اس کتاب میں اگر چہ ظاہراً لفظی بحث ہے اور کلمات صدّیق و صدّیقہ کے متعلق گفتگو کی گئی ہے لیکن لفظی بحث کے باوجود معارف اور حقائق کے ان لطیف گوشوں کی نشاندہی بھی کرائی گئی ہے کہ جو علم کلام و عقائد کی کتابوں میں بھی دستیاب نہیں ہیں یا بہت کمیاب ہیں
تحریر: علامہ سید علی شہرستانی
مترجم: سید سبط حیدر زیدی
ماخذ:شیعہ نیٹ
بسم اللہ الرحمان الرحیم
عرض مترجم
کتاب ھٰذا ، استاد علامہ سید علی شہرستانی کی تألیف '' من هو الصدّیق و من هی الصدّیقة '' کا ترجمہ ہے یہ کتاب اصل میں عربی زبان میں ہے اور اس کا فارسی زبان میں ترجمہ '' تأمّلی در مفھوم یک لقب'' کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے ۔
مؤلف محترم نے ایرانی ہونے کے ناطے فارسی ترجمے میں کچھ مطالب کا اضافہ فرمایا ہے لہٰذا ہمارے لیے بھی ضروری تھا کہ ان اضافات کو نظر انداز نہ کیا جائے لہٰذا اردو زبان میں یہ ترجمہ عربی و فارسی دونوں کتابوں کو سامنے رکھ کر انجام دیا گیا ہے تاکہ اصل کتاب مع اضافات قارئین کے حضور پیش کی جاسکے ۔
اس کتاب میں اگر چہ ظاہراً لفظی بحث ہے اور کلمات صدّیق و صدّیقہ کے متعلق گفتگو کی گئی ہے لیکن لفظی بحث کے باوجود معارف اور حقائق کے ان لطیف گوشوں کی نشاندہی بھی کرائی گئی ہے کہ جو علم کلام و عقائد کی کتابوں میں بھی دستیاب نہیں ہیں یا بہت کمیاب ہیں ۔
ظاہر ہے کہ کلمہ صدّیق و صدّیقہ اور اسی طرح بہت سے الفاظ و القاب حقیقتاً عظیم معانی و مفاہیم کے حامل ہیں لیکن مخالفین اہل بیت علیہم السلام نے جہاں آپ کی ظاہری حکومت و حکومت
اور مادی ملک و میراث پر ناجائز قبضہ کیا وہیں آپ کے القاب کہ جو اپنے دامن میں فضیلتوں کے دریا اور کمالات کے سمندر لیے ہوئے ہیں ، آپس میں تقسیم کرنے کی سعی لاحاصل انجام دی۔ جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مسلمانوں کی نظر میں ان القاب کی حیثیت نہ رہی اور پھر ان کے ظاہری و لغوی معانی کومدنظر رکھتے ہوئے ہرکس و ناکس کے لیے استعمال کیے جانے لگے ۔جبکہ قرآن کریم میں ان الفاظ کا استعمال کچھ خاص افراد کے لیے ہوا ہے اور ان کو بعض نبیوںکی خصوصی صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
''صدیقیت'' ایسے معانی و مفاہیم کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے کہ جو عصمت، اعجاز، ولایت تکوینی اور ہم مشیت الٰہی ہونے کو شامل ہیں۔ مثلا ً خداوندمتعال نے قرآن کریم میں لفظ صدیق کو جس ذات والا صفات کے لیے بھی استعمال کیا وہاں پر اور اس استعمال کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ملا کہ اس ذات گرامی کی زبان مبارک سے کوئی بات نکلی اور مشیت الٰہی نے اس کو پورا کردکھایا ۔ جیسے حضرت یوسف کے لیے صدیق کا لفظ اس مقام پر استعمال ہوا کہ جہاں آپ نے خواب کی تعبیر بیان فرمائی اور پھر وہ تعبیر آپ کے بیان کے مطابق پوری ہوئی ، چاہے وہ ان قیدیوں کے خواب کی تعبیر ہو کہ جو آپ کے ساتھ زندان میں تھے یا بادشاہ مصر کے خواب کی تعبیر ، لیکن جو بھی یوسف صدیق کی زبان سے جاری ہوا وہی مشیت الٰہی نے پورا کر دکھایا اسی طرح ادھرحضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا کی زبان اطہر سے بچوں کے لباس کی خواہش پر الفاظ ادا ہوئے '' بچو! تمہارے لباس خیاط کے پاس ہیں جو کل لے آئے گا '' تو اب جبرئیل ، رضوان جنت ، سردارملائکہ درخانہ سیدہ صدیقہ طاہرہ پر آکر یہی کہتا ہوا نظر آتا ہے ''انا خیاط الحسنین جئت با لثیاب '' میں حسنین کا درزی ہوں کپڑے لے کر حاضر ہوا ہوں۔
معلوم ہواکہ صدیقیت بہت عظیم مرتبے اور معانی کی حامل ہے اور یہ صادق سے بہت بلندو بالا مقام کا نام ہے ۔۔۔ بلکہ یوں کہاجائے کہ صادق اس کو کہتے ہیں کہ جو واقعہ کو بعینہ نقل کرتا ہو اور اس کا کلام واقع کے مطابق ہو گویا صادق ،واقعہ کا محتاج ہوتا ہے کہ واقعہ رونما ہواور صادق اس کو بیان کرے ۔ جبکہ صدیق وہ ہے کہ واقعہ اس کا محتاج ہوتا ہے یعنی صدیق کی زبان مبارک سے جو کلمات بھی ادا ہوں وہ مشیت الٰہی کے تحت واقعہ کی صورت اختیار کرلیں ۔
یہی عصمت ، اعجاز، ولایت تکوینی اور مشیت الٰہی کے مطابق ہو نا ہے ۔
بہر حال یہ کتاب بہت عظیم معانی و مفاہیم پر مشتمل ہے ہمیں امید ہے کہ قارئین محترم ، اہل نظر اور اہل قلم و ادب حضرات ہماری کوتاہیوں کو دامن عفو میں جگہ عنایت کرتے ہوئے دعائے خیر میں یاد فرمائیں گے۔
بارگاہ احدیت میں ملتجی ہوں کہ اس ناچیز سعی کو مقبول فرمائے ۔آمین
اللهم تقبل منا انک انت سمیع الدعا و صل علی محمد وآله الطیبین الطاهرین المعصومین
سید سبط حیدر زیدی
مشہدمقدس، ایران
13 رجب المرجب 1428ھ
روزولادت باسعادت صدیق اکبرحضرت امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام
مقدمہ مؤلف
حمد و ثنا ہے پروردگار عالم کی اور درود و سلام ہے ہمارے سید و سردار حضرت محمد اور ان کی آل پاک پر ۔
دین مقدس اسلام اور تاریخ و شریعت میں کچھ خاص الفاظ و مفاہیم ایسے بھی ہیں کہ جن کے بارے میں غور و فکر لازم ہے اس لیے کہ ان الفاظ و مفاہیم کا عقائد و احکام سے بہت عمیق رابطہ اور بہت گہرا تعلق ہے ۔
''صدیقیت'' ان ہی الفاظ میں سے ایک ہے کہ جو بہت بلند معانی رکھتا ہے اور اس میں الٰہی مقامات کی طرف اشارہ ہے ۔
جہاں تک میری نظر ہے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مستقل کتاب یا رسالہ تحریر نہیں ہوا ہے اور جو کچھ بھی علماء و بزرگوں کے کلام میں آیا ہے تو صدیقیت کے معنٰی کی طرف مختصراً اشارے ہیں کہ جو علم کلام اور عقائد کی دوسری بحثوں کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں اور ان کو بھی اس طرح پیش نہیں کیا گیا کہ عصر حاضر کے محقق کی زیر کی و ہوشیاری سے سازگار ہوں اور خود ایک موضوعی بحث کے طور پر بیان ہوسکیں۔
ہم اس لیے بھی کہ اسلامی علوم و معارف اور علمی مواد و ذخائر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہو اس تحقیق کو پیش کرتے ہیں تاکہ یہ ہمارے لیے اور دوسرے ہمارے محققین بھائیوں کے لیے سرنقطہ آغاز قرار پائے ۔حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا کی زندگی نہ صرف تاریخی ، اعتقادی اور فقہی میراث سے بھر پور اور مملو ہے بلکہ آپ کی حیات طیبہ کے ہر پہلو میں درس ، عبرتیں اور زندگی گزارنے کے انمول نمونے موجود ہیں کہ جن کو ہر انسان اپنے لیے نقش راہ قرار دے کر فلاح وکامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے ۔ انتہا یہ ہے کہ آپ کے القاب مبارکہ و اسماء طیبہ بڑے بڑے مقامات الٰہی اور مفاہیم معنوی پر دلالت کرتے ہیں ۔
ان میں سے بطور مثال لقب'' صدیقہ ''ہے کہ جو آنحضرت کی عصمت سے مربوط ہے اور اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپ کی حیات طیبہ آغاز ہی سے پاک و پاکیزہ تھی ، چونکہ آپ نے اپنے والدبزرگوار(ص) کی رسالت کی پیدا ہوتے ہی تائید و تصدیق فرمائی اور جوکچھ پیغمبر اکرم(ص) لائے تھے ان کو سچ سمجھا اور اپنی کمال تصدیق کو خداوندمتعال پر اظہار فرمایا ، یہاں تک کہ خداوندسبحان نے اپنی رضا و خوشنودی اور غضب و غصہ کو آپ کی خوشنودی و ناراضگی سے وابستہ قرار دیا ۔
اور اسی طرح ایک لقب'' محدّثہ'' ہے جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد بھی جبرئیل آپ کے پاس تشریف لاتے ، محو سخن ہوتے، آپ کی دلجوئی فرماتے اور آپ کی آل پاک پر رونما ہونے والے تمام حوادث کو بیان فرماتے تھے۔
ان دوالقاب کے علاوہ ایک لقب ''شہیدہ'' ہے کہ جو آپ کی مظلومیت کی طرف دلالت و راہنمائی کرتا ہے اور یہ کہ آپ کی زندگی کا خاتمہ شہادت پر ہے ۔
بنا برایں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے القاب مبارکہ و اسماء طیبہ سطحی وعادی نہیں ہیں بلکہ ان میں معانی قدسیہ پائے جاتے ہیں ۔ بعض افرادان القاب کو چراکر دوسروں کے سر پر مڑھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ القاب ہرکس و ناکس کو عطا کرکے ان عظیم معانی و اثرات قدسی کو ختم کردیا جائے اور پھر لوگوں کی نظروں میں ان کا کوئی اعتبار باقی نہ رہے ۔
بعض روایات اہل بیت میں آنحضرت کا نام ''فاطمہ''(1) کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آنحضرت اپنے چاہنے والوں اور شیعوں کو آتش جہنم سے دور و جدا رکھیں گی جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام کے لیے مذکورہے کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق و جدائی ڈالنے والے ہیں جبکہ اسی طرح ان معانی کو چھپانے کے لیے اور ان القاب کی فضیلت کو گھٹانے کے لیے اہل سنت نے صدیقہ کا لقب ایک دوسری خاتون کو دے دیا اور فاروق کا لقب ایک اور شخص کو دے دیا اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ حق و باطل کے درمیان جدائی ڈالنے والا ہے۔
اوراسی طرح کی روایات گھڑی گئیں تاکہ حق و باطل مخلوط ہوجائے لہٰذا نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ گذشتہ امتوں میں محدثین گذرے ہیں لہٰذا اگر میری امت میں کوئی محدث ہو تو وہ عمر بن خطاب ہے !(2)۔
..............
(1) یہاں تک کہ خود اسی نام مبارک کے بارے میں غورو فکراور بحث کی جائے کہ اس میں کس قدر معانی ومفاہیم الٰہیہ پوشیدہ ہیں ۔
(2) صحیح بخاری :12793 ،ح 3282۔ و ۔ص 1349 ،ح3486۔ صحیح مسلم :4 1864۔سنن ترمذی :5 622،ح3693۔ المستدرک علی صحیحین:923 ،ح4499۔ السنن الکبری(نسائی) :5 39 ،ح 8119۔
یا اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کی طرف جھوٹی نسبت دی کہ آپ نے فرمایا ''فرشتہ عمر کی زبان میں ہم سے محو گفتگو ہوتاتھا ''(1)۔
جبکہ ادھر حضرت فاطمہ اور اہل بیت پیغمبراکرم(ص) کو محدث کہا گیا ہے ۔
ان دونوں باتوں کے درمیان کیا وجہ تشبیہ و ربط ہے !؟
مجھے نہیں معلوم کہ کیا میرے ساتھ کسی اور نے بھی غور کیا کہ لفظ ''زہرا'' کے معانی و مفاہیم میں نورالٰہی سے کتنا ربط ہے؟ اور یہ عظمت صرف حضرت فاطمہ سے مخصوص ہے یا حضور اکرم (ص)کی دوسری بیٹیوں کو بھی اس میں شریک کیا جاسکتاہے؟(2)۔جبکہ اہل سنت نے اس معنی میں بھی عمومیت دی ہے تاکہ عثمان بن عفان کو حضور انور(ص) کی دو بیٹیوں یا ربیباؤں(منھ بولی بیٹیوں) کا شوہر ثابت کرکے ذوالنورین کا لقب دے سکیں۔
شاید یہ لوگ خلفاء کی طرفداری میں ان القاب و اسماء کی عظمت و فضیلت کو درک کرنہ کرتے ہوئے یا خود جانتے ہوئے بھی دوسروں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے ، شہید مظلوم کا لقب عثمان بن عفان کو دینے کے باوجود بھی حضرت فاطمہ زہرا کو لقب ''شہیدہ مظلومہ''دیتے ہوئے خوف کھاتے ہیں ۔(چونکہ اس میں بہت سے حقائق پوشیدہ ہیں !)
..............
(1) تاریخ واسط :1 167۔حلیة الاولیاء :1 42۔ الریاض النضرة :1 376۔المعجم الاوسط:187 ،ح 6726۔ مجمع الزوائد: 9 69۔
(2) بالفرض اگر حضورانور (ص) کے کوئی اور بھی بیٹی ہو چونکہ ہمارے عقیدے میں حضرت فاطمہ زہرا آنحضرت(ص) کی اکلوتی بیٹی ہیں(مترجم )
جی ہاں! ''صدیقہ''''محدثہ'' اور'' شہیدہ'' یہ وہ القاب ہیں کہ جن میں عظیم معانی و مفاہیم کے ساتھ ساتھ ''عصمت ''''علم ''اور'' مظلومیت'' کے حقائق نمایاں ہیں اور حضرت فاطمہ زہرا کی زندگی کے تینوں مرحلوں پر دلالت کرتے ہیں اور ان میں وہ تمام واقعات مضمر ہیں کہ جو آنحضرت سے متعلق رونماہوئے ۔
یہ مختصر رسالہ ، تاریخ و شریعت کے متعدد و فراوان الفاظ میں سے صرف ایک لفظ کی توضیح و تفسیر کے بیان میں ہے جبکہ ضروری ہے کہ اس طرح کے تمام القاب میں غور و فکر کیا جائے اور ان کے معنی و مفہوم میں تأمل ہو ۔
ہماری تمام اہل تحقیق و اہل علم و فضل حضرات سے امید وتوقع ہے کہ جوحضرت فاطمہ زہرا کے سلسلے میں علمی خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ ان الفاظ و القاب پر خاص توجہ دیں۔
آخر میں خدائے سبحان کی بارگاہ میں ملتجی ہوں کہ میری اس ناچیز خدمت کو قبول فرمائے اور اس کو میری نیکیوں و حسنات میں شمار فرمائے، میرے گناہوں کا کفارہ قرار دے اور مجھ کو میری سیدہ و سردار حضرت فاطمہ زہرا کی شفاعت نصیب فرمائے اس حال میں کہ آپ پر اور آپ کے والد بزرگوار ،شوہر نامداراور آل پاک پر درود وصلوات بھیجتاہوں:
(اللهم صل علی فاطمة و ابیها و بعلها و بنیها بعددما احاط به علمک)
پروردگار درود وصلوات بھیج فاطمہ زہرا اور ان کے والدبزرگوار(ص) ، شوہرنامدار اور اولاد پاک پر اسقدر کہ جتنا تیرے علم میں ہے ۔
اول و آخر خداوندکی حمد ہے اور ظاہرو باطن میں اس کا شکر ہے اور اس کی صلوات ہو محمد و آل محمد طیبین و طاہرین و معصومین پر۔
سید علی شہرستانی
17 جمادی الاولی 1426ھ
ایام شہادت صدیقہ کبری فاطمہ زہراسلام اللہ علیھا
تمہید
بحث موضوعی کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کچھ ایسے الفاظ و اصطلاحات سے روبرو ہوتا ہے کہ جن کے سلسلے میں اپنی ذہنیت واقعی کا استعمال کرتا ہے، اور کبھی کبھی تاریخی شواہد وغیرہ انسان کو ان الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق پر مجبور کرتے ہیں ۔خصوصا ایسے موارد کہ جہاں ایک ہی لفظ ،ایک ہی اصطلاح ایک دوسرے کے متعارض یا مخالف مواقع پر استعمال ہوئی ہو کہ جن کے درمیان کسی بھی طرح سے وجہ جمع ممکن نہ ہو اور نہ ہی کوئی شرعی یا عقلی قابل قبول توجیہ موجود ہو ۔
اسلامی تاریخ ، فقہ اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ سے گذر ہوتا ہے کہ جو ایک دوسرے کے خلاف ہیں یا متناقض و متضاد ہیں اور محقق کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرے یا ان کے درمیان کیا وجہ جمع ایجاد کرے چونکہ یہ قدیم الایام سے ہم تک پہنچے ہیں ۔
یہ متناقضات خصوصاً اس طرح کے افراد کے سامنے زیادہ آتے ہیں کہ جو بعض ایسی شخصیات کو مقدس بناکے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جن کو اللہ و رسول(ص) نے بعنوان مقدس یاد نہیں فرمایا۔جبکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دونوںمذہب(مذہب صحابہ و مذہب اہل بیت ) کی روش کو ایک جگہ جمع کریں۔
لہٰذا ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ یہ افراد محبت اہل بیت علیہم السلام کا دم بھرتے ہیں اوردوسری طرف اہل بیت علیہم السلام پر ہونے والے مظالم کو بھی پسند نہیں کرتے لہٰذا ایک ایسی روش و راستہ ایجاد کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں ظالموں کے ظلم سے چشم پوشی ہوسکے ،اس دعوی کے ساتھ ساتھ کہ جس نے جو کیا ،اچھا ہو یا برا، وہ چلا گیا اور اپنے اعمال اپنے ساتھ لے گیا ، ہمیں کیا مطلب کہ ہم ان کے کارناموں میں دخل اندازی کریں۔
یہ توجیہ ابتداء ً اچھی اور معقول نظر آتی ہے لیکن تھوڑا ہی غور و فکر کرنے سے اس کی خرابیاں آشکار ہونے لگتی ہیں چونکہ یہ شخصیات ، تاریخ کے عام افراد نہیں تھے کہ جن کے بارے میں کہا جائے کہ ان کے اچھے اور برے اعمال خود ان ہی سے مربوط ہیں اور ان کا مسئلہ خدا کے حضور پیش کیا جائے تاکہ وہ ان کے بارے میں جو چاہے حکم کرے۔
بلکہ وہ لوگ تاریخ و شریعت میں ایک مہم نقش رکھتے تھے اور عصر حاضر میں بہت سے مسلمانوں کے نظر یات انہیں سے ماخوذ ہیں اس وجہ سے ناچار ہیں کہ ان کی سیرت و حالات زندگی سے آشنا ہواجائے۔ چونکہ یہ ہماری آج کی اجتماعی زندگی اور علمی و عملی سیرت سے مربوط ہے اس لیے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے لہٰذا علی و فاطمہ کی معرفت ، ابوبکر و معاویہ کی پہچان کے بغیرممکن نہیںہے ۔چونکہ یہ ہم کو ماننا پڑے گا کہ خدا وندعالم کی جانب سے رسول اکرم(ص) پرنازل ہونے والا حکم اورحق ایک ہی ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے باطل ہے پس اگر علی حق کے ساتھ ہیں '' علی مع الحق ''(1) تو معاویہ باطل پر ہے۔
..............
(1) خصال (صدوق) 496۔ کفایةالاثر 20۔ تاریخ مدینہ دمشق: 42 449۔
اور اگر حضرت فاطمہ زہرا اپنے مدعیٰ میں سچی ہیں تو یقینا ابوبکر سچے نہیں ہیںاوراس کے علاوہ کوئی تیسری صورت نہیں۔ چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے : ( فماذا بعد الحق الا الضلال فانیٰ تصرفون) (1) حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے پس کہاں منھ موڑے جارہے ہو۔
اور پیغمبراکرم(ص) کا فرمان ہے : (ستفرق امتی الی نیف و سبعین فرقة ،فرقة ناجیة والباقی فی النار)(2) عنقریب میری امت ستر سے زیادہ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی کہ جن میں سے ایک فرقہ ناجی اور باقی جہنمی ہیں۔
یہ دونوں نصوص، وضاحت کے ساتھ ایک کے حق ہونے اور دوسر ے کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں بلکہ دین اسلام بطور کلی وحدت فکر و مضمون پر موقوف ہے ۔
حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ، ولو ان الحق خلص من لبس الباطل لانقطعت عنه السن المعاندین ، ولکن یوخذ من هٰذا ضغث و من هٰذا ضغث فیمزجان ، فهنالک یستولی الشیطان علی اولیائه ، وینجو الذین سبقت لهم من الله الحسنی''(3)
..............
(1) سورہ یونس(10) آیت 32۔
(2) شرح الاخبار :2 124۔ خصال(صدوق) 585۔ سنن ابن ماجہ:2 3993 ،ح 1322، اس ماخذ میں بیان ہوا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال سند ثقہ ہیں ۔سنن ترمذی:4 135 ، اس ماخذ میں ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ مستدرک حاکم :1291۔
(3) نہج البلاغہ :1 99 خطبہ 50۔ شرح نہج البلاغہ : 3 240۔
اگر باطل ، حق کی آمیزش سے خالی رہتا تو حق کے طلب گاروں پر پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق ، باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایک حصہ اس سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے ، ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہوجاتاہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کرپاتے ہیں جن کے لیے پروردگار کی جانب سے نیکی پہلے ہی سے پہنچ چکی ہو تی ہے۔
اور آپ ہی نے حارث بن لوط لیثی سے فرمایا:
'' یا حارث، انک ملبوس علیک! ان الحق لایعرف بالرجال، اعرف الحق تعرف اهله''(1)
اے حارث آپ پر امر مشتبہ ہوگیا ہے حق لوگوں سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حق کو پہچانو پھر اہل حق کو پہچان جاؤ گے ۔
سلف و گذشتگان کی بزرگی و ہیبت نے بعض لوگوں کو اس تناقض گوئی میں ڈال دیا ہے جبکہ صحابہ عام انسانوں کی طرح ہیں اور سب الٰہی قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں پس جوشخص خداوندعالم اور اس کے پیغمبر (ص) ، کتاب الٰہی اور اس کے احکام پر ایمان لائے ،راہ ہدایت کو اپنائے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جو اس راستہ سے گمراہ و منحرف ہو اس نے خود نے اپنے آپ کو گمراہ کیا ہے ۔
..............
(1) انساب الاشراف 238ـ239۔ امالی شیخ طوسی 124، ح 216۔ تفسیر قرطبی :1 340۔ اور دیکھیے ـ: وسائل الشیعہ :27 135، ح 32۔ بحار الانوار :22 105، ح 64۔
پس پیغمبر اکرم(ص) کا صحابی ہونا اس بات سے مانع نہیں ہے کہ صحابی کی رأ و نظریات کی تحقیق ورد نہ کی جائے چونکہ پیغمبراکرم(ص) کی حیثیت چمکتے ہوئے سورج کی طرح ہے اور جو حضرات ان کے ہمراہ و مصاحب ہیں ان کی مثال آئینہ کی ہے کہ جس قدر آئینہ صاف و شفاف ہوگا اسی قدر نور نبوت اس میں منعکس ہوگااور جس قدر دھندلا ہوگا تو سورج کی روشنی بھی اس کی دھندلاہٹ ہی میںاضافہ کرے گی۔
(سورج کی روشنی و گرمی پھول پر پڑتی ہے تو خوشبو میں اضافہ کرتی ہے اور گندگی پر پڑتی ہے تواس کی بدبو میں اضافہ کرتی ہے) لہٰذا اس صورت میں کمی و نقص اس مصاحب(صحابی) میں ہے نہ کہ مصاحب(ص) میں۔
حضرت امام زین العابدین علی بن الحسین علیہما السلام ان صحابہ کی کہ جوپیغمبراکرم(ص) کی روش و سیرت پر باقی رہے اور آپ(ص) کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، ستائش و تجلیل کرتے ہوئے اپنی دعامیں اس طرح فرماتے ہیں :
''اللهم واصحاب محمد خاصة الذین احسنو ا الصحابة الذین ابلوا البلاء الحسن فی نصره ، و کانفوه و اسرعوا الی وفادته ، وسابقوالی دعوته، واستجابو له حیث اسمعهم حجة رسالته ، وفارقوا الازواج والاولاد فی اظهار کلمته ، وقاتلوا الاباء والابناء فی تثبیت نبوته ، وانتصروا به، ومن کانوا منطوین علی محبته یرجون تجارةً لن تبورفی مودته ، والذین هجرتهم العشائر اذتعلقو ابعروته ، و انتفت منهم القرابات اذ سکنوفی ظل قرابته ،فلا تنس لهم اللهم ماترکو ا لک و فیک، وارضهم من رضوانک اللهم واوصل الی التابعین لهم باحسانـالذین یقولون
( ربنا اغفرلناولاخوانناالذین سبقونابالایمان)(1) ـخیرجزائک،الذین قصدوا سمتهم'' (2)
بارالٰھا، خصوصیت سے اصحاب محمد(ص) میں سے وہ افراد کہ جنہوں نے پوری طرح پیغمبر اکرم(ص) کا ساتھ دیا اور ان کی نصرت میں پوری شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ان کی مدد پر کمر بستہ رہے، ان پر ایمان لانے میں جلدی، ان کی دعوت کی طرف سبقت کی اور جب پیغمبراکرم(ص) نے اپنی رسالت کی دلیلیں ان کے گوش گذار کیں تو انہوں نے لبیک کہا اور ان کا بول بالا کرنے کے لیے اپنے بیوی بچوں تک کو چھوڑدیا اور امر نبوت کے استحکام کے لیے باپ اور بیٹوں تک سے جنگیں کیں ، نبی اکرم(ص) کے وجود کی برکت سے کامیابیاں حاصل کیں اس حالت میں کہ آپ (ص) کی محبت دل کے ہر رگ و ریشہ میں لیے ہوئے تھے اور ان کی محبت و دوستی میں ایسی نفع بخش تجارت کے مواقع تھے کہ جس میں کبھی نقصان نہ ہو اور جب ان کے دین کے بندھن سے وابستہ ہوئے تو ان کے قوم و قبیلہ نے انہیں چھوڑ دیا اور جب سایہ ٔ قرب میں منزل کی تو اپنے بیگانے ہوگئے ۔
اے میرے معبود انہوں نے تیری خاطر اور تیری راہ کے سبب سب کو چھوڑ دیا تو (جزاء کے موقع پر) ان کو فراموش نہ کرنا اور ان کی اس فداکاری ،خلق کو تیرے دین پر جمع کرنے اور رسول اللہ (ص) کے ساتھ داعی حق بن کرکھڑے ہونے کے صلہ میں انہیں اپنی خوشنودی سے سرفراز و شادکام فرما اور جزائے خیر دے ۔۔۔
..............
(1) سورہ حشر (59) آیت 10۔
(2) صحیفہ سجادیہ ، چوتھی دعا (رسول اکرم (ص) کی اتباع و تصدیق کرنے والوں کے حق میں دعا)۔
اہل بیت علیہم السلام کی سیرت و روش صحابہ ٔ کرام کے بارے میں اسی طرح ہے اور یہی راستہ حق ہے کہ ہر مسٔلہ کو اسی میزان میں پرکھا جاتاہے لیکن ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ جہاں سب کو مخلوط کرکے رکھ دیا گیا ہے ،طلیق (آزاد شدہ غلام ) کو مہاجر کی طرح اور صریح(محاصرہ کرنے والے) کو لصیق(محاصرہ ہونے والے ) کی طرح ، محق (اہل حق ) کو مبطل(اہل باطل) کی طرح پیش کیا جاتا ہے (1) اور انتہا ئی جرأت سے کہا جاتاہے کہ ہمارے سید و سردار معاویہ ہمارے سید و سردار علی سے لڑے یا ہماری سیدہ و عایشہ نے ہمارے سید و سردار علی کے خلاف خروج کیا یاہمارے سید و سردار یزید نے ہمارے سید و سردار حسین کو قتل کیا اور اسی طرح بہت سے متناقض کلام دیکھنے میں آتے ہیں ۔
اور لیکن امیہ، ہاشم کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی حرب ، عبد المطلب کی طرح ہے اور نہ ابو سفیان، ابوطالب کی مانند ہے اور نہ ہی آزاد شدہ غلام(طلیق) مہاجر کی طرح ہوسکتا ہے اور محاصرہ کرنے والا(صریح ) محاصرہ ہونے والے(لصیق ) کی مانند، نہ محق (اہل حق ) مبطل(اہل باطل) کی طرح ہے تو نہ ہی مؤمن ، منافق و دھوکے باز کی طرح۔
خداوندتبارک و تعالی سورہ جاثیہ آیت 21میں ارشاد فرماتا ہے : (ام حسب الذین اجترحوا السیٔات ان نجعلهم کالذین آمنوا و عملوا الصاحات سواء ً محیا هم و مماتهم ساء مایحکمون)
..............
(1) دیکھیے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا نامہ کہ جو معاویہ کے لیے تحریر فرمایا : ( ولکن لیس امیة کهاشم ، ولا الحرب کعبدالمطلب، ولا ابوسفیان کابی طالب ولاالمهاجر کالطلیق ، ولا الصریح کاللصیق ، ولا المحق کاللمبطل ولا المؤمن کالمدغل۔(شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):3 18ـ17)
اور اس طرح کی تناقض گوئیوں میں کہ جہاں غور وفکر لازم ہے یہ بات بھی ہے کہ جو اہل بیت علیہم السلام کے مدمقابل والا مذہب ، ابوبکر اور حضرت فاطمہ زہرا کے سلسلے میں زبان پر لاتا ہے کہ ہمارے سید و سردار ابوبکر صدیق نے فدک و میراث رسول(ص) کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سے اختلاف کیا !۔
اس طرح کی عبارات و الفاظ سے بعض مسلمانوں پر مسٔلہ مشتبہ ہوگیا ہے لہذا اس مسئلہ میں وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ،اور یہ کام ان دونوں حضرات کی نسبت لفظ صدیق و صدیقہ کے معنی میں تحریف کرکے ایجاد کیا گیا ہے ۔
بہر حال ان میں سے اگر کوئی ایک سچا و صادق ہے تو دوسرا یقینا و حتمی جھوٹا و کاذب ہے اور صدیقہ کے متعلق بھی کہ جو انتہائی صادق القول تھیں اور پیغمبر اکرم(ص) و خداوندعالم نے ان کی تصدیق فرمائی ہے یہی مسئلہ ہے ۔یہ دونوں باتیںقبول نہیں کی جاسکتیں چونکہ دونوں ایک دوسرے کو خواہ صراحتاً یا اشارتاً و تلویحاً جھٹلارہے ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا نے اس کلام سے ''لقدجئت شیئا فریا'' (1) ( آپ نے ایک جھوٹی اور اپنے پاس سے من گھڑت چیز پیش کی ہے ) بالکل واضح طورپر ابوبکر کی تکذیب کی ہے جبکہ ابوبکر یہ جرأت نہ کرسکے کہ حضرت زہرا کی صراحتاً تکذیب کریں بلکہ ایک ایسے کلام کا سہارا لیا کہ جس کا نتیجہ حضرت زہرا کی تکذیب تھی ۔
اب اس مسودہ کے ذریعہ لفظ صدیق کے معنی لغة اور استعمال میں تلاش کرتے ہیں ۔
..............
(1) سورہ مریم (19) آیت 27۔
صدیق باعتبار لغت و استعمال
صدیق ، مادۂ (ص،د،ق) سے مشتق ہے اور صدق (سچ) کذب (جھوٹ ) کی نقیض ہے ، صدیق فعیل کے وزن پر ہے اور صدیقہ فعیلہ کے وزن پر، اور یہ وزن موصوف کے صفت سے بہت زیادہ اتصاف پر دلالت کرتا ہے گویا اس مادہ میں صدق و تصدیق کا مبالغہ پایا جاتاہے اور یہ صدوق (بہت سچا ) سے بھی زیادہ سچے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔ کہا جاتاہے صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جو صدق و سچائی میں کامل ہو اس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے یعنی قول و عمل ایک ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جس نے اصلاً کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ۔
اہل سنت کے درمیان مشہور ہے کہ'' صدیق '' ابوبکر بن قحافہ کا لقب ہے اگر چہ ان کے یہاں بہت زیادہ روایا ت موجود ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ''صدیق'' حضرت علی بن ابی طالب کا لقب ہے اور یہ روایات شیعہ مذہب کی روایات کے مطابق ہیں کہ شیعوں کے نزدیک ''صدیق''بطور نص حضرت علی کا لقب مبارک ہے اور اہل سنت نے اس کو چوری کرکے ابوبکر کے سرپر چڑھادیا ہے(1)۔
..............
(1) العمدہ 220۔
لیکن لقب ''صدیقہ '' قرآن کریم میں حضرت مریم بنت عمران کے لیے آیا ہے اور پیغمبر اکرم(ص) کی زبان مبارک پر حضرت فاطمہ زہرا اور حضرت خدیجہ کے لیے جاری ہوا ،جبکہ اس سلسلے میں اہل سنت کی طرف سے یہ کوشش رہی کہ یہ لقب عایشہ کو دیدیا جائے ،لیکن عنقریب آپ کے سامنے اس دعوی کی پول کھل جائے گی ۔
اگر حقیقت کو درک کرنا ہے تو ضروری ہے کہ'' صدیقیت'' کے معنی کی تنقیح و تحلیل کی جائے تاکہ معلوم ہو کہ صدیقیت ایک معنوی و ربانی مرتبہ ہے یا کوئی معمولی لقب ہے کہ جو جس کو چاہے عطا کردے۔
کیا صدر اسلام میں پیغمبر اکرم (ص) جس کو جو بھی عطاکرتے اور دوسرے لوگ کسی کو کچھ بھی عطا کرتے تو کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا ؟ اور کیا معقول ہے کہ جو القاب ، خداوندعالم اور پیغمبر اکرم(ص) کی جانب سے دیے گئے ہیں وہ بے بنیاد اور صرف تعلقات کی وجہ سے ہوں یا ایسا نہیں ہے اور پیغمبراکرم(ص) کا کسی کا کوئی نام رکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس نام و لقب کا مستحق ہے۔
اور کیا القاب ، لیاقت و قابلیت کے اعتبار سے دیے جاتے تھے یا یہ کہ لوگوں کی تشویق و ترغیب کے لیے عطا ہوتے تھے ۔
اور کیوں جناب ابوذر غفاری کو لقب ''صدیق''عطا نہیں ہوا جبکہ پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کے مطابق وہ روے ٔ زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ سچے انسان تھے(1)۔
..............
(1) سنن ترمذی : 5 334، ح 3889۔الانساب (سمعانی ): 4 304۔
''صدیقیت'' سے کیا مراد ہے ؟ اور کیا'' صدیق ''کے مراتب و اقسام ہیں ؟
علامہ ابن بطریق (متوفی 600ھ) اپنی کتاب العمدہ میں راقم ہیں :
((صدیق کی تین قسمیں ہیں :
1ـ صدیق نبی ہوتا ہے ۔
2ـ صدیق امام ہوتا ہے۔
3ـ صدیق عبد صالح ہے کہ جو نہ نبی ہے اور نہ امام۔
پہلی قسم پر یہ فرمان الٰہی دلالت کرتا ہے ( واذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقاً نبیاً)(1) کتاب (قرآن ) میں ادریس کو یاد کرو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔
اور خداوندعالم کا یہ ارشاد گرامی (یوسف ایهاالصدیق)(2) یوسف اے صدیق۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر نبی صدیق ہے لیکن ہر صدیق نبی نہیں ہے ۔
اس بات پر کہ ''صدیق ''امام ہوتا ہے خداوندعالم کایہ فرمان دلالت کرتا ہے (فأولائک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهداء والصالحین و حسن اولٰئک رفیقا)(3)۔ وہ ان کے ساتھ ہیں کہ جن کو اللہ نے نعمتیں عطا کی ہیں انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین میں سے اور وہ بہترین ساتھی ہیں ۔
..............
(1) سورہ مریم(19) آیت 56۔
(2) سورہ یوسف(12) آیت 46۔
(3) سورہ نساء (4) آیت 69۔
خداوندعالم نے نبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد صدیقین کی مدح سرائی کی ہے جبکہ نبیوں کے بعد آئمہ ہی کا ذکر سب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی پر وہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں کہ جن میں وارد ہے کہ'' صدیق '' تین شخص ہیں حبیب نجار، حزقیل ، علی اور علی ان سب سے افضل ہیں ۔ پس چونکہ علی کاذکر ان دو افراد کے ساتھ آیا ہے اور وہ ان کے ساتھ صدیقین میں شامل ہیں جبکہ وہ دونوں نہ نبی ہیں اور نہ امام ۔ لہذا مناسب یہ سمجھا کہ علی کو ان دونوں سے جدا اور ممتاز رکھیں ایک ایسی شی ٔ سے کہ جو ان دونوں میں نہیں ہے یعنی امامت لہذا پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا علی ان دونوں سے افضل ہیں ۔
پس لفظ صدیق کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ پیغمبراکرم(ص) نے تینوں کو صدیق فرمایا ہے لہذا لفظ کے اعتبار سے برابر ہیں ۔ لیکن پیغمبراکرم(ص) نے چاہا کہ ان کے درمیان معنی کے اعتبار سے فرق بیان کردیا جائے یعنی علی کے مستحق امامت ہونے کوامتیاز قرار دیا جائے لہذا فرمایا وہ ان دونوں سے افضل ہیں یعنی علی صدیق ہیں اور امام))(1)۔
ظاہرہے کہ اس مسئلہ سے متعلق بحث ، چند مسائل کو بیان کرنے پر موقوف ہے اور ان کو تدریجی و یکے بعد دیگر بیان کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا ابتداء ً کلمہ ''صادق و کاذب ''سے آشنائی ضروری ہے تاکہ ''صدیقیت '' کے معنی کو درک کرسکیں اور یہ واضح ہوجائے کہ صدیقیت کہاں اور کس کے لیے مناسب ہے ۔
..............
(1) العمدہ 223۔
سب سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) زمانۂ جاہلیت ہی میں لقب ''صادق و امین'' سے ملقب تھے ، حضرت خدیجہ اور آپ کی دختر نیک اخترحضرت فاطمہ زہرا کو پیغمبر اکرم(ص) کی زبان مبارک سے صدیقہ کا لقب ملا ۔
صدیق حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سے پاک وصادق اولادیں ہوئیںکہ جو مسلمانوں کے امام قرار پائے اور خداوندعالم نے آیت تطہیر(1) میں ان کو پاک و منزہ قرار دیا۔
نیز خداوندعالم نے ان کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور فرمایا (کونوا مع الصادقین)(2)( سچو ںکے ساتھ ہوجاؤ)(3) ۔
..............
(1) سورہ احزاب (33) آیت 33۔
(2) سورہ توبہ (9) آیت 119۔
(3) دیکھیے تفسیر قمی : 1 307۔ تفسیر فرات کوفی 137۔ ان دونوں تفاسیر میں وارد ہے کہ'' ای کونوا مع علی و اولادعلی'' علی اور اولاد علی کے ساتھ ہوجاؤ ، یہ معنی حضرت امام محمد باقر سے نقل ہوئے ہیں ، مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ فرمائیں :
الدرالمنثور :3 290۔فتح القدیر:2 395۔ شواہد التنزیل :2601، آیت 55، حدیث353۔ کفایت الطالب 235ـ236۔
اور حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے جیسا کہ شواہد التنزیل :2591، آیت 55، حدیث350۔اور غایت المرام 248 میں ابو نعیم اصفہانی سے منقول ہے ۔اور اسی طرح عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے دیکھیے ذیل کے حوالہ جات:
مناقب امیر المؤمنین (خوارزمی ) 198۔ شواہد التنزیل :2621، آیت 55، حدیث356۔ الدرالمنثور :3 290۔فتح القدیر:2 395۔
اور عبداللہ بن عمر سے روایت کی گئی ہے کہ جو شواہد التنزیل :2621، آیت 55، حدیث357۔ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
مقاتل بن سلیمان سے روایت ہے کہ جو شواہد التنزیل :2621، آیت 55، حدیث356۔میں مذکور ہے اور اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن کا تذکرہ سورہ احزاب (33) آیت 23 میں آیا ہے ۔
(رجال صدقوا ماعاهدوا الله علیه فمنهم من قضی نحبه ومنهم من ینتظر )۔ وہ افراد کہ جنہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا اور اس پر ثابت قدم رہے ان میں سے کچھ نے اس عہد کو انجام تک پہنچایا اور کچھ منتظر رہے ۔ ابو جعفر سے روایت ہے کہ (من قضی نحبه) سے حمزہ اور جعفر مراد ہیں اور (من ینتظر ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔(سورہ احزاب (33) آیت 23)
اس طرح کے القاب میں تحریف اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و منزلت کو گرانے و کم کرنے کی مسلسل ناکام کوششیں کی جاتی رہیں اور اب تک جاری ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود تحریف کرنے والے ان کے مقام کو کم کرنے میں ناکام ہیں اور رہیں گے ۔
اس لیے کہ یہ حضرات عظیم و باعظمت اصلاب و پاکیزہ ماؤں کے رحم میں رہے اور جاہلیت کی آلودگی ان سے دور ہے اور پلیدگی و تیرگی کا لباس انہوں نے جامہ تن نہیں کیا ۔(1)
..............
(1) پیغمبر اکرم(ص) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : (انادعوة ابراھیم) میں اپنے پدربزرگوار ابراہیم کی دعا ہوں ۔ دیکھیے : مسند الشامیین :2 241۔ تفسیر طبری :1 773، حدیث 1707۔ الجامع الصغیر : 1 414، حدیث 703۔ شواہد التنزیل :4111،حدیث435۔
اور آپ ہی سے روایت ہے کہ( نقلت من کرام الاصلاب الی مطهرات الارحام و خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح و ما مسنی عرق سفاح قط وما زلت انقل من الاصلاب السلیمة من الوصوم البریة من العیوب) (شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):11 10)
میں اصلاب کرام سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوا اور نکاح (حلال) زادہ ہوں نہ کہ زنا(حرام) زادہ، میری پشتوں میں بھی کبھی عرق زنا نے مجھے مس نہیں کیا اور میں ہمیشہ سے بے عیب و بے نقص اور پاک اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں ۔
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ: 2 662۔ میں پیغمبراکرم(ص) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:( خلقت انا و علی بن ابی طالب من نور واحد قبل ان یخلق الله آدم … فلما خلق الله آدم اسکن ذالک النور فی صلبه الی ان افترقنا فی صلب عبد المطلب فجزء فی صلب عبدالله و جزء فی صلب ابی طالب) میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور سے خلق ہوئے اس سے پہلے کہ خداوندعالم آدم کو خلق کرتا اور جب آدم کو خلق فرمایا تو اس نور کو صلب آدم میں قرار دیا یہاں تک کہ ہم صلب عبد المطلب میں جدا ہوئے کہ ایک جزء صلب عبداللہ میں قرار پایا اور ایک جز ء صلب ابی طالب میں منتقل ہوا۔
ان کے جدبزرگوار زمانہ جاہلیت میں ''صادق و امین''کے لقب سے معروف تھے اور اپنے عہد وپیمان میں وفادار ہونے کی وجہ سے عربوں کے درمیان مورد اعتماد و قابل احترام تھے ،عرب اپنے فیصلے کرانے آپ کی خدمت میں آتے چونکہ آپ حق کے علاوہ کسی کی طرف داری نہیں کرتے اور کسی کے حق سے انکار نہیں کرتے تھے ۔(1)
بیس سال کی عمر میں (حلف الفضول) میں شرکت کی تاکہ ظالم کے مقابل میںمظلوم کی مدد کرسکیں (2)۔ اور اپنے عہد و پیمان سے وفاداری کرسکیں ۔
پیغمبر اکرم(ص) ، مکہ کے قبیلوں کے درمیان حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کے لیے قاضی و داور قرارپائے ، جبکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ قبائل عرب خانۂ کعبہ کی تجدید بناء کررہے تھے تو حجر اسود کو رکھنے میں آپس میں اختلاف ہوگیا ، ابو امیہ بن مغیرہ (والد ام سلمہ) نے مشورہ دیا کہ جو شخص بھی سب سے پہلے باب السلام سے اندر آئے اس کو قاضی و جج بنایا جائے تو اس وقت محمد(ص) بن عبد اللہ اسی باب سے تشریف لے آئے جیسے ہی آپ کو آتے دیکھا سب کے سب کہنے لگے یہ امین ہیں ان کے فیصلے پر ہم راضی ہیں ۔
پیغمبر اکرم(ص) نے پورا واقعہ سنا اور پھر اپنی عبا ء کو پھیلایا ـایک روایت میں ہے کہ ایک کپڑا منگایاـاور پھر حجر اسود کو اٹھایا آپ نے حجر اسود کو اس میں رکھا پھر فرمایا ہر ایک قبیلے والے اس کے ایک ایک گوشے کو پکڑ لیں ، انہوںنے ایسا ہی کیا اور اٹھایا ۔
..............
(1) السیرة الحلبیہ :1 145۔
(2) طبقات ابن سعد :1 129۔ المنمق 52ـ54۔
جب اس کی جگہ کے قریب پہنچے تب آپ (ص) نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو پکڑا اور اس کے مقام پر نصب فرمادیا ۔(1)
اہل سنت والجماعت کی بعض کتب کی روایت کے مطابق پیغمبراکرم(ص) نے اپنی دعوت اسلام کا آغاز کوہ صفا سے اس طرح کیا کہ فرمایا :
'' اے بنی فہر ، اے بنی عدی، اے فرزندان عبدالمطلب اور اسی طرح تمام قبائل کہ جو آپ سے قریب ترین تھے سب کو نام لے لے کر پکارا یہاں تک کہ سب آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے اور جو نہیں آسکتا تھا اس نے اپنا نمائندہ بھیجا تاکہ معلوم ہو کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔
پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا : آپ حضرات کی نظر میں اگر میں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے کہ جو آپ پر شبخون مارنے والا ہے تو کیا میری تصدیق کروگے ؟
سب نے ایک زبان ہوکر کہا : ہاں آپ ہمارے نزدیک سچے ہیں اور ہم نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا۔
آنحضرت(ص) نے فرمایا : میں آپ کو عذاب شدید سے ڈرانے والا ہوں اے بنی عبد المطلب ، اے بنی عبد مناف ، اے بنی زہرہ ، اے بنی تیم ، اے بنی مخزوم و اسد اور تمام اہل مکہ کے قبیلوں میں سے ایک ایک کا نام لیا پھر فرمایا : خداوندعالم نے مجھے حکم دیا کہ آپ کو عذاب سے ڈراؤں میں آپ کی دنیا وآخرت کا مالک نہیں ہوں مگر یہ کہ کہیے'' لاالہ الا اللہ'' کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے ۔
..............
(1) السیرة النبویة (ابن ہشام) :1 209۔ تاریخ طبری :2 41۔ البدایة والنہایة : 2 303۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی) : 14 129۔
پس ابو لہب کھڑا ہوا ـ وہ بھاری بھر کم آدمی تھا اور بہت جلدی غصہ میں آجاتا تھا ـ اور چیخا : تجھ پر ہمیشہ پھٹکار ہو کیا اسی لیے لوگوں کو جمع کیا ہے اس کے بعد لوگ آپ کے چاروں طرف متفرق ہوگئے تاکہ آپ کے پیغام کے سلسلے میں فکر و مشورہ کریں''۔(1)
جی ہاں ، قبائل عرب نے آپ کی تکذیب کی لیکن خود آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے نظریات و افکار اور پیغام کی وجہ سے کہ جو لوگوں کے لیے حیات بخش تھے وہ نظریات کہ جو اس سے پہلے ان کے سامنے بیان نہیں ہوئے تھے ، لہٰذا اس سلسلے میں آپ کا مقام دوسرے انبیاء و رسل کی طرح ہے کہ وہ بھی اپنی اپنی قوموں کے ذریعہ جھٹلائے گئے اور آپ کی قو م کی مثال بھی قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود و لوط اور اصحاب رس کی طرح ہے جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے:
( وان یکذبوک فقد کذبت قبلهم قوم نوح و عاد و ثمود و قوم ابراهیم و قوم لوط)(2)۔پس اگر آپ کی تکذیب کریں تو آپ سے پہلے قوم نوح و عاد و ثمود اور قوم ابراہیم و قوم لوط اپنے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں ۔
بہر حال آپ کی قوم نے کذب ذاتی اور خیانت و ظلم کی نسبت آپ کی طرف نہیں دی ہے بلکہ آپ پر جادو ٹونہ اور سحر کی تہمت لگائی ہے چونکہ وہ لوگ معجزہ کی حقیقت کو درک نہیں کرسکتے تھے اور پیغمبر اکرم(ص) کو دیوانہ و مجنون کہتے تھے اس لیے کہ آپ پر وحی کے بارسنگین کو دیکھتے تھے جب کہ یہ انتہائی واضح ہے کہ عرب ،اسلام سے پہلے آپ کی امانت داری ، وفا اور سچائی کے معترف تھے ۔
..............
(1) دیکھیے ـ: صحیح بخاری : 6 195، آیت (تبت یدا ابی لهب ) کی تفسیر میں ۔صحیح مسلم : 1 134۔
(2) سورہ حج (22) آیت 42و 43۔
پس '' صادق و صدیق '' سب سے پہلے رسول خدا(ص) کا لقب ہے اور اسی طرح گذشتہ انبیاء کا جیسے ابراہیم ، ادریس ، اسماعیل ، موسی اور عیسی جیسا کہ خود آپ ہی کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے :
(والذی جاء بالصدق و صدق به)(1) وہ کہ جو صدق کو لایا اور اس کے ذریعہ تصدیق ہوئی ۔
حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد ہوا:
(واذکر فی الکتاب ابراهیم انه کان صدیقاً نبیاً)(2) اورکتاب (قرآن) میں ابراہیم کو یاد کرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔
اور پھر حضرت ابراہیم ہی کے لیے ہے :
(و وهبنا له اسحاق و یعقوب و کلا ً جعلناه نبیاً ـ و وهبنا لهم من رحمتنا و جعلنالهم لسان صدق علیا )(3) ۔
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کیے اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمتوں میں سے کچھ عطا کیا اور ان کے لیے سچی زبان ، علی و بلند قرار دی ۔
..............
(1) سورہ زمر(39) آیت 33۔
(2) سورہ مریم(19) آیت 41۔
(3) سورہ مریم(19) آیت 49ـ50۔
حضرت ادریس کے لیے ارشاد خداوندی ہے :
(اذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقاً نبیاً)(1) ۔
اورکتاب (قرآن) میں ادریس کو یادکرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔
اور حضرت اسماعیل کے لیے ارشاد ہوا :
(اذکر فی الکتاب اسماعیل انه کان صادق الوعد و کان رسولاً نبیاً) (2) ۔
اورکتاب (قرآن) میں اسماعیل کو یادکرو کہ وہ صادق الوعدتھے اور پیغمبر نبی تھے ۔
حضرت موسی کے بارے میں ارشاد ہے:
(اذکر فی الکتاب موسی انه کان مخلصاًو کان رسولاً نبیاً) (3) ۔
اورکتاب (قرآن) میں موسی کو یادکرو کہ وہ مخلص اور پیغمبر نبی تھے ۔
بہر حال '' صدیقیت '' پیغمبروں اور نبیوں کی صفت ہے اور ممتاز علامت ہے ، مذکورہ آیات کے اعتبار سے یہ پہلے تو انبیاء اور پیغمبروں کی صفت ہے اور پھر اوصیاء و نیک وباایمان بندوں کی چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :
(والذین آمنوا بالله و رسوله اولائک هم الصدیقون) (4)
..............
(1) سورہ مریم(19) آیت 56۔
(2) سورہ مریم(19) آیت 54۔
(3) سورہ مریم(19) آیت 51۔
(4) سورہ حدید (57) آیت 19۔
وہ لوگ کہ جو خدا اور پیغمبروں پر ایمان لائے وہی لوگ صدیقین ہیں اس آیت میں ''تخصص بعد از ایمان '' پایا جاتا ہے یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان میں یقین نہیں رکھتے یا جھوٹے ہیں وہ ہر گز صدیق نہیں کہلاسکتے بلکہ اس آیت سے مراد صرف اہل بیت علیہم السلام ہیں چونکہ اصل میں وہی صادق و صدیق ہیں کہ جس کی تفصیل آئندہ آئے گی انشاء اللہ ۔
اس آیت ( ومن یطع الله و الرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین و الصدیقین والشهداء والصالحین و حسن اولائک رفیقاً) (1) کے ذیل میں ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا'' من النبیین'' یعنی محمد(ص) ''والصدیقین ''یعنی علی (کہ جو پیغمبراکرم(ص) کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں ) '' والشھداء '' یعنی علی و جعفر و حمزہ اور حسن و حسین ہیں اور پھر کہا تمام پیغمبر صدیق ہیں لیکن ہر صدیق پیغمبر نہیں ہے اور تمام صدیق ، نیک و صالح ہیں لیکن ہر نیک و صالح ، صدیق نہیں ہے اور ہر صدیق شہید بھی نہیں ۔
امیر المؤمنین علی علیہ السلام صدیق و شہید اور صالح تھے لہٰذا وہ نبوت کے علاوہ صالحین و صدیقین کی تمام صفات کے حامل تھے ۔
ابو ذر لوگوں سے کچھ بیان کررہے تھے کہ لوگوں نے ان کی تکذیب کی تب پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : (ما اظلت الخضراء (علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر))
..............
(1) سورہ نساء (4) آیت 69۔ (وہ افراد کہ جو خدا اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہی ان کے ساتھ ہیں کہ جن پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انبیاء و صدیقین ، شہداء و صالحین میں سے اور وہی بہترین دوست ہیں )۔
آسمان نے ابوذر سے زیادہ سچے انسان پر سایہ نہیں کیا ہے، اسی دوران حضرت امیرالمؤمنین تشریف لے آئے تو پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:
''الاان هذا الرجل المقبل فانه الصدیق الاکبر و الفاروق الاعظم''
آگاہ ہوجاؤ کہ آنے والا شخص صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہے''۔(1)
اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرم(ص) سچے اور امین ہیں یعنی وہ ایسی ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد ہے :( وماینطق عن الهوی ان هو الا وحی یوحی) (2) پیغمبراکرم(ص) ، اپنی مرضی اور خواہشات نفس سے کچھ نہیں کہتے وہی کہتے ہیں کہ جو ان پر وحی نازل ہوتی ہے ۔
لہذا آپ (ص) جو کچھ بھی کسی کے بھی بارے میں ارشاد فرمائیں یا کسی کو کوئی لقب عنایت کریں ، رشتہ داری یا اپنائیت کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ ان صفات کا حامل اور صاحب لیاقت ہے ۔
یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام دو چیزوں سے پھیلا ہے ۔
1ـ حضرت خدیجہ کا مال ۔
2ـ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی تلوار۔
جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ یہ دونوں پیغمبراکرم(ص) پر سب سے پہلے ایمان لاے ٔ ہیں اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرنے والے ہیں اور اپنی گرانبہا و قیمتی چیزوں کو اسلام اور پیغمبراکرم(ص) کی دعوت کو پہنچانے اور پھیلانے میں نثار کردیا ہے ۔
..............
(1) مناقب ابن شہر آشوب :3 89ـ90۔
(2) سورہ نجم(53) آیت 3ـ4۔
لہذا دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے جناب خدیجہ کو صدیقہ کا لقب عطا کیا اور حضرت علی کو صدیق کالقب عنایت فرمایا ۔ چونکہ یہ دونوں ہر مقام اور ہر گام پر اور ہر پیغام و کلام میں پیغمبر اکرم(ص) کی تصدیق فرماتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ مصداق صدیقیت ، لوگوں کے ذاتی کمالات اور سیر ت کو دیکھ کر پیغمبراکرم(ص) کی جانب سے مشخص ہوتے ہیں اور یہ ان الفاظ کا اطلاق و استعمال بغیر کسی قابلیت و صلاحیت کے ، بلا وجہ کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے ، یہ کمترین چیز ہے کہ جو عرض کی جاسکتی ہے ۔
تاریخ دمشق میں ضحاک و مجاہد کے حوالے سے ابن عمر کی روایت نقل کی گئی ہے '' ایک مرتبہ جبرئیل پیغام الٰہی لے کر پیغمبراکرم(ص) پر نازل ہوئے اور آپ کے قریب آکر بیٹھ گئے اور محو گفتگو ہوگئے کہ اتنے میں خدیجہ بنت خویلد کا وہاں سے گذرہوا ، جبرئیل نے سوال کیا اے محمد (ص) یہ کون ہیں ؟
پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا یہ میری امت کی صدیقہ ہیں ''هذه صدیقة امتی''
جبرئیل نے کہا : میرے پاس ان کے لیے خداوند عالم کی جانب سے ایک پیغام ہے کہ خداوندعالم ان کو سلام پیش کرتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ جنت میں ان کا گھر قصب(مروارید) کا ہے کہ جو پیاس اور آگ سے بہت دور ہے ، نہ اس میں کوئی رنج و غم ہے اور نہ کسی طرح کا شور شرابا۔
جناب خدیجہ نے فرمایا : الله السلام و منه السلام والسلام علیکما ورحمة الله و برکاته علی رسول الله
خداوندعالم سلام ہے اور سلامتی اسی کی جانب سے ہے آپ دونوں پر سلام ہو اور رحمت خدا اور اس کی برکتیں رسول خدا پر نازل ہوں یہ گھر کہ جو قصب کا ہے کیا ہے؟
پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا : مروارید کا بہت بڑا قصر و قلعہ مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے قلعوں کے درمیان اور یہ دونوں بہشت میں میری بیویاں ہونگی۔(1)
خداوندعالم کی جانب سے جناب خدیجہ کے لیے سلام آنا یہ آپ کا دوسری بیویوں پر فوقیت و برتری کی نشانی ہے چونکہ سلام الہٰی صرف معصوم کے لیے یا پھر اس شخص کے لیے آتا ہے کہ جو عصمت کے مرتبے میں ہو جیسے سلمان ، ابوذر اور عمار و غیرہ۔
..............
(1) تاریخ دمشق : 7 118۔ اوراسی سے نقل ہے البدایة والنھایة :2 62 میں ۔
یہ روایت شیعہ و سنی دونوں کتابوں میں مختلف و متعدد اسنا دکے ساتھ ذکر ہوئی ہے ، بخاری نے اپنی صحیح :4 231،کتاب بدء الخلق ،باب تزویح النبی (ص) خدیجہ میں مختصر اشارے کے ساتھ ابو ہریرہ سے نقل کی ہے ۔
سیرہ ا بن ہشام : 1591 میں عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب سے نقل ہوئی ہے اور اس میں یہ آیا ه '' الله السلام و منه السلام وجبرئیل السلام''۔
دولابی نے اپنی کتاب الذریة الطاہرہ 36 میں ذکر کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک :3 186 میں انس سے روایت نقل کی ہے اوراس میں ہے کہ ان اللہ ھو السلام و علیک السلام ورحمة اللہ و برکاتہ ۔ اور کہا ہے کہ یہ روایت ، مسلم کی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ۔
معجم الکبیر : 23 15 میں اور سنن الکبری (نسائی ) : 5 94 ،حدیث 8359میں اور اسی سے نقل ہے اصابہ : 8 202 میں اس میں بھی راوی انس ہی ہیں اور اس میں مذکور ہے ''ان اللہ ھو السلام و علی جبرئیل السلام وعلیک السلام ۔ اور تفسیر عیاشی : 2 279،حدیث 12 میں ۔ اور اسی سے نقل ہے بحار الانوار :16 7 میں کہ یہ روایت ابو سعید خدری سے ہے ۔
ہاں ، اہل سنت نے سلام الہٰی کو دوسروں کے لیے بھی نقل کیا ہے جبکہ تحقیق اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ان روایات کا جعلی و من گھڑت ہونا ثابت ہے ۔
عسقلانی ، فتح الباری میں اس حصے کی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جناب خدیجہ نے فرمایا : ھو السلام و عن جبرئیل السلام وعلیک السلام (خداوندعالم سلام ہے اور جبرئیل سے سلام ہے اور آپ پر اے رسول خدا سلام ہے )۔
علماء کا بیان ہے کہ یہ واقعہ جناب خدیجہ کی بلندی مقام پر دلیل ہے چونکہ آپ نے ''وعلیہ السلام'' نہیں کہا جیسا کہ بعض صحابہ کے متعلق یہ نقل کیا گیا ہے ۔ جناب خدیجہ نے اپنی فکر سے یہ سمجھ لیا کہ خداوندعالم کو عام مخلوق کی طرح جواب سلام نہیں دیا جاتا (1)۔
ڈاکٹر سلیمان بن سالم بن رجاء سیحمی (اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں علمی گروپ کے ممبر)جناب خدیجہ کے لیے خدا کی جانب سے سلام کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کلام میں جناب خدیجہ کی دو عظیم منقبتیں پائی جاتی ہیں ۔
1ـ خداوندعالم کی جانب سے جبرئیل کے ذریعہ آپ کے لیے سلام آنا اور پیغمبر اکرم(ص) کا آپ تک سلام پہچانا یہ ایسی خصوصیت ہے کہ کسی دوسری خاتون کو نصیب نہیں ہوئی ۔
2ـ جنت میں مروارید کے گھر کی بشارت کہ جس میں نہ شورشرابا ہے اور نہ رنج وغم ۔
..............
(1) فتح الباری : 7 105۔
سہیلی کا بیان ہے کہ'' بیت '' کے ذکر میں ایک لطیف معنی کی طرف اشارہ ہے چونکہ جناب خدیجہ بعثت سے پہلے صاحب خانہ تھیں اور آپ کا ہی گھر اسلام کا واحد گھر قرار پایا، جس روز سے پیغمبر اکرم(ص) مبعوث ہوئے تو صرف آپ ہی کا بیت الشرف اسلام کا تنہا گھر تھا اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے ۔
اور پھر کہتا ہے کہ کسی بھی کام اور کار خیر کا بدلہ و جزاء غالباً اسی لفظ کے ساتھ بیان ہوتاہے چاہے وہ جزاء کتنی بھی بلند و بالا ہی کیوں نہ ہو اسی وجہ سے حدیث میں قصر نہیں بیت آیا ہے۔(1)
حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ لفظ بیت میں ایک خاص معنی پوشیدہ ہے چونکہ پیغمبر اکرم(ص) کے اہل بیت کی مرکزحضرت خدیجہ ہیں اس لیے کہ اس آیت(( ( انمایرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهر کم تطهیرا)(2)
اے اہل بیت بس اللہ کا ارادہ یہ ہے آپ کو ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے ) )کی تفسیر میں جناب ام سلمہ کا بیان ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبراکرم(ص) نے فاطمہ ، علی وحسن اور حسین کو بلایا اور اپنی عبا ء ان پر ڈالی اور فرمایا : پروردگارا یہ میرے اہل بیت ہیں (اس روایت کو ترمذی اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے)۔(3)
..............
(1) الروض الانف :1 416۔
(2) سورہ احزاب (33) آیت 33۔
(3) فتح الباری :7 138۔
ان افراد یعنی اہل بیت کا مرکز جناب خدیجہ ہیں چونکہ امام حسن و امام حسین حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں اور حضرت فاطمہ جناب خدیجہ کی بیٹی ہیں اور حضرت علی بچپن ہی سے جناب خدیجہ کے گھر آگئے تھے وہیں تربیت پائی اور پھر آپ کی بیٹی جناب فاطمہ سے شادی ہوئی لہذا اہل بیت کی مرکزیت جناب خدیجہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔(ڈاکٹر سلیمان )(1)
حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا : آپ کے لیے دنیا کی چار عورتوں کی معرفت کافی ہے مریم بنت عمران ، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد (ص)۔(2)
سنن ترمذی میں عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے علی بن ابی طالب سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول خدا (ص)سے سنا آپ نے فرمایا: اس زمانے میں دنیا کی بہترین عورت خدیجہ بنت خویلد ہیں اور اس زمانے میں مریم بنت عمران بہترین عورت تھیں ۔(3)
..............
(1) العقیدہ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط:1 103ـ108۔
(2) مستدرک حاکم : 3 157۔ اور ترمذی نے اس روایت کو جلد: 5 367 ، حدیث3981، ابواب مناقب میں نقل کیا ہے ۔ مسند احمد بن حنبل : 3 135۔ اخبار اصبہان:2 117۔
(3) سنن ترمذی : 5 367،حدیث 3980،فضل خدیجہ۔ مسند احمد بن حنبل : 1 116۔ صحیح بخاری : 4 138، (تھوڑے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے )
جناب خدیجہ ، پیغمبراکرم(ص) کے لیے بہترین وزیر تھیں (1) اور آپ کو زمانۂ جاہلیت میں ''طاہرہ'' کہا جاتا تھا۔(2)
فضائل الصحابہ ٔ احمد ابن حنبل میں (3) تاریخ دمشق (4) اور دوسرے منابع اور مآخذ(5) میں عبدالرحمن بن ابی لیلی کی سند سے کہ اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم(ص)نے فرمایا: صدیقین (بہت زیادہ سچے) تین شخص ہیں حبیب بن موسی نجار مؤمن آل یاسین وہ کہ جس نے کہا ( یا قوم اتبعواالمرسلین) (6) اے میری قوم والو پیغمبروں کی اطاعت کرو ۔
..............
(1) البدایة و النھایة :3 157۔ فتح الباری : 7 148۔ الذریة الطاہرہ (دولابی) 40۔ اسد الغابہ : 5 439۔
(2) مجمع الزوائد : 97 218۔ فتح الباری :7 100۔المعجم الکبیر :22 448۔ اسد الغابہ :5 434۔ تاریخ دمشق :3 131۔ البدایة و النھایة :3293۔سیرة النبویة (ابن کثیر) : 4 608۔
(3) فضائل الصحابہ : 2 655و 267۔
(4) تاریخ دمشق : 42 43و 313۔
(5) الفردوس بماثور الخطاب :2 421۔ فیض القدیر : 4 138۔ کنز العمال : 11 601۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :9 172۔مناقب ابن شہر آشوب :2 286۔ الجامع الصغیر:1152۔ الدر المنثور : 5 262۔ ان تمام کتابوں میں صرف قرطبی تنہا ہے کہ جس نے اپنی تفسیر :15 306 میں تمام محدثین و مفسرین کے خلاف نقل کیا ہے کہ تیسرا شخص ابوبکر ہے نہ کہ علی ۔
(6) سورہ یاسین(36) آیت 20۔
حزقیل مؤمن آل فرعون وہ کہ جس نے کہا ( أ تقتلون رجلا)(1)کیا ایسے شخص کو قتل کروگے اور علی بن ابی طالب ان میں تیسرے شخص ہیں کہ جو ان سب سے افضل ہیں ۔
سنن ابن ماجہ میں اپنی اسناد کے ساتھ عباد بن عبداللہ سے روایت نقل ہوئی کہ امیر المؤمنین نے فرمایا: ''انا عبد الله و اخو رسوله و انا الصدیق الاکبر لا یقولها بعدی الا کذاب صلیت قبل الناس سبع سنین'' میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس کے رسول کا بھائی ہوں، میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد صدیق ہونے کا دعوی جو بھی کرے وہ کذاب ہے میں نے لوگوں سے سات سال پہلے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی ۔
مجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور اس کے رجال ثقہ ہیں اس روایت کو حاکم نے مستدرک میں منہال سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہے ۔(2)
..............
(1) سورہ مؤمن (40) آیت 28۔
(2) سنن ابن ماجہ :1 44۔ مصباح الزجاجہ: 1 22۔ السیرة النبویة (ابن کثیر ) :1 431۔ مستدرک حاکم : 3 111۔مصنف ابن ابی شیبہ:7 498۔ الاحاد و المثانی (ضحاک) : 1 148۔ السنة (ابن ابی عاصم) 548۔ السنن الکبری (نسائی ) : 5 106۔ خصائص امیر المؤمنین (نسائی) 46۔ تاریخ طبری:2 56۔ تہذیب الکمال : 22 514۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) : 13 200۔ اس میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین نے فرمایا : انا الصدیق الاکبر وانا الفاروق الاول اسلمت قبل اسلام ابی بکر و صلیت قبل صلاتہ بسبع سنین۔میں صدیق اکبر اور فاروق اول ہوں ، ابوبکر سے پہلے اسلام لایا اور اس سے سات سال پہلے نماز پڑھی ۔
معاذ ہ عدویہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے علی کو خطبہ دیتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : میںصدیق اکبرہوں ، ابو بکر کے ایمان لانے سے پہلے ایمان لایا اور اس کے اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام قبول کیا ۔(1)
ابن حجر نے کتاب اصابہ میں اورابن اثیر نے اسد الغابہ میں ابی لیلی غفاری سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے رسول اکرم(ص) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : سیکون من بعدی فتنة فاذا کان ذالک فالتزموا علی بن ابی طالب فانه اول من آمن بی و اول من یصافحنی یوم القیامة وهو الصدیق الاکبر و هو فاروق هذه الامة و هو یعسوب المؤمنین۔(2)
میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا اس وقت علی سے جدا نہ ہونا چونکہ علی وہ پہلے فرد ہیں کہ جو مجھ پرسب سے پہلے ایمان لائے اور روز قیامت مجھ سے سب سے پہلے مصافحہ کریں گے ، وہ صدیق اکبر ہیں اور اس امت میں فاروق و مؤمنوں کے بادشاہ ہیں ۔
تاریخ دمشق میں اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے کہا:
..............
(1) الاحاد والمثانی (ضحاک ) :1 151۔ التاریخ الکبیر(بخاری) :4 23۔ تاریخ دمشق :42 33۔ المعارف (ابن قتیبہ ) 73۔ انساب الاشراف 146،شمارہ 146۔ مناقب ابن شہر آشوب : 1 281۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :13 240۔ کنزالعمال : 13 164، حدیث 36497۔ سمط النجوم العوالی :2 476،حدیث 8۔ اور کتب دیگر ۔
(2) الاصابہ : 7 293۔ اسد الغابہ : 5 287۔ اور اسی کی طرح ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے دیکھیے :ـ الیقین (ابن طاؤس) :1 500۔
'' ستکون فتنة فمن ادرکها منکم فعلیه بخصلتین : کتاب الله و علی بن ابی طالب فانی سمعت رسول الله یقول: ـ وهو آخذ بید علی ـ هذ ا اول من آمن بی و اول من یصافحنی و هو فاروق هذه الامة یفرق بین الحق والباطل و یعسوب المؤمنین و المال یعسوب الظلمة (1) وهو الصدیق الاکبر وهو بابی الذین اوتی منه ، وهو خلیفتی من بعدی'' ۔(2)
..............
(1) یہ جملہ شیعہ اور اہل تسنن کی تمام حدیث کی معتبر کتابوں میں مذکورہے اگر چہ اہل تسنن نے اس کو جعلی فرض کیا ہے اور اس کی جگہ پر'' المال یعسوب الفجار '' اور'' المال یعسوب المنافقین'' بھی بعض کتب اہل تسنن میں رکھ کر کچھ چالاکی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
یہ کلام ، امیرالمؤمنین کے بارے میں پیغمبراکرم(ص) سے مروی ہے اور خود آپ بھی کہ جب بصرہ کے بیت المال میں تشریف لائے اور اس میں درھم و دینار پر نظر پڑی تب فرمایا اور اس کے علاوہ دوسرے مقام پر بھی یہ کلمات زبان پر لائے ۔
اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ مؤمنین کے دل آپ کے شیدا اور عاشق ہیں اور آپ ہی کو اپنا مولا و امیر مانتے ہیں اور آپ ہی سے متمسک ہیں ۔لیکن ظالم ، فاسق و منافق اور انہیں کے طرف دار و ماننے والے اور تمام وہ افراد کہ جو حق و عدل کو برداشت نہیں کرسکتے ،دنیا پرست ہیں مال کے دلدادہ ہیں اور دنیاوی ساز وسامان پر مرتے ہیں ، مال اور دنیا ان کے دلوں پر حکومت کیے ہوئے ہیں ، اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ہر کام کرگذر تے ہیں اور ہر برے فعل کے مرتکب ہوجاتے ہیں اور گندگی میں گرجاتے ہیں دنیا کو اختیار کرنے کی خاطر جو کام بھی ہو چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ، کتنا ہی خلاف شرع و شریعت کیوں نہ ہو، چاہے دین ہی سے ہاتھ دھونا پڑے یا دوسروں کی حق تلفی ہو، انجام دے دیتے ہیں ۔ اس طرح کے لوگوں کی رہبری ، ظلمہ یعنی وہ لوگ کہ جن کے اندر ونی حالات بہت گندیدہ ہیں، کرتے ہیں ، ظاہر ہے کہ وہ لوگ اپنے اوپر اور دین و سماج پر ظلم کرتے ہیں،مال بہت سے فتنوں اور حوادث کے وجود کا سبب بنتا ہے کہ جوانتہائی دردناک و غم انگیز ہوتے ہیں ،وہ لوگ مال کے پیرو کار ہیں اور مال کو جہاں بھی جس کے ہاتھ میں بھی دیکھتے ہیں اس کی اطاعت شروع کردیتے ہیں اسی کی راہ کو اپنا لیتے ہیں اور کسی دوسری چیز کو نہیں سوچتے یا دوسری تمام چیزوںکو بھول جاتے ہیں ۔
(2) تاریخ دمشق: 42 42ـ43۔ اور اسی طرح کاکلام ابوذر سے بھی نقل ہوا ہے ۔دیکھیے:ـ تاریخ دمشق :42 41۔
عنقریب فتنہ برپا ہوگا جو بھی اس وقت موجود ہو اس کو چاہیے کہ دو خصلتوں کو مضبوطی کے ساتھ اپنالے ، ایک کتاب خدا اور دوسرے علی بن ابی طالب چونکہ میں نے رسول خدا (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ جبکہ آپ (ص) نے علی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور فرمارہے تھے کہ یہ پہلا شخص ہے کہ جو مجھ پر ایمان لایا اور سب سے پہلے روز قیامت مجھ سے مصافحہ کرے گا ،یہ اس امت کا فاروق ہے کہ جو حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے ، یہ مؤمنین کا حاکم ہے اور مال ظالموں پر حاکم ہے ، یہ صدیق اکبر ہے ، مجھ تک پہنچنے کا دروازہ ہے اور میرے بعد میرا خلیفہ ہے ۔
ابی سخیلہ کا بیان ہے کہ میں نے اور سلمان فارسی نے حج انجام دیا اور اس کے بعد ابوذر کے پاس پہنچے ، خدا کی مصلحت، ایک مدت تک ان کے مہمان رہے اور جب ہمارے چلنے کا وقت ہوا میں نے ابوذر سے سوال کیا:
..............
اے ابوذر کچھ حادثات واقع ہوئے ہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں لوگوں میں اختلاف نہ ہو جائے ، اگر ایسا ہو تو ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے تو ابوذر نے کہا خداوندعالم کی کتاب اور علی بن ابی طالب کا دامن پکڑلو اور گواہ رہنا میں نے پیغمبراکرم(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : علی سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور روز قیامت سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے وہ صدیق اکبر ہیں اور وہ فاروق ہیں کہ جوحق و باطل کے درمیان جدائی کرتے ہیں ۔(1)
پیغمبر اکرم(ص) سے مروی ہے کہ آپ نے جناب امیر سے فرمایا : اوتیت ثلاثاً لم یوتهن احد ولا انا اوتیت صهراً مثلی ، ولم اوت انا مثلی،(2) و اوتیت زوجة صدیقة مثل ابنتی و لم اوت مثلها زوجة و اوتیت الحسن و الحسین من صلبک و لم اوت من صلبی مثلها و لکنکم منی وانامنکم''(3) آپ کو تین ایسی چیزیں ملی ہیں جو کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئیں حتی مجھے بھی نہیں ملیں ،خسر میری طرح، جبکہ مجھے بھی اپنی طرح خسر نہیں ملا ، صدیقہ بیوی ، میری بیٹی کی طرح جب کہ مجھے اس طرح کی کوئی بیوی نہ مل سکی اور آپ کی صلب سے حسن و حسین جیسے بیٹے عطا ہوئے، جب کہ مجھے ان کی طرح بیٹے نہ مل سکے ،لیکن آپ سب مجھ سے ہو اور میں آپ سے ہوں ۔
..............
(1) تاریخ دمشق : 41 42۔ المعجم الکبیر : 6 269۔ مجمع الزوائد (ہیثمی ) : 9 102۔
(2) درالغدیر :2 440(چاپ اول تحقیق شدہ مرکز الغدیر 1416ھ) اس میں نیچے کے حاشیہ میں مذکورہے کہ الریاض النضرہ : 3 52 میں بجائے مثلی ، مثلک آیا ہے۔
(3) الریاض النضرہ :2 202۔ اسی طرح الغدیر :2 312 میں مذکورہے۔
اس حدیث سے واضح ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ ہیں چونکہ اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ خدیجہ ، پیغمبر اکرم(ص) کی نص کے مطابق صدیقہ ہیں بلکہ جبکہ اس حدیث میں حضرت فاطمہ زہرا کا مقام والا بیان ہوا ہے کہ جو اس مطلب پر دلیل ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا جناب خدیجہ سے افضل ہیں ، حضرت کا یہ فرمان کہ ولم اوت مثلھا زوجة مجھ کو فاطمہ کی طرح بیوی نہیںملی۔
اس پوری گفتگو سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صدیقہ کا صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ چند مراتب ہیں جیسے کہ جناب خدیجہ صدیقہ ہیں ان کا مرتبہ الگ ہے اور حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ ہیں جبکہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔
ایک طولانی حدیث میں پیغمبر اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا :'' یا علی انی قد اوصیت فاطمة ابنتی باشیاء و امرتها ان تلقیها الیک فانفذ ها فهی الصادقة الصدیقة ثم ضمها الیه و قبل رأسها و قال فداک ابوک یا فاطمة۔(1)
اے علی میں نے اپنی بیٹی فاطمہ کو چند چیزوں کی وصیت کی اور ان کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بتائیں پس ان کو انجام دینا چونکہ وہ صادقہ (سچی)اور صدیقہ(بہت زیادہ سچی) ہیں پھر پیغمبراکرم(ص) نے حضرت فاطمہ کو اپنے سینے سے لگایا اور آپ کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا اے فاطمہ آپ کا باپ آپ پر فدا و قربان ہو۔
مفضل بن عمر سے روایت ہے کہ اس نے کہا میں نے حضرت امام جعفر صادق سے عرض کی کہ حضرت فاطمہ کو کس نے غسل دیا؟ آپ نے فرمایا: امیرالمومنین نے۔
..............
(1) کتاب الوصیة (عیسی بن مستفاد) 120۔ بحار الانوار : 2 491۔
یہ کلام مجھ پر گراں گذرا آپ نے فرمایا : میں نے جو کچھ تم کو خبر دی ہے یہ تم پر گراں گذری ہے ! میںنے عرض کی جی ایسا ہی ہے میں آپ پر قربان ہوجاں، تب مولا نے فرمایا: لا تضیقن فانها صدیقة لم یکن یغسلها الا الصدیق اماعلمت ان مریم لم یغسلها الا عیسی(1)۔
اپنے اوپر احساس نہ لیں ، فاطمہ صدیقہ ہیں اور ان کو صدیق کے علاوہ کوئی غیر غسل نہیں دے سکتا تھا ، کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جناب مریم کو حضرت عیسی کے علاوہ کسی نے غسل نہیں دیا ۔
جناب علی بن جعفر اپنے بھائی امام موسی کاظم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ان فاطمة صدیقة شهیدة (2) بیشک فاطمہ صدیقہ شہیدہ ہیں ۔
پس صدیقہ کبری جناب خدیجہ ، صادق امین محمد(ص) بن عبداللہ سے صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا دنیا میں آئیں اور آپ کی شادی صدیق اکبر علی بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی اور دونوں ، انوار کا مرکز اور دو دریا کے ملاپ یعنی مجمع البحرین ہوگئے ۔
اس سے پہلے حضرت امیرالمؤمنین علی اور جناب خدیجہ کبری نے پیغمبراکرم(ص) کی تصدیق فرمائی اس زمانے میں کہ لوگ آپ کو جھٹلارہے تھے ۔ اور پیغمبراکرم(ص) نے بارہا عایشہ کو کہ جب وہ جناب خدیجہ سے رشک و حسد کرتیں تو اس بات کی تاکید فرمائی ۔
..............
(1) اصول کافی :1 459، حدیث 24 و ج: 3 159،حدیث 13۔علل الشرائع 184، حدیث1۔ التھذیب:1 440، حدیث 1424۔ الاستبصار:1 199، حدیث 15703۔
(2) اصول کافی : 1 458، حدیث 12۔ مرأ ة العقول : 5 315۔ اس ماخذ میں جناب علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کلمہ صدیقہ سے آپ کی عصمت بھی ثابت ہوتی ہے ۔
عایشہ نے کہا کہ آپ کس قدر قریش کی ایک بوڑھی کا تذکرہ کرتے ہیں جبکہ ان کے منھ میں دانت بھی نہ تھے بلکہ صرف دو سرخ مسوڑے رہ گئے تھے حالانکہ آپ کو خداوندعالم نے ان سے بہتر بیویاں عطا کی ہیں ۔(1)
اس وقت پیغمبراکرم(ص) کا چہرہ اس قدر متغیر ہوا کہ کبھی ان کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا مگر سوائے وحی کے وقت یا بجلی کے کڑکتے اور گرجتے وقت کہ جب وہ محسوس کرتے کہ وہ رحمت یا عذاب الہٰی ہے ۔(2) پھر فرمایا : یہ بات نہ کہو ، چونکہ خدیجہ نے میری اس وقت تصدیق کی کہ جب لوگ مجھ کو جھٹلارہے تھے ۔(3)
خداوندعالم کے اس کلام ( والذی جاء بالصدق و صدق به) (4) (وہ کہ جو صدق لایا اور اس کے ذریعہ سے تصدیق کی ) کی تفسیر میں صحابہ اور تابعین سے روایت ہے کہ ( والذی جاء بالصدق) سے مراد پیغمبر اکرم(ص) ہیں اور ( و صدق به) (کہ جس نے تصدیق کی ) سے
..............
(1) صحیح بخاری : 4 231، کتاب بدء الخلق ، باب تزویج النبی (ص) خدیجہ و فضلھا ۔ صحیح مسلم :7 134۔ مستدرک حاکم:4 286۔ مسند بن راہویہ : 2 587۔ صحیح بن حبان : 15 468۔ سیر اعلام النبلاء : 2 117۔
(2) مسند احمد بن حنبل : 6 150 و 154۔ البدایة و النھایة : 3 158۔
(3) المعجم الکبیر : 12 32۔ الافصاح (مفید ) 217۔ التعجب (کراجکی) 37۔
(4) سورہ زمر(39) آیت 33۔
حضرت علی بن ابی طالب مراد ہیں ۔(1)
خداوندعالم کے اس کلام کے بارے میں کہ ( فمن اظلم ممن کذب علی الله و کذب بالصدق اذجائه) (2) اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے کہ جس نے خداوندعالم پر جھوٹ بولا اور جب سچائی اس کی طرف آئی تو اس کو جھٹلایا ۔
امیر المؤمنین نے فرمایا :'' الصدق ولایتنا اهل البیت'' (3) صدق سے مراد ہم اہل بیت کی ولایت ہے ۔
صاحبان اقتدار و حکومت اور ان کے پیرو کار ان القاب کو حضرت فاطمہ زہرا ، جناب خدیجہ اور حضرت علی کے لیے برداشت نہ کرسکے ۔ لہذا اس حقیقت کی تحریف میں لگ گئے اور اپنی سعی ناکام سے ابو بکر کو صدیق کا لقب دیا اور عایشہ کو صدیقہ کہا ۔
..............
(1) یہ معنی ابن عباس سے نقل ہواہے ۔ دیکھیے : شواہد التنزیل : 2 180، آیت 140، حدیث 813 و 814۔ اور ابو ہریرہ سے منقول ہے جیسا کہ الدر المنثور : 5 328 میں مذکورہے ۔ اور ابو طفیل سے نقل ہے جیسا کہ شواہد التنزیل میں موجود ہے :1812، آیت 140، حدیث 815 ۔ ابو الاسود سے جیسا کہ البحر المحیط : 7 411 میں آیا ہے اور مجاہد سے مندرجہ ذیل منابع میں ہے :
البحر المحیط : 7 411 ۔تفسیر قرطبی :15 256۔ شواہد التنزیل : 2 180، آیت 140، حدیث 810 و 812۔ مناقب امام علی (ابن مغازلی) 269، حدیث 217۔ تاریخ دمشق : 42 359ـ 360۔
(2) سورہ زمر(39) آیت 32۔
(3) امالی (طوسی) 364، مجلس 13، حدیث 17۔ مناقب ابن شہر آشوب :2 288۔ بحار الانوار :8 288۔
نیز خداوندعالم کے اس فرمان (کونوا مع الصادقین ) (1) (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) کی تفسیر یہ کی کہ ابوبکر و عمر کے ساتھ ہوجاؤ۔(2)
اور وہ روایات کہ جو صراحتا ً امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے لقب صدیق ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان کی یا تضعیف کی یا اصلاً عمداً قبول ہی نہیں کیا ۔(3)
ہم اس سلسلے میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ابو بکر اور عایشہ کی زندگی و سیرت میں اس طرح کی صلاحیت و لیاقت اور ملاکات و معیار پائے جاتے ہیں کہ ان کو صدیق اور صدیقہ کہا جائے یا یہ لقب زبردستی ان کو دیے گئے ہیں ؟۔
..............
(1) سورہ توبہ (9) آیت 119۔
(2) تفسیر طبری : 11 84۔ زاد المسیر (ابن جوزی) : 3 349۔ تفسیر قرطبی : 8 288۔ الدر المنثور : 3 289۔ فتح القدیر : 2 414۔ تاریخ دمشق : 30 310 و 337 و ج : 42 361۔
(3) دیکھیے : ضعفاء العقیلی : 2 130 و 137۔ الکامل (ابن عدی) :3 274۔ الموضوعات (ابن جوزی) :1 34۔
یہ لوگ عمر کی پیروی کرتے ہوئے اس خبر کو ضعیف مانتے ہیں کہ عمر نے حضرت امیر المؤمنین علی کو بیعت نہ کرنے کی صورت میں دھمکی دی تب امام علی نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کے بندے اور اس کے رسول کے بھائی کو قتل کروگے ؟ عمر نے کہا : آپ خداکے بندے تو صحیح لیکن رسول کے بھائی نہیں !۔
عایشہ ا ور صدیقیت
صدیق ،اگر پیغمبر یا وصی پیغمبر نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام وجود سے رسالت کی تصدیق کرے اور اس پر یقین رکھے ، آسمانی رسالت پر دل سے ایمان لائے اور عقیدہ رکھے نہ یہ کہ رسالت میں شک کرے جیسا کہ عایشہ کے کلام میں مذکور ہے جب کہ وہ پیغمبر اکرم(ص) کی عدالت میں مشکوک ہوئیں اور کہا کہ کیا آپ کو یہ گمان نہیں ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ، اس وقت عایشہ کے باپ ابوبکر نے ان کے منھ پر طمانچہ مارا۔(1)
اور پھر دوسرے مقام پرعایشہ نے پیغمبر اکرم(ص) سے کہا : خدا سے ڈرو حق کے علاوہ کچھ اور نہ کہو ۔
ابو بکر نے یہ سن کر ان کے اوپر ہاتھ اٹھایا اور عایشہ کی ناک مروڑ دی اور کہا: اے ام رومان (عایشہ کی ماں) کی بیٹی تو بغیر ماں کے ہوجائے تو اور تیرا باپ حق بولتے ہیں اور رسول خدا(ص) حق نہیں بولتے ۔(2)
..............
(1) مسند ابی یعلی : 1308 حدیث 4670۔ مجمع الزوائد : 4 322۔ المطالب العالیہ (ابن حجر) : 1888، باب کید النساء حدیث 1599۔
(2) سبل الھدی و الرشاد : 11 173۔( ابن عساکر نے اپنے اسناد سے عایشہ سے نقل کیا ہے ) اور دیکھیے ، عین العبرہ 45۔ الطرائف 492۔ بہ نقل از احیاء العلوم (غزالی ) : 2 43۔
صدیقہ وہ عورت ہے کہ جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو حتی کہ اپنی سوتن کے ساتھ بھی ،اور یہ بات جیسا کہ الاستیعاب (ابن عبدالبر) اور الاصابہ(ابن حجر) میں مذکورہے ، عایشہ کے کردار سے سازگار نہیں ہے ۔ ان دونوں کتابوں میں موجود ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے اسماء بنت نعمان سے شادی کی ، عایشہ نے حفصہ سے یا حفصہ نے عایشہ سے کہا :اس کے مہندی لگاؤ اور میں اس کو سنوارتی ہوں ۔
دونوں نے اپنے اپنے کام انجام دیے اور پھر کسی ایک نے اسماء سے کہا کہ پیغمبر اکرم(ص) کو یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ جب وہ تشریف لائیں تو ان سے کہا جائے (اعوذ باللہ منک ) میں آپ سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔
پس جب رسول خدا(ص) اسماء کے پاس پہنچے،پردہ کو اٹھایا ہاتھوں کو اس کی طرف بڑھایا اسماء نے کہا (اعوذ باللہ منک )پیغمبراکرم(ص) نے اپنی صورت کو اپنی آستینوں سے چھپا لیا اور پردہ کو گرا دیا پھر تین مرتبہ فرمایا : خدا کی پناہ میں ہو ، اور پھر اس کو اس کے گھر والوں کے پاس واپس کردیا ۔(1)
کیا اس طرح کے کارنامے عایشہ کو صادقین کے زمرے سے دور نہیں کرتے کہ جومیاں بیوی کے درمیان جدائی کا سبب بنیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ مسلمان کیسے عایشہ کو صدیقہ مانتے ہیں جب کہ ان کو معلوم ہے کہ سورہ تحریم ان ہی کی شأن میں نازل ہوا ہے ، وہ ایسی عورت ہیں کہ جنہوںنے پیغمبر اکرم(ص) کو مجبور کیا کہ آپ (ص) اپنے اوپر حلال الہٰی کو حرام کریں!؟۔
..............
(1) الاستیعاب : 4 1785، شمارہ زندگینامہ 3232۔ الاصابہ: 8 20 ، شمارہ زندگینامہ 10815۔ مستدرک حاکم : 4 36۔ الطبقات : 8 145۔ المحبر 95۔ المنتخب من ذیل المذیل 106۔
کس طرح عایشہ جیسی عورت ، صدیقہ ہوسکتی ہیں کہ جو حفصہ کے ساتھ مل کر پیغمبراکرم(ص) کے خلاف سازشیں کریں یہاں تک کہ ان کی شأ ن میں خدا وندعالم کی جانب سے یہ آیات نازل ہوں۔
(اذا اسر النبی الی بعض ازواجه حدیثا فلما نبأت به و اظهر ه الله علیه عرف بعضه و اعرض عن بعض فلما نبأ ها به قالت من انبأک هٰذا قال نبأنی العلیم الخبیر٭ ان تتوبا الی الله فقد صغت قلوبکما و ان تظاهرا علیه فان الله هو مولاه و جبریل و صالح المؤمنین و الملائکة بعد ذالک ظهیرا)(1)
اور جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے بات چھپا کر کہی پھر جب اس بیوی نے راز کی خبر کردی اور اللہ تعالی نے اسے رسول پر ظاہر کردیا تو اس نے اس کا کچھ حصہ جتلا دیا اور کچھ حصے سے کنارہ کشی کی ، پس جب اس نے یہ بات اس بیوی کو بتلائی وہ کہنے لگی آپ کو یہ خبر کس نے دی ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا: مجھ کو بہت جاننے والے، پوری پوری خبر رکھنے والے نے خبر دی۔ اگر تم دونوں (نبی کی بیویاں) اللہ کے حضور میں توبہ کرلو تو فبھا پس تم دونوں کے دل یقینا منحرف ہوگئے ہیں اور اگر دونوں اس نبی کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتی رہیں تو یقینا خداوندعالم اس کاسرپرست ہے اور جبریل و صالح المؤمنین بھی اور اس کے بعد کل فرشتے اس کے پشت پناہ ہیں ۔
..............
(1) سورہ تحریم (66) آیت 3 و4۔
ابن عباس نے عمر بن خطاب سے سوال کیا کہ وہ دو عورتیں جو پیغمبر اکرم(ص) کے خلاف متحد ہوئیں وہ کون ہیں ؟ ابھی ابن عباس کا کلام تما م نہ ہوا تھا کہ عمر نے جواب دیا : عایشہ و حفصہ۔(1)
یہی طعنہ عثمان نے عایشہ کو دیا جب کہ عثمان نے اس مال کو دینے میں تاخیر کی کہ جو ہمیشہ عایشہ کو دیا کرتے تھے ، عایشہ کو غصہ آیا اور کہا :
اے عثمان امانت کو کھاگئے اور رعیت کو ختم کردیا ، اپنے خاندان کے برے لوگوں کومسلمانوں پر مسلط کردیا ، خدا کی قسم اگر نماز پنجگانہ کی ادائگی نہ ہو تی تو جان بوجھ کر تیری طرف کچھ لوگ آتے جو تجھے اونٹ کے ذبیحہ کی طرح قتل کرڈالتے ۔
عثمان نے کہا : (ضرب الله مثلا للذین کفروا امرأ ة نوح و امرأة نوط)(2)
خداوندعالم نے ان کے لیے کہ جنہوں نے کفر کیا نوح کی بیوی اورلوط کی بیوی کی مثال بیان کی ہے ۔
..............
(1) تفسیر طبری :28 202، حدیث 26678۔صحیح بخار ی :6 69، تفسیر سورہ تحریم باب 3و4 ۔ و جلد : 7 46، کتاب اللباس ،باب ما کان یتجوز رسول الله من اللباس و الزینة(وہ لباس اور زینت کہ جس کی رسول خدا (ص) نے اجاز ت دی )۔ صحیح مسلم : 4 190ـ 192، کتاب الطلاق ،باب فی الایلاء و اعتزال النساء ۔ مسنداحمد : 1 48۔
(2) سورہ تحریم (66) آیت 10۔ دیکھیے :ـ المحصل (رازی ) : 4 343۔ الفتوح :2 421۔
ان صفات کے باوجود کس طرح عایشہ کو صدیقہ کہا جاسکتا ہے جبکہ وہ دوسروں کو برے برے القاب سے نوازتیں (1) اور ایمان دار عورتوں کی غیبت کرتی تھیں۔(2)
اس آیت کے سلسلے میں کہ (یا ایها الذین آمنوا لایسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیرا منهم ولا نساء من نساء عسیٰ ان یکن خیرا منهن )(3) اے ایمان لانے والو آپ ایک قوم،کسی دوسری قوم کا مذاق و مسخرہ نہ بناؤ ممکن ہے کہ وہ لوگ آپ سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کہ ممکن ہے کہ وہ عورتیں آپ سے بہتر ہوں ۔
طبرسی نے مجمع البیان میں نقل کیا ہے کہ یہ آیت پیغمبر اکرم(ص) کی بعض ازواج کی شأن میں نازل ہوئی ہے کہ وہ ام سلمہ کامذاق اڑاتی تھیں ۔
انس و ابن عباس نے روایت ہے کہ ام سلمہ نے ایک سوتی کپڑا اپنی کمر سے باندھ رکھا تھا اور اس کے دونوں حصے و سرے لٹکے ہوئے جارہے تھے ، عایشہ نے اس کو دیکھ کر حفصہ سے کہا کہ دیکھو یہ کیسے پیچھے لٹکتا جارہا ہے گویا جیسے کتے کی زبان ہو۔(4)
..............
(1) خداوندعالم کا ارشاد ہے (ولا تنابزو بالالقاب )(سورہ حجرات (49) آیت 11) ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کرو ۔
(2) خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے (ولایغتب بعضکم بعضا )(سورہ حجرات (49) آیت 12) ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔
(3) سورہ حجرات (49) آیت 11۔
(4) مجمع البیان : 9 224۔ تفسیر قرطبی : 16 326۔ زاد المسیر :7 182۔ تفسیر بحر المحیط : 8 112۔
کہتے ہیں کہ عایشہ نے ام سلمہ کو پستہ قد ہونے کا طعنہ دیا تھا اور ان کی طرف اشارہ کرکے کہاتھا کہ وہ گانٹھی ہے۔
کیا معقول ہے کہ کسی صدیقہ کے یہاں طرح طرح کی نامناسب اور حسد جیسی بری عادتیں پائی جائیں ؟!۔
سنن ترمذی میں عایشہ سے منقول ہے کہ آپ نے کہا میں نے خدیجہ سے زیادہ کسی سے حسد نہیں کیا اور پیغمبر اکرم(ص) نے مجھ سے شادی ان کے انتقال کے بعد کی ، خداوندعالم نے ان کو جنت میں مروارید سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دی کہ جس میں نہ شورو شرابہ ہے نہ رنج و غم۔(1)
کیوں ( یحسدون الناس علی ما اتاهم من فضله ) (2) لوگ حسد کرتے ہیں اس چیز پر کہ جو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے دی ہے ۔ اگر عایشہ واقعا ًصدیقہ ہوتیں تو کیا یہ ممکن تھا کہ رسول خدا (ص) ان کو دوسری غیر عورتوں کی طرح شمار کرتے اور ان کے بارے میں فرماتے (ان کن صویحبات یوسف) (3) آپ عاشقان یوسف کی طرح ہو ۔
..............
(1) سنن ترمذی :5 66، حدیث 3979، (فضل خدیجہ)۔
(2) سورہ نسائ(5) آیت 54۔
(3) احیاء علوم الدین : 4 47۔ المسترشدین فی الامامة 141۔ اور صحیح بخاری :1 165، کتاب الاذان ، باب اهل العلم و الفضل احق بالامامة و صحیح مسلم :2 25 کتاب الصلوة ،باب تقد م الجماعة من یصلی بهم ۔ و سنن دارمی : 1 39،باب وفات النبی(ص) ، میں صواحب یوسف مذکور ہے ۔
یہ آیت بھی آپ ہی کی شأن میں نازل ہوئی (ترجی من تشاء منهن و تؤی الیک من تشاء ومن ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک ) (1)جس بیوی کے نمبر کو چاہو دیر میں رکھو اور جس کو چاہو اپنے پاس رکھو آپ کے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ جس کو چھوڑ دیا ہے اس کو پھر بلالو۔
عایشہ جیسی عورت کس طرح صدیقہ ہوسکتی ہے کہ جو خداوندعالم کی جانب سے نازل ہونے والی آیت پر اعتراض کرے اور پیغمبر اکرم(ص) سے کہے کہ واللہ میں نے آپ کے پروردگار کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ آپ کی خواہشات نفس کے مطابق جلدبازی کرتا ہے۔(2)
کیا یہ کلام صحیح ہے کہ رسول خدا (ص) اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے تھے ؟!۔
یا خداوندعالم آپ (ص) کی خواہشا ت نفسانی کی خاطر جلدبازی کرے؟ کیا یہ عایشہ کا کلام رسول خدا (ص) کی توہین اور رسالت کو ہیچ سمجھنا اور خداوندعالم کی حقارت و اہانت نہیں ہے ؟۔
کیا یہی سب کچھ ایک صدیقہ کے عرفان و معرفت سے امید کی جاسکتی ہے ؟۔
کیا رسول خدا (ص) کا پروردگار عایشہ کے پروردگار سے جدا ہے کہ جو پیغمبراکرم(ص) سے مخاطب ہوکر کہتی ہے کہ میں نے آپ کے پروردگار کو نہیں دیکھا مگر یہ کہ وہ آپ کی خواہشات نفس کے مطابق جلدبازی کرتا ہے۔
..............
(1) سورہ احزاب (33) آیت 51۔
(2) صحیح مسلم :5 174، کتاب الرضاع ،باب جواز ھبتھا بوبتھا لضرتھا ۔ صحیح بخاری :246، کتاب التفسیر،سورہ احزاب۔ و جلد:1286،کتاب النکاح،باب ھل للمرأةان تھب نفسھا۔ تفسیر طبری:3322۔ تفسیر ابن کثیر:5083۔
کیا صدیقہ پر خواہشات نفسانی کا اثر ہوتا ہے ؟ اور کیا غیرت نسوانی اس کو ابھارتی ہے کہ وہ حق کو چھپائے اور جھوٹی خبر دے ؟!۔
ایک مرتبہ پیغمبر اکرم(ص) نے عایشہ کو ایک عورت کو دیکھنے کے لیے بھیجا کہ جس سے آپ شادی کرنا چاہتے تھے ، عایشہ گئیں اور پھر واپس آئیں ، پیغمبراکرم(ص) نے سوال کیا : اس عورت کو کیسا پایا ؟
عایشہ نے جواب دیا : وہ کوئی اچھی عورت نہیں ہے ۔
پیغمبر (ص) نے فرمایا : تونے اس کے رخسار پر تل دیکھا کہ جس سے تیرا سر چکراگیا ۔ عایشہ نے کہا: آپ سے کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے آپ (ص) سے کون چھپا سکتا ہے ۔(1)
یہ ہے عایشہ کی سیرت کا خلاصہ کہ جو اہل سنت کے نزدیک صدیقہ کہلاتی ہیں ۔میری نظر میں عایشہ کی شخصیت کے تعارف کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے ۔
اور ظاہرا ً عایشہ کا جناب فاطمہ زہرا اور جناب خدیجہ سے مقایسہ و مقابلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی مندرجہ ذیل روایت سے عایشہ اور حضرت فاطمہ زہرا و جناب خدیجہ کے درمیان فرق بالکل واضح ہوجاتاہے ۔
تاریخ دمشق میں مذکور ہے کہ عایشہ نے پیغمبر اکرم(ص) کو دیکھا کہ آپ حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے بچوں کے لیے گوشت کی بوٹیاں چھوٹی چھوٹی کررہے ہیں عایشہ نے کہا : اے رسول خدا(ص) آپ حمراء (جناب خدیجہ ) کی بیٹی کے لیے کہ جو وحشی ترین عورت تھی یہ کام کررہے ہو؟
..............
(1) تاریخ بغدار : 1 217، تاریخ دمشق :51 36۔ ذکر اخبار اصبھان :2 188۔ کنزالعمال :12 418، حدیث 3549، اور دیکھیے طبقات ابن سعد : 8 161۔ سبل الھدی و الرشاد:11 235۔
پیغمبر اکرم(ص) غصہ میں آگئے اور عایشہ کو چھوڑدیا، اس سے ترک تعلق کرلیا اور کلام کرنا بند کردیا ، ام رمان (عایشہ کی ماں) نے رسول خدا(ص) سے گفتگو کی اور کہا اے رسول خدا (ص) عایشہ چھوٹی بچی ہے اس کو تنبیہ نہ کریں ، پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: تم کو معلوم ہے کہ اس نے کیا کہا ہے ؟ ایسا ویسا خدیجہ کے بارے میں کہا ہے ، حالانکہ میری امت کی عورتوں میں خدیجہ کو سب پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے۔جیسا کہ جناب مریم پوری دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں۔(1)
سنن ترمذی میں عایشہ سے منقول ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبر اکرم(ص) کی بیویوں میں سے میں نے کسی سے بھی اتنا حسد اور رشک نہیں کیا جتنا خدیجہ سے کیا کاش کہ میں ان کا مقام پاتی اور یہ حسد صرف اس لیے تھا کہ پیغمبراکرم(ص) ان کو بہت یاد فرماتے اور ان کی بہت تعریفیں کرتے تھے۔
آنحضرت(ص) کی عادت یہ تھی کہ کسی خاص بھیڑ کو ذبح کرتے اور جناب خدیجہ کی دوست و سہیلیوں کو ہدیہ فرمادیتے تھے ۔(2)
..............
(1) تاریخ دمشق :7 114۔
(2) سنن ترمذی : 3 249، حدیث 2086۔ و جلد: 5 366، حدیث 3977۔ اور دیکھیے : ـ مسند احمد : 6 279۔ صحیح بخاری:4 230، کتاب بدء الخلق ، باب تزویج النبی ۖخدیجه و فضلها الطرائف 291۔ فتح الباری :7 102۔
ابو بکر اور صدیقیت
اب ابوبکر کی شخصیت و سیرت پر نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعاً وہ صدیق ہیں یا حقیقت میں صدیق علی ابن ابی طالب ہی ہیں ۔
اس کا م کو دونوں طرف کے لوگوں کے عقیدہ سے ہٹ کر انجام دیں گے یعنی ان حضرات کی شخصیتوں کی خود ان ہی کے کلام سے وضاحت کریں گے نہ کہ ان کے پیرو کار اور ماننے والوں کے کلام ونظریات کی روشنی میں انہیں پیش کیا جائے ۔
یہ واضح ہے کہ صدق و سچائی ، کذب و جھو ٹ کے مقابل میں ہے ، پس اگرحضرت فاطمہ ، صدیقہ اپنے کلام میں سچی اور حق پر ہیں تو ابوبکر جھوٹے ہیں اور اسی طرح اگر علی حق پرہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے مقابل میں باطل ہے (جو بھی ہو)۔
اب طرفین کے کلمات و نظریا ت کو سامنے رکھتے ہیںاور ان مقامات کو کہ جن میں اختلاف ہے بطور نمونہ پیش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون سچا اور کون جھوٹا ہے ۔ اور اس کے بعد لفظ صدیق پر غور کریں گے اور پھر دیکھیں گے کہ کون ان صفات و کمالات کے ساتھ اس لقب کا مستحق ہے ۔
پہلا نمونہ :ـ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے خطبہ کا ٹکڑا کہ جس میں مدعیان خلافت سے خطاب ہے :
کیا آپ لوگ یہ خیال کرتے ہوکہ ہمارا میراث میں کوئی حق نہیں ہے (أ فحکم الجاهلیة تبغون ومن احسن من الله حکماً لقوم یوقنون)(1)
کیا جاہلیت کے حکم کو چاہتے ہواور اللہ کے حکم سے کس کا حکم اچھا ہے ، ان لوگوں کے لیے کہ جو اہل یقین ہیں ۔ کیا اس سلسلے میں حکم خدا کو نہیں جانتے یقینا جانتے ہو ، سورج کی طرح تم پر روشن ہے کہ میں پیغمبراکرم(ص) کی بیٹی ہوں ، اے مسلمانوں کیا میں میراث سے محروم ر ہوں؟ اے ابو قحافہ کے بیٹے کیا خدا کی کتاب میں ہے کہ تو اپنے باپ کی میراث پائے اور میں اپنے باپ کی میراث نہ پاؤں؟ (لقد جئت شیأ فریا )(2)
یقینا اپنے پاس سے من گھڑت لائے ہو۔ کیا جان بوجھ کر کتاب خدا کو چھوڑ دیا ہے اور اس کو پس پشت ڈال دیا ہے کہ جس میں ارشاد ہے (وورث سلیمان داؤد )(3)
سلیمان نے دائود سے میراث پائی ۔ اور یحی ابن زکریا کی خبر سنائی ہے لہذا ارشاد ہے (فهب لی من لدنک ولیا یرثنی و یرث من آل یعقوب) (4)
زکریا نے کہا پروردگار مجھ کو اپنی جانب سے ولی و جانشین عطا فرما کہ جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب سے میراث پائے۔
..............
(1) سورہ مائدہ (5) آیت 50۔
(2) سورہ مریم (19) ،آیت 27۔
(3) سورہ نمل (27) ،آیت 16۔
(4) سورہ مریم (19) ،آیت 5ـ6۔
اور حکم الہی ہے (واولو ا الارحام بعضهم اولی ببعض فی کتاب الله ) (1) خداوندعالم کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے کی بنسبت دوسروں سے زیادہ مستحق ہیں ۔
اور ارشاد ہے (یوصیکم الله فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین ) (2) ۔
خداوندعالم آپ کے بچوں کے بارے میں آپ کو وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حق لڑکی کے حق سے دوبرابر ہے ۔
اور ارشاد ہے (ان ترک خیرالوصیة للوالدین والاقربین بالمعروف حقا علی المتقین ) (3) جس کوآثار موت نظر آنے لگیں اس پر لازم ہے کہ اگر صاحب مال ہے تو اپنے والدین و رشتہ داروں کے لیے وصیت کرے یہ متقی اور پرہیزگار وں پر حق ہے ۔
ان سب آیات کے باوجود آپ لوگوں کا خیال ہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے اور میں اپنے والد گرامی سے کوئی حق نہیں پاؤں گی اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہے ؟۔
کیا خدا وندعالم نے آپ پر کوئی خاص آیت نازل کی ہے کہ جو میرے باپ پر نازل نہیں کی یا یہ کہ جو کہہ رہے ہو تو کیا میں اپنے والد کے دین پر نہیں ہوں ، دو دین والے آپس میں میراث نہیں پاتے تو کیا میرا اور میرے والد کا دین ایک نہیں ہے؟ کیا آپ لوگ قرآن کریم کے خاص و عام کو میرے والد اور ابن عم علی سے بہتر جانتے ہو؟۔
..............
(1) سورہ انفال (8) ،آیت 75۔
(2) سورہ نساء (4) ،آیت 11۔
(3) سورہ بقرہ (2) ،آیت 180۔
اب فدک کو غصب کرلو لیکن روز حشر ایک دوسرے کا مقابلہ کرنا ہے ، خداوندعالم کیا ہی خوب حاکم ہے ، اور پیغمبراکرم(ص) بہترین رہبر ہیں اور روز قیامت سب کے لیے وعدہ گاہ ہے ۔
قیامت کے دن جو لوگ باطل پر ہیں اپنے نقصان و خسارے کو دیکھیں گے اور وہ لوگ پشیمان و شرمندہ ہونگے لیکن اس وقت وہ شرمندگی کوئی فائدہ نہیں دے گی ۔
(وکل نبأ مستقر)(1) اور ہر خبر کو واقع ہونا ہے ۔ (فسوف تعلمون من یاتیه عذاب یخزیه و یحل علیه عذاب مقیم) (2) پس عنقریب جان لوگے کہ ذلیل و رسوا کرنے ولا عذاب آن پہنچا ہے اور ہمیشہ رہنے والا عقاب و عذاب سر پر منڈلارہا ہے ۔(3)
یہ عبارت بہت واضح اور روشن ہے اور زیادہ تحلیل و تفسیر کی ضرورت نہیں ہے ۔ فاطمہ صدیقہ اپنے اس کلام میں ابوبکر صدیق کی تکذیب کر رہی ہیں : اے ابوقحافہ کے بیٹے کیا خدا کی کتاب میں ہے کہ تو اپنے باپ سے میراث پائے اور میں اپنے والد کی میراث سے محروم رہوں ، یقینا یہ کیا من گھڑت چیز پیش کی ہے ۔
اور اس کلام میں بھی کہ ابوبکر اور اس کے طرفدار زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ خیال کرتے ہیں کہ فاطمہ اپنے باپ سے میراث نہیں پائے گی جب کہ یہ خیال قرآن کریم کی آیات وصیت و میراث کے متعلق عمومات کے خلاف ہے ۔
..............
(1) سورہ انعام (6) ،آیت 67۔
(2) سورہ ھود (11) ،آیت 39۔و سورہ زمر(39) ،آیت 39ـ40۔
(3) احتجاج طبرسی :1 138ـ139۔
یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ابوبکر اپنے باپ سے میراث پائے اور فاطمہ اپنے والد سے میراث نہ پائیں! کیا خداوندعالم نے ان کے لیے کوئی خاص آیت بھیجی ہے کہ جس سے پیغمبراکرم(ص) کو باہر و جدا کردیا گیا ہے یا یہ کہ ان کا نظریہ ہے کہ پیغمبر(ص) اور فاطمہ کا دین جدا جدا ہے کہ ایک دوسرے سے میراث نہیں پاسکتے یایہ کہنا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ فاطمہ ، رسول خدا(ص) کی بیٹی نہیں ہیں ۔
چونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ پیغمبراکرم(ص) ایک حکم الہٰی کو ان لوگوں سے بیان کریں کہ جو وارث نہیں ہیں اور جو وارث ہیں ان سے چھپائے رکھیں ۔
اس بات کو عقل کیسے قبول کرسکتی ہے کہ کتاب الہٰی کو ایک ایسی خبرواحد سے تخصیص دی جائے کہ جس کی علی و فاطمہ تصدیق نہ فرمائیں۔
یہ کس طرح ممکن ہے اور عقل کیسے قبول کرے کہ کتاب الہٰی کی تخصیص ایک ایسی خبر واحد سے ہوکہ جو ظاہر اور عمومات قرآن کے مخالف ہو چونکہ گذشتہ نبیوں کی سیرت اس کے خلاف ثابت ہے
جی ہاں ! حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس کلام سے یہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ ان لوگوں نے کتاب خدا پر بھی عمل کرنا چھوڑدیا ہے ۔ چونکہ لفظ وارث عام ہے اور مال کی میراث پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ متعدد آیات سے واضح ہے اور کسی خاص قید سے مقید بھی نہیں ہوا ، لیکن انہوں نے میراث کو ، میراث حکمت و نبوت سے تعبیر کیا ہے نہ کہ اموال سے اور مجاز کو حقیقت پر مقدم رکھا ۔
جب کہ علم و حکمت اور نبوت کی میراث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مالی میراث ختم ہوجائے بلکہ میراث نبوت اور اموال ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں ، اور یہ وراثت پروردگار کے نزدیک روز ازل سے اس کے مستحقین کے لیے محفوظ و مخصوص ہے ۔
(والله اعلم حیث یجعل رسالته)(1) اور خداوندعالم بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں رکھے۔
فخر رازی اپنی تفسیر میں رقمطراز ہے کہ دونوں جگہوں پر میراث سے مراد مالی میراث ہے ، اور یہ ابن عباس و حسن اور ضحاک کا قول ہے ۔(2)
زمخشری نے تفسیر کشاف میں لکھا جناب سلیمان نے اپنے والد جناب داؤد سے ہزار گھوڑے میراث میں پائے ۔(3) بغوی نے معالم التنزیل ،سورہ مریم کی چھٹی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے حسن نے کہا کہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ میرے مال کا وارث ہو۔(4)
ہم لوگ حضرت علی صدیق اور صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا و حضرت رسول اکرم(ص) کے چچا جناب عباس کے استدلال پر ذرا غور کریں تو بالکل واضح ہوجائے گا کہ ابوبکر اپنے دعوی میں جھوٹے اور خطا کار ہیں چونکہ جو چیز خود ہی نے اپنے لیے لازم قرار دی تھی اب اسی کی مخالفت کررہے ہیں اس لیے کہ لوگوں کو پیغمبر اکرم(ص) کی حدیث نقل کرنے سے منع کیا اور کہا کہ ہمارے اور تمہارے درمیان کتاب خدا کافی ہے ۔(5)
..............
(1) سورہ انعام(6) ،آیت 124۔
(2) تفسیر کبیر فخررازی : 21 156۔
(3) تفسیر کشاف :4 13۔
(4) تفسیر بغوی (معالم التنزیل) : 3 189۔
(5) تذکرة الخواص : 1 3۔ تو جیہ النظر (جزائری ) :601۔
اور دوسری طرف ان حضرا ت نے ابوبکر کی خطا کاری پر میراث و وصیت کے بارے میں عموعات قرآن سے استدلال کیا ، لیکن ابوبکر نے اس چیز کاسہارا لیا کہ جس سے خود ہی نے لوگوں کو منع کیا تھا۔یعنی قرآن کریم کے مقابلے حدیث کو سہارا بناتے ہوئے استدلال کیا لہٰذا یہ ابوبکر کی تناقض گوئی، ایک لمحہ فکریہ ہے !۔
دوسرا نمونہ :ـ
حضرت فاطمہ زہرا نے عمومات قرآنی کے ذریعہ ابوبکر کے بیان اور مقصد کی تکذیب فرمائی کہ جو انہوں نے کہاتھا کہ'' نحن معاشرالانبیاء لا نورث ماترکناه صدقه'' ہم پیغمبروں کی میراث نہیں ہوتی اور جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔ چونکہ اگر ابوبکر کا کلام صحیح ہوتا تو پھر کس طرح پیغمبراکرم(ص) کا عصا ، گھوڑا اور نعلین مبارک حضرت علی کو دیدیا ۔(1)اور آپ کی ازواج کو گھر میں رہنے کی اجازت دی بالکل اسی طرح کہ جیسے مالک اپنے مال میں تصرف کرتا ہے یہاں تک کہ دفن کے لیے بھی عایشہ سے اس کے حجرے کی اجازت مانگی جبکہ اسی دور میں حضرت زہرا سے یہ کہکر کہ آپ مالک نہیں بن سکتیں فدک چھین لیا گیا۔
کیا پیغمبراکرم(ص) کے لیے ممکن ہے کہ دنیا سے انتقال کرجائیں اور اپنی بیٹی و داماد کو ان کے حق کے متعلق کوئی خبر نہ دیں !؟۔
..............
(1) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید): 21416۔ اور دیکھیے صحیح بخاری :5 114ـ115،کتاب المغازی ، حدیث بنی نضر ۔ صحیح مسلم :3 1377ـ1379، کتاب الجھاد و السیر، باب حکم الفن۔
یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ دوسروں کو بتائیں اور غیروں کو با خبر کریں لیکن جن کا حق ہے یعنی اپنی بیٹی و داماد کو اس حکم خاص سے آگاہ نہ فرمائیں ؟۔
اور اس کے علاوہ اگر ابوبکر کو اپنے کلام پر اعتماد تھا اور وہ اپنے دعوے میں سچے تھے تو پھر کیوں انہوں نے حضرت زہرا کے لیے فدک کے متعلق نامہ لکھا کہ جس کو بعد میں عمر نے پھاڑدیا !؟ ۔ یعنی اس نامے سے خود اپنے ہی کلام کی تکذیب کی اور اس کو نقض کردیا ۔(1)
ابوبکر نے اپنے اس دعوی سے قانون الٰہی کہ جو پیغمبروں کے بارے میں میراث کے متعلق ہے رسول خدا (ص) کی طرف توڑنے کی نسبت دی جبکہ یہ مطلب واقعیت کے خلاف ہے چونکہ پیغمبر اکرم(ص) فرائض و تکالیف الہٰی میں عام لوگوں کی طرح مکلف ہیں اور آسمانی تعالیم آپ کے بارے میں بھی دوسروں کی طرح جاری ہیں اور یہ بات ثابت نہیں ہوئی کہ آپ کے مختصات و خصوصیات میں سے میراث کا نہ ہونا بھی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر کی تکذیب کی اور جھوٹ کی نسبت دی۔
تیسرا نمونہ:ـ
تیسرا نمونہ حضرت علی کی تکذیب اور آپ کو جھٹلانا ہے کہ جو ابوبکر کی طرف سے واقع ہوا اگر چہ بعض روایات میں عمر کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔
..............
(1) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):16 274۔ احتجاج طبرسی:1 122۔ اور دیکھیے تہذیب الاحکام (شیخ طوسی) :4 148۔ تفسیر قمی :1552۔ السیرة الحلبیہ:3 488۔
اس وقت کہ جب ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر حضرت علی کو قتل کی دھمکی دی گئی تو آپ نے فرمایا کہ کیا آپ لوگ بندہ ٔخدا اور رسول خدا (ص) کے بھائی کو قتل کروگے ؟ عمر نے کہا: بندہ ٔخدا تو صحیح لیکن رسول خدا کا بھائی نہیں ۔(1)
نہیں معلوم کس طرح پیغمبراکرم(ص) اور حضرت علی کے درمیان رشتہ اخوت سے انکار کردیا جب کہ یہ کام دو مرتبہ واقع ہوچکا تھا ایک مرتبہ مکہ میں ہجرت سے پہلے اور دوسری مرتبہ مدینے میں ہجرت کے پانچویں مہینے میں کہ جب پیغمبراکرم(ص) نے تمام انصار و مہاجرین کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا اور ایک دوسرے کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور دونوں مقام پر اپنے لیے حضرت علی کا انتخاب فرمایا اور اپنے و علی کے درمیان عقد اخوت پڑھ کرفرمایا : اے علی آپ دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو ۔(2)
اور اس کے علاوہ یہی کافی ہے کہ نص آیت مباہلہ کے مطابق حضرت علی نفس رسول خدا(ص) ہیں، ارشاد ہے(وانفسنا و انفسکم)(3) تم اپنے نفس و جان کو لاؤ اور ہم اپنے نفس و جان کو لاتے ہیں۔
..............
(1) الامامة والسیاسة:1 200(تحقیق زینی)۔ احتجاج طبرسی :1 109۔
(2) سنن ترمذی :5 330، حدیث 3804۔ اس میں مذکورہے کہ یہ حدیث حسن اور غریب ہے۔ مستدرک حاکم :3 14۔
(3) سورہ آل عمران(3) ، آیت 61۔
اور قضیہ تبوک میں آپ (ص)نے حضرت علی سے فرمایا:
'' انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ الاانه لا نبی بعدی وانت اخی و وارثی'' (1) آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور آپ میرے بھائی اور میرے وارث ہیں ۔
پیغمبراکرم(ص) نے حضرت علی کو اس وقت کہ جب دعوت اسلام کا آغازبھی نہ ہوا تھا اپنا بھائی قرار دیا جس وقت یہ آیت نازل ہوئی(وانذر عشیرتک الاقربین)(2)
اپنے عزیز وخاندان والوں کو ڈراؤ تب پیغمبراکرم(ص) نے اپنے تمام رشتہ دارو خاندان والوں کی جناب ابو طالب کے گھر میں دعوت کی ۔ وہ تقریبا چالیس آدمی تھے تب پیغمبراکرم(ص) ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا :اے فرزندان عبدالمطلب ،خدا کی قسم میری نظرمیں عرب کا کوئی جوان بھی اپنی قوم کے لیے ایسا پیغام نہیں لایا کہ جیسا میں لایا ہوں ، میں آپ لوگوں کے لیے دنیا و آخر ت کی خیر و بھلائی لے کر آیا ہوں اور خداوندعالم نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف دعوت دوں پس آپ میں سے کون ہے کہ اس امر میں میری مدد کرے گا تاکہ تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور خلیفہ قرار پائے۔
..............
(1) صحیح مسلم :7 120، کتاب فضل الصحابہ من فضائل علی ۔ مسند ابی یعلی :1 286، حدیث 344۔ صحیح ابن حبان :15 270ـ271 ،باب مناقب علی ابن ابی طالب ۔ الآحاد و المثانی :5 170۔، حدیث 2707۔ تاریخ مدینة دمشق : 21 415 ۔و جلد:42 53۔
(2) سورہ شعراء (66) ، آیت 214۔
اس وقت تمام اہل خاندان نے پیغمبر اکرم(ص) کی یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کیا سوائے حضرت علی کے کہ جو ان سب میں چھوٹے و کم سن تھے تب رسول خدا(ص) نے اپنا ہاتھ حضرت علی کے کاندھے پر رکھا اور فرمایا:بیشک یہ میرا بھائی ، وصی اور میرا خلیفہ ہے ، اس کی بات ماننا اور اطاعت کرنا ۔
وہ لوگ مذاق اڑاتے اور ہنستے تھے اور جناب ابوطالب سے کہتے کہ محمد (ص) نے تجھ کو حکم دیا ہے کہ اپنے بیٹے کی بات ماننا اور اس کی اطاعت کرنا ۔(1)
اور اس وقت بھی کہ جب زنان عالم کی سیدہ و سردار حضرت فاطمہ زہرا کی شادی حضرت علی سے ہونے لگی تو پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا: اے ام ایمن میرے بھائی کو بلائو ، ام ایمن نے کہا: وہ آپ کے بھائی ہیں جبکہ آپ اپنی یبٹی کی شادی ان سے کررہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں اے ام ایمن ، پس ام ایمن نے حضرت علی کو بلایا۔(2)
پیغمبراکرم(ص) نے متعدد مرتبہ حضرت علی کوبھائی کہکر خطاب کیا ہے ۔
ایک مرتبہ فرمایا:'' انت اخی و صاحبی فی الجنة'' (3)
آپ جنت میں میرے بھائی اور ساتھی و ہمدم ہیں۔
..............
(1) تاریخ طبری :2 63۔ السیرة النبوة (ابن کثیر) :1 458ـ459۔ کنزالعمال :13 133، حدیث 36419۔ کہ یہ ابن اسحاق و ابن جریر اور ابن ابی حاتم سے نقل ہوئی ہے ۔
(2) مستدرک حاکم : 3 159۔ السنن الکبری (نسائی) : 5 142، حدیث 8509۔
(3) تاریخ بغداد : 12 263۔ تاریخ دمشق :42 61۔ ان دونوں ماخذ میں مذکور ہے ''یا علی انت اخی و صاحبی و رفیقی فی الجنة ''اے علی آپ جنت میں میرے بھائی ، ہمدم اور میرے دوست ہو۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
''انت اخی ووزیری ، تقضی دینی و تنجز موعدی و تبری ذمتی ''(1)
اے علی آپ میرے بھائی اور میرے وزیر ہو آپ ہی میرا قرضہ اتاروگے اور میرے عہد وپیمان اور وعدوں کو پورا کروگے اور میرے ذمہ جو کچھ بھی ہے اس کو ادا کروگے ۔
تیسرے مقا م پر فرمایا :
''هٰذا اخی وابن عمی و صهری و ابو ولدی ''(2)
یہ( علی ) میرا بھائی، میرے چچا کا بیٹا ،میرا داماد اور میرے بچوں کا باپ ہے ۔
..............
(1) المعجم الکبیر: 12 321۔ اور اسی سے نقل ہے مجمع الزوائد : 9 121 و کنزالعمال :11 611، حدیث 32955 میں ۔ اور اسی ماخذ میں آیاہے کہ ''فمن احبک فی حیاة منی فقد قضی نحبه ومن احبک بعدی ولم یرک ختم الله له بالامن و امنه یوم الفزع الاکبر ومن مات و هو یبغضک یا علی مات میتة جاهلیة یحاسبه الله بما عمل فی الاسلام '' اے علی جو شخص بھی آپ کو میری زندگی میں دوست رکھے گا گویا اس نے اپنے عہد کو پورا کیا اور جو کوئی بھی میری زندگی کے بعد آپ کو دوست رکھے اور آپ کو نہ دیکھ پائے خداونداس کا خاتمہ بالخیر کرے گا اور روز قیامت اس کو امن و امان عطا کرے گا ، اور اے علی جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ تجھ سے حسد اور بغض اس کے دل میں ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے خداوندعالم اس کی زندگی کے دوران اسلام کے کارناموں کا محاسبہ کرے گا ۔
(2) کنزالعمال : 5 291، حدیث 12914 ۔ و جلد : 11 609 ، حدیث 32947۔ اس کو شیرازی نے کتاب القاب میں اور ابن نجار نے ابن عمر سے نقل کیا ہے ۔ اور دیکھیے:ـ مسند احمد: 5 204۔ مستدرک حاکم : 3 217۔ المعجم الکبیر : 1 160 ، حدیث 378۔
اور چوتھے مقام پر فرمایا:
میرے بھائی علی کو آواز دو ۔پس حضرت علی کو بلایا گیا آپ پیغمبراکرم(ص) کے سرہانے آئے حضرت پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا: اور قریب آئو ، آپ قریب آئے اور پیغمبراکرم(ص) کو اپنے زانو پر سہارا دے کر بٹھایا پیغمبراکرم (ص) علی پر تکیہ دیے رہے اور آپ سے محو گفتگو رہے یہاں تک کہ آپ کی روح مطہرآپ کے بدن مبارک سے پرواز کرگئی ۔(1)
پانچویں مقام پر فرمایا:
''مکتوب علی باب الجنة ، لا اله الا الله محمد رسول الله علی اخو رسول الله'' (2)
جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے ، خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ محمد، اللہ کے رسول ہیں اور علی رسول خدا(ص) کے بھائی ہیں ۔
اور چھٹے اور ساتویں مقامات پراس وقت کہ جب حضرت علی بستر رسول (ص)پر سورہے تھے خداوندعالم نے شب ہجرت جبرئیل و میکائیل کو وحی کی کہ میں نے تمہارے درمیاں عقد اخوت پڑھا اور آپ دونوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا اور ایک کو عمر طولانی دوسرے کو کم عمر عطا کی، آپ میں سے کون ہے کہ اپنی طولانی عمر کو اپنے بھائی پر نثار کرے کوئی ایک بھی حاضر نہ ہو ا ۔
..............
(1) طبقات ابن سعد : 2 263۔
(2) المعجم الاوسط :5 43 13 ۔ تاریخ بغداد :7 398۔ فیض القدیر :4 468، حدیث 5589، ترجمہ الامام الحسین(ابن عساکر) 186، حدیث 167۔
اوردونوں نے طولانی عمر اور حیات کو چاہا تب خدا وندعالم نے ان دونوں پر وحی کی کہ کیوں آپ علی ابن ابی طالب کی طرح نہیں ہو کہ میں نے علی اور محمد (ص) کے درمیان بھائی چارگی ایجاد کی اور علی ، محمد (ص)کے بستر پر سوگئے تاکہ اپنی جان محمد(ص) پر فدا کردیں اور اپنی زندگی کو اس پر نثار کردیں ، پس زمین پر جاؤ اور اس کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھو ۔ پس دونوں زمین پر آگئے ۔(1)
حضرت امام علی علیہ السلام نے اس مواخات (پیغمبراکرم(ص) سے بھائی چارگی) سے کئی مرتبہ استشہاد کیا ،مثلا روز شوری ، عثمان ، عبد الرحمن، سعد بن وقاص اور طلحہ و زبیر سے فرمایا: آپ کو میں خدا کی قسم دیتا ہوں آپ میں میرے علاوہ کوئی ہے جس کو رسول خدا (ص) نے اس دن جب مسلمانوں کے درمیان بھائی چارگی ایجاد کی ، بھائی بنایا ہو سب نے کہا نہیں خداکی قسم۔(2)
روز بدر کہ جب ولید آپ کے مقابلے میں لڑنے کے لیے آیا تو آپ سے سوال کیا کہ آپ کون ہو؟ تب آپ نے فرمایا '' انا عبدالله و اخورسوله '' (3) میں خدا کا بندہ اور اس کے رسول (ص) کا بھائی ہوں۔
حضرت فاطمہ زہرا نے بھی اپنے مشہور خطبہ میں اس اخوت و بھائی چارگی کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :
..............
(1) اسد الغابہ :4 25۔ جواہر المطالب : 1 217۔ شواہد التنزیل : 1 123، حدیث 133۔
(2) الاستیعاب :3 1098۔
(3) طبقات ابن سعد : 2 23۔ تاریخ مدینہ دمشق : 42 60۔
جب کبھی بھی شیطان سر اٹھاتا یا مشرکوں میںسے کوئی اژدھا منھ پھاڑتا تو رسول خدا(ص) اپنے بھائی کو اس کے حوالے کردیتے اور وہ جب تک کہ ان پر مسلط نہ ہوتے اور ان کی آگ کے شعلے اپنی تلوار سے خاموش نہ کرتے واپس نہیں آتے تھے وہ راہ خدا میں ہر طرح کی سختیوں اور رنج وتکلیف کو برداشت کرلیتے تھے اور امر خدا کے احیاء میں ہرطرح کی کوشش کرتے وہ رسول خدا(ص) کے عزیز اور اولیاء الٰہی کے سردار تھے ، ہمیشہ راہ خدا میں ناصح، کوشا اور کمر ہمت باندھے ہوئے تھے اور آپ لوگ اس دور میں اسی کی وجہ سے عیش و آرام کی زندگی گذار رہے تھے اور ہر طرح کے حوادث کے ہم پر منتظر رہتے تھے اور فقط ادھر ادھر کی باتیں سنتے اور جنگوں میں جانے سے گریز کرتے اور اگر کسی جنگ میں پہنچ بھی جاتے تو وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے ''(1)۔
ابوبکر نے جب حضرت فاطمہ زہرا کی حجت و دلائل کو سنا تو آپ کے بیان سے متأثر ہوئے اور آپ کا دل لبھاناچاہا اوراس اعتراف کے ساتھ کہ علی ہی رسول خدا کے بھائی ہیں نہ کہ کوئی اور، کہنے لگے:
اے دختر رسول خدا (ص) ،آپ کے والد مؤمنوں پر مہربان تھے اور ان کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آتے تھے اور بہت ہی کریم و دل سوز تھے اور کافروں کے حق میں درد ناک عذاب اور بہت سخت عقاب تھے ، اگر ان کے نسب کو دیکھیں تو وہ یقینا آپ کے والد و ماجد ہیں نہ کہ دوسری عورتوں کے اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں نہ کہ دوسرے اصحاب کے ۔ پیغمبراکرم(ص) نے ان کو ہر ایک نزدیک ترین دوست سے بھی زیادہ عزیز رکھا اور وہ بھی پیغمبراکرم(ص) کی ہر مشکل کام میں مدد فرماتے تھے۔
..............
(1) دیکھیے:ـ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) : 16 250۔ جواہر المطالب :1 156۔
آپ لوگ وہ افراد ہو کہ جن کو صرف سعادتمند و خوشبخت ہی دوست رکھتا ہے اور آپ کو کوئی دشمن نہیں رکھتا سوائے بدبخت انسان کے آپ پیغمبراکرم(ص) کی عترت و اہل بیت پاک و پاکیزہ ہو اور اللہ کے منتخب و بہترین بندے ہو ہمیں اچھی راہنمائی اور بھلائی دکھاتے ہواور جنت و آخر ت میں بھی ہمارے بہترین راہنما ہو۔
اور آپ اے عورتوں کی سیدہ و سردار اور بہترین پیغمبر(ص) کی بیٹی آپ کا کلام حق اور سچا ہے اور آپ کی عقل کامل و پختہ ہے ، آپ کے حق کو کوئی نہیں روکے گا اور آپ کے صدق و صفائی سے کوئی مانع نہیں ہوگا ۔
خدا کی قسم میں نے پیغمبراکرم(ص) سے تجاوز نہیں کیا ہے میں نے سنا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا :
''نحن معاشرالانبیاء لا نورث ذهبا و لا فضة ولا دارا ولا عقارا و انما نورث الکتاب و الحکمة والعلم والنبوة وما کان لنا من طعمة فلو لی الامر بعدنا ان یحکم فیه بحکمه''۔ ہم جماعت انبیاء سونا چاندی اور گھر و جنگل کو میراث میں نہیں چھوڑتے ہم فقط کتاب و حکمت اور علم و نبوت کو میراث میں چھوڑتے ہیں اور جو کچھ بھی مال و دولت میں سے ہمارے پاس بچتا ہے اس میں ہمارے بعد ولی امر اپنی مصلحت کے مطابق حکم کرتا ہے۔
آپ کا جو مقصد ہے ہم نے اس کو اسلحہ اور گھوڑے خریدنے کے لیے مخصوص و مہیا کردیا ہے تاکہ اس سے مسلمان جنگ کرسکیں اور کفار کا مقابلہ کرسکیں اور فاسقین کی سر کشی کوسرنگوں کیا جاسکے اور یہ کام مسلمانوں کے اجتماع و اتحاد اور رائے و مشورے سے وجود میں آیا ہے میں نے تنہا یہ کام انجام نہیں دیا ہے اور نہ اپنی رائے و نظر کو مقدم رکھا ہے ، میں اور میرا سارا مال و اسباب آپ کی خدمت میں حاضر ہے آپ سے کچھ مخفی نہیں کیا جائے گا ۔
اور یہ آپ کے علاوہ کسی اور کے لیے جمع نہیں کیا گیا ہے ۔ آپ اپنے والد گرامی کی امت کی شہزادی اور اپنی اولاد کے لیے پاک و پاکیزہ شجرہ ہیں اور جو فضل و کمال آپ کا ہے اس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور آپ کی فرع و اصل میں سے کچھ کم نہیں کیا جا سکتا ، جو کچھ میرے اختیار میں ہے آپ کے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہے ، لیکن کیا آپ حاضر ہیں کہ آپ کے والد گرامی کی مخالفت کروں!؟۔
حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا:
سبحان اللہ ، پیغمبراکرم(ص) ، کتاب خدا سے روگردان نہ تھے اور اس کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی پیروی فرماتے اور قرآن مجید کے سوروں کی رسیدگی کرتے ،کیا دھوکا دینے کے لیے جمع ہوئے ہو اور اس پر ظلم و ستم کرنے اور زور گوئی کہنے کے لیے اکھٹا ہوئے ہو ؟یہ کام ان کی وفات کے بعداسی کی مانند ہے کہ جیسے ان کی زندگی میں دھوکے اور مکاریاں کی جاتی رہیں اور یہ بھی انہیں کی زندگی میں پروپیگنڈ ا تیار ہوا ،یہ خدا کی کتاب عادل و حاکم ہے اور حق وحقانیت کو باطل و ناحق سے جدا کرنے کے لیے موجود ہے ۔ کہ جس میں ارشاد ہے (یرثنی و یرث من آل یعقوب)(1) خدا یا مجھ کو فرزند عطا فرما کہ جو میرا اور آل یعقوب کا وارث قرار پائے ۔اور ارشاد ہوا(وورث سلیمان داؤد) (2) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی ۔
..............
(1) سورہ مریم(19)، آیت 6۔
(2) سورہ نمل(27)، آیت 16۔
خدا وندعالم نے سب کے حصوں کو تقسیم کرنے کے لیے اور فرائض کو نافذ کرنے کے لیے اور مرد و عورتوں کو ان کے حق کی ادائیگی کی خاطر تمام چیزوں کو آشکار و واضح کر دیا ہے تاکہ اہل باطل کی تاویلات کو ختم کیا جاسکے اور شبہات و بد گمانی کو دور کیا جاسکے ۔کیا ایسا نہیں ہے ؟(بل سولت لکم انفسکم امرا فصبر جمیل والله المستعان علی ما تصفون )(1) بلکہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے یہ معمہ بنا کرکھڑا کیا ہے لہذا میں صبر کو بہترین راستہ سمجھتی ہوں خداوندمددگار ہے ہر اس چیز پر کہ جو بیان کرتے ہو۔
ابو بکر نے کہا:
خدا اور اس کا رسول سچ کہتے ہیں اور اس کی بیٹی بھی سچ کہتی ہے ۔ اے فاطمہ آپ معدن حکمت ہیں اور مقام ہدایت و رحمت اور آپ دین کی رکن اور عین حجت ہیں۔
میںآپ کے کلام حق کو بعید نہیں سمجھتا اور آپ کی فرمایش سے انکار نہیں کرتا یہ مسلمان کہ جو میرے اور آپ کے درمیان ہیں ان لوگوں نے یہ ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈالی ہے ۔ جوکچھ بھی انجام دیا گیا ہے وہ انہیں کے مشورے سے انجام پایا ہے نہ کہ میں نے کوئی زبردستی کی ہے اور نہ ہی اپنی رائے و نظر یہ کو مقدم رکھا اور یہ لوگ اس بات پر شاہد و گواہ ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا :
اے لوگو ! آپ نے باطل کے کلام کی طرف سبقت کی اور برے و نقصان دہ کام سے چشم پوشی کی ۔
..............
(1) سورہ یوسف(12)، آیت 18۔
(وافلا تتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالها)(1) اورکیا قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتے یاتمہارے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں کیا ایسا نہیں ہے ؟ بلکہ تمہارے برے اعمال نے تمہارے دلوں پر زنگ لگادیا ہے کہ جس سے تمہارے کان اور آنکھیں بند ہوگئی ہیں ، کس قدر بری تأویل کی ہے اور جو کچھ آپ لوگوں نے انجام دیا بہت برا ہے ، اور وہ کہ جس کا بدلہ چاہتے ہوبہت خطرناک ہے۔
خدا کی قسم یہ بہت سنگین و بھاری بوجھ ہے اور اس کا نتیجہ بہت برا اور وبال جان ہے وہ وقت کہ جب حقیقت کے پردے آپ کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹیں گے اوراس کے بعد تمہاری بدبختی و پریشانی تمہارے سامنے آشکار ہوگی ۔
(وبدا لکم من ربکم مالم تکونوا تحتسبون )(2)
آپ کے پروردگار کی جانب سے کہ جو تم شمار بھی نہ کرتے تھے آشکار ہوگیا ۔
(وخسر هنالک المبطلون)(3)
یہی وہ مقام ہے کہ اہل باطل ، خسارہ و نقصا ن دیکھیں گے ۔(4)
..............
(1) سورہ محمد(47)، آیت 24میں آیا ہے (افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفالها) ۔
(2) سورہ زمر(39)، آیت 47میں آیا ہے (وبدا لکم من الله مالم تکونوا تحتسبون )
(3) سورہ مؤمن (40)، آیت 78۔
(4) احتجاج طبرسی :1 141۔ اور اسی سے نقل ہوا ہے بحار الانوار :29 232ـ233 میں ۔
خدائے سبحان کا ارشاد ہے :
(تلک آیات الله نتلوها علیک بالحق فبای حدیث بعد الله و آیاته یومنون ٭ ویل لکل افاک اثیم ٭ یسمع آیات الله تتلی علیه ثم یصر مستکبرا کأن لم یسمعها فبشره بعذاب الیم)(1)
یہ خداوندعالم کی آیات ہیں کہ جو ہم آپ پرحق کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں ، پس خدا اور اس کی آیات کے بعد کون سا کلام ہے کہ اس پر ایمان لائو گے ۔وائے ہو جھوٹے گناہکار پر کہ اس پرآیات الہٰی کی تلاوت ہوتی ہے تو سنتا ہے اور پھر تکبر سے منھ پھیر لیتا ہے گویااس نے سنا ہی نہ ہو تو آپ اس کو جہنم اور سخت عذاب کی بشارت دیں ۔
چوتھا نمونہ :ـ
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کے وارث ہونے کے سلسلے میں ابوبکر کا مشکوک ہونا اور ان کے اس کلام کا اعتبار ، خود ایک ایسا دعوی ہے کہ جس پر دلیل کی ضرورت ہے ، جب کہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آیہ تطہیر کی مصداق حضرت زہرا ہیں کہ جس میں حضرت کی پاکیزگی ،جھوٹ و خیانت اور ہر طرح کی پلیدگی و رجس سے دوری آشکار و واضح ہے ۔
یہ فاطمہ وہ خاتون ہیں کہ جن کے بارے میں پیغمبر(ص)صادق و امین کہ جو اپنی خواہشات نفس سے گفتگو نہیں کرتے بلکہ وہی کہتے ہیں کہ جو وحی ہوتی ہے فرماتے ہیں :
..............
(1) سورہ جاثیہ (45) ، آیات 6ـ7ـ8۔
''ان الله لیغضب لغضب فاطمة و یرضی لرضاها''
بیشک خداوندعالم حضرت فاطمہ کے غضب ناک ہونے سے غضب ناک ہوتا ہے اور ان کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے ۔
اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حضرت فاطمہ خطا و خواہشات نفس سے پاک و معصوم ہیں چونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ خداوندعالم کا غضب اور خوشنودی کسی غیر معصوم کے غضب و خوشنودی سے مربوط ہو۔
پیغمبراکرم(ص) نے یہ نہیں فرمایا کہ فاطمہ خدا کے لیے غضبناک اور اسی کے لیے خوشنود ہوتی ہیں بلکہ فرمایا ہے کہ خداوندعالم فاطمہ کے غصے میں غصہ اور خوشنودی میں خوشنود ہوتا ہے ۔ اس جملہ میں بہت عظیم معانی پوشیدہ ہیںکہ جس کو صاحب بصیرت لوگ ہی درک کرسکتے ہیں ۔
چونکہ جو انسان بھی کمال عبادت اور معرفت تک پہنچنا چاہتا ہے کوشش کرتا ہے کہ رضایت الہٰی کو حاصل کرلے جبکہ یہاں مسٔلہ برعکس اور مختلف ہے چونکہ رضائے خداونداور اس کا غضب ، رضا و غضب فاطمہ ہے ، یہی وہ مقام ہے کہ عقل حیران ہوجاتی ہے اور سوائے کامل افراد کے، ممکن نہیں ہے کہ کوئی اس کلام کی حقیقت و کنہ تک پہنچ جائے ۔
لہذا اب دیکھتے ہیں کہ ابوبکر نے حضرت فاطمہ زہرا سے کیا برتاؤ کیا ۔
حماد بن عثمان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا :
جب ابوبکرکی بیعت ہوچکی اور ان کا تمام مہاجرین و انصار پر تسلط ہوگیا تب کچھ افراد کو سرزمین فدک بھیجا تاکہ وہاں سے حضرت فاطمہ زہرا کے وکیل کو باہر نکال دیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا ابوبکر کے پاس آئیں اور فرمایا: کیوں مجھ کو میرے والد پیغمبراکرم(ص) کی میراث سے محروم کیا ہے؟ اور میرے وکیل کووہاں سے باہر کیا جبکہ رسول خدا (ص) نے خدا وندعالم کے حکم سے وہ مجھ کو عطا فرمایا تھا ۔ابوبکر نے کہا اپنے اس کلام پر میرے لیے گواہ لے کر آؤ !۔
حضرت فاطمہ زہرا جناب ام ایمن کو لائیں اور آپ نے کہا اے ابوبکر میں گواہی نہیں دوںگی جب تک کہ آپ سے جو کچھ پیغمبراکرم(ص) نے میرے بارے میں فرمایا ہے اعتراف نہ کرالوں آپ کو خدا کی قسم دیتی ہوں کیا آپ نہیں جانتے کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا کہ ام ایمن اہل بہشت ہے ابوبکر نے کہا : جی ہاں ۔ تب ام ایمن نے کہا: میں گواہی دیتی ہوں کہ خداوندعالم نے اپنے رسول پر وحی نازل کی کہ (وآت ذالقربی حقه ) (1) اپنے قرابت داروں کا حق ادا کردو۔ لہذا رسول خدا نے خداوندعالم کے حکم سے فدک فاطمہ زہرا کو عطا فرمایا ۔
اور پھر علی علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے بھی اسی طرح گواہی پیش کی ۔
ان گواہیوں کے بعد ابوبکر نے حضرت فاطمہ کے لیے ایک نامہ تحریر کیا اور آپ کو دیا اسی وقت عمر آئے اور پوچھا یہ نامہ کیسا ہے؟ ابوبکر نے جواب دیا : فاطمہ زہرا نے فدک کا ادعی کیا اور اس پر ام ایمن و علی نے گواہی دی لہذا میں نے یہ فاطمہ زہرا کے لیے لکھا ہے ۔
عمر نے نامہ لیا اس پر تھوکا اور پھاڑدیا ۔
حضرت فاطمہ زہرا روتی ہوئی وہاں سے باہر تشریف لائیں ۔
..............
(1) سورہ روم(30) ، آیت 38۔
اس کے بعد حضرت علی ابوبکر کے پاس آئے اس وقت کہ جب وہ مسجدمیں تھے اور مہاجرین و انصار اردگرد جمع تھے ۔ حضرت نے فرمایا اے ابوبکر کس دلیل پر فاطمہ کو ان کے والد پیغمبراکرم(ص) کی میراث سے منع کیا ہے ؟ جبکہ وہ پیغمبراکرم(ص) ہی کی زندگی میں اس کی مالک تھیں۔
ابوبکر نے جواب دیا یہ فدک (فیٔ) تمام مسلمانوں کا حق ہے اگر وہ گواہ لے آئیں کہ پیغمبراکرم(ص) نے ان کو عطا کردیا تھا تو ان کا حق ہے ورنہ اس میں ان کا کوئی حق نہیں ہے ۔
امیرالمؤمنین نے فرمایا : اے ابوبکر ہمارے درمیان خداوندعالم کے حکم کے خلاف عمل کررہے ہو ! ابوبکر نے جواب دیا: نہیں ۔
تب آپ نے فرمایا: اگر کسی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو کہ وہ اس کا مالک ہو اس وقت میں یہ دعوی کروں کہ وہ مال میرا ہے تو کس سے بینہ و گواہ مانگوگے ؟ ابوبکر نے جواب دیا : آپ سے ۔
آپ نے فرمایا : تو پھر کیوں فاطمہ سے گواہ طلب کیے جب کہ فدک ان کے پاس تھا اور وہ پیغمبراکرم(ص) کی زندگی میں بھی اوربعد میں بھی بعنوان مالک اس میں تصرف کررہی تھیں ۔اور کیوں مسلمانوں سے ان کے دعوی کے مطابق گوا ہ طلب نہیں کیے ؟ جیسا کہ میں نے دعوی کیا تھا تو مجھ سے گواہ مانگے ۔
ابوبکر خاموش ہوگئے ، عمر نے کہا اے علی یہ باتیں نہ کریں ہم آپ کے مقابلے میں گفتگو اور بحث کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، اگر دو عادل گواہ لے آئیں تو صحیح ورنہ یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے اور اس میں نہ آپ کا کوئی حق ہے اور نہ فاطمہ کا ۔
حضرت امیرنے فرمایا: اے ابوبکر کتاب خدا کی تلاوت کرتے ہو؟ کہا :ہاں ۔
آپ نے فرمایا : تو یہ بتاؤ کہ یہ آیت الہٰی(انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهیرا) (1)
کن کی شأن میں نازل ہوئی ، ہماری یا کسی اور کی ؟ابوبکر نے کہا : ہاں آپ حضرات کی شأن میں نازل ہوئی ہے۔
حضرت نے فرمایا: اگر مسلمان یہ گواہی دیں کہ فاطمہ زہرا کسی غلط فعل کی مرتکب ہوئی ہیں تو آپ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے ؟ ابوبکر نے کہا : عام مسلمان عورتوں کی طرح ان پر بھی حد جاری کروں گا !۔ آپ نے فرمایا : اس صورت میں آپ خداوندعالم کے نزدیک کافروں میں سے ہوں گے ۔ ابوبکر نے کہا: وہ کیسے ؟
آپ نے فرمایا : چونکہ حضرت فاطمہ زہرا کی پاکیزگی و طہارت پر خداوندعالم کی گواہی کو رد کردیا اور ان کے خلاف مسلمانوں کی گواہی کو قبول کرلیا ۔ اسی طرح خداوندعالم اور رسول خدا(ص) کے حکم کو فدک کے سلسلے میں رد کردیا ہے جب کہ وہ پیغمبراکرم(ص) ہی کی زندگی میں اس کی مالک تھیں اور ایک عرب کہ جو کھڑے کھڑے پیشاب کرتا ہے (2) اس کی گواہی کو فاطمہ کے خلاف فدک کے سلسلے میں قبول کرلیا ہے اور فدک کو فاطمہ سے چھین کریہ سمجھتے ہو کہ یہ تمام مسلمانوں کا حق ہے۔
..............
(1) سورہ احزاب (33) ، آیت 33۔ (اے اہل بیت اللہ کاارادہ یہ ہے کہ آپ کو ہر طرح کے رجس سے پاک رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے)۔
(2) یہ جملہ اشارہ ہے مالک بن اوس بن حدثان نضری کہ جو پیغمبراکرم(ص) کا صحابی بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی بہت سی روایات پیغمبراکرم(ص) سے نقل کی ہیں
ابن خراش نے اس روایت ''نحن معاشرالانبیاء لانورث ماترکناه صدقه'' کو من گھڑت اور جعلی قرار دیا ہے ۔ دیکھیے :ـ تاریخ بخاری :7 305۔ الجرح والتعدیل :8 203۔ الثقات (ابن حبان ) : 3 11۔ و جلد: 5 382۔ کمال الدین و تمام النعمة :2 401۔ تاریخ دمشق : 56 360ـ 372۔ الکامل (ابن عدی): 4 321۔
رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے ''البینة علی المدعی والیمین علی المدعیٰ علیه '' مدعی پر ہے کہ وہ دلیل و گواہ لے کر آئے ورنہ مدعی علیہ قسم کھائے تاکہ فیصلہ تمام ہوجائے جبکہ آپ نے اس حکم میں پیغمبراکرم(ص) کی مخالفت کی ہے اور فاطمہ سے گواہ مانگے ہیں ، جب کہ وہ مدعی نہیں بلکہ مدعیٰ علیہ ہیں اور مسلمانوں سے گواہ نہیں مانگے جب کہ وہ مدعی ہیں ۔
اس کلام کے بعد لوگوں میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں اور ابوبکر کی بات کو ناپسند کیا جانے لگا وہ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور کہتے کہ خداکی قسم علی سچ کہہ رہے ہیں ۔
اورحضرت امیر المؤمنین اپنے گھر تشریف لے آئے۔(1)
ان عبارات میں کچھ تناقض ہے کہ جس پر توقف اور تفکر کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ کیا فدک پیغمبراکرم(ص) کی میراث ہے یا نحلہ و ہدیہ کہ جو پیغمبراکرم(ص) نے حضرت فاطمہ زہرا کو عطا کیا ؟۔
اگر فدک، میراث ہے تو میراث کے مطالبہ کے لیے گواہ کی ضرورت نہیں ہے مگر یہ کہ نعوذ باللہ حضرت فاطمہ زہرا کے پیغمبراکرم(ص) کی بیٹی ہونے میں شک ہو۔
..............
(1) احتجاج طبرسی :1 119۔ تفسیر قمی :2 155۔ (عثمان بن عیسی و حماد بن عثمان نے حضرت امام جعفر صادق سے نقل کیا ہے )۔
اوراگر فدک نحلہ و ہدیہ ہے جیسا کہ ابوبکر کے گواہ مانگنے سے ظاہر ہے تو یہ ان کے ادعی سے باہر کی بات ہے اور یہ ان کے کلام پر منطبق نہیں ہے چونکہ ان کا کہنا ہے '' نحن معاشرالانبیاء لا نورث '' چونکہ اس صورت میں ہدیہ ، پیغمبراکرم(ص) کی ملکیت سے نکل چکا ہے اور اب حضرت فاطمہ زہرا کی ملکیت ہے۔
اوراگریہ کلام صحیح ہو کہ انبیاء اپنا وارث نہیں بناتے تو پھر کس طرح پیغمبراکرم(ص) کی ازواج کو میراث ملی اور بیٹی کو محروم کردیا گیا ؟!۔
اور اگر پیغمبراکرم(ص) کا مال اعم از گھر و فدک ، سب ہدیہ ہے تو کیوں ابو بکر نے آپ کی بیویوں سے گواہ نہ مانگے اور صرف دعوی پر ہی ان کو دے دیا گیا اور حضرت زہرا سے آیہ تطہیر کی نص کے باوجود کہ جو ان کی پاکیزگی و عصمت پر دلالت کرتی ہے گواہ طلب کیے اور وہ گواہ بھی لے کر آئیں تب بھی رد کردی گئیں ! اورپھر کس طرح ابوبکر نے وصیت کی کہ اس کو پیغمبراکرم(ص) کے پہلو میں دفن کیا جائے جبکہ وہ اس خبر کے پیغمبراکرم(ص) سے ہونے پریقین رکھتے تھے کہ'' نحن معاشرالانبیاء لانورث '' ہم گروہ انبیاء وارث نہیں بناتے ۔
اب ابوبکر سے سوال کیا جائے کہ پیغمبراکرم(ص) کا گھر آپ (ص) کا خصوصی مال تھا یا آپ(ص) کی میراث کا حصہ ؟
اگر آپ(ص) کا خصوصی مال تھا تو یہ صدقہ ہے اور تمام مسلمانوں کا برابر حق ہے جیسا کہ ابوبکر کا عقیدہ ہے کہ انبیاء جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے ۔ لہذا یہ جائز نہیں ہے کہ یہ مال کسی ایک شخص کو دیدیا جائے اور دوسروں کو اس حق سے محروم کردیا جائے ۔
اوراگر آپ(ص) کی میراث کا حصہ ہے کہ پیغمبراکرم(ص) بھی عام مسلمانوں کی طرح میراث چھوڑتے ہیں اور وارث بناتے ہیں تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ابوبکر و عمر پیغمبراکرم(ص) کے وارث نہیں ہیں۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ حصہ کہ جس میں ابوبکر و عمر دفن ہوئے ہیں یہ عایشہ و حفصہ کا حصہ ہے کہ جو ان کوپیغمبراکرم(ص) کی میراث سے ملا ہے ۔
تو اس بات کا جواب یہ ہے کہ ان دونوں کا حصہ پیغمبر اکرم(ص) کی میراث میں سے ایک چڑیا کے گھونسلے کے برابر بھی نہیں نکلتا چونکہ پیغمبراکرم(ص) نے بوقت وفات نو( 9) بیویاں اور ایک بیٹی چھوڑی ہے کہ اس صورت میں ہر بیوی کا حصہ یک نہم از یک ہشتم (آٹھویں میں سے نواں حصہ) ۔
اس لیے کہ اولاد کی صورت میں بیوی کا آٹھواں حصہ ہے اور یہ آٹھواںحصہ نو( 9) بیویوں میں تقسیم ہوناہے توکیا ملے گا؟
اور پھر کس دلیل پر عایشہ کو میراث مل گئی ؟جب کہ حضرت فاطمہ زہرا کو کہ جو صلبی بیٹی ہیں میراث سے محروم کردیا گیا ؟!۔
اور اگر ابوبکر اس حدیث کے صحیح ہونے اور جو کچھ انجام دیا اس پر اعتماد رکھتے تھے تو پھر کیوں حضرت فاطمہ زہرا کی رضایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ؟ اور پھر کیوں آخر عمرمیں افسوس کرتے تھے کہ کاش میں حضرت فاطمہ زہرا کے گھر کی حرمت کو پامال نہ کرتا۔(1)
..............
(1) المعجم الکبیر:1 62، حدیث 43۔ تاریخ طبری :2 619۔ تاریخ دمشق :30 418ـ420۔ خصال صدوق 172، حدیث 228۔
اوراگر ابوبکر کا کلام کہ انبیاء میراث نہیں چھوڑتے درست ہوتا تو یہ بات آسمانی ادیان اور دیگر امتوں میں مشہورہوتی ا ور گذشتہ انبیاء کے پیروکاربھی اس سے واقف ہوتے ۔
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ فدک کسی جنگ و جدال سے حاصل نہیں ہوا تھا بلکہ لشکر و قدرت اسلام سے ڈر کر پیغمبراکرم(ص) کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا لہذا فدک شیعہ و سنی علماء کے اتفاق رائے کے مطابق خصوصی پیغمبراکرم(ص) کا حصہ ہے جیسا کہ ارشاد الہٰی ہے ۔
(وماافاء الله علی رسوله منهم فما اوجفتم علیه من خیل و لا رکاب ولکن الله یسلط رسله علی من یشاء والله علی کل شی ء قدیر)(1)
وہ مال کہ جس کو حاصل کرنے میں آپ کو گھوڑے نہیں دوڑانے پڑے اور جنگ نہیں کرنی پڑی اس کو خدا وندعالم اپنے رسول کی ملکیت میں قرار دیتا ہے لیکن خداوندعالم جس چیز پر چاہے اپنے رسولوں کو مسلط کردے اور خداہر چیزپر قادر ہے ۔
ابن ابی الحدید کہتا ہے :
اگر مسلمان فدک کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے تو پیغمبراکرم(ص) کی آبرو و حرمت کی رعایت کی خاطر اور ان کے عہد کے حفظ کے لیے مناسب یہ تھا کہ فدک کے بدلے آپ (ص) کی بیٹی کو کچھ اور چیز دے دیتے تاکہ وہ راضی ہوجاتیں ۔ اور امام کو اس طرح کے کاموں میں خود کو اختیار ہے دیگر مسلمانوں کی اجازت و مشورہ کی ضرورت نہیں ہے ۔(2)
..............
(1) سورہ حشر(59) ، آیت 6۔
(2) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) : 16 286۔
یہ بیان، قضیہ کے ایک طرف کا حصہ ہے جب کہ قضیہ کی دوسری طرف توجہ ضروری ہے وہ یہ کہ حضرت امیرالمؤمنین و صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر پر ''قاعدہ ٔید '' سے استدلال فرمایا جیسا کہ قبلا بھی گذرچکا ہے لہذا ابوبکر مدعی ہے اور بینہ و دلیل اس کو خود کو لانا چاہیے اورمنکر و مدعی علیہ پر بینہ و دلیل نہ ہونے کی صورت میں قسم کھانا ہے ۔
اس سے پہلے گذرچکا ہے کہ حضرت علی نے ابوبکر پر احتجاج کیااور فرمایا:
اگر کسی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو کہ وہ اس کا مالک ہو اس وقت میں یہ دعوی کروں کہ وہ مال میرا ہے تو کس سے بینہ و گواہ مانگوگے ؟ ابوبکر نے جواب دیا : آپ سے ۔
آپ نے فرمایا : تو پھر کیوں فاطمہ سے گواہ طلب کیے جب کہ فدک ان کے پاس تھا اور وہ پیغمبراکرم(ص) کی زندگی میں بھی اوربعد میں بھی بعنوان مالک اس میں تصرف کررہی تھیں ۔اور کیوں مسلمانوں سے ان کے دعوی کے مطابق گوا ہ طلب نہیں کیے ؟ جیسا کہ میں نے دعوی کیا تھا تو مجھ سے گواہ مانگے ۔ ابوبکر خاموش ہوگئے ، عمر نے کہا اے علی یہ باتیں نہ کریں ہم آپ کے مقابلے میں گفتگو اور بحث کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، اگر دو عادل گواہ لے آئیں تو صحیح ورنہ یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے اور اس میں نہ آپ کا کوئی حق ہے اور نہ فاطمہ کا ۔
حضرت علی اور صدیقہ طاہرہ حضرت زہرا کے استدلال اور محکم و مضبوط حجت پر خوب غور و فکر کیجیے اور پھردوسری طرف عمر کے اس جملہ کو بھی دیکھیے کہ جو اس نے کہا : دعنا من کلامک فانا لا نقوی علی حجتک ''ہم سے اس طرح کا کلام نہ کیجیے ہم میں آپ کی حجت و دلیل کامقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ۔
جب انصار نے حضرت فاطمہ کی حجت و دلیل کو اس سلسلے میں کہ علی خلیفہ اور پیغمبراکرم(ص) کے جانشین ہیں سنا تو کہنے لگے اے رسول کی بیٹی ہم نے اس مرد کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے اگر آپ کے شوہر اور ابن عم علی اس سے پہلے ہماری طرف آتے تو ہم ان کے طرف دار ہوتے ۔(1)
دوسری جگہ پر مذکور ہے کہ اگر ہم نے آپ کی حجت و دلیل کو سنا ہوتا تو آپ سے کبھی بھی عدول و منحرف نہ ہوتے ۔(2)
کس طرح علی کی گواہی مورد قطع ویقین واقع نہ ہوئی جب کہ ایک اور گواہی ان کے ساتھ تھی اور کیوں صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا کو ایک عام عورت کی طرح مانا گیا، ان کے دعوے پر ان سے دلیل و بینہ کا مطالبہ کیا گیا ۔ جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ بینہ ایک ظنی راستہ ہے کہ جو کسی احتمال کو ثابت کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ۔ جب کہ حضرت فاطمہ زہرا کے کلام سے قطع و یقین کے بعد کہ جن کو خداوندعالم نے پاک و پاکیزہ قرار دیا اور پیغمبراکرم(ص) نے اپنا ٹکڑا قرار دیا ، اصلاً ظنی راستہ کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اس لیے کہ راہ یقین کے بعد راہ ظنی کا کوئی وجود و فائدہ نہیں ہے ۔
..............
(1) احتجاج طبرسی :1 122۔ تفسیر قمی :2 156۔ وسائل الشیعہ : 27 293، حدیث 33781۔ اسی طرح کا کلام جنگ جمل سے پہلے عایشہ کی زبان پر بھی جاری ہوا ہے جس وقت امیرالمؤمنین نے اس پر احتجاج کیا تو عایشہ نے آپ کے نامہ کے جواب میں کہ جو عبداللہ ابن عباس اور زید بن صوحان لے کر گئے تھے ان سے کہا کہ میں آپ کی کسی بات کو رد نہیں کروں گی چونکہ مجھ کو معلوم ہے کہ میں علی ابن ابی طالب کے احتجاج کے جواب کی طاقت نہیں رکھتی ۔ الفتوح (ابن اعثم ):1 471۔
(2) الامامة والسیاسة :1 19۔ شرح نہج البلاغہ : 136۔ بحار الانوار : 28 186۔ و 252۔ و 355۔
اور اسی طرح جناب خزیمہ (ذوالشہادتین)کی گواہی کے واقعہ میں آنحضرت (ص)کا اس اعرابی سے اختلاف کے سلسلے میں خزیمہ کی گواہی بغیر کسی کو شامل کیے ،قبول کرلی گئی جب کہ خزیمہ کی گواہی قول رسول (ص) کی تائید و تصدیق ہی تھی اور آپ (ص) کے دعوی سے بڑھ کر کوئی اور بات نہ تھی ۔
ابوبکر اور تمام مسلمانوں پر لازم تھا کہ حضرت فاطمہ زہرا کی طرف سے گواہی دیتے چونکہ خداوندعالم نے ان کو پا ک و پاکیزہ قرار دیا ہے اور وہ سب آپ ہی کی تصدیق کرتے چونکہ خداوندعالم نے آپ کی تصدیق کی ہے جیسا کہ خزیمہ نے رسول اکرم(ص) کے ساتھ کیا اور پھر رسول اکرم(ص) نے خزیمہ کے فعل کی تائید فرمائی ۔(1)
سید مرتضی نے قاضی القضات عبدالجبار ہمدانی کی رد میں تحریر فرمایا ہے کہ بینہ سے مراد مدعی کے گمان و ظن کے سچے ہونے کو ثابت کرنا ہے چونکہ عدالت میں کسی مدعیٰ کو بھی ثابت کرنے کے لیے ایک معتبر شہادت مانگی جاتی ہے اور اسی ظن و گمان کو تسلیم کرلیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ حاکم کے لیے جائز ہے کہ گواہی کے بغیربھی اگر علم ہوجائے تو اپنے علم کے مطابق عمل کرے بلکہ اس کا علم ، گواہی سے قوی تر و بہتر ہے ، اور اسی وجہ سے اقرار ، بینہ سے زیادہ قوی ہے چونکہ اقرار اس گمان و ظن کو قوی کرنے اور مقام اثبات میں بہتر ہے ۔ اور جب اقرار ، قوت ظن کے اعتبا رسے حاکم کے نزدیک گواہی پر مقدم ہے تو علم بدرجہ اولی مقدم ہونا چاہیے ۔ چونکہ اقرار کی موجودگی میں گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی اس لیے کہ قوی دلیل کی موجودگی میں ضعیف دلیل ساقط ہوجاتی ہے ۔
..............
(1) دلائل الصدق :2 39۔
اسی طرح علم کی موجودگی میں کسی بھی چیز کی کہ جو ظن میں مؤثر ہو جیسے بینہ و شہادت وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔(1)
لہذا حق ، علی ابن ابی طالب اور حضرت فاطمہ زہرا کے ساتھ ہے اور سب اس مسئلے سے واقف ہیں لیکن ان کی خواہشات نفسانی نے ان کو ابھارا کہ ایک ایسی چیز کا دعوی کریں کہ جو قرآن کریم ، سنت رسول(ص) اور عقل سلیم کے مخالف ہو ۔
آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مامون عباسی کے حضور میں بہت سے علماء جمع تھے کہ مسٔلہ فدک اور پیغمبراکرم(ص) کی میراث کا مسٔلہ چھڑگیا، مامون نے سب کو لاجواب کردیا اس طرح کہ مامون نے حضرت علی کے فضائل کے بارے میں علماء سے سوال کیاان لوگوں نے آپ کے متعدد و نایاب فضائل بیان کیے اور پھر حضرت فاطمہ زہرا کے متعلق پوچھا تو آپ کے بارے میں بہت زیادہ فضائل کہ جو آپ کے والد گرامی سے مروی تھے نقل کیے ۔ پھر ام ایمن اور اسماء بنت عمیس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے پیغمبراکرم(ص) سے روایت نقل کی کہ وہ دونوں اہل بہشت ہیں ۔
تب مامون نے کہا کیا جائز ہے کہ یہ کلام یا اعتقاد کہ علی ابن ابی طالب اتنے زہد و تقوی کے باوجود ناحق فاطمہ کی طرف سے گواہی دیں جب کہ خداوندعالم اور رسول خدا (ص) نے اتنے زیادہ فضائل کی ان کے متعلق گواہی دی ہے ۔
..............
(1) الشافی فی الامامة : 4 96ـ 97۔ اسی سے نقل ہوا ہے شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) : 16 273ـ 274۔
کیا یہ جائز ہے کہ آنحضرت (ص)کے اتنے علم و فضل کے باوجود یہ کہا جائے کہ فاطمہ معصوم ہونے کے باوجود اور یہ کہ وہ عالمین کی عورتوں کی سردار اور اہل بہشت کی عورتوں کی سردار ہیں جیسا کہ آپ حضرات نے روایت کی ہے ایک ایسی چیز کا مطالبہ کریں کہ جو ان کی نہ ہو!۔اور اس کے ذریعہ تمام مسلمانوں کے حق میں ظلم کریں اور اس حق پر خدوندیکتا کی قسم کھائیں ۔
کیا جائز ہے کہ یہ کہا جائے کہ ام ایمن و اسماء نے ناحق گواہی دی ہے جبکہ وہ دونوں اہل بہشت ہیں ؟۔
بیشک حضرت فاطمہ زہرا اور ان کے گواہوں پر طعنہ زنی گویا کتاب خدا پر طعنہ اور دین خدا سے کفر ہے ۔ خداکی پناہ کہ یہ کلام صحیح ہو ۔(1)
نہیں معلوم کہ کیسے ابوبکر نے علی کی گواہی کورد کیا جب کہ علی کامقام و مرتبہ خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین سے کم نہ تھا (2) بلکہ علی ان سے بہت بلند و بالا ہیں ، وہ ہر عیب و رجس سے پاک ہیں ، وہ رسول خدا (ص) کے بھائی ہیں بلکہ وہ رسول خدا (ص) کے نفس و جان ہیں ۔
اوراگر اس کلام سے غض نظر کی جائے اور تسلیم کرلیا جائے کہ امام کی گواہی ایک عام مسلمان عادل کی گواہی سے زیادہ نہیں ہے تو بھی ابوبکر ایک شاہد کی جگہ پر حضرت فاطمہ زہرا کو قسم دے سکتے تھے آپ قسم کھاتیں اور مسٔلہ حل ہوجاتا جبکہ یہ کام ابوبکر نے نہیں کیا ! کیوں؟ ۔
بلکہ ابوبکر نے صرف علی کی گواہی اور ام ایمن و اسماء کی گواہی کو رد کیا ۔
..............
(1) الطرائف 250۔
(2) یعنی ان کی گواہی دو گواہوں کی گواہیوں کے برابر ہے ۔
خدا کی قسم یہ مصیبت ہے بلکہ فتنہ ہے کہ جس سے بہت سے مقدسات آلودہ ہوگئے ہیں ، اور رسول خدا (ص) کے نا م سے احکام خدا میں تغیر اور دین خدا کو تبدیل کیا گیا ہے ۔
حضرت فاطمہ زہرا بتول حق بجانب ہیں کہ یہ کہیں :
(الافی الفتنة سقطوا وان جهنم لمحیطة بالکافرین)(1)
آگاہ ہوجاؤ کہ وہ لوگ فتنے میں جاپڑے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے (2)
مناسب ہے کہ ہم یہاں علی بن فارقی( کہ جو ابن ابی الحدید کے استادوں میں سے ہے )کا کلام پیش کریں جس وقت ابن ابی الحدید نے اس سے سوال کیا کہ کیا حضرت فاطمہ زہرا اپنے اس دعوی میں کہ فدک نحلہ و ہدیہ ہے کہ جو پیغمبراکرم(ص) نے ان کو اپنی زندگی ہی میں عطا کردیا تھا ، سچی تھیں؟۔
فارقی نے جواب دیا: جی ہاں ۔
ابن ابی الحدید نے کہا: پس کیوں ابوبکر نے اس علم کے باوجود کہ حضرت فاطمہ زہرا سچی ہیں فدک ان کو واپس نہیں کیا ؟۔
فارقی مسکرایا اور بہت لطیف جواب دیا کہ جو اس کی شخصیت اور مزاج و مزاح کے مطابق تھا وہ یہ کہ اگر ابوبکر آج صرف حضرت فاطمہ زہرا کے سچی ہونے کی بنیاد پر ان کے دعوی کی تصدیق کرتے اور فدک ان کو واپس کردیتے تو کل کو وہ اپنے شوہر کے لیے خلافت کا دعوی کرتیں ۔
..............
(1) سورہ توبہ (9)، آیت 49۔
(2) یہ آیت حضرت فاطمہ زہرا کے خطبہ کا حصہ ہے کہ جس کا کچھ حصہ قبلا بھی گذر چکا ہے ۔
تو اب ابوبکر کے پاس کوئی جواب نہ تھا ۔ چونکہ جس بناء پر کل حضرت فاطمہ زہرا کی تصدیق کی تھی وہی بناء آج بھی موجود ہے کہ بغیر گواہی وبینہ حضرت فاطمہ زہرا، صدیقہ و سچی ہیں ۔(1)
اب ہم پلٹتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔
کیا معقول ہے کہ جو چیز فاطمہ کا حق نہ ہو وہ اس کا مطالبہ فرمائیں، جب کہ وہ عالمین کی عورتوں کی سردار اور بہشت کی خواتین کی سردار ہیں ، اور ان کی طہارت و پاکیزگی و عصمت کے علاوہ خداوندعالم نے اپنی رضایت و غضب کو ان کی رضایت و غضب پر موقوف کردیا ہے ۔
کیاحضرت فاطمہ زہرا اس کا م سے مسلمانوں پر ظلم کرنا چاہتی تھیں اور ان کے مال کو غصب کرناچاہتی تھیں نعوذباللہ ۔
کیا حضرت علی کے لیے مناسب ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کے حق میں ناحق گواہی دیں ؟ اور کیا ہوسکتا ہے کہ علی کی مخالفت کو حق بجانب فرض کیا جائے؟ جب کہ رسول خدا (ص) کا ارشاد گرامی ہے : '' علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے ، پروردگار حق کو ادھر ادھر موڑ جدھر جدھر علی مڑے ''۔
اور کیا جائز ہے کہ ام ایمن کہ جن کے لیے جنت کی بشارت ہو وہ جھوٹی گواہی دیں؟۔
جی ہاں ہمارے بس کی بات نہیں ہے کہ ابوبکر اور حضرت فاطمہ زہرا دونوں کو پاک و پاکیزہ اور جھوٹ سے بری مانیں ، چونکہ اگر ابوبکر کو اپنے دعوی میں ـکہ جو قطعا جھوٹے ہیںـ سچا مانیں اور ان کی تصدیق کریں تو اس کے مقابل کے دعوی کی تکذیب کرنا ہوگی اور اگران کو جھوٹا مانیں ـجیسا کہ حق بھی یہی ہےـ تو حضرت فاطمہ زہرا سچی و صدیقہ ہیں ۔
..............
(1) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :16 284۔
پس یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم صدیقیت کو جمع کریں اور دونوں کو صدیق مانیں چونکہ یہ کام تناقض گوئی ہے۔
اور مندرجہ ذیل احادیث کے سلسلے میں بھی امر یہی ہے ۔
''من خرج علی امام زمانه '' جو شخص اپنے زمانے کے امام کے خلاف قیام کرے ۔ یا
''من مات ولیس فی عنقه بیعة'' جو شخص مرجائے اور اس کی گردن پر کسی امام کی بیعت نہ ہو ۔یا
''من لم یعرف امام زمانه '' جو شخص اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانتا ہو ۔ یا
''من خرج من طاعة السلطان شبرا '' جو شخص اپنے زمانے کے امام کی نافرمانی میں ایک بالشت بھی دورہو '' مات میتة جاهلیة '' تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ۔
اگرفرضاً ہم یہ قبول کرلیں کہ یہ احادیث مذکورہ ابوبکر کے امام زمان ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ حضرت فاطمہ زہرا کہ جو نص قرآنی اور حدیث رسول (ص) کے اعتبار سے پاک و پاکیزہ اور طیب و طاہر ، عالمین کی عورتوں کی سردار، خواتین بہشت کی سردارہیں، ان کی موت جاہلیت کی موت ہوگی ۔نعوذ بالله من ذالک
لیکن اگر ابوبکر کے امام زمان ہونے میں شک کریں ، دلیل نہ ہونے کی وجہ سے اور ان کے یہاں امام ہونے کی صلاحیت و لیاقت نہ ہونے کی وجہ سے اور بزرگان صحابہ کی مخالفت کی وجہ سے جیسے علی ، عباس ، و افراد بنی ہاشم وزبیر ، مقداد اور سعد بن عبادہ وغیرہ ،تب حضرت فاطمہ زہرا کا خروج ابوبکر کے خلاف مناسب و جائز ہے اور آپ کا اعتقاد کہ ابوبکر منحرف ہوگئے ہیں صحیح ہے ۔
لہذا ممکن نہیں ہے کہ دونوں نظریوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے اور دونوں کو صحیح مانا جائے ۔
کس طرح ابوبکر و عمر ، حضرت علی کی گواہی کو ردکرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ علی نے اپنے حق میں گواہی دی ! جبکہ آنحضرت نہ دنیا کے طالب تھے اور نہ اس میں رغبت رکھتے تھے جیسا کہ کوئی بھی انسان ان کی سیرت یا کلام کہ جونہج البلاغہ میں مذکور ہے، کا مطالعہ کرے تو بخوبی اس حقیقت کودرک کرلے گا ۔ اور اسی سلسلے میں حضرت کا نامہ کہ جوعثمان بن حنیف والی بصرہ کو تحریر فرمایا ، موجود ہے کہ ''وما اصنع بفدک و غیر فدک ، والنفس مظانها فی غد جدث''(1)
مجھے فدک و غیر فدک سے کیا مطلب جب کہ جان آدمی کا مقام قبر ہے ۔
ابوبکر نے حضرت علی کی گواہی کو قبول نہیں کیا اس لیے کہ وہ ان کے فائدے میں تھی تو پھر رسول اکرم(ص) نے خزیمہ بن ثابت کی گواہی کوکیوں قبول فرمالیا جب کہ وہ بھی آنحضرت (ص) کے فائدے میں تھی ، بلکہ اس کی گواہی کو دوگواہیوں کے مقابلے کا مقا م عطا فرمایا ؟!۔
اس شخص کی گواہی سے کس طرح یقین حاصل نہ ہوا کہ جس کے بارے میں پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا ہے :'' علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ اور حق علی پر موقوف ہے'' ۔(2)
جبکہ ابوبکر کو یہ علم تھا کہ علی ، ثقلین ، یعنی دو گرانبہا چیزوں میں سے ایک ہے ، قرآن کریم کے مقابل ایک ثقل اور گرانبہا حصہ ہے ، وہ ایسا گواہ ہے کہ جس کی گواہی رسول خدا(ص) کے حق میں خداوندعالم نے قبول کی ہے اور اس کو رسالت کا گواہ اور تصدیق کرنے والا قراردیا ہے ۔
..............
(1) نہج البلاغہ :3 71، خط 45۔
(2)شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) : 2 297۔ الفصول المختارہ 97، حدیث 97۔ التعجب (کراجکی)15۔
لہذا ارشادہے (افمن کان علی بینة من ربه و یتلوه شاهدمنه)(1)
کیا وہ شخص کہ جو اپنے پروردگار کی جانب سے روشن دلیل پر ہے اور اس کا گواہ بھی اس کی پیروی کرتا ہے (نامناسب بات کہہ سکتاہے)۔
اگر ان لوگوں کا استدلال کامل اور صحیح ہو کہ فدک کے مسئلے میں گواہی اپنے حدنصاب کو نہ پہنچ سکی چونکہ علی تنہا تھے اور ایک ام ایمن ۔ تو کیا خلفاء و حکام کی سیرت یہ نہیں رہی کہ ایک گواہ کی صورت میں دوسرے گواہ کی جگہ پر قسم کھلاتے اور قضیہ کو حل کردیتے تھے ۔
کتاب الشہادات کنزالعمال میں مذکور ہے کہ بیشک رسول خدا (ص) ، ابوبکر ، عمر اور عثمان ایک گواہ کی صورت میں ایک قسم کھلاتے اور فیصلے کرتے تھے ۔(2) دارقطنی نے علی سے روایت نقل کی ہے کہ ابوبکر و عمر اور عثمان ایک قسم اور ایک شاہد پر فیصلے کرتے تھے ۔(3)
نیز حضرت علی سے روایت ہے کہ جبرئیل ، رسول خدا(ص) پر نازل ہوئے یہ حکم الہٰی لے کر کہ ایک گواہ کی صورت میں ایک قسم لے کر فیصلہ کرو۔(4)
ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول خدا (ص) ایک گواہ اور ایک قسم سے حکم صادر فرماتے تھے ۔(5)
..............
(1) سورہ ہود(11) ، آیت 17۔ اور دیکھیے :ـ الدرالمنثور :3 324۔
(2) کنزالعمال : 7 26 ، حدیث 17786۔ دارقطنی سے منقول ہے ۔
(3) سنن دارقطنی :4 137۔ السنن الکبری (بیہقی ) :10 173۔
(4) کنزالعمال : 5 826، حدیث 14498۔ الدرالمنثور :6 135۔
(5) صحیح مسلم :5 128، کتاب الاقضیہ ،باب القضاء بالیمین و الشاہد۔
نووی نے صحیح مسلم کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اسلام ، صحابہ و تابعین سے لیکر آج تک تمام بلاد اسلامی میں ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ مالی امور میں فیصلے ہوتے ہیں اور اسی کے قائل ہیں ابوبکر، علی ، عمر بن عبد العزیز اور مالک بن انس ، شافعی ، احمد اور مدینہ کے فقہا ء ،علماء حجاز اور دیگر شہروں کے بڑے بڑے علماء و مفتی ، ان کی دلیل وہ روایات ہیں کہ جو اس سلسلے میں بہت زیادہ مذکور ہیں ۔(1)
کتاب شرح التلویح علی التوضیح میں مذکورہے کہ امام علی سے روایت ہے کہ پیغمبراکرم(ص) ، ابوبکر و عمر اور عثمان ایک گواہی اور ایک قسم کے ساتھ حکم صادر کرتے تھے ۔(2)
ہم اگر ان نصوص و روایات کو جمع کریں ابوبکر کے اس کلام و قضاوت کے ساتھ کہ جو انہوں نے حضرت فاطمہ زہرا کے ساتھ انجام دی اور آپ سے کہا کہ'' اے فاطمہ آپ اپنے قول میںسچی ہو اور عقل میں پختہ و کامل ہو آپ کا حق مارا نہیں جائے گا اور آپ کی سچائی و حقانیت سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ''اور آخر میں کہا '' خداوندسچ کہتا ہے اور اس کے رسول نے سچ کہا اور اس کی بیٹی نے سچ کہا ''تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ ابوبکر جھوٹے ہیں اور اپنے کلام میں سچے و صادق نہیں ہیں ۔
اگر ابوبکر جو کچھ کہہ رہے تھے اپنے اس کلام میں سچے تھے تو پھر کیوں فدک حضرت فاطمہ زہرا کو واپس نہیں کیا ؟۔ اس لیے کہ حق کا یقین حاصل ہونے کے بعد حاکم کے پاس اور کوئی راستہ باقی ہی نہیں رہتا کہ قضیہ کے حل کے لیے کسی اور طریقے کی تلاش و جستجو کرے۔
..............
(1) شرح نووی علی مسلم412۔
(2) شرح التلویح علی التوضیح :2 17۔
سنن ابی داؤد میں وارد ہے کہ حاکم کے لیے اگر ثابت ہوجائے کہ ایک گواہ بھی حق بجانب ہے اور سچا ہے تو اس کو چاہیے کہ اس پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کردے ۔(1)
ترمذی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابی جحیفہ سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے پیغمبراکرم(ص) کو دیکھا کہ آخر عمر میں گندمی چہرے کے ساتھ حکم کیا کہ ہم کو تیرہ (13)جوان ناقے عطا کریں گے ہم اس خیال میں چلے گئے کہ ان کو بعد میں لے لیں گے ،وقت کے ساتھ ساتھ آنحضرت(ص) بھی دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہم کو کچھ نہ ملا ،پس جس وقت ابوبکر حاکم ہوئے اور کہا کہ جو کوئی بھی کہ جس کو رسول خدا (ص) نے وعدہ دیا ہو وہ آئے میں اس کو پورا کروں گا میں ان کے پاس گیا اور ماجرے کو نقل کیا تو انہوں نے حکم دیا کہ ناقے عطا کیے جائیں ۔(2)
صحیح بخاری کی کتب الکفالة ،باب من یکفل عن میت دینا میں روایت نقل ہوئی ہے کہ جابر بن عبداللہ انصاری نے زمان ابوبکر میں دعوی کیا کہ پیغمبراکرم(ص) نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ اس کو مال بحرین میں سے کچھ حصہ عطا کریں گے ۔ پس ابوبکر نے بغیر اس کے کہ اس سے کوئی دلیل طلب کرتے اس کو بیت المال سے پندرہ سو دینار دیئے ۔(3)
..............
(1) سنن ابی داؤد :2 166۔
(2) سنن ترمذی :4 210، حدیث 2983۔ المعجم الکبیر: 22 128۔
(3) دیکھیے :ـ صحیح بخاری :3 58، کتاب الاجارہ ، باب الکفالة فی القرض و الدیون ۔ و 137 کتاب المظالم ،باب من لم یقبل الھدیة لعلة ۔
ابن حجر نے فتح باری باب من یکفل عن میت دیناً میں اس حدیث کی شرح میں کہا ہے کہ ا س کا مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کی خبر واحد عادل بھی قابل قبول ہے چاہے وہ اس کے نفع و فائدے ہی میں کیوں نہ ہو۔(1)
یہاں پر یہ سوال کرنا مناسب و معقول ہے کہ کیا ابوبکر کے نزدیک ابو جحیفہ اور جابر بن عبداللہ انصاری حضرت فاطمہ زہرا سے زیادہ سچے تھے ؟ خصوصا آپ کے شوہر صدیق کی گواہی کے باوجود بھی کہ جو نفس پیغمبر(ص)اور ان کے وصی ہیں نیز ام ایمن و اسماء کی گواہی کے باوجود کہ وہ دونوں اہل بہشت ہیں ، یا یہ کہ مسٔلہ ایک سیاسی و حکومتی اور دنیوی تھا ۔
اس تمام گفتگو کے بعد بھی کیا ایجی کی ابوبکر کی جانب سے عذرتراشی آپ کو قانع کرسکتی ہے کہ جو اس نے تحریر کی ہے کہ۔
اگر یہ کہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ادعی کیا کہ فدک نحلہ ہے اور اس پر علی و حسن و حسین اور ام کلثوم نے گواہی دی تو پھر ابوبکر نے کیوں قبول نہ کیا اور ان کی گواہیوں کو رد کردیا ؟۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ حسن و حسین کی گواہی فرعیت کی وجہ سے (مدعی کے بیٹے ہونے کی وجہ سے رد ہوئی ) اور علی و ام کلثوم کی گواہی بینہ و شہادت کے حد نصا ب تک نہیں پہنچی تھی ۔ اور شاید ابوبکرکے نزدیک گوا ہ اور ایک قسم کا رواج نہ تھا چونکہ یہ بہت سے علماء کا نظریہ ہے ۔(2)
..............
(1) فتح الباری :4 389۔
(2) المواقف (ایجی ) :3 598، مقصد چہارم۔
اس کلام کو پڑھیے اور تعجب کیجیے اور خود ہی قضاوت و فیصلہ کیجیے چونکہ آپ ابوبکر کے نظریہ سے واقف ہوچکے ہیں کہ وہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرتے تھے ، بلکہ یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ وہ بغیر گواہی کے صرف ادعی پر بھی حکم کردیتے تھے اور مدعی کو مال دیتے تھے ۔
طرفین کے نزدیک جھوٹ بولنے کے اسباب
ا ب ذرا غور و فکر کرنے کے بعد آئیں دیکھیں کہ کیا ابوبکر واقعا سچے اور صدیق ہیں یا صدیق حضرت علی ابن ابی طالب ہیں ؟۔
حضرت امیر المؤمنین علی نے اپنے کلام میں اپنی اس مظلومیت کی طرف اشارہ فرمایا ہے :
'' مازلت مذ قبض رسول الله مظلوما و لقد بلغنی انکم تقولون علی یکذب قاتلکم الله فعلی من اکذب أ علی الله فانا اول من آمن به ام علی نبیه فانا اول من صدقه ''(1)
جب سے پیغمبراکرم(ص) کی رحلت ہوئی ہے تب ہی سے میں مظلوم ہوں اور مجھ کو خبر ملی ہے کہ آپ لوگ کہتے ہو کہ علی جھوٹ بولتے ہیں ،خدا آپ کو ہلاک کرے میں کس پر جھوٹ بولتا ہوں ؟ کیا میں خدا پر جھوٹ بولتا ہوں جب کہ سب سے پہلے اس پر میں ایمان لایا ہوں یا اس کے نبی پر جھوٹ بولتا ہوں ؟ جب کہ سب سے پہلے میں نے آپ(ص) کی تصدیق کی ہے ۔
..............
(1) نہج البلاغہ: 1 119، حظبہ 71۔ خصائص الائمہ(سید رضی) 99۔ الارشاد:1 279۔ بحار الانوار :39 352۔ ینابیع المودة :3 436۔
امام کی اس فرمایش میں بہت دقیق اور بہت خوبصورت معانی اور ایک عظیم احتجاج و مناظرہ پوشیدہ ہے ۔ چونکہ حقیقت میں کیا دلیل و توجیہ پیش کی جاسکتی ہے اس بات پر کہ علی خدا پر جھوٹ بولیں جب کہ علی وہ شخص ہیں کہ جن کے بارے میں اور آپ کے خاندان کے بارے میں قرآن کریم کی متعدد اور بہت زیادہ آیات نازل ہوئی ہیں جیسے آیہ تطہیر ، آیہ مباہلہ ، آیہ مودت، سورہ دہر اور مذکورہ ذیل آیات کہ جن میں خداوندعالم کا ارشادگرامی ہے :
1ـ (واعتصموا بحبل الله جمیعا ولا تفرقوا )(1)
اور سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو۔
تفسیر عیاشی میں مذکور ہے کہ علی ابن ابی طالب ، خداوندعالم کی مضبوط رسی ہے ۔(2)
2ـ (کونو امع الصادقین)(3)سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔
روایت میں آیاہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جناب سلمان نے پوچھا کہ اے پیغمبرخدا (ص) کیا یہ آیت عام ہے یا خاص ؟ آنحضرت (ص) نے فرمایا تمام مومنوں کو حکم ہوا ہے کہ سچوں کے ساتھ ہوجائیں لیکن صادقین سے مراد خاص افراد ہیں میرے بھائی علی اور ان کے بعد اوصیاء قیامت تک۔(4)
..............
(1) سورہ آل عمران(3) ، آیت 103۔
(2) تفسیر عیاشی :1 194، حدیث 122۔
(3) سورہ توبہ (9)، آیت 119۔
(4)کمال الدین و تمام النعمة 278، باب 24، حدیث 25۔
3 ـ ( ان هذا صراطی مستقیما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتقرق بکم عن سبیله )(1)
بیشک یہ میرا سیدھا راستہ ہے پس اس کی پیروی کرو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو سیدھے راستے سے جدا کردیں گے ۔
روضة الواعظین میں مذکورہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا کہ میں نے خدا وندعالم سے چاہا کہ اس آیت کو علی کے بارے میں قرار د ے خداوندکریم نے قبول فرمایا اور ایسا ہی کیا ۔(2)
اور یہ بھی پیغمبراکرم(ص) سے مروی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا : میں وہی صراط مستقیم ہوں کہ جس کی پیروی کا خداوندعالم نے تم کو حکم دیا ہے اور میرے بعد علی ،صر اط مستقیم ہے اور اس کے بعد علی کی نسل میں سے میرے بیٹے خدا کی طرف سے سیدھا راستہ ہیں ۔(3)
4ـ (یا ایهاالذین آمنوا اطیعوا الله و اطیعو ا الرسول و اولی الامر منکم)(4)
اے ایمان لانے والو خدا کی اطاعت کرو اورر سول اور اولی الامر کی اطاعت کر و کہ جو تم ہی میں سے ہے ۔
..............
(1) سورہ انعام (7)، آیت 153۔
(2) روضة الواعظین :1 106۔
(3) احتجاج طبرسی :1 78ـ79، حدیث الغدیر۔
(4) سورہ نساء (4)، آیت 59۔
جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی میں نے رسول خدا (ص) سے سوال کیا : یارسول اللہ ہم نے اللہ اور رسول کو تو پہچان لیا لیکن یہ اولی الامر کون ہے ؟کہ جس کی اطاعت آپ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ ہم پر واجب کی گئی ہے ، پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا: اے جابر وہ میرے خلفاء اور مسلمانوں کے امام ہیں میرے بعد کہ ان میں سے اول علی ابن ابی طالب اور ان کے بعد حسن پھر حسین ہیں۔(1)
5ـ (فاسئلو ا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون )(2) آپ اگر نہیں جانتے تو اہل ذکر سے سوال کرو ۔ روایات میں آیاہے کہ ذکر سے مراد پیغمبراکرم(ص) اور اہل ذکر سے آنحضرت(ص) کے اہل بیت مراد ہیں ۔ (3)
6ـ (ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین له الهدی و یتبع غیرسبیل المؤمنین نوله ما تو لی و نصله جهنم و سائت مصیرا )(4) راہ حق و ہدایت روشن ہونے کے بعد بھی جو شخص پیغمبراکرم (ص) سے اختلاف کرے اور مؤمنین کے راستے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے تو اس کو اسی راستے پر چھوڑدیں گے کہ جو اس نے اختیار کیا ہے اور اس کو جہنم تک پہنچادیں گے ،کہ جو بہت برا راستہ ہے ۔
..............
(1) 1 کمال الدین و تمام النعمة 253،باب 23۔ حدیث 3۔
(2) سورہ نحل (16)، آیت 43۔
(3) دیکھیے :ـ اصول کافی :1 210، حدیث 1ـ3۔ تفسیر قمی :2 68۔ تفسیر عیا شی :2 260،حدیث 32۔ بصائر الدرجات 60،باب 19، حدیث 10و13۔ (4) سورہ نسائ(4)، آیت 115۔
7ـ (انما انت منذر و لکل قوم هاد)(1)
بیشک آپ ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ایک ہادی ہے ۔
تفسیر مجمع البیان میں مذکورہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) نے فرمایا : میں ڈرانے والاہوں اور میرے بعد علی ہادی ہے اے علی ہدایت پانے والے آپ سے ہدایت پائیں گے ۔(2)
8ـ (انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوة ویوتون الزکاة و هم راکعون)(3)
آپ کا ولی اور سر پرست صرف خدا ہے اور اس کا رسول اور وہ مومنین کہ جو نماز قائم کرتے اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں (اور جو شخص بھی خدااور اس کے رسول اور ان مومنین کو اپنا ولی قراردے و ہ حزب اللہ کے دائرے میں ہے اور بیشک وہ افراد کہ جو حزب اللہ کے زمرے میں ہیں کامیاب ہیں )
کتاب کافی میں حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے کہ والذین آمنوا سے مراد علی اور قیامت تک آپ کی اولاد آئمہ ہیں ۔(4)
..............
(1) سورہ رعد(13)، آیت 7۔
(2) مجمع البیان :5و6 287۔
(3) سورہ مائدہ (5)، آیت 55و 56۔
(4) اصول کافی :1 288،حدیث 3۔
حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے کہ یہودیوں میں سے ایک گروہ نے اسلام قبول کیا اور پیغمبراکرم(ص) کے پاس آئے اور آپ (ص) سے سوال کیا کہ آپ کا وصی اور جانشین کون ہے ، آپ کے بعد ہماراولی و سرپرست کون ہے ؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (انما ولیکم اللہ و رسولہ ۔۔۔) پیغمبراکرم (ص) نے ان لوگوں سے فرمایا اٹھیے اور مسجد کی طرف چلیے وہ سب کے سب مسجد کی طرف چل پڑے اسی دوران ایک فقیر کو دیکھا کہ جو مسجد سے باہر نکل رہا تھا پیغمبراکرم(ص) نے سوال کیا: اے سائل کیا تجھ کو کسی نے کچھ دیا ؟ اس نے کہا؟ جی ہاں یہ انگوٹھی ، پیغمبراکرم(ص) نے معلوم کیا : کس شخص نے یہ انگوٹھی تجھے دی ؟ فقیر نے کہا : اس شخص نے کہ جو نماز پڑھ رہا ہے ۔ آپ نے معلوم کیا : کس حالت میں یہ انگوٹھی تجھ کو دی ؟ اس نے کہا : حالت رکوع میں ۔
پیغمبراکرم(ص) نے یہ سن کر تکبیر کہی اور تمام اہل مسجد نے تکبیر کہی پھر پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا: علی ابن ابی طالب آپ کا ولی و سرپرست ہے۔ سب نے کہا ہم راضی ہیں کہ اللہ ہمارا پروردگار، محمد ہمارا رسول ہے اور علی ابن ابی طالب ہمارے ولی و سرپرست ہیں ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (ومن یتول الله و رسوله)(1)
اور ان کے علاوہ بہت سی دوسری آیات کہ جو اس سلسلے میں نازل ہوئی ہیں اور تفاسیر و دوسری کتابوں میں ان باتوںکی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
..............
(1) امالی (شیخ صدوق ) 107ـ108، مجلس 26،حدیث 4۔
پیغمبراسلام (ص) پر جھوٹ بولنا چاپلوسی ،چمچے اور تملق مزاج لوگوں کا کام ہے اور وہ یہ حرکت کرتے ہیں کہ جو خواہشات نفس کے پیروکار ہیں یا وہ افراد کہ جو حقیقت میں اسلام کے دشمن ہیں لیکن اپنے آپ کو مسلمانوں کی صفوں میں کھڑا کرلیا ہے ۔یا وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنی قلعی و حقیقت کھلنے کے خوف سے پیغمبراکرم(ص) کو ستایا اور آپ پر جھوٹ کا الزام لگایا ہے یہ وہی لوگ ہیں کہ جو پیغمبراکرم(ص) کے اوپر کوڑا پھینکتے تھے اور آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے تھے ۔
جبکہ حضرت امام علی ابن ابی طالب آپ کے چچا زاد بھائی ہیں اور وہ ہیں کہ جنہوںنے اپنی جان اور خون سے پیغمبراکرم(ص) کی محافظت کی، آپ(ص) سے دفاع کیا اور آپ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے پیغمبراکرم(ص) کی نبوت و رسالت کو قبول کیا ، اور آپ سے خطرات کو ٹالنے کے لیے آپ کے بستر پر سوئے ، جو شخص اس طرح کا ہو اوراس طرح کے امتیازات رکھتاہو کیا یہ معقول ہے کہ وہ پیغمبراکرم(ص) پر جھوٹ بولے ؟۔
یہ کس طرح ممکن ہے کہ علی پیغمبراکرم(ص) پر جھوٹ کی تہمت لگائیں جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیکڑوں حدیثین حضرت علی کے مدح میں پیغمبر اکرم(ص) سے مروی ہیں ، مذکورہ ذیل روایات صرف نمونے کے طور پر پیش خدمت ہیں کہ جو پیغمبراکرم(ص) نے حضرت علی کے بارے میں فرمایا :
٭ ''امام المتقین وقائد الغر المحجلین''(1)
علی متقین اور پرہیزگاروں کے امام اور سفید و نورانی پیشانی والوں کے قائد ہیں۔
..............
(1) اس حدیث کے منابع و مصادر سے آشنائی کے لیے دیکھیے :ـ المراجعات (شرف الدین) 340، مراجعہ 48۔
٭ '' هذا امیر البررة وقاتل الفجرة منصورمن نصره مخذول من خذله''(1)
یہ علی، نیک وصالحین کے امیر ،فاسقین و فاجرین کے قاتل اور جو اس کی مدد کرے وہ کامیاب ہے اور جو اس کو پست و خوار سمجھے وہ خود ذلیل ہے ۔
٭ '' انا مدینة العلم و علی بابها فمن اراد العلم فلیات الباب ''(2)
میں علم کا شہرہوں اورعلی اس کے دروازہ ہیں پس جس کو علم چاہیے وہ دروازے سے داخل ہو۔
٭ '' انت تبین لامتی ما اختلفوافیه من بعدی''(3)
آپ اے علی میرے بعد میری امت کے لیے وضاحت کریںگے جن مسائل میں وہ اختلاف کریں۔
..............
(1) مستدرک حاکم :3 129۔ حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔ تاریخ بغداد : 4 441، ترجمہ 2231۔
(2) المعجم الکبیر :11 55(بہ نقل از ابن عباس )۔ مستدرک حاکم :3 126(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) اور 127 صفحہ پر اس حدیث کو جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے ۔ فیض القدیر :1 49۔ اسد الغابہ :4 22۔
(3) مستدرک حاکم:3 122 ۔حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ۔ تاریخ دمشق : 42 387۔
٭ '' اناالمنذر و علی الهادی و بک یا علی یهتدی المهتدون من بعدی''(1)
میں ڈرانے والاہوں اور علی ہادی ہیں ، اور اے علی میرے بعدہدایت پانے والے آپ سے ہدایت پائیں گے ۔
٭ '' ان الامة ستغدربک بعدی وانت تعیش علی امتی و تقتل علی سنتی من احبک احبنی ومن ابغضک ابغضنی و ان هذه ستخضب من هذا (یعنی لحیته من راسه )''(2) اے علی میرے بعد میری امت آپ سے خیانت کرے گی جب کہ آپ کی زندگی میرے آئین و روش پر ہوگی اور میری سنت کے احیاء میں قتل کردیے جاؤ گے اور جو آپ کو دوست رکھے وہ مجھ کو دوست رکھتا ہے اور جوآپ سے بغض رکھے وہ مجھ سے بغض، اور میر ا دشمن ہے ۔اور عنقریب آپ کی ڈاڑھی آپ کے سر کے خون سے رنگین ہوگی ۔
..............
(1) تفسیر طبری :13 142(بہ نقل از ابن عباس) ۔ فتح الباری : 8 285(ابن حجر کا بیان ہے کہ اس حدیث کے اسناد حسن ہیں ) ۔ الدر المنثور : 4 45۔(اس ماخذ میں وارد ہے کہ اس حدیث کو ابن حجر ، ابن مردویہ اور ابونعیم نے المعرفت میں اور دیلمی ، ابن عساکر ، ابن نجار اور اسی طرح حاکم نے عباد بن عبداللہ اسدی سے کہ اس نے علی سے روایت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور بخاری و مسلم نے نقل نہیں کیا ہے ) دیکھیے:ـ مستدرک حاکم :3 130۔
(2) اس حدیث کو حاکم نے مستدرک :3 142 میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور ذہبی نے اس کو اپنی تلخیص میں صحیح جانا ہے ۔ کنزالعمال :11 297، حدیث 13562۔اسی طرح کی روایت شیعہ طرق سے بھی نقل ہوئی ہے جیسا کہ عیون اخبار الرضا :1 72، حدیث 306، میں وارد ہے ۔
عمر بن خطاب سے منقول ہے انہوں نے کہا: علی کو تین ایسی خصلتیں ملیں کہ اگر مجھ کو ان میں سے ایک بھی مل جاتی تو اس سے کہیں زیادہ بہتر تھی کہ مجھ کو لال بالوں والے اونٹ دیئے جائیں ۔
لوگوں نے معلوم کیا کہ وہ علی کی کیا خصوصیتیں ہیں؟تو کہا : علی کی فاطمہ دختر رسول خدا (ص) سے شادی ہونا ، اور آپ کا پیغمبراکرم(ص) کے ساتھ مسجدمیں سونا اور ہر وہ چیز کہ جو پیغمبراکرم(ص) کے لیے مسجد میں حلال تھی آپ کے لیے بھی حلال تھی اور آپ کو روزخیبر علم کا دیا جانا ۔(1)
مسلم نے سعد بن وقاص سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے ۔(2)
اور اسی طرح کے مضمون کی روایت ابن عباس سے نقل ہوئی ہے ۔(3)
جس کے حصے اور نصیب میں خدا اور رسول سے اس قدر فضائل و کمالات ہوں تو کیا اس کے لیے یہ تصور کرنا ممکن ہے کہ وہ خدا اور رسول پر جھوٹ بولے ۔
صدیق اکبرحضرت علی اور صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا کی تصدیق نہ کرنا یا ان کی بات رد کرنا ـ ان دونوں کی فضیلت میں اتنی زیادہ احادیث صحیحہ و متواترہ ہونے کے باوجود ـ گویا رسول خدا(ص) کی تکذیب کرنا ہے خصوصاًان روایات میں کہ جن کے صحیح ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔
..............
(1) مصنف ابن ابی شیبہ :7 500، حدیث 36۔ مستدرک حاکم :3 125۔(حاکم کا بیان ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور بخاری و مسلم نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) ۔ مجمع الزوائد :9 120۔
(2) صحیح مسلم 120 کتاب فضائل الصحابہ ، فضائل علی ۔ سنن ترمذی :5 301، حدیث 3808۔
(3) المعجم الاوسط : 8 212 ۔ مجمع الزوائد : 9 120۔ مستدرک حاکم :30 111۔ تاریخ دمشق :42 72۔ شواہد التنزیل : 1 22۔
وہ لوگ کہ جو تاریخ اسلام کا حقیقت مندانہ مطالعہ کرتے ہیں وہ اچھی طرح درک کرلیتے ہیں کہ خدا اور رسول پر ان لوگوں نے جھوٹ بولا ہے کہ جن کے یہاں زمانہ جاہلیت کی طرف تمایل اور تعصب تھا ، یا خواہشات نفس کے تابع تھے ، یا حکومت و جاہ طلب، اور یا پھر فکری اعتبار سے پست تھے اور یہ لوگ عموماً وہ تھے کہ جو مسلمانوں کی تلوار کے خوف سے ایمان لائے تھے، اپنی جان کے خوف میں جہاد پر بھی نہ گئے اور اگر گئے بھی تو مسلمانوں کی صفوں میں رخنہ و تفرقہ ڈالا ۔ جیسے فتح مکہ کے دن اسلام قبو ل کرنے والے اور اس کے بعد والے یا منافق افراد وغیرہ۔
یہ تمام اسباب ـ کہ جن کی سزا اور بھگتان بہت سنگین ہے ـ حضرت علی ابن ابی طالب ، حضرت فاطمہ زہرا ، جناب خدیجہ اور تمام ہی اہل بیت علیہم السلام کے حق میں کہ جن کو خداوندعالم نے پاک و پاکیزہ رکھا ہے ، منتفی ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ صدیق اکبر حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب کا ارشاد گرامی ہے :
'' ما کذبت ولا کذبت ''(1)
نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا اور نہ مجھ پر(رسول خدا (ص) کی جانب سے) کبھی جھوٹ بولا گیا ۔
اور یہ اسباب ، اہل بیت علیہم السلام کے پیرو وتابع حضرات جیسے سلمان ، مقداد ، ابوذر ، عمار ، ابن عباس ، حذیفہ بن یمان اور خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین وغیرہ کے یہاں بھی منتفی و محال ہیں
..............
(1) مسند احمد : 1 139ـ141۔ مستدرک حاکم:2 154۔ (حاکم کا بیان ہے کہ یہ حدیث بہ شرط شیخین صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو نقل نہیں کیا ہے ) ۔ السنن الکبری (بیہقی ) :2 371۔ مسند ابی داؤد 24۔ المصنف(عبد الرزاق) :3 358، حدیث 5962۔
اس لیے کہ ان حضرات کی صدق وصفائی اور فضائل میں خود رسول اکرم(ص) سے روایات وارد ہیں اور یہ لوگ صدق و صفائی میں مشہور ہیں ان پر سیاسی حوادث اور خواہشات نفس کا غلبہ نہیں ہوا اور ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث کے جعل و گھڑنے اور جھوٹ سے متہم نہیں ہوا ہے ۔ ان کے بر خلاف حاکم اور ان کے پیروکاروں کے یہاں جعل حدیث اور جھوٹ کا بازار گرم ہے جیسے کعب الاحبار ، وھب بن منبہ ، سمرہ بن جندب اور ابوھریرہ وغیرہ ۔
جی ہاں ! حضرت فاطمہ زہرا کی سچائی اور راست گوئی کی تصدیق ہوئی ہے ۔ اور بیشک آپ اور آپ کے شوہرحضرت امیرالمؤمنین سیاسی امور وشخصی معاملات میں جھٹلائے گئے حضرت فاطمہ زہرا بیت الشرف سے باہر تشریف لائیں تاکہ لوگوں کو یہ تاکید کرسکیں کہ وہ رسول خدا(ص) کی بیٹی ہیں اور وہ اپنے قول و فعل میں سچی ہیں ، پس جو کچھ بھی فرمائیں وہ غلط و جھوٹ نہیں ہے اور جوکام بھی انجام دیں وہ کسی کے حق میں ظلم و زیادتی نہیں ہے ۔
اے لوگو! یہ جان لو کہ میں فاطمہ اور میرے باپ محمد(ص) ہیں ، میرا اول و آخر کلام یہ ہے کہ میں کوئی غلط بات نہیں کہتی اور جو کام کرتی ہوں اس میں کسی پر ظلم و ستم نہیں کرتی ۔
(لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم )(1) خدا کی قسم آپ ہی میں سے آپ کے درمیان پیغمبرآئے کہ جس پر آپ کے رنج و تکلیف دشوار تھی اور جو آپ لوگوں کی کامیابی و سعادت کے لیے حرص و طمع کرتے اور مومنین کے متعلق بہت مہربان و دل سوز تھے ۔
..............
(1) سورہ توبہ(9)، آیت 128۔
اگر ان کے نسب کو دیکھنا ہے اور ان کو پہچاننا ہے تو دیکھوگے کہ وہ میرے باپ ہیں نہ کہ آپ کی عورتوں کے باپ ۔ اور میر ے ابن عم علی کے بھائی ہیں نہ کہ تم مردوں کے ، اور یہ کتنی نیک نسبت ہے کہ جومجھے ان سے ہے ۔
انہوں نے اپنی الہٰی رسالت کو انجام دیا اور خداوندعالم کی جانب سے عذاب کے اسباب و علل کو پہچنوادیا ہے ۔۔۔(1)
ابوبکر اور ان کے پیرو کار و طرف دار حضرت فاطمہ زہرا کے اسلام میں مقام و منزلت سے اچھی طرح واقف تھے اور جان بوجھ کر آپ کی منزلت و شان میں تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے تھے اور اپنے آپ کو نادانی میں ڈالے ہوئے تھے اور جہاں کہیں بھی حضرت فاطمہ زہرا کے مقا م کا اعتراف کیا وہ از راہ اکراہ تھا، حقیقت مندانہ نہیں تھا بلکہ اپنے نئے نئے حربوں سے آپ کو آپ کے مقام سے اوروہ منزلت کہ جو آپ کو خدا نے عطا فرمائی تھی گرانے کی کوشش کرتے تھے ۔
اگر ان لوگوں کے افعال کی بہترین توجیہ و تاویل کی جائے تو یہ ہوگی کہ وہ لوگ مقام رسالت و حقائق الہٰی سے ناآشنا تھے اور معرفت نام کی ان کے پاس کوئی چیز نہ تھی اگر امیر المؤمنین کے احتجاج پرکہ جو آپ نے ابوبکر پر کیا ، غور کریں تو معلوم ہوجائے گا کہ ابوبکر حقیقت وحی و رسالت کی کما حقہ معرفت نہیں رکھتے تھے ، چونکہ جب امیرالمؤمنین نے ان کی زبان سے یہ کہلوالیا کہ آیت تطہیر ان حضرا ت کی شان میں نازل ہوئی ہے تب فرمایا :
..............
(1) شرح الاخبار :3 34۔ احتجاج طبرسی :1 134۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :16 212۔
اگر مسلمان یہ گواہی دیں کہ فاطمہ زہرا کسی غلط فعل کی مرتکب ہوئی ہیں تو آپ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں گے ؟ ابوبکر نے کہا : عام مسلمان عورتوں کی طرح ان پر بھی حد جاری کروں گا !۔ آپ نے فرمایا : اس صورت میں آپ خداوندعالم کے نزدیک کافروں میں سے ہوں گے ۔ ابوبکر نے کہا: وہ کیسے ؟
آپ نے فرمایا : چونکہ حضرت فاطمہ زہرا کی پاکیزگی و طہارت پر خداوندعالم کی گواہی کو رد کردیا اور ان کے خلاف مسلمانوں کی گواہی کو قبول کرلیا ۔ اسی طرح خداوندعالم اور رسول خدا(ص) کے حکم کو فدک کے سلسلے میں کہ جو آپ کے لیے قرار دیا تھا اورآپ پیغمبراکرم(ص) کی زندگی ہی میں اس کی مالک تھیں، رد کردیا ہے ۔
عالم غیب اور عالم مادہ
یہ واضح ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اور مشرکین عرب اپنی سطحی فکر پر زندگی گذار رہے تھے ، اگر ان کے حالات پر غور کریں تو روشن ہوجائے گا کہ وہ حقیقت رسالت کودرک نہ کرنے کی وجہ سے جو کچھ بھی پیغمبراکرم(ص) لائے تھے اس پر اعتراض کرتے اور کہتے تھے کہ کیوں پیغمبراکرم(ص) ایک عظیم بادشاہ کی طرح نہیں ہیں ؟آپ کے پاس کیوں مال و دولت کے انبار نہیں ہیں ؟ ۔
کس طرح خد اوندعالم مردوں کو زندہ کرے گا ؟ کس طرح لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے ؟۔
اور اس طرح کے ہزاروں سوال ۔
یہ تمام سوالات مشرکین کی جانب سے ہیں کہ جن میں سے زیادہ تر مادی اور امور حسی سے مربوط ہیں کہ جن کا عالم غیب سے کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ خداوندعالم نے مؤمنین سے غیب پر ایمان لانے کی فرمائش کی ہے کہ تمام حوادث کو ایک مادی نگاہ سے نہ دیکھا جائے بلکہ عالم غیب پر ایمان رکھا جائے ۔
حدیثی منابع و مصادر میں ابوبکر کے متعلق نقل ہوا ہے کہ وہ جنگ حنین میں بعض غیبی حوادث کے متعلق مادی نظر رکھتے تھے اسی لیے کہا کہ ہم آج قلت افراد کی وجہ سے اصلا ًکامیاب نہیں ہوسکتے!
خدا اور اس کے رسول نے اس مادی فکر کو پسند نہ فرمایا چونکہ ان کا مقصد ایمان اور غیبی مدد پر یقین کو تقویت دینا تھا ، لہذا ارشاد فرمایا :
(ویوم حنین اذاعجبتکم کثرتکم )(1)
اور روز حنین ان کی زیادتی نے تم کو تعجب میں ڈا ل دیا۔
بہت سے مسلمان اسی سطحی فکر پر ایمان لائے ہوئے تھے اور ان کی نظر اکثر امور کے متعلق مادی ہوا کرتی تھی ، ہر چیز کو اس کے ظاہری اعتبار سے دیکھتے اور اس کو معیار قرار دیتے تھے ،انبیاء و اولیا ء اور اللہ کے نیک بندوں کے مقامات اور ان کی معنوی شأن و منزلت کے متعلق شک و شبہہ کرتے اور یہ دعوی کرتے کہ ان حضرات کے بدن مٹی میں ملنے اور خاک ہوجانے کے باوجود کیسے یہ لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟ جب کہ یہ فکرظاہری ، حیات مادی اور دنیوی خیال کی وجہ سے ہے کہ جو زمانہ جاہلیت سے سرچشمہ لے رہی ہے اور اسی کی دین ہے ۔
اگر یہ لوگ خداوندعالم کے اس فرمان کو کہ جس میں ارشاد ہے (کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن الله والله مع الصابرین ) (2) چہ بسا تھوڑے لوگ ، خدا وندعالم کے اذن سے زیادہ لوگوں پر غالب آجاتے ہیں اور خداوندعالم صبر کرنے والوںکے ساتھ ہے ۔حقیقت میں درک کرتے تو انبیاء اور اوصیاء کے مقامات کو کہ جو خداوندعالم نے ان کو عطا فرمائے ہیں خوب سمجھ لیتے اور پھر کبھی شک نہ کرتے اور بے اساس و بے بنیاد اور بیہودہ باتیں نہ کرتے ۔
..............
(1) سورہ توبہ (9) ، آیت 25۔
(2) سورہ بقرہ(2)، آیت249۔
ابلیس اپنی تمام خباثتوں کے ساتھ خداوندعالم سے مخاطب ہے کہ اپنی تمام تر کوششوں سے اولاد آدم کو بہکائے گا اور راہ حق سے گمراہ کرے گا لیکن ان افراد کے علاوہ کہ جن کو گمراہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔
(لا حتنکن ذریته الا قلیلا)(1)
میں یقینا آدم کی اولاد کے لگام ڈالوںگا اور ان پر مسلط ہوجائوں گا مگر کچھ افراد کے علاوہ ۔یا اس کا یہ کلام کہ:(فبعزتک لاغوینهم اجمعین الاعبادک منهم المخلصین )(2)
تیری عزت کی قسم میں ان سب کو گمراہ کر وں گا مگر سوائے تیرے مخلص بندوں کے ۔(3)
..............
(1) سورہ اسراء (17)، آیت62۔
(2) سورہ ص(38)، آیت82ـ83۔
(3) مخلص ،(زبر کے ساتھ) ، مخلص ،(زیر کے ساتھ)سے جدا اور ممتاز ہے ۔
مخلص، (زیر کے ساتھ)وہ شخص ہے کہ جو اپنے اعمال میں اخلاص سے کام لے اور یہ کوشش کرے کہ اس کی ہر حرکت ورفتار و گفتار صرف خدا کے لیے ہواور ریاکاری ، نفاق اور ہر وہ شیٔ کہ جس کو خدا وند پسند نہیں فرماتا اس کے عمل میںنہ پائی جائے ، اس اعتبار سے ہر انسان باایمان اور مخلص ، اخلاص کی راہ پر گامزن ہے اور خطروں سے بچا ہوا نہیں ہے ، اخلاص کے مراتب و مقامات ہیں کہ ہر شخص مخلص کے اخلاص کا درجہ جدا جدا ہے۔
لیکن مخلص، (زبر کے ساتھ) وہ شخص ہے کہ جو پیغمبروں کی توصیف میں آیا ہے اور ان کی ممتاز خصوصیتوں میں سے ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا وندعالم کی جانب سے کسی بندے کا انتخاب یعنی اخلاص کے تمام مراحل کو طے کرکے خطاء و غلطی سے مصونیت و معصومیت کے درجہ پر فائز ہوگیا ہے ۔ اس حیثیت سے کہ اپنے نفس کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے اور جن و انس اور شیطان کوئی بھی اس کو دھوکا نہیں دے سکتے
دوسر ے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ مخلص (زبر کے ساتھ) وہ شخض ہے کہ جو توفیق الٰہی کے ساتھ تمام تر آزمائشات و امتحانات سے سربلند و کامیاب نکلا ہو اور کسی بھی فتنے میںاس کے قدم نہ ڈگمگائے ہوں ۔
جی ہاں ! اخلاص ایک وظیفہ ہے کہ جو ہر مخلص مرد و عورت اپنا شیوہ بناتا ہے ۔ اور مخلص (زبر کے ساتھ) خداوندعالم کی جانب سے ایک رتبہ اور مقام ہے اور ایک ایسی منزلت ہے کہ جو مسلسل علمی وعملی جہاد اور کوششوں کے بعد اور ایمان کے آخری درجہ پر فائز ہونے کے بعد ، خدا کے بعض بندوں کو نصیب ہوتی ہے اور ان کو خدا کا منتخب بندہ بناتی ہے ۔
اسی بناء پر عالم غیب کے اسرار و رموز سے آگا ہی ہمارے لیے امکان فراہم کرتی ہے کہ ہم تمام امور میں جس مقام و حیثیت میں ہیں اس سے زیادہ حقیقت بینی سے کام لیں اور ان کو کما حقہ درک کرنے کی کشش کریں ۔
حق یہ ہے کہ کہاجائے کہ ہم پیغمبراکرم(ص) ، حضرت فاطمہ زہرا اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے مقامات کو درک نہیں کرپاتے چونکہ ان کا عالم غیبی و معنوی ہمارے سطحی عالم سے کہیں بلند و بالاہے اور ہمارے یہاں ان کے مقام کو درک کرنے اورسمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے ۔
اسی وجہ سے وہ لوگ کہ جو مادی و سطحی فکر رکھتے ہیں جیسے عصر حاضر میں فرقہ وہابیت وہ لوگ اصلاً اس بات کو درک نہیں کرسکتے کہ پیغمبراکرم(ص) چودہ صدیوں کے بعد آج بھی ہم پر گواہ و شاہد ہیں جب کہ یہ گواہی وشہادت خداوندمتعال کے کلام پاک میں موجود ہے۔
(وکذالک جعلنا کم امة وسطا لتکونوا شهداء علی الناس و یکون الرسول علیکم شهیدا)(1) اور اسی طرح آپ کو درمیانی امت قرار دیا تاکہ آپ لوگوں پر گواہ رہیں اوررسول آپ پر گواہ ہو ۔
اسی طرح یہ دوسری آیت : (وقل اعملو فسیرالله عملکم و رسوله والمؤمنون و ستردون الی عالم الغیب والشهادة فینبٔکم بما کنتم تعملون)(2)
اے رسول کہدو کہ جوتمہارا دل چاہے انجام دو ، جبکہ اللہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے اور اس کا رسول اور مؤمنین آپ کے اعمال کو دیکھتے ہیں اور عنقریب آپ عالم غیب و شہادت کی طرف پلٹادیئے جائوگے تاکہ جو کام انجام دیتے ہو ان سے تم کو باخبر کردیا جائے ۔
اور خداوندعالم کا یہ ارشادگرامی :
(قل کفٰی بالله شهیدا بینی و بینکم ومن عنده علم الکتاب )(3)
اے رسو ل کہدو، میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لیے خدا کافی ہے اور وہ کہ جس کے پاس تمام کتاب کا علم ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا گواہی و شہادت اور پیغمبراکرم(ص) کا دوسروں کے اعمال کو دیکھنا صرف انپے ہم عصر اور صحابہ تک مخصوص ہے یا ہر زمانے اور مکان اور تمام نسلوں کوشامل ہے ۔
..............
(1) سورہ بقرہ (2)، آیت 143۔
(2) سورہ توبہ(9)، آیت 105۔
(3) سورہ رعد(13) ، آیت 43۔
اور پھر اس آیت کے کیا معنی ہیںکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :
(ولو انهم اذظلموا انفسهم جائوک فاستغفروا الله واستغفرلهم الرسول لو جدوا الله توابا رحیما)(1)
اے رسول ، اگر یہ لوگ اپنے اوپر ظلم و ستم کریں اور پھر آپ کے پاس آئیں کہ خود بھی خداوندعالم کے حضور استغفار کریں اور پیغمبر بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرے تو خداوندعالم کو توبہ قبول کرنے والا اور رحیم پائیں گے۔
کیا یہ کلام صرف عصر رسول سے مخصوص ہے ؟ یا یہ کہ دوسرے زمانوں کو بھی شامل ہے ۔اور اگر یہ صرف عصر رسول سے مخصوص ہے تو کیا یہ آئندہ نسلوں پر ظلم و ستم نہیں ہے ؟۔
اور اس کے علاوہ گذشہ آیت میں گواہی و شہادت کے کیا معنی ہیں ؟ اور کس طرح مادی قوانین و ضوابط کی بنیاد پر کہ جو ہمارے یہاں پائے جاتے ہیں یہ تصور کیا جاسکتاہے کہ پیغمبراکرم (ص) انسانوں پر گواہ ہیں جبکہ وہ رحلت فرماچکے ہیں اور ظاہراً فوت ہوچکے ہیں ۔
یہ امور سب کے سب عالم غیب سے مربوط ہیں اور ان باتوں پر ایمان رکھنا لازم ہے اگرچہ ان کی حقیقت اور تفصیلی کیفیت سے ہم ناواقف ہوں چونکہ غیب پر ایمان ، خداوندعالم کی اس آیت (الذین یؤمنون بالغیب) (وہ لوگ کہ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں)اور فرمان کے مطابق ہر مسلمان پر واجب ہے ۔ جی ہاں! غیب کے معنوی معانی و مفاہیم ہماری اسلامی زندگی میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں کہ جن کی معرفت ہم پر لازم ہے ۔
..............
(1) سورہ نساء (4) ، آیت 64۔
میرے عقیدے میں ، اس روش کو تو جہ کا مرکز قرار دینا بہت زیادہ ضروری ہے اس لیے کہ یہ روش اعتقادی مسائل کےـ کہ جن کی گہرائی تک دوسرے نہیں پہنچ سکتے ـحل ہونے کا سبب ہے ۔ چونکہ تمام امور کو مادی و سطحی نظر سے دیکھنا وہابیت و مارکسیستی نظریہ ہے ،کہ جو اسلامی نظریہ سے بہت دور ہے ، یہ نظریہ آخری دوصدیوں میں مسلمانوں کے ایمان اورا نبیاء و صالحین کے مقامات و منزلت میں تغافل و بے تو جھی کی وجہ سے وجود میں آیا ہے ۔
غیب پر ایمان ، تقریباً خداوندعالم کے لیے تمام موجودات کے تسبیح کرنے کی طرح ہے کہ جس کو ہم درک نہیں کرپاتے یا جس طرح خداوندعالم ،ماہ مبارک رمضان میں اپنے بندوں کی مہمان نوازی کرتا ہے ، لیکن یہ میزبانی عام انسانوں کی ایک دوسر ے کی میزبانی کی طرح نہیں ہے چونکہ اکل و کھانے کا مفہوم خداکے نزدیک ہمارے یہاں کے مفہوم سے جدا و متفاوت ہے ، اسی طرح مفہوم شہادت و شہود ہیں اور دیگراصطلاحات کہ جن کا دوسری جہت اور معنوی اعتبار سے اسلام کے اصل افکار میں لحاظ رکھا گیا ہے ، ان کو سطحی فکر اورپست خیالی سے درک نہیں کیا جاسکتا۔ ان امور کو صحیح اور کامل صرف پیغمبراکرم(ص) سمجھ سکتے ہیں اور وہ افراد کہ جن کے پاس علم کتاب ہے ۔
پس اس تمام گفتگو کے بعد عرض کرتے ہیں کہ امت اسلامی کے بہت سے افراد ، پیغمبراکرم(ص) کے زمانے یا ان کے بعد ، حقیقت رسالت اور رسول خدا (ص) کے معنوی مقام کو درک نہیں کرتے تھے یا نہیں چاہتے تھے کہ کما حقہ درک کریں ۔
اسی بناء پر آنحضرت سے ایک آدمی و معمولی انسان کی طرح ملتے اور ارتباط رکھتے اور یہ اعتقادرکھتے کہ ان کے یہاں امکان خطاء و صواب ہے اور وہ غصے میں وہ بات بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو رضایت و خوشنودی میں کبھی بھی زبان پر نہیں لاسکتے ۔
امیرالمؤمنین یہی چاہتے تھے کہ ابوبکر کے لیے یہ واضح کردیں کہ وہ اسلامی عقیدہ کی گہرائی تک نہیں پہنچے اور اپنے کاموں میں قرآن کریم کے خلاف عمل کررہے ہیں اور تمام امور میں سطحی فکر رکھتے ہیں اور سادہ لوحی و پست خیالی سے کام لے رہے ہیں جبکہ اس کے بر خلاف امیر المؤمنین اپنی ہر گفتار و رفتار اور ہر احتجاج و مقام پر باآواز بلند یہ آشکار فرمارہے ہیں کہ وہ تمام وجود سے شأن رسالت اور اس کی گہرائی کو خوب سمجھتے ہیں اور پیغمبراکرم(ص) کے حکم کو نماز سے بھی زیادہ مہم جانتے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ پیغمبرا کرم(ص) پر وحی نازل ہوتے وقت کہ جب پیغمبراکرم(ص) کا سرمبارک علی کی آغوش میں ہے خدااوررسول کی اطاعت اور امتثال امر کی خاطر نماز کے لیے نہیں اٹھتے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجاتا ہے اور نماز کی فضیلت کا وقت ختم ہوجاتا ہے ۔
لیکن علی کی یہ اطاعت شعاری خداوندمتعال کو اتنی پسند آئی ہے کہ آپ کے لیے سورج کو دوبارہ پلٹاتا ہے ۔(1)
..............
(1) فتح الباری : 6 155۔
ابن حجر کا بیان ہے کہ طحاوی نے شرح معانی الآثار :1 46 اور طبرانی نے المعجم الکبیر :24 151، حدیث 390۔ اور حاکم و بیہقی نے دلائل النبوة میں اسماء بنت عمیس سے روایت نقل کی ہے ۔ پیغمبراکرم(ص) نے اپنے سرمبارک کو علی کے زانو پر رکھا اور سوگئے ان کی نماز عصر کا وقت نکل گیا تو آنحضرت نے دعافرمائی پس سورج دوبارہ پلٹا اور علی نے نماز عصر ادا کی پھر سورج غروب ہوا ۔
اور اس کے بعد کہتا ہے کہ ابن جوزی نے اس حدیث کو اپنی کتاب موضوعا ت (گھڑی ہوئی حدیثیں) میں نقل کیا ہے جب کہ یہ خطاء و اشتباہ ہے اور ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الرد علی الروافض میں بھی نقل کیا ہے ۔
اسی کے بالکل برعکس ابو سعید بن معلی انصاری کی حالت ہے کہ جو تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ وہ نماز میں مشغول تھا کہ رسول خدا(ص) نے اس کو طلب فرمایا ، ابوسعید نے آنے میں تاخیر کی اور نماز کو پورے آرام و اطمیٔنان کے ساتھ انجام دیا پھر حضور (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا ، رسول اکرم(ص) نے اس سستی و تاخیرپر اعتراض کیااور اس کو نصیحت فرمائی اس طرح کہ کیا نہیں سنا کہ خداوندعالم کا ارشادگرامی ہے ۔(1)
(یا ایها الذین آمنوا استجیبولله و للرسول اذا دعا کم لما یحییکم )(2)اے ایمان دارو جب کبھی خدا اور اس کا رسول تم کو بلائے اس کا جواب دو تاکہ تمہیں زندگی عطا ہو ۔
حدیث و تاریخ کی کتابوں میں مذکورہے کہ رسول خدا (ص) نے سواد بن قیس محاربی سے ایک گھوڑا خریدا اور اس نے بیچنے کے بعد انکار کردیا ، خزیمہ بن ثابت نے رسول خدا (ص)کی طرف سے گواہی دی ، رسول خدا(ص) نے خزیمہ سے سوال کیا : آپ جب کہ ہمارے درمیان نہیں تھے تو آپ کس وجہ سے گواہی دے رہے ہو ، خزیمہ نے کہا آپ کی بات کی تصدیق کرتاہوںچونکہ میرا عقیدہ ہے کہ آپ حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ، پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا :
..............
(1) صحیح بخاری : 5 146 و 199 و 222، کتاب التفسیر ۔ و جلد: 6 103، کتاب فضائل القرآن ۔ مسند احمد :3 450۔ وجلد: 4 211۔ سنن ابی داؤد :1 328، حدیث 1458۔ سنن نسائی (المجتبیٰ):2 139۔ صحیح ابن حبان :3 56۔ المعجم الکبیر :22 303 ۔ سنن ترمذی :4 231، حدیث 3036۔ مستدرک حاکم :1 558۔ السنن الکبری (البیہقی ) :2 276۔
(2) سورہ انفال (8)، آیت 276۔
خزیمہ کی گواہی تنہا ہی کافی ہے اور کسی بھی معاملے میں ان کے ساتھ دوسرے گواہ کی ضرورت نہیں ہے ۔(1)
آخر کلا م میں آپ کے لیے ایک روایت اور پیش کرتا ہوں کہ جو جابر بن عبداللہ انصاری سے منقول ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی عرب) کومیں نے دیکھا کہ وہ حضرت فاطمہ زہرا کے خانہ اقدس کے دروازے پر کھڑا کچھ مانگ رہا ہے کہ اپنا پیٹ بھر سکے ، بھوک کو مٹاسکے اور اپنے بدن کو چھپا سکے ۔ حضرت فاطمہ زہرا نے ہرن کی کھا ل اور درخت سلم کے پتے کہ جن پر حضرات حسنین سویا کرتے تھے لاکر دیے ۔ اوراس سے کہا : اے سائل اس کو لے لو امید ہے کہ خداونداس سے بہتر آپ کو عطا کرے گا کہ خوشحال ہوجائوگے۔
اعرابی نے کہا اے محمد کی بیٹی میں نے آپ سے بھوک کی شکایت کی تھی اور آپ ہرن کی کھا ل مجھے دے رہی ہیں، میں اس بھوک کی حالت میں اس کا کیا کرو ں گا ؟ حضرت فاطمہ زہرا نے جیسے ہی اس کی یہ باتیں سنیں اپنے گلے سے گردن بند کو کھولا اور سائل کودیدیا ۔ یہ گردن بند آپ کی چچا زاد پھوپی فاطمہ بنت حمزہ بن عبد المطلب نے آپ کو ہدیہ دیا تھا ۔ اور فرمایا اس کو لے لو اور بیچ دو ، امید ہے کہ خداوند اس کے بدلے میں آپ کو کوئی اچھی چیز عطا فرمائے ۔
اعرابی نے گردن بند کو لیا ،مسجد رسول میں حاضر ہوا ، دیکھا کہ پیغمبراکرم(ص) اصحاب کے درمیان تشریف فرماہیں ، اس نے کہا اے رسول خدا (ص) یہ گردن بند فاطمہ نے مجھے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس کو بیچ دو تاکہ خداوندعالم آپ کے لیے کوئی بہترین اسباب فراہم کرے ۔
..............
(1) الآحاد والمثانی :4 115۔ المعجم الکبیر :4 87۔ مستدرک حاکم : 2 18۔
پیغمبراکرم(ص) گریہ فرمانے لگے اور ارشاد فرمایا کس طرح خداوندعالم تیرے لیے اچھے حالات نہ لائے جب کہ یہ گردن بند فاطمہ بنت محمد (ص) اور سارے عالم کی شہزادی نے تجھے عطا فرمایا ہے ۔
تب عمار یاسر کھڑے ہوئے اور عرض کی اے رسول خدا (ص) کیا مجھ کو اجازت ہے کہ میں یہ گردن بند خرید لوں ؟۔
پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا : اے عمار اس کو خرید لو اگر جن و انس مل کر اس کو خرید نے میں آپ کے شریک ہوں تو خداوندعالم ان سب سے عذاب جہنم کو ختم کردے گا ۔
عمار نے کہا : اے اعرابی اس گردن بند کو کتنی قیمت میں بیچوگے ؟
اعرابی نے کہا : ایک پیٹ بھر نے کے قابل روٹی اور گوشت ، ایک بردیمانی کہ جس کو اوڑھ کر میں اپنے آپ کو چھپا سکوں اور اس میں اپنے پروردگار کی نماز و عبادت انجام دے سکوں اور ایک سواری و مرکب تاکہ میں اس کے ذریعہ اپنے اہل و عیال تک پہنچ سکوں ۔
عمار نے کہ جو فتح خیبر سے ملا ہوا اپنا حصہ بیچ چکے تھے ،کہا: تیرے اس گردن بند کو 20 دینا ر ایک چادر یمانی اور ایک سواری کہ جو تجھ کو تیرے اہل و عیال تک پہنچادے اور ایک وقت کا کھانا روٹی و گوشت کے ساتھ خرید تا ہوں ۔
اعرابی نے کہا : اے مرد اس مال کی بخشش میں کس قدر سخاوت مند ہو!۔
عمار جلدی سے اس کو اپنے ساتھ لے گئے اور جو کچھ اس سے طے پایا تھا بطور کامل ادا کیا ۔
اعرابی اس کے بعد پیغمبراکرم(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا ، رسول اکرم(ص) نے معلوم کیا کہ کیا سیر ہوگئے اور پہننے کو بھی مل گیا ؟
اعرابی نے جواب دیا : اے رسول خدا (ص) میں اور میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں بے نیاز ہوگیا ۔(1)
جناب عمار ، اہل بیت علیہم السلام کی منزلت اور مقا م کی معرفت رکھنے کی وجہ سے اس ہدیہ کی قدر وقیمت جانتے تھے ، لیکن اعرابی اپنے پیٹ بھر نے اور بدن چھپانے کے علاوہ کچھ اور اس کی نظر میں اس گردن بند کی قیمت نہ تھی ۔ لہذا عمار نے جو کچھ بھی اس سے وعد ہ کیا اس کو عطا کیا وہ خوشحال ہوگیا ۔جب کہ اس کویہ نہیں معلوم کہ اس نے کیا گھاٹا و نقصان اٹھایا ہے اور دوسر ے کو کیا فائدہ پہنچایا ہے ۔
یہ ہے معرفت اہل بیت اور اس معرفت کے لیے اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے عمار جیسے ہی کافی ہیں ۔
بنابراین ،مقام معنوی کی معرفت اور مفاہیم الہٰی کو کما حقہ سمجھنے کو ہمارے لیے بہت زیادہ راستے اور دریچے کھلتے ہیں کہ جن کی شعاؤں میں ہم معانی معراج واسراء کو درک کرسکتے ہیں ۔
حضرت موسی کا خداوندعالم سے کلام کرنا سمجھ میں آسکتا ہے ۔ پیغمبراکرم(ص) کا اس صاحب قبر سے کلام اور جواب دینا کہ جب اس نے آپ پر سلام کیا ، درک کرسکتے ہیں ہم جب آئمہ کو مخاطب کرتے ہیں اور ان کو بلاتے ہیں مدد کو پکارتے ہیں اور وہ ہماراجواب دیتے ہیں یہ باتیں سمجھ میں آسکتی ہیں ۔ اس لیے کہ الہٰی نقطہ نظر سے موت ، حیات جاودانی ہے نہ کہ فناء و نابودی ، وجود و ہستی ہے نہ کہ عدم و نیستی ۔
..............
(1) بشارة المصطفیٰ(ص) 219۔ اور اس سے منقول ہے بحارالانوار:43 57 میں۔
اسی لیے خداوندعالم نے موت و حیات کو ایک ساتھ خلق فرمایا ہے یعنی دونوں مخلوق و موجود ہیں ۔ جیسا کہ ارشادہے ۔
(تبارک الذی بیده الملک وهو علی کل شیٔ قدیر الذی خلق الموت و الحیاة لیبلوکم ایکم احسن عملا )(1)
مبارک ہے وہ ذات کہ جس کے قبضہ قدرت میں حکومت وفرمانروائی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ ہی ہے کہ جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل انجام دیتا ہے ۔ لیکن اگر موت ، زندگی ہے تو پھر اس دنیوی زندگی سے اس کی وجہ شباہت کیا ہے؟۔ اور کیا معقول ہے کہ ایک شخص بغیر کچھ کھائے پئے اور بات کیے زندہ رہ سکتا ہے ؟۔
لازم ہے کہ یہ امور و مسائل بیان ہوں اور ان کے متعلق بحث کی جائے ،لیکن واقعا بہت زیادہ افسوس کا مقام ہے کہ امت اسلامی کے بہت سے افراد وفرقے اس فکر کی گہرائی تک نہیں پہنچتے اور اس کو خوب درک نہیں کرتے اور پیغمبراکرم(ص) و آئمہ طاہرین کے بارے میں عام و عادی انسان کی طرح فکر کرتے ہیں اور ان کے معنوی مقام ، الہٰی موہبات و ملکوتی درجات کو نظرانداز کردیتے ہیں ۔
یہی سبب ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر ، آیہ تطہیر کی حقیقت کو درک نہیں کرتے اور ایک عام مسلمان عورت کی طرح حضرت فاطمہ زہرا سے سلوک روا رکھتے ہیں جب کہ ابوبکر کا یہ عمل قرآن کریم اور شریعت رسول اکرم(ص) کے بالکل خلاف ہے ۔
..............
(1) سورہ ملک (67)، آیت 1ـ2۔
جی ہاں ! کبھی کبھی الہٰی مقامات کی معرفت نہ ہونا اور مخلص (زبر کے ساتھ ) بندوں کو نہ سمجھنا سبب بنتا ہے کہ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے اور کبھی کبھی شخصی مفاد و مادی غرض سبب ہوتا ہے کہ ان بزرگواروں کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے ۔ اگر چہ جو کچھ بھی واقع ہوا ہے وہ دوسرے سبب سے زیادہ نزدیک ہے ۔
صدیقیت کے کچھ معیار
گذشتہ گفتگو سے آپ پر روشن ہوگیا ہے کہ سچا اور صادق کو ن ہے اور جھوٹا و کاذب کون؟ ۔
اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ واضح کریں کہ الہٰی نظام میں صدیقیت کیا ہے اور صدیق و صدیقہ کون ہیں ؟ چونکہ صدیق و صدیقہ کا مرتبہ صادق و صادقہ سے کہیں بلند و بالاہے ، اس لیے کہ وہ مبالغہ کا صیغہ ہے اور قرآن کریم میں انبیاء کی صفت کے طور پر واقع ہوا ہے ۔
جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے حضرت یوسف کے بارے میں :
(یوسف ایهاالصدیق)(1) یوسف اے صدیق اور بہت زیادہ سچے ۔
اور حضرت ابراہیم کے لیے ارشاد ہوا:(واذکر فی الکتاب ابراهیم انه کان صدیقا نبیا)(2) اور کتاب میں یاد کرو ابراہیم کو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔
اور حضرت ادریس کے متعلق مذکورہے:
(واذکر فی الکتاب ادریس انه کان صدیقا نبیا)(3) اور کتاب میں یاد کرو ادریس کو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔
..............
(1) سورہ یوسف(12)، آیت 46۔
(2) سورہ مریم (19)، آیت 41۔
(3) سورہ مریم (19)، آیت 56۔
قرآن کریم میں یہ القاب و اصاف کسی عام اور غیر معصوم کو عطا نہیں کیے گئے ، لہذا صدیقیت انبیاء و اوصیاء کی صفت ہے اور اگر اس کے معنی ، مفہوم اور مدلو ل کو وسعت سے دیکھیں تو ممکن ہے کہ نیک و صالح بندوں کو بھی شامل ہوجائے کہ جو انسان کامل ہیں اور خدا وندعالم اور اس کے رسول پر دل سے ایمان اور عقیدہ رکھتے ہیں نہ کہ وہ افراد کہ جو صرف زبان سے اظہار ایمان کرتے ہیں اور مصلحتاً ایمان لائے ہیں
اس موضوع کو اور زیادہ روشن کرنے کے لیے اور جس کا جو مقام ہے اس کو وہ مقام دینے کے لیے ضروری ہے کہ صدیقیت کے کچھ معیار اور مشخصات کو بیان کیا جائے چونکہ معیار و مشخصات، انسانی زندگی کی ارتقاء اور ارزش میں ایک عمدہ و عالی مقام رکھتے ہیں اور اس کے بعد اس موضوع کے افراد پر تطبیق کریں گے۔
اولـ صدق و سچائی
صدیقیت کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ صدیق اپنے کلام و گفتگو میں صادق و سچا ہو چونکہ خداوندمتعال نے جھوٹے و کاذب شخص کو اپنے اوپر ظلم کرنے والا قراردیا ہے ۔لہذا ارشاد ہے :
1 ـ (ومن اظلم ممن افتری علی الله کذبا او کذب بآیاته )
(1) اور اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے اور اس کی آیات کی تکذیب کرے اور جھٹلائے ۔
..............
(1) سورہ انعام (6)، آیت 21۔ سورہ اعراف (7) ،آیت37۔ سورہ یونس (10)، آیت 17۔
2ـ (ومن اظلم ممن افتری علی الله کذبا او کذب بالحق لما جائه )(1) اور اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے اور اس کی آیات کی تکذیب کرے کہ جب وہ حق کے ساتھ آئے ۔
3ـ (فمن اظلم ممن افتری علی الله کذبا لیضل الناس بغیرعلم)(2) پس اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے تاکہ لوگوں کو بغیر علم و معرفت کے گمراہ کرے۔
4ـ (ومن اظلم ممن افتری علی الله کذبا اولٰئک یعرضون علی ربهم)(3) اور اس سے زیادہ ظلم کرنے والا کون ہے کہ جو خدا پر جھوٹ بولے ،یہ ظالم افراد خدا کے حضور پیش کیے جائیں گے ۔
5ـ (فمن افتری علی الله الکذب من بعد ذالک فاولٰئک هم الظالمون)(4) پس اس کے بعد جو بھی اللہ پر جھوٹ بولے پس وہ ہی افراد ظالم ہیں ۔
یوسف صدیق نے عزیز مصر سے کہا :
..............
(1) سورہ عنکبوت (29)، آیت 68۔
(2) سورہ انعام(6)، آیت 144۔
(3) سورہ ھود (11)، آیت 18۔
(4) سورہ آل عمران (3)، آیت 94۔
(قال هی راودتنی عن نفسی ، شهد شاهد من اهلها ان کان قمیصه قد من قبل فصدقت وهو من الکاذبین و ان کان قمیصه قد من دبر فکذبت وهو من الصادقین فلما رایٔ قمیصه قد من دبر قال انه من کیدکن ان کیدکن عظیم)(1)
یوسف نے کہا : یہ زلیخا چاہتی ہے کہ مجھ کو اپنے نفس کی طرف کھیچے اور اس کے گھرانے کے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہوتو یہ سچی ہے اور یوسف جھوٹے ہیں اور اگر دامن پیچھے سے پھٹا ہوتو یہ جھوٹی اور یوسف سچے ہیں ، تو جب قمیص کو دیکھا گیا تو اس کا دامن پیچھے سے پھٹا تھا ، تو عزیز مصر نے زلیخا سے کہا یہ تمہاری چلتر بازی ہے اور تم عورتوں کی چلتر بازیاں بہت عظیم ہیں ۔
اسی بنیاد پر حضرت امیر المؤمنین نے خداوندعالم کے اس قول (فمن اظلم ممن کذب علی الله و کذبا لصدق اذ جا ئه)(2)کے بارے میں فرمایا : صدق سے مراد ہم اہل بیت کی ولایت ہے ۔(3)
جیسا کہ اس سے پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا نے اپنے مشہور خطبہ میں ابوبکر کے تمام دعووں کوجھوٹ قرار دیا اور فرمایا :
..............
(1) سورہ یوسف(12)، آیا ت 26ـ28۔
(2) سورہ زمر (39)، آیت 32۔
(3) مناقب ابن شہر آشوب :3 92 ۔ امالی طوسی 364، مجلس 13، حدیث 17۔
کیا تم لوگ قرآن کریم کے خاص وعام کو میرے باپ اور ابن عم علی سے زیادہ جانتے ہو تو لو یہ فدک اپنے پاس رکھو کہ روزقیامت ایک دوسرے کا آمنا سامناکروگے کہ خدا بہترین حاکم اور محمد بہترین رہبر و قائد اور بہترین وعدہ گاہ قیامت ہے ۔ اور روز قیامت اہل باطل نقصان و خسارے کو دیکھیں گے اوراگر پشیمان و شرمندہ ہو ئے تو یہ شرمندگی تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ئے گی۔
اور ہر خبر کے لیے اس کا واقع ہونے کا وقت معین ہے (1) ۔ اور بہت جلدی جان لو گے کہ کس پر ذلیل کرنے والا عذاب آنے والا ہے اور اس کو ہمیشہ کے عقاب اور دردناک عذاب میں مبتلا و غرق کرنے والا ہے۔(2) اور پھر خداوندمتعال کے اس کلام کی طرف اشارہ فرمایا :
(ومامحمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل أفان مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم ومن ینقلب علی عقبیه فلن یضرالله شیأ و سیجزی الله الشاکرین )(3)
اور محمد کچھ نہیں ہیں سوائے رسول کے کہ ان سے پہلے بھی رسول آئے ہیں ، کیااگر وہ مرجائیں یا قتل کردیے جائیں آپ اپنے گذشتہ (آداب و رسوم اور جاہلیت) کی طرف پلٹ جائو گے اور جو بھی اپنے گذشتہ اور پیچھے کی طرف پلٹے تووہ خدا کو کوئی ضرر و نقصان نہیں پہنچائے گا اور بہت جلدی خداوند اپنے شکر گذار بندوں کو جزادینے والا ہے ۔
..............
(1) سورہ انعام (6)، آیت 67۔
(2) اس کلام کا مضمون سورہ ھو د (11) ، آیت 39۔میں آیا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ سوف کے بجائے فسوف ہے اور عذاب عظیم کی جگہ عذاب مقیم آیا ہے ۔
(3) سورہ آل عمران (3) ، آیت 144۔
ابوبکر نے حضرت فاطمہ زہرا کو جواب دیا کہ میں نے پیغمبراکرم(ص) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ہم صنف انبیاء سونا چاندی اور گھر و جنگل میراث نہیں چھوڑتے بلکہ صرف کتاب و حکمت اورعلم و نبوت کو میراث میں چھوڑتے ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا:
سبحان اللہ ، پیغمبراکرم(ص) ، کتاب خدا سے روگردان نہ تھے اور اس کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی پیروی فرماتے اور قرآن مجید کے سوروں کی رسیدگی کرتے ،کیا دھوکا دینے کے لیے جمع ہوئے ہو اور اس پر ظلم و ستم کرنے اور زور گوئی کرنے کے لیے اکھٹا ہوئے ہو ؟یہ کام ان کی وفات کے بعداسی کی مانند ہے کہ جیسے ان کی زندگی میں دھوکے اور مکاریاں کی جاتی رہیں اور یہ بھی انہیں کی زندگی میں پروپیگنڈ ا تیار ہوا ۔
یہ خدا کی کتاب عادل و حاکم ہے اور حق وحقانیت کو باطل و ناحق سے جدا کرنے کے لیے موجود ہے ۔ کہ جس میں ارشاد ہے (یرثنی و یرث من آل یعقوب)(1) خدا یا مجھ کو فرزند عطا فرما کہ جو میرا اور آل یعقوب کا وارث قرار پائے ۔ اور ارشاد ہوا(وورث سلیمان داؤد) (2) سلیمان نے داؤد سے میراث پائی ۔ خدا وندعالم نے سب کے حصوں کو تقسیم کرنے کے لیے ، فرائض کو نافذ کرنے کے لیے اور مرد وں عورتوں کو ان کے حق کی ادائیگی کی خاطر تمام چیزوں کو آشکار و واضح کر دیا ہے تاکہ اہل باطل کی تاویلات کو ختم کیا جاسکے اور شبہات و بد گمانی کو دور کیا جاسکے ۔
..............
(1) سورہ مریم (19 )، آیت 6۔
(2) سورہ نمل (27)، آیت 16۔
( بل سولت لکم انفسکم امراً فصبر جمیل و الله المستعان علی ما تصفون )(1) بلکہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لیے یہ معمہ بنا کرکھڑا کیا ہے لہذا میں صبر کو بہترین راستہ سمجھتی ہوں خداوندمددگار ہے ۔
پس ابوبکر نے کہا خدا سچ کہتا ہے اور اس کا رسول سچ کہتا ہے اور اس کی بیٹی سچ کہتی ہیں،آپ معدن حکمت ، مقام و مرکز ہدایت و رحمت ، رکن دین اور عین حجت ہیں آپ کے سچے و صادق کلام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور آپ کے بیان سے انکار نہیں کرسکتا ۔(2)
اب یہاں دیکھ رہے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا نے ابوبکر کی تکذیب کی جبکہ ابوبکر کو حضرت فاطمہ زہرا کی تکذیب پر جرأت نہیں ہوئی بلکہ آپ کے کلام کے صحیح ہونے کی تائید کی ۔اور آپ کی حق بیانی کا اعتراف کیا ۔
اس سے پہلے ، عمر کا کلام گذرچکا ہے کہ اس نے امیر المؤمنین سے کہا کہ ہم آپ کے مقابلے میں گفتگو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔جب کہ اس دوران دیکھتے ہیں کہ ابوبکر سقیفہ میں انصار سے کہتے ہیں کہ ہم امراء اور آپ وزراء ہو ، اورپھر ان کا فعل و عمل ان کے قول کی تصدیق نہیں کرتا ، چونکہ انصار کو ہر طرح کی ذمہ داری اور منصب سے دور رکھا جاتا ہے چہ جائیکہ وزارت سونپی جائے ۔
اور ادھر قرآن و سنت کی تصریحات کو دیکھتے ہیں کہ حضرت علی کا تعارف ہوتا ہے کہ علی وہ شخص ہیں کہ جن کے متعلق کلمہ صادقین آیا ہے۔
..............
(1) سورہ یوسف (12) ، آیت 18۔
(2) احتجاج طبرسی :1 144۔
اور علی ہی کی مکمل زندگی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ صدیق اکبر ہیں اورآپ ہی سچوں کے امام ہیں ۔
شیخ طبرسی مجمع البیان میں آیہ (یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله و کونو مع الصادقین)(1) کی تفسیر میں کہتے ہیں :
'' قرائت '' مصحف عبداللہ اور قرائت ابن عباس میں ہے '' من الصادقین'' اوریہ قرائت ابوعبداللہ امام صادق سے روایت ہے ۔
''لغت '' صادق ، سچ اور حق بولنے والے کو کہتے ہیں کہ جو حق پر عمل کرتا ہے چونکہ صادق، صفت مدح ہے اور اس صفت کو بطور مطلق اس وقت بیان کیا جاسکتا ہے کہ موصوف کی سچائی ، مدح و ستائش کے قابل و شائستہ ہو۔
'' معنی'' خداوندعالم نے مومنین کو کہ جو خدائے متعال کی وحدانیت اور رسول مکرم کی رسالت پر ایمان لاچکے اور تصدیق کرچکے ہیں ، ان سے فرمایا ہے ''یا ایها الذین آمنوا اتقواالله'' یعنی خدا کی نافرمانی و معصیت سے اجتناب کرو ''وکونوا مع الصادقین'' اور سچوں کے ساتھ ہوجائو ۔یعنی وہ لوگ کہ جو اپنے قول وعمل میں سچے ہیں اور کبھی جھوٹ نہیں بولتے ۔ اس کے معنی یہ ہیں اے مومنوں ایسے افراد کے مذہب کو اختیار کرو کہ جن کے قول ان کے افعال کے مطابق اور اپنے قول و فعل میں صادق و سچے ہیں ، ان کے ساتھ ہمراہی کرو۔ جیسا کہ آپ کا قول کہ میں اس مسئلے میں فلاں کے ساتھ ہوں یعنی اس مسئلے میں اس کی اقتداء وپیروی کرتا ہوں۔
..............
(1) سورہ توبہ(9)، آیت 119۔ (اے ایمان لانے والو ، خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجائو )
خداوندعالم نے سورہ بقرہ میں صادقین (سچوں) کی اس طرح توصیف فرمائی ہے ۔
(ولٰکن البر من آمن بالله والیوم الآ خر ـــ اولٰئک الذین صدقوا و اولٰئک هم المتقون )(1)
اور لیکن نیک وہ افراد ہیں کہ جو روز قیامت پر ایمان لائے ہیں ، وہی لوگ سچے اور وہی لوگ پرہیز گار ہیں ۔
اسی وجہ سے خداوندعالم نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ تقوی و پرہیزگاری اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہوجائو۔
کہا جاتا ہے کہ صادقین سے مراد وہی افراد ہیں کہ جن کا تذکرہ خداوندعالم نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ، اور وہ آیت یہ ہے (من المؤمنین رجال صدقوا ماعاهدو ا الله علیه فمنهم من قضی نحبه )(2) یعنی حمزہ بن عبد المطلب و جعفر بن ابی طالب (ومنهم من ینتظر)(3) یعنی علی ابن ابی طالب ۔
کلبی نے ابی صالح سے اور اس نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ ''کونوا مع الصادقین'' یعنی علی اور ان کے اصحاب کے ساتھ ہوجائو۔
..............
(1) سورہ بقرہ (1)، آیت 177۔
(2) سورہ احزاب (33) ، آیت 23۔
(3) اسی آیت کا ادامہ ،سورہ احزاب (33) ، آیت 23۔
اور جابر نے ابی جعفر امام محمد باقر سے روایت نقل کی ہے کہ خدا وندعالم کے اس کلام ''کونوا مع الصادقین'' کے بارے میں فرمایا کہ آل محمد (ص) کے ساتھ ہوجاؤ۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہشت میں پیغمبروں اور صدیقین کے ساتھ رہو۔
اور کہا جاتا ہے کہ یہاں پر ''مع '' ''من ''کے معنی میں ہے گویا خداوندعالم نے حکم دیا ہے کہ مومنین سچوں میں سے ہوجائیں ۔ اور جس نے اس کی من کے ساتھ قرائت کی ہے تو اس معنی کو تقویت ملتی ہے اگر چہ دونوں معنی یہاں پر ایک دوسرے کے نزدیک اور ملتے جلتے ہیں چونکہ '' مع '' مصاحبت کے لیے ہے اور'' من'' تبعیض کے لیے ،پس جس وقت وہ شخص خود صادقین و سچوں میں سے ہو تو ان ہی کے ساتھ ہے اور انہی میں سے شمار ہوتا ہے ۔
ابن مسعود کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا مناسب نہیں ہے نہ حقیقتا اور نہ ہنسی مذاق میں اور نہ تم میں سے کوئی اپنے بچوں سے وعدہ کرے اور پھر اس کو پورا نہ کرے ، جس طرح بھی چاہو اس آیت کی قرائت کرو، تو کیا جھوٹ میں چھٹکارہ دیکھتے ہو؟۔(1)
ابن اذینہ نے برید بن معاویہ عجلی سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے خداوندعالم کے اس فرمان ''اتقوا الله وکونوا مع الصادقین'' کے متعلق حضرت امام محمد باقر سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ صادقین سے مراد ہم اہل بیت ہیں۔(2)
..............
(1) دیکھیے :ـ مجمع البیان۔ سورہ توبہ تفسیر آیت 119۔
(2) بصائر الدرجات 51، حدیث 1۔ اصول کافی : 1 208، حدیث 1۔
صفار نے حسین بن محمد اور اس نے معلی بن محمد اوراس نے حسن اور اس نے احمد بن محمد سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے حضر ت امام رضا سے خداوندعالم کے اس فرمان ''اتقوا الله وکونوا مع الصادقین'' کے متعلق سوال کیا تو امام نے فرمایا: صادقین سے مراد آئمہ ہیں کہ جو اطاعت و عبادت میں صدیق ہیں ۔(1)
حدیث مناشدہ میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین نے فرمایا : آپ کو خدا کی قسم دیتا ہوں کیا جانتے ہو کہ یہ آیت نازل ہوئی (یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله وکونو مع الصادقین) تب سلمان نے سوال کیا :اے رسول خدا یہ دستور عام ہے یا خاص ؟ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا : خطاب کی طرف تو تمام مؤمنین مراد ہیں کہ جن کو اس کام کا حکم دیا گیا ہے لیکن صادقین سے مخصوص میرے بھائی علی اور روز قیامت تک اس کے بعد کے اوصیاء ہیں ، تب سب نے کہا ہاں خدا کی قسم یہی درست ہے ۔(2)
ابن شہر آشوب نے تفسیر ابویوسف سے روایت کی ہے کہ یعقوب بن سفیان نے ہم سے کہا کہ مالک بن انس نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے کہ ابن عمر نے اس آیت کے بارے میں کہ (یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله) کہا کہ خدا وندعالم نے صحابہ کو حکم دیا کہ خدا سے ڈرو اور پھر فرمایا (و کونو مع الصادقین) یعنی محمد اور ان کے اہل بیت کے ساتھ ہوجائو۔(3)
..............
(1) بصائر الدرجات 51، حدیث 1۔ اور اسی سے منقول ہے بحار الانوار :24 31 میں ۔
(2) کتاب سلیم بن قیس 201۔ التحصین 635۔ ینابیع المودة :1 344۔
(3) مناقب ابن شہر آشوب :2 288۔ ینابیع المودة : 1 358، باب 39، حدیث 15، کہ اس میں موفق بن احمد خوارزمی سے منقول ہے ۔ فضائل ابن شاذان 138۔
حضرت امام موسیٰ کاظم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : کہتے ہیں کہ ہم علی کے شیعہ ہیں ، علی کا شیعہ وہ ہے کہ جس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے ۔(1)
حضرات معصومین کی امامت و صدیقیت کے اثبات میں شیعوں کے درمیان اس آیت سے استدلال و تمسک معروف ہے اور محقق طوسی نے کتاب تجرید الاعتقاد میں اس کو ذکر کیا ہے ۔(2)
علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ اس آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ خداوندعالم نے تمام مؤمنین کو صادقین کے ساتھ ہونے کا حکم دیاہے اور اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کے بدن کے ساتھ رہنا مقصود نہیں ہے بلکہ ان کی روش کی پیروی و ملازمت اور ان کے عقائد و اقوال و افعال کی اتباع مراد ہے ، اور یہ واضح ہے کہ خداوندعالم کسی بھی ایسے شخص کی اتباع و پیروی کا حکم نہیں دیتا کہ جس کے بارے میں جانتاہو کہ اس سے فسق و فجور اور گناہ صادر ہوتے رہتے ہیں ، بلکہ ایسے افراد کی ہمراہی سے منع فرمایا ہے ۔
پس لازم ہے کہ صادقین ، معصوم ہوں کہ جو کسی بھی خطا و غلطی کے مرتکب نہ ہوں تاکہ ان کی اتباع اور پیروی تمام امور میں واجب ہوسکے ۔نیز یہ حکم کسی خاص زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر زمانے کے لیے عام ہے ،پس ان صادقین میں سے کوئی ایک معصوم ہرزمانے میں موجود ہو تاہے تاکہ ہرزمانے کے مومنین کے لیے ان کی اتباع کا حکم صحیح ہوسکے ۔(3)
..............
(1) روضہ کافی :8 228،حدیث 290۔
(2) تجرید الاعتقاد 237، مقصد خامس فی الامامة ۔ کشف المراد (علامہ حلی ) 371۔
(3) بحار الانوار : 24 33ـ34۔
شاعر کہتا ہے:
اذا کذبت اسماء قوم علیهم
فاسمک صدیق له شاهد عدل(1)
جب تمام اقوام عالم کے نام ان کے اوپر جھوٹ ثابت ہوں اور کوئی نام مطابقت نہ رکھتا ہوتو تیر ا نام صدیق و سچا ہے ، اور اس بات پر شاہد عادل گوا ہ ہے ۔
ان تمام مطالب کے بعد آپ کے لیے واضح ہوگیا کہ صدیق کون ہے اور صدیقہ کون؟
دوم : عصمت
صدیقیت کی دوسری صفت عصمت ہے یعنی صفت صدیقیت کے معنی یہ ہیں کہ صدیق مرتبہ ٔ کمال اور عصمت تک پہنچ جائے چونکہ وہ خداوندعالم کی طرف سے منتخب ہوتا ہے اور یہ صفت ، ''صادقیت ''سچ بولنے سے زیادہ بلند و بالا ہے ۔
صدق و سچائی کادارومدار خود انسان پر ہے لیکن صدیقیت کا تعلق خداوند سے ہے ، معصوم نہ صرف صادق بلکہ صدیق ہوتا ہے اور نہ فقط طاہر بلکہ مطہر ہوتا ہے ،پس جو کوئی خداوندعالم کی جانب سے منتخب اور چنا ہوا ہو اس کے لیے واجب ہے کہ اپنی رفتار و گفتار میں بغیر کسی کمی و زیادتی کے راہ حق کو اپنائے جیساکہ یہ خصوصیت حضرت مریم بنت عمران میں نظر آتی ہے لہذا خدا وندعالم کا ارشادگرامی ہے ۔
..............
(1) مناقب ابن شہر آشوب :2 287۔
(ماالمسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبله الرسل وامه صدیقه)(1)
مسیح ابن مریم کچھ نہیں ہیں سوائے رسول کے کہ ان سے پہلے بھی رسول آئے اور چلے گئے اور ان کی مادر گرامی صدیقہ ہیں ۔ اور ان ہی کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے :
(واذقالت الملائکة یا مریم ان الله اصطفاک و طهر ک واصطفاک علی نساء العالمین ٭ یا مریم اقنتی لربک واسجدی وارکعی مع الراکعین٭ذالک من انباء الغیب نوحیه الیک وما کنت لدیهم اذ یلقون اقلامهم ایهم یکفل مریم وما کنت لدیهم اذ یختصمون )(2)
اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم خداوندعالم نے آپ کو منتخب کیا اور پاک و پاکیزہ رکھا اور آپ کو عالمین کی عورتوں پر فضیلت بخشی ۔ اے مریم اپنے پروردگار کے سامنے خاضع اور خاشع رہو، سجدہ کرنے والو ں کے ساتھ سجدہ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یہ غیبی خبریں ہیں کہ جن کی ہم نے آپ پر وحی کی اورآپ اس وقت ان کے پاس نہیں تھے کہ جب ان کے درمیان اس سلسلے میں قرعہ ڈالے گئے کہ مریم کی پرورش کون کرے ؟ اورآپ ان کے درمیان نہیں تھے کہ جب وہ آپس میں اختلاف کررہے تھے ۔
اور جب اس قوم نے مریم سے کہا (یا مریم لقد جئت شیأ فریا )(3)
..............
(1) سورہ مائدہ(5)، آیت 75۔
(2) سورہ آل عمران (3)، آیت 42ـ44۔
(3) سورہ مریم (19)، آیات 27ـ 30۔
یعنی اے مریم آپ ایک دھوکے کی چیز لائی ہو کہ جو برائی کا سرچشمہ ہے (یا اخت ھارون ماکان ابوک امرء سوء وما کانت امک بغیا ) اے ہارون کی بہن آپ کا باپ کوئی برا آدمی نہ تھا اور نہ آپ کی ماں کوئی بدکار عورت تھی ۔
مریم نے عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا کہ جو گہوارے میں تھے اور لوگوں سے چاہا کہ اس ماجرے کی شرح وتفصیل اس بچے سے معلوم کریں ، ان لوگوں نے کہا (کیف نکلم من کان فی المهد صبیا) ہم کس طرح اس بچے سے گفتگو کریں کہ جو ابھی گہوارے میں ہے ، اس وقت خداوندعالم نے حضرت عیسی کو قوت گویائی عطا فرمائی ۔ پس آپ نے کہا (قال انی عبد الله آتانی الکتاب و جعلنی نبیا،و جعلنی مبارکا این ما کنت و اوصانی بالصلوة والزکوة مادمت حیا ، وبرا بوالدتی ولم یجعلنی جبارا شقیا ، والسلام علی یوم ولدت ویوم اموت ویوم ابعث حیا)
بیشک میں خدا کا بندہ ہوں کہ جس نے مجھے کتاب عطا فرمائی ہے،مجھے نبی بنایا،مجھے جہاں کہیں بھی رہوں بابرکت قرار دیا،جب تک زندہ ہوں نماز اور زکوة کی وصیت فرمائی اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کروں اس نے مجھے جبار و شقی نہیںبنایا پس مجھ پر سلام ہو اس دن کہ جب میں پید ا ہوا اور اس روز کہ جب مروں اور اس روز کہ جب دوبارہ زندہ کیا جاؤں ۔
اس بناء پر حضرت مریم قرآن کریم کی نص کے اعتبار سے صدیقہ ہیں۔ ان کے اور حضرت فاطمہ زہرا کے درمیان بہت زیادہ چیزیں مشترک ہیں ، مثلا یہ کہ دونوں نبوت کے سلالہ اور نسل سے ہیں اور نبوت ایک ایسا سلالہ و رشتہ ہے کہ جو بھی اس سلسلے سے ہو گا وہ آپس ہی میں ایک دوسرے کی نسل سے ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے ۔
(ان الله اصطفی آدم و نوحا و آل ابراهیم و آل عمران علی العالمین ذریة بعضها من بعض والله سمیع علیم اذاقالت امراة عمران رب انی نذرت لک مافی بطنی محررا فتقبل منی انک انت السمیع العلیم )(1)
خداوندعالم نے آدم ، نوح اور آل ابراہیم و آل عمران کو چنا اور عالمین پر فضیلت بخشی کہ جو ایک دوسرے کی نسل و ذریت ہیں اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔ جب عمران کی زوجہ نے کہا : پروردگارا جو بچہ میرے شکم میں ہے اس کے لیے میںنے نذر مانی ہے کہ تیری راہ میں آزاد کروں اور تیری خدمت کے لیے مخصوص کردوں ، پس خداوندا مجھ سے اس کو قبول فرمالے کہ تو سننے اور جاننے والا ہے۔
مریم ایک نبی کی بیٹی اور فاطمہ خاتم الانبیاء کی بیٹی ہیں ، مریم ایک نبی کی ماں ۔ فاطمہ ام ابیھا ، اپنے باپ کی ماں، دو وصیوں کی ماں ، بلکہ مادر اوصیاء ہیں۔
مریم کے یہاں بغیر شوہر کے بچے کی ولادت ہوئی معجزے کے ذریعہ چونکہ اس دور میںان کا کوئی کفو اور مقابل نہ تھا اور فاطمہ کے لیے علی جیسی عظیم شخصیت شوہر قرارپائے اور ان سے حسن و حسین جیسے فرزندوں کی ولادت ہوئی ، اور اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کے برابر و کفو کوئی نہ ہوتا اور ان دونوں کی تربیت و پرورش پیغمبر(ص)نے کی ، مریم کی کفالت و پرورش زکریا نبی نے کی، فاطمہ کی پرورش وکفالت سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) نے فرمائی۔
..............
(1) سورہ آل عمران(3)، آیات 33ـ35۔
حضرت امام رضا سے روایت ہے کہ آپ نے ابن ابی سعید مکاری کے جواب میں فرمایا : خدا وندعالم نے جناب عمران پر وحی نازل کی کہ میں نے تجھ کو بیٹا عطا کیا اور پھر مریم ان کے یہاں پیدا ہوئیں اور مریم کو عیسی عطا ہوئے پس عیسی ، مریم سے ہیں اورمریم ، عیسی سے اور عیسی و مریم دونوں ایک چیز ہیں اور میں اپنے باپ سے ہوں اور میرے والد گرامی مجھ سے اور ہم دونوں ایک چیز ہیں۔(1)
شیعہ اور اہل سنت دونوں نے نقل کیا ہے کہ ایک رات امیر المؤمنین حضرت علی بھوکے سوگئے اور صبح کو اٹھ کر حضرت فاطمہ سے کھانا طلب فرمایا حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا : اس خدا کی قسم کہ جس نے میرے باپ کو مبعوث بہ رسالت کیا اور آپ کو ان کا وصی قرار دیا میرے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے اور دو دن سے گھر میں کچھ بھی نہیں ، حتی کہ بچوں حسن و حسین کے کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے ۔
حضرت علی نے فرمایا :آپ نے ان بچوں کے لیے بھی کچھ نہ رکھااور مجھے بھی خبر دار نہ کیا تاکہ آپ کے لیے اور بچوں کے لیے کچھ انتظام کرتا ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا : اے ابو الحسن مجھے خدا سے شرم آتی ہے کہ کسی ایسی چیز کے لیے آپ سے کہوں کہ آپ کے پاس بھی نہ ہو ۔
حضرت علی ، خداپر بھروسہ و توکل کرکے گھر سے باہر نکلے ایک دینار پیغمبراکرم (ص) سے قرض لیا اور چل پڑے تاکہ اس سے کچھ خرید کر لائیں اچانک مقداد سے ملاقات ہوئی ۔
..............
(1) بحارالانوار :25 1۔ بنقل از معانی الاخبار 65۔
دیکھا کہ مقداد جلتی ہوئی دھوپ میں باہر گھوم رہے ہیں حضرت علی مقداد کی یہ حالت دیکھ کر تاب نہ لاسکے اورفرمایا: اے مقداد آپ کو ایسی گرمی میں کس چیز نے باہر نکالا ہے ؟ اورکیوںپریشان پھر رہے ہو؟۔
مقداد نے کہا : اے ابو الحسن مجھ کو میرے حال پرچھوڑدو اور میری زندگی کے راز کو نہ کھلواؤ ۔
آپ نے فرمایا: میں بغیر معلوم کئے آپ کو نہیں جانے دوں گا۔
مقداد نے کہا : اے ابوالحسن آپ کو خدا کی قسم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور میری حالت معلوم نہ کرو۔
علی نے فرمایا : آپ کے لیے مناسب نہیں ہے کہ مجھ سے اپنی حالت کو چھپاؤ ۔
مقداد نے کہا: آپ کا اصرار ہی ہے تو عرض کرتا ہوں اس ذات کی قسم کہ جس نے محمد(ص) کو نبوت سے سرفراز کیا اور آپ کو ان کا وصی قرار دیا ۔ مجھے میرے گھر کی ناداری نے بے قرارکررکھا ہے ،میرے بچے بھوک سے بے حال ہیں اور اب میں ان کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہیں رکھتا ہوں، لہذا شرم کے مارے میں نے سر کو جھکا یا اور باہر نکل آیا اور اب پریشان پھر رہا ہوں ، یہ ہے میری حالت!۔
یہ باتیں سنتے ہی علی کی آنکھوں سے اشک جاری ہوئے اور آپ کی ریش مبارک تر ہوگئی اور پھر فرمایا : میں بھی قسم کھاتا ہوں اس کی جس کی تونے قسم کھائی ہے میں بھی اپنے اہل خانہ سے اسی وجہ سے شرم کھاکے باہر آیا ہوں جس کی وجہ سے آپ باہر آئے ہیں ۔یہ ایک دینار میں نے قرض لیا ہے اس کو لیں اور اپنی ضرورت کو پورا کریں ۔
لہذا حضرت علی نے مقداد کی ضرورت کو اپنی ضرورت و احتیاج پر مقدم رکھا ،ا ن کووہ دینار دے دیا اور خود ایک گوشہ میں سر رکھ کر سوگئے ۔
پیغمبراکرم(ص) اپنے بیت الشرف سے باہر تشریف لارہے تھے کہ ناگہاں آپ کو دیکھا آپ کا سر ہلایا اور فرمایا : کیا کام کیا ؟ حضرت علی نے آپ کو سارا ماجرہ سنا دیا ، پھر اٹھے اور پیغمبراکرم(ص) کے ساتھ نماز بجالائے۔
جب نماز سے فارغ ہوئے تو پیغمبراکرم(ص) نے حضرت علی(ص) سے فرمایا : اے علی آپ کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ حضرت نے توقف کیا اور خاموشی اختیار کی اور شرم کی وجہ سے پیغمبراکرم(ص) کا کوئی جواب نہ دیا جبکہ ان کو دینار کا سار ا قصہ سنا چکے تھے ، پھر فرمایا : جی ہاں یا رسول اللہ ، خداوندعالم کی نعمتیں بہت زیادہ ہیں ۔
خداوندعالم نے اپنے رسول پر وحی نازل کردی تھی کہ آج شام کا کھانا علی ابن ابی طالب کے گھر پر ہے ۔ پس دونوں چلے اور فاطمہ کے بیت الشرف میں وارد ہوئے آنحضرت مصروف عبادت تھیں ، اور آپ کے پاس ایک بہت بڑا طشت رکھا ہوا تھا کہ جس میں سے گرم گرم کھانے کا دھواں اٹھ رہا تھا ۔
حضرت فاطمہ زہرا نے نمازکے بعد اس طشت کو اٹھایا اور ان بزرگواروں کے سامنے لاکر رکھ دیا ، حضرت علی نے سوال کیا : اے فاطمہ یہ آپ کے پاس کہاں سے آیا ؟ آپ نے جواب دیا یہ خداوندعالم کا فضل اور اس کا رزق ہے خداوندعالم جس کو چاہتا ہے بے حساب روزی عطا کرتا ہے ۔
اسی دوران پیغمبراکرم(ص) نے اپنے دست مبارک کو علی کے دوش مبارک پر رکھا اور فرمایا : اے علی یہ آپ کے دینار کے بدلے میں ہے ، پھر آپ کے آنسو جاری ہوگئے اور روتے ہوئے فرمایا :
حمد و شکر ہے اس پروردگار کا کہ مجھے موت نہ آئی جب تک کہ میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی بیٹی کے پاس وہ سب کچھ نہ دیکھ لیا کہ جو زکریا نے مریم کے پاس دیکھا تھا ۔(1)
ہماری روایات میں مذکور ہے کہ نسل حضرت فاطمہ زہرا سے آئمہ ، بنی اسرائیل کے نبیوں سے افضل ہیں اور عامہ کی روایات میں ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا کہ میری امت کے علما ء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔(2)
اور دونوں فرقوں کی روایات میں ایسی خبریں اور حدیثیں موجود ہیں کہ جو مذہب شیعہ کے عقیدے کی تصدیق کرتی ہیں چونکہ شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ آخری زمانے میں جب حضرت امام مہدی کے ظہور کے ساتھ زمین پر تشریف لائیں گے تو آپ کی اقتداء میں نماز ادا کریں گے ۔(3) جب کہ یہ خود دلیل ہے کہ آئمہ اہل بیت ، انبیاء بنی اسرائیل سے افضل ہیں ۔
اور اگر حضرت ابراہیم و حضرت علی کے کلاموں کے درمیان مقایسہ کیا جائے تو حضرت علی کی بزرگی و معرفت حضرت ابراہیم کی نسبت واضح و آشکار ہوجائے گی ۔
..............
(1) دیکھیے:ـ مناقب ابن شہر آشوب : 1 350 ۔ امالی شیخ طوسی 617۔ الخرائج و الجرائح :2 522۔ ذخائرالعقبی 46۔ فضائل سیدة النساء (عمر بن شاہین) 26۔ تفسیر فرات کوفی 84۔ کشف الغمہ :2 98۔تاویل الآیات :1 109۔ ینابیع المودة :2 136۔
(2) المحصوم (رازی ) :5 72۔ سبل الھدی و الرشاد:10 337۔
(3) الآحاد المثانی :2 446ـ449، حدیث 1249۔ کنزالعمال :14 226، حدیث 38673۔ یہ ابونعیم کی کتاب مہدی میں ابو سعیدسے روایت ہے ۔ فتح الباری :6 358۔ تفسیر قرطبی :16 106۔
خداوندعالم نے حضرت ابراہیم سے خطاب فرمایا (اولم تومن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی ) (1) اے ابراہیم کیا مردوں کے زندہ ہونے کے بارے میں آپ کو یقین نہیں ہے ابراہیم نے جواب دیا یقین تو ہے لیکن اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لیے معلوم کررہا ہوں ۔
جب کہ حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے : '' لوکشف الغطاء ما زددت یقینا ''(2) اگر میری آنکھوں کے سامنے سے پردے بھی ہٹادیے جائیں تو بھی میر ے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔
اس کلام میں بہت عظیم معنی پوشیدہ ہیں کہ جس کو علماء اپنی بصیرت سے درک کرتے ہیں ۔
اسی منطق و دلیل اور پیغمبراکرم(ص) کی نص کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا جناب مریم سے افضل و بالاتر ہیں چونکہ حضرت رسول خدا (ص) کہ ان پر قرآن نازل ہو ااور اس میں جناب مریم کے انتخاب کی آیت نازل ہوئی جبکہ آپ نے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے فرمایا: فاطمہ تمام عالم کی عورتوں کی سرادار ہیں لوگوں نے سوال کیا اے رسول خدا(ص) فاطمہ کیا اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں تو آپ نے فرمایا: ''ذاک مریم بنت عمران ، اما ابنتی فهی سیدة نساء العالمین من الاولین و آخرین'' (3)
..............
(1) سورہ بقرہ (2)، آیت 260۔
(2) تفسیر ابی السعود :1 56۔ و جلد:4 4۔ الصواعق المحرقہ :2 379۔ حاشیہ السندی :8 96۔ مناقب ابن شہر آشوب :1 317۔ فضائل ابن شاذان 137۔
(3) امالی صدوق 575۔ اور اسی سے منقول ہے شرح الاخبار :3 520، حدیث 959۔ اور بحار الانوار : 43 24، حدیث 20،میں ۔ بشارة المصطفی 374، حدیث 89 ۔ بحارالانوار : 37 85، حدیث 52 ۔
یہ کہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار تو مریم بنت عمران تھیں لیکن میری بیٹی تمام عالمین اولین و آخرین کی عورتوں کی سردار ہیں ۔
عائشہ کی کیا صورت حال ہے ؟ کہاں عایشہ اور کہاں یہ فضائل ، کیا وہ ان عظیم فضائل و کمالات میں سے کچھ تھوڑ ا بہت بھی رکھتی تھیں؟۔
ایک شبہہ وسوال اور اس کا جواب
یہاں پر ہم ایک شبہہ کا جواب دینے پر مجبور ہیں کہ جو بعض افراد کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح حضرت فاطمہ زہرا تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ؟ جب کہ خداوند عالم نے قرآن کریم میں یہ مرتبہ حضرت مریم کو عطا فرمایا ہے لہذا ارشاد گرامی ہے :
(یا مریم ان الله اصطفاک و طهر ک واصطفا ک علی نساء العالمین )(1)
اے مریم بیشک اللہ نے آپ کو منتخب فرمایا اور آپ کو پاک و پاکیزہ رکھا اور تمام عالمین کی عورتوں پرچن لیا۔
ہم اس شبہہ کا جواب دو طرح سے پیش کرتے ہیں ، ایک نقضی ہے اور دوسرا حلی ۔
جواب نقضی یہ ہے کہ خود اعتراض کرنے والوں سے معلوم کرتے ہیں کہ اس آیت خداوندی کے بارے میں کیا خیا ل ہے کہ ارشاد گرامی ہے :
..............
(2) سورہ آل عمران (3)، آیت 42۔
(واسماعیل و الیسع و یونس و لوطا و کلا فضلنا ه علی العالمین)(1)
اور اسماعیل و یسع و یونس اورلوط ، ان سب کو ہم نے عالمین پر فضیلت بخشی ۔
تو کیا ان کا یہ یقین ہے یا کوئی قائل ہے کہ یہ مذکورہ نبی حضرات، ہمارے پیغمبراکرم(ص) حضرت محمد مصطفی (ص) سے افضل ہیں ؟ اصلا ً نہیں ۔ چونکہ پیغمبروں کے یہاں مراتب ہیں کہ جن میں سب سے افضل خاتم الانبیاء ہیں ۔
اور پیغمبروں میں ایک دوسرے پر برتری و افضلیت یہ ایک حقیقت ربانی ہے لیکن یہ فضیلت ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بلکہ اپنے اپنے زمانے سے مخصوص ہے ۔
(تلک الرسل فضلنا بعضهم علی بعض منهم من کلم الله و رفع بعضهم درجات)(2) یہ پیغمبران الہٰی کہ جن میں ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا کی ان میں سے بعض وہ ہیں کہ جو خدا سے گفتگو کرتے ہیں اور ان میں سے بعض کے درجات کو بلند کیا ہے ۔
اور ان سب سے زیادہ واضح آیت وہ ہے کہ جہاں خداوندعالم نے یہودیوں کو قرآن کریم میں تمام مخلوقات عالم پر فضیلت عطا فرمائی ہے ۔ لہذا ارشاد گرامی ہے :
(یا بنی اسرائیل اذکرو نعمتی التی انعمت علیکم و انی فضلتکم علی العالمین)(3)
..............
(1) سورہ انعام (6) ، آیت 86۔
(2) سورہ بقرہ(2) ، آیت 253۔
(3) سورہ بقرہ (1) ، آیت 122۔
اے بنی اسرائیل یاد کرو ان نعمتوں کو کہ جو میں نے تم کو عطا کیں اور بیشک میں نے تم کو تمام عالمین پر فضیلت عطا کی ۔
کیا یہاں کوئی مسلمان یا عیسائی ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ یہودی تمام عالم سے افضل ہیں ؟ اصلاً نہیں ۔ خصوصاً اس بات کی اطلاع پانے کے بعد کہ انہوں نے انپے پیغمبروں کے ساتھ کیا کیا سلوک کیا ، اور شریعت میں کس قدر تحریف کی ۔
لہذا اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کی فضیلت اور کلمہ'' علی العالمین'' سے مراد اسی زمانے کے لوگ اور مخلوق ہے نہ کہ تما م زمانوں کے ۔
چونکہ آخری زمانہ مخصوص ہے حضرت پیغمبراکرم(ص) ،حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت امام علی اور ان کے معصوم فرزندوں سے کہ بغیر شک و تردید یہ حضرات انبیاء و بنی اسرائیل سے افضل وبرتر ہیں ۔
لیکن جواب حلی یہ ہے کہ جس شخصیت نے یہ فرمایا ہے کہ فاطمہ زہرا ، مریم سے افضل ہیں اور وہ تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں اور بہشت کی عورتوں کی سردار ہیں کہ جن میں مریم بھی ہیں وہی شخصیت ہے کہ جس پر قرآن نازل ہوا ہے اور اسی قرآن میں وہ آیت بھی ہے کہ جس میں مریم کو تمام عالم پر فضیلت دی گئی ہے۔لہذا جس پر قرآن نازل ہوا ہے وہ ہرآیت کے معنی پوری کائنات سے بہتر جانتا ہے ۔
اگر ذرا غور کریں ، اور پیغمبراکرم(ص) کے فرامین میں فکر سے کام لیں کہ جو آپ نے اپنی دختر نیک اختر کے بارے میں فرمائے ہیں جیسا کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوندعالم حضرت فاطمہ زہرا کی خوشنودی میں خوش اور ان کی ناراضگی میں ناراض ہوتا ہے۔
یقینا آپ کوعلم ہوجائے گا کہ یہ نصوص ، حضرت فاطمہ زہرا کی عصمت اور آپ کے تمام عالمین کی عورتوں پر فضیلت پر دلالت کرتی ہیں لہذا حق یہ ہے کہ آنحضرت کا مرتبہ بہت بلند و بالا ہے اور آپ مریم بنت عمران سے کہیں افضل وبرتر ہیں ۔
اصلی مطلب کی طرف مراجعت
اب اپنے اصلی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں تاکہ دیکھیں کہ ان چارافراد علی ، فاطمہ اور ابوبکر و عائشہ میں سے کون کون اس صفت صدیقیت کا مستحق ہے،اوران میں سے کس کس کی عصمت بیان ہوئی ہے اور کس کے یہاں اس لقب کے قابل ، امتیازات و علامات موجود ہیں ۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ کسی بھی مسلمان نے ابوبکر و عمراور عائشہ کی عصمت کا دعوی نہیں کیا ہے اور وہ لوگ خود بھی اس طرح کا ادعی نہیں کرتے تھے ۔
جبکہ یہ بات علی و فاطمہ کے یہاں بر عکس ہے کہ وہ دونوں حضرات خود بھی اپنی عصمت کے بارے میں معتقد تھے اور اسی طرح بہت سے مسلمان بھی ان کی عصمت و پاکیزگی اور ہر طرح کے رجس و آدلودگی سے طہارت کے متعلق یقین رکھتے ہیں ۔
قرآن کریم میں آیت تطہیر جیسی آیات انہیں کی شأن میں نازل ہوئی ہیں کہ جو ان کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں اور اسی طرح پیغمبرا کرم(ص) کی وہ تقاریر اوراحادیث کہ جو ان کے متعلق ارشاد فرمائیں یقینا ان کی عصمت پر دال ہیں ۔
لہذا یہ مطلب اس بات کے لیے کافی ہے کہ کہا جائے کہ صدیقہ اولویت و ترجیح کے اعتبار سے حضرت فاطمہ زہرا کے لیے ثابت ہے نہ کہ عائشہ کے لیے ۔
اور صدیق، حضرت علی کے لیے حق ہے نہ کہ ابوبکر کے لیے ۔
اب ابوبکر اور حضرت یوسف کے درمیان مقایسہ و مقابلہ کرتے ہیں کہ جن کو قرآن کریم میں صدیق کہا گیا ہے تاکہ صدیقیت کے معیار کو سمجھیں اور ان دونوں کے یہاں ان کے اعمال و کردار سے صدیقیت کی صلاحیت کو درک کریں ۔
حضرت یوسف کو یہ لقب اس لیے عطا ہو ا کہ انہوں نے عزیز مصرکے لیے اس کے خواب کی صحیح تعبیر بیان کی کہ جب اس نے خواب دیکھا کہ سات موٹی تازی گائے ہیں جن کو سات پتلی دبلی گائیں کھارہی ہیں اور سات ہرے بھرے گندم کے خوشے (گیہوں کی بالیاں) اور باقی خشک و خالی نکلی ہیں ۔خداوند عالم نے اس ماجرے کو عزیز مصر کی زبانی قرآن کریم میںیوں بیان فرمایا ہے :
(یوسف ایها الصدیق افتنا فی سبع بقرات سمان یاکلهن سبع عجاف و سبع سنبلات خضر و اخر یابسات لعلی ارجع الی الناس لعلهم یعلمون ٭قال تزرعون سبع سنین دأبا فما حصدتم فذروه فی سنبلة الاقلیلامما تاکلون ٭ ثم یاتی من بعد ذالک سبع شداد یاکلهن ما قدمتم لهن الا قلیلا مما تحصنون ٭ ثم یاتی من بعد ذالک عام فیه یغاث الناس و فیه یعصرون )(1)
یوسف اے صدیق اس خواب کی تعبیر کو ہمارے لیے بیان کریں کہ سات موٹی تازی گائے ہیںجن کو سات دبلی پتلی گائیںکھارہی ہیں اورسات ہرے بھرے گندم کے خوشے (گیہوں کی بالیاں) اور باقی خشک و خالی نکلی ہیں ۔
..............
(1) سورہ یوسف(12) ، 46ـ49۔
مجھے امید ہے کہ اس کی صحیح تعبیر پر میں لوگوں کی طرف پلٹ آؤںاور شاید وہ لوگ بھی جان لیں ۔ یوسف نے کہا : آپ لوگ سات سال تک مسلسل کھیتی باڑی کرو ،اور جو کچھ بھی پیدا ہواس کو بالی سمیت ہی رکھ لو اور صرف تھوڑا بہت کھانے کے قابل استعمال کرو، اس کے بعد سات سال سخت وقحط کے آئیں گے کہ جن میں پہلے ہی سے جو بچا کے رکھا ہوگا وہ بھی خرچ ہوجائے گا مگر تھوڑا بہت ،پھر اس کے بعد سال آئے گا کہ جس میں بارش آئے گی اور اس میں لوگ پھولوں کو توڑیں گے ۔
خداوندمتعال نے حضرت یوسف کے چند سال زندان میں رہنے کے بعد ان کی بیان کردہ تعبیر کی تصدیق فرمائی ، لیکن ابوبکر کہ جس کے بارے میں لوگوں کی کوشش ہے کہ لقب صدیق کو ان کے سر پر مڑھیں ، جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے کہ ان کے اندر یہ صلاحیت و معیار نہیں ہے اور اس لقب کی قابلیت نہیں پائی جاتی ۔
ابوبکر نہ معصوم صدیق ہیں اور نہ غیرمعصوم صدیق ، بلکہ قرآن و سنت کے معانی و مطالب کو بھی صحیح نہیں سمجھ پاتے ، اور قرآن کریم کی متعددآیات کے سلسلے میں صحابہ سے معلوم کرتے تھے ، بارہا صحابہ کی طرف سے قرآن و سنت اور فتوی دینے میں ان کی غلطیاں پکڑی گئیں ۔ اور وہ قرآن کریم میں استعمال ہونے والا لفظ ''بضع''کے معنی بھی نہیں جانتے تھے اوراپنی طرف سے جلد بازی میں تفسیر کرگئے ۔
سنن ترمذی میں ابن مکرم اسلمی سے روایت ہے کہ اس نے کہا: کہ جب یہ آیت (الم ٭غلبت الروم٭ فی ادنی الارض من بعد غلبهم سیغلبون٭فی بضع سنین) (1)
..............
(1) سورہ روم(30 )، آیات 1ـ4۔
الم ۔ ملک رو م اپنی نزدیک ترین و پست ترین زمین سے مغلوب ہوگیا اور وہ عنقریب اس شکست کے بعد غالب ہوجائیں گے ۔
اس آیت کے نزول کے وقت فارس ، روم پر غالب آچکا تھا جب کہ مسلمان یہ چاہتے تھے کہ روم ، فارس پر غالب ہوجائے چونکہ اہل روم او ر مسلمان اہل کتاب تھے ۔ اسی سلسلے میں خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے:(ویومئذ یفرح المؤمنون٭ بنصرالله ینصر من یشاء ، وهو العزیز الرحیم )(1) اور اس وقت مؤمنین ،روم کے فارس پر غلبہ کی وجہ سے خوشحال ہوگئے اور ہر طرح کی کامیابی و غلبہ خدا کی مدد سے ہے ، وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ عزیزو رحم کرنے والا ہے ۔
کفار قریش ، فارس کی کامیابی و غلبہ کو چاہتے تھے ، چونکہ کفار و اہل فارس اہل کتاب نہ تھے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان نہیں رکھتے تھے ۔
جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ابوبکر گھر سے باہر آئے اور مکہ کے ادھر ادھر شور مچانا شروع کیا : (الم ٭غلبت الروم٭ فی ادنی الارض من بعد غلبهم سیغلبون٭فی بضع سنین)(2)
قریش کے لوگوں نے ابوبکر سے کہا یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیان رہے کہ آپ کے نبی کا یہ گمان ہے کہ روم بہت جلد ہی چند سالوں میں فارس پر غالب ہوجائے گا تو کیا اس پر شرط لگاتے ہو؟۔
..............
(1) سورہ روم(30)، آیات 4ـ5۔
(2) سورہ روم(30)، آیات 1ـ4۔
ابوبکر نے کہا ہاں، یہ واقعہ رہان وشرط بندی کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے ۔ پس ابوبکر اور مشرکین قریش کے درمیان شرط لگ گئی اور ان دونوں کے درمیان طے پایا کہ بضع کو کتنے سال قرار دیں جب کہ بضع 3سے 9 سال تک کے عرصہ کو کہتے ہیں ان لوگوں نے ابوبکر سے وقت معین کرنے کو کہا تاکہ اس زمانے تک یہ شرط پوری ہو لہذا ان کے درمیان 6 سال کا عرصہ طے پایا ۔ ادھر روم کے غالب ہونے سے پہلے ہی 6 سال تمام ہوگئے اور مشرکین قریش نے جو کچھ ابوبکر سے شرط میں گروی رکھا تھا لے لیا اور شرط جیت گئے ۔ اورجب ساتواں سال آیا تو روم ، فارس پر غالب آگیا ۔ اس وجہ سے بضع کا نام 6 سال رکھنے پر مسلمانوں نے ابوبکر پر اعتراض کیا ، چونکہ خداوندعالم نے فرمایا : فی بضع سنین(1)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جو ابن عباس سے نقل ہوئی اس نے کہا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا : اے ابوبکر آپ نے کیوں احتیاط نہ کی جب کہ بضع 3 سے 9 سال تک کا عرصہ ہے (2)
بہر حال ابوبکر نے قرآن کریم کے ایک ایسے لفظ کی ـکہ جس کے معنی معین ہیںـ ایسی تفسیر کی کہ جو خداوندعالم کے ارادے کے خلا ف ثابت ہوئی اور معنی بضع کو 6 سال سے تعبیر کیا لہذا پیغمبراکرم(ص) نے اس سے فرمایا :'' الااحتطت یاابابکر فان البضع ما بین الثلاث الی التسع ''(3)
..............
(1) سنن ترمذی :5 25، حدیث 3246۔
(2) سنن ترمذی :5 24، حدیث 3245۔
(3) سنن ترمذی :5 24، حدیث 3245۔
جب کہ یوسف صدیق نے عزیز مصر کے خواب کی تعبیر کی اوروہ واقع کے مطابق ثابت ہوئی لہذا یہ فرق دو صدیقوں کے درمیان مناسب نہیں ہے اور اس فرق کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
پس قرآن مجید نے اپنے علم و آگاہی کے ذریعہ ابوبکر کے صدیق ہونے کو رد کردیا ہے ۔جبکہ بغیر کسی شک و شبہہ کے اور یقین کے ساتھ یوسف کے صدیق ہونے کی تائید کرتاہے ، اور علی کے صدیق ہونے کی گواہی دیتا ہے ۔
جی ہاں ! صدیق علی اورصدیقہ فاطمہ سے کچھ صادق ذوات مقدسہ وجود میں آئیں کہ جو اہل بیت پیغمبر (ص)ہیں اور خداوندعالم نے ان کو ہر طرح کے رجس و گندگی سے دور رکھا ہے او ر ایسا پاک وپاکیزہ قرار دیا کہ جو پاک رکھنے کا حق ہے ۔
یہ کچھ خاص افراد ہیں کہ جن کو شیطان کے ہر حربہ اور مکر سے دور کھا ہے ، اور ان پر شیطا ن مسلط نہیں ہوسکتا جبکہ شیطان نے خداوندعالم سے چیلنج کیا ہے کہ اولاد آدم کو بہکاؤں گا اور انہیں گمراہ کروںگا (لاحتنکن ذریته الا قلیلا)(1)
آدم کی اولاد کو گمراہ کروں گا سوائے تھوڑے افراد کے ۔
..............
(1) سورہ اسراء (17)، آیت 62۔ اور سورہ نساء (4) ، آیت 83 میں آیا ہے :(ولو ردوه الی الرسول والی اولی الامر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم ولو لا فضل الله علیکم و رحمته لاتبعتم الشیطان الاقلیلا)اگر اس امر کو رسول و ولی امر کی طرف پلٹا دیں کہ جو لوگ ان میں سے حقیقت کودرک کرتے ہیں اور اگرآپ لوگوں کے اوپر فضل خدا اور اس کی رحمت نہ ہو تو تم سب شیطان کی پیروی کرتے ہوتے مگر تھوڑے سے افراد کے علاوہ ۔
حضرت امیر المؤمنین علی نے اہل شوری پر اسی بات سے احتجاج فرمایا:
آپ کو خدا کی قسم کیا میرے علاوہ تمہارے درمیان کوئی پاک وپاکیزہ ہے جب کہ رسول خدا(ص) نے تم سب کے گھروں کے دروازے کہ جومسجدمیں کھلتے تھے ، بند کرادئیے اور صرف میرے گھر کا دروازہ مسجد رسول (ص) میں کھلا رہا اس وقت پیغمبراکرم(ص) کے چچا نے فرمایا : اے رسول خدا (ص) آپ نے سب کے دروازے بند کرادیئے اور علی کا دروازہ کھلا رہنے دیا ؟ تب آپ(ص) نے فرمایا : ہاں اس کا م کا خداوندعالم نے حکم دیا تھا، تو سب نے کہا نہیں خداکی قسم آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے ۔(1)
علی ابن الحسین نے اپنے والد اور انہوں نے علی ابن ابی طالب سے روایت بیان کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے میرے ہاتھوں کو پکڑا اور فرمایا : بیشک موسی نے اپنے پروردگار سے چاہا کہ اس کی مسجد کو ہارون کے لیے حلال قرار دے اور میں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ میری مسجد کو علی اور اس کی اولاد کے لیے حلال اور پاک قرار دے تو خداوندعالم نے ہماری دعا مستجاب فرمائی ۔
اور پھر اس وقت ابوبکر کے یہاں پیغام بھیجا کہ اپنے گھر کا دروازہ کہ جو مسجد کی طرف کو کھل رہا ہے اس کو بند کردو ، انہوں نے کلمہ استرجاع کو زبان پر دوہرا یا اور پھر کہا میں نے سنا اور اطاعت کی ، اور اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا ،پھر اسی طرح عمر اوراس کے بعد عباس کی طرف پیغام بھیجا۔
..............
(1) تاریخ دمشق :42 432 ۔ و 435۔(متن روایت اسی کتاب سے ہے )۔ المناقب (ابن مغازلی ) 117۔ خصال صدوق 552، حدیث 30، 31۔ امالی شیخ طوسی 548، حدیث 1168۔ مناقب خوارزمی 315۔ کتاب سلیم ابن قیس 74۔ کنزالعمال :5 726، حدیث 14243۔
پھر اس ماجرے کے بعد پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا کہ میں نے لوگوں کے دروازے بندنہیں کیے اور علی کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ خداوندعالم نے علی کا دروازہ کھولا اور تمہارے دروازے بند کئے ہیں ۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہ ابوبکر نے طہارت کا ادعی نہیں کیا اور اپنے آپ کو شیطان کے وسوسہ سے پاک وپاکیزہ نہیں سمجھا بلکہ اس بات کی تصریح کی کہ اس کے ہمراہ ایک شیطان ہے جو اس کو بہکاتارہتا ہے لہذا اس کا قول ہے کہ :
'' خدا کی قسم میں آپ حضرات میں سب سے بہتر نہیں ہوں اور اس مقام کو با دل ناخواستہ اور مجبوراً اختیارکیا ہے اور میں چاہتا تھا کہ آپ لوگوں کے درمیان کوئی ہوتا جو اس بوجھ کو اٹھاتا اور مجھے چھٹکارا ملتا آپ لوگوں کا خیال ہے کہ میں تمہارے درمیان سنت رسول خدا(ص) کو اجراکروں گا جبکہ اس حالت میں ، میں یہ کام انجام نہیں دے سکتا ، رسول خدا (ص) وحی کے ذریعہ محفو ظ تھے اور خطا ء سے معصوم تھے ان کے ساتھ فرشتے تھے جب کہ میرے ساتھ شیطان ہے کہ جس کے جال میں پھنس جاتا ہوں پس جب کبھی بھی مجھے غصے میں دیکھو تو مجھ سے دوری اختیار کرنا ۔(1)
تمّام بن محمد رازی (م414ھ) نے اپنی کتاب الفوائد میں اپنی اسناد کے ساتھ ابن ابی عموص سے روایت نقل کی ہے کہ جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ابوبکر پر شیطان مسلط ہوتا تھا ۔ لہذا تماّم لکھتا ہے :
ابوبکر زمانہ جاہلیت میں شراب پیتے اور پھر یہ شعر پڑھتے تھے :
..............
(1) المصنف (عبدالرزاق ) : 11 336، حدیث 20701(متن روایت اسی کتاب سے ہے ) ۔ اور دیکھیے :ـ الامامة والسیاسة :1 22۔ تاریخ دمشق :30 303۔ تاریخ طبری : 2 460۔ طبقات ابن سعد :3 212۔
نحیی ام بکر بالسلام
و هل لی بعد قوم من سلام
اے مادر بکر آپ کو بشارت ہو ،آپ کے فرزندکی سلامتی کی اور کیا اس قوم کے مرنے کے بعد بھی میرے لیے کوئی سلامتی ہے ۔
یہ خبر رسول خدا(ص) کو پہنچی آپ اٹھے اپنی عبا کو اپنے کاندھوں پر ڈالا اور وہاں تک پہنچ گئے ، وہاں جاکر دیکھا کہ ابوبکر کے ساتھ عمر بھی ہیں ، پس جیسے ہی عمر نے رنجیدگی کی حالت میں آنحضرت(ص) کو دیکھا تو کہا : میں غضب رسول اللہ(ص) سے خدا کی بارگاہ میں پناہ چاہتاہوں خدا کی قسم وہ بغیر سبب ہماری طرف نہیں آتے وہ پہلے فرد ہیں کہ جنہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کی ہے ۔(1)
جی ہاں ! ابوبکر نے رسول خدا(ص) کی رفتار سے درس حاصل نہیں کیا اور ان کے غصے و خشم سے عبرت حاصل نہیں کی بلکہ دیکھیں کہ خالد بن ولید کو اپنی فوج کا کمانڈر بنادیا جب کہ رسول خدا (ص) نے اس سے اور ضرار بن ازور سے متعدد بار شراب خواری و بد خواری اور فسق و فجور کی وجہ سے بیزاری کا اظہار فرمایا تھا ۔
یہ تمام باتیں اس وجہ سے ہیں کہ ابوبکر اپنی خواہشات نفس کے تابع تھے ، اور اپنے دستورات و قوانین کو خداوندعالم کے احکام پر مقدم رکھتے تھے ۔
یہ ابوبکر خلیفہ مسلمین کے تھوڑے سے حالات ہیں ۔
اب دیکھیں حضرت امیر المؤمنین امام علی انپے اور رسول خدا (ص) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں :
..............
(1) الفوائد :2 228۔ اور دیکھیے :ـ الاصابہ :7 39، ترجمہ9637۔
''جس وقت رسول خدا (ص) کا دودھ چھڑایا گیا تب ہی سے خداوندعالم کی جانب سے ایک بہت بڑا فرشتہ شب و روز آپ کے ہمراہ قرار پایا ، یہاں تک کہ آپ نے بڑی بڑی راہوں کو طے فرمایا اور دنیا کی اچھی اچھی خصلتیں اپنائیں ۔اور میں سفر و حضر میں آپ کے ہمراہ تھا جیسے کہ اوٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتاہے ، آپ ہرروز میرے سامنے اپنے اخلاق کا ایک خاص نمونہ پیش فرماتے ، اور مجھ سے پیروی کرنے کو فرماتے ، ہر سال غارحرا ء میں گوشہ نشین ہوتے ، میں آپ کو دیکھتا اور میرے علاوہ کوئی آپ کو نہیں دیکھتا تھا ۔اس وقت سوائے اس گھر کے کہ جس میں رسول خدا (ص) اور خدیجة الکبری رہتے تھے کسی دوسرے گھر میں اسلام داخل نہیں ہوا تھا ، ان دوکے علاوہ میں تیسرا مسلمان تھا ، میں رسالت و وحی کے نور کو دیکھتا تھا ، میں نبوت کی خوشبو محسوس کرتا تھا۔
میں نے جس وقت آپ (ص) پر وحی نازل ہوئی شیطان کے رونے کی آواز کو سنا اورپھر رسول خدا (ص) سے سوال کیا کہ یہ کیسی آواز ہے ؟
آپ (ص)نے فرمایا : یہ شیطان ہے کہ جو اس بات سے رنجیدہ ہے کہ اب اس کی عبادت نہیں ہوگی ، بیشک تم ہر اس آواز کو سنتے ہو کہ جس کومیں سنتا ہوں اور ہر اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھتا ہوں سوائے اس کے کہ میرے بعد پیغمبرنہیں ہو بلکہ میرے وزیر ہو ، راہ حق پر گامزن ہو اور مؤمنین کے امیر ہو ۔ (1)
''بغیة الباحث '' اور '' المطالب العالیه بزوائد المسانید الثمانیه'' نیز ''الجمع بین الصحیحین '' اور ان کے علاوہ دوسری بہت سی کتابوں میں مذکورہے کہ آپ(ص) نے حضرت علی ابن ابی طالب سے فرمایا
..............
(1) نہج البلاغہ ، خطبہ 192۔
اے علی تم میرے گھر کے دروازے پر کھڑ ے رہو کوئی میرے پاس نہ آئے اس لیے کہ میرے پاس کچھ زائر فرشتے ہیں کہ جو خداوندعالم سے اجازت لے کر میری زیارت کو آئے ہیں ۔
حضرت علی دروازے پر کھڑے ہوگئے اتنے میں عمر آئے، اندر آنے کی اجازت مانگی اور کہا اے علی میرے لیے رسول خدا (ص) سے اجازت لو ، آپ نے فرمایا : کسی کو بھی پیغمبراکرم(ص) کی خدمت میں پہنچنے کی اجازت نہیں ہے ، عمرنے کہا کیوں؟ آپ نے جواب دیا: چونکہ آپ (ص) کے پاس کچھ زائر فرشتے ہیں کہ جو خداوند عالم سے اجازت لے کر آئے ہیں کہ آپ (ص) کی زیارت کریں ، عمر نے سوال کیا : اے علی وہ کتنے افراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا 360 فرشتے ۔
اس واقعہ کے بعد ایک دن عمر نے اس گفتگو کو رسول خدا(ص) سے نقل کیا اور کہا: اے رسول خدا (ص) یہ سب مجھے علی نے خبردی ہے ۔
پیغمبراکرم(ص) نے علی سے فرمایا : اے علی آپ نے زائر فرشتوں کی خبر دی ہے ؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں ، یارسول اللہ ۔ پھر فرمایا : کیا عمر سے فرشتوں کی تعداد بھی بیان فرمائی تھی ؟ علی نے کہا : جی ہاں آپ (ص) نے فرمایا: اے علی وہ کتنے افراد تھے ؟ علی نے کہا : وہ 360 تھے، آپ(ص) نے فرمایا : آپ کو ان کی تعداد کا کیسے علم ہوا ؟ علی نے کہا : میں نے 360 آواز یںسنیں مجھ کو علم ہوگیا کہ وہ 360 فرشتے ہیں ۔
رسول خدا(ص)نے اپنے دست مبارک کو علی کے سینے پر رکھا اور فرمایا : اے علی خداوند تیرے ایمان اور علم میں اضافہ فرمائے ۔(1)
..............
(1) بغیة الباحث 295۔ المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ:9016۔الجمع بین الصحیحین:4 263۔ سبل الھدی والرشاد:10 246۔
یہ حدیث آپ کے لیے واضح کرہی ہے کہ کسی بھی صحابی یا کسی بھی اورشخض کا اہل بیت طاہرین کے ساتھ مقایسہ و مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ،چونکہ وہ حضرات نبوت کے ثمر آور اور تناور شجرہ طیبہ سے ہیں ، خداوندعالم نے ان کو پیغمبراکرم (ص) کی جانشینی اور مؤمنین کی رہبری و قیادت کے لیے انتخاب فرمایا ہے اور وہ سب سے پہلے پیغمبراکرم(ص) پر ایمان لائے ہیں ، اور آپ کی تصدیق کی ہے اور ان کے واسطے بہت سی خصوصیات اور امتیازات ہیں کہ کائنات کا کوئی فرد بھی ان کامقابلہ نہیں کرسکتا ۔
حضرت امیر المؤمنین کا خط معاویہ کے نام میں مذکورہے :
محمد(ص) نے جیسے ہی ایمان اور خداوندعالم کی توحید کی طرف دعوت دی ہم اہل بیت سب سے پہلے ان پر ایمان لائے اور جو کچھ وہ لائے ہم اس پر یقین رکھتے ہیں ، ہم کئی سال تک ایسے عالم میں ایمان پر رہے کہ ہمارے علاوہ پورے عالم میں کوئی خداوندعالم پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور اس کی عبادت نہیں کر تا تھا ۔(1)
حضرت امام حسن بن علی نے جس وقت معاویہ سے صلح کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابتداء ً حمد و ثناء خداوندی بجالائے اور اپنے جدامجد محمد مصطفی (ص)پر درود و سلام بھیجا پھر فرمایا :
ہم اہل بیت کو خداوندعالم نے اسلام میں محترم و مکرم قرار دیا اور تمام عالم میں سے ہم کوچنا اورانتخاب کیا ، ہم سے رجس و پلیدگی کو دور رکھا ، ہم کو پاک و پاکیزہ قرار دیا۔
..............
(1) کتاب صفین (منقری ) 89۔ (اصل عبارت اسی کتاب سے ہے ) ۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :15 76۔ بحارالانوار :33 111۔
حضرت آدم سے میرے جد محمد(ص) تک جب کبھی بھی دو فرقوں میں تقسیم ہوتے خداوندعالم ہم کو ان میں سے بہترین میں قرار دیتا ۔ پس خداوندمتعال نے محمد (ص) کو نبوت کے لیے انتخاب فرمایا اور ان کو رسالت عطا فرمائی ، آپ(ص) پر کتاب نازل کی اور میرے والد گرامی سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے ، خدا اور اس کے رسول کی تصدیق کی ، خداوندعالم ، اپنی کتاب میں کہ جو اپنے رسول پر نازل کی ہے ، فرماتا ہے (افمن کان علی بینة من ربه و یتلوه شاهدمنه ) (1) کیا وہ شخص کہ جو اپنے پروردگار کی جانب سے بینہ و دلیل رکھتا ہو اور اس کے پیچھے اس کا شاہد و گواہ بھی ہو (جھوٹ بول سکتا ہے ) ۔
میرے جد بزرگوار ہی اپنے پروردگار کی جانب سے بینہ و دلیل پر ہیں اور میرے والد بزرگوار وہی ہیں کہ جو ان کے پیچھے اور اتباع کرنے والے ہیں اور ان پر شاہد و گواہ ہیں۔(2)
معاویہ کے نام محمد بن ابی بکر کے خط میں مذکور ہے :
۔ ۔ اس وقت خداوندعالم نے اپنے علم کے ذریعے ان کو منتخب فرمایا اور ان کے درمیان سے محمد (ص) کو چنا اور انتخاب کیا ان کو رسالت سے مخصوص کیا اور اپنی وحی کے لیے ان کوپسند فرمایا ، اپنے امر کے لیے ان پر اعتماد کیا، ان کوان تمام خصوصیات کے ساتھ گذشتہ تمام آسمانی کتابوں اور انبیاء و رسل پر گواہ اور گذشتہ شریعتوں پر راہنما قرار دیا ۔
..............
(1) سورہ ھود (11) ، آیت 17۔
(2) ینابیع المودة (قندوزی حنفی ) :3 364ـ 366۔
آنحضرت(ص) نے اپنی حکمت اور نیک نصیحتوں کے ذریعہ اپنے پروردگار کی طرف دعوت دی تو سب سے پہلے جس نے ان کا جواب دیا اور ان کے ساتھ آمد و رفت کی اور ان کی بات کی تصدیق کی ، سچ سمجھا اوراسلام لائے ، ان کے ساتھ رہے اور ان کی ہر با ت کو قبول کیا ، ان کے بھائی ، ابن عم علی ابن ابی طالب تھے ، انہوں نے آپ (ص) کے غیب کی ہربات کی تصدیق کی ، اور اپنی ہر بات پر ان کو مقدم رکھا اور ان کی ہرخوف و خطر میں حفاظت کی ، ہر طرح کے حوادث میں اپنی جان کو ان پر قربان کرنے کے لیے پیش کیا ، جس نے محمد (ص)سے دشمنی کی اس سے علی نے جنگ کی اور جس نے محمد (ص)سے صلح کی علی نے اس سے صلح کی۔(1)
حدیث ابوبکر ھذلی اور داؤد بن ہند میں آیا ہے کہ جو شعبی سے منقول ہے اس نے کہا کہ رسول خدا نے علی کے متعلق فرمایا:''هذا اول من آمن بی و صدقنی و صلیٰ معی ''(2)
یہ علی وہ فرد ہیں کہ جو سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے، میر ی تصدیق کی اور میرے ساتھ نماز پڑھی ۔
امیرالمؤمنین نے کمیل کو اس طرح وصیت فرمائی :
اے کمیل ! زمین ، شیطانوں کے جالوں سے بھری پڑی ہے کوئی شخص بھی ان سے نجات حاصل نہیں کرسکتا مگر یہ کہ ہمارے دامن سے متمسک ہوجائے۔
..............
(1) مروج الذھب :2 59۔ کتاب صفین (منقری ) 118۔(متن عبارت اسی کتاب سے ہے )۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :3 188۔ جمھرة رسائل العرب :1 502477۔
(2) شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :13 225۔
اور خداوند عالم نے تجھے متوجہ کردیا کہ کوئی بھی ان کے پنجے سے چھٹکارا نہیں پاسکتا مگر اس کے خاص بندے اور خدا کے خاص بندے ہمارے دوستدار و شیعہ ہیں ۔
اے کمیل ! یہ خداوندمتعال کا کلام ہے (ان عبادی لیس لک علیهم سلطان) (1) اے شیطان وہ میرے خاص بندے ہیں تو ان پر مسلط نہیں ہوسکتا ۔ اوریہ کلام پاک ہے (انما سلطانه علی الذین یتولونه والذین هم به مشرکون)(2)
شیطان کا تسلط اور حکومت صرف ان لوگوں پر ہے کہ جو اس کی اطاعت و ولایت کو قبول کرتے ہیں اور جو لوگ اس کے اغوا کرنے سے مشرک ہوجاتے ہیں ۔
اے کمیل! اس سے پہلے کہ آپ کے مال و فرزند میں شیطان شریک ہو ، جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہے ہماری ولایت کے ذریعہ راہ نجات تلاش کرو۔(3)
..............
(1) سورہ حجر (15)، آیت 42۔ و سورہ اسرائ(17)، آیت 65۔
(2) سورہ نحل (61)، آیت 100۔
(3)بشارةالمصطفی لشیعة المرتضی 55۔ تحف العقول 174۔
یہ پیغام ہے اس بات پر کہ اہل بیت معصوم ہیں اور ان کی خدا کی جانب سے تصدیق ہوئی ہے اور وہ ہی افراد خداوندعالم کی جانب سے اس آیت (کونوا مع الصادقین)(1)(سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ) میں مورد عنایت ہیں نہ ابوبکر و عمر۔چونکہ اہل بیت کے متعلق حدیث ثقلین میں قرآن کریم کے برابر ہونا آیاہے،اوریہ مطلب ہماری راہنمائی کرتا ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح قرآن سے متمسک ہونا واجب ہے اسی طرح اہل بیت سے بھی متمسک ہونا واجب ہے۔
اگر اہل بیت سے خطا ء ممکن ہوتی تو ان سے تمسک کے لیے امر بطور مطلق صحیح نہ ہوتا اور جس طرح قرآن کریم کی تعلیمات بلا شک و تردید ہیں اسی طرح اہل بیت سے بھی جو کچھ ہم تک پہنچا ہے اس میں بھی کوئی شک و شبہہ نہیں ہے ۔ اور اگر اہل بیت معصوم نہ ہوتے تو ان کی پیروی میں گمراہی کا احتمال ہو تا لیکن وہ خدا وندعالم کی آسمان وزمین کے درمیان حبل متین اور مضبوط رسی ہیں اور قرآن کریم کی مانند خداوند اور خلق کے درمیان واسطہ ہیں ۔
اس تمام گفتگو کے بعد ہمیں یہ نتیجہ نظر آتاہے کہ اہل بیت سے دشمنی و اختلاف بدون شک و شبہہ اس شخص کے گمراہ ہونے پر دلیل ہے۔ اور ہمارا وظیفہ ہے قرآن و عترت دونوں سے متمسک رہیں چونکہ یہ دونوں ہمیں گمراہی سے نجات دلائیں گے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور حوض کوثر پر پیغمبراکرم(ص) کے پاس پہنچنے تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ۔
اسلامی فرقوں میں سے کوئی سا بھی فرقہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے یہاں قرآن و اہل بیت اس طرح متمسک ہوں کہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں اور اس فرقے کے تمام مسائل و احکام و عقائد انہی سے ماخوذ ہوں ،سوائے مذہب شیعہ کے کہ جو بارہ اماموں کی امامت کے قائل ہیں کہ جن میں سے پہلے صدیق اکبر علی ابن ابی طالب اور آخری مہدی منتظر ہیں ۔ یہی معنی ہیں پیغمبراکرم(ص) کی اس حدیث شریف کے جوآپ نے بیان فرمائی :
..............
(1) سورہ توبہ(9)، آیت 119۔
''خلفائی اثنا عشر کلهم من قریش''(1)
میرے خلفاء بارہ افراد ہیں کہ جو سب کے سب قریش سے ہیں ۔
پیغمبراکرم(ص) کا اپنے خلفاء کو بارہ کی تعداد میں محدود و معین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بارہویں امام کی عمر طولانی ہوگی ۔ مذہب شیعہ اور اہل سنت کے بہت سے بزرگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ بارہویں امام زندہ ہیں اور ہماری نظروں سے غایب ہیں اور وہ زمان حاضر میں بھی باقی ہیں تاکہ ہرزمانے میں قرآن کریم کی ہمراہی کی جاسکے اور حوض کوثر تک دونوں ساتھ پہنچیں ۔
یہی وجہ ہے کہ امیرالمؤمنین نے کمیل بن زیاد سے اہل بیت کے بارے میں اس طرح تعارف کرایا ہے :
'' ۔ ۔ ۔ جی ہاں ، یہ زمین کسی وقت بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی چاہے وہ حاضر و آشکار ہو یا غائب اور پوشیدہ اس کی وجہ یہ ہے تاکہ زمین کبھی بھی خدا کی روشن دلیل سے خالی نہ رہے ۔
لیکن وہ لوگ کون ہیں؟ کتنے افراد ہیں اور کہاں ہیں ؟
خدا کی قسم ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور خدا کے نزدیک بہت بڑی منزلت و مقام رکھتے ہیں خدانے ان کو اپنی امانات و آیات عطا کی ہیں تاکہ وہ اپنے بعد ایک دوسر ے کے سپردکرتے رہیں ۔
..............
(1) صحیح مسلم :6 4، باب الناس تبع القریش ، جابرابن سمرة سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے رسول خدا کو فرماتے سنا ہے کہ لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون علیهم اثنا عشر خلیفة کلهم من قریش یہ دین ہمیشہ قیامت تک باقی رہے گا اور لوگوں پر بارہ خلیفہ حکومت کریں گے کہ جو سب کے سب قریش سے ہوں گے ۔
علم و معرفت ، حقیقی بصیرت کے ساتھ ان کے یہاں ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی طرح ہے ، وہ روح یقین سے مخلوط ہیں اور ہر کام کہ جو پوری دنیا پر مشکل ہو وہ ان پر آسان ہے اور جس سے اہل باطل و جاہل بھاگتے ہیں وہ اس سے مانوس ہیں اور اہل دنیا کے درمیان ایسی بلند روح و حوصلہ کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں کہ جن کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ۔وہ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں ، اور اس کے دین کی طرف بلانے والے ، آہ آہ مجھے ان کے دیدار کا کس قدر شوق ہے ''۔(1) او ر پھر فرمایا :
'' کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو ہم پر جھوٹ و تہمت لگاتے ہیں اور سر کشی کرتے ہیں جب کہ خداوندعالم نے ہمیں سر بلند فرمایا ہے اور ان کو سرنگوں کیا ، ہمیں علم و فضل عطا کیا اور ا ن کو بے نصیب بنایا ، ہمیں امن کے قلعے میں قرار دیا اور ان کو باہر نکال دیا ، وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ علم قرآن میں راسخ ہمارے علاوہ کوئی اور ہے ۔
ہدایت ،ہماری رہنمائی ہی سے مل سکتی ہے اور دل کے نا بینوں کو روشنی ہمارے ہی ذریعہ نصیب ہوتی ہے ، بیشک وہ قریش کے آئمہ ہی ہیں کہ جوہاشم کی نسل او رشجرہ طیبہ سے ہیں دوسرے لوگ اس کے مستحق نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے علاوہ کوئی اور امر الہٰی کا ولی وسرپرست ہے ۔(2)
ابن شہر آشوب، مناقب میں رقمطراز ہے: اس آیت (یا ایهاالذین آمنوا اتقواالله و کونوا مع الصادقین) (3)میں خداوندعالم نے صادقین کی بطور مطلق پیروی کرنے کا حکم دیا ہے
..............
(1) نہج البلاغہ :3 37، حکمت (کلمات قصار)147۔
(2) نہج البلاغہ :2 27، خطبہ 144۔
(2) سورہ توبہ(9)، آیت 119۔ (اے ایمان لانے والو اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ)۔
اوریہ بات ان کے معصوم ہونے پر دلالت کرتی ہے چونکہ اس طرح کا امر کسی ایسے کے متعلق کہ جو برائیوں سے بچا ہوا نہ ہو ،قبیح ہے چونکہ اس کا م کا نتیجہ امر قبیح ہی کی طرف لے جاتاہے۔ اور جب یہ بات امامت کے باب میں ثابت ہوگئی کہ خصوص امیر المؤمنین اور ان کی اولاد معصوم کے لیے بطور اجماع عصمت ثابت ہے اور یہ آیت انہیں کے لیے ہے ، چونکہ امت اسلامی کا کوئی فرقہ بھی اس آیت کے بارے میں ان کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں کہتا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفات ان کے علاوہ کسی اور کے لیے ثابت نہیں ہیں اورکسی نے بھی ان خصوصیات کا ان کے علاوہ ادعی نہیں کیا ہے تو امامت بھی انہیں کا مسلم حق ہے ۔(1)
سوم :ـ مطہر اور پاک وپاکیزہ ہونا
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ تطہیر ، عصمت کا لازمہ و جزء ہے لیکن ہم یہاں پر عصمت کے قسیم کے طور پر پیش کررہے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم یہاں پر تطہیر کے متعلق کچھ خاص چیزیں پیش کرنا چاہتے ہیں ، چونکہ ابھی گذرچکاہے کہ خداوندعالم نے موسیٰ کو حکم دیا کہ مسجد تعمیر کرے اور اس کو پاک و پاکیز ہ رکھے ، اس میں اپنے اور ہارون کے علاوہ کسی اور کو رہنے کا حق نہ دے۔ بالکل یہی مطلب خداوندعالم نے پیغمبراکرم(ص) اور ان کے خلیفہ و وصی کے متعلق فرمایا ۔(2)
..............
(1) مناقب ابن شہر آشوب :1 247۔
(2) الخصائص (سیوطی ) :2 424۔غایة المرام :3 191۔کتاب سلیم بن قیس 195و 321و 400۔
امیرالمؤمنین کے احتجاجات میں وارد ہے کہ :
'' تمہیں اللہ کی قسم ، کیامیرے علاوہ تمہارے درمیان کوئی اور مطہر ہے ؟، اس وقت کہ جب رسول خدا(ص) نے تم سب کے گھروں کے دروازوں کو مسجد کی طرف سے بند کروادیا اور صرف میرے گھر کا دروازہ کھلا رکھا ، اور میں گھر و مسجد میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہا ، پھر آپ کے چچا کھڑے ہوئے اور کہا : اے رسول خدا (ص) آپ نے ہم سب کے دروازوں کو بند کردیا اور علی کے دروازے کو کھلا رکھا ، تو آپ نے فرمایا : جی ہاں! خداوندعالم نے اس کام کا حکم دیا تھا ، تو سب نے کہا : نہ ، خدا کی قسم ، (آپ نے جو کہا ہے سچ ہے )''(1)
ابوبکر کے ساتھ احتجاج میں آپ نے فرمایا :
'' میں آپ کو خدا کی قسم دیتاہوں کیا آیہ تطہیر اور ہر طرح کی گندگی و پلیدگی سے دوری تیری اور تیرے خاندان کی شأن میں نازل ہوئی یا میرے اور میرے خاندان کے بارے میں ؟ ابوبکر نے کہا آپ کے اور آپ کے اہل بیت کے بارے میں ۔
آپ نے فرمایا : تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کیا وہ شخص کہ جس کو خداوندعالم نے نسل بعد نسل اس کے باپ سے حضرت آدم تک زنا اور غیر مشروع رابطہ سے دوررکھا اور رسول خدا (ص) فرماتے تھے میں اور آپ آدم سے لیکر عبدالمطلب تک حلال ونکاح کے ذریعہ منتقل ہوتے رہے اور زنا و سفاح سے پاک و پاکیزہ رہے ، میں ہوں یا تو ؟
..............
(1) تاریخ دمشق :42 432۔ کنزالعمال :5 426، حدیث 14243۔ مناقب خوارزمی 315۔ خصال صدوق 559، حدیث 31۔
ابوبکر نے کہا: بلکہ آپ ہیں ۔(1)
حضرت امیر المؤمنین سے روایت ہے کہ اپنے دین کے سلسلے میں تین طرح کے لوگوں سے بچے رہنا ۔ ۔ ۔ اور فرمایا :
'' وہ شخص کہ جس کو خدائے متعال نے حکومت عطا فرمائی تو اس نے گمان کیا کہ اس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے اور اس کی معصیت خدا کی معصیت ہے ، جب کہ وہ جھوٹا ہے چونکہ خداوندعالم کی معصیت میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے بلکہ صرف اطاعت خدااور اس کے رسول اور صاحبان امر کی ہے کہ جس کو خداوند عالم نے اپنے اور اپنے رسول (ص)کے قرین و ہمراہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے :
(اطیعوا الله و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم)(2)
خداوندعالم کی اطاعت کرو اور رسول و صاحب امر کی اطاعت کرو ۔
چونکہ خداوندعالم نے اپنی اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا اس لیے وہ معصوم و مطہر ہیں، خدا کی نافرمانی و معصیت کی دعوت نہیں دیتے اور پھر اس کے ساتھ صاحبان امر کی اطاعت کا حکم دیا ، اس لیے کہ وہ بھی معصوم او رپاک ہیں اور خداکی نافرمانی و معصیت کی طرف دعوت نہیں دیتے ۔(3)
..............
(1) احتجاج طبرسی :1 171۔
(2) سورہ نسائ(4)، آیت 59۔
(3) کتاب سلیم بن قیس 405، حدیث 54۔ اسی کی طرح کچھ فرق کے ساتھ منقول ہے : خصال صدوق 139،حدیث 158 میں اور بحار الانوار :25 200،حدیث19 میں ۔
حضرت امام جعفرصادق نے اپنے آباء و اجداد مطہرین سے روایت نقل کی ہے کہ امیرالمؤمنین نے کوفہ کے منبر پر خطبہ ارشادفرمایا اور اپنے خطبے کے دوران فرمایا کہ:
'' خداوند عالم نے ہم اہل بیت کو محفوظ رکھا اس سے کہ چال باز ، حیلہ گر ، دھوکے بازیا جھوٹے و مکار ہوں ، بس جس میں بھی اس طرح کی بری چیزیں پائی جاتی ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہے اور ہمارا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے ۔
بیشک خداوندعالم نے ہم اہل بیت کو ہر طرح کی پلیدگی و رجس سے پاک رکھا اور جب کبھی بھی ہماری زبان سے کچھ نکلا تو سچ کردکھایا اور جب کبھی ہم سے کوئی سوال ہوا اس کا ہم نے جواب دیا ۔ خداوندعالم نے ہم کو دس ایسی خصلتیں عطا فرمائی ہیں کہ جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیں اور نہ ہمارے بعد کسی کو عطا فرمائے۔
حلم ، علم، عقل، نبوت ، شجاعت ، سخاوت، صبر ، صدق و سچائی ، عفت و پاکدامنی اور طہارت و پاکیزگی ۔ پس ہم ہیںکلمة التقوی،ہدایت کے راستے ، بہترین نمونے، بہت عظیم حجت الہٰی اور حکم و مضبوط امانت ، ہم ہی وہ حق ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد الہٰی ہے ۔
(فما ذا بعد الحق الاالضلال فانیٰ تصرفون)(1)
حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے پس کہاں منھ موڑے جارہے ہو۔''(2)
..............
(1) سورہ یونس (10)، آیت 32۔
(2) تفسیر فرات کوفی 178، حدیث 230۔ بحارالانوار:39 350، حدیث 24۔
عبداللہ بن عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ اس نے کہا : فرزند ابو طالب کو تین خصلتیں ایسی عطا ہوئیں کہ اگر ان میں سے مجھ کو ایک بھی مل جاتی تو وہ مجھ کو لال بال والے اونٹ سے بھی کہیں زیادہ عزیز تھی ۔ رسول خدا(ص) نے اپنی بیٹی کی شادی ان سے فرمائی اور آپ کے یہاں ان سے دو بیٹے پیداہوئے اور تمام مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں کو کہ جو مسجد کی طرف کھلتے تھے بندکرادیا سوائے آپ کے گھر کے دروازے کے ، اور روز خیبر آپ کو علم عطا فرمایا ۔(1)
اسی طرح کی روایت ابوسعید خدری(2) اور عمر بن خطاب سے بھی نقل ہوئی ہے ،صر ف عمر کی روایت میں الفاظ اس طرح ہیں '' وسکناه المسجد مع رسول الله یحل له فیه مایحل له ''
یعنی وہ مسجد میں رسول کے ساتھ رہتے اور جو چیز مسجد میںرسول کے لیے حلال تھی علی کے لیے بھی حلال تھی ۔(3)
حذیفہ بن اسید انصاری سے روایت ہے کہ روزسدالابواب (دروازے بند ہونے والے دن) پیغمبراکرم(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ ارشاد فرمایا :
..............
(3) مسند احمد ابن حنبل :2 26۔ مجمع الزوائد :9 120۔ فتح الباری : 7 12۔ کنزالعمال : 13 110، حدیث 36359۔
(4) مستدرک حاکم :3 117۔
(1) مستدرک حاکم :3 125۔ مجمع الزوائد :9 120۔ مصنف ابن ابی شیبہ :7 500 ، حدیث 36۔ مناقب خوارزمی 261۔ البدایة والنھایة :7 377۔
''کچھ لوگ اس بات سے کہ میں نے علی کو مسجد میں رکھا اور ان کو باہر کردیا اپنے دلوں میں احساس لیے ہوئے ہیں ، خداکی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا بلکہ خداوندعالم نے ان کو باہر کیا ہے اور علی کو سکونت عطا فرمائی ہے ، خدائے متعال نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو وحی فرمائی کہ اپنے لیے شہر میں گھر تعمیر کرو اور اس کو لوگوں کا قبلہ قرار دو ، اس گھر میں عبادت کرو ، علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے کہ جو ہارون کو موسی سے تھی اور وہ میرا بھائی ہے ، کسی کے لیے مسجد میں اپنی بیوی کے ساتھ مباشرت جائز نہیں ہے سوائے اس کے ۔(1)
حضرت علی کے دشمنوں نے آپ سے بغض و حسد میں مختلف طریقے کی روایات کوگھڑا جیسے یہ روایت کہ پیغمبراکرم(ص) نے تمام صحابہ کے گھروں کے دروازے کہ جو مسجد میں کھلتے تھے بند کرادیئے سوائے ابوبکر کے گھر کی کھڑکی کے۔(2)
علامہ امینی نے حدیث سد الابواب کے ذیل میں خوخة ابی بکر (ابوبکر کی کھڑکی ) کے متعلق کافی مفصل و دلچسپ گفتگو فرمائی ہے (3) وہ کہتے ہیں :
..............
(1) ینابیع المودة :1 259، باب 17، حدیث 8۔ الطرائف 61، حدیث 59۔ اور دیکھیے :ـ مسند احمد :4 369۔ مستدرک حاکم :3 125۔
(2) صحیح بخاری :4 254۔ صحیح مسلم :7 108۔ مسند احمد :1 270۔ اور ابن جوزی نے الموضوعات :1 367 ۔ میں لکھا ہے کہ بعض عالم نما افراد نے حدیث ابوبکر میں زیادتی سے کام لیا ہے کہ جو صحیح نہیں ہے ۔
(3) دیکھیے :ـ الغدیر :3 202ـ 215۔
اس طرح کی روایات اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ان سب دروازوں کو بند کرنا کہ جو مسجد کے اندر کو کھلتے تھے مسجد کو ظاہری و معنوی نجاست سے پاک رکھنا تھا ،تاکہ کوئی بھی حالت جنابت میں اس میں وارد نہ ہو اور کوئی بھی اس میں جنب نہ ہو، لیکن اپنے اور امیرالمؤمنین کے لیے مسجد میں ہرحال میں رفت و آمد کی اجازت اور آپ کا دروازہ کھلا رکھنا یہ ان دوبزرگواروں کی طہارت و پاکیزگی کی وجہ سے ہے کہ جس بات پر آیہ تطہیر دلالت کرتی ہے کہ وہ حضرات ہر طرح کی پلیدگی و گندگی حتی معنوی نجاست جیسے جنابت سے بھی پاک و پاکیزہ ہیں ۔
یہ مسئلہ کاملاً مسجد موسی کی طرح ہے اور اس سلسلے میں بیشتر آگاہی کے لیے مفید ہے یہ کہ موسی نے اپنے پروردگار سے دعا مانگی کہ میرے اور میرے بھائی ہارون کے لیے مسجد کو حلال و پاک فرما۔ یا یہ کہ خداوندعالم نے حکم دیا کہ مسجد کو پاک رکھو،سوائے اپنے اور ہارون کے کوئی اور اس میں سکونت اختیار نہ کرے ، اور یہاں پر مسجد کو پاک رکھنا صرف ظاہری نجاست سے پاک رکھنا مقصود نہیں ہے چونکہ یہ تو ہرمسجد کے لیے حکم ہے ۔
اس سے پہلے بھی روایت بیان ہوچکی ہے کہ جس سے یہ مطلب صاف واضح ہوجاتاہے کہ امیرالمؤمنین حالت جنابت میں مسجد میں وارد ہوجاتے تھے ۔(1)
..............
(1) یہ حدیث عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے ۔ نسائی نے الخصائص 76 میں نقل کیا ہے ۔ اور اسی سے نقل ہوئی ہے فتح الباری :7 13 میں اور نسائی کا کہنا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔ و نیز کتاب السنة (ابن ابی عاصم ) 589 میں بھی مذکور ہے ۔
اوربعض اوقات جنب کی حالت میں مسجد سے عبور فرماتے تھے ۔(1)
آپ حالت جنابت میں مسجد میں تشریف لاتے اور گذر جاتے ۔(2) اوریہی مطلب اس حدیث کا ہے کہ جو ابوسعید خدری سے نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا : کسی شخص کے لیے بھی حلال و مناسب نہیں ہے کہ مسجد میں جنب ہو سوائے میرے اور اے علی تیرے۔(3)
اور اسی سلسلے میں پیغمبراکرم(ص) کی یہ حدیث :
'' الاان مسجدی حرام علی کل حائض من النساء و کل جنب من الرجال الا علیٰ محمد و اهل بیته علی و فاطمة و الحسن و الحسین'' (4)
..............
(1) مجمع الزوائد :9 115۔ فتح الباری :7 13۔ اور طبرانی نے معجم الکبیر :2 246 میں ابراہیم بن نائلہ اصبہانی اور اس نے اسماعیل بن عمر و بجلی سے اور اس نے ناصح بن حرب سے اور اس نے جابر بن سمرہ سے روایت کی ہے ۔
(2) یہ تمام روایات اہل سنت کے یہاں سے ہیں اگر چہ شیعہ مذہب میں بھی اس طرح کی متعدد روایات موجود ہیں کہ جن کا مطلب یہ ہے کہ واقعہ سد الابواب اور آیہ تطہیر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ علی اور معصومین علیہم السلام ہر حال میں طیب و طاہر اور پاک و پاکیزہ ہیں ، جنابت و غیر جنابت ا ن کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔(م)
(3) سنن ترمذی :5 303،حدیث 381۔ السنن الکبری(البیہقی ): 7 66۔
(4) السنن الکبری (بیہقی ) :7 66۔ سبل الھدی و الرشاد :10 423۔ تفسیر ثعلبی :3 313۔ تلخیص التحبیر : 3 136۔ اور دیکھیے : تاریخ دمشق : 14 166۔ ذکر اخبار اصبہان:1 191۔ کنزالعمال :12 101،حدیث 34183۔
آگاہ ہوجائو بیشک میری مسجد ، حائض عورت اور جنب مرد پر حرام ہے سوائے محمد اور آپ کے اہل بیت کے کہ وہ علی و فاطمہ اور حسن و حسین ہیں۔(1)
لہذا تطہیر ، پاک ہونا ، اہل بیت علیہم السلام کے لیے ممتاز ترین وعالی ترین مرتبہ ہے اور یہ مطلب بھی واضح ہوجاتاہے کہ وہ حضرات ایک نور سے خلق ہوئے ہیں کوئی بھی شیٔ ان کے سامنے قابل قیاس نہیں ہے ۔
ابھی تھوڑا پہلے گذرچکا ہے کہ وہ حضرات پاک و پاکیزہ ماؤوں کے رحم اور پاک و طاہر صلبوں میں منتقل ہوتے رہے اور آپ حضرات کی جدہ خدیجہ زمانہ جاہلیت میں بھی طاہرہ و پاکدامن کہلاتی تھیں۔(2)
یہی وجہ ہے کہ معصوم کو معصوم کے علاوہ کوئی اورغسل نہیں دے سکتا ، روایات میں مذکورہے کہ حضرت امام موسی بن جعفر نے فرمایا کہ مجھ سے میرے والد نے فرمایا کہ علی کا ارشاد ہے کہ جب میں نے رسول خدا کا وصیت نامہ پڑھا تو دیکھا کہ اس میں تحریر ہے کہ اے علی مجھے آپ ہی غسل دینا اور آپ کے علاوہ مجھے کوئی اور غسل نہ دے ،میں نے سوال کیا اے رسول خدا (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں کیا میں تنہا آپ کو غسل دے سکتا ہوں ؟ کیا میرے اندر اتنی طاقت ہے ؟ آپ نے فرمایا : یہ جبرئیل کا پیغام ہے کہ جس کو خداوندعالم نے حکم دیا ہے ۔
..............
(1) الغدیر :3 210ـ212۔
(2) مجمع الزوائد :9 218۔فتح الباری :7 100۔ المعجم الکبیر :22 448۔ اسدالغابہ :5 434۔ تاریخ دمشق :3 131۔ البدایة والنھایة 329۔ السیرة النبویة (ابن کثیر) :4 608۔
میں نے سوال کیا : اگر میں تنہا آپ کو غسل نہ دے سکا توکیا اپنے علاوہ کسی ایسے کو جو ہم ہی میں سے ہے غسل میں مدد کے لیے بلا سکتاہوں ؟ توآپ نے فرمایا کہ جبرئیل نے کہا ہے کہ علی سے کہیں کہ آپ کے پروردگارکا حکم ہے کہ اپنے چچا زاد بھائی محمد کو غسل دو چونکہ یہ سنت الٰہیہ ہے کہ انبیاء کو اوصیاء کے علاوہ کوئی غسل نہیں دیتا اور ہر نبی کو اس کے بعد والاوصی غسل دیتا ہے۔اور یہ امت پر پیغمبراکرم(ص) کی جانب سے حجت خدا ہے اس بات پر کہ جو انہوں نے مشیت خدا کے خلاف اجماع کر رکھا ہے۔
اے علی جان لو کہ میرے غسل میں آپ کی مددگار وہ ہستیاں ہیں کہ جو بہترین بھائی اور مددگار ہیں ۔
علی نے سوال کیا اے رسول خدا ،وہ کون ہیں ؟آپ پر میرے ماں باپ فداہوں تو آپ نے فرمایا : وہ جبرئیل و میکائیل و اسرافیل اور ملک الموت اور اسماعیل صاحب آسمان دنیا ہیں کہ جو آپ کی مدد کریں گے ۔
پس علی نے کہا کہ میں خدا کے حضور سجدہ میں گرگیا اور عرض کی خدایا تیرا شکر ہے کہ تو نے ایسے بھائی و مددگار میرے لیے معین فرمائے کہ جو خدا کے امین ہیں ۔(1)
..............
(1) بحارالانوار : 22 456،حدیث 64۔(بنقل از طرائف ابن طائوس ، متن روایت اسی کتاب سے ہے ) ۔ الصراط المستقیم : 2 94، حدیث 14۔ اور دیکھیے :ـ کنزالعمال :7 249، حدیث 18780۔ تاریخ دمشق :13 129۔ سمط النجوم العوالی :3 41، حدیث 45۔
اور یہ خود امیر المؤمنین کا ارشاد گرامی ہے کہ :
'' اس وقت کہ جب رسول خدا(ص) کی روح قبض ہوئی آپ کا سرمبارک میری آغوش میں تھا اور پھر میرے سر آپ کے غسل کی ذمہ داری پڑگئی کہ مقرب فرشتے میرے ساتھ آپ کے جنازے کو الٹتے پلٹتے تھے اور خدا کی قسم کسی بھی پیغمبرکے بعد اس کی امت میں اختلاف نہ ہوا مگر یہ کہ اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب ہوئے اور خداجو چاہتا ہے کرتا ہے۔(1)
نیز امیرالمؤمنین نے فرمایا :
''رسول خد ا(ص)نے وصیت فرمائی کہ میرے علاوہ کوئی ان کو غسل نہ دے چونکہ جو کوئی بھی شرم گاہ کو دیکھے گا اس کی دونوں آنکھیں اندھی ہوجائیں گی ،پس عباس اور اسامہ پردے کے پیچھے سے پانی پہنچا رہے تھے اور میںبدن کے جس حصہ کو بھی پکڑتا تو محسوس کرتا کہ گویا کوئی تیس افراد میرے ساتھ اس حصے کو پکڑے ہوئے الٹ پلٹ کررہے ہیں یہاں تک کہ میں غسل سے فارغ ہوا ''۔(2)
..............
(1) کتاب صفین (منقری) 224۔ جمھرة خطب العرب :1 346۔ شرح نہج البلاغہ :5 181۔ امالی مفید 235۔
جس چیز کی امیرالمؤمنین نے خبر دی ہے یہی چیز معاویہ کی زبان پر بھی جاری ہوئی ، شعبی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا کہ جب معاویہ کے ہاتھ پر بعیت ہورہی تھی تو اس نے خطبہ دیا اور کہا کہ کسی بھی امت میں اپنے پیغمبر کے بعد اختلا ف نہیں ہوا مگریہ کہ اہل باطل ، اہل حق پر کامیاب ہوئے اور اس کے بعد معاویہ کو اپنے کہے پر پشیمانی ہوئی لہذا کہا سوائے اس امت کے کہ بیشک۔۔۔(مقاتل الطالبین 45۔ سبل الھدی والرشاد:10 364) ۔
(2) طبقات ابن سعد :2 278۔ مجمع الزوائد: 9 36۔ کنزالعمال :7 250، حدیث18784۔
اسی طرح کی حدیث آپ کے احتجاجات میں بھی ہے کہ آپ نے فرمایا :
''آپ کو میں خدا کی قسم دیتاہوں کیاآپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ رسول خدا (ص)کی آنکھیں بند کی ہوں، سب نے کہا نہ خداکی قسم،پھر آپ نے فرمایا تمہیں میں خدا کی قسم دیتاہوں کیا آپ لوگوں کے درمیان میرے علاوہ کوئی ہے کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ پیغمبراکرم(ص) کو غسل دیا ہوکہ جو میری خواہش کے مطابق پیغمبراکرم(ص) کے بدن کو پلٹا رہے تھے ۔ سب نے کہا : نہ ''۔(1)
مفضل ابن عمر نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا :
''فاطمة صدیقة لم یکن یغسلها الاصدیق''(2)
فاطمہ، صدیقہ ہیں ان کو صدیق کے علاوہ کوئی اور غسل نہیں دے سکتا ۔
ان مذکورہ تمام احادیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر طرح کی پلیدگی ، گندگی ، آلودگی و نجاست سے تطہیر اور پاک و پاکیزہ ہونا ، صدیقیت کی واضح ترین علامت ہے اور چونکہ جھوٹ ، رجس و پلیدگی کا جزء ہے جب کہ صدیق، صادق و صدوق کا صیغہ مبالغہ ہے۔
..............
(1) تاریخ دمشق :42 433و435۔ الطرائف 413۔ شرح الاخبار :2 189،حدیث 529۔ مناقب خوارزمی 315۔
(2) اصول کافی :1 459، باب مولد الزھرا، حدیث 4۔ فروع کافی :3 159،باب الرجل یغسل المرأ ة ،حدیث 13۔ علل الشرایع:1 184،باب العلة التی من اجلھا غسل فاطمة امیر المؤمنین لما توفیت ، حدیث 13۔ تہذیب الاحکام :1 440،حدیث 1422۔ الاستبصار :1 200 ،حدیث 15703۔
لہذا جھوٹ کبھی بھی صدیق تک نہیں آسکتا بلکہ صدیق کے لیے لازم ہے کہ پہلے مرحلے میں صادق، امین اور وعدہ وفادار ہو، تاکہ اپنے دوسرے مرحلہ میں صدیق کہلاسکے ۔
یہی وجہ ہے کہ آیت تطہیر میں اس مبالغہ کا خیال رکھا گیا ہے جیسے کلمہ ''انما''کہ کلمہ حصر ہے اور مفعول مطلق کو تاکید کے لیے لایا گیا ''یطهر کم تطهیرا'' اور اس آیت کا نزول صرف محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین سلام اللہ علیہم اجمعین کے لیے ہے ۔(1)
یہ اسی کی مانند ہے کہ جو حضرت مریم بنت عمران کے لیے قرآن کریم میں آیا ہے:
٭ (اصطفاک علی نساء العالمین)(2)
اے مریم خداوندعالم نے آپ کو تمام عالمین کی عورتوں پر چنا ۔
٭ (و جعلناابن مریم و امه آیة)(3)
ہم نے ابن مریم اور اس کی ماں کو آیت و نشانی قرار دیا۔
پس مریم بنت عمران اور فاطمہ بنت محمد ، تطہیر کے دو کامل نمونے ہیں ۔ خداوندکریم کا ارشاد گرامی ہے :
..............
(1) تفسیر الکشاف :1 396۔ البرھان (زرکشی) :2 197۔ اسباب النزول (نیشابوری) 239۔ اور دیکھیے :ـ الدرالمنثور :5 198۔(سیوطی نے اس روایت کو کئی طریقوں سے نقل کیا ہے )
(2) سورہ آل عمران (3)، آیت 42۔
(3) سورہ مؤمنون (23)، آیت 50۔
(و مریم بنت عمران التی احصنت فرجها فنفخنا فیه من روحنا و صدقت بکلمات ربها و کتبه و کانت من القانتین)(1)
اور مریم بنت عمران کہ جس نے پاکدامنی اختیار کی تو ہم نے اپنی روح میں سے ان میں پھونکی اوروہ خدا کی کتب و کلمات کی تصدیق کرنے والی اور فرمانبردار تھیں ۔
اور اسی طرح کا کلام حضرت امام جعفر صادق سے نقل ہوا ہے آپ نے فرمایا : مریم بنت عمران نے پاکدامن زندگی گذاری اور ان کی مثال خداوندعالم نے حضرت فاطمہ کے لیے یہاں بیان فرمائی ہے ، اور پھر آپ نے فرمایا :
'' ان فاطمة احصنت فرجها فحرم الله ذریتها علی النار'' (2) بیشک فاطمہ پاکدامن رہیں پس خداوندعالم نے ان کی ذریت و نسل پر جہنم کی آگ کو حرام کردیا ۔
چہارم : ـ حنفیت و یکتا پرستی
چونکہ صدیقیت ایک الہٰی و ربانی مقا م ومرتبہ ہے لہذا صدیق کے لیے لازم ہے کہ اسلام سے پہلے ہی سے خداپرست ہو، بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوا ہو اور اسلام سے پہلے یکتا پرستی کے آئین و دین پر ہو یا اگر زمانہ اسلام میں پیدا ہوا ہو تو ابتداء ہی سے مسلمان ہو یعنی صدیق کا اسلام اصلی ہو ، اور اس کے یہاں کفر و شرک نہ پایا جائے ۔
..............
(1) سورہ تحریم(66)، آیت 12۔
(2) تفسیر برہان :4 358۔
یہ بات واضح ہے کہ امیرالمؤمنین ایک ایسے فرد ہیں کہ جنہوںنے کبھی بتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اس بات میں کسی کو بھی شک و شبہہ نہیں ہے ، چونکہ اہل سنت کے درمیان بھی صرف امام علی ہی ہیں کہ جن کو رضی اللہ عنہ (خدا ان سے راضی ہو) کے بجائے کرم اللہ وجہہ (خدا نے ان کے چہرے کو مکرم و مقدس رکھا) کہا جاتا ہے اور سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے شخص ہیں ، انہوں نے دوسروں سے سات یانو سال پہلے خداوندعالم کی عبادت شروع کی ، یہی حال حضرت فاطمہ زہرا کا ہے کہ آپ زمانہ اسلام میں متولد ہوئیں اور لمحہ بھر کے لیے بھی شرک نہ کیا ۔
لیکن ابوبکر زمانہ جاہلیت میں بتوں کی پوجا اور پرستش کرتے تھے اور اس زمانے کے مشرکوں میں سے تھے ، اور ان لوگوں میں سے تھے کہ اسلام کے بعد بھی کچھ ایسے کارنامے انجام دیئے کہ جن پر اکثر لوگوں نے اعتراض کیے اور انگلیاں اٹھائیں۔(1)
اسی سلسلے میں چند احادیث قابل ملاحظہ ہیں
حضرت امیرالمومنین فرماتے ہیں :'' فانی ولدت علی الفطرة و سبقت علی الایمان والهجرة ''(2) میں فطرت اسلام پر پیدا ہوا اور میں نے ایمان اور ہجرت میںسب پر سبقت کی ۔
..............
(1) دیکھیے :ـ احکام القرآن (جصاص ) :1 398۔ جصاص کا بیان ہے کہ قمار کے حرام ہونے میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور شرط بندی قمار ہی کے اقسام میں سے ہے ۔۔۔ اور پھر کہتاہے کہ ابوبکر نے مشرکوں کے ساتھ شرط بندی کی جب کہ یہ آیت نازل ہوئی (الم٭ غلبت الروم) سورہ روم ،آیت 1ـ2۔
(2) نہج البلاغہ :1 106، خطبہ 57۔ وسائل الشیعہ :16 228،حدیث 41431۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ): 4 114۔ مناقب ابن شہر آشوب : 2 107۔ بحار الانوار :41 317۔
حضرت امام جعفر صادق سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا : علی ابن ابی طالب نے لوگوں سے اپنے مقام و مرتبہ کا شکوہ کیا اور فرمایا : میں رسول خدا (ص) کا بھائی اور ان کا وزیر ہوں اور آپ جانتے ہوکہ میں خدا اور رسول پر سب سے پہلے ایمان لایا ہوں اور پھر آپ لوگ گروہ گروہ اسلام لائے ہو ۔(1)
اور خود ہی آپ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں اس امت میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا کہ جس نے پیغمبراکرم(ص) کے بعد میرے علاوہ خدا کی عبادت کی ہو ۔ میں نے نوسال پہلے خداوندعالم کی عبادت کی جب کہ کوئی بھی اس امت میں اس کی عبادت نہیں کرتا تھا ۔(2)
اور دوسری روایت میںآیاہے کہ پانچ یاسات سال پہلے ۔(3)
اور نیز امام علی نے فرمایا : میں نے اس طرح رسول خدا (ص) کے ساتھ نماز انجام دی کہ میرے علاوہ ان کے ساتھ کسی نے بھی نماز نہ پڑھی سوائے خدیجہ کے ۔(4)
..............
(1)المناقب(ابن مغازلی)111،حدیث154۔کشف الغمہ:781۔بحارالانوار:38 330۔
(2) الخصائص (نسائی ) 47۔
(3) تاریخ دمشق :42 30۔ مسند ابی یعلی موصلی :1 348، حدیث 447۔ اسد الغابہ : 4 17۔ القول المسدد فی مسند احمد 64۔ الآحاد والمثانی :1 148، حدیث 178۔ مسند احمد :1 99۔ کنزالعمال :13 42، حدیث 36390۔ سمط النجوم العوالی :3 28، حدیث 6۔ مجمع الزوائد :9 102۔ کشف الغمہ :1 80۔ بحارالانوار :38 257۔ الکامل فی التاریخ :1 582۔
(4) الاستیعاب :3 1096۔ ۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید):4 120۔
ابو ایوب انصاری سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا : فرشتوں نے سات سال مجھ پر اور علی پر دردو بھیجا چونکہ ہم نماز پڑھتے تھے اور ہمارے علاوہ کوئی اور نہ تھا کہ جو ہمارے ساتھ نماز بجالاتا ۔(1)
انس سے روایت نقل ہوئی ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا : سات سال مجھ پر اور علی پر فرشتوں نے صلوات و درود بھیجا اور خداوندعالم کی یکتائی و توحید کی گواہی زمین سے آسمان تک نہ گئی سوائے میری اور علی کی زبان سے۔(2)
ابوذر سے روایت ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا : فرشتوں نے مجھ پر اور علی پر سات سال تک درود و صلوات بھیجی اس سے پہلے کہ کوئی انسان اسلام لے کر آتا ۔(3)
اور خود امیر المؤمنین ہی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : آغاز وحی ونبوت پیر کے دن سے ہوا او ر میں نے منگل کی صبح میں اسلام کا اظہار کیا پیغمبراکرم(ص) نماز پڑھتے اور میں ان کے دا ہنی طرف نماز بجالاتا اور کوئی بھی میرے علا وہ ہمراہ نہ ہوتا پھر خداوندعالم کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی
..............
(1) تاریخ دمشق :42 39۔ اسدالغابہ :4 18۔ مناقب کوفی :1 238، حدیث 32998۔ روضة الواعظین 85۔ شرح الاخبار :2 409، حدیث 755۔
(2) الفصول المختارہ 266۔ اعلام الوری :1 361۔ کنزالفوائد 125۔
(3) شواہد التنزیل :2 184، حدیث 818۔ کنزالعمال :11 616، حدیث 32989۔ کنزالفوائد 120۔ مناقب ابن شہر آشوب :1 291۔
(اصحاب الیمین)(1) اور داہنی طرف کے اصحاب ۔(2)
اور آپ ہی کا کلام ہے کہ فرمایا : خدایا میں پہلا وہ شخص ہوں کہ جو تیرے حضور حاضر ہوا ، تیری دعوت کو سنا اور قبول کیا کسی نے بھی نماز میں مجھ پر سبقت نہ لی سوائے پیغمبراکرم(ص) کے ۔(3)
اور فرمایا: خدایا میں اس امت میں سے کسی ایسے بندے کو نہیں جانتا کہ جس نے پیغمبراکرم(ص) کے علاوہ مجھ سے پہلے تیری عبادت کی ہو ، اور پھر فرمایا: میںنے اس سے پہلے کہ کوئی نماز پڑھتا سات سال نماز پڑھی ۔(4)
اورآپ نے اہل کوفہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
اے اہل کوفہ آپ کوآنے والے حوادث و واقعات سے خبر دار کرتاہوں تاکہ آپ لوگ ڈرتے رہو اورآمادہ رہو ، نصیحت قبول کرنے والوں کو سمجھاؤ، گویا میں دیکھ رہاہوں کہ تمہارے درمیان یہ کہا جائے گا کہ علی جھوٹ بولتے ہیں جیسا کہ قریش نے یہ نامناسب نسبت اپنے سید و سردار حبیب خدا رحمت الہٰی حضرت محمد بن عبداللہ کو دی ۔
..............
(1) سورہ واقعہ (56)، آیت 27۔
(2) شواہد التنزیل :2 300 ،حدیث 396(از جعفر جعفی )۔
(3) نہج البلاغہ :2 13، خطبہ 131۔ شرخ نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید):8 263۔ النزاع و التخاصم 43۔ اور دیکھیے :ـ امالی صدوق 491۔ مجمع الزوائد :9 103۔ الاصابہ :4 326، ترجمہ 5602۔ کشف الغمہ :1 83۔
(4) تاریخ دمشق :42 32۔ مسند احمد :1 99۔ کشف الغمہ :1 81۔ نظم درر السمطین 82۔ مجمع الزوائد :9 102۔ کنزالعمال :3 122، حدیث 36391۔
وائے ہوآپ پر، میں کس پر اور کس سے جھوٹ بولوں گا ، کیا خدا پر؟ میں تو سب سے پہلا فرد ہوں کہ جس نے اس کی عبادت کی اور اس کو واحد و یکتا جانا،اور کیا رسول خدا(ص) پر ؟ جبکہ میں پہلا وہ شخص ہوںکہ جو ان پر ایمان لایا ، ان کی تصدیق کی اور ان کی مدد و نصرت کی ۔
اصلا ً ایسا نہیں ہے کہ میں جھوٹ بولوں لیکن مکاری و فریب کی زبان تمہیں بہکادے گی اور تم بے خبر رہوگے۔(1)
پنجم :ـ علم و دانائی
علم، صدیق کے واسطے ضروریات واولیات میں سے ہے جو شخص علم وآگاہی نہ رکھتا ہو اس کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے تمام امور اور نظریات و آراء میں صدیق ہو ، اور اس علم سے مراد علم الہٰی ہے یعنی علم لدنی و علم وہبی ۔
اس علم الہٰی کا لازمہ یہ ہے کہ جس شخص کے پاس یہ علم ہو وہ دل و جان سے اور عقیدہ و اعتقاد کی بنیاد پر رسالت آسمانی اور غیب پر ایمان و یقین رکھتا ہے ، نہ یہ کہ صرف زبان اور ظاہری احساسات کی بناپر اقرار کرے ۔
لہذا صدیقیت کسی بھی شخص کی معرفت و عرفان کی بلندی کی حیثیت سے مربوط ہے ، جتنا زیادہ اس کا علم و عرفان ہوگا تو اس کی تصدیق بھی پروردگار عالم کے متعلق اتنی ہی زیادہ اور یقینی ہوگی
..............
(1) ارشاد مفید:1 279۔ احتجاج طبرسی :1 255۔ بحارالانوار:40 111۔
جب کہ واضح ہے کہ ابوبکر ، فرمایشات رسول خدا (ص)کے بھی عالم نہ تھے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اکثر مسائل میں یہ صحابہ سے سوال کرتے تھے اور بہت زیادہ مقامات ایسے ہیں کہ خطا ء و غلطی کرجاتے تھے ،کوئی ایسا فتوی دے دیتے کہ دوسرے صحابہ ان سے اختلاف کرنے لگتے ۔(1)
لیکن حضرت علی کے متعلق ایسا نہیں ہے بلکہ قضیہ بر عکس ہے کہ تمام عالم اسلام ابتداء سے آج تک علی کے علم و حکمت اور قضاوت کی گواہی دیتے ہیں ۔
حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:
'' انا مدینة العلم وعلی بابها فمن اراد المدینة فلیأت الباب ''(2)
میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کادروازہ ہیں ،پس جو شہر میں آنا چاہے اس کو چاہیے کہ دروازے سے آئے ۔
اور رافعی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا:''علی عیبة علمی ''(3) علی میرے علم کے خزانے ہیں ۔
..............
(1) اس سلسلے میں اور زیادہ معلومات کے لیے مؤلف کی کتب ''منع تدوین الحدیث'' اور ''تاریخ الحدیث النبوی '' میں مراجعہ کیا جائے ۔
(2) مستدرک حاکم:3 126۔ المعجم الکبیر :11 55۔
(3) التدوین فی اخبار قزوین 89(بہ نقل از ابن عباس)۔ کنزالعمال :11 602، حدیث 32911۔(بہ طریق دیگر)۔
ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ عبد الرحمن بن بہمان سے راویت کی ہے اس نے کہا کہ میں نے جابر کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول خدا (ص) روز حدیبیہ علی کے بازو پکڑے ہوئے فرمارہے تھے : '' هذا امیر البررة وقاتل الفجرة ، منصور من نصره مخذول من خذله ''
یہ علی نیک و صالحین کا امیر اور فساق و فجار کا قاتل ہے جو شخص اس کی مدد کرے اس کی خدا کی جانب سے مدد ہوگی ، جو اس کو چھوڑدے ا ور پست سمجھے وہ ذلیل و رسوا ہوگا۔
اس وقت پیغمبر اکرم(ص) نے باآواز بلند فرمایا : '' میں علم کا شہرہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں اور جو بھی شہر میں داخل ہونا چاہے اس کو چاہیے وہ دروازے سے آئے ۔(1)
متقی ہندی نے ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا :
'' حکمت کی دس قسمیں ہیںکہ جن میں سے9 علی کے پاس ہیں اور ایک حصہ تمام لوگوں کے پاس ہے۔ اور اس ایک حصے میں بھی علی ان سب سے زیادہ عالم ہے'' ۔(2)
ابن عساکرنے اپنی اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرم(ص) کی خدمت میں تھا کہ علی کے بارے میں آنحضرت (ص)سے سوال ہوا تو آپ (ص)نے فرمایا : حکمت کے دس حصے ہیں کہ جن میں سے نو علی کے پاس اور ایک حصہ تمام لوگوں کے پاس ہے ۔(3)
..............
(1) تاریخ مدینة دمشق :42 226و 383(ترجمہ امام علی ابن ابی طالب )۔
(2) کنزالعمال :11 615، حدیث 32982۔ و جلد :13 146، حدیث 36461۔ فیض القدیر :3 60، حدیث 2704۔
(3) تاریخ مدینة دمشق : 42 384۔ مناقب خوارزمی 82۔
خطیب بغدادی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرم(ص) نے فرمایا :
''انا مدینة الحکمة و علی بابها فمن اراد الحکمة فلیات الباب ''(1)
میں حکمت کا شہرہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں پس جوبھی حکمت چاہے اس کو چاہیے کہ دروازے سے آئے۔
دوری نے تاریخ ابن معین میں اپنی اسناد کے ساتھ سعید بن مسیب سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ پیغمبراکرم(ص) کے صحابہ میں کوئی بھی سوائے علی ابن ابی طالب کے یہ دعوی نہیں کرتا کہ جوچاہو مجھ سے پوچھ لو ۔(2)
خوارزمی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوالبختری سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے علی کو دیکھا کہ رسول خدا (ص) کی تلوار حمائل کیے ہوئے پیغمبراکرم(ص) کا عمامہ اپنے سر پر باندھے ہوئے
..............
(1) تاریخ بغداد:11 204، ترجمہ5908۔
(2) تاریخ ابن معین :1 106۔(دوری کہتاہے ہم سے یحی ابن معین نے نقل کیا کہ اس نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے اس سے یحی بن سعید نے اس سے سعید بن مسیب نے )۔ مناقب خوارزمی 91۔ اسدالغابہ :4 22۔ ذخائر العقبی 83۔
اس حدیث کو احمد نے مناقب میں اور بغوی نے المعجم میں اس عبارت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ماکان احد من الناس یقول سلونی غیر علی ابن ابی طالب ، لوگوں میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے سوال کرو سوائے علی ابن ابی طالب کے ۔
اور آپ کی انگشتر مبارک پہنے ہوئے منبر پر تشریف فرماہیں اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں :
'' سلونی قبل ان تفقدونی ،فانما بین الجوانح منی علم جم، هذا سقط العلم ! هذا لعاب رسول الله ! هذا ما زقنی رسول الله زقا من غیر وحی اوحی الی ، فوالله لو ثنیت لی وسادة فجلست علیها ، لافتیت اهل التوراة بتوراتهم و اهل الانجیل بانجیلهم ، حتی ینطق الله التوراة والانجیل فیقول : صدق علی قد افتاکم بما انزل فی ، وانتم تتلون الکتاب افلا تعقلون ''(1)
مجھ سے جوسوال کرنا چاہو سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ۔بیشک میرے پہلووں کے درمیان بہت زیادہ علم ہے یہ علم کی سبیل اور جام ہے ، یہ رسول خدا(ص) کا لعاب دہن ہے ، یہ وہ چیز ہے کہ جو رسول خدا (ص) نے مجھے اس طرح عطا کی کہ جس طرح پرندہ اپنے بچے کے پوٹے کو دانے سے بھرتا ہے ۔ بغیر اس کے کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہو، خداکی قسم اگر میرے لیے مسند قضاوت بچھادی جائے کہ میں اس پر بیٹھ کر فیصلے کروں تو اہل توریت کے لیے ان کی توریت سے اور اہل انجیل کے لیے ان کی انجیل سے اس طرح فتوے دوںگا کہ خداوندعالم توریت و انجیل کو زبان عطا فرمائے گا اور وہ کہیں گی کہ علی نے سچ کہا ہے اور جو کچھ ہم میں نازل ہوا اسی طرح فتوی دیا ہے اور جب کہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو تو کیا غور وفکر نہیں کرتے ۔
..............
(1) المناقب 91۔ اور دیکھیے :ـ امالی صدوق 422۔ اختصاص مفید 235۔ احتجاج طبرسی :1 344۔ (بہ نقل از اصبغ ابن نباتہ )۔
ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ زکریا سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے عامر شعبی کو کہتے سنا کہ ابن کوّا نے علی سے سوال کیا : مخلوقات الہٰی میں کون سی چیز سب سے زیادہ سخت ہے ، آپ نے فرمایا :''اشد خلق ربک عشرة : الجبال الرواسی ، الحدید تنحت به الجبال ، والنار تاکل الحدید ، والماء یطفی النار ، والسحاب المسخر بین السماء والارض، یعنی یحمل المائ، والریح تقل السحاب،والانسان یغلب الریح یعصمها بیده و یذهب حاحته ، السکر یغلب الانسان ، والنوم یغلب السکر، والهم یغلب النوم فاشدخلق ربکم الهم (1)
آپ کے پروردگار کی مخلوقات میں سب سے زیادہ سخت چیزیں دس ہیں :
بلند و بالا پہاڑ، اور لوہا پہاڑ کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے، آگ کہ جو کہ لوہے کو کھاجاتی ہے ، پانی کہ جو آگ کو بجھا دیتا ہے ، بادل کہ جو پانی کو آسمان و زمین کے درمیان اٹھائے اٹھائے پھرتے ہیں ، ہوا کہ جو بادلوں کو لیے پھرتی ہے ، اور انسان کہ جو ہوا پر غالب آجاتا ہے ، اس کو اپنے ہاتھ سے مسخر کرتا ہے اور اپنی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، نشہ انسان پر غالب آجاتا ہے ، نیند کہ جو نشہ پر غالب آجاتی ہے اور ہم و غم (فکر و پریشانی) کہ جو نیند پر غالب آجاتی ہے۔
..............
(1) تاریخ دمشق : 40142۔ الغارات :1821۔ اس مدرک میں یعصمھا بیدہ کی جگہ پر یتقیھا بیدہ آیاہے ۔ اس روایت کوطبرانی نے المعجم الاوسط :2761 میں حارث سے اور اس نے علی سے نقل کیا ہے اور اس میں یعصھا کی جگہ پر یتقی الریح بیدہ آیاہے اور اس سے ھیثمی نے مجمع الزوائد : 1328میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں ۔ کنزالعمال :1776،حدیث 15252۔
پس آپ کے پروردگار کی مخلوقات میں سب سے زیادہ سخت ہم و غم اور فکر و پریشانی ہے ۔
خوارزمی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابی سعید خدری سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا : اقضی امتی علی ابن ابی طالب (1)میری امت میں سب سے بڑا قاضی علی ابن ابی طالب ہے ۔
ابن سعد نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوہریرہ ، ابن عباس اور سعید بن جبیر و عطا سے روایت نقل کی ہے کہ ان حضرات نے کہا کہ عمر کا قول ہے ''علی اقضانا'' (2)ہمارے درمیان سب سے بڑا قاضی علی ہے ۔
احمد نے اپنی اسناد کے ساتھ ابو البختری سے اور اس نے علی سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : رسول خدا (ص) نے مجھے جوانی ہی کے عالم میں یمن میں حکومت کے لیے بھیجا ، میںنے پیغمبراکرم(ص) سے عرض کی مجھے ایک ایسی قوم کی طرف بھیج رہے ہیں کہ جس کے درمیان مجھے قضاوت کرنا ہے جب کہ میں علم قضاوت سے کچھ نہیں جانتا پس رسول خدا(ص) نے فرمایا : میرے قریب آؤ ، میں آپ کے پاس گیا آپ(ص) نے اپنے دست مبارک کو میرے سینے پر رکھا اور فرمایا : خدایا اس سینے کو کشادہ فرما اور اس کی زبان کو محفوظ رکھ۔
..............
(1) مناقب خوارزمی 18۔ امالی صدوق 642 (بنقل از سلمان فارسی)۔تاریخ دمشق : 42 241 (بنقل از ابن عباس)۔
(2) طبقات ابن سعد : 2 339ـ 340۔ اور دیکھیے : مسند احمد :5 113۔ مصنف ابن ابی شیبہ : 7 183، حدیث 3۔ مستدرک حاکم :3 305۔ مناقب خوارزمی 92۔ البدایة و النہایة : 7 297۔
علی نے فرمایا: اس وقت کے بعد سے میں نے کبھی قضاوت کے سلسلے میں دو شخصوں کے بارے میں بھی شک نہیں کیا اور کسی مسئلہ میں بھی مردد نہیں ہوا۔(1)
ابن عساکر نے اپنی اسناد کے ساتھ عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ فرائض دین اور واجبات و محرمات الہٰی کے متعلق سب سے زیادہ عالم علی ابن ابی طالب ہیں ۔(2)
اور ابن عبد البر نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا : ''اقضاکم علی ''(3) تم میں سب سے بڑا قاضی علی ہے ۔
عبداللہ ابن عمر سے نقل ہوا ہے اس نے کہا ایک شخص ابوبکر کے پاس آیا اور کہا : کیا آپ کی نظر میں زنا مقدر اور تقدیر الہٰی میں ہے ؟ ابو بکر نے جواب دیا : ہاں، اس شخص نے کہا تو بس خداوندعالم نے میرے مقدر میں زنا لکھا ہے، پھر اس کو انجام دینے پر مجھ پر عذاب کرے گا ؟ ابوبکر نے کہا : ہاں ، اے لخناء کے بیٹے اگر میرے پاس کوئی ہوتا تو اس کو حکم دیتا کہ تیرے ناک کان کاٹ ڈالے ۔(4)
..............
(1) دیکھیے : مسند احمد :1 83۔ سنن ابن ماجہ :2 774، حدیث 2310۔ مستدرک حاکم: 3 135۔
(2) تاریخ دمشق : 42 405۔
(3) الاستیعاب : 1 68۔ اور دیکھیے : تفسیر قرطبی : 15 162۔ مقدمہ ابن خلدون : 1 197۔ جواہر المطالب (ابن دمشقی) :1 76۔ غریب الحدیث (خطابی) : 2 201۔
(4) اس حدیث کو لالکائی نے اعتقاد اہل السنة : 4 662، حدیث 1205 میں نقل کیا ہے اور اس سے کنزالعمال :1 334، حدیث 1537 و تاریخ الخلفا ء :1 95 میں منقول ہے ۔
اس طرح کی باتیں ہمیں علی کے یہاں نہیں ملتیں بلکہ وہ لوگوں سے کہتے ہیں کہ جو سوال کرنا ہے مجھ سے سوال کرو اس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ، چونکہ جو عالم ہوتاہے وہ سوال کرنے پر گھبراتانہیں ہے، بلکہ سوالات اس کو خوشحال کرتے ہیں ، اس شخص کے برعکس کہ جو مسائل شرعی سے واقف نہیں ہے اس کو آپ دیکھتے ہیں کہ سوالات سے ڈرتا ہے اور یہ حالت ابو بکر و عمر کے یہاں مشاہدہ کی جاسکتی ہے ۔
ابوعثمان نہدی نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے بنی یربوع یا بنی تمیم خاندان سے (والذاریات)، (والمرسلات ) اور (والنازعات ) کے معنی اور تفسیر یا ان میں سے کسی ایک کے معنی یا تفسیر کے متعلق سوال کیا ۔
عمر نے کہا : اپنے سر سے عمامہ کو اتار اس نے سر سے عمامہ اتار لیا تو اس کے سر کے لمبے بال نظر آنے لگے ۔ عمر نے کہا: خدا کی قسم اگر تیرا سر منڈا ہوا ہوتا تو تیرا سر توڑ دیتا ۔
اس کے بعد اس کو ابوموسی اشعری کے پاس بھیجا اور اہل بصرہ کو لکھا،اور ہم سے بھی کہا کہ اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑدیں ، پس اگر ہم سو (100)افراد ہوتے اور وہ ہماری طرف آتا تو سب آپس میں متفرق ہوجاتے اس شخص کا نام صبیغ بن عسیل تھا ۔(1)
ابوبکر و عمر کی اس سیرت کے مقابل دیکھتے ہیں کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ ابوطفیل سے روایت بیان کی ہے کہ اس نے کہا کہ میںنے امیرالمؤمنین علی کودیکھا کہ آپ منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا : پوچھو جو پوجھنا چاہواس سے پہلے کہ تم مجھے کھو بیٹھو ۔
..............
(1) مسائل احمد :1 478، حدیث 81۔
میرے بعد کوئی میری طرح جواب دینے والا نہیں پاؤ گے ۔پس ابن کوا کھڑا ہوا اور اس نے کہا اے امیر المؤمنین (والذاریات ذرواً )(1) کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا ہوائیں ۔ پھر اس نے سوال کیا (والحاملات وقراً) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :بادل ۔ پھر اس نے سوال کیا(فالجاریات یسرا ً) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا :کشتیاں ۔
پھر اس نے سوال کیا (والمقسمات امراً) کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ملائکہ ۔ پھر اس نے سوال کیا (الذین بدلوا نعمة الله کفراً واحلوا قومهم دار البوار جهنم )(2) ان لوگوں نے نعمت الہٰی کو کفر سے تبدیل کردیا اور اپنی قوم کے لیے ایک ہلاک ہونے والے گھر کا انتخاب کیا ۔وہ لوگ کون ہیں؟آپ نے فرمایا : منافقین قریش۔
حاکم کا بیا ن ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ہے ۔(3)
..............
(1) سورہ ذاریات (51) آیت 1ـ4
(2) سورہ ابراہیم (14) آیات 28ـ29۔
(3) مستدرک حاکم :2 467۔ اور دیکھیے اس کے طرق و اسانید کو عمدة القاری : 19 190 میں تغلیق التعلیق 318ـ 319۔ کنزالعمال :2 565،حدیث 4740۔ الاحادیث المختارہ :1242و 176و 298، حدیث 494 و 556 و678۔ مسند شامی :2 96 ، حدیث 620۔ تاریخ دمشق : 27 99۔ المعیار والموازنہ 298۔ فتح الباری :8 599۔ الغارات :1 178۔ احتجاج طبرسی :1 386۔ جواہر المطالب :1 300 ۔ اور بعض مصادر میں حدیث طولانی ہے اور اس میں سوال زیادہ ہیں کہ جن کے امیر المؤمنین نے جواب دیے ہیں ۔
ابن شہر آشوب راقم ہے کہ خداوندعالم کا فرمان ہے (ولو ردوه الی الرسول والی اولی الامر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم)(1)
(اگر اس کو رسول اور صاحبان امر کی طرف پلٹا دیں تو یقینا ایسے افراد ہیں کہ جو اس کو درک کرلیتے ہیں اور اس کی اچھائی و برائی اور حق و باطل کو جانتے ہیں )
یہ آیت آئمہ طاہرین کی عصمت پر دلالت کرتی ہے چونکہ اس آیت میں خبر دی گئی ہے کہ جس طرح پیغمبراکرم(ص) پر مسائل بیان کیے جائیں تو وہ حق و باطل اور اچھائی و برائی کو سمجھ لیتے ہیں اسی طرح صاحبان امر بھی ہیں ۔ اور معصوم کے علاوہ کسی بھی چیز کا علم بحد یقین ممکن نہیں ہے اور نیز یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ خدا وند ایسے کی نظر کو مطلقاً صحیح سمجھے کہ جو خود خطا ء و غلطی سے پاک نہ ہو چونکہ اس صورت میں امر الہٰی کا قبیح ہونا لازم آئے گا۔
اور جب یہ آیت اولی الامر کی عصمت پر دلالت کرتی ہے تو ان کا امام ہونا بھی ثابت ہے ۔ چونکہ کسی نے بھی عصمت و امامت کے درمیان فرق بیان نہیں کیا ہے اور اگر یہ بات ثابت ہوجائے تو یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ آیت آل محمد کی شان میں ہے ۔
روایت میں ہے کہ یہ آیت بارہ الہٰی حجتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔(2)
..............
(1) سورہ نساء (4) آیت 83۔
(2) مناقب ابن شہر آشوب :1 247ـ248۔
شاعر کہتا ہے :
علی هو الصدیق علامة الوری (1)
و فاروقها بین الحطیم و زمزم
علی ہی صدیق ہے اور کائنات میں سب سے زیادہ عالم، اورباب حطیم و زمزم کے درمیان حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے۔
اور دوسرا شاعر کہتا ہے :
فقال من الفاروق ان کنت عالما
فقلت الذی کان للدین یظهر
علی ابو السبطین علامة الوری
وما زال للاحکام یبدی و ینشر (2)
کہا کہ اگر جانتے ہو تو بتاؤ کہ حق و باطل کے درمیان فیصلے کرنے والا کون ہے تو میں نے کہا وہ کہ جو دین کو آشکار و و اضح کرتا ہے ، علی ،سبطین حضرات حسن و حسین کے والد بزرگوار پوری کائنات میں سب سے زیادہ عالم کہ جو ہمیشہ احکام الہٰی کو بیان کرتے ہیں اور منتشر فرماتے ہیں ۔
ششم : صدیقیت کا نبوت کی طرح ہونا
صدیقیت کی علامت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ نبوت کی مانند ہواور اس کی ہم فکر و ہم صنف ہو چونکہ خداوندعالم کا ارشاد ہے۔
..............
(1) مناقب ابن شہر آشوب : 2 287،ابن شہر آشوب نے اس شعر کو قمی نامی شاعر کے نام سے منسوب کیا ہے ۔
(2) مناقب ابن شہر آشوب : 2 287۔ اس ماخذ میں یظھرکے بجائے مظھر آیاہے۔
(ومن یطع الله و الرسول فاولئک مع الذین انعم الله علیهم من النبیین والصدیقین والشهدا والصالحین و حسن اولائک رفیقا)۔(1)
جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ ان حضرات کے ساتھ ہیں کہ جن پر اللہ نے نعمتیں نازل کی ہیں، انبیا، صدیقین، شھدا، اورصالحین میں سے اور وہ بہترین دوست و ہمدم ہیں ۔
یہ مانند و مثل ونظیر ہونا ، پیغمبر(ص) و علی کے درمیان توبہت واضح و روشن ہے ۔ لیکن پیغمبر اکرم (ص)اور اس شخص کے درمیان کہ جس کو اس زمانے والوں نے صدیق کا لقب دیا ہے اصلاً نہیں پایا جاتا ، چونکہ جب سورہ برائت کی دس آیات نازل ہوئیں تو پیغمبراکرم (ص)نے ابو بکر کو بلایا اور ان کو یہ آیات دے کر بھیجا تاکہ مکہ والوں پر ان آیات کی تلاوت کریں ابھی ابوبکر کچھ ہی دور گئے تھے کہ جبرئیل، پیغمبراکرم (ص)پر نازل ہوئے اور کہااے محمد آپ کے پروردگار نے آپ کو سلام کہا ہے اور فرمایا ہے :
''لایؤدی عنک الاانت او رجل منک ''آپ کی طرف سے آیات الٰہی کو ادا نہیں کرسکتا اور نہیں پہنچا سکتا مگر خود آپ یا وہ شخص کہ جو آپ سے ہو (یعنی آپ کانفس و جان اور آپ کی مثل و ھم نظیرہو)
تو فورا ہی رسول اکرم(ص) نے علی کو بلایا اور فرمایا میرے ناقہ عضباء پر سوار ہوکر اپنے آپ کو ابوبکر تک پہنچا دو ۔اور سورہ برأت کو اس سے لے لو، اس سورہ کو مکہ لے جاؤ اور مشرکین کے عہد و پیمان کو خود انہی پر پھینک دو ۔ اور ابوبکر کو اختیار دینا کہ چاہے تو وہ آپ کے ساتھ چلے یا میرے پاس واپس آجائے ۔
..............
(1) سورہ نسائ(4) آیت 69۔
کامل کتاب ڈاونلوڈ کرنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں
Shaheederabe.com
Comments powered by CComment