مترجم و تلخیص کنندہ: سید محمد میثم نقوی
خلیفہ اول ابوبکر بن ابوقهافہ نے ایک روایت کی بنا پر اپنی عمر کے آخری لمحوں میں تین كاموں کے کرنے، تین كاموں کے نہ کرنے، اور پیغمبر سے تین سوالوں نہ پوچھنے سے شرمندگی کا اظہار کیا ہے.
اس روایت کے بارے میں بہت سے سوال کئے جاتے ہے کہ یہ روایت، تاریخ اور علم رجال کی کن شیعہ یا سنی كتابوں میں آئی ہے؟ ان كتابوں کا شیعہ یا سنی علماء کے درمیان کیا اعتبار ہے؟ کیا اس روایت کی تمام سندیں معتبر ہے؟ علم رجال اور تاريخدانوں کی اس روایت کی سند اور مضمون کے بارے میں کیا نظر ہے اور اس روایت کو صحیح ماننے کے نتیجے کیا ہوں گے؟
جہاں تک سوال ہے اس بات کا کہ یہ روایت شیعہ، سنيوں کی کن كتابوں میں آئی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں فریق کے بہت سے محدثين، تاريخدان، مناقب لکھنے والے، رجالييوں، اديبوں، راويوں اور ناقلوں نے اس روایت کو چند طريقوں سے سقہ راويوں اور مختلف سندوں سے لفظوں اور مضمون کے تھوڑے بہت فرق سے تیسری صدی کے پہلے پچاسے یعنی وہ زمانہ کی جس میں حدیث لکھنے کی شروعات ہوئی تھی، سے لکھا ہے یہاں تک کہ یہ روایت موجودہ زمانے کی رجال، حدیث ، تاریخ اور عربی ادب کی كتابوں میں بھی موجود ہے.
اور اس روایت کا صحیح ہونا، اس کی سند و پرانی كتابوں میں اس کے ہونے سے ثابت ہے اور اس روایت کو صحیح اور سچی ماننے کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کو اپنی حقانيت اور اپنے صحیح ہونے پر شک تھا اور کیوں کہ یہ روایت اہل سنت بھائيوں کی كتابوں میں تھوڑی بہت کمی وزیادتی کے ساتھ آئی ہے اس لئے ہم مجبور ہیں کہ پوری روایت کو دو بڑے تاريخدانوں (طبری اور ابوعبید قاسم بن سلام) کی كتابوں سے لا کر ان کا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کرے .
روایت کا ترجمہ
عبدالرحمن بن اوف کہتا ہے: میں ابوبکر کی طبیعت پوچھنے گیا (اس بیماری کے وقت کہ جس میں انہوں نے انتقال کیا) میں نے انہیں سلام کیا اور طبیعت پوچھی (مجھے دیکھ کر) وہ اٹھ کر بیٹھ گئے
میں نے کہا: الحمد للہ آپ بہتر ہو گئے. انہوں نے کہا: کیا تم مجھے بہتر سمجھتے ہو؟ میں نے کہا: جی پھر انہوں نے کہا: تب بھی میں بیمار ہوں، پھر کہا: میں نے اپنی نظر میں تم میں سے سب سے بہتر کو خلافت کے لے اپنا جانشين بنایا ہے اور اس کی وجہ سے تم سب کے دماغوں میں خرافات پیدا ہوگی اس امید میں کہ (کاش) اسکی جگہ تمہیں یہ قدرت حاصل ہوتی اور تم دیکھو گے کہ (کس طرح) دنیا تمہاری طرف رخ کریگی چاہے اب نہ کیا ہو لیکن جلد ہی تم اسکی طرف مائل ہو جاؤگے اور جلد ہی تمہارے گھر ریشمی پردوں اور نرم تكييوں سے آراستہ ہوں گے. سادہ گدے پر سونا تمہارے لئے اس طرح دشوار ہوگا جیسے کہ تم كاٹوں کے بستر پر سو رہے ہو. خدا کی قسم اگر بے گناہ تمہیں قتل کر دیا جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم دنیا کی لذتوں میں ڈوب جاؤ. آنے والے زمانے میں تم ان افراد میں سب سے پہلے ہوں گے کہ جو لوگوں کو گمراہ کریںگے اور انہیں راہ راست سے الٹی طرف کو دوڑایگے.
(اور پھر ابوبکر نے صحابہ کے حال پر ایک مثال دی) اے رہنما تم خود اندھیرے میں کھو گے تھوڑا صبر کرو کہ صبح ہونے والی ہے.
پھر عبدالرحمن کہتا ہے کہ زیادہ پریشان مت ہو کہ تمہارا حال اور خراب ہو جائےگا. تمہارے (خلافت میں جانشين مقرر کرنے کے) ارادے کے بارے میں لوگ دو حالتوں سے خالی نہیں ہیں یا تمہارے موافق ہیں یا مخالف ہیں جو موافق ہیں وہ آپ کے ساتھ ہے اور جو تمہارے مخالف ہیں وہ تمہیں مشورہ دیں گے. اور جس کو تم نے اپنے بعد خليفہ مقرر کیا ہے ایسا ہی ہے کہ جیسا تم چاہتے ہو اور ہم نے بھی تم سے خیر کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، اس دنیا کی کسی چیز کے لے غمزدہ نہ ہو خدا کی قسم تم ہمیشہ نیک اور اچھے كاموں کی ہدایت کرنے والے رہے.
ابوبکر کہنے لگے :ہاں مجھے اس دنیا کی کسی چیز کا افسوس نہیں ہے سواے تین كاموں کے، کہ جنہیں میں نے انجام دیا اور بہتر ہوتا کہ انہیں انجام نہ دیتا اور تین كاموں کے، کہ جنہیں میں نے انجام نہیں دیا اور بہتر ہوتا کہ انہیں انجام دیتا اور تین سوالوں کے، کہ چاہتا تھا کہ رسول خدا (سوو) سے انہیں معلوم کر لیتا.
اور وہ تین کام کہ جنہیں میں نے انجام دیا اور چاہتا تھا کہ انجام نہ دیتا، چاہتا تھا کہ در فاطمہ زہراء کو کسی بھی حال میں نہ كھلواتا چاہے وہ مجھ سے جنگ کی نیت سے ہی کیوں نہ بند کیا گیا ہوتا اور چاہتا تھا کہ فجاء سلمی (1) کو آگ میں نہ جلاتا یا اسے قتل کردیتا یا معاف کر دیتا اور سقيفہ بنی ساعدہ کے دن چاہتا تھا کہ خلافت کو ان دونوں (عمر یا ابوعبیدہ) کے گلے میں ڈال دیتا، وہ امیر ہوتا اور میں وزیر.
اور وہ تین کام کہ جنہیں میں نے انجام نہیں دیا اور چاہتا تھا کہ انہیں انجام دوں وہ یہ ہے: میں چاہتا تھا کہ جب اشعس بن قیس گرفتار ہوکر میرے پاس لایا گیا اسی روز اسے قتل کردوں کیوں کہ میری نظر میں وہ جہاں بھی برائی کو دیکھیگا اس کی مدد کریگا اور چاہتا تھا کہ جس دن خالد بن وليد کو مرتدين کی طرف بھیجا خود ذوالقصہ میں رک جاتا اگر مسلمان کامیاب ہو جاتے کہ ہو ہی گئے اور اگر ہار جاتے تو ان کی مدد کو جاتا یا ان کے لئے مدد بھیجتا اور چاہتا تھا کہ جس دن خالد بن وليد کو شام بھیجا عمر کو عراق بھیج دیتا اور اپنے دونوں ہاتھوں کو خدا کی راہ میں کھول دیتا.
اور وہ تین سوال کہ جنہیں رسول اللہ(ص) سے پوچھنا چاہتا تھا وہ یہ ہیں: چاہتا تھا کہ رسول اللہ(ص) سے سوال کروں کہ انکا جانشين کون ہے تاکہ کوئی اس کے بارے میں جھگڑا نہ کرے اور چاہتا تھا کہ معلوم کر چکا ہوتا کہ کیا خلافت میں انصارکا بھی کوئی حق ہے اور چاہتا تھا کہ وراثت میں پھوپی اور بھانجي کا حق معلوم کر چکا ہوتا، اس کے بارے میں مجھے شک ہے.
اس روایت کے مختلف جملوں کے نتائج
'' چاہتا تھا کہ در فاطمہ زہراء کو کسی بھی حال میں نہ كھلواتا چاہے وہ مجھ سے جنگ کی نیت سے ہی کیوں نہ بند کیا گیا ہوتا '' کا نتیجہ
1. اس بات کا اقرار کہ ابوبکر نے جناب فاطمہ زہراء (س) کے گھر پر حملہ کیا اور ان کے گھر کی حرمت کو پامال کیا اور گھر کے دروازے کو جناب فاطمہ (س) کی اجازت کے بغیر کھلوایا.
2. اس بات کا اقرار کی جناب فاطمہ زہراء (س) اور مولا علی (ع) ابوبکر سے ناراض تھے.
'' کیا خلافت میں انصار کا بھی کوئی حق ہے '' کا نتیجہ
1. اس بات کا اعتراف کی جو حدیث ابوبکر نے سقيفہ میں انصار پرغلبہ حاصل کرنے کے لئے بیان کی تھی جو یہ (ائمہ قریش میں سے ہوںگے) غلط ہے اس حدیث کو صرف ابوبکر نے نقل کیا ہے اور کسی نے اس حدیث کو رسول اللہ سے نسبت نہیں دی ہے. ابوبکر نے یہ کہہ کر کہ ’’کیا انصار کا بھی خلافت میں کوئی حق ہے “ اپنی بیان کی ہوئی حدیث (آئمہ قریش میں سے ہوں گے) کے جعلی اور مصنوعی ہونے کا خود اقرار کیا ہے.
2. اس جملے سے ابوبکر نے اپنی خلافت اور حكومت کے غلط ہونے کا اعتراف کیا ہے اور اس جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی خلافت، جانشینی اور حقانيت میں شک رکھتا تھا اس بنا پررسول خدا (ص ) کے خلیفہ بننے کے اپنے عمل کے غلط ہونے کا خود اقرار کیا اور انصار کے حق میں ظلم کرنے اور انہیں ان کے حق سے دور کرنے کا اقرار کیا ہے.
’’ آپ کے بعد خلافت کس حق ہے ‘‘ کا نتیجہ
1. ابوبکر کا اپنی خلافت، حکومت کے صحیح ہونے پر شک اور خود اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اعمال کے صحیح ہونے پر شک
2. اس بات کا اقرار (آئمہ قریش میں سے ہوں گے) غلط ہے اور ابوبکر نے ایک جھوٹ کی نسبت رسول خدا(ص) سے دی تھی اور اس کے خلیفہ بننے پر کوئی حدیث موجود نہیں ہے.
3. اپنی حکومت کے غلط ہونے اور اپنے جانشين اور ساتھيوں کے اعمال کے غلط ہونے کا اقرار
4. خلافت کے حقدار سے جھگڑے اور اس کے حق کو جہالت اور نفس پرستي کی وجہ سے چھین لینے کا اقرار
5. خلافت کے حقدار پر ظلم اور اس کا حق چھیننے کا اقرار
6. اس بات کا اقرار کہ اسے رسول خدا (ص) نے خلیفہ نہیں بنایا تھا اور ابوبکر کے پیروكاروں کی بنائی گئی وہ تمام حدیثیں کہ جو اس کے رسول خدا (ص) کے جانشين بنانے کے بارے میں ہیں‘ جھوٹھی اور جعلی ہیں.
-----------------------------------------------------------------------------
1. فجاء سلمیٰ ایک آدمی کا نام تھا کہ جس نے پیغمبری کا دعوی کیا تھا.
] یہ مقالہ ڈاکٹر اللہ اكبری (رکن محکمہ تاریخ، مدرسہ امام خمینی قم/ ایران) کے فارسی مقالے ''حدیث پشیمانی '' سے تلخیص کیا گیا ہے [
Comments powered by CComment