جمع بین الصلاتین قرآن وسنّت کی روشنی میں
تحقیق وتالیف
سیّدنسیم حیدر زیدی
زیر نظر:
استاد معظّم آیت اللّہ محسن غرویان (مدّظلّہ العاٰلی)
انتساب
میں اپنی اس ناچیزخدمت کو اپنے جدّاعلیٰ
حکیم مولانا سےّدخورشید حسن زیدی بارہوی(قدس سرہ شریف)
کے نام معنون کرتا ہوں.
نسیم حیدر زیدی
(تقریظ)
از
آیت اللّہ محسن غرویان
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالِمیْنَ الصلاة والسّلام عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرینَ
امّا بعد
رسالہ '' جمع بین الصّلاتین'' ایک عملی ،فقہی ،اوراستدلالی رسالہ ہے جوفاضل مؤلف جناب سےّد نسیم حیدر زیدی کی تألیفات میں سے ایک ہے میری نظر میں یہ رسالہ صاحبان علم وتحقیق کے لیئے رہ گُشاہے ۔خدا سے امید کرتا ہوں کہ وہ موصوف کی توفیقات میں روز بروز اضافہ فرمائے اور اس شائستہ عمل کوانکی آخرت کاذخیرہ قراردے ۔ آمین
محسن غرویان
قم المقدّسہ
1429
(مقدمہ)
أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالِمیْنَ و صَلّٰی اللّٰهُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرینَ وَ لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلٰی أَعْدائِهِمْ أَجْمَعِیْنَ
نماز خدا کی بارگاہ میں باریاب ہونے کا ذریعہ ہے، مادی دنیا کو چھوڑے اور انسان کو مشغول کرنے والی چیزوں کو پس پشت ڈالنے اور پروردگار کی عظمت کی طرف متوجہ ہونے اور عالم ناسوت کی تاریکیوں سے نکل کر عالم نور میں پہنچنے کا وسیلہ یہی نماز ہے، اہل صفا اور سالکان طریقت نماز ہی کے ذریعہ قرب الٰہی کی منزلیں طے کرتے ہیں۔ نماز کے بغیر ان روحانی مہمات کو سر کرنا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ اس کا تصور ہی سرے سے محال ہے، وہ عبادت جو اللہ کے رسول (ص) کی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار پائی ہو اس کا اسلام میں سب سے افضل، پسندیدہ اور اہم ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں ہے۔
آنحضرت ( (ص)) نماز کی اہمیت اور عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر چیز کے لیے ایک زینت ہے۔ اسلام کی زینت نماز پنجگانہ ہے. ہر چیز کا ایک رکن ہے. ایمان کا رکن نماز پنجگانہ ہے. ہر چیز کے لیے ایک چراغ ہے مؤمن کے دل کا چراغ نماز پنجگانہ ہے. ہر چیز کی ایک قیمت ہے جنت کی قیمت نماز پنجگانہ ہے. توجہ کرنے والے کی توبہ، مال میں برکت، رزق میں وسعت، چہرہ کی
رونق، مومن کی عزت، رحمت کا نزول دعا کی قبولیت اور گناہوں کا کفارہ یہی نماز ہے۔
اس مقالہ میں نماز سے متعلق جو بحث مورد نظر ہے وہ یہ ہے کہ کیا نماز پنجگانہ کو پانچ مختلف اوقات میںجدا جدا ادا کرنا واجب ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو نماز باطل ہوجائے گی. جس طرح اہل سنت کی اکثریت خواہ مسافر ہی کیوں نہ ہو پانچ وقت کی نماز کو پانچ مختلف اوقات میں ادا کرتی ہے یا یہ کہ نماز پنجگانہ کو تین مختلف اوقات میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اہل تشیع حضرات کا نظریہ یہی ہے۔
اس مقالہ میں مذکورہ بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم قرآن و سنت کی روشنی میں وسیع النظری کے ساتھ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے اوقات کے بارے میں گفتگو کریں گے. تاکہ یہ بات ثابت ہوجائے کہ ''جمع بین الصلاتین'' اہل سنت کی نظر میں معتبر احادیث کی رو سے بھی ہر حالت میں جائز ہے اور نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے مشترک اوقات بھی ہیں۔
وما التوفیق الا باللّٰہ
سید نسیم حیدر زیدی
قم المقدسہ
( باب أوّل : بیان مسئلہ)
اس بحث کی وضاحت کے لیے سب سے ہم یہاں فقہائِ اسلام کی آراء پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے کہ مقام ''عرفات'' میں ظہر کے وقت دونوں نمازوں یعنی ظہر و عصر کو ایک ساتھ پڑھ سکتے ہیں. اسی طرح ''مزدلفہ'' میں بھی عشاء کے وقت، نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ بجا لاسکتے ہیں۔
اہل سنّت کے نظریے کی وضاحت:
1۔حنفی کہتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو صرف مقام عرفات اور مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے. اور ان مقامات کے علاوہ نہ سفر میں اور نہ حضر میں بلکہ کسی عذر کی وجہ سے بھی ایک ساتھ پڑھنا جائز نہیں ہے۔
2۔ حنبلی، مالکی اور شافعی کہتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ سفر میں بھی ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے ان میں سے بعض فرقے اضطراری صورت مثلاً بارش، بیمار ی یادشمن سے خوف کے موقع پر دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھنا جائز سمجھتے ہیں۔(1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ ان اقوال کے لیے رجوع کریں: الفقہ علی المذاہب الاربعہ، المغنی، الشرح الکبیر، المجموع، حلیہ الاولیاء وغیرہ۔
شیعوں کے نظریے کی وضاحت:
شیعوں کا نظریہ یہ ہے کہ نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء میں سے ہر ایک کے لیے ایک مخصوص وقت ہے اور ایک مشترک۔
الف: نماز ظہر کا مخصوص وقت ظہر شرعی، یعنی زوال آفتاب سے شروع ہوکر اسوقت تک رہتا ہیکہ جس وقت میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکتی ہے، اس محدود وقت میں صرف نماز ظہر ہی پڑھی جاسکتی ہے۔
ب: نماز عصر کا مخصوص وقت غروب آفتاب سے اتنی دیر پہلے شروع ہوکر غروب تک اسوقت تک ہے،جس وقت میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکے، اس محدود وقت میں صرف نماز عصر ہی پڑھی جاسکتی ہے۔
ج: نماز ظہر کے خاص وقت کی انتہاء سے لے کر نماز عصر کے خاص وقت کی ابتداء تک کا درمیانی وقت نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت ہوتا ہے۔
شیعوں کا کہنا ہے کہ اس مشترک وقت میں ہم کسی بھی وقت نماز ظہر و عصر کو بلافاصلہ پڑھ سکتے ہیں. جبکہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ظہر شرعی یعنی اول زوال آفتاب ہر چیز کے سایہ کا اس کے برابر ہوجانے تک کا وقت نماز ظہر سے مخصوص ہے. اس مدت میں نماز عصر نہیں پڑھی جاسکتی اس کے بعد سے مغرب تک کا وقت نماز عصر سے مخصوص ہے اس میں نماز ظہر نہیں پڑھی جاسکتی۔
د: نماز مغرب کا خاص وقت مغرب شرعی سے شروع ہوکر اتنی دیر تک رہتا ہے جتنی دیر میں تین رکعت نماز ادا کی جاسکے. اس محدود وقت میں صرف نماز مغرب ہی ادا کی جاسکتی ہے۔
ھ: عشاء کا مخصوص وقت آدھی رات سے پہلے اس وقت تک رہتا ہے جس وقت میں چار رکعت نماز عشاء پڑھی جاسکے. اس مختصر مدت میں صرف نماز عشاء ہی پڑھی جاسکتی ہے۔
و: نماز مغرب کے مخصوص وقت کی انتہاء سے نماز عشاء کے مخصوص وقت کی ابتداء تک مغرب و عشاء کا مشترک وقت ہوتا ہے۔
شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اس مشترک وقت میں کسی وقت بھی بلافاصلہ نماز مغرب و عشاء پڑھی جاسکتی ہے. لیکن اہل سنت کا کہنا یہ ہے کہ اول مغرب سے لے کر مغرب کی سرخی کے زائل ہونے تک کی مدت نماز مغرب سے مخصوص ہے. اس میں نماز عشاء نہیں پڑھی جاسکتی اور مغرب کی سرخی کے زوال سے لے کر آدھی رات تک نماز عشاء کا مخصوص وقت ہے اس میں مغرب کی نماز نہیں ہوسکتی۔
نتیجہ بحث:
نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ نقطہ نظر کے مطابق ہم ظہر شرعی کے بعد نماز ظہر پڑھ سکتے ہیں. اور پھر اس کے بعد بلا فاصلہ نماز عصر بھی ادا کرسکتے ہیں. یا پھر نماز ظہر کے پڑھنے میں نماز عصر کے وقت ِ خاص تک تأخیر کرسکتے ہیں۔ اور نماز عصر کا وقت خاص آنے سے پہلے اسے ادا کرکے نماز عصر پڑھ سکتے ہیں اس طرح
نماز ظہر و عصر کو جمع کرسکتے ہیں. اگرچہ مستحب یہ ہے کہ زوال آفتاب کے بعد نماز ظہر ادا کی جائے اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے۔
اِسی طرح مغرب شرعی کے بعد ہم نماز مغرب اور پھر اس کے بعد بلافاصلہ نمازِ عشاء پڑھ سکتے ہیں. یا پھر نماز عشاء کے وقت خاص آنے سے پہلے تک ہم نماز مغرب میں تأخیر کرسکتے ہیں. اس کو ادا کرنے کی صورت یہ ہوگی کہ نماز عشاء کا مخصوص وقت آنے سے پہلے ہم نماز مغرب پڑھ لیں. اس کے بعد نماز عشاء ادا کریں اس طرح مغرب اور عشاء میں جمع کی صورت پیدا ہوجاتی ہے. اگرچہ نماز مغرب کو مغرب شرعی کے بعد اور نماز عشاء مغرب کی سرخی زائل ہونے کے بعد پڑھنا مستحب ہے۔ البتہ یہ شیعوں کا نظریہ ہے۔
اہل سنت حضرات ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نماز کو ہر مقام اور ہر زمانے میں مطلقاً ملا کر پڑھنا جائز نہیں سمجھتے ہیں اس بنا پر مورد بحث چیز یہ ہے کہ دو نمازیں ہر زمانہ میں اور ہر جگہ پر جمع کرکے پڑھی جاسکتی ہیں یا نہیں؟
(باب دوم)
نماز کے اوقات قرآن کریم کی روشنی میں
خداوند حکیم نے قرآن کریم میں نماز پنجگانہ کے لیے صرف تین ہی اوقات بیان کیے ہیں لہٰذا باعث تعجب ہے کہ مسلمانوں کا ایک گروہ نمازِ پنجگانہ کو پانچ مختلف اوقات میں ادا کرنے کو واجب سمجھتا ہے اور تین اوقات میں نماز ادا کرنے پر اعتراض کرتا ہے۔
آیت نمبر1:
(وََقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّیْلِ ) (1)
'' اور پیغمبر (ص) آپ دن کے دونوں حصوں میں اور کچھ رات گئے نماز پڑھا کریں''۔
ظاہراًآیت میں ''طَرَفَیِ النَّهٰار'' (دن کے دونوں طرف) کی عبارت نماز فجر (جو دن کے ایک طرف پڑھی جاتی ہے) اور نماز ظہر و عصر (جو دن کے دوسری طرف پڑھی جاتی ہیں) کی طرف اشارہ ہے۔ (2)دوسرے الفاظ میںیوںکہا جائے کہ اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ نماز ظہروعصرکاوقت غروب تک رہتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ سورہ مبارکہ ہود ، آیت 114
(2)۔اًیات الاحکام:استراًبادی ج1 ص125،احکام القراًن:جصاص ج3 ص249،اطیب البیان فی تفسیرالقراًن ج10ص481، شیعہ پاسخ می گوید: آیت اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی ص 169
''زُلْفًا من الیل'' اہل لغت (1)کے نزدیک '''زُلْفًا' ،'''زُلْفه' کی جمع ہے جس کے معنی رات کا ابتدائی حصہ ہے. لہٰذا یہ عبارت نماز مغرب و عشاء کی طرف اشارہ ہے. جیسا کہ عبد اللہ بن عباس، حسن، مجاہد، قتادہ، مقاتل اور زجاج سے بھی یہی قول نقل ہوا ہے۔(2)
اسی بنا پر اگر پیغمبر اسلام (ص) نے نماز پنجگانہ کو پانچ مختلف اوقات میں ادا کیا ہے تو وہ محض اس لیے تھا کہ اُن اوقات میں نماز کو ادا کرنا باعث فضیلت ہے جس سے کسی بھی مسلمان کو انکار نہیں ہے۔
آیت نمبر 2: (َقِمْ الصَّلَاةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ ِلَی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْهُودًا ) (3)
''آپ زوال آفتاب سے رات کی تاریکی تک نماز قائم کریں اور نماز صبح بھی کہ نماز صبح کے لیے گواہی کا انتظا م کیا گیا ہے''
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ''دلُوکِ شمس'' سے لے کر ''غَسَقِ الَّیل'' تک نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے. اسی طرح نماز صبح کا بھی حکم دیا ہے لغت، حدیث، اور تفسیر کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نماز پنجگانہ کا حکم فرمایا ہے. اور اس کے اوقات کو اجمالی طور پر بیان کیا ہے۔ َ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ مفردات الفاظ، راغب (2)۔ زاد المیسر فی علم التفسیر، امام جوزی ج4، ص 129
(3)۔ سورہ اسرائ، آیت 78
''دلوک'' کے معنی کے بارے میں صاحب معجم المقاییس اللغة کا کہنا ہے۔ ''ذَلِک َ أَصْل وَاحِد یَدُل عَلٰی زَوَالِ شَیئٍ عَنْ شَیئٍ ---'' یُقَالُ دَلَکَتِ الشَّمْسُ: زَالَتْ و یُقٰالُ دَلَکَتْ، غَابَتْ.
لفظ ''دلوک'' کی ایک اصل ہے. جو کسی چیز کے کسی سے زائل ہونے پر دلالت کرتی ہے. جیسا کہ کہا جاتا ہے، دَلَکَتُ الشّمس، یعنی سورج کا زوال ہوگیا. اور اسی طرح ''دلوک'' غائب کے معنی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے کہ جب کہا جائے ''دَلَکَت'' یعنی وہ غائب ہوگیا.(1)
اسی طرح ''صاحب النّھایہ'' لکھتے ہیں ''دلوک الشَّمس فی غَیْرِ مَوْضِعٍ مِنَ الحَدِیْث، و یُرادُ بِه زَوَالُهٰا عَن وَسَطِ السَّمَائِ وَ غَرُوبُهٰا ایضاً واصل الدُلوک الیل'' ''دلوک الشمس'' روایات میں کئی مقامات پر اس کا ذکر ہوا ہے اور اس سے مراد آسمان کے وسط سے سورج کا زوال ہونا ہے اسی طرح اس کے غروب ہونے کو بھی کہتے ہیں. اصل میں ''دلوک'' ٹیڑھا ہونا ہے۔(2)
ازھری کہتے ہیں میری نظر میں ''دلوک'' سے مراد دوپہر کو سورج کا وسط آسمان سے مڑنا ہے تاکہ آیہ شریفہ میں تمام پنجگانہ نمازوںکو جمع کیا جا سکے اور آیہ کا معنیٰ یہ ہے۔(واللہ اعلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ معجم مقاییس الغہ۔ ابن فارس ج2، ص 298
(2)۔النھایہ، ابن کثیر، حرف الدال باب الدال مع اللام، ص130
''اقم الصّلاة''یا محمّدصلی الله علیه و آله وسلم ای ادمها من وقت زوال الشّمس الی غسق اللّیل،فیدخل فیها الاو لیٰ والعصر،وصلاتا غسق اللّیل هما العشاء اٰن،فهٰذه اربع صلوٰت، والخا مسة قوله (عزّوجل)''قرآن الفجر ' ' ١ لمعنی ٰ واقم صلاةالفجر،فهٰذه خمس صلوٰت فرضها اللّه تعالیٰ علیٰ نبيّه صلّی اللّه علیه وآله وسلّم وعلیٰ امّته-واذجعلت الدلوک الغروب کان الامر فی هذه الآیه مقصوراً علیٰ ثلاث صلواٰتٍ فان قیل :ما معنیٰ الدّلوک فی کلام العرب ؟قیل الدلوک الزّوال ولذٰلک قیل للشّمس اذا زالت نصف النهاٰر دالکة وقیل لهااذاافلت دالکة لانّها فی الحالتین زائلة.....وفی نوادر الاعراب:دمکت الشّمس ودلکت وعلت اواعتلت،کلّ هذا ارتفاعها(1) '' اے محمّد:نماز قائم کرو'' یعنی اس کو سورج کے زوال سے لیکر تاریکی تک جاری رکھو پس آیت کے اس حصے تک نماز ظہر و عصراورمغرب و عشاء شامل ہے پانچویں نمازکا وقت آیت کے اس حصے سے پتہ چلتا ہے کہ فرمایا ''و قرآن الفجر''جس کا مطلب یہ ہے کہ ''نماز صبح پڑھا کرو''اس طرح یہ پانچ نمازیں ہیں جنھیں خداوند عالم نے پیغمبر اسلام (ص) اور آپ کی امّت پر واجب قرار دیا ہے ۔ اگر'' دلوک ''سے مراد غروب لیا جائے تواس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ اس آیت میں فقط تین نمازوں کے اوقات بیان ہوئے
ہیں (نماز مغرب و عشاء اور نماز صبح)اگر کہا جائے عربی زبان میں ''دلوک ''سے مراد کیا ہے ؟تو کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)لسان العرب مادہ دلک
جائے گا: کہ''دلوک''وہی زوال ہے ۔اور اسی طرح جب سورج غروب ہوجاتا ہے تو کہتے ہیں ''دلوک ''کیوں کہ دونوںحالتوں میںسورج کی روشنی زائل ہوجاتی ہے''نوادرالاعراب ''میں ''دمکت الشمس ''کے بارے میںلکھتے ہیں کہ ''دلکت ،علت، اعتلت ''سب سورج کے بلند ہونے کے معنیٰ میں استعمال ہوتے ہیں ۔
مُبَرّد کہتے ہیں ''دُلوک الشمس مِنْ لَدُنْ زَوَالها اِلٰی غُروبِهٰا'' ''دلوک الشمس'' سے وہی زوال آفتاب سے غروب آفتاب تک کا وقت مراد ہے۔(1)
اس بنا پر اگرچہ ''دلوک'' کبھی سورج کے غروب کے معنی میں بھی آیا ہے. لیکن ماہرین لغت کی ترجیحات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس آیت میںمناسب معنی وہی ہیں جو ''أزھری'' اور ''مبرد'' سے نقل ہوئے ہیں. یعنی آسمان کے وسط سے سورج کا ڈھلنا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی احادیث بھی اس بارے میں نقل ہوئی ہیں. جن میں سے ہم فقط دو حدیث نمونہ کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔
1- عَنْ اِبْنِ مَسْعُود رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی اللّٰهُ علیه (وآله) وسلم،
أَتَانِی جِبْرَائِیل لِدُلُوکِ الشمسِ حِیْنَ زَالتَ فَصَلّی بِی الظُّهرَ،(2)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ نقل از مجموع البیان، ج6، ص 433 (2)۔ الدر المنثور؛ رجال الدین سیوطی، ج4، ص 195 والکشاف زمخشری، ج2، ص 686
عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا: سورج کے ''دلوک'' کے وقت جب زوال ہوا تو جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور میرے ساتھ نماز ظہر ادا کی۔
عبداللہ ابن مسعود کی طرح کچھ دوسرے افراد جیسے عبداللہ ابن عباس، انس، عمر، ابن عمر اور ابی برزہ
وغیرہ سے بھی اسی قسم کے مضمون کی روایت نقل ہوئی ہے۔
اہل بیت اطہار علیہم السلام سے بھی متعدد طریقوں سے روایت ہے کہ ''دلوک'' سے مراد زوال ہے نہ غروب۔
٢- عن أبی عبداللّٰه (علیه السلام) فی قوله تعالٰی ''وَ أَقِمِ الصّلوٰةَ لِدُلوکِ الشَّمْسِ اِلی غسَقِ الَّیلِ و قُرْآنَ الفَجْرِ اِنَّ قُرْآنَ الفَجْرِ کَانَ مَشْهُودًا، قَالَ دُلُوکَ الشَّمْسُ زوالهٰا، و غَسَقِ اللَّیلِ اِنْتِصٰافُه وَ قُرآنِ الفَجْرِ رَکْعَتَ الْفَجْرِ؛حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آیت '' أَقِمِ الصّلوٰةَ لِدُلوکِ الشَّمْسِ اِلی غَسَقِ الَّیل'' میں ''دلوک'' سے مراد سورج کا زوال ہے ''غسق الیل'' سے مراد رات کا نصف ہونا ہے اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی دو رکعت نماز ہے۔ (1) ان روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آیت میں ''دلوک الشمس'' سے مراد سورج کا زوال ہے اسی لیے امام شافعی بھی صریحاً کہتے ہیں دلوک الشمس زَوَالُھٰا ،دلوک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ وسایل الشیعہ۔ ابواب المواقیت ج9، ص 479،آیات احکام ۔استر آبادی ج1 ص25
الشمس سے مراد سورج کا زوال ہے۔(1) اس آیت میں غسق اللیل کے بارے میں صاحب معجم مقاییس اللغة اور صاحب ''معجم الوسیط'' لکھتے ہیں کہ غِسق اللّیل سے مراد رات کی تاریکی ہے۔(2) راغب ''کتاب مفردات'' اور طریحی ''کتاب مجمع البحرین'' میں لکھتے ہیں: غَسَق اللّیل؛شِدّةُ ظُلْمَتِه: (3) غسق اللّیل سے مراد وہی رات کی تاریکی کا شدید ہونا ہے ۔ عبداللہ ابن عباس سے منقول ہے کہ غَسَق اللَّیل؛ اجتماعُ اللیل، رات اور اس کی تاریکی کا اکھٹا ہونا۔(4)
بہرحال ہماری نظر میں غسق اللّیل سے مراد عشاء کا آخری وقت ہے اور یہ مطلب جو راغب نے مفردات میں اور طریحی نے مجمع البحرین میں ذکر کیا ہے اس سے زیادہ نزدیک ہے انہوں نے غسق اللّیل کو تاریکی کی شدت کے معنی میں جانا ہے اس بنا پر یہ احتمال مورد قبول نہیں کہ کہا جائے کہ ''غسق اللّیل'' سے سورج کا غروب ہونا یا رات کا ابتدائی حصہ مراد ہے. کیونکہ سورج کے غروب ہونے میں نہ تاریکی میں شدت ہے اور نہ رات اور اس کی تاریکی کا اجتماع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ السنن الکبریٰ، ج1، ص 394
(2) معجم المقاییس اللغہ، ابن فارس ج4، ص 425 و المعجم الوسط، ابراہیم مصطفیٰ وغیرہ، ''مادہ غسق''
(3۔ مفردات راغب، مادہ غَسَقَ ؛ مجمع البحرین مادہ غسق، ص 310
(4)۔ الدر المنثور، جلال الدین سیوطی. ج4، ص 195
تفسیر آیہ:
''دلوک'' ، ''غسق'' اور'' قرآن الفجر'' کے الفاظ کے معانی روشن ہونے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خداوند عالم نے اس آیت میں نماز پنجگانہ کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اوقات کو بھی معین فرمایا ہے۔ خداوند عالم فرماتا ہے ظہر کی ابتداء سے لیکر رات کے آدھے حصے تک نماز قائم کرو اور نماز فجر بھی پڑھو۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ ظہر کی ابتداء سے لے کر آدھی رات تک چار نمازوں کا وقت ہے۔ اگر کسی اور دلیل شرعی کے ذریعہ معلوم نہ ہوتا کہ نماز ظہر و عصر کو غروب سے پہلے اور نماز مغرب و عشاء کو غروب کے بعد پڑھنا ہے۔ ہم اس آیت کے اطلاق کو سامنے رکھتے ہوئے کہتے کہ ظہر کی ابتداء سے لے کر آدھی رات تک ان چاروں نمازوں کا مشترک وقت ہے۔
لیکن دلیل قطعی اور شرعی کے پیش نظر نماز ظہر و عصر کو غروب سے پہلے ادا کیا جانا ضروری ہے. اورنماز مغرب و عشاء کو غروب کے بعد ادا کیا جائے. اس بنا ء پر آیت کو مقید کیا جاتا ہے (ظہرین کی نماز غروب سے پہلے ہو اور مغربین کی نماز، غروب کے بعد ادا کی جائے) لیکن باقی موارد میں آیت اپنے اطلاق پر باقی ہے. اور اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ ظہر کی ابتداء سے کر غروب تک ظہرین کا مشترک وقت ہے۔
غروب سے لے کر آدھی رات تک نماز مغرب و عشاء کا مشترک وقت ہے۔
اسی بنا پر زرارہ نے جب حضرت امام محمد باقر (ع) سے واجب نمازوں کے بارے میں سوال کیا تو
آپ (ع) نے فرمایا: روزانہ پانچ نمازیں واجب ہیں ، زرارہ نے سوال کیا کہ خداوند متعال نے اپنے کلام پاک میں ان کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کا نام لیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:
''نعم،قال اللّه تبارک و تعالیٰ لنبيه :''اقم الصّلاة لدلوک الشّمس الیٰ غسق اللّیل''و''دلوکها'' ''زوالها ففیما بین دلوک الشّمس الیٰ غسق اللّیل اربع صلوٰت سمّاهن اللّه و بینهنّ ووقتهنّ و ''غسق اللّیل'' هو انتصافه ثمّ قال:'' وقرآن الفجر انّ قرآن الفجر کان مشهودا''
ہاں خداوند متعال نے اپنے نبی سے فرمایا: دلوک شمس سے لے کر غسق لیل، تک نماز قائم کرو۔ دلوک شمس سے مراد زوال ہے پس دلوک شمس اور غسق لیل کے درمیان چار نمازیں واجب فرمائی ان تمام کا نام لیا اور انہیں بیان کیا اور ان کے اوقات معین کیے ''غسق اللیل'' وہی آدھی رات ہے ، پھر فرمایا: اور نماز فجر کیونکہ نماز فجر پر گواہی ہوتی ہے۔
اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق (ع) سے بھی نقل ہوئی ہے۔(1)
اسی بنا پر فخر رازی اپنی تفسیر میں اعتراف کرتے ہیں کہ اس آیت سے نماز کے مشترک اوقات کا پتہ چلتا ہے ، وہ کہتے ہیں:
''ان فسّرنا الغسق بالظّلمة المتراکمه ،فنقول :الظّلمة المتراکة انّهاتحصل عند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ تفسیر عیاشی، ج3، ص 308؛ مجمع البیان، ج6، ص 283
غیبوبة الشفق الابیض( الذی یحصل بعد غیبوبة الاحمرعلیٰ ماقالوا)و''کلمة الیٰ''لانتهاء انتهاء الغاية والحکم الممدودالیٰ غاية یکون مشروعاًقبل حصول تلک الغاية ،فوجب جواز اقامةالصّلوٰت کلّهاقبل غیبوبة الشفق الابیض-''
اگر غسق کو تاریکی کی شدت کے معنی میں لیں تو تاریکی کی شدت اس وقت ہوتی ہے جب سفید شفق، جو خود سرخ شفق کے چلے جانے سے نمودار ہوتی ہے؛ ظاہر ہو۔ اس آیت میں ''الی'' غایت (انتہا) کے لیے آیا ہے۔ اور حکم ، غایت (انتہا) تک باقی ہے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ سفید شفق کے ختم ہونے سے پہلے تمام نمازوں کا پڑھنا صحیح ہے۔
بلکہ فخر رازی کہتے ہیں کہ اگر غسق کو تاریکی کی ابتداء کے معنی میں بھی لیں تب بھی مشترکہ وقت سمجھا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں:
''١ن فسّرناالغسق بظهور اوّل الظلمة-و حکاه عن ابن عبّاس و عطاء و النضر بن شمیل - کان الغسق عبارة عن اوّل المغرب و علیٰ هٰذا التقدیر یکون المذکور فی الآية ثلاث اوقات وقت الزوّال و وقت اول المغرب و وقت الفجر، وهٰذا یقتضی ان یکون الزوّال وقتاً للظّهر والعصر فیکون هٰذا الوقت مشترکاً بین هاتین الصّلاتین ،وان یکون اوّل المغرب وقتاً للمغرب والعشاء فیکون هٰذا الوقت مشترکاً ایضاًبین هاتین الصّلاتین ،فهٰذایقتضی جوازبین الظّهر والعصر وبین
المغرب والعشاء مطلقاً''
''اگر غسق کی تاریکی کی ابتداء سے تفسیر کریں جیسا کہ ابن عباّس،عطاء اورنضر بن شمیل نے یہی تفسیر کی ہے تو غسق سے مراد مغرب کی ابتداء ہوگی اس صورت میں جو کچھ آیت میں بیان ہوا ہے وہ تین قسم کے اوقات ہوں گے: زوال کا وقت، مغرب کا ابتدائی وقت اور فجر کا وقت، اس کا مطلب یہ ہے کہ۔
(1) زوال: نماز ظہر کا وقت ہو اور ان دونوں کا مشترک وقت ہو۔
(2)۔ مغرب کی ابتدا: نماز مغرب و عشاء کا وقت ہو اور دونوں کا مشترک وقت ہو۔
اس بناء پر غسق کو رات کی تاریکی کی ابتدا کے معنی میں بھی لیں تب بھی اس کا لازمہ یہ ہے کہ نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشا ء میں بطور مطلق جمع جائز ہے (خواہ سفر میں ہوں یا حضر میں)
پھر وہ لکھتے ہیں :
'' الّاانّه دلّ الدّلیل علیٰ انّ الجمع فی الحضرمن غیرعذر لا یجوز''(1)
''لیکن دلیل خارجی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ حضر میں کسی عذر کے بغیر جمع کرنا جائز نہیں ہے۔''
لیکن بہت ہی جلد آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ احادیث بھی بطور مطلق جمع بین الصلاتین کے جواز کو ثابت کرتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ تفسیر کبیر، ج21، ص 27
اب نہیں معلوم کہ جناب فخر رازی کی مراد دلیل خارجی سے کیا ہے۔اگر اس سے مراد قرآن مجید ہے تو قرآن مجید سے تو وہ خود''جمع بین الصّلاتین ''کے جوازکو ثابت کر چکے ہیں اور اگر اس سے مراد احادیث ہیں توبہت جلد آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ احادیث بھی بطور مطلق ''جمع بین الصّلاتین ''کے جوازکو ثابت کرتی ہے۔
جیسا کہ اہل سنت کے مشہور و معروف عالم دین اور مفسر قرآن آلوسی اپنی تفسیرروح المعانی میں اس آیت سے اس جمع کے جواز کے ثبوت کا ضمنی طور پر اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں:
''دونوں نمازوں میں جمع کے جواز کو صحیح احادیث ثابت کرتی ہیں'' (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ تفسیر روح المعانی، ج15، ص 133 132
(باب سوم)
جمع بین الصلاتین سنت کی روشنی میں
جمع بین الصلاتین کا مسئلہ احادیث کی رو سے اتنا واضح ہے کہ اہل سنت کی صحیح بخاری ، صحیح مسلم،سنن ترمذی،سنن نسائی،موطأمالک جیسی معروف ترین حدیث کی کتابوں میں کئی بار ذکر ہوا ہے احمد بن حنبل نے بھی اپنی مسند میں اس بارے میں متعدد احادیث نقل کی ہیں اسی طرح دوسری کتابوں میں بھی اس بات پر دلالت کرنے والی احادیث منقول ہیں۔صحیح السند اورصریح المتن احادیث(جن کا ذکر آئندہ آئیگا)کے باوجودباعث تعجب ہے کہ بعض افراد ان احادیث اورپیغمبر اسلام(ص) کی صریح سنت کی تاویل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر کچھ لوگوں نے یوں تاویل کی ہے کہ جمع بین الصلاتین بارش کی وجہ سے تھا یہ تاویل متقدمین میں سے کچھ مشہور لوگوں کی طرف منسوب ہے، لیکن یہ تاویل مخدوش ہے کیونکہ بعض دوسری احادیث میں یہ ذکر بھی آیا ہے کہ جمع بین الصلاتین بارش، خوف یا سفر وغیرہ کی وجہ سے نہیں تھا۔
بعض لوگوں نے یوں تاویل کی ہے کہ جمع بین الصلاتین بادل کے وقت تھا آپ نے ظہر کی نماز پڑھی پھر بادل چھٹ گیا تو پتہ چلا کہ عصر کا وقت ہے تو آپ نے عصر کی نماز پڑھی ، یہ تاویل بھی باطل ہے کیونکہ یہ احتمال اگرچہ ظہر و عصر کی نمازوں میں دیا جاسکتا ہے لیکن مغرب و عشاء کی نمازوں میں یہ
احتمال نہیں دیا جاسکتا
بعض لوگوں نے یوں تاویل کی ہے کہ پہلی نماز کو دیر سے پڑھتے تھے اور اس کے آخر وقت میں ادا کرتے تھے اور اس سے فارغ ہونے کے بعد دوسری نماز بجا لاتے تھے (یعنی پہلی نماز اس کے آخروقت میں اور دوسری نماز اس کے اول وقت میں بجالاتے تھے .اس طرح دونوں اپنے اپنے اوقات میں بجالاتے تھے) پس دونوں نمازوں میں ظاہراً جمع نظر آتا تھا مگر حقیقت میں جمع نہیں تھا یعنی دونوں کو ایک مشترک وقت میں ادا نہیں کیا جاتا تھا. یہ تاویل بھی باطل ہے کیونکہ حدیث کے ظاہری معنی کے مخالف ہے لہٰذا اس چیز کا بھی احتمال نہیں دیا جاسکتا ہے۔اب ہم مسئلہ کو واضح کرنے کے لیے روایات کی تحقیق کریں گے کہ دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ادا کرنے کے بارے میں جوشیعہ نقطہ نظر ہے وہی صحیح ہے کہ جمع بین الصلاتین ہر حالت میں جائزہے جس پرقرآن اور احادیث صریح دلالت کرتی ہیں
روایات کی تحقیق
1۔ احمد ابن حنبل۔ فرقہ حنبلی کے امام و پیشوا۔ اپنی کتاب مُسند میں جابر ابن زید سے اس طرح روایت کرتے ہیں۔
''اخبرنی جابر ابن زید انّه سمع ابن عباس یقول: صلّیت مع رسول اللّٰه علیه (وآله) وسلم ثمانیاً جمیعاً و سبعاً جمیعاً- قال قلت لَهُ یا أبا الشعثاء اظنّه اخّر الظّهرو عَجَّل العصرو اخّر المغرب و عَجَّل العشاء قال و أنا اظنُّ ذالِکَ'' (1)
جابر بن زید کہتے ہیں کہ میں نے ابن عاس کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے رسول خدا (ص) کے ساتھ آٹھ رکعت (ظہر و عصر) اور سات رکعت نماز (مغرب و عشائ) ایک ساتھ پڑھی آپ فرماتے ہیں میں نے ابو شعثاء سے کہا: میرا خیال ہے کہ رسول خدا نے نماز ظہر تأخیر سے اور نماز عصر جلدی پڑھی اور نماز مغرب تاخیر سے اور نماز عشاء جلدی پڑھی۔ ابو شعثاء نے کہا میرا بھی یہی خیال ہے
اس روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو بلافاصلہ ادا کیا ہے۔
2۔ احمد ابن حنبل عبد اللہ ابن شقیق سے اس طرح روایت کرتے ہیں۔
''خطبنا ابن عباس یوماً بعد العصر حتّٰی غربت الشمس و بدت النجوم و عَلّق النّاس ینادونه الصّلوة و فی القوم رجل من بنی تمیم فجعل یقول: الصّلوة الصّلوة: قَال فغضب قال أَتعلّمنی بِالسّنَّة؟ شهدت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلّم جمع بین الظّهر و العصر، والمغرب و العشائ- قال عبد اللّٰه فوجدت فی نفسی من ذلک شیئاً فلقیت أبا هریره فسألته فوافقه'' (2)
ایک روز نماز عصر کے بعد ابن عباس نے خطبہ دیا یہاں تک سورج غروب ہوگیا اور آسمان پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ مُسند احمد ابن حنبل، ج1، ص 221۔
(2)۔ مُسند احمد ابن حنبل، ج1، ص 251
ستارے نکل آئے۔ اور لوگ نماز کے لیے بلانے لگے تو ان میں سے قبیلہ بنی تمیم کے ایک شخص نے
''الصلوٰة، الصلوٰة'' کی تکرار کی اُس کی آواز سن کر ابن عباس غصہ ہوگئے۔ اور فرمایا کہ کیا تم مجھے رسول
اللہ کی سنت سکھانا چاہتے ہو۔ رسول خدا (ص) کو میں نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
عبداللہ کہتے ہیں کہ اس مسئلہ کو سن کر میرے دل میں کچھ سوال اُٹھا۔ میں نے ابو ہریرہ کے پاس پہنچ کر اس سلسلہ میں سوال کیا تو انہوں نے ابن عباس کی تائید کی ۔
اس حدیث میں ''عبد اللہ ابن عباس'' اور ''ابو ہریرہ'' جیسے دو صحابیوں نے پیغمبر (ص) کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھنے کی گواہی دی اور ابنِ عباس نے پیغمبر (ص) کی سیرت کی پیروی کی۔
3۔ مالک ابن انس _ مالکی مسلک کے امام_ اپنی کتاب ''مؤطا'' میں اس طرح رقم طراز ہیں۔
''صلّی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله الظهّر و العصر جمعیاً- و المغرب و العشاء جمیعاً فی غیر خوف وَلا سفرٍ'' (1)
رسول خدا (ص) نے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی جب کہ یہ موقع نہ دشمن سے خوف کا تھا اور نہ ہی آپ(ص) سفر میں تھے۔
4۔ مالک بن انس ،معاذ ابن جبل سے اس طرح روایت کرتے ہیں۔
''فکان رسولُ اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله یجمعُ بین الظهر و العصر، والمغرب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ موطا مالک۔ کتاب الصلوٰة، ص 125، ح 178، صحیح مسلم، ج2، ص 151، باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر۔
والعشائ'' (1)
رسول خدا (ص) ، نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا کرتے تھے۔
5۔ مالک ابن انس نافع اور عبداللہ ابن عمر سے اس طرح روایت نقل کرتے ہیں۔
''کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وآله اِذا عَجّل به السَّیر یجمع بین المغرب والعشائ'' (2)
جب بھی راستہ طے کرنے کی جلدی ہوتی تو رسول خدا (ص) مغرب و عشاء کی نماز ملاکر پڑھا کرتے تھے۔
6۔ مالک ابن انس نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے۔
''اِنّ رسول اللّٰه کان یجمع بین الظهر والعصر فی سفر الی تبوک'' (3) رسول خدا (ص) تبوک کے راستہ میں ظہر و عصر کی نمازیں ملا کر پڑھا کرتے تھے۔
7۔ مالک نے ''موطا'' میں نافع سے اس طرح روایت کی ہے۔
''اِنَّ عبد اللّٰه ابن عمر کان اذا جمع الامراء بین المغرب و العشاء فی المطر جمع معهم'' (4) بارش کے وقت جب امراء مغرب و عشاء کی نماز ملا کر پڑھتے تھے تو عبد اللہ ابن عمر بھی ان کے ساتھ دونوں نمازیں ملا کر پڑھا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ موطا مالک۔ کتاب الصلوٰة، ص 134، ح 176، صحیح مسلم، جزئ2، ص 152۔
(2)۔ موطا مالک۔ کتاب الصلوٰة، ص 125، ح 177۔
(3)۔ موطا مالک، کتاب الصلوٰة، ص 124، ح 175۔
(4)موطا مالک۔ کتاب الصلوٰة، ص 125، ح 179۔
8۔ مالک بن انس علی بن حسین سے نقل کرتے ہیں۔
''کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم- اذا أراد أنْ یسیر یومه جمع بین الظُّهر و العصر و اذا أَراد أَن یسیر لیلة جمع بین المغرب والعشاء '' (1)
رسول خدا (ص) جب دن کے وقت سفر جاری رکھنا چاہتے تھے تو نماز ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے اور جب رات کے وقت سفر جاری رکھنا چاہتے تھے تو نمازِ مغرب و عشاء ملا کر پڑھا کرتے تھے۔
9۔ مالک بن انس ''موطا'' میں لکھتے ہیں۔
''عن ابن شهاب انّه سأل سالم ابن عبد اللّٰه هل یجمع بین الظهر و العصر فی السفر؟ فقال نعم لا باس بذلک- ألَم تریٰ الی الصلوٰةِ الناس بعرفةٍ ؟ ''(2)
ابن شہاب نے سالم ابن عبد اللہ سے پوچھا: کیا سفر میں نماز ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہے؟ تو سالم نے کہاں ہاں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیا تم عرفہ کے دن (میدان عرفات میں) لوگوں کی نماز نہیں دیکھتے؟
قابل ذکر ہے کہ دنیا کے سارے مسلمان عرفہ کے دن میدان عرفات میں نماز ظہر و عصر ایک ساتھ بلافاصلہ ادا کرتے ہیں یہاں سالم بن عبد اللہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح عرفہ میں دونوں نمازیں
ایک ساتھ پڑھی جاتی ہے ویسے ہی عرفہ کے علاوہ بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) ۔موطا مالک، کتاب الصلوٰة، ص 125، ح 181۔
(2)۔ موطا امام مالک، ح 18، ص 125، طبع (3) بیروت۔
10۔ محمد زرقانی نے ''موطا'' کی شرح میں ابو شعثاء سے روایت کی ہے۔
''اِنّ ابن عباس صلّی بالبصرة الظّهر والعصر لیس بینهما شیئ والمغرب و العشاء لیس بینهما شی'' (1)
عبد اللہ ابن عباس نے بصرہ میں نماز ظہر و عصر ایک ساتھ ملا کر پڑھی اور نماز مغرب و عشاء بھی یوں
ہی پڑھی۔
11۔ زرقانی نے طبرانی اور انہوں نے ابن مسعود سے روایت کی ہے۔
''جَمَعَ النَّبی صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلّم بین الظّهر والعصر و بین المغرب والعشائ فقیل له فی ذلک، فقال: صنعت هذا لئلّا تحرج أُمتّی'' (2)
پیغمبر اسلام (ص) نے ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ ادا کی اور اسی طرح نماز مغرب و عشاء بھی ایک ساتھ پڑھی جب اس سلسلہ میں آپ سے سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ اس لیے ہے کہ ''میری اُمت رنج اور سختی میں نہ پڑ جائے''۔
12۔ مسلم ابن حجاج نے ابو زبیر اور سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
'' صلّی رسول اللّٰه علیه (وآله) وسلّم الظُهر و العصر جمیعاً بالمدینه فی غیر خوفٍ ولا سفر''(3)
رسول خدا (ص) نے دشمن کے خوف اور سفر کے بغیر مدینہ میں ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ شرح زرقانی بر موطا مالک، ج1، ص 294۔
(1)۔ شرح زرقانی بر موطا مالک، ج1، ص 294۔
(2)۔ صحیح مسلم، جزئ2، ص 151۔ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر۔
اس کے بعد ابن عباس نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا '' پیغمبر اسلام (ص) یہ نہیں چاہتے
تھے کہ آپ کی امت میں سے کوئی بھی شخص زحمت میں مبتلا ہو''۔
13۔ مسلم نے اپنی صحیح میں سعید بن جبیر سے اور وہ عبد اللہ ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں۔
''جَمع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم بین الظهر و العصر، المغرب و العشائ فی المدینه من غیر خوف ولامطرٍ'' (1)
رسول خدا (ص) نے بغیر کسی خوف اور بارش کے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھی۔
سعید ابن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ایسا کیوں کیا؟
ابن عباس نے جواب دیا کہ ''آپ(ص) اپنی امت کو زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔
14۔ مسلم بن حجاج اپنی صحیح میں اس طرح رقم طراز ہیں:
''قَالَ رَجُل لابن عباس الصلوٰة فسکت ثم قال: الصلوٰة فسکت ثم قال الصلوٰة فسکت، ثُم قال لا امّ لکَ أتُعلّمُنَا بالصلوٰة و کنّا نجمع بین الصلوٰة و علی عهدرسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلم'' (2)
ایک شخص نے ابن عباس سے کہا 'نماز' آپ نے کوئی جواب نہ دیا اس نے دوبارہ کہا، نماز، آپ
خاموش رہے۔ جب اُس نے تیسری بار نماز کہا تو آپ نے فرمایا: ''لا اُمّ لک'' (تمہاری ماں نہ رہے) کیا تم مجھے نماز سکھانا چاہتے ہو؟ حالانکہ پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں ہم لوگ دو نمازوں کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ صحیح مسلم، جزء 2، ص 152۔
(2)۔ صحیح مسلم، جزء 2، ص 153۔ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر۔
ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔
15۔ مسلم روایت نقل کرتے ہیں۔
''اِنَّ رسول اللّٰهِ صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم جمع بین الصَّلوٰة فی سفرة سافرها فی غزوة تبوک فجمع بین الظهر والعصر، والمغرب والعشائ قال سعید: قُلْتُ لاِبن عبّاس: ما حملهُ علی ذلک؟ قال أراد اَنْ لا یحرج أُمّته''(1) رسول خدا (ص) نے اپنے سفر غزوہ تبوک میں نمازِ ظہر و عصر اور نمازِ مغرب و عشاء ایک ساتھ
۔پڑھی۔سعید ابن جبیر نے کہا کہ میںنے ابن عبّاس سے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا : کہ آنحضرت چاہتے تھے کہ آپ کی امّت سختی اور زحمت میں مبتلانہ ہو۔
16۔ مسلم بن حجاج معاذ کی زبانی نقل کرتے ہیں۔
''خَرَجنا مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم فی غزوة تبوک فکان یُصلّی الظهر و العصر جمیعاً والمغرب والعشاء جمیعاً'' (2)
ہم رسول خدا (ص) کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو آنحضرت نے نماز ظہر و عصر ایک ساتھ پڑھی اور نماز مغرب و عشاء بھی بلافاصلہ پڑھی۔
17۔ ابو عبد اللہ بخاری نے اپنی صحیح میں ''باب تاخیر الظہر الی العصر'' کے نام سے ایک مخصوص باب قائم کیا ہے۔ یہ عنوان خود بتاتا ہے کہ نماز ظہر کو نماز عصر کے وقت میں دیر سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں
ہے۔ اور دونوں کو ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے اس کے بعد بخاری اس باب میں مندرجہ ذیل روایت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ صحیح مسلم، جزء 2، ص 151، طبع مصر۔
(2)۔ صحیح مسلم، جزء 2، ص 151، طبع مصر۔
نقل فرماتے ہیں۔
''انَّ النَّبِی صلی اللّٰه علیه وسلم صلّی بالمدینة سبعاً و ثمانیاً الظُّهر و العصر و المغرب و العشائ'' (1)
پیغمبر اسلام (ص) نے مدینہ میں سات رکعت (نماز مغرب و عشائ) اور آٹھ رکعت (نماز ظہر و عصر) پڑھی۔
اس روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ نماز ظہر کو تأخیر سے نماز عصر کے وقت پڑھنا درست
ہے بلکہ نماز مغرب کو بھی تاخیر سے نماز عشاء کے وقت پڑھنا صحیح ہے۔
18۔ بخاری اپنی صحیح میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
''قال ابن عمرو ابو ایوب و ابن عباس رضی اللّٰه عنهم: صلّی النَّبی صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم المغرب و العِشائ'' (2)
عبد اللہ ابن عمر، ابو ایوب انصاری، اور عبد اللہ ابن عباس نے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں (بلا فاصلہ) پڑھیں۔
بخاری اس روایت سے یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ آنحضرت (ص)نے نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی ورنہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ آپ(ص) نماز ترک نہیں کرتے تھے۔
19۔ ملا علی متقی نے ''کنز العمال'' میں تحریر فرمایا ہے۔
''قال عبد اللّٰه: جمع لَنیا رسول اللّٰه مقیماً غیر مسافرٍ بین الظهر و العصر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ صحیح بخاری، جزء اول، ص 110
(2)۔ صحیح بخاری، جز اول، ص 113، کتاب الصلوٰة۔
والمغرب و العشاء فقال رجل لابن عمر: لم تری النبیّ (صلی اللّٰه علیه وآله وسلم) فعل ذلِک؟ قال لِأنْ لا یحرج امّتهُ ان جمع رجل''(1)
عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں رسول خدا (ص) نے حضر میں نمازِ ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ ایک شخص نے عبد اللہ ابن عمر سے سوال کیا کہ حضور نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے فرمایا: آپ نے اپنی امت کو زحمت سے بچانے کے لیے ایسا کیا تاکہ اگر کوئی شخص دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا چاہے تو پڑھ لے۔
20۔ نیز ''کنز العمال'' میں ہے۔
''عن جابر ان النّبی جمع بین الظهر والعصر بأذان و اِقامَتین'' (2)
جابر کہتے ہیں کہ نبی اکرم (ص) نے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھی۔
21۔ کنز العمال ہی میں مندرجہ ذیل روایت بھی درج ہے۔
''عن جابر أنّ رسول اللّٰه غربت له الشمس بِمَکَّةٍ فجمع بینهما بسرف'' (3)
جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں: رسول خدا (ص) مکہ میں تشریف فرما تھے کہ سورج غروب ہوگیا۔ جب آپ مقام ''سرف'' (4) پر پہنچے تو آپ نے مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ کنز العمال، کتاب صلاة، الباب الرابع فی صلاة المسافر، باب جمع ج8، ص 246، ط 1، حلب 1391ھ۔
(2)۔ کنز العمال، کتاب صلاة، الباب الرابع فی صلاة المسافر، باب جمع، ج8، ص 247۔
(3)۔ کنز العمال، کتاب الصلوٰة، الباب الرابع، باب جمع، ج8۔
(4)۔ ایک ایسے مقام کا نام ہے جو مکہ سے 9 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے (کنز العمال ذیل روایت)
22۔ ابن عباس کی روایت صاحبِ کنز العمال نے تحریر فرمائی ہے:
'' جمع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه (وآله) وسلم بین الظهر و العصر، والمغرب والعشاء بالمدینه فی غیر سفرٍ ولا مطرٍ قال: قلت لابن عباس لم تراه فعل ذلک؟قال: اراد التّوسعة علی امّته''(1)
رسول خدا (ص) نے مدینہ میں نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی۔ اس وقت نہ آپ(ص) سفر میں تھے اور نہ بارش کا عذر تھا۔ راوی کہتا ہے میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ پیغمبر (ص) نے دونوں نمازیں ایک ساتھ کیوں پڑھیں؟ آپ نے جواب دیا۔ آنحضر ت (ص) امت کے لیے آسانی اور وسعت فراہم کرنا چاہتے تھے۔
نتائج:
ان تمام روایتوں اور دلائل کی روشنی میں شیعہ نظریہ کی صحت واضح ہوجاتی ہے۔ اور مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں۔
1۔ دو نمازوں کا ایک ساتھ پڑھنا زحمت سے بچنے اور سہولت کے لیے تھا۔
بہت سی روایتوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اگر دو نمازوں کا ایک ساتھ پڑھنا جائز نہ ہو تو مسلمانوں کو زحمت ہوسکتی ہے مسلمانوں کی سہولت کے لیے آنحضرت نے دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا جائز قرار دیا ہے۔ 11،15، 19، اور 20 نمبر کی حدیثوں میں اس حقیقت کا اظہار ہوا ہے۔
اگر روایتوں کا مطلب یہ ہوتا کہ اہل سنت کے نزدیک نماز ظہر کا جو آخری وقت ہے اُس وقت نمازِ
ظہر ادا کی جائے (جب ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر ہوجاتا ہے) اور عصر کی نماز اول وقت پڑھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)۔ کنز العمال، کتاب الصلاة، الباب الرابع ، باب جمع ج8۔
جائے اور اس طرح جمع بین الصلاتین ہو تو ایسے کام میں نہ صرف سہولت نہیں ہے بلکہ اور زیادہ زحمت ہے جبکہ جمع بین الصلاتین کا جواز اُمت کی سہولت کے لیے ہے زحمت کے لئے نہیں۔مذکورہ بیان سے یہ بات روشن ہوگئی کہ جمع بین الصلاتین کا مقصد یہ ہے کہ تمام مشترک وقت میں دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھی جائیں یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک آخر وقت میں ادا کی جائے اور ایک اول وقت میں۔
2۔ روز عرفہ جمع بین الصلاتین سے دو نمازوں کے ایک ساتھ ملا کرپڑھنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔
روز عرفہ مقام عرفات میں دونوں نمازوں کو ملا کر پڑھنے پر تمام اسلامی فرقوں کا اتفاق ہے۔ (1)
ایسی روایتوں سے دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں نمازیں ملا کر پڑھنے کا طریقہ ہر جگہ وہی ہے جو میدان عرفات میں ہے اس میں روزِ عرفہ یا سر زمین عرفہ اور دوسرے دِنوں یا جگہوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں حدیث 9 میں جو مطالب بیان کیے گئے ہیں وہ اس مفہوم کو سمجھنے میں معاون ہیں ۔ لہٰذا جس طرح عرفہ کے دن ظہر و عصر کی نماز سارے مسلمان ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ اِسی طرح دوسرے دنوں میں بھی یہ طریقہ جائز ہے۔
3۔ سفر میں جمع بین الصلاتین سے دو نمازوں کے ایک ساتھ ملا کر پڑھنے کا طریقہ معلوم ہوتا ہے۔
ایک طرف حنبلی، مالکی اور شافعی فقہاء نے سفر کی حالت میں دو نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھنا جائز قرار دیا ہے اور دوسری طرف مذکورہ روایات یہ بتاتی ہیں کہ اس سلسلے میں سفر اور حضر میں کوئی فرق نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)- الفقه علی المذاهب الاربعه- کتاب الصلوٰة ''الجمع بین الصلاتین تقدیماً و تاخیراً''
ہے۔ اس مطلب کو 3، 12، 17، 19 اور 20 نمبر کی روایتوں میں بیان کیا گیا ہے جن کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ جس طرح سفر میں (شیعوں کے طریقہ پر) ایک ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے ویسے ہی حضر میں بھی جائز ہے۔
4۔ اضطراری صورت میں جمع بین الصلاتین سے اختیاری صورت کی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔
صحاح اور مسانید کی بہت سی روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) اضطراری حالت مثلاً بارش خوفِ دشمن اور بیماری میں دونوں نمازیں (جس طرح شیعہ کہتے ہیں) ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے،
لہٰذا مختلف اسلامی فرقوں کے فقہاء نے بعض اضطراری حالت میں اُس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے حالانکہ مذکورہ رواتیوں میں یہ ملتا ہے کہ آنحضرت (ص) نے اضطراری اور غیر اضطراری حالت میں کوئی فرق قائم نہیں کیا اور آپ نے بارش ، خوفِ دشمن اور بیماری کے بغیر بھی دونوں نمازیں ایک ساتھ ادا کیں اس حقیقت کو روایت نمبر17،12،13 اور 22 میں واضح کیا گیا ہے۔
5۔ صحابہ کی سیرت میں جمع بین الصلاتین کا طریقہ۔
مندرجہ بالا روایتوں میں ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اصحاب پیغمبر دونوں نمازوں کو ایک ساتھ ملا کر پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ عبد اللہ ابن عباس کے بارے میں ہم نے پڑھا کہ آپ نے نماز پڑھنے میں اتنی تاخیر کردی کہ تاریکی چھا گئی اور آسمان پر تارے نکل آئے دوسروں نے جب نماز، نماز کی آواز بلند کی تو آپ نے اس پر توجہ نہیں کی اور رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کی اور اعتراض کرنے والوں کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ میں نے پیغمبر (ص) کو اسی طرح پڑھتے دیکھا
ہے۔ اور اس کی تائید ابو ہریرہ نے بھی کی۔ دوسری، ساتویں ، دسویں اور چودہویں روایت میں اس کا بیان موجود ہے۔
مذکورہ روایات کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ابنِ عباس نے شیعہ طریقہ کے مطابق ایک وقت میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔
6۔ سیرت پیغمبر (ص) میں جمع بین الصلاتین کا طریقہ۔
اکیسویں حدیث سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مغرب کے وقت آنحضرت مکہ میں تھے پھر بھی آپ نے مغرب کی نماز تاخیر سے نماز عشاء کے ساتھ ملا کر اُس وقت ادا کی جب آپ(ص) مقامِ ''سرف'' میں پہنچ گئے جو مکہ سے نو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگر آپ مغرب کے وقت بھی مکہ سے نکلے ہوں گے تو اس وقت کی سواری سے مقام سرف تک پہنچتے پہنچتے رات کا کچھ حصہ گزر چکا ہوگا آپ
نے عشاء کے وقت نماز مغرب و عشاء دونوں ایک ساتھ ادا کی ہوں گی۔
جتنی بھی روایتیں اہل سنت کی صحاح اور مسانید سے نقل کی گئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جمع بین الصلاتین کا شیعہ نظریہ صحیح ہے۔ ہر جگہ اور ہر زمانہ میں ظہر و عصر اور مغرب وعشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کی جاسکتی ہے۔
یاد دہانی:
ہمیں اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ آج کے اس مصروف دور میں بہت سے محصّلین اور ملازمین کے لیے پانچ اوقات میں نماز ادا کرنا نہایت دشوار ہے لہٰذاایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ حضور اکرم(ص) کی آئندہ نگری اور آپکی دی ہوئی رخصت اوراجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نماز
پنجگانہ کوتین اوقات میں ادا کریں تاکہ کسی کے پاس بھی نماز کو چھوڑنے کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔
کیا سنّت پر اسقدر اصرار کہ وہ فریضہ الٰھی کے ترک کا موجب بنے صحیح ہے ؟!کم از کم اہل سنّت کے علماء اس بات کو قبول کریں کہ انکے نوجوان اس مسئلہ میں اہل بیت (ع)کے پیروکاروں کی پیروی کریں جیسا کہ'' جامعةالازھر''(مصر) کے سربراہ جناب محمود شلتوت نے مذھب جعفری کے مطابق عمل کو صحیح قرار دیا ہے .وہ فرماتے ہیں :جعفری مذہب ، مشہور اثنأعشری امامیہ مذہب ہے اور ان مذہبوں میں سے ہے کہ اہل سنت کے تمام مذہبوں کی طرح اسکی بھی تقلید کی جاسکتی ہے ۔
لہذابہتر ہے کہ تمام مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہوں اور کسی خاص مذہب سے تعصب کرنے سے پرہیز کریں کیونکہ اللہ کا دین اور اس کا قانون کسی خاص مذہب کے تابع نہیں اورکسی معین و مخصوص مذہب میں منحصر نہیں ہے۔ (اسلامی مذاہب کے پیشوا) سب مجتہدین خداوند متعال کے نزدیک مقبول ہیں اور جو لوگ اہل نظر اور صاحب اجتہاد نہیں ہیں ان کے لیے جائز ہے کہ ان حضرات کی تقلیدکریں اور جو کچھ انہوں نے فقہ میں مقرر کیا ہے اس پر عمل کریں ۔اس سلسلے میں عبادات و معاملات میں کوئی فرق نہیں ہے۔(1)
وما التّوفیق الّا باللّہ
سےّد نسیم حیدر زیدی
قم المقدسہ
-----------------------------------
(1)رسالہ الاسلام ،طبع مصر ،شمارہ سوم ،گیارھواں سال
فہرست منابع
1۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ۔ عبد الرَّحمٰان جزیری
2۔ المغنی، عبد اللہ ابن قدامہ
3۔ الشرح الکبیر
4۔ المجموع ۔ ابی ذکریا محیی الدین
5۔ حلیة الاولیائ۔ حافظ ابو نعیم اصفہانی
6۔ شیعہ پاسخ میگوید ۔ آیة اللہ ناصر مکارم شیرازی
7۔ مفردات ۔ راغب
8۔ زاد المیسر فی علم التفسیر ۔ امام جوزی
9۔ معجم مقاییس اللغة ۔ ابن فارس
10۔ النھایہ ۔ ابن کثیر
11۔ مجمع البیان ۔ شیخ طبرسی
12۔ الدر المنثور ۔ جلال الدین سیوطی
13۔ الکشاف ۔ زمخشری
14۔ وسایل الشیعہ ۔ حرّ عاملی
15۔ السنن الکبریٰ ۔ البیہقی
16۔ المعجم الوسیط ۔ ابراھیم مصطفیٰ
17۔ تفسیر عیاشی ۔ مسعود عیاشی
18۔ تفسیر کبیر ۔ فخر رازی
19۔ تفسیر روح المعانی۔ آلوسی
20۔ صحیح بخاری
21۔ صحیح مسلم
22۔ مُسند۔ احمد ابن حنبل
23۔رسالہ الاسلام ،طبع مصر ،شمارہ سوم ،گیارھواں سال
با تشکر از سایت الحسنین
Comments powered by CComment