۱۔ حکام کی ولایت کی حرمت کی وجہ!
پس ظالم حاکم کی طرف سے یااس کے حکام کی طرف سے کسی عہدے کوقبول کرناطبقہ رؤساء اورحاکم کے اطرافیوں سے لے کرنیچے تک یعنی ظالم حاکم کی چوکیداری تک سب حرام ہے اوریہ سب لوگ والی کے دروازے ہیں ان کی حکومت کی وجہ سے ان کے لئے کوئی کام کرناان کے ساتھ مل کرکوئی کسب کرناحرام ومحترم ہے اورجوایساکرے خواہ زیادہ کرے یاکم وہ معذب ہوگا،اس لئے کہ ہرشئی (ان کی مددکی وجہ سے) گناہ کبیرہ (ہوجاتی) ہے کیونکہ ظالم والی حکومت میں حق پورے کاپورامٹ جاتاہے اورباطل کل کاکل زندہ ہوجاتاہے،ظلم ،جور،فساد،کھلم کھلاہوتاہے، کتب الہی باطل ہوجاتی ہیں،قرآن وانبیاء قتل کئے جاتے ہیں مسجدیں گرائی جاتی ہیں، سنت الہی اورشریعت خدابدل دی جاتی ہے، اس لئے ان کے ساتھ کام کرنا،ان کی مددکرنا،ان کے لئے کام کرناسب ہی حرام ہے،ہاں ضرورت کے وقت (اسی طرح) جائزہے جس طرح ضرورت کے وقت خون اورمردارجائزہوجاتاہے۔
(تحف العقول ،ص۳۳۲)۔
۲۔ بے شک خداکی معرفت ہروحشت میں سبب انس ہے اورہرتنہائی کاساتھی ہے، اورہرتاریکی کانورہے اورہرکمزورکی طاقت ہے،اورہربیماری کی شفا ہے۔ (فروع کافی ج۸،ص۲۴۷)۔
۳ ۔ عمربن حنظلہ کہتے ہیں : میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام سے اپنے ان دوساتھیوں کے بارے میں پوچھاجن کے درمیان کسی قرض یامیراث کے بارے میں جھگڑاتھااوردونوں نے اپنامعاملہ بادشاہ اورقاضی کے یہاں فیصلہ کے لئے پیش کیاتھا کہ حضورکیایہ جائزہے؟
امام نے فرمایا: جوکسی حق یاباطل میں فیصلہ کے لئے ان لوگوں کی طرف رجوع کرے اس نے طاغوت کی طرف رجوع کیااور(ان کے حکم سے) جولیاجائے گاوہ حرام ہوگاچاہے وہ لینے والاکاثابت شدہ حق ہوکیونکہ اس نے طاغوت کے حکم بناسے لیاہے اورخدانے اس کے انکارکاحکم دیاہے چنانجہ خدانے فرمایاہے : یہ لوگ طاغوت کوحاکم بناناچاہتے ہیں حالانکہ خدانے ان کوحکم دیاہے کہ طاغوت کاانکارکریں تب میں نے عرض کیا: پھریہ دونوں کیاکریں؟ امام نے فرمایا: یہ دونوں دیکھیں کہ تم میں سے کون ہے جوہماری حدیثوں کاراوی ہے اورہمارے حلال حرام کوجانتاہے اورہمارے احکام کوپہچانتاہے اسی کوحکم بنانے پرراضی ہوجائیں اس لئے کہ ہم نے اس کوتمہارے اوپرحاکم قراردیاہے۔ (الوسائل ج۱۸،ص۹۹)۔
۴۔ قضاوت کرنے والے چارقسم کے ہیں ایک جنتی ہیں تین دوزخی ہیں: ۱۔ جوجان کرغلط فیصلہ کرے وہ دوزخی ہے، ۲۔ جوغلط فیصلہ لاعلمی میں کرے وہ بھی جہنمی ہے، ۳۔ جوفیصلہ صحیح کرے مگرجہالت ولاعلمی کی بناپروہ بھی دوزخی ہے، ۴۔ جوجان بوجھ کرصحیح فیصلہ کرے وہ جنتی ہے۔ (تحف العقول، ص۳۶۵)
۵۔ جواپنے برادر(مومن) کوبراکام کرتے ہوئے دیکھے اورقدرت رکھتے ہوئے بھی اس کونہ روکے توا سنے اپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (امالی صدوق، ص۱۶۲) ۔
۶۔ مرنے کے بعدتین چیزوں کے علاوہ کوئی عمل انسان کے پیچھے نہیں آتا: ۱۔ وہ صدقہ جس کواپنی زندگی میں خداکی توفیق سے جاری کرگیاتھا وہ مرنے کے بعدبھی جاری رہتاہے۔ ۲۔وہ نیک کام جوچھوڑگیاتھا اوراس کے بعدباقی رہے،۳۔ وہ فرزندصالح جوا سکے لیئے دعاکرے۔ (تحف العقول،ص ۳۶۲)۔
۷۔ ایک برادرمسلمان کااپنے دوسرے مسلمان بھائی پر”جوحقوق ہیں ان میں سے “ یہ حق یہ بھی ہے کہ ۱۔ جب ملاقات ہوتواس پرسلام کرے۔ ۲۔ جب بیمارہوتواس کی عیادت کرے، ۳۔ اس کے پیٹھ پیچھے اس سے خلوص برتے،۴۔ جب اس کوچھینک آئے تودعاکرے، یعنی یرحمک اللہ کہے، ۵۔ جب اس کوبلائے توقبول کرے، ۶۔ جب وہ مرجائے توجنازہ کے پیچھے پیچھے چلے (تشیع جنازہ کرے) (اصول کافی ج۲باب حق المومن علی اخیہ ،ص ۱۷۱)۔
۸۔ ایک جسم کی طرح ”مومن دوسرے مومن کابھائی ہے“ کہ جب جسم کے کسی حصہ کوشکایت ہوتی ہے تواس کی تکلیف پورے بدن کوہوتی ہے اوران کی روح بھی ایک ہے،مومن کی روح کااتصال روح اللہ سے اس سے کہیں زیادہ ہوتاہے جتنااتصال سورج اوراس کی شعاعوں میں ہوتاہے۔ (اصول کافی ج۲باب اخوة المومنین ،ص۱۶۶)۔
۹۔ ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پریہ حق ہے کہ اگراس کابھوکاہوتویہ شکم سیرنہ ہو،اگروہ پیاساہوتویہ سیراب نہ ہو،اگروہ برہنہ ہوتویہ لباس نہ پہنے، پس ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پرکتناعظیم حق ہے ۔ نیزفرمایا: اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہی پسندکروجواپنے لئے پسندکرتے ہو۔ (اصول کافی ج۲باب حق المومن علی اخیہ ،ص۱۷۰)۔
۱۰۔ مومن،مومن کابھائی اوراس کی آنکھ اوراس کارہبرہے،نہ اس کے ساتھ خیانت کرتاہے نہ اس پرظلم کرتاہے،نہ اس کے ساتھ ملاوٹ کرتاہے، اورنہ وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرتاہے۔ (اصول کافی ج۲باب اخوة المومنین ،ص ۱۶۶)۔
Comments powered by CComment