قرآن سنت اور سیرت اہلیبیت کی شکل میں موجود ہے ۔
3 ۔لوگوں کے اطاعت کے لیے آمادگی
کامل قانوں اور شائستہ رہبر اس وقت کار آمد ثابت ہوتے ہیں کہ جب امت اسکی اطاعت کرنے لگے اور معاشرے میں لائق انصار اور مددگار موجود ہوایسے جان نثارمددگاروں کی بھی ضرورت ہے جنکی کی کچھ صفات راویات میں آئی ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم فرماتے ہیں : وہ لوگ اپنے امام کی اطاعت میں کوشاں رہتے ہیں (2):
--------------
(1):- نجم الثاقب ؛ص 193
(2):- منتخب الاثر فصل 8؛باب 1 ؛ح 2
یا امیر المؤمنین فرماتے ہیں وہ ایسے شیر ہیں جو خود باہر نکل آئے ہیں اور اگر چاہیں تو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں(1): صادق آل محمد فرماتے ہیں : وہ لوگ رات بھر عبادت کرتے ہیں اور دن میں روزہ رکھتے ہیں حتی کہ گھوڑوں پر سواری کی حالت میں بھی خدا کی تسبیح کرتے ہیں: (2)
اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ شرط اب تک فاقد ہے تو ہم سب کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم خود بھی ذہنی طور پر تیار ہو جائے اور دوسروں کو بھی آمادہ کرے ۔
ظہور کی علامات اور نشانیاں
روایات میں امام مھدی کی بابرکت ظہورکے کچھ نشانیاں اور علاما ت بیاں ہوئی ہے ان نشانیوں کی طرع متوجہ رہنا منتظریں اور مؤمنیں کے ایمان ؛ استقامت ؛صبر اور ولولہ میں اضافہ کے باعث بننے کے ساتھ ساتھ دشمنوں "گمراہوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہے تاکہ وہ ان برائیون سے باز آجائیں ۔ اھل بیت اطہار سے امام مھدی کے ظہور کی بہت سے نشانیاں ذکر ہوئی ہیں تاہم ان نشانیوں کو دو حتمی اور غیر حتمی میں تقسیم کرسکتے ہیں ابن فضیل نے امام محمد باقر سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا ظہور کی نشانیاں دو طرح کی ہے ایک حتمی اور دیگر غیر حتمی (3)
1۔ حتمی علامات
حتمی اورقطعی نشانیاں وہ ہیں جنکا نمایاں ہونا ظہور سے پہلے ضروری ہے :
--------------
(1):- یوم الخالص ؛ ص 224
(2):- بحار ؛ ج52 ؛ ج308
(3):- غبتر نعمانہج باب 81 ص 429
1۔سفیانی کا خروج
سفیانیکا خروج بہت سی روایات میں بیاں ہونے والی ان حتمی نشانیوں میں سے ہے اسکا تفصیل یہ ہے کہ سفیانی ابوسفیان کی نسل سے ہوگا جو ظہور سے تھوڑی مدت پہلے سر زمین شام سے خروج کرے گا وہ ظالم وجابر ہو گا جس کو قتل وغارت کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی اور اپنے دشمنوں سے بہت ہی بُرا سلوک کرے گا :حضر ت امام صادق اس بارے میں بیاں فرماتے ہیں : اگر تم سفیانی کو دیکھو گے تو تم نے گویا سب سے پلیداور بُرے اناسن کو دیکھ لیا ہے : قَالَ: لِلْقَائِمِ خَمْسُ عَلَامَاتٍ ظُهُورُ السُّفْيَانِيِّ وَ الْيَمَانِيِّ وَ الصَّيْحَةُ مِنَ السَّمَاءِ وَ قَتْلُ النَّفْسِ الزَّكِيَّةِ وَ الْخَسْفُ بِالْبَيْدَاءِ. (1)
2۔ خسف بیدا ء
خسف بیداء مکہ ومدینہ کے درمیاں ایک صحرائی علاقہ کا نام ہے جہاں سفیانی کا لشکرزمین میں دھنس جاے گا ۔ امام صاد ق فرماتے ہیں ۔ حضرت قائم کے ظہور سے پہلے پانچ نشانیاں حتمی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔صحراء کا پھٹ جانا ہے
3 یمنی کا قیام
سر زمین یمنی اس صالح اور مومن شخص کا نام ہے جو ظلم وبربریت کے خلاف یمن کے سرزمن پرامام مھدی کے ظہور سے پہلے قیام کریں گے امام محمد باقر فرماتے ہیں : امام مھدی کے قیام سے پہلے بلند ہونے والے پرچموں کے درمیاں یمنی کا پرچم تمام ہدایت کرنے والے پرچموں میں سب سے بہتر ہو گا ؛ کیونکہ وہ تمہارے آقا کی طرف دعوت دے گا ۔ (2)
--------------
(1):- الغیبة( للنعمانی) / النص / 252 / باب 14
(2):- غبیت نعمانہ ن ؛باب14/ ح13/ص 264
4۔ نفس زکیہ کا قتل
نفس زکیہ سے مراد اس ممتاز اور پاک سرشت شخصیت ہیں جو اما م کے ظہور سے پہلے آپ کے مخالفیں کے ہاتھوں قتل ہو جائے گی بعض روایات کے مطابق یہ واقعہ امام کے ظہور سے 15 دن پہلے واقع ہو گا حضرت صادق اس بارے میں فرماتے ہیں : قائم آل محمد کے ظہور اور نفس زکیہ کے قتل میں صرف 15 دن رات کا فاصلہ ہو گا : (1)
5۔ صیحہ آسمانی
بعض روایات کے مطابق امام عصر کے ظہور سے پہلے جناب جبرئیل آسمان سے نام مقدس حضرت مھدی لے کے آوازدیں گے کہ جس کو تمام آہل مشرق ومغرب سن لیں گے ۔چنانچہ امام صادق سورہ ق ؛کی آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں : آسمان سے آواز دینے والا حضرت مھدی کو آپ کے نام اور آپ کی ولدیت کے ساتھ پکارے گا (2)
2۔ غیر حتمی علامات
غیر حتمی علامتوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو کسی نہ کسی شرط کے ساتھ مشروط ہیں جب تک وہ شرط تحقق نہ پائے وہ مشروط بھی حتمی نشانیوں میں شمار نہیں ہوتی ۔ان غیر حتمی نشانیوں کے متعلق امام صادق سے ایک انتہائی طولانی روایت ہے جس میں 1 سے اوپر علامات بیاں ہوئی ہیں رجوع کریں (3)
--------------
(1):- کمال الدین ؛ ج 2 / باب 57 /ح2 /ص 554
(2):- معجم احادیث الامام مھدی؛ج3 /ص 253
(3):- بحار ؛ج52 /ص 256
امام مھدی کی حکومت
سوال نمبر 18 : امام مھدی کی حکومت کیسی ؟کہاں اور کن کن خصوصیت کے حامل ہو گی ؟
جواب : وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ ءَامَنُواْ مِنكمُْ وَ عَمِلُواْ الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فىِ الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِینَ مِن قَبْلِهِمْ (1) تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور نیک اعمال بجا لائے ہیں اللہ نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں اس طرح جانشین ضرور بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو جانشین بنایا اور جس دین کو اللہ نے ان کے لیے پسندیدہ بنایا ہے اسے پائدار ضرور بنائے گا اور انہیں خوف کے بعد امن ضرور فراہم کرے گا، وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں اوراس کے بعد بھی جو لوگ کفر اختیار کریں گے پس وہی فاسق ہیں۔ امام مھدی کے اس عالمی انقلاب کے نتیجے میں پروردگار عالم کا حتمی وعدہ روئے زمین پر پہلی بارا تحقق ہوگا ؛ اور صفحہ ہستی سے ظلم وستم ؛برائیوں ؛ تباہیوں ؛ خیانتوں ؛ اور ہر قسم کی فکری اور عملیانحرافات سے مکمل مقابلہ کے بعد (البیعة للہ ) کی بنیاد پر ایک ایسی الھی نظام اور حکومت تشکیل پائے گی جسکی بنیاد توحید اور مکمل طور پر حق وعدالت پر مبنی ہوگئی ؛ایک ایسی حکومت جو مظھر تام (قائماً بالقسط ) (2) ہوگئی جس میں ذرہ برار ظلم وستم نہیں ہوگا اسکا دار الحکومت نجف اور کوفہ اور بر گ و شاخ پوری دنیاپر چھا جائے گئی اور نفسانی وسوسوں اور شہوتوں کی وجہ سے مردہ انسانیں کو دوبارہ ایک نئی زندہ گی کلے گی تاکہ وہ مسجود ملائکہ کو حقیقی زندگی اور واقعی حیات کی شیرینی چکھائے اور اس الھی حکومت کی خصوصیت کچھ یوں ہو گئی
--------------
(1):- نور : 55
(2):- العمران 18
1: معنوئی ترقی
بے شک دنیا میں جتنے بھی انبیاء ؛ اوصیاء اور مصلح آئیں ہیں ان سب کی تمام تر کوششیں لوگوں کی معنوی زندگی کورشد دے کر انھیں مقام انسانیت تک لے جانے کے لیے تھا اور انسان کو اسی معنوی زندگی کی وجہ ہے ہی انسان کہا ہے اور اسی سے ہی دیگر حیوانات سے جدا ہوتا اور اسی راہ سے ہی انسان کو راز خلقت (جو کہ قرب الھی) ہاتھ آتا ہے جبکہ معنویت کی کمزوری ہر دور میں تمام تر معاشرتی اور فردی بد بختیوں اور خرابیوں کا پیش خیمہ بنی ہے لھذا جسطرح قرآن مجید نے ہمیں خبر دیا ہے : الَّذِینَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فىِ الْأَرْضِ أَقَامُواْ الصَّلَوةَ وَ ءَاتَوُاْ الزَّكَوةَ وَ أَمَرُواْ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْاْ عَنِ الْمُنكَرِ وَ لِلَّهِ عَقِبَةُ الْأُمُو *(1) یہ وہ لوگ ہیں، اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام امور کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت مھدی عجل ﷲ فرجہ الشریف کی حکومت عدل الھی کے سایے میں ہر جگہ برائیون اور تباہیوں کی جگہ معنویت اور عبودیت لے آئےگئی اور جب معاشرے میں معنویت عام ہو جائے تو خود بخود اس معاشرے میں صدق؛ صفا ؛ ایثار ؛ محبت ؛ اچھائی؛ اور نیکی پھیل جائیں گے اورزندگی کے تمام پہلو میں انسانی اقدار کی رونق اور شادابی ہو گئی۔ چنانچہ امیر المؤمنیں فرماتے ہیں ک لوگ حضرت مھدی کے زمانے میں عبادت اور معنویت کی طرف مائل ہوں گے اور نماز جماعت سے پڑھیں گے (2) : نیز فرماتے ہیں انکے دور میں لوگوں کے دلوں سے کینے ختم ہو جائیں گے (3)
--------------
(1):- حج :41
(2):- احقاق الحق ؛ج 13 ؛ ص 312
(3):- الغیبة طوسی ؛ ص 295
2: کتاب وسنت کی احیای
هُوَ الَّذِی أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَی وَ دِینِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّینِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون* (1)۔
اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ اسی نے بھیجا ہے تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا ہی لگے ۔ خداوند عالمیں کا یہ حتمی وعدہ امام مھدی کے دور میں انکے الھی نظام کے زیر سائے میں محقق ہوگا اور سراسر عالم سے بد پرستی اور شرک کے آثار مٹا کر شریعت کے قوانین کو نافذ کیا جائے گا۔ چنانچہ تفسیر عیاشی میں مذکورةآیت کی ذیل میں آیا ہے : و الله ما نزل تأویلها بعد و لا ینزل تأویلها حتی یخرج القائم علیه السلام، فاذا خرج القائم لم یبق كافر بالله العظیم و لا مشرك بالإمام الأكرة خروجه، حتی لو كان كافر أو مشرك فی بطن صخرة لقالت:(2) جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو دیکھنے والے دیکھ لیں گئے کہ روئے زمین پر کوئی مشرک نظر نہیں آئے گا دین اسلام ہر جگہ پہو نچ چکا ہو گا ـ آیة ﷲ جوادی آملی فرماتے ہیں : حضرت حجت کے دور میں نہ صرف کفروشرکو بتپرستی کے آثار مت جائے گی بلکہ ہر قسم کے اضافی تشریفات ؛ رسومات ؛ عادات اور تجمل پرستی کا بھی خاتمہ ہوجاے گا (3)
3 : عدالت میں وسعت
جس چیز سے غریب اور کمزورعوام سب سے زیادہ رنجیدہ ہے وہ معاشرے میں اجتماعی زندگی میں عدل وانصاف کا فقدان ہے ؛ ہمیشہ سےشکم سیر لوگوں کے ساتھ ایک بہت بڑا گروہ بھوکا رہا ہے اور ہمیشہ سے غریبوں اور کمزوروں کے حقوق طاقتوروں اور مکاروں نے پامال کئے ہیں ۔
--------------
(1):- توبہ: 33
(2):- تفسیر نور الثقلین، ج2، ص: 212
(3):- امام مھدی موجود موعود ص 257 طبع 3
لیکن بشر فطری طور پر زندگی کے ہر پہلو میں عدل وانصاف کے خواہاں ہے اور یہ درینہ آرزو امام مھدی کے حق وعدالت پر مبنی حکومت کے زیر سایے میں محقق ہو گی چنانچہ امام حسین فرماتے ہیں : اگر دنیا کی عمر کا ایک دن بھی رہ جائے تو خداوند عالم اس دن کو اتنا طولانی کردے گا کہ میری نسل سے ایک شخص قیام کرئے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح ظلم جور سے بھر ی ہو گئی (1)
4: علم معرفت میں ترقی
امام مھدی کی حکومت علماء اور دانشوروں کی سر پرستی اور بذات خود آپکی زیر نگرانی میں تشکیل پائے گئی لھذا آپکی حکومت کا ہر پروگرام علم ومعرفت اور انسانی دانش کی عظیم پیش رفت اور ترقی کا سبب بنے گا ؛ روایات بتاتی ہیں کہ علم ودانش کا ادراک اور شعور امام زمانہ کے دور میں آج کی ترقی سے قابل مقائسہ نہیں ہوگا یہاں تک صنعت اور تکنالوجی کے اعتبار سے بھی حیرت انگیز ترقی ہوگی لیکن آج کی ترقی اور امام زمانہ کے دور کے علمی ترقی میں فرق یہ ہو گا کہ آج انسان جتنے ترقی کرتا جارہا ہے اتنا ہی انسانیت سے دور دن بدن اخلاقی اور اجتماعی فسادات کے دلدل میں ڈھوپ رہا ہے جبکہ اس کے بر عکس آپ کے دور میں اس نظام عدل الھی کے نفاذ کے نتیجے میں جتنی علم ودانش اور سائنس ؛ تکنالوجی ترقی کر تا جائے گا اتنا ہی انسان اخلاق کی بلندی اور انسانی کمالات کے اعلی منزل فائز ہوتا جاے گا ۔حضرت صادق آل محمد اس دور کی علمی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: علم ودانش کے 27 حروف ہیں اب تک جو کچھ انبیاء نے پیش کیا ہے وہ دو حرف ہے اور بس جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو باقی 25 حروف کو بھ پیش کریں گے ۔اسی طرح امام محمد باقر اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں : اما مھدی کے دور میں تمھیں حکمت دیا جاے گا یہاں تک عورتیں گھروں میں کتاب وسنت کے مطابق فیصلہ کیا کریں گے (2)
--------------
(1):- عبد الرزاق المصنف ؛ج 1 ؛ ص 402 اور الفتن لابن حماد ؛ص 162
(2):- نعمانی ص 239
نیز آپ فرماتے ہیں : اذا قام قائمنا وضع یده علی رؤوس اور جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو لوگوں کے سروں پر اپنا ہاتھ رکھیں گئے جسے انکے عقل جمع ہو جاے گئی اور انکا اخلاق کامل ہو جاے گا (1) یہ روایت کنایہ ہے اس دور میں عقل اور فکر انسانی کی بے تحاشا ترقی کی طرف کہ جو کسی خاص طبقہ کے لے مختص نہیں بلکہ معاشرے کے ہر طبقہ کے لیے ہوگئی۔
5: بدعتوں کا مقابلہ
آج کے مادہ پرست دور میں دین دار اور دینی اصولوں کے پابند لوگ بہت کم نظر آتے ہیں اور اکثر لوگ یا تو دین سے ناواقف ہیں یا تو من مانی منگھڑٹ بدعتوں کو دین کا جز قرار دے کر انکے پیچھے پھر تے ہیں ؛ جو کہ حقیقت میں خدا و ر رسول (ص) کے ساتھ جنگ اور اپنے نفس کی خواہشات کے پیروی کرنا ہے (2)۔ لیکن امام مھدی کی دور حکومت میں آپ سنتوں کو دوبارہ زندہ اور بدعتوں کی بساط لپیٹ لیں گئے ؛ امام محمد باقر اس بارے میں فرماتے : وَ لَا يَتْرُكُ بِدْعَةً إِلَّا أَزَالَهَا وَ لَا سُنَّةً إِلَّا أَقَامَهَا (3) کوئی بھی بدعت ایسی نہیں ہو گئی جسکو جڑ سے اکھاڑ نہ پھینکیں اور کوئی بھی سنن ایسی نہیں ہو گئی جسکو زندہ نہ کریںـ
6: امنیت
آج انسانی معاشرے کے پیکر پر جو سب سے بڑا زخم ہے جسکی وجہ سے بشر ہر جگہ بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے وہ زندگی کے مختلف پہلو میں امنیت کا فقدان ہے ؛ آج دنیا میں ہر کمزور اور ضعیف خواہ وہ افراد کی شکل میں ہو یا آقوام کی شکل میں ہو یا خطے کی شکل میں مالی اور جانی اور عرض و عزت نفس کی اعتبار سے
--------------
(1):- بحار ؛ج52 ؛ص 332
(2):- مزاان الحکمہ ؛ ح 649
(3):- بحار الانوار (ط - بیروت) / ج55 / 92 /. ص : 61
ہر اعتبار سے شیطانی اور استکباری عالمی طاقتوں کے پاوں کے نیچے دست وپنجہ نرم کررہا ہے ؛ لیکن امام حجت عج کی حکومت کے سائے میں نہ صرف انسانی معاشرے میں امنیت قائم ہوگی لوگوں کی جان ومال وعزت آبرو محفوظ ہو جائے گئی بلکہ امنیت اور سالمیت کا دائرہ ھر جاندار اور ذی روح تک پھل جائے گا ؛ پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا تاکہ لوگ اپنی فطرت کی جانب بازگشت کریں نہ کوئی ناحق خون بہے گا اور نہ کسی سوئے کو جگایا جائے گا (1) ۔ نیز آنحضرت (ص) فرماتے ہیں ایک عورت ظلم وستم ناانصافی سے بے خوف وخطر ہو کر شب کو سفر کرئے گئی .(2)
7 : اقتصاد ی ترقی اور دولت کا عادلانہ تقسیم
وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَی ءَامَنُواْ وَ اتَّقَوْاْ لَفَتَحْنَا عَلَیهِْم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ (3) اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔ بے شک ایک کامل نظام اور معاشرے کی پہچان صحیح اقتصاد کے ائپر ڈپند ہے ؛ اگر معاشرے میں مال ودولت اور مادی وسائل سے صحیح فائدہ اٹھایا جائے اور تقسیم دولت میں عدالت کا لحاظ رکھا جائے تو پھر اس معاشرے سے فقرو فاقہ ؛ محرومیت اور تنگ دستی کا خود بخود خاتمہ ہو جائے گا اور لوگ فطری طور پر دین اور معنویت کی طرف توجہ دیں گئے اور تقوای اختیار کرنے لگیں گے اور جب معاشرے با تقوای ہو جائے تو پروردگار عالم کا حتمی وعد ہ محقق ہو گا اور زمین آسمان میں برکت اور رحمت کے دروازے کھول دیا جائے گا جیسا کہ امیر المؤمنین علی اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے فرماتے ہیں : ولو قام قائمنا لانزلت السماء قطرها ولاخرجت الرض نباتها (4)
--------------
(1):- لامامة والتبصرة ص 121اور خصال ؛ باب 400 ؛ ص 255
(2):- المعجم الکبیر ؛ج6 ؛ ص 179
(3):- اعراف : 96
(4):- خصال للصدوق ص 626
جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو حتما ً آسمان سے بارشیں ہوگئی اور زمین دانہ اگائے گئی اسی طرح بعض روایات میں آیا ہے : وتظہرلہ الکنوز تمام خزانے انکے لیے ظاہر ہو جائیں گے (1) نیز پیغمبر اکرم (ص) فرماتے ہیں : وہ مال ودولت کو صحیح تقسیم کریں گے (2) اور معاشرے میں مال کا مساوات کے ساتھ تقسم کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی فقیر اور مختاج نہیں رہے گا اور زکاة لینے والا تک نہیں ملے گا ؛ چنانچہ آنحضرت (ص) اس بارے میں فرماتے ہیں : انکی حکومت میں مال کا ڈھیر لگ جائے گا (3) مذید یہ کہ خداوند عالم لوگوں کے دلوں کو غنی وبے نیازی سے بھر دے گا اسحد تک کہ حضرت اعلان کریں گے جسیے مال ودولت چاہیے وہ میرے پاس آئے 1 لیکن کوئی آگے نہیں بڑھے گا ۔ (4)
8: محرومیں اور مستضعفیں کی نجات
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مھدی کا قیام معاشرے میں عدالت کی برقراری اورسماج سے محرمیت کی بیخ کنی کے لیئے ہی ہو گا ۔ اسیلیے امیر المؤمنین فرماتے ہیں : حضرت مھدی ظہور کریں گے تو کوئی مسلمان غلام نہیں ہوگا مگر یہ کہ حضرت اسے خرید کر آذاد کردیں نیز کوئیقرضدار نہیں ہوگا مگر یہ کہ حضرت انکے قرض ادا کردیں گے (5) اسی طرح امام محمد باقر فرماتے ہیں : آپ سال میں دو مرتبہ لوگوں کو بخشش عنایت کریں گے اور مہینہ میں دو دفعہ ان کی روزی انہیں عطا فرماے گا لوگوں کے درمیاں مساوات قائم کریں گے یہاں تک زکواة لینے والا کوئی نیاز مند نہیں ملے گا (6)خلاصہ یہ کہ حضرت حجہ کی حکومت میں انسان اندرونی اور بیرونی لحاظ سے بے نیاز ہو جاے گا اور دولت کی عادلانہ تقسیم سے خود بخود انکے اندر قناعت آجائے گئی ۔ امید ہے کہ پرودرگار عالم جلد از جلد وہ دن دیکھنے کی توفیق عطا فرمائیں !
--------------
(1):- کما ل الدین ؛ ج 1 باب 32 ح 16 (2):- بحار ؛ج 51 ص 81
(3):- مستدرک ؛ج4 ص 558(4):- المصنف ؛عبد الرزاق ؛ ج 1 ؛ ص 402
(5):- تفیر عیاشی ؛ج 1 ؛ ص64(6):- بحار ؛ج 52 ؛ح 212
رجعت
سوال 19 : کیا امام مھدی کے قیام کرنے کے بعد مردہ لوگوں کے ایک گروہ رجعت کریں گے ؟
جواب : امام مھدی کے عالمی قیام کے بعد قیامت کے آنے سے پہلے لوگوں کے ایک گروہ کا اسی دنیا میں پلٹ کر آنا ضروریات مذہب میں سے شمار ہوتا ہے ' سیّد مرتضی علم الھد ی فرماتے ہیں: أنّ الذی تذهب الشیع الإمامیه أن الله تعال یعید عند ظهور مام الزمان المهدی ع قوما ممن ان قد تقدم موته من شیعته لیفوزوا بثواب نصرته و معونته و مشاهده دولته و یعید ایضا قوما من عدائه لینتقم منهم فیلتذوا بما یشاهدون من ظهور الحق و علو لم هله (1)شیعہ امامیہ کے اعتقادات میں سے یہ ہے کہ ﷲ تعالی امام مھدی کے ظہور کے وقت شیعوں کے ایک گروہ کو جو پہلے مر چکے ہوں گئے انکو دوبارہ پلٹایا جائے گا تاکہ امام زمانہ کی مدد اور نصرت کا ثواب انکے نصیب میں ہونے کے ساتھ ساتھ انکی حکومت کا مشاہدہ کر کے خوش حال ہوں نیز انکے دشمنوں سے بھی ایک گروہ کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں بیجھ دیے گا تاکہ انسے انتقام لے سکے : رجعت عالم مادی میں کلی طور پر قیامت کے دن حیات نو سے مشابہت رکھتا ہے اسیلے جناب آلوسی آہل سنت کے مشہور مفسر کہتے ہیں : وکون الاحیاء بعد الاماته والارجاع الی الدنیا من الامور المقدوره له عزّوجل ممّا لا نستطیع فیه کبشان لاّ انّ الکلام فی وقوعه … مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور دنیاکی طرف پلٹانا ایسے امور میں سے ہیں جوخدا کی قدرت کے مطابق ہے کہ کوئی بھی شخص اس میں شک وشبہ نہیں رکھتا صرف اسکے واقع ہونے میں بحث ہے ۔ لہذا ایک طرف عقلی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو جس طرح جناب آلوسی فرماتے ہیں رجعت ایک ممکن امر ہے اگر خداوند عالم ارادہ کے لیے تواسمیں تعجب کی کوئی گنجائش نہیں
--------------
(1):- بحار الانوار ط - بیروت / ج53 / 138 / ص : 138
دوسری طرف قرآن کریم نے متعدد آیات میں مختلف مقامات متعدد افراد کے مرنے کے بعد دوبارہ پلٹ کر آنے کا تذ کرہ کیا ہے ۔جیسا کہ سورة بقرہ کی 243 آیت جس پرودگار عالم اپنے رسول کو یوں یاد دھانی کراتاہے ۔ * الم تر ِالی الذِین خرجوا مِن دِیارِهِم و هم الوف حذر الموتِ فقال لهم الله موتوا ثم احیاهم(1) کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جا، پھر انہیں دبارہ زندہ کر دیا ۔
جناب سیوطی فرماتے ہیں : انکی تعداد ستّر ہزارسے بھی ذیادہ تھے ان پر موت آنے کے بعد مدت تک ایسی حالت میں پڑھے رہے یہاں تک بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی جنکا نام حزقیل تھا انکا وہاں سے گزر ہوا تو انھوں نے اس حالت کو دیکھ کر عرض کیا بارے الہی اگر ممکن ہے تو انکودوبارہ زندہ کردے ﷲ تعالی نے انکی دعا مستجاب کی اور انھیں دوبارہ زندہ کیا اور ایک مدت کے بعد طبیعی اموات سے اس دنیا سے رخصت ہوئے (2) اسی طرح پروردگار عالم حضرت عیسی کے زبانی یوں حکایت کرتا ہے : و احِی الموت بِاذانِ اللہِ (3). اور میں اللہ کے حکم سے اور مردے کو زندہ کرتا ہوں:تفاسیر کی مشہور کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت عیسی نے اپنے دوست عاز کو زندہ کیا نیز ضعیف العمر عورت کے فرزند کی زندگی کو پلٹایا اور ایک لڑکی کو بھی زندہ کیا یہ تینوں زندہ ہونے کے بعد بہ قید حیاة تھے اور اپنے بعد اپنی یادگار اولاد کی شکل میں چھوڑگئے (4) اسی طرح ابن عباس کی مشہور روایت آنحضرت (ص) سے جس میں رسول صلعم نے اصحاب کھف کے پلٹ کرآنے کے بارے میں خبر دی ہے (5)
--------------
(1):- بقرہ :
(2):- درر المنثور ج 2 ص 792 / کشاف 'ج 1 ص 286
(3):- آلعمران :
(4):- ترسم الجلالں 'ج /1 ص/73
(5):- الطرائف ج1/ص83)(العمدہ /ص373
اجمالی فہرست
مقدمہ
مہدویت اور امام مہدی
سوال نمبر 1: مہدویت کیا ہے اور کہاں سے شروع ہوئی ہے ؟
سوال نمبر 2: عقیدہ مھدویت اور امام مہدی کے درمیان کیا رابطہ ہے ؟
سوال نمبر 3: کیا اہل سنت علماء امام مہدی کے متعلق احادیث کے صحیح اورمتواتر ہونے کا قائل ہیں ؟
سوال نمبر 4: کیا مہدویت پر اسلام کے علاوہ دوسرے دینی اور مادی ادیان اور مکاتب فکر بھی عقیدہ رکھتے ہیں کیا دلیل ہے ؟
سوال نمبر 5: کیا اہل سنت علماء میں سے کوئی امام مہدی کے امام حسن العسکری ؑ کے بیٹا ہونے اور انکی ولادت کے قائل ہیں ؟
سوال نمبر 6 :کیا قرآن کریم میں مھدویت اور امام مھدی ؑ کے متعلق کوئی صریح گفتگو ہوئی ؟
سوال نمبر 7 : امام مہدی ؑ کا پیغمبر اکرم(ص) کے وصی اور خلیفہ ہونے پر کیا دلیل ہے ؟
عصر غیبت
سوال نمبر8: غیبت امام عصر کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہاں سے شروع ہوئی ؟
سوال نمبر 9 : فلسفہ غیبت کیا ہے ؟
سوال نمبر10: اگر حضرت مھدی امام عصر اور حجت خدا ہیں تو امام اور ہادی کو چاہیے لوگوں کے درمیاں رہیں تاکہ لوگ انکی امامت کی سایے میں ہدایت حاصل کرسکے لیکن جو امام مخفیانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو تو ایسیے امام اور ہادی کے ہونے سے نہ ہونا بہتر نہیں ہے ؟
سوال نمبر11: بعض روایات میں امام زمانہ عجل ﷲ فرجہ کو عصر غیبت میں خورشید پنہان سے تشبیہ دی ہے اس تشبیہ کے کیا راز ہو سکتی ہے ؟
سوال نمبر 12 : یہ کسے ممکن ہے کہ ایک انسان ہزار سال سے زیادہ زندہ رہے ؟
سوال نمبر 13 : غیبت کبری کی دور میں جب حجت خدا غیب کی پردے میں ہیں تو ہماری کیا کیا ذمہ داری بنتی ہے؟
سوال نمبر 14: کیا عصر غیبت میں حضرت مھدی سے ملاقات ممکن ہے اگر ممکن ہے تو کیسے ؟
سوال نمبر 15: انتظار کیا ہے ؟ اور اسکا صحیح معنی بیان کیجہے ؟
عصر ظہور
سوال نمبر 16: کیا امام زمانہ حضرت مہدی منجی عالم بشریت کے ظہور پر شیعہ سنی سب متفقہ عقیدہ رکھتے ہیں ؟
سوال نمبر 17: حضرت امام مھدی کے ظہور کی نشانیاں اور شرائط کیا ہیں ؟
امام مھدی کی حکومت
سوال نمبر 18 : امام مھدی کی حکومت کیسی ؟کہاں اور کن کن خصوصیت کے حامل ہو گی ؟
رجعت
سوال 19 : کیا امام مھدی کے قیام کرنے کے بعد مردہ لوگوں کے ایک گروہ رجعت کریں گے ؟
Comments powered by CComment