زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

اسلامی شخصیات
Typography
  • Smaller Small Medium Big Bigger
  • Default Helvetica Segoe Georgia Times

تألیف:غلام مرتضیٰ انصاری

 

مقدمہ

 الحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علٰی محمد وآلہ الطاھرین ولعنۃ اللہ علٰی اعدائھم اجمعین الی قیام یوم الدین ۔

خدا تعالٰی کا شکر ہے کہ اس دفعہ بھی جشنوارہ شیخ طوسی(ره) میں یہ مختصر مقالہ لکھنے کی توفیق ہوئی ؛ اس امید کے ساتھ کہ زیادہ سے زیادہ اہل بیت اطہار (ع)کی معرفت حاصل ؛ اور قیامت کے دن ان ہستیوں کی شفاعت نصیب ہوں ۔ یہ مقالہ بعنوان زینب کبریٰ (س) اور عاشورا لکھا گیا ہے جودوفصل پرمشتمل ہے ۔ پہلی فصل میں بعض خواتین کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے کربلا میں اپنا کردار ادا کی ہیں ۔ اور دوسری فصل میں جناب زینب کبری(س) اور ان کی ذمہ داریوں کو عصر عاشور سے لے کر کوفہ اور شام پھر کربلا تا مدینہ ،بیان کیا گیا ہے ۔ خدا تعالی سے یہی دعا ہے کہ ہم سب کو زینب کبری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین مبین اسلام کی تبلیغ وترویج کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

 

غلام مرتضی انصاری

 

پہلی فصل : زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

 

پہلی فصل :

کربلا میں خواتین کا کردار

معاشرہ سازی اور خواتین مرد اور عورت دونوں معاشرہ اور جامعہ کوتشکیل دینے میں برابر کے شریک ہیں۔ اسی طرح اس معاشرے کی حفاظت کرنے میں بھی ایک دوسرے کےمحتاج ہیں۔ فرق صرف طور وطریقے میں ہے ۔

معاشرہ سازی میں خواتین کاکردار دو طرح سے نمایان ہوتا ہے:

١. پہلا کردار غیر مستقیم اور ناپیدا ہے جو اپنے بچّوں کی صحیح تربیت اور شوہر کی اطاعت اور مدد کرکے اداکرتی ہے ۔

٢. دوسرا کردار مستقیم اور حضوری ہے جو خود سیاسی اور معاشرتی امور میں حصہ لےکراپنی فعالیت دکھاتی ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اگر خواتین کاکردار مردوں کے کردار سے بڑھ کر نہیں ہے تو کم بھی نہیں ۔

عظیم شخصیات جنہوں نے معاشرے میں انقلاب پیدا کئے یا علمی درجات کو طے کئے ہیں ،ان کی سوانح حیات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے ان کی کامیابی کاراز دو شخصیتوں کی فداکاری کا نتیجہ ہے، ایک وہ باایمان اور فداکار ماں ، جس کی تربیت کی وجہ سے اس کی اولاد کامیابی کے عظیم مقام تک پہنچ گئی ہیں ۔ جیساکہ امام خمینی (ره) نے فرمایا : ماں کی گود سے انسان کی معراج شروع ہوتی ہے ۔چنانچہ سید رضی (ره)اور سید مرتضی علم الہدی (ره)علمی مدارج کو طے کرتے ہوئے جب اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے تو ان کی مادر گرامی کو یہ خوش خبری دی گئی تو کہا : مجھے اس پر تعجب نہیں ، کیونکہ میں نے جس طرح ان کی پرورش کی ہے ، اس سے بھی بڑے مقام پر ہونا چاہئے تھا ۔ یا وہ باوفا اور جان نثار بیوی ، جس کی مدد اور ہمکاری کی وجہ سے اس کا شوہر کامیابی کے بلند وبالا درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔

تاریخ اسلام میں بہت سی مؤمنہ اور فداکار خواتین گزری ہیں جنہوں نے سیاسی اور اجتماعی امور میں اپنی فعالیت اور کرداردکھائی ہیں۔ اولاد کی صحیح تربیت دینے کے علاوہ خود بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ رہ کر دین اورمعاشرےکی اصلاح کی ہیں۔اسی طرح کربلا میں بھی خواتین نے عظیم کارنامے انجام دی ہیں ۔جن میں سے بعض خواتین کے نام درج ذیل ہیں:

 

دیلم، زہیر کی بیوی یہ عظیم عورت باعث بنی کہ اس کا شوہر امام حسین (ع) کے باوفا اصحاب میں شامل ہوکر شہادت کے عظیم درجے پر فائز ہوئے ۔ چنانچہ قبیلہ فزارہ و بجیلہ نے نقل کی ہیں کہ: ہم زہیر بن قین کے ساتھ مکہ سے اپنا وطن واپس آرہے تھے ۔اور امام حسین (ع)کے پیچھے پیچھے حرکت کر رہے تھے۔ جہاں بھی آن حضرت خیمہ نصب کرتے تھے؛ ہم اس سے تھوڑا دور خیمہ نصب کرتے تھے ۔یہاں تک کہ ایک منزل آئی، جہاں ہم کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے ۔ اچانک امام کی طرف سے قاصد آیا، سلام کیا او ر کہا : اے زہیر بن قین؛ اباعبد اللہ الحسین (ع) نے تمھیں بلایا ہے ۔جب یہ پیغام سنایا توان پر سخت خوف اور دہشت طاری ہوگئی اور حیرانگی کی عالم میں اس قدر بے حرکت ہوگیا ؛کہ اگر پرندہ سر پر بیٹھ جاتا تو بھی پتہ نہ چلتا ۔

زہیر کی بیوی دیلم بنت عمرو دیکھ رہی تھی ؛کہا: سبحان اللہ !فرزند رسول (ص)تمہیں بلائے اور تم خاموش اور جواب نہ دے ؟!کیا تو فرزند رسول (ص) کو جواب نہیں دوگے؟ آپ جائیں اور امام (ع) کی باتوں پر غور کریں کہ کیا فرمانا چاہتے ہیں؟ جب اس کی بیوی کا یہ جزبہ دیکھا تو وہ آنحضرت (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ کچھ دیر کے بعد نورانی چہرہ کیساتھ خوشی خوشی واپس لوٹا اور حکم دیا کہ ان کا خیمہ بھہی امام حسین (ع) کے خیمے کے نزدیک نصب کرے ۔ اور اپنی وفادار بیوی سے کہا : میں تجھے طلاق دیتا ہوں تو اپنے والدین کے پاس چلی جائیں ۔ میں نہیں چاہتا میری وجہ سے تجھے کوئی تکلیف پہنچے۔ میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ امام حسین (ع) کیساتھ ساتھ رہوں تاکہ اپنے کو ان پر قربان کروں۔ اور اپنی جان کو بلاوں کا حوالہ کروں ۔ پھر بیوی سے مربوط جو بھی مال دولت ساتھ لیکر آئے تھے ان کو دیدیا ۔ اور ان کو اپنےچچازاد بھائیوں کے ساتھ روانہ کیا ۔

وہ مؤمنہ بیوی اپنی جگہ سے اٹھی اور روتی ہوئی زہیر کو الوداع کیا ۔ اور کہا : خدا آپ کا حامی وناصر ہو اور ہر خیر اور نیکہی آپ کو نصیب کرے ، لیکن میری ایک خواہش ہے کہ قیامت کے دن جدّحسین(ص) کے سامنے میری شفاعت کرنا ۔

تذکرۃ الخواص میں سبط جوزی نے لکھاہے کہ زہیر بن قین کی شہادت کے بعد ان کی بیوی نے زہیر کے غلام سے کہا :جاؤ اپنے آقا کیلئے کفن پہناؤ ۔جب وہ غلام کفن لیکر وہاں پہنچا تو امام حسین (ع) کو برہنہ دیکھ کر کہا: میں اپنے آقا کو کفن پہناؤں اور فرزند رسول (ص) کو عریان رکھوں ؟! نہیں خدا کی قسم میں امام حسین (ع) کو کفن پہنادوں گا۔ -١-

---------

١ ۔ بحار ج۴۴،ص۳۷۱،لہوف،ص۷۱۔

 

وہب بن عبداللہ کی ماں وہب بن عبداللہ اپنی ماں اور بیوی کے ساتھ امام حسین (ع) کے لشکر میں شامل تھا ۔ اس کی ماں اسے شھادت کی ترغیب دلاتی تھی کہ میرے بیٹے اٹھو، اور فرزند رسول (ع) کی مدد کرو ۔ وہب کہتے ہیں : اس معاملے میں میں کوتاہی نہیں کروں گا ، آپ بےفکر رہیں ۔ جب میدان جنگ میں جاکر رجز پڑھا اور دشمنوں پر حملہ کرنے کے بعد ما ں اور بیوی کے پاس واپس آیا اور کہا: اماں جان! کیا آپ راضی ہوگئیں؟وہ شیر دل خاتون کہنے لگی : اس وقت میں تم سے راضی ہونگی کہ تم امام حسین ؑ کی راہ میں شہید ہوجائے۔ اس کی بیوی نے اس کے دامن پکڑکے کہا: مجھے اپنے غم میں داغدار چھوڑ کر نہ جائیں ۔

ناسخ التواریخ نے لکھا ہے کہ شب زفاف کو ۱۷ دن ہی گزر ے تھے کہ کربلا میں پہنچے ۔ شوہر کی جدائی اس خاتون کیلئے بہت سخت تھی ،کہا اے وہب مجھے یقین ہوگیا کہ اب تو فرزند رسول (ص) کی راہ میں شہید ہونگے اور بہشت میں حورالعین کے ساتھ بغل گیر ہونگے اور مجھے فراموش کروگے ۔ میں ضروری سمجھتی ہوں کہ فرزند رسول (ع) کے پاس جا کر تجھ سے عہد لے لوں کہ قیامت کے دن مجھے فراموش نہیں کروگے۔دونوں امام حسین (ع)کی خدمت میں پہنچے۔ وہب کی بیوی نے عرض کیا : یابن رسول اللہ(ع)! میری دو حاجت ہے :

١. جب میرا شوہر شھید ہونگے تو میں اکیلی رہ جاونگی ،مجھے اہلبیت اطہار(ع) کے ساتھ رکھیں گے ۔

٢. وہب آپ کو گواہ رکھنا چاہتا ہے کہ قیامت کے دن وہ مجھے فراموش نہیں کریگا ۔

یہ سن کر امام حسین (ع) نے آنسو بہاتے ہوئے فرمایا : تیری حاجتیں پوری ہونگی اور اسے اطمینان دلایا-١-

ماں نے کہا :اے بیٹا ان کی باتوں پر تو کان نہ دھریں اور پلٹ جا ،فرزند رسول (ص) پر اپنی جان کا نذرانہ دو۔تاکہ قیامت کے دن خدا کے سامنے تیری شفاعت کرے ۔

وہب میدان میں گیا اور پے درپے حرم رسول خدا (ص) کی دفاع میں جنگ کرتے رہے، یہاں تک کہ ۱۹گھوڑا سوار اور ۱۲ نفر پیدل آنے والوں کو جہنم واصل کیا ۔ دشمنوں نے ان کی دونوں ہاتھوں کو قطع کیا ۔ آپ کی ماں نے خیمہ کا ستون ہاتھ میں لیکر میدان کی طرف نکلی اور اپنے بیٹے سے مخاطب ہوکر کہا: اے میرے بیٹے میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ۔حرم رسول خدا(ص)کی دفاع میں جہاد کرو ۔ بیٹے نے چاہا کہ اپنی ماں کو واپس کرے ،ماں نے بیٹے کی دامن پکڑ کے کہا:جب تک تو شہید نہ ہوگا ،میں کبھی واپس نہیں جاوں گی۔ اور جب وہب شھید ہوئے تو اس کی تلوار اٹھا کر میدان کی طرف روانہ ہوگئی ۔

-٢-اس وقت امام حسین (ع) نے فرمایا: یا ام وھب اجلسی فقد وضع اللہ الجھاد عن النساء انک وابنک مع جدی محمد (ص) فی الجنۃ

اے وہب کی ما ں !بیٹھ جائیں کہ خدا تعالی نے عورتوں پر سے جہاد کی تکلیف اٹھالیا ہے ۔بیشک تو اور تیرے بیٹے دونوں بہشت میں میرے جد امجد (ص) کے ساتھ ہونگے۔ خدا تمھیں اہلبیت رسول (ص) کی طرف سے جزای خیر دے ،خیمے میں واپس جائیں اور بیبیوں کے ساتھ رہیں۔ خدا تجھ پر رحمت کرے ۔امام کے حکم پر وہ کنیز خدا خیمہ میں واپس آگئی اور دعا کی : خدایا مجھے نا امید نہ کرنا ۔ امام حسین (ع) نے فرمایا:خدا وند تمھیں ناامید نہیں کریگا۔ -٣-

وہب جب جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے تو ان کی بیوی سرانے آکر اس کے چہرے سے خون کو صاف کیا ۔ شمر ملعون نے اپنا غلام بھیجا جس نے اس خاتون کے سر پر وارد کیا اور وہ بھی شہید ہوگئی ۔ اور وہ پہلی خاتون تھی جو امام حسین ؑ کے لشکر میں سے شہید ہوگئی۔ -٤-

امام صادق (ع) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ وہب بن عبداللہ نصرانی تھا جو امام حسین (ع) کے دست مبارک پر مسلمان ہوگئے۔

وہب بن عبداللہ کی شجاعت کو دیکھ کر عمر سعد ملعون نے کہا: ما اشدّ صولتک ؟ یعنی تو کتنا شجاع ہے؟ دستور دیا کہ اس کا سر الگ کرکے لشکر گاہ حسینی کی طرف پھینک دیا جائے ۔ اس کی شیر دل ماں نے اپنے بیٹے کے سر کو دوبارہ لشکر عمرابن سعد کی طرف پھینکا ،جس سے ایک اور دشمن واصل جہنم ہوگیا۔

---------

١ ۔ فرسان الھیجاء ،ج۲ ، ص۱۳۷

٢ ۔ امالی الصدوق ،ص ۱۶۱

٣ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۷۔

٤ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۶۔

 

پہلی فصل : زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

 

ہمسر حبیب ابن مظاہر جب امام حسین (ع) کربلا میں وارد ہوئے تو ایک خط محمد حنفیہ کو اور ایک خط اہل کوفہ کو لکھا ۔ اور خصوصی طور پر اپنے بچپن کے دوست حبیب ابن مظاہر کو یوں لکھا:

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حسین ابن علی (ع) کی طرف سے فقیہ انسان، حبیب بن مظاہرکے نام ۔

ہم کربلا میں وارد ہوچکے ہیں اور تو میری رسول اللہ (ص) سے قرابت کو بھی خوب جانتے ہیں ۔ اگر ہماری مدد کرنا چاہتے ہو تو ہمارے پاس آئیں۔

حبیب عبیداللہ کی خوف سے قبیلے میں چھپےہوئے تھے ۔جب خط آیا تو قبیلے والے بھی اس سے آگاہ ہوئے، سب ارد گرد جمع ہوگئے۔ اور پوچھنے لگے کہ کیا حسین (ع) کی مدد کیلئے جائیں گے؟ !

انہوں نے کہا: میں عمر رسیدہ انسان ہوں میں جنگ کیا کروں گا؟ جب قبیلہ والوں کو آپ کی بات پر یقین ہوگیا کہ نہیں جائیں گے ،آپ کے اردگرد سے متفرق ہوگئے ۔

تو آپ کی باوفا بیوی نے کہا : اے حبیب ! فرزند رسول (ع)تجھے اپنی مدد کیلئے بلائے اور تو ان کی مدد کرنے سے انکار کرے ، کل قیامت کے دن رسول اللہ (ص) کو یا جواب دوگے؟! ۔

حبیب چونکہ اپنی بیوی سے بھی تقیہ کررہے تھے،کہا: اگر میں کربلا جاؤں تو عبید اللہ ابن زیاد اور اس کےساتھی میرے گھر کو خراب اور مال جائیداد کو غارت اور تجھے اسیربنائیں گے ۔

وہ شیر دل خاتون کہنے لگیں:حبیب! تو فرزند رسول (ص) کی مدد کیلئے جائیں میری ،گھر اور جائیداد کی فکر نہ کریں ۔خدا کا خوف کریں ۔

حبیب نے کہا : اے خاتون !کیا نہیں دیکھ رہی کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں،تلوار اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اس مومنہ کی غم وغصہ کی انتہا نہ رہی اورروتی ہوئی اپنی چادر اتاردی اور حبیب کے سر پر اوڑ دی اورکہنے لگی: اگر تو نہیں جاتے تو عورتوں کی طرح گھر میں رہو! اور دلسوز انداز میں فریاد کی : یا ابا عبداللہ ؛ کاش میں مرد ہوتی اور تیرے رکاب میں جہاد کرتی!

جب حبیب نے اپنی بیوی کا خلوص دیکھا، اور یقین ہوگیا کہ یہ دل سے کہہ رہی ہے ؛تو فرمایا: اے ہمسر! تو خاموش ہوجاؤ میں تیری آنکھوں کیلئے ٹھنڈک بنوں گا ۔ اور تیرا ارمان نکالوں گا ۔

اور میں حسین(ع) کی نصرت میں اپنی اس سفید دا ڑھی کو اپنے خون سے رنگین کروں گا۔ -١-

 

کربلا میں ۹ شہیدوں کی مائیں کربلا میں ۹شہید ایسے ہیں کہ جن کی مائیں خیمہ گاہ میں ان پر بین کر رہی تھیں:

١. عبداللہ بن الحسین (ع) جن کی ماں حضرت رباب تھیں ۔

٢. عون بن عبداللہ بن جعفر جن کی ماں حضرت زینب تھیں۔

٣. قاسم بن الحسن(ع) جن کی ماں ر ملہ تھیں۔

٤. عبداللہ بن الحسن (ع) جن کی ماں شلیل کی بیٹی بجلیہ تھیں ۔

٥. عبداللہ بن مسلم جن کی ماں امیرالمومنین (ع) کی بیٹی رقیہ تھیں ۔

٦. محمد بن ابی سعید بن عقیل کہ جن کی ماں اپنے بیٹے کو شہید ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔

٧. عمر بن جنادہ کی ماں اسے جہاد کیلئے تیار کرکے میدان جنگ میں اسے لڑتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔

٨. عبداللہ کلبی کہ جن کی ماں اور بیوی دونوں اسے جہاد کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں ۔

٩. علی ابن الحسین (ع) کی ما ں لیلا ان کیلئے خیمے میں نگاہ کر رہی تھیں ۔ -٢-

 

حضرت ام البنین(ع) جناب فاطمہ حزام کلابیہ کی بیٹی تھیں ۔ جو بعد میں ام البنین کے نام سے معروف ہوگئیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ حضرت امیر المومنین (ع) نے اپنے بھائی عقیل سے فرمایا : تو عرب کےنسب شناس ہو؛ میں اپنے بیٹے حسین کی حفاظت کیلئے ایک اپنا نائب چاہتا ہوں ،جو حسین کی مدد کرے ۔ بھائی عقیل ! کسی بہادر گھرانے کی کوئی خاتون تلاش کرو۔ ام البنین(ع) کا نام پیش کیا گیا جو شرافت و پاکدامنی اور زہد و تقوی کے اعتبار سے مشہور تھیں ۔ امیرا لمومنین(ع) نے منظور فرمایا ۔ عقد ہوا ، ام البنین علی (ع) کے گھر تشریف لائیں ، حسن وحسین (ع) تعظیم کیلئے کھڑے ہوگئے ۔ ام البنین (س) نے ہاتھ جوڑ کر کہا : شہزادو! میں ماں بن کے نہیں ،بلکہ میں تو کنیز بن کر آئی ہوں ۔

جناب ام البنین (س)کا بڑا احسان ہے قیام حق پر ۔ چار بیٹے عباس،عبداللہ ، جعفر اورعثمان تھے -٤-٥-٦- ۔ ایک پوتا تھا ،پانچ قربانیاں ایک گھر سے ۔مروان بن حکم کہتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی ۔ میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہے ۔ میں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو بین کے الفاظ یہ تھے۔ عباس !اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسین (ع) نہ مارے جاتے-٧-۔

یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو حسین (ع) کے ساتھ کربلا بھیجے اور اپنے ساتھ مدینے میں ایک بھی نہیں رکھے۔اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہرا(س) کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔

:-٨-فلما نعی الیھا الاربعۃ ، قالت : قد قطعت نیاط قلبی ۔ اولادی ومن تحت الخضراء کلھم فداء لابی عبداللہ الحسین(ع) ۔ اخبرنی عن الحسین(ع)۔ جب انہیں اپنے ایک بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو فرمایا:اس خبر سے کیا مراد ہے؟ مجھے اباعبداللہ (ع) کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جب بشیر نے اسے اپنے چار بیٹوں کی شہادت کی خبردے دی تو کہا : میرا دل پھٹ گیا ، میرے تمام بیٹے اور جو کچھ آسمان کے نیچے موجود ہیں سب اباعبداللہ الحسین (ع) پر قربان ہوں ،مجھے اباعبد اللہ الحسین(ع) کے بارے میں بتائیں۔

---------

١ ۔ سحاب رحمت ، ص۴۳۰۔

٢ ۔ ہمان ص۴۸۵۔

٤ ۔ العمدة ، ص ٢٨٧، فصل ۳۵‏۔

٥ ۔ الاحتجاج ، ج١ ، ص ٦١ ،احتجاج النبي ص يوم الغدير على الخلق ۔

٦ ۔ كشف‏الغمة ۔ج١، ص ٩٤۔

٧۔ علامہ رشید ترابی ؛ روایات عزا، ص ۱۰۵۔

٨ ۔ خاتون دوسرا، مرحوم فیض الاسلام ، ص۸۹۔

 

 

دوسری فصل

کربلا میں حضرت زینب کبری (ع)کا کردار

 

تاریخ ولادت آپ کی تاریخ ولادت جو شیعوں کے درمیان مشہورہے پانچ جمادی الاول چھ ہجری ہے ۔

 

نام گزاری جس طرح امام حسین (ع) کا نام خدا کی طرف سے رکھا گیا اسی طرح آپ کا نام بھی خدا کی طرف سے معین ہوا ۔ جب آپ پیدا ہوئیں ؛فاطمہ (س)نے علی (ع) سے کہا : سمّ ھذہ المولودۃ ۔ فقال ما کنت لاسبق رسول اللہ (کان فی سفر) ۔ ولما جاء النبی(ص) سالہ علی(ع) فقال ماکنت لاسبق ربّی اللہ تعالی ۔ فھبط جبرئیل یقرء علی النبی السلام من اللہ الجلیل وقال لہ سمّ ہذہ المولودۃ زینب ۔ ثمّ اخبرہ بما یجری علیھا من المصائب فبکی النبی وقال من بکی علی مصائب ھذہ البنت کان کمن بکی علی اخویھا الحسن والحسین -١-

یعنی فاطمہ (س) نے علی سے کہا : اس نومولود کا نام انتخاب کریں ۔ علی (ع) نے کہا: میں نے کسی بھی کام میں رسول خدا (ص) پر سبقت نہیں کی ہے ۔ کہ آپ سفر پر تھے ۔ جب آپ تشریف لائے تو علی (ع) نے سوال کیا ۔ آپ (ص) نے فرمایا : میں نے بھی کسی کام کو خدا کے حکم کے بغیر انجام نہیں دیا۔ اس وقت جبرئیل امین نازل ہوئے اور رسول اللہ(ص)کو خدا کا سلام پہنچایا اور فرمایا: اس بچی کا نام زینب رکھا جائے ۔پھررسول خدا (ص) کو اس نومولود پر بیتنے والی ساری مصیبتیں سنائی ؛ تو رسول خدا (ص) آنسو بہانے لگے ۔ پھر فرمایا : جوبھی اس بچی کی مصیبتوں پر آنسو بہائے گا ایسا ہے کہ ان کے بھائی حسن اور حسین (ع)پر آنسو بہایا ہو۔

 

اسم گرامی زینب ہے ۔ اصل میں زین اب یعنی باپ کی زینت ۔ کثرت استعمال کی وجہ سے الف گر گیا ہے ۔اسی لئے بعض نے کہا :ام ابیھا کے مقابلے میں زین ابیھا رکھا گیا ۔

 

کنیت : ام المصائب ہے ۔

 

مشہور القاب شریکۃ الحسین ،عالمۃ غیر معلمہ کہ امام سجاد (ع)نے فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ ، عقیلہ قریش ، عقیلۃ الوحی ، نائبۃ الزہراء یعنی کربلا میں پنجتن پاک کے نائب موجود تھے جو بدرجہ شہادت فائز ہوئے :

پیامبر اسلام (ص) کا جانشین علی اکبر(ع)تھے ۔

امیر المؤمنین (ع)کا جانشین ؛علمدار عباس(ع) تھے ۔

حسن مجتبیٰ (ع)کا جانشین ؛ قاسم بن الحسن(ع) تھے۔فاطمۃ الزہرا (س)کا جانشین آپ کی بیٹی زینب کبریٰ(س)تھیں ۔

اور اس جانشینی کو اس قدر احسن طریقے سے انجام دیا کہ کربلا میں بھائی کے آخری وداع کے موقع پر اپنی ما ں کی طرف سے حلقوم اور گلے کا بوسہ بھی دیا-٢-۔

 

آپ کا حسب ونسب ویسے تو آپ کا نسب بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن فن مقالہ یا کتاب نویسی کی رعایت کرتے ہوئے مختصر اً ذکر کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے :

آپ کا دادا:شیخ البطحیٰ مؤمن قریش ، اہل مکہ کا سردار حضرت ابوطالب (ع) تھے۔

آپ کا نانا:سید المرسلین حضرت محمد مصطفی (ص) ہیں ۔ چنانچہ ینابیع المودۃ میں عمر فاروق سے روایت ہے کہ: قَالَ عُمَرُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ (ص) يَقُولُ كُلُّ حَسَبٍ وَ نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا خَلَا حَسَبِي وَ نَسَبِي وَ كُلُّ بَنِي أُنْثَى عَصَبَتُهُمْ لِأَبِيهِمْ مَا خَلَا بَنِي فَاطِمَةَ فَإِنِّي أَنَا أَبُوهُمْ وَ أَنَا عَصَبَتُهُمْ-٣-۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا : قیامت کے دن ساری نسبتیں ختم ہوجائیں گی سوائے میری اور میری اولادوں کی ۔اور ہر بچے کی نسبت اس کی ماں کی طرف نہیں بلکہ اس کے باپ کی طرف دی جائے گی لیکن میری بیٹی فاطمہ الزہرا (س)کی اولاد کی نسبت میری طرف دی جائے گی۔

معاشر الناس هو ناصر دين الله و المجادل عن رسول الله و هو التقي النقي الهادي المهدي نبيكم خير نبي و وصيكم خير وصي و بنوه خير الأوصياء معاشر الناس ذرية كل نبي من صلبه و ذريتي من صلب علي‏ -٤- اے لوگو! وہ (علی(ع))دین خدا کا مدد گار ، رسول اللہ(ص) کامحافظ ، اور وہ متقی ،پرہیزگار،ہدایت کرنے والا ہے اور تمھارے نبی سب نبیوں سے اعلیٰ ، ان کا جانشین بہترین جانشین ، اور ان کی اولاد بہترین جانشین ہیں ۔ اے لوگو! ہر نبی کی ذریت کا سلسلہ ان کے اپنے صلب سے جاری ہوتا ہے ، لیکن میری ذریت کا سلسلہ علی (ع) کےصلب سے جاری ہوا ہے ۔

‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ كُنْتُ أَنَا وَ أَبِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ جَالِسَيْنِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص إِذْ دَخَلَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع فَسَلَّمَ فَرَدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ص السَّلَامَ وَ بَشِرَ بِهِ وَ قَامَ إِلَيْهِ وَ اعْتَنَقَهُ وَ قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَ أَجْلَسَهُ عَنْ يَمِينِهِ فَقَالَ الْعَبَّاسُ أَ تُحِبُّ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ يَا عَمَّ رَسُولِ اللَّهِ وَ اللَّهِ اللَّهُ أَشَدُّ حُبّاً لَهُ مِنِّي إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ ذُرِّيَّةَ كُلِّ نَبِيٍّ فِي صُلْبِهِ وَ جَعَلَ ذُرِّيَّتِي فِي صُلْبِ هَذَا-٥-۔ ‏

عبد اللہ بن عباس روایت کرتا ہے کہ میں اور میرے بابا عباس بن عبدالمطلب (ره) رسول خدا (ص) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں علی ابن ابیطالب (ع) تشریف لائے اور سلام کی ، رسول خد(ص) نےبھی سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کیا اور گلے ملائے اور ان کے دونوں آنکھوں کے درمیان(پیشانی پر) بوسہ دیا اور اسے اپنے دائیں طرف بٹھادئے ؛ عباس نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول (ص) !کیا آپ ان کو دوست رکھتے ہیں ؟رسول خدا (ص) نے فرمایا: اے رسول خدا کے چچا جان ! خدا کی قسم انہیں مجھ سے بڑھ کر خدا دوست رکھتا ہے ؛ بیشک خدا نے ہر نبی کی اولاد کو ان کے اپنے صلب پاک میں رکھا ہے لیکن میری اولاد کو ان کے صلب میں رکھا ہے ۔

---------

١ ۔ عباس جیانی دشتی ؛نائبۃ الزہرا، ص۱۷۔

٢ ۔ سید نورالدین ، جزائری؛ خصائص زینبیہ ، ۲۵۔

٣ ۔ العمدة ،ص ٢٨٧، فصل ۳۵۔

٤ ۔ الاحتجاج ، ج١ ،ص ٦١ ،احتجاج النبي ص يوم الغدير على الخلق۔

٥ ۔ كشف‏الغمة ۔ج١، ص ٩٤۔

 

 

امام موسی کاظم (ع)اور ہارون کا مناظرہ امام کاظم (ع) فرماتے ہیں کہ ہارون نے مجھ سے کہا:آپ نے تمام لوگوں کو خواہ عالم ہو یا جاہل سب کو بتایا ہوا ہے کہ آپ کی نسبت رسول خدا (ص) کی طرف دے دے تاکہ سب کہہ دے : اے رسول خدا کے بیٹے۔جبکہ آپ لوگ علی ابنابیطالب (ع)کے بیٹے ہیں ۔ اور ہر اولاد کو اپنے باپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے ۔اور پیامبر اسلام (ص) آپ کے نانا ہیں ۔

میں نے ہارون الرشید سے کہا: اگر پیامبر گرامی دوبارہ زندہ ہوجائے اور تجھ سے تیری بیٹی کا رشتہ مانگے تو کیا تو اپنی بیٹی کا عقد رسول اسلام (ص) کے ساتھ کرو گے یا نہیں؟

ہارون : سبحان اللہ ! کیوں نہیں ۔ بلکہ اس بارے میں سارے عرب اور عجم پر فخر کروں گا ۔

امام : میں نے ہارون سے کہا: لیکن پیامبر اسلام (ص) کبھی میری بیٹی کا رشتہ نہیں مانگیں گے ۔

ہارون : کیوں ؟

امام : کیونکہ انہوں نے مجھے جنا ہے اور میں ان کی اولاد میں سے ہوں۔

ہارون : احسنت یا موسیٰ ابن جعفر ! لیکن اس کی دلیل آپ قرآن سے پیش کریں ۔

امام نے آیۃ مباہلہ کی تلاوت فرمائی: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَ أَبْنَاءَكمُ‏ْ وَ نِسَاءَنَا وَ نِسَاءَكُمْ وَ أَنفُسَنَا وَ أَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتهَِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلىَ الْكَذِبِين -١- ۔

آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہدیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اورتم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی خواتین کو بلاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کوبلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

اس آیہ شریفہ میں صراحت کے ساتھ امام حسن اور امام حسین کو پیامبر (ص) نے اپنا بیٹا کہہ دیا ہے ۔ اس آیۃ کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ َ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَ يَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَ نُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَ مِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَنَ وَ أَيُّوبَ وَ يُوسُفَ وَ مُوسىَ‏ وَ هَرُونَ وَ كَذَالِكَ نجَْزِى الْمُحْسِنِينَ وَ زَكَرِيَّا وَ يحَْيىَ‏ وَ عِيسىَ‏ وَ إِلْيَاسَ كلُ‏ٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ-٢-۔

اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے، سب کی رہنمائی بھی کی ۔ اور اس سے قبل ہم نے نوح کی رہنمائی کی تھی ۔اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون (ع)قرار دئے ۔ اور نیک لوگوں کو ہم اسی طرح جزا دیتے ہیں۔اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس، سب صالحین میں سے تھے ۔

اے ہارون ! یہ بتا کہ عیسی ٰ کا باپ کون تھا؟

ہارون : ان کا کوئی باپ نہیں تھا ۔

امام: پس عیسی (ع) ماں کی طرف سے خدا کے نبیوں میں شمار ہوتے ہیں۔اسی طرح ہمارا شماربھی نبی کی بیٹی فاطمہ زہرا (س) کی طرف سے نبی کی اولاد شمار ہوتے ہیں ۔

 

پدر گرامی سیدالوصیین امیر المؤمنین علی ابن ابیطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم ابن عبد مناف ہیں۔ جو ۱۳ رجب کو خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے اوربروز جمعہ ۲۱ رمضان ۴۰ ہجری کومسجد کوفہ میں شہید کئے گئے ۔

 

میسر نگردد بہ کس این سعادت

بہ کعبہ ولادت بہ مسجد سعادت

 

والدہ گرامی ام الائمہ سیدۃ النساء العالمین فاطمۃ الزہرا(س) آپ کی ماں ہیں ۔

اور آپ کی ولادت بعثت کے دوسرے سال ۲۰ جمادی الثانی کو ہوئی ۔

 

حضرت زینب (س) کی شخصیت اور عظمت ۱۔ آپ کا نام وحی کے ذریعے معین ہوا۔

۲۔ آپ رسول اللہ (ص)کی اولاد میں سے ہے ۔

۳۔ ان کی مصیبت میں رونا امام حسین (ع) پر رونے کے برابر ہے ۔

۴۔ جب بھی امام حسین (ع) کی خدمت میں جاتی تو آپ ان کی تعظیم کیلئے کھڑے ہوتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔

علامہ محمد کاظم قزوینی لکھتے ہیں کہ زینب (ع) میں تمام شرافت و افتخار و عظمت کے اسباب پائے جاتے ہیں۔اگر قانون وراثت کے اعتبار سے دیکھا جائےتو آپ کی ماں کےسوا دنیا کی کوئی بھی خاتون کیلئے وہ شرافت حاصل نہیں۔ نانا کو دیکھیں تو سید المرسلین ، با با کو دیکھیں تو سید الوصیین، بھائیوں کو دیکھے تو سیدا شباب اہل الجنۃ ، اور ماں کو دیکھیں تو سیدۃ نساء العالمین۔

شاعر نے یوں آپ کاحسب و نسب بیان کیا ہے :

ھی زینب بنت النبی المؤتمن

ھی زینب ام المصائب والمحن

ھی بنت حیدر ۃ الوصی و فاطم

وھی الشقیقۃ للحسین والحسن

 

مشکلات اور سختیوں کے مقابلے میں صبر واستقامت اور خونخوار دشمنوں کےمقابلے میں شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کرنا آپ کی عظیم کرامتوں میں سے ہے ۔ اخلاق اور کردار کے اعتبار سے عطوفت اور مہربانی کا پیکر ،عصمت اور پاکدامنی کے اعتبار سے حیا و عفت کی مالکہ ہونا آپ کی شرافت اور عظمت کیلئے کافی ہے!

ذرا سوچیں کہ اگر یہ ساری صفات کسی خاتون میں جمع ہوجائیں تو اس کے بارے میں آپ کیا فیصلہ کریں گے؟!

چنانچہ زینب کبری (ع) نہضت کربلا میں بہت بڑی مسئولیت اپنے ذمے لی ہوئی تھی۔اپنی اس مسئولیت سے عہدہ برآ ہونے کیلئے بچپن ہی سے تلاش کر رہی تھی ۔ معصوم ہی کے دامن میں پرورش اور تربیت حاصل کر رہی تھی ۔

---------

١ ۔ آلعمران ۶۱۔

٢ ۔ انعام ۸۴،۸۵

 

علم ومعرفت زینب کبری ،رسول خدا (ص)کے شہر علم میں پیدا ہوئیں اور دروازہ علم کے دامن میں پرورش پائی اورحضرت زہرا(س) کے پاک سینہ سے تغذیہ حاصل کیں۔ اور ایک لمبی عمر دوامام بھائیوں کے ساتھ گذاریں ۔ اور انھوں نے آپ کو خوب تعلیم دی ۔ اس طرح زینب کبری آل محمد (ص) کے علوم اور فضائل سے مالامال ہوئیں ۔ یہی وجہ تھی سخت دشمنوں جیسے یزید بن معاویہ کو بھی اعتراف کرنا پڑا ۔ اور سید سجاد (ع)نے آپ کی شان میں فرمایا : انت بحمد اللہ عالمۃ غیر معلمۃ و فہمۃ غیر مفہمۃ ۔

 

زہد وعبادت عبادت کے لحاظ سے اس قدر خدا کے ہاں عظمت والی تھیں کہ سانحہ کربلا کے بعد اسیری کی حالت میں جسمانی اور روحی طور پرسخت ترین شرایط میں بھی نماز شب ترک نہ ہوئی۔ جبکہ عام لوگوں کیلئے معمولی مصیبت یا حادثہ دیکھنے پر زندگی کانظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اور آپ کی زہد کی انتہا یہ تھی کہ اپنا کھانا بھی یتیموں کو دیتی اور خود بھوکی رہتی ؛جس کی وجہ سے بدن میں اتنا ضعف پیدا ہوگیا کہ نماز شب اٹھ کر پڑھنے سے عاجز آگئی ۔

زہد کا معنی یہی ہے کہ خدا کے خاطردنیا کی لذتوں کو ترک کرے ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ز،ھ،د یعنی زینت، ہواوہوس اور دنیا کا ترک کرنے کا نام زہد ہے ۔زہد کا مقام قناعت سے بھی بالا تر ہے ۔اور زہد کا بہت بڑا فائدہ ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے : وَ مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَثْبَتَ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فِي قَلْبِهِ وَ أَنْطَقَ بِهَا لِسَانَهُ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَ الدُّنْيَا دَاءَهَا وَ دَوَاءَهَا وَ أَخْرَجَهُ مِنَ الدُّنْيَا سَالِماً إِلَى دَارِ السَّلَامِ-١-۔

یعنی جو بھی ارادہ کرے کہ خدا اسے علم دے بغیر سیکھے ؛ اور ہدایت دے بغیر کسی ہدایت کرنے والے کے؛ تو اسے چاہئے کہ وہ دنیا میں زہد کو اپنا پیشہ قرار دے ۔اور جو بھی دنیا میں زہد اختیار کرے گا ؛ خدا تعالی اس کے دل میں حکمت ڈال دے گا ۔اور اس حکمت کے ذریعے اس کی زبان کھول دے گا ،اور دنیا کی بیماریوں اور اس کی دواؤں کو دکھائے گا ۔ اور اس دنیا سے اسے صحیح و سالم وادی سلام کی طرف اٹھائے گا۔

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدٍ خَيْراً زَهَّدَهُ فِي الدُّنْيَا وَ فَقَّهَهُ فِي الدِّينِ وَ بَصَّرَهُ عُيُوبَهَا وَ مَنْ أُوتِيَهُنَّ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَة-٢- ۔

یعنی جب خدا تعالی کسی کو دنیا و آخر ت کی نیکی دینا چاہتا ہے تو اسے دنیا میں زاہد اور دین میں فقیہ بنا دیتا ہے اور اپنے عیوب کو اسے دکھا دیتا ہے ۔ اور جس کو بھی یہ نصیب ہو جائے، اسے دنیا و آخرت کی خیر و خوبی عطا ہوئی ہے ۔

حدیث قدسی میں مذکور ہے :أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي بَعْضِ كُتُبِهِ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا حَيٌّ لَا أَمُوتُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ حَتَّى أَجْعَلَكَ حَيّاً لَا تَمُوتُ يَا ابْنَ آدَمَ أَنَا أَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ أَطِعْنِي فِيمَا أَمَرْتُكَ أَجْعَلْكَ تَقُولُ لِلشَّيْ‏ءِ كُنْ فَيَكُونُ -٣-

اے فرزند آدم !میں زندہ ہوں جس کیلئے موت نہیں ، جن چیزوں کا میں تجھے حکم دوں گا ان میں تو میری اطاعت کرو تاکہ میں تجھے بھی اپنی طرح ایسی زندگی دوں کہ تو نہ مرے ، اے فرزند آدم جو کچھ کہتا ہوں ہوجاؤ تو ہوجاتا ہے ۔ اگر تو چاہے کہ تو جو کچھ کہے ہوجائے ؛ تو میں جوکچھ تجھے حکم دونگا اس پر عمل کرو ۔

زینب کبری (س) بھی اپنی عبادت اور بندہ گی ،زہد وتقوی اور اطاعت خدا کی وجہ سے ان تمام روایتوں کا مصدا ق اتم اور ولایت تکوینی کی مالکہ تھیں۔ چنانچہ روایت میں آئی ہے کہ دربار شام میں خطبہ دینے سے پہلے بہت شور وغل تھا، انھیں خاموش کرنا ہر کسی کی بس کی بات نہ تھی ۔ لیکن جب آپ نے حکم دیا کہ خاموش ہوجاؤ؛ تو لوگوں کے سینے میں سانسیں رہ گئیں۔ اور بات کرنے کی جرات نہ کرسکے۔

معاشرے کی اصلاح کیلئےامام حسین (ع) نے ایک انوکھا اور نیا باب کھولا وہ یہ تھا کہ اپنے اس قیام اور نہضت کو دو مرحلے میں تقسیم کیا :

 

حدیث عشق دوباب است کربلا تاشام

یکی حسین رقم کردس و دیگری زینب(س)

 

پہلا مرحلہ خون، جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا ۔

دوسرا مرحلہ پیغام رسانی ، بیدار گری، خاطرات اور یادوں کو زندہ رکھنے کا مرحلہ ۔

پہلے مرحلے کیلئے جان نثاراور با وفا اصحاب کو انتخاب کیا ۔ اس طرح یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی ۔ جنہوں نے جس انداز میں اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھایا؛ تاریخ انسانیت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ سب بہ درجہ شہادت فائز ہوگئے۔

اب رہا ،دوسرا مرحلہ ،کہ جسے زینب کبری (س) کی قیادت میں خواتین اور بچوں کے حوالے کئے۔ جسے خواتین نے جناب سیدہ زینب (س) کی نگرانی میں اپنے انجام تک پہنچانا تھا ۔ اس عہدے کو سنبھالنے میں حضرت زینب (س) نے بھی کوئی کسر نہیں رکھی۔جناب محسن نقوی نے یوں اس کردار کی تصویر کشی کی ہے :

 

قدم قدم پر چراغ ایسے جلاگئی ہے علی کی بیٹی

یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی

 

کہیں بھی ایوان ظلم تعمیر ہوسکے گا نہ اب جہاں میں

ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی کی بیٹی

 

نہ کوئی لشکر نہ سر پہ چادر مگر نہ جانے ہوا میں کیونکر

غرورظلم وستم کے پرزے اڑا گئی ہے علی کی بیٹی

 

پہن کے خاک شفاکا احرام سر برہنہ طواف کرکے

حسین! تیری لحد کو کعبہ بنا گئی ہے علی کی بیٹی

 

یقین نہ آئے تو کوفہ و شام کی فضاؤں سے پوچھ لینا

یزیدیت کے نقوش سارے مٹا گئی ہے علی کی بیٹی

 

ابد تلک اب نہ سر اٹھاکے چلے گا کوئی یزید زادہ

غرور شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی -٤-

 

زینب کبری (س) کو اس مسئولیت کیلیے تیار کرنا اگرچہ زینب کبری (س) روحی اعتبار سے تحمل اور برداشت کی قدرت رکھتی تھیں ،لیکن پھر بھی یہ حادثہ اتنا دردناک اور مسئولیت اتنی سنگین تھی کہ آپ جیسی شیر دل خاتون کو بھی پہلے سے آمادہ گی کرنی پڑی ۔اسی لئے بچپن ہی سے ایسے عظیم سانحے کیلئے معصوم کے آغوش میں رہ کر اپنے آپ کو تیار کر رہی تھیں۔ چنانچہ رسول اللہ (ص) کی رحلت کے ایام نزدیک تھا ، آپ اپنے جد بزرگوار کی خدمت میں گئیں اور عرض کیا : اے رسول خدا (ص) کل رات میں نے خواب دیکھا کہ تند ہوا چلی جس کی وجہ سے پوری دنیا تاریک ہوجاتی ہے ۔ یہ تند ہوا مجھے ایک طرف سے دوسری طرف پہنچا دیتی ہے ،اچانک میری نظریں ایک تناور درخت پر پڑتی ہے ،تو میں اس درخت کے تلے پناہ لیتی ہوں ۔لیکن ہوا اس قدر تیز چلتی ہے کہ وہ درخت بھی ریشہ کن ہوجاتا ہے ۔ اور زمین پر گرتا ہے تو میں ایک مضبوط شاخ سے لپٹ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں۔ لیکن ہوا اس شاخ کو بھی توڑ ڈالتی ہے ؛میں دوسری شاخ پکڑ کر پناہ لینے کی کوشش کرتی ہوں؛ اسے بھی توڑڈالتی ہے ۔سرانجام دو شاخیں ملی ہوئی ملتی ہے تو میں ان سے سہارا لیتی ہوں، لیکن ہوا ان دوشاخوں کو بھی توڑ ڈالتی ہے ، اسوقت میں نیند سے بیدار ہوجاتی ہوں۔!

زینب کبری (س) کی باتوں کو سن کر پیامبر گرامی اسلام (ص)کے آنسو جاری ہوگئے۔ پھر فرمایا: اے نور نظر! وہ درخت آپ کے جد گرامی ہیں ؛ بہت جلد تند اور تیز ہوا اسے اجل کی طرف لے جائیگی۔اور پہلی شاخ آپ کے بابا اور دوسری شاخ آپ کی ماں زہرا(س) اور دو شاخیں جو ساتھ ملی ہوئی تھیں وہ آپ کے بھائی حسن اور حسین (ع)تھے ؛جن کی سوگ میں دنیا تاریک ہوجائے گی اور آپ کالے لباس زیب تن کریں گی-٥-۔

چھ سال بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ جد گرامی (ص) کی رحلت کے سوگ میں بیٹھنی پڑی ، پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد مادر گرامی (س) کی مصیبت ، اس کے بعد امام حسن مجتبی اور امام حسین مظلومکربلا (ع) کی مصیبت برداشت کرنی پڑی ۔

جب مدینے سے مکہ ،مکہ سے عراق ،عراق سے شام کی مسافرت کی تفصیلات بیان کی تو بغیر کسی چون وچرا اور پیشنہاد کے اپنے بھائی کے ساتھ جانے کیلئے تیار ہوجاتی ہیں۔ اور اپنے بھائی کے ساتھ اس سفر پر نکلتی ہیں۔ گویا ایسا لگتا ہے کہ کئی سال پہلے اس سفر کیلئے پیشن گوئی کی گئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی عقد نکاح میں بھی اپنے بھائی کے ساتھ سفر پر جانے کو مشروط قراردیا تھا-٦-۔

اور جب قافلہ حسینی (ع)مدینے سے نکل رہا تھا ،عبداللہ بن جعفر الوداع کرنے آیا ، تو زینب کبری (س) نے کہا : اے عموزادہ عبداللہ! آپ میرے آقا ہو ۔اگر آپ اجازت نہ دے تو میں نہیں جاؤں گی ؛لیکن یہ یاد رکھنا کہ میں بھائی سے بچھڑ کر زندہ نہیں رہ سکونگی۔ تو جناب عبداللہ نے بھی اجازت دے دی اور آپ بھائی کے ساتھ سفر پر نکلی ۔

---------

١ ۔ من‏لايحضره‏الفقيه ، ج ٤، ص٤١٠ ۔

٢ ۔ الكافي ،ج٢ ، ص١٣٠ ، باب ذم الدنيا و الزهد فيها۔

٣ ۔ مستدرك‏الوسائل ،ج ١١ ، ص٢٥٨ ۔

٤ ۔ محسن نقوی؛موج ادراک،ص ۱۴۲۔

٥ ۔ ریاحین الشریعہ ،ج۳، ص۱۵۔

٦ ۔ اندیشہ سیاسی عاشورا،ش۴،سال ۱۳۸۱۔

 

 

شب عاشور امام حسین (ع) کا آپ کو مشورہ دینا قال الامام السجاد (ع):أَبِي يَقُولُ :

يَا دَهْرُ أُفٍّ لَكَ مِنْ خَلِيلٍ

كَمْ لَكَ بِالْإِشْرَاقِ وَ الْأَصِيلِ‏

 

مِنْ صَاحِبٍ وَ طَالِبٍ قَتِيلٍ

وَ الدَّهْرُ لَا يَقْنَعُ بِالْبَدِيلِ‏

 

وَ إِنَّمَا الْأَمْرُ إِلَى الْجَلِيلِ

وَ كُلُّ حَيٍّ سَالِكٌ سَبِيلِي‏

 

فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثاً حَتَّى فَهِمْتُهَا وَ عَلِمْتُ مَا أَرَادَ فَخَنَقَتْنِيَ الْعَبْرَةُ فَرَدَدْتُهَا وَ لَزِمْتُ السُّكُوتَ وَ عَلِمْتُ أَنَّ الْبَلَاءَ قَدْ نَزَلَ وَ أَمَّا عَمَّتِي فَلَمَّا سَمِعَتْ مَا سَمِعْتُ وَ هِيَ امْرَأَةٌ وَ مِنْ شَأْنِ النِّسَاءِ الرِّقَّةُ وَ الْجَزَعُ فَلَمْ تَمْلِكْ نَفْسَهَا أَنْ وَثَبَتْ تَجُرُّ ثَوْبَهَا وَ هِيَ حَاسِرَةٌ حَتَّى انْتَهَتْ إِلَيْهِ وَ قَالَتْ وَا ثُكْلَاهْ لَيْتَ الْمَوْتَ أَعْدَمَنِيَ الْحَيَاةَ الْيَوْمَ مَاتَتْ أُمِّي فَاطِمَةُ وَ أَبِي عَلِيٌّ وَ أَخِيَ الْحَسَنُ يَا خَلِيفَةَ الْمَاضِي وَ ثِمَالَ الْبَاقِي فَنَظَرَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَهْ لَا يَذْهَبَنَّ حِلْمَكِ الشَّيْطَانُ وَ تَرَقْرَقَتْ عَيْنَاهُ بِالدُّمُوعِ وَ قَالَ لَوْ تُرِكَ الْقَطَا لَيْلًا لَنَامَ فَقَالَتْ يَا وَيْلَتَاهْ أَ فَتَغْتَصِبُ نَفْسَكَ اغْتِصَاباً فَذَلِكَ أَقْرَحُ لِقَلْبِي وَ أَشَدُّ عَلَى نَفْسِي ثُمَّ لَطَمَتْ وَجْهَهَا وَ هَوَتْ إِلَى جَيْبِهَا وَ شَقَّتْهُ وَ خَرَّتْ مَغْشِيَّةً عَلَيْهَا فَقَامَ إِلَيْهَا الْحُسَيْنُ ع فَصَبَّ عَلَى وَجْهِهَا الْمَاءَ وَ قَالَ لَهَا يَا أُخْتَاهْ اتَّقِي اللَّهَ وَ تَعَزَّيْ بِعَزَاءِ اللَّهِ وَ اعْلَمِي أَنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ يَمُوتُونَ وَ أَهْلَ السَّمَاءِ لَا يَبْقَوْنَ وَ أَنَ‏ كُلَّ شَيْ‏ءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بِقُدْرَتِهِ وَ يَبْعَثُ الْخَلْقَ وَ يَعُودُونَ وَ هُوَ فَرْدٌ وَحْدَهُ وَ أَبِي خَيْرٌ مِنِّي وَ أُمِّي خَيْرٌ مِنِّي وَ أَخِي خَيْرٌ مِنِّي وَ لِي وَ لِكُلِّ مُسْلِمٍ بِرَسُولِ اللَّهِ أُسْوَة-١-۔

امام سجاد (ع) فرماتے ہیں کہ شب عاشور میری پھوپھی میری پرستاری کر رہی تھی میرے بابا اپنے خیمے میں یہ اشعار پڑھ رہے تھے : اے زمانہ تم پر تف ہو کہ تو کب تک اپنی آرزو اور تمنا رکھنے والوں کو خون میں آغشتہ کرتا رہے گا؟ و۔۔۔

یہ اشعار جب آپ نے سنی تو آپ آپے سے باہر ہوگئی اور فریاد کرنے لگی۔ اور بابا کے پاس تشریف لے گئی اور فرمایا: اے کاش مجھے موت آتی، آج کادن اس دن کی طرح ہے جس دن میری ماں ، میرے بابا ، اور بھائی حسنمجتبی (ع)اس دنیا سے رحلت فرماگئے ، اب تو آپ ہی ان بزرگوں کے وارث اور لواحقین کے پناہ گاہ ہو۔

امام حسین (ع) نے زینب کبری(س) کی طرف دیکھ کر فرمایا : میری بہن !ایسا نہ ہو کہ شیطان تیری حلم اور بردباری تجھ سے چھین لے۔

زینب کبری (س)نے کہا : بھیا! آپ کی اس بات نے میرے دل کو مزید جلادیا کہ آپ مجبور ہیں اور ناچار ہوکر شہید کئے جارہے ہیں!!اس وقت گریبان چاک کرکے اپنا سر پیٹنا شروع کیا ۔ اور بیہوش ہوگئیں ۔میرے بابا نے چہرے پر پانی چھڑکایا ؛جب ہوش آیا تو فرمایا: میری بہن ! خدا کا خوف کرو ، صبر اور حوصلے سے کام لو اور جان لو کہ سب اہل زمین و آسمان فنا ہونے والے ہیں سوائے خداتعالی کے۔ میرے بابا مجھ سے بہتر تھے اور ماں مجھ سے بہتر تھیں اور میرے بھائی اور میرے جد امجد (ص) مجھ سے افضل تھے ، جب وہ لوگ نہ رہیں تو میں کیسے رہ سکوں گا؟!

 

امام مظلوم (ع)نے یوں اپنی بہن کو نصیحت کی کہ ایسا نہ ہو تفکر اور اندیشہ آپ کی احساسات کے تحت شعاع چلی جائے۔اور جناب زینب (س) نے بھی کیا خوب اس نصیحت پر عمل کیا ۔ جہاں تدبر اور تعقل سے کام لینا تھا وہاں برد وباری اور شکیبائی سے کام لیا اور جہاں احساسات کا مظاہرہ کرنا تھا وہاں بخوبی احساسات و عواطف کا مظاہرہ کیا ۔

اس طرح امام (ع) مختلف مقامات پر اپنی بہن کو صبر واستقامت کی تلقین کرتے رہے ۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ زنیب کبری (س) نے اپنی پیغام رسانی میں کوئی کمی آنے نہ دیا ۔ جسے شاعر نے یوں بیان کیا ہے :

مہکا گئی جو اپنے چمن کی کلی کلی

جس نے حسینیت کو بچایا گلی گلی

کانٹوں بھرے سفر میں جہاں تک چلی چلی

لیکن سکھاگئی ہے جہاں کو علی علی

اسلا م بچ گیا یہ اسی کا کمال تھا

ورنہ خدا کے دین کا تعارف محال تھا -٢-

 

---------

١ ۔ ۔ بحار ج۴۵، ص ۱۔۳

٢ ۔ محسن نقوی؛ موج ادراک،ص ۱۳۲۔

 

زینب کبری (س) اپنے بھائی کے دوش بہ دوش سفر کے دوران تمام حادثات اور واقعات میں اپنے بھائی کے شانے بہ شانے رہیں۔اور امام نے بھی بہت سارے اسرارسے آگاہ کیا ۔اس مطلب کو پیام اعظمی نے یوں بیان کیا ہے :

شریک کار رسالت تھے حیدر و زہرا

شریک کار امامت ہیں زینب و عباس

 

دیا ہے دونوں نے پہرا بتول کے گھر کا

حصار خانہ عصمت ہیں زینب و عباس

 

اپنے بیٹے کی شہادت آپ کے دو بیٹے کربلا میں شہید ہوگئے -١- لیکن آپ نے بے صبری سے کام لیتے ہوئے آہ وزاری نہیں کی، تاکہ اپنے بھائی کے دکھ اور غم واندوہ میں اضافہ نہ ہو۔ لیکن علی اکبر (ع) کے سرانے جاکر خوب رولیتی ہیں تاکہ اپنے بھائی کے غم واندوہ میں کمی آجائے ۔

 

آخری تلاش امام حسین (ع) زندگی کے آخری لمحات میں دشمنوں کے تیر وتلوار کے ضربات کی وجہ سے لہو لہاں ہوچکے تھے اور مزید دشمنوں کے ساتھ جنگ کرنے کی طاقت نہیں تھی۔کربلا کی زمین پر جب آئے تو لشکر ملعون عمر سعد چاروں طرف سے مختلف قسم کے ابزار اور اسلحے سے حملہ کرنے لگے اور زینب کبری (س) یہ منظر دیکھ رہی تھیں اور اپنے بھائی کا دفاع کرنا چاہتی تھیں ۔لیکن ہزاروں کے لشکر کے سامنے اکیلی خاتون کیا دفاع کرسکتی تھیں ؟ بہرصورت اپنی اس ذمہ داری کو بھی آپ نے انجام دیتے ہوئے عمر سعد ملعون سے کہا: اے عمر سعد ! اباعبداللہ کو اشقیاء شہید کررہے ہیں اور تو دیکھ رہا ہے؟!! یہ سن کر وہ ملعون رویا اور اپنا منہوس چہرہ زینب (س) کی طرف سے موڑ لیا۔ ٢-

زینب کبریٰ(س) نے اپنے بھائی کے بدن سے جدا ہوتے ہوئے جو عہد کیا ؛ اسے شاعر اہل بیت محسن نقوی مرحوم نے یوں بیان کیا ہے:

حسین کی لاش بے کفن سے یہ کہہ کے زینب جدا ہوئی ہے

جوتیرے مقتل میں بچ گیا ہے وہ کام میری ردا کرے گی

---------

١ ۔ بحار ج۴۴، ص۳۶۶۔

٢ ۔ بحار ج۴۵، ص ۵۵۔

 

جب بھائی کی لاش پر پہنچی لہوف اور ارشاد شیخ مفید میں لکھا ہے کہ جب امام حسین (ع) گھوڑے سے کربلا کی زمین پر آئے تو زینب کبریٰ (س)بیہوش ہوگئی اور جب ہوش میں آئی توفریاد کرتی ہوئی خیمے سے نکلی اور جب اپنے بھائی کا زخموں سے چور چور اور خاک و خون میں غلطان بدن کہ جس سے فوارے کی طرح خون بہہ رہا تھا ؛ دیکھا تو اپنے آپ کو اس زخمی بدن پر گرایا اور اسے سینے سے لگا کر فریاد کرنے لگی: ونادت وا اخا ہ ! وا سیداہ! لیت السماء اطبقت علی الارض و لیت الجبال اندکت علی السھل ۔ فنادت عمر ابن سعد : ویحک یا عمر! یقتل ابوعبد اللہ وانت تنظر الیہ؟ فلم یجبھا عمر بشیء فنادت : ویحکم اما فیکم مسلم؟ فلم یجبھا احد-١-۔

ہای میرے بھیا ہای میرے سردار !! اے کاش یہ آسمان زمین پر گر چکا ہوتا اور اے کاش پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر خاکستر ہوجاتی!!پھر عمر سعد کو آواز دی : اے عمر سعد افسوس ہو تجھ پر ! اباعبد اللہ الحسین (ع) کو زبح کئے جارہے ہیں اور تو تماشائی بن کر دیکھ رہے ہو؟! اس ملعون نے کوئی جواب نہیں دیا ،پھر فریاد کی : کیا تم میں کوئی مسلمان نہیں ؟!! پھر بھی کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر ندا دی:ءانت الحسین اخی؟! ءانت ابن امی؟! ءانت نور بصری ومھجۃ قلبی؟! ءانت رجائنا ؟!ءانت کہفنا؟! ءانت عمادنا؟! ءانت ابن محمد المصطفی؟!ءانت ابن علی المرتضیٰ ؟!ءانت ابن فاطمۃ الزہرا؟! اس قدر بدن مبارک زخموں سے چور چور ہوگیا تھا کہ مظلومہ بہن کو پہچاننے میں مشکل ہورہا تھا۔ فرمایا: کیا تو میرا بھائی حسین ہے؟ کیا تو میرا ماں جایا حسین ہے؟کیا تو میری آنکھوں کا نور ہے ؟ اور دل کی ٹھنڈک ہے؟ کیا تو ہماری امید گاہ ہے؟ کیا تو ہمارا ملجاو ماوا ہو؟ اور کیا تو ہمارا تکیہ گاہ ہے ؟ کیا تو محمد مصطفی (ص) کا بیٹا ہے؟ کیا تو علی مرتضیٰ اور فاطمہ زہرا(س)کا بیٹا ہے؟!!

ان کلمات کو حزین آواز میں بیان کرنے کے بعد کوئی جواب نہیں آیا کیونکہ امام حسین (ع)شدید زخموں کی وجہ سے غش کی حالت میں تھے ، جس کی وجہ سے جواب نہیں دے پارہے تھے؛ تو زینب کبری نے پھر گریہ و زاری کرنا شروع کیا ،فریاد کرتے کرتے آپ پر بھی غشی طاری ہوگئی ۔ اور جب ہوش آیا تو فرمایا : اخی بحق جدی رسول اللہ الا ماکلمتنی وبحق ابی امیر المؤمنین الا ما خاطبنی یا حشاش مھجتی بحق امی فاطمۃ الزہرا الا ما جاوبتنی یا ضیاء عینی کلمنی یا شقیق روحی جاوبنی ۔اے میرے بھیا حسین !میرے جد گرامی رسول خدا (ص) کا واسطہ مجھے جواب دو میرے بابا امیر المؤمنین کا واسطہ میرے ساتھ کلام کرو! اے میرے جگر کے ٹکڑے! میری ماں فاطمہ زہرا(س) کاواسطہ مجھے جواب دو ، اے میرے نور نظر ! میرے ساتھ بات کرو ، اے میری جان مجھے جواب دو۔

جب یہ کلمات ادا ہوئیں تو امام (ع)کو ہوش آیا اور فرمایا: اے میری پیاری بہن ! آج جدائی اور فراق کا دن ہے ۔ یہ وہی دن ہے جس کا میرے نانا رسول خدا (ص) نے وعدہ کیا تھا کہ آج ان کے ساتھ ملاقات کرنے کا دن ہے ۔کہ آپ (ص) میرے منتظر ہیں ۔ ان کلمات کے ساتھ آپ پر غشی طاری ہوگئی تو حضرت زینب (س) نے آپ کو اپنے آغوش میں لیا اور سینے سے لگا یا ۔ اما م کچھ دیر بعد پھر ہوش میں آیااور فرمایا : بہن زینب !آپ نے میرا دل غموں سے بھر دیا ، خدا کے خاطر آپ خاموش ہوجائیں ۔

حضرت زینب (س)نے ایک چیخ ماری اور فرمایا : واویلاہ! اخی یا بن امی! کیف اسکن و اسکت و انت بھذہ الحالۃ تعالج سکرات الموت تقبض یمینا و تمد شمالا ، تقاسی منونا ً و تلاقی احوالا ً روحی لروحک الفدا و نفسی لنفسک الوقاء۔ افسوس ہو مجھ پر اے میرے بھائی! اے میرے ماں جایا حسین ! کیسے آرام کروں اور کیسے چپ رہوں ؟!جب کہ آپ اس سکرات الموت کی عالم میں ہو؛ اور اپنے خون میں لت پت ہو ؛ میری جان اور نفس آپ پر قربان ہوجائیں ۔ اتنے میں شمر ملعون آکر کہنے لگا کہ اپنے بھائی سے جدا ہوجاؤ ورنہ تازیانہ کے ذریعے جدا کروں گا ۔یہ سننا تھا زینب کبری (س) نے اپنے بھائی کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگی : یا عدو اللہ لا اتنحی عنہ ان ذبحتہ فاذبحنی معہ ۔ اے دشمن خدا ! میں اپنے بھائی سے جدا نہیں ہوجاؤں گی ۔ اگر تو انہیں ذبح کرنا چاہتے ہو تو مجھے بھی ان کے ساتھ ذبح کرو ۔ اس وقت شمر لعین نے تازیانے کے ذریعے بہن کو بھائی سے جدا کیا ۔اور دھمکی دیتے ہوئے کہا:اگر قریب آجائے تو تلوار اٹھاؤں گا ۔اب یہ ملعون امام عالی مقام کے نزدیک جاتا ہے اور سینہ اقدس پر سوار ہوجاتا ہے ۔ یہ دیکھنا تھا جناب زینب (س) نے فرمایا :

یا عدو اللہ ارفق بہ لقد کسرت صدرہ و اثقلت ظھرہ اما علمت ان ھذا الصدر تربی علی صدر رسول اللہ و علی و فاطمہ ،ویحک ھذا الذی ناغاہ جبرائیل و ھز مھدہ میکائیل باللہ علیک الاّ امھلتہ ساعۃ ً لِاَتزوّد ویحک دعنی اُقبّلہ دعنی اغمضہ دعنی انادی بناتہ یتزوّدون منہ دعنی آتیہ بابنتہ سکینۃ فانہ یحبّۃ-٢- اے دشمن خدا ! میرے بھائی پر رحم کریں تو نے ان کی پسلیوں کو توڑا ہے اور ان پر اپنا بوجھ ڈالا ہے ! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کس کا سینہ ہے ؟ یہ وہ سینہ ہے جو رسول اللہ (ص) ، علی اور فاطمہ (ع)کے سینے پر آرام کیا کرتے تھے ۔ افسوس ہو تجھ پر یہ وہ ذات ہے کہ جبرئیل جس کا ہمدم ہے اور میکائیل ان کا جھولا جھلانے والا ہے ! خدا کیلئے تھوڑی سی ان کو مہلت دے تاکہ میں ان سے خدا حافظی کرلوں اور ان سےزاد راہ لے لوں ۔ افسوس ہو تجھ پر اے لعین ! مجھے موقع دو تاکہ میں ان کا بوسہ لوں اور ان کے چہرے کی زیارت کروں ۔ اور مہلت دو تاکہ میں ان کی بیٹیوں کوبھی بلاؤں۔ ان کی چھوٹی بیٹی سکینہ انہیں بہت چاہتی ہیں۔ اور امام کو اس سے بہت پیار ہے ؛ان کو بلاؤں ۔

---------

١ ۔ الارشاد ، ج۲، ص ۱۱۱۔

٢ ۔ معالی السبطین ، مجلس دہم۔

 

مقتل سے گذرتے وقت نانا کو خطاب یا محمداه صلى عليك ملائكة السماء هذا الحسين مرمل بالدماء مقطع الأعضاء و بناتك سبايا إلى الله المشتكى و إلى محمد المصطفى و إلى علي المرتضى و إلى فاطمة الزهراء و إلى حمزة سيد الشهداء يا محمداه هذا حسين بالعراء تسفى عليه الصبا قتيل أولاد البغايا وا حزناه وا كرباه اليوم مات جدي رسول الله ص يا أصحاب محمداه هؤلاء ذرية المصطفى يساقون سوق السبايا-١-۔

اے محمد ! خالق آسمان اور زمین آپ پر سلام ودرود بھیجتا ہے اور یہ حسین ہے جو خون میں غلطان ہے اور ان کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوچکا ہے اور تیری بیٹیان اسیر ہوئی ہیں ۔خدا کے پاس شکایت کروں گی اور محمد مصطفی وعلی مرتضی اور سید الشہدا حضرت حمزہ (ع)سے شکایت کروں گی ۔ اے محمد! یہ حسین ہے جو میدان میں پڑے ہوئےہیں ۔ ہوااس کے بدن مبارک پر چل رہی ہے جسے زنازادوں نے قتل کیا ہے !!

ہای افسوس کتنی بڑی مصیبت ہے ! آج میرے نانا محمد مصطفی (ص) اس دنیا سے چلے گئے ، اے محمد کے چاہنے والو ! یہ مصطفی کی اولاد ہیں جن کو اسیروں کی طرح گھسیٹے جارہے ہیں ۔

 

اپنے بھائی کے کٹے ہوئے سر سے خطاب يَا هِلَالًا لَمَّا اسْتَتَمَّ كَمَالًا

غَالَهُ خَسْفُهُ فَأَبْدَا غُرُوبَا

 

مَا تَوَهَّمْتُ يَا شَقِيقَ فُؤَادِي

كَانَ هَذَا مُقَدَّراً مَكْتُوبَا

 

يَا أَخِي فَاطِمَ الصَّغِيرَةَ كَلِّمْهَا

فَقَدْ كَادَ قَلَبُهَا أَنْ يَذُوبَا

 

يَا أَخِي قَلْبُكَ الشَّفِيقُ عَلَيْنَا

َا لَهُ قَدْ قَسَى وَ صَارَ صَلِيبَا

 

يَا أَخِي لَوْ تَرَى عَلِيّاً لَدَى الْأَسْرِ

مَعَ الْيُتْمِ لَا يُطِيقُ وُجُوبَا

 

كُلَّمَا أَوْجَعُوهُ بِالضَّرْبِ نَادَاكَ

بِذُلٍّ يَغِيضُ دَمْعاً سَكُوبَا

 

يَا أَخِي ضُمَّهُ إِلَيْكَ وَ قَرِّبْهُ

وَ سَكِّنْ فُؤَادَهُ الْمَرْعُوبَا

 

مَا أَذَلَّ الْيَتِيمَ حِينَ يُنَادِي ِأَبِيهِ وَ لَا يَرَاهُ مُجِيبَا۔

 

اے میری چاند جو کامل ہوتے ہی اچانک گرہن لگی اور اسے غروب کردیا ۔ اے میرے دل کے ٹکڑے !میں نےکبھی یہ گمان بھی نہیں کی تھی کہ ایسا بھی ہوگا ۔ بھیا! اپنی چھوٹی بیٹی فاطمہ سے بات کرو جس کا دل ذوب ہونے والا ہے ۔ بھیا ! تیرے مہربان دل اس قدر سخت کیوں ہوا جو ہماری باتوں کا جواب نہیں دیتے؟ بھیا ! اے کاش اپنے بیٹے زین العابدین کو اسیری اور یتیمی کے عالم میں دیکھتے کہ کس قدر اپنی جگہ پر خشک پڑا ہے ؟ جب بھی اسے تازیانہ مار کر ظالم اذیت دیتے تو وہ تمھیں پکارتے۔ اے بھیا ! اس کی مدد کرو اور اسے تسلی دو ۔ ہای افسوس یتیمی کی مصیبت کس قدر سخت ہے کہ وہ اپنے بابا کوپکارے اور بابا جواب نہ دے-٢-۔

 

شہادت امام حسین (ع) کے بعد زینب کبری(س) کی تین ذمہ داریاں مظلوم کربلا اباعبداللہ (ع)شہادت کے بعد زینب کبریٰ کی اصل ذمہ داری شروع ہوتی ہے ۔اگرچہ عصر عاشور سے پہلے بھی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھیں۔ جن لوگوں کی سرپرستی آپ نے قبول کی تھی وہ ایسے افراد تھے کہ جن کا وجود اور زندگی خطرے میں تھے ۔ جن کا نہ کوئی گھر تھا جس میں وہ آرام کرسکے ، نہ کوئی کھانا ان کے ساتھ تھا؛ جس سے اپنی بھوک ختم کرسکے اور نہ کوئی پانی تھا ؛کہ جو ہر جاندار کی ابتدائی اور حیاتی ترین مایہ حیات بشری ہوا کرتا ہے ؛اور یہ سب ایسے لوگ تھے جن کے عزیز و اقارب ان کے نظروں کے سامنے خاک و خون میں نہلائے جا چکے تھے۔ ایسے افراد کی سرپرستی قبول کرنا بہت ہی مشکل کام تھا، اسی طرح خود ثانی زہرا (س)بھی اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی جدائی سے دل داغدار تھی ؛کیسے برداشت کرسکتی تھیں ؟! یہی وجہ تھی کہ سید الشہد ا(ع) نے آپ کے مبارک سینے پر دست امامت پھیرا کر دعا کی تھی کہ خداان تمام مصیبتوں کو برداشت کرنے کی انہیں طاقت دے ۔ اور یہی دعا کا ا ثر تھا کہ کربلا کی شیردل خاتون نے ان تمام مصیبتوں کے دیکھنے کے باوجود عصر عاشور کے بعد بھیا عباس کی جگہ پہرہ دار ی کی اور طاغوتی حکومت اور طاقت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں۔اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیں :شہید محسن نقوی لکھتے ہیں:

 

پردے میں رہ کے ظلم کے پردے الٹ گئی

پہنی رسن تو ظلم کی زنجیر کٹ گئی

نظریں اٹھیں تو جبر کی بدلی بھی چھٹ گئی

لب سی لئے تو ضبط میں دنیا سمٹ گئی -٣-

 

۱۔ امام سجاد(ع) کی عیادت اور حفاظت ہمارا اعتقاد ہے کہ سلسلہ امامت کی چوتھی کڑی سید السجاد(ع) ہیں ،چنانچہ عبیداللہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو دستور دیا تھا کہ اولاد امام حسین (ع) میں سے تمام مردوں کو شہید کئے جائیں،دوسری طرف مشیت الہی یہ تھی کہ مسلمانوں کیلئے ولایت اور رہبری کایہ سلسلہ جاری رکھا جائے ، اس لئے امام سجاد (ع) بیمار رہے اور آپ کا بیمار رہنا دوطرح سے آپ کا زندہ رہنے کیلئے مدد گار ثابت ہوئی۔

۱۔ امام وقت کا دفاع کرنا واجب تھا جو بیماری کی وجہ سے آپ سے ساقط ہوا ۔

۲۔ دشمنوں کے حملے اور تعرضات سے بچنے کا زمینہ فراہم کرنا تھا جو بیماری کی وجہ سے ممکن ہوا۔ پھر سوفیصد جانی حفاظت کا ضامن تو نہ تھا کیونکہ خدا تعالی نہیں چاہتا کہ ہر کام معجزانہ طور پر انجام پائے بلکہ جتنا ممکن ہو سکے طبیعی اور علل واسباب مادی اور ظاہری طور پر واقع ہو۔

صرف دو صورتوں میں ضروری ہے کہ خدا تعالی ائمہ طاہرین (ع) کی غیبی امداد کے ذریعے حفاظت اور مدد کرے :

۱۔ معجزے کے بغیر اسلام کی بقا عادی طور پر ممکن نہ ہو ۔

۲۔ دین کی حفاظت مسلمانوں کی قدرت میں نہ ہو۔

ایسا نہیں کہ کسی فداکاری اور قربانی اور مشکلات اور سختی کو تحمل کئے بغیر مسلمان اپنے دشمنوں کو نابود کرسکے ۔

چنانچہ جب مشرکان قریش پیامبر اسلام (ص) کی قتل کے درپے ہوئے تو خدا تعالی نے وحی کے ذریعے قریش والوں کے مکروہ ارادے سے آگاہ کیا اور غار ثور کے دروازے پر مکڑی کا جال بنا کر ان کی اذہان کو منحرف کیا ، کیونکہ اولاً تو دین اسلام کی بقا اور دوام ،پیامبر اسلام (ص) کی زندگی اور حیات طیبہ پر منحصر تھا۔ ثانیا ً پیامبر (ص) کو دشمن کی پلانینگ سے آگاہ اور مشرکوں کے اذہان کو منحرف کرنا تھا؛ جو بغیر معجزے کے ممکن نہ تھا ۔ لیکن باقی امور کو رنج ومصیبتوں اور سختیوں کوتحمل کرکے نتیجے تک پہنچانا تھا ۔جیسا کہ حضرت علی (ع) پیامبر (ص) کی جان بچانے کیلئے آپ بستر پر سوگئے تاکہ آپ (ص) کو غار میں چھپنے کی مہلت مل جائے ۔ اور پیامبر اکرم (ص) بھی مدینے کی طرف جانے کے بجائے دوسری طرف تشریف لے گئے ، تاکہ کفار کے ذہنوں کو منحرف کیا جائے۔ اگر سنت الہی اعجاز دکھانا ہوتی تو یہ ساری زحمتیں ان بزرگواروں کو اٹھانی نہ پڑتیں ۔

امام سجاد (ع) کی حفاظت اور دیکھ بال کرنا بھی اسی طرح تھا ؛ کہ زینب کبری (س) اس سختیوں کو اپنے ذمہ لے لے ۔اور پورے سفر کے دوران آپ (ع) کی حفاظت اور مراقبت کی ذمہ داری آپ آپ ہی قبول کرلے ۔

---------

١ ۔ اللهوف ، ص١٣٠۔

٢ ۔ بحارالأنوار، ج٤٥، ص۱۱۵۔

٣ ۔ موج ادراک،ص۱۳۵۔

 

کہاں کہاں زینب (س) نے امام سجاد (ع)کی حفاظت کی؟

جلتے ہوئے خیموں سے امام سجاد (ع) کی حفاظت تاریخ کا ایک وحشیانہ ترین واقعہ عمر سعد کا اھل بیت امام حسین (ع) کے خیموں کی طرف حملہ کر کے مال واسباب کا لوٹنا اور خیموں کو آگ لگانا تھا ۔ اس وقت اپنے وقت کے امام سید الساجدین (ع) سے حکم شرعی پوچھتی ہیں: اے کے وارث اور بازماندگان کے پناہ گاہ ! ہمارے خیموں کو آگ لگائی گئی ہے ، ہمارے لئے شرعی حکم کیا ہے ؟ کیا انہی خیموں میں رہ کر جلنا ہے یا بیابان کی طرف نکلنا ہے؟!

امام سجاد (ع) نے فرمایا:آپ لوگ خیموں سے نکل جائیں۔ لیکن زینب کبری (س) اس صحنہ کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی تھیں، بلکہ آپکا امام سجاد (ع) کی نجات کیلئے رکنا ضروری تھا۔

راوی کہتا ہے کہ میں دیکھ رہا تھا خیموں سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے اور ایک خاتون بیچینی کےعالم میں خیمے کے در پر کھڑی چاروں طرف دیکھ رہی تھیں، اس آس میں کہ کوئی آپ کی مدد کو آئے ۔ پھر آپ ایک خیمہ کے اندر چلی گئی ۔ اور جب باہر آئی تو میں نے پوچھا : اے خاتون !اس جلتے ہوئے خیمے میں آپ کی کونسی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہے ؟ کیا آپ نہیں دیکھ رہی ہے کہ آگ کا شعلہ بلند ہورہا ہے؟!

زینب کبری (س)یہ سن کر فریاد کرنے لگیں :اس خیمے میں میرا ایک بیماربیٹا ہے جو نہ اٹھ سکتا ہے اور نہ اپنے کو آگ سے بچا سکتا ہے ؛جبکہ آگ کے شعلوں نے اسے گھیر رکھا ہے ۔آکر کار زینب کبری (س) نے امام سجاد (ع) کو خیمے سے نکال کر اپنے وقت کے امام کی جان بچائی ۔

 

شمر کے سامنے امام سجاد(ع) کی حفاظت امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد لشکر عمر سعد خیمہ گاہ حسینی کی طرف غارت کے لئے بڑھے ۔ایک گروہ امام سجاد (ع) کی طرف گئے ، جب کہ آپ شدید بیمار ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ سے اٹھ نہیں سکتے تھے ۔ ایک نے اعلان کیا کہ ان کے چھوٹوں اور بڑوں میں سے کسی پربھی رحم نہ کرنا ۔دوسرے نے کہا اس بارے میں امیر عمر سعد سے مشورہ کرے ۔ شمر ملعون نے امام (ع) کو شہید کرنے کیلئے تلوار اٹھائی ۔ حمید بن مسلم کہتا ہے : سبحان اللہ ! کیا بچوں اوربیماروں کو بھی شہید کروگے؟! شمر نے کہا : عبید اللہ نے حکم دیا ہے ۔ حضرت زینب (س) نے جب یہ منظر دیکھا تو امام سجاد (ع) کے قریب آئیں اور فریاد کی: ظالمو! اسے قتل نہ کرو۔ اگرقتل کرنا ہی ہے تو مجھے پہلے قتل کرو ۔

آپ کا یہ کہنا باعث بنا کہ امام (ع)کے قتل کرنے سے عمر سعد منصرف ہوگیا۔-٢-

 

امام سجاد (ع) کو تسلی دینا جب اسیران اہل حرم کوکوفہ کی طرف روانہ کئے گئے ، تو مقتل سے گذارے گئے ، امام(ع) نے اپنے عزیزوں کو بے گور وکفن اور عمر سعد کے لشکر کے ناپاک جسموں کو مدفون پایا تو آپ پر اس قدر شاق گزری کہ جان نکلنے کے قریب تھا ۔ اس وقت زینب کبری (س) نے آپ کی دلداری کیلئے ام ایمن ؓ سے ایک حدیث نقل کی ،جس میں یہ خوش خبری تھی کہ آپ کے بابا کی قبر مطہر آیندہ عاشقان اور محبین اہلبیتF کیلئےامن اورامید گاہ بنے گی۔

لِمَا أَرَى مِنْهُمْ قَلَقِي فَكَادَتْ نَفْسِي تَخْرُجُ وَ تَبَيَّنَتْ ذَلِكَ مِنِّي عَمَّتِي زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيٍّ الْكُبْرَى فَقَالَتْ مَا لِي أَرَاكَ تَجُودُ بِنَفْسِكَ يَا بَقِيَّةَ جَدِّي وَ أَبِي وَ إِخْوَتِي فَقُلْتُ وَ كَيْفَ لَا أَجْزَعُ وَ أَهْلَعُ وَ قَدْ أَرَى سَيِّدِي وَ إِخْوَتِي وَ عُمُومَتِي وَ وُلْدَ عَمِّي وَ أَهْلِي مُضَرَّجِينَ بِدِمَائِهِمْ مُرَمَّلِينَ بِالْعَرَاءِ مُسَلَّبِينَ لَا يُكَفَّنُونَ وَ لَا يُوَارَوْنَ وَ لَا يُعَرِّجُ عَلَيْهِمْ أَحَدٌ وَ لَا يَقْرَبُهُمْ بَشَرٌ كَأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَ الدَّيْلَمِ وَ الْخَزَرِ فَقَالَتْ لَا يَجْزَعَنَّكَ مَا تَرَى فَوَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لَعَهْدٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى جَدِّكَ وَ أَبِيكَ وَ عَمِّكَ وَ لَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ‏ مِيثَاقَ أُنَاسٍ مِنْ هَذِه الْأُمَّةِ لَا تَعْرِفُهُمْ فَرَاعِنَةُ هَذِهِ الْأَرْضِ وَ هُمْ مَعْرُوفُونَ فِي أَهْلِ السَّمَاوَاتِ أَنَّهُمْ يَجْمَعُونَ هَذِهِ الْأَعْضَاءَ الْمُتَفَرِّقَةَ فَيُوَارُونَهَا وَ هَذِهِ الْجُسُومَ الْمُضَرَّجَةَ وَ يَنْصِبُونَ لِهَذَا الطَّفِّ عَلَماً لِقَبْرِ أَبِيكَ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ لَا يَدْرُسُ أَثَرُهُ وَ لَا يَعْفُو رَسْمُهُ عَلَى كُرُورِ اللَّيَالِي وَ الْأَيَّامِ وَ لَيَجْتَهِدَنَّ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَ أَشْيَاعُ الضَّلَالَةِ فِي مَحْوِهِ وَ تَطْمِيسِهِ فَلَا يَزْدَادُ أَثَرُهُ إِلَّا ظُهُوراً وَ أَمْرُهُ إِلَّا عُلُوّا-٢-۔

خود امام سجاد (ع) فرماتے ہیں : کہ جب میں نے مقدس شہیدوں کے مبارک جسموں کو بے گور وکفن دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا ۔یہاں تک کہ میری جان نکلنے والی تھی ، میری پھوپھی زینب(س) نے جب میری یہ حالت دیکھی تو فرمایا: اے میرے نانا ،بابا اور بھائیوں کی نشانی ! تجھے کیا ہوگیا ہے؟ کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ تیری جان نکلنے والی ہے ۔تو میں نے جواب دیا کہ پھوپھی اماں ! میں کس طرح آہ وزاری نہ کروں ؟جب کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بابا اور عمو اور بھائیوں اور دیگر عزیزو اقرباء کو خون میں لت پت اور عریان زمین پر پڑے دیکھ رہا ہوں۔اور کوئی ان کو دفن کرنے والے نہیں ہیں۔ گویا یہ لوگ دیلم اور خزر کے خاندان والے ہیں ۔

زینب (س) نے فرمایا: آپ یہ حالت دیکھ کر آہ وزاری نہ کرنا ۔خدا کی قسم ،یہ خدا کے ساتھ کیا ہوا وعدہ تھا جسے آپ کے بابا ، چچا ،بھائی اور دیگر عزیزوں نے پورا کیا ۔خدا تعالی اس امت میں سے ایک گروہ پیدا کریگا جنہیں زمانے کےکوئی بھی فرعون نہیں پہچان سکے گا ۔ لیکن آسمان والوں کے درمیان مشہور اور معروف ہونگے۔ان سے عہد لیا ہوا ہے کہ ان جدا شدہ اعضاء اور خون میں لت پت ٹکڑوں کو جمع کریں گے اور انہیں دفن کریں گے۔وہ لوگ اس سرزمین پر آپ کے بابا کی قبر کے نشانات بنائیں گےجسے رہتی دنیا تک کوئی نہیں مٹا سکے گا۔سرداران کفر والحاد اس نشانے کو مٹانے کی کوشش کریں گے، لیکن روز بہ روز ان آثار کی شان ومنزلت میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا ۔شاعر نے یوں کہا:

وقار مریم وحوا! سلام ہو تجھ پر

سلام ثانی زہرا! سلام ہو تجھ پر

گواہ ہے تیری جرئت پہ کربلا کی زمین

امام وقت کو کی تونے صبر کی تلقین

لٹاکے اپنی کمائی بچاکے دولت دین

بجھا کے شمع تمنا جلا کے شمع یقین ۔

---------

١ ۔ مقتل الحسین ، ص۳۰۱۔

٢ ۔ بحار ، ج۴۵، ص۱۷۹ ۱۸۰۔

 

دربار ابن زیاد میں امام سجاد (ع) کی حفاظت قَالَ الْمُفِيدُ فَأُدْخِلَ عِيَالُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا عَلَى ابْنِ زِيَادٍ فَدَخَلَتْ زَيْنَبُ أُخْتُ الْحُسَيْنِ ع فِي جُمْلَتِهِمْ مُتَنَكِّرَةً وَ عَلَيْهَا أَرْذَلُ ثِيَابِهَا وَ مَضَتْ حَتَّى جَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ حَفَّتْ بِهَا إِمَاؤُهَا فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ مَنْ هَذِهِ الَّتِي انْحَازَتْ فَجَلَسَتْ نَاحِيَةً وَ مَعَهَا نِسَاؤُهَا فَلَمْ تُجِبْهُ زَيْنَبُ فَأَعَادَ الْقَوْلَ ثَانِيَةً وَ ثَالِثَةً يَسْأَلُ عَنْهَا فَقَالَتْ لَهُ بَعْضُ إِمَائِهَا هَذِهِ زَيْنَبُ بِنْتُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ص فَأَقْبَلَ عَلَيْهَا ابْنُ زِيَادٍ وَ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَحَكُمْ وَ قَتَلَكُمْ وَ أَكْذَبَ أُحْدُوثَتَكُمْ فَقَالَتْ زَيْنَبُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِنَبِيِّهِ مُحَمَّدٍ ص وَ طَهَّرَنَا مِنَ الرِّجْسِ تَطْهِيراً إِنَّمَا يَفْتَضِحُ الْفَاسِقُ ۔۔۔ ثُمَّ الْتَفَتَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقِيلَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ فَقَالَ أَ لَيْسَ قَدْ قَتَلَ اللَّهُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ فَقَالَ عَلِيٌّ قَدْ كَانَ لِي أَخٌ يُسَمَّى عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ قَتَلَهُ النَّاسُ فَقَالَ بَلِ اللَّهُ قَتَلَهُ فَقَالَ عَلِيٌّ اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَ الَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها فَقَالَ ابْنُ زِيَادٍ وَ لَكَ جُرْأَةٌ عَلَى جَوَابِي اذْهَبُوا بِهِ فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ فَسَمِعَتْ عَمَّتُهُ زَيْنَبُ فَقَالَتْ يَا ابْنَ زِيَادٍ إِنَّكَ لَمْ تُبْقِ مِنَّا أَحَداً فَإِنْ عَزَمْتَ عَلَى قَتْلِهِ فَاقْتُلْنِي مَعَهُ فَنَظَرَ ابْنُ زِيَادٍ إِلَيْهَا وَ إِلَيْهِ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ عَجَباً لِلرَّحِمِ وَ اللَّهِ إِنِّي لَأَظُنُّهَا وَدَّتْ أَنِّي قَتَلْتُهَا مَعَهُ‏ دَعُوهُ فَإِنِّي أَرَاهُ لِمَا بِهِ فَقَالَ عَلِيٌّ لِعَمَّتِهِ اسْكُتِي يَا عَمَّةُ حَتَّى أُكَلِّمَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ ع فَقَالَ أَ بِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنِي يَا ابْنَ زِيَادٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ الْقَتْلَ لَنَا عَادَةٌ وَ كَرَامَتَنَا الشَّهَادَة-١-۔

جب خاندان نبوت ابن زیاد کی مجلس میں داخل ہوئی ؛ زینب کبری دوسری خواتین کے درمیان میں بیٹھ گئیں ؛ تو ابن زیاد نے سوال کیا : کون ہے یہ عورت ، جو دوسری خواتین کے درمیان چھپی ہوئی ہے؟ زینب کبری نے جواب نہیں دیا ۔ تین بار یہ سوال دہرایاتو کنیزوں نے جواب دیا : اے ابن زیاد ! یہ رسول خدا (ص) کی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا (س)کی بیٹی زینب کبری (س)ہے ۔ ابن زیاد آپ کی طرف متوجہ ہو کر کہا: اس خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ذلیل و خوار کیا اور تمھارے مردوں کو قتل کیا اور جن چیزوں کا تم دعوی کرتے تھے ؛ جٹھلایا ۔

ابن زیاد کی اس ناپاک عزائم کو زینب کبری (س)نے خاک میں ملاتےہوئے فرمایا:اس خدا کا شکر ہے جس نے اپنے نبی محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے ہمیں عزت بخشی ۔ اورہرقسم کے رجس اور ناپاکی سے پاک کیا۔ بیشک فاسق ہی رسوا ہوجائے گا ۔

جب ابن زیاد نے علی ابن الحسین (ع)کو دیکھا تو کہا یہ کون ہے؟ کسی نے کہا : یہ علی ابن الحسین (ع)ہے ۔تو اس نے کہا ؛کیا اسے خدا نے قتل نہیں کیا ؟ یہ کہہ کر وہ بنی امیہ کا عقیدہ جبر کا پرچار کرکے حاضرین کے ذہنوں کو منحرف کرنا چاہتے تھے اور اپنے جرم کو خدا کے ذمہ لگا کر خود کو بے گناہ ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔

امام سجاد (ع) جن کے بابا او ر پوراخاندان احیاء دین کیلئے مبارزہ کرتے ہوئے بدرجہ شہادت فائز ہوئے تھے اور خود امام نے ان شہداء کے پیغامات کو آنے والے نسلوں تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کی تھی ، اس سے مخاطب ہوئے : میرا بھائی علی ابن الحسین (ع) تھا جسے تم لوگوں نے شہید کیا ۔

ابن زیاد نے کہا : اسے خدا نے قتل کیا ہے ۔

امام سجاد (ع) نے جب اس کی لجاجت اور دشمنی کو دیکھا تو فرمایا: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ -٢- اللہ ہی ہے جو روحوں کو موت کے وقت اپنی طرف بلالیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی روحوں کو بھی نیند کے وقت طلب کرلیتا ہے ۔ اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کرلیتا ہے ،اس کی روح کو روک لیتا ہے ۔ اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدّت کے لئے آزاد کردیتا ہے - اس بات میں صاحبان فکر و نظر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔

ابن زیاد اس محکم اور منطقی جوا ب اور استدلال سن کر لا جواب ہوا تو دوسرے ظالموں اور جابروں کی طرح تہدید پر اتر آیا اور کہنے لگا : تو نے کس طرح جرات کی میری باتوں کا جواب دے ؟! جلاد کو حکم دیا ان کا سر قلم کرو ۔ تو اس وقت زینب کبری (س) نے سید سجاد (ع)کو اپنے آغوش میں لیا اور فرمایا:اے زیاد کے بیٹے ! جتنے ہمارے عزیزوں کو جو تم نے شہید کیا ہے کیا کافی نہیں؟!خدا کی قسم میں ان سے جدا نہیں ہونگی ۔ اگر تو ان کو شہید کرنا ہی ہے تو پہلے مجھے قتل کرو۔

یہاں ابن زیاد دوراہے پر رہ گیا کہ اس کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ؟ ایک طرف سے کسی ایک خاتون اوربیمار جوان کو قتل کرنا ۔ دوسرا یہ کہ زینب کبری (س)کو جواب نہ دے پانا۔ یہ دونوں غیرت عرب کا منافی تھا ۔

اس وقت عمرو بن حریث نے کہا: اے امیر! عورت کی بات پر انہیں سزانہیں دی جاتی، بلکہ ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنا ہوتا ہے ۔ اس وقت ابن زیاد نے زینب کبری(س) سے کہا: خدا نے تمھارے نافرمان اور باغی خاندان کو قتل کرکے میرے دل کو چین اور سکون فراہم کیا ۔اس معلون کی اس طعنے نے زینب کبری(س) کا سخت دل دکھا یااورلادیا ۔ اس وقت فرمایا: میری جان کی قسم ! تو نے میرے بزرگوں کو شہید کیا، اور میری نسل کشی کی ، اگر یہی کام تیرے دل کا چین اور سکون کا باعث بنا ہے تو کیا تیرے لئے شفا ملی ہے ؟! ابن زیاد نے کہا : یہ ایک ایسی عورت ہے جو قیافہ کوئی اور شاعری کرتی ہے ۔ یعنی اپنی باتوں کو شعر کی شکل میں ایک ہی وزن اور آہنگ میں بیان کرتی ہے ۔ جس طرح ان کا باپ بھی اپنی شاعری دکھایا کرتا تھا ۔

زینب کبری (س) نے کہا: عورت کو شاعری سے کیا سروکار؟! لیکن میرے سینے سے جو بات نکل رہی ہے وہ ہم قیافہ اور ہم وزن ہے-٣-۔

آخر میں مجبور ہوا کہ موضوع گفتگو تبدیل کرے اور کہا: بہت عجیب رشتہ داری ہے کہ خدا قسم ! میرا گمان ہے کہ زینب چاہتی ہے کہ میں اسے ان کے برادر زادے کے ساتھ قتل کروں؛ انہیں لے جاؤ؛ کیونکہ میں ان کی بیماری کو ان کے قتل کیلئے کافی جانتاہوں۔

اس وقت امام سجاد(ع) نے فرمایا : اے زیاد کے بیٹے ! کیا تو مجھے موت سے ڈراتے ہو ؟ کیا تو نہیں جانتا ، راہ خدا میں شہید ہونا ہمارا ورثہ اور ہماری کرامت ہے ۔

قدم قدم پہ مقاصد کی عظمتوں کا خیال

نفس نفس میں بھتیجے کی زندگی کا سوال

ردا چھنی تو بڑھا اور عصمتوں کا جلال

کھلے جو بال تو نکھرا حسینیت کا جمال

نقیب فتح شہ مشرقین بن کے اٹھی

نہ تھے حسین تو زینب حسین بن کے اٹھی -٤-

---------

١ ۔ بحار ،ج۴۵،ص۱۱۷،۱۱۸۔

٢ ۔ زمر ۴۲۔

٣ ۔ ارشاد- ترجمه رسولى محلاتى ج‏٢ ص ١١٩

٤ ۔ پیام اعظمی ؛ القلم،ص۲۷۳۔

 

۲۔ یتیموں کی رکھوالی اور حفاظت یتیموں کی رکھوالی آپ کی دوسری اہم ذمہ داری تھی کہ جب خیمے جل کر راکھ ہوگئے اور آگ خاموش ہوئی تو زینب کبری (س) بیابان میں بچوں اور بیبیوں کو جمع کرنے لگیں۔جب دیکھا تو امام حسین (ع) کی دو بیٹیوں کو بچوں کے درمیان میں نہیں پایا ۔ تلاش میں نکلیں تو دیکھا کہ دونوں بغل گیر ہوکر آرام کررہی تھیں ؛ جب نزدیک پہنچیں تو دیکھا کہ دونوں بھوک وپیاس اور خوف وہراس کی وجہ سے رحلت کر چکی تھیں۔ -١-

 

بچوں کی بھوک اور پیاس کا خیال اسیری کے دوران عمر سعد کی طرف سے آنے والا کھانا بالکل ناکافی تھا جس کی وجہ سے بچوں کو کم پڑتا تھا ۔ تو آپ اپنا حصہ بھی بچوں میں تقسیم کرتی تھیں اور خود بھوکی رہتی تھیں۔ جس کی وجہ سے آپ جسمانی طور پر سخت کمزور ہوگئی تھیں جس کے نتیجے میں آپ کھڑی ہوکر نماز شب نہیں پڑ سکتی تھیں۔ ٢-

 

فاطمہ صغریٰ کی حفاظت دربار یزید میں ایک مرد شامی نے جسارت کے ساتھ کہا : حسین کی بیٹی فاطمہ کو ان کی کنیزی میں دے دے ۔ فاطمہ نے جب یہ بات سنی تو اپنی پھوپھی سے لپٹ کر کہا : پھوپھی اماں ! میں یتیم ہوچکی کیا اسیر بھی ہونا ہے ؟!!

 

فَقَالَتْ عَمَّتِي لِلشَّامِيِّ كَذَبْتَ وَ اللَّهِ وَ لَوْ مِتُّ وَ اللَّهِ مَا ذَلِكَ لَكَ وَ لَا لَهُ فَغَضِبَ يَزِيدُ وَ قَالَ كَذَبْتِ وَ اللَّهِ إِنَّ ذَلِكَ لِي وَ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَفْعَلَ لَفَعَلْتُ قَالَتْ كَلَّا وَ اللَّهِ مَا جَعَلَ اللَّهُ لَكَ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مِلَّتِنَا وَ تَدِينَ بِغَيْرِهَا فَاسْتَطَارَ يَزِيدُ غَضَباً وَ قَالَ إِيَّايَ تَسْتَقْبِلِينَ بِهَذَا إِنَّمَا خَرَجَ مِنَ الدِّينِ أَبُوكِ وَ أَخُوكِ قَالَتْ زَيْنَبُ بِدِينِ اللَّهِ وَ دِيْنِ أ بِي وَ دِيْنِ أَخِي اهْتَدَيْتَ أَنْتَ وَ أَبُوكَ وَ جَدُّكَ إِنْ كُنْتَ مُسْلِماً قَالَ كَذَبْتِ يَا عَدُوَّةَ اللَّهِ قَالَتْ لَهُ أَنْتَ أَمِيرٌ تَشْتِمُ ظَالِماً وَ تَقْهَرُ لِسُلْطَانِكَ فَكَأَنَّهُ اسْتَحْيَا وَ سَكَتَ وَ عَادَ الشَّامِيُّ فَقَالَ هَبْ لِي هَذِهِ الْجَارِيَةَ فَقَالَ لَهُ يَزِيدُ اعْزُبْ وَهَبَ اللَّهُ لَكَ حَتْفاً قَاضِياً فَقَالَ الشَّامِيُّ مَنْ هَذِهِ الْجَارِيَةُ فَقَالَ يَزِيدُ هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ الْحُسَيْنِ وَ تِلْكَ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ الشَّامِيُّ الْحُسَيْنُ ابْنُ فَاطِمَةَ وَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ نَعَمْ فَقَالَ الشَّامِيُّ لَعَنَكَ اللَّهُ يَايَزِيدُ تَقْتُلُ عِتْرَةَ نَبِيِّكَ وَ تَسْبِي ذُرِّيَّتَهُ وَ اللَّهِ مَا تَوَهَّمْتُ إِلَّا أَنَّهُمْ سَبْيُ الرُّومِ فَقَالَ يَزِيدُ وَ اللَّهِ لَأُلْحِقَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ أَمَرَ بِهِ فَضُرِبَ عُنُقُهُ-٣-۔

زینب کبری(س) نے شہامت اور جرئت کے ساتھ مرد شامی سے مخاطب ہوکر کہا: خدا کی قسم تو غلط کہہ رہا ہے ، تمھاری کیا جرئت کہ تو میری بیٹی کو کنیز بنا سکے؟!!

یزید نے جب یہ بات سنی تو غضبناک ہوا اور کہا: خدا کی قسم یہ غلط کہہ رہی ہے ۔ میں اگر چاہوں تو اس بچی کو کنیز ی میں دے سکتا ہوں۔

زینب کبری (س) نے کہا : خدا کی قسم تمھیں یہ حق نہیں ہے ؛ مگر یہ کہ ہمارے دین سے خارج ہو جائے۔

یہ بات سن کر یزید نے غصے میں آکر کہا : میرے ساتھ اس طرح بات کرتی ہو جبکہ تیرے بھائی اور باپ دین سے خارج ہوچکے ہیں ۔

زینب کبری(س) نے کہا:اگرتو مسلمان ہو اور میرے جد اور بابا کے دین پر باقی ہو تو تواورتیرے باپ داداکو میرے باپ دادا کے ذریعے ہدایت ملی تھی۔

یزید نے کہا : تو جھوٹ بولتی ہو اے دشمن خدا ۔

زینب کبری(س) نے فرمایا: تو ایک ظالم انسان ہو اور اپنی ظاہری قدرت اور طاقت کی وجہ سے اپنی بات منوانا چاہتے ہو۔

اس بات سے یزید سخت شرمندہ ہوا اور چپ ہوگیا۔

اس وقت مرد شامی نے یزید سے دوبارہ کہا :اس بچی کو مجھے دو ۔

یزید نے اس سے کہا :خاموش ہوجا !خدا تجھے نابود کر ے ۔

اس شامی نے کہا: آخر یہ بچی کس کی ہے؟!

یزید نے کہا: یہ حسین کی بیٹی ہے ۔ اور وہ عورت زینب بنت علی ابن ابیطالب ہے ۔

اس مرد شامی نے کہا : حسین !!فاطمہ اورعلی (ع) کا بیٹا؟! جب ہاں میں جواب ملا تو کہا: اے یزید ! خدا تجھ پر لعنت کرے ! پیامبر(ص) کی اولادوں کو قتل کرکے ان کی عترت کو اسیر کرکے لے آئے ہو!خدا کی قسم میں ان کو ملک روم سے لائے ہوئے اسیر سمجھ رہا تھا ۔

یزید نے کہا : خدا کی قسم ! تجھے بھی ان سے ملحق کروں گا ۔ اس وقت اس کا سر تن سے جدا کرنے کا حکم دیا ۔

---------

١ ۔ معالی السبطین فی احوال الحسن والحسین ج۲ص۸۸،۸۹۔

٢ ۔ مھدی پیشوائی ، شام سرزمین خاطرہ ہا ،ص ۱۷۵۔

٣ ۔ بحار،ج۴۵ ص ۱۳۶،۱۳۷۔

 

۳۔ انقلاب حسینی کی پیغام رسانی جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ انقلاب حسینی کے دو باب ہیں :ایک جنگ وجہاد اور شہادت ۔ دوسرا ان شہادتوں کا پیغام لوگوں تک پہنچانا۔ اب قیام امام حسین (ع) کے پیغامات طبیعی طورپر مختلف ملکوں تک پہچانے کیلئے کئی سا ل لگ جاتا؛ جس کی دلیل یہ ہے کہ مدینہ والوں کو اہلبیت F کے وارد ہونے سے پہلے واقعہ کربلا کا پتہ تک نہ تھا ۔ اس طرح بنی امیہ کہ تمام وسائل و ذرایع اپنی اختیار میں تھیں ۔سارے ممالک اور سارے عوام کو اپنے غلط پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی حقانیت اور امام حسین (ع) کو باغی ثابت کرسکتا تھا۔اگرچہ انہوں نے اپنی پوری طاقت استعمال کی کہ اپنی جنایت اور ظلم وبربریت کو چھپائے اور اپنے مخالفین کو بے دین ، دنیا پرست ، قدرت طلب، فسادی کے طور پر پہچنوایا جائے۔ چنانچہ زیاد نے حجر بن عدی اور ان کے دوستوں کے خلاف جھوٹےگواہ تیار کرکے ان پر کفر کا فتوی جاری کیا ۔ اسی طرح ابن زیاد اور یزید نے امام حسین(ع) اور انکے ساتھیوں کے خلاف سوء تبلیغات شروع کرکے امام (ع) کو دین اسلام سے خارج ، حکومت اسلا می سے بغاوت اور معاشرے میں فساد پیدا کرنے والے معرفی کرنا چاہا اور قیام حسینی(ع) کو بے رنگ اور کم اہمیت بنانا چاہا ۔ لیکن اہلبیت کی اسیری اور زینب کبری (س) کے ایک خطبے نے ان کے سارے مکروہ عزائم کو خاک میں ملا دیا ؛اور پوری دنیا پرواضح کردیا؛کہ یزید اور اس کے حمایت کرنے والے راہ ضلالت اور گمراہی پر ہیں ۔ اور جو کچھ ادعی کر رہے ہیں وہ سب جھوٹ پر مبنی ہے ۔ اور بالکل مختصر دنوں میں ان کے سالہا سال کی کوششوں کو نابود کردیا ۔ اور مام حسین (ع) کی مظلومیت، عدالت خواہی ، حق طلبی، دین اسلام کی پاسداری اور ظلم ستیزی کو چند ہی دنوں میں بہت سارے شہروں اور ملکوں پر واضح کردیا۔ یزید اس عمل کے ذریعے لوگوں کو خوف اور وحشت میں ڈالنا چاہتا تھا تاکہ حکومت کے خلاف کوئی سر اٹھانے کی جرات نہ کر سکے۔ لیکن تھوڑی ہی مدت کے بعد انقلاب حسینی نے مسلمانوں میں ظالم حکومتوں کے خلاف قیام کرنے کی جرات پیدا کی ۔ چنانچہ اسیران اہلبیت (ع) شام سے واپسی سے پہلے ہی شامیوں نے یزید اور آل یزید پر لعن طعن کرنا شروع کیا ۔ اور خود یزید بھی مجبور ہوا کہ ان کیلئے اپنے شہیدوں پر ماتم اور گریہ کرنے کیلئے گھر خالی کرنا پڑا۔یہاں سے معلوم ہوتا ہے فاتح کون تھا اور مغلوب کون؟ کیونکہ جیتے اور ہارنے کا فیصلہ جنگ وجدال کے بعد نتیجہ اور ہدف کو دیکھنا ہوتا ہے ۔ظاہرہے کہ امام حسین (ع) کا ہدف اسلام کو بچانا تھا اور بچ گیا ۔ اور فاتح وہ ہے جس کی بات منوائی جائے وہ غالب اور جس پر بات کو تحمیل کیا جائے اور اپنے کئے ہوئے اعمال کو کسی دوسرے کے اوپر ڈالے جیسا کہ یزید نے کہا کہ امام حسین (ع) کو میں نےنہیں بلکہ عبید اللہ ابن زیاد نے شہید کیا ہے، وہ مغلوب ہے ۔

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع: قَالَ لَمَّا قَدِمَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ وَ قَدْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ اسْتَقْبَلَهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَ قَالَ يَا عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ مَنْ غَلَبَ وَ هُوَ يُغَطِّي رَأْسَهُ وَ هُوَ فِي الْمَحْمِلِ قَالَ فَقَالَ لَهُ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ مَنْ غَلَبَ وَ دَخَلَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَأَذِّنْ ثُمَّ أَقِمْ۔

امام صادق(ع) روایت کرتے ہیں کہ امام زین العابدین (ع) نے فرمایا : جب شام سے مدینہ کی طرف روانہ ہورہے تھے تو ابراہیم بن طلحہ بن عبید اللہ میرے نزدیک آیا اور مذاق کرتے ہوئے کہا : کون جیت گیا؟

امام سجاد (ع) نے فرمایا : اگر جاننا چاہتے ہو کہ کون جیتے ہیں؛ تو نماز کا وقت آنے دو اور اذان و اقامت کہنے دو ، معلوم ہوجائے گا کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ -١-

یزید کا ہدف اسلام کو مٹانا تھا ۔اور امام حسین (ع) کا ہدف اسلام کا بچانا تھا ۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے تمام ادیان اور مذاہب پر دین مبین اسلام غالب اور معزز اور ہر دل عزیز نظر آرہا ہے ۔ خصوصا انقلاب اسلامی کے بعد اسلام حقیقی سے لوگ آشنا اوراس کی طرف مائل ہورہے ہیں ۔اور یہ سب زینب کبری (س)کی مرہون منت ہے :

 

شبیر کا پیغام نہ بڑھتا کبھی آگے

کی ہوتی نہ عابد نے اگر راہ نمائی

زینب کے کھلے بالوں نے سایہ کیا حق پر

عابد کے بندھے ہاتھوں نے کی عقد گشائی -٢-

---------

١ ۔ بحار ج۴۵ص ۱۷۷،ح۲۷۔

٢ ۔ پیا م اعظمی، والقلم

 

مجلس ابن زیاد میں اگرچہ ایسی شرائط میں کوئی بھی انسان تقریر کرنے پر قادر نہیں ہوتا لیکن یہ زینب بنت علی (س)تھیں جو بدترین شرائط اور موقعیت میں بہترین اورنافذ ترین خطبہ دیا۔درحقیقت قلم اور بیان اس کی توصیف اور تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔اپنے عزیز ترین افراد کے سوگ میں بیٹھی ہیں ۔کئی رات اور دن گزرگئے تھے کہ استراحت اور آرام نہ کرپائی تھیں، کئی دنوں سے بھوکی وپیاسی تھیں، ان کے علاوہ اہلبیت رسول (ص) کی نگہبانی اور حفاظت جیسی سنگین مسئولیت بھی آپ ہی کے کاندں پر تھی ۔پھر بھی اتنے مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے باوجود معمولی سی جسمی یا روحی طور پر تبدیلی کے بغیر اس قدر فصیح وبلیغ خطبہ دیا کہ کوفہ والوں کو علی ابن ابی طالب(ع) کا خطبہ یاد آنےلگا ۔

ازنظر مخاطبین بہت سارے لوگ بنی امیہ کے غلط پروپیگنڈے کی وجہ سے اہلبیت Fکو ایک باغی ، فسادی اور نا امنیت پھیلانے والاگروہ تصور کرتے تھے اور کوئی بھی ایک اسیر خاتون کی تقریر اور بیان کو سننے کیلئے آمادہ نہ تھے۔اور محیط بھی کسی بھی صورت میں خطاب کیلئے مناسب نہیں تھا۔ ایک طرف سے شور وغل اور ہلہلہ اور خوشی اور ڈول باجے کی آوازبلند ہو رہی تھی تو دوسری طرف سے آہ وزاری اور گریہ اور اونٹوں کی گردنوں میں لٹکائی ہوئی گنٹیوں کی آواز بلند ہورہی تھی۔اور ادھر سے سپاہیوں کی آوازیں بلند ہورہی تھی۔ ایسی صورت میں ان سب کو خاموش کرکے اپنی بات منوانامعجزے سے کم نہیں تھا۔ اور یہ معجزہ ثانی زہرا (س) نے کر کے دکھایا ۔ قَالَ بَشِيرُ بْنُ خُزَيْمٍ الْأَسَدِيُّ نَظَرْتُ إِلَى زَيْنَبَ بِنْتِ عَلِيٍّ ع يَوْمَئِذٍ وَ لَمْ أَرَ وَ اللَّهِ خَفِرَةً قَطُّ أَنْطَقَ مِنْهَا كَأَنَّمَا تُفَرِّعُ عَنْ لِسَانِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع وَ قَدْ أَوْمَأَتْ إِلَى النَّاسِ أَنِ اسْكُتُوا فَارْتَدَّتِ الْأَنْفَاسُ وَ سَكَنَتِ اْلْأَجْرَاسُ ۔راوی کہتا ہے کہ میں نے زینب بنت علی کو امیر المؤمنین(ع) کی زبان میں ایسا فصیح و بلیغ خطبہ دیتے ہوئےکبھی نہیں سنا تھا، آپ نےہاتھ کے ایک اشارے سے سب کو خاموش کیا ہر ایک کی سانسیں سینوں میں رہ گئیں ، اونٹوں کی گردنوں میں لٹکی ہوئی گھنٹیاں بھی خاموش ہوگئی۔پھر خدا کی حمد وثناء اور اس کے پیامبر (ص) پر سلام و درود پڑھنے کے بعد فرمایا:

يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ يَا أَهْلَ الْخَتْلِ وَ الْغَدْرِ أَ تَبْكُونَ فَلَا رَقَأَتِ الدَّمْعَةُ وَ لَا هَدَأَتِ الرَّنَّةُ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ كَمَثَلِ الَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكاثاً تَتَّخِذُونَ أَيْمانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَلَا وَ هَلْ فِيكُمْ إِلَّا الصَّلِفُ وَ النَّطِفُ وَ مَلْقُ الْإِمَاءِ وَ غَمْزُ الْأَعْدَاءِ أَوْ كَمَرْعًى عَلَى دِمْنَةٍ أَوْ كَفِضَّةٍ عَلَى مَلْحُودَةٍ أَلَا سَاءَ مَا قَدَّمَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ وَ فِي الْعَذَابِ أَنْتُمْ خَالِدُونَ أَ تَبْكُونَ وَ تَنْتَحِبُونَ إِي وَ اللَّهِ فَابْكُوا كَثِيراً وَ اضْحَكُوا قَلِيلًا فَلَقَدْ ذَهَبْتُمْ بِعَارِهَا وَ شَنَآنِهَا وَ لَنْ تَرْحَضُوهَا بِغَسْلٍ بَعْدَهَا أَبَداً وَ أَنَّى تَرْحَضُونَ قَتْلَ سَلِيلِ خَاتَمِ الْأَنْبِيَاءِ وَ سَيِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مَلَاذِ خِيَرَتِكُمْ وَ مَفْزَعِ نَازِلَتِكُمْ وَ مَنَارِ حُجَّتِكُمْ وَ مَدَرَةِ سُنَّتِكُمْ أَلَا سَاءَ مَا تَزِرُونَ وَ بُعْداً لَكُمْ وَ سُحْقاً فَلَقَدْ خَابَ السَّعْيُ وَ تَبَّتِ الْأَيْدِي وَ خَسِرَتِ الصَّفْقَةُ وَ بُؤْتُمْ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَيْكُمُ الذِّلَّةُ وَ الْمَسْكَنَةُ وَيْلَكُمْ يَا أَهْلَ الْكُوفَةِ أَيَّ كَبِدٍ لِرَسُولِ اللَّهِ فَرَيْتُمْ وَ أَيَّ كَرِيمَةٍ لَهُ أَبْرَزْتُمْ وَ أَيَّ دَمٍ لَهُ سَفَكْتُمْ وَ أَيَّ حُرْمَةٍ لَهُ انْتَهَكْتُمْ لَقَدْ جِئْتُمْ بِهِمْ صَلْعَاءَ عَنْقَاءَ سَوَّاءَ فَقْمَاءَ وَ فِي بَعْضِهَا خَرْقَاءَ شَوْهَاءَ كَطِلَاعِ الْأَرْضِ وَ مُلَاءِ السَّمَاءِ أَ فَعَجِبْتُمْ أَنْ قَطَرَتِ السَّمَاءُ دَماً وَ لَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَى وَ أَنْتُمْ لَا تُنْصَرُونَ فَلَا يَسْتَخِفَّنَّكُمُ الْمَهَلُ فَإِنَّهُ لَا تَحْفِزُهُ الْبِدَارُ وَ لَا يُخَافُ فَوْتُ الثَّأْرِ وَ إِنَّ رَبَّكُمْ لَبِالْمِرْصَادِ -١-

اے کوفہ والو!اے دغل بازو، اے مکار اور خیانت کار لوگو! کیا تم روتے ہو؟کبھی تمھاری آنکھیں خشک نہ ہوں اور غم و اندوہ تم سے دور نہ ہوں حقیقت میں تمھاری مثال اس عورت کی مثال ہے جو اون یا کاٹن سے دھاگہ کاتنے کے بعد پھر اس دھاگے کو کھول دیتی ہے۔ تم بھی اسی طرح عہد و پیمان باندھنے کے بعد پھر عہد شکنی کرتے ہو۔

تمھارے پاس سوائے فریب دینے ،جھوٹ بولنے اور دشمنی کرنے ،کنیزوں کی طرح چاپلوسی کرنے اور دشمنوں کے لئے سخن چینی کرنے کے سوا ہے ہی کیا؟!

بالآخر زینب کبری (س) کوفہ والوں سے سخت لہجے میں مخاطب ہوئیں ، کیونکہ یہاں بات اب سمجھانے کی نہیں تھی ۔ یہ سب جانتے تھے کہ حسین اور اصحاب حسین(ع) ناحق مارے گئے ہیں ۔ اہلبیت (ع) کی عظمت کو بھی جانتے تھے ،زینب کبری (س)کی عظمت کو بھی جانتے تھے ۔ کیونکہ چار سال تک کوفے کی خواتین کو درس تفسیر دیتی رہی تھی۔ لہذا تند لہجے میں فرمایا: تم لوگوں نے اپنے لئے بدترین زاد راہ تیار کئے ہیں ؛ خدا کا غضب اور ہمیشہ رہنے والا عذاب اپنے لئے تیار کئے ہیں ۔کی تم لوگ میرے بھائی کیلئے روتے ہو؟واقعاً تم لوگ رونے کے قابل ہیں ؛ خوب رو لیں اور کم ہنسا کریں ۔ننگ و عار ہو تم پر ، جسے تم کبھی دھو نہیں سکتے ؛ کہ تم نے خاتم الانبیا (ص) ، معدن رسالت کے بیٹے اور جوانان بہشت کے سردار کو شہید کئے ہیں ۔ جو میدان جنگ میں تمھارے ساتھ تھے اور صلح کے موقع پر تمھارے لئے باعث آرام و سکون ،تمھارے زخموں کیلئے مرہم ، اور سختیوں کے موقع پر ملجاء و ماوا اور مرجع تھے،جو تم نے اپنے لئے آگے بھیجے ہیں وہ آخرت کیلئے بہت برا توشہ ہے ۔ نابود ہو تم ، سرنگون ہو تم ! جس چیز کیلئےتم نے تلاش کی تھی وہ تمھارے ہاتھ نہیں آئے گی ، تمھارے ہاتھ کٹ گئے اور معاملے میں نقصان اٹھائے اور غضب الہی کو اپنے لئے خرید لئے ، اور ذلت و خواری تمھاری تقدیر میں حتمی ہوگئی۔

کیا تم جانتےہو کہ رسول خدا (ص) کے کس جگر گوشے کو شکافتہ کیا ؟ اور کس پردے کو چاک کیا ؟ اور کس کی بے حرمتی کی؟! اور کس کا خون بہائے ہو؟! تم نے ایسا کام کئے ہیں کہ قریب تھا آسمان ٹوٹ پڑے اور زمین شکافتہ ہوجائے اور پہاڑیں ریزہ ریزہ ہوجائیں ؟! مصیبت اتنی شدید ہے کہ جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں اور زمین اور آسمان ومافیہا سے بھی بڑھ کر ہے ۔خدا کا عذاب جہنم کیلئے آمادہ ہو جاؤ ، کوئی تمہیں اس عذاب سے چھڑانے والا موجود نہیں ۔ ۔۔اس کے بعد یہ اشعار پڑھیں :

کیا جواب دو گے جب پیامبر اکرم (ص) تم سے قیامت کے دن سوال کرے کہ یا تم نے کیا کئے ہیں ؟!تم تو میری آخری امت تھی!میری اولادوں میں سے بعض اسیر ہیں اور بعض خون میں لت پت! کیا تمھارے لئے میری دلسوزی کا یہی صلہ تھا کہ جو تم نے میرے بعد میری اولادوں کے ساتھ روا رکھے ؟ میں ڈرتا ہوں اس عذاب سے جو تم پر نازل ہونے والا ہے ، جس طرح قوم ارم پر نازل ہوا ؟ اس کے بعد ان سے منہ موڑ لیں ۔

حزیم کہتا ہے : قَالَ فَوَ اللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّاسَ يَوْمَئِذٍ حَيَارَى يَبْكُونَ وَ قَدْ وَضَعُوا أَيْدِيَهُمْ فِي‏ أَفْوَاهِهِمْ کہ زینب کبری (س) کے خطبے نے سب کوفہ والوں کو رلایا ۔ وہ لوگ ندامت اور پشیمانی کے عالم میں انگشت بہ دندان ہوگئے تھے ، وَ رَأَيْتُ شَيْخاً وَاقِفاً إِلَى جَنْبِي يَبْكِي حَتَّى اخْضَلَّتْ لِحْيَتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ بِأَبِي أَنْتُمْ وَ أُمِّي كُهُولُكُمْ خَيْرُ الْكُهُولِ وَ شَبَابُكُمْ خَيْرُ الشَّبَابِ وَ نِسَاؤُكُمْ خَيْرُ النِّسَاءِ وَ نَسْلُكُمْ خَيْرُ نَسْلٍ لَا يُخْزَى وَ لَا يُبْزَى۔ -٢-

اس وقت میرے قریب ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا ، شدیدگریہ کرتےہوئے آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! آپ کے بزرگان افضل ترین ہستیاں ہیں،آپ کے جوانان بہترین جوانان عالم اور آپ کی خواتین بہترین خواتین عالم ہیں،آپ کی اولاد بہترین اولاد ہیں،آپ لوگ کبھی رسوا اور خوار اور مغلوب نہیں ہونگے۔

اس کے بعد امام زین العابدین (ع) نے فرمایا : پھوپھی جان !اب آپ خاموش ہوجائیں ، جوزندہ ہیں وہ گذشتگان سے عبرت حاصل کریں گے ۔ اور آپ بحمد اللہ عالمہ غیر معلمہ اور عاقلہ بنی ہاشم ہیں ؛ رونے سے شہداء واپس نہیں آئیں گے ، اس کے بعد آپ خاموش ہوگئیں پھر سواری سے نیچے اتر آئیں اور خیمے میں تشریف لے گئیں-٣- ۔

 

ہر سانس سے شبیر کا پیغام ہے جاری

ہرگام پہ اسلام کی ہے جلوہ نمائی

خون شہ مظلوم کی ہر وقت حفاظت

بازاروں سے جاتے ہوئے وہ خطبہ سرائی

---------

١ ۔ بحار، ج۴۵، ص ۱۰۸، ۱۱۰۔

٢ ۔ بحار ، ج۴۵ ، ص ۱۰۸، ۱۶۲۔۱۶۵۔

٣ ۔ احتجاج،ترجمه جعفرى، ج‏٢، ص: ١١١-١٠٨

 

مجلس یزید میں جب اہلبیت (ع) دربار یزید میں وارد ہوئے تو یزید اپنے کو فاتح اور مظلوم کربلا (ع) کو مغلوب تصور کر رہا تھا ۔ اس کی نظر میں امام حسین (ع) کو شکست ہوگئی تھی۔اسی لئے اپنی حکومت کے کارندوں اورغیر ملکی سفیروں کے سامنے جشن منانے کیلئے حکم دیا کہ اہلبیت (ع) کو دربار میں بلایا جائے ۔ اہلبیت (ع) میں سے جو بھی امام حسین (ع) اور ان کے اصحاب باوفا کے سراقدس کو دیکھتے تھے تو آہ وفریاد کرتے تھے اور جب زینب کبری(س) نے اپنے بھائی کا سر دیکھا تو حزین اور غم انگیز آواز میں اپنے بھائی سے یوں مخاطب ہوا :اے حسین! اے محبوب رسول خدا ! اے فرزند مکہ و منی ! اے فرزند فاطمہ زہراسید ۃ النساء العالمین !اے بنت رسول کے پیارے! فَأَبْكَتْ كُلَّ مَنْ سَمِعَهَا ثُمَّ دَعَا يَزِيدُ عَلَيْهِ اللَّعْنَةُ بِقَضِيبِ خَيْزُرَانٍ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِ ثَنَايَا الْحُسَيْنِ ع

زینب کبری کی نوحہ سرائی نے پورے اہل مجلس کو رلایا ۔ یزید اب تک خاموش تھا ۔ اور جب احساس حقارت اور بد نامی کی تو لوگوں کی توجہ ہٹانے کیلئے چوب خیزران سے سید الشہداء(ع) کے لب اور دندان مبارک کی بےحرمتی کرنا اور یہ اشعار پڑھنا شروع کیا :

لَيْتَ أَشْيَاخِي بِبَدْرٍ شَهِدُوا

جَزِعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الْأَسَلِ‏

 

لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً

ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏

 

قَدْ قَتَلْنَا الْقَوْمَ مِنْ سَادَاتِهِمْ

وَ عَدَلْنَاهُ بِبَدْرٍ فَاعْتَدَلَ‏

 

لَعِبَتْ هَاشِمٌ بِالْمُلْكِ فَلَا

خَبَرٌ جَاءَ وَ لَا وَحْيٌ نَزَلَ‏

 

لَسْتُ مِنْ خِنْدِفَ إِنْ لَمْ أَنْتَقِمْ

مِنْ بَنِي أَحْمَدَ مَا كَانَ فَعَلَ

 

لعبت بنوہاشم بالملک فلا

خبر جاء ولا وحی ّ نزل-١-

 

اے کاش ! جنگ بدر میں مارے جانے والے میرے آباء واجداد ،زندہ ہوتے اور خزرج کے نالہ و فریا د اور نیزے کے درد کےگواہ ہوتے پس اٹھو اور رقص کرنے لگو اورکہو: اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہو ۔ ان کے سرداروں اور ارباب کو ہم نے شہید کئے ہیں اور بدر والوں کا انتقام لے لئے ہیں ۔بنی ہاشم نے حکومت کرنے کیلئے ایک کھیل کھیلا ہے ورنہ نہ کوئی خبر آئی ہے نہ کوئی وحی آئی ہے اور نہ کوئی رسول آیا ہے اور نہ کوئی قرآن نازل ہوا ہے ۔میں خندف کا بیٹا نہ ہونگا اگر اولاد احمد سے انتقام نہ لوں-٢-۔

فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ أَبُو بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيُّ وَ قَالَ وَيْحَكَ يَا يَزِيدُ أَ تَنْكُتُ بِقَضِيبِكَ ثَغْرَ الْحُسَيْنِ ع ابْنِ فَاطِمَةَ ص أَشْهَدُ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ ص يَرْشُفُ ثَنَايَاهُ وَ ثَنَايَا أَخِيهِ الْحَسَنِ ع وَ يَقُولُ أَنْتُمَا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَقَتَلَ اللَّهُ قَاتِلَكُمَا وَ لَعَنَهُ وَ أَعَدَّ لَهُ جَهَنَّمَ وَ ساءَتْ مَصِيراً-٣-۔

یزید کی اس بے ادبی کو دیکھ کر ابوبرزۃ الاسلمی اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا : افسوس ہو تجھ پر اے یزید! کیا تو فرزند زہرا حسین (ع) کے لبوں اور دندان مبارک کی بے حرمتی کرتے ہو؟ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اپنے پیارے رسول (ص) کو جوحسن اور حسین (ع) کے لبوں اور دانتوں کا بوسہ دیتے ہوئے فرمارہے تھے : تم دونوں جوانان بہشت کے سردار ہو۔ خدا تمہارے قاتلوں کو ہلاک کرے اور خدا کی لعنت ہو اور ان کیلئے عذاب جہنم تیار کیا ہوا ہے اور وہ کتنا برا ٹھکانا ہے ۔

یزید جب یہ بکواس کرچکا تو اس نے شمر سے کہا کہ ان قیدیون کا تعارف کراؤ ۔ شمر نے کہا یہ جوان علی ابن الحسین (ع)ہے ۔ چونکہ کربلا میں بیمار تھا ، اس لئے یہ قتل ہونے سے بچ گیا ،یہ بی بی جو کنیزوں کے حلقہ میں ہے ، رسول خدا (ص)کی نواسی اور علی وفاطمہ(س) کی بڑی بیٹی زینب ہے ۔ اس کے ساتھ اس کی بہن ام کلثوم (س)ہے ، اس طرح تمام بیبیوں کا تعارف کرایا گیا ۔ یزید نے امام زین العابدین (ع) کی طرف متوجہ ہوکر کہا: تمہارےباپ نے مجھ سے بغاوت کی ، میری اطاعت سے منہ موڑا ۔ دیکھا خدا نے تم لوگوں کو کیسا ذلیل و خوار کیا ؟ اس کے بعد اس نے یہ آیت پڑھی: قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتىِ الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَ تَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَ تُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَ تُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيرُْ إِنَّكَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِيرٌ -٤- پیغمبر آپ کہئے کہ خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے- جس کو چاہتا ہے عزّت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے- سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے ۔

یعنی اسی کو دیتا ہے جس کو اس کا اہل سمجھتا ہے ۔ تم کو اہل نہ سمجھا ، لہذا اس لئے تمہاری چند روزہ حکومت کو ختم کردیا ۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم لوگوں کو اس بغاوت کی سزادی ۔ امام (ع) نے فرمایا: اے یزید ! آگاہ ہوکہ خدا کے خاص بندے کبھی ذلیل نہیں ہوتے ۔ اپنی اس چند روزہ حکومت پر مغرور نہ ہو، بہت جلد وقت آنے والاہے کہ تیرا معاملہ خدا کے سامنے پیش ہوگا ۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ جس نبی کا تو کلمہ پڑھتا ہے ، اسی کی اولاد کو قتل کرواتا اور اسی کی ناموس کو بازاروں میں تشہیر کرواتا اور درباروں میں ذلت کے ساتھ بلاتا ہے؟ میرے مظلوم بابا نے جو کچھ کیا ، حق بجانب تھا ۔ وہ یقینا ً حق پر تھے اور تو یقینا ً باطل پر ہے ۔ تجھ جیسا فاسق و فاجر ہرگز اس قابل نہیں ہوسکتا کہ خدا تجھے ملک و دولت کا وارث بنائے ، توغاصب حقوق آل محمد (ص) ہے ۔بھرے دربار میں جب امام زین العابدین (ع)نے اس طرح تقریر کی تو یزید کو غصہ آیا اور حکم دیا کہ اس کو قتل کردو ۔ جب تلوار لے کر جلاد آگے بڑھا تو جناب زینب (س) روتی ہوئی بھتیجے سے لپٹ گئیں اور فرمانے لگیں : او ظالم! کیا تجھے ہمارا تمام گھر برباد کرکے ، ہمارے جوانوں ، بوڑھوں اور بچوں تک کو قتل کروا کے بھی چین نہیں آیا؟ اب اس بیمار کے سوا ہما را والی اور وارث نہیں۔ تو اب اس کو بھی قتل کروادے گا۔ یزید نے حکم دیا کہ اس بی بی کو بھی قتل کردو ۔ یہ سنتے ہی دربار میں ہلچل مچ گئی اور ہر طرف سے آواز آئی : اگر عورت کو قتل کیا گیا تو دربار میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی ۔ عورت کا قتل کرنا کسی مذہب میں بھی جائز نہیں ۔ یزید یہ حال دیکھ کر خائف ہوا اور اپنے حکم کو واپس لے لیا۔

اب اس نے کہا : میں زینب بنت علی (ع) سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔ ان سب کنیزوں کو ان کے سامنے سے ہٹا دو ۔ شمر تازیانہ لیکر بڑھا اور ایک ایک کو ہٹا نے لگا ۔ باقی سب تو ہٹ گئیں مگر جناب فضہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں ۔ شمر نے تازیانہ اٹھایا کہ اس سےجناب فضہ کو مارے ۔ یزید کی پشت پر جو حبشی غلام برہنہ تلواریں لئے کھڑے تھے ، جناب فضہ ان سے مخاطب ہوکر فرمانے لگیں : اے میری قوم کے جوانو! تمہاری غیرت کہاں گئی ، قومی حمیت کو کیا ہوا کہ شمر تمہاری قوم کی ایک بیکس عورت کو مارنا چاہتا ہے؟ یہ بات سنتے ہی وہ سب حبشی پس پشت سے ہٹ کر یزید کے سامنے آگئے اور کہنے لگے: شمر سے کہہ دے کہ اس ضعیفہ کو ہاتھ نہ لگائے ، یہ ہماری قوم کی عورت ہے ورنہ ابھی دربار میں خون کی ندیاں بہنے لگیں گی ۔ یزید نے شمر کو روکا ۔ اس وقت جناب زینب (س) سےبرداشت نہ ہوسکا ۔ کربلا کی طرف رخ کرکے فرمایا: اے میرے بھیا ! فضہ کو بچانے کیلئے کتنے جوان تلواریں لے کر یزید کے سامنے آگئے ، مگر آہ! تمہاری دکھیا بہن کی حمایت کرنے والا کوئی اس دربار میں نہیں ہے ۔ جناب زینب (س) کی اس فریاد سے اہل دربار کے دل دکھنے لگے ۔ بہت سے تو منہ پر رومال رکھ کر رونے لگے۔ -٥-

حاضرین مجلس معاویہ کی ۲۳سالہ سوء تبلیغ کی وجہ سے حقایق سے بالکل بے خبر تھے ۔ ان اسراکو باغی اور فسادی تصور کرتے تھے۔ ان کو اس خواب غفلت سے بیدار کرنا ضروری تھا۔اوریہ شریکۃ الحسین (س) کی ذمہ داری تھی۔کیونکہ بیدارگری کی ذمہ داری امام حسین(ع) نے آپ کے کندوں پر ڈالا تھا ۔کیونکہ اگر حضرت سجاد (ع) یزید سے اس طرح مخاطب ہوتے تو ممکن تھا کہ وہ نشے میں آکر امام چھارم کو شہید کرتا۔ اور زینب (س) کی یہ گفتگو باعث بنی جس مقصد کیلئے اس مجلس کو یزید نے تشکیل دی تھی بالکل اس کے برعکس اختتام پذیر ہوا۔ یزید اور یزیدی سب رسوا اور ذلیل ہوگئے-٦-۔

---------

١ ۔ اللهوف على قتلى الطفوف، ص ١٨١۔

٢ ۔ غم نامه كربلا، ص: ١٩٨۔

٣ ۔ اللهوف على قتلى الطفوف، ص: ١٨٠۔

٤ ۔ آلعمران ۲۶۔

٥ ۔ سید ظفر حسن، امرہوی؛ روایات عزا، ص۵۷۶۔

٦ ۔ ہماں ، ج ۴۵، ص ۱۳۳۔

 

مجلس يزيد میں زينب كبرى (س) کا خطبہ قَالَ الرَّاوِي: فَقَامَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَتْ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَ آلِهِ أَجْمَعِينَ صَدَقَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ كَذَلِكَ يَقُولُ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى‏ أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّهِ وَ كانُوا بِها يَسْتَهْزِؤُنَ أَ ظَنَنْتَ يَا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنَا أَقْطَارَ الْأَرْضِ وَ آفَاقَ السَّمَاءِ فَأَصْبَحْنَا نُسَاقُ كَمَا تُسَاقُ الْأُسَرَاءُ أَنَّ بِنَا هَوَاناً عَلَيْهِ وَ بِكَ عَلَيْهِ كَرَامَةً وَ أَنَّ ذَلِكَ‏لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَهُ فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ وَ نَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلَانَ مَسْرُوراً حَيْثُ رَأَيْتَ الدُّنْيَا لَكَ مُسْتَوْثِقَةً وَ الْأُمُورَ مُتَّسِقَةً وَ حِينَ صَفَا لَكَ مُلْكُنَا وَ سُلْطَانُنَا فَمَهْلًا مَهْلًا أَ نَسِيتَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ أَ مِنَ الْعَدْلِ يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ ص سَبَايَا قَدْ هَتَكْتَ سُتُورَهُنَّ وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ تَحْدُو بِهِنَّ الْأَعْدَاءُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَنَاهِلِ وَ الْمَنَاقِلِ وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجَالِهِنَّ وَلِيٌّ وَ لَا مِنْ حُمَاتِهِنَّ حَمِيٌّ وَ كَيْفَ يُرْتَجَى مُرَاقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبَادَ الْأَزْكِيَاءِ وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِن دِمَاءِ الشُّهَدَاءِ وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِئُ فِي بُغْضِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنَا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَئَانِ وَ الْإِحَنِ وَ الْأَضْغَانِ ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ وَ لَا مُسْتَعْظِمٍ-

 

لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً

ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏

 

مُنْتَحِياً عَلَى ثَنَايَا أَبِي عَبْدِ اللَّهِ سَيِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ تَنْكُتُهَا بِمِخْصَرَتِكَ وَ كَيْفَ لَا تَقُولُ ذَلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّافَةَ بِإِرَاقَتِكَ دِمَاءَ ذُرِّيَّةِ مُحَمَّدٍ ص وَ نُجُومِ الْأَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ تَهْتِفُ بِأَشْيَاخِكَ زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنَادِيهِمْ فَلَتَرِدَنَّ وَشِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ اللَّهُمَّ خُذْ لَنَا بِحَقِّنَا وَ انْتَقِمْ مِنْ ظَالِمِنَا وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِمَاءَنَا وَ قَتَلَ حُمَاتَنَا فَوَ اللَّهِ مَا فَرَيْتَ إِلَّا جِلْدَكَ وَ لَا حَزَزْتَ إِلَّا لَحْمَكَ وَ لَتَرِدَنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص بِمَا تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِمَاءِ ذُرِّيَّتِهِ وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عِتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ حَيْثُ يَجْمَعُ اللَّهُ شَمْلَهُمْ وَ يَلُمُّ شَعَثَهُمْ وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ وَ حَسْبُكَ بِاللَّهِ حَاكِماً وَ بِمُحَمَّدٍ ص خَصِيماً وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقَابِ الْمُسْلِمِينَ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً وَ أَضْعَفُ جُنْداً وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّوَاهِي مُخَاطَبَتَكَ إِنِّي لَأَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ لَكِنَّ الْعُيُونَ عَبْرَى وَ الصُّدُورَ حَرَّى أَلَا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللَّهِ النُّجَبَاءِ بِحِزْبِ الشَّيْطَانِ الطُّلَقَاءِ فَهَذِهِ الْأَيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمَائِنَا وَ الْأَفْوَاهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنَا- وَ تِلْكَ الْجُثَثُ الطَّوَاهِرُ الزَّوَاكِي تَنْتَابُهَا الْعَوَاسِلُ وَ تُعَفِّرُهَا أُمَّهَاتُ الْفَرَاعِلِ وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنَا مَغْنَماً لَتَجِدَنَّا وَشِيكاً مَغْرَماً حِينَ لَا تَجِدُ إِلَّا مَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ فَإِلَى اللَّهِ الْمُشْتَكَى وَ عَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُهْدَكَ فَوَ اللَّهِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَهَا وَ هَلْ رَأْيُكَ إِلَّا فَنَدٌ وَ أَيَّامُكَ إِلَّا عَدَدٌ وَ جَمْعُكَ إِلَّا بَدَدٌ يَوْمَ يُنَادِي الْمُنَادِي أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ فَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ- -١-

راوی کہتا ہے کہ علی کی بیٹی اپنی جگہ سے اٹھیں اور یوں خطبہ شروع کیا : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ، و صلّى اللَّه على محمّد و آله أجمعين، صدق اللَّه كذلك يقول: ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى‏ أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّهِ وَ كانُوا بِها يَسْتَهْزِؤُنَ-٢-۔

خدا کی حمد وثناء اور محمد اور اس کے آل پر سلام و درود بھیجنے کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی : اس کے بعد برائی کرنے والوں کا انجام برا ہوا کہ انہوں نے خدا کی نشانیوں کو جھٹلادیا اور برابر ان کا مذاق اڑاتے رہے ۔

اے یزید کیا تم یہ گمان کرتےہو کہ زمین اور آسمان میں ہم پر راستہ بند اور تنگ کیا ؟ اور ہمیں کنیزوں کی طرح نکال دینا ہماری ذلت وخواری اور تمھاری کرامت اور عزت اور سربلندی کا باعث ہے ؟! یہ تمھاری بھول ہے ۔ اور دنیا کو اپنے لئے مرتب اور امور کو منظم دیکھتے ہو، اور ہماری حکومت اور سلطنت کو اپنے لئے باعث آرام و سکون تصور کرتےہو ؟ کیا تو نے خدا کے کلام کو بلادیا ؟ جس میں فرمایا: وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ-٣- اور خبردار! یہ کفاّر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے- ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے ۔

اے آزاد شدہ عورت کے بیٹے ! کیا یہ انصاف ہے کہ تیری عورتیں اور کنیزیں پردہ نشین ہوں اور رسول خدا (ص) کی بیٹیاں اسیر ؟!! کہ جن کی چادروں کو سروں سے چھین لئے اور چہروں کو عیاں کردئے اور ان کو دشمنوں کی طرح شہر شہر پھرائے گئے ۔ اور ناموس رسول (ص) کے چہروں کو شریف اور ذلیل لوگوں کو دکھائے گئے ، جبکہ ان کے مردوں میں سے کوئی ان کا حامی اور سرپرست نہ موجود نہ رہے ؟!

اور کیسے اس جگر خوار عورت کے بیٹوں سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں جس نے نیک اور صالح افراد کے جگر چبائی ہو اور شہدا ء کے خون سے اس کا گوشت و پوست پرورش پایا ہو؟!

اور جو اہل بیت (ع) کی دشمنی پر تلے ہوئے ہو اور ہمیں دشمنی اور حسد اور کینہ کی نگاہوں سے دیکھتے ہو ؟ پھر بھی ذرہ برابر احساس گناہ کئے بغیر کہتے ہو: اے کاش میرے اجداد زندہ ہوتے اور خوشیاں مناتے اور مجھ سے کہتے : اے یزید تیرا شکریہ ؛ جبکہ تو ابی عبداللہ (ع) کے دندان مبارک کی بے حرمتی کررہا ہے ؟! ایسا کیوں کہتےہو،جبکہ تو نے محمد (ص) کے ذریہ پاک جو عبد المطلب کے آل اور روی زمین کے ستارے تھے ؛ کا خون بہا کر ہمارے زخم دل کو تازہ کیا ہے ۔ اور تم اپنے اجداد کو آواز دے رہے ہو اور یہ گمان کرتے ہو کہ تیری آواز ان تک پہنچ رہی ہے ، لیکن بہت جلد تو ان سے ملحق ہوگا ، اس وقت تم یہ تمنا کریگا اے کاش تیرا ہاتھ شل ہوتا اورزبان لال ۔ اور ایسی بات اورایسا کام نہ کرتا!

خدا یا تو ہی ہمارا حق دلادے اور ان لوگوں سے جنہوں نے ہم پر ظلم کئے ہیں ان سے انتقام لے لے ۔ اور جنہوں نے ہمارے عزیزوں کا خون بہائے ہیں اور انہیں شہید کئے ہیں ،ان پر اپنا غضب نازل کر ۔

اے یزید! خدا کی قسم تو نے خاندان رسول خدا (ص) کا خون بہا کر اور عترت رسول (ص) کی ہتک حرمت کرکے خود اپنا کھال اتارا ہے اور اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔اس حالت میں جب قیامت کے دن سب لوگوں کو اکھٹے کئے جائیں گے ، اور ان کا حق خدا وند واپس لے گا ۔ جیسا کہ خدا وند ارشاد فرما رہا ہے : وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ۔ -٤-

تمھارے لئے یہی کافی ہے کہ خدا وند فیصلہ اور عدالت کرنے والا اور محمد مصطفے (ص) مدعی اور جبرئیل امین (ع) ان کا نگہبان ہے ، اور بہت جلد جن لوگوں نے تمہیں فریب دیا ہے اور تجھے لوگوں پر سوار کیا ہے ؛ یعنی معاویہ ، سمجھ لیں گے کہ ظالم اور ستمکاروں کا صلہ بہت برا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ تم میں سے کس کا ٹھکانا بدترین اور کس کا لشکر ضعیف ترین لشکر ہے ۔

اگرچہ زندگی کے نا خوشگوار حالات نے مجھے تجھ جیسوں کے ساتھ گفتگو کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جبکہ میرے نزدیک تیری کوئی حیثیت اور ارزش نہیں اور تیری ملامت اور مذمت بہت زیادہ ہے ۔لیکن کیا کروں ؛آنکھیں پر نم ہیں اور دل جل رہا ہے کہ حزب اللہ کے نجیب اور باشرافت انسانوں کا حزب شیطان کہ جو آزاد شدہ غلام تھے ؛ کے ہاتھوں شہید ہوئے ، اور ہمارا خون تمھارے پنجوں سے ٹپکنے لگے، اور ہمارے گوشت تمھارے منہ سے گرنے لگے، اور یہ پاکیزہ اور مبارک اجساد تمھارے درندہ صفت بھیڑئیوں کا خوراک بنے ، اور نادان بچوں کے ہاتھوں خاک آلود ہوگئے؟!! اگر آج ہمیں اپنے لئے غنیمت جانتے ہوتو بہت جلد دیکھ لوگے کہ کس قدر مایہ ننگ و عار اور باعث ضرر تھا ۔میں خدا کے سامنے یہ شکایت لے کر جاؤں گی اور اسی پر توکل کروں گی ۔

جو بھی مکر وفریب دینا ہے تو دے اور جو بھی اقدام اٹھا سکتے ہو اور جو بھی تلاش اور کوشش کرسکتے ہو تو کرلے ؛ خدا کی قسم نہ تم ہمارا نام مٹا سکو گے اور نہ ہماری وحی کے چراغ کو بجھا سکو گے ، کبھی تمھاری یہ آرزو پوری نہیں ہوگی۔ اور ہم پر کئے جانے والے ظلم و ستم کے دبّے کو اپنے سے پاک نہیں کرسکو گے ۔ تمھاری فکر پست اور تیری حکومت کے ایام بہت کم رہ گئے ہو ، تمھاری یہ جمعیت جلد ہی پراکندہ ہوجائے گی ۔اس دن منادی ندا کریگا : اے لوگو! آگاہ رہو خدا کی لعنت ظالموں پر ہو ٥-

اس خدا کا شکر ادا کرتی ہوں کہ جس نے ہماری ابتدا سعادت اور مغفرت سے کی اور ہماری انتہا کو شہادت اور رحمت قرار دیا ۔خدا سے یہی میری دعا ہے کہ ان شہیدوں پر خدا کی رحمتیں کامل ہواور ہمیں ان کے نیک پسماندگان میں شمار فرما ۔ ہمارے لئے مہربان اور محبوب خدا کافی ہے جو نیک سرپرست اور وکیل ہے ۔

یزید نے زینب کبری ٰ (س) کے اس خطبے کے جواب میں یہ شعر پڑھنا شروع کیا :

 

يا صيحة تحمد من صوائح

ما اهون الموت على النّوائح‏

یعنی یہ نوحہ کنان عورت کے لئے شائستہ ہے اور کس قدر موت ان دلسوختہ اور نوحہ گر عورتوں کے لئے آسان ہے ؟ اس کے بعد یزید نے شامیوں سے اسرای آل محمد (ص) کے بارے میں مشورہ کیا ، کی ان کےساتھ کیا کیا جائے ؟ تو انہوں نے ان کو قتل کرنے کا مشورہ دیا ۔لیکن نعمان بن بشیر جو وہاں موجود تھا ، کہنے لگا:رسول خدا (ص) نےجس طرح ان سے رفتار کیا ہے ویسے رفتار تم بھی ان کے ساتھ کیا کرو ۔

---------

١ ۔ اللهوف على قتلى الطفوف، ص: ١٨٥۔

٢ ۔ روم ۱۰۔

٣ ۔ آلعمران ۱۷۸۔

٤ ۔ آل عمران/ ١٦٩۔

٥ ۔ هود/ ١٨۔

 

خطبہ کا نتیجہ یہ خطبہ اتنا جامع تھا کہ دوست دشمن سب پر حقیقت کو واضح کردیا ۔ اور مجلس جشن اور سرور ، یزید کیلئےمجلس ننگ وعار اور غم میں بدل گیا ۔

• سب سے پہلے زینب کبریٰ (س) نے خدا کی حمد وثنا اور اپنے نانا محمد مصطفی (ص) پر سلام ودرود پڑھ کر اپنا حسب ونسب بیان کیا کہ میں کون ہوں ۔

• سورہ روم کی آیت ۱۰ کی تلاوت کرکے یزید کے کافر ہونے اور آیات الہی کے منکر ہونے کو ثابت کیا ۔ اور اس شعر کی طرف اشارہ فرمایا جس میں یزید ارسال رسل وانزال کتب کا منکر ہوگیا تھا ۔

• بعض نادان لوگ یہ گمان کر رہے تھے کہ جنگ میں فتح حاصل ہونا حقانیت اور قرب الہی کی دلیل ہے ، آپ نے اس خام خیال کو رد کرتے ہوئے یزیدسے مخاطب ہوا : اے یزید ! کیا تمھارا گمان ہے کہ تو ۔۔۔

• امن العدل یابن الطلقاء؟ کہہ کر یزید کا حسب و نسب اور اس کی خاندانی حیثیت بیان فرمایا کہ تو ہمارے اجداد کےفتح مکہ کے موقع پر آزاد کردہ لوگوں کی اولاد ہو ۔

• ابن من لفظ فوہ اکباد الشہداء کہہ کر یزید کی بدکارماں ہند کی حیثیت کو واضح کیا ۔

• نصب الحرب لسید الانبیاء کہہ کر ابوسفیان کی رسول اللہ (ص) کے ساتھ سخت دشمنی کو واضح کیا ۔

• الا انھا نتیجۃ خلا ل الکفر کہہ کر یزید کی آخرت کے دن ندامت اور پشیمانی کو بیان فرمایا۔

• سورہ آلعمران کی آیت نمبر ۱۶۹ ، ۱۷۰ سے استدلال کیا کہ شہدائے کربلا زندہ اور خدا کے ہاں رزق پارہے ہیں ۔

• وسیعلم من بوّاک و مکّنک کہہ کر گذشتہ خلفاء کی خلافت کے غاصب ہونے کو ثابت کیا ، کہ جس کا نتیجہ ہی تھا کہ یزید جیسے فاسق و فاجر رسول اللہ (ص) کے مسند خلافت پر بیٹھنے لگا ۔

• ۔ ۔ ۔

 

فاتح شام کی واپسی حضرت زینب اور امام سجاد کی تقریروں نے شام کے اوضاع و احوال کو برعلیہ یزید متحول کیا ۔ جس کے بعد یزید نے اپنا روش تبدیل کر کے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ یزید کو معلوم ہوا کہ اب اہلبیت (ع) کو مزید شام میں ٹھہرانا اس کی مفاد میں نہیں، لہذااس نے اہلبیت اطہار(ع)کو مدینہ واپس بھیجنے کا انتظام کیا ۔

فارسی شاعر نے اس فاتحانہ واپسی کو یوں اپنے اشعار میں بیان کیا ہے :

زینب آمد شام را یکبار ویران کرد و رفت

اہل عالم را زکار خویش ، ویران کرد ورفت

از زمین کربلا تا کوفہ و شام بلا

ہر کجا بنھاد پا فتح نمایان کرد و رفت

بالسان مرتضی از ماجرای نینوا

خطبہ جان سوز اندر کوفہ عنوان کرد و رفت

فاش می گویم کہ آن بانوی عظمای دلیر

از بیان خویش دشمن را ہراسان کرد وفرت

خطبہ غرّا فرمود در کاخ یزید

کاخ استبداد را از ریشہ ویران کرد ورفت

شام غرق عیش وعشرت بود، در وقت ورود

وقت رفتن شام را شام غریبان کرد وفت -١-

 

اس شعر کا م مفہوم یہ ہے :کہ زینب کبری (س) نے شام اور شام والوں (یزیدیوں )کوتباہ کرکے نکلیں ۔زمین کربلا سے لےکر کوفہ اور شام تک جہاں جہاں آپ نے قدم رکھا ؛ فتح کرکے نکلیں۔علی(ع) کے لب ولہجے اور دردناک فریاد میں کربلا کا الم ناک واقعہ کوفہ والوں کے سامنے تفصیل سے بیان فرما کرچلیں ۔صاف الفاظ میں کہہ دوں کہ اس دلیر اور عظیم خاتون نے اپنے بیان اور خطاب کے ذریعے اپنے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیں ۔ شعلہ بیان خطبے کے ذریعے یزید اور ان جیسے ظالموں کے ایوانوں کی بنیاد یں قلع قمع کرکے نکلیں ۔ جب آپ کو اسیر بناکر شام لائی گئی تو اس وقت شام والے شراب نوشی میں مصروف اور جشن منارہے تھے ؛ لیکن جب آپ شام سے نکلنے لگیں تو اس وقت شام کو ، شام غریبان میں بدل کرنکلیں ۔

بحار الانوار میں بیان ہوا ہے کہ جب ہندہ یزید کی بیوی نے اپنا خواب اسے سنایا تو وہ بہت زیادہ مغموم ہوا ۔ اور صبح کو اہل بیت اطھار (ع)کو دربار میں بلایا اور کہا : میں پشیمان ہوں ۔ ابھی آپ لوگوں کو اختیار ہے کہ اگر شام میں رہنا چاہیں تو رہائش کا بندوبست کروں گا اور اگر مدینہ جانا چاہیں تو سفر کے لئے زاد راہ اور سواری کا انتظام کروں گا ۔

اس وقت زینب کبری ٰ (س)نے یزید سے مطالبہ کیا کہ ان کو اپنے شہیدوں پر رونے کا موقع نہیں ملا ہے ، ان پر رونے کیلئے کسی مکان کا بندوبست کیا جائے ، اس طرح تین دن شام میں مجلس عزا برپا ہوئی اور اہل شام کے تمام خواتین اس مجلس میں شریک ہوگئیں ، یہا ں تک کہ ابوسفیان کے خاندان میں سے ایک عورت بھی باقی نہیں تھی جو امام حسین (ع) پر رونے اور اہلبیت(ع)کی استقبال کیلئے نہ آئی ہو۔ -٢-

جب فاتح شام کی روانگی کا وقت آیا تو زرین محمل کا انتظام کیا گیا تو شریکۃ الحسین(س) نے بشیر بن نعمان سےکہا : اجعلوھا سوداء حتی یعلم الناس انا فی مصیبۃ و عزاء لقتل اولادالزہرا(س) ۔ ان محملوں کو سیاہ پوش بنائیں تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم اولاد زہرا (س)کے سوگ اور مصیبت میں ہیں ۔

جب اہلبیت (ع)عراق پہنچے اور زمین کربلا میں وارد ہوئے تو دیکھا کہ جابر بن عبداللہ انصاری (ره)اور بنی ہاشم کے کچھ افراد سید الشہدا (ع)کے قبر مبارک پر زیارت کرتے ہوئے رورہے ہیں ۔ لہوف کے مطابق ۲۰ صفر کو شہدا کے سروں کو ان کے مبارک جسموں سے ملائے گئے۔ -٣-

زینب کبری (س) اپنے بھائی کی قبر سے لپٹ کر فریاد کرنے لگی: ہای میرا بھیا ہای میرا بھیا ! اے میری ماں کا نور نظر ! میری آنکھوں کا نور ! میں کس زبان سے وہ مصائب اور آلام تجھے بیان کروں جو کوفہ اور شام میں ہم پر گذری ؟ اور پست فطرت قوم نے کس قدر آزار پہنچائی؟ناسزا باتیں سنائی ؟

---------

١ ۔ سیرہ واندیشہ حضرت زینب، ص۳۱۳۔

٢ ۔ تاریخ طبری ، ج۳ ، ص۳۳۹۔

٣ ۔ ناسخ التواریخ حضرت زینب کبریٰ۔

 

بھائی کی قبر سے وداع نوحہ سرائی کے بعد اپنے بھائی کی قبر سے وداع کرتے ہوئے جب بہت مضطرب ہوگئیں تو جناب زین العابدین (ع) نے فرمایا : انت عارفۃ کاملۃ و الصراخ من عادۃ الجاھلین اصبری واستقری ؛ پھوپھی جان !آپ تو عارفہ کاملہ ہیں آہ وزاری کرنا دور جاہلیت کی عادات میں سے ہے ، آپ صبر سے کام لیں ۔ اس وقت زینب کبری(س) نے فرمایا : یا علی و یا قرۃ عینی ! دعنی اقیم عند اخی حتی جاء یوم وعدی لانی کیف الق اہل المدینۃ و اری الدور الخالیۃ؟! -١-

اے علی !اے میرے نور نظر ! مجھے یہیں رہنے دیجئے میرے بھائی کے پاس ، یہاں تک کہ موت آجائے ۔کس طرح میں مدینہ کو جاؤں اور اہل مدینہ سے ملاقات کروں اور کس طرح خالی مکانوں کا نظارہ کروں؟! پھر فریاد کرنے لگیں : وا اخاہ ! واحسیناہ!

امام (ع) نے فرمایا : اے پھوپھی جان ! آپ سچ فرمارہی ہیں ،کہ بغیر بابا کے ، بھائی اور چچا عباس کے اور بھائی قاسم کے گھروں کا دیکھنا سخت ہے ، لیکن رضای الہی اور ہمارے نانا رسول خدا (ص) کا حکم بھی تو ہمیں بجا لانا ہے ۔

آج اگر کوئی اسلام بچا ہے تو حسین کی قربانی اور زینب کی لٹی ہوئی چادر اور سید سجاد کی اسیری کی مرہون منت ہے ۔ ورنہ تو یزید ، رسول خدا (ص) کا خلیفہ بن کر دین اور آئین رسول خد(ص)کا انکار کرچکا تھا ۔لیکن اہل بیت (ع) کی قربانی نے دین اسلام کی تا قیامت حفاظت کا انتظام کیا ۔

دنیا سے تو نے آخر یہ رسم ہی مٹادی

اب مانگتا نہیں ہے بیعت کوئی کسی سے

بی بی تیرا کرم ہے ہر ماں پہ ہر بہن پر

اب چھینتا نہیں ہے چادر کوئی کسی سے -٢-

 

تمت بالخیر

---------

١ ۔ نائبۃ الزہرا ، ص۲۰۶۔

٢ ۔ پیام اعظمی؛ والقلم ۔

 

کتاب نامہ زینب کبری (سلام اللہ علیھا) اور عاشورا

 

کتاب نامہ

 

١. قرآن کریم

٢. ترجمہ : شیخ محسن علی نجفی اور علامہ ذیشان حیدر جوادی (ره)۔

٣. شيخ مفيد، الإرشاد، انتشارات كنگره جهانى شيخ مفيد قم، ١٤١٣ هجرى قمرى ۔

٤. عباس اسماعیلی ؛یزدی؛ سحاب رحمت،انتشارات مسجد مقدس جمکران، چ۱، قم، ۱۳۷۷ش۔

٥. حکومت اسلامی ؛ ویژہ اندیشہ فقہ سیاسی اسلام، سال ۷، ش چھارم،۸۱۔

٦. محمد مھدی، حائری ؛ معالی السبطین،فی احوال الحسن والحسین ، مکتبۃ القرشی ، تبریز ۔

٧. ابن بطريق يحيى بن حسن حلى؛ العمدة، انتشارات جامعه مدرسين قم، ١٤٠٧ هجرى

٨. علی عباس خان، سپہر ؛ ناسخ التواریخ حضرت زینب کبریٰ،کتاب فروشی اسلامیہ ، تہران، ۱۳۹۸ش ۔

٩. سيد ابن طاوس ٦٦٤ ق ؛ ‏اللهوف على قتلى الطفوف ناشر: صلاہ ، ۱۳۸۶۔

١٠. محمد بن جریر طبری ؛ تاریخ طبری ،مطبعۃ الحسینیہ المصریہ۔

١١. سيد هاشم رسولى محلاتى ؛ ارشاد-ترجمه ‏، ناشر: اسلاميه، معاصر۔

١٢. عابد عسکری ؛ روایات عزا ، المعراج کمپنی ، لاہور پاکستان،مارچ ۲۰۰۴م ۔

١٣. مرحوم فیض الاسلام ؛ خاتون دوسرا

١٤. عباس جیانی دشتی ؛ نائبۃ الزہرا، مؤسسہ انتشاراتی موعود اسلام ، چ۱ ، قم،۱۳۸۴۔

١٥. پیام اعظمی ؛ والقلم ، امامیہ دارالاشاعت انباری، اعظم گڑھ ہندوستان،۲۰۰۵م ۔

١٦. علامه مجلسى، بحار الأنوار، ١١٠ جلد، مؤسسة الوفاء بيروت - لبنان، ١٤٠٤ ھ

١٧. محمد محمدى اشتهاردى‏ ؛ غم نامه كربلا ،تعداد جلد۱، نشر مطهر،تهران‏،١٣٧٧ ش‏

١٨. سید مصطفی موسوی خرم آبادی؛ سیرہ واندیشہ حضرت زینب ،انتشارات دانشگاہ قم ،۱۳۸۶۔

١٩. مھدی پیشوائی ، شام سرزمین خاطرہ ہا ، دفتر آموزش وتبلیغات ،تہران،۱۳۶۹۔

٢٠. محمد باقر كمره‏اى ١٣٧٤ ش‏؛ امالى شيخ صدوق- ترجمه كمره‏اى‏تاري اسلاميه،

٢١. ابی مخنف؛ مقتل الحسین،دارالکتاب ،قم،۱۴۰۸۔

٢٢. محسن نقوی ؛ موج ادراک،،ماورا پبلیشرز، بہاول پور روڈ ، لاہور۔

٢٣. زبیح اللہ محلاتی؛ ریاحین الشریعہ ، دارالکتب الاسلامیہ، تہران۱۳۶۹۔

٢٤. اندیشہ سیاسی عاشورا،ش۴،سال ۱۳۸۱۔

٢٥. ابومنصور احمد بن علی ،طبرسی ؛ الاحتجاج ،ترجمہ جعفری ، مکتبۃ الحیدریہ، قم ، ۱۴۲۴۔

٢٦. محدث اربلى ٦٩٣ ق؛ ‏ كشف الغمة في معرفة الأئمة ، تاريخ و فضائل معصومين ،ناشر بنى هاشمى۔

٢٧. فرسان الھیجاء ،

٢٨. سید نور الدین الجزائری؛ خصائص زینبیہ ، کتابفروشی حضرت مہدی ،۱۴۰۴ھ

 

 

Comments powered by CComment