عاشور کا روزہ

بعض شبہات
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

 تحقیق و تالیف : پیغمبر نوگانوی

 جیسے ہی نواسۂ رسول (ص) حضرت امام حسین (ع) کے قیام و شہادت کا مہینہ ،محرم شروع ہوتا ہے ویسے ہی ایک خاص فکر کے لوگ اس یاد اور تذکرے کو کم رنگ کرنے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں ، کبھی گریہ ﴿جو سنت رسول (ص) ہے ﴾کی مخالفت کی جاتی ہے تو کبھی عاشور کے روزے کی اتنی تشہیر کی جاتی ہے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دس محرم 61ہجری کوکوئی حادثہ ہوا ہی نہ تھا بلکہ صرف بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی کا دن ہے اور بعض اسلامی ملک تو اس کا اعلان اور تشہیر سرکاری پیمانے پر کرتے ہیں اور دلیل کے طور پر بخاری وغیرہ کی حدیثیں پیش کی جاتی ہیں ، ابھی چند برس پہلے کی بات ہے سعودی عرب کی نیوز ایجنسی نے اپنے ایک بیان میں عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل شیخ کی جانب سے اعلان کیا تھا کہ پیغمبر (ص) سے روایت ہوئی ہے کہ:
آنحضرت (ص) عاشوراکے دن روزہ رکھتے تھے اور لوگوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کی تشویق کرتے تھے ، کیونکہ عاشورا وہ روز ہے جس دن خدا وند عالم نے موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات دی تھی لہٰذا ہر مسلمان مرد و عورت پر مستحب ہے کہ دسویں محرم کو خداکا شکرانہ کے طور پر روزہ رکھیں ...
تعجب ہے ! ہم نے سعودی عرب کا کوئی بھی سرکاری بیان حادثۂ عاشورا سے متعلق نہ پڑھا جس میں نواسۂ رسول(ص) کی دلسوز شہادت پر رنج و الم کا اظہار کیا گیا ہو ، نبی ٔ اسلام کی پیروی کا دعوی کرنے کے باوجود بھی اپنے نبی (ص) کے نواسے سے اتنی بے رُخی اور بنی اسرائیل کی نجات کی یادگار سے اتنی دلچسپی ! ؟ اگر نبی (ص) اور اس کی قوم کی نجات پر روزہ رکھنا مستحب ہے تو پھر جس دن جناب ابراہیم(ع) کو خدا نے نار نمرود سے نجات دی اُس دن بھی روزہ رکھنا چاہئے ، جس دن جناب نوح کی کشتی کوہ جودی پر ٹھہری اور انہیں اُن کے ساتھیوں سمیت غرق ہونے سے نجات ملی اُس دن بھی روزہ رکھنا مستحب ہونا چاہئے اور یہ دن وہ تھا جب سورج بُرج حمل میں جاتا ہے جو عیسوی کلینڈر میں 21مارچ کو ہوتا ہے ، رسول(ص) اللہ اگر جناب موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی نجات پر شکرانہ کا روزہ رکھیں گے تو پھر دیگر انبیائ کی نجات پر بھی ضرور روزہ رکھا ہوگا ، اگر رکھا ہوگا تو 21مارچ کو روزہ رکھنے کی تشہیر اس پیمانے پر کیوں نہیں کی جاتی ،یہ روزے بھی تو سنت کہلائیں گے ؟
 اب آیئے بخاری کی اُن روایتوں پر تحقیقی نگاہ ڈالتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر عاشور کے روزے کی تشہیر کی جاتی ہے ، جناب عائشہ(رض) سے بخاری میں ایک روایت اس طرح ہے کہ :
عاشورکے دن زمانہ ٔ جاہلیت میں قریش روزہ رکھتے تھے ، رسول (ص) خدا بھی اس روز﴿عاشور کو﴾روزہ رکھتے تھے اور جس وقت آپ مدینہ تشریف لائے تو عاشور کے روزہ کو اسی طرح باقی رکھا اور دوسروں کو بھی حکم دیا، یہاں تک کہ ماہ رمضان کے روزے واجب ہوگئے ، اس کے بعد آنحضرت (ص) نے عاشور کا روزہ ترک کردیا اور حکم دیا کہ جو چاہے عاشور کے دن ، روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے.
﴿صحیح بخاری ، جلد 2،صفحہ 250، حدیث 2002، کتاب الصوم ، باب 69باب صیام یوم عاشورا، محقق محمد زہیر بن ناصر الناصر ، ناشر دار طوق النجاۃ ، پہلا ایڈیشن 1422ہجری ﴾
 مذکورہ روایت کے سلسلہ ٔ سند میں ’’ہشام بن عروہ ‘‘ موجود ہے جس کی وجہ سے سلسلۂ سند میں اشکال پیدا ہوگیا ہے کیونکہ ابن قطان نے ہشام بن عروہ کے بارے میں کہا ہے کہ : یہ ﴿ہشام بن عروہ﴾مطالب کو بدل ڈالتا تھا اور غلط کو صحیح میں مخلوط کردیتا تھا ، علامہ ذہبی نے کہا ہے کہ یہ بعض محفوظ باتوں کو بھول جایا کرتا تھا یا اُس میں شک ہوجاتا تھا .
﴿میزان الاعتدال ، جلد 4، صفحہ301،تحقیق علی محمد البحاوی، ناشر دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر ، بیروت ، لبنان ،1963عیسوی ﴾
 اس کے علاوہ یہ روایت بخاری ہی کی دوسری روایتوں سے تناقض رکھتی ہے اور ٹکرا رہی ہے مثلاً صحیح بخاری میں ابن عباس سے ایک روایت ہے کہ :
جب رسول خدا (ص) نے مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دیکھا کہ عاشور کے دن روزہ رکھے ہوئے ہیں تو آپ (ص) نے فرمایا کہ یہ روزہ ﴿انہوں نے﴾ کیوں رکھا ہے ؟ جواب ملا : یہ خوشی کا دن ہے کیوں کہ اِس روز خدا وند عالم نے بنی اسرائیل کو دشمنوں سے نجات دی تھی لہٰذا موسیٰ اور اُن کی قوم اِس روز روزہ رکھتی ہے ، حضرت (ص) نے فرمایا کہ: میں موسیٰ کی پیروی کرنے میں بنی اسرائیل سے زیادہ سزاوار ہوں لہٰذا آنحضرت (ص) نے عاشور کو روزہ رکھا اور حکم دیا کہ ﴿مسلمان بھی ﴾اس روز روزہ رکھیں.
﴿صحیح بخاری ، جلد 2، صفحہ 251، حدیث 2004﴾
 پہلی روایت تو یہ کہہ رہی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اور قریش زمانہ ٔ جاہلیت سے ہی روز عاشور کو روزہ رکھتے چلے آ رہے ہیں اور ظہور اسلام کے 13سال بعد تک بھی مکہ میں یہ روزہ رکھا اور ہجرت کے بعد مدینہ میں رمضان کے روزے واجب ہوئے اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے مسلمانوں کو اختیار دیا کہ چاہیں تو عاشور کو روزہ رکھ لیں اور چاہیں تو نہ رکھیں ، لیکن بخاری کی مذکورہ دوسری روایت کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) نے جس وقت مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی تو نہ صرف یہ کہ آپ عاشور کو روزہ نہیں رکھتے تھے بلکہ آپ کو اس کے بارے میں کوئی اطلاع بھی نہیں تھی اور جب آپ (ص) نے یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو تعجب کے ساتھ اس روزے کے بارے میں سوال کیا ، آپ (ص) نے جواب میں سنا کہ یہود جناب موسیٰ اور بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی میں اس دن روزہ رکھتے ہیں ، پس رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ:
اگر ایسا ہے تو میں اپنے آپ کو کفار مکہ کے ہاتھوں سے نجات پانے کی خوشی میں موسیٰ سے زیادہ سزاوار سمجھتا ہوں کہ اس دن روزہ رکھوں ، اس کے بعد سے نہ صرف یہ کہ حضرت (ص) نے خود روزہ رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا
 ان دونوں روایتوں میں کونسی روایت کو صحیح قرار دیا جائے ؟ دونوں ایک ساتھ صحیح نہیں ہوسکتیں.؟!
بخاری میں ایک اور روایت ابن عمر سے موجود ہے جو مذکورہ اِس دوسری روایت سے بھی تناقض رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ:
رسول خدا عاشورکے دن روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی یہ روزہ رکھنے کا حکم فرماتے تھے ، یہاں تک کہ ماہ رمضان کے روزے واجب ہوگئے ، اس کے بعد سے روز عاشور کا روزہ ترک کردیا گیا اور عبداللہ ابن عمر نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا ، لیکن اگر عاشورا ایسے دن ہوتا تھا جس میں مسلمان روزہ رکھتے ہی تھے جیسے جمعہ کا روز ، توعاشور کو بھی روزہ رکھ لیتے تھے.
﴿ صحیح بخاری ، جلد 2، حدیث 1892،کتاب الصوم ،باب وجوب صوم رمضان ﴾
 اس روایت میں عاشور کے روزے کا اختیاری یا اجباری ہونا ذکر نہیں ہے ،بلکہ عاشور کے دن روزہ ترک کرنے کا ذکر ہے ! نیز عبداللہ ابن عمر بھی ماہ رمضان کے روزے واجب ہونے کے بعد عاشور کا روزہ نہیں رکھتے تھے ،اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سنت اتنی اہم تھی تو خلیفہ ثانی کے بیٹے نے اسے کیوں چھوڑ دیا تھا ؟اس کے علاوہ اور بہت سے اہل مدینہ بھی عاشور کے دن روزہ نہیں رکھتے تھے ،ایک روایتکے مطابق معاویہ ابن سفیان کو یہ کہتے ہوئیسنا گیا ہے کہ:
معاویہ ابن ابی سفیان سے عاشورا کے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ ! تمہارے علمائ کدھر گئے ؟میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سناکہ یہ عاشورا کا دن ہے ،اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزے سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزے سے رہے ﴿اور میری سنت پر عمل کرے ﴾اور جس کا جی چاہے نہ رہے .
﴿ صحیح بخاری ، کتاب الصیام ، حدیث 2003﴾
 بخاری کی اس روایت میں معاویہ کا انداز خطاب بتا رہا ہے کہ اہل مدینہ بھی عاشور کے دن روزہ نہیں رکھتے تھے !
اس روایت کے بر خلاف مجمع الزوائد میں ہیثمی کی روایت ہے کہ ہیثمی ابو سعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ :
رسول خدا (ص) نے روز عاشور کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا جب کہ آپ نے خود روزہ نہیں رکھا تھا .
﴿ مجمع الزوائد ، جلد ۳ ، صفحہ186، حدیث 5117 ، کتاب الصیام، باب فی صیام عاشورا، تحقیق حسام الدین قدسی، ناشر مکتبۃ القدسی ، قاہرہ 1994عیسوی ﴾
 ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ رسول اسلام (ص) نے مسلمانوں کو کوئی عمل انجام دینے کا حکم دیا ہو اور خود عمل نہ کیا ہو ،اس کے علاوہ ، مذکورہ روایت سے رسول خدا (ص) پر اہل کتاب کی پیروی کا الزام بھی عائد ہوتا ہے جو کہ درست نہیں ہے .
بخاری نے ابن عباس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جو مذکورہ بالا تمام روایتوں سے تضاد رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ :
رسول خدا(ص) کو یہ بات پسند تھی کہ جن امور میں خدا وند عالم کی جانب سے آپ کے لئے کوئی حکم صادر نہیں ہوا ہے اس میں اہل کتاب کی پیروی کریں ..
﴿ صحیح بخاری ، جلد 4، حدیث3558، کتاب المناقب ﴾
 اس کے علاوہ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ :
اُن موارد میں جن میں رسول خدا (ص) کے لئے اللہ کا حکم نہیں ہوتا تھا تو آپ (ع) اہل کتاب سے موافقت کر لیتے تھے.
﴿ فتح الباری ، ابن حجر عسقلانی شافعی ، جلد 4، صفحہ245-246، باب صیام عاشورا، ناشر دارالمعرفت ، بیروت، لبنان 1379ہجری﴾
 سمجھ میں نہیں آتا! یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے نبی (ص) نے جو افضل ِ انبیائ ہیں ، مفضول اہل کتاب کی پیروی کس طرح کی ہوگی ؟!
غور کرنے کا مقام ہے کہ جب یہود کی مخالفت میں بقول بخاری کے جوتوں سمیت نماز پڑھنے کی اجازت رسول اکرم (ص) نے دے دی.
﴿الطبرانی، المعجم الکبیر ، محقق حمدی بن عبدالمجید السلفی، ناشر مکتبہ ابن تیمیہ ، قاہرہ ، دوسرا ایڈیشن﴾
 حالانکہ جوتوں سمیت نماز پڑھنے سے نماز کا تقدس پائمال ہوتا ہے تو پھر یہود کی مواقت میں رسول اکرم (ص) روزہ رکھنے کا حکم کس طرح صادر فرما سکتے ہیں ؟! گویا یہود کی مخالفت اتنی اہم ہے کہ اس کی وجہ سے نماز کے تقدس اور احترام کو بھی نظر اندازکیا جا سکتا ہے ، تو پھر یہود کی موافقت میں آل رسول(ص) کو کس طرح نظراندازکردیا گیا ؟! عاشور کے روز نبی(ص) اکرم کی بہترین سیرت اور سنت یہ ہے کہ ہم امام حسین (ع) کے غم میں مغموم رہیں اور گریہ کریں اور یہی سیرت، ام المومنین حضرت ام سلمیٰ (رض)کی بھی تھی ،بہر حال ان تمام روایتوں سے چند باتیں ثابت ہوتی ہیںاور وہ یہ ہیں کہ:
۱۔ عاشور کا روزہ بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی کا روزہ ہے .
۲۔ عاشور کے روزے کا حکم خداوند عالم کی جانب سے نہیں آیاہے.
۳۔ عاشور کے دن روزہ رکھ کر معاذاللہ نبی نے بغیر حکم خدا کے یہود و نصاریٰ
 کی موافقت اور پیروی کی ہے، جو کہ مقام رسالت کے منافی ہے .
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عاشور کو روزہ رکھنے کی کوئی ترجیحی وجہ موجود نہیں ہے ، کیونکہ 61ہجری میں عاشور کے روز اہل بیت پیغمبر(ص) پر غم والم کے پہاڑ توڑے گئے جس کی یاد منانا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ، نبی کے نواسے نے اسلام کے لئے ہی اتنی عظیم قربانی پیش کی ہے اور اس راہ میں وہ مصائب برداشت کئے ہیں کہ جن کو سن کر ہی کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے ، لہٰذا ایسی عظیم اور اہم یادگار کے ہوتے ہوئے جس نے اسلام کو حیات نو بخشی ہو، بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی منانا نہ تو قرین عقل ہے اور نہ ہی اسلامی حمیت کا تقاضہ ہے ، بلکہ ضروری ہے کہ ہر مسلمان کو اپنے نبی کے نواسے کی یاد محرم میں عاشور کے روز منانی چاہئے اور یہ سنت رسول (ص) ہے ،حضرت ام الفضل بنت الحارث (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ، یا رسول اللہ میں نے آج رات ایک بُرا خواب دیکھا ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : کیا؟ عرض کیا بہت ہی سخت ہے ﴿بیان سے باہر ہے ﴾ آپ نے پھر فرمایا : کیا دیکھا ہے ؟ عرض کیا : میں نے دیکھا ہے کہ گویا آپ کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کا ٹ کر میری گود میں ڈال دیا گیا ہے ،آنحضرت (ص) نے فرمایا : تم نے تو بہت اچھا خواب دیکھا ہے اللہ تعالیٰ نے چاہا تو فاطمہ کے لڑکا پیدا ہوگا اور وہ بچہ تمہاری گود میں رہے گا ﴿چنانچہ ایسا ہی ہوا﴾ حضرت فاطمہ (رض) کے یہاں حضرت حسین(رض) کی ولادت ہوئی اور وہ جیسا کہ حضور(ص) نے ارشاد فرمایا تھا میری گود میں آئے ، پھر ایک روز میں ان کو لے کر آنحضرت(ص) کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہوئی اور ان کو آپ کی آغوش میں دے دیا، اسی اثنا میں میری توجہ ذرا دیر کے لئے دوسری طرف ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ رسول(ص) کی چشمان مبارک سے آنسو رواں تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر نثار، آپ کو کیا ہوگیا ، فرمایا: جبریل (ع) میرے پاس آئے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت میرے اس بیٹے کو عنقریب قتل کردے گی ، میں نے عرض کیا ، ان کو ، فرمایا ہاں ! اور مجھے ان کے مقتل کی سرخ ریت بھی لاکر دی ہے.
﴿المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، جلد3، صفحہ194،حدیث 4818، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا ، ناشر دارالکتب العلمیہ بیروت ، لبنان ، پہلا ایڈیشن 1990﴾
 حضرت رسول اکرم(ص) کا امام حسین (ع) کی خبر شہادت پر گریہ کرنا کیا ایسا عمل نہیں ہے جس کی مسلمان روز عاشور پیروی کریں ؟تو پھر یہود کی پیروی کرتے ہوئے اُن کی نجات کی خوشی میں روزے کیوں رکھے جا تے ہیں ؟! رسول (ص)کے غم پر یہود کی خوشی مقدم! ایسا کیوں ؟
 اسی طرح حضرت سلمہ (رض)بیان کرتی ہیں کہ میں ام المومنین حضرت ام سلمیٰ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوئی تو دیکھا وہ رو رہی تھیں ، میں نے عرض کیا آپ کیوں روتی ہیں ، فرمانے لگیں :
میں نے رسول(ص) اللہ کو خواب میں اس حالت میں دیکھا ہے کہ آپ کی ریش اور سر مبارک پر خاک پڑی ہوئی تھی ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کو کیا ہو گیا ؟ فرمایا : ابھی ابھی حسین (ع) کو قتل ہوتے دیکھا ہے .
﴿جامع سنن ترمذی ،جلد6، صفحہ 120،حدیث 3771، باب 31مناقب الحسن و الحسین ، محقق بشار عواد معروف، ناشر دارالغرب بیروت، لبنان 1998عیسوی ﴾
 بعض لوگ اس حدیث کو مشکوک کرنے کے لئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ام المومنین جناب ام سلمی(رض) کی وفات ، شہادت امام حسین (ع) سے دو سال قبل ہوچکی تھی لہٰذا یہ روایت صحیح نہیں ہے لیکن اہل سنتکے معتبرمورخ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ:
بعض لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ حضرت ام سلمی (رض) کی وفات 59ہجری میں ہوئی ہے ، یہ بھی ﴿ان کا﴾ وہم ہے ، ظاہر یہ ہے کہ ان کی وفات 61ہجری میں ﴿شہادت امام حسین (ع) کے بعد ﴾ ہوئی ہے .
﴿اعلام النبلائ ، جلد 2صفحہ210، ناشر موسسہ الرسالہ، تیسرا اڈیشن 1985﴾
 جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہادت امام حسین (ع) کے وقت ام المومنین ام سلمی(رض) حیات تھیں اور انہوں نے امام حسین (ع) کی شہادت سے باخبر ہوکر گریہ کیا اور رنج و غم کا اظہار کیا .
رسول اسلام (ص) اپنی زندگی کے بعد بھی امام حسین (ع) کے غم میں اس قدر رنجیدہ نظر آرہے ہیں اور آپ(ص) کی سنت پر مر مٹنے والا مسلمان بجائے اس کے کہ عاشور کو عزاداری کرے یا غم منائے ،بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی میں روزہ رکھتا ہے ، کیا حضور (ص) سے محبت کا یہی تقاضہ ہے ؟
 دوسرے یہ کہ جس روزہ کو رکھنے کا حکم خدا وند عالم کی طرف سے نہ آیا ہو اس کے رکھنے پر اتنی تاکید کیوں کی جائے اور نبی کے نواسے کی یاد پر ایسا خوشی کا روزہ رکھنے کی سوائے عداوتِ آل رسول (ص) کے اور کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
 اور تیسرے یہ کہ ہمارے نبی یہود و نصاریٰ کی موافقت نہیں کر سکتے کیونکہ اہل سنت اور شیعہ علمائ کا عقیدہ یہ ہے کہ رسول خدا (ص) بعثت سے پہلے بھی اپنی عبادت وغیرہ میں یہود و نصاریٰ کے آئین و ادیان کی پیروی نہیں کر سکتے ، فخر رازی جو کہ اہل سنت کے بزرگ عالم ہیں اس بارے میں دلیل دیتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ : رسول اللہ (ص) اگر بعثت سے پہلے کسی ﴿موسیٰ و عیسیٰ ﴾کی شریعت کے مطابق عبادت کر لیتے تو لازم تھا کہ اُن حوادث کے موقعوں پر جو بعثت کے بعد آپ پررونما ہوئے ، اپنے ما قبل شریعتوں کی طرف مراجعہ کر لیتے اور وحی کا انتظار نہ کرتے ،لیکن آنحضرت (ص) نے ایسا نہیں کیا اور اس کی دو دلیلیں ہیں ، ایک یہ کہ : اگر حضور (ص) نے ایسا کیا ہوتا تو ضرور مسلمانوں کے درمیان مشہور ہوجاتا اور دوسرے یہ کہ ایک بار عمر نے توریت کے ایک ورق کا مطالعہ کرلیا تھا بس اسی بات پر رسول خدا (ص) غضبناک ہوگئے اور فرمایا کہ : اگر موسیٰ زندہ ہوتے میری اتباع اور پیروی کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہ ہوتا﴿ پس کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم (ص) نے یہود کی پیروی میں عاشور کے دن خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا ؟!﴾ فخر رازی نے اس موضوع پر اور بھی دلیلیں دی ہیں جن کو اُن کی کتاب ﴿المحصول، جلد 3، صفحہ 263-264،تحقیق ڈاکٹر طٰہ جابر فیاض العلوانی ، ناشر موسسۃ الرسالہ ، تیسرا ایڈیشن 1997عیسوی﴾ میں دیکھا جا سکتا ہے.
شرح مشکاۃ میں رسول اللہ (ص) سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ :
وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے غیر ،یہود و و نصاریٰ کی شباہت اختیار کرے.
﴿مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، علی بن سلطان محمد القاری ، صفحہ 22، حدیث 4649، ناشر دالفکر بیروت، لبنان ،2002 عیسوی﴾
 یہ کیسے ممکن ہے کہ جس امر کی رسول (ص)اکرم دوسروںکو نہی فرمائیں اسے خود انجام دیں؟!مذکورہ بالا حدیث میں سختی سے یہود و نصاریٰ کی شباہت کو منع فرمایا ہے ، اور مسلمان یہود کی موافقت اور پیروی میں عاشور کو روزہ رکھنے کی نسبت رسول (ص) کی طرف دے رہا ہے؟!
ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ قریش کا کلینڈر ’’قصی ‘‘ تھا اور یہودیوں کا کلینڈر جس کے مطابق وہ اپنے اعمال انجام دیتے تھے وہ ’’ہلال دوم ‘‘﴿Hillel 2﴾ تھا اور ان دونوں میں فرق ہے ، لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دونوں کلینڈروں کا عاشورا ایک ہی چیز ہو یا ایک ہی دن ہو لہٰذا یہ کیسے مان لیا گیا کہ یہودیوں کے روزہ رکھنے کی یہ سنت اور رسم ہر سال دسویں محرم کو ہوتی ہو گی اور پیغمبر اسلام (ص) نے عاشور کے روزے کاحکم یہود کی متابعت یا مخالفت میں صادر فرمایا؟اس کے علاوہ اسلامی کلینڈر مذکورہ دونوں کلینڈرسے بالکل مختلف ہے اور چاند کی تاریخ کے حساب سے چلتا ہے بلکہ رسول (ص) کے دور میں تو اسلامی کلینڈر موجود ہی نہیں تھا ، اس کی ابتدا تو رسول (ص) کی وفات کے بہت بعد میں ہوئی اور اس میں ہجرت کے سال کو پہلا سال تسلیم کیا گیا ، اسلامی کلینڈر میں ایک سال میں 355دن ہی ہوتے ہیں اور یہودی کلینڈر میں بھی 355دن ہوتے ہیں ، مگر وہ ہر تیسرے یا چوتھے سال اس میں 10دن کا اضافہ کرکے اسے موجودہ شمسی ﴿عیسوی﴾ سال کے برابر کردیتے ہیں .
اس کے علاوہ 10محرم سن 1ہجری کو رسول ا سلام مدینہ پہنچے ہی نہیں بلکہ مکہ ہی میں تشریف رکھتے تھے ، سبھی مورخین و محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول (ص) اسلام عاشورا، سن 1ہجری کے دو مہینہ بعد یعنی 12ربیع الاول بروز پیر مدینہ میں وارد ہوئے.
﴿تاریخ طبری ، جلد 2، صفحہ392، ناشر دارالتراث بیروت، لبنان ، دوسرا ایڈیشن ، 1387ھ ﴾
 لہٰذا مدینہ پہنچ کر حضور (ص) نے یہودیوں کو عاشور کے دن روزہ رکھتے ہوئے کہاں سے دیکھ لیا ؟!
اس تحقیق میں اس نکتہ پر توجہ بہت ضروری ہے کہ جس نے بھی رسول اللہ پر یہ جھوٹ باندھا ہے وہ مدینے سے تعلق نہیںرکھتا تھا بلکہ وہ شامی رہا ہوگا ، کیونکہ اگر حدیث گھڑنے والا مدینہ کا باشندہ ہوتا تو اُسے یہ علم ضرور ہوتا کہ جس دن موسیٰ (ع)کو فتح ہوئی اور فرعون سے نجات ملی اُس دن کو یہودی ’’عید الفصح‘‘ ﴿Passover﴾ کہتے ہیں اور اس دن وہ روزہ نہیں رکھتے ہیں ، آج بھی آپ تحقیق کر سکتے ہیں اور یہودیوں سے معلوم کر سکتے ہیں ،یہودیوں کے یہاں روزوں کی 6قسمیں ہیں ، جن میں عید الفصح یعنی جناب موسیٰ اور بنی اسرائیل کی نجات یا فرعون پر فتح کا دن ان میں شامل نہیں ہے ، اس کی تفصیل آپ انٹر نیٹ پر بھی اس لنک میں دیکھ سکتے ہیں :
http://www.hebrew4christians.com/
 Holidays/Fast_Days/fast_days.html
جو لوگ عاشور کے دن روزہ رکھنے والی روایتوں کے حامی ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایسی روایت میں موجود’’ عاشور‘‘کا دن یہودیوں کا ’’یوم کیپور‘‘ ﴿یوم الغفران﴾ تھا جو کہ یہودیوں کے کلینڈر کے مطابق ’’تشرین‘‘ مہینے کی 10تاریخ ہوتی ہے ، یعنی یہ محرم کا عاشور نہیں ہے ، اگر ایسا ہے تو پھر محرم کے عاشور کو روزہ رکھنے کی تاکید کیوں کی جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ ’’یوم کیپور‘‘ کا موسیٰ (ع) کی فرعون پر فتح سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ، بلکہ ’’یوم کیپور‘‘ یہودیوں کے لئے ’’توبہ کا دن ‘‘ ہے اور اسے ’’عشرۃ التوبۃ‘‘کہا جاتا ہے ، یہودیوں کے نزدیک یوم کیپور توبہ کا آخری موقع ہوتا ہے جس میں یہودی با جماعت ہوکر خدا سے اپنے اعمال کی معافی مانگتے ہیں لہٰذا یہ تو کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ یوم کیپور کو موسیٰ (ع) کی فرعون پر فتح کا دن بنا کر روزہ رکھنے والی روایات گھڑ دی جائیں؟!
اس کے علاوہ یہ بات بھی ثابت ہے کہ اسلامی کلینڈر کے محرم کی 10تاریخ سن 1 ہجری میں یہودیوں کے کلینڈر کے تشرین مہینہ کی 10تاریخ کو نہیں تھی ، انٹر نیٹ پر آپ Gregorian-Hijri Dates Converter کے ذریعہ چیک کرکے دیکھ سکتے ہیں ، بلکہ 25جولائی 622عیسوی تھی اور یہودیوں کی عید 30مارچ 622عیسوی تھی .
اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ رسول (ص) کی مدنی زندگی میں کبھی بھی یہ مذکورہ دو دن ﴿یعنی اسلامی عاشورۂ محرم اور یہودی یوم کیپور ﴾ ایک ہی دن واقع ہی نہیں ہوئے .
اسلامی اور یہودی کلینڈر کے فرق کے مطابق یہ دونوں دن ﴿یعنی اسلامی عاشورہ ٔ محرم اور یہودی یوم کیپور﴾ رسول (ص) کی مدینہ ہجرت کرنے کے صرف 29سال کے بعد ہی ایک ہی دن کو واقع ہوسکتے ہیں ، جبکہ رسول (ص) اسلام کی وفات 10ہجری میں واقع ہوچکی تھی ، اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول (ص) اسلام نے عاشور کے دن بنی اسرائیل کی نجات کی خوشی میں کوئی روزہ رکھا ہی نہیں اور نہ یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا!
افسو س !بنی امیہ کے پروپیگنڈے سے متاثر لوگ ، عاشور کے دن روزہ رکھنے پر ہی بضد رہتے ہیں اور طرح طرح کی تاویلیں پیش کرتے ہیں جیسے یہ کہ رسول(ص) اسلام، مدینہ ربیع الاول ہی میں تشریف لائے تھے مگر یہودیوں کو انہوں نے بعد کے برسوں میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دے دیا، جبکہ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ رمضان کے روزے 2ہجری میں ہی فرض ہوگئے تھے اور 2ہجری تو کیا رسول(ص) کی تو پوری مدنی زندگی میں بھی اسلامی عاشورۂ محرم اور یہودی یوم کیپور کبھی ایک ساتھ اکٹھا نہیں ہوئے بلکہ 29سال کے بعد پہلی مرتبہ یہ ایک تاریخ کو واقع ہوئے ، تو پھر اسلامی عاشورۂ محرم کو ہر سال روزہ رکھنا کیونکر سنت ہوجائے گا ؟!
عید الفصح ﴿Passover﴾کہ جب یہودیوں کو فرعون سے نجات ملی ، وہ یہودیوں کے مہینے ’’نیسان‘‘ کی 15تاریخ ہے ﴿اس مہینے کی 10تاریخ کو بنی اسرائیل مصر سے روانہ ہوئے اور 15کو انہیں نجات ملی ﴾ سائنٹیفک کیلکولیٹر کے مطابق 1ہجری کا عاشورۂ محرم 25جولائی 622عیسوی کے مطابق ہوتا ہے ، جبکہ اُس سال یہودیوں کی عید الفصح 30مارچ 622عیسوی کو واقع ہوئی ﴿اس کیلکولیشن میں زیادہ سے زیادہ 10دن کا فرق ہو سکتا ہے ﴾ یہ کیلکولیشن آپ انٹر نیٹ پر اس لنک پر کر سکتے ہیں :
http://www.hebcal.com/converter/?hd=10
 an&hy=4382&h2g=Convert+&hm=Nis
 Hebrew+to+Gregorian+date
اس کے علاوہ یہود کا روزہ غروب آفتاب سے اگلے روز غروب آفتاب تک ہوتا ہے جب کہ اسلام میں ایسے روزے کا کوئی وجود نہیں ہے پس جب اس طرح کا روزہ رکھنا ہی صحیح نہیں ہے تو اس کی اتباع میں ہر سال عاشور کو روزہ رکھنا کہاں سے صحیح ہوجائے گا؟!
یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ عاشورٔ محرم کے دن روزہ رکھنے کا حکم نہ اللہ نے دیا ہے اور نہ اس کے رسول(ص) نے ، ماننا پڑے گا کہ یہ بنی امیہ کی شرارت ہے کہ انہوں نے امام حسین (ع) کے قیام و انقلاب کو کم رنگ کرنے کے لئے اسلامی شخصیات کے نام سے عاشورا کے فضائل اور روزہ رکھنے کی تاکید ات کے بارے میں حدیثیں گھڑ ڈالیں تاکہ اس طرح رائے عامہ کو مقصد امام حسین (ع) سے منحرف کردیا جائے ، لیکن چونکہ یہ انقلاب ،امام حسین (ع) نے خدا کے لئے برپا کیا تھا لہٰذا خدا وند عالم نے اس کی حفاظت کا انتظام کیا ہوا ہے اوریہ خدا ہی کا انتظام ہے کہ خود اہل سنت کے مورخین و محققین نے فضائل عاشورا اور عاشورۂ محرم کا روزہ رکھنے والی روایات کو من گھڑت بتایا ہے ، جن کو ہم اختصار کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں
1۔ عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی(ص)نے فرمایا کہ عاشور کے دن روزہ رکھو اور یہود کی اِس طرح مخالفت کرو کہ اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد بھی روزہ رکھو.
یہ روایت حضور (ص) کی نسبت سے بھی سنداً ضعیف اور مُنکَر ہے .﴿ نیل الاوطار، الشوکانی، جلد 4، صفحہ289، تحقیق عصام الدین الصبابطی ، ناشر دارالحدیث مصر ، پہلا ایڈیشن 1993عیسوی ﴾
2۔ جو شخص یوم عاشورا کو اپنے اہل و عیال پر فراخ دلی سے خرچ کرے گا ، اللہ تعالیٰ پورے سال اُس کے ساتھ فراخ دلی کا معاملہ کریں گے .
سعودی عرب کی تنظیم ’’ الجمعیۃ العلمیۃ السّعودیۃ للسُنّۃ و عُلومہا‘‘ کی ویب سائٹ www.sunnah.org.sa پر کسی نے اسی حدیث سے متعلق سوال پوچھا ہے کہ آیا یہ حدیث صحیح یا نہیں ؟ تنظیم نے ویب سائٹ پر تفصیل سے جواب دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حدیث رسول اللہ سے مروی نہیں ہے ، ویب سائٹ نے امام احمد ، ابن رجب ، عقیلی ، حافظ ابوزرعۃ الرازی ، دارقطنی ، ابن تیمیہ ، ابن عبدالہادی ، ذہبی ، ابن القیم اور البانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حدیث من گھڑت اور جھوٹی ہے ، مزید تفصیل کے لئے یہ لنک ملاحظہ ہو :
http://www.sunnah.org.sa/ar/sunnah-sciences/
 counsel-hadith/87-2010-07-21-12-38-57/
 624-2010-08-06-03-18-44
 3۔ جس شخص نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا ، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ساٹھ سال کے روزے اور اُن کی راتوں کے قیام کی عبادت لکھ دیں گے ، جس نے عاشور ا کے دن روزہ رکھا ، اُسے دس ہزار فرشتوں کے عمل کے برابر اجر ملے گا ، جس نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا ، اُسے ایک ہزار حجاج و معتمرین کے عمل کے برابر ثواب حاصل ہوگا ، جس نے عاشورا کے دن روزہ رکھا ، اُسے دس ہزار شہیدوں کا اجر ملے گا ، جس نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا ، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے سات آسمانوں کا تمام اجر لکھ دیں گے ، جس شخص کے ہاں کسی مومن نے عاشورا کے دن روزہ افطار کیا تو گویا اُس کے ہاں پوری امت محمد نے روزہ افطار کیا ، جس نے یوم عاشورا کو کسی بھوکے کو پیٹ بھر کے کھانا کھلایا تو اُس نے گویا امت محمد کے تمام فقرا کو پیٹ بھر کے کھانا کھلایا ، جس شخص نے ﴿اِس دن ﴾ کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اُس ﴿یتیم ﴾ کے سر کے بال کے برابر اُس کے لئے جنت میں ایک درجہ بلند کیا جائے گا ، اس پر سیدنا عمر نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! بلا شبہ ، عاشور کا دن عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑا ہی نوازا ہے ، آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ، زمین ، پہاڑوں ، تاروں ، قلم اور لوح کی تخلیق اسی دن کی ہے ، اسی طرح جبریل ، فرشتوں اور آدم کی تخلیق بھی اسی یوم عاشور کو کی ہے ، سیدنا ابراہیم کی ولادت بھی اسی دن ہوئی ہے ، انہیں آگ سے بھی اسی دن بچایا ، سیدنا اسماعیل کو قربان ہوجانے سے بھی اسی دن بچایا ﴿تو پھر مسلمان 10ذی الحجہ کو عید الاضحی کیوں مناتے ہیں ؟﴾فرعون کو بھی اسی دن دریا میں غرق کیا ﴿گزشتہ صفحات میں ہم اس کی تحقیق کر چکے ہیں کہ یہ غلط ہے ﴾ سید نا ادریس کو بھی اسی دن اٹھایا ، اُن کی پیدائش بھی اسی دن ہوئی تھی ، حضرت آدم کی لغزش بھی اسی یوم عاشور کو معاف فرمائی﴿جناب آدم کے زمانے میں تو کوئی کلینڈر ہی نہ تھا؟ ﴾ ، داؤد علیہ السلام کی لغزش بھی اسی دن معاف فرمائی ، حضرت سلیمان کو بادشاہت بھی اسی دن عطا کی تھی ، محمد (ص) کی ولادت بھی یوم عاشور کو ہوئی تھی ﴿ تو پھر 12ربیع الاول کو عید میلاد النبی(ص) کیوں منایا جاتا ہے ؟﴾اللہ اپنے عرش پر بھی اسی دن مستوی ہوا اور قیامت بھی یوم عاشور ہی کو برپا ہوگی .
قارئین دیکھا آپ نے،یوم عاشوراکے لئے بنی امیہ کے درباری حدیث سازوں نے ساری مناسبتیں گھڑ ڈالیں تاکہ نبی (ص) کے چہیتے نواسے حضرت امام حسین (ع) کی دلسوز شہادت اور اس کی تاثیر کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے اور بنی امیہ بڑے آرام سے حکومت کرتے رہیں ، یہ اتنی منصوبہ بند طویل روایت کسی بھی طرح درایت پر پوری نہیں اترتی ہے ،اسی لئے اس روایت کے بارے میں امام جوزی فرماتے ہیں کہ یہ بلا شبہ من گھڑت روایت ہے ، امام احمد بن حنبل نے اس کے ایک راوی ’’حبیب بن ابی حبیب ‘‘ کو روایت حدیث کے باب میں جھوٹا قرار دیا ہے ، ابن عدی کا اُسی کے بارے میں کہنا ہے کہ وہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا ، ابو حاتم بھی فرماتے ہیں کہ یہ روایت بالکل باطل اور بے بنیاد ہے .
﴿ الموضوعات ، ابن الجوزی ، جلد 2، صفحہ 203، ناشر محمد عبد المحسن، صاحب المکتبۃ السلفیہ مدینہ ، پہلا ایڈیشن 1996عیسوی ﴾
4۔ جس شخص نے محرم کے ابتدائی نو دن کے روزے رکھے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے آسمان میں میلوں وسیع و عریض ایک ایسا گنبد بنائیں گے جس کے چار دروازے ہوں گے.
یہ روایت بھی جعلی روایتوں میں سے ہے .﴿ الموضوعات ابن الجوزی ، جلد 2صفحہ 1993﴾
 اس کے علاوہ عاشور کی فضیلت سے متعلق اور بھی بہت سی من گھڑت حدیثوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کو ہم اختصار کی وجہ سے نقل نہیں کر رہے ہیں .
خدا وند عالم تمام مسلمانوں کو قرآن و عترت کے دامن سے متمسک رکھے ﴿آمین﴾

 

Comments powered by CComment