قرآن کریم اور روایات کی رو سے امامت کی حقیقت

مختلف قرآنی مقالات
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

قرآن کریم کی آیات اور روایات میں مراجعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امامت کے لئے ایسے جامع اور کامل معنی بیان ہوئے ہیں جن کا شمار دینی اور سیاسی مرجعیت کے امور میں ہوتا ہے، یہاں پر ہم بعض آیات اور روایات کی طرف اشارہ کریں گے:

 

۱۔ امامت الہی عہدہ ہے

 

خداوند عالم فرماتا ہے : ” وَ إِذِ ابْتَلی إِبْراہیمَ رَبُّہُ بِکَلِماتٍ فَاٴَتَمَّہُنَّ قالَ إِنِّی جاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتی قالَ لا یَنالُ عَہْدِی الظَّالِمین“(۱) اور اس وقت کو یاد کرو جب خدانے چند کلمات کے ذریعے ابراہیم علیہ السّلام کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کردیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔انہوں نے عرض کی کہ میری ذریت؟ ارشاد ہوا کہ یہ عہدئہ امامت ظالمین تک نہیں جائے گا ۔

 

۲۔ خداوند عالم کے حکم سے امامت کو قائم کرنا ۔

 

 قرآن کریم کی آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ امامت خداوند عالم کا حکم ہے اور وہ جس کو بھی اس کے لائق سمجھتا ہے اس کو امام قرار دیتا ہے اور یہ امامت کے مقام و منزلت کی عظمت کی وجہ سے ہے، مذکورہ آیت میںخداوندعالم فرماتا ہے : ” إِنِّی جاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِماماً“ ۔ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔ اس طرح امامت کے عہدہ کو قائم کرنے کی نسبت اپنی طرف دیتا ہے ۔

 

قرآن کریم نے حضرت موموسی (علیہ السلام) کی زبانی نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ” قالَ رَبِّ اشْرَحْ لی صَدْری ، وَ یَسِّرْ لی اٴَمْری ، وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانی ، یَفْقَہُوا قَوْلی ، وَ اجْعَلْ لی وَزیراً مِنْ اٴَہْلی ، ہارُونَ اٴَخی “(۲) ۔

 

موسٰی نے عرض کی پروردگار میرے سینے کو کشادہ کردے ، میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے ، کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ، اور میرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دیدے ، ہارون کو جو میرا بھائی بھی ہے ۔

 

نیز خداوند عالم فرماتا ہے : ” وَ جَعَلْنا مِنْہُمْ اٴَئِمَّةً یَہْدُونَ بِاٴَمْرِنا لَمَّا صَبَرُوا وَ کانُوا بِآیاتِنا یُوقِنُونَ “(۳) اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا قرار دیا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔

 

ان آیات اور دوسری آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ امامت کے لئے خاص معنی (جو اہلسنت بیان کرتے ہیں ان کے علاوہ ) بیان ہوئے ہیں ۔

 

۳۔ ولایت الہی کی وجہ سے امام کے لئے اطاعت مطلق

 

یا اٴَیُّہَا الَّذینَ آمَنُوا اٴَطیعُوا اللَّہَ وَ اٴَطیعُوا الرَّسُولَ وَ اٴُولِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فی شَیْء ٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللَّہِ وَ الرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ذلِکَ خَیْرٌ وَ اٴَحْسَنُ تَاٴْویلا“(۴)ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے ۔

 

فخر رازی مذکورہ آیت کے ذیل میں کہتے ہیں : معصومین کے علاوہ کوئی اور صاحبان امر نہیں ہوسکتا ،کیونکہ معصوم کے علاوہ کسی اور کی مطلق اطاعت کا حکم دینا محال ہے (۵) ۔

 

۴۔ امامت تمام اسلامی احکام کی روح ہے

 

خداوند عالم فرماتا ہے : ” یا اٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ ما اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَہُ وَ اللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّہَ لا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکافِرین“(۶) اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ۔

 

علمائے شیعہ اور اہل سنت کے دانشوروں کی ایک بڑی جماعت کے نظریہ کے مطابق یہ آیت غدیر کے روز امیر المومنین علی بن ابی طالب (علیہ السلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد امیر المومنین علی (علیہ السلام) کی ولایت کو لوگوں تک پہنچایا ۔ ” وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَما بَلَّغْتَ رِسالَتَہ“ اس جملہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے امامت کے خاص معنی بیان کئے ہیں اور یہ معنی وہ نہیں ہیں جن کو اہل سنت نے بیان کیا ہے ۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت ، اصول دین اور شریعت کے تمام قوانین کی روح ہے ، یہ امامت کے کیسے معنی ہیں اور یہ امامت کیا ہے کہ اگر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس کو لوگوں تک نہ پہنچائیں تو گویا انہوں نے کوئی کام انجام نہیں دیا ہے؟

 

کیا یہ امیر المومنین علی (علیہ السلام) کی ولایت کو ابلاغ کرنے کے علاوہ کوئی اور کام ہوسکتا ہے؟

 

۵۔ امام کے ذریعہ موجودات کی ہدایت

 

خدا وند عالم فرماتا ہے : ” وَ جَعَلْنا مِنْہُمْ اٴَئِمَّةً یَہْدُونَ بِاٴَمْرِنا لَمَّا صَبَرُوا وَ کانُوا بِآیاتِنا یُوقِنُون“(۷)اور ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا قرار دیا ہے جو ہمارے امر سے لوگوں کی ہدایت کرتے ہیں اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے اور ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔

 

نیز فرماتا ہے : ” وَ وَہَبْنا لَہُ إِسْحاقَ وَ یَعْقُوبَ نافِلَةً وَ کُلاًّ جَعَلْنا صالِحینَ ، وَ جَعَلْناہُمْ اٴَئِمَّةً یَہْدُونَ بِاٴَمْرِنا وَ اٴَوْحَیْنا إِلَیْہِمْ فِعْلَ الْخَیْرات“(۸)اور پھر ابراہیم علیہ السّلام کو اسحاق علیہ السّلام اور ان کے بعد یعقوب علیہ السّلام عطا کئے اور سب کو صالح اور نیک کردار قرار دیا ، اور ہم نے ان سب کو پیشوا قرار دیا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ان کی طرف کارخیر کرنے کی وحی کی ۔

 

اس آیت میں خداوند عالم نے بعض انبیاء کا امتحان لینے اور بلاؤں میں صبر کرنے کے بعدان کو امامت اور ہدایت کا عہدہ عطا کیا ہے ، یہ امامت اور ہدایت یقینا باطنی اور تکوینی امامت و ہدایت ہے ، تشریعی نہیں ، کیونکہ یہ امامت کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے نبوت کی وجہ سے تشریعی ہدایت و امامت کے عہدے پر فائز تھے .

 

 

 

روایات کی رو سے امامت کی حقیقت

 

اسلامی روایات  میں مراجعہ کرنے کے  بعد معلوم ہوتا ہے کہ امامت کے لئے ایسے جامع اور کامل معنی بیان ہوئے ہیں جن کا شمار دینی اور سیاسی مرجعیت کے امور میں ہوتا ہے، یہاں پر ہم بعض روایات کی طرف اشارہ کریں گے:

 

۱۔ شیعہ اور اہل سنت کی مشہور حدیث میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ”من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتة جاھلیة“ (۹) جو بھی اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے اس کی موت زمان جاہلیت کی موت ہوگی ۔

 

یہ تعبیر بہت زیادہ شدید ہے کیونکہ زمانہ جاہلیت میں لوگ مشرک تھے ،یہاں تک کہ ان کے پاس توحیداور نبوت بھی نہیں تھی ، یہ بات بھی واضح ہے کہ امامت ، ولایت کے معنی میں اصول دین میں سے ہوسکتی ہے اور ان کا نہ پہچاننا جاہلیت کی موت ہوگی ۔

 

۲۔ سیرہ ابن ہشام میں بیان ہوا ہے : ”بنی عامر بن صعصعہ ، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچیں، آنحضرت (ص) نے ان کو خدا کی طرف دعوت دی اور اپنی نبوت کو ان کے سامنے پیش کیا --- اسی وقت اس جماعت میں سے ایک شخص (بحیرہ بن فراس) نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کیا : ہمیں یہ بتاؤ ! اگر ہم تمہارے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرلیں اور خداوند عالم آپ کو آپ کے دشمنوں پر غالب کردے تو کیا آپ کے بعد خلافت میں ہمارا بھی حصہ ہوگا؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا: امر خلافت ، خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جس کی بھی چاہتا ہے عطا کردیتا ہے ۔

 

اس وقت بحیرہ نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے عرض کیا : آپ سے دفاع کے لئے ہم اپنی جان تم پر قربان کردیں لیکن جب خداوند عالم تمہیں دشمنوں پر کامیاب کردے تو خلافت ہمارے علاوہ کسی اور کو مل جائے ، لہذا ہمیں تمہارے اسلام کی ضرورت نہیں ہے (۱۰) ۔

 

۳۔ امام رضا (علیہ السلام) نے عبدالعزیز بن مسلم سے فرمایا: امت کے درمیان کیا لوگ امامت کے مقام و منزلت کو جانتے ہیں جو امام کو انتخاب کرنے کا اختیار ان کو دیا جائے؟ یقینا امامت کی منزلت بہت بلند، اس کی شان بزرگ، اس کی جگہ اتنی بلند و بالا ہے کہ لوگ اپنی عقلوں کے ذریعہ اس تک نہیں پہنچ سکتے اور اپنی رائے اور اپنے انتخاب کے ذریعہ امام کو منصوب نہیں کرسکتے ۔

 

یقنا امامت کا مقام ایسا ہے کہ خداوندعالم نے نبوت اور خلت کے بعد تیسرے مرتبہ میں حضرت ابراہیم کو امام بنایا اور ان کو اس فضیلت سے مشرف کیا اور ان کے نام کو بلند کرتے ہوئے فرمایا : یقینا میں نے تمہیں لوگوں کا امام بنایا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے خوش ہو کر خداوند عالم سے عرض کیا : اور میری اولاد سے بھی؟ تو خدا نے فرمایا: میرا عہدہ اور وعدہ ظالمین تک نہیں پہنچ سکتا ۔

 

یقینا امامت ، خداوند عالم اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی خلافت ہے ،امیر المومین علی (علیہ السلام) کا عہدہ اور حسن و حسین (علیہما السلام) کی میراث ہے یقینا امامت دین کی باگ ڈور اور مسلمانوں کے نظام کا سبب، دنیا کی صلاح اور مومنین کی عزت ہے ، یقینا نماز ، روزہ، حج ، جہاد کا کامل ہونا انہی کے طفیل میں ہے ۔

 

امام ، چمکتاہوا ماہتاب، روشن چراغ،درخشاں نور، اور شدید تاریکی میں راہنمائی کرنے والا ستارہ ہے ۔

 

امام ، ہدایت کی طرف راہنمائی اور ہلاکت سے نجات دلانے والا ہے ۔

 

امام ،گناہوں سے پاک اور عیبوں سے دور ہے ،نظام دین کاسبب، مسلمانوں کی عزت ، منافقین کی نارضگی کاسبب اور کافروں کو ہلاک کرنے والا ہے ۔

 

پس کون ہے جو امام کو پہچان سکے اورکون ہے جس کے لئے امام کا انتخاب کرنا ممکن ہو؟

 

ھیھات ! ھیھات ! یہاں پرامام کے فضائل کو بیان کرنے سے عقلیں دنگ اور پریشان ہیں، آنکھوں میں نور نہیں، بزرگ چھوٹے ، حکماء حیران و پریشان، عقلمندوں کی فکریں چھوٹی اورخطیب بیکارہوگئے اور ا ن سب نے اپنے عجز و ناتوانی کا اعتراف کرلیا، کس طرح وہ امام کی حقیقت اور اس کے اوصاف کو بیان کرسکتے ہیں؟

 

ممکن نہیں ہے کس طرح اور کہاں سے؟ جب کہ وہ صفت بیان کرنے والوں سے بلند اور آسمان میں ستاروں کی جگہ پر ہے، وہ کہاں اور انسان کاانتخاب کہاں؟وہ کہاں اورانسان کی عقلیں کہاں؟ وہ کہاں اور اس کے جیسا کہاں(۱۱) ۔

 

____________________

 

۱۔ سورہ بقرہ، آیت ۱۲۴۔

 

۲۔ سورہ طہ، آیت ۲۵۔ ۳۰۔

 

۳۔ سورہ سجدہ ، آیت ۲۴۔

 

۴۔ سورہ نساء ، آیت ۵۹۔

 

۵۔ تفسیر فخر رازی، آیت کے ذیل میں ۔

 

۶۔ سورہ مائدہ، آیت ۶۷۔

 

۷۔ سورہ سجدہ ، آیت ۲۴۔

 

۸۔ سورہ انبیاء ، آیات ۷۲ ۔ ۷۳۔

 

۹۔ شرح مقاصد، ج۵، ص ۲۳۹۔

 

۱۰۔ سیرہ ابن ہشام، ج۲، ص ۳۲۔

 

۱۱۔ کافی ج۱، ص ۱۹۸، ۲۰۳۔

 

۱۲۔ علی اصغر رضوانی، امام شناسی و پاسخ بہ شبھات (۱) ،ص ۳۲۔

 

Comments powered by CComment