حضرت امام زین العابدین علیہ السلام

امام سجاد علیہ السلام
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

مصنف: علامہ نجم الحسن کراروی

چودہ ستارے

 

آپ کی ولادت باسعادت

آپ بتاریخ ۱۵/ جمادی الثانی ۳۸ ھ یوم جمعہ بقولے ۱۵/ جمادی الاول ۳۸ ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ پیداہوئے (اعلام الوری ص ۱۵۱ ومناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ جب جناب شہربانوایران سے مدینہ کے لیے روانہ ہورہی تھیں توجناب رسالت مآب نے عالم خواب میں ان کاعقدحضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ پڑھ دیاتھا (جلاء العیون ص ۲۵۶) ۔ اورجب آپ واردمدینہ ہوئیں توحضرت علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے سپردکرکے فرمایاکہ یہ وہ عصمت پروربی بی ہے کہ جس کے بطن سے تمہارے بعدافضل اوصیاء اورافضل کائنات ہونے والابچہ پیداہوگا چنانچہ حضرت امام زین العابدین متولدہوئے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ اپنی ماں کی آغوش میں پرورش پانے کالطف اٹھانہ سکے ”ماتت فی نفاسہابہ“ آپ کے پیداہوتے ہی ”مدت نفاس“ میں جناب شہربانوکی وفات ہوگئی (قمقام جلاء العیون)۔عیون اخباررضا دمعة ساکبة جلد ۱ ص ۴۲۶) ۔

کامل مبردمیں ہے کہ جناب شہربانو،بادشاہ ایران یزدجردبن شہریاربن شیرویہ ابن پرویزبن ہرمزبن نوشیرواں عادل ”کسری“ کی بیٹی تھیں (ارشادمفیدص ۳۹۱ ،فصل الخطاب) علامہ طریحی تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت علی نے شہربانوسے پوچھاکہ تمہارانام کیاہے توانہوں نے کہا”شاہ جہاں“ حضرت نے فرمایانہیں اب ”شہربانوہے (مجمع البحرین ص ۵۷۰)

 

نام،کنیت ،القاب

آپ کااسم گرامی ”علی“ کنیت ابومحمد۔ ابوالحسن اورابوالقاسم تھی، آپ کے القاب بےشمارتھے جن میں زین العابدین ،سیدالساجدین، ذوالثفنات، اورسجادوعابد زیادہ مشہورہیں (مطالب السؤل ص ۲۶۱ ،شواہدالنبوت ص ۱۷۶ ،نورالابصار ص ۱۲۶ ،الفرع النامی نواب صدیق حسن ص ۱۵۸) ۔

 

لقب زین العابدین کی توجیہ

علامہ شبلنجی کابیان ہے کہ امام مالک کاکہناہے کہ آپ کوزین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے کہاجاتاہے (نورالابصار ص ۱۲۶) ۔

علماء فریقین کا ارشاد ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک شب نمازتہجد میں مشغول تھے کہ شیطان اژدھے کی شکل میں آپ کے قریب آگیا اوراس نے آپ کے پائے مبارک کے انگوٹھے کومنہ میں لے کاٹناشروع کیا، امام جوہمہ تن مشغول عبادت تھے اورآپ کارجحان کامل بارگاہ ایزدی کی طرف تھا، وہ ذرابھی اس کے اس عمل سے متاثرنہ ہوئے اوربدستورنمازمیں منہمک ومصروف ومشغول رہے بالآخروہ عاجزآگیا اورامام نے اپنی نمازبھی تمام کرلی اس کے بعدآپ نے اس شیطان ملعون کوطمانچہ مارکردورہٹادیا اس وقت ہاتف غیبی نے انت زین العابدین کی تین بارصدادی اورکہابے شک تم عبادت گزاروں کی زینت ہو، اسی وقت آپ کایہ لقب ہوگیا(مطالب السؤل ص ۲۶۲ ،شواہدالنبوت ص ۱۷۷) ۔

علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ اژدھے کے دس سرتھے اوراس کے دانت بہت تیزاوراس کی آنکھیں سرخ تھیں اوروہ مصلی کے قریب سے زمین پھاڑکے نکلاتھا (مناقب جلد ۴ ص ۱۰۸) ایک روایت میں اس کی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ قیامت میں آپ کواسی نام سے پکاراجائے گا (دمعة ساکبة ص ۴۲۶) ۔

 

لقب سجاد کی توجیہ

ذہبی نے طبقات الحفاظ میں بحوالہ امام محمدباقرعلیہ السلام لکھاہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کوسجاد اس لیے کہاجاتاہے کہ آپ تقریبا ہرکارخیرپرسجدہ فرمایاکرتے تھے جب آپ خداکی کسی نعمت کاذکرکرتے توسجدہ کرتے جب کلام خداکی آیت ”سجدہ“ پڑھتے توسجدہ کرتے جب دوشخصوں میں صلح کراتے توسجدہ کرتے اسی کانتیجہ تھاکہ آپ کے مواضع سجودپراونٹ کے گھٹوں کی گھٹے پڑجاتے تھے پھرانہیں کٹواناپڑتاتھا۔

 

امام زین العابدین علیہ السلام کی نسبی بلندی

نسب اور نسل باپ اورماں کی طرف سے دیکھے جاتے ہیں، امام علیہ السلام کے والدماجد حضرت امام حسین اورداداحضرت علی اوردادی حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اورآپ کی والدہ جناب شہربانوبنت یزدجردابن شہریارابن کسری ہیں ،یعنی آپ حضرت پیغمبراسلام علیہ السلام کے پوتے اورنوشیرواں عادل کے نواسے ہیں ،یہ وہ بادشاہ ہے جس کے عہدمیں پیداہونے پرسرورکائنات نے اظہارمسرت فرمایاہے ،اس سلسلہ نسب کے متعلق ابوالاسود دوئلی نے اپنے اشعارمیں اس کی وضاحت کی ہے کہ اس سے بہتر اورسلسلہ ناممکن ہے اس کاایک شعریہ ہے۔

 

وان غلاما بین کسری وہاشم

لاکرم من ینطت علیہ التمائم

 

اس فرزند سے بلند نسب کوئی اور نہیں ہوسکتا جو نوشیرواں عادل اور فخر کائنات حضرت محمد مصطفی کے دادا ہاشم کی نسل سے ہو(اصول کافی ص ۲۵۵) ۔

شیخ سلیمان قندوزی اور دیگر علماء اہل اسلام لکھتے ہیں کہ نوشیرواں کے عدل کی برکت تودیکھوکہ اسی کی نسل کوآل محمدکے نورکی حامل قراردیا اورآئمہ طاہرین کی ایک عظیم فردکواس لڑکی سے پیداکیا جونوشیرواں کی طرف منسوب ہے ،پھرتحریرکرتے ہیں کہ امام حسین کی تمام بیویوں میں یہ شرف صرف جناب شہربانوکونصیب ہوجوحضرت امام زین العابدین کی والدہ ماجدہ ہیں (ینابیع المودة ص ۳۱۵ ،وفصل الخطاب ص ۲۶۱) ۔

علامہ عبیداللہ بحوالہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ جناب شہربانوشاہان فارس کے آخری بادشاہ یزدجردکی بیٹی تھیں اورآپ ہی سے امام زین العابدین متولدہوئے ہیں جن کو”ابن الخیرتین“ کہاجاتاہے کیونکہ حضرت محمدمصطفی فرمایاکرتے تھے کہ خداوندعالم نے اپنے بندوں میں سے دوگروہ عرب اورعجم کوبہترین قراردیاہے اورمیں نے عرب سے قریش اورعجم سے فارس کومنتخب کرلیاہے ،چونکہ عرب اورعجم کااجتماع امام زین العابدین میں ہے اسی لیے آپ کو”ابن الخیرتین“ سے یادکیاجاتاہے (ارجح المطالب ص ۴۳۴) ۔ علاہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ جناب شہربانوکو ”سیدةالنساء “ کہاجاتاہے (مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

 

امام زین العابدین کے بچپن کا ایک واقعہ

علامہ مجلسی رقمطرازہیں کہ ایک دن امام زین العابدین جب کہ آپ کابچپن تھا بیمارہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا”بیٹا“ اب تمہاری طبیعت کیسی ہے اورتم کوئی چیزچاہتے ہوتوبیان کرو تاکہ میں تمہاری خواہش کے مطابق اسے فراہم کرنے کی سعی کروں آپ نے عرض کیا باباجان اب خداکے فضل سے اچھاہوں میری خواہش صرف یہ ہے کہ خداوندعالم میراشماران لوگوں میں کرے جوپروردگارعالم کے قضاوقدرکے خلاف کوئی خواہش نہیں رکھتے ،یہ سن کرامام حسین علیہ السلام خوس ومسرورہوگئے اورفرمانے لگے بیٹا،تم نے بڑامسرت افزا اورمعرفت خیزجواب دیاہے تمہاراجواب بالکل حضرت ابراہیم کے جواب سے ملتاجلتاہے ،حضرت ابراہیم کوجب منجیق میں رکھ کر آگی طرف پھینکا گیاتھا اورآپ فضامیں ہوتے ہوئے آگ کی طرف جارہے تھے توحضرت جبرئیل نے آپ سے پوچھا”ہل لک حاجة“ آپ کی کوئی حاجت وخواہش ہے اس وقت انہوں نے جواب دیاتھا ”نعم اماالیک فلا“ بےشک مجھے حاجت ہے لیکن تم سے نہیں اپنے پالنے والے سے ہے (بحارالانوار جلد ۱۱ ص ۲۱ طبع ایران)۔

 

آپ کے عہدحیات کے بادشاہان وقت آپ کی ولادت بادشاہ دین وایمان حضرت علی علیہ السلام کے عہدعصمت مہدمیں ہوئی پھرامام حسن علیہ السلام کازمانہ رہاپھربنی امیہ کی خالص دنیاوی حکومت ہوگئی، صلح امام حسن کے بعدسے ۶۰ ھ تک معاویہ بن ابی سفیان بادشاہ رہا، اس کے بعداس کافاسق وفاجربیٹا یزید ۶۴ ھ تک حکمران رہا ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزیدابن معاویہ اور مروان بن حکم حاکم رہے ۶۵ ھ سے ۸۶ ھ تک عبدالملک بن مروان حاکم اوربادشاہ رہا پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولیدبن عبدالملک نے حکمرانی کی اوراسی نے ۹۵ ھء میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کوزہردغاسے شہیدکردیا (تاریخ آئمہ ۳۹۲ ،وصواعق محرقہ ص ۱۲ ،نورالابصار ص ۱۲۸) ۔

 

امام زین العابدین کاعہد طفولیت اورحج بیت اللہ

علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ ابراہیم بن اوہم کابیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حج کے لیے جاتاہواقضائے حاجت کی خاطرقافلہ سے پیچھے رہ گیاابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ میں نے ایک نوعمرلڑکے کواس جنگل میں سفرپیمادیکھا اسے دیکھ کرپھرایسی حالت میں کہ وہ پیدل چل رہاتھا اوراس کے ساتھ کوئی سامان نہ تھا اورنہ اس کاکوئی ساتھی تھا،میں حیران ہوگیافورا اس کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہوا ”صاحبزادے“ یہ لق ودق صحرا اورتم بالکل تنہا، یہ معاملہ کیاہے، ذرا مجھے بتاؤتوسہی کہ تمہارازادراہ اورتمہاراراحلہ کہاں ہے اورتم کہاں جارہے ہو؟ اس نوخیزنے جواب دیا ”زادی تقوی وراحلتی رجلاء وقصدی مولای“ میرا زادراہ تقوی اورپرہیزگاری ہے اورمیری سواری میرے دونوں پیرہیں اورمیرامقصد میراپالنے والاہے اورمیں حج کے لے جارہاہوں ،میں نے کہاکہ آپ توبالکل کمسن ہیں حج توابھی آپ پرواجب نہیں ہے اس نوخیزنے جواب دیابے شک تمہاراکہنادرست ہے لیکن اے شیخ میں دیکھاکرتاہوں کہ مجھ سے چھوٹے بچے بھی مرجاتے ہیں اس لیے حج کوضروری سمجھتاہوں کہ کہیں ایسانہ ہوکہ اس فریضہ کی ادائیگی سے پہلے مرجاؤں میں نے پوچھااے صاحبزادے تم نے کھانے کاکیاانتظام کیاہے ،میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے ساتھ کھانے کابھی کوئی معقول انتظام نہیں ہے، اس نے جواب دیااے شیخ کیاجب تم نے کسی کے یہاں مہمان جاتے ہوتوکھانااپنے ہمراہ لے جاتے ہو؟ میں نے کہانہیں پھراس نے فرمایا سنومیں توخداکامہمان ہوکرجارہاہوں کھانے کاانتظام اس کے ذمہ ہے میں نے کہااتنے لمبے سفرکوپیدل کیوں کرطے کروگے اس نے جواب دیاکہ میراکام کوشش کرناہے اورخدا کا کام منزل مقصود تک پہنچانا ہے ۔

ہم ابھی باہمی گفتگو ہی میں مصروف تھے کہ ناگاہ ایک خوبصورت جوان سفیدلباس پہنے ہوئے آ پہنچا اوراس نے اس نوخیزکوگلے سے لگالیا،یہ دیکھ کر میں نے اس جوان رعناسے دریافت کیاکہ یہ نو عمرفرزند کون ہے؟ اس نوجوان نے کہاکہ یہ حضرت امام زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب ہیں، یہ سن کر میں اس جوان رعناکے پاس سے امام کی خدمت میں حاضرہوا اورمعذرت خواہی کے بعدان سے پوچھاکہ یہ خوبصورت جوان جنہوں نے آپ کوگلے سے لگایا یہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایاکہ یہ حضرت خضرنبی ہیں ان کافرض ہے کہ روزانہ ہماری زیارت کے لیے آیاکریں اس کے بعدمیں نے پھرسوال کیااورکہا کہ آخرآپ اس طویل اورعظیم سفرکوبلازاداورراحلہ کیونکہ طے کریں گے توآپ نے فرمایاکہ میں زادارراحلہ سب کچھ رکھتاہوں اوروہ یہ چارچیزیں ہیں :

۱ ۔ دنیااپنی تمام موجودات سمیت خداکی مملکت ہے۔

۲ ۔ ساری مخلوق اللہ کے بندے اورغلام ہیں۔ ۳ ۔ اسباب اورارزاق خداکے ہاتھ میں ہے_

۴ ۔ قضائے خداہرزمین میں نافذہے ۔

یہ سن کرمیں نے کہاخداکی قسم آپ ہی کازادوراحلہ صحیح طورپرمقدس ہستیوں کاسامان سفر ہے (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۴۳۷) علماء کابیان ہے کہ آپ نے ساری عمرمیں ۲۵ حج پاپیادہ کئے ہیں آپ نے سواری پرجب بھی سفرکیاہے اپنے جانورکوایک کوڑابھی نہیں مارا

 

آپ کا حلیہ مبارک

امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ آپ کارنگ گندم گوں (سانولا) اورقدمیانہ تھا آپ نحیف اورلاغرقسم کے انسان تھے (نورالابصار ص ۱۲۶ ، اخبارالاول ص ۱۰۹) ۔

ملامبین تحریرفرماتے ہیں کہ آپ حسن وجمال ،صورت وکمال میں نہایت ہی ممتازتھے، آپ کے چہرہ مبارک پرجب کسی کی نظرپڑتی تھی تووہ آپ کااحترام کرنے اورآپ کی تعظیم کرنے پرمجبورہوجاتاتھا(وسیلة النجات ص ۲۱۹) محمدبن طلحہ شافعی رقمطرازہیں کہ آپ صاف کپڑے پہنتے تھے اورجب راستہ چلتے تھے تونہایت خشوع کے ساتھ راہ روی میں آپ کے ہاتھ زانوسے باہرنہیں جاتے تھے (مطالب السؤل ص ۲۲۶،۲۶۴) ۔

 

حضرت امام زین العابدین کی شان عبادت

جس طرح آپ کی عبادت گزاری میں پیروی ناممکن ہے اسی طرح آپ کی شان عبادت کی رقم طرازی بھی دشوارہے ایک وہ ہستی جس کامطمع نظرمعبودکی عبادت اورخالق کی معرفت میں استغراق کامل ہواورجواپنی حیات کامقصداطاعت خداوندی ہی کوسمجھتاہواورعلم ومعرفت میں حددرجہ کمال رکھتاہو اس کی شان عبادت کی سطح قرطاس پرکیونکر لایاجاسکتاہے اورزبان قلم میں کس طرح کامیابی حاصل کرسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء کی بے انتہاکاہش وکاوش کے باوجود آپ کی شان عبادت کامظاہرہ نہیں ہوسکا ”قدبلغ من العبادة مالم یبلغہ احد“ آپ عبادت کی اس منزل پرفائزتھے جس پرکوئی بھی فائزنہیں ہوا (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹) ۔

اس سلسلہ میں ارباب علم اورصاحبان قلم جوکچھ کہہ اورلکھ سکے ہیں ان میں سے بعض واقعات وحالات یہ ہیں :

 

آپ کی حالت وضو کے وقت

وضو نمازکے لیے مقدمہ کی حیثیت رکھتاہے ،اوراسی پر نماز کا دارو مدار ہوتا ہے ، امام زین العابدین علیہ السلام جس وقت مقدمہ نماز یعنی وضو کا ارادہ فرماتے تھے آپ کے رگ وپے میں خوف خداکے اثرات نمایاں ہوجاتے تھے ،علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ وضوکا قصد فرماتے تھے اوروضوکے لیے بیٹھتے تھے توآپ کے چہرہ مبارک کارنگ زرد ہو جایا کرتا تھا یہ حالت بار باردیکھنے کے بعدان کے گھر والوں نے پوچھا کہ بوقت وضو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد کیوں پڑ جایا کرتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس وقت میرا تصور کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اس لیے اس کی جلالت کے رعب سے میرا یہ حال ہو جایا کرتاہے (مطالب السؤل ص ۲۶۲) ۔

 

عالم نمازمیں

آپ کی حالت علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کوعبادت گزاری میں امتیاز کامل حاصل تھا رات بھرجاگنے کی وجہ سے آپ کاسارابدن زردرہاکرتاتھا اورخوف خدامیں روتے روتے آپ کی آنکھیں پھول جایاکرتی تھیں اورنمازمیں کھڑکھڑے آپ کے پاؤں سوج جایاکرتے تھے (اعلام الوری ص ۱۵۳) اورپیشانی پرگھٹے رہاکرتے تھے اورآپ کی ناک کاسرازخمی رہاکرتاتھا (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹) علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ نمازکے لے مصلی پرکھڑے ہواکرتے تھے تولرزہ براندام ہوجایاکرتے تھے لوگوں نے بدن میں کپکپی اورجسم میںتھرتھری کاسبب پوچھاتوارشادفرمایا کہ میں اس وقت خداکی بارگاہ میں ہوتاہوں اوراس کی جلالت مجھے ازخود رفتہ کردیتی ہے اورمجھ پرایسی حالت طاری کردیتی ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۶) ۔ ایک مرتبہ آپ کے گھرمیں آگ لگ گئی اورآپ نمازمیں مشغول تھے اہل محلہ اورگھروالوں نے بے حدشورمچایا اورحضرت کوپکارا حضورآگ لگی ہوئی ہے مگر آپ نے سرنیازسجدئہ بے نیازسے نہ اٹھایا، آگ بجھادی گئی اختتام نمازپرلوگوں نے آپ سے پوچھاکہ حضورآگ کامعاملہ تھا ہم نے اتناشورمچایا لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔

آپ نے ارشادفرمایا ”ہاں“ مگرجہنم کی آگ کے ڈرسے نمازتوڑکراس آگ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا (شواہدالنبوت ص ۱۷۷) ۔

علامہ شیخ صبان مالکی لکھتے ہیں کہ جب آپ وضوکے لیے بیٹھتے تھے تب ہی سے کانپنے لگتے تھے اورجب تیزہواچلتی تھی توآپ خوف خداسے لاغرہوجانے کی وجہ سے گرکربے ہوش ہوجایاکرتے تھے (اسعاف الراغبین برحاشیہ نورالابصار ۲۰۰) ۔

ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت زین العابدین علیہ السلام نمازشب سفروحضردونوں میں پڑھاکرتے تھے اورکبھی اسے قضانہیں ہونے دیتے تھے (مطالب السؤل ص ۲۶۳) ۔

علامہ محمدباقربحوالہ بحارالانوارتحریرفرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام ایک دن نمازمیں مصروف ومشغول تھے کہ امام محمدباقرعلیہ السلام کنوئیں میں گرپڑے بچہ کے گہرے کنویں میں گرنے سے ان کی ماں بے چین ہوکر رونے لگیں اورکنویں کے گردپیٹ پیٹ کرچکرلگانے لگیں اورکہنے لگیں ،ابن رسول اللہ محمدباقرغرق ہوگئے امام زین العابدین نے بچے کے کنویں میں گرنے کی کوئی پرواہ نہ کی اوراطمینان سے نمازتمام فرمائی اس کے بعدآپ کنویں کے قریب آئے اوراگرپانی کی طرف دیکھا پھرہاتھ بڑھاکر بلارسی کے گہرے کنوئیں سے بچے کوونکال لیا بچہ ہنستاہوابرآمدہوا، قدرت خداوندی دیکھیے اس وقت بہ بچے کے کپڑے بھیگے تھے اورنہ بدن ترتھا(دمعہ ساکبہ ص ۴۳۰ ،مناقب جلد ۴ ص ۱۰۹) ۔

امام شبلنجی تحریرفرماتے ہیں کہ طاؤس راوی کابیان ہے کہ میں نے ایک شب حجراسودکے قریب جاکردیکھاکہ امام زین العابدین بارگاہ خالق میں سجدہ ریزی کر رہے ہیں ،میں اسی جگہ کھڑاہوگیا میں نے دیکھاکہ آپ نے ایک سجدہ کوبے حدطول دیدیاہے یہ دیکھ کر میں نے کان لگایا توسنا کہ آپ سجدہ میں فرماتے ہیں ”عبدک بفنائک مسکینک بفنائک سائلک بفنائک فقیرک بفنائک “ یہ سن کرمیں نے بھی انہیں کلمات کے ذریعہ سے دعامانگی فوراقبول ہوئی (نورالابصار ص ۱۲۶ طبع مصر،ارشادمفیدص ۲۹۶) ۔

 

امام زین العابدین کی شبانہ روز ایک ہزار رکعتیں

لماء کابیان ہے کہ آپ شب وروزمیں ایک ہزاررکعتیں ادافرمایاکرتے تھے (صواعق محرقہ ص ۱۱۹ ،مطالب السؤل ۲۶۷) ۔

چونکہ آپ کے سجدوں کاکوئی شمارنہ تھا اسی لیے آپ کے اعضائے سجود”ثغنہ بعیر“ کے گھٹے کی طرح ہوجایاکرتے تھے اورسال میں کئی مرتبہ کاٹے جاتے تھے (الفرع النامی ص ۱۵۸ ،دمعہ ساکبہ کشف الغمہ ص ۹۰) ۔

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ آپ کے مقامات سجودکے گھٹے سال میں دوبارکاٹے جاتے تھے اورہرمرتبہ پانچ تہ نکلتی تھی (بحارالانوارجلد ۲ ص ۳) علامہ دمیری مورخ ابن عساکرکے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ دمشق میں حضرت امام زین العابدین کے نام سے موسوم ایک مسجدہے جسے”جامع دمشق“کہتے ہیں (حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔

 

امام زین العابدین علیہ السلام منصب امامت پر فائز ہونے سے پہلے

اگرچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ امام بطن مادرسے امامت کی تمام صلاحیتیوں سے بھرپوراآتاہے تاہم فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری اسی وقت ہوتی ہے جب وہ امام زمانہ کی حیثیت سے کام شروع کرے یعنی ایساوقت آجائے جب کائنات ارضی پرکوئی بھی اس سے افضل واعلم برترواکمل نہ ہو، امام زین العابدین اگرچہ وقت ولادت ہی سے امام تھے لیکن فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری آپ پراس وقت عائد ہوئی جب آپ کے والدماجد حضرت امام حسین علیہ السلام درجہ شہادت پرفائزہوکرحیات ظاہری سے محروم ہوگئے۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت ۳۸ ھء میں ہوئی جبکہ حضرت علی علیہ السلام امام زمانہ تھے دوسال ان کی ظاہری زندگی میں آپ نے حالت طفولیت میں ایام حیات گزارے پھر ۵۰ ھء تک امام حسین علیہ السلام کازمانہ رہاپھرعاشورا، ۶ ۱ ھ تک امام حسین علیہ السلام فرائض امامت کی انجام دہی فرماتے رہے عاشورکی دوپہرکے بعدسے ساری ذمہ داری آپ پرعائدہوگئی اس عظیم ذمہ داری سے قبل کے واقعات کاپتہ صراحت کے ساتھ نہیں ملتا،البتہ آپ کی عبادت گزاری اورآپ کے اخلاقی کارنامے بعض کتابوں میں ملتے ہیں بہرصورت حضرت علی علیہ السلام کے آخری ایام حیات کے واقعات اورامام حسن علیہ السلام کے حالات سے متاثرہوناایک لازمی امرہے پھرامام حسین علیہ السلام کے ساتھ تو ۲۳ ۔ ۲۲ سال گزارے تھے یقینا امام حسین علیہ السلام کے جملہ معاملات میں آپ نے بڑے بیٹے کی حیثیت سے ساتھ دیاہی ہوگا لیکن مقصدحسین کے فروغ دینے میں آپ نے اپنے عہدامامت کے آغازہونے پرانتہائی کمال کردیا۔

 

واقعہ کربلا کے سلسلہ میں امام زین العابدین کا شاندار کردار

۲۸/ رجب ۶۰ ھ کو آپ حضرت امام حسین کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے چارماہ قیام کے بعد وہاں سے روانہ ہوکر ۲/ محرم الحرام کو وارد کربلا ہوئے، وہاں پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے آپ علیل ہوگئے اور آپ کی علالت نے اتنی شدت اختیارکی کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک اس قابل نہ ہوسکے کہ میدان میں جاکردرجہ شہادت حاصل کرتے، تاہم فراہم موقع پرآپ نے جذبات نصرت کوبروئے کارلانے کی سعی کی جب کوئی آوازاستغاثہ کان کان میں آئی آپ اٹھ بیٹھے اورمیدان کارزارمیں شدت مرض کے باوجودجاپہنچنے کی سعی بلیغ کی، امام کے استغاثہ پرتوآپ خیمہ سے بھی نکل آئے اورایک چوب خیمہ لے کر میدان کاعزم کردیا،ناگاہ امام حسین کی نظرآپ پرپڑگئی اورانہوں نے جنگاہ سے بقولے حضرت زینب کوآوازدی ”بہن سیدسجادکوروکو ورنہ نسل رسول کاخاتمہ ہوجائے گا“ حکم امام سے زینب نے سیدسجادکومیدان میں جانے سے روک لیایہی وجہ ہے کہ سیدوں کاوجودنظر آرہاہے اگرامام زین العابدین علیل ہوکر شہیدہونے سے نہ بچ جاتے تونسل رسول صرف امام محمدباقرمیں محدودرہ جاتی ،امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ مرض اورعلالت کی وجہ سے آب درجہ شہادت پرفائزنہ ہوسکے (نورالابصار ص ۱۲۶) ۔

شہادت امام حسین کے بعدجب خیموں میں آگ لگائی گئی توآپ انہیں خیموں میں سے ایک خیمہ میںبدستورپڑے ہوئے تھے ،ہماری ہزارجانیں قربان ہوجائیں،حضرت زینب پرکہ انہوں نے اہم فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں سب سے پہلافریضہ امام زین العابدین علیہ السلام کے تحفظ کا ادا فرمایا اور امام کو بچا لیا الغرض رات گزاری اورصبح نمودارہوئی، دشمنوں نے امام زین العابدین کو اس طرح جھنجوڑا کہ آپ اپنی بیماری بھول گیے آپ سے کہاگیاکہ ناقوں پرسب کو سوار کرو اور ابن زیادکے دربارمیں چلو،سب کوسوارکرنے کے بعدآل محمد کاساربان پھوپھیوں ،بہنوں اورتمام مخدرات کولئے ہوئے داخل دربار ہوا حالت یہ تھی کہ عورتیں اوربچے رسیوں میں بندھے ہوئے اورامام لوہے میں جکڑے ہوئے دربارمیں پہنچ گئے آپ چونکہ ناقہ کی برہنہ پشت پرسنبھل نہ سکتے تھے اس لیے آپ کے پیروں کوناقہ کی پشت سے باندھ دیاگیاتھا دربارکوفہ میں داخل ہونے کے بعدآپ اورمخدرات عصمت قیدخانہ میں بندکردئیے گئے ،سات روزکے بعدآپ سب کولیے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوئے اور ۱۹ منزلیں طے کرکے تقریبا ۳۶/ یوم میں وہاں پہنچے کامل بھائی میں ہے کہ ۱۶/ ربیع الاول ۶۱ ھء کوبدھ کے دن آپ دمشق پہنچے ہیں اللہ رے صبرامام زین العابدین بہنوں اورپھوپھیوں کاساتھ اورلب شکوہ پرسکوت کی مہر ۔

حدودشام کاایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑی اورگلے میں خاردارطوق آہنی پڑاہواتھا اس پرمستزادیہ کولوگ آپ برسارہے تھے اسی لیے آپ نے بعدواقعہ کربلاایک سوال کے جواب میں ”الشام الشام الشام“ فرمایاتھا(تحفہ حسینہ علامہ بسطامی)۔

شام پہنچنے کے کئی گھنٹوں یادنوں کے بعدآپ آل محمدکولیے ہئوے سرہائے شہدا سمیت داخل دربارہوئے پھرقیدخانہ میں بندکردئیے گئے تقریباایک سال قید کی مشقتیں جھیلیں۔

قیدخانہ بھی ایساتھاکہ جس میں تمازت آفتابی کی وجہ سے ان لوگوں کے چہروں کی کھالیں متغیرہوگئی تھیں (لہوف) مدت قیدکے بعدآپ سب کولیے ہوئے ۲۰/ صفر ۶۲ ھء کوواردہوئے آپ کے ہمراہ سرحسین بھی کردیاگیاتھا ،آپ نے اسے اپنے پدربزرگوارکے جسم مبارک سے ملحق کیا(ناسخ تواریخ)۔

۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کو آپ امام حسین کا لٹا ہوا قافلہ ہوئے مدینہ منورہ پہنچے ،وہاں کے لوگوں نے آہ و زاری اور کمال رنج وغم سے آپ کا استقبال کیا۔ ۱۵ شبانہ وروز نوحہ وماتم ہوتارہا (تفصیلی واقعات کے لیے کتب مقاتل وسیرملاحظہ کی جائیں۔

اس عظیم واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ زینب کے بال اس طرح سفید ہو گئے تھے کہ جاننے والے انہیں پہچان نہ سکے (احسن القصص ص ۱۸۲ طبع نجف) رباب نے سایہ میں بیٹھناچھوڑدیا امام زین العابدین تاحیات گریہ فرماتے رہے (جلاء العیون ص ۲۵۶) اہل مدینہ یزیدکی بیعت سے علیحدہ ہوکرباغی ہوگئے بالآخرواقعہ حرہ کی نوبت آگئی۔

 

واقعہ کربلا اورحضرت امام زین العابدین کے خطبات

معرکہ کربلاکی غم آگیں داستاں تاریخ اسلام ہی نہیں تاریخ عالم کاافسوسناک سانحہ ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اول سے اخرتک اس ہوش ربا اورروح فرساواقعہ میں اپنے باپ کے ساتھ رہے اورباپ کی شہادت کے بعدخوداس المیہ کے ہیروبنے اورپھرجب تک زندہ رہے اس سانحہ کاماتم کرتے رہے ۔

 

۱۰/ محرم ۶۱ ھ کا واقعہ

یہ اندوہناک حادثہ جس میں ۱۸/ بنی ہاشم اوربہتراصحاب وانصارکام آئے حضرت امام زین العابدین کی مدت العمرگھلاتارہا اورمرتے دم تک اس کی یادفراموش نہ ہوئی اوراس کاصدمہ جانکاہ دورنہ ہوا، آپ یوں تواس واقعہ کے بعدتقریبا چالیس سال زندہ رہے مگر لطف زندگی سے محروم ہرے اورکسی نے آپ کوبشاش اورفرحناک نہ دیکھا،اس جانکاہ واقعہ کربلاکے سلسلہ میں آپ نے جوجابجاخطبات ارشادفرمائے ہیں ان کاترجمہ درج ذیل ہے۔

 

کوفہ میں آپ کاخطبہ

کتاب لہوف ص ۶۸ میں ہے کہ کوفہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین نے لوگوں کوخاموش رہنے کااشارہ کیا،سب خاموش ہوگئے، آپ کھڑے ہوئے خداکی حمدوثناء کی ،حضرت نبی کاذکرکیا، ان پرصلوات بھیجی پھرارشادفرمایاائے لوگو! جومجھے جانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے جونہیں جانتا اسے میں بتاتاہوں میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں ،میں اس کافرزندہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کاسامان لوٹاگیاجس کے اہل وعیال قیدکردئیے گئے میں اس کافرزندہوں جوساحل فرات پرذبح کردیاگیا،اوربغیرکفن ودفن چھوڑدیاگیااور(شہادت حسین)ہمارے فخرکے لیے کافی ہے اے لوگو! تمہارابراہوکہ تم نے اپنے لیے ہلاکت کاسامان مہیاکرلیا، تمہاری رائیں کس قدربری ہیں تم کن آنکھوں سے رسول صلعم کودیکھوگے جب رسول صلعم تم سے بازپرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کوقتل کیااورمیرے اہل حرم کوذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت میں نہیں“۔

 

مسجد دمشق (شام) میں آپ کاخطبہ

مقتل ابی مخنف ص ۱۳۵ ،بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۳۳ ،ریاض القدس جلد ۲ ص ۳۲۸ ، اورروضة الاحباب وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل حرم سمیت درباریزیدمیں داخل کئے گئے اور ان کومنبرپرجانے کاموقع ملاتوآپ منبرپرتشریف لے گئے اورانبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ خطبہ ارشادفرمایا :

ائے لوگو! تم سے جومجھے پہچانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے، اورجونہیں پہچانتامیں اسے بتاتاہوں کہ میں کون ہوں؟ سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں، میں اس کافرزندہوں جس نے حج کئے ہیں اس کافر زندہوں جس نے طواف کعبہ کیاہے اورسعی کی ہے ، میں پسرزمزم وصفاہوں، میں فرزندفاطمہ زہراہوں، میں اسکافرزند جس پس گردن سے ذبح کیاگیا،میں اس پیاسے کافرزند ہوں جوپیاساہی دنیاسے اٹھا،میں اس کافرزندہوں جس پرلوگوں نے پانی بندکردیا، حالانکہ تمام مخلوقات پرپانی کوجائزقراردیا،میں محمدمصطفی صلعم کافرزندہوں، میں اس کافرزندہوں جوکربلامیں شہید کیا گیا،میں اس کا فرزند ہوں جس کے انصار زمین میں آرام کی نیند سوگئے میں اسکا پسرہوں جس کے اہل حرم قیدکردئے گئے میں اس کافرزندہوں جس کے بچے بغیرجرم وخطاذبح کرڈالے گئے ، میں اس کابیٹاہوں جس کے خیموں میں آگ لگادی گئی، میں اس کافرزندہوں جس کاسرنوک نیزہ پربلندکیاگیا، میں اس کافرزندہوں جس کے اہل حرم کی کربلامیںبے حرمتی کی گئی، میں اس کافرزندہوں جس کاجسم کربلاکی زمین پرچھوڑدیاگیااورسردوسرے مقامات پرنوک نیزہ پربلندکرکے پھرایاگیا میں اس کافرزندہوں جس کے اردگردسوائے دشمن کے کوئی اورنہ تھا،میں اس کافرزندہوں جس کے اہل حرم کوقیدکرکے شام تک پھرایاگیا، میں اس کافرزندہوں جوبے یارومددگارتھا۔

پھرامام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدانے ہم کوپانچ فضیلت بخشی ہیں :

۱ ۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھرمیں فرشتوں کی آمدورفت رہی اورہم ہی معدن نبوت ورسالت ہیں۔

۲ ۔ ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں، اورہم نے لوگوں کی ہدایت کی۔

۳ ۔ شجاعت ہمارے ہی گھرکی کنیزہے ،ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے اورفصاحت ہماراہی حصہ ہے، جب فصحاء فخرومباہات کریں۔

۴ ۔ ہم ہی صراط مستقیم اورہدایت کامرکزہیں اوراس کے لیے علم کاسرچشمہ ہیں جوعلم حاصل کرناچاہے اوردنیاکے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے۔

۵ ۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اورزمینوں میں بلندہیں ،اکرہم نہ ہوتے توخدادنیاکوپیداہی نہ کرتا،ہرفخرہمارے فخرکے سامنے پست ہے، ہمارے دوست (روزقیامت ) سیروسیراب ہوں گے اورہمارے دشمن روزقیامت بدبختی میں ہوں گے۔

جب لوگوں نے امام زین العابدین کاکلام سناتوچینخ مارکررونے اورپیٹنے لگے اوران کی آوازیں بے ساختہ بلندہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزیدگھبرااٹھاکہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فورا موذن کوحکم دیا(کہ اذان شروع کرکے) امام کے خطبہ کومنقطع کردے، موذن (گلدستہ اذان پرگیا) _

اورکہا”اللہ اکبر“ (خداکی ذات سب سے بزرگ وبرترہے) امام نے فرمایاتونے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اورایک عظیم الشان ذات کی عظمت کااظہارکیااورجوکچھ کہا”حق“ ہے ۔پھرموذن نے کہا”اشہد ان لاالہ الااللہ (میں گواہی دیتاہوں کہ خداکے سوا کوئی معبودنہیں) امام نے فرمایامیں بھی اس مقصدکی ہرگواہ کے ساتھ گواہی دیتاہوں اورہرانکارکرنے والے کے خلاف اقرارکرتاہوں۔

پھرموذن نے کہ” اشہدان محمدا رسول اللہ“ (میں گواہی دیتاہوں کہ محمدمصطفی اللہ کے رسول ہیں) فبکی علی، یہ سن کرحضرت علی ابن الحسین روپڑے اورفرمایا ائے یزیدمیں تجھ سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں بتا حضرت محمدمصطفی میرے نانا تھے یاتیرے ، یزید نے کہا آپ کے، آپ نے فرمایا،پھر کیوں تونے ان کے اہلبیت کو شہید کیا، یزیدنے کوئی جواب نہ دیا اور اپنے محل میں یہ کہتا ہوا چلاگیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نمازسے کوئی واسطہ نہیں،اس کے بعد منہال بن عمرکھڑے ہوگئے اور کہا فرزند رسول آپ کا کیاحال ہے، فرمایا اے منہال ایسے شخص کا کیا حال پوچھتے ہو جس کا باپ (نہایت بے دردی سے) شہید کر دیا گیا ہو، جس کے مدد گار ختم کر دئیے گئے ہوں جو اپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کو قیدی دیکھ رہا ہو،جن کانہ پردہ رہ گیانہ چادریں رہ گئیں، جن کا نہ کوئی مددگار ہے نہ حامی، تم تودیکھ رہے ہوکہ میں مقیدہوں، ذلیل و رسوا کیا گیا ہوں، نہ کوئی میراناصرہے،نہ مددگار، میں اورمیرے اہل بیت لباس کہنہ مین ملبوس ہیں ہم پرنئے لباس حرام کردئیے گئے ہیں اب جوتم میراحال پوچھتے ہوتومیںتمہارے سامنے موجودہوں تم دیکھ ہی رہے ہو،ہمارے دشمن ہمیں برابھلاکہتے ہیں اورہم صبح وشام موت کاانتظارکرتے ہیں۔

پھرفرمایا عرب وعجم اس پرفخرکرتے ہیں کہ حضرت محمدمصطفی ان میں سے تھے، اورقریش عرب پراس لیے فخرکرتے ہیں کہ آنحضرت صلعم قریش میں سے تھے اورہم ان کے اہلبیت ہیں لیکن ہم کوقتل کیاگیا، ہم پرظلم کیاگیا،ہم پرمصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اورہم کوقیدکرکے دربدرپھرایاگیا،گویاہماراحسب بہت گراہواہے اورہمارانسب بہت ذلیل ہے، گویاہم عزت کی بلندیوں پرنہیں چڑھے اوربزرگوں کے فرش پرجلوہ افروزنہیں ہوئے آج گویا تمام ملک یزیداوراس کے لشکرکا ہوگیا اور آل مصطفی صلعم یزید کی ادنی غلام ہوگئی ہے، یہ سننا تھا کہ ہرطرف سے رونے پیٹنے کی صدائیں بلند ہوئیں_

یزیدبہت خائف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس شخص سے کہاجس نے امام کومنبرپرتشریف لے جانے کے لیے کہاتھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“ تیرابراہوتوان کومنبربربٹھاکرمیری سلطنت ختم کرناچاہتاہے اس نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتاتھا کہ یہ لڑکا اتنی بلندگفتگوکرے گا یزیدنے کہاکیاتونہیں جانتاکہ یہ اہلبیت نبوت اورمعدن رسالت کی ایک فردہے، یہ سن کرموذن سے نہ رہاگیا اوراس نے کہاایے یزید”اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب تویہ جانتاتھا توتونے ان کے پدربزرگوارکوکیوں شہیدکیا،موذن کی گفتگوسن کریزیدبرہم ہوگیا،”فامربضرب عنقہ“ اورموذن کی گردن ماردینے کاحکم دیدیا۔

 

مدینہ کے قریب پہنچ کرآپ کاخطبہ

مقتل ابی مخنف ص ۸۸ میں ہے (ایک سال تک قیدخانہ شام کی صعوبت برداشت کرنے کے بعدجب اہل بیت رسول کی رہائی ہوئی اوریہ قافلہ کربلاہوتاہوامدینہ کی طرف چلاتوقریب مدینہ پہنچ کرامام علیہ السلام نے لوگوں کوخاموش ہوجانے کااشارہ کیا،سب کے سب خاموش ہوگئے آپ نے فرمایا:

حمد اس خدا کی جو تمام دنیا کا پروردگارہے، روزجزاء کامالک ہے ، تمام مخلوقات کاپیداکرنے والاہے جواتنادورہے کہ بلندآسمان سے بھی بلندہے اوراتناقریب ہے کہ سامنے موجودہے اورہماری باتوں کاسنتاہے، ہم خداکی تعریف کرتے ہیں اوراس کاشکربجالاتے ہیں عظیم حادثوں،زمانے کی ہولناک گردشوں، دردناک غموں، خطرناک آفتوں ، شدیدتکلیفوں، اورقلب وجگرکوہلادینے والی مصیبتوں کے نازل ہونے کے وقت اے لوگو! خداورصرف خداکے لیے حمدہے، ہم بڑے بڑے مصائب میں مبتلاکئے گئے ،دیواراسلام میں بہت بڑارخنہ(شگاف) پڑگیا، حضرت ابوعبداللہ الحسین اوران کے اہل بیت شہیدکردیے گئے، ان کی عورتیں اوربچے قیدکردئیے گئے اور(لشکریزیدنے)ان کے سرہائے مبارک کوبلندنیزوں پررکھ کر شہروں میں پھرایا، یہ وہ مصیبت ہے جس کے برابرکوئی مصیبت نہیں، اے لوگو! تم سے کون مردہے جوشہادت حسین کے بعدخوش رہے یاکونسادل ہے جوشہادت حسین سے غمگین نہ ہویاکونسی آنکھ ہے جوآنسوؤں کوروک سکے، شہادت حسین پرساتوں آسمان روئے، سمندراوراس کی شاخیں ورئیں، مچھلیاں اورسمندرکے گرداب روئے ملائکہ مقربین اورتمام آسمان والے روئے، اے لوگو! کون ساقطب ہے جوشہادت حسین کی خبرسن کرنہ پھٹ جائے، کونساقلب ہے جومحزون نہ ہو، کونساکان ہے جواس مصیبت کوسن کرجس سے دیواراسلام میں رخنہ پڑا،بہرہ نہ ہو، اے لوگو! ہماری یہ حالت تھی کہ ہم کشاں کشاں پھرائے جاتے تھے، دربدرٹھکرائے جاتے تھے ذلیل کئے گئے شہروں سے دورتھے، گویاہم کواولادترک وکابل سمجھ لیاگیاتھا ،حالانکہ نہ ہم نے کوئی جرم کیاتھا نہ کسی برائی کاارتکاب کیاتھا نہ دیواراسلام میں کوئی رخنہ ڈالاتھا اورنہ ان چیزوں کے خلاف کیاتھاجوہم نے اپنے اباؤاجدادسے سناتھا،خداکی قسم اگرحضرت نبی بھی ان لوگوں(لشکریزید) کوہم سے جنگ کرنے کے لیے منع کرتے (تویہ نہ مانتے) جیساکہ حضرت نبی نے ہماری وصایت کااعلان کیا (اوران لوگوں نے مانا)بلکہ جتنا انہوں نے کیاہے اس سے زیادہ سلوک کرتے،ہم خداکے لیے ہیں اورخداکی طرف ہماری بازگشت ہے“۔

 

روضہ رسول پرامام علیہ السلام کی فریاد

مقتل ابی مخنف ص ۱۴۳ میں ہے کہ جب یہ لٹاہواقافلہ مدینہ میں داخل ہواتوحضرت ام کلثوم گریہ وبکاکرتی ہوئی مسجدنبوی میں داخل ہوئیں اورعرض کی، اے ناناآپ پرمیراسلام ہو”انی ناعیة الیک ولدک الحسین“ میں آپ کوآپ کے فرزندحسین کی خبرشہادت سناتی ہوں، یہ کہناتھا کہ قبررسول سے گریہ کی صدابلندہوئی اورتمام لوگ رونے لگے پھرحضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے ناناکی قبرمبارک پرتشریف لائے اوراپنے رخسارقبرمطہرسے رگڑتے ہوئے یوں فریادکرنے لگے :

 

اناجیک یاجداہ یاخیرمرسل

اناجیک محزوناعلیک موجلا

 

سبیناکماتسبی الاماء ومسنا

حبیبک مقتول ونسلک ضائع

 

اسیرا ومالی حامیا ومدافع

من الضرمالاتحملہ الاصابع

 

ترجمہ: میں آپ سے فریادکرتاہوں اے نانا، اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر،آپ کامحبوب ”حسین“ شہید کر دیا گیا اور آپ کی نسل تباہ و برباد کردی گئی، اے نانامیں رنج وغم کاماراآپ سے فریادکرتاہوں مجھے قید کیاگیامیراکوئی حامی ومددگار نہ تھا اے نانا ہم سب کواس طرح قیدکیاگیا،جس طرح (لاوارث) کنیزوں کوقیدکیا جاتاہے،اے ناناہم پراتنے مصائب ڈھائے گئے جو انگلیوں پرگنے نہیں جاسکتے۔

 

امام زین العابدین اور خاک شفا

مصباح المتہجد میں ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ایک کپڑے میں بندھی ہوئی تھوڑی سی خاک شفاء کرتی تھی (مناقب جلد ۲ ص ۳۲۹ طبع ملتان)۔

حضرت کے ہمراہ خاک شفاء کاہمیشہ رہناتین حال سے خالی نہ تھایااسے تبرکارکھتے تھے یااس پرنمازمیں سجدہ کرتے تھے یااسے بحیثیت محافظ رکھتے تھے اورلوگوں کویہ بتانا مقصودرہتاتھا کہ جس کے پاس خاک شفاء ہووہ جملہ مصائب وآلام سے محفوظ رہتاہے اوراس کامال چوری نہیں ہوتا جیساکہ احادیث سے واضح ہے ۔

 

امام زین العابدین اور محمدحنفیہ کے درمیان حجراسود کا فیصلہ

آل محمد کے مدینہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین کے چچامحمدحنفیہ نے بروایت اہل اسلام امام سے خواہش کی کہ مجھے تبرکات امامت دیدو، کیونکہ میں بزرگ خاندان اورامامت کااہل وحقدارہوں آپ نے فرمایاکہ حجراسودکے پاس چلووہ فیصلہ کردے گا جب یہ حضرات اس کے پاس پہنچے تووہ بحکم خدایوں بولا ”امامت زین العابدین کاحق ہے“ اس فیصلہ کودونوں نے تسلیم کرلیا (شواہدالنبوت ص ۱۷۶) ۔

کامل مبردمیں ہے کہ اس واقعہ کے بعدسے محمدحنفیہ ،امام زین العابدین کی بڑی عزت کرتے تھے ایک دن ابوخالدکابلی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی توکہاکہ حجراسودنے خلافت کاان کے حق میں فیصلہ دے دیاہے اوریہ امام زمانہ ہیں یہ سنکر وہ مذہب امامیہ کاقائل ہوگیا(مناقب جلد ۲ ص ۳۲۶) ۔

 

ثبوت امامت میں امام زین العابدین کا کنکری پرمہر فرمانا

اصول کافی میں ہے کہ ایک عورت جس کی عمر ۱۱۳ سال کی ہوچکی تھی ایک دن امام زین العابدین کے پاس آئی اس کے پاس وہ کنکری تھی جس پرحضرت علی امام حسن ،امام حسین کی مہرامامت لگی ہوئی تھی اس کے آتے ہی بلاکہے ہوئے آپ نے فرمایاکہ وہ کنکری لاجس پرمیرے آباؤاجدادکی مہریں لگی ہوئی ہیں اس پر میں بھی مہرکردوں چنانچہ اس نے کنکری دیدی آپ نے اسے مہرکرکے واپس کردی، اوراس کی جوانی بھی پلٹادی،وہ خوش وخرم واپس چلی گئی (دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۶) ۔

 

واقعہ حرہ اور امام زین العابدین علیہ السلام

مستند تواریخ میں ہے کہ کربلاکے بے گناہ قتل نے اسلام میں ایک تہلکہ ڈال دیاخصوصا ایران میں ایک قوی جوش پیداکردیا،جس نے بعدمیں بنی عباس کوبنی امیہ کے غارت کرنے میں بڑی مدددی چونکہ یزیدتارک الصلواة اور شارب الخمر تھا اور بیٹی بہن سے نکاح کرتا اور کتوں سے کھیلتا تھا ،اس کی ملحدانہ حرکتوں اورامام حسین کے شہید کرنے سے مدینہ میں اس قدرجوش پھیلا کر ۶۲ ھء میں اہل مدینہ نے یزیدکی معطلی کا اعلان کردیا اور عبداللہ بن حنظلہ کو اپنا سردار بنا کر یزیدکے گورنرعثمان بن محمدبن ابی سفیان کومدینہ سے نکال دیا، سیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتاہے کہ غسیل الملائکہ (حنظلہ) کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت یزیدکی خلافت سے انکارنہیں کیاجب تک ہمیں یہ یقین نہیں ہوگیاکہ آسمان سے پتھربرس پڑیں گے غضب ہے کہ لوگ ماں بہنوں،اوربیٹیوں سے نکاح کریں ۔ علانیہ شرابیں پئیں اورنمازچھوڑبیٹھیں ۔

یزیدنے مسلم بن عقبہ کوجوخونریزی کی کثرت کے سبب ”مسرف“ کے نام سے مشہورہے ،فوج کثیردے کر اہل مدینہ کی سرکوبی کوروانہ کیا اہل مدینہ نے باب الطیبہ کے قریب مقام”حرہ“ پرشامیوں کامقابلہ کیا،گھمسان کارن پڑا،مسلمانوں کی تعداد شامیوں سے بہت کم تھی باوجودیکہ انہوں نے داد مردانگی دی ،مگر آخرشکست کھائی ،مدینہ کے چیدہ چیدہ بہادررسول اللہ کے بڑے بڑے صحابی انصارومہاجراس ہنگامہ آفت میں شہید ہوئے، شامی شہرمیں گھس گئے مزارات کوان کی زینت و آرایش کی خاطرمسمار کردیا،ہزاروں عورتوں سے بدکاری کی ہزاروں باکرہ لڑکیوں کاازالہ بکارت کرڈالا،شہرکولوٹ لیا،تین دن قتل عام کرایا،دس ہزارسے زائدباشندگان مدینہ جن میں سات سومہاجروانصاراوراتنے ہی حاملان و حافظان قران علماء وصلحاء ومحدث تھے اس واقعہ میں مقتول ہوئے ہزاروں لڑکے لڑکیاں غلام بنائی گئیں اور باقی لوگوں سے بشرط قبول غلامی یزیدکی بیعت لی گئی۔

مسجد نبوی اورحضرت کے حرم محترم میں گھوڑے بندھوائے گئے یہاں تک کہ لیدکے انبارلگ گئے یہ واقعہ جوتاریخ اسلام میں واقعہ حرہ کے نام سے مشہورہے ۔ ۲۷/ ذی الحجہ ۶۳ ھء کو ہواتھا اس واقعہ پرمولوی امیرعلی لکھتے ہیںکہ کفروبت پرستی نے پھرغلبہ پایا، ایک فرنگی مورخ لکھتاہے کہ کفرکادوبارہ جنم لینااسلام کے لیے سخت خوفناک اورتباہی بخش ثابت ہوابقیہ تمام مدینہ کویزیدکاغلام بنایاگیا،جس نے انکارکیا اس کاسراتارلیاگیا، اس رسوائی سے صرف دوآدمی بچے ”علی بن الحسین“ اورعلی بن عبداللہ بن عباس ان سے یزیدکی بیعت بھی نہیں لی گئی ۔

مدارس شفاخانے اوردیگررفاہ عام کی عمارتیں جوخلفاء کے زمانے میں بنائی گئیں تھی یاتوبندکردی گئیں یامسماراورعرب پھرایک ویرانہ بن گیا،اس کے چندمدت بعدعلی بن الحسین کے پوتے جعفرصادق نے اپنے جدامجدعلی مرتضی کامکتب خانہ پھرمدینہ میں جاری کیا،مگریہ صحرامیں صرف ایک ہی سچانخلستان تھا اس کے چاروں طرف ظلمت وضلالت چھائی ہوئی تھی ،مدینہ پھرکبھی نہ سنبھل سکا، بنی امیہ کے عہدمیں مدینہ ایسی اجڑی بستی ہوگیاکہ جب منصورعباس زیارت کومدینہ میں آیاتواسے ایک رہنماکی ضرورت پڑی جواس کووہ مکانات بتائے جہاں ابتدائی زمانہ کے بزرگان اسلام رہاکرتے تھے (تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۶ ، تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۹۱ ،تاریخ فخری ص ۸۶ ،تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۹ ،صواعق محرقہ ص ۱۳۲) ۔

 

واقعہ حرہ اور آپ کی قیام گاہ

تواریخ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی ایک چھوٹی سی جگہ ”منبع“ نامی تھی جہاں کھیتی باڑی کاکام ہوتاتھا واقعہ حرہ کے موقع پرآپ شہرمدینہ سے نکل کراپنے گاؤں چلے گئے تھے (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت علی خلیفہ عثمان کے عہدمیں قیام پذیرتھے (عقدفریدجلد ۲ ص ۲۱۶) ۔

 

خاندانی دشمن مروان کے ساتھ آپ کی کرم گستری

واقعہ حرہ کے موقع پرجب مروان نے اپنی اوراہل وعیال کی تباہی وبربادی کایقین کرلیاتوعبداللہ بن عمرکے پاس جاکرکہنے لگاکہ ہماری محافظت کرو، حکومت کی نظرمیری طرف سے بھی پھری ہوئی ہے ،میں جان اورعورتوں کی بے حرمتی سے ڈرتاہوں ،انہوں نے صاف انکارکردیا،اس وقت وہ امام زین العابدین کے پاس آیااوراس نے اپنی اوراپنے بچوں کی تباہی وبربادی کاحوالہ دے کرحفاظت کی درخواست کی حضرت نے یہ خیال کیے بغیرکہ یہ خاندانی ہمارادشمن ہے اوراس نے واقعہ کربلاکے سلسلہ میں پوری دشمنی کامظاہرہ کیاہے آپ نے فرمادیابہترہے کہ اپنے بچوں کومیرے پاس بمقام منبع بھیجدو، جہاں میرے بچے رہیں گے تمہارے بھی رہیں گے چنانچہ وہ اپنے بال بچوں کوجن میں حضرت عثمان کی بیٹی عائشہ بھی تھیں آپ کے پاس پہنچاگیااورآپ نے سب کی مکمل حفاظت فرمائی (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) ۔

 

دشمن ازلی حصین بن نمیرکے ساتھ آپ کی کرم نوازی

مدینہ کوتباہ وبربادکرنے کے بعدمسلم بن عقبہ ابتدائے ۶۴ ھ میں مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوگیا اتفاقا راہ میں بیمار ہو کروہ گمراہ راہی جہنم ہوگیا،مرتے وقت اس نے حصین بن نمیر کو اپنا جانشین مقرر کردیا اس نے وہاں پہنچ کرخانہ کعبہ پرسنگ باری کی اوراس میں آگ لگادی، اس کے بعدمکمل محاصرہ کرکے عبداللہ ابن زبیر کوقتل کرناچاہا اس محاصرہ کوچالیس دن گزرے تھے کہ یزیدپلیدواصل جہنم ہوگیا، اس کے مرنے کی خبرسے ابن زبیرنے غلبہ حاصل کرلیااوریہ وہاں سے بھاگ کرمدینہ جا پہنچا۔

مدینہ کے دوران قیام میں اس معلون نے ایک دن بوقت شب چندسواروں کولے کرفوج کے غذائی سامان کی فراہمی کے لیے ایک گاؤں کی راہ پکڑی ،راستہ میں اس کی ملاقات حضرت امام زین العابدین سے ہوگئی ،آپ کے ہمراہ کچھ اونٹ تھے جن پرغذائی سامان لداہواتھا اس نے آپ سے وہ غلہ خریدناچاہا، آپ نے فرمایاکہ اگرتجھے ضرورت ہے تویونہی لے لے ہم اسے فروخت نہیں کرسکتے (کیونکہ میں اسے فقراء مدینہ کے لیے لایاہوں) اس نے پوچھاکہ آپ کانام کیاہے،آپ نے فرمایامجھے ”علی بن الحسین“ کہتے ہیں پھرآپ نے اس سے نام دریافت کیاتواس نے کہامیں حصین بن نمیرہوں، اللہ رے، آپ کی کرم نوازی، آپ جاننے کہ باوجودکہ یہ میرے باپ کے قاتلوں میں سے ہے اسے ساراغلہ مفت دیدیا(اورفقراء کے لیے دوسرابندوبست فرمایا) اس نے جب آپ کی یہ کرم گستری دیکھی اوراچھی طرح پہچان بھی لیاتوکہنے لگاکہ یزیدکاانتقال ہوچکاہے آپ سے زیادہ مستحق خلافت کوئی نہیں، آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں، میں آپ کوتخت خلافت پربٹھاؤں گا،آپ نے فرمایاکہ میں خداوندعالم سے عہدکرچکاہوں کہ ظاہری خلافت قبول نہ کرو ں گا، یہ فرماکر آپ اپنے دولت سراکوتشریف لے گئے(تاریخ طبری فارسی ص ۶۴۴) ۔

 

امام زین العابدین اور فقراء

مدینہ کی کفالت علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ کے سوگھروں کی کفالت فرماتے تھے اورساراسامان ان کے گھرپہنچایاکرتے تھے جنہیں آپ بہ بھی معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کوکون دے جاتاہے آپ کااصول یہ تھاکہ بوریاں پشت پرلادکر گھروں میں روٹی اورآٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اوریہ سلسلہ تابحیات جاری رہا، بعض معززین کاکہناہے کہ ہم نے اہل مدینہ کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ امام زین العابدین کی زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۵ ،نورالابصار ص ۱۲۶) ۔

 

امام زین العابدین اوربنیاد کعبہ محترمہ و نصب حجر اسود

 ۷۱ ھ میں عبدالملک بن مروان نے عراق پرلشکرکشی کرکے مصعب بن زبیرکوقتل کیا بھر ۷۲ ھء میں حجاج بن یوسف کوایک عظیم لشکرکے ساتھ عبداللہ بن زبیرکو قتل کرنے کے لیے مکہ معظمہ روانہ کیا۔(ابوالفداء)۔

وہاں پہنچ کرحجاج نے ابن زبیرسے جنگ کی ابن زبیرنے زبردست مقابلہ کیا اوربہت سی لڑائیاں ہوئیں ،آخرمیں ابن زبیرمحصورہوگئے اورحجاج نے ابن زبیرکوکعبہ سے نکالنے کے لیے کعبہ پرسنگ باری شروع کردی، یہی نہیں بلکہ اسے کھدواڈالا، ابن زبیرجمادی الآخر ۷۳ ھء میں قتل ہوا(تاریخ ابن الوردی)۔ اورحجاج جوخانہ کعبہ کی بنیادتک خراب کرچکاتھا اس کی تعمیرکی طرف متوجہ ہوا۔ علامہ صدوق کتاب علل الشرائع میں لکھتے ہیں کہ حجاج کے ہدم کعبہ کے موقع پرلوگ اس کی مٹی تک اٹھاکرلے گئے اورکعبہ کواس طرح لوٹ لیاکہ اس کی کوئی پرانی چیزباقی نہ رہی، پھرحجاج کوخیال پیداہواکہ اس کی تعمیرکرانی چاہئے چنانچہ اس نے تعمیر کا پروگرام مرتب کرلیا اور کام شروع کرا دیا، کام کی ابھی بالکل اتبدائی منزل تھی کہ ایک اژدھا بر آمد ہو کر ایسی جگہ بیٹھ گیا جس کے ہٹے بغیر کام آگے نہیں بڑھ سکتا تھا لوگوں نے اس واقعہ کی اطلاع حجاج کودی، حجاج گھبرااٹھا اورلوگوں کوجمع کرکے ان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے جب لوگ اس کا حل نکالنے سے قاصر رہے تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ آج کل فرزند رسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یہاں آئے ہوئے ہیں، بہتر ہوگا کہ ان سے دریافت کرایا جائے یہ مسئلہ ان کے علاوہ کوئی حل نہیں کر سکتا، چنانچہ حجاج نے آپ کو زحمت تشریف آوری دی، آپ نے فرمایا کہ اے حجاج تونے خانہ کعبہ کو اپنی میراث سمجھ لیا ہے تو نے تو بنائے ابراہیم علیہ السلام کو اکھڑوا کر راستہ میں ڈلوا دیا ہے ”سن“ تجھے خدا اس وقت تک کعبہ کی تعمیرمیں کامیاب نہ ہونے دیے گا جب تک تو کعبہ کا لٹا ہوا سامان واپس نہ منگائے گا، یہ سن کر اس نے اعلان کیا کہ کعبہ سے متعلق جو شے بھی کسی کے پاس ہو وہ جلد سے جلد واپس کرے، چنانچہ لوگوں نے پتھر مٹی وغیرہ جمع کر دی جب آپ اس کی بنیاد استوار کی اور حجاج سے فرمایا کہ اس کے اوپر تعمیر کراؤ  ”فلذالک صار البیت مرتفعا“ پھر اسی بنیاد پر خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی (کتاب الخرائج والجرائح میں علامہ قطب راوندی لکھتے ہیں کہ جب تعمیرکعبہ اس مقام تک پہنچی جس جگہ حجر اسود نصب کرنا تھا تو یہ دشواری پیش ہوئی کہ جب کوئی عالم،زاہد، قاضی اسے نصب کرتا تھا تو”یتزلزل ویضطرب ولایستقر“ حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پر ٹہرتا نہ تھا بالآخر امام زین العابدین علیہ السلام بلائے گئے اور آپ نے بسم اللہ کہہ کر اسے نصب کردیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے اللہ اکبر کانعرہ لگایا(دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۷) ۔

علماء ومورخین کابیان ہے کہ حجاج بن یوسف نے یزیدبن معاویہ ہی کی طرح خانہ کعبہ پرمنجنیق سے پتھروغیرہ پھنکوائے تھے۔

 

امام زین العابدین اورعبدالملک بن مروان کا حج

بادشاہ دنیاعبدالملک بن مروان اپنے عہدحکومت میں اپنے پایہ تخت سے حج کے لیے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچااوربادشاہ دین حضرت امام زین العابدین بھی مدینہ سے روانہ ہوکرپہنچ گئے مناسک حج کے سلسلہ میں دونوں کاساتھ ہوگیا، حضرت امام زین العابدین آگے آگے چل رہے تھے اوربادشاہ پیچھے چل رہاتھا عبدالملک بن مروان کویہ بات ناگوارہوئی اوراس نے آپ سے کہاکیامیں نے آپ کے باپ کوقتل کیاہے جوآپ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے، آپ نے فرمایاکہ جس نے میرے باپ کوقتل کیاہے اس نے اپنی دیناوآخرت خراب کرلی ہے کیاتوبھی یہی حوصلہ رکھتاہے اس نے کہانہیں میرامطلب یہ ہے کہ آپ میرے پاس ائیں تاکہ میں آپ سے کچھ مالی سلوک کروں، آ پ نے ارشادفرمایا مجھے تیرے مال دنیاکی ضرورت نہیں ہے مجھے دینے والاخداہے یہ کہہ کر آپ نے اسی جگہ زمین پرردائے مبارک ڈال دی اورکعبہ کی طرف اشارہ کرکے کہا،میرے مالک اسے بھردے، امام کی زبان سے الفاظ کانکلنا تھاکہ ردائے مبارک موتیوں سے بھرگئی ،آپ نے اسے راہ خدامیں دیدیا(دمعہ ساکبہ،جنات الخلود ص ۲۳) ۔

 

امام زین العابدین علیہ السلام اخلاق کی دنیا میں

امام زین العابدین علیہ السلام چونکہ فرزند رسول تھے اس لئے آپ میں سیرت محمدیہ کاہونا لازمی تھا علامہ محمدابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کو برا بھلاکہا، آپ نے فرمایا بھائی میں نے تو تیرا کچھ نہیں بگاڑا، اگرکوئی حاجت رکھتا ہے تو بتا تاکہ میں پوری کروں ،وہ شرمندہ ہوکرآپ کے اخلاق کاکلمہ پڑھنے لگا(مطالب السؤل ص ۲۶۷) ۔

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں ،ایک شخص نے آپ کی برائی آپ کے منہ پرکی آپ نے اس سے بے توجہی برتی، اس نے مخاطب کرکرکے کہا،میں تم کوکہہ رہاہوں، آپ نے فرمایا،میں حکم خدا”واعرض عن الجاہلین“ جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو پرعمل کررہاہوں (صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔ علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے آکرکہاکہ فلاں شخص آپ کی برائی کررہاتھا آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے پاس لے چلو، جب وہاں پہنچے تواس سے فرمایابھائی جوبات تونے میرے لیے کہی ہے، اگرمیں نے ایساکیاہوتوخدامجھے بخشے اوراگرنہیں کیاتوخداتجھے بخشے کہ تونے بہتان لگایا۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ مسجدسے نکل کرچلے توایک شخص آپ کوسخت الفاظ میں گالیاں دینے لگا آپ نے فرمایاکہ اگرکوئی حاجت رکھتاہے تومیں پوری کروں، ”اچھالے“ یہ پانچ ہزاردرہم ،وہ شرمندہ ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ پربہتان باندھا،آپ نے فرمایامیرے اورجہنم کے درمیان ایک گھاٹی ہے،اگرمیں نے اسے طے کرلیاتوپرواہ نہیں جوجی چاہے کہواوراگراسے پارنہ کرسکاتومیں اس سے زیادہ برائی کامستحق ہوں جوتم نے کی ہے (نورالابصار ص ۱۲۷ ۔ ۱۲۶) ۔

علامہ دمیری لکھتے ہیں کہ ایک شامی حضرت علی کو گالیاں دے رہاتھا، امام زین العابدین نے فرمایا بھائی تم مسافرمعلوم ہوتے ہو،اچھا میرے ساتھ چلو،میرے یہاں قیام کرو،اورجوحاجت رکھتے ہوبتاؤتاکہ میں پوری کروں وہ شرمندہ ہوکرچلاگیا(حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔ علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے بیان کیاکہ فلاں شخص آپ کوگمراہ اوربدعتی کہتاہے،آپ نے فرمایا افسوس ہے کہ تم نے اس کی ہمنشینی اوردوستی کاکوئی خیال نہ کیا، اورا سکی برائی مجھ سے بیان کردی،دیکھویہ غیبت ہے ،اب ایساکبھی نہ کرنا(احتجاج ص ۳۰۴) ۔

جب کوئی سائل آپ کے پاس آتا تھا تو خوش ومسرور ہوجاتے تھے اور فرماتے تھے خداتیرا بھلا کرے کہ تو میرا زاد راہ آخرت اٹھانے کے لیے آگیاہے (مطالب السؤل ص ۲۶۳) ۔

امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ کاملہ میں فرماتے ہیں خداوندمیراکوئی درجہ نہ بڑھا،مگریہ کہ اتناہی خودمیرے نزدیک مجھ کوگھٹا اورمیرے لیے کوئی ظاہری عزت نہ پیداکرمگریہ کہ خودمیرے نزدیک اتنی ہی باطنی لذت پیداکردے۔

 

امام زین العابدین اورصحیفہ کاملہ

کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کامجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجوہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔

اسے علماء اسلام نے زبور آل محمد اور انجیل اہلبیت کہاہے (ینابیع المودة ص ۴۹۹ ،فہرست کتب خانہ طہران ص ۳۶) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کودیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کادرجہ دیاگیاہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں جن میں میرے نزدیک ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔

 

امام زین العابدین عمربن عبدالعزیزکی نگاہ میں

۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان کے انتقال کے بعداس کابیٹاولید بن عبدالملک خلیفہ بنایاگیایہ حجاج بن یوسف کی طرح نہایت ظالم وجابرتھا اسی کے عہدظلمت مین عمربن عبدالعزیزجوکہ ولیدکاچچازادبھائی تھا حجازکاگورنرہوایہ برامنصف مزاج اورفیاض تھا ،اسی کے عہدگورنری کاایک واقعہ یہ ہے کہ ۸۷ ھ ء میں سرورکائنات کے روضہ کی ایک دیوارگرگئی تھی جب اس کی مرمت کاسوال پیداہوا، اوراس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی ابتداء کی جائے توعمربن عبدالعزیزنے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہی کوسب پرترجیح دی (وفاء الوفاء جلد ۱ ص ۳۸۶) ۔

اسی نے فدک واپس کیا تھا اور امیرالمومنین پرسے تبراء کی وہ بدعت جو معاویہ نے جاری کی تھی، بند کرائی تھی۔

 

امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت

آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرمارہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولیدبن عبدالملک نے آپ کوزہردیدیا،اورآپ بتاریخ ۲۵/ محرم الحرام ۹۵ ھ مطابق ۷۱۴ کودرجہ شہادت پرفائزہوگئے امام محمدباقرعلیہ السلام نے نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے علامہ شبلنجی ،علامہ ابن حجر،علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرفرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ کوزہردے کر شہیدکیا،وہ ولیدبن عبدالملک خلیفہ وقت ہے (نورالابصار ص ۱۲۸ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص ۴۴۴ ، مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

ملاجامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعدآپ کاناقہ قبرپرنالہ وفریادکرتاہوا تین روزمیں مرگیا (شواہد النبوت ص ۱۷۹ ، شہادت کے وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی۔

 

آپ کی اولاد علماء فریقین کااتفاق ہے کہ آپ نے گیارہ لڑکے اورچارلڑکیاں چھوڑیں۔(صواعق محرقہ ص ۱۲۰ ،وارجح المطالب ص ۴۴۴) ۔

علامہ شیخ مفیدفرماتے ہیں کہ ان پندرہ اولادکے نام یہ ہیں

۱ ۔ حضرت امام محمدباقر آپ کی والدہ حضرت امام حسن کی بیٹی ام عبداللہ جناب فاطمہ تھیں۔

۲ ۔ عبداللہ

۳ ۔ حسن

۴ ۔زید

۵ ۔عمر

۶ ۔ حسین

۷ ۔عبدالرحمن

۸ ۔سلیمان

۹ ۔علی

۱۰ ۔محمد اصغر

۱۱ ۔حسین اصغر

۱۲ ۔خدیجہ

۱۳ ۔فاطمة

۱۴ ۔علیہ

۱۵ ۔ ام کلثوم

(ارشاد مفید فارسی ص ۴۰۱) ۔

Comments powered by CComment