معراجِ انسانیت ۲

حضرت محمد مصطفےٰ
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

سیرتِ حَسْنَیْن کی روشنی میں

جبکہ حضرت پیغمبر خدا کی واحد زندگی میں مختلف نمونے سامنے آ گئے جو بظاھر متضاد ھیں۔ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی واحد زندگی میں ایسی ھی مثالیں سامنے آ گئیں تو اب اگر دو شخصیتوں میں باقتضائے حالات اس طرح کی د و رنگی نظر آئے تو اس کو اختلاف طبیعت یا اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھنا کیونکر درست ھو سکتا ھے اور یہ کیوں کھا جائے کہ حسن مجتبیٰ (ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین (ع)طبعاً جنگ پسند تھے بلکہ یھی سمجھنا چاھئے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضا وہ تھا اور اس وقت کے حالات کا تقاضا یہ ھے کہ اس وقت حسن مجتبیٰ (ع) امام تھے ان کو فریضھٴ الٰھی وہ محسوس ھوا اور اس وقت حضرت حسین بن علی(ع) امام تھے، ان کو فریضھٴ ربانی اس وقت کے حالات میں یہ محسوس ھوا۔ اس میں جذبات کا کوئی دخل نہ تھا۔ یھی وہ حقیقت ھے جس کا حضرت پیغمبر خدا نے مختلف الفاظ میں پھلے سے اظھار فرما دیا تھا۔ کبھی ان الفاظ میں کھ: ابنای ھٰذان امامان قاما اوقعدا۔ ”یہ میرے دونوں فرزند امام (ع) ھیں چاھے کھڑے ھوں اور چاھے بیٹھے ھوں۔“ اس وقت کی دنیا اس کو نھیں سمجھ سکتی تھی کہ امام (ع) کھنے کے ساتھ قاما اوقعدا۔ کس لئے کھا جا رھا ھے؟ امامت میں اٹھنے اور بیٹھنے کا کیا دخل۔ مگر جب مستقبل نے واقعات پر سے پردہ ھٹایا تو اب معلوم ھوتا ھے کہ پیغمبر ماضی کے آئینہ میں مستقبل کا نقشہ دیکہ رھے تھے کہ ایک صلح کرکے بیٹہ جائے گا اور ایک تلوار لے کر کھڑا ھو جائے گا۔ کچھ لوگ حسن(ع) کی صلح پر اعتراض کریں گے اور کچھ لوگ حسین(ع) کی جنگ پر۔ آپ نے اسی لئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں امام(ع) ھیں چاھے کھڑے ھوں اور چاھے بیٹھے ھوں۔ یعنی حسن(ع) صلح کرکے بیٹہ جائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسین(ع) تلوار لے کر کھڑا ھو جائے تو اعتراض نہ کرنا وہ بیٹھنا بھی حکم خدا سے ھے اور یہ کھڑا ھونا بھی حکم خدا سے ھے وہ اس وقت کے حالات کا تقاضا ھے اور یہ اس وقت کے حالات کا۔ اور کبھی اس طرح جسے علامہ ابن حجر نے لکھا ھے کہ سیدھ(ع) عالم اپنے والد بزرگوار حضرت رسول کے پاس دونوں شاھزادوں کو لے کر حاضر ھوئیں اور عرض کیا۔ یَا آبَتِ ھٰذَانِ ابْنَاک انحَلْھُمَا ابا جان یہ دونوں بچے آئے ھیں انھیں کچھ عطا فرمائیے۔“ حضرت نے فرمایا: اَمَّاالْحُسْنُ فَلَہ حِلمِی وَ سوُدَدِی واَمّالْحُسَیْنُ فَلَد‘ جُراٴتِی وَجُودِی مطلب یہ ھوا کہ انھیں اور کسی عطیہ کی کیا ضرورت ھے ان میں تو میری صفتیں تقسیم ھو گئی ھیں حسن(ع) میں میرا حلم ھے اور میری شان سرداری اور حسین(ع) میں میری جراٴت و ھمت ھے اور میری فیاضی…اب تقسیم پر غور کیجئے۔ معلوم ھوتا ھے۔ کہ ظرف زمانہ کے لحاظ سے جس کو جس صفت کا مظھر بننا تھا اسی صفت کو رسول نے اپنا قرار دیا۔ تاکہ اس صفت سے جو کارنامہ ظھور میں آئے وہ کسی مسلما ن کے نزدیک قابل اعتراض نہ ھو سکے۔ اب اس کا مطلب یہ ھوا کہ حسن(ع) کی صلح کو حسن(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میرے حلم کا نتیجہ ھے اس کا مطلب صاف یہ ھے کہ اس موقع پر میں ھوتا تو وھی کرتا جو حسن(ع) کرے گا اور حسین(ع) کی جنگ کو حسین(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میری جراٴت کا نتیجہ ھے اور اس کا مطلب یہ ھوا کہ اس موقع پر میں ھوتا تو وھی کرتا جو حسین(ع) کرے گا۔ اب حسن(ع) کی صلح پر اعتراض رسول(ع) کے حلم پر اعتراض ھے اور حسین(ع) کی جنگ پر اعتراض رسول(ع) کی جراٴت پر اعتراض ھے۔ حقیقت یہ ھے کہ حسن(ع) نے صلح کرکے جھاد حسین(ع) کے لئے زمین ھموار کر دی۔ وہ صلح اس وقت نہ ھوتی تو اس کے بعد جھاد کا یہ ھنگام نہ آ سکتا۔ کیونکہ اسلام میں جنگ بہ مجبوری ھوتی ھے عدم امکانِ صلح کی بنا پر جب تک اصول کے تحفظ کے ساتھ صلح کا امکان ھو اس وقت تک جنگ کرنا غلط ھے جب کہ آئین اسلام میں صلح کا درجہ جنگ پر مقدم ھے تو اگر امام حسن(ع) صلح نہ کر چکے ھوتے تو اتمام حجت نہ ھوتی اور حضرت امام حسین(ع) کے لئے جنگ کا موقع پیدا نہ ھوتا۔ امام حسن(ع) کے شرائط صلح پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ھو گا کہ اس صلح کے شرائط میں ان مقاصد کا پورا پورا تحفظ کیا گیا تھا جن کے لئے پھر کربلا کی جنگ ھوئی۔ یہ نہ دیکھئے کہ بعد میں شرائط پر عمل نھیںھوا۔ بعد میں عمل تو حدیبیہ کی صلح کے شرائط پر بھی نہ ھوا تھا مگر یہ تو ایک معاھدہ صلح کا وقوع میں آیا جب ھی فریق مخالف پر الزام عائد ھو سکا کہ اس نے ان شرائط پر عمل نھیں کیا اور اگر کوئی ایسا معاھدہ ھوا ھی نہ ھوتا تو یہ خلاف ورزی کا الزام فریق مخالف پر کھاں عائد ھو سکتا تھا۔ جب حدیبیہ کے شرائط پر عمل نہ ھوا تو فتح مکہ ھوئی اسی طرح اس صلح پر عمل نہ ھوا۔ تو معرکھٴ- کربلا ھوا۔ معلوم ھوا کہ یہ تاریخی واقعات کی رفتار کا لازمی اقتضاء تھا کہ اس وقت صلح ھو اور اس وقت جنگ ھو۔ اور وہ حصہ وقت کا امام حسن(ع) کے حصہ میں آیا اور یہ ھنگام امام حسین(ع) کے حصہ میں آیا۔ اگر معاملہ بالعکس ھوتا یعنی ۴۱ہ میں امام وقت امام حسین(ع) ھوتے تو وہ صلح امام حسین(ع) کرتے اور اگر ۶۱ہ میں امام حسن(ع) موجود ھوتے تو یہ جھاد امام حسن(ع) فرماتے۔ حضرت امام حسن جانتے تھے کہ میرا جھاد ھی صلح کرنا۔ ان کی صلح مقتضائے شجاعت تھی اور امام حسین(ع) کا جھاد تھا یزید کے مقابلہ میں تلوار کھینچنا۔ یہ ان کی شجاعت کا مظاھرہ تھا۔ کیونکہ جس طرح علمائے اخلاق نے بیان کیا ھے شجاعت ھر موقع پر تلوار لے کر بڑھ جانے کا نام نھیں ھے۔ بلکہ شجاعت قوت غضب کے تابع حکم عقل ھونےکا نام ھے اور یہ قوت غضبیہ کے اعتدال کا درجہ ھے اگر انسان نے بے موقع غصہ سے کام لیا اور قدم آگے بڑھا دیا تو یہ ”تھوُّ“ ھو گا اور اگر موقع آنے پر بھی اس سے کام نہ لیا اور بے محل کمزوری دکھائی تو اس کا نام ”جُبن“ ھو گا یہ دونوں چیزیں شجاعت کے خلاف ھیں۔ شجاعت یہ ھے کہ بے محل قدم آگے نہ بڑھے اور محل آنے پر خاموشی نہ ھو۔ ان دونوں رخوں کو حسن(ع) و حسین نے پیش کیا اور اس طرح دونوں نے مل کر شجاعت کی مکمل تصویر کھینچ دی۔ آئندہ آئے گا کہ حضرت امام حسین(ع) نے بھی صلح کی کوشش میں کوئی کمی نھیں کی یہ تو فریق مخالف کا طرز عمل تھا کہ اس نے وہ تمام شرائط مسترد کر دیئے۔ اگر دشمن ِشرائط کو منظور کر لیتا تو کارنامہ کربلا بھی صلح پر ختم ھوتا۔ اس کے بعد کسی کو یہ کھنے کا کیا حق ھے کہ امام حسن(ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین(ع) نسبتاً جنگ پسند تھے۔ اس کا بھی بیان ابھی آئے گا کہ وھاں حاکم شام نے سادہ کاغذ بھیج دیا تھا کہ حسن مجتبیٰ جو چاھیں وہ شرائط لکہ دیں۔ امام نے شرائط لکھے اور حاکم شام نے ان کو منظور کیا دنیا غلط کھتی ھے کہ امام حسن(ع) نے حاکم شام کی بیعت کر لی۔ بیعت تو حقیقتاً اس نے کی جس نے شرائط مانے۔ انھوں نے تو بیعت لے لی۔ بیعت کی نھیں۔ اور امام حسین(ع) کے سامنے تھا یزید ایسے شخص سے بیعت کا سوال جسے آلِ محمد میں سے کوئی بھی منظور نھیں کر سکتا تھا۔ امام حسین(ع) زندگی کے اس ایک دن یعنی عاشور کو ھی حسین(ع) نہ تھے وہ اپنی زندگی کے ۵۷ برس میں ھر دن حسین(ع) تھے۔ پھر آخر صرف ایک دن کے کردار کو سامنے رکہ کر کیوں رائے قائم کی جاتی ھے۔ آخر اس ایک دن کو نکال کر جو ۵۷ برس ھیں وہ ان کی فھرست حیات سے کیونکر خارج ھو سکتے ھیں اسی طرح حضرت امام حسن(ع) صرف اس دن جب صلح نامہ پر دستخط کئے ھیں اسی وقت امام حسن(ع) نہ تھے۔ حسن(ع) نام تو اس پوری زندگی کا تھا لھٰذا آپ کی پوری زندگی کو سامنے رکہ کر رائے قائم کرنا درست ھو گا اور اگر صرف ایک حصہ حیات سامنے رکہ کر مخالفین اسلام نے آپ کی یہ تصویر کھینچی کہ آپ کے ایک ھاتہ میں تلوار ھے اور ایک ھاتہ میں قرآن جس طرح یہ تصویر نامکمل اور غلط ھے اسی طرح امام حسن(ع) کے متعلق جو تصویر کھینچی جاتی ھے یا امام حسین کی جو تصویر کھینچی جاتی ھے وہ بھی غلط ھے اور یہ غلطی اتنی عام ھے کہ ان کے نام لیوا تک اور سیرت و کردار کی پیروی پر زور دینے والے بھی ان کا وھی صرف ایک دن کا کردار جانتے اور اسی کو پیش کرتے ھیں اس لئے تقریروں میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اور کسی بڑے معرکہ میں قدم بڑھانے کے واسطے خون میں جوش پیدا کرنے کے لئے حضرت امام حسین(ع) کا نام لیتے اور ان کے کارنامہ کو یاد دلاتے ھیں چاھے مقصد صحیح ھو یا غلط اور وہ جو اپنی تمام عمر شھادت سے ایک دن پھلے تک معرکہ آرائی کو ٹالتے رھے وہ حسین(ع) کا کردار گویا نھیں ھے کسی اور کا ھے پوری تصویر تو اسی وقت ھو گی جب پوری سیرت سامنے رکہ کر تصویر کھینچی جائے گی۔

Comments powered by CComment