معراجِ انسانیت

حضرت محمد مصطفےٰ
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

سِیرت حضرت سّید الا وصیٰاء کی روشنی میں

رسول (ص)کے بعد دوسری معیاری شخصیت جو ھمارے سامنے ھے وہ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی ھے۔ آپ کی دس سال کی عمر ھے جب پیغمبر مبعوث برسالت ھوتے ھیں اور علی بن ابی طالب (ع) ان کی رسالت کے گواہ ھوتے ھیں۔ یہ پھلے ھی سے رسول (ص) کی آغوشِ تربیت میں تھے اور آغوش میں دعوتِ اسلام کی پرورش شروع ھوئی۔ یوں کھنا چاھئے کہ اسلام نے آنکہ کھول کر انھیں دیکھا اور ان کی نگاہ وہ تھی کہ اعلانِ رسالت کے پھلے رسول (ص)کی رسالت کو دیکہ رھے تھے۔ خود اپنے بچپن کی کیفیت نھج البلاغہ کے ایک خطبے میں بتائی ھے کہ: کُنتْ اَتبِعہ اِتَبّاعَ الفَصیل اثرَامُّہ اشّم رِیح النّبوةِ واری نورالرسالة۔ میں رسول (ص)کے پیچھے یوں رھتا تھا جیسے ناقہ کا بچہ ناقہ کے پیچھے رھتا ھے۔ میں نبوت کی خوشبو سونگھتا تھا اور رسالت کی روشنی دیکھتا تھا۔ اب ظاھر ھے کہ ان کو رسول (ص) سے کتنا انس ھونا چاھئے۔ پھر وہ قرابت کی محبت الگ جو بھائی ھونے کے اعتبار سے ھوناچاھئے اور وہ الگ جو بحیثیت ایک گھر میں رھنے کے ھونا چاھئے اور وہ اس کے علاوہ جو اپنے مربی سے ھونا چاھئے اور وہ اس کے ماوراء جو ان سے بحیثیت رسول (ص) اور ان کے پیغام سے بحیثیتِ حقانیت ھونا چاھئے۔ ابھی اگرچہ دس برس کی عمر ھے مگر عرب اور بنی ھاشم کے اور وہ بھی اس وقت کے دس برس کے بچے کو اپنے ھندوستان کا اس زمانہ کا دس برس کا بچہ نہ سمجھنا چاھئے اور پھر وہ بھی علی(ع) ایسا بچھ۔ پھر اس وقت تو دس ھی برس کی عمر ھے مگر اس کے بعد ۱۳ برس رسول کے مکہ میں گزرنا ھیں، اور یھی انتھائی پرآشوب اور تکلیف و شدائد سے بھرا ھوا دور ھے۔ ھجرت کے وقت علی بن ابی طالب (ع) کی عمر ۲۳ برس ھوئی، دس برس سے ۲۳ برس کا درمیانی وقفہ وہ ھے جس میں بچپنا قدم بڑھاتا ھوا مکمل شباب کی منزل تک پھنچتا ھے۔ یہ زمانہ جوش و خروش کا ھوتا ھے یہ زمانہ ولولہ و امنگ کا ھوتا ھے۔ بڑھتی ھوئی حرارت، شباب کی منزلیں اس دور میں گزر رھی ھیں۔ عام انسانوں کے لئے یہ دور وہ ھوتا ھے جس میں نتائج و عواقب پر نظر کم پڑتی ھے انسان ھر دشوار منزل کو سھل اور ھر ناممکن کو ممکن تصور کرتا ھے اور مضرتوں کا اندیشہ دماغ میں کم لاتا ھے۔ یھاں یہ دور اس عالم میں گزر رھا ھے کہ اپنے مربی کے جسم پر پتھر مارے جا رھے ھیں۔ سر پر خس و خاشاک پھینکا جاتا ھے۔ طعن و شماتت کا کوئی وقیقہ اٹھا نھیں رکھا جاتا۔ پھر فطری طور پر یھی سب طعن و تشنیع و شماتت ھر اس شخص کو جو رسول (ص) سے وابستہ ھے اپنی ذات کے لئے بھی سننا پڑتی ھے۔ خصوصاً اس لحاظ سے کہ رسول (ص)کے ھم یا مقابل پھر بھی سن رسیدہ ھو سکتے ھیں لیکن علی بن ابی طالب (ع) کے ھم عمر جو مخالف جماعت میں تصور کئے جا سکتے ھیں وہ غیرمھذب اور غیرتعلیم یافتہ ھونے کے ساتھ اپنے سن و سال کے لحاظ سے بھی ھر خفیف الحرکاتی پر ھر وقت آمادہ سمجھے جا سکتے ھیں۔ کون سمجھ سکتا ھے کہ وہ علی ابن ابی طالب (ع) کی جو رسول (ص) سے اتنی شدید وابستگی رکھتے تھے کیسی کیسی دل آزاری کرتے تھے کیا کیا طعنے اور کیا کیا زخم زبان پھنچاتے تھے۔ اسے کوئی راوی نہ بھی بیان کرے تو بھی ھر صاحبِ عقل کچھ نہ کچھ سمجھ سکتا ھے۔ اب ممکن ھے کہ اس وقت ابھی دنیاعلی بن ابی طالب (ع) کو بالکل نہ سمجھتی ھو کہ وہ کیا ھیں؟ مگر اب اس وقت تو تاریخ کے خزانہ میں علی بن ابی طالبع کی وہ تصویر بھی موجود ھے جو ھجرت کے ایک سال بعد بدر میں اور پھر دو سال بعد احد میں اور پھر خیبر اور خندق اور ھر معرکہ میں نظر آتی ھے۔ جذبات کے لحاظ سے، قوت دل کے اعتبار سے، جراٴت و ھمت کی حیثیت سے ۲۲ سال اور ۲۳ سال اور پھر ۲۴۔۲۵ سال میں کوئی خاص فرق نھیں ھوتا۔ یقیناً علیع جیسے ھجرت کے ایک دو اور تین سال بعد بدر واحد اور خندق و خیبر میں تھے۔ ایسے ھی ھجرت کے وقت اور ھجرت کے دو چار سال پھلے بھی تھے۔ یھی بازو، یھی بازوؤں کی طاقت، یھی دل اور یھی دل کی ھمت، یھی جوش، یھی عزم، غرض کہ سب کچھ اب بعد میں نظر آ رھا ھے۔ اب اس کے بعد قدر کرنا پڑے گی کہ اس ھستی میں وہ ۱۳ برس اس عالم میں کیونکر گزارے۔ اور کوئی غلط روایت بھی یہ نھیں بتاتی کہ کسی وقت علیع نے جوش میں آ کر کوئی ایسا اقدام کر دیا ھو جس پر رسول کو کھنا پڑا ھو کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ یا کسی وقت پیغمبر کو یہ اندازہ ھوا ھو کہ یہ ایسا کرنے والے ھیں تو بلا کر روکا ھو کہ ایسا نہ کرنا۔ مجھے اس سے نقصان پھنچ جائے گا۔ کسی تاریخ اور کسی حدیث میں غلط سے غلط روایت ایسی نھیں حالانکہ حالات ایسے ناگوار تھے کہ کبھی کبھی سن رسیدہ افراد کو جوش آ گیا اور انھوں نے رسول کے مسلک کے خلاف کوئی اقدام کر دیا اور اس کی وجہ سے انھیں جسمانی تکلیف سے دوچار ھونا پڑا۔ مگر حضرت علی بن ابی طالبع سے کسی سے تصادم ھو گیا ھو اس کے متعلق کمزور سے کمزور روایت پیش نھیں کی جا سکتی۔ یہ وہ غیرمعمولی کردار ھے جو عام افراد انسانی کے لحاظ سے یقیناً خارق عادت ھے یہ کسی جذبات انسانی کا کردار نھیں ھو سکتا۔ یہ ۱۳ برس کی طولانی مدت اس عمر میں جو ولولوں کی عمر ھے حوصلوں کی عمر ھے۔ بھلا ممکن ھے اس سکون کے ساتھ گزاری جا سکے۔ اس کے بعد ھجرت ھوتی ھے۔ ھجرت کے وقت وہ فداکاری۔ پیغمبر کا فرمانا کہ آج رات کو میرے بستر پر لیٹو۔ میں مکہ سے روانہ ھو جاؤں گا۔ پوچھا حضور کی زندگی تو اس صورت میں محفوظ ھو جائے گا۔ فرمایا ھاں مجھ سے وعدہ ھوا ھے میری حفاظت ھو گی یہ سن کر حضرت علی بن ابی طالبع نے سر سجدہ میں رکہ دیا کھا شکر ھے کہ اس نے مجھے اپنے رسول کا فدیہ قرار دیا۔ چنانچہ رسول تشریف لے گئے اور آپ پیغمبر کے بستر پر آرام کرتے رھے اس کے بعد چند روز مکہ معظمہ میں مقیم رھے مکہ میں مشرکین کی امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کیں اور پیغمبر کی امانتیں ساتھ لیں یعنی مخدراتِ کاشانھٴ رسالت جن میں فواطم یعنی فاطمہ بنت محمد۔ فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب تھیں ان کو لے کر روانہ ھوئے۔ خود مھارِ شتر ھاتہ میں لی۔ اور حفاظت کرتے ھوئے پا پیادہ مدینہ پھنچے یھاں آنے کے ایک سال بعد اب جھاد کی منزل آئی اور پھلی ھی جنگ یعنی بدر میں علیع ایسے نظر آئے جیسے برسوں کے نبرآزما، معرکے سر کئے ھوئے اور کڑیاں میدان کی جھیلے ھوئے۔ ادھر کے سب سے بڑے سورما عتبہ شیبہ اور ولید دونوں کا حضرت علی بن ابی طالبع کی تلوار سے خاتمہ ھوا۔ یہ کارنامہ خود جنگ کی فتح کا ضامن تھا۔ وہ تو صرف نفسیاتی طور پر عامھٴ مسلمین میں قوت دل پیدا کرنے کے لئے اس جھاد میں فرشتوں کی فوج بھی آ گئی یہ ثابت کرنے کے لئے کہ گھبرانا نھیں وقت پڑے گا تو فرشتے آ جائیں گے۔ حالانکہ اس کے بعد پھر کسی غزوہ میں ان کا آنا ثابت نھیں۔ اس کے باوجود احد میں علی بن ابی طالبع نے تن تنھا بگڑی ھوئی لڑائی کو بنا کر اور فتح حاصل کرکے دکھلا دیا کہ بدر میں بھی اگر فوج ملائکہ نہ آتی تو یہ دست و بازو اس جنگ کو بھی سر کر ھی لیتے۔ اس کے بعد خندق ھے خیبر ھے۔ حنین ھے یھاں تک کہ ان تمام کارناموں سے علیع کا نام دشمنوں کے لئے مرادفِ موت بن گیا۔ خیبر و خندق۔ ذوالفقار اور علیع میں دلالت التزامی کا رشتہ قائم ھو گیا کہ ایک کے تصور سے ممکن ھی نھیں دوسرے کا تصور نہ ھو۔ یہ وھی ۱۳ برس تک خاموش رھنے والے علیع ھیں۔ ان دس برس کے اندر جن کا عالم یہ ھے مگر اسی دوران میں حدیبیہ کی منزل آتی ھے اور وھی ھاتہ جس میں جنگ کا علم ھوتا تھا یھاں اسی میں صلح کا قلم ھے جو صاحب سیف تھا وھی صاحب قلم نظر آتا ھے اور ان شرائط صلح کو جن فر فوج اسلام کے اکثر افراد میں بے چینی پھیلی ھوئی ھے اور اسے کمزوری سمجھا جا رھا ھے بلا کسی بے چینی اور بغیر کسی تردد و تذبذب کے حضرت علی بن ابی طالبع تحریر فرما رھے ھیں جس طرح میدان جنگ میں قدم میں تزلزل اور ھاتہ میں ارتعاش نظر نھیں آیا اسی طرح آج عھدنامھٴ صلح کی تحریر میں ان کے قلم میں کوئی تزلزل اور انگلیوں میں کوئی ارتعاش نھیں ھے۔ ان کا جھاد تو وھی ھے جس میں مرضیٴ پروردگار ھو۔ جس کی راہ میں تلوار چلتی تھی اسی کی راہ میں آج قلم چل رھا ھے اور صلح نامہ کی کتابت ھو رھی ھے۔ اسی زمانہ میں ایک ملک بھی فتح کرنے بھیجے گئے تھے اور وہ یمن ھے مگر وہ شمشیرزن اور صاحب ذوالفقار ھوتے ھوئے یھاں تلوار سے کام نھیں لیتے۔ انھوں نے اسلامی فتح کا مثلہ پیش کر دیا۔ پورے یمن کو صرف زبانی تبلیغ سے ایک دن میں مسلمان بنا لیا۔ ایک قطرھٴ خون نھیں بھا۔ دکھا دیا کہ فتح ممالک اس طرح کرو۔ ملک پر قبضہ کے معنی یہ ھیں کہ اھل ملک کو اپنابنا لو۔ بس ملک تمھارا ھو گیا۔ بھرحال ان دو مثالوں کو چھوڑ کر حضرت علی بن ابی طالبع کی زندگی کے اس دور میں بھت سے مواقع پر تلوار نمایاں نظر آئے گی اور لافتی الاعلی لا سیف الا ذوالفقار میں آپ کی شان مضمر معلوم ھو گی مگر اب پیغمبر خد اکی وفات ھو جاتی ھے اس وقت حضرت علی بن ابی طالبع کی عمر ۳۳ برس کی ھے اسے اواخرِ شباب بلکہ بھرپور جوانی کا زمانہ سمجھنا چاھئے مگر اس کے بعد پچیس سال کی طولانی مدت حضرت علی بن ابی طالبع یوں گزارتے ھیں کہ تلوار نیام میں ھے اور آپ کا مشغلہ عبادتِ الٰھی اور آزوقہ کی فراھمی کے لئے محنت و مزدوری کے سوا بظاھر اور کچھ نھیں۔ یہ ایسی وادیٴ پرخار ھے جس میں ذرا بھی کھل کر کچھ کھنا تحریر کو مناظرانہ آویزشوں کا آماجگاہ بنا دینا ھے۔ پھر بھی یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات لازماً ھے کہ باوجودیکہ یہ مسلمانوں کی جنگ آزمائیوں کا زمانہ اور فتوحاتِ عظیمہ کا دور ھے جس میں اسلام قبول کرنے کے بعد گمنام ھو جانے والے افراد سیف اللہ اور فاتح ممالک اور غازی بن رھے ھیں پھر بھی جو تلوار ھر مقام پر عھد رسول میں کارنمایاں کرتی نظر آتی تھی وہ اس دور میں کلیتہ نیام کے اندر ھے۔ آخر کیا بات ھے کہ وہ جوھر میدان کا مرد تھا اب گوشہ عافیت میں گھر کے اندر ھے۔ اگر اس کو بلایا نھیں جاتا تو کیوں؟ اور اگر بلایا جاتا ھے اور وہ نھیں آتا تو کیوں؟ دونوں باتیں تاریخ کے ایک طالب علم کے لئے عجیب ھی ھیں ایسا بھی نھیں کہ وہ بالکل غیرمتعلق ھے۔ نھیں اگر کبھی کوئی مشورہ لیا جاتا ھے تو وہ مشورہ دے دیتا ھے کوئی علمی مسئلہ درپیش ھوتا ھے اور اس کے حل کرنے کی خواھش کی جاتی ھے تو وہ حل کر دیتا ھے مگر ان لڑائیوں میں جو جھاد کے نام سے ھو رھی ھیں اسے شریک نھیں کیا جاتا۔ نہ وہ شریک ھوتا ھے۔ ۲۵ سال کی طولانی مدت گزری اور اب حضرت علی بن ابی طالبع کی عمر ۵۸ سال کی ھو گئی یہ پیری کی عمر ھے جس طرح مکہ کی ۱۳ برس کی خاموشی کے درمیان بچپنا گیا تھا اور جوانی آئی تھی اسی طرح اس پچیس برس کی خاموشی کے دوران میں جوانی گئی اور بڑھاپا آیا۔ گویا ان کی عمر کا ھر دوراھہ صبر و تحمل اورضبط و سکون کے عالم میں آتا رھا۔ بھلا اب کسے تصور ھو سکتا ھے کہ جس کو جوانی گزر کر بڑھاپا آ گیا اور اس نے تلوار سے نیام نہ نکالی وہ اب کبھی تلوار کھینچے گا اور میدان جنگ میں حرب و ضرب کرتا نظر آئے گا۔ عالم اسباب کے عام تقاضوں کے لحاظ سے تو اس پچیس برس کے عرصہ میں ولولہ و امنگ کی چنگاریاں تک سینہ میں باقی نھیں رھیں۔ ھمت کے سوتے خشک ھو گئے اور اب دل میں ان کی نمی تک نھیں رہ گئی۔ اب نہ دل میں وہ جوش ھو سکتا ھے نہ بازوؤں میں وہ طاقت۔ نہ ھاتھوں میں وہ صفائی اور نہ تلوار میں وہ کاٹ مگر ۵۸ سال کی عمر میں وہ وقت آ گیا کہ مسلمانوں نے باصرار زمام خلافت آپ کے ھاتہ میں دے دی۔ آپ نے بھت انکار کیا مگر مسلمانوں نے تضرع و زاری کی حد کر دی اور حجت ھر طرح تمام ھو گئی۔ لیکن جب آپ سریز خلافت پر متمکن ھوئے اور اس ذمہ داری کو قبول کر چکے تو کئی جماعتوں نے بغاوت کر دی۔ آپ نے ھر ایک کو پھلے تو فھمائش کی کوشش کی اور جب حجت ھر طرح تمام ھو گئی تو دنیا نے دیکھا کہ وھی تلوار جو بدر و احد اور خندق و خیبر میں چمک چکی تھی اب جمل، صفین اور نھروان میں چمک رھی ھے۔ اور پھر یہ نھیں کہ فوجیں بھیج رھے ھوں اور خود گھر میں بیٹھیں بلکہ خود میدان جنگ میں موجود اور بنفس نفیس جھاد میں مصروف۔ اب ایسا محسوس ھو رھا ھے جیسے کوئی نوجوان طبیعت جو مقابل سے دو دو ھاتہ کرنے کے لئے بے چین ھو۔ چونکہ حضرت کی ھیبت فوج دشمن کے ھر سپاھی کے دل پر تھی اس لئے صفین میں جب آپ میدان میں نکل آتے تھے تو پھر مقابل جماعت کا پرا بند ھو جاتا تھا اور کوئی مقابلہ کو باھر نہ آتا تھا۔ اسے دیکہ کر آپ نے یہ صورت اختیار فرمائی تھی کہ دوسرے اپنے ھمراھیوں کا لباس پھن کر تشریف لے جاتے تھے۔ چونکہ جنگ کا لباس خود و مغضر اور زرہ و بکتر وغیرہ پھننے کے بعد چھرہ نظر نھیں آتا تھا۔ اس لئے لباس بدلنے کے بعد پتا نہ چلتا تھا کہ یہ کون ھے اور آپ کبھی عباس بن ربیعہ اور کبھی فضل بن عباس اور کبھی کسی اور کا لباس پھن کر تشریف لے جاتے تھے اور اس طرح بھت سے نذرِ تیغ ھو جاتے تھے۔ لیلة الحریر میں طے کر لیا کہ فتح کے بغیر جنگ نہ رکے گی۔ پورے دن لڑائی ھو چکی تھی سورج ڈوب گیا تب بھی لڑائی نہ رکی۔ پوری رات جنگ ھوتی رھی یھاں تک کہ نقشھٴ جنگ بدل گیا اور صبح ھوتے ھوتے فوج شام سے قرآن نیزوں پر بلند ھوگئے جن سے التوائے جنگ کی درخواست مطلوب تھی اور یہ جنگ میں شکست کا کھلا ھوا اعلان تھا۔ یہ ۶۰ برس کی عمر میں جھاد ھے اور یھی وہ ھیں جو ۳۳ برس کی عمر سے ۵۷ برس تک کی مدت یوں گزار چکے ھیں جیسے کہ سینہ میں دل ھی نھیں اور دل میں ولولہ اور جنگ کا حوصلہ ھی نھیں۔ اب ایسے انسان کو کیا کھا جائے؟ جنگ پسند یا عافیت پسند؟ ماننا پڑے گا کہ یہ کچھ بھی نھیں ھیں یہ تو فرائض کے پابند ھیں جب فرض ھو گا خاموشی کا تو خاموش رھیں گے۔ چاھے شباب کی حرارت اور اس کا جوش و ولولہ کچھ بھی تقاضا رکھتا ھو۔ اس وقت کتنے ھی صبرآزما مشکلات پیش آتی رھیں وہ صبر کریں گے اور گھبرائیں گے نھیں۔ اور جب فرض محسوس ھو گا کہ تلوار اٹھائیں تو تلوار اٹھائیں گے، چاھے بڑھاپے کا انحطاط جو عام افراد میں اس عمر میں ھوا کرتا ھے کچھ بھی تقاضا رکھتا ھو۔ اب حرب و ضرب کی سختیوں کا مقابلہ کرنے میں وہ جوانوں سے آگے نظر آئیں گے۔ یھی وہ ”معراج انسانیت“ ھے، جھاں تک طبیعت، عادت اور جذبات کے تقاضوں میں گرفتار انسان پھنچا نھیں کرتے۔

Comments powered by CComment