واقعہ شقیق بلخی علامہ محمدبن شافعی لکھتے ہیں کہ آپ کے کرامات ایسے ہیں کہ ”تحارمنہاالعقول“ ان کودیکھ کرعقلیں چکراجاتی ہیں ،مثال کے لیے ملاحظہ ہو؟ ۱۴۹ ھ میں شقیق بلخی حج کے لیے گئے ان کابیان ہے کہ میں جب مقام قادسیہ میں پہنچاتومیں نے دیکھاکہ ایک نہایت خوب صورت جوان جن کارنگ سانولہ (گندم گوں) تھا وہ ایک عظیم مجمع میں تشریف فرماہیں جسم ان کاضعیف ہے وہ اپنے کپڑوں کے اوپر ایک کمبل ڈالے ہوئے ہیں اورپیروں میں جوتیاں پہنے ہوئے ہیں تھوڑی دیر بعدوہ مجمع سے ہٹ کر ایک علیحدہ مقام پرجاکربیٹھ گئے، میں نے دل میں سوچا کہ یہ صوفی ہے اورلوگوں پرزادراہ کے لیے باربنناچاہتاہے ،میں ابھی اس کی ایسی تنبیہ کروں گاکہ یہ بھی یادرکھے گا،غرضیکہ میں ان کے قریب گیاجیسے ہی میں ان کے قریب پہنچاہوں،وہ بولے ائے شقیق بدگمانی مت کیاکرویہ اچھاشیوہ نہیں ہے، اس کے بعدوہ فورااٹھ کرروانہ ہوگئے ،میں نے خیال کیاکہ یہ معاملہ کیاہے انہوں نے میرانام لے کرمجھے مخاطب کیااورمیرے دل کی بات جان لی