مؤلف:عبد الکریم مشتاق
اس کرہ ارض خداوندی کی تاریخ میں ہزروں نامور اشخاص کے نام وحالات ملتے ہیں جو اپنی اپنی بجاکر خالی ہاتھوں خاک میں مل گئے ۔عالم فانی میں جہاں وحشی ،درندہ صفت ،خونخوار اور سفاک لوگوں نے اپنے کردار سے لقب اشرف المخلوقات کو شرمندہ کیا وہاں سینکڑوں ایسی ہیستیاں بھی گزریں جنھوں نے کردار انسان کو اس قدر بلند کیا کہ لفظ اشرف المخلوقات خود شرما گیا اسمیں شک نہیں کہ اسلام خدا کاپسندیدہ دین ہے او تا قیام قیامت انسان کی معاشرتی حیات کے لئے کافی ہے لیکن زمانہ کے تغیر و تبدل نے اس دین بھی رخنہ اندازی پیدا کردی ۔رسول اکرم نے دین حقیقی کے دووارث مقرر کردیئے ،ایک کتاب الہی اور دوسرےاہل بیت رسول(علیھم السلام)۔ان دونوں سے تمسک رکھنا ہر طرح کی گمراہی سے محفوظ رہنے کا علاج تجویز فرمایا ۔جن لوگوں نے راہ فلاح پہچان لی اور دین اسلام کو دل سے قبول کیا وہ بموجب ہدایت پیغمبر (ص)،قرآن واہل بیت (ع)سے متمسک رہتے لیکن جو لوگ کسی طمع یا غرض سے کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور ہوئے انھوں نے اہل بیت (ع) کادامن چھوڑ دیا کیوں کہ وہ اپنی دانست میں حکومت ونبوت ایک گھر میں پھیلتی پھولتی برداشت نہ کرسکے وہ لوگ جو اسلام کو حق سمجھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے انھوں نے صحبت رسول (ص)اور تعلیم الہامی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اسلامی کردار کے سانچے میں ڈھالنے کا حق ادا کردیا ۔انھوں نے
اپنی زندگیوں کو ہمیشہ تابع اسلام رکھا اور ہر طرح کی ملامت و خوف کو نظر انداز کرتے ہوئے پیکر تسلیم ورضا بنے رہے یہی وہ خوش قسمت اور سرخرو طبقہ تھا جو محافظ لقب بنی آدم "اشرف المخلوقات "کا مصداق قرار پایا ان کا چال چلن آج بھی دنیا کو مکمل درس دے رہا ہے اور اہل باطل کے لئے عبرت آموز سبق ہے ۔ دیگر اقوام کی طرح اسلام کے ساتھ بھی یہ المیہ عظیم پیش آیا کہ سلاطین نے اپنی اغراض ذاتی اور بقا ئے سلطنت کے لئے ان اشراف کائنات بزرگوں کے حالات زندگی کو منظر عام پر نہ آنے دیا مؤرخین نے خوف حکومت اور حرص مال ومنصب میں ان نامور اور کامران ہستیوں کے کارناموں کو پوشیدہ کیا اور اپنے حاکموں یا ان کے بہی خواہوں کے حالات کو بے بنیاد فضائل اور جھوٹے مناقب کے ساتھ خوب بڑھا چڑھا کر درج کرلیا اور یہ کہانی ہم مقدمات میں پہلے ہی سنا چکے ہیں ۔ہم جب تاریخ بینی کرتے ہیں تو سخت تعجب ہوتا ہے ایسے بزرگان اسلام کے حالات جن کو پڑھ کر اصلاح نفس اور تسکین قلب حاصل ہوتے ہیں ۔ اور جو کردار کے اعلی مدارج پر فائز تھے لوگ ان کے ناموں سے بھی آشنا نہیں ہیں اورجن لوگوں کے فضائل کی تشہیر کی جاتی ہے ان کے سوانح حیات ان فضائل کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں جو ان سے منسوب ہیں یہ مسئلہ نازک تو ضرور ہے مگر بہت اہم ہے لہذا مجھے بار بار اس کے تکرار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس نا انصافی پر مبنی تدبیر نے آئندہ نسل کی فکر پر گہرا اثر ڈالا ہے اور اس کا نتجہ اس قدر مضر سامنے آیا ہے کہ حق وباطل آپس میں اس طرح خلط ملط ہوگئے ہیں کہ شناخت کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے ملاحظہ کریں کہ اسلام امن وسلامتی کادین ہے لیکن تاریخ نویسی ہمیں بتائی ہے کہ اسلام تلوارزنی ۔فتوحات ارضی اور لشکرکشی کانام ہے ۔
الغرض ان مظلوم حضرات کی خطا صرف یہی تھی کہ انھوں نے سنّت رسول اور آل رسول (ص)کو اپنا رہنما قرار دیا وہ اپنے اصول پر چٹان کی طرح رہے اپنے کردار کو اسقدر بلند رکھا کہ ان کا ہرغیر ان سے پست نظر آتا تھا اگر آج کی نسل کے سامنے ان بااصول باضمیر اور باکمال مسلمانوں کے وہ عظیم کارنامے پیش کئے جائیں تو دنیا لادینی رجحان کی طرف کبھی راغب نہ ہو ۔ان لائق پیروی اصحاب رسول (ص) میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ کو ممتاز مقام حاصل ہے ۔وہ افضل ترین صحابہ میں سے تھے ۔کہ ان کو خود حضور (ص)سے خصوصی نسبت ہوئی اور آپ کو سلمان محمدی کہا جاتا ہے ۔
ابتدائی حالات:-
حضرت سلمان فارسی کا نسبی تعلق اصفہان کے آب کے خاندان سے تھام ۔قدیم نام میں اختلاف ہے لیکن ان میں دونام زیادہ مشہور ہیں ۔"مابہ "اور "روزبہ"اسلامی نام سلمان تجویز ہوا ۔رسول کریم نے "سلمان الخیر"کا لقب عطا فرمایا ۔ اس کے علاوہ طیّب ۔طاہر لقمان الحکمت کے القابات حضور اکرم نے عنایت فرمائے ۔ابو عبد اللہ کنیت تھی ۔سلسلہ نسب یہ ہے ۔روزبہ (سلمان)بن بود خیشاں بن مو رسلان بن بہود ان بن فیروزبن سہرک ۔آپ کا تعلق ایران کی اس شاہی نسل سے تھا جس کا مورث اعلی منوچہر ہے لیکن حضرت سلمان نے اس بات کو اپنے لئے باعث فخر نہ سمجھا ۔نسبی کرید کو پسند نہ فرماتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی نے ان کے نسب سے متعلق سوال کیا تو جواب دیا کہ میں مسلمان فرزند اسلام ہوں ۔میں ایک غلام تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ آزاد کرایا میں بے حیثییت شخص تھا اللہ نے مجھے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ عزت بخشی۔میں ایک فقیر تھا خدا نے مجھے اپنے رسول (ص) کے ذریعہ غنی کردیا اور یہی میرا حسب نسب ہے ۔صاحب طبقات کے بیان کے مطابق ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سلمان نے خود پتہ دیا کہ وہ اصفہان کے گاؤں "حئ " کے رہنے والے تھے ۔آپ کے والد ایک زمیندار تھے اور اپنے فرزند سے بہت محبت رکھتے تھے اور ان کو جدا نہ کرتے تھے ان کو گھر میں اس طرح قید رکھا تھا جس طرح لڑکی کو قید کیا جاتا ہے ۔آپ کے والدین مجوس پر تھے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ سلمان بالغ ہونے سے قبل اپنے دین کی معرفت حاصل کرے لیکن سلمان کی طبیعت فطرتا مشاہدات قدرت پر غور وفکر کرنے پر مائل تھی اور دین مجوس کے نقائص اکثر ان کے دماغ میں تجسس پیدا کرتے تھے گھر اپنے والد کے احترام میں زبان بند رکھتے تھے ایک دن بوذ خشان اپنے ایک مکان کی بنیاد مرمت کرنے کی غرض سے گھر سے باہر گئے اور سلمان کو اپنی جگہ کھیتوں کے کا م پر روانہ کیا ۔راستے میں آپ کو ایک گرجا دکھائی دیا جہاں لوگ عبادت کررہے تھے اور توحید خداوندی اور رسالت عیسی علیہ السلام علیہ السلام کا ورد کررہے تھے ۔عیسا ئیوں کی یہ عبادت ان کو پسند آئی تحقیق کاشوق ہوا عیسائیوں سے مذہبی معلومات کی ۔روایت میں ہے کہ وہ عیسا ئی صحیح دین پر تھے ۔ وہ توحید خداوندی رسالت عیسی علیہ السلام کے اقرار کے ساتھ یہ بھی شہادت دیتے تھے کہ تحقیق محمد اللہ کے حبیب ہیں ۔ مسلمان کے خدا ،عیسی علیہ السلام او رمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا ۔ انھوں نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی سارے جہاں کا خالق وپروردگار ہے ۔اور عیسی بن مریم علیھما السلام اللہ کے برگزیدہ رسول ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ رسول مبشر ہے جو رسالت ونبوت کو ختم کرے گا ۔حضرت سلمان پر ان باتوں کا اثر ہوا اور تین دن متواتر معلومات میں اضافہ کیا ادھر ان کے والد ان کو تلاش کرتے تھے ۔سلمان پر جو نظر پڑی تو پکڑ لیا اور پوچھا کہ کہاں تھے ؟ آپ نے صاف صاف بتا دیا ۔ باپ نے بھانپ لیا کہ لڑکا اپنے آبائی دین سے باغی ہے ۔لہذا تھوڑا تشدد کیا اور انھیں بیڑیاں پہنا کر قید کرلیا ۔مگر تلاش حق کا جذبہ مضبوط ہوگیا ۔بود خشان کا خیال تھا یہ سختی بیٹے کو نئے عقیدے سے دستبردار کردے گی لیکن انھوں نے آزمایا کہ اذیت کی زیادتی ان کے عقیدے کو مزید سخت کررہی ہے لہذا آپ پر اور تشدد کیاجانے لگا ۔حتی کہ کوڑے تک لگائے گئے اپنے والد کے اس ظالمانہ رویہ سے عاجز آگئے ۔آدھی رات کو انھوں نے اپنے خدا واحد کی بارگاہ میں م اپنی حالت زار خضوع وخشوع سے عرض کی اور دعا مانگی کہ "اے خداوند! میرے دل کو شرک وبت پرستی کی کدورت سے پاک رکھ ۔میں تجھے تیرے حبیب کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے اس حبس سے رہا کر ۔ اپنے حبیب تک پہنچادے " خلوص دل سے دعا فرمائی تھی مستجاب ہوئی ۔ایک غیبی ندا آئی کہ روزبہ اٹھ اور قید خانہ سے نکل جا۔ آپ نے تعمیل کی اور اسی گرجا میں آئے ۔ایک عمر رسیدہ راہب چرچ سے باہر آیا اور اس نے خود ہی پوچھا کہ کیا تم ہی روزبہ ہو ؟آپ نے اثبات میں جواب دیا اور وہ بزرگ ان کو گرجا کے اندر لےگئے ۔اگر چہ سلمان دین مجوس کو شروع ہی سے ناقص سمجھتے تھے مگر ڈانوا ڈول تھے ۔اب عیسائیت کی پناہ میں انھیں کچھ قرار محسوس ہوا۔ آپ دن رات عیسائی علماء کی خدمت کرتے اور زہد وتقوی کی تعلیم دل لگا کرحاصل کرتے ۔آپ نے جس بزرگ کو روحانی سرپرست پسند کیا تھا وہ بھی ان کو بہت قریب رکھتے تھے ۔ان کی ذہانت وخدمت کے باعث جب اس کاآخری وقت آیا تو اس نے اپنے شاگرد رشید حضرت سلمان کو بلاکر کہا کہ موت برحق ہے اب میرا انتقال قریب ہے ۔حضرت سلمان نے عاجزانہ عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا لائحہ عمل کی تعلیم فرما جائیں جو مستقبل میں میری رہبری کے لئے مشعل راہ ہو ۔اس بزرگ نے نصیحت کی کہ تم میری ایک لوح لے کر انطاکیہ چلے جاؤ وہاں ایک راہب ہے وہ عموما شہر سے باہر رہتا ہے اس کو تلاش کرو اسے یہ لوح دے دینا اور اس کی خدمت میں میرا سلام پہنچا کر اس کے حلقہ ارادت میں شامل ہوجانا ۔اور جو وہ تمھیں حکم دیے اس کی تعمیل کرنا ۔اس نصیحت کے بعد راہب کی روح پرواز کرگئی اور سلمان انطاکیہ روانہ ہوگئے ۔
جب سلمان انطاکیہ پہنچے تو انھوں نے تلاش کیا کہ شہر کے باہر ایک "دیر" ہے اس کے دروازے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہے شکل ولباس سے راہب دکھائی دیتا ہے ۔سلمان نے قریب ہو کر باآواز بلند فرمایا "لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ ومحمد حبیب اللہ"یا یہ کہا
"اشھد ان لا الہ الا اللہ و ان عیسی روح اللہ و ان محمد حبیب اللہ " جب راہب نے سنا تو چونک کر دریافت کیا کہ تم کون ہو ۔سلمان نے نزدیک جک کر لوح اس راہب کے سپرد کردی۔لوح لینے پر راہب نے ان کو اپنے پاس ٹھہرالیا ۔ یہ بزرگ راہب تارک الدنیا اور عبادت گزار بندہ خدا تھا ۔دن رات عبادت الہی یمں مشغول رہتا تھا لہذا سلمان کو اس سے محبت ہوگئی ۔اور وہ ان کی خدمت کرنے لگے ۔ اور ساتھ ساتھ علمی و روحانی پیاس بھی بجھاتے رہے ۔سلمان اس بزرگ سے علمی اور عملی استفادہ حاصل کرنے کا کوئی موقعہ بھی ضائع نہ جانے دیتے تھے یہاں تک کہ اس راہب کا وقت آخر قریب ہوا۔اور اس نے سلمان کو نصیحت کی اب اس جگہ عیسائی کوئی نہیں رہا ہے تم یہ لوح لیکر سکندریہ کے راہب کے پاچلے جانا اور اس کی خدمت میں مشغول ہوجانا ۔چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان سکندریہ آئے اور اس راہب کی خدمت میں کافی عرصہ گزارا ۔مورخین کے بیان کے مطابق اسی طرح راہب در راہب حضرت سلمان جاتے رہے اور لوح منتقل ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ آخری راہب تک پہنچے ۔اوراس کے آخری وقت پر اس سے التجا کی میں بہت دروازوں پر جاچکا ہوں اب تو آپ مجھے کسی ایسے کے ہاں روانہ کریں جس کے بعد کسی او رکی حاجت نہ ہو ۔راہیب نے کہا بس اب میری نظر میں کوئی ایسا شخص باقی نہیں ہے جس کے پاس تمھیں روانہ کروں ۔لہذا تمھیں مشورہ دیتا ہوں کہ محمد بن عبد اللہ بن
عبد المطلب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور کا وقت قریب ہے وہ ریگستان میں ظہور کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی ہجرت کرےگا یہ وہ ہی آخری رسول ہے جس کی خبر وبشارت بنی اسرائیل کے نبیوں نے دی ہے ۔اور اس کاذکر کتابوں میں موجود ہے اس کی علامتیں یہ ہیں کہ جو ہدیہ کو قبول کرے گا اور صدقہ کو رد کردے گا ۔ اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی تم اس کی خدمت میں حاضر ہوکریہ لوح اسے پیش کردینا ۔
چنانچہ اس راہب کی وفات کے بعد حضرت سلمان اس نبی مبشر کی تلاش میں ریگستانوں کی خاک چھانتے رہے ۔یہاں تک کہ فقر وفاقے کی نوبت آگئی کہ تنگ آکر کچھ آدمیوں کے ایک مجمع میں اعلان کیا کہ جو شخص بھی میرے اخراجات کو برداشت کرے گا میں اس کی غلامی قبول کرلوں گا ۔ مدینہ میں ایک متمول زمیندار اس بات پر آمادہ ہوگیا مگر اس نے شرط عائد کی میں تمھیں مدینہ لے جاؤں گا اور تم وہاں میرے غلام بنکر میری خدمت کروگے عشق رسول کے سامنے یہ سود ا سلمان کوسستا نظر آیا ۔فورا آمادہ ہوگئے ۔جب دوران سفر لوگوں کو سلمان کے عقیدے اور مقصد سفر کی معلومات ہوئیں تو انھوں نے ان کا تمسخر اڑایا اور تکالیف پہنچا ئیں ۔مگر آتش عشق بجھنے کی بجائے بھڑکتی رہی ۔
سلمان مدینہ پہنچ گئے لیکن انھیں اپنے آقا کی خدمت سے اتنی فرصت وفراغت میسر نہ آسکی وہ خود اس رسول کا پتہ چلا تے ۔ایک دن وہ باغ میں کوئی خدمت انجام دے رہے تھے کہ
کچھ لوگ باغ کے چشمے کے قریب آکر بیٹھ گئے چونکہ سلمان طبعا مہمان نواز اور تواضع کش تھے لہذا ایک تھا ل میں کچھ کھجوریں لیکر ان کے پاس پہنچے اور عیسائی طریقہ پر سلام کیا اور دعوت طعام کی خواہش فرمائی ۔ انھوں نے سلمان کی دعوت کو قبول کیا اور کھانا شروع کیا مگر ان میں سے ایک صاحب نے ان خرموں کو ہاتھ نہ لگایا ۔سلمان نے وجہ دریافت کی تو جواب پایا کہ "صدقہ مجھ پر اور میرے اہلبیت پر حرام ہے " سلمان نے پوچھا تم کون ہو " جواب دیا میں اللہ کا رسول ہوں " یہ سنکر سلمان واپس ہوئے اور خرمہ کا ایک دوسرا طبق لے کرآئے اور رسول کی خدمت میں ہدیہ کیا ۔آپ نے اس میں تناول فرمایا ۔سلمان کی دلی مراد پوری ہوئی۔پروانہ وار شمع رسالت کا طواف کرتے رہے ۔اور پشت مبارک پر ثبت مہر نبوت کی زیارت کاشرف پاتے ہی قدموں میں گرگئے اور فرمایا " اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد انک رسول اللہ " میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اس کے بعد حضرت سلمان نے راہب کی دی ہوئی لوح رسول خدا کے سپرد کردی ۔حضور (ص)سلمان کے آقا کے پاس تشریف لےگئے ۔اور سلمان کو خرید کر آزاد کردیا ۔اور ارشاد فرمایا کہ تم "سلمان الخیر "ہو۔
حضرت سلمان کے ابتدا ئی حالات کو کئی طریقوں اور اختلافات سےبیان کیا گیا ہے تاہم ہمارے لئے سرکار خاتم النبین صادق وامین رسول کی زبان وحی بیان کا یہ ارشاد کافی ہے کہ حضور نے فرمایا ۔
"سلمان مجوسی نہیں تھے بلکہ وہ شرک کا اظہار کرتے تھے اور ایمان کو دل میں پوشیدہ کھے ہوئے تھے "
حضور کی یہ شہادت سلمان کے ابتدائی حالات ایمان کی بحث کو ختم کردینے کے لئے کافی ہے ۔
روایات امامیہ سےیہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حضرت سلمان فارسی کو حضرت عیسی علیہ السلام کے "وصی" ہونے کا روحانی اعزاز حاصل تھا ۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلمان نے اپنے گھر کی چھت میں ایک تحریر لٹکی ہوئی دیکھی اپنی والدہ سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم بھی جب گھر واپس آئے تو اسے ایسے ہی لٹکا پایا ہے ۔تم اس کو مت چھونا ورنہ تمھارے والد تمھیں سزادیں گے ۔حضرت سلمان اس وقت خاموش ہورہے مگر رات کو جب تمام گھر والے سوگئے تو آپ نے اٹھ کر اس کامطالعہ فرمالیا لکھاتھا کہ ۔
"بسم اللہ الرحمان الرحیم ۔یہ اللہ کاعہد ہے ۔آدم سے کہ وہ ان کے صلب سے ایک نبی خلق کرے گا جس کا نام محمد (ص) ہوگا وہ اخلاقی بلندیوں کو حاصل کرنے کا حکم دےگا ۔ اور اصنام کی پر ستش سے منع کرے گا ۔ اے روزبہ ! تم عیسی ابن مریم کے وصی ہو اس لئے ایمان لاؤ اور مجوسیت سے دور رہو ۔اور اس سے بے زاری کا اعلان کرو۔"
اما م جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ عیسی او محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان پانچسو سال کا عرصہ ہے جس میں ڈھائی سو سال ایسے ہیں جن میں نہ تو کوئی نبی تھا اور نہ ظاہری عالم ۔راوی نے عرض کیا پھر لوگ کس دین پر تھے ؟ فرمایا وہ دین عیسوی پر تھے ۔ پوچھا وہ لوگ کیا تھے ؟ فرمایا وہ مومن تھے پھر ارشاد کیا کہ زمین اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک اس میں عالم موجود نہ ہو ۔ شیخ صدوق فرماتے ہیں کہ جو لوگ حجت خدا کی تلاش میں جگہ بجگہ منتقل ہوتے رہے ان میں سلمان بھی ہیں ۔وہ ایک عالم سے دوسرے عالم اور ایک فقیہ سے دوسرے فقیہ تک پہنچے
رہے اور اسرار واخبار میں تدبر کرتے رہے اور حضور کے ظہور کے منتظر رہے ۔ پھر لکھا ہے کہ جناب سلمان حضرت عیسی کے وصی کے وصی تھے اسی طرح ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ سلمان حضرت عیسی کے آخری چند اوصیاء میں سے تھے ۔ اس کے ثبوت میں ملا حسین نوری طبرسی نے ایک دلیل پیش کی ہے جو قابل غور ہے ، سلمان کی وفات کے بعد سید الاوصیاء امیر المومنین علیہ السلام نے انھیں غسل دیا حالانکہ بظاہر سلمان مدائن میں تھے اور جناب امیر مدینہ میں تھے کرامت کے ذریعہ اتنی دور تشریف لے جانے کی غالبا وجہ یہی تھی کہ وصی کو نبی یا وصی غسل دے سکتا ہے ۔پھر لوح کا مختلف وسائل کے ذریعے آنحضرت تک پہنچا نا بھی اس بات کا امکانی ثبوت ہے ۔
بہر حال قبل از اسلام کے حالات سے سلمان کو ایک مسلم دینی حیثیت ضرور حاصل تھی اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے ان کو ایک طرف شدائد ومصائب کا مقابلہ کرنا پڑا تو دوسری طرف سنگین دشوار یوں سے دوچار ہوئے ۔یہ تمام آلام اور ناگواریاں انتہائی صبر وتحمل سے برداشت کرنا حضرت سلمان کے جذبہ حب دین ومعرفت الہی کے ذوق اور شوق زیارت رسول(ص) کاآئنہ دار ہے ۔حقیقی دین عیسوی سے وابستہ علماء کی صحبت او رفیض ربّانی نے یوں تو حضرت سلمان کو سونا بنا دیا تھا مگر جب آپ کو کائنات کے سب سے بڑے ہادی رحمۃ العالمین کا سایہ رحمت وشفقت نصیب ہوا تو آپ پارس ہوگئے ۔سرور کائنات کی صحبت کا رنگ ایسا پکڑا کہ صحابی سے "منّا اہلبیت" قرار پائے ۔آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر قول وعمل کو اپنی زندگی کا جزو لا ینفک بنائے رکھا ۔سلمان کا منشور زندگی صرف سنت رسول کی پیروی ۔آل رسول (ع) کی محبت واتباع اور کتاب الہی کی مطابقت تھی ۔ اسی وجہ سے جو فضائل ان کو نصیب ہوئے کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہ ہوسکے ۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا کہ میں سلمان کے بارے میں کیا کہوں وہ ہماری طینت سے خلق ہوئے ہیں جس کی روح ہماری روح سے ہم آہنگ ہے ۔خداوند تعالی نے سلمان کو علوم اول وآخر اور ظاہر وباطن سے سرفراز کیا ہے ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلمان مجلس رسول مقبول(ص) میں حاضر تھے کہ اچانک ایک عربی آیا ۔ اس نے حضرت سلمان کا ہاتھے پکڑا اور انھیں اٹھا کر ان کی جگہ پر بیٹھ گیا آنحضرت یہ منظر دیکھکر اتنے آزردہ خاطر ہوئے کہ چہرہ مبارک کا رنگ متغیر ہوگیا اور پیشانی اقدس پر قطرات عرق نمودار ہوئے اور اس حالت میں ارشاد فرمایا کہ" تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے خدا دوست رکھتا ہے تم اس شخص کو مجھ سے دور کررہے ہو جسے میں دوست رکھتا ہوں تو اس شخص کو مجھ سے دور کر رہے ہو جس کی منزلت یہ کہ جب بھی جبرئیل مجھ پر نازل ہوتا ہے تو خدا کا سلام اس کے لئے لاتا ہے ۔یقینا سلمان مجھ سے ہے ۔خبردار! تم سلمان کے بارے میں غلط خیال نہ قائم کرو ۔خدا نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں سلمان کو لوگوں کی اموات اور بلاوؤں اور ان کے نسب ناموں کا علم دے دوں ۔اور انھیں ان چیزوں سے آگاہ کردوں جو حق وباطل کو جدا کرنے والی ہیں "۔
وہ عرب (ممکن ہے کہ وہ صحابی حضرت عمر ہو) صحابی جس نے حضرت سلمان کو اپنے زعم میں سمجھ کر اٹھایا تھا ۔ارشاد ات پیغمبر (ص) سنکر گھبراگیا اور عرض کی یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )میں یہ گمان بھی نہ کرسکتا تھا کہ سلمان ان مراتب جلیلہ پر فائز ہے ۔
کیا وہ مجوسی نہیں جو بعد میں مسلمان ہوا ۔ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں تو خدا کی نظر میں سلمان کے درجے کوبیان کررہا ہوں اور تم خیال کررہے ہوکہ وہ مجوسی تھا ۔وہ (ہرگز ) مجوسی نہ تھا ۔ صرف اس کا اظہار کرتا تھا (تقیہ میں تھا)اور ایمان اس کے دل میں پوشیدہ تھا "
علمی مقام:-
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک دن حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا میں نے ایک روز آنحضرت (ص) سے سلمان کے بارے میں سوال کیا حضور نے فرمایا ۔
"سلمان دریائے علم میں کوئی اس کی تھاہ تک نہیں پہنچ سکتا اس کو اول وآخر کے علم سے مخصوص کیا گیا ہے خدا اسے دشمن رکھے جو سلمان کو دشمن رکھتا ہے اور خدا اس کو دوست رکھے جو سلمان کو دوست رکھتا ہے "
اما م محمد باقر علیہ السلام نے فضیل بن یسار سے پوچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ سلمان اوّل وآخر علم کو جانتے تھے اس سے کیا مطلب ہے ؟۔فضیل نے جواب دیا یعنی وہ علم بنی اسرائیل اور علم رسالت مآب سے آگاہ ہوگئۓ تھے ۔ امام معصوم نے فرمایا نہیں یہ مطلب نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ علم پیغمبر اور امیر المومنین اور آنحضرت اور امیر المومینین کے عجیب وغریب امور سے آگاہ تھے ۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام س ے مروی ہے سلمان نے علم اوّل اور علم آخر معلوم کیا اور وہ دریا علم تھے کہ جن کا علم ختم ہونے والا نہ تھا اور وہ ہم اہل بیت سے ہیں ۔ان کا علم اس درجہ پر پہنچا ہوا تھا کہ ایک روز ان کا گزر ایک شخص کی طرف ہوا جو ایک مجمع میں کھڑا تھا ۔سلمان نے اس شخص سے کہا اے بندہ خدا !پروردگار
عالم سے توبہ کر اس فعل سے جو کل رات تو نے اپنے مکان میں کیا ہے یہ کہکر سلمان چلے گئے ۔لوگوں نے اس شخص کو ابھارنا چاہا کہ سلمان نے تم پر ایک بدی کی تہمت باندھی ہے اور تونے بھی اس کی تردید نہ کی اس نے جواب دیا کہ سلمان نے مجھے اس امر سے آگاہ کیا ہے جس کو میرے اور خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا ۔(علمائے کے نزدیک یہ شخص اول خلیفہ اہلسنت حضرت ابو صدیق تھے )۔
روایت ہے کہ جب سلمان ایک اونٹ کو دیکھتے (جس کو لوگ عسکر کہتے تھے اور حضرت عائشہ جمل کے دن اس پر سوار ہوکر تازیانہ مارتی تھیں )تو اس اونٹ سے اظہار نفرت کرتے تھے لوگوں نے "سلمان " سے کہا کہ اس جانور سے آپ کو کیا پرخاش ہے ۔آپ نے جواب دیا یہ جانور نہیں بلکہ عسکر پسر کنعان جنی ہے ۔ جس نے یہ صورت اختیار کی ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کرے ۔پھر اس اورنٹ کے مالک اعرابی س کہا کہ تیرا یہ اونٹ یہاں بے قدر ہے ۔اس جو "حواب" کی سرحد پر لے جا ۔اگر وہاں لے جائے گا تو جو قیمت چاہے گا مل جائے گی ۔امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ لشکر عائشہ نے اس اونٹ کو سات سو درہم میں خرید کیا ۔جبکہ وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام سے جنگ کے لئے جارہے تھے ۔یہ واقعہ بھی حضرت سلمان کے علمی کی تائید کرتا ہے کہ جنگ جمل سے برسوں قبل اس کی اطلاع کردی ۔
امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ سلمان فارسی حکیم لقمان کے مانند ہیں ۔
ابن بابویہ نے بسند معتبر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک روز جناب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ تم میں کون ہے جو تمام سال روزہ رکھتا ہے ۔سلمان
نے کہا میں ہوں ۔حضرت (ص) نے پھرمایا تم میں کون ہے جو ہمیشہ شب بیدار رہے ؟۔ سلمان نے عرض کی میں ہوں ۔پھر حضرت (ص) نے پوچھا تم میں کون ہے جوہر روز ایک قرآن ختم کرتا ہے ۔سلمان نے کہا میں ہوں ۔یہ سنکر حضرت عمر بن خطاب کو غصہ آیا اور بولے یہ شخص فارس کا رہنے والا یہ چاہتا ہے کہ ہم قریشیوں پر فخر کرے ۔ یہ جھوٹ بولتاہے اکثر دنوں کو روزہ سے نہیں تھا ۔اکثر راتوں کو سویا کرتا ہے ۔اور اکثر دن اس نے تلاوت نہیں کی ۔ حضور(ص) نے فرمایا وہ لقمان حکیم کے مانند ومثل ہے ۔تم اس سے پوچھو وہ جواب دیں گے ۔ حضرت عمر نے پوچھا تو حضرت سلمان نے جواب دیک کہ تمام سال روزہ کے بارے میں یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھتا ہوں ۔اور خدا فرماتا ہے کہ جو شخص ایک نیکی کرتا ہے تو اس کو دس گنا ثواب دیتا ہوں ۔اس لئے یہ تمام سال کے روزوں کے برابر ہوا ۔باوجود اس کے ماہ شعبان میں بھی روزے رکھتا ہوں ۔اور ماہ مبارک رمضان سے ملا دیتا ہوں ۔اور ہر رات شب بیداری کے یہ معنی ہیں کہ ہر رات با وضو سوتا ہوں ۔اور میں نے حضور سے سنا ہے کہ جو شخص باوضو سوتا ہے ایسا ہے کہ تمام رات عبادت میں بسر کی اور ہر روز ختم قرآن کے بارے میں یہ ہے کہ ہرروز میں تین مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ لیتا ہوں اور میں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے آپ(ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا کہ اے علی تمھاری مثال میری امت میں "قل ھو اللہ احد " کی مثال ہے جس نے سورہ قل ھو اللہ ایک مرتبہ پڑھا ایسا ہے کہ اس نے ثلث (ایک تہائی )قرآن کی تلاوت کی جس نے دومر تبہ پڑھا تو اس نے دوتہائی کی تلاوت کی اور جس نے تین مرتبہ پڑھا تو ایسا ہے کہ اس نے قرآن ختم کرلیا ہے اور اے علی (ع) جو شخص تم کو زبان سے دوست رکھتا ہے اس کو
ثلث(ایک تہائی)ایمان حاصل ہوتا ہے ۔اورجو شخص زبان اور دل سے تمھیں دوست رکھتا ہے اس کو دو ثلث ایمان مل گیا ۔اور جو شخص زبان ودل سے تم کو دوست رکھتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے تمھاری مدد کرتا ہے تو تمام ایمان اس کو حاصل ہوگیا ۔اے علی اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ۔اگر تم اہل زمین بھی اسی طرح دوست رکھتے جس طرح اہل اسمان دوست رکھتے ہیں تو خدا کسی قسم جہنم میں عذاب نہ کرتا ۔یہ سنکر حضرت عمر خاموش ہوگئے جیسے ان کے منہ میں خاک بھر گئی ہو۔
حضرت یعقوب کلینی نے امام جعفر صادق سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے سلمان اور ابوذر کے درمیان صیغہ اخوت پڑھا تھا اور ابوذر پر یہ شرط عائد کی تھی وہ کبھی سلمان کی مخالفت نہ کریں گے اس لئے کہ سلمان کو ان علوم میں دسترس حاصل ہے جن کا ابوذر کو علم نہیں ۔
روایت ہے کہا ایک روز حضرت ابوذر اپنے بھائی حضرت سلمان کےگھر آئے ۔سلمان کا پیالہ شوربہ اور چربی سے بھر ہوا تھا دوران گفتگو یہ پیالہ الٹا ہوگیا مگر اس میں سے کچھ نہ گرا ۔سلمان نے اسے سیدھا کیا اور پھر مصروف گفتگو ہوئے ۔ابوذر کو یہ دیکھکر حیرت ہوئی اچانک پیالہ پھر اوندھا ہوا ۔لیکن پھر شوربا وغیرہ نہ گرا۔ اس سے ابوذر کا تعجب دہشت میں تبدیل ہوگیا ۔وہان سے اٹھے اور غور کرنے لگے کہ اچانک وہاں امیر المومنین علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔ جناب امیر (علیہ السلام ) نے ابوذر سے پوچھا کہ تم سلمان کے ہاں سے واپس کیوں آگئے اور گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ابوذر نے ماجرا بیان کیا حضرت امیر (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا "اے ابوذر ! اگر سلمان تم کو وہ امور
بتادیں جو وہ جانتے ہیں تو یقینا تم کہوگے کہ سلمان کےقاتل پر خدا رحمت نہ کرے ۔اے ابوذر بے شک سلمان زمین میں خدا کی درگاہ ہیں جو ان کو پہچانے وہ مومن ہے ۔جو ان سے انکار کرے وہ کافر ہے بے شک سلمان ہم اہل بیت میں سے ہیں ۔
شیخ مفید لکھتے ہیں کہ جناب امیر حضرت سلمان کے پاس تشریف لائے اور ان سے فرمایا کہ اے سلمان اپنے مصاحب کے ساتھ مدارات کرو اور ان کے سامنے وہ امور ظاہر نہ کرو جس کے وہ متحمل نہیں ہوسکتے "
حضرت امام باقر سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام محدث تھے اور سلمان محدث یعنی ملائکہ دونوں حضرات سے باتیں کرتے تھے ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ سلمان کا محدث ہونا یہ کہ ان کے امام ان سے حدیث بیان کرتے اور اپنے اسرار ان کو تعلیم کرتے تھے نہ یہ کہ براہ راست خدا کی جانب سے ان کو کلام پہنچتا تھا ۔ کیوں کہ حجت خدا کے علاوہ کسی دوسرے کو خدا کی جانب سے کوئی بات نہیں پہنچتی ۔علامہ مجلسی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں کہ یہاں جس امر سے نفی کی گئی ہے ممکن ہے وہ خداکا بے واسطہ ملک کلام کرنا ہو اور فرشتے جناب سلمان سے گفتگو کرتے تھے ۔
چنانچہ ایک مقام پر حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت سلمان کے محدث ہونے کا مطلب یہ کہ ایک فرشتہ ان کے کان میں باتیں کرتا تھا دوسری جگہ ہے کہ ایک بڑا فرشتہ ان سے باتیں کرتا تھا ۔ ایک شخص نے تعجب سے دریافت کیا کہ جب سلمان ایسے تھے تو پھر امیر المومنین علیہ السلام کیسے رہے ہونگے ۔حضرت نے جواب دیا اپنے کام سے سروکار رکھو اور ایسی باتوں سے غرض مت رکھو (یعنی کرید نہ کرو)ایک موقعہ پر فرمایا کہ ایک فرشتہ ان کے دل میں ایسا اور ویسا نقش کرتا تھا ۔ایک حدیث میں ہے ک سلمان متمو سمین میں سے تھے کہ لوگوں کے احوال فراست سے معلوم کرلیا کرتے تھے ۔ایک حدیث معتبر میں ہے کہ امام صادق نے ارشاد فرمایا کہ سلمان اسم اعظم جانتے تھے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی علیہ السلام کے سامنے تقیہ کا ذکر آیا ۔جناب امیر نےفرمایا اگر ابوذر سلمان کے دل میں جوکچھ جان لیتے تو یقینا ان کو قتل کردیتے ۔حالانکہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا تھا ۔پھر دیگر تمام لوگوں کے بارے میں کیا گمان کرتے ہو۔
یہ حدیث بھی جناب سلمان کے بلند مرتبہ عملی کی تائید میں ہے کہ جناب ابوذر پر جناب سلمان کی علمی فوقیت ثابت کرتی ہے کہ حضرت ابوذر ان علوم واسرار الہی کے متحمل نہیں ہوسکتے جو کہ سلمان پر منکشف تھے ۔
شیخ طوسی نے معتبر سند کے ساتھ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت سلمان کے اصحاب میں سے ایک صاحب بیمار ہوئے چند روز تک اس سے ملا قات نہ ہوئی تو اس کا حال دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔لوگوں نے بتایاوہ بیمار ہے ۔سلمان نے فرمایا چلو اس کی عیادت کریں ۔غرض لوگ ان کے ہمراہ چلے اور اس شخص کے گھر پر پہنچے ۔اس وقت وہ عالم جان کنی میں تھا ۔جناب سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے ملک الموت سے خطاب کیا کہ خدا کے دوست کے ساتھ نرمی اور مہربانی کرو ملک الموت نے جواب دیا جسے تمام حاضرین نے سنا کہ اے ابو عبداللہ
میں تمام مومنین کے ساتھ نرمی کرتا ہوں اور اگر کسی کے سامنے اس طرح آؤں گا کہ وہ مجھے دیکھے تو بے شک وہ تم ہوگے ۔
ایک روز سلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں داخل ہوئے ۔صحابہ نے ان کی تعظیم فرمائی اور ان کو اپنے اوپر مقدم کرکے صدر مجلس میں ان کے حق کو بلند کیا او ران کی پیروی وتعظیم کی ۔برائے اختصاص جو ان کو حضور (ص) اور آپ (ص) کی آل سے تھا ۔ جگہ دی پھر حضرت عمر آئے اور دیکھا کہ وہ صدر مجلس میں بٹھائے گئے ہیں ۔یہ دیکھ کر وہ بولے یہ عجمی کون ہے ؟ جو عربوں کے درمیان صدر مجلس میں بیٹھاہے یہ سنکر حضور (ص) منبر پر تشریف لے گۓ ۔اور خطبہ ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم کے زمانہ سے اس وقت تک کہ تما آدمی کنگھی کے دندانوں کف مثل برابر ہیں کوئی فضلیت نہیں ہے عربی کو عجمی پر ،نہ کسی سرخ وسفید کو کسی سیاہ پر مگر تقوی او رپرہیزگاری کے سبب سے ۔
سلمان ایک دریا ہے جو ختم نہیں ہوتا اور ایک خزانہ ہے جو تما م نہیں ہوتا ۔سلمان ہم اہلبیت سے ہیں سلمان حکمت عطاکرتے ہیں اور حق کی دلیلیں ظاہر کرتے ہیں ۔
استیعاب میں معرفۃ الاصحاب میں ہے کہ حضور نے فرمایا " اگر دین ثریا میں ہوتا تو سلمان یقینا وہاں تک پہنچ کر اسے حاصل کرلیتا"
جہاد:-
حضرت سلمان فارسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبل از اسلام زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت روحانیت ۔زہد عبادت اور معرفت کی طرف مائل رہی ۔ اور جنگ وجدل یا سپاہ گری سے ان کا کسی طرح سےبھی کوئی تعلق نہ رہا انھوں نے کسی جنگ یا
لڑائی میں شرکت نہ کی بلکہ گھر س ے نکل کر عبادت خانوں میں گوشہ نشین یا تارک الدنیا بنکر اپنی روح کو مفرح ومنور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے پر چم تلے آتے ہی وہ ایک ممتاز مجاہد اور کہنہ مشق سپاہی ثابت ہوتے ہیں ۔ آپ کی اسلامی زندگی میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے نہ صرف جہادوں میں شرکت ہی کی بلکہ بعض موقعوں پر ان کو سپہ سالار مقرر کیا گیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو خاص علم وتفضل کی بدولت فنون حرب اور علم معرکہ آرائی سے بخوبی واقفیت اور کامل دسترس حاصل تھی بدر واحد کی لڑائیوں میں سلمان شریک نہ ہوئے ۔مگر سنہ 5 ھجری میں جنگ خندق میں آپ کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہوئی ۔ حضرت سلمان پہلی مرتبہ جنگ میں رسول اللہ (ص) کے ہمراہ شریک ہوئے ۔اس جنگ میں پورا عرب مسلمانوں کے مقابلہ میں آیا تھا اور شہر مدینہ کا محاصرہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہا تھا ۔ شہر کی نہ ہی کوئی شہرپناہ تھی اور نہ ہی فصیل ۔لشکر کی تعداد بھی قلیل تھی جبکہ دشمن کی فوج کے غول سرپر منڈلا رہے تھے مسلمانوں کی نبض ڈوبی ہوئی تھیں اور کافر متکبر انہ آواز یں کس رہے تھے حضور کو حضرت سلمان نے مشورہ دیا کہ ایرانی طرز کی ایک خندق کھودلی جائے اسے قبول کر لیاگیا اور بمطابق وحی حضور نے خندق کھودنے کا حکم زیر نگرانی حضرت سلمان صادر فرمایا ۔اس خندق کا کھودنا کفار کے ارادوں کو دفن کرنے کی تعبیر ثابت ہوا ۔جب انھوں نے یہ نئی چیز دیکھی تو ششدر رہ گئے ۔عمرہ بن عبدود جیسے بہادر جس کا نام سنکر حضرت عمر جیسے بہادر کا دل ڈوب جاتا تھا ۔خندق کے کنارے ڈھاریں
مارتا اور دیگر پہلوان باتیں بنارہے تھے کہ مسلمانوں نس یہ ایسا حیلہ کیا ہے کہ ہم عرب اس سے قطعی ناواقف ہیں انھوں نے بائیس روز سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح مدینہ تک پہنچ سیکیں لیکن ایک نہ چلی آخر تنگ آکرطعن وتشیع پر اتر آئے حضور کو گستاخانہ طریقوں سے مبارزہ طلبی کی ۔آخر حضرت علی علیہ السلام نے عمروبن عبدود کو واصل جہنم کیا اور یہ فوج کثیر دم دبا کر طائف کی طرف بھگ گئی ۔جنگ فتح ہوئی غزوہ خندق کے بعد کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ شریک نہ ہوئے ۔پیران سالی کے باوجود آپ نس ہرلڑائی یمں داد شجاعت دی ۔
جب جنگ احزاب کے موقعہ پر خندق کھودی جارہی تھی تو مسلمان مختلف ٹکڑوں میں بٹ کر کام کر رہے تھے ۔خود سرورکائینات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دست مبارک سے کھدائی کا کام کررہے تھے آپ کا جسم مبارک مٹی سےاٹا ہوا تھا اور آپ کی زبان وحی بیان پر رجز جاری تھا سلمان ضعیف العمری کے باوجود تنومند اور قوی الجثہ تھے ۔ انصارو مہاجرین دونوں ان کے ساتھ کام کرنے کے خواہشمند تھے مہاجر کہتے تھے کہ سلمان ہم میں سے ہے ۔جب اس بات کا چرچا حضور اکرم (ص) تک پہونچا تو سرکار (ص) نے سلمان کا ہاتھ تھام کر فرمایا "سلمان منا اھل البیت " سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ اس موقعہ کے بعد متعدد بار یہ جملہ ارشاد فرمایا ۔
اہل سنۃ کے جلیل القدر امام محی الدین ابن عربی نے اس حدیث سے حضرت سلمان کی عصمت وطہارت پر استلال کیا ہے اور کہتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک بندہ خاص ومخلص تھے اس لئے اللہ نے ان کے اہل بیت کی ایسی تطہیر کی جو تطہیر کا حق تھا ۔ اور ان سے رجس
اور ہرعیب کودوررکھا اور رجس عربی زبان میں گندگی کو کہا جاتا ہے پھر آیت تطہیر "انما یرید اللہ لیذھب ۔۔الخ" کے بعد کہا کہ جس شخص کو بھی اہلبیت کی طرف نسبت دی جائے گی ۔اس کا مظہر ہونا ضروری ہے اس کے بعد تحریر کیا کہ رسول اللہ (ص)کا سلمان کو اہلبیت میں شامل کرنا انکی طہارت ۔خدائی حفاظت اور عصمت کی گواہی دیتا ہے ۔"
علامہ مجلسی نے بصائر الدرجات سے فضل بن عیسی کی ایک روایت حیات القلوب میں نقل کیا ہے کہ فضل کہتے ہیں ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔میرے والد بزرگوار نے عرض کی کیا ہے صحیح ہے جناب رسالت مآب (ص) نے فرمایا ہر کہ سلمان ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔ امام نے فرمایا ہاں ۔میرے والد نے پوچھا کیا وہ عبد المطلب کی اولاد میں سے ہیں ؟ حضرت نے جواب دیا وہ اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے والد نے عرض کیا کہ کیا وہ ابوطالب (علیہ السلام )کی اولاد میں ہیں ؟ حضرت نے فرمایا کہ وہ ہم اہلبیت میں سے ہیں ۔میرے پدر بزرگوار نے کہا کہ میں سرکار کا مطلب نہیں سمجھ سکا ۔ حضرت صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ ایسا نہیں ہے ۔جیسا کہ تم نے سمجھا ہے ۔بے شک خدا نے ہماری طینت علیین سے خلق فرمائی اور ہمارے شیعوں کی طینت اس سے ایک درجہ پست خلق فرمائی لہذا وہ ہم میں سے ہیں اور ہمارے دشمنوں کی طینت سجین سے خلق فرمائی اور ان کے دوستوں کی طینت ان سے ایک درجہ پست خلق کی لہذا وہ لوگ ان سے ہیں اور سلمان حضرت لقمان سے بہتر ہیں ۔
اسلامی نقطہ نظر سے جب قتال ناگزیر ہوتو اہل کتاب سے لڑائی کرنے سے قبل دعوت اسلام دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہونا
پسند نہ کریں تو ان سے جزیہ طلب کیا جاتا ہے اور اگر وہ انکار کرکے آمادہ جنگ ہوجائیں تو تلوار ہاتھ میں لینا پڑتا ہے ۔چنانچہ چنگ خیبر کے موقعہ پر حضور (ص) نے حضرت علی علیہ السلام کو یہی ہدایت کی تھی کہ ہم پہلے انھیں خدا کی توحید اور اور میری رسالت کی دعوت دینا بصورت انکار مطالبہ جزیہ کرنا اور اگر وہ پھر بھی لڑائی پر مصر رہیں تو ان سے جنگ کرنا ۔چنانچہ حضرت سلمان ان جنگی اخلاق سے بخوبی واقف تھے ۔ لہذا ہمیشہ اس پرعامل رہے ۔ چنانچہ ایک موقعہ پر وہ ایک لشکر کے امیر مقرر کئے گئے اور ان کو فارس کے ایک قلعہ کو فتح کرنے کی مہم پر مامور کیا گیا ۔جب آپ اپنی سپاہ کے ساتھ قلعہ کے نزدیک گئے تو تامل فرمایا ۔لوگوں نے پوچھا کیا آپ اس قلعہ پر حملہ نہیں کریں گے فرمایا نہیں جس طرح رسول خدا پہلے دعوت اسلام دیتے تھے اسی طرح میں بھی ان کو دعوت دوں گا پھر سلمان ان کے پاس تشریف لےگئے اور کہا کہ میں بھی تمھاری طرح فارس کا باشندہ ہوں تم دیکھ سکتے ہو کہ عرب میری اطاعت کر رہے ہیں اگر تم دل سے اسلام لےآؤ گے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو میری طرح تمھیں بھی عزت نصیب ہوگی اور اگر تم ہمارا دین قبول نہ کروگے تو ہم تم پر کوئی زبردستی نہیں کریں گے صرف تم سے جزطلب کریں گے ۔اور اگر پھر بھی تم بر سر جنگ نظر آؤگے تو پھر میرے لئۓ جنگ ضروری ہوگی ۔اہل قلعہ نے جواب دیا کہ نہ ہی ہم تمھارا دین قبو ل کریں گے اور نہ ہی کوئی جزیہ دینا منظور کریں گے بلکہ تمھارا مقابلہ کریں گے ۔ اس پر لشکر سلمان نے حملہ کرنے کا اذن طلب کیا مگر آپ نے جواب دیا نہیں ابھی رک جاؤ ۔ان کو غور کرنے کا موقعہ دو ۔ آپ نے تین روز انتظار کیا اور پھرچوتھے دن حملے کا حکم دیا ۔اور قلعہ فتح کیا ۔
اس واقعہ سے حضرت سلمان کی عظمت کا ر زار واضح ہوتی ہے ۔کسی بھی شعبہ حیات میں دیکھا جائے حضرت سلمان کی حیات پاک کا مقصد ومنشور صرف یہی نظر آتا ہے کہ سنت رسول کی حفاظت رہے آپ شب وروز رسول وآل رسول (علیھم السلام) کی صحبت علمی وعملی سے مستفید رہنے پر مستعد رہے ،علم کے حصول کے ساتھ ساتھ عمل میں کمال حاصل کیا یہی تو وہ متوازن حقیقت تھی جس کے باعث رسول(ص) نے بے انتہا محبت اور نظر کرم میں دریا دلی کا مظاہرہ فرمایا اور آپ کو اپنے اہلبیت میں شامل کرلیا ۔
حضرت سلمان کی ایک بڑی فضیلت یہ ہے کہ انھیں حضرت خاتون جنت سلام اللہ علیہا کے دروازے کی دربانی کاشرف بھی حاصل ہے آپ کو "حاجب علی "ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے ۔
تاریخی واقعات سے اجمالا اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمان نے حیات رسول (ص) کے غزوات میں بھر پور حصہ لیا اور بہادری کے کارنامے انجام دئیے لیکن جنگ خندق کے علاوہ اور کسی جنگ میں ان کے کارناموں کی تفصیل نہیں ملتی ۔اسی طرح بعد وفات رسول کی جنگوں میں ان کو سپہ سالار کی حیثیت سے منتخت کیاگیا ۔مثلا جنگ قادسیہ ، مدائن ،جلولا،اور حملات فارس میں ان کی کارکردگیاں ان کو ایک ماہر جنگجو افسر ثابت کرتی ہیں ۔
سادگی وقناعت :-
باوجودیکہ وہ اعلی مناصب پر فائز رہے مگر سادہ زندگی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔اپنے اسی سادہ رہن سہن پر قائم رہے ۔امیر لشکر ہونے کے باوجود آپ کی ظاہری وضع قطع ایک معمولی سپاہی سے بھی کمتر نظر آتی تھی ۔ ابن عساکر لکھتے ہیں کہ حضرت
سلمان فاتح کی حیثیت سے مدائن کے پل سے گزرے ان کے ساتھ ایک شخص بنی کندہ کا تھا ۔آپ ایک بے زین گدھے پر سوار تھے چونکہ سردار فوج تھے اس لئے لوگوں نے کہا کہ پر چم ہمیں دے دیجئے ۔جواب دیا میں پر چم اٹھا نے کا زیادہ حقدار ہوں ۔اسی طرح آگے بڑگئے جب مدائن سے کوفہ جانے لگے تو لوگوں نے دیکھا کہ بلازین خچر پر سوار ہیں اور جھنڈا ہاتھ میں تھامے ایک فرد بنی کندہ کے ساتھ چلے جارہے ہیں ۔حلیۃ الاولیاء میں حافظ ابو نعیم نے تحریر کیا ہے کہ ایک لڑائی میں حضرت سلمان سردار فوج تھے جب فوج چلی تو لوگوں نے دیکھا کہ ایک گدھے پر سوار ہیں اور جسم پر ایک لباس ہے اور ان کی ٹانگیں تھر تھرارہی ہیں ۔
ایسے سادگی کے واقعات کی موجودگی کے باوجود وہ انتظامی امور کی نگہداشت میں کمال مہارت رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ بد انتظامی کی کوئی کیفیت ان کی قیادت میں نظر سے نہیں گزرتی ہے ۔ شہر مدائن ایک زمانے میں کسروی سلطنت کادار الحکومت تھا اسے سعد بن ابی وقاص نے فتح کیا ۔سلمان بھی ایک فوجی دستے کےقائد کی کی حیثیت سے اس لشکر میں تھے جب مسلمانوں نےمدائن کو فتح کیا تو سعد نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ شہر میں داخل ہونے کے لئے نہر دجلہ کو عبور کریں اور کہا اگر مسلمان اپنی صفات پر باقی ہیں تو خدا ضرور عبور کرنے میں مدد کریگا حضرت سلمان کو جوش آگیا ۔اور فرمایا اسلام ابھی تازہ ہے اور دریا بھی مسلمانوں کی اسی طرح اطاعت کرگا جس طرح اہل زمین نے کی ہے لیکن خدا کی قسم لوگ دین اسلام سے اسی طرح گروہ گروہ خارج ہوں گے جس طرح فوج درفوج داخل ہوئے ہیں ۔یہ سمجھ لو
کہ آج کے دن ہماری فوج کا کوئی آدمی پانی میں ہلاک نہ ہوگا ۔سلمان کی اطلاع کے مطابق پوری فوج سواریوں پر دجلہ عبور کرگئی اور کوئی بھی غرق نہ ہوا ۔
ایک مرتبہ حضرت سلمان نے اپنے بھائی حضرت ابوذر کی ضیافت کی جب وہ آئے تو دوروٹیاں جو کی ان کے سامنے لاکر رکھدیں ۔ابوذر نے ان روٹیوں کو ہاتھ میں لے کر بغور دیکھنا شروع کیا ۔سلمان نے پو چھا کیا دیکھ رہے ہو ۔انھوں نے روٹیوں کو ناپسند کرنے کا اظہار کیا ۔سلمان کے چہرے پر ناراضگی کے اثرات نمایاں ہوئے ۔فرمایا تمھیں ایسی بات کہنے کی جراءت کیسے ہوئی ۔خدا کی قسم اس روٹی کے تیار ہونے میں اس پانی سے کام لیا گیا جو زیر عرش ملائکہ کی عملداری میں رہتا ہے ۔اس روٹی کے تیار کرنے میں زمین کی لکڑی ،لوہا، آگ ،جانور ۔اور نمک کا بھی حصہ ہے اور ان چیزوں کا بھی جنھیں میں شمار نہیں کرسکتا ۔اور اے ابوذر ! جن باتوں کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے ان سے وہ باتیں زیادہ ہیں جن کا میں ذکر نہیں کرسکا ہوں ۔ پھر کیسے اس ایک نعمت کا شکر ادا ہو سکتا ہے ۔ابوذر ان باتوں سے متاثر ہوئے اور ندامت محسوس کی اور خدا سے توبہ ومعذرت طلب فرمائی ۔
اسی طرح ایک دن ابوذر سلمان کے گھر آئے انھوں نے چند روٹی کے سوکھے ٹکڑے سامنے رکھے ۔ابوذر نے کہا کتنی اچھی روٹی ہے اگر نمک ساتھ ہو تو خوب رہے ۔ سلمان باہر گئے اور لوٹا رہن کرکے نمک لاکر رکھ دیا ۔ابوذر نمک چھڑک کر تناول فرمانے لگے اور کہا حمد ہے اس اللہ کی جس نے صفت قناعت بخشی ۔سلمان نے فرمایا اگر تم میں قناعت کا جوہر ہوتا تو مجھے لوٹا گروی نہ کرنا پڑتا ۔
حضرت سلمان باوجود یکہ گور نر تک کے منصب تک فائز ہوئے مگر انھوں نے کوئی اپنا باقاعدہ گھر نہ بنایا ۔ ابن سعد نے انس نے روایت کی ہے کہ سلمان فارسی جہاں جہاں گھومتا تھا اس سے سایہ حاصل کرتے تھے ان کا کوئی گھر نہ تھا ۔ایک شخص نے پوچھا آپ اپنا گھر کیوں نہیں بنا تے جس سے گرمیوں میں سایہ اور سردیوں میں سکون حاصل ہو۔ فرمایا اچھا ۔جب اس شخص نے پشت پھیری تو اسے پکارا اور پوچھا تم اسے کیونکر بناؤگے ۔اس نے کہا ایسے بناؤنگا کہ اگر آپ کھڑے ہوں تو سرمیں لگے اور لیٹیں تو پاؤں میں لگے ۔سلمان نے کہا ہاں ۔
نعمان بن حمید سے مروی ہے کہ میں اپنے مامں کے ہمراہ مدائن گیا ۔ وہ بوریا بن رہے تھے ۔میں نے انھیں کہتے سنا کہ ایک درہم کھجور کے پتے خرید تا ہوں اسے بنتا ہوں اور تین درہم میں فروخت کرتا ہوں ۔ایک درہم اسی میں لگا دیتا ہوں اور ایک درہم عیال پر خرچ کرتا ہوں ۔ایک درہم خیرات کردیتا ہوں اگر عمر بن خطاب پابندی نہ لگاتا تو اس سے باز نہ آتا ۔
ابی قلابہ سے مروی ہے کہ ایک شخص سلمان کے پاس آیا اس وقت وہ آٹا گوند رہے تھے ۔عرض کی خادم کہاں ہے ۔فرمایا ہم نے اسے ایک کام پر روانہ کیا ہے اور پھر ہم نے نا پسند ایا کہ اس سے دوکام لیں پھر اس شخص سے کسی کا سلام پہنچایا ۔پوچھا تم کب سےآئے ہو ۔کہا تین دن سے فرمایا دیکھو اگر تم (آج) سلام نہ پہنچاتے تو یہ امانت میں خیانت ہوتی ۔
حضرت سلمان کی روزمرہ کی گفتگو میں آیات قرآنی کا کثرت سے
حوالہ ملتا ہے اور عموما آپ حلقہ احباب میں تفسیر قرآن بیان کرتے تھے ۔اورجب لوگوں کی عدم توجہ کی شکایت کیا کرتے تھے علماء نے ان کو ممتاز فقیہ تسلیم کیا ہے ۔ابن عساکر نے روایت نقل کی ہے کہ حضور سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ ہم آپ کے بعد کس سے علم حاصل کریں ۔آنحضرت نے فرمایا "علی (علیہ السلام )اور سلمان(رضی اللہ عنہ) سے " ۔اسی طرح علم حدیث میں ان کو بخاری اور مسلم نے مدوّن شمار کیا ہے ۔
اصبغ بن نباتہ بیان کرتے ہیں کہ میں عہد علوی میں سلمان کے پاس مدائن گیا ۔اکثر وبیشتر ان سے ملاقات رہتی تھی جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو مجھ سے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مجھے بتایا تھا کہ جب میری موت کا وقت قریب ہوگا تو مردہ مجھ سے باتیں کرےگا ۔میں نے کہا میں آپ کاحکم ماننے کے لئے تیار ہوں ۔فرمایا ایک تختہ منگوا کرے مجھے لوگوں کے کندھوں پر لے چلو جب قبرستان پہنچے تو زمین پر بیٹھ گئے اور بلند آواز سے کہا ۔سلام ہو تم پر اے لوگو جو فنا کے راستے پر جاکر خاک میں پوشیدہ ہوئے ہو سلام ہو تم پر اے لوگو جو اپنے اعمال کے نتیجے تک پہنچ گئے ہو۔ اور صور اسرافیل کا انتظار کر رہے ہو اسی طرح چند مرتبہ سلام کیا ۔فرمایا کہ میں سلمان فارسی آزاد کردہ پیغمبر (ص) ہوں ۔ انھوں نے مجھے خبر دی تھی کہ جب میری موت کا وقت قریب آئےگا تو تم میں سے کوئی شخص مجھ سے بات کرے گا۔
اصبغ بیان کرتے ہیں کہ اسی وقت ایک آواز بلند ہوئی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ تم نے اپنے آپ کو دنیا میں مشغول کررکھا ہے ۔اے سلمان تمھاری باتیں سن رہا ہوں جو پوچھنا
چاہتے ہو پوچھ لو۔ اس موقع پر سلمان نے بہت سی باتیں دریافت فرمائیں ۔آخر میں سلمان نے پوچھا کہ سب سے زیادہ مفید عبادت کونسی ہے جواب ملا کہ میں نے تین چیزوں سے زیادہ مفید عبادت نہیں پائی ۔ پہلی سرد راتوں میں نماز پڑھنا ۔دوسرے گرم دنوں مں روزے رکھنا ۔تیسرے اس طرح صدقہ دینا کہ دوسر ہاتھ کو خبر نہ ہو۔یہ سننے کے بعد سلمان نے سرکو آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا اے وہ ذات خداوندی جس کے قبضہ ملکیت میں ہرچیز ہے اور ہر شے اسی کی طرف پلٹ جانے والی ہے ۔اس کے بعد چند کلمات اداکئے ۔اور کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا کہ مجھے قبلہ رخ لٹا دو ۔ انھیں لٹا دیا گیا اور روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔
ذازان کہتے ہیں کہ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیاتو میں نے پوچھا کہ آپ کو غسل کون دےگا ۔فرمایا وہ شخص جس نے رسول اللہ (ص) کو غسل دیا تھا ۔ میں نے کہا آپ مدائن میں ہیں ۔ اور وہ یہاں سے بہت دور ہے ۔انھوں نے جواب دیا کہ جب میں مرجاؤں گا تو تم ایک آواز سنوگے ۔راوی کا بیان ہے کہ جب آپ کا انتقال ہو تو میں نے ایک آواز سنی مڑ کر دیکھا تو امیر المومنین علی ابن طالب علیہ السلام تھے ۔جناب امیر المومنین ۔آپ نے چادر کو ہٹا کر سلمان کے چہرے پر نظر ڈالی ۔میں نے دیکھا کہ سلمان کے ہونٹوں پر تبسم تھا ۔علی علیہ السلام کی آنکھیں پر نم تھیں ۔جناب امیر علیہ السلام دعا فرما رہے تھے کہ اے سلمان تم پر رحمت ہو ۔ اے سلمان ! جب رسول اللہ (ص)
سے ملنا تو سب کچھ بتا دینا ،جو امت نے میرے ساتھ برتاؤ کیا ہے تجہیز وتکفین سے فارغ ہو کر نماز جنازہ پڑھی دو آدمی اور ان کے ساتھ تھے جو نماز پڑھ رہے تھے ۔پوچھا یہ حضرات کو ن ہیں فرمایا ایک حضرت خضر اور دوسرے جعفر طیار (رض) اور کے ساتھ ملائکہ کی صفین تھیں ۔
حضرت سلمان کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے ڈھائی سو سال ساڑھے تین سو سال ۔چارسو سال اور بعض کے نزدیک انھوں نے حضرت عیسی کا زمانہ بھی دیکھا تھا ۔بہر حال اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے ۔آپ کی اولاد تین لڑکے اور تین لڑکیاں بیان ہوئی ہیں ۔ عبداللہ اور محمد دونوں فرزندوں سے نسل سلمانی پھلی پھولی ہے ۔آپ نے قبل از اسلام کوئی شادی نہ کی ۔بعد میں دو شادیاں کیں ایک عربی اور ایک عجمی ۔عربی زوجہ کا انتقال ہوگیا اور عجمی بیوی ان کے بعد تک زندہ رہیں ۔
شیخ طوسی نے بسند معتبر روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضرت صادق کی خدمت میں عرض کی کہ ہم آپ سے سلمان فارسی کا بہت ذکر سنا کرتے ہیں امام نے فرمایا سلمان فارسی مت کہو بلکہ سلمان محمدی کہو ۔کیا تو جا نتا ہے کہ کس سبب سے ہم ان کو بہت یاد کرتے ہیں ؟ راوی نے کہا نہیں ۔حضرت نے فرمایا تین خصلتوں کے سبب اول یہ کہ انھوں نے اپنی خواہش پر جناب امیر کی خواہش کو ترجیح دی اور اختیار کیا ۔دوسرے یہ کہ فقیروں کو دوست رکھتے تھے اور ان کو مال دراروں اور صاحبان عزت وشرف پر ترجیح دیتے تھے ۔تیسرے یہ کہ علم اور علماء کو دوست رکھتے تھے بے شک
سلمان خدا کے شائستہ بندہ تھے اور ہر باطل سے کترا کر حق کی طرف مائل ہوتے تھے اور مسلمان حقیقی تھے اور کسی طرح کا شرک اختیار نہ کیا تھا ۔
حضرت سلمان اور یہودی جماعت کا امتحان :-
علامہ مجلسی(رح) نے حیات القلوب میں تفسیر امام حسن عسکری علیہ السلام سے ذکر کیا ہے کہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا گزر ایک دن یہودیوں کی ایک جماعت کی طرف ہوا ۔ان لوگوں نے آپ سے خواہش کی کہ ان کے پاس تشریف رکھیں ۔ اور جو کچھ پیغمبر اسلام (ص) سے سنا ہے ان سے بیان کریں ۔ جناب سلمان ان کے پاس بیٹھ گئے اور ان کے اسلام لانے کے انتہائی لالچ میں کہا کہ میں نے رسول (ص) سے سنا ہے کہ اللہ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! کیا ایسا نہیں ہے کہ ایک گروہ کو تم سے بڑی حاجتیں ہوتی ہیں اور تم ان کی حاجتیں پوری نہیں کرتے ہو مگر اس وقت جبکہ وہ اس سے سفارش کراتے ہیں جو خلق میں تم کو زیادہ محبوب ہوتا ہے ۔ جب وہ ان کو ان کی شان ومنزلت کے سبب تمھارے نزدیک اپنا شفیع قرار دیتے ہیں ۔ تو تم ان کی حاجتیں برلاتے ہو ۔ اسی طرح سمجھ لو کہ میرے نزدیک میری مخلوق میں سب سے زیادہ ذی قدر وذی مرتبہ اور ان میں سب سے افضل وبر تر محمد (ص) اور ان کے بھائی علی (ع) اور ائمہ (ع)جو ان کے بعد ہونے والے ہیں جو خلق کے وسیلہ اور ذریعہ میری بارگاہ میں ہیں لہذا جس شخص کو کوئی حاجت درپیش ہو جو مخلوق میں سب سے زیادہ نیک پاک اور گناہوں سے معصوم ہیں ۔شفیع ووسیلہ قراردے تاکہ میں اس کی حاجتیں برلاؤں ۔اس شخص سے بہتر طریقہ سے
جس کو کوئی اس کے محبوب ترین شخص کے شفیع قرار دینے سے بر لا تا ہے یہ سنکر ان یہودیوں نے بطور مذاق کہا کہ پھر کیوں خدا سے ان کو وسیلہ قراردیتے کر سوال نہیں کرتے اور ان کے حق سے توسل اختیار کرکے دعا نہیں کرتے تاکہ خدا ان کے طفیل میں آپ کو اہل مدینہ میں سب سے زیادہ بے نیاز کردے ۔سلمان نے فرمایا کہ میں نے ان کو وسلہ اور ذریعہ اور شفیع قرار دیکر خدا سے اس چیز کا سوال کیا جو دنیا کے تمام ملک سے زیادہ عظیم اور نافع تر ہے ۔ کہ خدا مجھے ان کی عظمت وبزرگی اور مدح وثنا بیان کرنے کے لئے زبان عطا فرمائے ۔اور ایسا دل کرامت فرمائے جو اس کی نعمتوں پر شکر کرنے والا ہو اور عظیم مصیبتوں پر صبر کرنے والا ہو ۔ تو خدا نے میری دعا قبول فرمائی اور جو کچھ میں نے طلب کیا تھا مجھے عطا فرمایا اور وہ تمام دنیا کی بادشاہی اور جو کچھ دنیا میں نعمتیں ہیں ان سے لاکھوں درجہ بہتر وبرتر ہے ۔ تو یہودیوں نے آپ کا مذاق اڑایا۔ اور کہا اے سلمان تم نے مرتبہ عظیم و بلند کا دعوی کیا ہے ۔ اب ہم مجبور ہیں کہ تمھارا امتحان کریں کہ تم اپنے دعوے میں سچے ہو یا نہیں ۔ لہذا پہلا امتحان تو یہ ہے کہ ہم اپنے تازیانوں سے تم کو مارتے ہیں تم اپنے خدا سے دعا کرو کہ ہمارے ہاتھ تم سے روک دے ۔سلمان نے دعا کی پر وردگار ا مجھ کو ہر بلا پر صبر کرنے والا قرار دے ۔وہ بار بار یہ دعا کرتے تھے ۔ اور وہ ملعون یہودی آپ کو تازیانے لگاتے تھے یہاں تک کہ تھک گئے ۔ اور رنجیدہ ہوئے اور سلمان اس دعا کے علاوہ اور کچھ نہ کہتے تھے ۔ جب وہ تھک کر رکے تو کہنے لگے ہم کو گمان نہ تھا کہ کسی کے بدن میں روح باقی رہتی اس شدید عذاب کے سبب جو ہم نے تم پر وارد کیا ہے ۔تم نے خدا سے
یہ دعا کیوں نہیں کی کہ ہم کو تمھاری ایذا رسانی سے روک دیتا ۔ سلمان نے فرمایا کہ یہ دعا صبر کے خلاف تھی ۔بلکہ میں نے قبول ومنظور کیا اور اس مہلت پر راضی ہوا جو خدا نے تم کو دے رکھی ہے ۔اور میں نے دعا کی خدا سے کہ مجھے اس بلا پر صبر عطا فرمائیے ۔چنانچہ ان یہودیوں نے تھوڑی دیر کے لئے آرام کیا ۔پھر اٹھے اور کہا اس مرتبہ تم کو اتنا ماریں گے کہ کہ تمھاری جان نکل جائے ۔یامحمد (ص) کی رسالت سے انکار کرو ۔جب سلمان نے فرمایا ہرگز ایسا نہ کروں گا ۔بے شک خدا نے اپنے رسول پر نازل فرمایا کہ "وہ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں ۔اور یقینا تمھاری اذیت رسانی پر میر ا صبر کرنا اس لئے ہے کہ میں اس جماعت میں داخل ہوجاؤں جن کی خلاق عالم نے اس آیہ میں مدح کی ہے اور یہ صبر میرے لئے سہل اور آسان ہے ۔پھر ظالموں نے سلمان کو مارنا شروع کیا ،اور مارتے مارتے تھک گئے تو چھوڑ کر بیٹھے اور بولے کہ اے سلمان ! اگر پیش خدا تمھاری کوئی قدر ہوتی اس ایمان کے سبب سے جو محمد (ص) پر لائے ہو تو یقینا وہ تمھاری دعا مستجاب کرتا اور ہم کو تم سے باز رکھتا ۔سلمان نے فرمایا تم لوگ کیسے جاہل ہو ۔خدا میری دعا کیسے قبول کرتا ۔کیا میرے لئے اس کے خلاف کرتا جو کچھ میں نے اس سے طلب کیا ہے ۔ میں نے اس سے صبر طلب کیا ہے ۔اس نےمیری دعا قبول فرمائی ۔اور مجھے صبر کرامت فرمایا اگر اس سے طلب کرتا کہ تم کو مجھ سے باز رکھے اور تم کو باز نہ رکھتا تو میری دعا کے خلاف ہوتا ۔جیسا کہ تم گمان کرتے ہو۔پھر تیسری بار وہ ملاعین اٹھے اور تازیانہ کھینچ کر جناب سلمان کو مارنے لگے ۔آپ اس سے زیادہ نہیں کہتے تھے کہ خداوندا مجھے ان بلاؤں پر صبر عطافرما جو مجھ پر
تیرے برگزیدہ اور محبوب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں نازل ہورہی ہیں ۔ تو ان کافروں نے کہا اے سلمان! تم پر وائے ہو۔کیا محمد (ص) نے تمھیں تقیہ کے لئے اجازت نہیں دی ہے کہ اپنے دشمنوں سے کفر کی باتیں کہہ دو ۔ہم تم کو مجبور کررہے ہیں ۔سلمان نے کہا خدا نے مجھے اس امر میں تقیہ کی اجازت دی ہے لیکن واجب نہیں قرار دیا ہے ۔بلکہ جائز کیا ہے کہ میں وہ بات کہہ دوں جس پر تم مجھے مجبور کرتے ہو ۔اور تمھاری ایذا رسانی اور تکلیف دینے پر صبر کروں تویہ اس سے بہتر ہے ۔میں اس کے سوا کچھ پسند نہیں کرتا غرض پھر اشقیاء اٹھے اور ان کو بے شمار تازیانے مارے کہ حضرت کے جسم مبارک سے خون جاری ہوگیا ۔اور مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ خدا سے کہتے ہو کہ ہم تمھاری آزار رسانی سے باز رکھے اور وہ بھی نہیں کہتے جو ہم تم سے چاہتے ہیں لہذا ہم پر نفرین کرو کہ خدا ہم کو ہلاک کرے ۔اگر تم اپنے اس دعوی میں سچے ہو کہ خدا وند عالم تمھاری دعا کو رد نہیں کرتا اگر محمد وآل محمد (علیھم السلام) کے توسل سے کرو ۔جناب سلمان نے فرمایا میں کراہت رکھتا ہوں اس سے کہ خدا سے تمھاری ہلاکت کی دعا کروں تو اس کے خلاف ہوگا ۔ یہ سنکر ان کافروں نے کہا کہ اگر اس سے دڑتے ہو تو اس طرح دعا کرو کہ خدا وندا ہلاک کر اس کو جس کے بارے میں تو جانتا ہے کہ وہ بغاوت اور سرکشی پا باقی رہے گا ۔ اگر اس طرح دعا کروگے تو اس بات کا خوف نہ رہے گا جس کا تم کو خیال ہے ۔اسی اثنا ء میں اس مکان کی دیوار شق ہوئی جس میں کہ وہ لوگ تھے اور جناب سلمان نے حضرت رسالتمآب(ص) کو دیکھا آپ فرما رہے تھے اے سلمان ان ظالموں کی ہلاکت کی دعا کرو ۔کیونکہ ان میں کوئی
ایسا نہیں ہے جو ایمان لائے اور نیکی وہدایت حاصل کرے جیسطرح حضرت نوح نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی جبکہ سمجھ لیا تھا کہ ان کی قوم ایمان نہ لائے گی ۔سوائے ان کے جو ایمان لاچکے ہیں ۔ یہ امر پاکر سلمان نے فرمایا ۔اے یہود یو! تم کس طرح ہلاک ہونا چاہتے ہو۔ بتاؤ تو اسی امر کے لئے خدا سے دعا کروں ۔ وہ بد نصیب بو لے کہ یہ دعا کرو کہ خداوند ان میں سے ہر شخص کے تازیانے کوایک سانپ کی شکل میں بدل دے جو اپنا سراٹھا ئے اور اپنے اپنے مالک کی ہڈیاں چبا ڈالے ۔جناب سلمان نے اسی طرح دعا کی تو ہر ایک کا تازیانہ سانپ بن گیا جن میں سے ہر ایک کے دو دو سرتھے ایک سر اپنے مالک کا سر اور دوسرے سے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا جسمیں وہ تازیانہ لئے ہوئے تھا ۔اور تمام ہڈیاں چور چور کر ڈالیں اور چبا کر کھالیا اسی وقت جناب رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مجلس میں جہاں کہ تشریف فرما تھے فرمایا کہ اے مسلمانو !خداوند عالم نے تمھارے ساتھی سلمان کی اس وقت بیس منافقوں اور یہودیوں کے مقابلے میں مدد کی اور ان کے تازیانوں کو سانپ بنادیا ۔جنہوں نے ان کو چورچور کر کے کھالیا لہذا چلو ان سانپوں کو دیکھیں جن کو خدا نے سلمان کی مدد کے لئے تعینات فرمایا ہے ۔غرض جناب رسول خدا (ص) اور آپ کے اصحاب اٹھے اور اس مکان کی طرف چلے ۔اس وقت اس میں پاس پڑوس والے منافقین و یہودی ان کافروں کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنکر جمع ہوگئے تھے جبکہ ان کو سانپ کا ٹ رہے تھے ۔ جب ان لوگوں نے یہ حال دیکھا تو خوف زدہ ہوکر دور ہٹ گئے تھے ۔ جب آنحضرت وہاں تشریف لائے تو وہ سب
سانپ اس گھر سے نکل کرمدینہ کی گلی میں آگئے جو بہت تنگ تھی خداوند عالم نے اس کو گنا کشادہ کردیا ۔حضرت کو دیکھ کر ان سانپوں نے ندا کی " السلام علیک یا سید الاولین و الآخرین " پھر جناب امیر علیہ السلام پر سلام کیا اور کہا "السلام علیک یا علی یا سید الوصیّین" پھر آپ کی ذریت طاہرہ پر سلام کیا اور کہا "السلام علی ذریتک الطیبین الطاہرین جعلو علی الخلائق قوامین" یعنی سلام ہو آپ کی اولاد پر جو پاک ومعصوم ہیں جن کو خدانے امو خلق کے ساتھ قیام کرنے والا قرار دیا ہے ۔یارسول اللہ (ص) ہم ان منافقوں کے تازیانے ہیں ۔خدا نے ہم کو اس مومن سلمان کی دعا سے سانپ بنا دیا ہے ۔جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمام تعریفیں خدا کے لئے سزاوار ہیں کہ جس نے میری امت میں اس کو قرار دیا جو صبر کرنے والا اور بد دعا نہ کرنے والا اور نہ نفرین کرنے والا مثل حضرت نوح کے ہے پھر ان سانپوں نے آواز دی کہ یارسول اللہ (ص) ان کافروں پر ہمارا غضب و غصہ شدید ہوچکا ہے ۔آپ کا اور آپ کے وصی کا حکم خدا کے ملکوں میں جاری ہے ۔ہماری گزارش ہے کہ آپ خداوند عالم سے دعا فرماویں کہ ہم کو جہنم کے ان سانپوں میں سے قرار دے دے جن کو ان ملاعین پر مسلط فرمائے گا ۔ تاکہ ہم ان پر جہنم میں بھی عذاب کرنے والے ہوں جس طرح ان کو دنیا میں ہم نے نیست ونابود کردیا جناب رسول خدا (ص) نے فرمایا کہ جو کچھ تمھاری تمنا تھی خدا نے منظور فرمائی ۔لہذا جہنم کے سب سے نیچے طبقوں میں چلے جاؤ اور ان کافروں کی ہڈیاں جو تمھارے پیٹ میں ہیں اگل دو ۔تاکہ ان کی
ذلت وخواری کا ذکر زمانہ میں زیادہ ہو اس سبب سے لو گ ان کو دفن کردیں تاکہ مومنین جو ان کی قبروں کی طرف سے گزریں تو عبرت حاصل کریں اور کہیں کہ یہ ملعو نوں کی اولاد یں ہیں جو محمد (ص) کے دوست اور مومنین میں برگزیدہ سلمان محمدی کی بد عا سے غضب الہی میں گرفتار ہوئے یہ سنکر ان سانپوں نے جو کچھ ان کے پیٹ میں ان کی ہڈیاں تھیں اگل دین اور ان کا فروں کے اعزاء و اقربا نے آکر ان کو دفن کیا اور بہت سےکافروں نے یہ معجزہ دیکھ کر اسلام قبول کیا اور بہت سے کافروں اور منافقوں پر شقاوت غالب ہوئی اور کہنے لگے کہ یہ کھلا ہوا جادو ہے ۔پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب سلمان سے فرمایا کہ اے ابو عبد اللہ تم میرے مومن بھائیوں میں خاص ہو اور مقرب فرشتوں کے دلوں کے محبوب ہو بے شک تم آسمانوں ،خدا کے حجابوں ،عرش وکرسی ۔اور جو کچھ عرش کے درمیان تحت السری تک ہے ان کے نزدیک فضیلت وکرامت میں مشہور ومعروف ہو ۔ تم ایک آفتاب ہو جو طالع ہوئے ہو ۔اور ایک دن ہوجس پر گرد وغبار اور ہوا کی تیرگی نہیں اور اس آیہ کریمہ میں تمھاری مدح کی گئی ہے ۔"الذین یومنون بالغیب" پس فرمان رسول کے بعد راقم عاجز وقاصر ہے کہ کچھ لکھ سکے ۔
حامل سر خفی ،عارف قرآن کریم
اس پہ روشن ہے رموز صحف ابراہیم
تابش نورخدا ،روشنی ء شمع قدیم
نائب عیسی مریم ،شرف شان کلیم
عزم وکردار سے آفاق میں سلمان بنا
تھا جو نباض جہاں وقت کا لقمان بنا
(احسان امر وہوی)
اس میں کچھ شک نہیں کہ سخت گناہگارہوں میں مگر اتنا ضرور ایمان رکھتا ہوں کہ میرا اللہ غفارہے ۔ اس لئے کفران نعمت کی جسارت کرکے میں اپنی گناہوں کی گھڑی کو مزید وزنی بنا نا چاہتا ہوں لہذا بارگاہ قدوس میں سر بسجود نہایت عجز وانکساری کے ساتھ ہدیہ تشکر بجالاتا ہوں کہ وہ ذات والی صفات عاصی وخطاکار کا بھی شکرانہ قبول کرنے والی ہے ۔میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ اسی کی توفیق ونظر کرم کا نتیجہ ہے ۔اس نے مجھ جیسے جاہل کو یہ ہمت عطا فرمائی کہ میں ۔اس کے دوستوں اور اس کے رسول کے چار یاروں کی خدمات میں اپنی عقیدت مندانہ معروضات پیش کرنے کا شرف حاصل کرسکا ۔بے شک حق یہ ہے کہ ان حضرات بابرکات کی صفت وتوصیف اور مدح ومنقبت کا حق ادا کرنا میری استطاعت اور غیر علمی قابلیت سے باہر ہے ۔ لیکن جو کچھ بھی ہوسکا وہ محض ایک فیض کی بدولت ہو اگر اس میں تائید خاصان نہ ہوتی تو شاید یہ موقع ہی میسر نہ آتا ۔میں نے ان مظلوم روحانی بادشاہوں کے حالات کی نشرو اشاعت کی کوشش کی ہےجن کے سنہرے کارناموں کو سطوت شاہی اور مادی اقتدار کے داؤ پرلگایا جاچکا ہے ۔ان کے کارہائے نمایاں اور اعزازات کو غیر مستحق افراد کو سونپنے کی سوچی سمجھی تدبیر آج تک بروئے کار ہے ۔یہ امر یقینا میرے لئے باعث مسرت ہے کہ میں
نے حقدار کو اس کا حق اداکرنے کی آواز بلند کی ہے اور غاصب کے ظلم کا اظہار عام کیا ۔ اب اگر کوئی جماعت مخلصین اس سلسلہ میں دست تعاون بڑھا ئے تو یقینا اسلامی تاریخ کے پوشیدہ خزانے تلاش کئے جاسکتے ہیں ۔ یہ صحابہ یادیگر یار ان پیغمبر (ص) جو خدمت رسول میں آنے کے بعد راہ مستقیم پر پامردی سے ثابت قدم رہے اور تمسک بالثقلین کی ہدایت رسول پر تا دم آخر قائم رہے اپنے غیروں کے سامنے کندن کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں ۔جس طرح ان کی حیات میں دنیا والوں کے مظالم ان کے پایہ استقلال کو جنبش نہ دے سکے اسی طرح ان کی مادی زندگی کے بعد بھی زمانے کے ظلم وستم او مکار سیاست ان کے کردار وایمان کے بلند سر کو خمیدہ نہ کرسکے ۔ان کے کمالات کو جس قدر چھپایا گیا وہ سی قدرر کرامات کی صورت میں ابھرتے چلے گئے ۔ان کے اوصاف جتنا پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی وہ اتنا ہی ظاہر ہوئے ۔ان کے ذکر پر جتنی پابندیاں عائد کی گئی ان کی اہمیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔کیونکہ یہ دنیا جس بات کو چھپا نا چاہتی تھی خدا کو اسے ظاہر کرنا مقصود ہے ۔
اب ہم عالم اسلام سے مؤدبانہ التماس کرتے ہیں کہ وہ جماعت اصحاب رسول میں کوئی ایک بھی فرد ایسا پیش کریں جس کا ایمانی درجہ ،روحانی مقام ،اخلاقی کردار اور انسانی مرتبہ ان اصحاب رسول رضی اللہ عنھم کے ہم پلہ ہو ۔کیا یہ اعجاز خداوندی نہیں ہے کہ حکومت واقتدار کے بل بوتے پر ان کے فضائل پر لاکھوں پردے ان کے نور ایمان کی ایک شعاع سے راکھ ہوگئے اور زمانہ
ان کے نور ایقانی سے روشن ومنور ہوگیا ۔ان یاران رسول (ص) کی یہ خصوصی انفرادیت ہے کہ انھوں نے فلسفہ حیات کے ہرگوشے پر غلبہ حاصل کیا اور فلسفہ اسلام کے ساتھ انھیں یوں سنواردیا کہ آج ان کا ایک ایک قدم مشعل راہ بن گیا ہے ۔جو اصحاب معصوم نہ تھے انھوں نے اپنے نفس امارہ سے ایسا جہاد کیا کہ عصمت کے مظہر نظر آنے لگے ۔اسلامی کتابیں ،سلاطین کے قصائد سے بھری ہوئی ہیں ۔ ہزاروں میل کی فتوحات کو ہم نے اپنا سرمایہ تاریخ سمجھ رکھا ہے اور محل وقصور ہماری نظر میں نشانات ہدایت ہیں ۔ مگر یہ سب سننے میں بھلا ضرورلگتا ہے ۔پڑھنے میں بھی مزا دیتا ہے لیکن غور کرنے پر سخت تلخی کا سبب بنتا ہے ۔کیونکہ ! اگر کبھی ہمارے بادشاہوں کی تلوار تیز تھی توجب آب تلوار گئی تو ساتھ آبرو بھی لیتی گئی ۔اگر دھار تیز تھی تو کند بھی ہوئی اور ایسی ہوئی کہ آج تک دھار لگ نہ سکی ۔اسلام فوج کشی اور ملک گیر کا ضابطہ نہیں ۔بلکہ یہ نظام حیات ہے ۔یہ زندگی بخش ہے ۔زندہ رہنا سکھا تا ہے ۔اس میں امن وسلامتی کی ضمانت ہے ۔ ایک قطرہ خون ناجائز بھی برداشت نہیں کرتا ہے ۔ پس اسلام کو زندگی کا پیغام بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے پس اسلام کو زندگی کا پیغام بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیجئے نہ کہ اس کو موت کی تلوار کہلوائیے ۔اور اگر اسلام سلامتی ہے تو پھر سوائے متمسک بالثقلین یاران رسول(ص) کے اور کوئی اس کا نمونہ اور نظیر نہیں نظر آئے گا جس کی پیروی حقیقی اسلام کی اتباع ہو ۔
٭٭٭٭٭
Comments powered by CComment