تالیف: مولانا سید نسیم حیدرزیدی
( ولقد بعثنا فی کلّ امّةٍ رسولاًان اعبدوا اﷲواجتنبوا الطّاغوت )
ہم نے ہر امّت کے درمیان ایک پیغمبر مبعوث کیا ہے تاکہ خدا کی پرستش کریں اور خدا کے علاوہ ہر معبود سے اجتناب کریں۔
(سورہ مبارکہ نحل آیت ٣٦ )
باب اوّل : توحید ودلائل توحید
مسئلہ توحید جو ما سوا اللّہ کے وجود کی نفی اور خداوند متعال کے اثبات کے مضمون پر دلالت کرتا ہے ، تمام ادوار میں پیغمبران ِ خدا کی دعوت کا اساس رہا ہے ۔تمام انسانوں کو چاہیے کہ خدا کی پر ستش کریں اور دوسرے موجودات کی عبادت اور پرستش سے اجتناب کریں ۔ایک خدا کو ماننا اور دوئی کی زنجیروں کو توڑنا خداکی طرف سے بھیجے ہوئے بنیادی ترین احکام میں سے ایک ہے ۔تمام انبیائے الٰہی (ع)کے مشن میں جو چیز سر فہرست ہے وہ یہی ہے ۔گویا تمام انبیاء (علیہم السّلام )ایک ہی ہدف کے لیئے چنے گئے ہیں اور وہ یہ کہ مسئلہ توحید اور یکتا پرستی کو انسانوں کے دلوں میں راسخ کریں ۔اور شرک کے خلاف بطور مطلق جہاد کریں ۔
قرآن مجید نے اس حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
١ ( ولقد بعثنا فی کلّ امّةٍ رسولاًان اعبدوا اﷲواجتنبوا الطّاغوت )(١)
''ہم نے ہر امّت کے درمیان ایک پیغمبر مبعوث کیا ہے تاکہ خدا کی پرستش کریں اور خداکے علاوہ ہر معبود سے اجتناب کریں''۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورہ مبارکہ نحل آیت ٣٦
٢ (وماارسلنا من قبلک من رسول الّا نوحی الیه انّه لااله الاّ انا فاعبدون )(٢)
''آپ سے قبل ہم نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اسے ہم نے وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں اور
میری ہی عبادت و بندگی کرو ''
قرآن مجید نے خدا کی عبادت اور پر ستش کو تمام آسمانی شریعتوں کے لیئے ''اصل مشترک ''کے طور پر پہچنوایا ہے
(قل یا اهل الکتاب تعالوا الی کلمةٍسوائٍ بینناو بینکمالّانعبدو االّاﷲولا نشر ک به شیئاً)(١)
''اے رسول آپ کہدیجئے،کہ اے اہل کتاب آو اس کلمہ کو قبول کریں جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کے علاوہ ہم کسی کی پرستش نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں ۔
قرآن مجید نے اسی اساسی اور بنیادی مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیئے متعدد دلائل اور براہین قاطعہ پیش کیے ہیں جنھیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔دلائل نظری اور دلائل مشاہداتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورہ مبارکہ نحل آیت ٣٦ (٢)سورہ مبارکہ انبیاء آیت ٢٥
(١)دلائل نظری
قرآن مجید نے نظری استدلال کا اندازو اسلوب اختیار کرتے ہوئے اثبات توحید کے باب میں متعدد مقامات پر جو ارشاد فرمایا ہے یہاں اس کا بیان مقصود ہے
پہلی دلیل:
قرآن مجید تصوّر توحید کو انتہائی مثبت اور انوکھے انداز میں یوں پیش کرتا ہے
(والٰهکم الٰه واحد لآاله الاهو الرّحمن الرّحیم )(١)
'' اور تمھارا معبود خدائے واحد ہے اس کے سواء کوئی معبود نہیں (وہ) نہایت مہربان بہت رحم والا ہے''
ابتدائے آفرینش سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ توہماتی طورپر ہر اس وجود کو منصب الوہیت پر فائز کرکے اس کی بندگی اور پرستش کا خوگر بنا رہا ،جس سے اس کی ذات کے لئے مادی منفعت کا کوئی پہلو نظر آتا تھا ،ایک نادیدہ خدا کا تصوّر اس کے لئے عجیب وغریب بات تھی ۔
اس کائنات رنگ و بو میں خدا کی ربوبیت نے جتنے بھی اسباب مہیا فرمائے اور مظاہر قدرت پیدا کئے ہیں وہ سب کسی نہ کسی طرح انسان کی خدمت بجا لانے اور اس کے لئے منفعت اندوزی کا سامان مہیا کر نے میں لگے ہوئے ہیں ۔انسان نے اپنی اس ازلی اور فطری کمزوری کی بنا پرعناصر اربعہ آگ ،پانی ،مٹی ،ہوا اور ان کے متعلقات
………………
(١) سورہ مبارکہ بقرہ ٢:١٦٢
کو جن سے وہ کسی نہ کسی صورت میں تمتّع حاصل کرتا رہا ،مقام الوہیت پر لا بٹھایااور اپنی نادانی اور کوتاہ نظری سے انہیں خدایا خدا تک پہنچنے کا ذریعہ تصوّر کرتا رہادرج بالا آیہ کریمہ میں اس باطل تصوّر کی نفی کرتے ہوئے انسان پر یہ حقیقت واشگاف کی جارہی ہے کہ وہ ذات جونفع رساں اور مسلسل ا پنی بے پایان رحمت عمومی کے خزانے نچھاور کرنے والی ہے ہی ،منصب الوہیت کی سزاواراور اس لائق ہے کہ جبینِ نیاز اسی کے سامنے جھکائی جائے ۔وہی لازوال ہستی جو تمھارے معاش کی حاجتوں کو پورا کرنے والی اورمعاد کی حاجتوںاور ضرورتوں کو بھی فراہم کرنے والی ہے اس بات کی مستحق ہے کہ تم اپنا سر تسلیم اور جبیں بندگی اسی کے سامنے خم کرو اور سبھی معبودان باطلہ کی پرستش و بندگی سے باز آجاو۔
دو سری دلیل:
قرآن مجید سورہ بقرہ کی ١٦٤ ویں آیت میں اسی عقلی و نظری استدلال کو بروئے کار لاتے ہوئے انسان کو تخلیق کائنات اوراختلاف لیل ونہار کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے ۔ ارشاد ربّ العزت ہے ۔
(انّ فی خلق السمّوات والارض واختلاف الّیلِ والنّهارِلایات لّقومِ یعقلون )
''بے شک آسمانوںاور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ''
اس آیہ کریمہ میں انسان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جارہی ہے کہیہ کائنات ارضی و سماوی تو خود مخلوق ہے لہذا یہ الہٰ کیسے ہوسکتی ہے منصب الوہیت پر فائز ہونے کی حقدار تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو پیدا نہ کی گئی ہو ،اس لئے کہ پیدا کی جانے والی ذات حادث تصوّر ہو گی اور حادث ذات کبھی الہٰ نہیں ہوسکتی۔
تیسری دلیل:
قرآن مجید میں ایک مقام پرخداوندمتعال نے اپنی خالقیت وربوبیت کو اپنی الوہیت ومعبودیت کی عقلی دلیل کے طور پر ان الفاظ میں پیش کیا ہے ۔
(یا أيّها الناس اعبدوا ربّکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلّکم تتّقون الذی جعل لکم الارض فراشاًوّالسمائَ بنائًوانزل من السّمائِ مائً فاخرج به من الثّمرات رزقاًلّکم فلا تجعلوا للّه انداداًوّانتم تعلمون ) (١)
'' اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پیشتر تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جاو۔جس نے تمھارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمانوں سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے تمھارے کھانے کے لئے پھل پیدا کئے پس تم اﷲ کے لئے شریک نہ ٹھراو حالانکہ تم جانتے ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورہ مبارکہ بقرہ،٢:٢١۔٢٢
اس آیہ کریہ میں اس حقیقت کی نشاندہی ہے کہ بنی نوع انسان کی تمام گزشتہ اور آئندہ
نسلوں اور انسانیت کے تمام طبقوں کو معرض وجود میں لانے والی اور ان کی کفالت کرنے والی واحد ہستی ہی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کے سامنے سر بندگی اور جبین نیاز خم کی جائے ۔اس انداز استدلال سے اس بات کا استشہاد کیا گیا ہے کہ جب سب کو پیدا کرنے والی اور پرورش وتربیت کرنے والی ذات رب ذو الجلال کی ہے تو انسان کس وجہ سے معبودان ِ باطلہ کو اس کے ساتھ عبادت میں شریک کرتا ہے ۔گویا خالقیت اور ربوبیت میں یکتا اور واحد ہونا اس کی الوہیت و معبودیت میں یکتا و واحد ہونے پر محکم دلیل ہے ۔کیوں کہ یہ بات عقل ِسلیم کے خلاف ہے کہ انسان کو پردہ نیستی سے وجود میں لانے والی اور اس کی تمام فطری اور جبلّی ضرورتوں کی تکمیل و تسکین کا سامان فراہم کرنے والی تو اس کی ذات ہو اور وہ عبادت کسی اور کی کرتا رہے ۔جب وہ اوّلین وآخرین سب کا خالق و مالک اور پروردگار ہے تو اسے چھوڑ کر کسی مخلوق کی عبادت کرنا یا اﷲ کی عبادت کے ساتھ اس کو شریک کرلینا عقل و فہم کی رو سے کب جائز وروا ہوگا۔
مشاہداتی دلائل:
خدا کی ہستی اور اثبات توحیدپرقرآن ِ مجید کا طرز واسلوبِ استدلال اس ہمہ گیر ربوبیت کے نظام میں تعقّل و تفکّر اورتدبّر کی دعوت دیتاہے جو اس کائنات بسیط میں ایک خاص نظم و ضبط اور ترتیب و قاعدے کے ساتھ بندھا ہوا ہے ۔چنانچہ قرآن جا بجا انسان کوعالم انفس ،آفاق میں تدبّر کی دعوت دیتا ہے اور اس سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے
کہ وہ اپنی اور اس کائنات کی خلقت پر غور کریاور دیکھے کہ یہ کارخانہ حیات کس نظم وانضباط کے ساتھ چل رہا ہے ۔ انسان اگر غور و فکر کرے تو خود اپنی پیدائش اور عالم گرد و پیش کے مشاہدات اس پر عرفان ذات اور معرفت خداوند متعال کے بہت سے سر بستہ راز کھول دیں گے ۔اس سلسلے میں قرآن مجید نے جن دلائل سے ذات باری تعالیٰ کی توحید پر استشہاد کیا ہے ان میں سے چند کا اجمالی تذکرہ ذیل میں کیا جا رہا ہے۔
پہلی دلیل:
اگر گوش اور دیدہ بینا کو وا کرکے ہم کائنات کی کھلی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس کے ورق ورق سے ایک پروردگار کے وجود کا اعلان ہوتا دکھائی دے گا۔اس کے اندر سے یہ پکار سنائی دے گیکہ اس کائنات کی تخلیق با لحق ہوئی ہے ۔انسان بے ساختہ اس بات کے اقرار پر مجبور ہوگا کہ (ربّنا ما خلقت ھذا باطل ) (١)
''اے ہمارے رب ! تونے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا ۔
دوسری دلیل:
قرآن اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان کائنات میں کار فرما نظام ِ ربوبیت کا بے لاگ مطالعہ کرنے بیٹھے اور اس کے وجدان میں ایک ربّ العالمین ہستی کے ہونے کایقین انگڑائیاں نہ لینے لگے ۔یہ ممکن ہے کہ انسان سرکشی ،اور تمرّد اور غفلت کی بنا پر ہر چیز سے انکار کردے ، لیکن وہ اپنی فطرت سے انکار نہیں کرسکتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) آل عمران ٣: ١٩١
اس کی فطرت سلیمہ کے خمیر میں خدا پرستی کا جذبہ خوابیدہ حالت میں ودیعت کیا گیا ہے ۔ جب اس کی غفلت کا پردہ چاک ہوتا ہے تو اس کا وجدان خود اس کی رہنمائی کرکے اسے اس کے مدّعا تک پہنچادیتا ہے ۔
چنانچہ قرآن مجید نے اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے ۔
( بل الانسان علیٰ نفسه بصیر ة)(١)
''بلکہ انسان خود بھی اپنی حالت پر مطلّع ہے ''
تیسری دلیل :
قرآن مجید میں ایسے مقامات ہیں جن میں ایک وسیع البنیاد نظام ربوبیت سے توحید باری تعالیٰ پر استدلال کیا گیا ہے ،بے شمار ہیں ۔لیکن یہاں طوالت کے خوف سے صرف چند ارشادات پر اکتفا کیا جائے گا ۔
انسان سے مخاطب ہو کر فرمایا گیا
( فلینظر الانسان الیٰ طعامه انّا صببنا المأئَ صبّا ثمّ شققنا الارض شقاًفانبتنا فیها حبّا)(٢)
''پس انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کی طرف غور کرےبشک ہم ہی نے خوب پانی برسایا پھر ہم نے زمین کو جابجا پھاڑدیاپھر ہم نے اس میں غلّہ پیدا کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ مبارکہ قیامت ،٧٥:١٤
(٢)سورہ مبارکہ عبس ،٢٤۔۔٢٧
یہاں ''فلینظر الانسان '' کے ابتدائی کلمات ہی انتہائی فکر انگیز اور بصیرت افزاء ہیں ۔انسان ہر چیز سے غافل ہو سکتا ہے لیکن وہ اپنی خوراک کی طرف سے آنکھیں نہیں پھیر سکتا ۔وہ دانہ گندم پر بیج سے پودا بننے کے نامیاتی عمل پر غور کرے تو نظام کائنات کے باطن میں جھلکنے والی ربوبیت اسے اس کار خانہ حیات کے پیدا کرنے والی ہستی کا سراغ دے گی ۔
سورہ نحل میں خدا کے کارخانہ ربوبیت کی مثال شہد کی مکھی سے انتہائی بلیغ پیرائے میں دی گئی ہے ارشاد ربّ العزت ہے ۔
(واوحیٰ ربّک الیٰ النحل ان اتّخذی من الجبال بیوتاًو من الشجروممّایعرشون ) (١)
''اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوںمیں اور بعض چھپروں میں جھنیں لوگ اونچا بناتے ہیں۔''
یہ بات طے شدہ ہے کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جسے پرورش کی احتیاج نہ ہو جس طرح ہر چیز جو مخلوق ہے اپنے خالق پر دلالت کرتی ہے ۔ایسی ہر چیز جو مربوب ہے اس کے لئے لازمی ہے کہ اس کا ایک رب بھی ہو۔
رحم مادر میں پرورش پانے والے جنین کو غذاپہنچانے کے پیچیدہ نظام کے مطالعہ سے نظام ربوبیت کی وہ کرشمہ سازیاں عیاں ہوتی ہیں جو کسی پرورش کرنے والی ہستی کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ مبارکہ نحل،:٦٨
خبر دیتی ہیں ۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہر ایک کی پرورش ہو رہی ہو اور پرورش کرنے والی کوئی ذات موجود نہ ہو۔خود بخود تخلیق کے تصوّرکی کوئی سائنسی بنیاد نہیں اور اس کی لغویت اتنی آشکارا ہے کہ غیر جانبدارانہ تعقّل و تفکّر سے انسان خدا کے وجود کا اقرار کئے بغیر رہ نہیں سکتا ۔
باب دوم :توحید اور شرک کا معیار
توحید اور شرک کی بحث میں سب سے اہم مسئلہ دونوں کے معیار کی شناخت ہے۔ اگر کلیدی طور پر اس مسئلہ کو حل نہ کیا گیا تو بہت سے بنیادی مسائل کا حل ہونا مشکل ہے لہٰذا ہم مختصرطور پر توحید اور شرک کے مختلف پہلوئوں پر بحث کریں گے۔
١۔ توحید ذات
توحید ذات کی دو صورتیں ہیں:
الف: خدا (علماء کلام کی تعبیر کے مطابق ''واجب الوجود'') ایک ہے اس کی مثل و نظیر نہیں ہے۔ یہ وہی توحید ہے جس کو خداوند عالم نے قرآن مجید میں مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ مثلاً :
(لیس کَمِثْلِهِ شیئ) (١)
کوئی چیز اس کی مثل و نظیر نہیں ہے۔
یا دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ سورہ مبارکہ شوریٰ، آیت ١١۔
(وَ لَمْ یَکُنْ لَه' کُفْواً أَحَدا) (١)
کوئی اس جیسا نہیں ہے۔
قدیم فلاسفہ و حکماء کے نزدیک یہ کائنات دو حصوں میں منقسم ہے ۔
١۔ ممکن الوجود
٢۔ واجب الوجود
ممکن الوجود کے زمرے میںوہ سب وجود اور چیزیں شامل ہیں جن کا ہست و نیست ہونا اور موجود و معدوم ہونا دونوں جائز اور روا ہے اور ان کے وجود پر کائنات کے وجود کا انحصار نہ ہو ۔گویا دوسرے لفظوں میں ان کا وجود اور عدم وجود برابر و یکساں ہے۔ اگر ان مختلف ا لنوع ا شیاء کا کائنات میں وجود مان بھی لیا جائے تب بھی درست ہے اور اگر نہ مانا جائے تب بھی درست و جائز ہے ۔اس میں خداوند متعال کے علاوہ کائنات کی ہر چیز شامل ہے جبکہ اس کے بر عکس واجب الوجود ہستی سے مراد وہ ذات ہے جس کے وجود پر کائنات کے وجود کا انحصار ہے اور اس کاہر آن ،ہر زمانے اور ہر کیفیت میں ہونا بہر حال ضروری ہے ۔اس کے عدم وجود کا تصوّر بھی ناممکن ومحال ہے ۔اس بنا پر جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلان چیز واجب ہے تو اس کا معنیٰ لا محالہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا ہونا لازمی ہے اور نہ ہونے کا سوال ہی خارج از بحث ہے ۔اس کا اطلاق صرف اور صرف خداوند متعال کی ذات مطلق پر ہوتا ہے کہ تنہا وہی ایک ایسی ہستی ہے جو ازل
………………………
(١)۔ سورہ مبارکہ اخلاص، آیت ٤۔
سے موجود ہے اور ابد تک رہے گی اور اس کے وجود پرتمام کائنات کا دارو مدار ہے ۔
البتہ اس طرح کی توحید کی کبھی عوامی صورت سامنے آتی ہے جس میں توحید عددی کا رنگ شامل ہوتاہے اور کہا جاتا ہے کہ ''خدا ایک ہے'' دو نہیں ہیں ظاہر ہے کہ اس قسم کی توحید مقامِ الوہیت کے شایانِ شان نہیں ہے خدا کی ذات بسیط ہے مرکب نہیں ہے کیونکہ اجزائے ذہنی یا اجزاء خارجی سے کسی موجود کی ترکیب کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اجزاء کا محتاج ہے اور احتیاج، امکان کی دلیل ہے۔ امکان اور علت کی احتیاج کا لازم و ملزوم ہونا واجب الوجود کی شان کے خلاف ہے۔
٢۔ توحید خالقیت
توحید خالقیت عقل و نقل کے اعتبار سے قابل قبول ہے عقلی اعتبار سے اللہ کے علاوہ، ایک امکانی نظام ہے جس میں کسی قسم کا کوئی کمال یا جمال نہیں پایا جاتا۔ اس نظام کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ''غنی بالذات'' منبع فیض کی دِین ہے۔ لہٰذا دنیا میں کمال و جمال کے جو بھی جلوے نظر آتے ہیں سب اسی کی عطا ہیں۔
توحید خالقیت کے موضوع پر قرآن میں بہت سے آیتیں ہیں نمونہ کے طور پر ہم یہاں ایک آیت پیش کر رہے ہیں:
(قل اللّٰه خالق کل شیئٍ وهو الواحد القهار) (١)
کہہ دیجئے کہ ہر چیز کا پیدا کرنے والا خدا ہے جو ایک اور غالب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ سورہ مبارکہ رعد، آیت ١٦۔
کلی طور پر توحید خالقیت میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، البتہ پیدائش کی دو تفسیریں بیان کی جاتی ہیں۔
الف: موجودات کے درمیان ہر طرح علت و معلول اور سبب و مسبب والا قانون ''علة العلل'' اور مسبب الاسباب تک منتہی ہوتا ہے درحقیقت مستقل اور حقیقی خالق خدا ہے۔ اپنے معلولات میں غیر خدا کی اثر اندازی خدا کی اجازت اور مشیت کے بغیر ناممکن ہے۔
اس نظریہ میں اس علت و معلول والے نظام کا اعتراف ہے جو دنیا میں کارفرما ہے اور علم بشر نے بھی اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ سارا نظام کسی نہ کسی انداز سے خدا سے متعلق ہے۔ وہ اس نظام کا خالق ہے۔ اسباب و علل کو اسباب و علل بنانے والا اور مؤثر کو تاثیر عطا کرنے والا وہی ہے۔
ب: دوسرا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک خالق کا وجود ہے اور وہ خدا ہے نظام ہستی میں اشیاء کے درمیان کسی طرح کی تاثیر و تأثر نہیں ہے ۔ وہ بلا واسطہ ساری طبیعی اشیاء کا پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کی طاقت بھی اس کے فعل پر اثر انداز نہیں ہوتی۔اس وجہ سے کائنات میں ایک ہی علت ہے۔ اس کے سوا اور کسی علت کا وجود نہیں ہے۔ علم جِسے علل طبیعی کے عنوان سے روشناس کراتا ہے۔ وہ وہی ذات ہے اور بس!
توحید خالقیت کے موضوع پر یہ تفسیر اشاعرہ نے پیش کی ہے لیکن اشاعرہ سے بعض
اشخاص نے اس تفسیر سے انکار کیا ہے اور پہلی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ مثلاً۔ امام الحرمین (١) اور شیخ محمد عبدہ نے رسالہ توحید میں اسی رُخ کو اختیار کیا ہے۔
٣۔ کائنات کی تنظیم میں توحید
چونکہ کائنات کا پیدا کرنے والا خدا ہے۔ اس لیے نظام ہستی کا چلانے والا بھی اسی کو ہونا چاہیے۔ دنیا کا منتظم صرف ایک ہے اور جس عقلی دلیل سے خالق کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے اِسی سے کائنات کے منتظم کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے۔
قرآن مجید نے بھی مختلف آیتوں میں یہی بتایا ہے کہ منتظم کائنات ایک ہے۔
( قُلْ أغَیْرَ اﷲِ أبْغِی رَبًّا وَهُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْئٍ) (٢)
کہہ دیجئے کہ کیا میں خدا کے علاوہ کوئی دوسرا پروردگار ڈھونڈوں حالانکہ تمام چیزوں کا رب وہی ہے۔
توحید خالقیت میں جو دو تفسیریں بیان کی گئی تھیں، وہی مدبر ومنتظم کائنات کی توحید میں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ ہماری نظر میں مستقل اور اصلی مدبر خدا ہی کی ذات ہے۔
چونکہ نظام ہستی میں سب کچھ خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ سے انجام پاتا ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے بھی ان تدبیر اور تنظیم کرنے والوں کی طرف اشارہ کیا ہے جو خالق کی ذات سے وابستہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ ملل و نحل: شہرستانی، ج١۔
(٢)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت ١٦٤۔
(فَالْمُدَبِّرٰاتِ أمْراً) (١)
وہ نظام ہستی کا انتظام کرنے والے ہیں۔
٤۔ توحیدِ حاکمیت
توحید حاکمیت سے مراد یہ ہے کہ حقِ ثابت کے عنوان سے حکومت کا حق صرف اللہ کو ہے اور سارے انسانوں پر صرف وہی حاکم ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(ان الحکم اِلّا اللّٰه) (٢)
صرف خدا کو حاکمیت کا حق ہے۔
اس بنا پر خدا کی مشیت سے ہی دوسروں کی حکومت قائم ہوسکتی ہے تاکہ نیک انسان معاشرہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں سنبھالیں اور منزلِ سعادت و کمال کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں۔
قرآن خود کہتا ہے:
(یَادَاوُودُ ِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الَْرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقّ) (٣)
اے دائود ہم نے تم کو زمین پر اپنا نمائندہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں کے درمیان حق فیصلے کرو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ سورہ مبارکہ نازعات، آیت ٥۔
(٢)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت ٤٠۔
(٣)۔ سورہ مبارکہ ص، آیت ٢٦۔
٥۔ اطاعت میں توحید
بالذات جس کی پیروی لازم ہے وہ خداوند عالم کی ذات ہے۔ اس بنا پر انبیائ، ائمہ ٪ فقیہ، ماں باپ وغیرہ کی اطاعت خدا کے حکم اور ارادہ کی پابند ہے۔
٦۔ قانون سازی کے مسئلہ میں توحید
اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون سازی اور شریعت بنانے کا حق صرف خدا کو حاصل ہے اسی وجہ سے ہماری آسمانی کتاب کے مطابق جو حکم قانون الٰہی حدوں سے خارج ہو وہ کفر، فسق اور ظلم و ستم ہے۔
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْکَافِرُون) (١)
جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْفاسِقُون) (٢)
جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ فاسق ہیں۔
( وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنزَلَ اﷲُ فَأُوْلَئِکَ هُمْ الْظَالِمُون) (٣)
جو قانون الٰہی کے مطابق حکم نہیں کرتے وہی لوگ ظالم ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت ٤٤۔
(٢)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت ٤٧۔
(٣)۔ سورہ مبارکہ ص، آیت ٤٥۔
٧۔ عبادت میں توحید
عبادت میں توحید کی بحث کا اہم جزو یہ ہے کہ عبادت کے معنی کا تعین ہوجائے کیونکہ توحید عبادی ایک اتفاقی مسئلہ ہے اور مسلمانوں کے تمام گروہ اس کے بارے میں ایک ہی نقطہ نظر رکھتے ہیں یہ صحیح ہے کہ معتزلہ (١) ''توحید افعالی''میںاور اشاعرہ ''تو حید صفاتی ''میںاختلاف نظر رکھتے ہیں مگر اس اصل میں وحدت نظر رکھتے ہیں اور کوئی مسلمان ایسا نہیں جو اس اصل سے انکار کرے اور اگر کسی قسم کا اختلاف ہے بھی تو اس کا تعلّق مصادیق سے ہے یعنی مسلمانوں میں سے کچھ لوگ بعض افعال کو عبادت سمجھتے ہیں ،جبکہ بعض اسے تعظیم و تکریم کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ لہذا یہی وہ مناسب مقام ہے جہاں ہمیں ''عبادت '' کے معانی قرآن ااور لغت کے اعتبار سے مکمل واضح کرنے چاہئیں ،تاکہ ان موارد اور مصادیق کی صورت ِحال خود بخود روشن و آشکار ہوجائے ۔
مزید واضح الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ '' توحید عباد ی ''ایسی چیز نہیں ہے جو ایک مخصو ص گروہ سے وابستہ ہو بلکہ ہر وہ شخص جو ایک خدا کی پرستش کرتا ا سے یہ معلوم ہے کہ عبادت خدا کی ذات سے مخصوص ہے۔ اگر اس کے خلاف کسی کا عقیدہ ہو تو اس کو موحد نہیں کہا جائے گا۔ تاہم جو چیز محل نزاع ہے وہ کچھ ایسے اعمال ہیں جنہیں مسلمانوں کا ایک گروہ عبادت سمجھتا ہے ۔جبکہ دوسرے کے نزدیک ان کا عبادت سے دور کا بھی تعلق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) جس طرح اہل سنّت فقہی لحاظ سے چار فرقوں میں تقسیم ہوتے ہیں (حنفی ،مالکی ،شافعی ،حنبلی ) اسی طرح عقیدہ کے اعتبار سے دو بڑے فرقوں میں تقسیم ہوتے ہیں ، معتزلہ اور اشاعرہ
نہیں ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ''عبادت'' اور ''غیر عبادت'' کے پہچاننے کا معیار کیا ہے؟
کیا ماں باپ، معلم ، علماء کا ہاتھ چومنا یا جو احترام کا مستحق ہو اس کا احترام کرنا عبادت ہے؟ یا مطلق خضوع اور احترام کا نام عبادت نہیں ہے بلکہ اس خضوع اور احترام میں کسی ایک عنصر کا ہونا لازمی ہے جب تک وہ عنصر نہ پایا جائے اس وقت تک اس فعل کو عبادت نہیں کہا جائے گا۔
اب اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ وہ کون سا عنصر ہے جس کے بغیر خضوع اور احترام عبادت نہیں بنتا؟ اور یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
عبادت کا غلط مفہوم:
الف :عبادت بمعنی خضوع و تذلّل
بعض اہل لغت نے ''خضوع'' یا ''اظہار تذلّل'' کو عبادت قرار دیا ہے۔ اس قسم کی تفسیر لفظ عبادت کے صحیح اور کامل معنی ٰکو بیان نہیں کرسکتی کیونکہ :
١۔اگر ''عبادت''خضوع اور تذلّل کے مترادف ہو تو دنیا میں کسی شخص کو موحد نہیں کہا جاسکتا ہے ، کیونکہ یہ انسا نی فطرت ہے کہ وہ مادی و معنوی بالا و برتر کمالات کے حامل انسانوں کے مقابلے میں خاضع اور خاشع ہوتا ہے ۔مثلا شاگرد استاد کے مقابلے میں ، بیٹا ،ماں باپ کے مقابلے میں وغیرہ
٢۔قرآن مجید اولاد کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ بصورت تذلّل اپنے شانوں کو والدین کے
سامنے جھکائیں ،لہذا ارشاد ربّالعزت ہوتا ہے
(واخفض لهما جناح الذل من الّرحمةوقل ربّ ارحمهما کما ربّیانی صغیراً )(١)
''ذلت کے شانوں کو محبت کی علامت کے طور پر ان کے سامنے جھکاؤ اور کہو :خداوندا!ان (والدین) پر رحم فرما جس طرح بچپن میںانہوں نے میری تربیت و پرورش کی ہے ۔
اگر خضوع اور تذلّل ہی عبادت کی علامت ہو تو پھر مطیع وفرما نبر دار اولاد کو مشرک اور عاق شدہ اولاد کو موحّد سمجھا جائے!
ب: عبادت بمعنیٰ ''بے انتہا خضوع''
بعض مفسرین جب اہل لغت کی تفسیر میں موجود نقص سے مطلع ہوئے تو اس کی کمی کو پورا کر نے اور نقص کو دور کرنے کے در پے ہوئے ، اور اس تفسیرکو ایک نئی شکل میں پیش کیا اور کہا: عبادت ، کمال و عظمت کے احساس کے ہمراہ بے انتہاخضوع ہے ۔تاہم اس تفسیر اور پہلی تفسیر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے
ایسے افراد قرآن مجید کی بعض آیتوں کو حل کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ قرآن مجید نے بہت ہی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔
(وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَةِ اسْجُدُوا لِآدَم) (٢)
……………………
(١)(سورہ اسراء آیت ٢٤) (٢)۔ سورہ مبارکہ بقرہ، آیت٣٠۔
ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو۔
اور محترم قارئین اس چیز کو بخوبی جانتے ہیں کہ''سجدہ ''تذلّل اور لامتناہی خضوع کے اظہار کا ایک مصداق ہے ۔اگر اس قسم کا فعل عبادت کی علامت ہو تو خداکے مطیع فرشتوں کو مشرک اور سرکش شیطان کو موحّد کہنا چاہئے ۔
قرآن مجید نے ایک دوسرے مقام پر جناب یعقوب کا قصہ یوں بیان کیا ہے کہ جناب یعقوب اور ان کے بیٹوں نے جناب یوسف ـ کو سجدہ کیا۔
( وَرَفَعَ أَبَوَیْهِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا وَقَالَ یَاَبَتِ هَذَا تَاْوِیلُ رُؤْیَای مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّی حَقًّا) (١)
حضرت یوسف ـ نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب نے ان کا سجدہ کیا اور یوسف ـ نے کہا باباجان! یہ اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے دیکھا تھا۔ خدا نے اس کی حقانیت ثابت کردی۔
حضرت یوسف ـ نے خواب میں دیکھا تھا:
(ِنِّی رَأَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَیْتُهُمْ لِی سَاجِدِینَ) (٢)
میں نے گیارہ ستاروں اور سورج و چاند کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔
چونکہ جناب یوسف اپنے وابستگان کے سجدہ کو اپنے خواب کی تعبیر بتا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت ١٠٠۔
(٢)۔ سورہ مبارکہ یوسف، آیت ٤۔
اس لیے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد آپ کے گیارہ بھائی اور چاند سورج سے مراد آپ کے ماں باپ ہیں۔
بیان گزشتہ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صرف جناب یوسف ـ کے بھائیوں نے سجدہ نہیں کیا تھا بلکہ آپ کے ماں باپ نے بھی سجدہ کیا تھا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے سجدہ کو جس میں حد درجہ کا خضوع اور فروتنی شامل ہے۔
عبادت کا نام کیوں نہیں دیا گیا؟
عذرِ گناہ بدتر از گناہ
مذکورہ مصنفین کا وہ گروہ جو جواب دینے سے عاجز ہے یہ کہتا ہے کہ چونکہ خضوع ، خدا کے حکم سے تھا اس لیے شرک نہیں ہے۔
ظاہر ہے یہ جواب درست نہیں ہے کیونکہ اگر کسی عمل کی ماہیت، ماہیت شرک ہو تو خدا اس کا کبھی حکم ہی نہیں دے سکتا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(قُلْ إِنَّ اﷲَ لاَیَأَمُرُ بِالْفَحْشَائِ أَتَقُولُونَ عَلَی اﷲِ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) (١)
کہہ دیجئے کہ بے شک خدا تم کو برائی کا حکم نہیں دے سکتا کیا تم جو نہیں جانتے خدا کی طرف اس بات کی نسبت دیتے ہو۔
اصولی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ صرف خدا کا حکم کسی چیز کی ماہیت کو نہیں بدلتا اگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ سورہ مبارکہ اعراف، آیت ٢٨۔
ایک انسان کے سامنے خضوع سے پیش آنے کی حقیقت یہ ہے کہ وہ عبادت ہے تو اگر خدا بھی حکم دے تو یہی ماہیت رہے گی، یعنی اس انسان کی عبادت ہی ہوگی۔
اشکال کا حل اور عبادت کے حقیقی معنیٰ
یہاں تک اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ ''غیر خدا کی پرستش'' غلط اور ممنوع ہے اور اس پر تمام موحدین کا اتفاق ہے اور دوسری بات یہ بھی معلوم ہوگئی کہ جناب آدم ـ کے لیے فرشتوں کا سجدہ اور جناب یوسف ـ کے لیے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا سجدہ عبادت نہیں ہے۔
اب اس بات کی تحقیق کا وقت ہے کہ ایک ہی عمل کبھی عبادت کیسے بن جاتا ہے اور وہی عمل عبادت کے زمرہ سے خارج کیسے ہوجاتا ہے۔
قرآن کی آیتوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر کسی موجود کے سامنے خدا سمجھ کر خضوع سے پیش آیا جائے یا اس کی طرف خدائی کاموں کی نسبت دی جائے اور خضوع اختیار کیا جائے تو یہ عبادت ہے اس بیان سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگئی کہ کسی موجود کے سامنے اس کے خدا ہونے کا عقیدہ رکھ کر یا خدائی کاموں کی انجام دہی کی توانائی کے عقیدہ کے ساتھ خضوع کیا جائے تو یہی عنصر وہ ہے جو خضوع کو عبادت کا رنگ دے دیتا ہے۔
جزیرة العرب اور دوسرے علاقوں کے مشرکین، بلکہ ساری دنیا کے مشرکین اس چیز کے سامنے خضوع و خشوع کا مظاہرہ کرتے تھے جس کو مخلوقِ خدا سمجھتے ہوئے کچھ خدائی
کاموں کا مالک سمجھتے تھے اور کم سے کم ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ گناہ بخشنے کا حق رکھتے ہیں اور مقام ِ شفاعت کے مالک ہیں۔
بابل کے مشرکین اجرامِ آسمانی کی پرستش کرتے تھے وہ ان کو اپنا خالق نہیں بلکہ رب مانتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات اور انسانوں کے انتظام کی ذمہ داری ان کو سونپ دی گئی ہے۔ جناب ابراہیم ـ
نے ان سے اسی عقیدہ کی بنا پر مناظرہ کی تھا، کیوں کہ بابل کے مشرکین ستاروں اور آفتاب و ماہتاب کو پیدا کرنے والا خدا نہیں سمجھتے تھے، وہ تو ان کی ربوبیت کے قائل تھے۔
قرآن مجید نے بابل کے مشرکین سے حضرت ابراہیم ـ کے مناظرہ کے ذکر میں لفظ ''رب'' (١) کومحور بنایا ہے۔ اور رب کے معنی مالک اور اپنے مملوک کے مدبر کے ہیں۔
عرب، گھر کے مالک کو ''رب البیت'' اور کھیتی کے مالک کو ''رب الضیعہ'' کہتے ہیں کیوں کہ گھر کا مالک گھر کے امور کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اور کھیت کا مالک کھیت کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتا ہے۔
قرآن مجید نے مدبر اور اور پروردگارِ کائنات کے عنوان سے خدا کا تعارف کرایا ہے۔ پھر دنیا کے سارے مشرکین سے مبارزہ کرتے ہوئے ان کو ایک خدا کی پرستش کی
دعوت دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت ٧٨۔ ٨٦۔
(إِنَّ اﷲَ رَبِّی وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوهُ هَذَا صِرَاط مُسْتَقِیم ) (١)
بیشک ہمارا اور تمہارا رب خدا ہے اسی کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے۔
(ذَلِکُمْ اﷲُ رَبُّکُمْ لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوهُ) (٢)
وہی خدا تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ تم اسی کی عبادت کرو۔
سورہ دخان میں خدا فرماتا ہے:
(لاَإِلَهَ إِلاَّ هُوَ یُحْیِ وَیُمِیتُ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمْ الْأَوَّلِینَ ) (٣)
ایک پروردگار کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہ زندگی اور موت کا دینے والا ہے وہ تمہارا پروردگار ہے اور تمہارے آباء و اجداد کا پروردگار ہے۔
قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ کی حکایت کرتے ہوئے کہا:
( وَقَالَ الْمَسِیحُ یَابَنِی إِسْرَائِیلَ اعْبُدُوا اﷲَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ) (٤)
حضرت عیسیٰ ـ نے فرمایا:اے بنی اسرائیل تم خدا کی پرستش کرو وہ ہمارا اور تمہارا رب ہے۔
بہرحال بیان گزشتہ کی روشنی میں یہ معلوم ہوگیا کہ ربوبیت کے عقیدہ یا کسی موجود کی طرف خدائی کاموں کی نسبت دیئے بغیر عبادت کا عنوان پیدا نہیں ہونا چاہے، خضوع اور فروتنی اپنی انتہا تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)۔ سورہ مبارکہ آل عمران: آیت ٥١۔ (٢)۔ سورہ مبارکہ انعام، آیت ١٠٢۔
(٣)۔ سورہ مبارکہ دخان، آیت ٨۔ (٤)۔ سورہ مبارکہ مائدہ، آیت ٧٢۔
اسی وجہ سے ماں باپ کے سامنے اولاد کا خضوع، انبیاء کے سامنے امت کا خضوع جو مذکورہ بالا قید سے خالی ہو، عبادت نہیں ہے۔
اس بنا پر وہ سارے کام غیر خدا کی عبادت سے خارج ہیں جن کو کچھ نا واقف افراد غیر خدا کی پرستش اور شرک قرار دیتے ہیں۔ مثلاً۔ آثار اولیاء کو متبرک سمجھنا، ضریح کو بوسہ دینا، حرم کی در و دیوار کو چومنا، خدا کے مقرب بندوں کو وسیلہ بنانا، اس کے صالح بندوں کو پکارنا، اولیاء خدا کی ولادت اور شہادت کی تاریخوں کی یادگار منانا وغیرہ۔
ایک ضروری بات:
یہاں یہ امر بھی قابل ِذکر ہے کہ خدا کی ذات و صفات میں کسی اور کو اس کا شریک ٹھرانے کو شرک کہتے ہیں ۔ لیکن اگر کسی ہستی کے لئے ایک وصف ثابت ہو مگر کم اور مستعار درجے کا اور اس کی شان مخلوقیت کے لائق ہو اور خدا کے لئے وہی وصف ثابت ہو ،مگر کامل درجے کا اور اس کی شان خالقیت کے لائق تواحتمال شرک نہیں ہوسکتا ۔مظال کے طور پر قرآن مجید انسان کو سمیع و بصیر (دیکھنے اور سننے والا ) قرار دیتا ہے ۔
(فجعلناه سمیعاًبصیراً) (١)پس ہم نے اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنایاہے
انسان میں بلا شبہ یہ اوصاف سماعت و بصارت موجود ہیں لیکن کم تر اور ناصق درجے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١) سورہ مبارکہ دہر ،٧٦:٢
کے ،جبکہ خداوند متعال کی ذات ان اوصاف سے بالذات متّصف ہے اور اس کے یہ اوصاف درجہ کمال پر متحقق ہیں ۔
ارشاد ربّالعزت ہوتا ہے ۔
( انّه هو السمیع البصیر )(١) بیشک وہی خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا
ہے ۔
حضور اکرم (ۖ) کے بارے میں ارشاد ربّانی ہے ۔
( بالمومنین رئوف رّحیم )(٢)اور مومنوں کے لئے نہایت (ہی ) شفیق بے حد رحم کرنے والے ہیں
اور خداوند متعال نے خود اپنی نسبت ارشاد فرمایا:
(انّ اﷲ بالنّاس لرئوف رّحیم) (٣)بے شک اﷲلوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا ہے۔
مذکورہ بالا صفات اور ان کے علاہ بھی متعدد اوصاف میں خالق و مخلوق شریک ہیں مگر مختلف درجات و حیثیات کے ساتھ ، اسی لئے ان تمام تقابلی صورتوں میں شرک کا احتمال پیدا نہیں ہوتا ۔ شرک اس وقت لازم آتا ہے جب مخلوق میں خالق کے مساوی یا اس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)سورہ مبارکہ بنی اسرائیل،١٠٧:١
(٢)سورہ مبارکہ توبہ،٩:١٢٨
(٣) سورہ مبارکہ بقرہ ،٢:١٤٣
کے متوازی کوئی وصف تسلیم کیا جائے ۔
اس بیان کی روشنی میں اس اشکال کو رفع کرنا مقصود ہے کہ معصومین (ع) کے بارے میں علم
غیب کا عقیدہ رکھنے میں ہرگز ہرگز اس خیال کا شائبہ بھی نہیں ہوتا کہ اس وصف میں
معصومین(ع) خداوند متعال کے شریک و مساوی ہیں حاشا و کلّا ایسا اعتقاد کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔بلکہ اس کے برعکس عقیدہ یہی ہے کہ خدا کا علم ذاتی ،لافانی ، مستقل بالذات ،دائمی وابدی ہے جبکہ معصومین(ع) کا علم عطائی و وہبی ہے ۔ذہن میں اس اعتقاد
کی کار فرمائی سے شرک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا ۔شرک تو جب ہوگا جب دونوں کے علم غیب کوہم پلّہ اور ہم مقدار قرار دیا جائے چنانچہ محض کسی وصف میں خالق ومخلوق کی شرکت موجب شرک نہیں بنتی۔
تمت بالخیر
سید نسیم حیدر زیدی
١٤٢٩ ھ ق
انوار القرآن اکیڈمی (پاکستان)
Comments powered by CComment