امام رضاؑ بہ زبان اباصلت

امام رضا علیہ السلام
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

مؤلف: حسین صبوری

مترجم: سید عسکری رضا رضوی

نظر ثانی: مولانا سید محمد میثم نقوی ،سیدہ  شوبی زیدی

پروف ریڈنگ: سید حسین عباس نقوی (قاری،پھنڈیروی)

کمپوزنگ: سید شوذب علی نقوی

 

عرض مؤلف

ہم سب عبد السلام بن صالح ابا صلت ہروی کو خادم الرضا(ع) کے عنوان سے پہچانتے ہیں چونکہ آپ امام رضا علیہ السلامکے بہت مقرب اور ہمرازصحابی تھے اس لئے آپ کے خصوصی احترام کے قائل ہیں اور حق بھی یہی ہے۔ لہٰذا ہمارے لئے بہتر یہ ہے کہ خود انکی شخصیت کے متعلق اور ان معارف اہل بیت کے متعلق جو انکے ذریعہ ہم تک پہونچے ہیں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کریں ۔

          بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپکی بزرگ اوربا اہمیت شخصیت پر اہل تسنن کی طر ف مائل ہونے کی تہمت بھی لگائی گئی ہے ، آپکے متعلق زیادہ کتابیں اور معلومات بھی نہیں ملتیں اس لئے بندهٔ ناچیز نے سرمایہ علم کی کمی کے باوجود اس بات کا ارادہ کیا کہ اس سلسلے میں اپنے امکانات کی حد تک وظیفے کو انجام دوں۔

 آپکے ہاتھوں میں یہ مختصر سی کتاب اسی ارادہ و جذبہ کا نتیجہ ہے ،کتاب کی اصلی بحثوں میں داخل ہونے سے پہلے چندنکات قابل ذکر ہیں:

 1)کبھی کبھی حضرت ابا صلت کے مرقد مطہر کی جگہ کے بارے میں اختلاف سامنے آتا ہے اگر چہ احتمال قوی یہ ہے کہ آپکی قبر شہر مقدس مشدی الرضا(ع)(معروف بہ مشدی مقدس) کے قریب ایک مقام پر ہے لیکن یہ 

بات مسلم ہے کہ آپکی شخصتم اس قدرمشہورومعروف اوربزرگ ہے کہ آپکے مزار مقدس کے معلوم نہ ہونے سے آپکی قدرومنزلت کم نہیں ہو سکتی بالکل اسی طرح سے جسےل کہ جناب زینب(س)کی قبر مطہرکی دقیق جگہ معلوم نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر روز دسوں کاروان فقط آپکی بزرگ اور معنوی شخصیت کی تعظمپ وتکریم اور زیارت کے لئے شہر دمشق جاتے ہیں ،اس سے بڑھ کرحضرت زہرا ء(س)کے مرقد شریف کی دققا جگہ کا مخفی ہونا کسی بھی صورت میں جنت البقیع میں آپکی قبر احتمالی پر آپکے عاشقان ومحبان کے حضور میں مانع نہیں ہے۔

 

۲)شہر مقدس مشہد کے نزدیک جو جگہ آپ کے حرم سے منسوب ہے وہاں پر جو لوگ آپ سے توسل کرتے ہیں انکے لئے آپکی جانب سے بہت زیادہ کرامات دیکھی گئی ہیں جنکے ذریعہ اسی مقام پر(آپکی قبر موجود ہونے کے متعلق) آپکے زائرین کے اطمنان قلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔(1)

۳)اگرچہ ہم نے اس کتاب کا نام خاطرات ابا صلت ہروی از امام رضاؑ رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اسی موضوع سے متعلق اچھے اچھے مطالب با ن کئے جائیں لیکن بعض مقامات پر [طرداً  للباب] (2) یعنی اسی موضوع سے متعلق ہونے کی وجہ سے کچھ دوسرے مطالب بھی ذکر کئے گئے ہیں کہ جو ابا صلت کے ذریعہ ہم تک پہونچے ہیں اور بہت اہم ہیں کہ جس میں چند واقعات حضرت امیرالمؤمنین(ع) و حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھااور چند احادیث نبوی شامل ہیں۔

(۴)اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ خاطرات ابا صلت کو خود انھیں کی زبانی بامن کیا جائے ،ہم نے اس کتاب کے مطالب کو پیش کرنے کے لئے ایسے قلم کو اختا ر کیا ہے جو لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے اور واقعات میں اثر پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہ قلم اباصلت کا قلم ہے (یعنی تمام واقعات انھیں کی زبانی نقل کئے ہیں)یہاں تک کہ اباصلت کا تعارف بھی خودانھیں کی زبانی کرایا گیا ہے ۔

--------------

(1):-  یہ تمام کرامات آپکے حرم کی کمیٹی کی جانب سے ایک کاپی (فائل) میں تحریر کرکےمحفوظ کی جاتی ہیں.

(2):- (طرداً للباب)یہ ایک حوزوی اصطلاح ہے ، اسکے معنی ہیں بحث کا جامع، کامل اور حاوی ہونا.

 

اپنی بات

نحمده لاهله و الصلاة علی اهلها

اما بعد:

معصومین علیہم السلام کے مزارات مقدسات کی زیارت کا بڑا ثواب ہے ، ہر شیعہ اور محب اہل بیت اپنے دل میں زیارت کی خواہش رکھتا ہے ، خداوند عالم سب کو ان زیارتوں سے مشر ف فرمائے ۔آمین

بندہ حقیر نے بھی زیارت اور طلب علم کے ارادے سے 28 مئی 2011 کو ہندوستان سے ایران کا سفر اختیار کیا، ایران پہونچ کر ایک ہفتہ شہر قم، معصومہ کے جوار میں بسر کیا ، ایک ہفتے کے بعد مشہد کا سفر اختیار کیا اور امام رضاعلیہ السلام کے روضے کی زیارت کے بعد آپ کی قدمگاہ کی زیارت کےلئے نیشاپور کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں آپ کے جلیل القدر صحابی عبد السلام بن صالح اباصلت ہروی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا، آپ کے حرم کے دروازے کے برابر میں صدوقی نامی ایک بندہ مؤمن کتابوں کی دکان لگاتا ہے میں دکان کے سامنے کھڑا ہو کر کتابوں کو دیکھ رہا تھا کہ میری نظر اس کتاب پر پڑی ان دنوں میں ایک کتاب (صدیقہ شہیدہ) کا ترجمہ بھی 

کر رہا تھا، میں نے سوچا کہ کیوں نہ ہو کہ میں امام رضاعلیہ السلام اور آپکے صحابی اباصلت کی زیارت کی برکت میں اس کتاب کا ترجمہ کردوں، لہذا میں نے یہ سوچ کر کتاب کو خرید لیا، جیسے ہی میں نے کتاب کو خریدا، آقای صدوقی نے مجھ سے کہا کہ یہاں پر ہندی اور پاکستانی اردو زبان لوگ آتے ہیں اور ہم سے اردو زبان کی کتابیں مانگتے ہیں لہذا اگر آپ اس کتاب کا ترجمہ ہم کو دیدیں تو بہت مہربانی ہوگی ۔

میں نے ان  کی بات کو قبول کر لیا اور مشہد سے قم واپس آنے کے بعد دوسری ذمہ داریوں اور مصروفیات کے با وجود آقای صدوقی کے اصرار کی بنا پرتقریباً پندرہ روز کے عرصے میں ، الحمد اللہ اس کتاب کا ترجمہ مکمل ہوگیا، اب اس مفید کتاب کاردو ترجمہ بھی آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔

 

کتاب بہت مفید ہے، اس کتاب کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں تمام روایات اباصلت سے لی گئی ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ہر واقعہ اسی شخصیت کی زبانی بیان کیا گیا جسکا اس واقعہ میں اہم نقش رہا ہے ۔

لہذا قارئین کرام کے لئے یہ بات عرض کر دینا بہتر سمجھتا ہوں کہ واقعات میں راوی کو تلاش کرنے کے لئے زیادہ نگران نہ ہوں کیونکہ سب روایتوں کے راوی اباصلت ہروی ہیں ۔

قارئین کرام سے گزارش ہے اگر ترجمہ میں کوئی غلطی نظر آئے تو تنقید کرنے کے بجائے ہم کو متوجہ کردیں بڑی مہربانی ہوگی ۔

اب میں ان سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنہوں نے اس کتاب کے ترجمہ میں میرا کسی بھی طرح تعاون کیا ہے خصوصاً اپنی خواہر سیدہ شوبی زیدی، مولانا محمد میثم نقوی میرٹھی (کہ جنھوں نے ترجمے پر نظر ثانی کی)اور مولانا قاری حسین عباس اور دوست عزیز سید شوذب علی نقوی کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنھوں نے کمپوزنگ اور پروف ریڈینگ کی ذمہ داری انجام دی ۔

آخر میں خداوند عالم سے دعاگو ہوں کہ اس کتاب کے ترجمے کو ہمارے اورہمارے مرحومین کے لئے سرمایہ نجات قرار دے اور ہم سب کو دامن اہل بیت سے متمسک رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

والسلام             

سید عسکری رضارضوی

آگست/2011ء             

 

پہلی فصل:

معرفی اباصلت

خادم امام رضا علیہ السلا م ابا صلت ہروی

میں عبد السلام بن صالح بن سلیمان ايّوب بن میسرہ ہوں۔ لوگ مجھے اباصلت ہروی کے نام سے پہچانتے ہیں ،میں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ میں امام رضا علیہ السلام کا ہم وطن ہوں چونکہ میری پیدائش 160ھ قمری (1) کو  مدینہ منورہ (2) میں ہوئی ہے۔ البتہ چونکہ میرے اجداد خراسان کے ایک ہرات نامی دیہات کے رہنے والے تھے اسی لئے میں اباصلت ہروی سے مشہور ہو گیا۔ (3)

میری زندگی کا سب سے بڑا عشق اہلبیت علیہم السلام اور پیغمبر اسلام ﷺکی احادیث وروایات کو جمع کرنا تھا اسی لئے میں نے اپنی تمام زندگی اور مال کو اسی کام میں خرچ کر دیا ،اکثر اوقات سفر میں رہا ،اس زمانے میں سفر کےخطروں اور مشقتوں کے باوجودشام،حجاز،یمن،عراق،کوفہ،بغداد، خراسان، نیشاپور اور ہرات وغر ہ کا سفر کیا اور عمر کے آخری حصہ میں نیشاپور کو وطن قرار دیا ۔ (4)

--------------

(1):- دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج5،ص612.

(2):-  تاریخ بغداد،ج11، ص46-تہذیب التہذیب،ج6 ، ص319.

(3):- راویان امام رضا(ع)، ص 235- مزارات خراسان، ص48.

(4):- راویان امام رضا(ع)، ص 231، النجوم الزاہرة، فی ملوک المصر و القاہرة، ج2، ص287.

 

میں نے نیشاپور کے کئی سفر کئے ہیں کہ جن میں سے ایک سفر  امام رضا(ع)کے ساتھ رہا ہے،نیز میں نے امام علیہ السلام کی عمرکے آخری لمحے تک آپکی خدمت گزاری کا شرف حاصل کیا ہے۔

اگر آپ یہ بھی جان لیں (تو کچھ برا نہ ہوگا)کہ میں امام کاغلام یا زر خریدہ نہیں تھا بلکہ میں نے اپنے لگاؤ سے آپکی خدمت گزاری اور نوکری کو قبول کیا اور خادم الرضاؑ کے نام سے مشہور اور لائق صد افتخار ہو گار۔ (1)

میرے لئے ایک بات یہ بھی باعث فخر ہے کہ میں نے تنن عالی مقام اماموں(یعنی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام (2)،امام رضا علیہ السلام اورامام محمدتقی علیہ السلام) کی خدمت میں حاضری دی ہے اور بطور مستقمی ان تینوں اماموں کے خزانہ علم ودانش اور تقویٰ سے استفادہ کیا ہے یہاں تک کہ میں نے امام حسن عسکریعلیہ السلام  کا زمانہ بھی دیکھا ہے۔(3)

چونکہ میں اہلبیت(ع)پانمبر اورانکے معارف وافکار سے دفاع کرنے کو اپنی سب سے بڑی ذمہ داری سمجھتا تھا اس لئے امام رضا (ع) کی اجازت سے اکثر اوقات مناظرات (خصوصاً مامون عباسی کے دربار میں ہونے والے مناظرات)میں شرکت کرتا تھااور خدا وند عالم کے لطف ومعارف اہلبیت(ع)کی برکت سے ہمیشہ کامیاب و سر بلند ہوتا تھا۔شہادت امام رضا (ع) اور مامون کی ہلاکت کے بعد میں نے  شہر طوس کو واپس ہوکر زندگی کے آخری ایام وہیں پر گزارے،2۳۲ھ قمری میں اس دار فانی کو الوداع کہا (4) اور مشہد مقدس کے نزدیک دفن کردیا گیا ،خدمت گزاری امام رضا (ع) کی برکت سے مرکا مقبرہ زیارتگاہ میں تبدیل ہو گار۔

اس گفتگو کے بعد اب مناسب یہ ہے کہ میں خادم امام رضا (ع) ہونے کے عنوان سے کچھ مطالب خود امام(ع) عزیز ومہربان کے بارے میں آپ لوگوں کے لئے باکن کروں ۔

--------------

(1):- مزارات خراسان، ص49.

(2):- راویان امام رضا (ع)، ص 232- مناقب آل ابی طالب، ج3 ، ص 438.

(3):- علامہ مجلسی اور شیخ حر عاملی کے نقل کے مطابق امام حسن عسکری(ع) کی ولادت ربیع الثانی 232ھ کو ہونی ہے.منتہی الآمال.

(4):- دائرہ المعارف بزرگ اسلامی ، ج5 ، ص 612.

 

تمام زبانوں پر امام رضاعلیہ السلام کا تسلط

 

امام رضا علیہ السلام ہر شخص سے اسی کی زبان میں گفتگو کرتے تھے، خدا کی قسم جس زبان میں بھی آپ گفتگو کرتے تھے تمام اہل زبان سے فصیح تر بولتے تھے۔

ایک روز میں نے آپکی خدمت میں عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺمجھے تعجب ہے کہ زبانوں کے مختلف ہونے کے باوجود بھی آپ تمام زبانوں پر بے نظرے تسلط رکھتے ہںے!

امام(ع)نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

اے ابا صلت میں اللہ کی تمام مخلوقات پر اسکی حجت ہوں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کسی کو لوگوں پر حجت قرار دے اور وہ لوگوں کی زبان کو نہ سمجھتا ہو(اور ان سے رابطہ نہ کر سکتا ہو)کیا تم نے حضرت امیرالمومنینؑ کا قول نہیں سنا؟کہ آپ نے فرمایا:فصل الخطاب ہمکو عطا کیا گیا ہے،کیا فصل الخطاب کا مطلب لوگوں کی زبانوں کو جاننے کے علاوہ کچھ اور ہے؟(1)

--------------

(1):- بحار الانوار، ج26 ، ص190 و ج49، ص 87 و ج39 ، ص 279- عیون اخبار الرضا، ص 228-مسند الامام الرضا ، ج1 ، ص 192- مناقب ابن شہر آشوب، ج4 ، ص 333- اثباة الہداة، ج3 ص 279- اعلام الوری ، ص 333.

 

عالم آل محمد(ص)

در حققت  امام علیہ السلام کا زبانوں سے آگاہ ہونا آپکے علم پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کا علم عام انسانوں کی طرح معمولی نہیں ہے کہ جو دوسروں سے حاصل کیاجاتا ہے اوربہت محدود ہوتا ہے بلکہ امام کا علم ،علم لدنّی ہے،خدا کی جانب سے ہے اور لا محدود ہے۔میں نے اپنی تمام عمر میں امام رضا (ع) سے بزرگ کوئی عالم دین نہیں دیکھا بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ اس زمانے کے تمام علماءودانشمندان بھی میری طرح آپکی علمی برتری کے قائل تھے۔

مامون مختلف مذاہب کے علماءاور شریعت اسلام کے فقہا و متکلمین کواپنی مجلس میں جمع کرتا تھا تاکہ ان میں سے کو ئی ایک بھی امام رضا (ع) کو شکست دے سکے لیکن آخر کار آپ ان سب پر کاما ب ہو جاتے تھے یہاں تک کہ کوئی بھی ایسا نہ رہتا تھا جو امام کے سامنے اپنی عجزوناتوانی کا اعتراف نہ کرلے ۔میں نے خود امام ر ضا (ع)سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : میں حرم اور مسجد نبویﷺ میں بیٹھتا تھا ،مدینہ میں بہت سے علماءموجود تھے جب بھی ان علماءمیں سے کوئی سوال کرنے والے کا جواب نہ دے پاتا تھا تو وہ سب  میری طرف اشارہ کر دیتے تھے (یعنی سوال کرنے والے کو میری طرف بھجی دیتے تھے )اور یہ لوگ بھی اپنے سوالات کو میرے سامنے رکھتے اور میں انکے جوابات دیتا تھا۔ (1)

امام (ع)کے اس کام سے ( یعنی لوگوں کو اطمینان بخش جوابات دینے سے )مجھے امام موسیٰ بن جعفر(ع) کی ایک روایت یاد آتی ہے کہ آپ امام رضا(ع) کی طرف اشارہ کر کے اپنی اولاد سے فرماتے تھے کہ :یہ تمہارا بھائی علی  بن موسیٰ(ع) عالم آل محمد ہے اپنے دین کے بارے میں ان سے سوال کرو اور ان کے جوابات کو اچھی طرح یاد کر لو چونکہ میں نے بارہا اپنے پدر بزرگوار سے سنا ہے کہ آپ مجھ سے فرماتے تھے کہ عالم آل محمد(ع)تمہارے صلب میں ہے کاش کہ میں اسکو دیکھتا، وہ امیر المؤمنین کا ہمنام ہوگا۔ (2)

--------------

(1):- کشف الغمة ، ج3 ، ص 107.

(2):-  بحار الانوار ، ج49 ، ص100- کشف الغمة ، ج2 ، ص 316- منتہی الآمال ، فصل 2 از باب 10.

 

امام رضاعلیہ السلام کے لئے خلافت کی پیشکش

یقینا آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوگا کہ:

 مامون کے امام رضا(ع) کو خلافت سپرد کرنے کا ماجرا کیا ہے؟ اور امام(ع) نے اسکو قبول کیوں نہیں فرمایا؟!

یہ واقعہ کچھ اس طرح سے ہے کہ ایک دن مامون نے امام رضا (ع)سے کہا:

اے فرزند رسو لﷺ میں نے آپ کے فضل و عمل، زہدوپارسائی اور آپیف عبادت کو دیکھا ہے میں آپ کو خلافت کا خود سے زیادہ حقدارسمجھتا ہوں۔

امام رضا(ع)کہ جو اسکے باطن کو جانتے تھے آپ نے فرمایا:

 میں خدائے بزرگ کی عبادت اور بندگی پر فخر کرتا ہوں اور اپنے زہدکی بنا پرامیدوار ہوں کہ خدا وند دنیا کی برائیوں سے مجھ کو نجات دے اور حرام کامو ں سے دوری کے ذریعہ نعمت الٰہی کے حصول اور تواضع و انکساری سے عالمین کے پروردگار کی بارگاہ میں بزرگ مقام حاصل کرنے کا امیدوار ہوں۔

مامون نے ہوشمندی اور ریاکارانہ طور پر کہا:

میرا ارادہ یہ ہے کہ خود کو مقام خلافت سے ہٹا کر آپ کو اپنی جگہ پر منصوب کر دوں اور خود آپکی بیعت کر وں۔

امامؑ نے بہت ہی دلچسپ ،عاقلانہ وعالمانہ جواب دیا کہ:

اے مامون!اگر یہ خلافت ترنا حق ہے اور خدا نے لباس خلافت  تجھ کو پہنایا ہے تو پھر جائز نہیں ہے کہ ت. اس لباس کو اپنے تن سے اتار کر کسی دوسرے کو پہنا دے ۔اب چونکہ مامون کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس لئے ناچار اس نے حاکمانہ انداز میں کہا :اے فرزند رسولﷺ  آپ کو یہ پیشکش قبول کرنا پڑیگی۔

امام رضا(ع)نے بے جھجھک جواب دیا:میں ہر گز اس کام کو رضایت اور خشنودی کے ساتھ انجام نہیں دونگا۔

 

ولایت عہدی کی پیشکش

مختصر یہ ہے کہ مامون نے پیچھا نہ چھوڑا تقریباًدو مہینے تک اس پیشکش پر اصرار کرتا رہا لیکن جب کسی نتجہے تک نہ پہونچ سکا اور مکمل طور پر مایوس ہوگیا تو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اس نے ایک نئی پیشکش کی :

اگر آپ خلافت کی پیشکش کو قبول نہیں کرتے ہیں اور اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ میں خلیفہ کے عنوان سے(آپکو خلیفہ مان کر) آپکی بعتگ کروں تو پھر آپ ولایت عہدی کی پیشکش کو قبول کر لیجئے تاکہ میرے بعد خلافت آپ کے ہاتھ میں رہے۔

امام رضا(ع)نے جوجواب دیااس سے بری طرح میرے دل میں درد ہونے لگا،آپ نے فرمایا:

خدا کی قسم میرے بابا نے اپنے اجدادامیرالمومنین(ع)اور رسول اکرم سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں تجھ سے پہلے زہر دغا کے ذریعہ مظلومانہ طورپر اس دنا  سے چلا جاؤںگا ، آسمان وزمین کے فرشتے مجھ پر روئگےدن اور میں غریب الوطن ہارون رشدج کی قبر کے برابر میں دفن کردیاجاؤنگا !

مامون ریاکارانہ طور پر رونے لگا اور کہا:

اے فرزند رسولﷺ جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک کس میں ہمت ہے جو آپ کو قتل یا آپکی شان میں گستاخی کرسکے۔

چونکہ امام رضا علیہ السلاما س وقت یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ تو خود میرا قاتل ہے لہذا آپ نے اشارةً فرمایا:

جان لو کہ اگر میں چاہوں تو ابھی ابھی اپنے قاتل کا نام بھی بتا سکتا ہوں۔

مامون نہیں چاہتا تھا کہ امام علیہ السلامسب کے سامنے اپنے قاتل کا نام بیان کریں اس لئے اس نے کہا:

فرزند رسول ﷺ آپ چاہتے ہیں کہ ان باتوں کے ذریعہ چھٹکارا پالیں اور اس مسؤلیت و ذمہ داری کے وزن سے بچے رہیں تا کہ لوگ کہیں کہ موسی بن جعفر علیہما السلام کا بیٹا (یعنی امام رضا علیہ االسلام) زاہد ہے ، دنیاوی مقامات کا طلبگار نہیں ہے۔

امام رضاعلیہ السلام نے مامو ن کے جواب میں فرمایا کہ:

 

خدا کی قسم جب سے خدا نے مجھے پیدا کیا ہے اس دن سے آج تک میں نےدنیا کو حاصل کرنے کے لئے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، میں جانتا ہوں کہ اس پیشکش سے تیرا کیا مقصد ہے۔

مامون: کیا مقصد ہے؟

امام:اگر میں حقیقت بیان کروں تو کیا مجھے امان ہے؟

مامون: البتہ آپ امان میں ہیں۔

تیرا مقصد یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ علی ابن موسیٰ (ع)دنیا میں زہد حقیقی نہیں رکھتے تھے بلکہ انہونے زہد اس لئے اختایر کیا تھاکہ دنیا انکے ہاتھوں نہیں لگ رہی تھی لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ موقع ملتے ہی انہوں نے خلافت کو حاصل کرنے کے لئے کس طرح ولایت عدقی کو قبول کر لیاہے۔یہ سنتے ہی مامون آگ بگولہ ہو گیا اب اسکے پاس آواز بلند کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لذ ا ا س نے بلند وآواز سے کہا:آپ ہمیشہ وہی کام انجام دیتے ہیں جو مجھے پسند نہیں ہے آپکو میرے غصہ کا کوئی خوف نہیں ہے۔خدا کی قسم اگر آپنے اپنی مرضی سے ولایت عد ی کو قبول کر لیا توٹھیک ہے ورنہ میں آپکو یہ عدنہ قبول کرنے پر مجبورکروں گااور اگر پھر بھی قبول نہیں کریں گے تو میں آپکا سر قلم کر دوںگا۔

امام رضاؑنے ناچارہوکر فرمایا:خداوندعالم نے مجھے اپنی جان کو اپنے ہاتھ سے ہلاکت میں ڈالنے سے منع کیا ہے لیکن اگرتومجھے اجازت دے کہ میں جو چاہوں کروں تو پھرمیں تیری پیشکش کو قبول کر سکتا ہوں مگر اس شرط کے ساتھ کہ مں  فقط ترنا مشاوربن کررہوں گا،نہ امراءو حکام کے عزل ونصب مںھ دخل اندازی کروں گا،اور نہ ہی کسی قانون یا سنت کو ختم کروں گا ، یہاں تک کہ اپنا ارادہ اور فیصلہ سنانے سے بھی دوری اختیار کروں گا۔مامون نے سوچا کہ مجھے اپنے مقصد تک پہچنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے لہذا اس نے امام(ع) کے شرائط کو قبول کرلیا جب کہ امام(ع) اس بات سے راضی نہ تھے۔ (1)

-------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 120-امالی صدوق ، مجلس 16 ، عیون اخبار الرضا، ج2 ، ص 139- علل الشرایع ، باب 1733 ، ص 237.

 

مامون نے امام رضا علیہ السلامکو کیوں شہید کیا؟

ممکن ہے اب آپ یہ سوال کریں کہ جب مامون نے اپنا مقصد حاصل کرلیا تھا تو پھر اس نے امام رضا(ع)کو کیوں شہید کیا؟ جب کہ سب لوگ اس بات کو جانتے ہیں کہ مامون امام رضا (ع)کا بہت احترام کرتا تھا اور آپ کو اپنا ولیعہد اور اپنے بعد اپنے خلیفہ کے نام سے پہچنواتا تھا یہاں تک کہ اس نے آپ کے نام کا سکہ بھی بنوایا تھا۔اتفاقاً احمد بن علی انصاری نے مجھ سے یہی سوال کرلیا ، میں نے اس کے جواب میں کہا کہ : مامون ،امام رضا علیہ السلام کا احترام اس لئے کرتا تھا کہ وہ اپنے مقابل میں امام (ع) کی فضیلت اور برتری کو جانتا تھا لیکن اس نے امام(ع) کو ولیعہد اس لئے بنایا تھا کہ لوگوں کو یہ دکھا دے کے امام(ع)دنیا سے وابستہ اور دل لگائے ہوئے ہیں تا کہ امام (ع)کے بارے میں ان کے خیالات برے ہو جائیں اور لوگوں کے نزدیک امام (ع)کا مقام اور معنوی مقبولیت کم ہوجائے۔لیکن جب مامون اس طریقہ سے کامیاب نہ ہوا تو اس نے اپنے پلید ، گندے مقاصد تک پہونچ نے کے لئے ایک دوسرا طریقہ استعمال کیا اور وہ یہ کہ اسلام کے علماءاور متکلمین (کہ جن کے نظریات آپس میں مختلف تھے) یہاں تک کہ یہود ، مسیحیت ، زرتشتی، صائبین ، براہمہ،ملحدین اور دہریوں کے علماءکو امام رضا (ع)سے علمی بحث و مناظرہ کرنے کے لئے طلب کیا لیکن امام رضا(ع) نے ان سب کو مغلوب کردیا۔جب لوگوں نے امام رضا علیہ السلام کی اس برتری کو دیکھا تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ ”خلافت واقعاً امام رضا(ع)کا حق ہے اور مامون کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے “۔ ہر روز جب مامون کے جاسوس امام رضاعلیہ السلام کی مقبولیت کے خبریں اس کو سنا تے تھے تو اس کے حسد اور کینہ میں اضافہ ہو جاتا تھا۔مامون کے حسد اور کینہ کی زیادتی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ امام رضاعلیہ السلام،مامون کے مقابل میں حق بولنے اور اظہار حقیقت کرنے میں کسی طرح کا خوف نہ کھاتے تھیں۔ مامون اپنی ہوشمندی اور شیطنت سے حسد کی رگ کو چھپائے رکھتا تھا لیکن جب اس نے یہ سمجھ لیا کہ اب کسی طرح بھی امام (ع) کو لوگوں کی نظر میں بے اعتبار نہیں کیا جا سکتا تو اس نے آپ کو ہلاک کنندہ زہر دے کر شہید کردیا۔ (1)

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا، ج2 ، ص 239- منتہی الآمال  فصل 5 از باب 10.

 

اخبار شہادت امام و ثواب زائرین امام رضاعلیہ السلام

آپ کو معلوم ہوگا کہ امام علیہ السلام ، علم امامت اور اذن خدا کے ذریعہ ہر چیز کو جانتا ہے اور گذشتہ اور آئندہ اس کے لئے برابر ہے ، میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے اپنی شہادت سے مدتوں پہلے فرمایا تھا : میں بہت جلد مظلومانہ ، زہر سے قتل کردیا جاؤنگا اورہارون کے برابر میں دفن کیا جاؤنگا ، خداوند عالم میرے مرقد کو میرے شیعوں اور اہلبیت (ع) کے آمد و رفت کا مرکز قرار دے گا! پس خدا کی قسم جو شخص بھی میری غربت میں میری زیارت کریگا اسکی زیارت روز قیامت مجھ پر واجب ہے ، اس خدا کی قسم جس نے محمد ﷺکو نبوت کے لئے چنا اور تمام مخلوقات میں ہم کو منتخب کیا تم میں سے جو شخص بھی میری قبر پر دو رکعت نماز پڑھے گا وہ خداوند عالم کی جانب سے بخشش و مغفرت کا حقدار ہوگا۔

اس خدا کی قسم جس نے محمد ﷺ(کہ ان پر اور ان کے آل پردرود ہو)کے بعد ہم کو منصب امامت کے ذریعہ بزرگی عطا کی اور پیغمبر کی وصایت کو ہم سے مخصوص کردیا ، قیامت کے دن خداوند عالم کے سامنے حاضر ہونے والوںمیں سے سب سے بزرگ وہ لوگ ہونگے جو میری قبر کے زیارت کریں گے اور کوئی مومن ایسا نہ ہوگا کہ جو میری قبر کی زیارت کرے اور

 اس کے چہرہ پر آنسو کا کوئی قطرہ گر جائے مگر یہ کہ خداوند اس پر آتش جہنم کو حرام کردے۔

اسی طریقہ سے ایک روز میں خدمت امام رضا علیہ السلام میں بیٹھا تھا کہ ایک گروہ وارد ہوا اور اس نے آپ کو سلام کیا ،

 

امام(ع) نے ان کے سلام کا جواب دیا اور انھیں اپنے پاس بیٹھاکر فرمایا: ”مرحبا ، خوش آمدید ہمارے حقیقی شیعہ تم ہو ، ایک روز وہ آئیے گا کہ تم طوس میں میری قبرپر میری زیارت کرو گے، جان لو کہ جو بھی غسل کر کے میری زیارت کرے گا وہ گناہوں سے اس طرح خارج ہو جائے گا جس طرح اپنی پیدائش کے دن گناہوں سے پاک تھا“۔(1)

ایک حدیث اور اسی حوالے سے آپ کے سامنے بیان کررہا ہوں جو میں نے اپنے کانوں سے سنی ہے ، امام رضا (ع)نے فرمایا:”خدا کی قسم ہم میں سے کوئی بھی امام ایسا نہیں ہے جس کو قتل نہ کیا جائے “۔

          حاضرین میں سے ایک نے تعجب سے پوچھا: اے فرزند رسولﷺ کون آپ کو قتل کریگا ؟!

امام(ع) اپنے قاتل کا نام سب کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا آپ نے اپنے قاتل کے باطن سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا:”میرے زمانہ کا سب سے بدترین انسان مجھے قتل کریگا اور ایک تنگ جگہ، سرزمین غربت میں مجھ کو دفن کردیاجائے گا“جان لو کہ جو بھی میری غربت میں میری زیارت کریگا خداوند عالم اس کو ایک ہزار صدیق ، ایک ہزار شہید ، سو ہزار حاجی اور عمرہ کرنے والوں اور سوہزار مجاہدوں کا ثواب عطا کریگا،اس کا حساب ہمارے ساتھ ہوگا اور وہ جنت میں بلند درجات پر ہمارا دوست اور ہمنشنین قرارپائےگا۔ (2)

--------------

(1):- اثباة الہداة،ج3 ، ص 283.

(2):-  بحار الانوار ، ج49 ، ص 383- روضة المتقین ، ج5 ، ص 399  امالی شیخ صدوق ص 61  من لا یحضرہ الفقیہ ، ج2 ، ص 351- عیون اخبار الرضا ، ج2 ، ص 630- اثباة الہداة ج3 ، ص 254.

 

دوسری فصل:

خاطرات ابا صلت

سو دینار کا معمہ!

میں دعبل ہوں (1) ، دعبل خزاعی ، امام رضا (ع)کے زمانے کامشہور شاعر ، وہی شاعر کہ جس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ حریم امامت و ولایت اور خاندان پیغمبر کے دفاع کے لئے ایک لکڑی کو اپنے کاندھے پر اٹھائے پھرتاتھا۔

عشق امام رضا علیہ السلامنے مجھ کو آوارہ بنادیا تھا اور میرے کام صرف جنگلوں میں تلاش امام کے لئے گھومنا تھا ، یہاںتک کہ مجھ کو یہ توفیق حاصل ہوگئی کہ میں نے شہر ”مرو“ میں امام کے مبارک ہاتھوں کو چوم لیا ، یہ بات کوئی نہیں جانتا ہے کہ جب میں امام کی خدمت میں پہونچا تو کس حال میں تھا ، میں نے عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺ، میں نے ایک قصیدہ آپ اور آپکے خاندان کی مظلومیت میں کہا ہے اور قسم کھائی ہے کہ آپ سے پہلے وہ قصیدہ کسی کو نہیں سناؤں گا۔ (2)آقانے  اجازت دی اور میں نے قصیدہ پڑھنا شروع کیا ، قصیدہ بہت مفصل ہے ، اس مختصر سی کتاب میں اس کو مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا فقط اس کے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش ہیں:

مَدارِسُ آیاتٍ خَلَت مِن تَلاوَةٍ

وَمَنزِلُ وَحیٍ مُقَفَّرُ العَرَصاتِ

وہ گھرانے جہاں وحی اور قرآن کا نزول ہوتا تھا خراب اور جنگل کی طرح لاوارث ہوگئے ہیں اور اس کے مقابل میں وہ گھر آباد ہوگئے ہیں کہ جن سے شراب پینے والوں کے ناچ، گانے کی آواز یں آتی ہیں۔

--------------

(1)؛- اس واقعہ کے راوی اباصلت ہیں لیکن ہم نے یہاں اس واقعہ کو خود دعبل کی زبانی بیان کیا ہے۔

(2):- آیت قصیدہ اور دعبل کے تمام اشعار آپ (عیون اخبار الرضا(ع)- اعیان الشیعةج31- دیوان دعبل، چاپ نجف ، عبدالصاحب دجیلی خزرجی اور مناقب ابن شہر آشوب ) میں دیکھ سکتے ہیں۔

 

اَری فَیئَهُم فی غَیرِهم مُتَقَسِّماً

وَ اَیدیهِم مِن فَیئهِم صَفَراتِ

میں دیکھ رہا ہوں کے انکا مال دوسروں کے درمیان تقسیم ہو گیا ہے اور ان کے ہاتھ خالی ہوگئے ہیں۔

جب میں قصیدہ پڑھتے ہوئے اس مقام پر پہونچا تو امام(ع) کے آنکھوں سے آنسو بنےص لگے اور آپ نے فرمایا:”ہاں دعبل تم ٹھیک کہہ رہے ہو !“

جب میرے اشعار تمام ہوگئے تو امام (ع)اپنے جگہ سے اٹھے اور صحن سے حجرہ کی طرف روانہ ہوئے میں بھی اٹھا تا کہ واپس پلٹ جاؤں اور امام (ع)کو زیادہ زحمت نہ دوں ، لیکن امام (ع)نے فرمایا:”دعبل ذرا ٹھہرو مجھے تم سے کچھ کام ہے“۔

ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ امام (ع) کا ایک غلام سونے کی تھیلی لے کر آیا اور اس کو میرے ہاتھوں میں رکھ دیا ، میں نے پوچھا :یہ کیا ہے ؟ خادم نے کہا : یہ سونے کے سو رضوی (1) دینار ہیں ، یہ تمھارے قصیدہ کا صلہ ہے ، آقا نے اس کو تمھارے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ ان پیسوں کو اپنے مخارج میں خرچ کرلینا ۔

اس وقت میں بالکل غافل ہو گیاتھا ، میں نے مِن مِن کرتے ہوئے کہا : خدا کی قسم میں پیسوں کے لئے نہیں آیا تھا اور میں نے یہ قصیدہ لالچ میں نہیں کہا ہے،یہ کہتے ہوئے میں نے سونے کے سکوں کی تھیلی واپس کردی ، اور اس کی جگہ کسی ایسی چیز کی درخواست کی کہ جو معنوی اہمیت رکھتی ہو اور کہا :

آقا سے کہئے کہ اگر ممکن ہو تو ان سو دینار کے بدلے ایک ایسا لباس جو آپ نے پہنا ہو مجھ کو عطا فرمادیں تا کہ میں اس سے برکت حاصل کرسکوں۔

--------------

(1):- وہ دینار کہ جو ولایت عہدی کے عنوان سے امام رضا(ع) کے نام سے بنوائے گئے تھے.

 

خادم کو گئے کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ وہ ایک ہاتھ میں امام کا سبز رنگ کا جبہ اور دوسرے ہاتھ میں سونے کے سکوں کی تھیلی لئے ہوئے واپس پلٹا اور کہا:

آقا نے یہ لباس تمھارے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ پیسوں کی یہ تھیلی بھی تم رکھ لو کہ تم کو اس کی ضرورت پیش آئے گی۔

چار و ناچار میں نے پیسوں کو قبول کرلیا اور ایک قافلے کہ ساتھ ”مرو“ سے خارج ہوا ۔ آپکی آنکھیں کو ئی برا وقت نہ دیکھیں ، جب ہم ”قوہان“ (1) پہونچے تو مسلح راہزنوں نے ہمارے قافلے پرحملہ کیا اور تمام مال، گھوڑے ، امام(ع) کا جبّہ اور وہ سو دینار سب کچھ زبردستی ہم سے چھین لیا اور ہمار ے ہاتھ پیر باندھ کر ہم کو زمین پر ڈال دیا۔

ہماری حالت بری تھی چونکہ ایک طرف تو ڈر ، خوف اور دہشت تھی اور دوسری طرف وہ ہمارا سب کچھ لوٹ چکے تھے اب ہم کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ ہم کو زندہ چھوڑیں گے یا نہیں؟

ایک غارتگر چور جو میرے گھوڑے پر سوار تھا مال کثیر حاصل کرنے کی بنا پر بہت خوش و خرم اور مست تھا، وہ مال جمع کرتے کرتے آہستہ آہستہ کچھ شعر پڑھ رہا تھا، اسکے اشعار میرے کانوں کو کچھ سنے سنائے معلوم ہوئے، میں نے کان لگائے تو سنا کہ وہ یہ بیت پڑھ رہا تھا:

اَری فَیئَهُم فی غَیرِهم مُتُقَسِّماً

وَ اَیدیهِم مِن فَیئهِم صَفَراتِ

          میں دیکھ رہاہوں کہ ان بے سہارا لوگوں کا مال غیروں میں تقسیم ہو رہا ہے اور ان کے ہاتھ ان کے اموال سے خالی ہوگئے۔

--------------

(1):- قوہان ہرات اور نیشابور کے در میان ایک شہر کا نام ہے.

 

یہ بات میرے لئے بہت دلچسپ تھی کہ جس چور نے میرا سامان (مال) لوٹا ہے وہ مجھ کو پہچانے بغیر میرے اشعار ، میرے ہی سامنے میرے حالات کی زبانی، مستی کے ساتھ پڑھ رہا ہے وہی اشعار جو کچھ دن پہلے ، پہلی بار میں نے امام رضا علیہ السلامکی خدمت میں پڑھے تھے ، اور اب وہ اشعار اسی سرزمین پر میرے ہاتھوں سے دور ہوگئے تھے ۔ میں نے چور کی طرف رخ کر کے کہا :

معلوم ہوتا ہے کہ تم شاعری کا شوق بھی رکھتے ہو !

چور : ہاں، ہم تو ایسے ہی ہیں ، شاعروں کی لطافت بھی رکھتے ہیں اور غارت گروں کی دہشت بھی۔

دعبل: جب تم ان اشعار کو اتنا دوست رکھتے ہو تو بتاؤ ان اشعار کا شاعر کون ہے کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟

چور: یقینا میں اس کو پہچانتا ہوں ، وہ قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی ہے اس کا نام دعبل ہے اور اس نے یہ اشعار امام رضاعلیہ السلامکے شإن میں کہے ہیں، ٹھیک ہے کہ ہم چور ہیں لیکن کچھ بھی ہو امام رضاعلیہ السلامکو دوست رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ہارون اور مامون جیسے غاصب و ستمگر سے بالکل جدا ہے وہ فرشتوں سے بھی زیادہ پاک اور دوستی کے لائق ہیں!

دعبل : میں نے سوچا کہ یہی وقت ہے کہ میں اپنی پہچان بتا دوں لہذا میں نے کہا تم کہتے ہو کہ دعبل کو پہچانتے ہو اگر اس کو اس مجمع میں دیکھو گے تو کیا پہچان لو گے؟

چور: میں اس کو نام سے پہچانتا ہوں چہرہ سے نہیں ۔

دعبل: کیا مجھے پہچانتے ہو؟

چور: میں تم کو کیسے پہچانوں، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ تم ،چوروں کے لئے چربی کا ایک لقمہ ہو۔

دعبل: میں دعبل خزاعی ہوں ، وہی دعبل کہ جس نے امام رضا (ع)کی شان میں یہ اشعار کہے ہیں۔

 

جب اس نے میری زبان سے میرا نام سنا تو بے اطمینانی اور تعجب کے ساتھ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:

 ارے ،ارے ، کیا یہ ممکن ہے کہ تم سچ بول رہے ہو، خدا کرے کہ تم نے سچ نہ بولا ہو چونکہ اگر تم نے سچ کہا ہوگا تو ہماری آج کی زحمات بے کارہو جائیں گی اور اگر تم نے جھوٹ کہا ہو گا تو آج تم اپنی جان کھو بیٹھو گے ، جب تک میں واپس آؤں تم یہیں پر ٹھہرو۔

یہ کہہ کر چور اپنے رئیس کی طرف دوڑا، رئیس ایک ٹیلے پر نماز پڑھ رہا تھا غارتگروں کے رئیس کو نماز کی حالت میں دیکھنا میرے لئے بہت عجیب تھا ، میں نے خود سے کہا :

اگر یہ نماز پڑھتا ہے تو پھر چوری کیوں کرتا ہے ؟ اور اگر یہ چوری کرتا ہے تو پھر اس کے نماز پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟

ابھی زیادہ وقت نہ گذرا تھا کے چور اور رئیس میرے پاس آئے ، راہزنوں کے رئیس نے کچھ دیر تک مجھ کو گھور کر دیکھا اور پوچھا کیا واقعاً تم وہی دعبل خزاعی ہو؟ جس نے یہ مشہور قصیدہ امام(ع)کی شان میں کہا ہے؟

دعبل: خدا کی قسم میں وہی دعبل خزاعی ہوں ؟

رئیس: اگر تم سچ کہتے ہو تو اس قصیدہ کو اول سے آخر تک بغیر دیکھے پڑھو۔

اس وقت تک تمام چور میرے اطراف جمع ہوگئے تھے ، میں نے اپنے قصیدہ کو اول سے آخر تک پڑھنا شروع کیا ، جب میرا قصیدہ ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ راہزنوں کی آنکھوں سے آنسو نکل کر زمین پر گر رہے ہیں اور زمین کو گیلا کر رہے ہیں۔

تمام جنگل پر سکوت چھا گیا تھا اور اب قافلے والوں میں" کہ جن کے ہاتھ اور پیر بندھے تھے" اضطراب اور پریشانی کے اثرات باقی نہیں تھے۔ چوروں کے رئیس نے آنسو کو آستین سے صاف کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:

تمام کاروان والوں کے ہاتھ اور پیر کھول دو ، انکا تمام مال واپس کردو ، اور کسی محفوظ منطقہ تک ان کے ساتھ جاؤ!

 

ایک چور نے اعتراض کیا: رئیس لیکن یہ بہترین لقمہ ہے جو گذرے ہوئے کئی مہینوں میں ہم نے حاصل کیا ہے، اب ہم ان کو مال کس طرح واپس کرسکتے ہیں؟

رئیس نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہاکہ: جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو یہ لوگ امام رضا(ع)کی جانب سے آئے ہیں۔

جب ہم لوگ چوروں سے دور ہورہے تھے ، انکا رئیس ہماری ہدایت کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سے عذر خواہی کر رہا تھا ۔(1)

آخرکار زحمتں  اور مشقتںہ برداشت کرتے ہوئے ہم لوگ شہر قم پہونچ گئے،یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے اماموں نے قم کو آشا نہ آل محمد کے نام سے پہچنوایا ہے خدا کی قسم سچ تو یہ ہے کہ اہل قم مرمی مہمان نوازی اور احترام میں ایک پیر پر کھڑے ہوگئے کیونکہ وہ لوگ مجھ کو مولا، امام رضا(ع) کا ایک خادم جانتے تھے خصوصاًان لوگوں نے اس قصدضہ  کوسننے کےلئے میرے گرد حلقہ بنت لیا اور کہا:

تم کو خدا کا واسطہ وہ قصیدہ ہم کو بھی سناؤ جوتم نے امام کو سنایا تھاتوامام نے پسند کیا اور اسکوسنکررونے لگے تھے اور اسکے بدلے تم کو قمتیو صلہ بھی ملا تھا ہم چاہتے ہیں کہ اسکو خود تمھاری زبان سے سنںک۔

میں نے انکی گزارش کو قبول کر لیا ،قم کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے مجمع اس قدر اکھٹا ہو گیا تھا کہ جب میں منبر پر پہونچا تو معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی محشر بپا ہے جب میں نے اشعار پڑھے تو قم کے لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ انھوں نے مجھ کو بہت سا مال اور ہدیے دئےر اور مجھ کو حلقے میں لیکر کہا :

ہماری خواہش ہے کہ وہ متبرک لباس جو امام رضا(ع) نے تمکو عطا کیا ہے اسکو ہمیں ایک ہزار سونے کے سرخ دینار کے بدلے بچر دو۔

--------------

(1):- با استفادہ از بحار الانوار ، علامہ مجلسی ، ج 49 ، ص 238.

 

لیکن آپکو معلوم ہے کہ وہ لباس معنوی اہمیت رکھتا تھا اور میں اسکو تمام دنان کے بدلے بھی دینے کو راضی نہ تھا لہٰذا انھوں نے جتنا بھی التماس کیا میں نے قبول نہ کیا یہاں تک کہ بچے بھی اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ اس کپڑے کا فقط ایک ٹکڑا مجھ سے اسی قیمت میں خرید لیں لیکن میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اس کپڑے میں سے ایک دھاگا بھی بیچوں۔

آخر کار میں قم سے عراق کی طرف روانہ ہو گاپ ابھی قم سے کچھ فرسخ دور نہ ہوا تھا کہ جوانان قم کے ایک گروہ نے مجھے گھیر لیا اور جبراً مجھ سے امام رضا(ع) کا لباس چھین کر ہزار آہ وافسوس اور آنسؤں کے ساتھ مجھے جنگل میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔

ناچار ،میں نے قم واپس آکر بزرگوں کا دامن تھاما،انھوں نے بھی ان جوانوں کو بہت نصحتل کی کہ :”تم کیسے امید کر سکتے ہو کہ جو لباس تم نے زبر دستی چھینا ہے وہ تمھارے لئے امن اوربرکت کا سبب بن جائے!“لیکن انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔

اب التماس کرنے والے اور التماس سننے والے بدل گئے تھے (یعنی جو پہلے التماس کر رہے تھے اب ان سے التماس کی جارہی تھی اورجس سے پہلے التماس کی جارہی تھی اب وہ خود کھڑا التماس کر رہا تھا )یعنی اب میں تھا جو التماس کر رہا تھا۔

جوانوں نے کہا : ہم چور نہیں ہیں ہم اب بھی تایر کہ تم کو وہ ایک ہزار دینار دےدیں لیکن یہ لباس ہرگز نہیں دے سکتے ۔

اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھامیں نے انکی پرانی درخواست کو خود انھیں کے سامنے پیش کیا:

اس متبرک لباس کا کم سے کم ایک تکڑا تو مجھے دےدیجئے!۔

خدا وند عالم ان سبھوں کا بھلا کرے کہ وہ سب مجھ سے زیادہ انصاف ور تھے انھوں نے میری اس درخواست کو قبول کر لیا،اس لباس کا ایک ٹکڑا اور ایک ہزار سر خ سونے کے دینار احترام کے ساتھ میری خدمت میں پیش کردئیے۔

 

خدا نہ کرے کہ آپ کوئی برا وقت دیکھیں ،جب میں اپنے وطن بغداد واپس ہوا تو شہر کے دروازے پر ہی دو بری اور وحشتناک خبریں مجھ کو ملیں !

ایک تو یہ کہ تمھارے گھر چور داخل ہوئے اور تمھاری غیبت کو غنیمت جان کر سب کچھ لے گئے یہاں تک کہ تہہ خانہ میں بھی جھاڑو لگادی ہے۔

دوسرے یہ وہ کنیز(کہ جو تمھارا عشق تھی ،تمھارے لئے مثل لیلیٰ تھی اورتم اسکے مجنون تھے )آنکھوں کی سخت بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے اور اسکا ناک و نقشہ بہت برا ہوگیا ہے۔

یہ دو خبریں سنتے ہی دنیا میرے سامنے اندھیر ہوگئی لیکن میں نے خدا پر بھروسہ کیا اور گھر میں داخل ہو گیا گھر ایسا کہ جسمیں فقط وفقط درودیوار تھے اور کچھ نہ تھا ابھی میں نے سامان سفر نہ اتارا تھا کہ شہرکے لوگ مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آگئے اور میرے گرد حلقہ لگا لیا اور قبول زیارت کی دعا دینے لگے جب میں نے ان لوگوں سے امام رضا (ع) کی ملاقات کا ماجرا بیان کیا اور بتایا کہ ”میں نے امام(ع)کی خدمت میں قصیدہ پڑھا اورامام(ع)نے مجھ کو ایک سو،سونے کے رضوی دینار عطا کئے“تو انھوں نے التماس کی کہ جو دینار تمکو امام رضا(ع)نے دئے ہیں اور ان پر امام کا نام لکھا ہوا ہے وہ سب ہم کو دےدو اور ہر ایک دینار کے  بدلے سو درہم ، ہم سے ہدیہ لے لو۔

مجھے ڈر تھا کہ انکار کرنے کی صورت میں کہیں پر  سے قم کے واقعہ کی تکرار نہ ہو جائے اس لئے میں نے ان لوگوں کی درخواست کو قبول کر لیا اور وہ رضوی سکّے ان لوگوں کو ہدیہ کر دئے ان لوگوں نے بھی اس کے بدلے مجھ کو دس ہزار درہم ہدیہ کئے۔ میں ایک چھوٹی سی مدت میں تین مرتبہ چوروں کا شکار ہو چکا تھالیکن امام رضا(ع)کے ہدیہ کی برکت سے اپنے شہر کا سب سے امیر انسان ہو گیا تھا!(1)

--------------

(1):-  منتہی الآمال ، فصل 7 از باب 10- بحار الانوار ، ج49 ، ص 237-241 و ص 245-251 ، کرامات رضویة ج 2 ص 223-259.

 

 اب میری پریشانی صرف اور صرف میری پیاری کنیز کی آنکھیں تھیں میں نے شہرکے تمام طببوسں اور حکیموں کوجمع کرکے کہا:

 اگر میری کنیز کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں تو میں اپنی تمام دولت دینے کے لئے حاضر ہوں!

لیکن طبیبوں اور حکیموں نے آپس میں رائے ، مشورہ کرنے کے بعد صاف صاف مجھ سے کہہ دیاکہ:

اسکی داہنی آنکھ کسی بھی صورت میں قابل علاج نہیں ہے چونکہ اسکی بینائی جاچکی ہے لیکن اگر کچھ پیسہ خرچ کیا جائے تو شاید ہم اسکی بائی آنکھ کوخراب ہونے سے بچالیں۔

اب میری حالت بہت خراب ہو گئی تھی میں نے دور ہی سے خراسان کا رخ کرکے عرض کیا: اے امام رضا(ع)آپ نے ایک ایک کرکے میری تمام مشکلات کو حل کردیا ہے میری درخواست ہے کہ آپ میری اس مشکل کو بھی آسان کردیں!

اچانک مجھے یاد آیاکہ میرے پاس امام رضا (ع) کے لباس کا ایک ٹکڑا موجود ہے میں نے سوچا:

 امام رضا(ع) کا لباس ،لباس یوسف(ع)سے کم نہیں ہے اذن خدا سے جناب یوسف(ع)کاکرتا مس کرنے سے جناب یعقوب(ع)کی آنکھں  شفایاب ہو گئی تھیں ،کتنا بہتر ہوگا کہ میں امام کے متبرک لباس کو اپنی کنیز کی آنکھوں پر رکدتوں اگر مصلحت ہوئی تو یقینآً شفا ہو جائے گی۔

رات کو میں نے وہ کپڑا اپنی کنیز کی آنکھوں پر باندھ دیا، صبح جب میں نے کپڑے کو کھولا توآنکھوں میں درد و الم اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پایا!

اب پھر سے میں امام رضا(ع)کی برکت سے زمین پر بت  خوش نصیب انسان ہو گیا تھا۔ 

 

نماز باران

مجھ کو تو آپ پچا نتے ہی ہیں میں مامون ہوں (1) ، مامون عباسی ، یقیناً آپ کا دل مجھ سے راضی نہ ہوگا، بہر حال آپ کو ناراضگی کا حق بھی ہے چونکہ میں نے اپنے بھائی پر بھی رحم نہ کیا اور اس کو قتل کردیا ، اس سے برا یہ ہے کہ فرزند رسول اور انکے جانشین برحق یعنی شیعیوں کے آٹھویں امام ، امام رضا(ع) کو بھی زہر دے کر شہید کردیا، ان تمام جنایتوں اور دوسرے بہت سے گناہوں کا مرتکب میں اپنی قدرت اور حکومت کی وجہ سے ہوا ہوں ، حالانکہ میں دنیا میں اپنے گناہوں کا اعتراف نہیں کرتا تھا لیکن جو کچھ تھا وہ گذر گیا اور اب تمام باتیں سب پر روشن ہوگئی ہیں، لہذا اب چھپانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، جیسا کہ ایک مشہور کہاوت بھی ہے ”جب خدا سے چوری نہیں تو بندوں سے کیا چوری“۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ امام رضا(ع)کو مدینہ سے خراسان بلانا ، ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا دھوکا ، مکاری اور عوام فریبی کے علاوہ کچھ نہ تھا ، میں چاہتا تھا کہ اس طریقہ سے ایک تیر سے کئی نشانے لوں، منجملہ یہ کہ 

امام رضا(ع) کو قریب سے اپنی زیر نظر رکھوں تا کہ یہ میری حکومت کے لئے کوئی مشکل پیدا نہ کرسکے ۔

دوسرے یہ کہ ایران کی عوام، خصوصاً خراسان کے لوگوں کو (کہ جو خاندان پیغمبرﷺ، خصوصاً امام رضاعلیہ السلامسے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں) دھوکہ دوں اور اپنی حکومت کو (کہ جو ان کی نظروں میں غیر شرعی و غیر قانونی ہے، بہ ظاہر امام رضا کو ولیعہد بنا کر)قانونی اور شرعی بنا کر پیش کروں اور اس طریقہ سے شیعوں کے احتمالی حملہ سے محفوظ ہو جاؤں ۔

میرا ایک اور مقصد یہ تھا کہ امام رضا(ع) کو اپنی غاصب اور ستمگار حکومت سے نسبت دے کر لوگوں کی نظروں سے گرا دوں اور اگر موقع ہاتھ لگے تو جیسے بھی ممکن ہو، خود آپ پر اور آپ کی علمی و معنوی منزلت پر ایسی ضرب لگاؤں کہ جس کا جبران نہ ہوسکے۔

---------------

(1):- اس واقعہ کے راوی بھی اباصلت ہیں لیکن ہم نے اس کو خود مامون کی زبانی بیان کیا ہے۔

 

مجھ کو ایک موقع اس وقت ہاتھ لگا کہ جب امام رضا(ع)کے ولیعہدی قبول کرنے کے بعد مدتوں تک کوئی بارش نہ ہوئی اور میری حکومت میں سراسر خشکی اور خشکسالی کے آثار نمودار ہوئے ، جب کہ یہ خشک سالی کی مشکل معمولی تھی لیکن میں اور میرے ساتھیوں نے مشہور کردیا کہ جب سے امام رضا(ع) دنیا کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اورانہوں نے ولایت عہدی کو قبول کیا ہے خداوند عالم ان پر غصہ ہے اور ان سے ناراض ہے اسی لئے اس نے تمام لوگوں سے اپنی رحمت کو روک لیا ہے ۔

پھر بھی میں نے اس ضربت اور افواہ کو مکمل طریقہ سے اثر انداز بنانے کے لئے بظاہر خیرخواہانہ طور پر امام رضا(ع)سے التماس کی کہ ایک دن آپ لوگوں کے ساتھ جنگل جائیے اور نماز طلب باران پڑھئے تا کہ خداوند عالم اپنی رحمت سے بارش نازل کردے۔

میں بالکل مطمئن تھا کہ کسی بھی صورت میں بارش ہونا ممکن نہیں ہے ، میں نے سوچا کہ دومیں سے ایک حالت پیش آئی گی اور دونوں صورتوں میں یہ پیشنہاد امام (ع)کے لئے ایک جان لیوا حملہ ہوگی۔

۱۔ یا تو یہ کہ امام نماز باران پڑھنے کو قبول نہ کریں گے ، اس صورت میں ہم یہ بات پھیلائیں گے کہ امام رضا(ع)کو خوف تھا کہ کیںم ان کی دعا مستجاب نہ ہو، لہذا انھوں نے نماز باران پڑھنے سے انکار کردیا ۔

۲۔ یا پھر امام نماز باران پڑھنے کو قبول کرلیں اور خشکسالی کی وجہ سے بارش نہ ہو اس صورت میں بھی لوگوں کے در میان ان کی عزت و آبرو باقی نہ رہے گی اور ان کی امامت سے لوگوں کا اعتقاد اٹھ جائے گا!

لیکن امام(ع) نے بغیر کسی فاصلہ کے قبول کرلیا کہ لوگوں کے ساتھ جنگل میں جائیں گے اور نماز باران پڑھیں گے، میں نے امام سے پوچھا:

اے فرزند رسولﷺ ، کس وقت آپ نماز اور دعائے باران کے لئے نکلے گیں ؟

 آپ نے بلافاصلہ (جیسے کہ پہلے ہی سے اس نماز کے لئے پروگرام بنا چکے تھے) جواب دیا:

امام:پیر کے دن

 

مامون: پیر کے دن!!ابھی کیوں نہیں ؟!

امام: کل رات میں نے اپنے جد امجد رسول خدا ﷺکو خواب میں دیکھا کہ آپ امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں :”پیر کے دن تک صبر کرواور جب پیر کا دن آئے تو نماز باران اور دعا کے لئے شہر سے نکل پڑو۔“

چونکہ ہم خواب پر یقین نہیں رکھتے تھے لہذا ہم نے قبول کرلیا اور منادی کرنے والوں سے کہا کہ شہر میں منادی کردیں کہ تمام لوگوں کو پیر کے دن امام رضا(ع) کی امامت میں نماز باران کے لئے نکلنا ہے تا کہ تمام لوگ امام(ع)کی دعا کے قبول ہونے کو مشاہدہ کرلیں!

جب پیر کا دن آیا اور لوگوں کا جمع غفیر امام رضا(ع)کے پیچھے بیابان کی طرف روانہ ہوا، آسمان بالکل صاف اور نیلا تھا ، بادل اور بارش کے کچھ آثار نظر نہ آرہے تھے!

ایسے حالات میں حمد پروردگار کے بعد امام نے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اورکہا:

”پروردگارا! تو نے اپنے رسول ﷺ کے خاندان کو بزرگی عطا کی ہے اور اب یہ لوگ تیرے فرمان کی بنا پر ہم سے متوسل ہوئے ہیں اور تیرے بے پایان فضل و رحمت اور احسان و نعمت کی امید رکھتے ہیں پس ہم پر رحمت کی بارش نازل کردے ، ایسی بارش کہ جسمیں فائدہ ہی فائدہ ہو اور کوئی نقصان نہ ہو ، لیکن معبود لوگوں کے گھروں کو پلٹنے کے بعد بارش نازل کر۔“

ابھی آپ کی تقریر کو چند منٹ بھی نہ گذرے تھے کہ سخت بجلی اور بادل آسمان میں ظاہر ہوگئے ، بہت تیز ہوا چلنے لگی اور بادل سروں پر آگئے ،لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوگیا کہ جتنا جلد ممکن ہو اپنے گھروں کو پہنچ جائیں تا کہ بارش میں نہ بھیگنے پائیں، لیکن امام(ع) نے فرمایا:

 

جلدی نہ کرو یہ بادل تمہاری سرزمین کے لئے نہیں ہیں یہ بادل فلاں منطقہ میں برسنے پر مإمور ہیں!

ایسا ہی ہوا ، وہ بادل آئے اور بغیر برسے چلے گئے پھر دوسرے بادل پہونچے پھر لوگ تیاریاں کرنے لگے کہ اٹھیں اور بھاگیں ، لیکن پھر امام(ع) نے ان کو جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

یہ بادل بھی تمہاری سرزمین کے لئے نہیں ہیں ، یہ مامور ہیں کہ فلاں سرزمین پر برسیں!

اسی طرح بادلوں کے دس گروہ آئے اور بغیر برسے چلے گئے یہاں تک کہ بادلوں کے گیارہویں گروہ کے سرے نظر آنے لگے ۔ اس مرتبہ امام(ع) نے لوگوں سے خطاب کیا:

ان بادلوں کو خدائے مہربان نے تمہارے لئے بھیجا ہے ، اسکے فضل و کرم کا شکریہ ادا کرو اور اب اپنے گھروں کی طرف پلٹ جاؤ ، چونکہ جب تک تم لوگ اپنے گھروں کو نہ پہونچ جاؤگے تب تک بارش نہیں ہوگی۔

بالکل ایسا ہی ہوا!جیسا ہی لوگ اپنے گھروں کو پہونچے ، ایسی بارش ہوئی کہ تمام حوض اورگڑھے اور نہر یں میں پانی سے بھر گئیں۔

اگر چہ میں غصے اور حسد سے جل رہا تھا پھر بھی میں نے امام رضا(ع)کے سامنے مسرت و خوشی کا اظہار کیا لیکن باطن میں دوسری فرصت تلاش کرنے لگا تا کہ ان سے اپنے دل کی بھڑ اس نکال لوں۔

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا ، ج2 ، ص 167.

 

شیروں کا زندہ ہونا

 

ایک دن ”حمید بن مہران“ نے مجھ سے کہاکہ: 

اے مامون ہر روز علی ابن موسی الرضا(ع) کی محبت لوگوں کے دلوں میں بڑھتی جارہی ہے تم اس کو کس طرح برداشت کررہے ہو؟!اس بارش کو تو اس دن برسنا ہی تھا چاہے وہ نماز باران پڑھتے یا نہ پڑھتے تم لوگوں کو کیوں اجازت دے رہے ہو کہ وہ اس بارش کو علی ابن موسی الرضا(ع) کا معجزہ اور کرامت شمار کریں؟

مامون نے دلچسپی سے پوچھا: تمہارا پروگرام کیا ہے؟

حمید:تم ایک مجلس کا پروگرام رکھو تا کہ میں تمام حاضرین کے سامنے ان کی توہین کروں اور سب کو یہ سمجھادوں کہ یہ معجزہ نہیں دکھا سکتے اور اس بارش کا ان کی دعا اور نماز سے کوئی ربط نہیں ہے۔

مامون:میں احمق بھی بالکل گدھا بن گیا اور وہی کام کر بیٹھا جو حمید بن مہران چاہتا تھا، حمید بن مہران ایک بہت بڑا جادوگر تھا لہذا اس نے سب سے پہلے فن جادوگری کے ذریعہ دستر خوان پر امام سے کچھ چھیڑ چھاڑ کی (کھانا کھاتے وقت لقمہ کو امام رضا (ع)کے ہاتھ سے غائب کردیا )یہ دیکھ کر حاضرین ہنسنے لگے امام رضا(ع) حمید بن مہران کی ان حرکتوں سے ناراض 

ہوگئے لیکن آپ کے ما تھے پر بل نہ پڑے یہاں تک کہ حمیدنے حد سے زیادہ بے ادبی کی اور تمام حاضرین کے سامنے بلند آواز سے کہا:

اے علی بن موسی(ع) تم اپنی حد سے تجاوز کرچکے ہو اور وہ بارش جو خداوند عالم نے وقت معین میں نازل کی ہے اس کو اپنی دعا کا اثر سمجھتے ہو اور لوگوں سے کہتے ہو کہ میں خدا کے نزدیک صاحب عزت وبا عظمت ہوں اور جب گفتگو کرتے ہو تو اس

 

طرح کہ جیسے تم نے ابھی ابھی ابراہیم خلیل اللہ کے معجزہ کی تکرار کی ہے کہ انھوں نے پرندوں کو اذن خدا سے زندہ کیا تھا اگر تم سچے ہو تو ان دو شیروں کو کہ جو مامون کی قالین پر نقش ہیں حکم دو کہ زندہ ہو کر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ، اگر تم نے یہ کام کردیا تو یہ معجزہ مانا جائے گانہ یہ کہ ہم اس  بارش کو معجزہ مانیں جو کہ معمول کے مطابق ہوئی ہے۔

اس وقت امام رضا(ع) کو غصہ آگیا اگرآپ اس حساس موقع پر معجزہ نہ دکھاتے تو در حقیقت آپکی امامت پر حرف آجاتا اس لئے آپ نے شیروں کی تصویر کی طرف دیکھا اور کہا:

اس مرد فاسق و فاجر کو پکڑلو۔

 اچانک ان شیروں کی تصویر میں جان آگئی وہ قالین سے مجسم ہو کر دوڑے اور وحشتناک طریقے سے بدبخت حمید بن مہران کی جان پر ٹوٹ پڑے اور اس کے حرکت کرنے سے پہلے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے سب کے سامنے کھا گئے یہاں تک کہ زمین پر جو اس کا خون گرا تھا اس کو پی گئے اور اس کا کوئی نشان بھی باقی نہ چھوڑا!

حاضرین بری طرح ڈرگئے تھے اورکوئی بھی بولنے کی طاقت نہ رکھتا تھا یہاں تک کہ میں بھی!

لیکن اصلی حادثہ تو اس وقت پیش آیا کہ جب دونوں شیر امام رضا(ع)کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اپنے سر کے ذریعہ میری طرف اشارہ کرتے ہوئے امام سے پوچھا :

اے ولی خدا! اگر آپ حکم دیں تو اس شخص (مامون)کو بھی اس کے دوست سے ملحق کردیں۔

بس اب کیا تھا میں نے اپنی فاتحہ پڑھ لی ، عزرائیل کو غصہ سے بھرے ہوئے دو درندہ شیروں کی شکل میں دیکھ لیا اور خوف کی شدت سے بے ہوش ہوگیا!

لیکن امام رضا(ع)نے ان شیروں سے کہا کہ :

خداوند عالم خود اسکے بارے میں فیصلہ کریگا اب تم اپنی پرانی جگہ اور حالت پر پلٹ جاؤ۔

 

جب میں ہوش میں آیا تو حکومت کو امام رضا(ع) کو بخش دیا اورآپ کی طرف رخ کرکے ہانپتے اور لرزتے ہوئے کہا:

 شکر پروردگار کے ہم کو حمید بن مہران کے شر سے محفوظ رکھا۔ اے فرزند رسول آج میں بہت اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ یہ حکومت اور خلافت آپ اور آپ کے خاندان سے متعلق ہے ، اب جو آپ پسند کریں۔(اب جو چاہیں کریں)

امام نے میری بات کو کاٹتے ہوئے کہا:

اے مامون ! اگر مجھے اس خلافت سے کوئی لگاؤ ہوتا تو میں تم سے بحث و مباحثہ کرنے نہ بیٹھتا، چونکہ خدا کی تمام مخلوقات اسکے اذن سے میرے اختیار میں ہیں لیکن میں خداکی طرف سے مامور ہوں کہ تمہارے کام میں دخل اندازی نہ کروں(تمہارے کام سے مطلب نہ رکھوں)۔

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا ، ج2، ص 170.

 

بادشاہ ہند کے تحفے

ایک بہت دلچسپ اور درس آموز واقعہ امام رضا(ع)نے مجھ سے بیان کیا میں بھی چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں۔

امام رضا(ع): میرے بابا موسی بن جعفر(ع) فرماتے ہیں کہ:

ایک دن میں اپنے بابا امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں بیٹھا تھا کہ ایک دوست اندر آیا اور کہا:

بہت سے سوار دروازے پر کھڑے ہیں اور امام صادق (ع)سے ملاقات کی اجازت چاہتے ہیں۔

بابا نے میری طرف رخ کیا اور کہا:

بیٹا دیکھو دروازے پرکون لوگ ہیں:

جب میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ سامنے ایک بڑا کاروان ہے کہ جس میں کچھ اونٹ ہیں کہ جنکی پشت پر مال سے بھرے ہوئے صندوق لادے گئے ہیں اور بہت سارے سوار بھی انکے ہمراہ ہیں،ان کا فرمانروا آگے آگے ایک خوبصورت اور سجے ہوئے اونٹ پر سوار تھا۔

امام کاظم(ع): تم کون ہو اور کیا کام ہے؟

جب میں نے یہ پوچھا تو اس نے جواب دیا:

میں ہندوستان سے ہوں اور امام صادق (ع)سے ملاقات کا ارادہ رکھتا ہوں۔

امام کاظم(ع):جب میرے بابا نے یہ سنا تو غصے سے بھڑک اٹھے اور فرمایا:

اس نجس نامرد، خیانتکار کو داخل ہونے کی اجازت نہ دو!

 

مرد ہندی ایک طولانی مدت تک دروازے پر کھڑا رہا لیکن داخل ہونے کی اجازت نہ ملی یہاں تک کہ اس نے سلمان کے بیٹے یزید اور محمد کو وسیلہ بنایا کہ یہ دونوں میرے بابا کی خدمت میں آتے رہتے تھے۔

جب مرد ہندی امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو زانوئے ادب تہہ کرکے بہت ہی مودبانہ انداز میں شکوہ کیا:

خدا امام کے کاموں کی اصلاح فرمائے ، میں ہندوستان کا رہنے والا ہوں اور وہاں کے بادشاہ کا قاصد ہوں اور اس کی طرف سے آپکے لئے کچھ قیمتی ہدیے اور ایک خط لے کر آیا ہوں ، اب آپ یہ بتائیں کہ میری کیا خطا ہے کہ آپ نے مجھ کو دروازے پر کھڑے رکھا اور اندر آنے کی اجازت نہ دی ، کیا پیغمبر اکرمﷺ کے فرزند مہمانوں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے ہیں؟

امام نے لوگوں کی طرف دیکھا اور کہا:

وَلََتَعلَمَنَّ نَبَّاهُ بَعدَ حِینٍ (1)

بہت جلدہی تم اسکے بارے میں جان لو گے۔

امام نے پھر سے فرمایا:

اے میرے بیٹے موسی(ع) ، اس سے خط لے لو اور اس کو کھولو۔

خط کا مضمون یہ تھا:

--------------

(1):- سورہ ص (38) ، آیت 88.

 

بسم الله الرحمن الرحیم

بہ خدمت جعفر بن محمد طاہر و مطہر

از طرف بادشاہ ہند

اما بعد، خداوند عالم نے مجھے آپ کے ذریعہ ہدایت عطا فرمائی ، مجھے ایک ایسی کنیز ملی ہے کہ میں نے اپنی تمام عمر میں کسی عورت کو اس سے خوبصورت نہیں دیکھا ہے ، میں نے سوچا کہ آپ کے علاوہ کسی میں صلاحیت نہیں ہے کہ اس کا مالک بنے ،

 

میں کچھ زیورات ، جواہرات اور خوشبو دار عطر کے ساتھ اس کنیز کو آپ کی خدمت میں بھیج رہا ہوں، میں جانتا ہوں کہ اتنی قیمتی اور عمدہ چیزہر کسی کے حوالہ نہیں کی جاسکتی لہذا میں نے اپنے وزیروں کو جمع کیا اور ان کی مدد سے ایک ہزار امین لوگوں کو چنا اس کے بعد ان ایک ہزار میں سے سو کو انتخاب کیااور پھر اس کے بعد ان سو میں سے دس لوگوں کو منتخب کیا اور پھر آخری مرحلہ میں ان دس میں سے میزاب بن حباب نامی ایک شخص کو چنا کہ میرے نزدیک اس سے زیادہ کوئی امین نہ تھا، تب کہیں اس خوبصورت اور چاندسی عورت کو میں نے اس کے حوالہ کیا تا کہ اس کو آپ تک پہنچادے۔

خط کا مضمون سنانے کے بعد امام نے مرد ہندی کی طرف رخ کرکے غصہ اور نفرت کی انداز میں فرمایا :

اے خیانتکار پلٹ جا اور بادشاہ ہند کے تمام تحفوں کو واپس لے جا، میں حتماً اس میں سے کچھ بھی قبول نہ کروں گا چونکہ تو نے اس میں خیانت کی ہے!

مرد ہندی نے یہ حالات دیکھے تو قسم کھاکر خیانت کا انکار کرتے ہوئے کہا:

خدا کی قسم ، بزرگوں کی قسم، پیغمبرﷺکی قسم میں نے کوئی خیانت نہیں کی ، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ مجھ بے گناہ کے بارے میں ایسا برا خیال کیوں کر رہے ہیں ؟

 

لیکن میرے پدر بزرگوار علم امامت سے ہر چیز جانتے تھے ، آپ نے بڑے سرد لہجہ میں فرمایا :

اگر تیر ا کوئی لباس گواہی دے کہ تو نے خیانت کی ہے تو کیا تو اسلام کو قبول کرلے گااور گواہی دیگا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمدﷺ اس کے رسول ہیں؟

لیکن اس مرد بدبخت نے دنیا اور آخرت کی تمام نیکیوں کو ٹھکڑاتے ہوئے کہا: مجھے اس کام سے معاف کیجئے۔

امام صادق(ع): اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو میں تمہاری خیانتکاری کو بادشاہ ہند کو لکھوں گا تا کہ وہ خود تمہارے بارے میں فصلہ  کرے۔

میزاب(مرد ہندی): میں نے کوئی خیانت نہیں کی ہے لیکن اگر آپ(ع) کو کوئی خبر ہے تو بادشاہ کو لکھ دیجئے۔

میزاب کے بدن پر ایک کوٹی تھی ، امام نے میزاب سے کہا :

اس کوٹی کو اتارو !

میزاب نے غفلت اور بے خیالی کے ساتھ اپنی کوٹی کو اتار ا اور زمین پر پھینک دیا،میرے بابا(امام صادق(ع)) نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور نمازکے آخری سجدہ میں دعا کی:

پروردگار تجھے تیری عزت اور کمال رحمت کا واسطہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ محمد اور آل محمد پر دورد بھیج اور میزاب کی کوٹی کو حکم دے کہ وہ بولے اور جو کام اس نے انجام دیا ہے عربی زبان میں اس کو سب کے سامنے بیان کرے تا کہ ہمارے تمام دوست جو اس مجلس میں جمع ہیں وہ سب سنے اور یہ اہلبیت پیغمبرﷺ کے معجزات میں شمار ہو اور دوستوں کے ایمان میں اضافہ کا سبب بنے ۔

میرے پدر بزگوار (امام صادق (ع)) نے سجدہ سے سر اٹھایا ، کوٹی کی طرف رخ کرکے فرمایا:

اے کوٹی تو میزاب کے بارے میں جو کچھ جانتی ہے بیان کر۔

 

سب نے کمال تعجب سے دیکھا کہ کوٹی ہل کر ایک پرندہ کے صورت میں تبدیل ہوگئی اور بولنا شروع کیا :

اے فرزند رسولﷺ ، بادشاہ ہند نے اس شخص پر اعتماد کیا ، کنیزکو دوسرے اموال کے ساتھ اس کے سپرد کردیا تا کہ آپ تک پہونچادے اور ان کی حفاظت کے بارے میں اس کو بہت تاکید کی ، جب ہم ایک جنگل میں پہونچے ، تو موسلا دھار بارش ہونے لگی جو کچھ بھی ہمارے ساتھ تھا سب بھیگ گیا بارش بند ہوئی تو اس مرد نے اس کنیز کے ”بُشر “نامی خادم کوبلاکر کچھ درہم اس کو دئے اور کہا :”نزدیک کے شہر میں جاؤ اور ہمارے لئے کھانے کا کچھ انتظام کرو “۔

پھر میزاب نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ دھوپ میں اس کنیز کے لئے خیمہ لگاؤ، جب خیمہ تیار ہوا تم میزاب نے کنیز کو حکم دیا کے اس خیمہ میں داخل ہو جاؤ اور اپنا لباس تبدیل کرکے خشک کر لو ، تمام زمین پانی سے گیلی تھی ، اس کنیز نے اپنے کپڑے کو کچھ اوپر اٹھایا اور خیمہ میں وارد ہوئی ، عین اسی وقت میں میزاب کی نگاہیں اس کنیز کے برہنہ پیروں پر جا پڑیں ، میزاب پر شہوت طاری ہوئی اور وہ خیمہ میں داخل ہو گیااور کنیز کے ساتھ زنا کیا ، کنیز کو یہ بات بری نہ لگی اور اس نے میزاب کی خواہش کو پورا کردیا، اس طریقہ سے اس مرد ہندی میزاب نے آپ کے ساتھ خیانت کی ہے۔

میزاب نے جب یہ منظر دیکھا تو خود کو زمین پر گرا دیا ، رونے لگا اور کہا :

میں نے غلطی کی ، خطا کی میں اپنی خطا کا اقرار کرتا ہوں اورآپ سے رحم کا طلب گار ہوں ۔

امام کے اشارہ سے کوٹی اپنی پرانی حالت پر پلٹ گئی۔ امام نے میزاب سے کہا:

اپنی کوٹی اٹھااور پہن لے۔

جیسے ہی میزاب نے کوٹی کو اٹھا کر پہننے کے ارادہ سے کاندھے پر رکھا، کوٹی کی آستینںن میزاب کی گردن میں لپٹ گئیں اور اس کے گلے کو دبانا شروع کیا ، یہاں تک کے اس کا چہرہ کالا ہو گیا اور مرنے میں کچھ باقی نہ تھا کہ امام (ع)نے کوٹی کو مخاطب کر کے کہا:

اے کوٹی اس کو چھوڑ دے تا کہ یہ اپنے بادشاہ کے پاس واپس چلا جائے اور وہ خود اس کے بارے میں فیصلہ کرے ۔

 

میزاب لرز رہا تھا اور خوف و وحشت کے آثار اس کے چہرہ پر نمایان تھے اس نے امام(ع) سے عرض کیا :

خدا مجھ پر رحم کرے ، اگر آپ نے بادشاہ ہند کے تحفے واپس کردئے تو مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ مجھ پر غصہ ہو اور مجھے سزا دے ، وہ بہت سخت سزا دیتا ہے !

امام چاہتے تھے کے اس کو نجات مل جائے ، لہذا آپ نے فرمایا: اسلام قبول کرلو تا کہ میں کنیز تم کو بخش دوں اور تم اس شادی کرلو۔

لیکن اس بدبخت نے غرور اور تعصب کی بنا پر کہا :

میں آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں مجھے اس کام سے معاف رکھئے !

امام نے تحفوں کو قبول کیا لیکن کنیز کو واپس کردیا کچھ مہینے بعد بادشاہ ہند کا خط امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں پہونچا جس کا مضمون یہ تھا:

 

بسم الله الرحمن الرحیم

بخدمت امام جعفر صادق بن محمد علیہما السلام

از طرف بادشاہ ہند

امابعد میں نے ایک کنیز ہدیہ کے طور پر آپکی خدمت میں بھیجی تھی لیکن جن تحفوں کی کوئی قیمت نہ تھی ، ان کو آپ نے قبول کرلیا اور جو کنیز میری نظر میں تمام تحفوں سے قیمتی تھی اس کو آپ نے واپس کردیا! آپ کے اس کام سے میرا دل ٹوٹ گیا تھا لیکن میں جانتا تھا کے اللہ کے پیغمبرﷺ اور ان کی اولاد بہت زیادہ ذہین ہوتے ہیں اس لئے میں نے اپنے قاصد کو خیانت کار سمجھا ، میں نے اپنی طرف سے ایک خط لکھا اور اپنے قاصد میزاب سے کہا کہ یہ خط امام(ع)کے طرف سے مجھے ملا ہے

 

اور امام نے مجھے تیرے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اور میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تم سچ سچ نہ بتادو تب تک تم کو نجات نہیں مل سکتی ۔

 میری اس چالاکی کے ذریعہ میزاب اور کنیز دونوں نے اپنی خیانت کا اقرار کرلیااور کوٹی کا واقعہ بھی مجھ سے بیان کیا کہ جو میرے تعجب اور ایمان میں اضافہ کا سبب بنااور میں نے ان دونوں خیانت کاروں کو قتل کردیا ۔

جان لیجئے کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ پروردگار کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے کہ جو اکیلا اور بے مثل ہے اور محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، ان شاءاللہ اس خط کے بعد میں بھی آپ کے خدمت میں حاضر ی دوں گا ۔

کچھ دنوں بعد بادشاہ ہند نے بادشاہی کو چھوڑ دیا اور اپنے تمام وجود کے ساتھ اسلام کا عاشق وگرویدہ ہو گیا!

--------------

(1):-  بحار الانوار ، ج 47 ، ص 113  115، بہ نقل از الخرائج و الجوارح ، ص 199.

 

عصمت انبیاءکے بارے میں امام رضا علیہ السلام    کا مناظرہ

اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کرچکے ہیں کہ مامون نے امام رضاعلیہ السلام کے مقام علمی و معنوی پر ضرب لگانے کے لئے ہرممکن فریب و مکاری کو  استعمال کیا ۔ اسکا ایک حیلہ اور مکر یہ تھا کہ تمام مذاہب و ادیان کے علماء اور دانشمندوں کو دعوت دیتا تھاوعلمی اور دینی مناظرات کی محافل منعقد ہوتی تھی جن میں تمام مذاہب کے علماءکے مقابل میں امام رضا (ع) ہوتے تھے ان تمام مناظروں میں جو لوگ بھی امام(ع) سے بحث کرتے تھے سب کو شکست فاش ہوتی تھی اور سب شرمندہ ہوتے تھے، ایک روز مناظرے میں علی بن محمد بن الجہم اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے بہت ادب کے ساتھ اسلام کے مختلف فرقوں کے علماءاور علماءیہود ، علماءمسیحی ، علماءزرتشتی گویا تمام مذاہب کے علماءکے سامنے اپنا سوال بیان کیا۔

علی ابن محمد بن الجہم : عصمت انبیاءکے بارے میں آپکا کیا نظریہ ہے ؟

کیا آپ ان سب کو معصوم سمجھتے ہیں؟

علماء: ہاں ہم ان سب کو معصوم مانتے ہیں۔

علی بن محمد بن الجہم: پس آپ ان آیات کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ جن سے انبیاءکی عصمت پر اعتراض ہوتا ہے جیسا کہ خداوند قرآن کریم میں فرماتاہے:

﴿وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَى﴾

آدم نے اپنے رب کی معصیت کی اور وہ گمراہ ہوگئے۔(۱)

--------------

(1):- سورہ طہ (20)، آیت 121.

 

﴿وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ﴾ (1)

اور یونس اپنی قوم کے در میان سے غصے کی حالت میں چلے گئے اور گمان کیا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔

﴿وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا﴾ (2)

زلیخا نے یوسف کا ارادہ کیا اور یوسف نے زلیخا کا۔

﴿وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ﴾ (3)

اور داؤد نے گمان کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لے لیا ۔

﴿وَتُخْفِی فِی نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِیهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ﴾ (4)

تم اپنے دل میں (زید کی بیوی کے بارے میں) کچھ چھپائے ہوئے تھے کہ خدا نے اس کو ظاہر کردیااور تم لوگوں سے ڈرتے ہو جبکہ مناسب یہ ہے کہ تم فقط اللہ سے ڈرو ۔امام رضاعلیہ السلامنے جب انبیاءکے بارے میں علی بن محمد بن جہم کی یہ تہمتیں سنی تو غصہ ہوئے اور فرمایا: اے ابن جہم تجھ پر لعنت ہو ، خدا سے ڈراور ان برے گناہوں کی نسبت پیامبران خدا کی طرف مت دے اور قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے نہ کر! کیا تو نے خداکا یہ فرمان نہیں سنا:

﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِیلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ﴾ (5)

تاویل (اور تفسیر قرآن) خدا اور راسخون (6) فی العلم کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔

--------------

(1):- سورہ انبیاء (21)، آیت 87.

(2):- سورہ ی یوسف (12)، آیت 24.

(3):- سورہ ص (38)، آیت 24.

(4):- سورہ ی احزاب (33)، آیت 37.

(5):- سورہ ی آل عمران (3)، آیت 7.

(6):-  یعنی 14 معصوم(ع).

 

خداوند کے جس فرمان سے تو نے حضرت آدمعلیہ السلام پر اعتراض کیا ہے اسکا جواب یہ ہے کہ:

خدا نے حضرت آدم کو اس لئے پیدا کیا کہ اپنی زمین پر ان کو حجت اور خلیفہ بنائے اس لئے نہیں کہ وہ ہمیشہ جنت میں رہیں اور جس کو تم گناہ سمجھ رہے ہو وہ کام آدم نے جنت میں انجام دیا تھا نہ کہ زمین پر لہذا زمین پر اسکے سلسلے میں مقدرات اور حدود الہی جاری نہیں ہونگے پس جب آدم زمین پر آئے اور خدا کی حجت اور خلیفہ مقرر ہوگئے تو ان کو عصمت بھی عطا کی گئی جس کی دلیل یہ آیت ہے :

﴿إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِینَ ﴾ (1)

خداوند عالم نے آدم ، نوح اور خاندان ابراہیم و خاندان عمران کو تمام عالمین پر چن لیا۔

خداوند عالم کی جانب سے لوگوں کی ہدایت اور رہبری کے لئے چنا جانا خود عصمت کی دلیل ہے کیوں کہ بغیر عصمت کے اس کے انتخاب کا مقصد بے معنی ہو جائیگا۔

اور حضرت یونسعلیہ السلام کے بارے میں (لن نقدر) سے مراد یہ نہیں ہے کہ انھوں نے یہ گمان کیا کہ خدا ان کو سزا دینے پر قادر نہیں ہے بلکہ اسکا مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس نے گمان کیا کہ خداوند عالم ان کی روزی کے سلسلے میں ان پر سختی نہیں کریگا کیا تونے خداوند عالم کا قول نہیں سنا!

﴿وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ﴾ (2)

لیکن جب خداوند انسان کوسختی میں  مبتلا کرتا ہےاور اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے میری توہین کردی۔

--------------

(1):- سورہ ی آل عمران (3) ، آیت 33.

(2):- سورہ فجر (89)، آیت 16.

 

اور اگر یونس گمان (یقین)کرلیتے کہ خدا ن پر قادر نہیں ہے تو بغیر کسی شک کہ وہ کافر ہوگئے ہوتے۔

اب رہی بات حضرت یوسف(ع) کی تو انکے سلسلے میں فرمان خدا کا مقصد یہ ہے کہ زلیخا نے گناہ میں وارد ہونے اور جناب یوسف (ع)کا غلط استعمال کرنا کا ارادہ کیا اور جناب یوسف (ع)نے زلیخا کو قتل کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ وہ آپ کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کرنا چاہتی تھی لیکن خدا نے یوسف کو قتل اور فحشا (زنا)دونوں سے بچالیا یعنی یہاں پر ”سوء“سے مراد قتل اور فحشاسے مراد زنا ہے۔

اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جناب داؤد کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

علی بن محمد بن جہم نے ایک گڑھی ہوئی، جھوٹی داستان سنانا شروع کی:لوگ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت داؤد محراب میں نماز پڑھنے میں مشغول تھے کہ ابلیس ایک خوبصورت پرندہ بن کر ان کے سامنے آیا ۔ جناب داؤد نے اس پرندے کو پکڑنے کے لئے اپنی نماز کو توڑ دیا اور اسکے پیچھے چھت تک پہونچ گئے وہاں سے آپکی نظر اپنے لشکر کے فرمانروا ”اوریا بن حنان“کی بیوی کے ننگے بدن پر پڑی کہ جو نہا رہی تھی اور آپ صرف ایک دل سے نہیں بلکہ سو دل سے اسکے عاشق اور دیوانے ہوگئے چونکہ آپ ایک شوہر دار عورت سے شادی نہیں کرسکتے تھے لہذا آپ نے اوریا ( کہ جو اس وقت محاذ جنگ پر تھا)کو فرماندہ کے عنوان سے سب سے پہلی صف میں بھیج دیا تا کہ وہ قتل ہو جائے اتفاقاً وہ اس جنگ سے کامیابی کہ ساتھ پلٹ آیا یہ کامیابی جناب داؤد کو بہت بری لگی اور حکم دیا کہ دوبارہ (دوسری جنگ میں)بھی ان کو پہلی صف میں بھیجا جائے اس مرتبہ اوریا جنگ میں مارا گیا اور جناب داؤد نے اس کی بیوی سے شادی کرلی۔

امام رضاعلیہ السلام نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور فرمایا:

﴿انّا لله وَ اِنَّا اِلَیهِ رَاجِعُون﴾ (1)

-------------

(1):- کلمہ استرجاع (خواہش رجعت تمنائے رجوع) ہے مصیبت کے وقت بولاجاتا ہے۔

 

تو نے خدا کے نبی ﷺپر بہت بری تہمت لگائی ہے ، نماز کو ہلکہ سمجھنا وہ بھی صرف ایک پرندہ کو پکڑنے کے لئے ، اس کے بعد گناہ کا ارتکاب اور آخر میں ناحق قتل!

ابن جہم: اے فرزند رسول!ﷺاگر یہ بات سچ نہیں ہے تو پھر خداوند عالم نے جو آیت میں کہا ہے کہ داؤد نے خطا کی ، وہ کونسی خطا ہے؟

امام: تجھ پر لعنت ہو ، انھوں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا ، ان کے کام پر خدا کا اعتراض صرف اس لئے تھا کہ انھوں نے خود اپنی طرف سے گمان کیا تھا کہ خداوند عالم نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو ان سے زیادہ علم رکھتی ہو!

خداوند عالم نے دو فرشتوں کو بھیجا وہ دونوں اللہ کے حکم سے انسان کی شکل میں آگئے اور جناب داؤد کی عبادتگاہ کی دیوار کے اوپر بیٹھ گئے اور کہا:

ہم دونوں آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر ستم کیا ہے اب ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور ہم کو صحیح راستے کی ہدایت کریں ۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کیا اور کہا:یہ میرا بھائی ہے اسکے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور میرے پاس صرف ایک بھیڑ ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ایک بھیڑ بھی تم مجھ کو دیدو اور وہ بولنے میں مجھ سے بہت آگے ہے۔ (1)

جناب داؤد نے جلدی کی اور بغیر گواہی طلب کئے اسکے دوسرے بھائی پر حکم لگاتے ہوئے کہا:

تمہارا بھائی تم پر ستم کر رہا ہے کہ تم سے تمہاری بھیڑ مانگ رہا ہے۔(2)

-------------

(1):- سورہ ی ص(38)، آیات 22/23.

(2):- ہمان، آیت 24.

 

داؤد کی خطا صرف انکے فیصلہ کرنے میں تھی یہ خطا نہیں تھی جو تم سمجھ رہے ہو، جس کی دلیل خداوند عالم نے آیت میں پیش کی ہے۔

﴿يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِیفَةً فِی الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى ﴾ (1)

ای داود ! ہم نے تم کو زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ بنا کر بھیجا ہے ، پس تم لوگوں کے در میان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کرو۔

اگر داؤد اتنا بڑا گناہ کرتے تو پھر خدا ان کو اتنا بلند مقام کیسے عطا کرسکتا تھا؟!

علی بن محمد ابن جہم ، بہت بد حواس ہو گیا تھا ، اس نے پوچھا:

اے فرزند رسول ، پھر داؤد کا اوریا کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟

امام(ع) نے جواب دیا:

جناب داؤد کے زمانے میں قانون تھا کہ جس عورت کا شوہر مر جائے یا قتل ہو جائے اس عورت کو آخر عمر تک شادی کا حق حاصل نہ ہوتا تھا اس پر لازم ہوتا تھا کہ تنہا زندگی بسر کرے ۔ سب سے پہلے خداوند عالم نے جناب داؤد(ع) کو اجازت دی تھی کہ وہ بیوہ عورت سے شادی کر سکتے ہیں لہذا انھوں نے اوریا کی بیوہ سے شادی کرلی اور یہ کام بعض لوگوں کو بہت برا لگا!

رہی بات حضرت محمد ﷺ کی کہ خداوندعالم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:

تم نے اپنے دل میں کچھ چھپا رکھا تھا خدانے اس کو ظاہر کردیا۔

-------------

(1):-  ہمان ، آیت 26.

 

ماجرا اس طرح سے ہے کہ خداوند عالم نے پیغمبرﷺ کو آپ کی دنیا اور آخرت کی تمام بیبیوں (کہ جو مؤمنین کی مائیں ہیں اور پیغمبرﷺ کے بعد کوئی ان سے شادی نہیں کرسکتا)کے نام بتادیئے تھے ان میں ایک نام زینب بنت جحش کا بھی تھا جب کہ اس زمانے میں زینب آپ کے منھ بولے بیٹے زید کی بیوی تھی اور پیغربیﷺ(اس خوف سے کہ کہیں منافقین یہ نہ کہیں کہ آپ ایک شوہر دار عورت کا نام اپنے بیوی کے عنوان سے ذکر کرتے ہیں اور آپ کی نظریں اس کی طرف جمی ہوئی ہیں)زینب کے نام کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔

یہاں تک کہ زید نے پیغمبر ﷺ کی نصیحتوں پر عمل نہ کیا کہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ رکھے اور اپنی بیوی  زینب کو طلاق دیدی تو پیغمبرﷺ کو اللہ کا حکم ہوا کہ زینب سے شادی کرلیں تاکہ منھ بولے بیٹے کی بیوہ سے شادی کرنا مؤمنین کے لئے مشکل نہ ہو لیکن پھر بھی پیغمبر ﷺ منافقین کی سازشوں سے فکر میں ڈوبے ہوئے تھے ، لہذا خدا نے فرمایا:

تم خدا کے سوا کسی سے کیوں ڈر تے ہو؟! بہتر یہ ہے کہ صرف خدا سے ڈرو اور اس کے حکم کو بجالاؤ۔ (1)

اور تم یہ بھی جان لو کہ تین شادیوں کا حکم خود پروردگارنے دیا ہے:

۱۔ آدم کی شادی حوا سے

۲۔ زینب کی شادی آخری رسولﷺ سے

۳۔ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی علی علیہ السلام سے

جب امام رضا(ع) کا بیان یہاں تک پہونچا تو علی بن جہم رونے لگا اور کہا:

اے فرزند رسول!ﷺ میں خدا وند عز و جل کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد انبیا (ع)کے بارے میں صرف وہی کہوں گا جو آپ نے فرمایا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہوں گا! (2)

--------------

(1):- سورہ ی احزاب(33)، آیت 37.

(2):- بحار الانوار ، ج11 ، ص 72-74، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ، ص 55-57 و عیون اخبار الرضا، ص 107-108.

 

صلہ رحم

میں علی بن ابی حمزہ ہوں (1) میں چاہتا ہوں کہ ایک عجبک ،دلچسپ اور درس آموز واقعہ آپکے سامنے باان کروں :

ایک دن میں امام موسیٰ بن جعفر(ع)کی خدمت میں تھا حضرت نے بغر  کسی مقدمہ کے ایک ذمہ داری مجھے سونپی :

اے علی بن ابی حمزہ !بہت جلد اہل مغرب سے ایک شخص تمہاری تلاش میں آئیگا اور تم سے میرے بارے میں سوال کریگا،تم اسکے جواب میں کہنا کہ ”خدا کی قسم یہ وہی امام ہیں کہ جنکی امامت کی تائید امام صادق (ع) نے ہمارے سامنے کی ہے“ پھر وہ تم سے حلال و حرام کے بارے میں سوال کریگا،تم میری طرف سے اسکے سوالوں کا جواب دینا۔

میں نہیں جانتا تھا کہ اس شخص کو کس طرح پہچانوں گااس لئے میں نے عرض کیا:

میری جان آپ پر قربان ،اس شخص کی علامت کیا ہے؟

امام نے فرمایا:

وہ شخص طویل قد اور بھاری جسم کا آدمی ہے اسکانام یعقوب ہے،تم فکر نہ کرو وہ خود تمکو پہچان لیگا اور تم سے کچھ سوالات کرےگا تم اسکے تمام سوالوں کے جواب دینا!وہ اپنی قوم کا رئیس ہے۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہے کہ امام کاظم(ع) شدید گھٹن کے ماحول میں زندگی گزار رہے تھے اور سختی سے تقیہ کا حکم دیتے تھے یہاں تک کہ ہم کو اس بات کی بھی اجازت نہ تھی کہ ہم ہر سوال کا جواب دیں چونکہ ممکن تھا کہ سوال کرنے والا حکومت کا جاسوس ہو ۔

--------------

(1):- اس واقعہ کو اباصلت نے امام رضا (ع) سے نقل کیا ہے اس لئے یہ خاطرات اباصلت از امام رضا(ع) میں شامل ہے اور اسی وجہ سے ہم نے اس کو ذکر بھی کیا ہے البتہ یہ روایت دوسری اسناد سے بھی ذکر ہوئی ہے لیکن وہاں پر علی بن ابی حمزہ کے شعیب العقر قوقی کا نام ذکر ہوا ہے۔

 

امام(ع) نے میری فکر کو ختم کرتے ہوئے فرمایا :

اگر وہ مجھ سے ملاقات کرنا چاہے تو اس کو میرے پاس لے آنا۔

خدا کی قسم میں طواف کعبہ کر رہا تھا ،تیھا ایک طویل قد اور بھاری کا جسم آدمی میرے پاس آیا اور کہا:

میں چاہتا ہوں کہ تمہارے آقا کے بارے میں تم سے سوال کروں۔

میں مطمئن نہیں تھا کہ یہ وہی شخص ہے کہ جسکے بارے میں امام(ع) نے فرمایا تھا لہذا میں کنارے ہو ا اورپوچھا:

کون سے آقا کی بات کر رہے ہو؟

 اس سوال کے جواب میں جب اس نے امام موسیٰ ابن جعفر(ع)کا نام لیا تو میں نے اطمینان قوی حاصل کرنے کی لئے اس سے پوچھا:

تمہارا نام کاے ہے؟

اس نے کہا: میرا نام یعقوب ہے۔

میں نے پوچھا :تم کہاں کے رہنے والے ہو؟

اسنے جواب دیا کہ میں مغرب کا رہنے والاہوں۔

اب میری فکر کو کچھ راحت حاصل ہوئی لیکن مجھے تعجب ہوا کہ ایک اجنبی انسان نے مجھے کے م پہچانا اور یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں امام کاظم(ع)سے تعلق رکھتا ہوںاور بغیر کسی خوف کے مجھے تلاش کر کے امام(ع)کے بارے سوال کر رہا ہے!

ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس سے سوال کیا ۔

تم نے مجھ کو کیسے پہچانا؟

اس نے بڑا دلچسپ جواب دیا:میں نے ایک شخص کو خواب میں دیکھاکہ اس نے مجھ سے کہا :

 

علی بن ابی حمزہ کو تلاش کرواور اپنے تمام سوالوں کے جوابات ان سے دریافت کرو۔

میں نے یہاں کے رہنے والوں سے پوچھا کہ علی بن ابی حمزہ کون ہے؟

ان لوگوں نے تمہاری طرف اشارہ کر کے کہاکہ یہ علی ابن ابی حمزہ ہیں۔

اب میں بالکل مطمئن ہو گیاتھا اور میں نے اس سے کہا :

تم یہیں بیٹھو میں اپنا طواف پورا کر کے تمہاری خدمت میں حاضر ہوتا ہوں۔

طواف تمام کرنے کے بعدمیں واپس ہوااور جب میں نے اس سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک عاقل اور منطقی انسان ہے ۔

اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے امام(ع) کی خدمت میں لے چلو۔

میں نے اسکی درخواست کو قبول کیا اور اسے امام(ع) کی خدمت میں لے آیا۔

جب امام (ع)نے اسکودیکھا تو فرمایا:

اے یعقوب کل فلاں جگہ پر تمہارے اور تمہارے بھائی کے بیچ میں جھگڑا ہو گیا تھا یہاں تک کہ تم نے ایک دوسرے کوگالی بھی دی تھی۔

یہ چیز ہمارے دین سے بالکل خارج ہے اور ہم کسی کو بھی ایسے کاموں کا حکم نہیں دیتے چاہے وہ ہماری پیروی کرتا ہو یا نہ کرتا ہو ۔

اس خدا سے ڈرو جویک و تنہا اور لا شریک ہے چونکہ بہت جلدہی موت تم دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیگی ۔

یعقوب ابھی تھوڑے سے وقت ہی میں غیب کی کئی خبریں سن چکا تھا اس لئے وہ موت اور جدائی کی باتیں سنکر فکر میں ڈوب گیا۔

امام(ع) نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:

 

تیرا بھائی اس سفر میں گھر پہونچنے سے پہلے انتقال کرجائیگا اور تم نے جو اس سے جھگڑا کیا ہے تمکو اس پر شرمندگی ہوگی۔

یعقوب نے امام(ع)سے سوال کیا کہ آخر ہم لوگ کیوں اتنی جلدی جدا ہو جاینگے؟

امام(ع) نے جواب میں فرمایا:

چونکہ تم نے آپ سی تعلقات کو ختم کر دیا ہے لذما خدا نے تمہاری زندگی کے رشتے کو ختم کر دیا۔

یعقوب بہت پریشان ہوا اور اضطراب وبے چینی کے عالم میں امام(ع) سے سوال کیا:

پھر تو میں بھی جلد ہی مر جاؤنگا؟

امام(ع) نے فرمایا:

ہاں تم بھی اپنے بھائی کی طرح جلد ہی اس دنیا سے چلے جاتے لیکن چونکہ تم آنے والے وقت میں اپنی پھوپھی کی خدمت کروگے اس لئے خدا وند عالم نے تمہاری عمر میں بیس سال کا اضافہ کر دیا ہے۔

 ایسا ہی ہوا !اگلے سال جب میں نے یعقوب کو مراسم حج میں دیکھا تو اس نے مجھ سے کہا:

اے علی بن ابی حمزہ تم نے میری بدبختی کو دیکھا میرا بھائی گھر تک بھی نہ پہونچ سکا اوردرمیان راہ ہی میں انتقال کر گیا۔ (1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 48 ، ص 37 و ص 35-36 ، بہ نقل از الخرائج و الجرائح ، ص 20 ، و رجال الکشّی ، ص 276 ، کشف الغمة فی معرفة الائمة، ج2 ، ص 245- مسند الامام الکاظم ، ج1 ، ص 379.

 

حرزا مام رضاعلیہ السلام

دروازہ کھٹکھٹا نے کی آواز آئی ایک آدمی بہت تیزتیزدروازہ پیٹ رہا تھا میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ہارون رشیدکا قاصد غصہ کی حالت میں دروازہ پر کھڑا ہے میں نے اسکو سلام کیا اس نے سلام کا جواب دیئے بغیر میرے سینے پر ہاتھ رکھ کر مجھے کنارے کیا اور گھر کے اندر داخل ہوگیا امام رضا(ع)صحن میں بیٹھے ہوئے تھے ہارون کا قاصد امام کے پاس پہونچا اور کہا امیرالمؤمنین  ہارون نے آپکو بلایا ہے امام(ع)نے جواب دیا تم چلو ہم ابھی آتے ہیں ۔

جب قاصد چلا گیا تو امام(ع)نے مجھ سے فرمایا اے ابا صلت اس وقت ہارون نے مجھ کو اس لئے بلایا ہے تا کہ میری ناراضگی کے اسباب فراہم کرے میں یہ سنکر کچھ پریشان ہوا جب امام(ع) نے میرے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو فرمایا گھبراؤ نہیں وہ کسی بھی صورت میں مجھ کو ناراض نہیں کر سکتا۔

 میں نے امام(ع) سے سوال کیا :

کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ کو ناراض نہ کر سکے جب کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے؟

امام نے جواب دیا:

جو کلمات میرے جد امجد رسول خدا ﷺ کی جانب سے مجھ تک پہونچے ہیں انکی برکت کی وجہ سے وہ میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ (1)

--------------

(1):- ایک دوسری روایت (بحارالانوار، ج49، ص115) میں آیا ہے کہ امام رضا (ع) نے فرمایا، جیسے کہ رسول خدا نے فرمایا: اگر ابوجہل میرا بال بینکا بھی کردے تو تم سب لوگوں کے سامنے گواہی دیتا کہ می ں پیغمبر خدا نہیں ہوں۔

میں بھی کہہ رہا ہوں:

اگر مامون میرا بال بینکا کردے تو تم سب کے سامنے گواہی دیتا کہ میں امام نہیں ہوں۔

 

سچ تو یہ ہے کہ میں امام(ع) کے مقصد کی طرف زیادہ متوجہ نہ ہو سکا بس اتنا سمجھ گیا کہ ہوگا وہی جو امام(ع) نے فرمایا ہے۔

جیسے ہی امام(ع) کی نظر ہارون پر پڑی آپ نے دورہی سے وہ حرز پڑھا :

جب آپ ہارون کے سامنے پہونچےِ،ہارون نے آپ کودیکھا اور بہت ہی مؤدبانہ انداز میں کہا:

اے ابو الحسن! میں نے اپنے خزانچی کو حکم دیا ہے کہ وہ آپ کو ایک لاکھ درہم دےاور آپ اپنے گھر والو ں کی ضروریات کی ایک فہرست بنا کر ہمیں دیدیں تاکہ تمام چیزیں آپکے لئے فراہم کی جا سکیں۔

جب امام(ع)، ہارون سے جدا ہو رہے تھے اس وقت ہارون نے امام(ع) کے قد و قامت کو دیکھا اور دھیمی آواز میں کہا:

ہم نے کچھ ارادہ کیا او رخدا نے کچھ ارادہ کیالیکن جو ارادہ خدا کرتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے اور انجام پاتا ہے۔ (1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 116 و ج 91، ص 344.

 

متن حرز امام رضاعلیہ السلام

میں جانتاہوں کہ آپ اس لمحہ کے مشتاق ہونگے کہ اس متن کو دیکھیں، بہت اچھا !اب میں آپکی خدمت میں وہ حرز پیش کرتا ہوں:

بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ

بِسمِ اللهِ اِنی اَعوذُ بالرَّحمنِ مِنکَ اِن کُنتَ تَقيّاً اَو غَیرَ تَقيٍّ، اَخَذتُ بِاللهِ السَّمیعِ البَصیرِ علی سَمعِکَ وَ بَصَرِکَ لا سُلطانَ لَکَ عَلَيَّ وَ لا علی سَمعی وَ لا علی بَصَری وَ لا علی شَعری وَ لا علی بَشَری و لا علی لَحمی وَ لا علی دَمی وَ لا علی مُخّی وَ لا علی عَصَبی وَ لا علی عِظامی وَ لا علی مالی وَ لا علی ما رَزَقَنی رَبّی. سَتَرتُ بَینی وَ بَینَکَ بِسِترِ النُّبُوَّةِ الَّذی اَستَرَ اَنبِیاءَ اللهِ بِهِ مِن سَطَواتِ الجَابِرَةِ وَ الفَراعِنَةِ.جِبرَئیلُ عَن يَمینی وَ میکائیلُ عَن يَساری وَ اِسرافیلُ عَن وَرائی وَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ اَمامی، وَ اللهُ مَطَّلِعٌ عَلَيَّ يَمنَعُ الشَّیطانَ مِنّی.الّلهُمَّ لا يَغلِبُ جَهلُهُ اَناتَکَ اَن يَستَفِزَّنی وَ يَستَخِفَّنی.الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ، الّلهُمَّ اِلَیکَ اِلتَجَاتُ.(1)

ترجمہ حرز :

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے میں تجھ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں چاہے تو با تقوےٰ ہویابےتقویٰ،خدا وند عالم کی مدد سے میں تیرے کان اور تیری آنکھوں کو بند کر رہا ہوں، تیرے پاس مجھ پر تسلط حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے،نہ میرے کانوں پر ،نہ میری آنکھوں پر،نہ میرے بالوں پر،نہ کھال پر ،نہ گوشت پر،نہ خون پر، نہ دماغ پر،نہ اعصاب پر ،نہ میرے مال پراور نہ ہی میرے رزق پرکہ جو خدا وند عالم نے مجھے عطا کیا ہے،میں اپنے اور تیرے درمیان ایک پردہ ڈال رہا ہوں ،ایسا پردہ جو نبوت کا پردہ ہے یعنی وہ پردہ جس کو انبیاءﷺنے فرعون جیسے ظالم اور جابر بادشاہوں کے حملوں سے بچنے کی لئے اپنے اور انکے درماین ڈالا تھا۔

--------------

(1):- اس حرز کو شیخ عباس قمی نے منتہی الآمال کی فصل 5 باب 10 میں اور مفاتیح الجنان میں بی) تحریر کیا ہے۔

 

داہنی جانب سے جبرئیل،بائں  جانب سے میکائیل،پیچھے سے اسرافیل،سامنے سے حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ،یہاں تک کہ خدا وند بھی (کہ جو میرے حالات کو جانتا ہے) تیرے شر کو مجھ سے روکے ہوئے ہے،اور شیطان کو مجھ سے دور کئے ہوئے ہے۔

پروردگارا! وہ تیری قدرت سے نادانی کی بنا پر غافل ہو کر مجھ کو وھشت زدہ اور ذلیل و خوار نہ کر دے۔

پروردگار میں تریی پناہ چاہتا ہوں         پروردگار میں تر۔ی پناہ چاہتا ہوں

پروردگار میں ترری پناہ چاہتا ہوں

 

پانی کا چشمہ جاری کرنا

ہم لوگ مامون سے ملاقات کے ارادے سے نیشاپور سے نکلے،ابھی قریہ حمراء (1) تک پہونچے تھے کہ سورج بالکل سر پر آ گیا ۔

ایک شخص جو امام(ع) کی سواری کے نزدیک تھا اس نے آسمان کی جانب نگاہ کی اور امام رضاعلیہ السلام سے کہا:

آقا ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔

امام رضاعلیہ السلام نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا :

پانی لے آؤ تاکہ میں وضو کر سکوں۔سب لوگ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ آقا کے لئے پانی لاؤ۔

یہاں تک کہ وہ شخص جس پر سفر کی تمام ضروریات مہیا کرنے کی ذمہ داری تھی امام (ع) کے قریب آیا اور اس نے شرمندگی کے ساتھ کہا:

فرزندے رسول میری جان آپ پر قربان، جو پانی ہمارے پاس تھا وہ ختم ہو گیا اور یہاں اطراف میں کوئی نہر اورچشمہ بھی نہیں ہے۔

--------------

(1):- قریہ حمراء یعنی قریہ دہ سرخ۔

 

 اگر آپ بہتر سمجھیں تو ہم لوگ  آگے بڑھیں؟ اور قریہ حمراءپہونچ کر نماز کو اول وقت کے بجائے کچھ تاخرر سے پڑھ لیں گے؟

امام(ع) ہمیشہ فضیلت کے وقت میں نماز پڑھتے تھے،کبھی تاخیر نہ کرتے تھے، جس جگہ امام(ع)کھڑے تھے وہیں دوزانوں ہو کر بیٹھ گئے اور کچھ زمین کھودی، اچانک میٹھا پانی زمین سے ابل پڑا اور ایک نئے چشمہ کی شکل اختیار کرلی۔

 امام رضاعلیہ السلاماور انکے تمام اصحاب نے وضو کیا اور اول وقت اسی بیابان میں نماز جماعت ادا کی ، وہ چشمہ آج تک جاری ہے۔

ہم آگے بڑھے اور سناباد (1) پہونچ گئے وہاں پر ایک پہاڑ تھا ،وہاں کے رہنے والے اس پہاڑ کے پتھر سے دیگ بناتے تھے۔(2) امام علیہ السلام نے اس پہاڑ سے ٹیک لگائی اور دعا کی:

الّلهُمَّ اَنفِع بِهِ وَ بارِک فیما يُجعَلُ فیما يُنحَتُ مِنهُ

اے پروردگار!اس پہاڑ میں یہاں والوں کے لئے نفع قرار دےاور اس پہاڑ سے جو پتیلیاں بنائی جائیں اور ا ن میں جو کھانا تیارر ہو اس میں برکت عطاکر ۔

پھر امام(ع)نے حکم دیا کہ ہمارے لئے کچھ پتیلیاں اس پہاڑ کے پتھر سے تارر کرو اور پھر ایک بات کہی جو بڑی دلچسپ تھی اور وہ یہ کہ:میرے لئے اس پتیلی کے علاوہ کسی اور پتیلی میں کھانا نہ بنایا جائے۔

البتہ میں آپکی خدمت میں یہ بات بھی عرض کر دوں کہ امام(ع) کھانا بہت کم کھاتے تھے!

اس دن سے لوگوں میں اس پہاڑ کی پتیلیاں خریدنے کا شوق پیدا ہو گیا اور اس طریقہ سے اس پہاڑ کے سلسلے میں حضرت(ع) کی دعا کا اثر ظاہر ہو گیا۔ (3)

--------------

(1):- سناباد، پہلے ایک گاؤں تھا لیکن اب مشہد میں شامل ہو گیا ہے اور آج بھی اسی نام سے ایک مشہور محلہ ہے۔

(2):- یہ پتیلیاں آج بھی مشہد مقدس میں بنائی جاتی ہیں ان پتیلیوں کا نام (ہرکارہ) ہے اوریہ کےپتھروں سے بنائی جاتی ہیں۔

(3):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 125 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 136- منتہی الآمال فصل 5 از باب 10.

 

اپنے مزار کی پیش گوئی

جب ہم طوس پہونچے تو حمید بن قحطبہ طائی کے مہمان ہوئے،امام(ع) ایک گنبد میں وارد ہوئے کہ جس میں ہارون کی قبر تھی، سچ تو یہ ہے کہ یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی کہ امام(ع) کا ہارون کی قبر سے کچھ تعلق ہے لیکن میں بہت جلد سمجھ گیا کہ امام رضاعلیہ السلام اپنے ساتھیوں کو کوئی دوسری چیز سمجھانا چاہتے ہیں آپ نے ہارون کی قبر کے سرہانے اپنے مبارک ہاتھوں سے ایک خط کھینچا اور ایک دائرہ معین کیا اور فرمایا:

یہ میرے مرقد کی مٹی ہے میں اس جگہ دفن کیا جاؤنگا اور جلد ہی خدا اس مقام کو ہمارے شیعوں اور دوستوں کے آنے ،جانے کی جگہ قرار دے گا۔

خدا کی قسم !جو بھی میری زیارت کرے گا اور مجھے سلام کر ے گا،اس پر ہماری شفاعت کے ذریعہ خدا کی رحمت اور مغفرت واجب ہو جائےگی۔

یہ فرما کر آپ نے قبلے کی طرف رخ کیا اور چند رکعت نمازاور کچھ دعائںم پڑھیں،نماز اور دعا تمام ہونے کے بعد ایک طولانی سجدہ کیا،میں نے خود سنا ہے کہ آپ نے سجدے میں پانچ سو مرتبہ ذکر تسبیح پڑھا پھر سجدے سے سر اٹھایا اور اپنی قیام گا ہ یعنی حمید بن قحطبہ طائی کے گھر پلٹ آئے۔ (1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 125 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ج 2، ص 136- منتہی الآمال فصل 5 از باب 10.

 

بہشت کا چشمہ (1)

ابھی ایک چشمہ کا ذکر میں نے آپ کے سامنے کیا ہے جو امام رضا(ع) نے خشک اور بے آب زمین پر اپنے اعجاز سے جا ری کیا اب بہتر سمجھتا ہوں کہ ایک اور چشمہ کا ذکر کروں جو حضرت علی(ع)نے اپنے اعجاز سے بے آب و گیاہ بیابان میں جاری کیا تھا ۔

یہ روایت محمد بن یوسف فریابی،سفیان اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، حبیب ابن جہم کے ذریعہ مجھ تک پہونچی ہے۔

حبیب ابن جہم روایت کرتے ہیں :

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب ہم امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کی رکاب میں سرزمین صفین کی طرف جا رہے تھے ہم صندود نامی ایک گاؤ میں پہونچے اور وہاں ٹھہرنے کا قصد کیا ابھی ہم نے اپنے سامان گھوڑوں سے نہ اتارے تھے کہ امام علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ یہاں سے حرکت کریں ہم نے حکم کی تعمیل کی اورایک ایسے مقام پر پہونچے جہاں زمین بالکل خشک تھی اور آب و گیاہ کا کچھ نام و نشان نہ تھا ۔

امام علی علیہ السلام نے حکم دیا :یہیں پر قیام کریں۔

مالک اشتر کو کون نہیں جانتا، وہ جنگ کے مرغ (سب سے بڑے بہادر)کہلاتے تھے اور امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کے سپاہ سالار تھے۔

آپ امیر المؤمنین(ع)کے پاس آئے اور کہا:

اے امیر المومنین(ع)! یہاں پر پانی کا نام و نشان نہیں ہے ۔

--------------

(1):- چونکہ یہ روایت بھی اباصلت نے نقل کی ہے اورپہلی والی روایت سے مشابہت رکھتی ہے لہذا ہم نے اس کو یہاں پر ذکر کردیا ہے۔

 

یہاں جنگی لشکر کو ٹھہرانا کیسا ہوگا؟

 حضرت امیر المومنین(ع) مسکرائے ،ایک نگاہ مالک اشتر کی طرف کی اور فرمایا:

اے مالک ! میں بہتر جانتا ہوں کہ جنگ کے زمانے میں لشکر کو ایسی سرزمین پر روکنا مناسب نہیں ہے کہ جس میں پانی موجود نہ ہولیکن یہ بات جان لو کہ بہت جلد خدا وند عالم اس سر زمین سے ہم کو ایسے پانی سے سیراب کرے گا جو شہد سے زیادہ شیرین  و لطیف ہوگا، برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ صاف و شفاف ہوگا۔

ہم سب کوبہت تعجب ہوا جب کہ ہم یہ جانتے تھے کہ جو کچھ امیر المؤمنین(ع)کہہ دیں وہ سو فصداہو کر رہے گا اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

 حضرت امیر المؤمنین(ع) نے یہ فرما کر اپنی عبا کو دوش سے اتارا،تلوار کو ہاتھ میں لیا،کچھ قدم آگے بڑھ کر ایک بالکل خشک مقام پر کھڑے ہو گئےاور مالک سے کہا:

اے مالک! لشکر کی مدد کے ذریعہ اس جگہ کو کھودو۔

مالک اور اسکے لشکر نے زمین کو کھودنا شروع کیایہاں تک کہ ایک بہت بڑا کالے رنگ کا پتھر نمودار ہواکہ جس سے چاندی کا ایک چمکدار چھلا متصل تھا۔

 حضرت امیر المومنین ؑنے مالک سے فرمایا:

اپنے دوستوں کی مدد سے پتھر کو اٹھا کر کنارے ڈال دو۔

مالک اور ایک سو جنگی جوانوں نے پتھر کو چاروں طرف سے پکڑا اور اکھاڑنا چاہا لیکن بہت زیادہ طاقت لگانے کے بعد بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ یہ لوگ کچھ کر نہیں پا رہیں تو آپ خود پتھر کے قریب آئے اورپتھر

 

کو پکڑنے سے پہلے آسمان کی طرف ہاتھوں کو بلند کیا اور ایک ایسی دعا پڑی کہ ہم میں سے کوئی بھی اسکے معنی کو نہ سمجھ سکا!

اس دعا کا متن یہ ہے:

طاب طاب مربا بما لم طبیوثا بوثة شتمیا کوبا جاحا نوثا تودیثا برحوثا، آمین یا رب العلمین، ربّ موسیٰ وهارون

پھر آپ نے انگلیوں کو پتھر میں پھسایا اورقدرت ید اللٰھی کے ذریعہ صرف ایک جھٹکے میں پتھر کو اکھاڑ کر چالیس ہاتھ دور پھینک دیا۔جن نو جوانوں نے بزورگوں کی زبانی در خیبر اکھاڑنے کے واقعہ کو سنا تھا، اس دن انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے اسی کے مثل خدا کے ہاتھ کی قدرت کا معجزہ دیکھ لیا۔

اچانک شہد سے زیادہ شیرین ،برف سے زیادہ ٹھنڈا اور یاقوت سے زیادہ شفاف پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گیا۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلاماور ہم سب نے چشمے کا پانی پیا اور اپنی مشکوں وتمام برتنوں کو پانی سے بھر لیا۔

پھر حضرت علی علیہ السلامدوبارہ پتھر کی طرف گئے اور پتھر کو اٹھا کر چشمہ کی طرف بڑھے ہم سب لوگ راستے سے ہٹ گئے یہاں تک کہ حضرت نے پتھر کو اسکی پرانی جگہ پر رکھ دیا اور فرمایا: پتھر کو مٹی سے چھپا دو۔

ہم نے پتھر کو چھپا دیااور اپنے سازوسامان کو باندھ کر روانہ ہو گئے لیکن ابھی زیادہ آگے نہ بڑھے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے ٹھہرنے کا حکم دیااور لشکر کو مخاطب کر کے فرمایا:

کیا تم میں سے کوئی اس چشمے کی جگہ کو جانتا ہے؟

لشکر میں جوش پیدا ہو گاشاور سب نے ہاتھ بلند کر کے کہا:

آقا ہم جانتے ہیں،ہم جانتے ہیں۔

ہم میں سے ایک گروہ مالک اشتر کے ساتھ واپس آیا لیکن ہم کو اس چشمے  کا کوئی نشان نہ ملا!پانی کا چشمہ پانی ہو کر زمین کے نیچے جا چکا تھاحتی کہ اس بڑے پتھر کی بھی کوئی خبر نہ تھی۔

 

مالک نے کہا :یقینا امیرالمؤمنین(ع) پیاسے ہیں اسی لئے ہم کو پانی لینے کے لئے بھیجا ہےلذاا سب لوگ اسی اطراف میں پانی کو تلاش کریں تا کہ ہم امیرالمؤمنین(ع)کی خدمت میں پانی پیش کرسکیں۔

کچھ تلاش و کوشش کے بعد ہم کو ایک خانقاہ نظر آئی ہم خانقاہ میں داخل ہوئے تو وہاں ہم نے ایک راہب کو دیکھا جسکی پلکیں برف کی طرح سفید ہو چکی تھی اور اسکی آنکھوں پر گری ہوئی تھیں!

مالک نے راہب سے پوچھا:اے راہب کیا تمہارے پاس کچھ پانی ہے؟

راہب تمام جنگی جوانوں کو مسلح دیکھ کر بہت زیادہ ڈر گیا تھا اور ہم سب کو ایک ایک کر کے دیکھ رہا تھااس نے ڈرتے ہوئے جواب دیا:

ہاں ، ہاں دو دن پہلے میں نے کچھ پانی میٹھا کیا تھا ایسا میٹھا پانی اس اطراف میں دور دور تک نہیں ملتا۔

یہ کہہ کر راہب ایک چھوٹے سے کمرے میں گیا اور وہاں سے پانی کی مشک اٹھا کر لایااور مشک کو مالک کے ہاتھ میں دے دیا،مالک نے اطمینان حاصل کرنے کے لئے کہ پانی میں کوئی خرابی تو نہیں ہے مشک کو اوپر کیا اور تھوڑا سا پانی منھ میں ڈالا لیکن فورا ًہی اس پانی کو منھ سے باہر نکال دیا جیسے کہ مالک کو یہ امید نہ تھی کہ پانی ایسا ہوگااور کہا:

اے بزرگوار!یہی وہ میٹھاپانی ہے جسکی آپ تعریف کر رہے تھے ؟یہ پانی تو نمکین بھی نہیں کڑوا ہے شاید آپ نے میٹھا اور لطیف پانی پیا ہی نہیں اس لئے نہیں جانتے کہ شیرین اور لذت بخش پانی کسے کہتے ہیں ؟ کاش تم نے ایک پیالہ اس پانی میں سے پیا ہوتا جو ہمارے مولیٰ نے ہم کو پلایا ہے تا کہ تمںیش معلوم ہوتا کہ جسکو تم پانی کہہ رہے ہو اصلاً وہ پانی ہی نہیں ہے ۔

پھر مالک اشتر نے اس چشمہ کا پورا واقعہ اس راہب سے بیان کیا۔

جب راہب نے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے اعجاز کا یہ واقعہ سناتو سوال کیا:کیا تمہارے مولیٰ پیغمبرﷺ ہیں؟

مالک اشتر:  ہما رے مولیٰ ،پیغمبر نہیں بلکہ پیغمبر ﷺ کے وصی ہیں۔

 

یہ سن کر راہب کے چہرے کا خوف و وحشت کا پیلاپن ختم ہو گیا اور اس کا چہرا کچھ کھلا ہوا نظر آنے لگا ، اس نے ایک گہری سانس لی اور ہم سے بالکل قریب ہو کرگذارش کرتے ہوئے کہا:میری التماس ہے کہ آپ مجھے اپنے مولیٰ کے پاس لے چلیں ، آپکو خدا کا واسطہ میری درخواست کو قبول کرلیجےل۔

ہم نے راہب کی التماس کو قبول کیا اورحضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس لے آئے۔

حضرت (ع)نے جیسے ہی راہب کو دیکھا خندہ پیشانی کے ساتھ فرمایا:

شمعون تم!....

راہب نے حیرت زدہ ہو کر جواب دیا:

ہاں میں شمعون ہوں یہ وہی نام ہے جو میری ماں نے رکھا تھا اور خدا وند عالم کے علاوہ کوئی میرا نام نہیں جانتا ،میں نہیں جانتا کہ آپ کو میرا نام کہاں سے معلوم ہوا لیکن اگر آپ واقعاً و صی پیغمبرﷺ ہیں تو پھر اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔

اب آپ سے میری گزارش یہ ہے کہ آپ اپنے معجزہ کو مکمل کر دیجےآ تا کہ آپ کی وصایت و ولایت پر میرا ایمان کا مل ہو جائے ۔

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

اے شمعون ! تم کیا چاہتے ہو؟

شمعون نے کہا:

میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ کونسا چشمہ ہے اور اس کا نام کیا ہے؟

امام علی علیہ السلام نے جواب دیا:

 

اس چشمے کا نام ”راحوما“ہے اور یہ بہشت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے اب تک ۳۱۳ پیغمبروں (ع)کے جانشین اس چشمہ کا پانی پی چکے ہیں اور میں آخری وصی ہوں کہ جس نے اس چشمہ کا پانی پیا ہے چونکہ پیغمبر آخر محمد مصطفٰےﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور میں انکا وصی ہوں۔ راہب کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ تمام عمر انتظار،تلاش و کوشش کے بعد اب اس کو اسکی کھوئی ہوئی چیز واپس مل گئی ہے ، اس نے بڑے شوق سے کہا :

میں نے انجیل میں یہی پڑھا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ، محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور تم محمدﷺکے وصی وجانشین ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلامکے لشکر کا عابدین نامی جگہ پر معاویہ کے لشکر سے مقابلہ ہوا تو سب سے پہلے مولائے کائنا ت کی طرف سے شمعون نے جام شہادت نوش کیا۔

جب آپ کو شمعون راہب کی شہادت کی خبر ملی تو آپ اس کے احترام میں گھوڑے سے اتر گئے اور روتے ہوئے فرمایا:

جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے قیامت کے دن اس کا حساب اسی کے ساتھ ہوگااور یہ راہب قیامت کے دن جنت میں ہمارا دوست اور پڑوسی ہوگا۔ (1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 33 ، ص 39-40، بہ نقل از امالی شیخ صدوق ص 155 ، حدیث 14 از مجلس 44.

 

جنت کے پھول اور سنبل

اس واقعہ کو امام رضاعلیہ السلام نے مجھ (اباصلت)سے اپنے اجداد کو واسطہ قرار دیتے ہوئے بیا ن کیا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: (1)

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے ساتھ میری شادی کو ابھی زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ایک روزمیں حضرت رسولخداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، یہ دن دوسرے دنوں سے کچھ الگ تھا چونکہ اس دن پیغمبرﷺ زیادہ خوشحال نظر آرہے تھے !

جب آپ کی نظر مجھ پر پڑی تو آپ نے فرمایا:

آج میرے پاس تمہارے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کے لئے ایک خوشخبری ہے۔

میں نے شوق سے پوچھا :

خوشخبری؟کون سی خوش خبری؟

رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

تمہاری اور فاطمہ سلام اللہ علیھا کی شادی کے بعد سے مجھے تم دونوں کی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ فکر رہتی تھی آج خدا نے میری وہ فکر دور کر دی ہے۔

امام علی علیہ السلامنے سوال کیا:

یا رسول اللہ ﷺ! وہ کس طرح؟

--------------

(1):-  جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ روایت اگر چہ مستقیما حضرت امیر المؤمنین سے مربوط ہے ، لیکن چونکہ اس کو اباصلت نے امام رضا(ع) سے سنا ہے اور نقل کیا ہے لہذا یہ (خاطرات اباصلت از امام رضا (ع)میں شامل ہے) اور اسی وجہ سے ہم نے یہاں پر اس کو ذکر کیا ہے۔

 

رسول خداﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور آہستہ آہستہ مہربانی کے ساتھ اپنی طرف کھینچااور اپنے پاس بیٹھا تے ہوئے فرمایا:

 آج جب جبرئیل میرے پاس آئے تو جنت کے پھول کی دو شاخ ساتھ لے کر آئے تھےایک سنبل کی اور دوسرے گل نار کی!میں نے پھولوں کو لیا اور سونگھا،پھول بہت زیادہ خوشبودار اور خوبصورت تھے، میں نے جبرئیل سے پوچھا:

اے جبرئیل !ان پھولو ں کے لانے کا کیا مقصد ہے؟

جبرئیل نے جواب دیا:خدا وند عالم نے تمام فرشتوں اور اہل بہشت کوحکم دیا ہے کہ جنت کے درختوں،نہروں،قصروں، گھروں،مکانوں ،کمروں کو جتنا ممکن ہو سکے سجائںں اور خوبصورت آنکھو ں والی حوروں کو حکم دیا ہے  کہ سب مل کر حمعسق(1) ، یٰس (2) اور طٰه ٰ (3) کو بہترین لحن کے ساتھ پڑھںہ ،پھر ایک ندا کرنے والے نے ندا کی:

خدا وند عالم فرماتا ہے: میں نے فاطمہ سلام اللہ علیھا بنت محمد کی شادی علی ابن ابی طالب علیہ السلامکے ساتھ کر دی ہے ۔

پھر خدا وند عالم نے ایک بادل کو حکم دیا کہ اس جشن میں شامل ہونے والوں پر ہیرے،یاقوت،مروارید ،سنبل اورگل نار کی بارش کرو!

جبرئیل نے رسول اکرم سے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ!یہ سنبل اور گل نار ان چیزوں میں سے ہیں جو فرشتوں کے سروں پر نثار ہوئے ہے۔ (4)

--------------

(1):- سورہ شوری(42)، آیات 1 و 2.

(2):- قرآن کا 36 واں سورہ.

(3):- قرآن کا 20 واں سورہ، البتہ اس روایت میں اس سورہ کا نام موجود نہیں ہے، لہذا چونکہ دوسری روایت میں اس سورہ کا نام بھی آیا ہے لہذا ہم نے اس سورہ کا نام ذکر کردیا ہے.

(4):- بررسی زندگی عبدالسلام بن صالح اباصلت ہروی، ص 100-101 ، بہ نقل از دلائل الامامة ، ص 19 و مسند فاطمة (س) ، ص 186.

 

معراج

یہ ماجرامجھ(اباصلت)سےامام رضاعلیہ السلامنےحضرت امیرالمؤمنینعلیہ السلام سے نقل کرتے ہوئے رسول خداکی زبانی بیان کیا ہے۔

 رسول اکرمﷺ نے واقعہ معراج کو اس طرح بیان کیا ہے:

جب مجھ کو معراج پر لیجایا گیا تو جبرئیل نے اذان و اقامت کہی اور ہر جز ءکی دو ،دو مرتبہ تکرار کی اسکے بعد مجھ سے کہا:

اے محمدﷺ! نماز کے لئےآگے بڑھئے۔

میں نے تعجب سے پوچھا:

یعنی میں تم سے آگے بڑھوں ؟

جبرئیل نے جواب دیا:

جی ،ہاں آپ مجھ سے آگے بڑھ جائیے چونکہ خدا وند عالم نے اپنے پیغمبروںﷺ کو فرشتوں پر فضیلت عطا کی ہے اور خصوصاً آپ کو توتمام انبیاءﷺپر فضیلت عطا کی ہے ۔

 میں آگے بڑھا اور تمام فرشتوں نے میری اقتدا کی لیکن میں نے اسکے بعد بھی غرور و تکبر نہیں کیا، نماز تمام ہونے کے بعد ہم آگے بڑھے ۔

جب ہم نور کے پردوں میں پہونچے تو جبرئیل نے کہا:

آپ چلتے رہیں، آگے بڑھیں یہ کہکر جبرئیل خود پیچھے ہٹ گئے۔

میں نے جبرئیل سے کہا :ایسے موقع پر مجھے تنہا چھوڑ دوگے؟             

جیسے ہی میں نے یہ بات کہی ،جبرئیل نے جواب میں کہا :

خدا وند عالم نے اس جگہ کو میری آخری حد قرار دیا ہے اگر میں اس سے آگے بڑھنا چاہوں تو خدا وند عالم میرے بالوں و پر جلا دے گا۔

 

بہر حال اس گفتگو کے بعد میں آگے بڑھا اور اس اعلی مقام تک پہونچ گیا جہا ں خدا وندعالم چاہتا تھا،پروردگار عالم کی آواز آئی :اے محمد !(ص)

میں نے جواب دیا: لبیک اے پروردگار،تو بلند مرتبہ اوربزرگ مقام والاہے۔

جب میں نے یہ کہا تو آواز آئی:

اے محمدﷺ! تو میرا بند ہ ہے اور میں تیرا پروردگار ہوں پس تو میری عبادت کر اور مجھ پر بھروسہ کر ،تو میرے بندوں میں میرانور،میری مخلوق کے درمیان میرارسول، اور میری مخلوقات پر میری حجت ہے میں نے تیرے اور تیری پیروی کرنے والوں کے لئے جنت اور تیرے مخالفین کے لئے جہنم کو پیدا کیا ہے اورتیرے جانشینوں کے لئے اپنے احترام اور ان کے شیعوں کے لئے اپنے ثواب کو واجب قرار دیا ہے۔

میرے دل میں شوق پیدا ہوا اور میں نے یہ جاننے کے لئے کہ میرے اوصیا اور جانشین کون لوگ ہیں ، سوال کیا:

پروردگار میرے اوصیاءو جانشین کون لوگ ہیں؟

خداوند عالم کی آواز آئی کہ:

اے محمدﷺ! تیرے اوصیا کے نام میرے عرش کے پائے پر لکھے ہوئے ہیں۔

جب میں نے عرش کی طرف نگاہ کی تو چودہ نور نظر آئے کہ ہر نور میں ایک سبز رنگ کی سطر موجود تھی اور اس سطر پر میرے اوصیا میں سے ایک وصی کا نام (کہ ان میں سے پہلے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلاماور آخری مہدی(عج) ہیں)لکھا ہوا تھا۔ میں نے  درگاہ خداوند میں عرض کیا:

 

معبود ! کیا یہ میرے بعد میرے اوصیاءہونگے؟

آواز پروردگار آئی:

اے محمدﷺ! یہ بارہ (کے بارہ امام(ع) معصوم)تیرے بعد میری مخلوقات کے در میان تیرے جانشین و دوست اور میرے برگزیدہ و حجت قرار پائیں گے۔

مجھے اپنے عزت و جلال کی قسم میں اپنے دین کو ان کے وسیلے سے کامیاب کرونگا اوران کے ذریعہ اپنے کلمہ کو بلند کرونگا اور ان اوصیا میں سے آخری وصی کے ذریعہ زمین کو اپنے دشمنوں سے پاک کرونگا اور دنیا کا مشرق و مر ب اسکے اختیار اور حکومت میں دیدونگا، ہواؤں کو اس کا فرمانبردار بنادونگا اور وزنی بادلوں کو اسکے سامنے ذلیل و خوار کردونگا،اس کو آسمانوں کی سیر کراؤنگا۔ اپنے لشکر اور فرشتوں کے ذریعہ اسکی مدد کرونگا،تا کہ وہ میری دعوت کو تمام دنیا کے سامنے ظاہر کردے اور مخلوق کو توحید پرستی پر جمع کردے ، اسکے بعد اسکی حکومت کو آگے بڑھاؤنگا اور قیامت تک اپنے اولیاءمیں سے ایک کے بعد دوسرے کے اختیار میں دیتا رہونگا۔ (1)

--------------

(1):- عیون اخبار الرضا، ج 1 ، ص 541.

 

قید خانہ یا عبادتگاہ؟!

امام رضا علیہ السلام نے اپنی زندگی کی ایک مدت سرخس کے ایک بہت تنگ اور ایسے قید خانہ میں گذاری ہے کہ جس میں فقط ایک انسان کے رہنے کی گنجائش تھی اور وہ بہت تاریک تھا، اس وقت میں نے سوچا کہ میری ذمہ داری یہ ہے کہ میں آپ سے ملاقات کروں۔

میں قید خانہ آیا اور قید خانہ کے دربان سے امام سے ملاقات کرانے کی درخواست کی لیکن اس نے اجازت نہ دی اور کہا:

کسی بھی صورت میں تم ان سے ملاقات نہیں کرسکتے!

جب میں نے اسکے چہرے پر رعب کے ساتھ (1) نگاہ ڈالی تو اس نے اپنے لہجے کو بدلتے ہوئے کہا:

ایسا نہیں ہے کہ میں تم کو ملاقات کی اجازت نہیں دینا چاہتا بلکہ خود انکے پاس وقت نہیں ہے کہ کسی سے ملاقات کریں!

یہ بات میرے لئے بہت عجیب تھی میں نے کہا:

یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ملاقات کا وقت نہ رکھتے ہوں ؟!

ایک قیدی قید خانہ میں کیا کرتاہے کہ اس کے پاس ایک مختصرسی ملاقات کا بھی وقت نہیں ہے؟!

قید خانہ کے دربان نے جواب دیا:

میرا خیال ہے کہ وہ ہر شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں۔ یہ ایک ہزار نماز ان نافلہ نمازوں کے علاوہ ہے جو آپ ہر روز طلوع آفتاب،زوال آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت پڑھتے ہیں وہ ان اوقات میں ہمیشہ اپنے مصلی پر ہوتے ہیں اور اپنے خدا سے راز و نیاز کرتے ہیں!

--------------

(1):- (رعب کے ساتھ ) یہ عبارت اباصلت کی روایت میں موجود نہیں ہے ہم نے اس کو اقتضاء حالکی بنا پر بڑھایا ہے۔

 

میں نے قید خانہ کے دربان سے کہا کہ تم مجھ پر یہ احسان کردو کہ آقا سے میرے لئے انھیں اوقات میں سے کسی وقت ملاقات کے لئے وقت لے لو۔

دربان اندر گیا امام (ع)سے اجازت طلب کی اور میں قید خانہ میں داخل ہو گیا۔

آپکی آنکھیں کوئی برا دن نہ دیکیں)،ان نامردوں نے امام کو زنجیر وطوق سے جکڑاہوا تھا!امام (ع)محراب عبادت میں بیٹھے ہوئے کچھ سوچ رہے تھے۔ جب میں نے امام (ع)کو اس حال میں دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسوں آگئے ، لیکن میں نے کوشش کی کہ خود کنٹرول کروں اس وقت حکومت نے لوگوں کے در میان ایک افواہ پھیلائی ہوئی تھی ، میرا اہم کام یہ تھا کہ اس افواہ کا جواب خود امام (ع)کی زبان سے سنوں اور لوگوں کو بتاؤں اس لئے میں نے امام(ع) سے پوچھا!

اے فرزند رسولﷺ میں نے ایک بات سنی ہے جس کو لوگ آپ سے نقل کرتے ہیں؟!

امام(ع) نے پوچھا کہ: لوگ کیا کہتے ہیں؟

میں نے عرض کیا:

لوگ کہتے ہیں کہ آپکا دعوی ہے کہ تمام لوگ آپ کے غلام ہیں!

امام رضاعلیہ السلامنے تعجب اور ناراضگی کے ساتھ آسمان کی طرف سر بلند کیا اور کہا:

اے میرے پروردگار! اے آسمان و زمین کو پیدا کرنے والے ، اے ظاہر و باطن کو جاننے والے!تو گواہ ہے میں نے  ہرگز اور کیسے بھی شرائط کے تحت ایسی بات نہیں کہی ہے اور نہ ہی اپنے بزرگوں سے ایسا کچھ سنا ہے ،معبود جو ستم اس امت کی جانب سے ہم پر ہوئے ہیں تو ان کو جانتا ہے اور یہ بھی ایک ہی ستم ہے! پھر آپ نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا:

اے عبدالسلام جو بات لوگ ہم سے نقل کرتے اگر یہ حقیقت ہے پس جو لوگ کسی کے غلام نہیں ہیں بلکہ آزاد ہیں ہم نے ان کو کس سے خریداہے؟!

 

امام(ع) کا یہ فرمان سن کر میں نے سوچا کہ یہ جواب خود میرے ذہن میں کیوں نہ آیا، میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا:

فرزند رسول بے شک آپ درست فرماتے ہیں!

لیکن امام(ع) کو مجھ سے امید نہ تھی کہ میں آپ سے اس طرح کا سوال کروں گا، آپ نے تعجب یا شاید میری تنبیہ کے لئے مجھ سے پوچھا:

اے عبدالسلام ، کیا تم بھی تمام لوگوں کی طرح اس ولایت کے منکر ہوگئے ہو جو خدا نے ہمارے لئے واجب قرار دی ہے؟!(1)

میں نے اپنے ہاتھ پیروں کو سمیٹتے ہوئے جواب دیا:

نہیں ، نہیں خدا کی پناہ !خدا ایسا دن نہ لائے کہ میں ایک لمحے کے لئے بھی ایسا سوچوں، میں اپنے تمام وجود کے ساتھ آپکی ولایت کا اقرار کرتا ہوں۔ (2)

-------------

(1):- یہ عبارت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ائمہ تمام بندگان خدا پر ولی ہیں ، تمام لوگوں پر واجب ہے کہ ان کی اطاعت کریں جیسے کہ غلام اپنے آقاؤں کی اطاعت کرتے ہیں ، اس اعتبار سے تمام لوگ چودہ معصومین کے غلام ہیں۔.

(2):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 170-171 و 49 ، ج 25 ص 268 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا ، ص 311. یہ روایت اباصلت کے شیعہ ہونے پر بہترین دلیل ہے۔

 

مامون پر امام رضاعلیہ السلام کی نفرین

ایک دن مامون کو بہت زیادہ ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کو سمجھ میں آگیا کہ اب آئندہ امام رضاعلیہ السلامسے کس طرح گفتگو کرنی چاہئے!ماجرا اس طرح سے ہے کہ امامت اور پیغمبرﷺکی جانشینی کے تقاضے کو پورا کرنے کے لئے امام (ع)نے علمی اور اعتقادی مجلسیں(کلاسیں) تیار کی تھیں اور لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے تھے، یہ کام اس بات کا سبب بنا کہ لوگ آپکے دیوانے ہوگئے اور روز بروز معاشرے کے مختلف طبقوں کے افراد کے دلوں میں آپ کی محبت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور لوگ خود بہ خود آہستہ آہستہ اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ امام رضاعلیہ السلاممسند پیامبرﷺ پر بیٹھنے کے لائق و اہل ہیں نہ کہ مامون!

اس دن کسی نے مامون کو خبر دی کہ امام نے ایک مجلس بر پا کی ہے اور لوگ آپ سے علمی و اعتقادی سوال کر رہے ہیں اور آپ ان کے جواب دے رہے ہیں،مامون کو یہ سن کر غصہ آگیا اس نے اپنے قصر کے مسؤل انتظامات (محمد بن عمرو طوسی)کو حکم دیا کہ لوگوں کو امام(ع) کے پاس سے جدا کردو اور امام(ع)کو میرے پاس بلاکر لاؤ۔ محمد بن عمروطوسی امام(ع) کو بلاکر لے آیا!

جب مامون کی نظر امام رضاعلیہ السلام پر پڑی تو اس نے حسد سے جل کر غصہ کے عالم میں امام رضاعلیہ السلامسے بلند آواز میں گفتگو کی یہاں تک کہ اس نے آپ کو ذلیل و رسوا کیا۔جب امام رضاعلیہ السلاممامون کے دربار سے باہر آرہے تھے تو آپ غصہ کے عالم میں آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے کہ:محمدمصطفیﷺ ، علی مرتضیعلیہ السلام ، فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کے حق کی قسم میں اس پر ایسی لعنت کرونگا کہ اس علاقے کےکتّے (1) اسوآ ڈورائیں گے اور وہ عام و خاص کی نظر میں ذلیل و خوار ہوجائیگا۔آپ گھر پہونچے ، وضو کیا، دو رکعت نماز پڑھی اور قنوت میں ایک دعا پڑھی جس کا ترجمہ یہ ہے:(2)

--------------

(1):- یہ واقعہ شہر مرو میں واقع ہواہے۔

(2):-  ہم یہاں پر اس دعا کے ترجمے پر اکتفا کر رہے ہیں اس کا عربی متن (اصل دعا) بحارا الانوار ج49 ص 82-83 پر موجود ہے۔

 

اے وہ خدا کہ جو مکمل قدرت ، بے کران رحمت، بے پایان نعمتوں ، لگاتار نیکیوں اور بے شمار کرامتوں کا مالک ہے!

اے وہ خدا کہ جس کی کوئی مثال نہیں ، جس کو کسی مانند و نظیر سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، اور تمام طاقتیں مل کر بھی تیرے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں!

اے وہ کہ جس نے ہم کو پیدا کیا اور روزی دی، الہام کیا اور بولنا سکھایا ، وجود بخشا اور ہدایت کی بلندی عنایت کی اور ایک نظام عطا کیا، نیک بنایا اور ایک راستہ دکھایا، ہم کو محکم اور مضبوط بنایا اور دلیل پیش کی ، ہم کو مکمل و سالم بنایا اور نعمت عطا کی اور ہم کو ہمارے مقصد تک پہونچایا اور بہت زیادہ نعمتوں سے نوازا ۔

اے وہ کہ جو اپنی عز و کبریائی میں اتنا بلند ہے کہ دیکھنے والے اس کو دیکھ نہیں سکتے اور اپنی لطافت میں اتنا قریب ہوگیا کہ اتنی قربت کا ذہن تصور بھی نہیں کرسکتا۔

اے وہ کہ جو اپنی سلطنت میں ایسا اکیلا ہے کہ تمام کائنات میں کوئی  اسکا مانند و مثل نہیں ہے اور اپنی کبریائی میں ایسا تنہا ہے کہ کوئی بھی اس کی قدرت اور جبروت کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اے وہ کہ جس کی ہیبت اتنی زیادہ ہے کہ فکر کرنے والوں کی فکریں اسکے آگے حیران و سرگردان ہیں ، اور اسکی عظمت کو درک کرنے سے دیکھنے والے اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔

اے کہ لوگوں کے دلوں کی باتوں کو جاننے والے۔

اے دیکھنے والوں کی آنکھوں کے نور، اے وہ کہ جس کی ہیبت سے چہرے خاک پر گڑ پڑے ہیں اور سر اسکے جلال کی بلندی کے سامنے جھک گئے ہیں اور دل اسکی قدرت کے خوف سے ڈرے ہوئے ہیں اور انسان کے جسم کی رگیں اسکی وحشت سے لرز رہی ہیں۔

 

اے پیدا کرنے والے، اے نور عطا کرنے والے، اے طاقتور اے بزرگ مقام والے ، اے بلند مرتبے والے، دورد بھیج اس پر کہ جس پر درود بھیجنے کے ذریعہ تونے نماز کو شرف بخشا ہے ، اور انتقام لے اس شخص سے کہ جس نے مجھ پر ستم کیا، مجھ کو ذلیل سمجھا، اور میرے شیعوں کو جلا وطن کیا، خدایا اس کو ذلت اور سوائی کا مزہ چکھادے بالکل اسی طرح جیسے اس نے مجھے ذلیل کیا ہے اوراس پر ایسی بلا نازل فرما کہ دنیا کے پست وگناہکار افراد بھی اس کو قبول نہ کریں بلکہ اس سے نفرت اور دوری اختیار کریں۔

ابھی میرے مولا و آقا کی دعا تمام نہ ہوئی تھی کہ شہر میں سخت زلزلہ آیا کہ پورا شہر لرز گیا،تمام لوگ فریادیں بلند کرنے لگے، کالی آندھی آنے لگی، تمام فضا میں گردو غبار اڑنے لگی اور پورے شہر میں شور و غوغا ہونے لگا۔

میں اپنی جگہ سے نہ ہلا یہاں تک کہ امام(ع) نے نماز تمام کی اور فرمایا:

اے اباصلت ، چھت کے اوپر جاؤ وہاں تم کو ایک بدکار، لاغر اندام، بد ہیکل، تباہ کارو احمق عورت نظر آئیگی کہ جو اپنی شہوت کے اعضا کو حرکت دے رہی ہوگی اور کتھئی رنگ کا لباس پہنے ہوگی اس علاقے کے لوگ اس کی بے حیائی اور بے حرمتی کی وجہ سے اس کو ”سمّانہ“ کے نام سے پکارتے ہیں وہ نیزے کے بدلے ایک نوک دار لکڑی ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اور اپنی لال رنگ کی چادر کو اس لکڑی پر باندھے ہوئے پرچم کی جگہ پر اس کو استعمال کررہی ہے اور اشرار کے لشکر کو مامون کے قصر اور اس کے فرمانرواؤں کے کی طرف بھیج کر رہی ہے!جب میں چھت پر پہونچا تو میں نے  بہت سارے لوگوں کو دیکھا کہ لکڑی سے حملہ کر رہے ہیں اور پتھروں سے سروں کو پھوڑ رہیں ، اچانک میں نے دیکھا کہ مامون زرہ پہن کر قصر (شاہ جان)سے باہر آیا اور فرار ہو گیا۔

بہت زیادہ نفسا نفسی کا عالم ہوگیا تھا اور میں زیادہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ؟!فقط ایک دفعہ میں نے دیکھاکہ حجّام کے شاگرد نے ایک چھت سے ایک بہت بڑی اینٹ اٹھائی اور مامون کی طرف پھینکی، اسکا نشانہ بالکل فٹ رہا اور وہ اینٹ مامون کی گدی پر جا لگی، تاج اسکےسر سےگر پڑا اور اس کا چہرہ خون سے رنگین ہو گیا۔

 

ایک شخص جس نے مامون کو پہچان لیا تھا اس نے حجّام کے شاگرد کی طرف رخ کیا اور فریاد کی: تجھ پر لعنت ہو!یہ امیر المؤمنین مامون ہے کہ جس کے سر پر تو نے اینٹ ماری ہے اور یہ اسکا حال کردیا ہے!

سمّانہ بدکار نے جب یہ بات سنی اور مامون کو پہچان لیا تو اس مرد سے چلا کر کہا کہ: دفعہ ہوجا اے بے ماں کی اولاد!آج  امتیاز ظاہر کرنے اور کسی کی طرفداری کرنے کا دن نہیں ۔ آج احترام کرنے یا مقام عطا کرنے کا دن نہیں ہے، کہ ہر انسان کے ساتھ اس کے مقام و منزلت کے اعتبار سے سلوک کیا جائے، اگر وہ واقعاً امیرالمؤمنین ہو تا تو اپنے خیر خواہ اور غیر ذمہ دار لوگوں کو ہرگز جوان اور باکرہ لڑکیوں پر مسلط نہ کرتا!

اس دن مامو ن اور اس کے لشکر کو ذلت و خواری اور رسوائی کے ساتھ شہر سے بھگادیا گیا اور ان کے اموال کو غارت کردیا گیا! (1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 49 ، ص 82-84 ، بہ نقل از عیون اخبار الرضا (ع) ، ص 173-174.

 

شفا بخش سند کا سلسلہ

میں ”عبد الرحمن بن ابی حاتم الرازی“ہوں میں نے اپنے باپ کے ساتھ شام کا ایک سفر کیا تھا جس میں مجھے ایک بہترین تجربہ حاصل ہوا بہتر سمجھتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں:میں ایک دن شام میں ایک سڑک سے بابا کے ساتھ گزر رہا تھا میں نے دیکھا کہ لوگ ایک شخص کے گرد جمع ہیں آور ایک ہنگامہ برپا ہے سب لوگ باری باری کپڑے  کا ایک ٹکڑا ہوا میں اڑاتے تھے اور دوسرے لوگ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگتے تھے!

میں کچھ آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک دیوانہ زمین پر پڑا ہے ، اور ایک پھٹا ہوا، گرد و غبار سے بھرا ہوا لباس پہنے ہوئے ہے، اسکی ناک سے بلغم، اورمنھ سے رال بہہ رہی ہے!مجھے اس کی حالت پر بہت رحم آیا اور میں نے خود سے کہا:

کاش کہ میں اس کی کوئی مدد کرسکتا:اچانک مجھے یاد آیا کہ بارہا اباصلت نے امام رضاعلیہ السلام سے اور انھوں نےاپنے معصوم اجداد سے (یہاں تک کہ سلسلہ سند پیغمبر اسلامﷺ تک پھونچتا ہے) (1)

ایک روایت نقل کی ہے، اور اباصلت نے کہا ہے کہ اگر اس سلسلہ سند کو کسی دیوانے پر پڑھ دیا جائے تو اس کی دیوانگی جاتی رہے گی اور وہ بہتر ہو جائیگا۔سچ تو یہ ہے میں مطمئن نہ تھا کہ بغیر کسی دوا کو استعمال کئے صرف ” چند ایسے افراد کے نام لینے سے جو بارگاہ خدا میں مقرب ہیں“ کسی دیوانے کو شفا حاصل ہو جائیگی۔لیکن میں نے سوچا کہ اس عمل کو آزمانے میں کوئی نقصان نہیں ہے میں آگے بڑھا اور ان ناموں کو اس دیوانے پر پڑھا، جیسے ہی میں نے ان ناموں کو اس دیوانے پر پڑھا ، وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا ، سب لوگوں پر ایک عاقلانہ نگاہ ڈالی اور ان کی حرکتوں پر تعجب کیا ، اور اپنے لباس سے مٹی کو جھاڑ کر آہستہ سے لوگوں کے درمیان سے نکلا اور چلا گیا! (2)

--------------

(1):- یہ روایت اسی کتاب کی تیسری فصل میں ترجمہ کے ساتھ آئیگی اور وہ یہ ہے: الایمان اقرار باللسان و معرفة بالقلب و عمل بالارکان.

(2):- بحارالانوار ، ج10 ، ص 367 ، بہ نقل از صحیفة الرضا (ع)، و عیون اخبار الرضا (ع)، ص 195  212.

 

تقیہ کی حالت میں امام محمد تقی علیہ السلام

کا احکام بیان کرنے کا طریقہ!

ایک رو ز ، میں امام محمد تقی علیہ السلامکی مجلس میں حاضر تھا اس دن شیعوں کے علاوہ کچھ جاسوس بھی آپ کی مجلس میں بیٹھے تھے جو یہ جاننا چاہتے تھے کہ کون کون افراد امام کے شیعہ اور پیروکار ہیں ، لیکن شیعہ حضرات کو اس بات کا علم نہ تھا!

ایک شیعہ کھڑا ہوا تا کہ آپ سے سوال کرے، اس نے اپنی بات کو اس طرح شروع کیا: فرزند رسول میری جان آپ پر قربان.......

ابھی اس نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ امام نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا: تم اپنی نماز کو قصر نہیں بلکہ پوری پڑھو، اور اب بیٹھ جاؤ۔

جب اس کو ، اس کا جواب مل گیا تو وہ بیٹھ گیا پھر ایک دوسرا شیعہ کھڑا ہوا اور کہا: میرے آقا میں آپ پر قربان ہو جاؤں.......

اما م نے اسکی بات کو بھی کاٹ دیا اور فرمایا:

اگر تم کو وہاں کوئی نہ ملے تو اس کو پانی میں پھینک دو وہ اپنے مالک کے پاس پہونچ جائیگا!

گویا کہ اس کو بھی اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا اس لئے وہ بھی بیٹھ گیا

اور پھر کچھ نہ پوچھا ۔

جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے امام(ع)سے عرض کیا:میری جان آپ پر قربان آج میں نے آپکی خدمت عجیب منظر کو ملاحظہ کیاہے!

 

امام :ہاں ٹھیک کہتے ہو، کیا تم ان دو مردوں کے بارے میں بات کررہےہو؟

ابا صلت: جی ہاں ، میرے آقا(ع)۔

امام: پہلا اس لئے کھڑا ہوا تا کہ یہ سوال کرے کہ کیا کشتی چلانے والا اپنی نماز قصر پڑھے گا؟

میں نے اس کو جواب دیا کہ قصر نہیں تمام پڑھے گا چونکہ کشتی اس کے لئے گھر کی طرح ہے اور وہ اس سے خارج نہیں ہوتا ہے بلکہ ہمیشہ اسی میں زندگی بسر کرتا ہے۔

دوسرا یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر کوئی شیعہ زکات نکالے اور اس کو کوئی مستحق شیعہ نہ ملے تو زکات کس کو دیگا؟

میں نے کہا: اگر تم کو کوئی نہ ملے، تو زکات کو پانی میں ڈال دو ، وہ خود اپنے اہل کے پاس پہونچ جائیگی۔ (1)

-------------

(1):-  بررسی زندگی عبد السلام بن صالح اباصلت ہروی ، ص 118 ، بہ نقل از الثاقب فی المناقب، ص 523 ، و مدینة المعاجز ص 534، و مسند الامام الجواد ، ص 129.

ممکن ہے کہ ایسی صورت میں (یعنی مستحق شیعہ نہ ملنے کی صورت میں) زکات کا حکم واقعی پانی میں ڈالنا ہو، لیکن امام جواد نے راز کو محفوظ رکھنے کے لئے اس خاص مورد میں اس شخص کو یہی حکم دیا ہو۔

 

قیمتی نصیحتیں

امام رضاعلیہ السلامنے مجھ سے ایک عجیب و غریب اور درس آموز و اقعہ بیان کیا ہے اگر میں اس کو آپ سے بیان نہ کروں تو مجھ کو بہت افسوس ہوگا ،وہ واقعہ یہ ہے کہ:

خداوند عالم نے اپنے ایک نبی (ع)پر وحی کی کہ:

کل صبح تم گھر سے باہر نکلو کسی ایک سمت سفر اختیار کرو، تم کو راستے میں پانچ چیزیں ملیں گی۔

پہلی کو کھالینا، دوسری کو چھپا لینا، تیسری کو قبول کرنا، چوتھی کو نا امید نہ کرنااور پانچویں سے پرہیز کرنا(دور رہنا)۔

انھوں نے سر پر ٹوپی اوڑھی، کاندھے پر شال ڈالی اور صبح سویرے طلوع آفتاب کے وقت گھر سے نکل پڑے سب سے پہلے آپکو ایک بہت بڑا کالا پہاڑ نظرآیا! اس کو دیکھ کر آپ حیرت زدہ ہوگئے اور خود سے کہنے لگے:

آخر میں اس سخت، کالے اور اتنے بڑے پہاڑ کو کیسے کھا سکتا ہوں؟!

آپ نے کچھ سوچا اور پھر خود سے کہا:

خداوند عالم مجھے اس کام کا حکم ہرگز نہیں دے سکتا جس کے بجالانے کی مجھ میں طاقت نہ ہو پس حتماً میں یہ کام کر سکتا ہوں(یعنی اس پھاڑ کو کھا سکتا ہوں) آگے بڑھ کر دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے۔

یہ سوچ کر نبی خداﷺ آگے بڑے ، جتنا بھی وہ آگے بڑھتے تھے اور بہاڑ کے قریب جاتے تھے، پہاڑ چھوٹا ہوتا چلا جاتا تھا یہاں تک جب آپ پہاڑ کے پاس پہونچے تو وہ ایک لقمہ کے برابر ہو چکا تھا! آپ نے اس کو اٹھا کر کھالیا۔

جب آپ نے اس کو کھا یا تو معلوم ہوا کہ آج تک جتنا بھی کھانا کھایا ہے یہ لقمہ ان سب سے لذیذ ہے!

 

اس کے بعد اللہ کے نبی آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک سونے کے طشت کو دیکھا ، سونا بہت بہترین چیز ہے کسی کا دل نہیں چاہتا کہ اتنی بہترین اور قیمتی چیز کو زمین میں چھپادے اور اس کو چھوڑ کر چلائے، لیکن آپ کو خداوند عالم کے حکم کے مطابق یہ کام انجام دینا تھا لہذا آپ نے اس کو چھپادیا!

جب آپ کچھ اور آگے بڑھے توپلٹ کر دیکھا کو وہ طشت زمین سے نکل کر اوپر آگیا ہے!

یہ دیکھ کر آپ نے خود سے کہا:

میں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کردیا اب اس کے بعد کیا ہو رہا ہے اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

پھر آپ آگے بڑہے اچانک ایک ہراسان پرندے کی چیخ پکار کی آواز نے آپکو اپنی طرف متوجہ کرلیا ، ایک شکاری باز ایک کمزور و مجبور پرندے کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ پرندہ پیغمبرﷺکے پاس آیا اور انکے گرد چکر لگاتےہوئے اور اپنی زبان حال سے آپ سے پناہ کی درخواست کی۔ آپ نے فرمان خدا پر عمل کرتےہوئے اپنی آستین کوکھولا اور پرندےنے آپ کی آستین میں پناہ لی۔

شکاری باز بھی زمین پر آپ کے سامنے بیٹھ گیا اور گویا ہوکر اعتراض کیا :

کئی دن سے میں اس شکار کے پیچھے دوڑ رہا ہوں یہاں تک کہ آج میں اس کو پکڑنے ہی والا تھا لیکن آپ نے اس کو مجھ سے بچالیا ، اب میں اپنے اس بھوکے پیٹ کا کیا کروں؟!

 پیغمبر خدا کو یاد آیا کہ یہ باز چوتھی چیز ہے جو آج مجھ کو ملی ہے، مجھے اس کو ناامید نہیں کرنا چاہئے آپ نے اپنا سامان، جیبںے اور ادھر ادھر بہت تلاش کیا لیکن کوئی چیز ایسی نہ ملی جس سے اس شکاری باز کا بیٹ بھر جائے مجبور ہو کر آپ نے اپنی ران سے گوشت کاایک ٹکڑا کاٹا اور باز کو دیدیا!(خدا کی قدرت سے آپکی ران کو کوئی نقصان نہ ہوا اور آپ ٹھیک ہوگئے)۔

پھر آپ کچھ آگے بڑھے یہاں تک کہ آپکو ایک بدبو دار مردار نظر آیا جسکے جسم پر ہاتھ پیر نہ تھے خدا کے حکم کے مطابق آپ بہت جلدی سے اس سے دور ہوگئے اور اپنے گھر پلٹ آئے۔

 

جیسے ہی آپ گھر پہونچے بہت زیادہ تھکن کی وجہ سے آپ گہری نیند سوگئے، خواب میں کسی نے آپ سے کہا:

تم نے خدا کے حکم انجام دیا ہے لیکن کیا تم اسکا مطلب بھی سمجھے ہو؟

پیغمبر خدا ﷺ نے جواب دیا:

نہیں، میں تو فقط اپنے وظیفے کو انجام دینےکی فکر میں لگا تھا، اپنے کام کے مطلب و معنا کی طرف متوجہ نہ تھا! اگر ممکن ہو تو آپ مجھ کو ان کاموں کے معنی بتادیجئے۔

ادھر سے جواب ملا:

وہ کالا اور بڑا پہاڑ غصہ ہے ، جب انسان کو غصہ آتا ہے تو وہ خود کو بھی نہیں دیکھتا اور اپنی قدر کو نہیں پہچانتا (اور کچھ بھی کر بیٹھتا ہے)لیکن اگر یہ انسان اس وقت خود پر کنٹرول کرے ، اپنے وجود کے گوہر کی قدر کو پہچان لے اور اپنے غصے کو ختم کردے تو اسکا آخر بھی اس لذیذ لقمے کی طرح بن جائیگا کہ جس کو تم نے کھا یا ہے۔

وہ سونے کا طشت ایک عمل صالح اور پسندیدہ خدا ہے کہ اگر بندہ اس کو خالص نیت اورتقرب خدا کے ارادے سے انجام دے اور چھپالے (یعنی اپنے عمل کو سب کے سامنے ظاہر نہ کرے)تو پھرخداوند عالم خود ہی اس عمل کو لوگوں پر آشکار کردیگا تا کہ یہ عمل اس بندے کی زینت بن جائے اور یہ جزاء اس انعام سے الگ ہے جو خداوند عالم نے آخرت میں اس کے لئے معین کیا ہے۔

اور وہ پرندہ جس کو تم نے پناہ دی ہے ، وہ شخص ہے جو نصیحت اور خیر خواہی کے لئے تمہارے پاس آتا ہے تم کو چاہئے کہ اس کا استقبال کرو اور اس کی نصیحت قبول کرو!وہ باز جس کو تم نے گوشت دیا، وہ ایسا شخص ہے کہ جو تمہارے پا س اپنی حاجت لیکر آتا ہے تم کو چاہئے کہ اس کو نا امید نہ کرو(اور حد امکان میں اسکے کام کو حل کرنے کی کوشش کرو)۔لیکن وہ مرد ارکا سڑا ہوا گوشت (بدن)غیبت ہے کہ اس سے جتنا جلدی ممکن ہو دوری اختیار کرو۔ (1)

--------------

(1):-  بحارالانوار ، ج 14، ص 456-457، بہ نقل از عیون اخبار الرضا (ع) ، ص 152-153.

 

حدیث سلسلة الذہب

یقینا آپ نے حدیث سلسلة الذہب کے بارے میں بہت کچھ سنا ہوگا۔

یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ذہب عربی زبان کا لفظ ہے اور اسکے معنی سونا ، طلا کے ہیں ۔ اس حدیث کا نام سلسة الذہب اس لئے رکھا ہے کیونکہ اس حدیث کے تمام راوی معصومینعلیہم السلام ہیں یہاں تک کہ یہ سلسلہ خدا تک پہونچتا ہے یعنی یہ حدیث ، حدیث قدسی ہے اور اسکا کہنے والا خود خداوند عالم ہے۔

جب یہ حدیث حضرت امام علی رضاعلیہ السلامنے اپنی زبان سے بیان کی اس وقت میں آپ کے ساتھ موجود تھا۔

یقینا آپ کو معلوم ہوگا کہ اس زمانے میں نیشاپور اسلام کا ایک بہترین ، بزرگترین اور مہمترین مرکز علم و فرہنگ تھا جب امام رضاعلیہ السلام نیشاپور میں وارد ہوئے اس وقت آپ محمل میں بیٹھے ہوئے تھے ، نیشاپور کے تمام علماء و دانشمندان تمام قبیلوں کے افراد کے ساتھ آپ کے استقبال کے لئے آئے۔

بھیڑ اتنی تھی کہ ایک سوئی رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی، جب ہم چوراہے پر پہونچے تو نیشاپور کے علماءآپ کی سواری کی لگام سے پلٹ گئے اور التماس کی کہ:

اے فرزند رسولﷺ ہم آپ کو آپ کے پاک بزرگوں کی قسم دیتے ہیں کہ آپ اپنے بزرگوں کی کوئی حدیث سنائیے۔

میں نے سوچا کہ اہل نیشاپور کتنے ہوشیار ہیں کہ قسم دے کر امام(ع) کو آمادہ کرلیا کہ آپ ان کو حدیث سنائیں ، امام(ع) نے اپنے سر مبارک کو محمل سے باہر نکالا آپ کے دوش پر کھال کی ایک ردا تھی آپ نے فرمایا:

مجھ سے میرے والد موسی بن جعفرعلیہ السلامنے ان سے ان کے والد جعفر صادقعلیہ السلامنے ان سے انکے والد محمد باقرعلیہ السلامنے ، ان سے ان کے والد زین العابدینعلیہ السلام نے ان سے ان کے والد امام حسین علیہ السلامنے ان سے ان کے بھائی امام حسنعلیہ السلام اور ان کے با با امام علی علیہ السلام نے ، ان سے رسول خدا ﷺنے فرمایاکہ:

 

جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ خدا فرماتا ہے:

اِنِّی اَنَا اللهُ لا اِلَهَ اِلَّا اَنَا وَحدِی، عِبادِی فَاعبُدُونی وَ ليَعلَم مَن لَقِيَنی مِنکُم بِشَهادَةِ اَن لا اِلَهَ اِلَّا اللهُ، مُخلِصاً بِها، اَنَّهُ قَد دَخَلَ حِصنی، و مَن دَخَلَ حِصنی اَمِنَ عَذابی.

میں وہ خدا ہوں کہ جس کے سوائے کوئی معبود نہیں ہے اے میرے بندوں میری عبادت کرو، سب لوگ جان لیں کہ جو بھی مجھ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ خلوص کے ساتھ کلمہ لا الہ اللہ کی گواہی دیتا ہو توسمجھو کہ وہ میرے مضبوط قلعے میں داخل ہو گیا ہے اور جو بھی میرے قلعے میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔

خداوند عالم نے اپنے کلام میں اخلاص کی شرط جو لگائی تھی وہ لوگوں کے لئے واضح نہ ہوئی لہذا لوگوں نے امام (ع)سے پوچھا:

خدا کی وحدانیت کی گواہی میں اخلاص کا کیا مطلب ہے؟

آپ نے جواب میں فرمایا: طاعةُ اللهِ و رسولِهِ و وِلایةُ اهلِ بیته

اخلاص سے مراد خدا و رسول کی اطاعت اور اہل بیت رسول کی ولایت کو قبول کرناہے۔ (1)

--------------

(1):- بحارالانوار ، ج 3 ، ص 14-15، ج 49 ، ص 120-121 و ج 27، ص 134  بہ نقل از امالی شیخ صدوق ، ص 24.

 

حضرت علی علیہ السلام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے

مامون اپنے قصر میں بیٹھا تھااور امام رضاعلیہ السلام اس کے قریب میں تشریف فرماتھے ، مامون نے امام(ع) سے مخاطب ہو کر کہا:

اے اباالحسن کافی مدت سے ایک مسئلہ میراذہن میں ہے ، میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ کے سامنے بیان کروں اور آپ سے اس کا جواب طلب کروں۔

امام(ع) نے سوال کیا وہ مسئلہ کیا ہے؟

مامون نے کہا:

مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایت جو وارد ہوئی ہے کہ آپ کے جد حضرت علی مرتضیعلیہ السلام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں“ کس طرح آپ کے جد جنت و جہنم کو تقسیم کریں گے؟!

امام(ع)نے جو جواب مامون کو دیا وہ دلچسپ بھی تھا اور قابل قبول بھی ، آپ نے فرمایا:

اے مامون کیا تونے اپنے بزرگوں سے ، عبداللہ ابن عباس سے نہیں سنا ہے کہ وہ فرماتا تھے کہ پیغمبرﷺ فرماتے ہیں:

”حب علی ایمان وبغضہ کفر“علی علیہ السلام کی محبت ایمان ہے اور علی علیہ السلام کی دشمنی کفرہے۔

مامون نے کہا: بے شک میں نے سنا ہے۔

امام (ع) نے فرمایا:

بس اب جو بھی علی علیہ السلام کو دوست رکھے گا جنت میں جائے گا اور جو دشمن رکھے گا وہ دوزخ میں جائیگا، اس طریقے سے حضرت علی علیہ السلامجنت اور جہنم کو بانٹنے والے ہونگے۔

 

یہ جوا ب سن کر مامون نے کہا:

اے اباالحسنعلیہ السلام، خدا مجھے آپ کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی زندہ نہ رکھے ! میں گواہی دیتا ہوں کو واقعاً آپ پیغمبر اسلامﷺ کے حقیقی وارث ہیں۔

امام رضاعلیہ السلامیہ جواب دےکر گھر واپس ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ آپکے گھر گیااورشوق و ذوق کےساتھ آپکے پاس بیٹھ گیااورعرض کیا:

آپ نے حضرت علی علیہ السلام امیرالمؤمنین کے بارے میں مامون کو بڑا عجیب جواب دیا!

میرا گمان یہ تھا کہ مامون کے سوال کا اصلی جواب یہی ہے لیکن امام نےفرمایا:

اے اباصلت ، میں نے اس وقت حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے یہ بات کی ہے ور نہ اس سوال کا جواب اس سے بھی بڑھ کر اس طرح ہے کہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے اور انھوں نے بھی اپنے بزرگوں سے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے اور آپ نے حضرت رسول خدا ﷺسے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

اے علی علیہ السلام قیامت کے دن تم جنت و جہنم کو تقسیم کروگے اس طریقے سے کہ کہوگے:

اے دوزخ یہ میرا آدمی ہے اور وہ تیرا آدمی ہے! (1)

-------------

(1):- بحارالانوار، ج 49 ، صص 172-173، بہ نقل از کشف الغمة ، ج 3 ، ص 147 و بحارالانوار ، ج 39 ، ص 193-194، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ص 239.

 

افتخارات(1) حضرت فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا

زبان کا زخم بہت برا ہوتا ہے خداوند عالم سب کو زبان کے زخم سے محفوظ رکھے، لیکن افسوس کہ پیغمبرﷺکی اکلوتی بیٹی، جنت کی عورتوں کی سردار بھی زبان کے زخم سے محفوظ نہ رہ سکیں، بد اخلاق اور پلید لوگوں نے آپ کو اپنی نجس زبانوں سے بہت سارے زخم پہونچائے ہیں۔حضرت علی علیہ السلام امیر المؤمنین کے ساتھ ابھی آپ کی شادی کو زیادہ دن نہ گذرے تھے کہ مدینے کی تنگ نظر عورتوں نے آپ کو حلقے میں لیا اور آپ کے کانوں میں یہ بات ڈالی کہ افسوس ہے تم پر کہ اتنے امیر و مالدار رشتے ہونے کے با وجود تمہارے بابا نے تمہاری شادی ایسے شخص سے کی ہے کہ جس کے ہاتھ مال دنیا سے بالکل خالی ہیں؟!

ایسا نہیں ہے کہ مال دنیا کی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھاکی نظر میں کوئی اہمیت تھی یا آپ اپنے شوہر کی قدر و منزلت کو نہیں جانتی تھیں ، لیکن آخر کار لوگوں کے طعنے بھی بے اثر نہیں ہوتے، لہذا جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا نے لوگوں کے ان طونبں کا جواب اپنے بابا رسول خدا ﷺکی زبان سے 

سننے کے لئے اپنے دل کو ذرا محکم کیا اوراس مسئلے کو اپنے پدر بزگوار کے سامنے پیش کیا ، پیغمبر ﷺ نے آپ کے جواب میں فرمایا:اے میری پیاری بیٹی، اللہ نے تمام مخلوقات کی طرف نگاہ کی اور ان میں سے دو مردوں کو بہت زیادہ پسند کیا اور ان کو چن لیا اور خداوند تم کو اتنا دوست رکھتا تھا کہ ان دو میں سے ایک کو تمہارا باپ اور دوسرے کو تمہارا شوہر بنایا!...کیا تم اب بھی ناراض ہو؟!(1) جیسے ہی پیغمبر اسلامﷺ نے یہ جواب دیا تو آپ نے دیکھا کہ فاطمہ زہراءسلام اللہ علیھا کے چہرے پر رضایت مسکراہٹ بن کر بکھر رہی تھی۔

-------------

(1):- چونکہ اس روایت کے راوی اباصلت ہیں اور سیاق کلام بھی متفق علیہ ہے لہذا ہم نے (طرداً للباب) اس کو یہاں ذکر کردیا ہے۔

 (2):- بررسی زندگی عبدالسلام بن صالح اباصلت ہروی، ص 80-81 ، بہ نقل از ترجمة الامام علی (ع) {تاریخ دمشق} ، ج 1 ، ص 269.

 

اصحاب رس کا واقعہ

آپ کو معلوم ہوگا کہ سورہ فرقان سورہ نمبر(25)کی آیت نمبر 38 میں اور سورہ ق  سورہ نمبر(50)کی آیت نمبر12میں ”اصحاب رس“ کا نام لیا گیا ہے لیکن انکے بارے میں کوئی توضیح و تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے ۔

ایک دن میں (اباصلت)عالم آل محمد امام رضاعلیہ السلامکی خدمت میں حاضرتھا کہ اصحاب رس کے بارے میں تذکرہ شروع ہو گیا ۔

امام رضا علیہ السلامنے اپنے بزرگوں سےروایت کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلامسے نقل کیاکہ امام حسین علیہ السلامنے فرمایا:

حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے تین روز قبل بنی تمیم کے بزرگوں میں سے عمرونامی ایک شخص امام علی علیہ السلامکے پاس آیا اور اصحاب رس کے بارے میں چند سوال آپ کے سامنے بیان کئے ، وہ سوالات یہ ہیں۔

1 ۔اصحاب رسّ نے کس زمانے میں زندگی گزاری ہے؟

۲۔ انکے مکانات کہاں تھے؟

۳۔ان کا حاکم کون تھا؟

4۔کیا خدا نے ان لوگوں کے لئے کوئی پمبر   بھیجا تھا؟

۵۔ وہ کس گناہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے؟

حضرت امیر المؤ منین علیہ السلام نے اس طرح ان کا جواب دیا کہ جیسے آپ اپنی پوری عمر سے اس انتظار میں تھے کہ کوئی علم و دانش کا پیاسا آپ سے یہ سوال کرے ۔

امام علی ؑ نے فرمایا:

تم نے مجھ سے وہ سوال کیا ہے جو تم سے پہلے کسی نے نہ کیا تھا اور میرے بعد جو بھی اصحاب رس کے بارے میں بتائے گاصرف مجھ سے نقل کرتے ہوئے بتا سکتا ہے اس کے الگ کچھ نہیں بتائے گا۔

 

یہ بھی جان لو کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جسے میں نہ جانتا ہوں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کون سی آیت کس مقام پر نازل ہوئی ہے، یہاں تک کے مجھے معلوم ہے کہ پہاڑ پر نازل ہوئی یا جنگل میں ،اور مجھے آیت کے نازل ہونے کا وقت بھی معلوم ہے یعنی میں جانتا ہوں کہ کون سی آیت دن میں نازل ہوئی اور کو ن سی رات میں۔

پھر آپ نے غم و اندوہ سے بھرے ہوئے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی گفتگو کو آگے بڑھایا:

میرے سینے میں بہت سارے علوم بھرے ہوئے ہں: لیکن اس علم کو حاصل کرنے والے بہت کم ہیں ،بہت جلد ہی یہ لوگ مجھے کھو بیٹھیں گے اور پھر پشیمان ہونگے۔

پھر امام(ع) نے تمیمی کو مخاطب کر کے فرمایا:

اے تمیمی بھائی! اصحاب رس کا ماجرا کچھ اس طرح ہے کہ:اصحاب رس وہ گروہ ہے جس نے صنوبر کے درخت کا نام ”شاہ درخت“ رکھا تھا اور وہ اسکی پوجا کرتے تھے ، اس درخت کو یافث بن نوح علیہ السلامنے روشاب (1) نامی ایک چشمے کے کنارے لگایا تھا توفان حضرت نوح علیہ السلامکے بعد وہ درخت حضرت نوح علیہ السلامکے استفادہ کے لئے پروان چڑھ گا  تھا ۔

رسّ کے معنی زیرخاک کرنے (مٹی میں دبانے)کے ہیں(2) چونکہ اس قوم نے اپنے نبی کو زندہ زمین میں دفن کر دیا تھا اس لئے یہ اصحاب رس کے نام سے مشہور ہوگئے یہ ماجرا حضرت سلیمان نبیعلیہ السلام کے بعد کا ہے۔

ان لوگوں کے رس نامی دریا کے کنارے پر بارہ شہر تھے اور تمام شہر ”رس سرزمین شرق“کے نام سے مشہور ہو گئے تھے (3) اس زمانے میں تما م زمین پر نہ اس دریا سے بہتر ، زیادہ پانی والا تھا اور اس سے زیادہ میٹھا کوئی دریا تھااور نہ ان بارہ شہروں سے بہتر اورزیادہ آبادی والی کوئی دوسری آبادی تھی۔

--------------

(1):- بعض کتابوں میں اس چشمے کا نام روشتاب ہے اور (کتاب العرائس) میں (دوشان) ذکر ہوا ہے۔

(2):-  ترجمہ منجد الطلاب.

(3):-  ترجمہ منجد الطلاب.

 

ان شہروں (آبادیوں )کے نام یہ ہیں ۔

۱۔آبان ۲۔آذر ۳۔دی ۴۔ بمنل ۵۔اسفند ۶۔فروردین ۷۔اردیبہشت ۸۔خرداد ۹۔تیر 10۔مرداد ۱۱۔شہریور12۔مرھ

ان شہروں میں سب سے بزرگ اور اہم شہر اسفند تھا جو ان کے بادشاہ ”ترکوذ بن غابور بن یارش بن سازن بن نمرود بن کنعان“ (1) کا پایتخت تھا وہ روشاب نامی چشمہ اور صنوبر کا درخت بھی اسی آبادی میں تھے ان میں سے ہر ایک آبادی میں اسی صنوبر کے  درخت کا بیج بویا ہوا تھا کہ جو کافی بڑا بھی ہو گیا تھا اور اس چشمہ سے ان تمام درختوں تک پانی پہونچانے کا ایک راستہ بنا یا ہوا تھا ۔ان لوگوں نے اس چشمے اور اس سے نکلنے والی تمام نہروں کا پانی اپنے اور اپنے جانوروں کے اوپر حرام کررکھا تھا اگر کوئی اس میں سے پانی پیتا تو اسے قتل کر دیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ یہ پانی ہمارے خداؤں کے زندہ رہنے کا وسیلہ ہے لهٰذا صحیح نہیں ہے کہ کوئی ہمارے خداؤں کی زندگی کو کم کرے یہ لوگ اور انکے جانور رس نامی نہر سے (کہ جس کے کنارے پر انکی آبادیاں تھی )پانی پیتے تھے لیکن ”روشاب“ نامی چشمے سے کبھی پانی نہیں پیتے تھے ۔

یہ لوگ ہر مہینہ بارہ میں سے ایک آبادی میں جشن عید بناتے تھے اور ریشم کی ایک بڑی مچھر دانی اس درخت کے اوپر شامیانے کی طرح باندھتے تھے اور طرح طرح کے مجسمے اور بت اسکے نیچے رکھتے تھے گائے، بھیڑوں کو اس درخت سے تقرب حاصل کرنے کے قصد سے قربان کرتے تھے اور بہت ساری لکڑیوں کو اس مچھر دانی کے اندر جلاتے تھے یہاں تک کہ ان لکڑیوں کا دھواں قربانیوں اور فضا ؤں پر چھا جاتا تھا اور آسمان نظر نہ آتا تھا ، پھر یہ لوگ سجد ے میں جا کر گریہ و زاری کرتے تھے تا کہ وہ درخت ان سے راضی ہو جائے!اسی وقت شیطان آکر درخت کی ڈالیوں کو ہلادیتا تھا اور درخت کے تنے کے در میان سے بچے کی آوازمیں کہتا تھا:اے میرے بندوں !اب میں تم سے راضی ہو گیا ہوں، تم خوش رہو اور تمھاری آنکھیں سدا روشن رہیں۔

--------------

(1):- اس بادشاہ کانام علل الشرائع میں (برکوذ بن غابور بن فارش بن شارب) اور کتاب العرائس میں (ترکون بین غابور بن نوش بن سارب) ذکر شدہ است ۔

 

شیطان کی اس آواز کو سنکر وہ لوگ سجدے سے سر کواٹھاتے تھے، شراب پیتے تھے اور ایک دن ، رات کے لئے ناچ گانے میں مصروف ہو جاتے تھے اس کے بعد اپنے گھروں کو پلٹتے تھے!

ایرانیوں نے اپنے سال کے مہینوں کے ناموں کو ان بارہ آبادیوں کے نام سے لیا ہے۔

جب ان لوگوں کی بڑی عید یعنی اس آبادی میں عید کی نوبت آتی تھی جو انکے بادشاہ کا پایتخت تھا ،  تو تمام آبادیوں کے چھوٹے ، بڑے سب لوگ درخت صنوبر اور چشمے کے پاس جمع ہوجاتے تھے، ریشم کے بڑے بڑے پردوں پر طرح طرح کی تصویریں بنائی جاتی تھیں اور ان پردوں کو درخت صنوبر کے اطراف میں خیموں کی شکل میں لگاتے تھے اور ہر آبادی والوں کے لئے اس درخت کی طرف ایک دروازہ بنایا جاتا تھا پھر وہ لوگ ان خیموں کے پیچھے اس درخت صنوبر کی عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے اور ہر مہینے سے گئی گنا زیادہ اس مہینے میں قربانی کرتے تھے!

اس بار خود ابلیس آتا تھا اور درخت صنوبر کو سختی سے ہلاتا تھا اور پھر درخت کے در میان سے بولنا شروع کرتا تھا اور جتنے وعدے ان لوگوں سے ہر مہینے آنے والے شیاطین نے کئے ہوتے تھے اس سے کئی گنازیادہ وعدے کرتا تھا۔ ابلیس کی آواز سننے اور وعدو و عید تمام ہونے کے بعدلوگ سجدے سے سر کو اٹھاتے تھے اور مست ہو کر بارہ دن، رات کے لئے خوشی دیوانگی و بیہودگی میں مصروف ہو جاتے تھے پھر اس کے بعد اپنے گھروں کو پلٹتے تھے!

جب ان لوگوں نے کفر اور غیر خدا کی عبادت کی انتہا کردی تو خداوند عزوجل نے یہودا بن یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ایک پیامبر ان لوگوں کے در میان مبعوث کیا، پیغمبرﷺ  خدا نے ایک طولانی مدت تک ان لوگوں کے در میان خدا پرستی کی تبلیغ کی لیکن کسی نے آپ کی باتوں پر توجہ نہ کی یہاں تک کہ انکی بڑی عید کا وقت قریب آگیا، پیغمبرﷺ خدا نے ہاتھوں کو اٹھایا اور شکستہ دل سے دعا کی:

 

معبود! یہ تیرے بندے نہ میری پیغمبری پر ایمان لائے ہیں اور نہ ہی انھوں نے تیرے علاوہ دوسری چیزوں کی عبادت کو ترک کیا ہے! معبود جن درختوں کی یہ عبادت کرتے ہیں ان سب کو سکھا کر ان کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھادے۔

صبح جب لوگ نیند سے بیدار ہوئے تو انھوں نے دیکھا کہ صنوبر کے تمام درخت سوکھ گئے ہیں۔

اس منظر کو دیکھ کر یہ لوگ ہوش میں آکر ان کی عبادت کرتا تو کیا چھوڑ تے ، بلکہ دوحصوں میں تقسیم ہوگئے اور دونوں کا نظریہ الگ الگ ہو گیا۔

پہلے گروہ کا نظریہ یہ تھا کہ یہ مرد جو اپنے آپ کوزمین اور آسمان کے پروردگار کا رسول کہتا ہے اس نے ہمارے خداؤں پر جادو کردیا ہے تا کہ تم لوگ ان سے منھ موڑلو۔

دوسرےگروہ کا نظریہ یہ تھا کہ:ایسا نہیں ہے کہ اس نے ہمارے خداؤں پر جادو کیا ہے ، اس کی طاقت ہماری خداؤں تک نہیں پہونچ سکتی ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب ہمارے خداؤں نے دیکھا کہ یہ مرد ان اکی اہانت کر رہا ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی دعوت دے رہا ہے تو ہمارے خداؤں کو غصہ آگیا اور انھوں نے اپنی خوبصورتی ، بلندی اور عظمت کو چھپالیا!

آؤہم سب مل کر اپنے خداؤں کی مدد کریں تا کہ ان کا غصہ ختم ہو جائے!

پہلے گروہ نے پوچھا: کیسے ہم ان کی مدد کریں؟

دوسرے گروہ نے جواب دیا:یہ مرد جو اپنی پیغمبری کا دعوی کرتا ہے ہم اس کو قتل کرکے اپنے خداؤں کی مدد کر سکتے ہیں در حقیقت یہ ہمارے خداؤں کا دشمن ہے۔یہ ارادہ بنانے کے بعد انھوں نے کچھ بڑے بڑے پائپ نما چیزوں کے ذریعہ چشمے کا تمام پانی نکال کر دوسری جگہ پہونچا دیا اور اس چشمے کے نیچے ایک گہرا کواں کھودا اور اسکے منھ کو تنگ رکھا پھر پیغمبر خدا کو اس کنویں میں ڈال کر ایک بڑے پتھر سے اس کے منھ کو بند کردیا تا کہ پانی نیچے نہ جا سکے، پھر دوبارہ چشمے کے پانی کو اس کی پرانی جگہ پر پلٹادیا اور پیغمبر خدا کو زندہ چشمے کے نیچے دفن کردیا!رات بھر اللہ کے نبی آہ و بکا اور فریاد و زاری کرتے رہے کہ:

 

” اے خدا، اے میرے آقا، تو جگہ کی تنگی اور میرے ضعف و سستی و بیچارگی کو دیکھ رہا ہے، میری درخواست ہے کہ جس قدر جلدی ممکن ہو مجھے اس دنیا سے اٹھالے تا کہ مجھے سکون مل جائے!“

یہ لوگ تمام رات آپ کے نالہ وفریاد کی آواز سن رہے تھے اور بے رحمی و خوشی کے ساتھ کہہ رہے تھے: ہم نے اپنے خداؤں کے دشمن کو (کہ جوان کی برائی کرتا تھا اور ان کی عبادت کرنے میں رکاوٹ بنتا تھا)قتل کردیا اب ہم کو امید ہے کہ ہمارے خدا ہم سے راضی ہوگئے ہونگے اور دوبارہ ان کا نور اور سر سبز و شادابی واپس آگئے ہونگے۔

خداوند عالم نے جناب جبرئیل کو مخاطب کرکے کہا: ”کیا میرے یہ بندے (کہ جو میرے حلم و بردباری  کی وجہ سے مغرور ہو گئے ہیں اور خودکو میری تدبیر سے محفوظ سمجھتے ہیں میرے علاوہ دوسرے خداؤں کی عبادت کرتے ہیں میرے رسول کو قتل کر چکے ہیں) میرے عذاب یا میری سلطنت سے بھاگ کر کہیں جا سکتے ہیں؟!کیسے فرار کرسکتے ہیں ہرگز نہیں! کیونکہ میں ہر اس شخص سے انتقام لونگا جو میری نافرمانی کرے گا اور میرے عذاب سے نہیں ڈرے گا؟میں اپنے عزت کی قسم کھا چکا ہوں کہ ان لوگوں کو دنیا والوں کے لئے درس عبرت قرار دونگا۔“پھر کیا تھا اسی دن جب وہ لوگ جشن عید منانے میں مشغول تھے، اچانک توفان آیا ، سرخ آندھی چلنے لگی ، اس طرح سے کہ وہ سب لوگ حیران ہوگئے، اور آندھی سے مقابلے کرنے کی طاقت کھوبیٹھے ، یہاں تک کہ اتنا پریشان ہوئے کہ نہ کچھ سوچ پا رہے تھے اور نہ کوئی ارادہ کر پا رہے تھے، بس وہ لوگ ایک دوسرے کی پناہ لے رہے تھے!ان کے نیچے کی زمین سنگ کبریتی یعنی ایسے پتھروں میں تبدیل ہوگئی تھی جن سے آگ نکل رہی تھی اور کالے بادل ان کے سروں پرچھا گئے تھے ، ان بادلوں سے شعلہ صفت پتھروں کی باش ہو رہی تھی اور ان کے جسم اس دھات کی مانند ہوگئے تھے کہ جس کو آگ میں ڈال کر پگھلادیا گیا ہو!یہ تمام واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت امیرالمؤمنین نے فرمایا:

 ہم خداوند عالم کے عذاب و غصے سے اس کی پناہ چاہتے ہیں، لا حَولَ و لا قُوَةَّ اِلَّا باللہ العلیِّ العظیمِ۔ (1)

--------------

(1):- بحارالانوار، ج 14 ، ص 148-152، بہ نقل از عیون اخبار الرضا، ص 114-116 و علل الشرائع ، ص 25-26.

 

شراب سے پرہیز کریں

ہمیشہ یاد رکھئے کہ شراب کو کبھی منھ بھی نہ لگائےع گا، اس لئے کہ یہ انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے، اور بے عقلی کے عالم میں انسان خطرناک سے خطرناک کام حتی گناہ بھی کربیٹھتا ہے ، اس سے بڑھ کر یہ کہ شراب پینا دشمنان اہلبیت علیہا السلام کا شوق ہے ، امام رضا علیہ السلامنے مجھ سے فرمایا کہ:

حاکمان اسلام میں سب سے پہلے  یزید بن معاویہ نے جو کی شراب پی تھی کہ جو شام کا حاکم تھا خدا اس پر لعنت کرےاس نے حکم دیا تھا کہ رنگین دستر خوان”کہ جو جشن کے لئے پچھایا جاتا ہے“لگائیں، دستر خواں لگایاگیا، امام حسین علیہ السلام کا سر ،   یزید ملعون کے سامنے رکھا ہوا تھا،    یزید نجس شراب کو پی رہا تھا،اور اپنے اطراف والوں کو بھی پلا رہا تھا اورمستی میں آکر کہہ رہاتھا:

یہ شراب پیو، یہ مبارک شراب ہے سب سے پہلے اس شراب کو میں نے پیا ہے اسی شراب کی برکت ہے کہ ہمارے دشمن کا سر ہمارے دسترخوان پر رکھا ہواہے۔

اب ہم یہ شراب پی رہے ہیں اور ہمارے ذہنوں کو سکون ہے اور ہمارا دل کاملاً مطمئن ہںہ!

امام نے اپنی بات کوآگے بڑھایا اور کہا:

           جو بھی اپنے آپ کو ہمارا شیعہ سمجھتا ہے اس کو چاہئے کہ شراب پینے سے پرہیز کرے کیونکہ اس کو ہمارے دشمن پیتے تھے۔ (1)

--------------

(1):- بحار الانوار ، ج 45 ، ص 176-177.

 

امام رضاعلیہ السلام کا شہادت نامہ

میں مختلف مواقع و مقامات پر امام رضا علیہ السلام سے سن چکا تھا کہ ایک دن مجھ کو مامون زہر دے گا اور میں شہید ہو جاؤں گا، لیکن میں دعا کرتا تھا کہ وہ دن نہ آئے یا اگر آئے بھی تو بہت دن بعد آئے کہ جب میں اس دنیا سے جا چکا ہوں تا کہ میں اس برے منظر کو نہ دیکھوں کہ میرے مولا و آقا جانکنی کے عالم میں تڑپ رہے ہوں ، یہاں تک کہ ایک دن آپ نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ:

اس گنبد میں جاؤ جس کے نیچے ہارون دفن ہے اور اس کی قبر کے چاروں طرف سے ایک ایک مٹھی خاک اٹھا کر لاؤ، لیکن یاد رکھو کہ ہر طرف کی مٹی الگ رہے(یعنی سب آپس میں ملنے نہ پائیں)۔

میں رومال میں مٹی لے کر آیا اور امام رضاعلیہ السلامکی خدمت میں پیش کیا ، سب سے پہلے آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے داخل ہونے والے دروازے کے قریب سے اٹھائی تھی، اور فرمایا:

یہ مٹی تم نے دروازے کی طرف سے اٹھائی ہے۔

چونکہ میں امام(ع)سے بہت سے کرامات اور عجائب دیکھ چکا تھا اس لئے مجھے تعجب نہ ہوا میں نے عرض کیا: جی ہاں!

لیکن اس کے بعد امام(ع) نے ایسا جملہ ارشاد فرمایا کہ جو میرے لئے بہت عجیب اور ہلادینے والا اور خلاف امید تھا۔

کل لوگ اس مٹی پر میری قبر کھودیں گے لیکن ایک بہت بڑے پتھر سے ٹکرائیں گے کہ اس کو کسی بھی صورت سے نہ ہٹا سکیں گے۔

یہ کہہ کر آپ نے اس مٹی کو دور پھینک دیا  اسکے بعد آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے ہارون کی قبر کے داہنی جانب سے اٹھائی تھی اور فرمایا:

یہ مٹی داہنی جانب کی ہے۔

 

میں نے عرض کیا :

جی ہاں، آپ نے درست فرمایا:

آپ نے اس کو بھی دور پھینک دیا اور فرمایا:

پھر لوگ اس جگہ کو کھودیں گے اوریہاں پر ایک تیز نوک دار ٹیلے سے ٹکرائیں گے اور کسی بھی صورت میں اس کو نہ کھود سکیں گے!

پھر آپ نے بائیں جانب کی مٹی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا:

اس میں بھی پہلے ہی کی طرح ایک ٹیلا نکلے گا۔ اس کو بھی آپ نے دور پھینکا، اس کے بعد آپ نے اس مٹی پر ہاتھ رکھا جو میں نے ہارون کی قبر کے سر ہانے سے اٹھائی تھی اور فرمایا:

آخر میں اس مقام پر میری قبر کھودی جائیگی اور وہاں کوئی مشکل پیش نہ آئیگی جب میری قبر کھودی جائے تو تم بھی وہاں پر موجود رہنا اور میری قبر کھودنے میں حصہ لینا ، جب تم میری قبر کی تہہ تک پہونچ جاؤ تو اپنے ہاتھوں کو قبر کی سطح  پر رکھنا اور یہ دعا پڑھنا یہ کہہ کر امام (ع)نے مجھے کچھ کلمات سکھائے وہ سب فوراً مجھے یاد ہوگئے لیکن آپ کی اور مراسم تدفین تمام ہوتے ہی میں ان سب کو بھول گیا:

ان کلمات کو بتانے کے بعد امام(ع)نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

جیسے ہی تم ان کلمات کو پڑھو گے قبر کے اندر پانی ابل پڑےگا یہاں تک کہ قبر پانی سے بھر جائیگی ۔ پھر اس پانی میں بہت سی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ظاہر ہوں گی۔

اس کے بعد امام (ع)نے مجھے روٹی کا ایک ٹکڑادیتے ہوئے کہا کہ:

 

اس روٹی کو ان مچھلیوں کے لئے چورلو اور جب وہ مچھلیاں ظاہر ہوں تو اس کو پانی میں ڈال دینا جب یہ چھوٹی مچھلیاں روٹی کو کھا چکیں گی تو ایک بہت بڑی مچھلی ظاہر ہو گی اور ان تمام چھوٹی مچھلیوں کو کھاکر غائب ہوجائیگی۔

پھر تم دوبارہ انھیں کلمات کو پڑھوگے تو پانی زمین میں چلا جائیگا اور قبر خشک ہوجائے گی۔

تم میری طرف سے مامون سے کہنا کہ وہ میرے مراسم دفن میں ضرور شرکت کرے تا کہ اس منظر کو دیکھ لے۔

میں نے امام(ع)کی خدمت میں عرض کیا!

اگر مامون نے قبول نہ کیا؟!

امام(ع)نے جواب دیا:

وہ حتماً قبول کریگا!

 ابھی مامون کا قاصد مجھ کو بلانے آئے گا تم بھی میرے پیچھے پیچھے دربار میں آنا اور دیکھنا اگر واپس آتے وقت میں  اپنے سر کو کسی کپڑے سے نہ چھپاؤں تو تم جس موضوع کے متعلق چاہو مجھ سے گفتگو کرنا لیکن اگر میں اپنے سر کو چھپالوں تو ہرگز، حتی ایک حرف بھی مجھ سے کلام نہ کرنا!

کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ یہ باتیں سن کر میرے دل کو کتنا درد پہونچا ہوگا، اس وقت میں یہ تمنا کر رہا تھا کہ:

اے کاش میں زندہ نہ ہوتا، تاکہ مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑنا۔

ابھی یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ مامون کا قاصد آیا اور امام(ع)سے کہا کہ:

آپ کو مامون نے بلایا ہے۔

امام (ع)نے لباس تبدیل کیا اور مامون کے قاصد کے پیچھے روانہ ہوگئے ، میں بھی ان کے پیچھے روانہ ہوا۔

چونکہ سب لوگ جانتے تھے کہ میں امام رضا(ع) کا خادم ہوں ا س لئے میں ہر جگہ پر امام(ع)کے ساتھ جاسکتا تھا۔

 

مامون نے جیسے ہی امام(ع)کو دیکھا کھڑا ہو گیا اور تخت سے نیچے اتر آیا، امام(ع)کی پیشانی کا بوسہ لیا اور آپ کو اپنے تخت پر سرہانے کی طرف اپنے برا برمیں بھای یا ۔

مامون کے سامنے ایک میز لگی ہوئی تھی جس پر ایک بہت بہترین ، خوبصورت طبق میں عمدہ قسم کے انگوررکھے ہوئے تھے۔ مامون نے ہاتھ بڑھا کر انگور کا ایک خوشہ (گچھا) اٹھایا،اس میں سے آدھے کو خود کھایااور دوسرا آدھا حصہ (کہ جس میں پہلے سے ہی زہر ڈال رکھا تھا)امام(ع)کی خدمت میں پیش کیا اور کہا:

یہ انگور مجھے تحفے میں دیئے گئے ہیں ، مجھے یہ بات گوارا نہیں ہے کہ میں خود تو کھاؤںلیکن آپ کو نہ کھلاؤں، میری درخواست ہے کہ آپ ان کو تناول فرمائیے۔

امام رضاعلیہ السلام(علم امامت کے ذریعہ اس کی حقیقت کو جانتے تھے) آپ نے فرمایا:

مجھے اس کام سے معاف رکھو!

لیکن مامون نے اصرار کیا کہ:

خدا کی قسم !اگر آپ اس کو کھائیں گے تو خوشحال ہونگے!

امام(ع)نے تین مرتبہ عذر خواہی کی،لیکن ہر مرتبہ مامون نے آپ کو حضرت محمدمصطفی ﷺ اور علی مرتضےٰ علیہ السلامکی قسم دیکر کہا کہ ،کم ہی سہی ، مگرآپ اس میں سے کچھ ضرور رکھا ئںع۔

مجبوراً امام(ع)نے تین دانے انگور کے کھالئے ،اپنی عبا کو دوش کے بجائے سر پر ڈالا اور مامون کے دربار سے نکل گئے۔

جب میں نے دیکھاکہ امام رضا علیہ السلام اپنے سر پر ردا اوڑھے ہوئے ہیں تو سمجھ گیا کہ میں بدبخت ہو گیا ہوں اور اس ملعون نے اپنا کام کردیا ہے۔

جب ہم گھر میں داخل ہوئے تو چونکہ اما م رضا علیہ السلام میں بولنے کی طاقت نہ تھی اس لئے آپ نے اشارہ کیا کہ میں دوازہ

 

بند کردوں میں نے مضبوطی سے دروازے کو بند کردیا تاکہ کوئی بھی اندر آکر حضرت کو زحمت نہ دے سکے ۔ اس کے با وجود بھی جب حضرت اپنے بستر پر جا کر لیٹ گئے، ناگاہ میں نے دیکھا صحن میں ایک جوان ہے جو امام رضاعلیہ السلام سے بہت شباہت رکھتا ہے جب کہ میں نے اس سے پہلے اس جوان کو کبھی نہ دیکھا پھر بھی میں نے خیال کیا کہ یہ امام رضاعلیہ السلامکے فرزند ہیں،میں نے عرض کیا:

اے میرے آقا دروازہ تو بند تھا پھر آپ کہاں سے داخل ہوئے؟!

سچ تو یہ ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ امام رضاعلیہ السلام کے بعد کے امام یعنی اما م جواد علیہ السلام ہیں تو میں ہرگز ان سے یہ سوال نہ کرتا چونکہ میں امام رضا علیہ السلام سے اس قدر معجزات دیکھ چکا تھا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ ”طی الارض“اور اسی طرح کے کام ہر امام کے لئے چھوٹی سی کرامت اور مختصرسا معجزہ ہے۔

بہر حال اس ماہ ناز جوان نے جواب دیا:زیادہ سوال نہ کرو!(1) یہ جواب دے کر جوان امام رضاعلیہ السلامکی طرف دوڑ پڑے جیسے ہی امام رضاعلیہ السلامنے امام جوادعلیہ السلام  کو دیکھا کمزوری اور بد حالی کے با وجود فوراً   کھڑے ہوگئے اور آپ کو سینہ سے چمٹا لیا پھر دونوں بستر پربیٹھ گئے ۔ امام رضاعلیہ السلام نے اپنی ردا کو سر پر ڈالا اور اسی عبا کے نیچے اپنے بیٹے جوادعلیہ السلام کو بھی لے لیا ، پھر (نجوا) یعنی آہستہ آہستہ راز و نیاز کی باتیں کرنے میں مشغول ہو گئے ،میں ان کی راز کی باتوں میں سے کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔ (2)

---------------

(1):-  بعض رویات میں آیا ہے کہ امام جوادعلیہ السلامنے جواب میں فرمایا کہ:”جو خدا مجھے پلک جھپکنے میں مدینہ سے طوس لایا ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ بند دروازے سے مجھکو داخل کردے !

(2):- بحار الانوار ج49، ص301، پر اس عبارت کا اضافہ ہوا ہے:”میں نے دیکھا کہ امام رضاعلیہ السلامکے منھ سے کف (تھوک جو غصے یا زبان خشک ہونے کی صورت میں خارج ہوتا ہے) خارج ہوا کہ جو برف سے زیادہ سفید تھا، امام جواد علیہ السلام نے اس کو چاٹ لیا اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو امام رضا علیہ السلام کے سینے کی جانب سے آپ کے لباس میں داخل کیا اور چڑیا کی مانند کوئی چیز باہر نکالی اور اس کو آپ نے تناول کر لیا اسکے بعد امام رضاعلیہ السلامکا انتقال ہو گیا.

 

اس کے بعد امام رضا علیہ السلام  اپنی جگہ پر لیٹ گئے اور آپکے فرزند محمد جوادعلیہ السلام نے آپ کی عبا سے اپنے چہرے کو چھپایا اور مکان کے در میانی حصے تک آکر مجھے نام کے ساتھ پکارا: اباصلت

میں نے جواب دیا:

فرزند رسول میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔

جب میں آپ کے قریب گیا تو آپ نے مجھے تسلی دی، میں سمجھ گیا کہ میرے آقا امام رضاعلیہ السلامکی روح پرواز کرگئی ہے میں رونے لگا، آپ نے فرمایا:

عظم اللہ اجرک فی الرضا،امام رضاعلیہ السلامدنیا سے چلے گئے ہیں!

جب آپ نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:

اب گریہ نہ کرو،جاؤ مغتسل(1) (یعنی وہ تختہ جس پر میت کو غسل دیا جاتا ہے)اور پانی لے کر آؤتا کہ امام رضاعلیہ السلامکی تجہیز و تکفین کا کام شروع کیاجائے۔

میں مدتوں امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ اس گھر میں رہ چکا تھا اور اس گھر کی ہر ہر چیز کی خبر رکھتا تھا، میں نے عرض کیا:

اے میرے آقا ، پانی گھر میں موجود ہے، لیکن گھر میں کوئی بھی غسل کا تختہ نہیں ہے ، صرف یہی ایک صورت ہے کہ باہر سے لایا جائے۔

لیکن امام جواد علیہ السلام نے فرمایا:

انبار میں ایک مغتسل موجود ہے۔

---------------

(1):-  مغتسل یعنی وہ تختہ جس پر جنازے کو غسل دیتے ہیں.

 

میں نے بارہا تمام انبار کو اوپر نیچے کیا تھا ، لیکن میں نے کبھی بھی وہاں کوئی مغتسل نہ دیکھا تھا، اس کے باوجود بھی میں جیسے ہی داخل انبار ہوا میں دیکھا کہ وہاں ایک صاف ستھرا مغتسل موجود ہے۔

میں نے امام رضا علیہ السلام کے بدن کو مغتسل پر رکھنے میں امام جوادعلیہ السلام کی مدد کی سوچا نے چاہا کہ دوسرے کاموں میں بھی آپ کی مدد کروں لیکن آپ فرمایا: تم ایک طرف بیٹھ جاؤ، فرشتے میری مدد کریں گے ، ابھی تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

جب غسل تمام ہوا تو امام جوادعلیہ السلامنے فرمایا:

بابا کا کفن اور حنوط لے کر آؤ۔

میں نے جواب دیا کہ:      

ابھی ہم نے امام رضاعلیہ السلامکے لئے کوئی کفن آمادہ نہیں کیا تھا۔

پھر بھی امام جواد علیہ السلامنے فرمایا: کفن انبار میں موجود ہے۔

جب میں انبار میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کفن و حنوط موجود ہے !جب کہ میں نے اس سے پہلے کبھی بھی اس کو اس جگہ پر نہ دیکھا تھا، اس کے بعد پھر آپ نے فرمایا:

تابوت لے کر آؤ۔

مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آئی کہ ہمارے پاس تابوت نہیں ہے ، اب میں خود سمجھ چکا تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے ، میں سیدھا انبار میں گیا اور وہاں سے ایک تابوت لا یا جس کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور لا کر امام جوادعلیہ السلامکی خدمت میں رکھ دیا:

ہم نے امام رضا علیہ السلامکے جنازے پر نماز میت پڑھی ۔ سورج بھی آپ کی جگہ کو خالی دیکھ کرتاب نہ لاسکا اور شہر طوس کے بڑے پایڑوں کے پیچھے جا کر چھپ گیا۔

 

میں نے نماز مغرب بھی امام جوادعلیہ السلامکی اقتدا میں پڑھی۔ نماز کے بعد ہم لوگ گفتگو میں مشغول ہوگئے کہ اچانک مکان کی چھت پھٹی اور امام رضاعلیہ السلامکا تابوت آسمان کی طرف پرواز کر گیا:

یہ منظر امام جوادعلیہ السلامکے لئے بالکل معمولی تھا لیکن میں نے وحشت زدہ ہو کر آپ کی خدمت میں عرض کیا:

اے میرے آقا! یقینا ًمامون امام رضاعلیہ السلامکے جنازے کو مجھ سے طلب کریگا اس وقت کونسی مٹی سے میں اپنے سر کو چھپاؤ نگا؟!(اس کو کیا جواب دونگا)

امام جوادعلیہ السلام نے اطمنان کے ساتھ جواب دیا:

آپ پریشان  نہ ہوں آپ کے لئے کوئی مشکل پیش نہیں آئیگی ۔ بہت جلد امام علیہ السلامکا جسم (تابوت)اپنی جگہ پرواپس پلٹ آئیگا۔

جان لو کہ اگر کوئی پیغمبرﷺ زمین کے مغربی حصے میں انتقال کرے اور اس کا کوئی وصی زمین کے مشرق میں انتقال کرے تو بھی خدا وند عالم دفن سے پہلے ان دونوں کو واپس میں جمع کرتا ہے۔(یعنی دونوں کی ملاقات کراتاہے)

آدھی یا آدھی سے کچھ زیادہ رات گذر چکی تھی کہ دوبارہ چھت پھٹی اور تابوت اپنی پرانی جگہ پر پلٹ آیا!

نماز صبح پڑھنے کے بعد امام جوادعلیہ السلامنے فرمایا:

جاؤگھر کے دروازے کو کھول دو اب مامون (گمراہ انسان)تمہاری تلاش میں آئیگا تم اس کو یہ بات سمجھا دینا کہ امام رضاعلیہ السلام کی تجہیز و تکفین ہو چکی ہے۔میں نے دروازے کی طرف حرکت کی اور پلٹ کر پھر سے ایک مرتبہ امام جوادعلیہ السلامکی طرف دیکھا لیکن آپ کی کوئی خبر نہ تھی(یعنی آپ موجود نہ تھے)جب کہ آپ نہ کسی دروازے سے داخل ہوئے اور نہ خارج !

میں نے دروازہ کھولاتودیکھا کہ مامون گھوڑے کی پشت پر سوار ہے کچھ محافظ اور درباری بھی اس کے پیچھے ہیں جیسے ہی مامون نے مجھے دیکھا بلافاصلہ سوال کیا:

 

امام رضاعلیہ السلام کیا کر رہے ہیں؟

مجبوراً  میں نے بھی (جیسے کہ میں مامون کو صاحب عزا اور مصیبت زدا سمجھ رہا تھا)مامون کو ان الفاظ میں تسلی دی:  عظم اللہ اجرک

مامون یہ غمگین خبر سنتے ہی اپنے گھوڑے سے نیچے اتر گیا ،گریبان کوچاک کر لیا، سر پر مٹی ڈالی اور بہت دیر تک بلند آواز سے روتا رہا، پھر اپنے دربار یوں کو حکم دیا: امام رضاعلیہ السلامکے جنازہ کو اچھی طرح تجہیز و تکفین کرو!

میں نے کہا: یہ کام پہلے ہی ہوچکا ہے۔

مامون کو کسی بھی ضرورت میں یہ امید نہ تھی کہ وہ یہ الفاظ،سنے گا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی یہ جرات بھی کرسکتا ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے ولیعہد کو غسل و حنوط و کفن دے سکتا ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھا سکتا ہے، لہذا اس نے غصے کے ساتھ اعراض کیا:

یہ کام کس نے انجام دیا ہے؟!

میں نے مِن مِن کرتے ہوئے جواب دیا:

ایک لڑکا آیا تھا اس نے آپ کی تجہیز و تکفین کی یقینی طور پر میں اس کو نہیں جانتا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ امام رضاعلیہ السلامکے بیٹے ہونگے۔(1)

جب میں نے یہ جملہ کہا تو میری جان ہونٹوں پر آگئی مجھے امید تھی کہ اس جملے کا ردّ عمل مامون کی طرف سے بہت سخت ہوگا لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا پھر مامون نے کوئی اعتراض نہ کیا فقط اتنا کہا کہ:

امام رضاعلیہ السلام کے لئے اس گنبد میں ایک قبر بنائیے جس میں میرا باپ دفن ہے۔میں پھر بولا اور کہا کہ: امام رضا علیہ السلام کی یہ خواہش تھی کہ آپ ان کے مراسم تدفین میں شروع سے آخر تک شریک رہیں۔

--------------

(1):-  امام جواد علیہ السلام کو ابن الرضا (یعنی فرزند امام رضاعلیہ السلام) کہا جاتا ہے.

 

مامون نے جواب دیا: ٹھیک ہے انشااللہ میں شرکت کرونگا ۔

جس گنبد میں مامون دفن تھا اس کے نیچے ایک کرسی بچھائی گئی اور مامون اس پر بیٹھ گیا ۔ سب لوگ کھڑے ہوئے تھے ، کچھ مضبوط و ماہر قبر کھودنے والے ہاتھ میں کدالیں لئے ہوئے مامون کے حکم کے منتظر کھڑے ہوئے تھے کہ مامون نے اپنے باپ کی قبر کے پیروں کی زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس جگہ کو کھو دو!

وہ یہ چاہتا تھا کہ امام رضا علیہ السلام کو اپنے باپ کے پیروں کی طرف دفن کرکے آپ کی بے احترامی کرے اور لوگوں کی نظروں میں اپنے باپ کے مقام کو امام کے مقام سے بڑھادے۔

قبر کھودنے والوں نے زمین کو کھودنا شروع کیا لیکن بہت جلد ایک ایسے پتھر سے ٹکراگئے کہ جس کو کاٹنانا ممکن تھا، مجبور ہو کر انھوں نے کہا:

اگراس شہر کی تمام کدالیں لائی جائیں تب بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا:

مجبوراً مامون نے اپنے نظریہ کو بدل دیا اور اپنے باپ کی قبر کے بائیں جانب کو کھودنے کے لئے کہا جب وہاں کوئی  مثبت نتیجہ نہ نکلا تو داہنی جانب قبر کھودنے کا حکم دیا لیکن یہاں پر بھی بائیں جانب کی طرح ایک نوک دار پتھر کا ٹیلا نکلا جس کو وہ کاٹ نہ سکے، جب مامون نے یہ دیکھ لیا کہ دائیں ، بائیں جانب قبر کھودنے میں بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو وہ اس بات پر راضی ہو گیا کہ امام رضا علیہ السلامکی قبر مامون کی قبر کے سرہانے بنائی جائے۔

اس طرف کی زمین بہت آسانی سے کھدی گئی تا کہ مامون کی خواہش کے برخلاف اس کا باپ ہمیشہ امام رضا علیہ السلامکے قدموں کے نیچے رہے۔

امام رضاعلیہ السلامکی قبر کے سب سے آخری حصے کو میں نے کھودا، قبر کھودنے میں جو حادثات اور زحمات پیش آئے ان کی وجہ سے مامون بہت غصہ تھا لیکن اپنے غصہ کو چھپائے ہوئے تھا، اس کی پیشانی سے پسینہ ٹپک رہا تھا اور وہ بہت غور سے تمام مراسم کو دیکھ رہا تھا میں نے اپنی ہتھیلی کو قبر کی سطح پر رکھا اور جو کلمات مجھ کو امام رضا(ع) نے سکھائے تھے ان کو پڑھا ،

 

اچانک قبر کے اندر سے پانی ابل پڑا یہاں تک کہ قبر پانی سے بھر گئی اس کے بعد (جیسا کہ پہلے امام رضاعلیہ السلامفرما چکے تھے)بہت ساری چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پانی میں ظاہرہوئیں میں نےروٹی کے ٹکڑے کو چور کر پانی میں ڈال دیا ، چھوٹی مچھلیاں اس روٹی کو کھاگئیں پھر وہ بڑی مچھلی ظاہر ہوئی اور تمام چھوٹی مچھلیوں کو نگل گئی اس کے بعد وہ بڑی مچھلی بھی غائب ہوگئی، میں نے اپنے ہاتھ کو پانی پر رکھ کروہی کلمات دہرائے تو زمین پانی پی گئی اور قبر خکن ہوگئی!عجیب بات یہ اس وقت میں ان کلمات کو اس طرح بھول گیا کہ بہت کوشش کے بعد بھی ایک کلمہ تک نہ یاد کرسکا!

مامون اس منظر کو دیکھ کر حیرت زدہ اور شکستہ ہوگیا تھا اس نے میری طرف رخ کیا اور پوچھا:

کیا امام رضاعلیہ السلامنے تم کو حکم دیا تھا کہ یہ کام انجام دو؟

میں نے جواب دیا : ہاں!

جب مامون نے یہ جواب سنا تو کہا:

امام رضاعلیہ السلام ہمیشہ زندگی میں ہم کو عجیب و غریب  واقعات دکھاتے رہتے تھے اور انھوں نے اپنے انتقال کے بعد بھی یہی کام کردیا!

پھر مامون نے اپنے وزیر کی طرف رخ کیا اور پوچھا:

ان چیزوں (حادثات )کے کیا معنی ہیں؟!

وزیر نے بہت اچھا جواب دیا: میرا دل چاہ رہا تھا کہ یہ وہ کہہ دے جو میں چاہتا ہوں، ایسا ہی ہوا اور اس نے وہی کہا جو میں چاہتا تھا!

 

وزیر:تم ان چھوٹی مچھلیوں کی طرح بہت زیادہ ہو لیکن تم لوگ صرف ایک مختصر سی مدت اس دنیا سے فائدہ اٹھا سکو گے اس کے بعد ایک شخص ان کے خاندان (خاندان امام رضا(ع)، خاندا ن اہل بیت)سے آئیگا اور تم سب کو ہلاک کردے گا!

اباصلت:جب تک امام رضاعلیہ السلام زندہ تھے اس وقت تک میں بھی آپ کی نوکری کے لباس میں رہ کر آقائی کرتا تھا اور کوئی بھی یہاں تک کہ خود مامون بھی مجھ کو کچھ بھی نہ کہہ سکتا تھا، لیکن جیسے ہی امام رضاعلیہ السلامکی وفات ہوئی میری بدبختی کا آغاز ہو گیا!

ابھی صحیح سے میرے قدم گھر تک نہ پھونچے تھے اور امام رضاعلیہ السلام کے دفن کی غبارمیرے کپڑوں سے صاف نہ ہوئی تھی کہ مامون کا قاصد میرے پاس آیا اور مجھے مامون کے دربار میں لے گیا۔

مامون نے مجھ سے کہا:

تم نے کہا تھا کہ جو کلمات تم نے قبر کے اندر پڑھے تھے وہ تم کو امام رضاعلیہ السلامنے سکھائے تھے اور  یہ بھی کہا تھا کہ تم ان کو پڑھنا تا کہ پانی آئے اور چلا جائے؟

جب مامون نے مجھ سے یہ سوال کیاتو میں جھوٹ بولنے والوں میں تو تھا نہیں، اگر میں جھوٹ بولنا بھی چاہتا تو مامون جیسے بے رحم و طاقتور انسان کے سامنے جھوٹ بولنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا چونکہ وہ کچھ بھی کرسکتاہے۔

آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ اس نے ہمارے امام(ع) کے ساتھ کیا کیاپھر میری کیا حیثیت ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ میں اس بات کو پہلے بھی اس سے کہہ چکا تھا( کہ یہ کلمات مجھ کو امام(ع) نے سکھائے ہیں )

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے جواب دیا:

جی ہاں ، اے امیر المؤمنین (مجھے یہ کلمات امام رضاعلیہ السلامنے سکھائے تھے اور ان کو پڑھنے کا حکم بھی دیا تھا)

مامون نے کہا: ٹھیک ہے اب وہ کلمات تم مجھ کو سکھاؤ:

 

یہ تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں کہ ان کلمات میں سے ایک لفظ بھی مجھے یاد نہ رہا تھا اگر مجھے یاد ہوتے تو شاید میں اس وقت مامون کے ڈرسے ان کلمات کو سنادیتا!لہذا میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے اس کے کہ میں حقیقت کو بیان کردوں اور حقیقت بھی ایسی کہ جو مامون کو اصلاً پسند نہ آئے ،میں نے کہا: اے امیر المؤمنین بڑے افسوس کی بات ہے کہ مجھے کچھ یاد نہیں آرہا ہے میں سب کچھ بھول گیا ہوں!

مامون کو یہ امید نہ تھی کہ میں اس کو منفی (نہیں میں )جواب دونگالہذا اس نے  چلاکر کہا:

اے ہرات کےبیہودہ انسان آدمی!امام رضاعلیہ السلامکہ جو تمہارے آقا تھے وہ بھی مجھ کو منفی جواب نہیں دیتے تھے، اب تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟! خدا کی قسم اگر تم نے وہ کلمات مجھے نہ سکھائے تو میں تم کو بھی اسی جگہ پہونچادونگا جہاں تمہارے مولاکو۔

قریب تھا کہ مامون نا چاہتے ہوئے بھی غصے کے عالم میں اپنے گناہ (قتل امام رضاعلیہ السلام) کا سب کے سامنے اعتراف کرلے لیکن اس نے خود کو کنٹرول کیا اور اپنے الفاظ کو بدلتے ہوئے کہا:

اگر تم نے مجھے وہ کلمات نہ سکھائے تو میں تمھیں اسی جگہ پر پہونجا دونگا جہاں تمہارے آقا چلے گئے ہیں!

میں کچھ نہیں کر سکتا تھا سوائے اس کے کہ قسم کھا کر حقیقت کی تکرا ر کروں، لہذا میں نے کہا: خدا کی قسم مجھے کچھ یاد نہیں آرہا ہے! خود امام رضاعلیہ السلامکی قسم ان کلمات میں سے ایک لفظ بھی میرے ذہن میں باقی نہیں ہے! بزرگوں کی قسم پیغمبرﷺکی قسم!

میرا یہ جواب سن کر مامون نے کہا: اس کو قید کرلو اور اس پر سختی کرو شاید اس کا حافظہ پلٹ آئے ورنہ وہ اپنی جان کھو بیٹھے گا۔

 

جیسے ہی بے رحم مامون نے یہ بات کہی جلّادوں نے میری گریہ و زاری پر توجہ کئے بغیر مجھ کو کھینچتے ہوئے لے جا کر ایک اندھیرے اور ڈراؤنے قید خانے میں ڈال دیا۔

اس وقت میری خوش نصیبی یہ تھی کہ مامون یہ چاہتا تھا کہ ان کلمات کو کسی بھی قیمت پر مجھ سے معلوم کرلے،اسی لئے وہ میرے قتل میں جلدی نہیں کر رہا تھا لیکن ذہنی طور پر مجھ پر دباؤ ڈالتا تھا اور روزانہ مجھے موت کی دھمکی دیتاتھا۔

میں  نہیں چاہتا کہ بات کو طول دے کر آپ کے سروں میں درد کروں لہذا مختصر یہ ہے کہ ایک سال اسی طرح گزر گیا اور اب میرے صبر کی انتہا ہوچکی تھی اور میرے سینے میں گھٹن ہونے لگی تھی، یہاں تک کہ میں نے شب جمعہ کو غسل کیا اور طلوع فجر تک جاگ کر اس رات کو رکوع، سجدہ اور تصرع و زاری میں گزار دیا، جیسے ہی میں نے نماز صبح پڑھی اچانک امام  جوادعلیہ السلامکو دیکھا کہ آپ میرے پاس آئے ! مجھ کو یقین نہ آیا میں نے سوچا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں روتے ہوئے ڈور کر امام (ع)کےپیروں میں جا پڑا اور آپ کے قدم مبارک کو بوسہ دیا آپ نے میرے ہاتھوں کو پکڑا اور مجھ کو زمین سے اٹھاتے ہوئے فرمایا:(1) اےاباصلت تمہارا سینہ تنگ ہوگیاہے؟

میں نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا: جی ہاں،اے میرے  آقا، خدا کی قسم (میرا سینہ تنگ ہو گیا) امام(ع) نے مہربانی سے فرمایا: جو کام تم نے آج کیا ہے کاش کہ یہی پہلے کرلیا ہوتا تا کہ خدا تم کو جلدی نجات دیدتا جیسے کہ قیامت کے دن تم کو نجات دیگا!

میں نے خود سے کہا کہ امام(ع) درست فرمارہے ہیں، جیسے کہ ایرانیوں کے یہاں کہا وت ہے :

گر گدا سستی کند ، تقصیر صاحب خانہ چیست؟” اگر فقیر ہی سست ہو تو مکان مالک کی کیا خطا؟!“پھر آپ نے فرمایا: چلو زندان سے باہر چلیں۔اباصلت :کیا میں زندان سے باہر نکلوں ؟!

---------------

(1):- “مجھے یقین نہ آیا (کہ امام جواد علیہ السلام آئے ہیں) ایسا لگا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں میں دوڑپڑا اور روتے ہوئے آپکے قدموں میں جا گرا، آپ(ع)پیروں کا بوسہ لیا امام (ع)نے میرے ہاتھوں کو پکڑ کر مجھکو کھڑا کیا یہ عبارت اباصلت کی روایت میں موجود نہیں ہے ہم نے اس کو حالات کے تقاضاے کی بنا پر اضافہ کیا ہے.

 

کاا آپ نے نہیں دیکھا کہ نگباون باہر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے چند چراغ ہیں جنہوں نے ہر جگہ کو دن کی طرح روشن کر رکھا ہے۔امام جوادعلیہ السلام : فکر نہ کرو، وہ تم کو نہیں دیکھیں گے!

اباصلت : میں اس فکر میں ہوں کہ اگر اب وہ مجھےنہ بھی دیکھیں اور میں زندان سے نکلنے میں کامیاب ہو جاؤ پھر بھی کل وہ لوگ مجھے اسی اطراف میں گرفتار کرلیں گے اور پھر میری حالت اس وقت سے بھی بدتر ہو جائیگی۔

باوجود اس کے کہ امام(ع)  کا مقام بہت بزرگ ہوتا ہے پھر بھی امام (ع) نے اس بات کو نظر انداز کردیا کہ میں کئی سال امام (ع) کی خدمت میں رہ کر بھی ان کی معرفت حاصل نہ کرسکا (آپ نے مجھے کوئی توبیخ و تنبیہ نہ کی)آپ (ع)نے فرمایا:میں کہہ چکا ہوں کہ تم فکر نہ کرو اب تمہارا آخر عمر تک ان لوگوں سے کوئی واسطہ نہ پڑیگا ۔ (کبھی سامنا نہ ہوگا!)

اس کے بعد آپ نے میرا ہاتھ پکڑا جب کہ نگبانن بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کررہے تھے، چراغ روشن تھے امام نے مجھے ان لوگوں کے سامنے سے گزارا اور بغیر اس کے کہ وہ لوگ مجھے دیکھیں آپ نے مجھے زندان سے  نکال دیا۔

قید خانہ سے باہر آزاد ہوا  میں نے ابھی صرف ایک گہری سانس ہی لی تھی کہ امام(ع)نے میری طرف رخ کرکے پوچھا:

 اب تم کونسی سرزمین پر جانا چاہتے ہو؟

میرے لئے یہ بات بری نہیں تھی سالوں بعد اپنے آباءواجداد کی سرزمین پر واپس چلا جاؤں،میں نے فوراً جواب دیا:

میں اپنے گھر ہرات جانا چاہتا ہوں!امام(ع) نے فرمایا : اپنی عبا کو اپنے چھرے پر ڈالو اور میرا ہاتھ پکڑلو!

میں نے ایسا ہی کیا مجھے احساس ہوا کہ امام جوادعلیہ السلام نے مجھ کو اپنی داہنی جانب سے بائیں جانب کھینچا ہے ، پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: اب عبا کو چہرے سے ہٹالو۔جیسے ہی میں نے آنکھوں سے عبا کو ہٹایا دیکھا کہ امام جوادعلیہ السلام کی کوئی خبر نہیں ہے اور میں ہرات میں اپنے گھر کے دروازے کے باہر کھڑا ہوں میں گھر میں داخل ہوا!اس کے بعد سے اب تک نہ میں نے مامون کو دیکھا اور نہ ہی اس کے کسی آدمی کو! (1)

--------------

(1):-  بحارالانوار ، ج 50 ، ص 49-52 و ج 49 ، ص 300-303، بہ نقل از عیون اخبار الرضا ، ص 242-245.

 

شہادت کے بعد امام رضا علیہ السلام کا کلام کرنا !

شاید آپ کو یہ بات نہ معلوم ہو کہ مامون کس قدر مکار (لومڑی صفت انسان)تھا!میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ خود اسی نے امام رضاعلیہ السلامکو شہید کیا ہے لیکن وہ امام رضاعلیہ السلام کے جنازے اور تشییع و تدفین میں اس طرح مگر مچھ کے آنسو رورہا تھا کہ جو بھی اس کو دیکھتا تھا سوچتا تھا کہ وہ معاذ اللہ وہ امام جواد علیہ السلام سے بھی زیادہ سوگوار و غمگین ہے! مثال کے طور پر ، وہ امام رضا(ع)کے تشییع جنازہ کے مراسم میں مصیبت زدہ کی طرح کھلے سر ، ننگے پیر ، اور بٹن (پیراہن کے بند)و غیرہ کھولے ہوئے جنازے کے پیچھے چل رہا تھا اور موسم بہار کے بادلوں کی طرح آنسو بہا رہا تھا اور کہہ رہا تھا:

اے بھائی!آپ کی موت سے بنائے اسلام میں ایک عظیم شگاف پیدا ہواگیا ہے ، میری تمنائیں آپ کے بارے میں پوری نہ ہوسکیں ، میری تدبیر پر خدا کی تقدیر غالب آگئی میں یہ چاہتا تھا کہ آپ تخت خلافت پر بیٹھیں لیکن خدا نے آپ کے لئے کچھ اور مقدر کیا تھا۔(کچھ اور ارادہ کر لیا تھا)لیکن بہتر ہوگا کہ آپ جان لیں کہ، جس طریقے سے امام رضاعلیہ السلامنے اپنی شہادت سے پہلے مامون کے فریب اور مکاریوں سے پردہ اٹھادیا تھا اور خبر دیدی تھی کہ آپ(ع) اس ملعون کے ہاتھوں شہید ہونگے اسی طریقے سے آپ نے اپنی شہادت کے بعد بھی اعجاز الہی کے ذریعے ایک مرتبہ پھر (مختصر طور پر ہی سہی لیکن)ان گناہگاروں، خونخواروں اور قدرت پر ستوں کے چہرے سے نقاب ہٹادیا۔آپ کو معلوم ہوگا کہ بظاہر میرے بعد سب سے پہلے امام رضاعلیہ السلام کے جنازے پر  مامون کے حاضر ہونے کے بعد مجھے اس بات کی اجازت نہ تھی کہ میں امام رضاعلیہ السلام کے بدن مطہر کے قریب رہوں لیکن جیسے ہی مامون، امام رضاعلیہ السلامکے جنازے سے گدور ہوا میں فوراً  آپ کے قریب آگیا اچانک میں نے دیکھا کہ امام رضاعلیہ السلام نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور فرمایا:اے اباصلت یہ جو کچھ چاہتے تھے وہ انھوں نے کردیا ہے!

پھر آپ خدا وند عالم کے ذکر اور حمد و ثنا میں مشغول ہوگئے اس کے بعد آپ نے آنکھیں بند کیں اور ہمیشہ کے لئے خاموشی اختیار کرلی! (1)

---------------

(1):-  عجایب و معجزات شگفت انگیزی از امام رضا (ع)، ص 124 ، بہ نقل از کتاب جلاء العیون.

 

زبان حال امام رضا علیہ السلام اباصلت سے

 

ای اباصلت بیا ساعتی اندر بر من                                         

از رہ مہر و وفا باش دمی یاور من

(اے اباصلت میرے قریب آؤ اور محبت و وفاداری کے ساتھ کچھ دیر میرے پاس بیٹھے رہو)

زہر ہارون لعین ، کار مرا کردہ تمام                     

آتش انداختہ اندر دل پر آذر من

(ہارون ملعون کے زہر نے میرا کام تمام کردیا ہےاور میرے مضطرب دل کو جلا دیا ہے)

کاش می بود طبیبی دم مردن بہ سرم                   

تا کند چارہ ی درد دل پر آذر من

(اے کاش وقت مرگ (موت) میرے پاس کوئی طبیب ہوتا جو میرے پریشان دل کا علاج کر سکتا)

ای اباصلت برو زود در خانہ ببند                         

کہ مرا نیست انیسی بہ جز از داور من

(اے اباصلت جلدی جاؤ دروازہ بند کرو ، چونکہ خدا کے علاوہ یہاں میرا کوئی مونس و یاور نہیں ہے)

تا غریبانہ بمیرچو شہ  کرب و بلا                           

فرش بر چین و بیا جمع کن این بستر من

(میں شہ مظلوم کربلا امام حسین(ع) کی طرح غریب الوطن اس دنیا سے چلا جاؤں گا، اب یہ فرش سمیٹ لو اور میرا بستر جمع کرلو)

 

جان بہ لب آمدہ و ماندہ مرا چشم بہ راہ                     

تا بیاید تقی آن روح و دل و پیکر من

(میری جان ہونٹوں پر آگئی ہے اور میری آنکھیں راہ پر لگی ہوئی ہے، کہ میرا بیٹا میری روح، میرا دل،میرا پیکر محمد تقی(ع) آجائے)

چون در این شہر کسی نیست مرا محرم راز                           

تا پیامی برد از من بہ سوی خواہر من

(چونکہ اس شہر میں میرا کوئی ہمراز نہیں ہے جو میری بہن کے پاس میرا پیغام پہونچا سکے)

نامہ ای بہر خدا سوی مدینہ بفرست                   

گو بہ آن خواہر معصومہ ی غم پرور من

(اس لئے خدا کے واسطے ایک خط مدینہ کی طرف بھیجنا اور میری جانب سے میری سوگوار ، غمزدہ اور معصومہ بہن سے کہنا)

خواہرا، جای تو خالی است کہ از راہ وفا                 

در دم مرگ، بہ زانو بگذاری سر من

(اے بہن، آپ کی جگہ خالی ہے کاش کے آپ ہوتیں تو محبت اور وفاداری کے ساتھ وقت مرگ میرے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیتیں)

 

آرزو بود سوی قبلہ کشی پای مرا                              

یا ببندی ز رہ مہر، دو چشم تر من

(میری آرزو تھی کہ آپ میرے پیروں کو قبلہ کی طرف کرتیں یا محبت سے میری آنسؤں سے بھیگی ہوئی دونوں آنکھوں کو بند کردیتیں)

وعدہ ی ما و تو دیگر بہ قیامت افتاد                       

در جنان ، خدمت جد و پدر و مادر من

(اب ہمار ا وعدہ(ملاقات) قیامت کے دن جنت میں اپنے اجداد اور پدر و مادر کے خدمت میں پہونچ کر پورا ہوگا)

امشب از بہر من ای ذاکر اگر کریہ کنی                

در صف حشر بود اجر تو با داور من

(ذاکر اگر آج رات تم میرے غم میں روؤگے تو روز قیامت تمھارا اجر و ثواب میرے پروردگار کے پاس موجود ہوگا)

 

تیسری فصل:

ابا صلت کے سوالات

          اس فصل میں ہم نے کچھ ایسی روایات بیان کی ہیں کہ جن میں اباصلت نے امام رضا علیہ السلام سے سوالات کئے ہے اور آپ نے ان سوالوں کے جواب دیئے ہںس۔

 

شا دت امام حسین علیہ السلام

میں(ابا صلت)نے امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا:

فرزند رسول ﷺکوفہ کے اطراف میں ایک گروہ ہے جن کا نظریہ ہے کہ ”حسین بن علی علیہ السلامقتل نہیں ہوئے بلکہ جناب عیسیٰ کی طرح وہ بھی آسمان پر چلے گئے ہںن “۔

یہ عقیدہ اسعد بن شامی کے بیٹے نے لوگوں میں پھیلا دیا ہے وہ اس عقیدے پر اس آیت کو دلیل بناتا ہے :

﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا﴾ (1)

خدا وند عالم نے ہرگز کافروں کو مومنین پر مسلط ہونے کا اختایر نہیں دیا ہے۔

امام رضاعلیہ السلامنے جواب دیا:

وہ لوگ جھوٹ کہتے ہںہ ان پر خدا کی لعنت اور عذاب نازل ہو!

پیغمبرﷺ  کا فرمان ہے کہ حسین علیہ السلامقتل کیا جائے گا، اور یہ لوگ فرمان رسول ﷺکو جھوٹلاتے ہیں لذیا یہ لوگ کافر ہو گئے ہے۔

----------------

(1):-  سورہ نساء (4)، آیت 141.

 

خداکی قسم!امام حسین علیہ السلامقتل ہو گئے،امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور امام حسن مجتبےٰعلیہ السلامبھی قتل ہو گئے ہیں، ہم اماموں میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جسے قتل نہ کیا جائےگا ۔

خدا کی قسم میں بھی دشمن کے زہر سے شہید ہو جاؤنگا، یہ بات مجھ کو رسول خداﷺ سے معلوم ہوئی ہےاور آپ کے پاس جبرئیل یہ خبر خدا کی طرف سے لائےتھے۔

خدا وند عالم کا یہ فرمان کہ :

﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّهُ لِلْكَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا﴾ (1)

اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم نے کافروں میں مؤمنوں کے لئے کوئی حجت نہیں رکھی ہےدلیل یہ ہے کہ خدا وند عالم نے قران کریم میں ایےر کافروں کا بھی ذکر کیا ہے کہ جنہوں نے پیغمبروںﷺکو نا حق قتل کیا ہے اور باوجود اس کے کہ ان کافروں نے پیغمبروں کا قتل کیا ہے کافرین قتل اور ظلم و ستم کے اعتبار سے تو انبیاء پر مسلط ہوئے ہیں لیکن خدا وند عالم نے ہدایت و حجت کے اعتبار سے کافروں کو انبیاعلیہم السلام پر کوئی تسلط و اختیار نہیں دیاہے۔ (2)

--------------

(1):-  سورہ ی نساء (4)، آیت 141.

(2):-  مسند الرضا، ج1، ص 86 و ج 2، ص 504 ، عیون اخبار الرضا ، ج 2 ، ص 203.

 

امام زمانہ علیہ السلام  کا انتقام

(اباصلت:)میں نے ایک روز امام رضاعلیہ السلامسے سوال کیا:          

فرزند رسول !امام صادقعلیہ السلامسے روایت ہے کہ جب امام زمانہ(عج) خروج کریں گے تو امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کی اولاد کو انکے اجداد کے کرتوت کی بنا پر قتل کریں گے؟ اس سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

امام رضاعلیہ السلامنے فرمایا:

ہاں ایسا ہی ہے۔

میں نے تعجب کے ساتھ پوچھا:

قرآن کریم کی اس آیت کے کیا معنی ہے ؟         

﴿وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (1)

کسی کے گناہ کا بوجھ کسی دوسرے کے کاندھوں پر نہیں ہے۔

امام رضاعلیہ السلامنے اس طریقے سے وضاحت فرمائی کہ:خدا وند عالم نے اپنے تمام اقوال میں سچائی سے کام لیاہے،لیکن بات یہ ہے کہ قاتلان امام حسین علیہ السلامکے اولاد ہے اپنے باپ،داداؤں کےکام سے راضی اور خوشنود ہے اور انکے کام پر فخر کرتی ہے اور جو انسان جس کام سے راضی ہو ایسا ہے کہ گویا اس نے وہ کام خود انجام دیا ہے ۔یعنی اگر کوئی انسان مشرق میں قتل کیا جائے اور مغرب میں کوئی شخص اسکے قتل سے راضی ہو تو راضی ہونے والا شخص خدا کی بارگاہ میں قاتل کا شریک مانا جاتاہے ۔اور جب امام زمانہ(عج) خروج کریں گے تو اسی وجہ سے (راضی ہونے کی وجہ سے)قاتلین امام حسین علیہ السلام کی اولاد نامراد کو قتل کریں گے۔ (2)

--------------

(1):-  سورہ انعام(6)، آیت 164.

(2):- بحارالانوار، ج 45 ، ص 295 ، مسند الرضا، ج 1 ص 146، عیون اخبار الرضا، ج1، ص 173، علل الشرایع، باب 164 ، ص 226.

 

امام زمانہ علیہ السلام کی ظاہری علامات

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام سے عرض کیا :

جب قائم آل محمد ﷺ ظہور فرمائیں گے تو آپ کی کیا نشانیاں ہونگی؟

امام رضا علیہ السلامنے ارشاد فرمایا:

وہ عمر کے اعتبار سے بزرگ لیکن صورت کے اعتبار سے جوان ہونگے یہاں تک کہ دیکھنے والے یہ گمان کریں گے کہ آپ چالیس یا اس سے بھی کم سال کے ہیں ۔

آپ کی ایک علامت یہ ہے کہ دن و رات گزرنے کے باوجود آپ (ع)بوڑھے نہیں ہوتے اور آپ کے جسم میں سستی نںی  آتی، یہاں تک کہ اسی طرح آپ کی عمر تمام ہو جا ئےگی اور آپ رحلت کر جائیں گے۔(1)

--------------

(1):- بحارالانوار، ج 52، 285- منتخب الاثر، ص 284-اکمال الدین، ص652-الخرائج و الجرائح، ج 30 ، ص 1170-اعلام الوری، ص 465.

 

زیارت خدا کا مطلب

ایک مسئلہ مدتوں سے میرے (اباصلت) ذہن کو مشغول کئے ہوئے تھا میں نے اس کے بارے میں امام رضا علیہ السلامسے سوال کیا: (1)اے فرزند رسولعلیہ السلام!آپ  کا نظریہ اس حدیث کے بارے میں کیا ہے کہ ”قیامت کے دن مؤمنین جنت میں اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے اپنے پروردگار کی زیارت کریں گے؟ “

امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایا :اے ابا صلت !خدا وند تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیغمبر محمدﷺکو پیغمبروںﷺ، فرشتوں گویا کہ تمام مخلوقات پر برتری عطاکی ہے اور انکی اطاعت کو اپنی اطاعت، انکی بیعت کو اپنی بیعت اور انکی زیارت کو اپنی زیارت جانا ہے (کہا ہے)اور فرمایا ہے :

﴿مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ﴾ (2)

جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی ہے۔ اور پھر یہ بھی فرمایا ہے :

﴿إِنَّ الَّذِینَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِیهِمْ﴾(3)

اے پیغمبرﷺ! جو لوگ تمہاری بیعت کر رہے ہںد انہوں نے خدا کی بیعت کی ہے(یعنی خدا کو بیعت کے لئے ہاتھ دیا ہے)اور خدا کا ہاتھ انکے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اور پیامبر گرامیﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے :

مَن زارَنی فی حَیاتی اَو بَعدَ مَوتی فَقَد زاراللهَ

جو شخص میری زندگی میں یامیرے مرنے کے بعد میری زیارت کرے گا ایسا ہے کہ اس نے خدا کی زیارت کی ہے۔(4)

-------------

(1):-  اباصلت نے جو سوالات امام رضا(ع)سے کئے ہیں ہو سب صرف ایک بیٹھک میں نہیں کئے ہیں ہم نے ان سب کو اس کتاب میں الگ فصل میں جمع کردیا ہے.

(2):-  سورہ ی نساء (4)، آیت 80.

(3):-  سورہ ی فتح(48)، آیت 10.

(4):-  بحار الانوار ، ج 4، ص 3 و ج 8، ص 119.

 

چہرہ خدا کو دیکھنے کا مطلب

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا :

اے فرزند رسول ﷺ!اس روایت کا کیا مطلب ہے کہ ”لا ا لهٰ الا اللہ“ کا ثواب خدا کا دیدار ہے“؟

امام نے فرمایا : اے ابا صلت!اگر کوئی یہ کہے کہ تمام چہروں کی طرح اللہ کا بھی ایک چہرہ ہے تو وہ کافر ہے۔

خدا کے چہرے (وجہ اللہ)سے مراد خدا کے انبیا(ع) اور مرسلین اور اسکی حجت ہں  ، ان ہی کے ذریعہ لوگوں نے خدا ،دین خدا اور اسکی معرفت کی طرف رخ کیا ہے اور خدا کی طرف متوجہ ہوئے ہںد۔خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے :

﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ(26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ(27)﴾ (1)

جو کچھ بھی زمین پر ہے، سب کا سب فنا ہونے والا ہے اور صرف تمہارے پروردگار کا چہرہ (وجہ)باقی رہے گا۔

نیز خداکا فرمان ہے:

﴿كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ﴾ (2)

تمام چیزیں ہلاک ہونے والی ہیں سوائے چہرہ خدا کے۔

پس انبیا (ع)و مرسلین اور خدا کی حجتوں کو جنت میں انکے مقامات و درجات پر دیکھنا مؤمنین کے لئے قیامت کے دن بہت زیادہ ثواب رکھتا ہے۔چنانچہ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: جو شخص میرے خاندان و اہل بیتعلیہم السلامکو دشمن رکھتا ہوگا وہ کسی بھی صورت میں مجھے نہ دیکھ سکے گا ۔اور یہ بھی فرمایا:تم لوگوں میں سے کچھ ایسے ہے جو میرے گزرنے کے بعد ہرگز مجھ کو نہیں دیکھ پائںا گے۔اے اباصلت !مکان کے ذریعہ خدا وند عالم کی توصیف نہیں کی جا سکتی ، آنکھوں اور عقلوں کے ذریعہ اس کو درک نہیں کیا جا سکتا۔

--------------

(1):- سورہ الرحمن (55)، آیات 26و27.

(2):- سورہ ی قصص(28)، آیت آخر 88.

 

جنت اور جہنم خلق ہو چکی ہیں اور موجود میں

میں (اباصلت)نے امام رضاعلیہ السلام سے عرض کیا :اے فرزند رسولعلیہ السلام!یہ بتائںل کہ کیا  جنت اور جہنم خلق ہو چکی ہیں اور اس وقت موجود ہیں ؟امام رضاعلیہ السلام نے یقین کے ساتھ جواب دیا:بے شک موجودہیں کیونکہ جب رسول اکرم ﷺ کو معراج پر لے جایا گات تو آپ جنت میں داخل ہوئے تھے اور آپ نے دوزخ کو بھی دیکھا تھا ۔اباصلت کہتے ہںل کہ میں نے اپنے سوال کو آگے بڑھایا اور کہا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے جنت اور جہنم بنانے کا ارادہ کر لیا ہے لیکن ابھی انکو پیدا نہیں کیا ؟امام رضا علیہ السلام اس عقیدے پر غصہ ہوئے اور فرمایا:نہ وہ گروہ ہم سے ہے اور نہ ہم ان سے ہیں !جو شخص جنت و جہنم کا انکار کرے اس نے رسول خدا ﷺ اور ہم کو جھوٹا کہا ہے، اس نے ہماری ولایت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہےگا۔چونکہ خدا وند عزو جل فرماتا ہے:

﴿هَذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِی يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ(43) يَطُوفُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ حَمِیمٍ آنٍ (44)﴾(1)

یہ وہی جہنم ہے کہ جسکو گناہگار لوگ جھٹلاتے ہیں(انکار کرتے ہیں) جب کہ یہ لوگ اسی جہنم اور کھولتے ہوئے پانی میں رہیں گے۔پیغمبر اسلامﷺ ارشاد فرماتے ہےکہ :جب مجھ کو آسمان پر لے جایا گا  جبرئلی نے ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت میں داخل کر دیااور جنت کے خرمے سے میری مہمان نوازی کی جب میں نے اسے کھایا تو وہ خرما میرے صلب میں نطفہ سے  تبدیل ہو گیا ،جب مجھے زمین پر واپس لایا گاا تو میں نے خدیجہ کے ساتھ مجامعت کی اور وہ اس نطفہ سے (فاطمہ سلام اللہ علیھا کی) حاملہ ہوگئیں ،فاطمہ سلام اللہ علیھا انسان کی شکل میں ایک فرشتہ ہے جب میں جنت کی خوشبو سونگھنا چاہتا ہوں تو اپنی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا کو سونگھ لیتا ہوں۔ (2)

--------------

(1):-  سورہ ی الرحمن(55)، آیات 43و44.

(2):- بحارالانوار، ج4، ص3و4و ج8، ص119. عیون اخبار الرضا، ج1 ص 115، توحید صدوق، ص 117، امالی الصدوق ، ص 372.

 

قوم نوح علیہ السلام کے بچوں اور بے گناہوں کی ہلاکت کاسبب

میں (اباصلت)نے امام رضا علیہ السلامسے سوال کیا : کیا وجہ ہے کہ جناب نوح علیہ السلام کے زمانے کے تمام لوگ ہلاک ہو گئے، جب کہ ان میں کچھ بے گناہ انسان اور بچے بھی تھے؟

امام رضاعلیہ السلام نے بڑا دلچسپ جواب دیا آپ  نے فرمایا: غرق ہونے والوں میں ایک بھی بچہ نہ تھاکیوں کہ اللہ تعالیٰ نے طوفان نوح علیہ السلامسے چالیس سال پہلے جناب نوح علیہ السلام کی قوم کے مردوں اور عورتوں کو بانجھ کر دیا تھاپس غرق ہونے کے وقت سب کے سب بڑے اور بزرگ تھے، کوئی بھی بچہ ان کے درمیان میں نہ تھا۔

خدا وند عالم ہرگز کسی بے گناہ کو اپنے عذاب سے ہلاک نہیں کرتا۔

لیکن قوم نوح علیہ السلام کے جو افراد غرق ہوئے انکے دو گروہ تھے یا تو ایسے لوگ تھے جو پیغمبرﷺ خدا یعنی حضرت نوح علیہ السلام کا انکار کرتے تھے یا پھر وہ افراد تھے کہ جو انکار کرنے والوں کے انکار پر راضی تھے اور جو شخص کسی کام میں حاضر نہ ہولیکن اس کام (جو لوگوں نے کیا ہے) سے راضی ہو تو وہ اس کی طرح ہے کہ جو حاضر رہا ہواور اس نے کام کو انجام دیا ہو۔(1)

--------------

(1):- بحارالانوار، ج5، ص283، مسند الامام الرضا، ج1، ص54، عیون اخبار الرضا، ج2، ص75، توحید صدوق، ص 392، علل الشرایع، ج1، ص30.

 

چوتھی فصل:

روایات اباصلت

مخالفین شیعہ کا جواب دینے کے لئے جو روایات اباصلت نے نقل کی  ہںن (اور ان کی سند کو رسول اکرم ﷺ تک پہونچایا ہے)وہ بہت زیادہ ہیں ہم اس کتاب میں ان تمام کو نقل نہیں کرنا چاہتے لیکن برکت کے لئے ان میں سے چند روایات کتاب کے اس حصہ میں ذکر کر رہے ہیں۔

 

ایمان کی حقیقت

پیامبر اکرم ﷺ نے فرمایا:

الایمانُ قولٌ و عَمَلٌ (1)

ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔

الایمانُ قولٌ بِاللِسانِ وَ مَعرِفَةٌ بِالقَلبِ وَ عَمَلً بِالارکانِ (2)

ایمان، زبان سے اقرار، دل سے معرفت ، اور ارکان (بدن)سے عمل کرنے کا نام ہے۔

--------------

(1):-  خصال الصدوق، ص 53و 179، مسند الامام الکاظم،ج1، ص 259.

(2):-  امالی شیخ طوسی، ج2، ص63. (بعض روایات میں “عمل بالارکان” کے بدلے “عمل باالجوارح” آیا ہے)

 

لا قَولَ اِلّا بِعَمَلٍ وَ لا قَولَ وَ عَمَلَ اِلّا بِنِيَّةٍ وَ لا قَولَ وَ عَمَلَ وَ نِيَّةَ اِلّا بِاصابَةِ السُّنَّةِ(1)

کوئی قول بغیر عمل کے مقبول نہیں ہے، کوئی قول وعمل بغیر نیت (تقرب خدا)کے مقبول نہیں ہے اور کوئی بھی قول ، عمل و نیت میری سنت سے مطابقت کئے بغیر صحیح نہیں ہے۔

 

علم کا شہر اور اس کا دروازہ

پیامبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں:

اَنَا مَدینَةُ العِلمِ وَ عَليٌ بَابُها (2)

میں شہر علم ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں۔

اَنَا مَدینَةُ العِلمِ وَ عَليٌ بابُها فَمَن اَرادَ العِلمَ فَليَاتِ البابَ (3)

میں شہر علم ہوں اور علی علیہ السلاماس کا دروازہ ہیں پس جو شخص علم حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ دروازے سے داخل ہو۔

اَنَا مَدینَةُ العِلمِ وَ عَليٌ بَابُها فَمَن اَرادَ بَابَها فَليَاتِ عَلِيّاٌ (4)

میں شہر علم ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں پس جو شخص اس شہر کے دروازے کی تلاش میں ہے اسے چاہئے کہ علی علیہ السلامکو تلاش کرے۔

--------------

(1):-  امالی شیخ طوسی، ج1، ص346.

(2):- مستدرک صحیحین، ج3، ص126-مستدرک حاکم، ج3، ص 127- تاریخ بغداد، ج11، ص50- فتح الملک العلی، ص 28و 24 و 29- خلاصة عبقات الانوار، ج10، ص 135-مناقب ابن مغازلی، ص 80.

(3):- خلاصة عبقات الانوار، ج10، ص 134.

(4):- فتح الملک العلی، ص22.

 

امام علی علیہ السلام کے بارے میں پیغمبرﷺ کی کچھ اور حدیثیں

 

وَ اِن تَوَلُّوا عَلِيّاً تَجِدُوهُ هَادِیاً مَهدِیاً، سَلَکَ بِکُمُ الطَّریقَ المُستَقِیمَ (1)

اگر تم لوگ علی علیہ السلام کو اپنا ولی تسلیم کر لو تو تم ان کو ہدایت کرنے والا، ہدایت یافتہ پاؤ گے کہ جو تم کو سیدھے راستے کی طرف لیجائے گا۔

عَليٌ مَعَ الحَقِّ وَ الحَقُّ مَعَ عَليٍّ وَ لَن يَفتَرِقَا حَتّی يَرِدَا عَلَيَّ الحَوضَ يَومَ القِیامَةِ (2)

علی علیہ السلامحق کےساتھ اورحق علی علیہ السلامکےساتھ ہےیہ دونوں ایک دوسرے سےہرگزجدا نہ ہونگےیہاں تک کہ روزقیامت حوض کوثرپرمجھ سےملاقات کریں گے۔

(یا عليّ) اَنتَ اَوَّلُ مَن آمَنَ بِی وَ صَدَّقَنی، وَ اَنتَ اَوَّلُ مَن يُصَافِحُنی يَومَ القِیامَةِ، وَ اَنتَ الصِّدِیقُ الاکبَرِ، وَ اَنتَ الفَارُوقُ الَّذی يُفَرِّقُ بَینَ الحَقِّ وَ الباطِلِ وَ اَنتَ يَعسوبُ المُؤمِنینَ وَ المالُ يَعسُوبُ الظَّلَمَةِ (3)

اے علی علیہ السلام سب سے پہلےجو شخص مجھ پر ایمان لایا وہ تم ہو، سب سے پہلے جس نے میری تصدیق کی وہ تم ہو، سب سے پہلے قیامت کے دن جو شخص مجھ سے مصافحہ کریگا وہ تم ہو، تم صدیق اکبر ہو تم ایسے فاروق اعظم ہو کہ حق و باطل کے درمیان تمییز(فاصلہ)کروگے، تم مؤمنین کے سردار ہو جب کہ ستمگروں کا سردار مال (پیسہ)ہے۔

--------------

(1):-شواہد التنزیل، ج1، ص83.

(2):-احقاق الحق، ج5، ص623-ترجمة الامام علی (تاریخ دمشق)، ج3، ص 153- تاریخ بغداد، ج 14، ص 321، الغدیر، ج 3، ص 177)

(3):-بحار الانوار، ج38، ص 213- الیقین فی امرة امیر المؤمنین، ص 194.

 

عائشہ لیلی غفاری سے بیان کرتی ہیں کہ:

ایک روز میں رسول خدا کے پاس بیٹھی تھی آپ اپنے شانوں پر ایک چادر ڈالے ہوئے تھے کہ علی علیہ السلاموارد ہوئےاور ہمارے در میان بیٹھ گئے۔

میں نے ان سے کھا :کیا آپ کو اس سے زیادہ کھلی ہوئی جگہ نہیں ملی ؟!

رسول خدا ﷺنے مجھ سے فرمایا:

....یا عائِشَةُ، دَعی لی اَخی ، فَاِنَُهُ اَوَّلُ النّاسِ اِسلاماً، وَ آخِرُ النّاسِ بی عَهداً، وَ اَوَّلُ النّاسِ لی لَقیاً يَومَ القِیامَةِ(1)

اے عائشہ میرے بھائی علی علیہ السلام سے کوئی مطلب نہ رکھو، چونکہ وہ سب سے پہلے اسلام لائے اور سب سے آخر تک میرے عہدو پیمان پر باقی رہے اور وہ سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو روز قیامت مجھ سے ملاقات کریں گے۔

--------------

(1):-احقاق الحق، ج4، ص 159-ترجمة الامام علی (ع) من تاریخ دمشق، ج1، ص 59.

 

فہرست منابع و مآخذ

 

قرآن مجید

اثبات الہداة: شیخ حر عاملی

احقاق الحق: قاضی نور اللہ شوشتری

اعلام الوری: شیخ طبرسی

اعیان الشیعة: سید محسن جبل عاملی

اکمال الدین: شیخ صدوق

التوحید: شیخ صدوق

الخرائج و الجرائح: قطب راوندی

الغدیر: علامہ شیخ عبد الحسین امینی

النجوم الزاہرة فی ملوک المصر و القاہرة: ابن تغری بردی

الیقین فی امرة امیر المؤمنین(ع): رضی الدین ابن طاووس

امالی: شیخ صدوق

امالی: شیخ طوسی

بحار الانوار، الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطہار: علامہ شیخ محمد باقر مجلسی

بررسی زندگانی عبد السلام بن صالح، اباصلت ہروی: غلام رضا اکبری

بہارستان: محمد حسین بیرجندی (آیتی)

 

تاریخ بغداد: خطیب بغدادی

تاریخ: حسامی

ترجمة الامام علی (ع) (تاریخ دمشق): محمد باقر بہبودی

تہذیب التہذیب: ابن حجر عسقلانی

جلاء العیون: علامہ محمد باقر مجلسی

خصال: شیخ صدوق

خلاصة عبقات الانوار: میر حامد حسین

دائرة المعارف بزرگ اسلامی: مرکز پژوہش ہای ایرانی اسلامی

دلائل الامامة: محمد بن جریر طبرسی

راویان امام رضا(ع): عزیز اللہ عطاردی

روضة المتقین: محمد تقی مجلسی

شواہد التنزیل: حاکم حسکانی

عجایب و معجزات شگفت انگیزی از امام رضا(ع): سید محمد طباطبائی

علل الشرایع: شیخ صدوق

عیون اخبار الرضا(ع): شیخ صدوق

فتح الملک العلی بصحة حدیث باب مدینة العلم ، علی(ع): احمد بن صدیق المغربی

کرامات رضویة: شیخ علی اکبر مروج الاسلام

کشف الغمة: علی بن عیسی اربلی

 

مزارات خراسان: کاظم مدیر شانہ چی

مسند الامام الرضا(ع): عزیز اللہ عطاردی

مسند الامام الکاظم(ع): عزیز اللہ عطاردی

مسند فاطمة(س): عزیز اللہ عطاردی

مفاتیح الجنان: شیخ عباس قمی

مناقب: ابن شہر آشوب

مناقب: ابن مغازلی

منتخب الاثر: لطف اللہ صافی

منتہی الآمال: شیخ عباس قمی

من لا یحضرہ الفقیہ: شیخ صدوق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments powered by CComment